فہرست مضامین
تفہیم القرآن
۱۱۔ سورۂ عنکبوت تا سورۂ السجدہ
ابو الاعلیٰ مودودی
۲۹۔ العنکبوت
نام
آیت ۴۱ کے فقرے مثل الذین اتحذو من دون اللہ اولیآء کمثل العنکبوت سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ "عنکبوت” آیا ہے۔
زمانۂ نزول
آیات ۵۶ تا ۶۰ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے ، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانے کے حالات جھلکتے نظر آتے ہیں۔ بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا ظہور مدینہ میں ہوا ہے ، یہ قیاس قائم کر لیا کہ اس سورت کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورت مکی ہے۔ حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں سے کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کر رہے تھے ، اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا اتفاق مکہ ہی میں ہو سکتا ہے نہ کہ مدینے میں۔ اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر کہ اس سورت میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دے دیا ہے حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کر چکے تھے۔ یہ تمام قیاسات دراصل کسی روایت پر مبنی نہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادتوں کی بنا پر رکھی گئے ہیں۔ اور یہ اندرونی شہادت، اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈال لی جائے ، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرتِ حبشہ واقع ہوئی تھی۔
موضوع و مضمون
سورت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ مکۂ معظمہ میں مسلمانوں پر بڑے مصائب و شدائد کا زمانہ تھا۔ کفار کی طرف سے اسلام کی مخالفت پورے زور و شور سے ہو رہی تھی اور ایمان لانے والوں پر سخت ظلم و ستم توڑے جا رہے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت ایک طرف صادق الایمان لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کے لیے اور دوسری طرف ضعیف الایمان لوگوں کو شرم دلانے کے لیے نازل فرمائی۔ اس کے ساتھ کفار مکہ کو بھی اس میں سخت تہدید کی گئی کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دیں جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے میں دیکھتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ان سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت پیش آ رہے تھے۔ مثلاً اُن کے والدین ان پر زور ڈالتے تھے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو۔ جس قرآن پر تم ایمان لائے ہو اس میں بھی تو یہی لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے۔ تو ہم جو کچھ کہتے ہیں اسے مانو ورنہ تم خود اپنے ہی ایمان کے خلاف کام کرو گے۔ اس کا جواب آیت ۸ میں دیا گیا ہے۔
اس طرح بعض نو مسلموں سے ان کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب ثواب ہماری گردن پر، تم ہمارا کہنا مانو اور اس شخص سے الگ ہو جاؤ۔ اگر خدا تمہیں پکڑے گا تو ہم خود آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ صاحب، ان بے چاروں کا کچھ قصور نہیں ، ان کو ہم نے ایمان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، اس لیے آپ ہمیں پکڑ لیں۔ اس کا جواب آیات ۱۲-۱۳ میں دیا گیا ہے۔
جو قصے اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ تر یہی پہلو نمایاں ہے کہ پچھلے انبیاء کو دیکھو، کیسی کیسی سختیاں ان پر گزریں اور کتنی کتنی مدت وہ ستائے گئے ، پھر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی مدد ہوئی۔ اس لیے گھبراؤ نہیں۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی، مگر آزمائش کا ایک دور گزرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو یہ سبق دینے کے ساتھ کفار مکہ کو بھی ان قصوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہو گی ہی نہیں۔ پچھلی تباہ شدہ قوموں کے نشانات تمہارے سامنے ہیں < دیکھ لو کہ آخر کار ان کی شامت آ کر رہی اور خدا نے اپنے نبیوں کی مدد کی۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر ظلم و ستم تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو جائے تو ایمان چھوڑنے کے بجائے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ۔ خدا کی زمین وسیع ہے۔ جہاں خدا کی بندگی کر سکو وہاں چلے جاؤ۔
ان سب باتوں کے ساتھ کفار کی تفہیم کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ توحید اور معاد، دونوں حقیقتوں کے دلائل کے ساتھ ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، شرک کا ابطال کیا گیا ہے اور آثار کائنات کی طرف توجہ دلا کر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب نشانات اس تعلیم کی تصدیق کر رہے ہیں جو ہمارا نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ے۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
الف۔ ل۔م۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟۱ حالانکہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔۲ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے۳ کہ سچے کون ہیں اور جھُوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں۴ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟۵ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔
جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ)اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے،۶ اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔۷ جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا،۸ اللہ یقیناً دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے۔۹ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے اُن کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انہیں اُن کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے۔۱۰ ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ کسی ایسے (معبُود)کو شریک ٹھہرائے جسے تُو (میرے شریک کی حیثیت سے )نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔۱۱ میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔۱۲ اور جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے اُن کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے۔
لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔۱۳ مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔۱۴ اب اگر تیرے ربّ کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ ’’ ہم تو تمہارے ساتھ تھے‘‘ ۱۵ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟ اور اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون۔۱۶ یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اُوپر لے لیں گے۔۱۷ حالانکہ اُن کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اُوپر لینے والے نہیں ہیں،۱۸ وہ قطعاً جھُوٹ کہتے ہیں۔ ہاں ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی۔۱۹ اور قیامت کے روز یقیناً ان سے اِن افترا پردازیوں کی باز پرس ہو گی جو وہ کرتے رہے ہیں۔۲۰ ؏۱
تفسیر
۱: جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکۂ معظمہ میں جو شخص اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑتا تھا۔ کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں۔ کوئی دوکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کر دیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آ جاتی۔ کوئی کسی با اثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اَجیرن کر دیتے تھے۔ ان حالات نے مکّے میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر دیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کے قائل ہو جانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دوچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خَبّاب بن اَرَت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری، ابوداؤد اور نسائی نے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سُن کر آپ کا چہرہ جو ش اور جذبے سے سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہلِ ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں۔ ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تا کہ وہ ایمان سے باز آ جائے۔ خدا کی قسم، یہ کام پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص صَنعاء سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہو گا جس کا وہ خوف کرے۔ اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں، کوئی شخص مجرّد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہو سکتا، بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہو گا تا کہ وہ اپنے دعوے کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہماری جنت اِتنی سستی نہیں ہے، اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے۔ ہماری خاطر مشقتیں اُٹھانی ہوں گی۔ جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہو گا۔ طر ح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی۔ خطرات، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی۔ ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا، اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے، ہمارے لیے برداشت کرنی ہو گی۔ تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعویٰ تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔ یہ بات قرآن مجید میں ہر اُس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہُوا ہے۔ ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات، بیرونی خطرات، اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہلِ ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا، اس وقت فرمایا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْ ا مِنْ قَبْلِکُمْ، مَّسَّتْہُمُ الْبَاْ سَآ ءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِ لُوْا حتیٰ یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْب ٌo کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہلِ ایمان) پر گزر چکے ہیں؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ بلا مارے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اور اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی(تب انہیں مژدہ سنایا گیا) کہ خبر دار رہو، اللہ کی مدد قریب ہے۔ اِسی طرح جنگِ اُحُد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جَا ھَدُوْ ا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پا مردی دکھانے والے کون ہیں؟ قریب قریب یہی مضمون سورۂ آلِ عمران، آیت ۱۷۹۔ سورۂ توبہ آیت۱۶ اور سورۂ محمدؐ، آیت ۳۱ میں بھی بیان ہُوا ہے۔ ان ارشادات سے اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے، کھوٹا خود بخود اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹ جاتا ہے، اور کھرا چھانٹ لیا جاتا ہے تا کہ اللہ کے اُن انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صاد ق الایمان لوگوں کا ہی حصّہ ہیں۔
۲: یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آ رہا ہو۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعویٰ کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے۔ اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری کیا خصوصیت ہے کہ تمہیں صرف زبانی دعوے پر نواز دیا جائے۔
۳: اصل الفاظ ہیں فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ، جن کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا ’’ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے۔ اس پر ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے، آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخس کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے، عملاً اس کا ظہور نہیں ہو جاتا، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزاء کا مستحق ہو سکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلاً ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت۔ ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت داری کا عملاً ظہور نہ ہو جائے، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علمِ غیب کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے وہ علمِ سابق جو اللہ کو لوگوں کے اچھے اور بُرے اعمال سے پہلے اُن کی صلاحیتوں کے بارے میں اور اِن کے آئندہ طرزِ عمل کے بارے میں حاصل ہے، انصاف کے اغراض کے لیے کافی نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں انصاف اِس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رجحان رکھتا ہے اور چورے کرے گا یا کرنے والا ہے، بلکہ اِس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی ہے۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اِس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلیٰ درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا، بلکہ اِس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کر دیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر د کھا دی ہے۔ اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترجمہ ’’اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے‘‘ کیا ہے۔
۴: اس سے مراد اگرچہ تمام وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر روئے سخن قریش کے اُن ظالم سرداروں کی طرف ہے جو اسلام کی مخالفت میں اور اسلام قبول کرنے والوں کو اذیتیں دینے میں اُس وقت پیش پیش تھے۔ مثلاً وَلِید بن مُغِیرہ، ابو جہل، عُتبَہ، شَیبہ، عُقْبہ بن ابی مُعَیط، اور حَنظلہ بن دائیل وغیرہ سِیاق و سباق خود یہاں تقاضا کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو آزمائشوں کے مقابلے میں صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد ایک کلمۂ زجر و توبیخ اُن لوگوں کو خطاب کر کے بھی فرمایا جائے جو ان حق پرستوں پر ظلم ڈھا رہے تھے۔
۵: یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ہماری گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ سکیں گے۔‘‘ اصل الفاظ ہیں یَسْبِقُوْنَا یعنی ہم سے سبقت لے جائیں گے۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں (یعنی اپنے رسول کے مشن کی کامیابی) وہ تو نہ ہو سکے اور جو کچھ یہ چاہتے ہیں( یعنی ہمارے رسول کو نیچا دکھانا ) وہ ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ ہم ان کی زیادتیوں پر انہیں پکڑنا چاہتے ہوں اور یہ بھاگ کر ہماری دست رس سے دور نکل جائیں۔
۶: یعنی جو شخص حیاتِ اخروی کا قائل ہی نہ ہو اوور یہ سمجھتا ہو کہ کوئی نہیں ہے جس کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو اور کوئی وقت ایسا نہیں آنا ہے جب ہم سے ہمارے کارنامۂ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اس کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ اپنی غفلت میں پڑا رہے اور بے فکری کے ساتھ جو کچھ چاہے کرتا رہے۔ اپنا نتیجہ اپنے اندازوں کے خلاف وہ خود دیکھ لے گا۔ لیکن جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایک وقت ہمیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی پانی ہے، انہیں اِس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ موت کا وقت کچھ بہت دور ہے۔ ان کو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بس قریب ہی آ لگا ہے اور عمل کی مہلت ختم ہوا ہی چاہتے ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی وہ اپنی عاقبت کی بھلائی کے لیے کر سکتے ہوں کر لیں۔ طولِ حیات کے بے بنیاد بھروسے پر اپنی اصلاح میں دیر نہ لگائیں۔
۷: یعنی اُن کو اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا چاہیے کہ ان کا سابقہ کسی شِہ بے خبر سے ہے۔ جس خدا کے سامنے انہیں جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے وہ بے خبر نہیں بلکہ سمیع و علیم خدا ہے، ان کی کوئی بات بھی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
۸: ’’مجاھدہ‘‘ کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کشمکش اور جدو جہد کرنے کے ہیں، اور جب کسی خاص مخالف طاقت کی نشان دہی نہ کی جائے بلکہ مطلقاً مجاہدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کش مکش ہے۔ مومن کو اِس دنیا میں جو کش مکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے۔ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ دلاتا رہتا ہے۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے اُن تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن کے نظریات، رُجحانات، اُصُولِ اخلاق، رسم و رواج، طرز تمدّن اور قوانینِ معیشت و معاشرت دینِ حق سے متصادم ہوں۔ اور اُس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ مجاہدہ ایک دن دو دن کا نہیں عمر بھر کا، اور چوبیس گھنٹوں میں سے ہر لمحہ کا ہے۔ اور کسی ایک میدان میں نہیں زندگی، کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر ہے۔ اسی کے متعلق حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ان الرجل لیجاھد و ما ضرب یو ما من الدھر بسیف۔ ’’آدمی جہاد کرتا ہے خواہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے۔‘‘
۹: یعنی اللہ تعالیٰ اِ س مجاہدہ کا مطالبہ تم سے اس لیے نہیں کر رہا ہے کہ اپنی خدائی قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لیے اسے تمہاری کسی مدد کی ضرورت ہے اور تمہاری کسی مدد کی ضرورت ہے اور تمہاری اس لڑائی کے بغیر اس کی خدائی نہ چلے گی۔ بلکہ وہ اس لیے تمہیں اس کش مکش میں پڑنے کی ہدایت کرتا ہے کہ یہی تمہاری ترقی کا راستہ ہے۔ اسی ذریعہ سے تم بدی اور گمراہی کے چکر سے نکل کر نیکی اور صداقت کی راہ پر بڑھ سکتے ہو۔ اسی سے تم میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں خیر و صلاح کے علمبردار اور آخرت میں خدا کی جنت کے حق دار بنو۔ تم یہ لڑائی لڑ کر خدا پر کوئی احسان نہ کرو گے، اپنا ہی بھلا کر و گے۔
۱۰: ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہے جنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ دل و دماغ کا عملِ صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں۔ زبان کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جو بات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے۔ اور اعضا و جوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں، اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہو۔ اس ایمان و عمل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں اس سے دور کر دی جائیں گی۔ دوسرا یہ کہ اس کے بہترین اعمال کی، اور اس کے اعمال سے بہتر جزا دی جائے گی۔ برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہو جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آدمی نے بغاوت کے جذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں، اس کے نیک اعمال کا لحاظ کر کے اُن سے در گزر کیا جائے گا۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہو گی اور اس کی بہت سی کمزوریاں دور ہو جائیں گی۔ ایمان و عمل صالح کی جزاء کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے لَنَجْزِ یَنَّھُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اس کے لیے جزا تجویز کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزاء کا مستحق ہو گا، اس سے زیادہ اچھی جزاء اُسے دی جائے گی۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ انعام میں فرمایا مَنْ جَآءَ بِا الْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَا لِھَا (آیت۱۶۰)۔ ’’ جو نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے دس گنا اجر دیا جائے گا۔‘‘ اور سورۂ قَصص میں فرمایا مَنْ جَآءَ بِا الْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْھَا (آیت ۸۴)۔ ’’ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے بہتر اجر دیا جائے گا۔‘‘ اور سورۂ نساء میں فرمایا اِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَّاِنْ تَکُ حَسَنَۃٌ یُّضَا عِفْھَا (آیت ۴۰)۔ ’’اللہ ظلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا، اور اگر نیکی ہو تو اس کو کئی گنا بڑھاتا ہے۔‘‘
۱۱: اس آیت کے متعلق مسلم، ترمذی، احمد، ابو داؤد، اور نَسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وَقَّاص ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ ۱۹-۱۸ سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کی ماں حَمْنَہ بنت سُفیان بن اُمَیَّہ (ابو سفیان کی بھتیجی) کو جب معلوم ہُوا کہ بیٹا مسلمان ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ جب تک تُو محمدؐ کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، نہ سائے میں بیٹھوں گی۔ ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ کا حُکم ہے۔ تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی بھی نافرمانی کرے گا۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ممکن ہے کہ ایسے ہی حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دوچار ہوئے ہوں جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ اسی لیے اس مضمون کو سورۂ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہرایا گیا ہے (ملاحظہ ہو آیت ۱۵)۔ آیت کا منشا یہ ے کہ انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں، لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے، کجا کہ کسی اور کے کہنے پر آدمی ایسا کرے۔ پھر الفاظ یہ ہیں کہ وَاِنْ جَاھَدَ اکَ۔ ’’ اگر وہ دونوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کم تر درجے کا دباؤ، یا ماں باپ میں سے کسی ایک زور دینا تو بدرجہ اَولیٰ رد کر دینے کے لائق ہے۔ اس کے ساتھ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ (جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا) کا فقرہ بھی قابلِ غور ہے۔ اس میں اُن کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے۔ ماں باپ کا یہ حق تو بے شک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے، ان کا ادب و احترام کرے، ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں پہنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی کیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہو جائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسے اس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چاہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہو۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے۔
۱۲: یعنی یہ دنیا کی رشتہ داریاں اور اِن کے حقوق تو بس اسی دنیا کی حد تک ہیں۔ آخر کار ماں باپ کو بھی اور اولاد کو بھی اپنے خالق کے حضور پلٹ کر جانا ہے، اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی ہے۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑے جائیں گے۔ اگر اولاد نے ماں باپ کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تو اسے سزا ملے گی۔ اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کی، لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا، تو وہ اللہ کے مواخذے سے بچ نہ سکیں گے۔
۱۳: کہنے والا ایک شخص ہے، مگر ’’میں ایمان لایا‘‘ کہنے کے بجائے کہہ رہا ہے ’’ہم ایمان لائے۔‘‘ امام رازی نے اس میں ایک لطیف نکتے کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ منافق اپنے آپ کو ہمیشہ زمرۂ اہل ایمان میں شامل کرنے کی کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ایمان کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ بھی ویسا ہی مومن ہے جیسے دوسرے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بزدل اگر کسی فوج کے ساتھ گیا ہے اور اس فوج کے بہادر سپاہیوں نے لڑ کر دشمنوں کو مار بھگا دیا ہے، تو چاہے اس نے خود کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو، مگر وہ آ کر یوں کہے گا کہ ہم گئے اور ہم خوب لڑے اور ہم نے دشمن کو شکست فاش دے دی۔ گویا آپ بھی انہی بہادروں میں سے ہیں جنہوں نے داد شجاعت دی ہے۔
۱۴: یعنی جس طرح اللہ کے عذاب سے ڈر کر کفر و معصیت سے باز آنا چاہیے، یہ شخص بندوں کی دی ہوئی تکلیفوں سے ڈر کر ایمان اور نیکی سے باز آ گیا۔ ایمان لانے کے بعد کفار کی دھمکیوں اور مار پیٹ اور قید و بند سے جب اسے سابقہ پیش آیا تو اس نے سمجھا کہ اللہ کی وہ دوزخ بھی بس اتنی ہی کچھ ہو گی جس سے مرنے کے بعد کفر کی پاداش میں سابقہ پیش آنا ہے۔ اس لیے اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ عذاب تو بعد میں بھگت لوں گا، یہ نقد عذاب جو اَب مل رہا ہے اِس سے بچنے کے لیے مجھے ایمان چھوڑ کر پھر زمرۂ کفار میں جا ملنا چاہیے تا کہ دنیا کی زندگی تو خیریت سے گزر جائے۔
۱۵: یعنی آج تو وہ اپنی کھال بچانے کے لیے کفاروں میں جا ملا ہے اور اہلِ ایمان کا ساتھ اس نے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ دینِ حق کو فروغ دینے کے لیے وہ اپنی نکسیر تک پھُڑوانے کو تیار نہیں ہے۔ مگر جب اِس دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا دینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و کامرانی بخشے گا تو یہ شخص فتح کے ثمرات میں حصّہ بٹانے کے لیے آ موجود ہو گا اور مسلمانوں سے کہے گا کہ دل سے تو ہم تمہارے ہی ساتھ تھے، تمہاری کامیابی کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے، تمہاری جانفشانیوں اور قربانیوں کی بڑی قدر ہماری نگاہ میں تھی۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ناقابلِ برداشت اذیت یا نقصان، یا شدید خوف کی حالت میں کسی شخص کا کلمۂ کفر کہہ کر اپنے آپ کو بچا لینا شرعاً جائز ہے بشرطیکہ آدمی سچے دل سے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ لیکن بہت بڑا فرق ہے اُس مخلص مسلمان میں جو بحالتِ مجبوری جان بچانے کے لیے کفر کا اظہار کرے، اور اُس مصلحت پر ست انسان میں جو نظریہ کے اعتبار سے اسلام ہی کو حق جانتا اور مانتا ہو مگر ایمانی زندگی کے خطرات و مہالک دیکھ کر کفار سے جا ملے۔ بظاہر ان دونوں کی حالت ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ مگر در حقیقت جو چیز ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مجبوراً کفر ظاہر کرنے والا مخلص مسلمان نہ صرف عقیدے کے اعتبار سے اسلام کا گرویدہ رہتا ہے، بلکہ عملاً بھی اس کی دلی ہمدردیاں دین و اہلِ دین کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی کامیابی سے وہ خوش اور ان کو زک پہنچنے سے وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ مجبوری کی حالت میں بھی وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتا ہے، اور اس تاک میں رہتا ہے کہ جب بھی اس پر سے اعدائے دین کی گرفت ڈھیلی ہو وہ اپنے اہلِ دین کے ساتھ جا ملے۔ اس کے بر عکس مصلحت پر ست آدمی جب دین کی راہ کٹھن دیکھتا ہے، اور خوب ناپ تول کر دیکھ لیتا ہے کہ دینِ حق کا ساتھ دینے کے نقصانات کفار کے ساتھ جا ملنے کے فوائد سے زیادہ ہیں، تو وہ خالص عافیت اور منفعت کی خاطر دین اور اہلِ دین سے منہ موڑ لیتا ہے، کفاروں سے رشتۂ دوستی استوار کرتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر ان کی کوئی ایسی خدمت بجا لانے سے بھی باز نہیں رہتا جو دین کے سخت خلاف اور اہلِ دین کے لیے نہایت نقصان دہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اِس امکان سے بھی آنکھیں بند نہیں کر لیتا کہ شاید کسی وقت دینِ حق ہی کا بول بالا ہو جائے۔ اس لیے جب کبھی اسے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ ان کے نظریے کو حق ماننے اور ان کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرنے اور راہِ حق میں ان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین ادا کرنے میں ذرّہ برابر بُخل نہیں کرتا، تاکہ یہ زبانی اعترافات سند رہیں اور بوقتِ ضرورت کام آئیں۔ قرآن کریم ایک دوسرے موقع پر ان منافقین کی اسی سوداگرانہ ذہنیت کو یوں بیان کرتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَتَرَ بَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللہِ قَالُوْآ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَاِنْ کَانَ لِلْکَافِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْآ اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ o (النساء۔ آیت۱۴۱) ’’یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے معاملے میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے)۔ اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور ہم نے پھر بھی تمہیں مسلمانو ں سے بچایا؟‘‘
۱۶: یعنی اللہ آزمائش کے مواقع اسی لیے بار بار لاتا ہے تا کہ مومنوں کے ایمان اور منافقوں کے نفاق کا حال کھل جائے اور جس کے اندر جو کچھ بھی چھپا ہو ا ہے وہ سامنے آ جائے۔ یہی بات سورۂ آلِ عمران میں فرمائی گئی ہے کہ مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْ مِنِیْنَ عَلیٰ مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہ حتیٰ یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ (آیت ۱۷۹)۔ ’’اللہ مومنوں کو ہر گز اس حالت میں رہنے دینے والا نہیں ہے جس میں تم اِس وقت ہو (کہ صادق الایمان اور منافق سب ملے جلے ہیں)۔ وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ نمایاں کر کے رہے گا۔‘‘
۱۷: ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اول تو زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور حساب و جزا ء کی یہ باتیں سب ڈھکوسلا ہیں۔ لیکن اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی باز پرس بھی ہونی ہے، تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سارا عذاب ثواب اپنی گردن پر لے لیں گے۔ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور اپنے دین آبائی کی طرف واپس آ جاؤ۔ روایات میں متعدد سردارانِ قریش کے متعلق یہ مذکور ہے کہ ابتداءً جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے مل کر یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ابو سفیان اور حرب بن اُمیّہ بن خَلف نے ان سے مل کر بھی یہی کہا تھا۔
۱۸: یعنی اول تو یہی ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص خدا کے ہاں کسی دوسرے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور کسی کے کہنے سے گناہ کرنے والا خود اپنے گناہ کی سزا پانے سے بچ جائے، کیونکہ وہاں تو ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے۔ لَا تَزِرُوَ ازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ لیکن اگر بالفرض ایسا ہو بھی تو جس وقت کفر و شرک کا انجام ایک دھکتی ہوئی جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا اس وقت کس کی یہ ہمت ہے کہ دنیا میں جو وعدہ اس نے کیا تھا اس کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہہ دے کہ حضور، میرے کہنے سے جس شخص نے ایمان کو چھوڑ کر ارتداد کی راہ اختیار کی تھی، آپ اسے معاف کر کے جنت میں بھیج دیں، اور میں جہنم میں اپنے کفر کے ساتھ اس کے کفر کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔
۱۹: یعنی وہ خدا کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے، لیکن دوہرا بوجھ اُٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں۔ ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا، اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چوری کے کام میں حصہ لے۔ اب اگر وہ دوسرا شخص اس کے کہنے سے چوری کرے گا تو کوئی عدالت اسے اس بنا پر نہ چھوڑ دے گی کہ اس نے دوسرے کے کہنے سے جرم کیا ہے۔ چوری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گی اور کسی اصولِ انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہو گا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس سے پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے بہکا کر چوری کے راستے پر ڈالا تھا۔ لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اِس جرم کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خود چوری کی سو کی، ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لِیَحْمِلُوْآ اَوْزَادَھُمْ کَا مِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْ نَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ (النحل۔ آیت ۲۵)۔ ’’ تا کہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور اُن لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصّہ اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں۔‘‘ اور اسی قاعدے کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ من دعا الیٰ ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذٰلک من اجورھم شیًٔا و من دعا الیٰ ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من تبعہ لا ینقص ذٰلک من اٰثامھم شیًٔا۔ (مسلم) ’’جس شخص نے راہِ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہِ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ اُن کے اجروں میں کوئی کمی ہو۔ اور جس شخص نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہو گا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ اُن کے گناہوں میں کوئی کمی ہو۔‘‘
۲۰: ’’افترا پردازیوں‘‘ سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں جو کفار کے اِس قول میں چھپی ہوئی تھیں کہ ’’تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے۔‘‘ دراصل وہ لوگ دو مفروضات کی بنیاد پر یہ بات کہتے تھے۔ ایک یہ کہ جس مذہبِ شرک کی وہ پیروی کر رہے ہیں وہ بر حق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مذہبِ توحید غلط ہے، اس لیے اُس سے کفر کرنے میں کوئی خطا نہیں ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ کوئی حشر نہیں ہونا ہے اور یہ حیاتِ اُخروی کا تخیّل، جس کی وجہ سے ایک مسلمان کفر کرتے ہوئے ڈرتا ہے، بالکل بے اصل ہے۔ یہ مفروضات اپنے دل میں رکھنے کے بعد وہ ایک مسلمان سے کہتے تھے کہ اچھا اگر تمہارے نزدیک کفر کرنا ایک خطا ہی ہے، اور کوئی حشر بھی ہونا ہے جس میں اِس خطا پر تم سے باز پرس ہو گی، تو چلو تمہاری اس خطا کو ہم اپنے سر لیتے ہیں، تم ہماری ذمہ داری پر دینِ محمدؐ کو چھوڑ کر دینِ آبائی میں واپس آ جاؤ۔ اس معاملہ میں پھر مزید دو جھوٹی باتیں شامل تھیں۔ ایک ان کا یہ خیال کہ جو شخص کسی کے کہنے پر جرم کرے وہ اپنے جرم کی ذمہ داری سے بَری ہو سکتا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری وہ شخص اُٹھا سکتا ہے جس کے کہنے پر اس نے جرم کیا ہے۔ دوسرا ان کا یہ جھوٹا وعدہ کہ قیامت کے روز وہ اُن لوگوں کی ذمہ داری واقعی اُٹھا لیں گے جو ان کے کہنے پر ایمان سے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں۔ کیونکہ جب قیامت فی الواقع قائم ہو جائے گی اور ان کی امیدوں کے خلاف جہنّم ان کی آنکھوں کے سامنے ہو گی اُس وقت وہ ہر گز تیار نہ ہوں گے کہ اپنے کفر کا خمیازہ بھگتنے کے ساتھ اُن لوگوں کے گناہ کا بوجھ بھی پورا کا پورا اپنے اوپر لے لیں جنہیں وہ دنیا میں بہکا کر گمراہ کرتے تھے۔
ترجمہ
ہم نے نُوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا ۲۱ اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس اُن کے درمیان رہا۔۲۲ آخر کار اُن لوگوں کو طوفان نے آ گھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔۲۳ پھر نُوحؑ کو اور کشتی والوں ۲۴ کو ہم نے بچا لیا اور اُسے دنیا والوں کے لیے ایک نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔۲۵ اور ابراہیمؑ کو بھیجا ۲۶ جبکہ اُس نے اپنی قوم سے کہا: ’’اللہ کی بندگی کرو اور اُس سے ڈرو۔۲۷ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پُوج رہے ہو وہ تو محض بُت ہیں اور تم ایک جھُوٹ گھڑ رہے ہو۔۲۸ درحقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔۲۹ اور اگر تم جھُٹلا تے ہو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھُٹلا چکی ہیں،۳۰ اور رسُولؐ پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمّہ داری نہیں ہے۔‘‘
۳۱ کیا اِن لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقیناً یہ (اعادہ تو)اللہ کے لیے آسان تر ہے۔۳۲ ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے، پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔۳۳ جسے چاہے سزا دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے، اُسی کی طرف تم پھیرے جانے والے ہو۔ تم نہ زمین میں عاجز کرنے والے ہو نہ آسمان میں،۳۴ اور اللہ سے بچانے والا کوئی سرپرست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے۔۳۵ ؏۲
تفسیر
۲۱: تقابل کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران، آیات ۳۴-۳۳۔ النساء، ۱۶۳۔ الانعام، ۸۴۔ الاعراف، ۵۹ تا ۶۴۔ یونس ۷۳-۷۱۔ ہود، ۴۸-۲۵۔ الانبیاء، ۷۷-۷۶۔ المومنون، ۳۰-۲۳۔ الفرقان، ۳۷۔ الشعراء، ۱۰۵ تا ۱۲۳۔ الصافات، ۸۲-۷۵۔ القمر ۱۵-۹۔ الحاقہ، ۱۲-۱۱۔ نوح، مکمل۔ یہ قصّے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جا رہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہاں ایک طرف اہلِ ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اُن سب اہلِ ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔
۲۲: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد سے طوفان تک پورے ساڑھے نو سو برس حضرت نوحؑ اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے رہے، اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے۔ اہلِ ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم کو تو ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم سہتے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھرمیاں برداشت کرتے گزرے ہیں۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا۔ حضرت نوحؑ کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بائیبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ وہ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے ( پیدائش، باب ۷۔ آیت ۶۔ باب ۹۔ آیت ۲۸- ۲۹)۔ لیکن قرآن کے بیان کی روسے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت پر مامور ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبلیغ میں صرف کی۔ ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد ہی ملی ہو گی۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گے۔ یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابلِ یقین ہے۔ لیکن خدا کی اِس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے۔ جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے، اُس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آ جاتے ہیں۔ کچھ واقعات و حالات کا معمولاً ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلافِ معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادرِ مطلق ہونے کا واضح تصوّر اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کر دینا اُس کے خدا کے لیے بھی ممکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اگر خدا چاہے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے۔
۲۳: یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے۔ دوسرے الفاظ میں، اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آ جاتے تو اللہ تعالیٰ ان پر یہ عذاب نہ بھیجتا۔
۲۴: یعنی ان لوگوں کو جو حضرت نوحؑ پر ایمان لائے تھے اور جنہیں کشتی میں سوار ہونے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی تھی۔ سُورۂ ہود میں اس کی تصریح ہے: حَتّٰیٓ اِذَا جَآ ءَ اَمْرُنَا وَفَار التَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبْقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰ مَنَ وَمَآ اٰمَنْ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ (آیت ۴۰)۔ ’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور تنور اُبل پڑا تو ہم نے کہا کہ (اے نوحؑ) اِس کشتی میں سوار کر لے ہو قسم (کے جانوروں) میں سے ایک ایک جوڑا، اور اپنے گھر والوں کو سوائے اُن کے جنہیں ساتھ نہ لینے کا پہلے حکم دیا گیا ہے، اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، اور اُس کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے۔‘‘
۲۵: اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ہولناک عقوبت کو یا اس عظیم الشان واقعہ کو بعد والوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ لیکن یہاں اور سورۂ قمر میں یہ بات جس طریقہ سے بیان فرمائی گئی ہے اس سے متبادر یہی ہو تا ہے کہ وہ نشانِ عبرت خود وہ کشتی تھی جو پہاڑ کی چوٹی پر صدیوں موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا جس کو بدولت یہ کشتی پہاڑ پر جا ٹِکی ہے۔ سورۂ قمر میں اس کے متعلق فرمایا گیا ہے: وَحَمَلْنَاہ عَلیٰ ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍo تَجْرِیْ بَاَ عْیُنِنَا جَزَآءٍ لِّمَنْ کَانَ کُفِرَ o وَلَقَدْ تَّرَکْنٰھآ اٰیَۃً فَھَلْ مِنْ مُّدَّ کِرٍo (آیات ۱۵-۱۳)۔ ’’ اور ہم نے نوح ؑ کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر، وہ چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اُس شخص کے لیے جزاء کے طور پر جس کا انکار کر دیا گیا تھا، اور ہم نے اُسے چھوڑ دیا ایک نشانی بنا کر ، پس ہے کوئی سبق لینے والا؟‘‘ سورۂ قمر کی اِس آیت کی تفسیر میں ابن جریر نے قتادہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ عہدِ صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقہ میں گئے تو انہوں نے کوہِ جودی پر (اور ایک روایت کی رُو سے باقِرویٰ نامی بستی کے قریب) اس کشتی کو دیکھا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بھی وقتاً فوقتاً یہ اطلاعات اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ کشتی نوحؑ کو تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جا رہی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بسا اوقات ہوائی جہاز جب کوہستان اراراط پر سے گزرے ہیں تو ایک چوٹی پر انہوں نے ایسی چیز دیکھی ہے جو ایک کشتی سے مشابہ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۴۷۔ ہود، حاشیہ ۴۶)۔
۲۶: تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، رکوع ۳۵-۱۶-۱۵۔ آل عمران ۷۔ الانعام ۹۔ ہود ۷۔ ابراہیم ۶۔ الحجر ۴۔ مریم ۳۔ الانبیاء ۵۔ الشعراء ۵۔ الصافات ۳۔ الزخرف ۳۔ الذاریات ۲۔
۲۷: یعنی اُس کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی کرنے سے ڈرو۔
۲۸: یعنی تم یہ بُت نہیں گھڑ رہے ہو بلکہ ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو۔ ان بتوں کا وجود خود ایک جھوٹ ہے۔ اور پھر تمہارے یہ عقائد کہ یہ دیویاں اور دیوتا ہیں، یا خدا کے اوتار یا اس کی اولاد ہیں، یا خدا کے مقرب اور اس کے ہاں شفیع ہیں، یا یہ کہ ان میں سے کوئی شفا دینے والا اور کوئی اولاد بخشنے والا اور کوئی روزگار دلوانے والا ہے، یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو تم لوگوں نے اپنے وہم و گمان سے تصنیف کر لی ہیں۔ حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہ محض بُت ہیں بے جان، بے اختیار اور بے اثر۔
۲۹: ان چند فقروں میں حضرت ابراہیمؑ نے بُت پرستی کے خلاف تمام معقول دلائل سمیٹ کر رکھ دیے ہیں۔ کسی کو معبود بنانے کے لیے لا محالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ایک معقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہینِ منت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق، یعنی متاعِ زیست بہم پہنچاتا ہو۔ چوتھی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کی حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے۔ ’’ یہ محض بُت ہیں‘‘ کہہ کر اُنہوں نے پہلی وجہ کو ختم کر دیا، کیونکہ جو نِرا بُت ہو اس کو معبود ہونے کا آخر کیا ذاتی استحقاق حاصل ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہہ کر کہ ’’ تم ان کے خالق ہو‘‘ دوسری وجہ بھی ختم کر دی۔ اس کے بعد تیسری وجہ کو یہ فرما کر ختم کیا کہ وہ تمہیں کسی نوعیت کا کچھ بھی رزق نہیں دے سکتے۔ اور آخری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تمہیں پلٹنا تو خدا کی طرف ہے نہ کہ اِن بتوں کی طرف، اس لیے تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوار نا یا بگاڑنا بھی اِن کے اختیار میں نہیں صرف خدا کے اختیار میں ہے۔ اس طرح شرک کا پورا ابطال کر کے حضرت والا نے یہ بات ان پر واضح کر دی کہ جتنے وجوہ سے بھی انسان کسی کو معبود قرار دے سکتا ہے وہ سب کے سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت کے مقتضی نہیں ہیں۔
۳۰: یعنی اگر تم میری دعوتِ توحید کو اور اس خبر کو کہ تمہیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، جھٹلاتے ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں اس سے پہلے بھی بہت سے نبی (مثلاً نوحؑ، ہودؑ، صالح علیہ السلام وغیرہ) یہی تعلیم لے کر آ چکے ہیں اور ان کی قوموں نے بھی ان کو اسی طرح جھٹلایا ہے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ انہوں نے جھٹلا کر ان نبیوں کا کچھ بگاڑا یا اپنا انجام خراب کیا۔
۳۱: یہاں سے لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (ان کے لیے دردناک سزا ہے) تک ایک جملۂ معترضہ ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے قصّے کا سلسلہ توڑ کر اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔ اس اعتراضی تقریر کی مناسبت یہ ہے کہ کفارِ مکّہ، جنہیں سبق دینے کے لیے یہ قصّہ سنایا جا رہا ہے، دو بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ ایک شرک و بت پرستی۔ دوسرے انکارِ آخرت۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیمؑ کی اس تقریر میں آ چکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اب دوسری گمراہی کے رد میں یہ چند فقرے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تا کہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسلہ کلام میں ہو جائے۔
۳۲: یعنی ایک طرف بے شمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں، اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے مٹنے کے ساتھ پھر ویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفتِ خلق و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا، جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے۔ اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے، اور پھر ایک دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں لاتا چلا جاتا ہے، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مر جانے کے بعد وہ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا نہیں کر سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نمل، حاشیہ نمبر ۸۰)۔
۳۳: یعنی جب خد ا کی کاریگری سے بارِ اول کی تخلیق کا تم خود مشاہدہ کر رہے ہو تو تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی خدا کی کاریگری سے بارِ دیگر بھی تخلیق ہو گی۔ ایسا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔
۳۴: یعنی تم کسی ایسی جگہ بھاگ کر نہیں جا سکتے جہاں اللہ کی گرفت سے بچ نکلو۔ خواہ تم زمین کی تہوں میں کہیں اتر جاؤ یا آسمان کی بلندیوں میں پہنچ جاؤ، بہر حال تمہیں ہر جگہ سے پکڑ لایا جائے گا اور اپنے ربّ کے سامنے تم حاضر کر دیے جاؤ گے۔ یہی بات سُورۂ رحمٰن میں جِنوں اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے چیلنج کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے کہ تم خدا کی خدائی سے اگر نکل سکتے ہو تو ذرا نِکل کر دکھاؤ، اس سے نکلنے کے لیے زور چاہیے، اور وہ زور تمہیں حاصل نہیں ہے، اس لیے تم ہرگز نہیں نِکل سکتے۔ یَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْقُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَا نْفُذُوْ ا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ o (آیت ۳۳)۔
۳۵: یعنی نہ تمہارا اپنا زور اتنا ہے کہ خد اکی پکڑ سے بچ جاؤ، اور نہ تمہارا کوئی ولی و سرپرست یا مددگار ایسا زورآور ہے کہ خدا کے مقابلے میں تمہیں پناہ دے سکے اور اس کے مواخذے سے تمہیں بچا لے۔ ساری کائنات میں کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ جن لوگوں نے کفر و شرک کی ارتکاب کیا ہے، جنہوں نے احکام خداوندی کے آگے جھکنے سے انکار کیا ہے، جنہوں نے جرأت و جسارت کے ساتھ خدا کی نافرمانیاں کی ہیں اور ا س کی زمین میں ظلم و فساد کے طوفان اُٹھائے ہیں ان کا حمایتی بن کر اُٹھ سکے اور خدا کے فیصلۂ عذاب کو ان پر نافذ ہونے سے روک سکے ، یا خدا کی عدالت میں یہ کہنے کی ہمت کر سکے کہ یہ میرے ہیں اس لیے جو کچھ بھی انہوں نے کیا ہے اسے معاف کر دیا جائے۔
ترجمہ
جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہو چکے ہیں ۳۶ اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ ۳۷ پھر اُس کی قوم کا جواب اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ’’قتل کر دو اِسے یا جلا ڈالو اِس کو۔‘‘ ۳۸ آخر کار اللہ نے اُسے آگ سے بچا لیا،۳۹ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں۔۴۰ اور اُس نے کہا ۴۱ ’’تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بُتوں کو اپنے درمیان محبّت کا ذریعہ بنا لیا ہے ۴۲ مگر قیامت کے روز تم ایک دُوسرے کا انکار اور ایک دُوسرے پر لعنت کرو گے ۴۳ اور آگ تمہارا ٹھکانا ہو گی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہو گا۔‘‘ اُس وقت لُوطؑ نے اُس کو مانا۔۴۴ اور ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے ربّ کی طرف ہجرت کرتا ہوں،۴۵ وہ زبردست ہے اور حکیم ہے۔۴۶ اور ہم نے اُسے اسحاقؑ اور یعقوبؑ (جیسی اولاد)عنایت فرمائی ۴۷ اور اُس کی نسل میں نبوّت اور کتاب رکھ دی،۴۸ اور اسے دنیا میں اُس کا اجر عطا کیا اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہو گا۔۴۹
۵۰اور ہم نے لُوطؑ کو بھیجا جبکہ اُس نے اپنی قوم سے کہا ’’ تم تو وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ہے۔ کیا تمہارا حال یہ ہے کہ مَردوں کے پاس جاتے ہو،۵۱ اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرتے ہو؟‘‘ ۵۲ پھر کوئی جواب اُس کی قوم کے پاس اس کے سوا نہ تھا کہ انہوں نے کہا ’’ لے آ اللہ کا عذاب اگر تُو سچا ہے۔‘‘ لُوطؑ نے کہا ’’ اے میرے ربّ، اِن مفسدوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔‘‘ ؏۳
تفسیر
۳۶: یعنی ان کو کوئی حصّہ میری رحمت میں نہیں ہے۔ ان کے لیے کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ہے کہ وہ میری رحمت میں سے حصہ پانے کی امید رکھ سکیں۔ ظاہر بات ہے کہ حب انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا تو خود بخود اُن وعدوں سے فائدہ اُٹھانے کے حق سے بھی وہ دست بر دار ہو گئے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں سے کیے ہیں۔ پھر جب انہوں نے آخر ت کا انکار کیا اور یہ تسلیم ہی نہ کیا کہ انہیں کبھی اپنے خدا کے حضور پیش ہونا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے خدا کی بخشش و مغفرت کے ساتھ کوئی رشتۂ امید سرے سے وابستہ ہی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد جب اپنی توقعات کے خلاف وہ عالمِ آخرت میں آنکھیں کھولیں گے اور اللہ کی اُن آیات کو بھی اپنی آنکھوں سے سچا اور برحق دیکھ لیں گے جنہیں وہ جھٹلا چکے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ رحمتِ الہٰی میں سے کوئی حصّہ پانے کے امید وار ہو سکیں۔
۳۷: یہاں سے پھر سلسلۂ کلام حضرت ابراہیمؑ کے قصّے کی طرف مُڑتا ہے۔
۳۸: یعنی حضرت ابراہیمؑ کے معقول دلائل کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ ان کا جواب اگر تھا تو یہ کہ کاٹ دو اُس زبان کو جو حق بات کہتی ہے اور جینے نہ دو اس شخص کو جو ہماری غلطی ہم پر واضح کرتا ہے اور ہمیں اس سے باز آنے کے لیے کہتا ہے۔ ’’قتل کر دو یا جلا ڈالو‘‘ کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورا مجمع اس بات پر تو متفق تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کو ہلاک کر دیا جائے، البتہ ہلاک کرنے کے طریقے میں اختلاف تھا۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ قتل کیا جائے، اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ زندہ جلا دیا جائے تا کہ ہر اُس شخص کو عبرت حاصل ہو جسے آئندہ کبھی ہماری سرزمین میں حق گوئی کا جنون لاحق ہو۔
۳۹: اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھینک دے گئے تھے۔ یہاں بات صرف اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ سے بچا لیا۔ لیکن سورۃ الانبیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈی اور غیر مضر ہو گئی، قُلْنَا یٰنَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَا مًا عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ (آیت ۶۹)۔ ’’ ہم نے کہا کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔‘‘ ظاہر ہے کہ اگر اُن کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہو جا اور ان کے لیے سلامتی بن جا۔ اس سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تمام اشیاء کی خاصیتیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر مبنی ہیں، اور وہ جس وقت جس چیز کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے۔ معمول کے مطابق اگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور ہر آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر جل جائے۔ لیکن آگ کا یہ معمول اس کا اپنا قائم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہوا ہے۔ اور اس معمول نے خدا کو پابند نہیں کر دیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے۔ کی وقت بھی وہ اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ جلا نے کا عمل چھوڑ دے۔ کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارے سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ غیر معمولی خَرقِ عادت اس کے ہاں روز روز نہیں ہوتے۔ کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن معمولات کو، جنہیں روز مرّہ دیکھنے کے ہم خوگر ہیں، اس بات کے لیے ہر گز دلیل نہیں ٹھیرایا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اُن سے بندھ گئی ہے اور خلافِ معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہو سکتا۔
۴۰: یعنی اہلِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں اس بات میں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خاندان، قوم اور ملک کے مذہب کی پیروی کرنے کے بجائے اس علمِ حق کی پیروی کی جس کی رو سے انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حقیقت ہے۔ اور اِس بات میں کہ وہ قوم کی ہٹ دھرمی اور اس کے شدید تعصب کی پروا کیے بغیر اس کو باطل سے باز آ جانے اور حق قبول کر لینے کے لیے پیہم تبلیغ کرتے رہے۔ اور اس بات میں کہ وہ آگ کی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے مگر حق و صداقت سے منہ موڑنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اور اِس بات میں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام تک کو آزمائشوں سے گزارے بغیر نہ چھوڑا۔ اور اس بات میں کہ جب حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے ڈالے ہوئے امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزرے گئے تب اللہ کی مدد ان کے لیے آئی اور ایسے معجزانہ طریقہ سے آئی کہ آگ کا الاؤ ان کے لیے ٹھنڈا کر دیا گیا۔
۴۱: سلسلۂ کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بات آگ سے بسلامت نِکل آنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں سے فرمائی ہو گی۔
۴۲: یعنی تم نے خدا پرستی کے بجائے بُت پرستی کی بنیا د پر اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر کر لی ہے جو دنیوی زندگی کی حد تک تمہارا قومی شیرازہ باندھ سکتی ہے۔ ا س لیے کہ یہاں کسی عقیدے پر بھی لوگ جمع ہو سکتے ہیں، خواہ حق ہو یا باطل۔ اور ہر اتفاق و اجتماع، چاہے وہ کیسے ہی غلط عقیدے پر ہو، باہم دوستیوں، رشتہ داریوں، برادریوں، اور دوسرے تمام مذہبی، معاشرتی و تمدنی اور معاشی و سیاسی تعلقات کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
۴۳: یعنی عقیدۂ باطلہ پر تمہاری یہ ہیئتِ اجتماعی آخرت میں بنی نہیں رہ سکتی۔ وہاں آپس کی محبت، دوستی، تعاون، رشتہ داری، اور عقیدت و ارادت کے صرف وہی تعلقات برقرار رہ سکتے ہیں جو دنیا میں خدائے واحد کی بندگی اور نیکی و تقویٰ پر قائم ہوئے ہوں۔ کفر و شرک اور گمراہی و بد راہی پر جُڑے ہوئے سارے رشتے وہاں کٹ جائیں گے، ساری محبتیں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی، ساری عقیدتیں نفرت میں بدل جائیں گی، بیٹے اور باپ، شوہر اور بیوی، پیر اور مرید تک ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ہر ایک اپنی گمراہی کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر پکارے گا کہ اِس ظالم نے مجھے خراب کیا اس لیے اسے دوہرا عذاب دیا جائے۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ زُخرف میں فرمایا اَلْاَ خِلَّآ ءُ یَوْمَئیذٍ بَعْضُہُمْ لَبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (آیت ۶۷)۔ ’’ دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے ا، سوائے متقین کے۔ ‘‘ سورۂ اعراف میں فرمایا: کُلَّمَا دَخَلْتَ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا حَتّٰیٓ اِذَا ادَّا رَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًا قَالَتْ اُخْرٰھُمْ لِاُ و لٰھُمْ رَبَّنَا ھٰٓؤُ لَآءِ اَضَلُّوْ نَا فَاٰ تِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ (آیت ۳۸)۔ ’’ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہو گا تو اپنے پاس والے گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہو گا حتیٰ کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے والے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ہمارے ربّ، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا، لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔‘‘ اور سُورۂ احزاب میں فرمایا وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآ ءَ نَا فَاَ ضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا o (آیات ۶۸-۶۷)۔ ’’اور وہ کہیں گے اے ہمارے ربّ، ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو راہ سے بے راہ کر دیا، اے ہمارے ربّ تو انہیں دوہری سزا دے اور ان پر سخت لعنت فرما۔‘‘
۴۴: ترتیب کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ آگ سے نکل آئے اور انہوں نے اوپر کے فقرے ارشاد فرمائے اس وقت سارے مجمع میں صرف ایک حضرت لوطؑ تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر اُن کو ماننے اور اُن کی پیروی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر دوسرے بہت سے لوگ بھی اپنے دل میں حضرت ابراہیمؑ کی صداقت کے قائل ہو گئے ہوں۔ لیکن پوری قوم اور سلطنت کی طرف سے دین ابراہیمؑ کے خلاف جس غضب ناک جذبے کا اظہار اُس وقت سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا اُسے دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا شخص ایسے خطرناک حق کو ماننے اور اس کا ساتھ دینے کی جرأت نہ کر سکا۔ یہ سعادت صرف ایک آدمی کے حصّے میں آئی اور وہ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ تھے جنہوں نے آخرکار ہجرت میں بھی اپنے چچا اور چچی (حضرت سارہ) کا ساتھ دیا۔ یہاں ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے حضرت لوطؑ کافر و مشرک تھے اور آگ سے حضرت ابراہیمؑ کے بسلامت نکل آنے کا معجزہ دیکھنے کے بعد انہیں نعمتِ ایمان میسر آئی؟ اگر یہ بات ہے تو کیا نبوت کے منصب پر کوئی ایسا شخص بھی سرفراز ہو سکتا ہے جو پہلے مشرک رہ چکا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے یہاں فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے حضرت لوطؑ خداوندِ عالم کو نہ مانتے ہوں، یا اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرتے ہوں۔ بلکہ ان سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کی رسالت کی تصدیق کی اور ان کی پیروی اختیار کر لی۔ ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو اس کے معنی کسی شخص کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ حضرت لوطؑ اس وقت ایک نو عمر لڑکے ہی ہوں اور اپنے ہوش میں ان کو پہلی مرتبہ اس موقع پر ہی اپنے چچا کی تعلیم سے واقف ہونے اور ان کی شانِ رسالت سے آگاہ ہونے کا موقع ملا ہو۔
۴۵: یعنی اپنے ربّ کی خاطر ملک چھوڑ کر نکلتا ہوں، اب جہاں میرا ربّ لے جائے گا وہاں چلا جاؤں گا۔
۴۶: یعنی وہ میری حمایت و حفاظت پر قادر ہے اور میرے حق میں اس کا جو فیصلہ بھی ہو گا حکمت پر مبنی ہو گا۔
۴۷: حضرت اسحاقؑ بیٹے تھے اور حضرت یعقوبؑ پوتے۔ یہاں حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بیٹوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ اولادِ ابراہیمؑ کی مدیانی شاخ میں صرف حضرت شعیبؑ مبعوث ہوئے، اور اسماعیلی شاخ میں سرکار رسالت مآب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک دھائی ہزار سال کی مدت میں کوئی نبی نہیں آیا۔ اس کے برعکس نبوت اور کتاب کی نعمت حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک مسلسل اُس شاخ کو عطا ہوتی رہی جو حضرت اسحاق علیہ السلام سے چلی تھی۔
۴۸: اس میں وہ تمام انبیاء آ گئے جو نسلِ ابراہیمی کی سب شاخوں میں مبعوث ہوئے ہیں۔
۴۹: مقصود بیان یہ ہے کہ بابِل کے وہ حکمراں اور پنڈت اور پروہت جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کو نیچا دکھانا چاہا تھا، اور اس کے وہ مشرک باشندے جنہوں نے آنکھیں بند کر کے ان ظالموں کی پیروی کی تھی، وہ تو دنیا سے مٹ گئے اور ایسے مٹے کہ آج دنیا میں کہیں ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔ مگر وہ شخص جسے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے جرم میں ان لوگوں نے جلا کر خاک کر دینا چاہا تھا، اور جسے آخر کار بے سر و سامانی کے عالم میں وطن سے نِکل جانا پڑا تھا، اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ سرفرازی عطا فرمائی کہ چار ہزار برس سے دنیا میں اس کا نام روشن ہے اور قیامت تک رہے گا۔ دنیا کے تمام مسلمان، عیسائی اور یہودی اُس خلیلِ ربّ العالمین کو بالاتفاق اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ دنیا کو ان چالیس صدیوں میں جو کچھ بھی ہدایت کی روشنی میسر آئی ہے اسی ایک انسان اور اس کی پاکیزہ اولاد کی بدولت میسّر آئی ہے۔ آخر ت میں جو اجرِ عظیم اس کو ملے گا وہ تو ملے گا ہی، مگر اِس دنیا میں بھی اس نے وہ عزّت پائی جو حصُولِ دنیا کے پیچھے جان کھپانے والوں میں سے کسی کو آج تک نصیب نہیں ہوئی۔
۵۰: تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، رکوع ۱۰۔ ہود، ۷۔ الحجر، ۵-۴۔ الانبیاء، ۵۔ الشعراء، ۹۔ النمل، ۴۔ الصافات، ۴۔ القمر، ۲۔
۵۱: یعنی ان سے شہوت رانی کرتے ہو، جیسا کہ سورۂ اعراف میں ہے اِنَّکُمْ لَتَاْ تُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَ ۃً مِنْ دُوْنِ النِّسَآءِ۔ ’’تم خواہشِ نفس پوری کر نے کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو۔‘‘
۵۲: یعنی فحش کام چھپ کر بھی نہیں کرتے بلکہ عَلانیہ اپنی مجلسوں میں ایک دوسرے کے سامنے اس کا ارتکاب کرتے ہو۔ یہی بات سورۂ نمل میں فرمائی ہے اَتَاْ تُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۔ ’’کیا تم ایسے بگڑ گئے ہو کہ دیکھنے والی آنکھوں کے سامنے فحش کاری کرتے ہو۔‘‘
ترجمہ
اور جب ہمارے فرستادے ابراہیمؑ کے پاس بشارت لے کر پہنچے ۵۳ تو انہوں نے اُس سے کہا ’’ ہم اِس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں،۵۴ اس کے لوگ سخت ظالم ہو چکے ہیں۔‘‘ ابراہیمؑ نے کہا ’’ وہاں تو لُوطؑ موجود ہے۔‘‘ ۵۵ انہوں نے کہا ’’ ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے۔ ہم اُسے ، اور اُس کی بیوی کے سوا اس کے باقی گھر والوں کو بچا لیں گے۔‘‘ اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔۵۶ پھر جب ہمارے فرستادے لُوطؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور دل تنگ ہوا۔۵۷ اُنہوں نے کہا ’’ نہ ڈرو اور نہ رنج کرو۔۵۸ ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچا لیں گے، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اُس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں۔‘‘ اور ہم نے اُس بستی کی ایک کھُلی نشانی چھوڑ دی ہے ۵۹ اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔۶۰
اور مَدیَن کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔۶۱ اُس نے کہا ’’ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو اور روزِ آخر کے اُمیدوار رہو ۶۲ اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو۔‘‘ مگر انہوں نے اسے جھُٹلا دیا۔۶۳ آخر کار ایک سخت زلزلے نے انہیں آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں ۶۴ پڑے کے پڑے رہ گئے۔
اور عاد و ثمود کو ہم نے ہلاک کیا، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے۔۶۵ اُن کے اعمال کو شیطان نے اُن کے لیے خوشنما بنا دیا اور انہیں راہِ راست سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے۔۶۶ اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا۔ موسیٰؑ اُن کے پاس بیّنات لے کر آیا مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑا ئی کا زعم کیا حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے۔۶۷ آخر کار ہر ایک کو ہم نے اُس کے گناہ میں پکڑا، پھر اُن میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی،۶۸ اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا،۶۹ اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا،۷۰ اور کسی کو غرق کر دیا۔۷۱ اللہ ان پر ظلم کر نے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کر رہے تھے۔۷۲ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے۔۷۳ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو بھی پکارتے ہیں اللہ اُسے خوب جانتا ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے۔۷۴ یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں، مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بر حق پیدا کیا ہے،۷۵ در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہلِ ایمان کے لیے۔ ۷۶ ؏۴
تفسیر
۵۳: سورۂ ہود اور سورۂ حِجر میں اس کی تفصیل یہ بیان ہوئی ہے کہ جو فرشتے قومِ لُوطؑ پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے وہ پہلے حضرت ابراہیمؑ کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے آنجناب کو حضرت اسحاقؑ کی اور ان کے بعد حضرت یعقوبؑ کی پیدائش کی بشارت دی، پھر یہ بتایا کہ ہمیں قومِ لُوط کو تباہ کر نے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
۵۴: ’’اِس بستی‘‘ کا اشارہ قومِ لوطؑ کے علاقے کی طرف ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اس وقت فلسطین کے شہر حَبْرون (موجودہ الخلیل) میں رہتے تھے۔ اس شہر کے جنوب مشرق میں چند میل کے فاصلے پر بحیرہ مردار (Dead Sea ) کا وہ حصّہ واقع ہے جہاں پہلے قومِ لوطؑ آباد تھی اور اب جس پر بحیرہ کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ یہ علاقہ نشیب میں واقع ہے اور حبرون کی بلند پہاڑیوں پر سے صاف نظر آتا ہے۔ اسی لیے فرشتوں نے اس کی طرف اشارہ کر کے حضرت ابراہیم ؑ سے عرض کیا کہ ’’ ہم اِس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں۔‘‘ (ملاحظہ ہو سورۂ شعراء حاشیہ ۱۱۴)۔
۵۵: ’’سُورۂ ہُود میں اس قصّے کا ابتدائی حصّہ یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھ کر ہی گھبرا گئے، کیونکہ اس شکل میں فرشتوں کا آنا کسی خطرناک مہم کا پیش خیمہ ہُوا کرتا ہے۔ پھر جب انہوں نے آپ کو بشارت دی اور آپ کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور آپ کو معلوم ہُوا کہ یہ مہم قومِ لوطؑ کی طرف جا رہی ہے تو آپ اس قوم کے لیے بڑے اصرار کے ساتھ رحم کی درخواست کرنے لگے ( فَلَمَّا ذَھَبَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ الرَّوْعُ وَجَآ ءَ تْہُ الْبُشْرٰی یُجَا دِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ)۔ مگر یہ درخواست قبول نہ ہوئی اور فرمایا گیا کہ اس معاملہ میں اب کچھ نہ کہو، تمہارے رب کا فیصلہ ہو چکا ہے اور یہ عذاب اب ٹلنے والا نہیں ہے (یآِٰ بْرٰ ھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَآ اِنَّہٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ وَاَنَّھُمْ اٰتِیْھِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ)۔ اس جواب سے جب حضرت ابراہیمؑ کو یہ امید باقی نہ رہی کہ قومِ لوطؑ کی مہلت میں کوئی اضافہ ہو سکے گا، تب انہیں حضرت لوطؑ کی فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے وہ بات عرض کی جو یہاں نقل کی گئی ہے کہ ’’وہاں تو لوطؑ موجود ہے۔‘‘ یعنی یہ عذاب اگر لوطؑ کی موجودگی میں نازل ہوا تو وہ اور اُن کے اہل و عیال اس سے کیسے محفوظ رہیں گے۔
۵۶: اس عورت کے متعلق سورۂ تحریم (آیت ۱۰) میں بتایا گیا ہے کہ یہ حضرت لوطؑ کی وفادار نہ تھی، اِسی وجہ سے اس کے حق میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ بھی، ایک نبی کی بیوی ہونے کے باوجود، عذاب میں مبتلا کر دی جائے۔ اغلب یہ ہے کہ حضرت لوطؑ ہجرت کے بعد جب اُردن کے علاقے میں آ کر آباد ہوئے ہوں گے تو انہوں نے اسی قوم میں شادی کر لی ہو گی۔ لیکن ان کے صحبت میں ایک عمر گزار دینے کے بعد بھی یہ عورت ایمان نہ لائی اور اس کی ہمدردیاں اور دلچسپیاں اپنی قوم ہی کے ساتھ وابستہ رہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں رشتہ داریاں اور برادریاں کوئی چیز نہیں ہیں، ہر شخص کے ساتھ معاملہ اس کے اپنے ایمان و اخلاق کی بنیاد پر ہوتا ہے، اس لیے پیغمبر کی بیوی ہونا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو سکا اور اس کا انجام اپنے شوہر کے ساتھ ہونے کے بجائے اپنی اُس قوم کے ساتھ ہُوا جس کے ساتھ اس نے اپنا دین و اخلاق وابستہ کر رکھا تھا۔
۵۷: اس پریشانی اور دل تنگی کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے بہت خوبصورت نوخیز لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ حضرت لوطؑ اپنی قوم کے اخلاق سے واقف تھے، اس لیے ان کے آتے ہی وہ پریشان ہو گئے کہ میں اپنے اِن مہمانوں کو ٹھیراؤں تو اس بد کردار قوم سے ان کو بچانا مشکل ہے، اور نہ ٹھیراؤں تو یہ بڑی بے مروّتی ہے جسے شرافت گوارا نہیں کرتی۔ مزید برآں یہ اندیشہ بھی ہے کہ اگر میں ان مسافروں کو اپنی پناہ میں نہ لوں گا تو رات انہیں کہیں اور گزارنی پڑے گی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گویا میں نے خود انہیں بھیڑیوں کے حوالہ کیا۔ اس کے بعد کا قصہ یہاں بیان نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات سورۂ ہُود، الحجر اور القمر میں بیان ہوئی ہیں کہ ان لڑکوں کی آمد کی خبر سُن کر شہر کے بہت سے لوگ حضرت لُوطؑ کے مکان پر ہجوم کر کے آ گئے اور اصرار کرنے لگے کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بدکاری کے لیے ان کے حوالے کر دیں۔
۵۸: یعنی ہمارے معاملہ میں نہ اس بات سے ڈرو کہ یہ لوگ ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ اس بات کے لیے فکر مند ہو کہ ہمیں ان سے کیسے بچایا جائے۔ یہی موقع تھا جب فرشتوں نے حضرت لوطؑ پر یہ راز فاش کیا کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں جنہیں اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ سورۂ ہُود میں اس کی تصریح ہے کہ جب لوگ حضرت لوطؑ کے گھر میں گھسے چلے آرہے تھے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کسی طرح بھی اپنے مہمانوں کو ان سے نہیں بچا سکتے تو آپ پریشان ہو کر چیخ اُٹھے کہ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ، ’’کاش میرے پاس تمہیں ٹھیک کر دینے کی طاقت ہوتی یا کسی زور آور کی حمایت میں پا سکتا۔‘‘ اس وقت فرشتوں نے کہا یَا لُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ، ’’اے لوط، ہم تمہارے ربّ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ تم تک ہر گز نہیں پہنچ سکتے۔‘‘
۵۹: اس کھلی نشانی سے مراد ہے بحیرۂ مردار جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کفارِ مکّہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اس ظالم قوم پر اس کے کرتوتوں کی بدولت جو عذاب آیا تھا اس کی ایک نشانی آج بھی شاہراہِ عام پر موجود ہے جسے تم شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں جاتے ہوئے شب و روز دیکھتے ہو۔ وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٌ (الحجر) اور وَاِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُّصْبِحِیْنَ وَ بِا لَّیْلِ (الصّافّات)۔ موجودہ زمانے میں یہ بات قریب قریب یقین کے ساتھ تسلیم کی جا رہی ہے کہ بحیرۂ مردار کا جنوبی حصّہ ایک ہولناک زلزلہ کی وجہ سے زمین میں دھنس جانے کی بدولت وجود میں آیا ہے اور اسی دھنسے ہوئے حصّے میں قومِ لوط کا مرکزی شہر سدوم(Sodom ) واقع تھا۔ اس حصّے میں پانی کے نیچے کچھ ڈوبی ہوئی بستیوں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ حال میں جدید آلاتِ غوطہ زنی کی مدد سے یہ کوشش شروع ہوئی ہے کہ کچھ لوگ نیچے جا کر ان آثار کی جستجو کریں۔ لیکن ابھی تک ان کوششوں کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ شعراء، حاشیہ ۱۱۴)۔
۶۰: عملِ قومِ لوط کی شرعی سزا کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۶۸۔
۶۱: تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، رکوع ۱۱۔ ہود۸۔ الشعراء ۱۰۔
۶۲: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ آخرت کے آنے کی توقع رکھو، یہ نہ سمجھو کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے اور کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا اور جزا و سزا پانا ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ کام کرو جس سے تم آخرت میں انجام بہتر ہونے کی امید کر سکو۔
۶۳: یعنی اس بات کو تسلیم نہ کیا کہ حضرت شعیب ؑ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ تعلیم جو وہ دے رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور اس کو نہ ماننے کا نتیجہ انہیں عذابِ الہٰی کی شکل میں بھگتنا ہو گا۔
۶۴: گھر سے مراد وہ پورا علاقہ ہے جس میں یہ قوم رہتی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب ایک پوری قوم کا ذکر ہو رہا ہو تو اس کا گھر اس کا ملک ہی ہو سکتا ہے۔
۶۵: عرب کے جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں آباد تھیں ان سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ جو اَب اَحقاف، یمن اور حضر موت کے نام سے معروف ہے، قدیم زمانہ میں عاد کا مسکن تھا اور اہلِ عرب اس کو جانتے تھے۔ حجاز کے شمالی حصہ میں رابِعْ سے عَقَبہ تک اور مدینہ و خیبر سے تَیما اور تَبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھر ا ہوا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں یہ آثار موجودہ حالت سے کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوں گے۔
۶۶: یعنی جاہل و نادان نہ تھے۔ اپنے اپنے وقت کے بڑے ترقی یافتہ لوگ تھے۔ اور اپنی دنیا کے معاملات انجام دینے میں پوری ہوشیاری اور دانائی کا ثبوت دیتے تھے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شیطان ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ان کی عقل سلب کر کے انہیں اپنے راستے پر کھینچ لے گیا۔ نہیں، انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر آنکھوں دیکھتے شیطان کے پیش کیے ہوئے اُس راستے کو اختیار کیا جس میں انہیں بڑی لذتیں اور منفعتیں نظر آتی تھیں اور انبیاء کے پیش کیے ہوئے اس راستے کو چھوڑ دیا جو انہیں خشک اور بدمزہ اور اخلاقی پابندیوں کی وجہ سے تکلیف دہ نظر آتا تھا۔
۶۷: یعنی بھاگ کر اللہ کی گرفت سے بچ نکلنے والے نہ تھے۔ اللہ کی تدبیروں کو ناکام کر دینے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔
۶۸: یعنی عاد، جن پر مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک سخت ہوا کا طوفان برپا رہا۔ (سورۂ الحاقہ، آیت ۷)۔
۶۹: یعنی ثمود۔
۷۰: یعنی قارون۔
۷۱: یعنی فرعون اور ہامان۔
۷۲: یہ تمام قصے جو یہاں تک سنائے گئے ہیں، ان کا روئے سخن دو طرف ہے۔ ایک طرف یہ اہلِ ایمان کو سنائے گئے ہیں تا کہ وہ پست ہمت اور دل شکستہ و مایوس نہ ہوں اور مشکلات و مصائب کے سخت سے سخت طوفان میں بھی صبر و استقلال کے ساتھ حق و صداقت کا عَلم بلند کیے رکھیں، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں کہ آخر کار اس کی مدد ضرور آئے گی اور وہ ظالموں کو نیچا دکھائے گا اور کلمۂ حق کو سربلند کر دے گا۔ دوسری طرف یہ اُن ظالموں کو بھی سنائے گئے ہیں جو اپنے نزدیک تحریکِ اسلامی کا بالکل قلع قمع کر دینے پر تلے ہوئے تھے۔ ان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم خدا کے حِلم اور اس کی بردباری کا غلط مطلب لے رہے ہو۔ تم نے خدا کی خدائی کو اندھیر نگری سمجھ لیا ہے۔ تمہیں اگر بغاوت و سرکشی اور ظلم و ستم اور بداعمالیوں پر ابھی تک نہیں پکڑا گیا ہے اور سنبھلنے کے لیے محض از راہِ عنایت لمبی مہلت دی گئی ہے تو تم اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہاں کوئی انصاف کر نے والی طاقت سرے سے ہے ہی نہیں اور اس زمین پر جس کا جو کچھ جی چاہے بلا نہایت کیے جا سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی آخر کا تمہیں جس انجام سے دوچار کر کے رہے گی وہ وہی انجام ہے جو تم سے پہلے قومِ نوحؑ اور قومِ لوطؑ اور قومِ شعیبؑ دیکھ چکی ہے، جس سے عاد و ثمود دوچار ہو چکے ہیں، اور جسے قارون و فرعون نے دیکھا ہے۔
۷۳: اوپر جتنی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب شرک میں مبتلا تھیں اور اپنے معبودوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ ہمارے حامی و مددگار اور سرپرست (Guardians ) ہیں، ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتے ہیں، ان کی پوجا پاٹ کر کے اور انہیں نذر و نیاز دے کر جب ہم ان کی سر پرستی حاصل کر لیں گے تو یہ ہمارے کام بنائیں گے اور ہم کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھیں گے۔ لیکن جیسا کہ اوپر کے تاریخی واقعات میں دکھایا گیا ہے، ان کے یہ تمام عقائد و اوہام اُس وقت بالکل بے بنیاد ثابت ہوئے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بربادی کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اُس وقت کوئی دیوتا، کوئی اوتار، کوئی ولی، کوئی روح اور کوئی جن یا فرشتہ، جسے وہ پوجتے تھے، ان کی مدد کو نہ آیا اور اپنی باطل توقعات کی ناکامی پر کفِ افسوس ملتے ہوئے وہ سب پیوند خاک ہو گئے۔ ان واقعات کو بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ مشرکین کو متنبہ کر رہا ہے کہ کائنات کے حقیقی مالک و فرمانروا کو چھوڑ کر بالکل بے اختیار بندوں اور سراسر خیالی معبودوں کے اعتماد پر جو توقعات کا گھروندا تم نے بنا رکھا ہے اس کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح مکڑی کا جالا ایک انگلی کی چوٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا اسی طرح تمہاری توقعات کا یہ گھروندا بھی خدا کی تدبیر سے پہلا تصادم ہوتے ہی پاش پاش ہو کر رہ جائے گا۔ یہ محض جہالت کا کرشمہ ہے کہ تم اوہام کے اس چکّر میں پڑے ہوئے ہو۔ حقیقت کا کچھ بھی علم تمہیں ہوتا تو تم ان بے بنیاد سہاروں پر اپنا نظامِ حیات کبھی تعمیر نہ کرتے۔ حقیقت بس یہ ہے کہ اختیارات کا مالک اس کائنات میں ایک ربُّ العالمین کے سوا کوئی نہیں ہے اور اسی کا سہارا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بَا لطَّا غُوْتِ وَیُؤْ مِنْم بِا اللہِ فَقَدِ اسْتَمَسَکَ بِا الْعُرْ وَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (البقرہ۔ آیت ۲۵۶)۔ ’’جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اُس نے وہ مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔‘‘
۷۴: یعنی اللہ ان سب چیزوں کی حقیقت خوب معلوم ہے جنہیں یہ لوگ معبود بنائے بیٹھے ہیں اور مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ طاقت کا مالک صرف اللہ ہی ہے اور اسی کی تدبیر و حکمت اس کائنات کا نظام چلا رہی ہے۔
۷۵: یعنی کائنات کا یہ نظام حق پر قائم ہے نہ کہ باطل پر۔ اس نظام پر جو شخص بھی صاف ذہن کے ساتھ غور کرے گا اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ زمین و آسمان اوہام و تخیلات پر نہیں بلکہ حقیقت و واقعیت پر کھڑے ہیں۔ یہاں اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ جو کچھ بھی سمجھ بیٹھے اور اپنے وہم و گمان سے جو فلسفہ بھی گھڑ لے وہ ٹھیک بیٹھ جائے۔ یہاں تو صرف وہی چیز کامیاب ہو سکتی ہے اور قرار و ثبات پا سکتی ہے جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ خلاف واقعہ قیاسات اور مفروضات پر جو عمارت بھی کھڑی کی جائے گی وہ آخر کار حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔ یہ نظامِ کائنات صاف شہادت دے رہا ہے کہ ایک خدا اس کا خالق ہے اور ایک ہی خدا اس کا مالک و مدبّر ہے۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر کوئی شخص اس مفروضے پر کام کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا یہ فرض کر کے چلتا ہے کہ اس کے بہت سے خدا ہیں جو نذر و نیاز کا مال کھا کر اپنے عقیدت مندوں کو یہاں سب کچھ کرنے کی آزادی اور بخیریت رہنے کی ضمانت دے دیتے ہیں، تو حقیقت اس کے اِن مفروضات کی بدولت ذرّہ برابر بھی تبدیل نہ ہو گی بلکہ وہ خود ہی کسی وقت ایک صدمۂ عظیم سے دوچار ہو گا۔
۷۶: یعنی زمین و آسمان کی تخلیق میں توحید کی صداقت اور شرک و دہریت کے بطلان پر ایک صاف شہادت موجود ہے، مگر اس شہادت کو صرف وہی لوگ پاتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی پیش کی ہوئی تعلیمات کو مانتے ہیں۔ ان کا انکار کر دینے والوں کو سب کچھ دیکھنے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ترجمہ
ترجمہ
اپر خود دلالتمزامیر داوٗ
(اے نبی ؐ )تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کی ذریعے سے بھیجی گئی ہے۔ اور نماز قائم کرو،۷۷ یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے ۷۸ اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔۷۹ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو۔ ۸۰ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے ۸۱۔۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں ۸۲ –۔۔۔۔ اور ان سے کہو کہ ’’ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مسلم(فرمانبردار)ہیں۔‘‘ ۸۳ (اے نبیؐ) ہم نے اسی طرح تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے،۸۴ اس لیے وہ لوگ جن کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں،۸۵ اور ان لوگوں میں سے بھی بہت سے اس پر ایمان لا رہے ہیں،۸۶ اور ہماری آیات کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں۔۸۷ (اے نبیؐ )تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔۸۸ دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے،۸۹ اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہ جو ظالم ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’کیوں نہ اُتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں ۹۰ اس کے رب کی طرف سے ‘‘ ؟کہو، ’’نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں صرف خبر دار کرنے والا ہوں کھول کھول کر ‘‘۔ اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی)کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟۹۱ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔۹۲ ؏ ۵
تفسیر
۷۷: خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے، مگر دراصل مخاطب تمام اہلِ ایمان ہیں۔ ان پر جو ظلم و ستم اُس وقت توڑے جا رہے تھے، اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آ رہا تھا، ان کا مقابلہ کرنے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر و ثبات اور توکل علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جا رہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبر دست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوتِ قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ کی تلاوت پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف حرکات بدن تک محدود نہ رہے، بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے۔ نماز کے وصفِ مطلوب کو تو آگے کے فقرے میں قرآن خود بیان کر رہا ہے۔ رہی تلاوت تو اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی وہ اسے کفر کی طغیانیوں کے مقابلے کی طاقت تو درکنار خود ایمان پر قائم رہنے کی طاقت بھی نہیں بخش سکتی، جیسا کہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ یَقْرَ أُ وْنَ القراٰن ولا یجاوز حنا جر ھم، یمرقون من الدین مروق السہم من الر مِیّۃ۔ ’’وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا، وہ دین سے اِس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نِکل جاتا ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم، مؤطّا)۔ درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کر تا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں۔ ا س کے متعلق تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صاف فرماتے ہیں کہ ما اٰمن بالقراٰن من استحل محارمہ، ’’قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کر لیا۔‘‘ (ترمذی بروایت صُہَیب رومی رضی اللہ عنہ)۔ ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اپنے خدا کے مقابلہ میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیرکٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے اسے کیا ہدایات دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس پوزیشن کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القراٰن حجّۃ لک او علیک، ’’قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف‘‘ (مسلم)۔ یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے باز پرس ہو، تو اپنی صفائی میں قرآن پیش کر سکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے۔ اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہُوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضیٔ اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داورِ محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہو گی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کر لیا ہو کہ تیر ا ربّ تجھ سے کیا چاہتا ہے، کس چیز کو تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تُو اس کے خلاف رویّہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے۔ یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کر دے گی۔ اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کر کے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گا۔
۷۸: یہ نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف ہے جسے موقع و محل کی مناسبت سے یہاں نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے۔ مکّہ کے اُس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں مادّی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت درکار تھی۔ اس اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کے نشوونما کے لیے پہلے دو تدبیروں کی نشان دہی کی گئی۔ ایک تلاوتِ قرآن۔ دوسرے اقامتِ صلوٰۃ۔ اس کے بعد اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ اُن برائیوں سے پاک ہو سکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گرد و پیش اہلِ عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہلی سوسائٹی اِس وقت مبتلا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اس موقع پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود اُن لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو، بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے اُن کو اُن سب لوگو ں پر زبردست برتری حاصل ہو جاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اُس ناپاک نظام کو، جو اُن برائیوں کو پرورش کرتا ہے، برقرار رکھنے کے لیے اِن پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں۔ فحشاء اور منکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت بُرا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ، خواہ وہ عملاً کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں، اصولًا ان کو بُرا ہی سمجھتے رہے ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلیے سے مستثنیٰ نہ تھا۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے، بدی کے مقابلے میں نیکی کی قدر پہچانتے تھے، اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخص ہو جو برائی کو بھلائی سمجھتا ہو یا بھلائی کو بُری نگاہ سے دیکھتا ہو۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر کسی ایسی تحریک کا اُٹھنا جس سے وابستہ ہو تے ہی اُسی معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہو جائیں، لا محالہ اپنا اثر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہلی تعصبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر اُن لوگوں کا ساتھ دیے چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہلیت کے اُس نظام کو قائم رکھنے کے لیے لڑ رہے تھے جو اُن برائیوں کو صدیوں سے پرورش کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی تا کہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کر لیں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیر و تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دے دے۔ نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے، اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کا وصفِ لازم ہے، یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے، اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب ہے، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور مُنکر سے رُک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو بُرائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگا نے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کاریگر بریک نماز ہی ہو سکتی ہے۔ آخر ا سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہو سکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تُو اِس دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے ، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اُس خدا کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔ پھر اس یاددہانی پر بھی اکتفا نہ کی جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہر نماز کے وقت اِس بات کی مشق کرائی جاتی رہے کہ وہ چھُپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔ نماز کے لیے اُٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے۔ مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہو چکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہو جائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکارِ نماز پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہو سکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جا رہی ہے، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدا کیا جا رہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جا رہا ہے، اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جا رہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیر اثر خفیہ اور عَلانیہ ہر حال میں اُس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریقِ تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملہ میں اس درجہ مؤثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رُکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاحِ نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اُٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہو سکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشوونما ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اسے جزو بدن بننے دے۔ اگر کوئی شخص ہر کھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لا کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجبِ تغذیۂ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے با وجود سوکھتا چلا جا رہا ہے، اسی طرح بد عمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بد عمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھا کر قے کر دینے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ در حقیقت کھانا نہیں کھاتا۔ ٹھیک یہی بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عِمْران بن حُصَین کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاء و المنکر فلا صلاۃ لہُ، ’’ جسے اس کی نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے۔‘‘ (ابن ابی حاتم)۔ ابن عباس حضور ؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لم تنھہ صلوٰتہ عن الفحشاء و المنکر لم یزددبھا من اللہ الّا بعد ا، ’’جس کی نماز نے اسے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دُور کر دیا۔‘‘ (ابن ابی حاتم۔ طَبَرانی)۔ یہی مضمون جناب حسن بصریؒ نے بھی حضورؐ سے مرسلاً روایت کیا ہے (ابن جریر۔ بیہقی)۔ ابن مسعود ؓ سے حضورؐ کا یہ ارشاد مروی ہے: لا صلوٰۃ لمن لم یطع الصلوۃ وطاعۃ الصلوٰۃ ان تنہی عن الفحشاء و المنکر، ’’ اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نےنماز کی اطاعت نہ کی، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رُک جائے‘‘ (ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرات عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، حسن بصری، قتادہ اور اَعْمَش وغیرہم سے منقول ہیں۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں، جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رُک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے ( رُوح المعانی)۔
۷۹: اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اللہ کا ذکر (یعنی نماز) اِس سے بزرگ تر ہے۔ اُس کی تاثیر صرف سلبی ہی نہیں ہے کہ برائیوں سے روکے ، بلکہ اِس سے بڑھ کر وہ نیکیوں پر ابھارنے والی اور سبقت الی الخیرات پر آمادہ کرنے والی چیز بھی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یاد بجائے خود بہت بڑی چیز ہے۔ خیر الاعمال ہے۔ انسان کا کوئی عمل اس سے افضل نہیں ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے اُس کو یاد کرنے سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے کہ فَا ذْ کُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ، آیت ۱۵۲)۔ ’’تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔‘‘ پس جب بندہ نماز میں اللہ کو یاد کرے گا تو لا محالہ اللہ بھی اس کو یاد کرے گا۔ اور یہ فضیلت کہ اللہ کسی بندے کو یاد کرے، اِس سے بزرگ تر ہے کہ بندہ اللہ کو یاد کرے۔ ان تین مطالب کے علاوہ ایک اور لطیف مطلب یہ بھی ہے جسے حضرت ابوالدَّرداء رضی اللہ عنہ کی اہلیۂ محترمہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد نماز تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ جب آدمی روزے رکھتا ہے، یا زکوٰۃ دیتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو لامحالہ اللہ کو یاد ہی کرتا ہے، تبھی تو اس سے وہ عمل نیک صادر ہوتا ہے۔ اسی طرح جب آدمی کسی برائی کے مواقع سامنے آنے پر اس سے پرہیز کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی یاد ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے یادِ الہٰی ایک مومن کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے۔
۸۰: واضح رہے کہ آگے چل کر اِسی سورہ میں ہجرت کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اُس وقت حبش ہی ایک ایسا مامن تھا جہاں مسلمان ہجرت کر کے جا سکتے تھے۔ اور حبش پر اس زمانے میں عیسائیوں کا غلبہ تھا۔ اس لیے اِن آیات میں مسلمانوں کو ہدایات دی جا رہی ہیں کہ اہلِ کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو ان سے دین کے معاملہ میں بحث و کلام کا کیا انداز اختیار کریں۔
۸۱: یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب و شائستہ زبان میں، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے، تا کہ جس شخص سے بحث کی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اصلا ح ہو سکے۔ مبلّغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظِ خاطر رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے، اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفا یاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہلِ کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے، مگر یہ اہلِ کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے مثلاً: اُدْعُ اِلیٰ سِبِیْلِ رَبِّکَ بِا لْحِکْمَۃِ وَالْمَوْ عِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَا دِلْہُمْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ (النحل۔ آیت ۱۲۵)۔ ’’دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پند و نصیحت کے ساتھ۔ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔‘‘ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیَِّٔۃُ اِدْفَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِ ذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَ نَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo (حم السجدہ۔ آیت ۳۴) ’’بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں ( مخالفین کے حملوں کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے گرم جوش دوست ہے۔‘‘ اِدْفَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیَِّٔۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون۔ آیت ۹۶) ’’تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو ہمیں معلوم ہے جو باتیں وہ (تمہارے خلاف) بناتے ہیں۔‘‘ خُذِ الْعَفْوَ و َأْ مُرْ بِا لْعُرْ فِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَا ھِلِیْنَ o وَاِمَّا یَنْزَ غَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَا سْتَعِذْ بِاللہِ۔ (الاعراف۔ آیات ۱۹۹-۲۰۰) ’’درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے ) شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘
۸۲: یعنی جو لوگ ظلم کا رویّہ اختیار کریں ان کے ساتھ ان کے ظلم کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویّہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر حال میں اور ہر طرح کے لوگوں کے مقابلہ میں نرم و شیریں ہی نہ بنے رہنا چاہیے کہ دنیا داعیِ حق کی شرافت کو کمزوری اور مسکنت سمجھ بیٹھے۔ اسلام اپنے پیرووں کو شائستگی اور معقولیت تو ضرور سکھاتا ہے مگر عاجزی و مسکینی نہیں سکھاتا کہ وہ ہر ظاہر کے لیے نرم چارہ بن کر رہیں۔
۸۳: اِن فقروں میں اللہ تعالیٰ نے خود اُس عُمدہ طریقِ بحث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جسے تبلیغِ حق کی خدمت انجام دینے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جس شخص سے تمہیں بحث کرتی ہو اُس کی گمراہی کو بحث کا نقطۂ آغاز نہ بناؤ، بلکہ بات اِس سے شروع کرو کہ حق و صداقت کے وہ کونسے اجزاء ہیں جو تمہارے اور اس کے درمیان مشترک ہیں۔ یعنی آغازِ کلام نکاتِ اختلاف سے نہیں بلکہ نکاتِ اتفاق سے ہونا چاہیے، پھر انہی متفق علیہ امور سے استدلال کر کے مخاطب کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جن امور میں تمہارے اور ا کے درمیان اختلاف ہے ان میں تمہارا مسلک متفق علیہ بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے اور اس کا مسلک ان سے متضاد ہے۔ اس سلسلے میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہلِ کتاب مشرکینِ عرب کی طرح وحی و رسالت اور توحید کے منکر نہ تھے بلکہ مسلمانوں کی طرح اِن سب حقیقتوں کو مانتے تھے۔ اِن بُنیادی امور میں اتفاق کے بعد اگر کوئی بڑی چیز بنیادِ اختلاف ہو سکتی تھی تو وہ یہ کہ مسلمان ان کے ہاں آئی ہوئی آسمانی کتابوں کو نہ مانتے اور اپنے ہاں آئی ہو ئی کتاب پر ایمان لانے کی اُنہیں دعوت دیتے اور ان کے نہ ماننے پر انہیں کافر قرار دیتے۔ یہ جھگڑے کی بڑی مضبوط وجہ ہوتی۔ لیکن مسلمانوں کا موقف اس سے مختلف تھا۔ وہ تمام اُن کتابوں کو برحق تسلیم کرتے تھے جو اہلِ کتاب کے پاس موجود تھیں اور پھر اُس وحی پر ایمان لائے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد یہ بتانا اہلِ کتاب کا کام تھا کہ کس معقول وجہ سے وہ خدا ہی کی نازل کردہ ایک کتاب کو مانتے اور دوسری کتاب کا انکار کرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ اہلِ کتاب سے جب سابقہ پیش آئے تو سب سے پہلے مثبت طور پر اپنا یہی موقف ان کے سامنے پیش کرو۔ ان سے کہو کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی کو ہم مانتے ہیں اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں۔ اس کی طرف سے جو احکام و ہدایات اور تعلیمات بھی آئی ہیں ان سب کے آگے ہمارا سرِ تسلیم خم ہے، خواہ وہ تمہارے ہاں آئی ہوں یا ہمارے ہاں۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ ملک اور قوم اور نسل کے بندے نہیں ہیں کہ ایک جگہ خدا کا حکم آئے تو ہم مانیں اور اُسی خدا کا حکم دوسری جگہ آئے تو ہم اس کو نہ مانیں۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ دہرائی گئی ہے اور خصوصاً اہلِ کتاب سے جہاں سابقہ پیش آیا ہے وہاں تو اسے زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۴ – ۱۳۶ – ۱۷۷ – ۲۸۵۔ آلِ عمران، آیت ۸۴۔ النساء، ۱۳۶ – ۱۵۰ تا ۱۵۲- ۱۶۲ تا ۱۶۴، الشوریٰ ۱۳۔
۸۴: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح پہلے انبیاء پر ہم نے کتابیں نازل کی تھیں اُسی طرح اب یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے اِسی تعلیم کے ساتھ یہ کتاب نازل کی ہے کہ ہماری پچھلی کتابوں کا انکار کر کے نہیں بلکہ اُن سب کا اقرار کرتے ہوئے اِسے مانا جائے۔
۸۵: سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ اِس سے مراد تمام اہلِ کتاب نہیں ہیں بلکہ وہ اہلِ کتاب ہیں جن کو کتبِ الہٰیہ کا صحیح علم و فہم نصیب ہوا تھا، جو ’’چارپائے بروکتا بے چند‘‘ کے مصداق محض کتاب بردار قسم کے اہلِ کتاب نہیں تھے، بلکہ حقیقی معنی میں اہلِ کتاب تھے۔ اِن کے سامنے جب اللہ تعالی کی طرف سے اس کی پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہوئی یہ آخری کتاب آئی تو انہوں نے کسی ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے کام نہ لیا اور اسے بھی ویسے ہی اخلاص کے ساتھ تسلیم کر لیا جس طرح پچھلی کتابوں کو تسلیم کر تے تھے۔
۸۶: ’’اِن لوگوں ‘‘ کا اشارہ اہلِ عرب کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق پسند لوگ ہر جگہ اس پر ایمان لا رہے ہیں خواہ وہ اہلِ کتاب میں سے ہوں یا غیر اہلِ کتاب میں سے۔
۸۷: یہاں کافر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے تعصبات کو چھوڑ کر حق بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، یا وہ جو اپنی خواہشاتِ نفس اور اپنی بے لگام آزادیوں پر پابندیاں قبول کرنے سے جی چراتے ہیں اور اِس بنا پر حق کا انکار کرتے ہیں۔
۸۸: یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے ثبوت میں وہی استدلال ہے جو اس سے پہلے سورۂ یونسؑ م اور سورۂ قصص میں گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ یونس حاشیہ نمبر ۲۱ و تفسیر سورۂ قصص، حاشیہ نمبر ۶۴ و نمبر ۱۰۹۔ اس مضمون کی مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ نحل حاشیہ نمبر ۱۰۷، بنی اسرائیل، حاشیہ نمبر ۱۰۵، المومنون، حاشیہ نمبر ۶۶، الفرقان، حاشیہ نمبر ۱۲ اور الشوریٰ، حاشیہ نمبر ۸۴ کا مطالعہ بھی مفید ہو گا)۔ اس آیت میں استدلال کی بنیا د یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اَن پڑھ تھے۔ آپ کے اہلِ وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روزِ پیدائش سے سنِ کہولت تک پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا۔ اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھُلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات، انبیاء سابقین کے حالات، مذاہب و ادیان کے عقائد، قدیم قوموں کی تاریخ، اور تمدّن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اِس اُمّی کی زبان سے ہو رہا ہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن اُس کی اُمّیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی نبوت کا انکار کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجہ میں بھی معقول کہا جا سکتا ہو۔
۸۹: یعنی ایک اُمّی کا قرآن جیسی کتاب پیش کرنا اور یکایک اُن غیر معمولی کمالات کا مظاہرہ کرنا جن کے لیے کسی سابقہ تیاری کے آثار کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آئے، یہی دانش و بینش رکھنے والوں کی نگاہ میں اس کی پیغمبری پر دلالت کرنے والی روشن ترین نشانیاں ہیں۔ دنیا کی تاریخی ہستیوں میں سے جس کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے، آدمی اُس کے اپنے ماحول میں اُن اسباب کا پتہ چلا سکتا ہے کہ جو اُس کی شخصیت بنانے اور اس سے ظاہر ہونے والے کمالات کے لیے اس کو تیار کرنے میں کار فرما تھے۔ اُس کے ماحول اور اس کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں ایک کھلی مناسبت پائی جاتی ہے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت جن حیرت انگیز کمالات کی مَظہَر تھی اُن کا کوئی ماخذ آپؐ کے ماحول میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں نہ اس وقت کے عربی معاشرے میں، اور نہ گرد و پیش کے جن ممالک سے عرب کے تعلقات تھے اُن کے معاشرے میں، کہیں دور دراز سے بھی وہ عناصر ڈھونڈ کر نہیں نکالے جا سکتے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی سے کوئی مناسبت رکھتے ہوں۔ یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ایک نشانی نہیں بلکہ بہت سی روشن نشانیوں کا مجموعہ ہے۔ جاہل آدمی کو اس میں کوئی نشانی نظر نہ آتی ہو تو نہ نظر آئے، مگر جو لوگ علم رکھنے والے ہیں وہ ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنے دلوں میں قائل ہو گئے ہیں کہ یہ شان ایک پیغمبر ہی کی ہو سکتی ہے۔
۹۰: یعنی معجزات جنہیں دیکھ کر یقین آئے کہ واقعی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے نبی ہیں۔
۹۱: یعنی اُمّی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ا ن کے لیے وہ معجزے تھے۔ مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے۔ تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو۔ قرآن مجید کے اس بیان و استدلال کے بعد اُن لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضورؐ کے نا خواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضورؐ لکھے پڑھے تھے، یا بعد میں آپؐ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہ اوّل تو پہلی ہی نظر میں رد کر دینے کے لیے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ پھر وہ بجائے خود بھی اِتنی کمزوری میں ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے ایک، بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفارِ مکّہ کے نمائندے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضورؐ نے کاتب( یعنی حضرت علی ؓ) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمدؐ بن عبد اللہ لکھ دو۔ حضرت علیؓ نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضورؐ نے ان کے ہاتھ سے لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محمدؐ بن عبد اللہ لکھ دیا۔ لیکن یہ روایت بَراء بن عازِب سے بخاری میں چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں: (۱) بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال لعلی امحہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو، انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں کاٹ سکتا۔ آخر کار حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا۔ (۲) اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فاخذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھٰذا ما قاضیٰ علیہ محمد بن عبد اللہ۔ پھر علی ؓ سے کہا ’’رسول اللہ ‘‘ کاٹ دو۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہ کاٹوں گا۔ آخر حضورؐ نے تحریر لے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدؐ بن عبد اللہ نے طے کیا۔ (۳) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے: وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال علی واللہ لا امحاہ ابدًا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ النبی صلی اللہ علیہ و سلم بیدہ۔ حضورؐ خود نہ لکھ سکتے تھے۔ آپ نے حضرت علیؓ سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہر گز نہ کاٹوں گا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے۔ (۴) چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے: فاخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم الکتاب ولیس یحسن یکتب فکتب ھٰذا ما قاضیٰ محمد بن عبد اللہ۔ پس حضورؐ نے وہ تحریر لے لی درآنحالیکہ آپ لکھنا نہ جانتے تھے اور آپ نے لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدؐ بن عبد اللہ نے طے کیا۔ (۵) انہی براء بن عازِب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے انکار کرنے پر حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ مٹا دیے۔ (۶) دوسری روایت اسی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفظ کہاں لکھا ہے، حضرت علی ؓ نے آپ کو جگہ بتائی، اور آپ نے اسے مٹا کر ابن عبد اللہ لکھ دیا۔ روایات کا یہ اضطراب صاف بتا رہا ہے کہ بیچ کے رایوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں، اس لیے ان میں سے کسی ایک نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ یقینی طور پر یہ کہا جا سکے کہ حضورؐ نے ’’محمدؐ بن عبد اللہ‘‘ کے الفاظ اپنے دستِ مبارک ہی سے لکھے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علیؓ نے ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹانے سے انکار کر دیا تو آپؐ نے اس کی جگہ اُن سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبد اللہ کے الفاظ لکھوا دیے ہوں۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو کاتب لکھ رہے تھے۔ ایک حضرت علیؓ، دوسرے محمد بن مَسْلَمَہ (فتح الباری، جلد ۵، ص ۲۱۷)۔ اس لیے یہ امر بعید نہیں ہے کہ جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضورؐ نے اپنا نام اپنے ہی دستِ مبارک سے لکھا ہو، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں، باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ دوسری روایت جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خواندہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شَیبَہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ: ما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حتی کتب وقرأ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے وفات سے پہلے للھنا پڑھنا سیکھ چکے تھے)۔ لیکن اوّل تو یہ سند اً بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں فضعیف لا اصل لہ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضورؐ نے فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہو جاتی، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ حضورؐ نے کس شخص یا کن اشخاص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن سوائے ایک عَون بن عبد اللہ کے ، جن سے مجاہد نے یہ بات سُنی، اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جنہوں نے قطعاً یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہو سکتی جو مشہور و معروف واقعات کی تردید کرتی ہو۔
۹۲: یعنی بلا شبہ اس کتاب کا نزول اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مہربانی ہے اور یہ بندوں کے لیے بڑی پند و نصیحت پر مشتمل ہے، مگر اس کا فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس پر ایمان لائیں۔
ترجمہ
(اے نبیؐ )کہو کہ ’’میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہی کے لیے کافی ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین میں سب کچھ جانتا ہے۔ جو لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ سے کفر کرتے ہیں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔‘‘ یہ لوگ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔۹۳ اگر ایک وقت مقرر نہ کر دیا گیا ہوتا تو ان پر عذاب آ چکا ہوتا۔ اور یقیناً(اپنے وقت پر )وہ آ کر رہے گا اچانک، اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ یہ تم سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ جہنم ان کافروں کو گھیرے میں لے چکی ہے(اور انہیں پتہ چلے گا)اس روز جبکہ عذاب انہیں اوپر سے بھی ڈھانک لے گا اور پاؤں کے نیچے سے بھی اور کہے گا کہ اب چکھو مزا ان کرتوتوں کا جو تم کرتے تھے۔ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، میری زمین وسیع ہے، پس تم میری ہی بندگی بجا لاؤ۔۹۴ ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے۔۹۵ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ۹۶ —۔۔۔۔ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے صبر کیا ہے ۹۷ اور جو اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔۹۸ کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اُٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔۹۹
۱۰۰ اگر تم ان لوگوں سے پوچھوں کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کدھر سے دھوکا کھا رہے ہیں؟اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے، یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جِلا اُٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔ کہو، الحمدللہ،۱۰۱ مگر اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ ؏ ۶
تفسیر
۹۳: یعنی معجزات جنہیں دیکھ کر یقین آئے کہ واقعی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے نبی ہیں۔
۹۴: یہ اشارہ ہے ہجرت کی طرف۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مکے میں خدا کی بندگی کرنی مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ، خدا کی زمین تنگ نہیں ہے۔ جہاں بھی تم خدا کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ۔ تم کو قوم و وطن کی نہیں بلکہ اپنے خدا کی بندگی کرنی چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز قوم، وطن اور ملک نہیں ہے بلکہ اللہ کی بندگی ہے۔ اگر کسی وقت قوم و وطن اور ملک کی محبت کے تقاضے اللہ کی بندگی کے تقاضوں سے ٹکرا جائیں تو وہی وقت مومن کے ایمان کی آزمائش کا ہوتا ہے۔ جو سچا مومن ہے وہ اللہ کی بندگی کرے گا اور قوم، وطن اور ملک کو لات مار دیگا۔ جو جھوٹا مدعی ایمان ہے وہ ایمان کو چھوڑ دیگا اور اپنی قوم اور اپنے ملک و وطن سے چمٹا رہے گا۔ یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہے کہ ایک سچا خدا پرست انسان محبّ قوم و وطن تو ہو سکتا ہے مگر قوم پرست اور وطن پرست نہیں ہو سکتا۔ اُس کے لیے خدا کی بندگی ہر چیز سے عزیز تر ہے جس پر دنیا کی ہر چیز کو وہ قربان کر دے گا مگر اسے دنیا کی کسی چیز پر بھی قربان نہ کرے گا۔
۹۵: یعنی جان کی فکر نہ کرو۔ یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے۔ ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ہے۔ لہٰذا تمہارے لیے فکر کے لائق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں جان کیسے بچائی جائے، بلکہ اصل لائق فکر مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کیسے بچایا جائے اور خدا پرستی کے تقاضے کس طرح پورے کیے جائیں۔ آخر کار تمہیں پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے۔ اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھو کر آئے تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہو گا، اور ایمان بچانے کے لیے جان کھو آئے تو اس کا انجام کچھ دوسرا ہو گا۔ پس فکر جو کچھ بھی کرنی ہے اس بات کی کرو کہ ہماری طرف جب پلٹو گے تو کیا لے کر پلٹو گے، جان پر قربان کیا ہوا ایمان؟ یا ایمان پر قربان کی ہوئی جان؟
۹۶: یعنی اگر ایمان اور نیکی کے راستہ پر چل کر بالفرض تم دنیا کی ساری نعمتوں سے محروم بھی رہ گئے اور دنیوی نقطۂ نظر سے سراسر ناکام بھی مرے تو یقین رکھو کہ اس کی تلافی بہر حال ہو گی اور نِری تلافی ہی نہ ہو گی بلکہ بہترین اجر نصیب ہو گا۔
۹۷: یعنی جو ہر طرح سے مشکلات اور مصائب اور نقصانات اور اذیتوں کے مقابلے میں ایمان پر قائم رہے ہیں۔ جنہوں نے ایمان لانے کے خطرات کو اپنی جان پر جھیلا ہے اور منہ نہیں موڑا ہے۔ ترکِ ایمان کے فائدوں اور منفعتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ان کی طرف ذرّہ برابر التفات نہیں کیا ہے۔ کفار و فسّاق کو اپنے سامنے پھلتے پھولتے دیکھا ہے اور ان کی دولت و حشمت پر ایک نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالی ہے۔
۹۸: یعنی جنہوں نے بھروسہ اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار اور اپنے کنبے قبیلے پر نہیں بلکہ اپنے ربّ پر کیا۔ جو اسبابِ دنیوی سے قطع نظر کر کے محض اپنے ربّ کے بھروسے پر ایمان کی خاطر ہر خطرہ سہنے اور ہر طاقت سے ٹکرا جانے کے لیے تیار ہو گئے، اور وقت آیا تو گھر بار چھوڑ کر نِکل کھڑے ہوئے۔ جنہوں نے اپنے ربّ پر یہ اعتماد کیا کہ ایمان اور نیکی پر قائم رہنے کا اجر اس کے ہاں کبھی ضائع نہ ہو گا اور یقین رکھا کہ وہ اپنے مومن و صالح بندوں کی اِس دنیا میں بھی دستگیری فرمائے گا اور آخرت میں بھی ان کے عمل کا بہترین بدلہ دے گا۔
۹۹: یعنی ہجرت کرنے میں تمہیں فِکر جان کی طرح فِکر روزگار سے بھی پریشان نہ ہونا چاہیے۔ آخر یہ بے شمار چرند و پرند اور آبی حیوانات جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا اور خشکی اور پانی میں پھر رہے ہیں، ان میں سے کون اپنا رزق اُٹھائے پھرتا ہے؟ اللہ ہی تو اِن سب کو پال رہا ہے۔ جہاں جاتے ہیں اللہ کے فضل سے اِن کو کسی نہ کسی طرح رزق مل ہی جاتا ہے۔ لہٰذا تم یہ سوچ سوچ کر ہمت نہ ہارو کہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نِکل گئے تو کھائیں گے کہاں سے۔ اللہ جہاں سے اپنی بے شمار مخلوق کو رزق دے رہا ہے، تمہیں بھی دے گا۔ ٹھیک یہی بات ہے جو سیّدنا حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمائی تھی۔ انہوں نے فرمایا: ’’ کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا ور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ ا س لیے میں کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے، اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں سے ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں، پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملّبس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا۔ اس لیے فکر مند نہ ہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے۔ ان سب چیزوں کی تلاش میں تو غیر قومیں رہتی ہیں۔ تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کی تلاش کرو۔ یہ سب چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔ کل کے لیے فکر نہ کرو۔ کل کا دن اپنی فکر آ پ کر لے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔‘‘ (متی۔ باب ۶۔ آیات ۲۴ تا ۳۴) قرآن اور انجیل کے اِن ارشادات کا پس منظر ایک ہی ہے۔ دعوتِ حق کی راہ میں ایک مرحلہ ایسا آ جاتا ہے جس میں ایک حق پرست آدمی کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ عالمِ اسباب کے تمام سہاروں سے قطع نظر کر کے محض اللہ کے بھروسے پر جان جوکھوں کی بازی لگا دے۔ ان حالات میں وہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے جو حساب لگا لگا کر مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور قدم اٹھانے سے پہلے جان کے تحفظ اور رزق کے حصول کی ضمانتیں تلاش کرتے ہیں۔ در حقیقت اِس طرح کے حالات بدلتے ہی اُن لوگوں کی طاقت سے ہیں جو سر ہتھیلی پر لے کر اُٹھ کھڑے ہوں اور ہر خطرے کو انگیز کرنے کے لیے بے دھڑک تیار ہو جائیں۔ انہی کی قربانیاں آخر کار وہ وقت لاتی ہیں جب اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں سارے کلمے پست ہو کر رہ جاتے ہیں۔
۱۰۰: یہاں سے پھر کلام کا رُخ کفار مکہ کی طرف مڑتا ہے۔
۱۰۱: اس مقام پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کا لفظ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو پھر حمد کا مستحق بھی صرف وہی ہے، دوسروں کو حمد کا استحقاق کہاں سے پہنچ گیا؟ دوسرے یہ کہ خدا کا شکر ہے، اس بات کا اعتراف تم خود بھی کرتے ہو۔
ترجمہ
اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔۱۰۲ اصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔۱۰۳ جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں تا کہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر اس کا کفر ان نعمت کریں اور (حیات دنیا کے ) مزے لوٹیں۔۱۰۴ اچھا، عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پُر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ ان کے گرد و پیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں؟۱۰۵ کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران کرتے ہیں؟ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آ چکا ہو؟۱۰۶ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم ہی نہیں ہے؟ جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے،۱۰۷ اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔ ؏ ۷
تفسیر
۱۰۲: یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو سدھاریں۔ یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈراما کر رہا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب اس کا یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے اور اسی بے سرو سامانی کے ساتھ وہ تختِ شاہی سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنیا میں آیا تھا۔ اسی طرح زندگی کی کوئی شکل بھی یہاں مستقل اور پائیدار نہیں ہے۔ جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے ہے۔ اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مر ے مٹتے ہیں اور انہی کے لیے ضمیر و ایمان کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ شوکت و حشمت کے ٹھا ٹھ فراہم کر لیتے ہیں ان کی یہ ساری حرکتیں دل کے بہلا وے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اِن کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساتھ ستر سال دل بہلا لیں اور پھر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اُس عالم میں پہنچیں جہاں کی دائمی و ابدی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بے درماں ثابت ہو تو آخر اِس طفل تسلی کا فائدہ کیا ہے؟
۱۰۳: یعنی اگر یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے کہ دنیا کی موجودہ زندگی صرف ایک مہلتِ امتحان ہے، اور انسان کے لیے اصل زندگی، جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، آخرت کی زندگی ہے، تو وہ یہاں امتحان کی مدت کو اِس لہو و لعب میں ضائع کرنے کے بجائے اس کا ایک ایک لمحہ اُن کاموں میں استعمال کرتے جو اُس ابدی زندگی میں بہتر نتائج پیدا کر نے والے ہوں۔
۱۰۴: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۲۹ اور نمبر ۴۱، سورۂ یونس حاشیہ نمبر ۲۹ اور نمبر ۳۱، سورۂ بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۸۴۔
۱۰۵: یعنی کیا اِن کے شہر مکہ کو، جس کے دامن میں انہیں کمال درجے کا امن میسّر ہے، کِسی لات یا ہُبل نے حرم بنایا ہے؟ کیا کسی دیوی یا دیوتا کی یہ قدرت تھی کہ ڈھائی ہزار سال سے عرب کی انتہائی بد امنی کے ماحول میں اس جگہ کو تمام فتنوں اور فسادوں سے محفوظ رکھتا؟ اس کی حرمت کو برقرار رکھنے والے ہم نہ تھے تو اور کون تھا؟
۱۰۶: یعنی نبی نے دعوائے رسالت کیا ہے اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے۔ اب معاملہ دو حال سے خالی نہیں۔ اگر نبی نے اللہ کا نام لے کر جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو اُس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر تم نے سچے نبی کی تکذیب کی ہے تو پھر تم سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔
۱۰۷: ’’مجاھدہ‘‘ کی تشریح اِسی سُورۂ عنکبوت کے حاشیہ نمبر ۸ میں گزر چکی ہے۔ وہاں یہ فرمایا گیا تھا کہ جو شخص مجاھدہ کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لیے کرے گا (آیت نمبر ۶)۔ یہاں یہ اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ دنیا بھر سے کش مکش کا خطرہ مول لے لیتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ وہ ان کی دستگیری و رہنمائی فرماتا ہے اور اپنی طرف آنے کی راہیں ان کے لیے کھول دیتا ہے۔ وہ قدم قدم پر انہیں بتاتا ہے کہ ہماری خوشنودی تم کس طرح حاصل کر سکتے ہو۔ ہر ہر موڑ پر انہیں روشنی دکھاتا ہے کہ راہِ راست کدھر ہے اور غلط راستے کون سے ہیں۔ جتنی نیک نیتی اور خیر طلبی ان میں ہوتی ہے اتنی ہی اللہ کی مدد اور توفیق اور ہدایت بھی ان کے ساتھ رہتی ہے۔
٭٭٭
۳۰۔ الروم
نام
پہلی ہی آیت کے لفظ غلبت الروم سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
آغاز ہی میں جس تاریخی واقعے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانۂ نزول قطعی طور پر متعین ہو جاتا ہے۔ اس میں ارشاد ہوا ہے کہ "قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہو گئے ہیں "۔ اس زمانے میں عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن، شام اور فلسطین تھے اور ان علاقوں میں رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ ۶۱۵ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس لیے پوری صحت کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سورت اسی سال نازل ہوئی تھی اور یہ وہی سال تھا جس میں ہجرت حبشہ واقعہ ہوئی۔
تاریخی پس منظر
جو پیشین گوئی اس سورت کی ابتدائی آیات میں کی گئی ہے ، وہ قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رسولِ برحق ہونے کی نمایاں ترین شہادتوں میں سے ایک ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تاریخی واقعات پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی جائے جو ان آیات سے تعلق رکھتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت سے ۸ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ قیصرِ روم ماریس (Mauric) کے خلاف بغاوت ہوئی اور ایک شخص فوکاس (Phocas) تختِ سلطنت پر قابض ہو گیا۔ اس شخص نے پہلے تو قیصر کی آنکھوں کے سامنے اس کے پانچ بیٹوں کو قتل کرایا، پھر خود قیصر کو قتل کرا کے باپ بیٹوں کے سر قسطنطنیہ میں برسرِ عام لٹکوا دیے ، اور اس کے چند روز بعد اس کی بیوی اور تین لڑکیوں کو بھی مروا ڈالا۔ اس واقعے سے ایران کی ساسانی سلطنت کے بادشاہ خسرو پرویز کو روم پر حملہ آور ہونے کے لیے بہترین اخلاقی بہانہ مل گیا۔ قیصر ماریس اس کا محسن تھا۔ اسی کی مدد سے پرویز کو ایران کا تخت نصیب ہوا تھا۔ اسے وہ اپنا باپ کہتا تھا۔ اس بنا پر اس نے اعلان کیا کہ میں غاصب فوکاس سے اس ظلم کا بدلہ لوں گا جو اس نے میرے مجازی باپ اور اس کی اولاد پر ڈایا ہے۔ ۶۰۳ء میں اس نے سلطنت روم کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور چند سال کے اندر وہ فوکاس کی فوجوں کو پے در پے شکستیں دیتا ہوا ایک طرف ایشیائے کوچک میں ایڈیسا (موجودہ اورفا) تک اور دوسری شام میں حلب اور انطاکیہ تک پہنچ گیا۔ روم کے اعیانِ سلطنت یہ دیکھ کر کہ فوکاس ملک کو نہیں بچا سکتا، افریقہ کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے۔ اس نے اپنے بیٹے ہرقل (Heraclius) کو ایک طاقت ور بیڑے کے ساتھ قسطنطنیہ بھیج دیا۔ اس کے پہنچتے ہی فوکاس معزول کر دیا گیا، اس کی جگہ برقل قیصر بنایا گیا، اور اس نے برسر اقتدار آ کر فوکاس کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اس نے ماریس کے ساتھ کیا تھا۔ یہ ۶۱۰ء کا واقعہ ہے اور یہ وہی سال ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے تھے۔
خسرو پرویز نے جس اخلاقی بہانے کو بنیاد بنا کر جنگ چھیڑی تھی، فوکاس کے عزل و قتل کے بعد وہ ختم ہو چکا تھا۔ اگر واقعی اس کی جنگ کا مقصد غاصب فوکاس سے اس کے ظلم کا بدلہ لینا ہوتا تو اس کے مارے جانے پر اسے نئے قیصر سے صلح کر لینی چاہیے تھی۔ مگر اس نے پھر بھی جنگ جاری رکھی اور اب اس جنگ کو اس نے مجوسیت اور مسیحیت کی مذہبی جنگ کا رنگ دیا۔ عیسائیوں کے جن فرقوں کو رومی سلطنت کے سرکاری کلیسا نے ملحد قرار دے کر سالہا سال سے تختۂ ستم بنا رکھا تھا (یعنی نسطوری اور یعقوبی وغیرہ) ان کی ساری ہمدردیاں بھی مجوسی حملہ آوروں کے ساتھ ہو گئیں۔ اور یہودیوں نے بھی مجوسیوں کا ساتھ دیا، حتیٰ کہ خسرو پرویز کی فوج میں بھرتی ہونے والے یہودیوں کی تعداد ۲۶ ہزار تک پہنچ گئی۔
ہرقل اس سیلاب کو نہ روک سکا۔ تخت نشین ہوتے ہی پہلی اطلاع جو اسے مشرق سے ملی وہ انطاکیہ پر ایرانی قبضے کی تھی۔ اس کے بعد ۶۱۳ء میں دمشق فتح ہوا۔ پھر ۶۱۳ء میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے ایرانیوں نے مسیحی دنیا پر قیامت ڈھا دی۔ ۹۰ ہزار عیسائی اس شہر میں قتل کیے گئے۔ ان کا سب سے مقدس کلیسا کینستہ القیامہ (Holy Sepulchre) برباد کر دیا گیا۔ صلیب اعظم، جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ اس پر مسیح نے جان دی تھی، مجوسیوں نے چھین کر مدائن پہنچا دی۔ لاٹ پادری زکریاء کو بھی وہ پکڑ لے گئے اور شہر کے تمام بڑے بڑے گرجوں کو انہوں نے مسمار کر دیا۔ اس فتح کا نشہ جس بری طرح خسرو پرویز پر چڑھا تھا اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے بیت المقدس سے ہرقل کو لکھا تھا۔ اس میں وہ کہتا ہے :
” سب خداؤں سے بڑے خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینے اور بے شعور بندے ہرقل کے نام،
تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے ، کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا؟
اس فتح کے بعد ایک سال کے اندر اندر ایرانی فوجیں اردن، فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقے پر قابض ہو کر حدود مصر تک پہنچ گئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکۂ معظمہ میں ایک اور اس سے بدرجہا زیادہ تاریخی اہمیت رکھنے والی جنگ برپا تھی۔ یہاں توحید کے علمبردار سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیادت میں اور شرک کے پیروکار سرداران قریش کی رہنمائی میں ایک دوسرے سے بر سر جنگ تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ۶۱۵ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حبش کی عیسائی سلطنت میں (جو روم کی حلیف تھی) پناہ لینی پڑی۔ اس وقت سلطنت روم پر ایران کے غلبے کا چرچا ہر زبان پر تھا۔ مکے کے مشرکین اس پر بغلیں بجا رہے تھے اور مسلمانوں سے کہتے تھے کہ دیکھو ایران کے آتش پرست فتح پا رہے ہیں اور رومی و رسالت کے ماننے والے عیسائی شکست پر شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اس طرح ہم عرب کے بت پرست بھی تمہیں اور تمہارے دین کو مٹا کر رکھ دیں گے۔
ان حالات میں قرآن مجید کی یہ سورت نازل ہوئی اور اس میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ "قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہو گئے ہیں ، مگر اس مغلوبیت کے چند سال کے اندر ہی وہ غالب آ جائیں گے ، اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہو رہے ہوں گے "۔ اس میں ایک کے بجائے دو پیشین گوئیاں ہیں۔ ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ نصیب ہو گا۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کو بھی اسی زمانے میں فتح حاصل ہو گی۔ بظاہر دور دور تک کہیں اس کے آثار موجود نہ تھے کہ ان میں سے کوئی ایک پیشین گوئی چند سال کے اندر پوری ہو جائے گی۔ ایک طرف مٹھی بھر مسلمان تھے جو مکے میں مارے اور کھدیڑے جا رہے تھے اور اس پیشین گوئی کے بعد بھی آٹھ سال تک ان کے لیے غلبہ و فتح کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔ دوسری طرف روم کی مغلوبیت روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ ۶۱۹ء تک پورا مصر ایران کے قبضے میں چلا گیا اور مجوسی فوجوں نے طرابلس کے قریب پہنچ کر اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ ایشیائے کوچک میں ایرانی فوجیں رومیوں کو مارتی دباتی باسفورس کے کنارے تک پہنچ گئیں اور ۶۱۷ء میں انہوں نے عین قسطنطنیہ کے سامنے خلقدون (Chalcedon موجودہ قاضی کوئی) پر قبضہ کر لیا۔ قیصر نے خسرو کے پاس ایلچی بھیج کر نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ میں ہر قیمت پر صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مگر اس نے جواب دیا کہ "اب میں قیصر کو اس وقت تک امان نہ دوں گا جب تک وہ پا بہ زنجیر میرے سامنے حاضر نہ ہو اور اپنے خدائے مصلوب کو چھوڑ کر خداوندِ آتش کی بندگی نہ اختیار کر لے "۔ آخر کار قیصر اس حد تک شکست خوردہ ہو گیا کہ اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ (Carthage موجودہ تیونس) منتقل ہو جانے کا ارادہ کر لیا۔ غرض انگریز مؤرخ گبن کے بقول :
"قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کے بعد بھی سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخص یہ تصور تک نہ کر سکتا تھا کہ رومی سلطنت ایران پر غالب آ جائے گی، بلکہ غلبہ تو درکنار اس وقت تو کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہ جائے گی”۔ [۱]
قرآن کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو کفار مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شرط باندھی کہ اگر تین سال کے اندر رومی غالب آ گئے تو دس اونٹ میں دوں گا ورنہ دس اونٹ تم کو دینے ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس شرط کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا قرآن میں فی بضع سنین کے الفاظ آئے ہیں ، اور عربی زبان میں بضع کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے ہے ، اس لیے دس سال کے اندر کی شرط کرو اور اونٹوں کی تعداد بڑھا کر سو کر دو۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے ابی سے پھر بات کی اور نئے سرے سے یہ شرط طے ہوئی کہ دس سال کے اندر فریقین میں سے جس کی بات غلط ثابت ہو گی وہ سو اونٹ دے گا۔
۶۲۲ء میں ادھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کر کے مدینۂ طیبہ تشریف لے گئے اور ادھر قیصر ہرقل خاموشی کے ساتھ قسطنطنیہ سے بحیرۂ اسود کر راستے طرابزون کی طرف روانہ ہوا جہاں اس نے ایران پر پشت سے حملہ کرنے کی تیاری کی۔ اس جوابی حملے کی تیاری کے لیے قیصر نے کلیسا سے روپیہ مانگ اور مسیحی کلیسا کے اُسُقفِ اعظم سرجیس (Sergius) نے مسیحیت کو مجوسیت سے بچانے کے لیے گرجاؤں کے نذرانوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض دی۔ ہرقل نے اپنا حملہ ۶۲۳ء میں آرمینیا سے شروع کیا اور دوسرے سال ۶۲۴ء میں اس نے آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقامِ پیدائش ارمیاہ (Clorumia) کو تباہ کر دیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو جنگ بدر میں مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح وہ دونوں پیشین گوئیاں جو سورۂ روم میں کی گئی تھیں ، دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے بیک وقت پوری ہو گئیں۔
پھر روم کی فوجیں ایرانیوں کو مسلسل دبانی چلی گئیں۔ نینوا کی فیصلہ کن لڑائی (۶۲۷ء) میں انہوں نے سلطنت ایران کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دست گرد (دسکرۃ الملک) کو تباہ کر دیا گیا اور آگے بڑھ کر ہرقل کے لشکر عین طیفون (Ctesiphon) کے سامنے پہنچ گئے جو اس وقت ایران کا دارالسلطنت تھا۔ ۶۲۸ء میں خسرو پرویز کے خلاف گھر میں بغاوت رونما ہوئی۔ وہ قید کیا گیا، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے ۱۸ بیٹے قتل کر دیے گئے ، اور چند روز بعد وہ خود قید کی سختیوں سے ہلاک ہو گیا۔ یہی سال تھا جس میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی جسے قرآن "فتحِ عظیم” کے نام سے تعبیر کرتا ہے اور یہی سال تھا جس میں خسرو کے بیٹے قباد ثانی نے تمام رومی مقبوضات سے دستبردار ہو کر اور اصلی صلیب واپس کر کے روم سے صلی کر لی۔ ۶۲۹ء میں قیصر "مقدس صلیب” کو اس کی جگہ رکھنے کے لیے خود بیت المقدس گیا، اور اسی سال نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرۃ القضا ادا کرنے کے لیے ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔
اس کے بعد کسی کے لیے بھی اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ قرآن کی پیشین گوئی بالکل سچی تھی۔ عرب کے بکثرت مشرکین اس پر ایمان لے آئے۔ ابی بن خلف کے وارثوں کو ہار مان کر شرط کے اونٹ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حوالے کرنے پڑے۔ وہ انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے حکم دیا کہ انہیں صدقہ کر دیا جائے کیونکہ شرط اس وقت ہوئی تھی جب شریعت میں جوئے کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا، مگر اب حرمت کا حکم آ چکا تھا، اس لیے حربی کافروں سے شرط کا مال تو لے لینے کی اجازت دے دی گئی مگر ہدایت کی گئی کہ اسے خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کر دیا جائے۔
موضوع اور مضمون
اس سورت میں کلام کا آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ آج رومی مغلوب ہو گئے ہیں اور ساری دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ سلطنت کا خاتمہ قریب ہے ، مگر چند سال نہ گزرنے پائیں گے کہ پانسہ پلٹ جائے گا اور جو مغلوب ہے وہ غالب ہو جائے گا۔
اس تمہید سے یہ مضمون نکل آیا کہ انسانی اپنی سطح بینی کی وجہ سے وہی کچھ دیکھتا ہے جو بظاہر اس کی آنکھوں کو سامنے ہوتا ہے ، مگر اس ظاہر کے پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اس کی اسے خبر نہیں ہوتی۔ یہ ظاہر بینی جب دنیا کے ذرا ذرا سے معاملات میں غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کی موجب ہوتی ہے ، اور جبکہ محض اتنی سی بات نہ جاننے کی وجہ سے کہ "کل کیا ہونے والا ہے ” آدمی غلط تخمینے لگا بیٹھتا ہے ، تو پھر بحیثیت مجموعی پوری زندگی کے معاملے میں ظاہر حیاتِ دنیا پر اعتماد کر بیٹھنا اور اسی کی بنیاد پر اپنے پورے سرمایۂ حیات کو داؤ پر لگا دینا کتنی بڑی غلطی ہے۔
اس طرح روم و ایران کے معاملے سے تقریر کا رخ آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے اور مسلسل تین رکوعوں تک طریقے طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آخرت ممکن بھی ہے ، معقول بھی ہے ، اس کی ضرورت بھی ہے ، اور انسانی زندگی کے نظام کو درست رکھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ آدمی آخرت کا یقین رکھ کر اپنی موجودہ زندگی کا پروگرام اختیار کرے ، ورنہ وہی غلطی واقع ہو گی جو ظاہر پر اعتماد کر لینے سے واقع ہوا کرتی ہے۔
اس سلسلے میں آخرت پر استدلال کرتے ہوئے کائنات کے جن آثار کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے ، وہ بعینہ وہی آثار ہیں جو توحید پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ اس لیے چوتھے رکوع کے آغاز سے تقریر کا رخ توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی طرف پھر جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کے لیے فطری دین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ بالکل یکسو ہو کر خدائے واحد کی بندگی کرے۔ شرط فطرتِ کائنات اور فطرت انسان کے خلاف ہے ، اسی لیے جہاں بھی انسان نے اس گمراہی کو اختیار کیا ہے وہاں فساد رونما ہوا ہے۔ اس موقع پر پھر اس فسادِ عظیم کی طرف،جو اس وقت دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگ کی بدولت برپا تھا، اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ فساد بھی شرک کے نتائج میں سے ہے اور پچھلی انسانی تاریخ میں بھی جتنی قومیں مبتلائے فساد ہوئی ہیں وہ سب بھی مشرک ہی تھیں۔
خاتمۂ کلام پر تمثیل کے پیرایہ میں لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین خدا کی بھیجی ہوئی بارش سے یکایک جی اٹھتی ہے اور زندگی و بہار کے خزانے اگلنے شروع کر دیتی ہے ، اسی طرح خدا کی بھیجی وحی و نبوت بھی مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے حق میں ایک بارانِ رحمت ہے جس کا نزول اس کے لیے زندگی اور نشوونما اور خیر و فلاح کا موجب ہوتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ گے تو یہی عرب کی سونی زمین رحمت الٰہی سے لہلہا اٹھے گی اور ساری بھلائی تمہارے اپنے لیے ہی ہو گی۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے ، پھر پچھتانے کا کچھ حاصل نہ ہو گا اور تلافی کا کوئی موقع تمہیں میسر نہ آئے گا۔
حوالہ جات
۱Gibbon, Decline and Fall of the Roman Empire, Vol. II, p, ۷۸۸, Modern Library, New York.
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ا۔ل۔م رومی قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔۱ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔۲ اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔۳ اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبر دست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں۴ کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟۵ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔۶ مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔۷ اور کیا یہ لو گ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟۸ وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، انہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا۹ اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں نے نہیں کیا ہے۔۱۰ ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے۔۱۱ پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔۱۲ آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت برا ہوا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تھا اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ؏۱
تفسیر
۱: ابن عباس ؓ اور دوسرے صحابہ و تابعین کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ روم و ایران کی اس لڑائی میں مسلمانو ں کی ہمدردیاں روم کے ساتھ اور کفار کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔ اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ ایرانیوں نے اس لڑائی کو مجوسیت اور مسیحیت کی لڑائی کا رنگ دے دیا تھا اور وہ ملک گیری کے مقصد سے تجاوز کر کے اس مجوسیت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہے تھے۔ بیت المَقْدِس کی فتح کے بعد خسرو پرویز نے جو خط قیصر روم کو لکھا تھا اس میں صاف طور پر وہ اپنی فتح کو مجوسیت کے برحق ہونے کی دلیل قرار دیتا ہے۔ اُصُولی اعتبار سے مجوسیوں کا مذہب مشرکینِ مکّہ کے مذہب سے ملتا جلتا تھا، کیونکہ وہ بھی توحید کے منکر تھے، دو خداؤں کو مانتے تھے اور آگ کی پرستش کرتے تھے۔ اس لیے مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ ان کے مقابلہ میں مسیحی خواہ کتنے ہی مبتلائے شرک ہو گئے ہوں، مگر وہ خدا کی توحید کو اصلِ دین مانتے تھے، آخرت کے قائل تھے، اور وحی و رسالت کو سر چشمۂ ہدایت تسلیم کرتے تھے۔ اس بنا پر ان کا دین اپنی اصل کے اعتبار سے مسلمانوں کے دین سے مشابہت رکھتا تھا، اور اسی لیے مسلمان قدرتی طور پر ان سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان پر مشرک قوم کا غلبہ انہیں ناگوار تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی آمد سے پہلے جو لوگ سابق نبی کو مانتے ہوں وہ اُصُولًا مسلمان ہی کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک بعد کے آنے والے نبی کی دعوت انہیں نہ پہنچے اور وہ اس کا انکار نہ کر دیں، ان کا شمار مسلمانوں ہی میں رہتا ہے (ملاحظہ ہو سورۂ قَصص، حاشیہ ۷۳)۔ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت پر صرف پانچ چھ برس ہی گزرے تھے، اور حضورؐ کی دعوت ابھی تک باہر نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے مسلمان عیسائیوں کا شمار کافروں میں نہیں کرتے تھے۔ البتہ یہودی ان کی نگاہ میں کافر تھے، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کر چکے تھے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ آغازِ اسلام میں عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی ہی کا برتاؤ ہُوا تھا جیسا کہ سورۂ قصص آیات ۵۲ تا ۵۵، اور سورۂ مائدہ آیات ۸۲ تا ۸۵ میں بیان ہُوا ہے۔ بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ کھلے دل سے دعوت حق کو قبول کر رہے تھے۔ پھر ہجرت حبشہ کے موقع پر جس طرح حبش کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی اور ان کی واپسی کے لیے کفارِ مکّہ کے مطالبے کو ٹھکرا دیا اس کا بھی یہ تقاضا تھا کہ مسلمان مجوسیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کے خیر خواہ ہوں۔
۲: یعنی پہلے جب ایرانی غالب آئے تو اس بنا پر نہیں کہ معاذ اللہ خداوندِ عالم ان کے مقابلے میں شکست کھا گیا، اور بعد میں جب رومی فتحیاب ہوں گے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا کھویا ہوا ملک مِل جائے گا۔ فرمانروائی تو ہر حال میں اللہ ہی کی ہے۔ پہلے جسے فتح نصیب ہوئی اسے بھی اللہ ہی نے فتح دی، اور بعد میں جو فتح پائے گا وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے پائے گا۔ اس کی خدائی میں کوئی اپنے زور سے غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ جسے وہ اُٹھاتا ہے وہی اُٹھتا ہے اور جسے وہ گراتا ہے وہی گرتا ہے۔
۳: ابن عباسؓ ابو سعید خُدری ؓ، سفیان ثَوریؒ، سُدِّیؒ وغیرہ حضرات کا بیان ہے کہ ایرانیوں پر رومیوں کی فتح اور جنگ بدر میں مشرکین پر مسلمانوں کی فتح کا زمانہ ایک ہی تھا، اس لیے مسلمانوں کو دوہری خوشی حاصل ہوئی۔ یہ بات ایران اور روم کی تاریخوں سے بھی ثابت ہے۔ سن ۶۲۴ء ہی وہ سال ہے جس میں جنگِ بدر ہوئی، اور یہی وہ سال ہے جس میں قیصرِ روم نے زرتشت کا مؤلد تباہ کیا اور ایران کے سب سے بڑے آتشکدے کو مسمار کر دیا۔
۴: یعنی اگرچہ آخرت پر دلالت کرنے والے آثار و شواہد کثرت سے موجود ہیں اور اس سے غفلت کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، لیکن یہ لوگ اس سے خود ہی غفلت برت رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، یہ ان کی اپنی کوتاہی ہے کہ دنیوی زندگی کے اس ظاہری پردے پر نگاہ جما کر بیٹھ گئے ہیں اور اس کے پیچھے جو کچھ آنے والا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں، ورنہ خدا کی طرف سے ان کو خبردار کر نے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔
۵: یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دَوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں: ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں اس کے لیے مسخر کر دی گئی ہیں اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اِسے اپنی راہِ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایمان اور کفر، طاعت اور معصیت، نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پر بھی جانا چاہے جا سکتا ہے۔ حق اور باطل، صحیح اور غلط، جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کر سکتا ہے، خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔ تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حِس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیاری اعمال میں فرق کرتا ہے، اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے، اور بداہتًہ یہ رائے قائم کر تا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اور بُرا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ یہ تینوں خصوصیتیں جو انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے۔ جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں اس کو دیا گیا تھا اس پر تصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادیِ انتخاب کو استعمال کر کے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پر جزا اور بُرے عمل پر سزا دی جائے۔ یہ وقت لامحالہ انسان کا کارنامۂ زندگی ختم اور اس کا دفترِ عمل بند ہونے کے بعد ہی آ سکتا ہے نہ کہ اس سے پہلے۔ اور یہ وقت لازماً اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفترِ عمل بند ہو۔ کیونکہ ایک فرد یا ایک قوم کے مر جانے پر اُن اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑ ے ہیں۔ اُس کے چھوڑے ہوئے اچھے بُرے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار ہونے چاہییں۔ یہ اثرات جب تک مکمل طور پر ظاہر نہ ہو لیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا یا سزا دینا کیسے ممکن ہے؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے، اور زمین میں انسان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کہ موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو، انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامۂ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے۔
۶: اس فقرے میں آخرت کی دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظامِ کائنات کو بنظرِ غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی: ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئی ہے۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں۔ بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے، جس کا ایک ایک ذرّہ اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے، جس کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے، جس کی ہر شے با مقصد ہے۔ انسان کا سارا تمدّن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام علوم و فنون خود اس بات پر گواہ ہیں۔ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کر کے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے اسے تلاش کر کے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیر کر سکا ہے۔ ورنہ ایک بے ضابطہ اور بے مقصد کھلونے میں اگر ایک پُتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہو تا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدّن کا تصوّر تک نہ کیا جا سکتا تھا۔ اب آخر یہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اِس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلیٰ درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر، اختیارات دے کر، آزادیِ انتخاب دے کر، اخلاق کی حِس دے کر اپنی دنیا کا بے شمار سر و سامان تمہارے حوالے کیا ہے، اس نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کر دیا ہو گا؟ تم دنیا میں تعمیر و تخریب، اور نیکی و بدی، اور ظلم و عدل، اور راستی و نا راستی کے سارے ہنگامے برپا کر نے کے بعد بس یونہی مر کر مٹی میں مل جاؤ گے اور تمہارے کسی اچھے اور بُرے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہو گا؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پر اور دنیا کی بے شمار اشیاء پر بہت سے مفید یا مضر اثرات ڈال کر چلے جاؤ گے اور تمہارے مرتے ہی یہ سارا دفترِ عمل بس یونہی لپیٹ کر دریا بُرد کر دیا جائے گا؟ دوسری حقیقت جو اس کائنات کے نظام کا مطالعہ کرنے صاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کسی چیز کے لیے بھی ہمیشگی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے عمر مقرر ہے جسے پہنچنے کے بعد وہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا بھی ہے۔ یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں۔ ایک وقت تک ہی وہ کام کر رہی ہیں، اور کسی وقت پر انہیں لامحالہ خرچ ہو جانا اور اس نظام کو ختم ہو جانا ہے۔ قدیم زمانے میں تو ولم کی کمی کے باعث اُن فلسفیوں اور سائنسدانوں کی بات کچھ چل بھی جاتی تھی جو دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے۔ مگر موجودہ سائنس نے عالَم کے حدوث و قِدَم کی اُس بحث میں، جو ایک مدّتِ دراز سے دہریوں اور خدا پرستوں کے درمیان چلی آ رہی تھی، قریب قریب حتمی طور پر اپنا ووٹ خدا پرستوں کے حق میں ڈال دیا ہے۔ اب دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کر یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی۔ پرانی مادّہ پرستی کا سارا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادہ فنا نہیں ہو سکتا، صرف صورت بدلی جا سکتی ہے، مگر ہر تغیّر کے بعد مادّہ مادّہ ہی رہتا ہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جاتا تھا کہ اس عالَمِ مادّی کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ لیکن اب جوہری توانائی (Atomic Energy ) کے انکشافات نے اس پورے تخیل کی بساط اُلٹ کر رکھ دی ہے۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوّت مادّے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادّہ پھر قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولیٰ۔ اب حَرکیاتِ حرارت کے دوسرے قانون (Second Law of Thermo-Dynamics ) نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ عالَم مادّی نہ ازلی ہو سکتا ہے نہ ابدی۔ اس کو لازماً ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے۔ اس لیے سائنس کی بنیاد پر اب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کِن ٹانگوں پر اُٹھ کر قیامت کا انکار کرے گا؟
۷: یعنی اس بات کے منکر کہ انہیں مرنے کے بعد اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
۸: یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار دنیا میں دوچار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے۔ انسانی تاریخ کے دوران کثیر التعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کا انکار کیا ہے، یا اس سے غافل ہو کر رہی ہیں، یا حیات بعد الموت کے متعلق ایے غلط عقیدے ایجاد کر لیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکارِ آخرت جس صور ت میں بھی کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے، وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر شتر بے مہار بن گئے، انہوں ظلم و فساد اور فسق و فجور کی حد کر دی، اور اسی چیز کی بدولت قوموں پر قومیں تباہ ہوتی چلی گئیں۔ کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ، جو پے در پے انسانی نسلوں کو پیش آتا رہا ہے، یہ ثابت نہیں کرتا کہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکار انسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کششِ ثقل کا اسی لیے تو قائل ہے کہ تجربے اور مشاہدے سے اس نے مادّی اشیاء کو ہمیشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے۔ انسان نے زہر کو زہر اسی لیے تو مانا ہے کہ جس نے بھی زہر کھایا وہ ہلاک ہوا۔ اسی طرح جب آخرت کا انکار ہمیشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کا موجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اور اس کو نظر انداز کر کے دنیا میں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟
۹: اصل میں لفظ اَثَارُو ا الْاَرْضَ استعمال ہو ا ہے۔ اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پر بھی ہو سکتا ہے اور زمین کھود کر زیرِ زمین پانی، نہریں، کا ریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پر بھی۔
۱۰: اس میں اُن لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قوم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال (Exploit ) کیا ہے، جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدّن کو جنم دیا ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ ان کو جہنم کا ایندھن بنا دے۔ قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ ’’تعمیری کام‘‘ پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پر کیے ہیں، پھر کیا تمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنے تمدّن سمیت پیوندِ خاک ہو گئیں اور ان کی ’’تعمیر‘‘ کا قصرِ فلک بوس زمین پر آ رہا؟ جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدۂ حق اور اخلاقِ صالحہ کے بغیر محض مادّی تعمیر کی یہ قدر کی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے؟
۱۱: یعنی ایسی نشانیاں لے کر آئے جو ان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں۔ اس سیاق و سباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں، اور اس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں، اور انسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں، اور دوسری طرف پے درپے ایسے انبیاء بھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی ہیں اور انہوں نے انسانوں کو خبردار کیا کہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے۔
۱۲: یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پر آئی وہ ان پر خدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کا اپنا ظلم تھا جو انہوں نے اپنے اوپر کیا۔ جو شخص یا گروہ نہ خود سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرے اس پر اگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے۔ خدا پر اس کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ خدا نے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاء کے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے، اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہر وقت انبیاء اور کتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے۔ اِس رہنمائی اور ان ذرائع سے اگر خدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اور اس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دوچار ہونا پڑتا تب بلا شہہ خدا پر ظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔
ترجمہ
اللہ ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا،۱۳ پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔ اور جب وہ ساعت۱۴ برپا ہو گی اس دن مجرم ہَک دَک رہ جائیں گے، ۱۵ ان کے ٹھیر ائے ہوئے شریکوں میں کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا ۱۶ اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے۔ ۱۷ جس روز ساعت برپا ہو گی، اس دن (سب انسان)الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے۔۱۸ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایک باغ میں۱۹ شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے۔۲۰ اور جنہوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے۲۱ وہ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے۔ ۲۲ پس تسبیح کرو اللہ کی۲۳ جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو۔ آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے حمد ہے۔ اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے۔۲۴ وہ زندہ میں سے مردے کو نکالتا ہے اور مردے میں سے زندہ کو نکال لاتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔۲۵ اسی طرح تم لوگ بھی (حالتِ موت سے ) نکال لیے جاؤ گے۔؏۲
تفسیر
۱۳: یہ بات اگرچہ دعوے کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے مگر اس میں خود دلیلِ دعویٰ بھی موجود ہے۔ صریح عقل اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ جس کے لیے خلق کی ابتدا کرنا ممکن ہو اس کے لیے اسی خلق کا اعادہ کرنا بدرجہ اَولیٰ ممکن ہے۔ خلق کی ابتدا تو ایک امرِ واقعہ ہے جو سب کے سامنے موجود ہے۔ اور کفار و مشرکین بھی مانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے۔ اس کے بعد ان کا یہ خیال کرنا سراسر نا معقول بات ہے کہ وہی خدا جس نے اس خلق کی ابتدا کی ہے، اس کا اعادہ نہیں کر سکتا۔
۱۴: یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے اور اس کے حضور پیش ہونے کی ساعت۔
۱۵: اصل میں لفظ اِبْلَاس استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں سخت مایوسی اور صدمے کی بنا پر کسی شخص کا گُم سُم ہو جانا، امید کے سارے راستے بند پا کر حیران و ششدر رہ جانا، کوئی حجت نہ پا کر دم بخود رہ جانا۔ یہ لفظ جب مجرم کے لیے استعمال کیا جائے تو ذہن کے سامنے اس کی یہ تصویر آتی ہے کہ ایک شخص عین حالتِ جُرم میں بھرے ہاتھو (Red-handed ) پکڑا گیا ہے، نہ فرار کی کوئی راہ پاتا ہے، نہ اپنی صفائی میں کوئی چیز پیش کر کے بچ نکلنے کی توقع رکھتا ہے، اس لیے زبان اس کی بند ہے اور وہ انتہائی مایوسی و دل شکستگی کی حالت میں حیران و پریشان کھڑا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں مجرمین سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دنیا میں قتل، چوری، ڈاکے اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کیے ہیں، بلکہ وہ سب لوگ مراد ہیں جنہوں نے خدا سے بغاوت کی ہے، اس کے رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، آخرت کی جواب دہی کے منکر یا اس سے بے فکر رہے ہیں، اور دنیا میں خدا کے بجائے دوسروں کی یا اپنے نفس کی بندگی کرتے رہے ہیں، خواہ اس بنیادی گمراہی کے ساتھ انہوں نے وہ افعال کیے ہوں یا نہ کیے ہوں جنہیں عرف عام میں جرائم کہا جاتا ہے۔ مزید براں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کو مان کر، اس کے رسولوں پر ایمان لا کر، آخرت کا اقرار کر کے پھر دانستہ اپنے ربّ کی نافرمانیاں کی ہیں اور آخر وقت تک اپنی اس باغیانہ روش پر ڈٹے رہے ہیں۔ یہ لوگ جب اپنی توقعات کے بالکل خلاف عالمِ آخرت میں یکایک جی اُٹھیں گے اور دیکھیں گے کہ یہاں تو واقعی وہ دوسری زندگی پیش آ گئی ہے جس کا انکار کر کے ، یا جسے نظر انداز کر کے وہ دنیا میں کام کرتے رہے تھے، تو ان کے حواس باختہ ہو جائیں گے اور وہ کیفیت ان پر طاری ہو گی جس کا نقشہ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔
۱۶: شُرکاء کا اطلاق تین قسم کی ہستیوں پر ہوتا ہے۔ ایک ملائکہ، انبیاء، اولیاء اور شہداء و صالحین جن کو مختلف زمانوں میں مشرکین نے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے کر ان کے آگے مراسمِ عبودیت انجام دیے ہیں۔ وہ قیامت کے روز صاف کہہ دیں گے کہ تم یہ سب کچھ ہماری مرضی کے بغیر، بلکہ ہماری تعلیم و ہدایت کے سراسر خلاف کرتے رہے ہو، اس لیے ہمارا تم سے کوئی واسطہ نہیں، ہم سے کوئی امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری شفاعت کے لیے خدائے بزرگ کے سامنے کچھ عرض و معروض کریں گے۔ دوسری قسم اُن اشیاء کی ہے جو بے شعور یا بے جان ہیں، جیسے چاند، سورج، سیّارے، درخت، پتھر اور حیوانات وغیرہ۔ مشرکین نے ان کو خدا بنایا اور ان کی پرستش کی اور ان سے دعائیں مانگیں، مگر وہ بے چارے بے خبر ہیں کہ اللہ میاں کے خلیفہ صاحب یہ ساری نیاز مندیاں ان کے لیے وقف فر ما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بھی کوئی وہاں ان کی شفاعت کے لیے آگے بڑھنے والا نہ ہو گا۔ تیسری قسم اُن اکابر مجرمین کی ہے جنہوں نے خود کوشش کر کے ، مکر و فریب سے کام لے کر، جھوٹ کے جال پھیلا کر، یا طاقت استعمال کر کے دنیا میں خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائی، مثلاً شیطان، جھوٹے مذہبی پیشوا، اور ظالم و جابر حکمراں وغیرہ۔ یہ وہاں خود گرفتارِ بلا ہوں گے، اپنے اِن بندوں کی سفارش کے لیے آگے بڑھنا تو درکنار، اُن کی تو اُلٹی کوشش یہ ہو گی کہ اپنے نامۂ اعمال کا بوجھ ہلکا کریں اور داورِ محشر کے حضور یہ ثابت کر دیں کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہیں، ان کی گمراہی کا وبال ہم پر نہیں پڑنا چاہیے۔ اس طرح مشرکین کو وہاں کسی طرح سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی۔
۱۷: یعنی اُس وقت یہ مشرکین خود اس بات کا اقرار کریں گے کہ ہم ان کو خدا کا شریک ٹھیرانے میں غلطی پر تھے۔ ان پر یہ حقیقت کھُل جائے گی کہ فی الواقع ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اس لیے جس شرک پر آج رہ دنیا میں اصرار کر رہے ہیں، اسی کا وہ آخرت میں انکار کریں گے۔
۱۸: یعنی دنیا کی وہ تمام جتھا بندیاں جو آج قوم، نسل، وطن، زبان، قبیلہ و برادری، اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں، اُس روز ٹوٹ جائیں گی، اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسری جگہ گروہ بندی ہو گی۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہو گا۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے، اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ لوگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لیے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیز کو اِس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے انکار کرتے ہیں، آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہو گی اور اجتماع بھی۔ اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظام زندگی کی بنیاد رکھے والے ایک امت ہیں، خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں، اور کفر و فسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسری امت ہیں، خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہو سکتی۔ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہِ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہی اورہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہو سکتا ہے۔ دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے۔ جاہلیت کے پرستار اس کے برعکس ہر زمانے میں اصرار کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ جتھہ بندی نسل اور وطن اور زبان کی بنیادوں پر ہونی چاہیے، ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظِ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کر دوسری ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے، اور اس قومیت کا ایک ایسا نظامِ زندگی ہو نا چاہیے جس میں توحید اور شرک اور دہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کر چل سکیں۔ یہی تخیل ابو جہل اور ابو لہب اور سردارانِ قریش کا تھا، جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر الزام رکھتے تھے کہ اس شخص نے آ کر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ اسی پر قرآن مجید یہاں متنبہ کر رہا ہے کہ تمہاری یہ تمام جتھہ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پر کر رکھی ہیں آخر کار ٹوٹ جانے والی ہیں، اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اُسی عقیدے اور نظریۂ حیات اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر ہونے و الی ہے جس پر اسلام دنیا کی اِس زندگی میں کرنا چاہتا ہے۔ جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہو سکتی ہے۔
۱۹: ’’ایک باغ‘‘ کا لفظ یہاں اُس باغ کی عظمت و شان کا تصوّر دلانے کے لیے استعمال ہو ا ہے۔ عربی زبان کی طرح اردو میں بھی یہ اندازِ بیان اس غرض کے لیے معروف ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی کو ایک بڑا اہم کام کرنے کو کہے اور اس کے ساتھ یہ کہے کہ تم نے یہ کام اگر کر دیا تو میں تمہیں ’’ایک چیز‘‘ دوں گا، تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ وہ چیز عدد کے لحاظ سے ایک ہو گی، بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کے انعام میں تم کو ایک بڑی قیمتی چیز دوں گا جسے پا کر تم نہال ہو جاؤ گے۔
۲۰: اصل میں لفظ یُحْبَرُوْنَ استعمال ہوا ہے جس کے مفہوم میں مسرّت، لذت، شان و شوکت اور تکریم کے تصوّرات شامل ہیں۔ یعنی وہاں بڑی عزّت کے ساتھ رکھے جائیں گے، خوش و خرم رہیں گے اور ہر طرح کی لذتوں سے شاد کام ہوں گے۔
۲۱: یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ایمان کے ساتھ تو عملِ صالح کا ذکر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ شاندار انجام نصیب ہو گا، لیکن کفر کا انجامِ بد بیان کرتے ہوئے عملِ بد کا کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کفر بجائے خود آدمی کے انجام کو خراب کر دینے کے لیے کافی ہے خواہ عمل کی خرابی اس کے ساتھ شامل ہو یا نہ ہو۔
۲۲: یہ ’’پس‘‘ اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہو گیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ، اور کفر و تکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ نیز یہ ’’پس‘‘ اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین و کفار حیاتِ اُخروی کو ناممکن قرار دے کر اللہ تعالیٰ کو دراصل عاجز و درماندہ قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اور اِس کمزوری سے اُس کے پاک ہونے کا اعلان کرو۔ اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اور آپؐ کے واسطے سے تمام اہلِ ایمان ہیں۔
۲۳: اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد اُن تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں سے ، جو مشرکین اپنے شرک اور انکارِ آخرت سے اللہ کی طرف منسُوب کرتے ہیں، اُس ذاتِ بے ہمتا کے پاک اور منزہ ہونے کا اعلان و اظہار کرنا ہے۔ اِس اعلان و اظہار کی بہترین صورت نماز ہے۔ اِسی بنا پر ابن عباس، مجاہد، قَتادہ، ابن زید اور دوسرے مفسّرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے ے مراد نماز پڑھنا ہے۔ اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اِس میں چند خاص اوقات مقرر کیے گئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اگر محض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے منزّہ ہے، تو اس کے لیے صبح و شام اور ظہر و عصر کے اوقات کی پابندی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہر وقت رکھنا چاہیے۔ اسی طرح اگر محض زبان سے اللہ کی پاکی کا اظہار مقصود ہو، تب بھی اِن اوقات کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں، کیونکہ یہ اظہار تو مسلمان کو ہر موقع پر کرنا چاہیے۔ اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم لا محالہ اُس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور یہ عملی صورت نماز کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔
۲۴: اس آیت میں نماز کے چار اوقات کی طرف صاف اشارہ ہے: فجر، مغرب، عصر اور ظہر۔ اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف کیے گئے ہیں، حسبِ ذیل ہیں: اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلیٰ غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰ نَ الْفَجْرِ (بنی اسرائیل، آیت ۷۸)۔ نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔ وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔ (ہود۔ آیت ۱۱۴)۔ اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ وَسَبِّحْ بَحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنَآ یِٔ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ۔ (طٰہٰ۔ آیت ۱۳۰)۔ اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے، اور رات کی کچھ گھڑیوں میں پھر تسبیح کرو، اور دن کے کناروں پر۔ ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوالِ آفتاب کے بعد سے عشاء تک ہیں، اور اس کے بعد پھر فجر کا وقت ہے۔ دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت۔ تیسری آیت میں قبلِ طلوعِ آفتاب سے مراد فجر اور قبلِ غروبِ آفتاب سے مراد عصر۔ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشاء دونوں شامل ہیں۔ اور دن کے کنارے تین ہیں، ایک صبح، دوسرے زوالِ آفتاب، تیسرے مغرب۔ اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پر نماز کے اُن پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر آج دنیا بھر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ محض اِن آیات کو پڑھ کر کوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کر سکتا تھا جب تک کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے معلّمِ قرآن، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود اپنے قول اور عمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے۔ یہاں ذرا تھوڑی دیر ٹھیر کر منکرینِ حدیث کی اِس جسارت پر غور کیجیے کہ وہ ’’نماز پڑھنے‘‘ کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ قرآن تو اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے، اور اس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ، ’’نظامِ ربوبیت‘‘ قائم کرنا ہے۔ اب ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ کونسا نرالا نظامِ ربوبیت ہے جسے یا تو طلوعِ آفتاب سے پہلے قائم کیا جا سکتا ہے یا پھر زوالِ آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟ اور وہ کونسا نظامِ ربوبیت ہے جو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانا مطلوب ہے؟ (اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَا سْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللہِ)۔ اور نظامِ ربوبیت کی آخر وہ کونسی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیے جب آدمی کھڑا ہو تو پہلے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لے اور سر پر مسح کر لے ورنہ وہ اسے قائم نہیں کر سکتا؟ (اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلوٰۃِ فَا غْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ)۔ اور نظام ربوبیت کے اندر آخر یہ کیا خصوصیت ہے کہ اگر آدمی حالتِ جَنابت میں ہو تو جب تک وہ غسل نہ کر لے اسے قائم نہیں کر سکتا؟ (لَا تَقْرَبُو ا الصَّلوٰۃَ۔۔۔۔وَلَا جُنَبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حتیٰ تَغْتَسِلُوْا)۔ اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگر آدمی عورت کو چھو بیٹھا ہو اور پانی نہ ملے تو اس عجیب و غریب نظامِ ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسے پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرے اور منہ پر ملنا ہو گا؟ (اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآ ءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَا مْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ مِّنْہُ )۔ اور یہ کیسا عجیب نظامِ ربوبیت ہے کہ اگر سفر پیش آ جائے تو آدمی اسے پورا قائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کر لے؟ (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلوٰۃِ)۔ پھر یہ کیا لطیفہ ہے کہ اگر جنگ کی حالت ہو تو فوج کے آدھے سپاہی ہتھیار لیے ہوئے امام کے پیچھے ’’نظامِ ربوبیت‘‘ قائم کرتے رہیں اور آدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں، اس کے بعد جب پہلا گروہ امام کے پیچھے ’’نظامِ ربوبیت قائم‘‘ کرتے ہوئے ایک سجدہ کر لے تو وہ اُٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے چلا جائے، اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آ کر امام کے پیچھے اس ’’نظام ربوبیت‘‘ کو قائم کرنا شروع کر دے (وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلوٰۃَ فَلْتَقُمْطَآ ئیفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْ خُذُؤْ ا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئیکُمْ وَلْتَاْتِ طَآ ئیفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ)۔ قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتا رہی ہیں کہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد وہی نماز قائم کرنا ہے جو مسلمان دنیا بھر میں پڑھ رہے ہیں، لیکن منکرینِ حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کو بدلنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہو جائے وہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کر سکتا جو یہ حضرات کر رہے ہیں۔ یا پھر قرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جو اپنے دل میں اسے اللہ کا کلام نہ سمجھتا ہو اور محض دھوکا دینے کے لیے قرآن قرآن پکار کر مسلمانوں کو گمراہ کر نا چاہتا ہو۔ ( اس سلسلہ میں آگے حاشیہ ۵۰ بھی ملاحظہ ہو)۔
۲۵: یعنی جو خدا ہر آن تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ کام کر رہا ہے وہ آخر انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی بخشنے سے عاجز کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ ہر وقت زندہ اور حیوانات میں سے فضلات ( Waste Matter ) خارج کر رہا ہے جن کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ ہر لمحہ بے جان مادے(Dead Matter ) کے اندر زندگی کی روح پھونک کر بے شمار جیتے جاگے حیوانات، نباتات اور انسان وجود میں لا رہا ہے، حالاں کہ بجائے خود اُن مادّوں میں، جن سے اِن زندہ ہستیوں کے جسم مرکّب ہوتے ہیں قطعاً کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ وہ ہر آن یہ منظر تمہیں دکھا رہا ہے کہ بنجر پڑی ہوئی زمین کو جہاں پانی میسر آیا اور یکایک وہ حیوانی اور نباتی زندگی کے خزانے اُگلنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کارخانۂ ہستی کو چلانے والا خدا انسان کے مر جانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز ہے تو حقیقت میں وہ عقل کا اندھا ہے۔ اس کے سر کی آنکھیں جن ظاہری مناظر کو دیکھتی ہیں، اس کی عقل کی آنکھیں ان کے اندر نظر آنے والے روشن حقائق کو نہیں دیکھتیں۔
ترجمہ
۲۶ اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں)پھیلتے چلے جا رہے ہو۔۲۷ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۲۸ تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو ۲۹ اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی۔۳۰ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش،۳۱ اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔۳۲ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے۔ اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔۳۳ یقیناً اس میں سے بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (غور سے ) سنتے ہیں۔
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی۔۳۴ اور آسمان سے پانی بر سا تا ہے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔۳۵ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔۳۶ پھر جو نہی کہ اس نےتمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے۔۳۷ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اس کے بندے ہیں، سب کے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔۳۸ آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ ؏۳
تفسیر
۲۶: خبردار رہنا چاہیے کہ یہاں سے رکوع کے خاتمہ تک اللہ تعالیٰ کی جو نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں وہ ایک طرف تو اوپر کے سلسلۂ کلام کی مناسبت سے حیاتِ اُخروی کے امکان و وقوع پر دلالت کرتی ہیں، اور دوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ صرف ایک خدا اس کا تنہا خالق، مدبّر، مالک اور فرمانروا ہے جس کے سوا انسانوں کا کوئی معبود نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے تقریر ما سبق اور تقریر مابعد، دونوں کے ساتھ مربوط ہے۔
۲۷: یعنی انسان کا مایۂ تخلیق اِس کے سوا کیا ہے کہ چند بے جان مادّے ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کچھ کاربن، کچھ کیلسیم، کچھ سوڈیم اور ایسے ہی چند اور عناصر۔ انہی کو ترکیب دے کر وہ حیرت انگیز ہستی بنا کھڑی کی گئی ہے جس کا نام انسان ہے اور اس کے اندر احساسات، جذبات، شعور، تغفُّل اور تخیُّل کی وہ عجیب قوتیں پیدا کر دی گئی ہیں جن میں سے کسی کا منبع بھی اس کے عناصر ترکیبی میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہی نہیں کہ ایک انسان اتفاقاً ایسا بن کھڑا ہوا ہو، بلکہ اس کے اندر وہ عجیب تولیدی قوت بھی پیدا کر دی گئی جس کی بدولت کروڑوں اور اربوں انسان وہی ساخت اور وہی صلاحیتیں لیے ہوئے بے شمار موروثی اور بے حد و حساب انفرادی خصوصیات کے حامل نکلتے چلے آرہے ہیں۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی حکیمانہ خلقت کسی صانع حکیم کی تخلیق کے بغیر آپ سے آپ ہو گئی ہے؟ کیا تم بحالتِ ہوش و حواس یہ کہہ سکتے ہو کہ تخلیق انسان جیسا عظیم الشان منصوبہ بنانا اور اس کو عمل میں لانا اور زمین و آسمان کی بے حد و حساب قوتوں کو انسانی زندگی کے لیے سازگار کر دینا بہت سے خداؤں کی فکر و تدبّر کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا تمہارا دماغ اپنی صحیح حالت میں ہوتا ہے جب تم یہ گمان کرتے ہو کہ جو خدا انسان کو خالص عدم سے وجود میں لایا ہے وہ اسی انسان کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟
۲۸: یعنی خالق کا کمالِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صِنف نہیں بنائی، بلکہ اسے دو صنفوں(Sexes ) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف، اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔ مزید براں وہ خالقِ حکیم اِن دونوں صنفوں کے افراد کو آغازِ آفرینش سے برابر تناسب کے ساتھ پیدا کیے چلا جا رہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطۂ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اِس معاملہ میں اثر انداز ہو سکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنا نہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیدا ہوتے رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں، اور نہ اِس معاملہ ہی میں اس کے پاس اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ ہزارہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقاً بھی نہیں ہو سکتا، اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز صریحاً اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالقِ حکیم، اور ایک ہی خالقِ حکیم نے اپنی غالب حکمت و قدرت سے ابتداءً مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حد و حساب مرد اور بے حد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں۔
۲۹: یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہو گیا ہے کہ بلکہ بنانے والے نے بالارادہ اِس غرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس، اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہر کر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا، اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کر دی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو اُن کے باہمی اتصال و وابستگی کے بغیر مبدّل بسکون نہیں ہو سکتا، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی، لیکن کسی تہذیب و تمدّن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدّن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ مانگ، وہ پیاس، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسّر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کر نہ رہیں۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے۔ اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدُّن کا نشو و نما ہوا۔ اس نشو و نما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوئی ہیں مگر وہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں ’’گھر‘‘ کی تاسیس پر مجبور کر دیا گیا۔ کون صاحبِ عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہکار فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقاً سر زد ہو گیا ہے؟ یا بہت سے خدا یہ انتظام کر سکتے تھے کہ اس گہرے حکیمانہ مقصد کو ملحوظ رکھ کر ہزار ہا برس سے مسلسل بے شمار مردوں اور بے شمار عورتوں کو یہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیدا کر تے چلے جائیں؟ یہ تو ایک حکیم اور ایک ہی حکیم کی حکمت کا صریح نشان ہے جسے صرف عقل کے اندھے ہی دیکھنے سے انکار کر سکتے ہیں۔
۲۶: خبردار رہنا چاہیے کہ یہاں سے رکوع کے خاتمہ تک اللہ تعالیٰ کی جو نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں وہ ایک طرف تو اوپر کے سلسلۂ کلام کی مناسبت سے حیاتِ اُخروی کے امکان و وقوع پر دلالت کرتی ہیں، اور دوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ صرف ایک خدا اس کا تنہا خالق، مدبّر، مالک اور فرمانروا ہے جس کے سوا انسانوں کا کوئی معبود نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے تقریر ما سبق اور تقریر مابعد، دونوں کے ساتھ مربوط ہے۔
۳۱: یعنی اُن کا عدم سے وجود میں آنا، اور ایک اٹل ضابطے پر ان کا قائم ہونا، اور بے شمار قوتوں کا ان کے اندر انتہائی تناسُب و توازُن کے ساتھ کام کرنا، اپنے اندر اس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہے کہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اور ایک ہی خالق وجود میں لایا ہے، اور وہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیر کر رہا ہے۔ ایک طرف اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ وہ ابتدائی قوت (Energy ) کہاں سے آئی جس نے مادّے کی شکل اختیار کی، پھر مادّے کے یہ بہت سے عناصر کیسے بنے، پھر ان عناصر کی اس قدر حکیمانہ ترکیب سے اتنی حیرت انگیز مناسبتوں کے ساتھ یہ مدہوش کن نظامِ عالم کیسے بن گیا، اور اب یہ نظام کروڑ ہا کروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانونِ فطرت کی بندش میں کسا ہو ا چل رہا ہے، تو ہر غر متعصب عقل اس نتیجے پر پہنچے گی کہ یہ سب کچھ کسی علیم و حکیم کے غالب ارادے کے بغیر محض بخت و اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری طرح اگر یہ دیکھا جائے کہ زمین سے لے کر کائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کے عناصر سے مرکب ہیں اور ایک ہی قانونِ فطرت ان میں کار فرما ہے تو ہر عقل جو ہٹ دھرم نہیں ہے، بلا شبہہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا اِس پوری کائنات کا خالق اور ربّ ہے۔
۳۲: یعنی با وجود یکہ تمہارے قوائے نطقیہ یکساں ہیں، نہ منہ اور زبان کی ساخت میں کوئی فرق ہے اور نہ دماغ کی ساخت میں، مگر زمین کے مختلف خِطّوں میں تمہاری زبانیں مختلف ہیں، پھر ایک ہی زبان بولنے والے علاقوں میں شہر شہر اور بستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں، اور مزید یہ کہ ہر شخص کا لہجہ اور تلفظ اور طرزِ گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ اِسی طرح تمہارا مادّۂ تخلیق اور تمہاری بناوٹ کا فارمولا ایک ہی ہے، مگر تمہارے رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ قوم اور قوم تو درکنار، ایک ماں باپ کے دو بیٹوں کا رنگ بھی بالکل یکساں نہیں ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر صرف دو ہی چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ لیکن اسی رُخ پر آگے بڑھ کر دیکھیے تو دنیا میں آپ ہر طرح اتنا تنوُّع (Variety ) پائیں گے کہ اس کا احاطہ مشکل ہو جائے گا۔ انسان، حیوان، نباتات اور دوسری تمام اشیاء کی جس نوع کو بھی آپ لے لیں اس کے افراد میں بنیادی یکسانی کے باوجود بے شمار اختلافات موجود ہیں، حتیٰ کہ کسی نوع کا بھی کوئی ایک فرد دوسرے سے بالکل مشابہ نہیں ہے، حتیٰ کہ ایک درخت کے دو پتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز صاف بتا رہی ہے کہ یہ دنیا کوئی ایسا کارخانہ نہیں ہے جس میں خود کار مشینیں چل رہی ہوں اور کثیر پیدا آوری(Mass Production ) کے طریقے پر ہر قسم کی اشیاء کا بس ایک ایک ٹھپّہ ہو جس سے ڈھل ڈھل کر ایک ہی طرح کی چیزیں نکلتی چلی آ رہی ہوں۔ بلکہ یہاں ایک ایسا زبردست کاریگر کام کر رہا ہے جو ہر ہر چیز کو پوری انفرادی توجہ کے ساتھ ایک نئے ڈیزائن، نئے نقش و نگار، نئے تناسُب اور نئے اوصاف کے ساتھ بناتا ہے اور اس کی بنائی ہوئی ہر چیز اپنی جگہ منفرد ہے۔ اس کی قوت ایجاد ہر آن ہر چیز کا ایک نیا ماڈل نکال رہی ہے، اور اس کی صناعی ایک ڈیزائن کو دوسری مرتبہ دوہرانا اپنے کمال کی توہین سمجھتی ہے۔ اس حیرت انگیز منظر کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر دیکھے گا وہ کبھی اس احمقانہ تصور میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک دفعہ اس کارخانے کو چلا کر کہیں جا سویا ہے۔ یہ تو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ہر وقت کارِ تخلیق میں لگا ہوا ہے اور اپنی خلق کی ایک ایک چیز پر انفرادی توجہ صرف کر رہا ہے۔
۳۳: فضل کو تلاش کرنے سے مراد رزق کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا ہے۔ انسان اگرچہ بالعموم رات کو سوتا اور دن کو اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے، لیکن یہ کُلّیہ نہیں ہے۔ بہت سے انسان دن کو بھی سوتے اور رات کو بھی معاش کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسی لیے رات اور دن کا اکٹھا ذکر کر کے فرمایا کہ ان دونوں اوقات میں تم سوتے بھی ہو اور اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہو۔ یہ چیز بھی اُن نشانیوں میں سے ہے جو ایک خالقِ حکیم کی تدبیر کا پتہ دیتی ہیں۔ بلکہ مزید برآں یہ چیز اس بات کی نشان دہی بھی کرتی ہے کہ وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجہ رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اُسے سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے۔ انسان دنیا میں مسلسل محنت نہیں کر سکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے تا کہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔ اس غرض کے لیے خالقِ حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کر دینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’’نیند‘‘ کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود، خود بخود ہر چند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آ دبوچتا ہے، چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کر دیتا ہے، اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد خودبخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے۔ مزید براں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کُن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیر خواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کر کے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کر کر کے اپنی قوتِ کار کو ہی نہیں، قوتِ حیات تک کو ختم کر ڈالتا۔ پھر رزق کی تلاش کے لیے ’’اللہ کے فضل کی تلاش‘‘ کا لفظ استعمال کر کے نشانیوں کے ایک دوسرے سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آدمی آخر یہ رزق تلاش ہی کہاں کر سکتا تھا اگر زمین و آسمان کی بے حد و حساب طاقتوں کو رزق کے اسباب و ذرائع پیدا کرنے میں نہ لگا دیا گیا ہوتا، اور زمین میں انسان کے لیے رزق کے بے شمار ذرائع نہ پیدا کر دیے گئے ہوتے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ رزق کی یہ تلاش اور اس کا اکتساب اُس صورت میں بھی ممکن نہ ہوتا اگر انسان کو اِس کام کے لیے مناسب ترین اعضاء اور مناسب ترین جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں نہ دی گئی ہوتیں۔ پس آدمی کے اندر تلاشِ رزق کی قابلیت اور اُس کے وجود سے باہر وسائلِ رزق کی موجودگی، صاف صاف ایک ربِّ رحیم و کریم کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔ جو عقل بیمار نہ ہو وہ کبھی یہ فرض نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ اتفاقاً ہو گیا ہے، یا یہ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ ہے، یا کوئی بے درد اندھی قوت اِس فضل و کرم کی ذمّہ دار ہے۔
۳۴: یعنی اس کی گرج اور چمک سے امید بھی بندھتی ہے کہ بارش ہو گی اور فصلیں تیار ہوں گی، مگر ساتھ ہی خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ کہیں بجلی نہ گر پڑے یا ایسی طوفانی بارش نہ ہو جائے جو سب کچھ بہا لے جائے۔
۳۵: یہ چیز ایک طرف حیات بعد الموت کی نشان دہی کرتی ہے، اور دوسری طرف یہی چیز اِ س امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خدا ہے، اور زمین و آسمان کی تدبیر کرنے والا ایک ہی خدا ہے۔ زمین کی بے شمار مخلوقات کے رزق کا انحصار اُس پیداوار ہر ہے جو زمین سے نکلتی ہے۔ اس پیداوار کا انحصار زمین کی صلاحیتِ بار آوری پر ہے۔ اس صلاحیت کے روبکار آنے کا انحصار بارش پر ہے، خواہ وہ براہِ راست زمین پر برسے ، یا اس کے ذخیرے سطحِ زمین پر جمع ہوں، یا زیر زمین چشموں اور کنوؤں کی شکل اختیار کریں، یا پہاڑوں پر یخ بستہ ہو کر دریاؤں کی شکل میں بہیں۔ پھر اس بارش کا انحصار سورج کی گرمی پر، موسموں کے رد و بدل پر، فضائی حرارت و برودت پر، ہواؤں کی گردش پر، اور اُ س بجلی پر ہے جو بادلوں سے بارش برسنے کی محرک بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارش کے پانی میں ایک طرح کی قدرتی کھا د بھی شامل کر دیتی ہے۔ زمین سے لے کر آسمان تک کی اِن تمام مختلف چیزوں کے درمیان یہ ربط اور مناسبتیں قائم ہونا، پھر ان سب کا بے شمار مختلف النوع مقاصد اور مصلحتوں کے لیے صریحاً سازگار ہونا، اور ہزاروں لاکھوں برس تک اِن کا پوری ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل سازگاری کرتے چلے جانا، کیا یہ سب کچھ محض اتفاقاً ہو سکتا ہے؟ کیا یہ کسی صانع کی حکمت اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کی غالب تدبیر کے بغیر ہو گیا ہے؟ اور کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ زمین، سورج، ہوا، پانی، حرارت، برودت، اور زمین کی مخلوقات کا خالق اور ربّ ایک ہی ہے؟
۳۶: یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ اُس کے حکم سے ایک دفعہ وجود میں آ گئے ہیں، بلکہ ان کا مسلسل قائم رہنا اور ان کے اندر ایک عظیم الشان کارگاہِ ہستی کا پیہم چلتے رہنا بھی اسی کے حکم کی بدولت ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اگر اس کا حکم انہیں بر قرار نہ رکھے تو یہ سارا نظام یک لخت درہم برہم ہو جائے۔
۳۷: یعنی کائنات کے خالق و مدبر کے لیے تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا کوئی ایسا بڑا کام نہیں ہے کہ اُسے اِس کے لیے بہت بڑی تیاریاں کرنی ہوں گی، بلکہ اس کی صرف ایک پکار اِس کے لیے بالکل کافی ہو گی کہ آغازِ آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب ایک ساتھ زمین کے ہر گوشے سے نِکل کھڑے ہوں۔
۳۸: یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنا اگر اُس کے لیے مشکل نہ تھا، تو آخر تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا؟ پہلی مرتبہ کی پیدائش میں تو تم خود جیتے جاگتے موجود ہو۔ اس لیے اس کا مشکل نہ ہونا تو ظاہر ہے۔ اب یہ بالکل سیدھی سادھی عقل کی بات ہے کہ ایک دفعہ جس نے کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے وہی چیز دوبارہ بنانا نسبتًہ زیادہ ہی آسان ہونا چاہیے۔
ترجمہ
وہ تمہیں ۳۹ خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے۔ کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟۴۰ –۔۔۔۔ اس طرح ہم آیا ت کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو۔۴۱ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔ ۴۲ پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروو) یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین۴۳ کی سمت میں جمادو،۴۴ قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے،۴۵ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی،۴۶ یہی بالکل راست اور درست دین ہے،۴۷ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (قائم ہو جاؤ اس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے،۴۸ اور ڈرو اس سے ۴۹ اور نماز قائم کرو،۵۰ اور نہ ہو جاؤ ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا دیا ہے او گروہوں میں بٹ گئے ہیں،ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔۵۱ لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتے ہیں،۵۲ پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انھیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں ۵۳ تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں۔ اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟۵۴
جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔۵۵ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے(جس کا چاہتا ہے)۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔۵۶ پس (اے مومن)رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق) ۵۷۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔۵۸ جو سُود تم دیتے ہو تا کہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا،۵۹ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کر نے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔۶۰ ۶۱اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا،۶۲ پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟۶۳ پاک ہے وہ اور بہت بالا و بر تر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ؏۴
تفسیر
۳۹: یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان مِلا جُلا چل رہا تھا۔ اس میں جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان کے اندر توحید کے دلائل بھی ہیں اور وہی دلائی یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آخرت کا آنا غیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد آگے خالص توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے۔
۴۰: مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اس کی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اُس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھیراتے تھے، اور ان سے دعائیں مانگتے، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے۔ اِن بناوٹی شریکوں کے بارے میں اُن کا اصل عقیدہ اُس تَلبِیْہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانۂ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبّیک اللّٰہم لبّیک لَا شریک لک الّا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک (طَبَرانی عن ابن عباس)۔ ’’میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اُس شریک کے جو تیرا اپنا ہے، تو اُس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اُس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اِسی شرک کی تردید فرما رہا ہے۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقاً تمہاری غلامی میں آ گئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پا سکتے، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اُس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھیراتے ہو۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النَّحل، حاشیہ ۶۲)۔
۴۱: یعنی جب کوئی شخص سیدھی سیدھی عقل کی بات نہ خود سوچے اور نہ کسی کے سمجھانے سے سمجھنے کے لیے تیار ہو تو پھر اس کی عقل پر اللہ کی پھٹکار پڑ جاتی ہے اور اس کے بعد ہر وہ چیز جو کسی معقول آدمی کو حق بات تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے، وہ اس ضدی جہالت پسند انسان کو الٹی مزید گمراہی میں مبتلا کر تی چلی جاتی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے ’’بھٹکانے‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ راستی پسند انسان جب اللہ سے ہدایت کی توفیق طلب کرتا ہے تو اللہ اس کی طلبِ صادق کے مطابق اس کے لیے زیادہ سے زیادہ اسبابِ ہدایت پیدا فرما دیتا ہے۔ اور گمراہی پسند انسان جب گمراہ ہی ہونے پر اصرار کرتا ہے تو پھر اللہ ا س کے لیے وہی اسباب پیدا کرتا چلا جاتا ہے جو اسے بھٹکا کر روز بروز حق سے دور لیے چلے جاتے ہیں۔
۴۲: یہ ’’پس‘‘ اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پر کھل چکی، اور تم کو معلوم ہو گیا کہ اس کائنات کا اور خود انسان کا خالق و مالک اور حاکم ذی اختیار ایک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے تو اس کے بعد لا محالہ تمہارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے۔
۴۳: اِس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے، جس میں بندگی، عبادت، اور طاعت کا مستحق اللہ وحدہُ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے، جس میں الُوہیّت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعاً کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ٹھیرایا جاتا، جس میں انسان اپنی رضا و رغبت سے اس بات کی پابندی اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کر ے گا۔
۴۴: ’’یک سو ہو کر اپنا رُخ اِس طرف جما دو‘‘، یعنی پھر کسی اور طرف کا رُخ نہ کرو۔ زندگی کے لیے اِس راہ کو اختیار کر لینے کے بعد پھر کسی دوسرے راستے کی طرف التفات تک نہ ہونے پائے۔ پھر تمہاری فکر اور سوچ ہو تو مسلمان کی سی اور تمہاری پسند اور ناپسند ہو تو مسلمان کی سی۔ تمہاری قدریں اور تمہارے معیار ہوں تو وہ جو اسلام تمہیں دیتا ہے، تمہارے اخلاق اور تمہاری سیرت و کردار کا ٹھپّہ ہو تو اُس طرح کا جو اسلام چاہتا ہے، اور تمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات چلیں تو اُس طریقے پر جو اسلام نے تمہیں بتایا ہے۔
۴۵: یعنی تمام انسان اِس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی ربّ اور کوئی معبود اور مُطاعِ حقیقی ایک اللہ کے سوا نہیں ہے۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہو جانا چاہیے۔ اگر خود مختاری کا رویہ اختیار کرو گے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے اور اگر بندگی ٔ غیر کا طوق اپنے گلے میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے۔ اس مضمون کو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ما من مولود یولد الا علی الفطرۃ فا بواہ یھودانہ او ینصر انہ او یمجسانہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء، ھل تحسون فیھا من جد عاء۔ یعنی ہر بچہ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے، اصل انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم جانور برآمد ہوتا ہے، کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں۔ مُسند احمد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ما بال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتیٰ قتلو ا الذُّرّیّۃ، ’’لوگوں کو کیا ہو گیا کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے؟ فرمایا انما خیارکم ابناء المشرکین، ’’تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو اولاد ہیں۔‘‘ پھر فرمایا کل نسمۃ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فا بوا ھا یھود انھا او ینصر انھا، ’’ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث جو امام احمد ؒ نے عیاض بن حمار المُجاشِعی سے نقل کی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلہم و انھم اتتھم الشیاطین فاضلتہم عن دینہم و حَرَّ مَتْ علیہم ما احللتُ لھم و اَمَرَتْھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہٖ سُلطانا۔ ’’میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا، پھر شیاطین نے آ کر انہیں ان کے دین سے گمراہ کیا، اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا، اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ اُن چیزوں کو شریک ٹھیرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔‘‘
۴۶: یعنی خدا نے انسان کو اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنی ہی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی۔ نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتا ہے، نہ کسی غیر خدا کو خدا بنا لینے سے وہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتا ہے۔ انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنا بیٹھے، لیکن یہ امرِ واقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے۔ انسان اپنی حماقت اور جہالت کی بنا پر جس کو بھی چاہے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے لے اور جسے بھی چاہے اپنی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ بیٹھے، مگر حقیقتِ نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل ہیں نہ اس کے اختیارات، اور نہ کسی دوسرے کے پاس یہ طاقت ہے کہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے۔ ایک دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے۔‘‘ یعنی اللہ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا درست نہیں ہے۔
۴۷: یعنی فطرتِ سلیمہ پر قائم رہنا ہی سیدھا اور صحیح طریقہ ہے۔
۴۸: اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی و خود مختاری کا رویّہ اختیار کر کے اپنے مالکِ حقیقی سے انحراف کیا ہو، یا جس نے بھی بندگی ِٔ غیر کا طریقہ اختیار کر کے اپنے اصلی و حقیقی ربّ سے بے وفائی کی ہو، وہ اپنی اس رو ش سے باز آ جائے اور اُسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیدا ہو ا ہے۔
۴۹: یعنی تمہاری دل میں اس بات کا خوف ہونا چاہیے کہ اگر اللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کے مقابلے میں خود مختاری کا رویہ اختیار کیا، یا اس کے بجائ ے کسی اور کی بندگی کی تو اِس غداری و نمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہو گی۔ اس لیے تمہیں ایسی ہر روش سے بچنا چاہیے جو تم کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہو۔
۵۰: اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کے غضب کا خوف، دونوں قلب کے افعال ہیں۔ اس قلبی کیفیت کو اپنے ظہور اور اپنے استحکام کے لیے لازماً کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہے جس سے خارج میں بھی ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے، اور آدمی کے اپنے نفس میں بھی اِس رجوع و تقویٰ کی کیفیت کو ایک عملی مُمارَست کے ذریعہ سے پے در پے نشو و نما نصیب ہوتا چلا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اُس ذہنی تبدیلی کا حکم دینے کے بعد فوراً ہی اِس جسمانی عمل، یعنی اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی حد تک رہتا ہے، اس میں استحکام اور پائیداری نہیں ہوتی۔ اُس خیال کے ماند پڑ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے اور بدل جانے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ اُس کے مطابق کام کرنے لگتا ہے تو وہ خیال اس کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے، اور جوں جوں وہ اس پر عمل کر تا جاتا ہے، اس کا استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس عقیدہ و فکر کا بدل جانا یا ماند پڑ جانا مشکل سے مشکل تر ہو تا جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع الی اللہ اور خوفِ خدا کو مستحکم کر نے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے۔ کیونکہ دوسرا جو عمل بھی ہو، اُس کی نوبت دیر دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف مواقع پر آتی ہے۔ لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائماً کرنا ہوتا ہے، اور اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق، جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے، آدمی کو بار بار دُہرانا ہوتا ہے تاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے۔ مزید براں کفار اور اہل ایمان، دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعتِ رب کی روش اختیار کر لی ہے۔ اہلِ ایمان پر اِس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی کھلی علامت فوراً ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے باخبر کر دے۔ کفار پر اِس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوندِ حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے ، اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہو تی رہے۔ ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامتِ صلوٰۃ ہی سب سے زیادہ موزوں ذریعہ ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ کا یہ حکم مکّۂ معظمہ کے اُس دَور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفارِ قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی ۹ برس تک پستی رہی۔ اُس وقت دُور دُور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا۔ اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر بے معنی ہوتی، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں، یا اقامتِ صلوٰۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ ’’نظامِ ربوبیت‘‘ چلانا ہوتا، جیسا کہ منکرینِ سنت کا دعویٰ ہے، تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ حکم آنے کے بعد ۹ سال تک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمان اِس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے؟
۵۱: یہ اشارہ ہے اِس چیز کی طرف کہ نوعِ انسانی کا اصل دین وہی دینِ فطرت ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دین مشرکانہ مذاہب سے بتدریج ارتقاء کرتا ہوا توحید تک پہنچا ہے، جیسا کہ قیاس و گمان سے ایک فلسفۂ مذہب گھڑ لینے والے حضرات سمجھتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس یہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب کے سب اُس اصلی دین میں بگاڑ آنے سے رونما ہوئے ہیں۔ اور یہ بگاڑ اس لیے آیا ہے کہ مختلف لوگوں نے فطری حقائق پر اپنی اپنی نَو ایجاد باتوں کا اضافہ کر کے اپنے الگ دین بنا ڈالے اور ہر ایک اصل حقیقت کے بجائے اُس اضافہ شدہ چیز کا گرویدہ ہو گیا جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہو کر ایک مستقل فرقہ بنا تھا۔ اب جو شخص بھی ہدایت پا سکتا ہے وہ اِسی طرح پا سکتا ہے کہ اُس اصل حقیقت کی طرف پلٹ جائے جو دینِ حق کی بنیاد تھی، اور بعد کے ان تمام اضافوں سے اور ان کے گرویدہ ہونے والے گروہوں سے دامن جھاڑ کر بالکل الگ ہو جائے۔ ان کے ساتھ ربط کا جو رشتہ بھی وہ لگائے رکھے گا وہی دین میں خلل کا موجب ہو گا۔
۴۰: مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اس کی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اُس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھیراتے تھے، اور ان سے دعائیں مانگتے، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے۔ اِن بناوٹی شریکوں کے بارے میں اُن کا اصل عقیدہ اُس تَلبِیْہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانۂ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبّیک اللّٰہم لبّیک لَا شریک لک الّا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک (طَبَرانی عن ابن عباس)۔ ’’میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اُس شریک کے جو تیرا اپنا ہے، تو اُس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اُس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اِسی شرک کی تردید فرما رہا ہے۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقاً تمہاری غلامی میں آ گئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پا سکتے، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اُس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھیراتے ہو۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النَّحل، حاشیہ ۶۲)۔
۵۲: یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔ امیدوں کے سہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں، ان کا دل خود ہی اندر سے پکارنے لگتا ہے کہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہے اور اسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔
۵۳: یعنی پھر دوسرے معبودوں کی نذریں اور نیازیں چڑھنی شروع ہو جاتی ہیں اور کہا جانے لگتا ہے کہ یہ مصیبت فلاں حضرت کے طفیل اور فلاں آستانے کے صدقے میں ٹلی ہے۔
۵۴: یعنی آخر کسی دلیل سے ان لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ بلائیں خدا نہیں ٹالتا بلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں؟ کیا عقل اس کی شہادت دیتی ہے؟ یا کوئی کتابِ الہٰی ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ میں اپنے خدائی کے اختیارات فلاں فلاں حضرتوں کو دے چکا ہوں اور اب وہ تم لوگوں کے کام بنایا کریں گے؟
۵۵: اوپر کی آیت میں انسان کی جہالت و حماقت اور اس کی ناشکری و نمک حرامی پر گرفت تھی۔ اِس آیت میں اس کے چھچھورے پن اور کم ظرفی پر گرفت کی گئی ہے۔ اِس تھُڑدلے کو جب دنیا میں کچھ دولت، طاقت، عزت نصیب ہو جاتی ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اِس کا کام خوب چل رہا ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ میرے ہی کچھ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو مجھے وہ کچھ میسر ہُوا جس سے دوسرے محروم ہیں۔ اس غلط فہمی میں فخر و غرور کا نشہ اس پر ایسا چڑھتا ہے کہ پھر یہ نہ خدا کو خاطر میں لاتا ہے نہ خلق کو۔ لیکن جونہی کہ اقبال نے منہ موڑا اِس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور بدنصیبی کی ایک ہی چوٹ اس پر دل شکستگی کی وہ کیفیت طاری کر دیتی ہے ج میں یہ ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کر گزرتا ہے، حتیٰ کہ خود کشی تک کر جاتا ہے۔
۵۶: یعنی اہل ایمان اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ کفر و شرک کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے، اور ا س کے برعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیا ہیں۔ جو شخص سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کو رزق کے خزانوں کا مالک سمجھتا ہو، وہ کبھی اُس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہو سکتا جس میں خدا کو بھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اُسے کشادہ رزق ملے تو پھولے گا نہیں، شکر کرے گا، خلقِ خدا کے ساتھ تواضع اور فیاضی سے پیش آئے گا، اور خدا کا مال خدا کی راہ میں صرف کرنے سے ہر گز دریغ نہ کرے گا۔ تنگی کے ساتھ رزق ملے، یا فاقے ہی پڑ جائیں، تب بھی صبر سے کام لے گا، دیانت و امانت اور خود داری کو ہاتھ سے نہ دے گا، اور آخرت تک خدا سے فضل و کرم کی آس لگائے رہے گا۔ یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کو نصیب ہو سکتی ہے اور نہ مشرک کو۔
۵۷: یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو خیرات دے۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اُس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پانے کے یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے، اور تو کوئی بڑی ہستی ہے دان کرنے والی، اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال اُن دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے ہے یا نہیں۔ اس ارشاد الہٰی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت (Free Economy ) کی موجودگی ناگزیر ہے۔ یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوقِ ملکیت ساقط کر دیے جائیں، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہو جائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے، حتیٰ کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کر دے سکے ، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبۂ خیر سگالی پرورش کر سکے۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظامِ تمدّن و معیشت، جسے آج کل ہمارے ملک میں ’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘ کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جا رہا ہے، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کے نشوونما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعاً بند ہو جاتا ہے۔ قرآن کی اسکیم تو اُسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائلِ دولت کے مالک ہوں، اُن پر آزادانہ تصرّف کے اختیارات رکھتے ہوں، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں۔ اِسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم و شفقت، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلیٰ اوصاف پیدا ہوں، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی، احسان مندی، اور جزاء الاحسان بالاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہو جائے جس میں بدی کا رُکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی ٔ نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں۔
۵۸: یہ مطلب نہیں ہے کہ فلاح صرف مسکین اور مسافر اور رشتہ دار کا حق ادا کر دینے سے حاصل ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی چیز حصُول فلاح کے لیے درکار نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اِن حقوق کو نہیں پہچانتے اور نہیں ادا کرتے وہ فلاح پانے والے نہیں ہیں، بلکہ فلاح پانے والے وہ ہیں جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ حقوق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں۔
۵۹: قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت میں نازل ہوئی۔ اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ تو سو د یہ سمجھتے ہوئے دیتے ہو کہ جس کو ہم یہ زائد مال دے رہے ہیں اس کی دولت بڑھی گی، لیکن درحقیقت اللہ کے نزدیک سود سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ آگے چل کر جب مدینۂ طیبہ میں سود کی حرمت کا حکم نازل کیا گیا تو اس پر مزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبوٰ وَ یُرْ بِی الصَّدَقٰتِ، ’’ اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘ (بعد کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران، آیت ۱۳۰۔ البقرہ، آیات ۲۷۵ تا ۲۸۱)۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربوٰ سے مراد وہ سود نہیں ہے جو شرعاً حرام کیا گیا ہے، بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اِس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں ا س سے زیادہ واپس کرے گا، یا مُعطی کے لیے کوئی مفید خدمت انجام دے گا، یا اس کا خوشحال ہو جانا معطی کی اپنی ذات کے لیے نافع ہو گا۔ یہ ابنِ عباسؓ، مجاہدؓ، ضحاکؓ، قتادَہ، عِکْرِمَہ، محمد بن کَعْب القُر َظِی اور شَعبی کا قول ہے۔ اور غالباً یہ تفسیر اِن حضرات نے اس بنا پر فرمائی ہے کہ آیت میں اِس فعل کا نتیجہ صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس دولت کو کوئی افزائش نصیب نہ ہو گی، حالانکہ اگر معاملہ اُس سود کا ہوتا جسے شریعت نے حرام کیا ہے تو مثبت طور پر فرمایا جاتا کہ اللہ کے ہاں اس پر سخت عذاب دیا جائے گا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں اس سے مراد وہی معروف ربوٰ ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے حضرت حس بصری اور سُدِّی کی ہے اور علامۂ آلوسی کا خیال ہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے، کیونکہ عربی زبان میں ربوٰ کا لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی تاویل کو مفسر نیسابوری نے بھی اختیار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیر صحیح ہے، اس لیے کہ معروف معنی کو چھوڑنے کے لیے وہ دلیل کافی نہیں ہے جو اوپر تفسیرِ اول کے حق میں بیان ہوئی ہے۔ سورۂ روم کا نزول جس زمانے میں ہوا ہے اُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ یہ اعلان اس کے کئی برس بعد ہُوا ہے۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو بعد میں کسی وقت حرام کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے وہ پہلے سے ذہنوں کو تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔شراب کے معاملے میں بھی پہلے صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے (النحل آیت ۶۷)، پھر فرمایا کہ اس کا گناہ اس کے فائدے سے زیادہ ہے (البقرہ ۲۱۹)، پھر حکم دیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ (النساء ۴۳)، پھر اس کی قطعی حر مت کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اسی طرح یہاں سود کے متعلق صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ یہ وہ چیز نہیں ہے جس سے دولت کی افزائش ہوتی ہو، بلکہ حقیقی افزائشِ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد سود در سود کو منع کیا گیا (آل عمران، آیت ۱۳۰)۔ اور سب سے آخر میں بجائے خود سود ہی کی قطعی حرمت کا فیصلہ کر دیا گیا (البقرہ، آیت ۵)۔
۶۰: اس بڑھوتری کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جتنی خالص نیت اور جتنے گہرے جذبۂ ایثار اور جس قدر شدید طلب رضائے الہٰی کے ساتھ کوئی شخص راہِ خدا میں مال صرف کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ سے زیادہ اجر دے گا۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص راہِ خدا میں ایک کھجور بھی دے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر اُحد پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔
۶۱: یہاں سے پھر کفار و مشرکین کو سمجھانے کے لیے سلسلۂ کلام توحید و آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے۔
۵۶: یعنی اہل ایمان اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ کفر و شرک کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے، اور ا س کے برعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیا ہیں۔ جو شخص سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کو رزق کے خزانوں کا مالک سمجھتا ہو، وہ کبھی اُس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہو سکتا جس میں خدا کو بھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اُسے کشادہ رزق ملے تو پھولے گا نہیں، شکر کرے گا، خلقِ خدا کے ساتھ تواضع اور فیاضی سے پیش آئے گا، اور خدا کا مال خدا کی راہ میں صرف کرنے سے ہر گز دریغ نہ کرے گا۔ تنگی کے ساتھ رزق ملے، یا فاقے ہی پڑ جائیں، تب بھی صبر سے کام لے گا، دیانت و امانت اور خود داری کو ہاتھ سے نہ دے گا، اور آخرت تک خدا سے فضل و کرم کی آس لگائے رہے گا۔ یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کو نصیب ہو سکتی ہے اور نہ مشرک کو۔
۶۲: یعنی زمین میں تمہارے رزق کے لیے جملہ و سائل فراہم کیے اور ایسا انتظام کر دیا کہ رزق کی گردش سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ حصّہ پہنچ جائے۔
۶۳: یعنی اگر تمہارے بنائے ہوئے معبودوں میں سے کوئی بھی نہ پیدا کرنے والا ہے، نہ رزق دینے والا، نہ موت و زیست اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، اور نہ مر جانے کے بعد وہ کسی کو زندہ کر دینے پر قادر ہے، تو آخر یہ لوگ ہیں کس مرض کی دوا کہ تم نے اِنہیں معبُود بنا لیا؟
ترجمہ
خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزّہ چکھائے اُن کو اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔۶۴ (اے نبیؐ )ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گُزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہو چکا ہے، ان میں اکثر مشرک ہی تھے۔۶۵ پس (اے نبیؐ )اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اِس دینِ راست کی سمت میں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صُورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔۶۶ اُس دن لوگ پھٹ کر ایک دُوسرے سے الگ ہو جائیں گے۔ جس نے کُفر کیا ہے اُس کے کُفر کا وبال اُسی پر ہے۔۶۷ اور جن لوگوں نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے فلاح کا راستہ صاف کر رہے ہیں تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے۔ یقیناً وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے۶۸ اور تمہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرنے کے لیے اور اِس غرض کے لیے کہ کشتیاں اُس کے حکم سے چلیں۶۹ اور تم اُس کا فضل تلاش کرو۷۰ اور اُس کے شکر گزار بنو۔اور ہم نے تُم سے پہلے رسُولوں کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے،۷۱ پھر جنہوں نے جُرم کیا۷۲ اُن سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں۔ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اُٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور اُنہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں ٹپکے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے۔ دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جِلا اُٹھاتا ہے،۷۳ یقیناً وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں جس کے اثر سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں۷۴ تو وہ کُفر کرتے رہ جاتے ہیں۔۷۵ (اے نبیؐ )تم مُردوں کو نہیں سُنا سکتے،۷۶ نہ اُن بہروں کو اپنی پُکار سُنا سکتے ہو جو پیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہوں۷۷ اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر راہِ راست دکھا سکتے ہو۔۷۸ تم تو صرف اُنہی کو سُنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے اور سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ ؏۵
تفسیر
۶۴: اس بڑھوتری کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جتنی خالص نیت اور جتنے گہرے جذبۂ ایثار اور جس قدر شدید طلب رضائے الہٰی کے ساتھ کوئی شخص راہِ خدا میں مال صرف کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ سے زیادہ اجر دے گا۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص راہِ خدا میں ایک کھجور بھی دے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر اُحد پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔
۶۵: یعنی روم و ایران کی تباہ کن جنگ آج کوئی نیا حادثہ نہیں ہے۔ پچھلی تاریخ بڑی بڑی قوموں کی تباہی و بربادی کے ریکارڈ سے بھری ہوئی ہے۔ اور ان سب قوموں کو جن خرابیوں نے برباد کیا اُن سب کی جڑ یہی شرک تھا جس سے باز آنے کے لیے آج تم سے کہا جا رہا ہے۔
۶۶: یعنی کس کو نہ اللہ تعالیٰ خود ٹالے گا اور نہ اس نے کسی کے لیے ایسی کسی تدبیر کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے کہ وہ اسے ٹال سکے۔
۶۷: یہ ایک جامع فقرہ ہے جو تمام اُن مضرتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے جو کافر کو اپنے کفر کی بدولت پہنچ سکتی ہیں۔ مضرتوں کی کوئی مفصل فہرست بھی اتنی جامع نہیں ہو سکتی۔
۶۸: یعنی بارانِ رحمت کی خوشخبری دینے کے لیے۔
۶۹: یہ ایک اور قسم کی ہواؤں کا ذکر ہے جو جہاز رانی میں مددگار ہوتی ہیں۔ قدیم زمانہ کی بادبانی کشتیوں اور جہازوں کا سفر زیادہ تر بادِ موافق پر منحصر تھا اور بادِ مخالف ان کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوتی تھی۔ اس لیے بارش لانے والی ہواؤں کے بعد ان ہواؤں کا ذکر ایک نعمتِ خاص کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔
۷۰: یعنی تجارت کے لیے سفر کرو۔
۷۱: یعنی ایک قسم کی نشانیاں تو وہ ہیں جو کائناتِ فطرت میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، جن سے انسان کو اپنی زندگی میں ہر آن سابقہ پیش آتا ہے، جن میں سے ایک ہواؤں کی گردش کا یہ نظام ہے جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو انبیاء علیہم السلام معجزات کی صورت میں، کلامِ الہٰی کی صورت میں، اپنی غیر معمولی پاکیزہ سیرت کی شکل میں، اور انسانی معاشرے پر اپنی حیات بخش تاثیرات کی شکل میں لے کر آئے۔ یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتی ہیں، اور وہ یہ ہے کہ جس توحید کی تعلیم انبیاء دے رہے ہیں وہی بر حق ہے۔ ان میں سے ہر نشانی دوسری کی مؤیِّد ہے۔ کائنات کی نشانیاں انبیاء کے بیان کی صداقت پر شہادت دیتی ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی نشانیاں اُس حقیقت کو کھولتی ہیں جس کی طرف کائنات کی نشانیاں اشارے کر رہی ہیں۔
۷۲: یعنی جو لوگ ان دونوں نشانیوں کی طرف سے اندھے بن کر توحید سے انکار پر جمے رہے اور خدا سے بغاوت ہی کیے چلے گئے۔
۷۳: یہاں جس انداز سے نبوت اور بارش کا ذکر یکے بعد دیگرے کیا گیا ہے اس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لے ویسی ہی رحمت ہے جیسی بارش کی آمد اس کی مادّی زندگی کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہے۔ جس طرح آسمانی بارش کے نزول سے مردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اُٹھتی ہے اور اس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں، اسی طرح آسمانی وحی کا نزول اخلاق و روحانیت کی ویران پڑی ہوئی دنیا کو جِلا اُٹھاتا ہے اور اس میں فضائل و محامد کے گلزار لہلہانے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کفار کی اپنی بد قسمتی ہے کہ خدا کی طرف سے یہ نعمت جب ان کے ہاں آتی ہے تو وہ اس کا کفران کرتے ہیں اور اس کو اپنے لیے مژدۂ رحمت سمجھنے کے بجائے پیامِ موت سمجھ لیتے ہیں۔
۷۴: یعنی بارانِ رحمت کے بعد جب کھیتیاں سر سبز ہو چکی ہوں اور اس وقت اگر کوئی ایسی سخت سرد یا سخت گرم ہوا چل پڑے جو ہری بھری فصلوں کو جلا کر رکھ دے۔
۷۵: یعنی پھر وہ خدا کو کوسنے لگتے ہیں اور اس پر الزام رکھنے لگتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی مصیبتیں ہم پر ڈال رکھی ہیں۔ حالانکہ جب خدا نے ان پر نعمت کی بارش کی تھی اس وقت انہوں نے شکر کے بجائے اس کی ناقدری کی تھی۔ یہاں پھر ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ جب خدا کے رسول اس کی طرف سے پیامِ رحمت لاتے ہیں تو لوگ ان کی بات نہیں مانتے اور اس نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ پھر جب ان کے کفر کی پاداش میں خدا ان پر ظالموں اور جبّاروں کو مسلّط کر دیتا ہے اور وہ جو رو ستم کی چکی میں انہیں پیستے ہیں اور جوہرِ آدمیت کا قلع قمع کر ڈالتے ہیں تو وہی لوگ خد ا کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور اسے الزام دیتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی ظلم سے بھری ہوئی دنیا بنا ڈالی ہے۔
۷۶: یہاں مُردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر مر چکے ہیں، جن کے اندر اخلاقی زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی ہے، جن کی بندگی ٔ نفس اور ضد اور ہٹ دھرمی نے اُس صلاحیت ہی کا خاتمہ کر دیا ہے جو آدمی کو حق بات سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل بناتی ہے۔
۷۷: بہروں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دلوں پر ایسے قفل چڑھا رکھے ہیں کہ سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہیں سنتے۔ پھر جب ایسے لوگ یہ کوشش بھی کریں کہ دعوتِ حق کی آواز سرے سے ان کے کان میں پڑنے ہی نہ پائے، اور داعی کی شکل دیکھتے ہی دور بھاگنا شروع کر دیں تو ظاہر ہے کہ کوئی انہیں کیا سنائے اور کیسے سنائے؟
۷۸: یعنی نبی کا کام یہ تو نہیں ہے کہ اندھوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ساری عمر راہِ راست پر چلاتا رہے۔ وہ تو راہِ راست کی طرف رہنمائی ہی کر سکتا ہے۔ مگر جن لوگوں کی ہِیے کی آنکھیں پھوٹ چکی ہوں اور جنہیں وہ راستہ نظر ہی نہ آتا ہو جو نبی انہیں دکھانے کی کوشش کرتا ہے، ان کی رہنمائی کر نا نبی کے بس کا کام نہیں ہے۔
ترجمہ
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوّت بخشی، پھر اس قوّت کے بعد تمہیں ضعیف اور بُوڑھا کر دیا۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔۷۹ وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور جب وہ ساعت برپا ہو گی۸۰ تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں،۸۱ اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔۸۲ مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم روزِ حشر تک پڑے رہے ہو، سو یہ وہی روزِ حشر ہے، لیکن تم جانتے نہ تھے۔ پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ اُن سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔۸۳
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے۔ تم خواہ کوئی نشانی لے آؤ جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ یہی کہیں گے کہ تم باطل پر ہو۔ اِس طرح ٹھپّہ لگا دیتا ہے اللہ ان لوگوں کے دلوں پر جو بے علم ہیں۔ پس (اے نبیؐ )صبر کرو، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے،۸۴ اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔۸۵ ؏۶
تفسیر
۷۹: یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا، یہ ساری حالتیں اسی کی پیدا کردہ ہیں۔ یہ اسی کی مشیت پر موقوف ہے کہ جسے چاہے کمزور پیدا کرے اور جس کو چاہے طاقت ور بنائے، جسے چاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنے دے اور جس کو چاہے جوانا مرگ کر دے، جسے چاہے لمبی عمر دے کر بھی تندرست و توانا رکھے اور جس کو چاہے شاندار جوانی کے بعد بڑھاپے میں، اس طرح ایڑیاں رگڑوائے کہ دنیا اسے دیکھ کر عبرت کرنے لگے۔ انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتا رہے مگر خدا کے قبضۂ قدرت میں وہ اِس طرح بے بس ہے کہ جو حالت بھی خدا اس پر طاری کر دے اسے وہ اپنی کسی تدبیر سے نہیں بد ل سکتا۔
۸۰: یعنی قیامت جس کے آنے کے خبر دی جا رہی ہے۔
۸۱: یعنی مرنے کے وقت سے قیامت کی اُس گھڑی تک۔ ان دونوں ساعتوں کے درمیان چاہے دس بیس ہزار برس ہی گزر چکے ہوں، مگر وہ یہ محسوس کریں گے کہ چند گھنٹے پہلے ہم سوئے تھے اور اب اچانک ایک حادثہ نے ہمیں جگا اُٹھایا ہے۔
۸۲: یعنی ایسے ہی غلط اندازے یہ لوگ دنیا میں بھی لگاتے ہیں۔ وہاں بھی یہ حقیقت کے ادراک سے محروم تھے، اسی وجہ سے یہ حکم لگایا کرتے تھے کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی، مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں، اور کسی خدا کے سامنے حاضر ہو کر ہمیں حساب نہیں دینا۔
۸۳: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے ’’نہ ان سے یہ چاہا جائے گا کہ اپنے ربّ کو راضی کرو،‘‘ اس لیے کہ توبہ اور ایمان اور عملِ صالح کی طرف رجوع کرنے کے سارے مواقع کو وہ کھو چکے ہوں گے اور امتحان کا وقت ختم ہو کر فیصلے کی گھڑی آ چکی ہو گی۔
۸۰: یعنی قیامت جس کے آنے کے خبر دی جا رہی ہے۔
۸۵: یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ، یا ان کی بہتان و افترا کی مہم سے تم مرعوب ہو جاؤ، یا ان کی پھبتیوں اور طعنوں اور تضحیک و استہزاء سے تم پست ہم ت ہو جاؤ، یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے تم ڈر جاؤ، یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ، یا قومی مفاد کے نام پر جو اپیلیں وہ تم سے کر رہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کر لینے پر اتر آؤ۔ اس کے بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند، اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ، اور اپنے عزم میں اتنا راسخ، اور اپنے کیرکٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جا سکے ، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جا سکے ، نہ کسی فریب سے تم کو پھُسلایا جا سکے ، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے ، اور نہ دین کے معاملہ میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جا سکے۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالیٰ کے کلام بلاغت نظام نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ ’’یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں۔‘‘ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا اللہ اپنے آخری نبی کو بھاری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا۔ آپ سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیتِ عظمیٰ نے وہ انقلاب برپا کر کے دکھا دیا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کر دی اور اپنے سارے حربے استعمال کر ڈالے۔
٭٭٭
۳۱۔ سورۃ القمان
نام
اس سورہ کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کو دبانے اور روکنے کے لئے جبر و ظلم کا آغاز ہو چکا تھا اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفانِ مخالفت نے پوری شدت اختیار نہ کی تھی۔ اس کی نشان دہی آیت ۱۴۔ ۱۵ سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق تو بے شک خدا کے بعد سب سے نہ مانو یہی بات سورۂ عنکبوت میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دَور میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن دونوں کے مجموعی انداز بیان اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے، اس لیے کہ اس کے پس منظر میں کسی شدید مخالفت کا نشان نہیں ملتا، اور اس کے برعکس سورۂ عنکبوت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانہ میں مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم ہو رہا تھا۔
موضوع و مضمون
اس سورہ میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم خداوندِ عالم کی طرف سے پیش کر رہے ہیں، اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کر ہر طرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیارِ عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہہ رہے ہیں۔ تمہارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمہارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمہارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خود دیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ا لم۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں (۱)،
ہدایت اور رحمت نیکو کار لوگوں کے لیے (۲)، جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں(۳)۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ (۴)
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے (۵) جو کلام دلفریب(۶) خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر (۷) بھٹکا دے اور اسے راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے (۸)۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے (۹)۔ اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ اچھا، مژدہ سُنا دو اسے ایک درد ناک عذاب کا۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، اُن کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں (۱۰) جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے (۱۱)۔
اس (۱۲) نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں (۱۳)۔ اُس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے (۱۴)۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اُگا دیں۔ یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے ؟(۱۵) اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں(۱۶)۔ ع
تفسیر
(۱) یعنی ایسی کتاب کی آیات جو حکمت سے لبریز ہے، جس کی ہر بات حکیمانہ ہے۔
(۲) یعنی یہ آیات راہِ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور خدا کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہیں، مگر اس رحمت اور ہدایت سے فائدہ اُٹھانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جو نیک بننا چاہتے ہیں، جنہیں بھلائی کی جستجو ہے، جن کی صفت یہ ہے کہ برائیوں پر جب انہیں متنبہ کر دیا جائے تو ان سے رُک جاتے ہیں اور خیر کی راہیں جب ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جائیں تو ان پر چلنے لگتے ہیں۔ رہے بدکار اور شرپسند لوگ تو وہ نہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں گے نہ اس رحمت میں سے حصہ پائیں گے۔
(۳) یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ دراصل پہلے "نیکو کار” کا عام لفظ اِستعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر اُن ’’ نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھُوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کار گزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہ یہ ’’ نیکوکار ‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر و اخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر و اخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔
(۴)جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اُس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے بھی تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و سلم اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ اِس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ ’’ یہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیالِ خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اُس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے اِنکار کیا ہے۔
یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دُنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادّی خوشحالی کے معنی میں لے گا۔ فلاح کا قرآنی تصوّر معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ، آیات ۲ تا ۵۔ آل عمران، آیات ۱۰۲، ۱۳۰، ۲۰۰۔ المائدہ، آیات ۳۵، ۹۰ الانعام، ۲۱۔ الاعراف، آیات ۷، ۸، ۱۵۷۔ التوبہ، ۸۸۔ یونس، ۱۷۔ النحل، ۱۱۶۔ الحج، ۷۷۔ المومنون، ۱۔ ۱۱۷۔ النور، ۵۱۔ الروم، ۳۸۔
(۵) یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔
(۶) اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لعنت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے، مثلاً گپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔
لہو الحدیث ’’ خریدنے ‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ و سلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، ساحر ہے، شاعر ہے، مجنوں ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں ؟کیا لوگوں کو جُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھیرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام، ج ۱، ص۳۲۰۔ ۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتا کہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے۔
لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء، ’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے ‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ، حاکم بیہقی )۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، مجاہد، عِکرمہ، سعید بن جُبیر، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں۔ ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمامہ ؓباہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’ مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے۔ ‘‘ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔ ’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے ‘‘۔ ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے، اور ان کی قیمت حرام ہے۔ ‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْیَّشْترِیْلَھْوالْحَدِیثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من خلس الیٰ قینۃیسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت ‘‘تمام تر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ ‘‘ نہ بنی تھیں۔ اسی لئے حضور ؐ نے مغنیات کی بیع و شاکا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے )۔
(۷) ’’ علم کے بغیر‘‘ کا تعلق ’’ خریدتا ہے ‘‘ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور ’’ بھٹکاوے ‘‘ کے ساتھ بھی۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے۔ ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیاتِ الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انھیں حاصل کر رہا ہے۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اُٹھا ہے، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلقِ خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے۔
(۸)یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کر کے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے۔ اس کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جائے۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خدا کی آیات سنانے نکلیں، اُدھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہو رہا ہو، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو، اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہو کر اس موڈ ہی میں نہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انھیں سنائی جا سکیں۔
(۹) یہ سزا ان کے جرم کی مناسبت سے ہے۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا۔
(۱۰)یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنّت کی نعمتیں ہیں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں۔ اگر پہلی بات فرمائی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز تو ضرور ہوں گے مگر وہ جنتیں ان کی اپنی نہ ہوں گی۔ اس کے بجائے جب یہ فرمایا گیا کہ ’’ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں، ‘‘ تو اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری پوری جنتیں ان کے حوالہ کر دی جائیں گی اور وہ اُن نعمتوں سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح ایک مالک اپنی چیز سے مستفید ہوتا ہے، نہ کہ اُس طرح جیسے کسی کو حقوق ملکیت دیے بغیر محض ایک چیز سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دے دیا جائے۔
(۱۱)یعنی کوئی چیز اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے ’’ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے ‘‘ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو بالارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہو سکتی ہو، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے۔ نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسر اس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اور غیر مستحق کو نواز دیا جائے۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحق ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا۔
(۱۲)اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدّعا، یعنی تردیدِ شرک اور دعوتِ توحید پر کلام شروع ہوتا ہے۔
(۱۳) اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔ ‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ‘‘۔ ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا تمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدو احسان عظیم الشان تارے اور سیاّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔ صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے۔
(۱۴)تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ۲، صفحہ ۵۳۰، حاشیہ نمبر ۱۲۔
(۱۵)یعنی اُن ہستیوں نے جن کو تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو، جنہیں تم اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ رہے ہو، جن کی بندگی بجا لانے پر تمہیں اتنا اصرار ہے۔
(۱۶) یعنی جب یہ لوگ اللہ کے سوا اس کائنات میں کسی دوسرے کی تخلیق کی کوئی نشان دہی نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے، تو ان کا غیر خالق ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھہرانا اور ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا اور ان سے دعائیں مانگنا اور حاجتیں طلب کرنا بجز اس کے کہ صریح بے عقلی ہے اور کوئی دوسر ی تاویل اُن کے اس احمقانہ فعل کی نہیں کی جا سکتی۔ جب تک کوئی شخص بالکل ہی نہ بہک گیا ہو اس سے اتنی بڑی حماقت سرزد نہیں ہو سکتی کہ آپ کے سامنے وہ خود اپنے معبودوں کے غیر خالق ہونے اور صرف اللہ ہی کے خالق ہونے ک اعتراف کرے اور پھر بھی انہیں معبود ماننے پر مُصِر رہے۔ کسی کے بھیجے میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو و ہ لامحالہ یہ سوچے گا کہ جو کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، اور جس کا زمین و آسمان کی کسی شے کی تخلیق میں برائے نام بھی کوئی حصہ نہیں ہے وہ آخر کیوں ہمارا معبود ہو؟ کیوں ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہوں یا اس کی قدم بوسی و آستانہ بوسی کرتے پھریں ؟ کیا طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ ہماری فریاد رسی اور حاجت روائی کر سکے ؟ بالفرض وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا بھی ہو تو ان کے جواب میں وہ خود کیا کارروائی کر سکتے ہے جبکہ وہ کچھ بنانے کے اختیارات رکھتا ہی نہیں؟بگڑتی وہی بنائے گا جو کچھ بنا سکتا ہو نہ کہ وہ جو کچھ بھی نہ بنا سکتا ہو۔
ترجمہ
ہم(۱۷) نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کے شکر گزار ہو (۱۸)۔ جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے (۱۹)۔
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اُس نے کہا ’’ بیٹا ! خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، (۲۰) حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے (۲۱)اور(۲۲)
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اُس کی ماں ضعف پر ضعف اُٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (۲۳)۔ (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ لیکن وہ اگر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا (۲۴) تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، (۲۵) اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ کیسے عمل کرتے رہے ہو(۲۶)۔
(اور لقمان(۲۷) نے کہا تھا کہ) ’’بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا(۲۸)۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کرنے کی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر (۲۹)۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے (۳۰)۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر(۳۱)، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خو پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا(۳۲)۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر(۳۳)، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے (۳۴)۔ ع
تفسیر
(۱۷)شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔ اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔
لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امراؤ القیس، لَبِید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا۔ وہاں حضورؐ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھر رہے تھے۔ اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے (سیر ۃ ابن ہشام، ج ۲، ص ۶۷۔ ۶۹۔ اُسُد الغابہ، ج ۲، صفحہ ۳۷۸) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر ’’ کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدّت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضورؐ سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا۔
تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیّت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار اُن سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے۔ مولانا سے ّد سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض ا لقرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ، مُجاہِد، عکْرِمَہ اور خالدالربعی کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر روض ا لانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُبی تھا، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ (موجودہ عَقَبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے (روض الانف، ج۱، ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱۔ ص۵۷)۔
یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ(Derenbours)نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو ’’ امثال لقمان الحکیم‘‘(Fables De Looman Le Sage) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے انی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسُوب کر دیا ہے۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھیرا دیا جائے۔ جو شخص بھی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ’’لقمان‘‘ کے عنوان پر ہیلر(B. Heller) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا۔
(۱۸)یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان ا پنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری و احسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل، تینوں صورتوں میں ہو۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے۔
(۱۹) یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفر اس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا، نہ کسی کا کفر اس امرِ واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی ا س کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے۔
(۲۰)لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سے اس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہو سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، ان سے منافقانہ باتیں کر سکتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک بُرے آدمی بُرا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لختِ جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دینِ شرک پر قائم رہنے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے، جیسا کہ آگے کی آیات بتا رہی ہیں۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیر خواہی؟
(۲۱)ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا۔ شرک اس وجہ سے ظلمِ عظیم ہے کہ آدمی اُن ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ، نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل، اور نہ اُن نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔ یہ ایسی بے انصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بے انصافی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آدمی پر اُس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اُس کا حق مارتا ہے۔ پھر اس بندگیٔ غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہے ا س میں وہ اپنے ذ ہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے، حالاں کہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہٗ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلّت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آ پ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحقِ عذاب بھی بناتا ہے۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا۔
(۲۲)یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی پوری عبارت ایک جملۂ معترضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے لقمان کے قول کی تشریح مزید کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔
(۲۳) ان الفاظ سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچّے کی مدّت رضاعت دو سال ہے۔ اس مدّت کے اندر اگر کسی بچّے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حس میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدّت میں بچے کا دودھ چھڑا د یا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَا تُ ُرْضِعَْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَی ْنِ کَامِلَی ْنِ لِمَنْ اَرَادَاَنْ ی ُّتِمَّ ارَّضَا عَۃَ ط’’ مائیں بچّوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اُس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو‘‘(آیت ۲۳۳)۔
ابن عباس ؓ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ کاہ ہے، اس لیے کہ قرآن ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہٗ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ط’’ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰ مہینوں میں ہُوا۔ ‘‘ (الاحقاف، آیت ۱۵)۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور نا جائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے۔
(۲۴)یعنی جو تیرے علم میں میرا شریک نہیں ہے۔
(۲۵)یعنی اولاد اور والدین، سب کو۔
(۲۶)تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، سورۂ عنکبوت، حواشی نمبر ۱۱۔ ۱۲۔
(۲۷)لقمان کے دوسرے نصائح کا ذکر یہاں یہ بتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ عقائد کی طرح اخلاق کے متعلق بھی جو تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہ بھی عرب میں کوئی انوکھی باتیں نہیں ہیں۔
(۲۸) یعنی اللہ کے علم سے اور اس کی گرفت سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی۔ چٹان کے اندر ایک دانہ تمہارے لیے مخفی ہو سکتا ہے، مگر اُس کے لیے عیاں ہے۔ آسمانوں میں کوئی ذرہ تم سے بعید ترین ہو سکتا ہے، مگر اللہ کے لیے وہ بہت قریب ہے۔ زمین کی تہوں میں پڑی ہوئی کوئی چیز تمہارے لیے سخت تاریکی میں ہے مگر اس کے لیے بالکل روشنی میں ہے۔ لہٰذا تم کہیں کسی حال میں بھی نیکی یا بدی کا کوئی کام ایسا نہیں کر سکتے جو اللہ سے مخفی رہ جائے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اس سے واقف ہے، بلکہ جب محاسبہ کا وقت آئے گا تو وہ تمہاری ایک ایک حرکت کا ریکارڈ سامنے لا کر رکھ دے گا۔
(۲۹)اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص بھی نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے۔ دُنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے۔
(۳۰)دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اصلاحِ خلق کے لیے اُٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے لیے بڑا دِل گُردہ چاہیے۔
(۳۱)اصل الفاظ ہیں لَاتُصَعِّرْخَدَّکَ لِلنَّاسِ۔ صَعَر عربی زبان میں ایک بیماری کو کہتے ہیں جو اونٹ کی گردن میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اُونٹ اپنا منہ ہر وقت ایک ہی طرف پھیرے رکھتا ہے۔ اس سے محاورہ نِکلا فلان صعّر خدّہ، ’’ فلاں شخص نے اونٹ کی طرح اپنا کلّا پھیر لیا ‘‘ یعنی تکبر کے ساتھ پیش آیا اور منہ پھیر کر بات کی۔ اسی کے متعلق قبیلۂ تغلب کا ایک شاعر عمرو بن حّی کہتا ہے،
وکنّا اذاالجبار صَعَّر خَدَّ ٭ اقمنَا لہ من میْلہ فتقوّ مَا
ہم ایسے تھے کہ جب کبھی کسی جبّار نے ہم سے بات کی تو ہم نے اس کی ٹیڑھ ایسی نکالی کہ وہ سیدھا ہو گیا۔ ‘‘
(۳۲)اصل الفاظ ہیں مختال اور فخور۔ مختال کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنی دانست میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہو۔ اور فخور اس کو کہتے ہیں جو اپنی بڑائی کا دوسروں پر اظہار کرے۔ آدمی چال میں اکڑ اور اتراہٹ اور تبختر کی شان لازماً اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے دماغ میں تکبر کی ہوا بھر جاتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو اپنی بڑائی محسوس کرائے۔
(۳۳)بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل، بلکہ میانہ روی اختیار کر ‘‘لیکن سیاقِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ رو ی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلّیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اُس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ دولت، اقتدار، حسن، علم، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے۔ اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کر مریل چال چلنے لگتا ہے۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ ہو، نہ مریل پن، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار۔
صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار فرمایا’’ سر اُٹھا کر چل، اسلام مریض نہیں ہے ‘‘۔ ایک اور شخص کو اُنہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ’’ ظالم، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے۔ ‘‘ان دونوں واقعات سے معلوم ہُوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک دینداری کا منشا ہر گز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں۔ پوچھا انہیں کیا ہو گیا ؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے )۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’ عمر سید القراء تھے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے ‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل، حاشیہ ۴۳۔ تفسیر سورہ الفرقان، حاشیہ ۷۹)۔
(۳۴)اس کا یہ منشا نہیں ہے کہ آدمی ہمیشہ آہستہ بولے اور کبھی زور سے بات نہ کرے۔ بلکہ گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مقصود کس طرح کے لہجے اور کس طرح کی آواز میں بات کرنے سے روکنا ہے۔ لہجے اور آواز کی ایک پستی و بلندی اور سختی و نرمی تو وہ ہوتی ہے جو فطری اور حقیقی ضروریات کے لحاظ سے ہو۔ مثلاً قریب کے آدمی یا کم آدمیوں سے آپ مخاطب تو آہستہ بولیں گے۔ دُور کے آدمی سے بولنا ہو یا بہت سے لوگوں سے خطاب کرنا ہو تو لامحالہ زور ہی سے بولنا ہو گا۔ ایسا ہی فرق لہجوں میں بھی موقع و محل کے لحاظ سے لازماً ہوتا ہے۔ تعریف کا لہجہ مذمت کے لہجے سے اور اظہار خوشنود ی کا لہجہ اظہار ناراضی کے لہجے سے مختلف ہونا ہی چاہیے۔ یہ چیز کسی درجہ میں بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے، نہ لقمان کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس فرق کو مٹا کر بس ہمیشہ ایک ہی طرح نرم آواز اور پست لہجے میں بات کیا کرے۔ قابلِ اعتراض جو چیز ہے وہ تکبر کا اظہار کرنے اور دھونس جمانے اور دوسرے کو ذلیل و مرعوب کرنے کے لیے گلا پھاڑنا اور گدھے کی سی آواز میں بولنا ہے۔
ترجمہ
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں(۳۵) اور اپنی کھُلی اور چھُپی نعمتیں (۳۶) تم پر تمام کر دی ہیں؟ اس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں (۳۷) بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب (۳۸)۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان اُن کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو (۳۹)؟
جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دے (۴۰) اور عملاً وہ نیک ہو (۴۱)، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا، اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ الہ ہی کے ہاتھ ہے۔ اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے (۴۳)، انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں۔ یقیناً اللہ سینوں کے چھُپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ ہم تھوڑی مدت انہیں دُنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں، پھر ان کو بے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔
اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو الحمدُ لِلّٰہ۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں(۴۵)۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ (۴۶) ہی کا ہے، بے شک اللہ بے نیاز اور آپ سے محمود ہے (۴۷)۔ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے ) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے ) ختم نہ ہوں گی (۴۸)۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے ) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے (۴۹)۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ اُس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے (۵۰)، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں، اور (کیا تم نہیں جانتے ) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے (۵۲) اور اسے چھوڑ کر جن دُوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں (۵۳)، اور (اس وجہ سے کہ) اللہ ہی بزرگ و برتر ہے (۵۴)۔ ع
تفسیر
(۳۵)کسی چیز کو کسی کے لیے مسخّر کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ چیز اس کے تابع کر دی جائے اور اسے اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اور جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ دوسری یہ کہ اس چیز کو ایسے ضابطہ کا پابند کر دیا جئے جس کی بدولت اُس شخص کے لیے نافع ہو جائے اور اس کے مفاد کی خدمت کرتی رہے۔ زین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک ہی معنی میں مسخّ نہیں کر دیا ہے، بلکہ بعض چیزیں پہلے معنی میں مسخر کی ہیں اور بعض دوسرے معنی میں۔ مثلاً ہوا، پانی، مٹی، آگ نباتات، معدنیات، مویشی وغیرہ بے شمار چیزیں پہلے معنی میں ہمارے لیے مسخر ہیں، اور چاند، سورج، وغیرہ دوسرے معنی میں۔
(۳۶)کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں، یا جو اس کے علم میں ہیں۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے۔ بے حد و حساب چیزیں ہیں جو انسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دُنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے، اس کی رز ق رسانی کے لیے، اس کے نشو و نما کے لیے، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلے اس سے بالکل مخفی تھیں، اور آج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سے اب تک پردہ نہیں اٹھا ہے۔
(۳۷)یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلاوہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سے اس کے تعلق کی کیا نوعیت ہے ؟ وغیرہ
(۳۸)یعنی نہ تو ان کے پاس کوئی ایسا ذریعۂ علم ہے جس سے انہوں نے براہ راست خود حقیقت کا مشاہدہ یا تجربہ کرلیا ہو، نہ کسی ایسے رہنمائی اِنہیں حاصل ہے جس نے حقیقت کا مشاہدہ کر کے انہیں بتایا ہو، اور نہ کوئی کتاب الٰہی ان کے پاس ہے جس پر یہ اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے ہوں۔
(۳۹)یعنی ہر شخص اور ہر خاندان اور ہر قوم کے باپ داد ا کا حق پر ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ محض یہ بات کہ یہ طریقہ باپ دادا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ حق بھی ہے۔ کوئی عقلمند آدمی یہ بادانی کی حرکت نہیں کر سکتا کہ اگر اس کے باپ دادا گمراہ رہے ہوں تو وہ بھی آنکھیں بند کر کے انہی کی راہ پر چلے جائے اور کبھی یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہ محسوس کرے کہ یہ راہ جا کدھر رہی ہے۔
(۴۰)یعنی پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں دے دے۔ اپنی کوئی چیز اس کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے نہ رکھے۔ اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کر دے اور اسی کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی پوری زندگی کاگ قانون بنائے۔
(۴۱)یعنی ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو وہ حوالگی و سپردگی کا اعلان کر دے مگر عملاً وہ رویہ اختیار نہ کرے جو خدا کے ایک مطیع فرمان بندے کا ہونا چاہیے۔
(۴۲)یعنی نہ اس کو اس بات کا کوئی خطرہ کہ اسے غلط رہنمائی ملے گی، نہ ا س بات کا کوئی اندیشہ کہ خدا کی بندگی کر کے اس کا انجام خراب ہو گا۔
(۴۳)خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی، جو شخص تمہاری بات ماننے سے انکار کرتا ہے وہ اپنے نزدیک تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اسلام کو رد کر کے اور کفر پر اصرار کر کے تمہیں زک پہنچائی ہے، لیکن دراصل اس نے اپنے آپ کو پہنچائی ہے۔ اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا، اپنا کچھ بگاڑا ہے۔ اگر وہ نہیں مانتا تمہیں پروا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(۴۴)یعنی شکر ہے کہ تم اتنی بات تو جانتے اور مانتے ہو۔ لیکن جب حقیقت یہ ہے تو پھر حمد ساری کی ساری صرف اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ دوسری کوئی ہستی حمد کی مستحق کیسے ہو سکتی ہے جبکہ تخلیق کائنات میں کوئی اس کا حصہ ہی نہیں ہے۔
(۴۵)یعنی اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو خالقِ کائنات ماننے کے لازمی نتائج اور تقاضے کیا ہیں، اور کونسی باتیں اس کی نقیض پڑتی ہیں۔ جب ایک شخص یہ مانتا ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق صرف اللہ ہے تو لازماً اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہے، عبادت اور طاعت و بندگی کا مستحق بھی تنہا وہی ہے، تسبیح و تحمید بھی اس کے سوا کسی دوسرے کی نہیں کی جا سکتی، دعائیں بھی اس کے سوا کسی اور سے نہیں مانگی جا سکتیں، اور اپنی مخلوق کے لیے شارع اور حاکم بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ خالق ایک ہو اور معبود دوسرا، یہ بالکل عقل کے خلاف ہے، سراسر متضاد بات ہے جس کا قائل صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو جہالت میں پڑا ہوا ہو۔ اسی طرح ایک ہستی کو خالق ماننا اور پھر دوسری ہستیوں میں سے کسی کو حاجت روا و مشکل کشا ٹھیرانا، کسی کے آگے سر نیاز جھکانا، اور کسی کو حاکِم ذی اختیار اور مُطاعِ مطلق تسلیم کرنا، یہ سب بھی باہم متناقض باتیں ہیں جنہیں کوئی صاحب علم انسان قبول نہیں کر سکتا۔
(۴۶)یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے بلکہ درحقیقت وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے جو زمین و آسمانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ نے اپنی یہ کائنات بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دی ہے کہ جو چاہے اس کا، یا اس کے کسی حصے کا مالک بن بیٹھے۔ اپنی خلق کا وہ آپ ہی مالک ہے اور ہر چیز جو اس کائنات میں موجود ہے وہ اُس کی مِلک ہے۔ یہاