فہرست مضامین
- پیش لفظ
- تقریظ
- مقدمہ
- انتساب
- یا اللہ! نیک توفیق، بنے ہماری رفیق
- خوشی میں جس قدر پھولیں، مگر ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولیں
- نبی کا نام آتے ہی جھوم جاتے ہیں، اور کام آتے ہی گھوم جاتے ہیں
- الٰہیٰ! لبیک زباں پر ہو جاری، اسی وقت آ جائے موت کی باری
- تمہیدی کلمات اور شکر و خوشی کے جذبات
- تلبیہ (لبیک) فضائل کی چاندنی اور مسائل کی روشنی میں
- تلبیہ کفر و شرک کا توڑ، اور قرآنی تعلیم کا نچوڑ ہے
- تلبیہ سے متعلق ایک اہم حدیث
- سراپا برکت، مجسم شفقت اور پیکر رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا تلبیہ
- تلبیہ حج و عمرہ کا شعار ہے، بلند آواز تلبیہ سے اللہ کو بہت پیار ہے
- تلبیہ سب سے زیادہ و بے اندازہ فضیلت والا عمل
- تلبیہ پڑھنے والے کی یہ ہے سعادت، اس کے لئے ہے جنت کی بشارت
- تلبیہ ربِّ جلیل کے حکم پر لگائی گئی ندائے خلیل کا جواب ہے
- لبیک پڑھنا ایسی عبادت ہے پیاری، جس کا سلسلہ ہر وقت ہے جاری
- تلبیہ محبتِ الٰہی کے اظہار کا الہامی و مثالی طریقہ
- اللہ ایک ہے، جو اسے مانے وہی نیک ہے
- اللہ شرک سے پاک ہے، شرک کرنے والا ناپاک ہے
- تلبیہ کے بارے میں نبوی اصول اور مصطفوی معمول
- ضروری نوٹ: تلبیہ کے بعد مندرجہ ذیل دعا سے دور کریں دل کا کھونٹ
- مسلمانوں کو راحت دینا ہے شرعی قانون، اس کا ہرگز نہ کریں خون
- تلبیہ کے اوقات میں مسنون دیگر دعائیں اور اذکار
- تلبیہ پڑھیں پرجوش، مگر باہوش
- ایام تشریق میں تلبیہ کا اسلامی طریقہ و شرعی سلیقہ
- ایامِ تشریق میں مسبوق کے تلبیہ پڑھنے کا فقہی طریقہ و اسلامی سلیقہ
- بذریعۂ فون تلبیہ کا نہ کریں خون
- ایک اہم مسئلہ، حاجی بھائی اسی کے مطابق کریں فیصلہ
- یہ ہے قاعدہ کہ انسان صرف وہی کام کرے جس میں ہو فائدہ
- تلبیہ پڑھتی رہے وہ خاتون، جس کو آ گیا ہو حیض کا خون
- تلبیہ پڑھیں لگاتار تین بار، پھر درودِ پاک ایک بار
- تلبیہ پکارتے وقت نہ کرے کلام نہ سلام
- دورانِ تلبیہ سلام کے جواب کا طریقہ و سلیقہ
- الٰہی!ہماری زندگی میں خیر ڈال دے اور شر کو ٹال دے
- تلبیہ کا وقت اور اس کی ابتداء و انتہاء
- حج میں تلبیہ کا وقت
- ورنہ۔۔ ۔ ہو گا ایسا غم کہ دینا پڑے گا دم
- اختتام خیر ختام
- وہ کتابیں جن سے ہوا فائدہ اور کیا گیا استفادہ
- عمرے میں پانچ کام ترتیب سے کریں
- حج کامختصر طریقہ
- زیارتِ مدینہ سعادت کا زینہ
- مکہ پاک و مدینہ شریف سے متعلق کچھ اہم بصیرت افروز و عبرت آموز مضامین
تلبیہ (لبیک) فضائل و مسائل مع طریقۂ حج و عمرہ و زیارتِ مدینہ
مولانا محمد شرف عالم کریمی قاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
پیش لفظ
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، اس کی عظمت اور اہمیت محتاجِ تعارف نہیں، لیکن چونکہ یہ نہ سارے مسلمانوں پر فرض ہے اور نہ بار بار اس کی ادائیگی کی نوبت آتی ہے، بلکہ بیشتر افراد ایسے ہی ہیں جنہیں عمر بھر میں ایک مرتبہ جوارِ حرم اور دیارِ حبیبﷺ کی زیارت سے آنکھوں کو شاد کام کرنے کی سعادت ارزانی ہوتی ہے، بہت کم خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جنہیں بار بار طواف کعبہ اور زیارت مدینہ کا موقع ملتا ہے، جن لوگوں کو عمر بھر میں پہلی مرتبہ یا ایک مرتبہ خانۂ خدا کے طواف و حاضری کی سعادت ملتی ہے، ایسے میں ایک جانب جہاں ان پر جذباتِ مسرت غالب ہوتے ہیں، وہیں پہلی مرتبہ کسی فریضہ کی ادائیگی میں معلومات کی کمی، پوچھنے میں جھجھک اور معلومات ہو بھی تو ہر موقع پر صحیح طور سے ان کی ادائیگی بڑی مشکل ہو جاتی ہے، بھول چوک تو روز مرہ کے کاموں میں ہو جاتی ہے، تو جو فریضہ انسان زندگی میں پہلی بار ادا کر رہا ہو اس میں بھول چوک ہونے کا امکان اور زیادہ ہو جاتا ہے، بالخصوص نئے مقام، لوگوں کے ازدحام، اجنبی ملک، وہاں کی زبان سے ناواقفیت، ان سب اسباب سے غلطیوں کے امکان کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کسی کو حج و عمرہ کے فرائض اور احکام معلوم بھی ہیں تو اس کی واقفیت نہیں ہوتی ہے کہ اگر کوئی غلطی اور بھول چوک ہو گئی تو اس بھول چوک کی نوعیت اور درجہ کیا ہے اور کون سی غلطی ایسی ہے جس پر قربانی واجب ہوتی ہے، اور کون سی غلطی ایسی ہے جس پر دم واجب نہیں ہوتا، نیز حج میں ہر مقام کے لئے مخصوص دعائیں ہیں، ان دعاؤں کا موقع بھی زندگی میں ایک بار ہی ملتا ہے، ایسے میں بیشتر حجاج کو حج کی دعائیں یاد نہیں ہوتیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی کتاب کو پیش نظر رکھیں، اور اس میں سے حج کے جس موقع کے لئے جو دعائیں منقول ہیں ان کو یاد کریں۔
حج و عمرہ کے فضائل اور مسائل پر بہت سی کتابیں ہر زمانے میں اور ہر دور میں لکھی گئی ہیں، اور یہ سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ لکھی جا تی رہیں گی، ہر لکھنے والے کا نہج اور منہج الگ ہوتا ہے، اور ہر ایک لکھنے والا اپنے ذوق، مشرب اور اندازِ فکر و افتاد طبع کے اعتبار سے لکھتا ہے، اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر مصنف کا اپنا ایک حلقہ ہوتا ہے، جس میں اس کی کتابیں پڑھی جاتی ہیں، ایسے میں جن حضرات نے بھی اس موضوع پر کتابیں، کتابچے اور پمفلٹ لکھے ہیں وہ شکر یہ کے مستحق ہیں، جزا اللّٰہُ عنّا وعنِ المسلمین خیراً ، اس کے باوجود نئے لکھنے والوں کی ضرورت باقی ہے، اور رہے گی۔
اس ضرورت کا لحاظ کر کے مولانا محمد شرف عالم کریمی قاسمی نے ’’تلبیہ (لبیک) : فضائل و مسائل‘‘ کے عنوان سے حج و عمرہ اور زیارت مدینہ کے فضائل و مسائل پر کتاب لکھی ہے، جو آسان اور عام فہم زبان میں ہے، اور اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ جو کچھ لکھا جائے وہ مستند معلومات پر مبنی ہو، اور کیوں نہ ہو کہ کتاب کے مؤلف دار العلوم دیوبند کے فضلاء میں ہیں، عرصہ تک درسِ نظامی کی کتابوں کا درس دیتے رہے ہیں، اللہ نے ان کو داعیانہ مزاج شناسی، کام کا سلیقہ اور لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے، عرصۂ دراز تک ہندستان کے علم خیز خطہ بھٹکل کے قریب: (۱) مدرسہ تنویر الاسلام، مرڈیشور، بھٹکل، (۲) مدرسہ رحمانیہ منکی، شاخ جامعہ اسلامیہ بھٹکل، اور ( ۳) مدرسہ فیض الاسلام، شیرور میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اب مسقط میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، اور حجاج و زائرین کے قافلے لے کر حرمین شریفین جاتے رہتے ہیں، اس لئے حج و عمرہ سے متعلق ان کی اس تصنیف میں جگ بیتی کے ساتھ ساتھ آپ بیتی کے تجربات بھی شامل ہیں، اس لئے یقین ہے کہ اس کتاب سے حاجیوں کو حج کے مسائل کے تعلق سے آگہی ملے گی، اور ان کا سفرِ حج آسان اور نقص و خلل سے پاک ہو گا، اللہ سے دعا ہے کہ اس کتاب کے نفع کا دائرہ عام اور تام فرمائے، اور تا دیر حجاجِ کرام اس سے نفع اندوز ہوتے رہیں، نیز مصنف کے حق میں یہ صدقۂ جاریہ ثابت ہو، واللّٰہ المستعان۔
خالد سیف اللہ رحمانی
(ناظم المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد)
۶؍۱۰؍ ۲۰۱۶
تقریظ
جناب مولانا مبین صاحب ندوی مد ظلہ العالی
{وَأَذِّنْ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأتُوْکَ رِجَالاً وَّعَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔۔ ۔ } الخ (سورۂ حج: ۲۷)
حضرت ابراہیمؑ کے مبارک ہاتھوں جب بناءِ کعبہ کی تکمیل ہو گئی، تو حکمِ الٰہی ہوا کہ اب لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ وہ اس گھر کا حج کرنے آئیں، حضرت ابراہیمؑ عرض گزار ہوئے کہ اے بارِ الٰہا! یہاں تو دور دور تک انسانی آبادی کا وجود تک نہیں ہے، میری آواز کیسے پہنچے گی؟ فرمانِ الٰہی ہوا کہ ’’عَلَیْکَ الأَذَانُ وَعَلَیَّ الْبَلَاغُ‘‘ آپ کا کام اعلان ہے، اور میرا کام پہچانا ہے، چنانچہ ابراہیمؑ تعمیل حکم میں اس پتھر پر چڑھ گئے، جس پر چڑھ کرکعبۂ مقدسہ کی دیواروں کے پتھر رکھتے تھے، اللہ کی قدرت سے وہ پتھر بلند ہوا، اور بعض روایات کے مطابق بوقیس یا صفا پہاڑی پر چڑھ کر آپ نے اعلان کیا، اللہ کے حکم سے زمین و آسمان کی تمام مخلوق نے اس آواز کو سنا، بلکہ ڈاکٹر عبد المعبود صاحب مصنف ’’تاریخ مکہ‘‘ کے بقول عورتوں کے ارحام اور مردوں کے اصلاب میں بھی جو بچے تھے، اور جو قیامت تک پیدا ہونے والے تھے، بطورِ معجزہ ان سب تک آواز پہونچا دی گئی، جس کی قسمت میں اس گھر کی زیارت لکھی تھی، اس نے اس پر لبیک کہا، اور جو بدنصیب تھے ندائے خلیل پر لبیک نہیں کہا، وہ اس نعمت سے مرحوم رہے، اللہ ہم سب کو اُن خوش نصیب و خوش بخت لوگوں میں سے بنائے جنہوں نے بار بار لبیک کی صدا بلند کی تاکہ بار بار بیت اللہ شریف کی زیارت نصیب ہو، آمین
ہر ذی شعور اور ذی عقل مسلمان کے دل میں یہ آرزو اور تمنا کروٹیں لیتی ہے کہ کاش اسے بھی زندگی میں کم از کم ایک بار اللہ کے گھر کی زیارت کا موقع نصیب ہو جائے، کاش کہ ایک بار ہی سہی حجرِ اسود کو چوم لے، بابِ کعبہ اور ملتزم سے لپٹ کر اپنے گناہوں کی معافی کرا لے، طوافِ کعبہ اور سعیِ صفا مروہ کی سنت ادا کر کے اپنے دل و دماغ کو سکون و راحت سے ہمکنار کر لے، ایک بار ہی سہی آقائے مدینہﷺ کے دربار میں حاضری نصیب ہو جائے، روضۂ اقدس پر سلام عرض کرنے کا موقعہ مل جائے، وہ کون مسلمان ہو گا جس کو اس دولت بے بہا کو سمیٹنے کی خواہش نہ ہو گی؟ اور کون اپنے آپ کو اس سعادت سے محروم رکھنا چاہے گا؟
لیکن اس سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے بھی اپنی طرف سے کچھ تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، تاکہ عشقِ الٰہی کا طوفان اور بڑھے، زیارت بیت اللہ کے جذبات میں طغیان آئے، اور غیب سے حاضری کا سامان بہم ہو، دورانِ طالب علمی کی ایک بات یاد آتی ہے کہ ندوۃ العلماء میں میرے فارسی کے استاذ حضرت مولانا مرتضی صاحب مظاہریؒ فرمایا کرتے تھے: ’’عزیزو! مولانا عبد الماجد دریابادی کی’سفرحجاز‘ کا مطالعہ کرو، ان شاء اللہ حج کی دولت نصیب ہو گی‘‘، میرے والد محترم کے ایک شاگرد نے مجھ سے کہا: ’’ روزانہ اپنے معمولات میں ایک صفحہ قرآن کی تفسیر کا مطالعہ رکھو، ان شاء اللہ حج کا موقعہ ملے گا‘‘، اہل دل درود شریف کی کثرت کو اس کے لئے نسخۂ کیمیا مانتے ہیں، اس میں کوئی شک کی نہیں کہ بڑوں کی باتیں ہیں اور تجربہ کی روشنی میں ہیں۔
مولانا محمد شرف عالم کریمی قاسمی مد ظلہ کی یہ کتاب جس کا نام ’’تلبیہ (لبیک) : فضائل و مسائل‘‘ ہے، اسی سلسلۃ الذہب کی ایک اہم کڑی ہے، موصوف نے اس میں تلبیہ (لبیک) کی اہمیت و فضیلت اور حج میں اس کی حیثیت اور مقام کو بڑے مؤثر و دلنشیں انداز میں بیان کیا ہے، جس کا اندازہ قارئین کو مولانا کی طرف سے لکھے گئے عناوین سے ہی ہو جائے گا، آپ نے تلبیہ کے تعلق سے بہت سی روایات بھی لکھی ہیں، شاید صرف تلبیہ کے عنوان سے اس طرح کی کوئی کتاب اب تک کسی نے نہیں لکھی ہے، آخر میں مدینہ طیبہ میں حاضری اور حاضری کے آداب، روضۂ اطہر پر حاضری، نبی پاک اور صاحبین کی خدمت میں سلامی و پیشی کے آداب اور خویش و اقارب کا سلام عرض کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کے احساس کے ساتھ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے عشق و محبت کے جذبات کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو لا محالہ آپ کی آنکھیں نمناک ہو جائیں گی، دل مچل اٹھے گا، کہ اے کاش کہ مجھے بھی حاضری کی سعادت مل جائے، اور اپنی ان گنہگار آنکھوں کو روضۂ اقدس و انور کی زیارت سے پاک و صاف کر لوں۔
جہاں پر ذکر ہو ان کا وہاں آؤ ضرور آؤ
ملیں جو پھول گلزارِ نبی کے ان کو چن لاؤ
انھیں کی کالی کملی میں شفائےِ روحِ حامد ہے
حقیقی زندگی چاہو تو کملی سے لپٹ جاؤ
اللہ کرے ’’تلبیہ (لبیک) : فضائل و مسائل‘‘ مولانا کی یہ کتاب مقبولِ خلائق ہونے کے ساتھ بارگاہِ خلّاق میں بھی شرفِ قبولیت حاصل کرے، لوگوں کے لئے نافع ہو، اور حج و عمرہ میں اس سے رہنمائی حاصل کریں۔
از: محمد مبین خان ندوی
خادم مدرسہ تنویر الاسلام، مرڈیشور، بھٹکل
۱۴؍ ۶؍ ۲۰۱۶ء
مقدمہ
بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، والصلوۃ والسلام علی رسول اللّٰہ، ومن والاہ، أمابعد!
تصنیف و تالیف کی دنیا اور میدانِ نشر و اشاعت میں حج و متعلقاتِ حج ایک ایسا سدا بہار موضوع ہے، جس پر ہر زمانے کے اصحابِ فکر و قلم نے توجہ دی، اور زمانے کے حالات و تقاضوں کے مطابق اس عنوان پر خوب سے خوب تر اور عمدہ سے عمدہ لکھا، نیز یہ ایک ایسا والہانہ و عاشقانہ موضوع ہے، جس کی طرف توجہ کی ہر زمانہ میں ضرورت رہی ہے اور رہے گی، اس لئے کہ حج و عمرہ خصوصاً حج ایک ایسی عظیم الشان عبادت ہے، جس میں انسان کو جان و مال دونوں کی قربانی دینی پڑتی ہے، اس کے باوجود اس کا موقع بہت کم، بسا اوقات عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے، اسی بنا پر جس کو بھی یہ موقع حاصل ہوتا ہے، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے متعلق مکمل معلومات حاصل کر کے جائے، تاکہ کسی طرح کی شرعی و عملی دقت و دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور بآسانی، صحیح طور پر اس کو انجام دے سکے۔
موجودہ زمانے میں تصنیف و تالیف کے خصوصاً اس موضوع پر دو طریقے ہیں:
۱) انسائیکلوپیڈیا کا طریقہ: یعنی ایک موضوع سے متعلق تمام چیزوں کو یکجا کر دیا جائے، عموماً حج و عمرہ سے متعلق کتابیں اسی طرز پر تحریر کی جاتی ہیں۔
۲) اختصاص کا طریقہ: یعنی کسی موضوع کے کسی ایک پہلو کو اختیار کر کے اس سے متعلق سیر حاصل معلومات فراہم کی جائے، ایسا بہت کم ہوتا ہے، جب کہ یہ زمانہ اختصاص کا ہے، کسی ایک چیز میں اختصاص کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، خصوصاً عرب ممالک میں اس طرح کابہت ہی مفید کام ہوا ہے، اور ہو رہا ہے، حج و عمرہ میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کی تفصیل سے واقفیت ضروری و لازمی ہوتی ہے، جس کے بغیر حج و عمرہ میں وہ کیف و سرور اور ایمانی لذت و حلاوت پیدا نہیں ہو سکتی، جو مطلوب و مقصود ہے۔
حج و عمرہ میں احرام و نیت اور تلبیہ کا وہی مقام ہے جو ایمان میں کلمہ طیبہ کی شہادت، نماز میں تکبیر تحریمہ، روزہ میں نیت اور زکاۃ میں مال کا ہے، جس طرح بغیر شہادت کے ایمان صحیح نہیں، بغیر تکبیرِ تحریمہ کے نماز درست نہیں، بغیر نیت کے روزہ کامل نہیں، اور بغیر مال کے زکاۃ واجب نہیں، ٹھیک اسی طرح بغیر احرام و نیت اور تلبیہ کے حج و عمرہ مقبول نہیں۔
تلبیہ کیا ہے؟ کفر و شرک کا توڑ اور قرآنی تعلیم کا نچوڑ ہے، تلبیہ سب سے زیادہ و بے اندازہ فضیلت والا عمل ہے، تلبیہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا سلسلہ ہر وقت جاری و ساری رہتا ہے، تلبیہ پڑھنے والے کے لئے جنت کی بشارت ہے، تلبیہ ربِّ جلیل کے حکم پر لگائی گئی ندائے خلیل کا جواب ہے، تلبیہ حج و عمرہ کا شعار ہے، اور بلند آواز تلبیہ سے اللہ کو بہت پیار ہے‘‘، یہ اور اس طرح کی دیگر بہت سی چیزوں کا اس کتاب میں تفصیلی بیان و اظہار ہے۔
زیرِ نظر کتاب ’’تلبیہ (لبیک) : فضائل و مسائل‘‘ والد ماجد جناب مولانا شرف عالم صاحب کریمی قاسمی مد ظلہ العالی کی پہلی کوشش و کاوش ہے، جو زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آ رہی ہے، جس کو والد ماجد نے اپنے حج و عمرہ کے اسفار کے دوران ترتیب دیا ہے، جو کہ فراہمیِ معلومات کے ساتھ انداز بیاں میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔
عام طور پر فضائل و مسائل سے متعلق کتابیں ادبی اعتبار سے خشک سمجھی جاتی ہیں، لیکن یہ کتاب فضائل و مسائل سے متعلق ہونے کے باوجود ہم وزن الفاظ کے استعمال کی وجہ سے پرلطف اور دلچسپ ہو گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی پڑھنا شروع کرتا ہے، تو پڑھتا ہی چلا جاتا ہے، رکنے کا نام نہیں لیتا ہے اور حج و عمرہ کا موقع ملنے اور اس میں تلبیہ پکانے کے لئے بے تاب ہو جاتا ہے، ہم وزن الفاظ کا استعمال والد ماجد کی انفرادی و امتیازی خصوصیت ہے، جو لوگوں میں حد درجہ مقبول و معروف ہے، جس کے تذکرہ کے لئے طویل وقت درکار ہے۔
کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ صرف اس بات ہی سے لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کو ایک نظر دیکھتے ہی ایک صاحب خیر نے اس کی طباعت و اشاعت کی ذمہ داری لے لی، اور ایک صاحب نے اشاعت سے قبل ہی پانچ سو نسخے خرید لئے، اور اشاعت کے بعد تقسیم کے لئے کہا۔
والد ماجد ایک عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد اب سات آٹھ سال سے حج و عمرہ کی خدمات سے وابستہ ہیں، اس سلسلہ میں حجاج و معتمرین کو پیش آنے والے مسائل سے بخوبی واقف ہیں، لہٰذا اس موضوع پر ان کا لکھنا بہت ہی مفید و نافع ہے۔
اس کتاب کی اشاعت سے اللہ کے اس وعدہ ’’واللّٰہ فی عون العبد، ما کان العبد فی عون أخیہ‘‘ پر مزید یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے، کہ جو کسی کا بھلائی کے کاموں میں تعاون کرے گا، اللہ اس سے پہلے اس کا بھلا کرے گا، والد ماجد ایک عرصہ تک دوسروں اور خصوصاً راقم کو تصنیف و تالیف کی تشویق و ترغیب دیتے رہے، جس کے نتیجہ میں کم از کم دس افراد ایسے گنائے جا سکتے ہیں، جو والد ماجد کے ہمت افزا کلمات کے باعث میدانِ تصنیف و تالیف میں آئے، جن کتابوں کی مجموعی تعداد پچاس سے زائد ہے، خود راقم کی جملہ پندرہ کتابوں کی ترتیب و تصنیف اور نشر و اشاعت کا مکمل سہرا والد ماجد ہی کے سر جاتا ہے۔
اس کتاب پر کچھ لکھنا، ’’چھوٹا منہ، بڑی بات‘‘ کے مترادف ہے، لیکن عربی کا یہ مقولہ پیش نظر ہے، ’’الحکم فوق الأدب‘‘، جس کی بناء پر یہ چند سطریں صفحات کو سیاہ کر رہی ہیں، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کتاب کو مصنف و ناشر اور مرتب و قاری تماموں کے لئے خیر وبرکت اور حصولِ سعادت و مغفرت کا ذریعہ بنائے، اس کے نفع کو عام و تام فرمائے، اور حجاج و معتمرین کے لئے اس کتاب کو مشعلِ راہ بنائے، آمین
محمد حماد کریمی ندوی
ایڈیٹر مجلہ النصیحۃ، لکھنؤ
ناظم المعہد الاسلامی العربی، مظفرپور، بہار
و جنرل سکریٹری الاسلام اکیڈمی، مرڈیشور، بھٹکل
انتساب
اللہ تعالی، برتر و بالا، بے انتہا عزت و عظمت والا، جس نے پیارے نبیﷺ کو عز و شرف اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے کیا بلند و بالا، جس نے قوتِ عشقِ نبی سے کیا ہر پست کو بالا، اسم محمدﷺ سے کیا ساری کائنات میں اجالا، شیطان مردود و بے سود کا کیا منہ کالا، اور تلبیہ (لبیک) کو حج و عمرے کے تمام اعمال میں بنایا بے حساب اجر و ثواب والا، اور بے پناہ و اتھاہ اہمیت و فضیلت اور قدر و قیمت والا، اسی ذات سراپا برکات و بلند صفات، جس کی قدرت و طاقت ہے بے حساب کی طرف ہے اس کتاب کا انتساب، جس کی خاص تائید و نصرت اور غیبی مدد ہوئی شامل، تو تلبیہ کے سدا بہار، مشکبار، ضوبار موضوع پر ایک سراپا حقیر و مجسم فقیر کی یہ ناقص تحریر ہوئی کامل۔
اللہ تعالیٰ محض اپنے لطف و کرم اور بے پناہ احسان کے طفیل اس بے مایہ و بے سرمایہ کے اس والہانہ و عاجزانہ انتساب کو اپنی پاک نگاہ و عالی وقار بارگاہ میں قبول فرما لے، اور اس کتاب کو زائرین کعبہ مقدسہ، عازمین حج و عمرہ و حاضرین مکہ مکرمہ کے لئے بنا دے چراغ راہ اور ان کے دلوں کی چاہ، آمین یا رب العالمین۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔
الٰہی دیکھنے والی نظر دے
دلِ پُر درد دے، سوز جگر دے
ہمیں عثمان و حیدر آشنا کر
ہمیں ایمان بوبکر و عمر دے
٭٭٭
یا اللہ! نیک توفیق، بنے ہماری رفیق
اللہ ہی کے احسان مزید و انعام جدید کے صدقے تین ماہ کی جی توڑ کوشش و جاں گسل کاوش کے بعد حج و عمرے کا شعار لبیک (تلبیہ) کے تعلق سے اس بے مایہ و بے سرمایہ کی یہ چھوٹی سی کاوش اور حقیر سی پہلی نگارش مکمل ہوئی، جس کا اکثر حصہ خانۂ کعبہ، مطاف و مسعی، مسجد حرام، مسجد نبوی شریف، صفۂ نبوی، روضۃ الجنۃ، اور آرام گاہِ رسول اکرمﷺ کے مقدس و متبرک ماحول، روحانی و عرفانی فضا، اور پر نور و سرور ہوا میں لکھا گیا، اے میرے رب! جس طرح مقاماتِ بابرکات تیری نگاہ و بارگاہ میں بے انتہا مقبول و محبوب ہیں، ٹھیک اسی طرح اس کمزور و بے زور کی اس چھوٹی موٹی، ٹوٹی پھوٹی تحریر کو بنا دے مقبول خاص و عام، اور اپنی خوشی و خوشنودی کا عطا فرما دے انعام، اور زندہ و تابندہ تحریروں میں شامل فرما دے میرا کام، اور یا اللہ آئندہ اس طرح کی نیک توفیق ہماری بنے رفیق، اس کا تو غیب سے پیدا کر دے اسباب و سامان، اور سدا تو ہمیں اس شعر کا بنائے رکھنامصداق:
اس لئے مجھے آرزو ہے جینے کی
دیکھتا رہوں زمیں مکے و مدینے کی
اور اے اللہ! اس حقیر کی اس حقیر تحریر کو اس شعر کے مصداق بنا دے:
اے خدا! میری یہ کاوش ہو قبول
معاف فرما دے اس میں اگر کچھ ہو بھول
٭٭٭
خوشی میں جس قدر پھولیں، مگر ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولیں
حضرات قارئین و بیت اللہ شریف کی زیارت کے شائقین! تلبیہ کے تعلق سے اس تحریر کو اس نیک جذبہ و مخلصانہ ولولہ کے ساتھ پڑھیں کہ کتاب کی تکمیل سے پہلے اللہ کرے آپ مکہ و مدینہ کی طرف بڑھیں، صفا مروہ پر چڑھیں، اور نہایت ہی عاجزانہ آواز و غایت درجہ فقیرانہ انداز سے تلبیہ پکاریں، اپنے رب سے حج و عمرہ کی بات کریں، اور اس کے لئے دعاؤں میں بسر رات کریں، کیوں کہ دعاؤں سے رحمت و برکت کا سلسلہ ہو گا جاری، اور انشاء اللہ حج و عمرہ کے لئے آپ کی بھی آئے گی باری:
دعا سے رحمت پروردگار آئے گی
بہار آئے گی، بے اختیار آئے گی
اگر حق تعالی، برتر و بالا کا ہو گیا کرم، اور آپ چلے گئے حرم، تو خوشی میں آپ چاہے جس قدر پھولیں، مگر ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولیں۔
٭٭٭
نبی کا نام آتے ہی جھوم جاتے ہیں، اور کام آتے ہی گھوم جاتے ہیں
حرمین شریفین کے زائرین، اور حج و عمرہ کرنے کے لئے مچلنے بلکہ اچھلنے والے شائقین! اللہ کرے یہ کتاب آپ کے حج و عمرہ کے شوق کو خوب ابھارے اور نکھارے، نیز تلبیہ کا یہ قاعدہ آپ کو بہت دے فائدہ، آپ تائید الٰہی و نصرتِ غیبی سے حج و عمرہ کے لئے رخت سفر باندھیں، تو اس بات کو خوب یاد رکھیں، کہ تلبیہ سنت کے مطابق اور اسوۂ رسول کے موافق پڑھئے، مرد بلند آواز سے اور عورتیں پست آواز سے تلبیہ پڑھیں، احرام کی نیت کے فوراً بعد لگاتار تین بار تلبیہ پڑھیں، عمرہ میں طواف شروع کرنے سے پہلے تک اور حج میں دسویں ذی الحجہ کو جمرۂ عقبہ کی رمی کرنے تک تلبیہ پڑھیں، طواف میں اور احرام سے فارغ ہونے کے بعد تلبیہ نہ پڑھیں، کیونکہ یہ خلاف شریعت عمل ہے، اس لئے تلبیہ سنت نبوی و طریقۂ مصطفوی کے مطابق پڑھیں، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس بات کے مصداق قرار دئیے جائیں، نبی کا نام آتے ہی جھوم جاتے ہیں، اور کام آتے ہی گھوم جاتے ہیں۔
مرضی تیری ہر وقت جسے پیش نظر ہے
بس اس کی زباں پر نہ اگر ہے نہ مگر ہے
٭٭٭
الٰہیٰ! لبیک زباں پر ہو جاری، اسی وقت آ جائے موت کی باری
الٰہی! خیر و برکت، نیک توفیق و سعادت کے ساتھ میری عمر کی تکمیل ہو، مکمل طور پر تیری رضا و خوشنودی کی تحصیل ہو، نبی اکرم، رسول محترم و شفیع اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کے نقشِ قدم کی کامل پیروی نصیب ہو، ذوالحلیفہ(ابیارِ علی) اہل مدینہ منورہ والی ہو میقات، اسی سے حج کے احرام باندھنے و لبیک پکارنے کی بنی ہو بات۔
رحمت الٰہی ہو آئی، احرام کے غسل کے ذریعہ ہو چکی ہو ظاہری صفائی، دو رکعت صلوۃ الاحرام میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون و سورۃ الاخلاص پڑھ کر دل و دماغ ہو چکا ہو صاف، توبہ و استغفار کے ذریعہ سارے گناہ ہو چکے ہوں معاف، سب کو مل چکا ہو میری طرف سے حق و انصاف، ٹھیک اسی وقت میرے اوپر شکر و خوشی اور اپنے گناہوں پر ندامت و شرمندگی کی عجیب کیفیت ہو طاری، موت کا سلسلہ میرے لئے بالکل نہ ہو بھاری، میری زبان پر لبیک کا نغمہ و زمزمہ ہو جاری، الٰہی! اسی وقت آ جائے موت کی باری۔
چمک جائے میرا مقدر، میری قبر بنے بقیع شریف (مدینہ پاک) کے اندر، اس طرح بنے میری بات، میرے حق میں شفاعت کرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات، مجھے یہ سعادت ملے، مجھے یہ بشارت ملے، احرام پہن کر اور لبیک (تلبیہ) پکارتے ہوئے اپنے خالق و رازق کے سامنے جانے کی اجازت ملے، اور مجھے درجۂ شہادت ملے، میدانِ حشر میں احرام پہن کر اٹھنا اور لبیک پکارنا نصیب ہو۔
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ۔
اے اللہ! مجھے ان اشعار کا مصداق بنا، اور سیدنا حضرت عمر بن خطابؓ والی دعا میرے حق میں قبول فرما:
الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب
یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
الٰہی جسم میں جب تک میرے جان رہے
تجھ پر صدقے، تیرے محبوب پر قربان رہے
کچھ رہے یا نہ رہے، بس یہ دعا ہے امیرؔ
آخری وقت سلامت میرا ایمان رہے
اللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ، وَاجْعَلْ مَوْتِیْ بِبَلَدِ رَسُوْلِکَ۔
محمد شرف عالم کریمی قاسمی
خادم حج و عمرہ وزیارت مکہ و مدینہ
۸؍رجب ۱۴۳۷ھ بروز سنیچر
بوقت: بعد نماز عشاء، بمقام: مسجد حرام، مکہ مکرمہ
٭٭٭
تمہیدی کلمات اور شکر و خوشی کے جذبات
اللہ تعالی، عزت و عظمت والا، جو تمام قسم کی حمد و ثنا کا سزاوار، مالک و مختار اور سارے عالم کا پروردگار و پالنہار ہے، جیسا کہ قرآن عالی شان میں اس کا اعلان و بیان ہے، الحمد للّٰہ رب العالمین، مالک یوم الدین، جو غفار الذنوب، ستار العیوب، اور علام الغیوب ہے، اس کی نگاہ و بارگاہ میں صرف اور صرف دین اسلام و طریقۂ خیر الانام صلی اللہ علیہ و سلم ہی بہت خوب اور حد درجہ محبوب ہے: {اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الاسْلاَمُ}(سورۂ آل عمران: ۱۹) اللہ کی نگاہ و بارگاہ میں معتبر و مستند دین صرف اسلام ہی ہے، اس کے علاوہ سارے کے سارے دین اور تمام کی تمام ملت و شریعت فضول و غیر مقبول اور غلط منقول ہیں، چنانچہ یہ قرآنی و ربّانی اصول ہے، {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الاسْلاَمِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ} (سورۂ آل عمران: ۸۵) اسلام کے آئین و قوانین کے خلاف جو بھی قدم اٹھے گا، اور جو بھی کام ہو گا، وہ بے سود و مردود ہو گا۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
اسلام کی جان اور اس کے ارکان پانچ ہیں: (۱) کلمۂ شہادت و رسالت کا اقرار و یقین، (۲) نماز قائم کرنا، (۳) زکوٰۃ دینا، (۴) رمضانِ ذی شان و ماہِ قرآن کے روزے رکھنا، (۵) بیت اللہ شریف (خانۂ کعبہ) کا حج کرنا، جیسا کہ فرمانِ نبوی و اعلانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’بُنِیَ الاسْلاَمُ عَلیٰ خَمْسٍ، شھَادَۃُ أَنْ لاَ إلٰہَ إلآَ اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَإِقَامُ الصَّلٰوۃِ، وَإیْتَاءُ الزَّکوٰۃِ، وَالْحَجُّ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ۔ ‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، حدیث نمبر: ۴۲۴۳)
اسلام کی مذکورہ بالا بنیادی و کلیدی باتوں و عبادتوں میں صرف حج ہی ایمان و ایقان کی تکمیل کا ذریعہ ہے، جس کا واضح و روشن ثبوت حجۃ الوداع کے عطر بیز، دل آویز و سعادت خیز حسین موقع پر نازل ہونے والی یہ آیاتِ بینات و کلماتِ طیبات ہے: {اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاسْلاَمَ دِیْناً }(سورۂ مائدہ: ۳) ۔
حج کی بنیادی باتوں، اور کلیدی عبادتوں میں احرام، نیت و تلبیہ ہے، جس طرح نماز کا آغاز تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) سے ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح حج و عمرے کا آغاز احرام، نیت و تلبیہ سے ہوتا ہے، تلبیہ کیا ہے؟ مالک و خالق، حاکم و رازق کے حکم سے لگائی گئی ندائے خلیل و صدائے خلیل کا نہایت ہی عاشقانہ، والہانہ، مستانہ اور غایت درجہ مخلصانہ جواب ہے، تلبیہ حج و عمرہ کی قبولیت کا معیار ہے، حج و عمرے کا شعار ہے، جس پر حجاج و معتمرین و کعبۃ اللہ کے زائرین دل و جاں سے نثار ہیں، جس سے رب العالمین کو بے انتہا پیار ہے، تلبیہ خدائے واحد و أحد و صمد کی وحدانیت کا عظیم شہ کار ہے، تلبیہ ابراہیم خلیل، اسماعیل ذبیح، سیدہ ہاجرہ و دیگر انبیاء و رسل علیہم السلام، صحابۂ کرام خاص کر اشرف الانبیاء و افضل الرسل سیدنا حضرت اقدس محمدﷺ کی للکار و پکار ہے، تلبیہ حج کی جان ہے، عمرے کی پہچان اور حاجی کی شان ہے، تلبیہ کے تعلق سے مذکورہ بالا تمام باتوں کی وضاحت وصراحت اور تفصیل کا نام ’’تلبیہ (لبیک) : فضائل و مسائل‘‘ ہے، اس حقیر سی کتاب کی تقدیم و تکمیل پر راقم آثم پھولے نہ سما رہا ہے، مارے خوشی کے جھوم جھوم جا رہا ہے، اور فرط مسرت سے بار بار اپنے رب کے حضور سجدے میں جا رہا ہے، بار بار و لگاتار زبان پر حمد باری و ثنائے ربانی کا یہ نغمہ و زمزمہ اللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ، کَمَا یَنْبَغِیْ لِجَلاَلِ وَجْھِکَ وَعَظِیْمِ سُلْطَانِکَ آ رہا ہے، ، اس خوشگوار و شاندار شکر و خوشی کے موقع پر لفظوں کے غنچوں، حرفوں کے شگوفوں، اور جملوں کی کلیوں اور سدا بہار و خوشبو دار پھولوں کی صورت میں دربارِ رسالت و بارگاہِ نبوت میں درود و سلام کا تحفہ پیش کرتا ہے، اللّٰہم صلّ علیٰ محمّد و علیٰ آلہ وصحبہ أجمعین۔
رحمت قسم خدا کی لُٹی جا رہی ہے آج
پڑھ لو درود مؤمنو پھر کیا کمی ہے آج
اللہ کی ذات اور رسول انورﷺ کی بات کے بعد شکر و خوشی کے اس حسین موقع پر میری دلی دعا و قلبی صدا یہ ہے کہ حق تعالیٰ بیماری سے شفا دینے والا {وإذا مرضت فھو یشفین} (القرآن) محض اپنے احسان و انعام کے صدقے میرے سراپا شفقت و محبت کے مصداق والدین محترمین کو اپنی خوشی و خوشنودی سے سرفراز فرمائے، اور برکت و سعادت اور خیر کی توفیق کے ساتھ ان کی عمر دراز فرمائے، اور ان کے حق میں قبول میری یہ دلی آواز فرمائے، اور ان کو صحت و عافیت شعار اس شعر کے مصداق بنائے، آمین:
سارے سخن میں ہے یہی سخن ہے درست
خدا آبرو سے رکھے اور تندرست
اللہ ہی کی طرف سے ہوئی خاص مہربانی، رسولِ رحمت، سراپا خیر و برکت کی بے لوث قربانی، ماں باپ کی محبت و شفقت بھری مخلصانہ جانفشانی اور حضرات اساتذۂ کرام کی نالۂ نیم شبی و آہِ سحر گاہی کہ یہ نا اہل و ناکارہ، اس چھوٹی و کھوٹی سی کتاب کو قارئین و شائقین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت پایا، اور پہلی بار تصنیف و تالیف کے میدان میں آیا، ورنہ: من آنم کہ من دانم۔
اسی طرح میری عاجزانہ و والہانہ دعا ہے کہ باری تعالیٰ میرے فرزند ارجمند ودلبن عزیزِ مکرم مولانا حافظ محمد حماد اشرف کریمی ندوی سلمہ اللہ و رعاہ (ناظم المعہد الاسلامی العربی مظفرپور بہار، جنرل سکریٹری الاسلام اکیڈمی مرڈیشور بھٹکل کرناٹک، و ایڈیٹر سہ ماہی عربی مجلہ النصیحۃ) کے لئے کھول دے اپنا خزانۂ خاص، اور پوری دنیا میں دینِ اسلام کی خدمت و حفاظت اور نصرت و اشاعت کے لئے کر دے ان کو پاس، کہ عزیز موصوف ہی کی تحریک و تشویق، تائید و تجویز اس کتاب کے وجود پانے اور منظرِ عام پر آنے کا ذریعہ بنی، نیز انھوں نے اس کتاب کی نوک و پلک کو کیا درست، اس کے جملوں کو کیا چست و مست، اور اپنے فاضلانہ مقدمہ کے ذریعہ اس کتاب کے حسن کو دوبالا کیا، اور اس کی زینت میں اضافہ کیا، اللہ تعالیٰ عزیز گرامی کو اجر عظیم و جزیل عطا فرمائے، اور اس شعر کا مصداق بنادے:
لطافت میں بڑھ جا نسیم سحر سے
بلندی پہ چڑھ جا ثریّا سے آگے
اور اس دانش شعار، ترقی و بلندی شعار شعر کا بھی:
قدم راہِ مجد و شرف میں جو رکھو
ستاروں سے بھی چندے آگے نکل جانا
آمین
اسی طرح اس مسرت خیز و نشاط انگیز موقع پر میں دعا گو ہوں اپنے مخلص و مشفق جناب مفتی حفیظ الرحمن صاحب قاسمی حفظہ اللہ، جناب حافظ حشمت اللہ صاحب رعاہ اللہ اور جناب حافظ شریف صاحب سلمہ اللہ اہلیان بھٹکل کے لیے کہ انھیں حضرات کی زندہ دلی، بلند فکری و عالی ظرفی کی وجہ سے میں مسقط آیا، اور حجاج و معتمرین و بیت اللہ کے زائرین کی خدمت کا شرف پایا۔
اسی طرح میری خاص دعا ہے برادرِ عزیز جناب الحاج حافظ صدر عالم صاحب( صدر جامعہ ربانیہ اشفاقیہ مظفرپوربہار، و سکریٹری بزم خیر مسقط) کے لئے کہ ان کی بھی محبت ہمیشہ رہی ساتھ، خیر کے کام میں انھوں نے بٹایا میرا ہاتھ، اس کتاب کی تالیف میں مذکورہ تمام حضرات کا ہے بڑا ساتھ اور اہم ہاتھ، اللہ تعالیٰ ان تماموں کو اس کا بھرپور بدلہ عطا فرمائے۔
خصوصی طور پر دلی گہرائی و گیرائی کے ساتھ میں شکر گزار و بے حد ممنون ہوں عالمی و بین الاقوامی عظمت و شہرت یافتہ عالمِ دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ العالی اور رفیق مکرم و مخلص محترم جناب مولانا مبین صاحب ندوی زید لطفہ کا کہ آپ حضرات نے اپنی قیمتی، وقیع اور پر مغز تحریروں سے ہمارے حوصلہ کو بڑھایا، ثریّا تک چڑھایا، کتاب کی قدر و قیمت، افادیت و نافعیت اور ضرورت و اہمیت میں خوب خوب اضافہ فرمایا، اور اس کے حسن کو دوبالا فرمایا، فجزاکم اللّٰہ خیراً ۔
اس باعثِ صد شکر و شرف و بے انتہا خوشی و شادمانی کے خوبصورت موقع پر میں بہت بہت شکر و سپاس گزار ہوں، اپنے لائق و فائق اور علمی و دینی کام کی ترقی و بلندی کے شائق، اپنے دلی دوست و دینی بھائی محترم خلیل صاحب مدراسی و برادرِ عزیز ریاض صاحب مدراسی مقیمین مسقط عمان کا، جن کے بے لوث و مخلصانہ ایثار و پیار، جس کے لئے وہ ہر وقت رہتے ہیں تیار، اور اس طرح کی سعادت و توفیق کے ملنے پر وہ شکر و خوشی کا بار بار کرتے ہیں اظہار، کی علم پروری، دین پسندی و دل نوازی کی وجہ سے اس کتاب کی اس قدر جلد طباعت و اشاعت ہو سکی، اس قربانی و مہربانی پر اللہ تعالیٰ ان کو بے حساب جزا عطا فرمائے، ان کے کاروبار میں بار بار و ہزار بار برکت عطا فرمائے، ان کے مرحومین کی مغفرت فرمائے بال بال، ان کو اپنی جنت میں کر دے بحال، بھائی خلیل و ریاض کو اپنی خوشی و خوشنودی سے کر دے مالا مال، اور حج و عمرہ جیسی عبادت سے ہمیشہ کرتا رہے نہال، آمین یا رحمان یا ذا الجلال۔
اہل علم و اصحابِ تصنیف و تالیف کی خدمت میں میری دردمندانہ و برادرانہ گزارش ہے کہ یہ اس کم علم و کم فہم کایہ پہلا تالیفی سفر ہے، جس میں کمیوں خامیوں و لغزشوں کی کثرت و زیادت یقینی ہے، لہٰذا آپ حضرات ہماری غلطیوں پر مطلع فرما کر ہماری ہمت بڑھائیں، اور ہمارے تالیفی و تصنیفی شوق کو پروان چڑھائیں، اللہ آپ کو اس کا ذریعہ بنائے، آمین
آخر میں پھر بار بار ہزار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں، اور دعا کرتا ہوں کہ اس عاجز و محتاج کی یہ حقیر سی کتاب ہو جائے قبول، بن جائے سدا بہار پھول، اور معاف و صاف ہو جائے اس کی ساری بھول، آمین یا توّاب یا وھّاب یا ودود!، پھر ایک بار الحمد للّٰہ، والصلوۃ والسلام علی رسول اللّٰہ، صلی اللّٰہ علیہ و سلم، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، ومن تبعہم باحسان اِلی یوم الدین۔
ہر دم رواں ہو دل سے درودوں کا سلسلہ
طے اس طرح راہ کا ہر مرحلہ کروں
دے دوں اگر رسولِ مکرم کا واسطہ
دل کی ہر مراد ملے گر دعا کروں
٭٭٭
تلبیہ (لبیک) فضائل کی چاندنی اور مسائل کی روشنی میں
انوار کی بارش ہے جدھر دیکھا
لبیک ہے ہر لب پر، ہر آنکھ کو تر دیکھا
تلبیہ کی رونق، تلبیہ کا منظر
اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر
تلبیہ: لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ۔
ترجمہ: میں حاضر ہوں، اے معبود و مسجود! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی ساجھی و ساتھی نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک سب تعریف و توصیف نیز نعمت و بادشاہت تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔
تلبیہ (لبیک) اللہ تعالی، بلند و بالا اور جلالت و عظمت والا کی وحدانیت و یکتائیت کا روشن روشن، صاف صاف اور کھلم کھلا اسلامی، الہامی، مثالی، ایمانی، ایقانی، نورانی، روحانی اور عرفانی اعلان ہے، تلبیہ (لبیک) رسول عالی شان و نبیِ ذیشان حضرت اقدس محمدﷺ کا نہایت ہی بصیرت افروز، خشیت آموز، نشاط و انبساط اندوز اور باطل سوز فرمان ہے، تلبیہ پڑھنے والے پر حق تعالیٰ، جل و اعلیٰ، برتر و بالا حددرجہ مہربان ہے، تلبیہ پڑھنے والے، کعبہ مقدسہ و متبرکہ و مشرفہ کی طرف بڑھنے والے اور صفا مروہ پر چڑھنے والے کی یہ شان ہے کہ وہ شہنشاہِ اعظم، پروردگارِ عالم، اور خالقِ لوح و قلم کے مہمان ہیں، اسی لئے اللہ کی بے پناہ و ا تھاہ رحمت و برکت سے مالا مال و نہال ہیں، شہرمقدس مکہ پاک کے کونے کونے، اس کے در و دیوار کے گوشے گوشے، اور اس کے ٹوٹل ہوٹل کے حصے حصے میں اعزاز و تکریم اور احترام و توقیر کا یہ دل آویز، روح افزا، اور مزدۂ جانفزا جملہ لکھا ہوا ہے، مَرْحَباً بِضُیُوْفِ الرَّحْمٰنِ، أَھْلاً وَ سھَلاً یَا ضُیُوْفَ الرَّحْمٰنِ، اور خِدْمَۃُ ضُیُوْفِ الرَّحْمٰنِ وِسَامُ فَخْرٍ لَنَا۔
اللہ اکبر، ماشاء اللہ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور سبحان اللہ، بار بار و ہزار بار سبحان اللہ، اس عظیم الشان مقام کے پانے، اس شرف و مجد سے نوازے جانے، اور اس انعام و اعزاز و اکرام سے سرفراز فرمائے جانے پر، تلبیہ پڑھنے کی برکت و سعادت کی وجہ سے تلبیہ پڑھنے والے کا سب سے کٹ اور ہٹ کر صرف اور صرف اپنے ربِّ حقیقی و مالکِ اصلی کی طرف رہتا دھیان ہے، تلبیہ حج جیسی بنیادی و کلیدی اور عمرہ جیسی اسلامی و مثالی عبادت و طاعت کی جان ہے، تلبیہ حج و عمرہ کرنے والے کی پہچان ہے، تلبیہ زائرین کعبہ مشرفہ و عازمینِ حج و عمرہ کی مستانہ، فدائیانہ اور عاشقانہ شان ہے، تلبیہ پکارنے والے اور اس کو زور زور سے پڑھ کر شیطان کو للکارنے والے پر زمین کا ذرہ ذرہ، چپہ چپہ، درخت کا پتہ پتہ، بوٹا بوٹا، پہاڑ کا ٹکڑا ٹکڑا، پتھر کاریزہ ریزہ، سمندر کا قطرہ قطرہ، اور جانوروں کا بچہ بچہ فدا و قربان ہے، اسی تمغۂ امتیاز اور تحفۂ صد ناز کا اس شعر میں بیان ہے:
پتہ پتہ، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے، گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ تلبیہ پڑھنے والے کے تلبیہ پڑھنے پرکائنات کی ہر ہر چیز تا حدِّ زمین تلبیہ پڑھتی چلی جاتی ہیں، اور معتمرین کرام و حجاج باعثِ صد احترام کی آواز سے آواز ملاتی ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نہایت عقیدت و محبت اور خلوص و چاہت کے ساتھ اس حدیث پاک کو بار بار پڑھیں، اور تڑپ تڑپ کر، رو رو کراور گڑ گڑا کر اپنے حاجت روا، کارساز و ربِّ بے نیازسے تلبیہ پکارنے اور جلد از جلد حج و عمرہ کرنے کی توفیق طلب کریں، رسولِ عالی شان کا فرمان ذی شان ہے، ’’مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبِّیْ، إِلَّا لَبّیٰ مَا عَنْ یَمِیْنِہِ وَشِمَالِہِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ، حَتَّی تَنْقَطِعَ الأَرْضُ مِنْ ھَا ھُنَا وھَا ھُنَا‘‘ (ترمذی شریف: کتاب الحج، باب ما جاء فی فضل التلبیۃ والنحر، حدیث نمبر: ۸۲۸)
حدیث پاک کی ترجمانی راقمِ آثم کی زبانی:
جب جب تلبیہ پڑھنے والا، تلبیہ پڑھتا ہے، تب تب اس کے دائیں بائیں کی ہر چیز، خاص کر شجر و حجر اور زمین کا ذرہ ذرہ سب کے سب تلبیہ پڑھنے، اور اس ترانۂ توحید کو گنگنانے لگتے ہیں، اور یہ روح پرور و کیف آفریں سلسلہ تا انتہائے زمین چلتا ہی رہتا ہے۔
٭٭٭
تلبیہ کفر و شرک کا توڑ، اور قرآنی تعلیم کا نچوڑ ہے
تلبیہ رب کائنات، مالک موت و حیات، و خالقِ ارض و سماوات کے ابدی و سرمدی آئین و قوانین اور قرآنِ کریم و کلامِ عظیم کے بنیادی و کلیدی دستور و منشور کی حفاظت و صیانت کا الہامی، مثالی و اسلامی ذریعہ ہے، تلبیہ خالقِ لولاک کے رسول پاک حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور آپ کے نجات و مغفرت کے حامل فرمودات کا خلاصہ ہے، تلبیہ حج و عمرہ جیسی غیر معمولیٰ حرمت و عظمت، عزت و رفعت اور قدر و منزلت کی حامل و گوناگوں خصوصیات و امتیازات و بے پناہ بلند صفات کی مالک عبادت و طاعت کا زینہ ہے، تلبیہ اپنے مالک و مولیٰ، حاکم و آقا کی خوشی و خوشنودی، دینی و دنیوی فوز و فلاح و رشد و صلاح کا خزینہ ہے، تلبیہ کفر و شرک کی ہلاکت و تباہی اور فرشتوں و زمین کی انسانوں کے خلاف گواہی سے بچننے کا سفینہ ہے، تلبیہ حج و عمرے کے تمام کاموں و احکاموں میں ایسا عمل ہے جیسے انگوٹھی کے لئے نگینہ ہے، تلبیہ سے ذہن و دماغ سکون پاتا ہے، اور روشن ہو جاتا سینہ ہے، تلبیہ سے حج و عمرے میں لطف و مزہ آتا ہے، اور حاجی و معتمر ایمانی لذت و حلاوت پاتا ہے۔
تلبیہ مندرجہ ذیل قرآنی آیاتِ طیبات و کلمات بابرکات کا خلاصہ و نچوڑ ہے:
(۱) {وَإِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ لآَ إِلٰہَ إِلآَ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْم} (سورۂ بقرۃ: ۱۶۳) ترجمہ: ’’تمہارا معبود ایک معبود ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ رحمن و رحیم ہے‘‘، {ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُ، ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ، سُبْحَانَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ، ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُِ الْمُصَوِّرُ، لَہُ الْأَسْمَائُ الْحُسْنیٰ، یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } (سورۂ حشر: ۲۲-۲۴) ، ترجمہ: ’’وہ اللہ ہی ہے، جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ غیب و شہود (ظاہر و باطن کھلے اور چھپے ) سب کا علم رکھتا ہے، وہ بہت رحم فرمانے والا اور بڑا مہربان ہے، وہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، مقدس و پاک ہے، سلامتی عطا فرماتا ہے، امن و عافیت سے نوازتا ہے، سب پر حاوی ہے، غالب و با اقتدار ہے، زبردست طاقت رکھتا ہے، کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے، وہ تمام شرکاء اور شرکیہ باتوں سے پاک و مبرّا ہے، وہی اللہ خالق ہے، عدم سے وجود میں لانے والا ہے، صورت گری فرمانے والا ہے، اس کے بہترین نام ہیں، آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اس کی عظمت و پاکی کی ترجمان ہیں، وہ غالب ہے، صاحبِ اقتدار ہے، اور حکمت والا ہے‘‘۔
(۲) {لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} (سورۂ لقمان: ۱۳) ، ترجمہ: ’’ اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا، شرک سب سے بڑا ظلم ہے‘‘۔
(۳) {إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ}، (سورۂ توبہ: ۲۸) ، ترجمہ: ’’یہ حقیقت ہے کہ مشرک (اپنے گندے باطن کی وجہ سے ) نجس ہیں‘‘۔
(۴) {إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہ}، (سورۂ نسائ: ۴۸) ، ترجمہ: ’’اللہ اس کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے‘‘۔
(۵) {الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ}، (سورۂ فاتحہ: ۱-۳) ، ترجمہ: ’’شکر و ستائش کا مکمل استحقاق اللہ کو ہے، جو تمام مخلوقات کا مالک اور ان کی نگہداشت فرمانے والا ہے، وہ بڑا مہربان ہے، (اس کی رحمت میں جوش بھی ہے اور وسعت بھی) اور اس کی نعمتیں اور عنایتیں دائمی (بھی) ہیں، (اعمال پر) جزا و سزا کے دن اس کی تنہا ملکیت اور بادشاہت (ظاہر ہو گی) ‘‘۔
(۶) {إِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ}، (سورۂ بقرہ: ۲۰) ، ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔
(۷) { یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ}، (سورۂ تغابن: ۱) ، ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی پاکی، عظمت اور تقدس کا مظہر ہے، اسی کی بادشاہت ہے، اور اسی کی حمد و ثنا، اور وہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔
(۸) {لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ، لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ}، (سورۂ غافر: ۱۶) ، ترجمہ: ’’آج بادشاہت کس کی ہے؟ (جواب سنائی دے گا) صرف اللہ کی ہے جو اکیلا ہے، زبردست و غالب ہے‘‘۔
(۹) { قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ، لَا أَعْبُدُمَاتَعْبُدُونَ، وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ، وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ، وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ}، (سورۂ کافرون) ، ترجمہ: ’’کہہ دیجئے کہ اے کافرو! میں تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کرتا، اور تم بھی اس کی عبادت نہیں کرتے، جس کی میں عبادت و بندگی کرتا ہوں، اور میں ان کی بندگی کرنے والا نہیں ہوں جن کی تم نے پوجا پاٹ کی ہے، اور تم بھی اس کی بندگی کرنے والے نہیں جس کی میں عبادت کرتا ہوں، تم اپنے دین کو لئے رہو، اور میں اپنے دین پر قائم ہوں، (کافروں کی طرف سے ایڈجسمنٹ کے مطالبہ کا یہ پُرزور اور صاف جواب دیا گیا ہے تاکہ ہمیشہ کے لئے یہ مسلمانوں کا منشور رہے، کہ دین میں کسی طرح کی آمیزش، اور کفر و ایمان اور توحید و شرک میں کسی طرح کا ایڈجسٹمنٹ (Adjustment) اور سودے بازی (Compromise) کا امکان نہیں ہے ) ‘‘۔
(۱۰) {قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ، اللّٰہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ، وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُواً أَحَدٌ}، (سورۂ اخلاص) ، ترجمہ: ’’کہہ دو کہ وہ اللہ یکہ و تنہا ہے، اللہ سب سے بے نیاز (اور بلند و بالا ) ہے، اس نے نہ کسی کو جنا، نہ اسے جنا گیا (نہ کوئی اس کا باپ نہ بیٹا) ، اور کوئی بھی (اس کائنات میں ) نہ اس کے برابر ہے نہ ہمسر‘‘، تلبیہ اس کے علاوہ اور بھی بے شمار آیاتِ بینات و کلمات طیبات کی تفسیر و تشریح ہے۔
مختصر اور خلاصہ یہ ہوا کہ تلبیہ اپنے نورانی و روحانی اثرات، اپنی عرفانی و پاکیزہ صفات و کیفیات کے اعتبار سے کفر و شرک کا توڑ ہے، قرآنی تعلیمات کا نچوڑ ہے، جس سے شیطان نادان حد درجہ شرمندہ و بور ہے۔
لہٰذا تلبیہ نہایت ہی خلوص و للٰہیت، رقت و خشیت، تقویٰ و طہارت کے ساتھ پکاریں، بار بار و لگاتار پکاریں، دن و رات، صبح و شام پکاریں، اور اس یقین و تصور کے ساتھ پکاریں کہ آپ کی اس والہانہ، عاشقانہ، فدائیانہ و بے تابانہ پکار کو آپ کا پالنہار، مالک و مختار سن رہا ہے، خوش ہو رہا ہے، اور آپ کی اس پکار کے جواب میں وہ خود آپ کو اس طرح پکار رہا ہے، لَبَّیْکَ یَا عَبْدِیْ! لَبَّیْکَ یَا عَبْدِیْ!اے میرے بندو! تمہارے لبیک پر میں بھی تمہیں لبیک کہتا ہوں، تمہارے لبیک سے مجھے بے انتہاپیار ہے، اور تمہارا رب تمہاری ہر پکار سننے کے لئے تیار ہے، اوریقیناً و حقیقتاً تمہارا رب ہی تمہارا اصلی و حقیقی مددگار ہے۔
الحمد للہ، ماشاء اللہ اگر آپ کو تلبیہ پکارنے کا قابل شکر و شرف موقع ملا ہے تو پھر صرف ایک بار نہیں، بلکہ بار بار پکارنے کی دعا و تیاری کریں، اور اگر خدانخواستہ اب تک تلبیہ پکارنے کا موقع نہیں ملا ہے تو راتوں کو جاگیں، خانۂ خدا بھاگیں، اور تلبیہ پکارنے کا موقعہ ملنے کے لئے خوب خوب رو رو کر، گڑ گڑا کر اللہ سے دعائیں مانگیں، اور اس شعر کے مصداق بن جائیں:
اک ہُوک سی دل میں اٹھتی ہے، اک درد سا جگر میں ہوتا ہے
میں راتوں اٹھ کر روتا ہوں، جب سارا عالم سوتا ہے
٭٭٭
تلبیہ سے متعلق ایک اہم حدیث
تلبیہ پڑھنے، اور لبیک کہنے والے کی ایک نہایت ہی اہم ہے یہ بات، کہ تلبیہ پڑھتی ہے، اور لبیک کہتی ہے دنیا کی ہر چیز اس کے ساتھ، لہٰذا حدیث پاک میں نہایت ہی خوبی و خوبصورتی کے ساتھ بتائی گئی ہے یہ بات: ’’عَنْ سھَلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُلَبِّیْ، اِلَّا لَبّیٰ مَا عَنْ یَمِیْنِہِ وَشِمَالِہِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ، حَتَّی تَنْقَطِعَ الأَرْضُ مِنْ ھَا ھُنَا وھَا ھُنَا‘‘ (ترمذی شریف: کتاب الحج، باب ما جاء فی فضل التلبیۃ والنحر، حدیث نمبر: ۸۲۸)
حدیث پاک کی ترجمانی، اس راقم آثم خاکپائے حضرت ابو القاسمﷺ کی زبانی:
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے یہ اہم بات، کہ رسولِ خدا، نبیِ ھدی حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ نے یہ ارشاد سراپا رشاد فرمایا کہ اللہ کا فرمانبردار و اطاعت شعار بندہ جب تلبیہ کہتا ہے، اور لبیک پڑھتا ہے، تو اس کے دائیں بائیں کی تمام جاندار و بے جان چیز خواہ وہ بے شعور جانور ہوں یا بے جان پتھر، درخت ہویا زمینی ذرات سب کے سب لبیک پڑھنے والے کے ساتھ ساتھ لبیک کی ہی دہراتی ہے بات، اور لبیک پکارتی ہے لبیک کہنے والے کے ساتھ دن و رات، اور یہ ایمان افروز و باطل سوز و بصیرت آموز سلسلہ تلبیہ پکارنے والے کی جگہ سے تا منتہائے زمین چلتا رہتا ہے۔
حضرت مولانا منظور نعمانیؒ مذکورہ حدیث پاک کی وضاحت و صراحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں، ’’یہ حقیقت واضح طور پر قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کرتی ہے، لیکن اس حمد و تسبیح کو انسان نہیں سمجھ سکتے، بس اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ لبیک کہنے والے صاحب ایمان بندہ کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں کی ہر چیز لبیک کہتی ہے، لیکن ہم انسان اس لبیک کو نہیں سن سکتے‘‘۔ (معارف الحدیث، ج: ۴، ص: ۲۱۰)
اللہ محض اپنی خاص مہربانی و نوازش کے صدقے ہمیں اس شرف و مجد سے نوازے، اور ہماری زندگی میں بار بار لبیک پکارنے کا موقع آتا رہے، آمین یا احکم الحاکمین، حضرات حجاج و معتمرین سے ہماری گزارش ہے کہ ہم لبیک و تلبیہ کو ایسے سوز و ساز، درد و گداز اور ایسے بے تابانہ و عاجزانہ انداز سے پڑھیں کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اور زمین کا حصہ حصہ ہماری آواز سے آواز ملائے، اور تلبیہ پکارنے میں لگ جائے، تو لیجئے اسی تلبیہ کو خوب اچھی طرح کر لیجئے یاد، اور بفضل خداوندی و لطف ایزدی سے ہو جائیے بامراد و شاد، اور مکہ میں آباد۔
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ۔
٭٭٭
سراپا برکت، مجسم شفقت اور پیکر رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا تلبیہ
مسلمانوں کی حقیقی کامیابی و کامرانی اور دائمی سرخروئی صرف اور صرف سراپا برکت، مجسم شفقت اور پیکرِرحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل پیروی، پوری پوری تابعداری اور مکمل فرمانبرداری میں ہے، اس لئے تلبیہ میں رسول گرامی فداہ أبی و أمی صلی اللہ علیہ و سلم کے نجات و حیات بخش انداز و آواز، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے استعمال کئے گئے مبارک کلمات اور نورانی و پاکیزہ الفاظ ہی کا استعمال کریں، کیوں کہ دربارِ پروردگارو عالی وقار میں قبولیت خیزی و محبوبیت پذیری کے لئے وہی با اعتبار و معیار ہیں، اس لئے رسولِ مقبول سے منقول سعادت افروز، حلاوت اندوز و باطل سوز کلمات مبارکات و طیبات اور اس سلسلے میں منقول روایات و دیگر اہم بات پیش ہے، اس امید میں کہ زائرین کعبہ مؤقرہ و حاضرین مکہ مکرمہ و عازمینِ حج و عمرہ انہیں کے مطابق و موافق عمل کر کے ان اشعار سنت شعار کے مصداق بنیں گے:
خدا شاہد ہے، ہم سارے جہاں پر حکمراں ہوتے
رسولِ پاک کی سنت اگر اپنا چلن ہوتا
کافی نہیں کہ بیٹھ کر مدح و ثنا کریں
اٹھو کہ آج حق محبت ادا کریں
نبی کے راستے سے جو قدم اپنا ہٹائے گا
بھٹکتا ہی رہے گا، وہ کبھی منزل نہ پائے گا
اور کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
زندگی کو روشن کر سنتِ گرامی سے
کامیابی صرف ملے گی آپ کی غلامی سے
اس تعلق سے عالم اسلام کی عظیم درسگاہ و مؤقر دینی دانش گاہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فرزندِارجمند، زبانِ ہوش مند و فکر بلند کے حامل اور عالمی و آفاقی شہرت و عظمت کے مالک، جدید فقہی مسائل کے ماہر اور نامور فقیہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہ العالی، بانی المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد کے فیض یافتہ و تربیت یافتہ جناب مولانا محمد عابد ندوی حفظہ اللہ مقیم جدہ اپنی لائق و فائق محققانہ، عالمانہ و فاضلانہ کتاب ’’حج و عمرہ، فضائل و آداب‘‘ میں رسول اللہ کا تلبیہ کے زیر عنوان و بیان تحریر فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح اور کن الفاظ میں تلبیہ پڑھتے تھے؟ اس سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تلبیہ اس طرح ہوتا تھا:
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ۔
ترجمہ: میں حاضر ہوں، اے معبود و مسجود! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی ساجھی و ساتھی نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک سب تعریف و توصیف نیز نعمت و بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
ایک روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کلمات میں اضافہ نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب التلبیہ، حدیث نمبر ۵۹۱۵، مسلم: حدیث نمبر ۱۱۸۴، تفصیل کے لئے دیکھئے: ’’حج و عمرہ، فضائل و آداب‘‘ ص: ۱۲۷، تالیف لطیف مولانا عابد ندوی حفظہ اللہ مقیم جدہ)
دبستانِ دیوبند کے معتبر و مستند و لائقِ صد افتخار عالم دین و مفتی شرعِ متین و داعیِ راہِ مبین حضرت اقدس مولانا عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنیؒ، جو جنت البقیع کی بابرکت گود و با سعادت آغوش میں محو آرام ہیں، تلبیہ کے الفاظ میں کمی کو مکروہ قرار دیتے ہیں، چنانچہ تلبیہ کے مسائل کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
مسئلہ: تلبیہ کے الفاظ میں کمی کرنا مکروہ ہے۔ (دیکھئے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کیسے کیا؟ ص: ۵۹)
اور ماضی قریب کے کامیاب ترین و مشہور ترین مناظرِ اسلام شہرۂ آفاق کتاب معارف الحدیث کے مصنف حضرت مولانا منظور نعمانیؒ معارف الحدیث جلد چہارم، کتاب الحج کے ص: ۲۰۷ پر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے حوالے سے بخاری و مسلم کی روایت کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’بس یہی کلمات تلبیہ میں آپﷺ پڑھتے تھے، ان پر کسی اور کلمہ کا اضافہ نہیں فرماتے تھے‘‘۔
اور مفتی سلمان منصورپوری مد ظلہ العالی کتاب المسائل حج و عمرہ و زیارت مدینہ کے ص: ۱۴۲ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’تلبیہ کے الفاظ میں بعد میں زیادتی تو مستحب ہے، مگر درمیان میں زیادتی کرنا یا تلبیہ کے منقول الفاظ سے کم کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
٭٭٭
تلبیہ حج و عمرہ کا شعار ہے، بلند آواز تلبیہ سے اللہ کو بہت پیار ہے
موت و حیات، دن و رات، ارض و سماوات، اور ساری کائنات کے خالق و مالک کی نگاہ پاک میں تلبیہ نہایت ہی خوب عبادت ہے، بہت ہی محبوب طاعت ہے، اور زائرین کعبہ متبرکہ، حاضرین مکہ مشرفہ اورعازمین حج و عمرہ کی بلند پایہ سعادت ہے۔
تلبیہ حج و عمرہ کی بہت بڑی خوبی اور نہایت درجے کی خوبصورتی ہے، تلبیہ حج و عمرے کی زینت اور حج و عمرہ کرنے والے کے دل کا سکون و راحت ہے، تلبیہ اپنے معبود حقیقی و ربِّ اصلی کی محبت و معرفت کا نہایت ہی مفید و موثر اور غایت درجہ طاقتور ذریعہ ہے، تلبیہ سے ایمان کو تازگی، یقین کو پختگی، روح کو بالیدگی اور فکر و نظر کو بلندی نصیب ہوتی ہے، تلبیہ سے دل کا دور و کافور ہوتا ہے زنگ، شیطان نادان رہ جاتا ہے دنگ، اور آتا ہے اسلامی و ایمانی رنگ و ڈھنگ۔
تلبیہ کا حج و عمرہ کے لئے وہی کام ہے، وہی مقام ہے، اور وہی پیام ہے، جو تکبیر تحریمہ کا نماز جیسی عظیم الشان عبادت و بلند پایہ طاعت کے لئے ہے، کہ تکبیر تحریمہ کے بعد نمازمیں بہت سے جائز کام ناجائز ہو جاتے ہیں، اِدھر اُدھر دیکھنا، مخصوص و متعین کام و اذکار کے علاوہ کچھ بولنا، رُخ کا بدلنا، حرکت کرنا، سب سے روک دیا جاتا ہے، اور امام سے کچھ بھول ہو جائے تو کسی قول و فعل سے بتائے بغیرصرف تسبیح و تکبیر سے ٹوک دیا جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح احرام، نیت اورتلبیہ کے پکارنے کے بعد بہت سے درست کام و اعمال منع ہو جاتے ہیں، جیسے خوشبو لگانا، بال و ناخن کاٹنا، میاں بیوی کا خصوصی تعلق کے ذریعہ آپس میں غم بانٹنا، نکاح و شادی کا پیغام دینا، مردوں کے لئے سلے کپڑے پہننا، ٹوپی، عمامہ جیسی چیزوں سے سر ڈھانکنا وغیرہ، ان چیزوں کے ارتکاب سے صرف روکا ہی نہیں گیا ہے، بلکہ ان کے کرنے پر ایسا ہو گا غم، کہ دینا پڑے گا صدقہ یا واجب ہو گا دم، اور حج و عمرے کا وزن ہو جائے گا کم، اسی لئے قدرے وضاحت و صراحت سے یہ باتیں بتا رہے ہیں ہم۔
تلبیہ پکارنے میں خواتینِ اسلام اور دخترانِ خیر الانامﷺ کی آواز ہو دھیمی و پست، جبکہ مردوں کی ہو قدرے بلند و چست و مست، چنانچہ ایک حدیث پاک میں آیا ہے، میرے و آپ کے سرکار، سارے نبیوں کے سردار حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے، کہ تلبیہ حج و عمرے کا شعار ہے، اور بلند آواز تلبیہ سے اللہ کو بہت ہی پیار ہے، لہٰذا حدیث پاک کی یہ پکار ہے ،: ’’عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: جَائَ نِیْ جِبْرِیْلُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! مُرْ أَصْحَابَکَ فَلْیَرْفَعُوْا أَصْوَاتَہُمْ بِالتَّلْبِیَۃِ، فَاِنّھَا مِنْ شِعَارِ الْحَجِّ‘‘ ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنیؓ فرماتے ہیں، کہ صاحب لولاک، رسولِ پاکﷺ نے ارشاد سراپا رشاد فرمایا کہ: روح الامین حضرت جبرئیل بطور خاص آئے میرے پاس، اور کہا کہ اے محمد! آپ اپنے جاں نثاروں و پیاروں کو حکم فرمائیے کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ پڑھیں، کیوں کہ تلبیہ حج کا شعار ہے۔ (ابن ماجہ، باب رفع الصوت بالتلبیۃ، حدیث نمبر: ۲۹۲۳)
٭٭٭
تلبیہ سب سے زیادہ و بے اندازہ فضیلت والا عمل
تلبیہ سے حج و عمرہ کرنے والے کے دل میں ہوتا ہے اجالا، ان کا ایمان و ایقان ہوتا ہے دوبالا، تلبیہ سے توحید الٰہی و وحدانیت ربانی کا ہوتا ہے بول بالا، تلبیہ سے شیطان نادان ہوتا ہے نامراد اور اس کا منہ ہوتا ہے کالا، تلبیہ کا عمل ہے بہت ہی بلند و بالا، اور بے حد افضل و اعلیٰ، چنانچہ بی بی آمنہ کے سدا بہار پھول، اور اللہ کے لاڈلے رسول حضرت محمدﷺ نے تلبیہ کو حج و عمرہ کا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل بتایا ہے، لہٰذا گلشن نبوت و رسالت کے سب سے زیادہ مشکبار و خوشبو دار گلاب لاجواب و شاداب، یارِ غار، صدیق با اعتبار حضرت ابو بکر صدیقؓ نقل فرماتے ہیں: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ و سلم سُئِلَ: أَیُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: الحَجُّ وَالثَّجُّ۔
حدیث پاک کی ترجمانی راقم آثم کی زبانی:
رسولوں میں سب سے زیادہ مقبول، صادق و مصدوق، جن پر ہوا فرمانِ رحمان، قرآنِ عالی شان کا نزول، حضرت محمدﷺ نے اس سوال کے جواب میں کہ: حج میں کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ اور افضل و اعلیٰ ہے؟ ارشاد سراپا رشاد فرمایا: ’’بلند بالا آواز سے تلبیہ پڑھنا، اور قربانی میں خون بہانا‘‘۔ (ترمذی شریف، کتاب الحج، باب ماجاء فی فضل التلبیۃوالنحر، حدیث نمبر: ۸۲۷، ابن ماجہ: کتاب المناسک، باب الظلال للمحرم، حدیث نمبر: ۲۹۲۴)
تلبیہ کی کثرت و زیادت، مقصود و مطلوب اور مرغوب و محبوب ہے، چنانچہ زیادہ و بے اندازہ تلبیہ پڑھنے سے دل ہوتا ہے صاف و شفاف، اور انسان گناہوں سے ہوتا ہے پاک و صاف، اور ستار العیوب و غفار الذنوب اس کو کر دیتا ہے معاف، لہٰذا مجسم انصاف اور سراپا عفاف حضرت اقدس محمدﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مَا زَاحَ مُسْلِمٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مُجَاھِداً أَوْ مھُِلاً أَوْ مُلَبِّیاً إلآَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ بِذُنُوْبِہِ، وَ خَرَجَ مِنْھَا‘‘۔ (رواہ الطبرانی فی الأوسط: ۶۱۶۱) جب کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ، اعلیٰ ہی اعلیٰ کی راہ میں جہاد یا حج کے لئے کلمہ طیبہ یا تلبیہ پڑھتے ہوئے نکلے تو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اس کے گناہ ہو جاتے ہیں معاف، اور وہ مسلمان گناہوں سے ہو جاتا ہے پاک و صاف۔
٭٭٭
تلبیہ پڑھنے والے کی یہ ہے سعادت، اس کے لئے ہے جنت کی بشارت
تلبیہ واحد و أحد، غنی و صمد، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عظیم شہ کار ہے، تلبیہ چاندنی و روشنی کا مینار ہے، تلبیہ رحمت و برکت کی پھوار ہے، تلبیہ کی زیادتی حج و عمرے کی مقبولیت ومحبوبیت کا معیار ہے، تلبیہ اپنے پروردگار، پالنہار، اور حمد و ثنا کا تنہا سزاوار کی عقیدت ومحبت کا بہت بہت پیارا و بے حد و بے حساب نرالا اور غایت درجہ خوبصورت اظہار ہے، تلبیہ بندے کی انتہا درجہ کی عاجزی، انکساری، شکستگی، وارفتگی، بے کسی و بے بسی کا اعتراف اور اپنے مالک و خالق، حاکم و رازق کے مشکل کشا و حاجت روا، کارساز و بے نیاز، قادرِ مطلق و معبودِ برحق، اور مختارِ کل ہونے کا اقرار ہے، جس سے کبریائی و بڑائی کے مالک کو حد درجہ پیار ہے، تلبیہ پکارنے والا صرف اور صرف خدائے واحد کا پرستار ہے، توحید الٰہی کا علمبردار ہے، اور ماجد دیوبندی کے اس توحید شعار شعر کا مصداق ہے:
سامان تجارت میرا ایمان نہیں ہے
ہر در پر جھکے سر یہ میری شان نہیں ہے
اور شرک سے نفرت خیز، توحید آمیز اور اس فکر انگیز شعر کا بھی مصداق ہے:
ہو جس میں عبادت کا دھوکہ مخلوق کی وہ تعظیم نہ کرنا
جو خاص خدا کا حصہ ہے، بندوں میں اسے تقسیم نہ کرنا
اور تحریک آزادی کے عظیم قائد و بے باک مردِ مجاہد مولانا محمد علی جوہر کے اس توحید شعار اور شرک سے نفرت شعار شعر کا بھی مصداق و ترجمان و پاسبان ہے:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
تلبیہ بہت بہت پڑھنے والے کا خالق کون و مکان کے دربار عالی وقار میں بہت اونچا مقام ہے، اسی لئے وہ اس کے نزدیک باوقار بھی ہے اور با اعتبار بھی، تلبیہ پڑھنے والے کے لئے باغ و بہار ہے، اس کو أھَلاً وَ سھلاً مرحبا اور خوش آمدید کہنے کے لئے جنت تیار ہے، لہٰذا ارشاد عالی وقار و باعث صد افتخار ہے، جب تلبیہ پڑھنے والا بلند آواز سے تلبیہ پڑھتا ہے، اور تکبیر کہنے والا بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے، تو اس کو ضرور بشارت دی جاتی ہے، دریافت کیا گیا یا رسول اللہﷺ کیا جنت کی بشارت دی جاتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ (رواہ الطبرانی وصححہ الألبانی)
٭٭٭
تلبیہ ربِّ جلیل کے حکم پر لگائی گئی ندائے خلیل کا جواب ہے
اللہ بے مثال و لا زوال کے سب سے بڑے پرستار، توحید الٰہی کے سب سے بڑے علمبردار، اور توحید باری کی نشر و اشاعت، خدمت و حفاظت میں اپنا تن من دھن سب کچھ جنہوں نے کر دیا نچھاور و نثار، اور جو اپنے رب کے حکم و اشارہ پر نازک سے نازک ترین وقت و سخت سے سخت ترین نامساعد حالات میں بھی سب کچھ لٹانے، مٹانے اور سر تک کٹانے کے لئے دل و جان سے ہمیشہ رہے تیار، حضرت ابرہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر، و اولو العزم، عظیم المرتبت اور صبر و ثبات کے پہاڑ، اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے فرزند ارجمند و دلبند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تلبیہ یادگار اور ربِّ جلیل کے حکم پر لگائی گئی ندائے خلیل کا جواب ہے۔
تلبیہ رسولوں کے سرتاج، ساری کائنات پر ہے جن کی عزت و عظمت کا راج، اور جو ہیں صاحب معراج، حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیﷺ، آپ کے پاکیزہ، برگزیدہ وکعبہ رسیدہ اصحاب اور ان گنت اولیائ، اصفیاء و اتقیاء کی نقل ہے۔
اللہ کرے کہ ہم عازمین حج و عمرہ کی یہ نقل ہو جائے مصداق اصل، آمین یا رب العالمین۔
اور ہم زائرین کعبہ متبرکہ و حاضرینِ مکہ مکرمہ اپنے حبیب مجسم لبیب حضرت محمدﷺ کی محبت و اتباع شعار اس شعر کے مصداق ہو جائیں:
یارب تیرے محبوب کی شباہت لے کر آیا ہوں
حقیقت اس کو تو کر دے، میں صورت لے کر آیا ہوں
ہمارے درسی ساتھی، جن کی فاضلانہ، فقیہانہ اور عالمانہ کتابوں کے وزن سے دب جائے ہاتھی، عفت مآب و عالی جناب مفتی سلمان صاحب منصور پوری قاسمی مد ظلہ العالی جو سادہ و سلیس، عمدہ و نفیس، شگفتہ و دلنشین اردو کے فاؤنڈر، فقہ اسلامی کے عظیم رائٹر اور ندائے شاہی کے کامیاب ایڈیٹر ہیں، اپنی مقبول ترین کتاب لاجواب، کتاب المسائل جلد سوم، بیان حج و عمرہ و زیارت مدینہ منورہ میں ’’ تلبیہ ندائے خلیل کا جواب ہے‘‘ کے تحت نہایت ہی معلومات افزا، ایمان آفرین، روح بخش، اور بصیرت افروز انداز سے تلبیہ کے تعلق سے تحریر فرماتے ہیں:
’’تلبیہ در اصل اس ندائے ابراہیمی کا جواب ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد بحکمِ خداوندی پہنچائی تھی، تو جس شخص نے بھی اس ندا کے جواب میں عالمِ ارواح میں جتنی مرتبہ لبیک کہا تھا، اسے اتنی ہی مرتبہ حج و عمرہ کی توفیق نصیب ہو گی، حضرت ابو الطفیل سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں، کہ مجھ سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے پوچھا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تلبیہ کی اصل کیا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: کہ نہیں، تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کا اعلان کرنے کا حکم ہوا تو پہاڑوں نے اپنی چوٹیاں جھکا لیں، اور شہر و آبادیاں ان کے لئے بلند کر دی گئیں، پھر آپ علیہ السلام نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا، تو ہر چیز نے لبیک کہ کر جواب دیا، نیز حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ قیامت تک وہی لوگ حج کریں گے، جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جواب تلبیہ پڑھ کر دیا ہو گا۔ ( رسول اللہ کا طریقۂ حج، ص: ۱۷۰ بحوالہ: عمدۃ القاری، ج: ۹، ص: ۱۷۲، کتاب المسائل، ج: ۳، ص: ۱۴۲)
تلبیہ کے متعلق عالم اسلام کے مایہ ناز فقیہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنی شاہکار کتاب قاموس الفقہ جلد دوم میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں:
تلبیہ ان کلمات کو کہتے ہیں:
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ۔
میں حاضر ہوں، بارِ الٰہا! میں حاضر ہوں، آپ کا کوئی شریک نہیں، بے شک تمام تعریفیں آپ کو سزاوار، تمام نعمتیں آپ کی ملکیت، آپ ہی مالک ہیں، کوئی آپ کا شریک نہیں۔
عام طور پر غالباً آپﷺ اسی قدر فرمایا کرتے تھے، اس لئے ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ اس سے زیادہ نہیں کہتے تھے، اسی لئے فقہاء کی رائے ہے کہ اس پر دعائیہ، یا حمدیہ الفاظ کا اضافہ تو کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جا سکتی، لیکن بعض احادیث میں آپﷺ سے درج ذیل الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں، جو غالباً ایک اتفاقی امر تھا، اور جس سے ان کلمات کا بھی جواز ملتا ہے:
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، وَالْخَیْرُ فِیْ یَدَیْکَ، وَالرَّغْبیٰ اِلَیْکَ وَالْعَمَلُ۔
میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، اور تیری موافقت کرتا ہوں، اے خداوند عالم! تمام بہتری تیرے قبضہ میں ہے، اور تمام آرزوئیں اور تمنائیں تیری طرف ہیں۔
تلبیہ سے فراغت کے بعد آپﷺ جنت، رضائے خداوندی اور دوزخ سے نجات کی دعا بھی مانگا کرتے تھے، حج کے دوران تلبیہ کی بڑی فضیلت آئی ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص تلبیہ کہتا ہے، تو یہاں سے وہاں تک اس کے دائیں بائیں کے درخت و پتھر اور مکانات اس کے ساتھ شریک رہتے ہیں، تلبیہ بلند آواز میں کہنا چاہیے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپﷺ کو باضابطہ اطلاع دی کہ اپنے صحابہ کو بہ آواز بلند تلبیہ کا حکم فرمائیں۔
تلبیہ کی ابتداء یوں ہو گی کہ غسل کر کے ’’میقاتِ احرام‘‘ پر یا اس سے پہلے احرام کا لباس پہنے، پھر دو رکعت نماز پڑھے، حج کی نیت کرے، اور قبولیت کی دعا کرے، پھر تلبیہ کہے، اب اس وقت سے جس قدر تلبیہ کہے بہتر ہے، خاص کر چڑھتے، اترتے نمازوں کے بعد، صبح گاہی میں زیادہ کہے، یہاں تک کہ دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں جمرۂ عقبہ پر پہلی کنکری پھینکنے کے ساتھ ہی تلبیہ کا ورد بند کر دے۔ (قاموس الفقہ، جلد دوم، صفحہ ۵۲۷ و ۵۲۸)
تلبیہ کے تعلق سے العربی بن رزوق، ریاض، سعودی عرب مختصر مگر نہایت ہی معلومات افزا انداز سے لکھتے ہیں:
’’حج یا عمرہ کرنے والا احرام باندھنے کے بعد میقات سے بآواز بلند یہ کہنا شروع کر دیتا ہے:
لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَشَرِیْکَ لَکَ۔
’’حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، یقیناً سب تعریفیں اور نعمتیں تیرے ہی لئے ہیں، اور ساری بادشاہت بھی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔
اسی کو تلبیہ کہتے ہیں، یعنی لَبَّیْکَ (میں حاضر ہوں ) کہنا، تلبیہ، میقات سے شروع کیا جاتا ہے، اور یہ سلسلہ مسجد حرام یا بیت اللہ پہنچنے تک جاری رہتا ہے، میقات، وہ مقامات ہیں جو نبیﷺ نے حج اور عمرے کا احرام باندھنے کے لئے مقر رفرمائے ہیں، وہاں پہنچ کر حج اور عمرہ کرنے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ احرام کی حالت میں آ جائے۔
حج کے دنوں میں یوم ترویہ، یعنی ۸ ذوالحجہ کومکہ سے منیٰ کے لئے روانگی کے وقت تلبیہ پھر سے شروع ہوتا ہے، اور بلند آواز میں زیادہ سے زیادہ کہا جاتا ہے، ۱۰؍ ذوالحجہ کو جمرۂ عقبہ پر رمی (سنگ باری) کرنے تک تلبیہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، مردوں کو تلبیہ بلند آواز سے، لیکن عورتوں کو نسبتاً آہستہ آواز سے کہنا ضروری ہے۔ (بچوں کا اسلامی انسائیکلو پیڈیا، مترجم: محمد یحیی خان، صفحہ نمبر: ۷۷)
٭٭٭
لبیک پڑھنا ایسی عبادت ہے پیاری، جس کا سلسلہ ہر وقت ہے جاری
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادتوں اور اس کی طاعتوں میں نماز، اذان، ذکر و تلاوت، طواف، درود و سلام اور صفا و مروہ کی سعی ایسی عبادت اور اہم طاعت ہے، جس کا سلسلہ ہر وقت چلتا رہتا ہے، کسی آن اور کسی لمحہ بند نہیں ہوتا ہے، ایک جگہ اور ایک وقت میں اس کا سلسلہ مکمل و ختم ہوتا ہے تو دوسری جگہ اور دوسرے وقت میں معاً اس کے بعد ہی اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، لہٰذا چوبیس گھنٹہ میں کوئی لمحہ اور کوئی لحظہ ایسا نہیں ہے، جس میں دنیا کے کسی نہ کسی حصہ اور کسی نہ کسی کونہ میں اذان و اقامت نہ پکاری جا رہی ہو، اور کتاب الٰہیٰ و نماز نہ پڑھی جا رہی ہو۔
ٹھیک اسی طرح لبیک پکارنا اور تلبیہ کا پڑھنا معبود بر حق و قادر مطلق کی عالی وقار بارگاہ اور مقدس نگاہ میں ایسا پسندیدہ عمل اور ایسا پیارا کام ہے، جس کاسلسلہ طواف کی طرح ہر وقت جاری رہتا ہے، دن و رات، صبح و شام ہر آن، ہر گھڑی تلبیہ پکارنے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، کبھی بند نہیں ہوتا ہے، ہاں البتہ گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کوحج کے کام و اعمال کی وجہ سے عمرہ کرنا منع کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے صرف مذکورہ بالا ایام میں تلبیہ پکارنے اور لبیک پڑھنے کا سلسلہ تقریباً بند رہتا ہے، اس کے علاوہ پورے سال تلبیہ پکارنے کا مبارک و مقبول اورمحبوب سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
اور حضرات اہل حدیث کے نززدیک مذکورہ بالا ایام میں بھی عمرہ منع نہیں ہے، چنانچہ دار السلام ریاض کے مدیر اور مسلک اہل حدیث کے ترجمان عبد المالک مجاہد دارالسلام سے شائع ہونے والی کتاب ’’مسنون حج و عمرہ، فضیلت و اہمیت، احکام و مسائل‘‘ کے صفحہ ۷۵ پر حج و عمرہ کے اہم امور کے زیر عنوان لکھتے ہیں: ’’حج کے مہینے یہ ہیں: ۱) شوال، ۲) ذوالقعدہ، ۳) ذوالحجہ کا پہلا عشرہ، حج کے لئے احرام صرف انہیں مہینوں میں باندھا جا سکتا ہے، جبکہ عمرہ کے لئے احرام سال بھر میں کسی بھی وقت باندھا جا سکتا ہے‘‘۔
لہٰذا گیارہ، بارہ، و تیرہ ذی الحجہ کو بھی بلا کسی ناغہ اور وقفہ کے تلبیہ کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، کسی لمحہ تلبیہ پکارنے کا سلسلہ نہ رکتا ہے نہ بند ہوتا ہے، اس لئے یہ عاجز کہتا ہے: لبیک پڑھنا ایسی عبادت ہے پیاری، جس کا سلسلہ ہر وقت ہے جاری۔
٭٭٭
تلبیہ محبتِ الٰہی کے اظہار کا الہامی و مثالی طریقہ
تلبیہ محبت الٰہی، عظمت ربانی، اور وحدانیتِ باری کے اظہار کا الہامی طریقہ و مثالی سلیقہ ہے، جس سے دل کی صفائی اور اس کا تزکیہ ہوتا ہے، شگفتگی، وارفتگی، کیف و مستی، نشاط و چستی، صدق و خلوص، رقت و خشیت، تقویٰ و للٰہیت، ذوق و شوق، خشوع و خضوع کے ساتھ جو تلبیہ پڑھا جاتا ہے، اور زبان پر آتا ہے، وہ دل پر پروردگار عالم کی لازوال و بے مثال محبت و عظمت کا نقش و عکس ثبت کر دیتا ہے، اور شرک و کفر کی نجاست و کثافت سے حد درجہ رنجور و نفور اور دور کر دیتا ہے، پھر اپنے خالق و رازق کی ایسی انمٹ محبت قلب و دماغ پر مرتسم اور نقش ہو جاتی ہے کہ آدمی اللہ کی محبت و عظمت اور اس کی وحدانیت کی اشاعت و حفاظت میں اپنا سب کچھ لٹا و مٹا دیتا ہے، اور اپنا سر بھی کٹا دیتا ہے، پھر وہ ان توحید شعار، خدا کی خالص عبادت شعار اور تقویٰ و طہارت شعار اشعار کا مصداق بن جاتا ہے۔
بے خطر کود پڑا، آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
الٰہی! مجھے بھی شہادت نصیب
یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
میری زندگی کا مقصد، تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں، میں اسی لئے نمازی
پھر تلبیہ پڑھنے والے کی یہ کیفیت ہوتی ہے، اور اس کی ایسی ایمانی طاقت و قوت ہوتی ہے، تلبیہ کے ذریعہ وہ اللہ کی محبت کا ایسا کرتا ہے اظہار، کہ اللہ تعالیٰ اس سے کرتا ہے حد درجہ پیار، اور اللہ تعالیٰ خود اس کے لبیک کے جواب میں اس سے کہتا ہے: لبیک یا عبدی لبیک! اے میرے بندہ! تم حاضر ہو اور تلبیہ کے ذریعہ میری مخلصانہ و والہانہ محبت کا کر رہے ہو اظہار، تو میں بھی تم کو لبیک یا عبدی، لبیک یا عبدی کہتا ہوں بار بار، سبحان اللہ یہ ہے شان تلبیہ پکارنے والے کی، توآئیے ہم بھی تلبیہ پکارنے کی تیاری کریں، پہلی فرصت میں حج و عمرہ کرنے کی کوشش کریں، اسباب اختیار کریں، اور دعا کریں:
نہیں ہے کام زبان کا کچھ اب دعا کے سوا
نظر کسی پر نہیں ربِّ دوجہاں کے سوا
٭٭٭
اللہ ایک ہے، جو اسے مانے وہی نیک ہے
اسلام میں سب سے بنیادی و کلیدی عقیدہ، توحید باری و وحدانیت ربّانی کا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی ذات، اپنی صفات اور اپنی بات کے اعتبار سے کسی کا محتاج نہیں، سب کے سب اسی کے ہیں محتاج، نبی ہو یا ولی، غنی ہو یا علی، سب کی وہی رکھتا ہے لاج، سب کے سر پر وہی رکھتا ہے کامیابی، نیک نامی اور فائز المرامی کا تاج، ساری کائنات پہ صرف اور صرف اسی کا ہے راج، وہی اگاتا ہے اناج، وہی بناتا ہے سب کے کام و کاج، اور اسی نے اپنے فضل و کرم کے صدقہ، خلاصۂ کائنات، افضل و اشرف مخلوقات حضرت محمدﷺ کو بنایا ہے صاحب معراج، صرف وہی نفع و نقصان کا مالک ہے، وہی عالم کی ہر چیز کا خالق و رازق ہے، لہٰذا ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ ایک ہے، جو اسے مانے وہی نیک ہے، اور اسی کے لئے جنت میں مزے دار و خوشبو دار کیک ہے، تلبیہ اس عقیدۂ توحید کا امین و محافط اور سب سے بڑا وکیل ہے، تلبیہ اس عقیدہ کا سب سے بڑا محرک و داعی ہے، اور تلبیہ پڑھنے والا اس عقیدہ کا سب سے بڑا شیدائی، فدائی، مخلص داعی اور جانباز سپاہی ہے۔
٭٭٭
اللہ شرک سے پاک ہے، شرک کرنے والا ناپاک ہے
اسلام اور دین محمدی و شریعتِ مصطفویﷺ میں سب سے بڑا پاپ، اللہ کے لئے ماننا ہے بیٹا و باپ، اسی گھناؤنے عقیدے کے رد و توڑ میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا سورۃ الاخلاص، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی کو اس کا ہمسر بتانا سب سے بڑا ظلم ہے، چنانچہ قرآن پاک کا قہر آلود و جلال سے بھرپور اعلان و بیان ہے، {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ}، ترجمہ: ’’بے شک شرک جرمِ عظیم ہے‘‘، اور یہ عقیدہ رکھنا اور اس پر عمل کرنا سب سے زیادہ ہے ضروری، چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو مجبوری، کہ اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے، جو شرک کرے وہ سراپا ناپاک ہے، چنانچہ ارشادِ پاک ہے: {اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ} ترجمہ: ’’مشرکین تو سراپا ناپاک ہی ہیں‘‘۔
تلبیہ شرک کی جڑ کو کاٹتا ہے، توحید کا تحفہ بانٹتا ہے، خلوص و وفا اور صدق و صفا کے ساتھ تلبیہ پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ شرک کی گندگی سے بچاتا ہے، اور توحید کا جام پلاتا ہے، تلبیہ سے شرک سے نفرت و دوری پیدا ہوتی ہے، اور خدائے واحد کی محبت بڑھتی و پروان چڑھتی ہے، جس کے صدقے میں آدمی شرک سے بچتا اور دور رہتا ہے۔
٭٭٭
تلبیہ کے بارے میں نبوی اصول اور مصطفوی معمول
محبوب پروردگار، رسول مختار، عالی وقار و باعثِ صد افتخار حضرت اقدس محمدﷺ کا تلبیہ کے بارے میں جو اصول و معمول تھا، اس کو میدانِ فقہ کے عظیم شہسوار، جلیل القدر فقہی شناور اور عظیم المرتبت صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمرؓ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ عَنْ عَبْدِ اللّٰہ بْنِ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم اِذَا أَدْخَلَ رِجْلَہُ فِیْ الَغَرَزِ، وَاسْتَوَتْ بِہِ نَاقَتُہُ قَائِمَۃً، أَھَلَ مِنْ عِنْدِ مَسْجِدِ ذِیْ الْحُلَیْفَۃَ‘‘۔ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے منقول، پیارے نبیﷺ کا یہ ہے معمول، کہ مدینہ کی میقات مسجد ذو الحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد جب آپﷺ اسی مسجد کے پاس اپنی اونٹنی کی رکاب میں پاؤں مبارک رکھتے اور اونٹنی آپﷺ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو جاتی، تو اس وقت آپﷺ احرام کا تلبیہ پڑھتے۔
تلبیہ کے بارے میں مذکورہ نبوی اصول و مصطفوی معمول اور جو باتیں آپﷺ سے ہیں منقول اس کی شاندار و پُر بہار اور نہایت ہی عالمانہ، محدثانہ، محققانہ، عارفانہ اور فاضلانہ صراحت کرتے ہوئے حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے مایہ ناز و ممتاز شاگردِ رشید حضرت مولانا منظور نعمانی (حدیث کی تشریح و توضیح کے معاملے میں جن پر اللہ تعالیٰ کی ہے خاص مہربانی، اور جن سے شیطان ہوتا رہتا تھا شرم سے پانی پانی، اور مرتی تھی اس کی نانی) اپنی شہرۂ آفاق کتاب معارف الحدیث، ج: ۴ کتاب الحج کے صفحہ نمبر ۲۰۸ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’صحابۂ کرام کی روایات اور ان کے اقوال اس بارے میں مختلف ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع میں احرام کا پہلا تلبیہ کس وقت اور کس جگہ پڑھا تھا، حضرت عبد اللہ بن عمر کا بیان (جیسا کہ اس حدیث میں بھی مذکور ہے ) یہ ہے کہ: ’’ذوالحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد آپﷺ وہیں اپنی ناقہ پر سوار ہوئے، اور جب ناقہ آپﷺ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو اس وقت آپﷺ نے پہلی دفعہ تلبیہ پڑھا، اور گویا اس وقت سے آپ محرم ہوئے، بعض دوسرے صحابہ کا بیان ہے کہ جب آپﷺ ناقہ پر سوار ہو کر کچھ آگے بڑھے اور مقامِ بیداء پر پہنچے (جو ذوالحلیفہ کے بالکل قریب کسی قدر بلند میدان تھا) تو اس وقت آپﷺ نے پہلا تلبیہ کہا، اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپﷺ نے مسجد ذوالحلیفہ میں دوگانۂ احرام پڑھا تو اسی وقت ناقہ پر سوار ہونے سے پہلے آپﷺ نے پہلا تلبیہ پڑھا، سنن ابی داؤد اور مستدرک حاکم وغیرہ میں مشہور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن جبیرؒ کا ایک بیان مروی ہے کہ میں نے عبد اللہ بن عباسؓ سے صحابہ کرام کے اس اختلاف کے بارے میں دریافت کیا تھا، تو انہوں نے بتایا کہ: اصل واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسجد ذو الحلیفہ میں دوگانۂ احرام پڑھنے کے بعد متصلاً پہلا تلبیہ پڑھا تھا، لیکن اس کا علم صرف چند لوگوں کو ہوا، جو اس وقت آپﷺ کے قریب وہاں موجود تھے، اس کے بعد جب آپﷺ وہیں ناقہ پر سوار ہوئے، اور ناقہ سیدھی کھڑی ہوئی، تو اس وقت پھر آپﷺ نے تلبیہ پڑھا، اور ناقہ پر سوار ہونے کے بعد یہ آپﷺ کا پہلا تلبیہ تھا، تو جن لوگوں نے یہ تلبیہ آپﷺ سے سنا، اور پہلا نہیں سنا تھا، انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ پہلا تلبیہ آپﷺ نے ناقہ پر سوار ہو کر پڑھا، پھر جب ناقہ چل دی، اور مقام بیداء پر پہنچی تو پھر آپﷺ نے تلبیہ پڑھا، تو جن لوگوں نے پہلا اور دوسرا تلبیہ آپﷺ سے نہیں سنا تھا، انہوں نے سمجھا کہ آپﷺ نے پہلا تلبیہ اس وقت پڑھاجب آپﷺ بیداء پر پہونچے۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے اس بیان سے اصل حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے‘‘، مختصر یہ ہے کہ نبوی اصول، مصطفوی معمول اور آپﷺ سے منقول روایات کی روشنی میں نیت کے بعد فوراً تلبیہ پڑھا جائے۔
٭٭٭
ضروری نوٹ: تلبیہ کے بعد مندرجہ ذیل دعا سے دور کریں دل کا کھونٹ
اس شخص پر خدا کی رحمت ہو، جس کی یہ حالت ہوتی ہے
خدا کی رضا و جنت کی طلب میں جس کی آنکھ ہمیشہ روتی ہے
اللہ کی رحمت ہے آئی، لہٰذا پہلے کر لیں صاف صفائی، پھر غسل فرما لیں تمام حج و عمرہ کرنے والے بھائی، پھر حج و عمرہ کی نیت کے فوراً بعد لگاتار تلبیہ پڑھیں تین بار، پھر رحمت کائنات و افضل مخلوقات و خلاصۂ کائنات حضرت محمد مصطفی و احمد مجتبیﷺ پر درود پاک ایک بار، بعد ازیں نہایت ہی والہانہ، عاجزانہ اور مخلصانہ انداز فقیرانہ و درد مندانہ آواز سے یہ دعا مانگیں بار بار یا کم از کم ایک بار، اللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ، وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ مذکورہ بالا دعا (جس کے پڑھنے سے چہرہ روشن ہو گا، اور دل میں ہو گا اجالا، نیز شیطان کا منہ ہو گاکالا اور ایمان و یقین ہو گا دوبالا) کی ترجمانی اس راقم آثم خاکپائے ابو القاسمﷺ کی زبانی: ’’ اے میرے معبود و مسجود اور مطلوب و مقصود! بے شک ہم آپ ہی سے آپ کی رضا و خوشی اور جنت مانگتے ہیں، اور یقینی طور پر آپ کے قہر و غضب اور آگ (دوزخ) سے آپ کی پناہ طلب کرتے ہیں‘‘۔
تلبیہ کے بعد خاص طور پر مذکورہ بالا دعا مانگنے کی تائید اس حدیث پاک سے ہوتی ہے: عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أَنَّہُ کَانَ اِذَا فَرَغَ مِنْ تَلْبِیَتِہِ سَأَلَ اللّٰہَ رِضْوَانَہُ وَالْجَنّۃَ وَاسْتَعْفَاہُ بِرَحْمَتِہِ مِنَ النَّارِ۔ (رواہ الامام الشافعی فی مسندہ فی کتاب المناسک برقم: ۵۷۴)
ترجمہ: حضرت عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں، کہ رسول پاکﷺ جب تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کی دعا کرتے، اور اس کی رحمت سے دوزخ سے خلاصی اور پناہ مانگتے۔ (مسند امام شافعی)
ماضی قریب کے مشہور و معروف مناظرحضرت مولانا منظور نعمانیؒ (جنہوں نے خوب کیا حق کا کام، روشن کیا اسلام کا نام، اور باطل قوتوں کو مکمل طور پر کیا ناکام) اپنی مقبولِ خاص و عام کتاب معارف الحدیث ج: ۴، ص: ۲۱۱ پر مذکورہ حدیث کی تشریح فرماتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’اس حدیث کی بنا پر علماء نے تلبیہ کے بعد ایسی دعا کو افضل و مسنون کہا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کا سوال کیا جائے، اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگی جائے، ظاہر ہے مومن بندہ کی سب سے بڑی حاجت اور اس کا سب سے اہم مقصد دعا ہی ہے، اس کے بعد اس کے علاوہ بھی جو چاہے دعا کرے۔
سہ ماہی عربی مجلہ ’’النصیحۃ‘‘ کے ایڈیٹر، اردو و عربی رائٹر، اور المعہد الاسلامی العربی و بزم ثقافت و نشریاتِ اسلام مظفرپور، بہار، انڈیا کے فاؤنڈر، عزیز سراپا لذیذ (اللہ بنائے ان کو ہر دلعزیز) مولوی حافظ محمد حماد اشرف کریمی ندوی حفظہ اللہ و رعاہ اپنی چھوٹی سی مگر مقبول ترین کتاب ’’طریقہ حج و عمرہ و زیارت مدینہ‘‘ کے صفحہ نمبر: ۷ پر لکھتے ہیں:
’’تلبیہ کے بعد پست آواز سے درود شریف اور یہ دعا پڑھیے: ’’اللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ رِضَاکَ وَ الْجَنَّۃَ، وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ‘‘۔
لہٰذا عازمین حج و عمرہ و زائرین کعبہ مقدسہ و مدینہ منورہ سے راقم السطور کی یہ گذارش ہے کہ آپ حضرات مذکورہ بالا اہم باتوں اور تمام دعاؤں کو اپنی خاص یادداشت میں ضرور بالضرور کر لیں نوٹ، اور اس کو پڑھ پڑھ کر ہلاتے رہیں ہونٹ، تا کہ دل سے دور و کافور ہو جائے کھونٹ، اور لاڈلے رسول، بی بی آمنہ کے چمن کے سدا بہار پھول، حضرت محمدﷺ کے مبارک ہاتھوں ملے کوثر کا گھونٹ، اور شیطان کو خوب لگے چوٹ۔
زائرین کعبہ مشرفہ و روضۂ منورہ، حاضرین مکہ پاک و مدینہ شریف! خصوصاً عازمین حج و عمرہ سے میری ہے یہ عاجزانہ، برادرانہ و درد مندانہ گزارش کہ آپ حضرات اپنے ساتھ ساتھ میری قبول فرما لیں یہ بات کہ دعا کے قبول ہونے کے اس خاص موقع پردعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں خصوصاً اس حقیر بندہ سراپا گندہ کی مغفرت فرما دے بال بال، اس کو ماں باپ، بیوی و اولاد کے ساتھ جنت میں کر دے بحال، اپنی رضا و خوشنودی سے کر دے نہال، اپنے قہر و غضب اور دوزخ کی آگ سے نجات دے کر کر دے اس کا اچھا حال، مع والدین و اہل وعیال، آمین یا غفار یا ستار یا ذا الجلال۔
٭٭٭
مسلمانوں کو راحت دینا ہے شرعی قانون، اس کا ہرگز نہ کریں خون
تلبیہ پکارنا، اس کا چست و مست ہو کر پڑھنا، بلند آواز میں مسلسل تلبیہ کا جاری رکھنا، بڑی سعادت، اہم عبادت، بے حساب ثواب کی حامل طاعت اور بے پناہ و ا تھاہ اجر و بدلہ والی سنت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ، برتر و بالا، بہت خوش ہوتا ہے، اور شیطان بے حد روتا ہے، مگر اس بات کا ضرور رہے لحاظ و خیال کہ ہماری آواز سے آرام کرنے والے ساتھیوں خصوصاً منی، عرفات اور مزدلفہ میں تھک کر سونے والے حاجیوں، شہنشاہ اعظم کے مہمانوں کو تکلیف نہ ہو جائے، لہٰذا ان سے ہٹ کر قدرے فاصلہ سے اور ذرا دھیمی آواز سے تلبیہ پکارے، تا کہ سونے والے بھائیوں کا آرام نہ ہو جائے حرام، اور اس بات کو ضرور ذہین نشین رکھیں کہ ہر کام اور ہر مقام میں مسلمانوں خصوصاً اللہ کے مہمانوں کی راحت ہے دینی، شرعی و اسلامی قانون، اس کا ہرگز نہ کریں خون، ایک دوسرے کا نہ کرنے کی وجہ سے اکرام اور اس کے آرام کو کر دینے کی وجہ سے حرام، اکثر دیکھا گیا ہے کہ مقاماتِ مقدسہ و متبرکہ میں بھی آپس میں بدمزگی، شکر رنجی اور تلخی پیدا ہو جاتی ہے، بلکہ مار پیٹ تک کی نوبت آ جاتی ہے، جو بڑے صدمہ و افسوس کی بات ہے، جس سے بچنا بہت ضروری اور ہزار بات کی ایک بات ہے، اسی لئے شریعت و سنت اس طرح کی باتوں سے بچانا چاہتی ہے، اور اس کی طرف سے یہ صدا اور اہم ندا آتی ہے: {فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الَحَجِّ}(سورۂ بقرہ: ۱۹۷) مذکورہ آیت شریفہ کی ترجمانی: ’’حج کے دنوں میں حاجیوں کے لئے بے حیائی، نافرمانی اور لڑائی سے پورے طور پر بچنا لازم اورمکمل طور پر پرہیز کرنا ضروری ہے‘‘۔
عازمین حج و عمرہ اور زائرین حرمین محترمین کے اعزاز میں مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ کے کونے کونے، گوشے گوشے اور ان کی در و دیوار کے حصے حصے و چپے چپے میں یہ جاں فزا اور روح افزا استقبالیہ جملہ لکھا ہوا ہے: ’’ قُدُوْمُکُمْ أَسْعَدُنَا، وَرَاحَتُکُمْ مَطْلَبُنَا‘‘ حضرات معتمرین، حجاج و زائرین! آپ کی آمد ہمارے لئے باعث سعادت، اور آپ کی راحت ہماری چاہت ہے، لہٰذا ہم اس اعزاز کا احترام کریں، تمام حاجیوں کا اکرام کریں، اور اللہ کے مہمانوں کو اپنی آواز اور اپنے انداز سے بالکل تکلیف نہ دیں، اور اس محبت شعار و راحت شعار شعر کے مصداق بنیں:
ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے لیکن
لوگ بے درد ہیں، کلیوں کو مسل دیتے ہیں
٭٭٭
تلبیہ کے اوقات میں مسنون دیگر دعائیں اور اذکار
حجاج و معتمرین کے لئے ذکر و اذکار، توبہ و استغفار، درود و سلام اور مسنون دعاؤں کا پڑھنا نہایت پسندیدہ عمل اور بہت ہی اجر و ثواب کا کام ہے، اسی طرح عازمین حج و عمرہ کے لئے تلبیہ کے اوقات میں تلبیہ کے علاوہ دوسرے اوراد و وظائف، دعا و درود اور تکبیر و تہلیل کا کہنا و پڑھنا نہایت ہی سعادت و بشارت کی چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کو بہت ہی عزیز ہے، چنانچہ رسولِ اعظم، نبیِٔ اکرم، اور شفیع محترمﷺ کا ارشادِ عالی ہے، ’’مَاسَبَّحَ الْحَاجُّ مِنْ تَسْبِیْحَۃٍ وَ لاَ ھَلَّلَ مِنْ تھَلِیْلَۃٍ وَلَا کَبَّرَ مِنْ تَکْبِیْرَۃٍ اِلَّا بُشَّرَ بھِا تَبْشِیْرَۃٌ‘‘ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، ج: ۳، ص: ۱۴۹۲، حدیث نمبر: ۴۹۳، باب فی المناسک)
مذکورہ حدیث کی ترجمانی اس ناچیز کی زبانی:
جب کوئی حاجی سبحان اللہ و لا الہ الا اللہ کہتا ہے، اور اللہ اکبر پڑھتا ہے، تو اس کو ایک بشارت دی جاتی ہے، اور یہ بشارت جنت و مغفرت کی ہوتی ہے، لہٰذا تلبیہ کے اوقات میں مختلف مقامات کی جو مسنون دعائیں ہیں، وہ ضرور پڑھیں، اوپر جائیں تو اللہ اکبر، نیچے آئیں تو سبحان اللہ، اور برابر کی جگہ میں چلیں تو الحمد للہ کہیں، اور دوسری مسنون دعائیں پڑھتے رہیں۔
٭٭٭
تلبیہ پڑھیں پرجوش، مگر باہوش
جس طرح تلبیہ زیادہ و بے اندازہ پڑھنا پسندیدہ عمل ہے، جس پر ہوتا ہے ثواب بے حساب، اور اجر ملتا ہے بے پناہ و ا تھاہ، ٹھیک اسی طرح تلبیہ پڑھنے میں جوش و خروش اور مردوں کے لئے قدرے بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا ربِّ کائنات کا حکم اور پیارے نبی و لاڈلے رسولﷺ کی عظیم و اہم سنت ہے، جس پر زائرینِ کعبہ مقدسہ و عازمین حج و عمرہ خوب ثواب پاتے ہیں، اور بہت نیکی کماتے ہیں۔
مگر اس بات کا ضرور بالضرور رہے خیال و لحاظ کہ تلبیہ میں زور بہت ہی خوب و محبوب ہے، اور حد درجہ مقصود و مطلوب ہے، مگر شور جس سے خود یا کوئی بھی شخص ہو جائے بور مناسب اور اچھا نہیں ہے، اس لئے تلبیہ پرجوش مگر باہوش پڑھیں، نہ بالکل ہی رہے خاموش، نہ اتنا زیادہ دکھائے جوش کہ بعد میں ہو جائے بے ہوش، نہ اتنا چیخے چلائے کہ گلا بیٹھ جائے، آواز دب جائے، اور سست پڑ جائے، اور جب تلبیہ کا وقت ختم ہو جائے، تب جا کر ہوش آئے، جیسا کہ عام طور پر عازمین حج و عمرہ کرتے رہتے ہیں، جو منع اور ناپسندیدہ عمل ہے۔
چنانچہ دبستانِ دیوبند کے ممتاز و مایہ ناز اہل قلم و اہل دل اور نامور فقیہ و مفتی حضرت مولانا سلمان منصورپوری (استاذ مدرسہ شاہی مراد آباد) لکھتے ہیں: ’’مردوں کے لئے تلبیہ قدرے بلند آواز سے پڑھنا مسنون ہے، مگر اس قدر زور سے بھی نہ پڑھے کہ تکان ہو جائے، ’’وَیُسَنُّ أَنْ یَرْفَعَ صَوْتَہُ بِالتَّلْبِیَۃِ بِشِدَّۃٍ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَبْلُغَ الْجھُْدُ فِیْ ذٰلِکَ، کَیْ لَا یَتَضَرَّرَ‘‘، (غنیۃ الناسک، ص: ۷۴، ہدایہ، ج: ۱، ص: ۲۴۰)
بہر حال تلبیہ اتنی ہی بلند و چست ہو، جس سے نہ زیادہ تکان ہو، نہ آدمی سست ہو۔
٭٭٭
ایام تشریق میں تلبیہ کا اسلامی طریقہ و شرعی سلیقہ
ایامِ تشریق۹؍ ۱۰؍ ذی الحجہ کو حاجی بھائیوں اور خالقد و عالم و مالک لوح و قلم، و شہنشاہِ اعظم اللہ رب العزت کے مہمانوں کے تلبیہ پڑھنے و پکارنے کا اسلامی طریقہ و شرعی سلیقہ یہ ہے کہ فرض نمازوں کے بعد فوراً تکبیر تشریق: ’’اللّٰہُ أکْبَر، اللّٰہ أکبر، لاَ اِلٰہَ اِلآ اللّٰہُ واللّٰہُ أکْبَرُ، اللّٰہُ أکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ پڑھیں، پھر تلبیہ پڑھیں، اگر کسی حاجی نے تکبیر تشریق سے پہلے تلبیہ پڑھ لیا، تو اب اس کے ذمّہ سے تکبیر تشریق کا لزوم و وجوب ساقط ہو جائے گا، جیسا کہ لائق و فائق، تحقیق انیق کے شائق، مشہور فقہی مصنف حضرت مولانا مفتی سلمان منصورپوری دامت برکاتہم نے کتاب المسائل جلد سوم کے صفحہ ۱۴۷ پر حج و عمرہ و زیارت مدینہ منورہ کے عنوان کے تحت تحریر فرمایا ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْ بِمَکَّۃَ یَبْدَأ فِیْھَا بِالتَّکْبِیْرِ ثُمَّ بِالتَّلْبِیَۃِ‘‘، (الدر المختار: ۳؍۵۸) ، ’’یَبْدَأُ بِتَکْبِیْرِ التَّشْرِیْقِ، ثُمَّ بھِا، فَلَوْ بَدَأَ بھِا سَقَطَ التَّکْبِیْرُ‘‘۔ (غنیۃ الناسک: ۷۵)
٭٭٭
ایامِ تشریق میں مسبوق کے تلبیہ پڑھنے کا فقہی طریقہ و اسلامی سلیقہ
اگر ایامِ تشریق میں کسی حاجی کی نماز ایک دو رکعت چھوٹ گئی، تو اس کے تلبیہ پڑھنے کا اسلامی سلیقہ اور فقہی طریقہ یہ ہے کہ وہ بھائی پہلے اپنی نماز پوری کرے، پھر پہلے تکبیر تشریق کہے، اس کے بعد تلبیہ پکارے، اگر امام عالی مقام کے ساتھ مسبوق بھی تلبیہ پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، اس کو چاہیے کہ اپنی نماز کو لوٹائے، پھر تکبیر تشریق پکارے، اس کے بعد تلبیہ پڑھے، جیسا کہ کتاب المسائل میں مذکور و موجود ہے: ’’وَالْمَسْبُوْقُ لَوْ تَابَعَ اِمَامَہُ فِیْ التَّلْبِیَۃِ لَفَسَدَ‘‘۔ (غنیۃ الناسک: ۷۵)
٭٭٭
بذریعۂ فون تلبیہ کا نہ کریں خون
فون کا بے جا و غلط استعمال، اتنا زیادہ و بے اندازہ ہو گیا ہے کہ حجاج و معتمرین حضرات، مقدس مقامات خصوصاً مطاف، مقام ابراہیم، حجر اسود کے پاس اور صفا مروہ، مسجد حرام، روضۂ پاک، مسجد نبوی و روضۃ الجنۃ میں بھی بے دھڑک و بے تحاشا فون کرتے رہتے ہیں، جونہایت ہی خطرناک، و افسوسناک حرکت اور بہت ہی بری عادت ہے، اسی طرح حجاج و معتمرین حضرات تلبیہ پکارتے پکارتے فون کرنے لگتے ہیں، جس سے دوسرے بھائی کے تلبیہ پڑھنے کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے، اس لئے حجاج و معتمرین اپنے موبائل تلبیہ کے اوقات میں بالکل ہی بند رکھیں، کیونکہ موبائل ساری عبادتوں کو کر دیتا ہے گھائل، اور فون تمام کی تمام اطاعتوں کا کر دیتا ہے خون، اس لئے تلبیہ کے اوقات میں بذریعہ فون تلبیہ کا نہ کریں خون۔
٭٭٭
ایک اہم مسئلہ، حاجی بھائی اسی کے مطابق کریں فیصلہ
عمرہ کرنے والوں کے تلبیہ پڑھنے کا سلسلہ طواف کے آغاز سے پہلے پہلے بند ہو جاتا ہے، مگر حجاج حضرات طوافِ قدوم و سعی کے درمیان تلبیہ پڑھ سکتے ہیں، چنانچہ حضرت مفتی سلمان صاحب قاسمی سعی کے درمیان تلبیہ کے زیرِ عنوان تحریر فرماتے ہیں:
’’حاجی اگر حج کا احرام باندھ کر طواف قدوم (یا نفلی طواف) کے بعد سعی کر رہا ہے، تو سعی کے درمیان تلبیہ پڑھے گا، اور عمرہ کرنے والا سعی کے درمیان تلبیہ نہیں پڑھے گا، کیوں کہ عمرہ کرنے والے کا تلبیہ طواف شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے، جب کہ حج کرنے والے کا تلبیہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جمرۂ عقبہ کی رمی تک جاری رہتا ہے۔ (دیکھئے: کتاب المسائل، ج: ۳، بیان حج و عمرہ و زیارت مدینہ، ص: ۲۶۲)
لہٰذا حاجی بھائی، اسی مسئلہ کے مطابق کریں فیصلہ۔
٭٭٭
یہ ہے قاعدہ کہ انسان صرف وہی کام کرے جس میں ہو فائدہ
ہر حاجی و معتمر اپنے طور پر تلبیہ پڑھے، انفرادی طور پر تلبیہ پڑھنا مسنون و محبوب اور بہت ہی خوب ہے، ہم آواز و یک آواز ہو کر یعنی سب کا مل کر ایک ساتھ تلبیہ پڑھنا منع و خلافِ سنت ہے، جس سے محنت برباد گناہ لازم کا خطرہ ہے، لہٰذا یہ ہے قاعدہ کہ انسان صرف وہی کام کرے جس میں ہو فائدہ، اس لئے اجتماعی طور پر تلبیہ نہ پڑھیں، یہ شکل کہ ایک آدمی جو مربی، مرشد و معلم ہوتا ہے، وہ تلبیہ پڑھتا ہے، پھر سب کے سب یک آواز و ہم آواز ہو کر تلبیہ پڑھتے ہیں، منع و خلافِ سنت ہے، چنانچہ نہایت ہی معتبر و مستند عالمِ دین و فقہ اسلامی کے عظیم شناور مفتی محمد سلمان قاسمی منصورپوری اس عمل کو سختی کے ساتھ منع فرماتے ہیں، اس بارے میں وہ اپنی مقبول ترین تصنیف ’’ کتاب المسائل‘‘ جلد سوم صفحہ نمبر ۱۴۴ پر نوٹ کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں: ’’آج کل اس بارے میں سخت کوتاہی ہوتی ہے، دورانِ سفر آواز ساتھ ملا کر تلبیہ پڑھا جاتا ہے، جو صحیح نہیں ہے، بلکہ اس طریقہ کو علماء نے بدعت کہا ہے‘‘۔
٭٭٭
تلبیہ پڑھتی رہے وہ خاتون، جس کو آ گیا ہو حیض کا خون
تلبیہ پاکی کی حالت اور وضو کی صورت میں پڑھنا نور علی نور ہے، سونے پر سہاگہ اور شیطان باوضو آدمی سے ہمیشہ کے لئے بھاگا کا مصداق ہے، لیکن اگر کوئی ناپاک ہو جائے، احتلام و حیض و نفاس کی وجہ سے، یا اس کا وضو ٹوٹ جائے، تو اس صورت میں بھی وہ تلبیہ پڑھتا ہی رہے گا، لہٰذا نفاس والی عورت، احتلام والا مرد، اور بے وضو شخص بھی تلبیہ پڑھتا رہے گا، اسی طرح تلبیہ پڑھتی رہے گی وہ خاتون جس کو آ گیا ہو حیض کا خون، چنانچہ وضو، بے وضو، پاکی و ناپاکی، ہر حالت و ہر صورت میں تلبیہ بہت زیادہ و بے اندازہ پڑھنا اچھا کام و پسندیدہ عمل ہے۔ (البحر العمیق: ۲؍۶۶۸، غنیۃ الناسک: ۷۵)
٭٭٭
تلبیہ پڑھیں لگاتار تین بار، پھر درودِ پاک ایک بار
احرام و نیت، حج و عمرہ کے بعد مرد قدرے بلند آواز سے اور عورتیں پست آواز سے تلبیہ پڑھیں تین بار لگاتار، پھر دربارِ رسالت مآب، تقدس مآب و عفت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں پست آواز سے درودِ پاک پڑھیں ایک بار، اور تلبیہ کے درمیان دوسری کوئی بات چیت نہ کریں، یہ ہے شرعی مسئلہ، چنانچہ اسی کے مطابق کریں فیصلہ، جیسا کہ ’’ غنیۃ الناسک‘‘ صفحہ ۷۴ پر بیان کیا گیا ہے، وَیُسْتَحَبُّ أَنْ یُکَرِّرَ التَّلْبِیَۃَ ثَلاَثاً ، وَأَنْ یُوَالِیَ بَیْنَ الثَّلاَثِ، وَلاَ یَقْطَعْھَا بِکَلاَمٍ أَوْ غَیْرِہِ، ترجمہ: ’’تلبیہ کا لگاتار تین بار پڑھنا مستحب و پسندیدہ ہے، جس کے دوران بات چیت یا کوئی بھی دوسری چیز نہ ہونی چاہئے‘‘۔
٭٭٭
تلبیہ پکارتے وقت نہ کرے کلام نہ سلام
تلبیہ پکارتے وقت بلاضرورت نہ کرے کلام، نہ کسی کو سلام، اسی طرح تلبیہ پکارنے والے بھائی بہنوں سے بلاوجہ نہ کرے بات چیت، اور نہ کرے کوئی ان کو سلام، بلا ضرورت کلام و سلام منع و نا پسندیدہ ہے کام، لہٰذا اس سے بچیں، چنانچہ حج و عمرہ کے تعلق سے لکھی جانے والی سب سے زیادہ بنیادی و کلیدی کتاب ’’مناسک‘‘ ملا علی قاری کے صفحہ ۱۰۲ پر اس عمل پر روکا اور ٹوکا گیا ہے، اور اس کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔
٭٭٭
دورانِ تلبیہ سلام کے جواب کا طریقہ و سلیقہ
دورانِ تلبیہ سلام نہ کرنا چاہیے، لیکن اگر کسی نے درمیانِ تلبیہ سلام کر ہی دیا، تو تلبیہ پکارنے والا درمیان میں جواب نہ دے، بلکہ تلبیہ مکمل ختم ہونے پر جواب دے، ہاں اگر سلام کا جواب نہ دے پانے کا خطرہ و خدشہ ہو، تو پھر دورانِ تلبیہ ہی سلام کا جواب دے دیا جائے، جیسا کہ ’’مناسک‘‘ ملا علی قاری صفحہ ۱۰۲ پر بیان کیا گیا ہے، اور ’’البحر العمیق‘‘ جلد نمبر ۲ کے صفحہ نمبر ۶۷ پر مذکور و موجود ہے۔
٭٭٭
الٰہی!ہماری زندگی میں خیر ڈال دے اور شر کو ٹال دے
زائرین کعبہ مقدسہ و حاضرین مکہ مکرمہ! تلبیہ کے بے پناہ مقدس عمل کے ذریعہ آپ نے پاکیزہ زندگی کا آغاز کر دیا ہے، اب آپ کو عمرہ و حج جیسی عظیم الشان اور گناہوں سے پاک و صاف کر دینے والی عبادت کا موقع ملے گا، اب آپ کی اور ہماری بلکہ تمام حجاج و معتمرین کی زندگی میں خوشگوار دینی تبدیلی آنی چاہیے، اور نافرمانی و برائی سے صاف ستھری زندگی گزارنی چاہیے، لہٰذا دعا کے قبول ہونے کے اس بابرکت موقع پر یہ دعا فرما لیں کہ الٰہی! لبیک پکارنے کے بعد اور حج و عمرہ کرنے کے بعد مکمل طور پر ہماری زندگی میں خیر ہی خیر ڈال دے، اور ہماری زندگی سے پورے طور پر سارے شر کو ٹال دے، آمین یا ارحم الراحمین، و یا احکم الحاکمین۔
٭٭٭
تلبیہ کا وقت اور اس کی ابتداء و انتہاء
عمرہ میں احرام و نیت کے فوری بعد تلبیہ کا آغاز ضروری ہے، اس کے بغیر احرام کے عمل کی تکمیل و تحصیل نہیں ہوتی، کم از کم ایک بار تلبیہ پڑھنا اور پکارنا عمرے کے لئے شرط و واجب اور لازم و ضروری ہے، اس کے بعد جتنا زیادہ سے زیادہ بلکہ بے اندازہ جس سے ایمان و یقین ہو تازہ، تلبیہ کا پڑھنا بہت ہی خوب ہے، نہایت ہی پسندیدہ و محبوب ہے، اور مستحب و مسنون ہے، اور تلبیہ کا یہ عاشقانہ، والہانہ، فدائیانہ، مستانہ و عارفانہ سلسلہ طواف کے آغاز سے پہلے تک چلتا رہے گا، طواف شروع ہونے سے پہلے بند ہو جائے گا، طواف کے اندر تلبیہ پڑھنا منع اور خلاف سنت ہے، لہٰذا سنت شعار ان اشعار کے مصداق بنیں، اور خلاف سنت کام سے بچیں:
جو کوئی پیروِ رسول نہیں
لاکھ طاعت کرے قبول نہیں
زندگی کو روشن کر سنتِ گرامی سے
کامیابی صرف ملے گی آپ کی غلامی سے
اور:
نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
میرے سرکار کے نقش قدم شمع ہدایت ہے
یہی وہ منزل ہے جسے مغفرت کا راستہ کہئے
لاکھ پانی پر چلتا رہے کوئی رات دن
خلافِ سنت جو کرے شیطانی گِن
لہٰذا تلبیہ سنتِ رسولﷺ کے مطابق پڑھئے، بار بار ہزار بار پڑھئے، بلکہ ان گنت و بے شمار بار پڑھئے، خصوصاً اوقات کی تبدیلی، حالات کے تغیر اور مقامات کے بدلنے کی صورت میں، یعنی اوپر چڑھتے ہوئے، آگے بڑھتے ہوئے، بس یا دیگر سواری سے اترتے ہوئے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے ہوئے، نماز سے پہلے، نماز کے بعد، کھانے پینے کے بعد کثرت و زیادت کے ساتھ تلبیہ پڑھتے رہیے، مگر طواف کرنے سے پہلے ضرور بالضرور بند کر دیجئے، اور طواف کے درمیان بالکل ہی نہ پڑھئے، اور جو لوگ طواف کے درمیان تلبیہ پکارتے ہیں، ان کو پیار و شفقت، لاڈ و محبت کے ساتھ سمجھائیے، اور اس ثواب شعار و نصیحت شعار شعر کے مصداق بن جائیے:
میری زندگی کا مقصد ہر ایک کو فیض پہنچے
میں چراغِ رہ گذر ہوں، مجھے شوق سے جلاؤ
٭٭٭
حج میں تلبیہ کا وقت
حج میں تلبیہ کا لطف و مزہ کیا پوچھنا، اور اس کی لذت و حلاوت کا کیا کہنا، بس اللہ ہی اپنے فضل و کرم کے صدقے اور اپنے بے پایاں احسان کے طفیل ہم تمام مسلمانوں کو اس کا بار بار و سو بار موقع عطا فرمائے، منیٰ و عرفات اور مزدلفہ کے مقدس و متبرک مقامات میں تلبیہ پکارنے کا وقت احرام و نیت کے آغاز سے ہوتا ہے، اور دسویں ذی الحجہ کو جمرۂ عقبہ کی رمی کرنے تک جاری رہتا ہے، چنانچہ حضرت فضل بن عباس نے رسول پاکﷺ کے عمل وفعل کی روشنی و چاندنی میں حج میں تلبیہ کا وقت دسویں ذی الحجہ کو جمرۂ عقبہ کی رمی کرنے تک بتایا ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے بخاری شریف جلد اول حدیث نمبر ۲۲۸۔
٭٭٭
ورنہ۔۔ ۔ ہو گا ایسا غم کہ دینا پڑے گا دم
حج و عمرے کے لئے دنیا کے گوشے گوشے و کونے کونے سے آنے والی خواتین و دخترانِ شرعِ متین کے لئے مردوں کی طرح اپنی اپنی میقات ۱) ذوالحلیفہ، ۲) جحفہ (رابغ) ، ۳) یلملم، ۴) قرنِ منازل، ۵) ذات عرق سے حج و عمرے کا احرام باندھنا، حج و عمرے کی نیت کرنا اور لبیک پکارنا ضروری و لازمی ہے۔
اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، اور اللہ نہ کرے اگر کسی خاتون کو میقات سے پہلے ہی ماہواری (حیض) آ جائے، یا اسی طرح سے کوئی دوسرا شرعی عذر لاحق ہو جائے تو اس صورت میں بھی عورتوں کے لئے لازم و ضروری ہے کہ وہ بغیر حج و عمرے کے احرام کے، بغیر حج و عمرے کی نیت اور بغیر تلبیہ پکارے ہوئے میقات سے بالکل ہی نہ گذریں، ورنہ ہو گا ایسا غم، کہ دینا پڑے گا دم، اور عمرے و حج کا وزن بالکل ہی ہو جائے گا کم، اسی لئے خواتین و دخترانِ شرع متین سے گذارش کرتے ہیں ہم، کہ وہ کسی بھی صورت میں بغیر احرام و نیت و تلبیہ کے میقات سے ہرگز ہرگز نہ گزریں، ورنہ۔۔ ۔
تفصیل کے لئے دیکھئے عالمی عظمت و شہرت یافتہ ادارہ دار العلوم کراچی کے مشہور و معروف، مستند و معتبر عالمِ دین، مفتی شرع متین و داعی راہ مبین، حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف سکھڑوی کی حج و عمرہ سے متعلق کتابیں۔
چنانچہ ماں، بہنوں کو چاہئے کہ وہ ہوشیار رہیں، اور ہر صورت و ہر حالت میں اپنی اپنی میقات ہی سے ضرور بالضرور احرام باندھیں، حج و عمرہ کی نیت کریں، اور تلبیہ (لبیک) پکاریں، اور یہ دانش شعار شعر پڑھتی رہیں:
وہ دور بھی دیکھا ہے تاریخ کی آنکھوں نے
لمحوں نے خطا کی ہے صدیوں نے سزا پائی
٭٭٭
اختتام خیر ختام
آج سے تین ماہ قبل مکہ پاک سے تلبیہ کی علمی نگارش و قلمی کاوش کا آغاز ہوا، اور الحمد للہ آج بتاریخ ۲۸؍ جمادی الاخری ۱۴۳۷ھ بروز بدھ بعد نماز عشاء مدینہ پاک میں اس کی تکمیل ہوئی، جو صرف اور صرف خالق لوح و قلم کے بے پایاں احسان کا نتیجہ ہے:
جو ہوا، ہوا کرم سے تیرے
جو ہو گا تیرے ہی کرم سے ہو گا
اے اللہ! اس اختتام کو خیر ختام کا مصداق بنادے، اور میری، میرے والدین محترمین، اساتذۂ کرام مع اہل و عیال، بھائی بہن، دوست احباب و رشتہ دار سب کے سب کی مغفرت فرما دے، اور اس کتاب کو ہم تماموں کے لئے ذخیرۂ آخرت و ذریعۂ مغفرت بنادے، آمین یا رب العالمین:
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
تری رحمت سے الٰہی پائیں یہ رنگِ قبول
پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لئے
٭٭٭
وہ کتابیں جن سے ہوا فائدہ اور کیا گیا استفادہ
تصنیف و تالیف کی دنیا کا یہ ہے قاعدہ، کہ ان کتابوں کا ضرور بالضرور کیا جائے تذکرہ، جن سے اٹھایا گیا ہے فائدہ، اور کیا گیا ہے استفادہ، اسی مناسبت سے ان کتابوں کی فہرست پیش ہے، جن کی مدد سے تلبیہ (لبیک) سے متعلق یہ چھوٹا سا رسالہ اللہ ہی کے بے پایاں احسان و بے انتہا کرم کے صدقے و جود پایا اور تصنیف و تالیف کی دنیا میں آیا، اللہ اس کو بنادے نجات و دنیوی خوشگوار حیات کا سرمایہ اورمغفرت کی مایہ۔
(۱) القرآن الکریم کلام اللہ العظیم
(۲) صحیح البخاری از: محمد بن اسماعیل البخاری
(۳) صحیح مسلم از: مسلم بن حجاج القشیری
(۴) سنن ترمذی از: محمد بن عیسی ترمذی
(۵) سنن ابن ماجہ از: ابن ماجہ محمد بن یزید القزوینی
(۶) تفسیر ابن کثیر از: ابن کثیر القرشی
(۷) معارف الحدیث از: حضرت مولانا منطور نعمانی
(۸) معلم الحجاج از: حضرت مولانا مفتی سعید صاحب مظاہری
(۹) آپ حج کیسے کریں ؟ از: حضرت مولانا منطور نعمانی
(۱۰) یادِ حرم از: مولانا محمد حماد کریمی ندوی
(۱۱) آسان حج از: حضرت مولانا منطور نعمانی
(۱۲) احکام الحج از: حضرت اقدس مفتی شفیع عثمانی
(۱۳) انوار المناسک از: حضرت مفتی شبیر صاحب قاسمی
(۱۴) رفیق حج و عمرہ از: حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(۱۵) حج و عمرہ، فضائل و آداب از: جناب مولانا محمد عابد ندوی
(۱۶) رسول اللہﷺ نے حج کیسے کیا؟ از: مفتی عاشق الٰہی بلند شہری
(۱۷) کتاب المسائل (بیان حج و عمرہ و زیارت مدینہ)
از: حضرت مولانا مفتی سلمان منصورپوری قاسمی
(۱۸) صفۃ العمرۃ از: سماحۃ الشیخ عبد اللہ بن بازؒ
(۱۹) حج و عمرہ کا آسان طریقہ از: مولانا محمد حماد کریمی ندوی
(۲۰) خواتین کا حج و عمرہ از: حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب
(۲۱) حج قدم بقدم از: حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب
(۲۲) قاموس الفقہ از: حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(۲۳) خطبات دورۂ ہند از: حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی
(۲۴) مسنون حج و عمرہ، فضیلت و اہمیت، احکام و مسائل از: عبد المالک مجاہد، ریاض، سعودی عرب
(۲۵) بچوں کا اسلامی انسائیکلو پیڈیا، دار السلام، ریاض از: العربی بن رزوق، مترجم: محمد یحیی خان
٭٭٭
عمرے میں پانچ کام ترتیب سے کریں
لطفِ ربانی و فضل رحمانی کے صدقے یہ خطاکار و سیاہ کار ۹؍ جمادی الاولی ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۸؍ فروری ۲۰۱۶ء بروز جمعرات، بوقت قبل نمازِ عصر مکہ مشرفہ حاضر ہونے کا شرف پایا، اور اسے مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی سعادت کا قابل شکر موقع ہاتھ آیا، جس پر شکر و خوشی سے دل پھولے نہ سمارہا ہے، جھوم جھوم جا رہا ہے، اور اپنے معبود حقیقی و مسجودِ اصلی کے حضور بار بار و لگاتار سجدے میں جا رہا ہے، اور زبان پر بار بار و ہزار بار یہ عرفانی و روحانی اور قرآنی جملہ {لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ} آ رہا ہے، شکرِ الٰہی کے نغموں اور زمزموں اللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ و لَکَ الشُّکْرُ و بِکَ نَسْتَعِیْن سے جسم کا حصہ حصہ، انگ انگ سرشار اور مخمور و معمور ہے، اللہ کرے خیر و نیک کام کی توفیق و سعادت کے ساتھ احقر کی عمر ہو دراز، اور یونہی بلکہ زیادتی و اضافہ کے ساتھ مقبول و مبرور حج و عمرہ کی دولت و نعمت سے سدا ہوتا رہے سرفراز، آمین یا خالق السموات و الأرضین۔
الحمد للہ، ثم الحمد للہ، عمرے کے اس سفر وسیلۂ ظفر میں احقر کے ساتھ چار ملکوں ملیشیا، پاکستان، بنگلہ دیش و ہندستان کے عازمین عمرہ و زائرین کعبہ ہیں، اور ماشاء اللہ سب کے سب سنجیدہ با ادب و سلیقہ شعار ہیں، اللہ تعالیٰ (جس نے بخشا ہے دن کو اجالا) کے خاص فضل سے ہی اس طرح کا مہذب، مؤدب اور محنت شعار قافلہ ملا کرتا ہے، یہ حقیر اس خوش نصیبی پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے، اور اس کی حمد و ثنا کے گن گاتا ہے، اللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ، کَمَا یَنْبَغِیْ لِجَلاَلِ وَجْہِکَ، وَعَظِیْمِ سُلْطَانِکَ۔
راقم آثم غلام حضرت ابو القاسمﷺ نے تمام عازمین عمرہ و اہلِ قافلہ سے گزارش کی کہ وہ عمرے کے تعلق سے یہ پانچ کام کر لیں نوٹ، اور اس کو زبانی یاد کرنے کے لئے ہلاتے رہیں ہونٹ، اور یہ میری دلی دعا و قلبی صدا ہے کہ اللہ تعالیٰ برتر و بالا ہم تماموں کے دل سے دور کر دے کھوٹ، اور سب کے سب کو پیارے نبی و لاڈلے رسول حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک ہاتھوں پلائے کوثر کا گھونٹ، آمین یا ذا الجلال و الاکرام۔
اس دعائیہ جملہ کے بعد راقم السطور نے عمرے میں ترتیب سے کرنے کی پانچ باتوں کا تفصیل سے ذکر کیا، جس کو تمام ساتھیوں نے نوٹ کر لیا، وہ پانچ کام جن کو ترتیب سے کرنا ہے، آگے پیچھے نہیں کرنا ہے، ان میں سے نہ کسی کو چھوڑنا ہے، نہ کسی سے تعلق توڑنا ہے، بلکہ سب سے رشتہ جوڑنا ہے، وہ ترتیب وار یہ ہیں:
۱) میقات: جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے، اور حج و عمرہ کی نیت کی جاتی ہے، اگر خدا نخواستہ کوئی میقات سے بغیر احرام وحج و عمرہ کی نیت کے گذرگیا، تو اس کو ضرور ہو گا یہ غم، دینا پڑے گا دم، جس میں لگے گا پانچ سو سعودی ریال کم از کم، بہرحال میقات سے تمام بھائی کر لیں صاف صفائی، ناخن تراش لیں، بغل و ناف کے زائد بال کاٹ لیں، موت کے غسل کا تصور کر کے خوب اچھی طرح غسل کریں، پھر وضو کر کے کفن کا تصور کریں، اور احرام باندھیں، پھر دو رکعت صلوۃ الاحرام مسجد میقات میں پڑھیں، اس نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون پڑھیں، جس سے انشاء اللہ نکل جائے گی کفر و شرک کی گندگی، اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ الاخلاص پڑھیں، اس سے انشاء اللہ صرف ہو گی خدا کی بندگی، دل میں آئے گی تابندگی، توحید پر قائم رہے گی زندگی، اور قیامت کے دن نہیں ہو گی شرمندگی، نماز کے بعد عمرہ کی نیت سے تلبیہ اور درودِ پاک قدرے بلند آواز سے اور عورتیں پست آواز سے پڑھیں، عمرے کی نیت: اللّٰہُمِّ اِنِّیْ أُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَتَقَبَّلْھَا مِنِّیْ وَیَسِّرْھَا لِیْ، خدایا! میں عمرے کا ارادہ کرتا ہوں، تو میری طرف سے اسے قبول کر لے، اور میرے لئے آسان فرما دے۔
پھر تلبیہ پڑھیں: لبیک، اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک و الملک، لا شریک لک، میرے مسجود و معبود!میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی ساجھی و ساتھی نہیں، میں حاضر ہوں، بلاشبہ ہر حمد و ثنا اور نعمت تیرے ہی لئے ہے، اور تیری ہی بادشاہت ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، جوں جوں مکہ مکرمہ، حرمِ محترم اور کعبہ مشرفہ کے قریب آتا جائے، نہایت ہی للہیت و خلوص، ذوق و شوق، خضوع و خشوع، دیوانگی و فرزانگی، مستی و چستی، عاجزی و وارفتگی، اور کثرت و زیادت کے ساتھ تلبیہ پڑھتا رہے، اور آگے بڑھتا رہے، اور طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ بند کر دے، تلبیہ توحید کا ترانہ اور دیوانہ و مستانہ کی زبان سے جاری ہونے والا وہ نغمہ و زمزمہ ہے، جس سے خالق و مالک بہت خوش ہوتا ہے، اور تلبیہ پڑھنے والے کو اپنی رحمت کی گود و محبت کی آغوش میں لے لیتا ہے، تلبیہ حج وعمرہ کا شعار ہے، جس سے حق تعالیٰ کو بہت پیار ہے، تلبیہ سے خطا ہوتی ہے معاف، گناہ ہو جاتا ہے صاف، اور تلبیہ پڑھنے والا آئینہ کی طرح ہو جاتا ہے شفاف، تلبیہ محبت الٰہی کا زینہ اور رحمتِ خداوندی کا خزینہ ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی و فرمانِ مصطفوی ہے، مَا رَاحَ مُسْلِمٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مُجَاھِداً أَوْ حَاجّاً مھُلآً أَوْ مُلَبِّیاً اِلآَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ بِذُنُوْبِہِ و خَرَجَ مِنْھَا (رواہ الطبرانی) ’’جو مسلمان راہِ خدا میں جہاد یا حج کے لئے کلمہ طیبہ یا تلبیہ پڑھتے ہوئے نکلتا ہے، تو سورج غرب ہونے تک اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اور وہ گناہوں سے باہر آ جاتا ہے‘‘۔
ع۔ یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے۔
جب پہلی بار خانۂ کعبہ پر نظر پڑے تو تین بار اللہ اکبر اور تین بار لا الہ الا اللہ کہیں، اور جی بھر کر جو چاہیں اصرار و تکرار، پیار و انکسار، اور عاجزی و اضطرار کے ساتھ دعا کریں، یہ دعا قبول ہونے کا وقت اور مقام ہے۔
۲) خانۂ کعبہ کا سات چکر طواف کریں، جس کا آغاز حجر اسود سے ہو گا، اور اختتام بھی اسی پر ہو گا، بِسْمِ اللّٰہِ، اللّٰہُ أَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ پڑھ کر طواف شروع کریں، سہولت اور آسانی ہو تو حجر اسود کو چومیں، ورنہ یونہی گھومیں، ہاں ہر چکر میں استلام (ہاتھ سے اشارہ کر کے چومنا) کریں، حجر اسود کو چومنے میں دھکم پیل انسان کو کر دیتا ہے فیل، لہٰذا اس سے ضرور بچیں، یہ عمل محنت برباد گناہ لازم کا مصداق ہے، طواف صرف اور صرف خانہ کعبہ کے ساتھ ہی خاص ہے، دوسری کسی جگہ کا طواف کرنا حرام اور شرک و کفر ہے، بیت اللہ شریف پر روزانہ ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں، ان میں سے ساٹھ رحمتیں صرف طواف کرنے والوں کے ساتھ خاص ہیں، طواف میں ہر قدم کے رکھنے اٹھانے میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، دس مٹائی جاتی ہیں، اور طواف کرنے والے کے دس درجے بلند ہوتے ہیں، (رواہ احمد) طواف بہت ہی زیادہ فائدہ کی چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کو بہت ہی عزیز و لذیذ ہے، طواف بے پناہ و بے حساب اجر و ثواب والی عبادت اور غیر معمولی شرف و مجد کی حامل طاعت ہے، لہٰذا نہایت ہی مخلصانہ، و الہانہ اور عاشقانہ انداز سے طواف کریں، طواف میں غیر ضروری باتیں قطعی نہ کریں، نظر اپنے سامنے کی طرف رکھیں، دورانِ طواف خانۂ کعبہ کی طرف بھی نہ دیکھیں، طواف کے ساتوں چکر میں اضطباع کریں، یہ صرف مردوں کے لئے سنت ہے، احرام کو داہنے کندھے کے نیچے سے لا کر بائیں کندھے پر رکھیں، اور داہنا کاندھا کھول دیں، اور رمل( تیز چلنا) صرف شروع کے تین چکر میں کریں، ہر جگہ اکڑ پر ہے پکڑ، مگر طواف کے ابتدائی تین چکر میں اکڑ سنت اور پسندیدہ عمل ہے، طواف میں عاجزی و انکساری اور گریہ و زاری کے ساتھ جو دعا چاہیں مانگیں، تیسرا کلمہ، استغفار، رکنِ یمانی سے پہلے درود پاک اور رکنِ یمانی سے لے کر حجر اسود تک رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کثرت و زیادت کے ساتھ پڑھیں، طواف کی ابتداء و انتہاء میں حجر اسود کا استلام مسنون ہے، حجر اسود کے سامنے ہر وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھا کر اللہ اکبر کہنا سنت ہے۔
۳) طواف کے بعد دو رکعت صلوۃ العمرۃ ضرور پڑھیں، بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت کے بعد سورۃ الاخلاص پڑھیں، نماز کے بعد پیٹ بھر کر بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر اور نیت کر کے زمزم پئیں، زمزم پینے کی دعا: اللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ عِلْماً نَافِعاً، وَرِزْقاً حَلاَلاً وَاسِعاً، وَشِفَاءِ مِنْ کُلِّ دَاءٍ، زمزم پینے کے بعد الحمد للہ کہیں، جس نیت اور ارادہ سے زمزم پیا جائے گا اللہ اپنے فضل سے پورا فرمائے گا، حدیث میں ہے: ماء زمزم لما شرب لہ۔
۴) صفا مروہ کی سات چکر سعی کریں، سعی کا آغاز صفا سے ہو گا، اور اس کا اختتام مروہ پر ہو گا، طواف و نماز کے بعد صفا پہاڑی پر جائیں، اور یہ کلماتِ طیبات و بابرکات پڑھیں، أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِہِ، اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَفَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَطَّوَّفَ بھِمَا، یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن میں صفا کا اول ذکر کیا ہے، میں بھی اسی طرح سعی کا آغاز پہلے صفا سے کر رہا ہوں، پھر بیت اللہ کی طرف رخ کریں، خواہ وہ نظر آئے یا نہ نظر آئے، پھر دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھائیں جس طرح دعا میں اٹھایا جاتا ہے، اس کے بعد جم کر دعا کریں، یہ دعا کی قبولیت کا وقت اور جگہ ہے، خاص طور پر آپﷺ سے منقول یہ پاکیزہ و نورانی کلمات بہت بہت خلوص اور خوب خوب ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیں، لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہْ لاَ شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَالْحَمْدُ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ، وھَوَ عَلیٰ کُلِّ شَیِ قَدِیْرٌ، لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ، وھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ، مختصر یہ ہے کہ صفا مروہ پر خوب خوب دعا کریں، خاص کر چوتھا کلمہ بہت بہت پڑھتے رہیں، پھرجب میلین اخضرین ہری لائٹ کے پاس پہنچیں تو دوڑنے کے انداز میں ذرا تیز چلیں، ہر چکر میں صفا و مروہ دونوں کی ہری لائٹ کے درمیان ایسا ہی کریں، اور رحم و مغفرت کی دعا کریں، یہ دعا یاد کر لیں، اور صفا مروہ خصوصاً ہری لائٹ کے درمیان کثرت سے پڑھیں، رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ، وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ، اِنَّکَ أَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَکْرَمُ، ترجمہ: اے میرے رب!میرے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ فرمائیے، اور میری جو کوتاہیاں آپ کے علم میں ہیں، اس سے درگزر فرمائیے، یقیناً آپ سب سے زیادہ و بے اندازہ عزت و شرافت والے ہیں۔
کبھی محوِ صفا اور مروہ
کبھی آبِ زمزم کا جام اللہ اللہ
یاد آتی ہے مجھ کو یہاں ہاجرہ
ہر دم ہی یہاں یادِ ایام ہے
سعی میں وضو بہتر ہے، اگر وضو ٹوٹ جائے تو بھی سعی ہو جائے گی، مگر طواف بغیر وضو کے نہیں ہوتا۔
۵) سعی کے بعد مرد سر کے بال مکمل منڈوائے، یہ بڑی رحمت و سعادت کی بات ہے، آپﷺ نے فرمایا: اِنَّ لِلِّحَاقِ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنْ رَأْسِہِ نُوْراً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، ترجمہ: بال منڈوانے والے کے لئے قیامت میں ہر بال کے بدلہ میں ایک نور عطا ہو گا، پھر آپﷺ نے بال منڈوانے والے کے لئے تین بار اللہ سے رحم و کرم کی دعا کی ہے، جبکہ بال کٹوانے والے کے لئے صرف ایک بار۔
الحمد للہ، اب اللہ کا شکر ادا کریں، ممکن ہو تو صدقۂ شکر ادا کریں، اور دو رکعت صلوۃ الشکر پڑھیں، خلاصہ بھی یاد رکھیں: ۱) میقات سے احرام باندھیں، عمرہ کی نیت کریں، لبیک پڑھیں، ۲) کعبہ مکرمہ کا سات چکر طواف کریں، ۳) مقامِ ابراہیمؑ پر یا اس کے پیچھے جہاں ممکن ہو دو رکعت نماز پرھیں، اور زمزم نوش فرمائیں، ۴) صفا مروہ کی سات چکر سعی کریں، ۵) سر کے بال حلق یا قصر کرائیں۔
عورتیں سر کے بال پیچھے کی طرف کر کے انگلی کے ایک پور کے بقدر کاٹ لیں، پردہ کا خیال رکھیں، محرم سے بال کٹوائیں، یاصرف عورتوں سے ہی کٹوالیں، اور یہ اشعار امید شعار پڑھتی رہیں:
قدم قدم پر ظہور تازہ، نفس نفس میں سرور تازہ
نظر نظر میں وہ نور تازہ کہ مست و مد ہوش ہو رہے ہیں
قبول سب ہو گئیں دعائیں، معاف سب ہو گئیں خطائیں
سحابِ رحمت برس رہا ہے، کرم بآغوش ہو رہے ہیں
از: محمد شرف عالم کریمی قاسمی
خادم حج و عمرہ مکہ پاک و مدینہ شریف و مسقط عمان
٭٭٭
حج کامختصر طریقہ
(میرے چشم و چراغ، مصنف ’’روشن چراغ‘‘، جن کے علمی، تحقیقی، تالیفی و صحافتی کام سے دل ہے باغ باغ، اور شگفتہ ہے دماغ، عزیز گرامی مولوی و حافظ محمد حماد اشرف کریمی ندوی زادہ اللہ علماً و عملاً و فھماً و شرفاً کی کتاب ’’یادِ حرم‘‘ اور ’’طریقۂ حج و عمرہ و زیارت مدینہ‘‘ جو حاجیوں میں بہت مقبول اور ان کے لئے سدا بہار پھول ہے، سے ’’حج کا طریقہ‘‘ ان کے شکریہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے، اللہ قبولیت کے شرف سے نوازے، آمین)
۸؍ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھیں، اور حج کی نیت کر کے تلبیہ کی کثرت کریں، پھر منی کے لئے روانہ ہو جائیں، ۸؍ذی الحجہ کی ظہر سے ۹؍ذی الحجہ کی فجر تک پانچ نمازیں وہاں پڑھنا سنت ہے، آج کل معلم حضرات آسانی کے لئے ۸؍ذی الحجہ کو رات ہی میں منیٰ لے جاتے ہیں۔
۹؍ ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد عرفات کے لئے روانہ ہونا ہے، اب تو معلم حضرات رات ہی میں عرفات لے جاتے ہیں، بہرحال عرفات پہنچ کر زوال سے پہلے جی چاہے تو آرام کر لیں اور کھانے وغیرہ کی ضروریات سے فارغ ہو جائیں، زوال ہوتے ہی وضو کر لیں، غسل کرنا مستحب ہے۔
آج کے دن عرفات میں ظہر کے بالکل شروع وقت میں مسجد نمرہ میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
عرفات میں زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت نہایت ہی اہم اور بڑا قیمتی ہے، نماز کے بعد کوشش کیجئے کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو، شام تک پورا وقت دعا و استغفار میں اور اللہ کے سامنے رونے اور گڑ گڑانے میں صرف کیجئے، افضل ہے کہ جبل رحمت کے پاس جا کر دھوپ میں قبلہ رو ہو کر دعا کی جائے، جبل رحمت عرفات میں وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع میں وقوف فرمایا تھا، اگر وہاں نہ جا سکیں تو خیمہ ہی میں دعا و استغفار کر لیں۔
اس وقت پڑھنے کی بہت سی دعائیں کتابوں میں مذکور ہیں، یاد ہو تو بہت بہتر، ورنہ کم از کم اس کلمہ کی وہاں خاص طور پر کثرت کی جائے:
لاَ اِلٰہَ اِلآَ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَشَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وھَوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْیٍ قَدِیْرٌ۔
ترجمہ: (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ واحد ہے، یکتا ہے، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں، ہرچیز پر وہ قدرت رکھتا ہے۔ )
حضورﷺ نے فرمایا کہ عرفات کے دن میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی خاص پکار یہی کلمہ ہے، اس کے علاوہ بہتر ہے کہ سو بار سورہ اخلاص اور سو بار درودبھی پڑھ لیں۔
آفتاب غروب ہونے تک عرفات میں رہیں، غروب کے بعد بغیر مغرب کی نماز پڑھے مزدلفہ روانہ ہو جائیں، وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء ملا کر عشاء ہی کے وقت میں پڑھیں، یہ رات یہیں مزدلفہ میں گزاری جائے گی، اس رات میں خوب دل سے اللہ کا ذکر کیا جائے، اور دعائیں مانگی جائیں، یہ بڑی بابرکت رات ہے، اس میں بڑی حمتیں نازل ہوتی ہیں، فجر کی نماز اول وقت میں پڑھ کرسورج نکلنے تک ذکرودعا میں مشغول رہیں، جب سورج نکلنے کا وقت قریب آ جائے تو یہاں سے منیٰ کے لئے روانہ ہو جائیں، روانہ ہونے سے قبل اچھا ہے کہ مزدلفہ ہی سے رمی جمرات کے لئے کنکریاں لے لی جائیں۔
یہاں پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کریں کہ جمرۂ عقبہ میں جس کو عوام بڑا شیطان کہتے ہیں، سات کنکریاں ماریں، اس کے بعد قربانی کر کے بال منڈوائیں یا کتروائیں، اب آپ احرام سے باہر ہو گئے۔
جمرۂ عقبہ کو پہلی کنکری مارنے کے ساتھ لبیک کہنا موقوف ہو جائے گا، اس کے بعد لبیک نہ کہیں، کنکری مارتے وقت یہ دعا پڑھیں:
بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، رَغْماً لِلشَّیْطَانِ وَرِضیً لِلرَّحْمٰنِ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجّاً مَبْرُوْراً وَذَنْباً مَغْفُوْراً وَسَعْیاً مَشْکُوْراً۔
یہ یاد نہ رہے تو کوئی بھی ذکر کر لیں۔
دسویں تاریخ کو اگر بآسانی ممکن ہو تو منیٰ سے ایسے وقت چلیں کہ طواف زیارت اور سعی سے فارغ ہو کر مسجد حرام میں باجماعت نماز ظہر پڑھیں تو بہتر ہے، لیکن آج کل دیر ہو جاتی ہے اس لئے جب موقع ملے اسی وقت طواف زیارت کے لئے مکہ آنا چاہئے، مگر مکہ سے لوٹ کر منیٰ ہی میں رات گزارنی چاہئے۔
اس طواف و سعی میں اضطباع و رمل نہ ہو گا اور نہ ہی سعی کے بعد سرمنڈوانا یا بال کتروانا ہے۔
دسویں تاریخ کی کنکری مارنے کا وقت صبح صادق تک ہے، البتہ مسنون وقت سورج نکلنے سے زوال تک ہے۔
گیارہویں اور بارہویں کو ظہر کی نماز کے بعد تینوں جمرات پر سات سات کنکریاں مارنا ہے، اس کا وقت زوال سے شروع ہوتا ہے۔
اگر تیرہویں کو رکنا نہ ہو تو بارہویں کو غروب سے پہلے منیٰ سے نکل جانا چاہئے۔
مکہ لوٹنے پر حج کے اعمال پورے ہو گئے، اب صرف ایک طواف وداع باقی رہ جائے گا، جووطن واپسی کے وقت کرنا ہے۔
٭٭٭
زیارتِ مدینہ سعادت کا زینہ
طیبہ جو یاد آیا، آنسو ٹپک گئے ہیں
یہ آبگینے یونہی اکثر چھلک گئے ہیں
جس جس روش سے گذری سرکار کی سواری
گلشن تو پھر ہے گلشن، صحرا مہک گئے ہیں
الحمد للہ ثم الحمد للہ، ماشاء اللہ بار بار لگاتار و ہزار بار ماشاء اللہ، اس سعادت کے پانے اور اس شرف و مجد کے حاصل ہونے پر، کہ آج بتاریخ ۱۲؍ رجب المرجب ۱۴۳۶ھ بمطابق ۱۹؍ اپریل ۲۰۱۶ء بروز منگل، بوقت قبل نماز مغرب، یہ نا اہل و ناکارہ حاضر ہوا شہر حضورﷺ، باعث صد سرور و نور، جہاں بار بار یا کم از کم ایک بار حاضری کی دعا و تمنا کرتا ہے ہر صاحبِ ایمان و ایک ایک مسلمان ضرور، جب جعفر حج و عمرہ گروپ کے آئے ہوئے بنگلہ دیشی و پاکستانی، عمانی و ہندستانی زائرین مدینہ ٹوٹل پاگئے ہوٹل، اور مسواک و غسل و وضو سے فارغ ہو کر، سرمہ وخوشبو لگا کر، اور صاف و پاک نیز عمدہ و شاندار کپڑے پہن کر سب ہو گئے تیار، اور مسجد نبوی شریف و روضۂ پاک جانے کا بار بار کرنے لگے اظہار، بلکہ بالکل ہی ہو گئے بے تاب مثل ماہی بے آب و بے قرار، تو یہ ناچیز، اللہ عطا کرے اس کو اچھے بھلے کی تمیز، تمام ساتھیوں کو توبہ و استغفار پڑھاتے ہوئے، درود و سلام کثرت و زیادت کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے، اور مدینۃ الرسولﷺ میں پانچ کام زیادہ سے زیادہ و بے اندازہ کرتے رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کشاں کشاں سوئے مسجد نبوی شریف رواں دواں ہوا، اور وہ پانچ کام ترتیب وار سب کے سامنے پیش کیا۔
۱) درود و سلام بہت بہت اور خوب خوب پڑھیں، روزانہ کم از کم ہزار بار:
رحمت قسم خدا کی لٹی جا رہی ہے آج
پڑھ لو درود مومنو پھر کیا کمی ہے آج
۲) ہر کام سنت نبوی و طریقہ مصطفویﷺ کے مطابق کریں، مدینہ پاک میں ہرگز ہرگز سنت رسول کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں، کیونکہ:
نبی کے راستے سے جو قدم اپنا ہٹائے گا
بھٹکتا ہی رہے گا، وہ کبھی منزل نہ پائے گا
لہٰذا سنت رسول کے خلاف نہ کوئی قدم اٹھانا ہے، نہ سنت رسولﷺ سے کسی بھی حال میں اپنا قدم ہٹانا ہے، اور حضرت اقدس قاری صدیق احمد باندویؒ کے اس معنی خیز و فکر انگیز شعر کا مصداق بن کر ساری دنیا پر چھا جانا ہے:
خدا شاہد ہے ہم سارے جہاں پر حکمراں ہوتے
رسول پاک کی سنت اگر اپنا چلن ہوتا
۳) قرآن عالی شان، فرمان رحمان کی تلاوت روزانہ بلاناغہ زیادہ سے زیادہ کریں، اور اپنے ایمان و ایقان کو خوب خوب تازہ کریں، مدینہ کے اپنے اس چار روزہ سفر میں ایک قرآن پاک مکمل کر لیں، کیوں کہ تلاوت سے دل کا زنگ ہوتا ہے دور، رنج و غم ہوتا ہے کافور، اور اللہ کی عبادت و طاعت میں مزہ آتا ہے ضرور، تلاوت سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے، اس کا قرب ملتا ہے، جبکہ شیطان بہت روتا ہے، اور تلاوت کرنے سے ثواب بے حساب ہوتا ہے۔
۴) روضۃ الجنۃ کے کسی گوشے و کونے میں توبہ کی نماز خصوصاً تہجد پڑھ پڑھ کر رو رو کر توبہ و استغفار کریں، اور اس توبہ شعار شعر کے مصداق بنیں:
اس دل پر خدا کی رحمت ہو، جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے
ایک بار خطا ہوتی ہے، سو بار ندامت ہوتی ہے
اور اس شعر کے بھی مصداق بنیں:
جب اشکِ ندامت بہتا ہے، رحمت کی گھٹائیں چھاتی ہیں
پھر رحمت و مغفرت کی بارش ہوتی ہے، جب آنکھیں اشک برساتی ہیں
۵) ہوٹل سے مسجد نبوی شریف جانے میں کریں جلدی، اور پانچوں نمازوں کی کریں پابندی، اور ہر فرض نماز کے بعد دعاؤں کا خوب کریں اہتمام، اس لئے کہ نماز اور دعا کا اہتمام تمام عبادتوں کا نچوڑ اور تمام طاعتوں کا خلاصہ ہے، اور دین کی بنیاد و شاہ کلید ہے، جس پر موقوف خدا کی دید ہے، اور نمازوں کی پابندی مسلمانوں کی سب سے بڑی عیدہے، اسی لئے کسی شاعر نے کہا ہے:
ہر نمازی کو بھر بھر کے کوثر کا جام
اپنے ہاتھوں سے دیں گے رسولِ انامؐ
نہیں ہے کام زباں کا کچھ اب دعا کے سوانظر کسی پر نہیں رب دوجہاں کے سوا
مذکورہ بالا پانچ کاموں کے بتانے کے بعد راقم السطور نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا: ہم سب ہیں غریب، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارا بہت ہی اونچا بنایا ہے نصیب، ہمیں کیا ہے مسجد نبویﷺ اور روضہ پاک سے قریب، اور ابھی کچھ ہی دیر میں ہم درود سلام اس کے دربار عالی و قار و باعث صد افتخار میں پیش کریں گے، جو ہے ساری کائنات خصوصاً خدا کی ذات کا حبیبﷺ، مذکورہ باتوں سے تمام اہل قافلہ پر رقت و مسرت کی عجیب کیفیت ہو گئی طاری، سب کی زبان پر نغمۂ حمد و زمزمۂ شکر اللّٰہم لک الحمد ولک الشکر ہو گیا جاری، آگے بات جاری رکھنا ہو گیا بہت ہی بھاری، اتنے میں مغرب کی اذان کی آ گئی باری، مسجد نبوی شریف کی خوبی و خوبصورتی، اس کی دلکشی و رعنائی، اس کا سکون و وقار، اور اذان کی روح پرور و کیف آور آواز سن کر تمام اہل قافلہ عش عش کرنے لگے، اور بیساختہ فتبارک اللّٰہ أحسن الخالقین پکار اٹھے، شکر و خوشی سے سب کے دل ہو گئے لبریز، اذان مغرب ہوتے ہی سب کے سب ہو گئے سجدہ ریز، مغرب کی نماز کے فوراً بعد اس خادم نے ساتھیوں سے بتایا: اب آپ حضرات بالکل ہی نہ کریں لیٹ، ورنہ صلوۃ و سلام کے لئے جانے والا بند ہو جائے گا گیٹ، جس پر تمام زائرین روضۂ پاک دیوانہ و پروانہ کی طرح میرے پاس جمع ہو گئے، تو یہ ناقص و نافہم سب کو توبہ کراتے ہوئے، استغفار پڑھاتے ہوئے، اور بار بار خوشبو لگاتے ہوئے، ہانپتے کانپتے، روتے تڑپتے پروفیسر کلیم عاجز کے اس محبت شعار شعر کا مصداق بنتے ہوئے روضۂ پاک پر حاضر ہوئے:
ہانپتے کانپتے یا شاہِ امم آئے ہیں
ایسے مجرم کسی دربار میں بہت کم آئے ہیں
قدم قدم پر رحمتیں، نفس نفس پر برکتیں
جہاں جہاں وہ شفیعِ عاصیاں گذرگیا
جہاں نظر نہیں گئی وہاں ہے رات آج تک
وہاں وہاں سحر ہوئی جہاں جہاں گذرگیا
پھر شاہِ امم و رسولِ اعظمﷺ کی مقدس بارگاہ اور بالکل ہی آپ کی پاک نگاہ کے سامنے تمام ساتھیوں کولے کر حاضر ہوا، اور ہاتھ چھوڑ کر نہ کہ نماز کی طرح جوڑ کراور باندھ کر مواجہہ شریف کے سامنے نہایت ہی ادب و احترام اور عاجزی و انکساری کے ساتھ کھڑے ہو کر دربارِ عالی وقار و باعث صد افتخار میں اس طرح صلوۃ و سلام پیش کیا گیا:
۱) السلام علیک أیھا النبی و رحمۃ اللّہ و برکاتہ۔
۲) الصلاۃ و السلام علیک یا رسول اللّہ۔
۳) الصلاۃ و السلام علیک یا نبی اللّہ۔
۴) الصلاۃ و السلام علیک یا حبیب اللّہ۔
۵) الصلاۃ و السلام علیک یا سیدی یا حبیبی یارسول اللّہ۔
۶) الصلاۃ و السلام علیک یا شفیع المذنبین۔
۷) الصلاۃ و السلام علیک یا خاتم النبیین۔
۸) الصلاۃ و السلام علیک یا رحمۃً للعالمین۔
۹) الصلاۃ و السلام علیک یا خیر خلق اللّہ۔
۱۰) جزی اللہ عنا محمداً صلی اللّہ علیہ و سلم ما ہو أھلہ۔
پھر کلمۂ شہادت أشھد أن لا الہ الا اللّہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أنک لرسول اللّہ وعبدہ ونبیہ پیش کرنے کے بعد جن بھائیوں نے صلوۃ و سلام پیش کرنے کا حکم دیا تھا ان کی طرف سے اور اپنے والدین محترمین و اساتذۂ کرام و اہل و عیال کی طرف سے اس طرح صلوۃ و سلام پیش کیا گیا: الصلاۃ و السلام علیک یا رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم منّی و من و الدیّ و أساتذتی و زوجتیّ و بناتی و ابنیّ محمد حماد و محمد عمار و من سبطی محمد انس و من جمیع من أوصانی بالسلام علیک، پھر یار غار صدیق با اعتبار سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ و فاروق اعظم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت گرامی میں سلام پیش کیا گیا: السلام علیک یا خلیفۃ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ و سلم سیدنا أبابکر الصدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، السلام علیک یا سیدنا أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللّہ تعالیٰ عنہ۔
صلوۃ و سلام سے فراغت کے بعد پُر نم آنکھوں اور پُرغم دلوں کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر پیارے نبیﷺ کے درجات کی بلندی اور اللہ کی طرف سے آپ کو بھرپور بدلہ عطا کئے جانے اور تمام مسلمانوں خصوصاً اپنے حق میں آپ کی شفاعت ملنے اور آپ کے مبارک ہاتھوں کوثر کا جام نصیب ہونے کی دعا کی گئی: اللّٰہم آت محمداً الوسیلۃ و الفضیلۃ و ابعثہ مقاماً محموداً الذی و عدتہ، و ارزقنا شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم، و جزی اللّٰہ عنا محمداً صلی اللّٰہ علیہ و سلم ما ہو أھلہ۔
اللہ کرے یہ زیارت مدینہ ہمارے لئے ثابت ہو سعادت کا زینہ اور نجات و مغفرت کا خزینہ، اور ہماری زندگی میں آئے نبوی رنگ ڈھنگ اور مصطفوی قرینہ، آمین یا رب العالمین، و الصلاۃ و السلام علی سید المرسلین۔
نور ہی نور ہر انجمن ہے
پھول ہی پھول سارا چمن ہے
رشک جنت کیوں نہ ہو مدینہ
وہ پیارے نبی کا وطن ہے
از: محمد شرف عالم کریمی قاسمی
خادم حجاج و معتمرین و زوار
مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ و مسقط عمان
مورخہ ۱۲؍ رجب المرجب ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۹؍ اپریل ۲۰۱۶ء
بمقام مسجد نبوی شریف، بروز منگل، بوقت قبل نماز فجر
٭٭٭
مکہ پاک و مدینہ شریف سے متعلق کچھ اہم بصیرت افروز و عبرت آموز مضامین
کعبہ مشرفہ و مکہ مکرمہ میں برائی کا گناہ ہوتا ہے بے پناہ
جس طرح تمام شہروں کے سردار و سرتاج (اللہ) نے جس کے سر پر رکھا ہے انتہائی حرمت و عظمت اور جلالت و رفعت کا تاج، جس کا غایت درجہ شرف و مجد مسلّم ہے کل ہی کی طرح آج، جہاں بہت زیادہ گنہگاروں، سیہ کاروں اور خطا کاروں کی رب رحیم و کریم رکھتا ہے لاج، جہاں نیکی کا خوب خوب اگتا ہے اناج، جہاں اللہ ہی کے ابدی و سرمدی قانون کا ہے راج، اور جہاں نیکی کے کام، اللہ کے احکام اور سنتِ نبوی و اسوۂ مصطفوی کو بہت بہت دینا چاہئے رواج) مکہ مقدسہ میں نیکی کا ہوتا ہے ثواب بے حساب، ٹھیک اسی طرح مکہ مؤقرہ میں برائی کا ہوتا ہے گناہ بے پناہ، چنانچہ جلیل القدر، عظیم المرتبت اور علمی، فقہی و تفسیری میدان کے عظیم شہسواراور فہم و فراست کے زبردست شناور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(مَالِیْ وَلِبَلَدٍ تُضَاعَفُ فِیْھَا السَّیِّئَاتُ، کَمَا تُضَاعَفُ فِیْھَا الْحَسَنَاتُ) ترجمہ: ’’ میں اس شہر میں کیوں رہوں ؟جس میں نیکیوں کی طرح برائیاں بھی بڑھتی اور چڑھتی ہیں‘‘۔
اور دربارِ نبوت و بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کے نہایت ہی لاڈلے، بہت ہی پیارے اور بے حساب رتبہ و درجہ پانے والے صحابی رسول، نہایت ہی با اصول حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے: ’’عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ: لأَنْ أُخْطِیَ سَبْعِیْنَ خَطِیْئَۃٍ بِرَکْبَۃَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أُخْطِیَ وَاحِدَۃً بِمَکَّۃَ‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق: ۸۸۷)
ترجمہ: میں رکبہ (حدود حرم سے باہر کا یک مقام ) میں ستر غلطیاں کروں، یہ مجھے مکہ میں ایک غلطی کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
مکہ پاک، حدودِ حرم، مطاف، کعبہ اور مسجد حرام میں نادانی، نافرمانی، ظلم و زیادتی، چوری، حرام خوری اور غلط کاری کرنا نہایت ہی بھیانک، بہت سنگین، اور تباہ و برباد کرنے کا ذریعہ تو ہے ہی، ان پاکیزہ مقامات اور مقدس دیار میں گناہ و سرکشی، ظلم و زیادتی، بے دینی و بے راہ روی، اور بے حیائی و بے شرمی کے ارادے پر بھی سخت وعید آئی ہے، اور زبردست دھمکی دی گئی ہے۔
چنانچہ احکم الحاکمین کا صاف صاف و کھلم کھلا بیان ہے: {وَمَنْ یُرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ}(سورہ حج: ۹) ، ترجمہ: ’’جو شخص اس میں (حرم میں ) ظلم و الحاد کا ارادہ کرے تو ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: (لَوْ أَنَّ رَجُلاً ھَمَّ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ، وھَوَ بِعَدَنِ أَبْیَنَ لأَذَاقَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَذَاباً أَلِیْماً) ، ترجمہ: ’’جو شخص اس میں (حرم میں ) الحاد کا ارادہ کرے جب کہ وہ عدن ابین (یمن کا ایک مقام ) میں ہو تب بھی اللہ عز و جل اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے‘‘۔ (مسند احمد: ۴۳۱۶)
مشہور مفسر حضرت ضحاک سے منقول ہے: (إِنَّ الرَّجُلَ لَیھَمُّ بِالْخَطِیْئَۃِ بِمَکَّۃَ، وھَوَ بِأَرْضٍ أُخْریٰ فَتُکْتَبُ عَلَیْہِ ) ۔ (تفسیر در منثور: ج؍۴، ص؍۳۵۲) ۔
حضرت امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: ( لَوْ أَنَّ رَجُلاً بِعَدَن، وھَمَّ أَنْ یَقْتُلَ عِنْدَ الْبَیْتِ أَذَاقَہُ اللّٰہُ مِنَ الْعَذَابِ الأَلِیْمِ ) ، ترجمہ: اگر کوئی شخص یمن کے شہر عدن میں رہ کر بیت اللہ کے پاس کسی کے قتل کا ارادہ کرے تو اللہ اسے بھی دردناک عذاب چکھائیں گے۔ (کتاب الفروع، ج؍ ۳۔ ص؍۴۹۳) ۔
مذکورہ آیتوں، صحابہ کرام کی باتوں، ائمہ عظام، مفسرین عالی مقام اور محدثین ذی احترام کی شہادتوں سے یہ بات دودو چار کی طرح واضح اور روز روشن کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ دور دراز مقام میں رہ کر حرم محترم میں کوئی فساد برپا کرنے کی نیت کرے گا، اس کی حرمت و عزت، تقدس و عظمت اور جلالت و رفعت کو برباد و خراب کرنے کا ارادہ کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کن، ذلت آمیز اور دردناک عذاب سے دو چار کرے گا، جیسا کہ واقعہ اصحاب فیل میں ابرہہ اور اس کے لشکر کو صرف کعبہ پاک کے انہدام کے ارادے پر اللہ نے تباہ و برباد اور ہلاک فرما دیا، جب صرف غلط نیت اور فساد و بگاڑ کے ارادے پر اتنے خطرناک، درد ناک اور کربناک عذاب کی وعید ہے، اور سخت ترین دھمکی ہے، تو اگر کوئی حدود حرم و مسجد حرام اور کعبہ پاک و مطاف میں نافرمانی، بے حیا ئی اور برائی کرے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کس طرح نارض ہو گا، کتنا سخت عذاب دے گا، اور کس طرح اس کو تباہ و برباد کر دے گا، اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، اور دانتوں تلے پسینے آنے لگتے ہیں، لہٰذا بہت ہی ڈرنے کی بات ہے، اور حرم پاک میں گناہوں سے بچنا ہزار بات کی ایک بات ہے۔
اس لئے عازمینِ عمرہ و زائرین کعبہ اور حاضرین مدینہ پاک سے درد مندانہ گزارش ہے کہ ان مقامات مبارکہ میں ہر طرح کے گناہ، فتنہ و فساد، ظلم و زیادتی، برائی و نافرمانی سے مکمل طور پر بچیں، خاص کر بد نظری، بد نگاہی اور آنکھوں کی خیانت سے پورے طور پر اجتناب کریں، نگاہوں کو نیچی رکھیں، حق تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے اور اپنی ہر حرکت پر آگاہ ہونے کا دھیان جمائیں، تاکہ شیطان آپ کی عزت نہ گنوائے، اور ان اشعار تقویٰ شعار کو پڑھتے رہیں:
جو کرتا ہے تو چھپ کے اہل جہاں سے
کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے
چوریاں آنکھوں کی، اور سینوں کے راز
جانتا ہے تو سب کو اے رب نیاز
٭٭٭
مجھے فرقت میں رہ کر پھر مکہ یاد آتا ہے
مجھے فرقت میں رہ کر پھر مکہ یاد آتا ہے
وہ زمزم یاد آتا ہے، وہ کعبہ یاد آتا ہے
نگاہِ شوق جب اٹھتی ہے رب البیت کی جانب
نہ کعبہ یاد آتا ہے، نہ مکہ یاد آتا ہے
(از: حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، تلمیذ خاص علامہ کشمیری )
الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقیر ہوں، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
گنوا کر عمر ساری غفلت و عصیاں کے دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں تیرے کعبے کے آنچل میں
(از: حضرت اقدس مفتی تقی عثمانی)
رب دو جہاں، خالق ارض و سماء و مالک کون و مکاں کی خصوصی نوازش اور اس کے بے پایاں الطاف و عنایات کی بارش کی وجہ سے یہ ناچیز (دربار الٰہی سے عطا ہو اسے اچھے برے کی تمیز ) بتاریخ ۲ ربیع الثانی ۱۴۳۷ ھ مطابق ۱۲ جنوری ۲۰۱۶ء بروز منگل، بوقت بعد نمازظہر، ٹھیک تین بجے روئی، مسقط، عمان سے عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہوا۔
الحمد للہ ہمارے قافلے میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر کے چالیس افراد ہیں، جو سابقہ قافلوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہیں، تمام کے تمام کعبہ متبرکہ کی زیارت، عمرہ جیسی عظیم الشان عبادت اور مسجد حرام و کعبہ کے سائے میں ذکر و تلاوت کے لئے بے تاب و ماہیِ بے آب بنے ہوئے ہیں، اور جلدی مچا رہے ہیں، سبھوں کے دل فرطِ مسرت سے صرف مچل ہی نہیں بلکہ اچھل رہے ہیں، آج قدرے تاخیر ہو گئی ہے، جس سے سب کے سب دل آزار و بیزار ہیں، اور بار بار یہ جملہ دہرا رہے ہیں، ’’امیر صاحب اب تو چلیں، اب کس کا انتظار ہے‘‘، ایک شوخ قسم کا ساتھی ذرا سا روٹھ گیا، صبر کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، وہ غصہ میں سیٹ سے اٹھ گیا، لگنے ایسا لگا کہ اب اس کا رشتہ ہمارے قافلے سے ٹوٹ ہی گیا، کہ ماشاء اللہ ہمارے میر کارواں و سالار قافلہ الحاج جعفر صاحب حفظہ اللہ آ گئے، اور ڈرائیور کو اپنے سامنے ہی آتا ہوا پا گئے، تو انھوں نے فوراً یہ اعلان فرمایا، بلکہ چھوٹا سا ایک بیان فرمایا:
’’حضراتِ عازمین عمرہ! آپ اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں، اب ادھر ادھر بالکل ہی نہ جائیں، بس اب گاڑی چلنے ہی والی ہے‘‘، پھر انھوں نے اہلِ قافلہ سے راقم السطور کا مختصر تعارف کرایا، اور اپنے نرالے انداز سے سب کو خوب ہنسایا۔
اس کے بعد جامعہ ربانیہ مظفر پور بہار کے صدر ذی قدر معلم حج و عمرہ اور مسجد الواسط روئی، مسقط عمان کے امام عالی مقام الحاج حافظ صدر عالم صاحب سلمہ اللہ کو دعا کرانے اور ڈرائیور صاحب کو گاڑی آگے بڑھانے کے لئے کہا۔
حافظ صاحب نے رقت خیز و درد آمیز دعاؤں کے ساتھ بس کو رخصت کیا، اور اس عاجز و خادم نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور اللہ اکبر پڑھا کر بقیہ ساتھیوں کو بس پر چڑھایا، پھر تمام ساتھیوں کو سفر کی یہ دعائیں بلند آواز سے پڑھنے کے لئے کہا، ’’بِسْمِ اللّٰہِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلآَ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ، الْحَمْدُ لِلّٰہِ، الْحَمْدُ لِلّٰہِ، الْحَمْدُ لِلّٰہِ، سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ، فَإِنَّہُ لاَیَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلآَ أَنْتَ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، اللّٰہُ أَکْبَرُ، سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ، وَإِنَّا إِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، اللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْویٰ، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضیٰ، اللّٰہُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا، وَاطْوِعَنَّا بُعْدَہُ، اللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِیْ السَّفَرِ، وَالْخَلِیْفَۃُ فِیْ الأھَلِ، اللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ، وَسُوْئِ الْمُنْقَلَبِ فِیْ الْمَالِ وَالأھَلِ۔ (رواہ الترمذی و أبوداؤد)
پھر میں نے ساتھیوں سے کذارش کی کہ:
۱) ہر جگہ اور ہر وقت اور ہر حالت میں خاص کر حج و عمرہ کے سفر میں اچھا سچا کام بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع کریں۔
۲) جب کسی کام کا ارادہ کریں تو ان شاء اللّٰہ ضرور کہہ لیا کریں۔
۳) جب کام بن جائے تو الحمد للّٰہ کہیں۔
۴) جب کوئی مصیبت آئے یا کوئی کام خراب ہو جائے تو إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون ضرور پڑھا کریں۔
۵) جب کوئی کام بہت اچھا ہو جائے یا کوئی چیز پسند آ جائے تو ما شاء اللّٰہ لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ کہیں۔
۶) جب اوپر چڑھیں تو اللّٰہ اکبر۔
۷) جب نیچے آئیں تو سبحان اللّٰہ۔
۸) اور جب برابر کی جگہ میں چلیں تو الحمد للّٰہ ضرور کہا کریں۔
۹) ہر اچھا کام دائیں طرف سے شروع کریں۔
مختصر یہ کہ ہر کام سنت نبوی و طریقۂ مصطفوی کے مطابق کریں، کیونکہ:
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
میرے سرکار کے نقشِ قدم شمعِ ہدایت ہیں
یہی وہ منزل ہے جس کو مغفرت کاراستہ کہئے
آخر میں اس ناکارہ و آوارہ نے عازمین عمرہ و زائرین کعبہ سے گذارش کی کہ وہ ہر آن، ہر لمحہ، ہر وقت، ہر جگہ خصوصاً حج و عمرہ کے سفر میں اور خاص کر مکہ پاک و مدینہ شریف میں یہ دس کام نہایت ہی پابندی، دردمندی و فکر مندی کے ساتھ کرتے رہیں:
۱) بہت بہت لیں اللہ کا نام، یعنی ذکر الٰہی اور یادِ خداوندی میں اپنے آپ کو لگائیں رکھیں۔
۲) خوب خوب کریں دعاؤں کا اہتمام۔
۳) توبہ و استغفار کا کریں التزام۔
۴) کثرت و زیادت سے ساتھ کریں سلام۔
۵) سب سے کریں نرم کلام۔
۶) تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں، ان میں بھی خاص کر حج و عمرہ کرنے والوں، ان میں بھی خاص طور پر اپنے ساتھیوں کا کریں اکرام۔
۷) کبھی کبھار کرتے رہیں دعوت طعام۔
۸) باوضو رہیں دن و رات اور صبح و شام۔
۹) مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں بالکل ہی نہ کریں گناہ و نافرمانی کا کوئی کام۔
۱۰) کثرت و زیادتی کے ساتھ پڑھتے رہیں درود و سلام۔
(تلک عشرۃ کاملۃ)
اللہ کی سراپا کریم و مجسم ذات سے امید ہے کہ جو شخص ان دس کاموں کو خلوص و وفا، اور صدق و صفا کے ساتھ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت نصیب فرمائے گا، اور آپ کے ہاتھوں دے گا کوثر کا جام، اللہ تعالیٰ روز جزا و سزا کرائے گا اپنا دیدار، اور خود سنائے گا اپنا لا زوال و بے مثال کلام، یعنی قران، تمام عازمین عمرہ و زائرین کعبہ اور حاضرین مسجد نبوی و روضہ پاک سو جان سے کریں مکہ و مدینہ کا اکرام و احترام، کیونکہ:
نہ یہاں پر سبزہ اگتا ہے، نہ یہاں پر پھول کھلتے ہیں
مگر اس سرزمیں سے آسماں بھی جھک کے ملتے ہیں
٭٭٭
مکہ میں درس قرآن کی ایک نشست
اللہ کی طرف سے حسن توفیق بنی رفیق، تو ۲۱؍ ربیع الثانی۱۴۳۷ ھ مطابق ۳۱؍ جنوری ۲۰۱۶ ء بروز اتوار، بعد نماز عشاء، بمقام فندق منی الاجیاد، مکہ میں بزم قرآن و حدیث مکہ مکرمہ کی طرف سے تفسیر قرآن عظیم کی ایک محفل منعقد کی گئی، محفل کا آغاز جناب الحاج الحافظ محمد آصف صاحب جونپوری ہندستانی، معلم حجاج و معتمرین مون ٹراویلس مقیم مسقط و نزیل مکہ نے اپنی شاندار تلاوت قرآن پاک سے فرمایا۔
موصوف کی پر سوز، ایمان افروز اور بصیرت آموز تلاوت کے بعد بزم پر عزم کے مہمانِ خصوصی محترم المقام جناب مولانا مفتی نعیم صاحب مدظلہ (استاذ مدرسہ کاشف العلوم، اورنگ آباد مہاراشٹر، ہندوستان) نے معلومات افزا، چشم کشا اور عبرت و موعظت سے مالامال درس قرآن دیا، جس میں انھوں نے بڑی دلسوزی کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہنے کے آداب، طور طریقے، ڈھنگ و سلیقے ایسے درد کے ساتھ بیان فرمائے کہ سامعین و حاضرین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، خاص طور پر مفتی صاحب نے مدینہ منورہ کی عظمت و فضیلت، خوبی و خوبصورتی کو ایسے مؤثر، دلچسپ، پر لطف، عاشقانہ اور مفید انداز سے بیان فرمایا کہ مجمع حبّ نبوی و عقیدت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم سے سرشار ہو گیا، اور فکر مصطفوی کو ساری دنیا میں عام و تام کرنے کے لئے سو جان سے تیار ہو گیا۔
حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ مکہ میں جلال ہے، ہر فرد پرا گندہ حال ہے، سب کے بکھرے ہوئے بال ہیں، عشق کا ہر جگہ اظہار ہے، بندے کے شور سے بھی حق تعالیٰ کو ہمیشہ پیار ہے۔
مگر مدینہ منورہ میں جمال ہے، خاموشی ہے، وہاں کے شور و ہنگامہ میں بھی سکون ہے، وہاں زور و شور منع ہے، زیب و زینت ضروری ہے، وہاں اس شعر کا مصداق بن کر رہنا ضروری ہے:
آہستہ قدم، نیچی نگاہ، پست صدا ہو
خوابیدہ یہاں روح رسول عربی ہے
مدینہ منورہ کے ذرہ ذرہ، چپہ چپہ اور گلی گلی کا ادب و احترام ایمان کی علامت ہے، لہٰذا مدینہ میں نہایت ہی خبردار اور ہوشیار رہنا چاہئے، سنتوں کے مطابق اور اسوۂ محمدی کے موافق اپنا وقت گزارنا چاہئے، توبہ و استغفار کرنا چاہئے، بڑے ہی ذوق و شوق اور کثرت و زیادت کے ساتھ درود و سلام پڑھتے ہی رہنا چاہئے، سنت نبوی کی پیروی، مسواک، خوشبو، قران پاک کی تلاوت، اہل مدینہ پر محبت کی نگاہ خوش قسمتی و سعادت کی بات ہے، جس کو ملحوظ رکھنا دن و رات ہے، یہی ہزار بات کی ایک بات ہے، جس سے شیطان ہر جگہ مات ہے، ادب و اکرام کرنے والوں کے ساتھ قدرت کی طرف سے ہر آن، ہر لمحہ اور ہر جگہ مدد کا ہاتھ ہے۔
آخر میں مفتی صاحب کی رقت آمیز اوردرد خیز دعا پر مجلس کا اختتام تقریبادس بجے رات ہوا۔
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، اردن، فلسطین کے تقریباً پچاس افراد نے اس بزم ایمان اور مجلس قران میں کی شرکت، حج و عمرہ جعفر گروپ مسقط کی طرف سے سب کی ہوئی ضیافت، شرافت و ظرافت سے مالامال، گھبراہٹ سے دور اور مسکراہٹ کی دولت سے نہال مون ٹراویلس کے آتش جواں معلم جناب مولانا محبوب صاحب ندوی سلمہ اللہ نے کھانا تقسیم کیا، اور سب کا دل جیت لیا۔
آخر میں نہ کہ آخری بار راقم آثم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا، جس کے الطاف و عنایت کے صدقہ یہ بزم پر عزم منعقد ہوتی رہتی ہے، پھر تمام شرکاء مجلس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تمام ساتھیوں کو رخصت کیا، اور یہ شعر دیر گئے رات تک گنگناتا رہا:
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
اور دل کی گہرائیوں سے اللّٰہم لک الحمد و لک الشکر پڑھتا رہا۔
٭٭٭
چوری کام ہے بہت ہی گندہ
پھر بھی کوئی کوئی بندہ، حرم میں بھی کرتا ہے یہی دھندہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا لطف و احسان ہے کہ یہ ننگ اسلاف خانۂ کعبہ کا سال کے اکثر دنوں میں دیکھتا رہتا ہے مبارک غلاف، اللہ عفو و کرم والا اپنی خاص مہربانی سے اس کے سارے گناہ کر دے معاف، اس کے دل و دماغ کو آئینہ کی طرح کر دے صاف و شفاف، اس کو عطا ہو صدق و خلوص، پاکیزگی و عفاف اور کمزور سے کمزور و بے زور سے بے زور کو بھی اس کی طرف سے ملے حق و انصاف اور یہ اپنی خاص جس کو اس کے دل نے کیا ہے پاس، نہایت ہی قیمتی سے قیمتی چیز، دل و جان سے عزیز و لذیذ کو بھی بہت ہی ایثار و پیار کے ساتھ دوسرے دینی ساتھی و اسلامی بھائی سے کہہ دے تم بھی لے لو ہاف ہاف، لیکن غلط طریقے و ناجائز طور پر کسی کی جیب کبھی مت کرو صاف، وہ بھی اُس وقت جب شہنشاہِ اعظم کے خصوصی مہمانانِ عالی شان کر رہے ہوں طواف اور محوِ عبادت ہوں اس مقدس و متبرک نورانی و روحانی مقام پر جس کو کہا جاتا ہے مطاف۔
جیسا کہ بتاریخ ۲۶؍ رجب المرجب ۱۴۳۷ھ بروز منگل، بوقت بعد نماز فجر، بمقام مطاف شریف، حجر اسود کے بالکل ہی قریب، ملتزم پاک و مقام ابراہیم کے درمیان میں کعبہ مشرفہ کے دروازہ کے سامنے طواف جیسی عظیم الشان بے پناہ و ا تھاہ اجر و ثواب کی حامل عبادت کے دوران ایک بندہ، جس پر شیطان مردود و بے سود نے ڈال دیا مکر و فریب کا پھندہ، تو اس نے کر لیا چوری کا دھندہ، جو اللہ کی مقدس بارگاہ و پاک نگاہ میں ہے کام نہایت ہی گندہ، اس کی شکل و صورت سے ایسا لگ رہا تھا کہ کعبہ شریف کے گرد گھومنے، حجر اسود کو چومنے، پھر فرط مسرت سے جھومنے کی گہما گہمی، جوش و خروش اور دھکم پیل میں اس بیچارے کا یہی ہے دھندہ، اس سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ بیچارا، عقل کا مارا، بھائی ہمارا، بھیک مانگ لیتا، یا کر لیتا چندہ، اللہ ہی انسان کو ہر شر سے بچائے، اور ہر بری عادت و گندی لت سے محفوظ فرمائے، آمین
پھر ہوا یہ کہ جس بھائی کی جیب ہوئی تھی صاف، اس نے اس کو نہیں کیا معاف، بلکہ پولیس کے حوالہ کر کے مانگا انصاف، چنانچہ پولیس اس کو پکڑی، ہتھکڑی میں جکڑی، جیل میں کی بند، پھر اس کا عبرتناک و دردناک ہوا مسئلہ، ہاتھ کاٹنے کا ہوا کربناک و المناک فیصلہ۔ {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْدِیَہُمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ}، ترجمہ: ’’چوری کرنے والے مرد، اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو، ان کے کرتوت کی سزا اور دوسروں کی عبرت کی خاطر، یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔ (مائدہ: ۳۸)
اس درد انگیز، عبرت خیز و نصیحت آمیز واقعہ و حادثہ پر کوئی کسی کو نہ ہنسے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خودہی پھنسے، ہر آدمی ہوشیار و چوکنا رہے، طواف میں ادھر ادھر ہمارا ہاتھ نہ جائے، کوئی ہمارے ہاتھ کو اپنی جیب نہ پائے، اللہ ہی ہر آدمی کو بچائے، اور باعزت ہمارا سفر پورا فرمائے۔ (ع) یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔
اللہ کی پناہ، کوئی نہ ہو اس طرح ذلیل و تباہ، جیسا ملے ویسا ہی کھائے اور اسی پر کر لے نباہ، تاکہ شیطان خوشی میں نہ کہے واہ، اور فرشتوں و شریف لوگوں کو ہو حیرت، اور ان کی منہ سے نکل جائے، آہ!، اور اللہ کی چاہت کے مطابق ہو ہماری ہر چاہ۔
اس طرح کی ہر بری حرکت، خراب عادت اور گندی لت سے بار بار استغفر اللہ، ہزار بار أعوذ باللہ، بے شمار انا للہ، اور لگاتار لاحول و لا قوۃ الا باللہ، اور اللہ قادر مطلق و معبود برحق کے حضور ہماری ہمیشہ یہ ہو دلی دعا و قلبی صدا:
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو، اس رہ پر چلانا مجھ کو
یا اللہ! ہم تمام مسلمانوں کو ہر برے کام و بد انجام سے بچانا، اور اس شعر کا مصداق کبھی نہ بنانا، آمین ثم آمین
کہاں کا حرام، کہاں کا حلال
ہٹے حائے حطّی رہے رام لال
٭٭٭
زمزم اللہ کی عظیم مہربانی اور اس کی قدرت کی زبردست نشانی
اس طرح کچھ تشنگی کو بڑھائیں
کریں آبِ زمزم کے پینے کی باتیں
قادرِ مطلق، مختارِ کل اور معبودِ برحق نے جس طرح، امن و شانتی، سکون و سلامتی کے گہوارہ، روشنی و چاندنی کے مینارہ، اور برکت و رحمت، سعادت و ہدایت کے شہ پارہ، کعبہ مشرفہ و مؤقرہ کو اپنے تمام کے تمام دَروں، و سب کے سب گھروں میں بلند ترین و عظیم ترین مقام بخشا ہے، بہت ہی زیادہ و بے اندازہ فضل و شرف سے نوازا ہے، اور قابل صد ناز و باعث صد رشک و فخر بنایا ہے، ٹھیک اسی طرح رب العزت، سراپا عظمت اور مجسم برکت نے زمزم (جس سے غلط ہوتا ہے ساراکا سارا غم) کو دنیا کے تمام پانی پر عزت و فضیلت بخشی ہے، اور اہمیت و فوقیت عطاکی ہے، کائنات کے مالک و خالق نے زمزم کے پانی کو بڑی عظمت و رفعت اور بہت بہت حرمت و جلالت سے نہال فرمایا ہے، مالا مال کیا ہے، بے مثال بنایا ہے، اور اپنے مثالی و الہامی، شاندار، مشکبار، ضو بار و سدا بہار کلام قرآن عالی شان کی آیت مبارکہ {فِیْہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ } کا مصداق بنایا ہے، اور مشہور، مستند و معتبر مفسرین و صاحب فضل و کمال محدثین نے ماء زمزم کو مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی تفسیر قرار دیا ہے، جس کو اہل دل، دین پسند اور اہل علم شاعروں نے بڑے دلکش و خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے، جس سے ماء زمزم کی برتری، بزرگی و بلندی کا پتہ چلتا ہے، اور بخوبی اندازہ ہوتا ہے:
یہ وادِ غیر ذی زرع میں کیسی ہے بہار آئی
جہاں کے ذرہ ذرہ نے خزاں کو آنکھ دکھلائی
ہجوم عام رہے کیوں نہ چاہِ زمزم پر
یہیں پر سیر ہر اک تشنہ کام ہوتا ہے
تشنگی جو بڑھی آکے زمزم پیا
کس قدر روح افزا ترا جام ہے
کہیں حجر اسود، کہیں ملتزم ہے
کہیں آب زمزم کی دھار، اللہ اللہ
مبارک ہو سیرابیِ آبِ زمزم
مری تشنگی بھی ذرا یاد رکھنا
شہنشاہ اعظم، مالکِ مکرم، اور خالق دو عالم نے زمزم کے پانی کو خوب خوب امتیازات و خصوصیات سے نوازا ہے، اور بہت بہت نافعیت و افادیت کا ذریعہ بنایا ہے، لہٰذا حبیب پروردگار و نبیوں کے سردار حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد پاک ہے: ’’خَیْرُ ماء عَلیٰ وَجْہِ الأَرْضِ ماء زَمْزَمَ، فِیْہِ طَعَامٌ مِنَ الطَّعْمِ وَشِفَاءُ مِنَ السَّقْمِ‘‘۔
مذکورہ حدیث پاک کی ترجمانی اس عاجز راقم السطور کی زبانی:
روئے زمین پر سب سے افضل اور بہترین پانی آب زمزم ہے، جو غذا بھی ہے، دوا بھی ہے، اور شفاء بھی ہے، اور زمزم کے پانی کی خوبی و خوبصورتی، اس کے فائدہ و عمدگی کو حبیب خدا، رسولِ ھدی، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے نہایت ہی شیریں انداز و عش عش کرنے والے الفاظ میں یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ماء زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہُ‘‘ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۳۶۲۱)
حدیث کی ترجمانی: یہ ہے نبوی قاعدہ، زمزم جس ارادہ اور مقصد سے پیا جائے گا، اس میں ضرور ہو گا فائدہ، لہٰذا اس راقم آثم حج و عمرہ کے خادم کی زمزم پینے والے بھائی و بہنوں سے ہمدردانہ، برادرانہ و مومنانہ ہے گزارش، جس پر پوری امید ہے کہ آپ تمام حضرات ضرور کریں گے نوازش، تو انشاء اللہ ضرور ہو گی خدا کے فضل و کرم، لطف و رحم کی بارش، اور شیطان مردود و بے سود کو ضرور بالضرور ہو گی خارش۔
گزارش نمبر(۱) : زمزم نیت کر کے خاص طور پر یہ دعا پڑھ کر پئیں: ’’اللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْأَلُکَ عِلْماً نَافِعاً، وَرِزْقاً وَاسِعاً، وَشِفَاءً مِنْ کُلِّ دَاءٍ‘‘، ترجمہ: (الٰہی ! میں تجھ سے فائدہ مند علم، کشادہ رزق مانگتا ہوں، اور تمام قسم کی پریشانی و بیماری سے نجات چاہتا ہوں۔
(۲) زمزم بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پئیں۔
(۳) ماء زمزم داہنے ہاتھ سے پئیں۔
(۴) زمزم کا پانی قبلہ کی طرف رخ کر کے پئیں۔
(۵) بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر پئیں، لیٹ کر یا ٹیک لگا کر نہ پئیں۔
(۶) تین سانس میں پئیں۔
(۷) خوب آسودہ و سیر ہو کر پئیں۔
(۸) پینے کے بعد شکر الٰہی بجا لائیں، اور دل و زبان سے الحمد للہ کہیں۔
(۹) زمزم پینے کے بعد دنیا و آخرت کی بھلائی و کامیابی کی خوب خوب اور بہت بہت دعا کریں، کہ یہ وقت دعا قبول ہونے کا ہے۔
زمزم نہایت ہی پاکیزہ، و بہت ہی مبارک پانی ہے، چنانچہ لاڈلے نبی و پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اِنّھَا مُبَارَکَۃٌ، اِنّھَا طَعَامٌ طَیِّبٌ‘‘ (مسلم شریف) ، ترجمہ: زمزم بہت ہی مبارک پانی ہے، جس میں بھر پور غذائیت ہے‘‘، اور ایک حدیث میں ہے: ’’زمزم غذا بھی بنتا ہے، اور خدا کے حکم سے شفاء بھی دیتا ہے‘‘۔
مختصر یہ ہے کہ زمزم اللہ کی عظیم مہربانی اور اس کی قدرت کاملہ کی زبردست نشانی ہے، قدرت کا انمول عطیہ اور سدا بہار غیبی ہدیہ اور قیمتی تحفہ ہے، زمزم حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کی مخلصانہ و والہانہ قربانی کی سدا بہار یادگار، اور اسلام کا زندۂ جاوید معجزہ ہے۔
٭٭٭
تشکر: جناب حماد کریمی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں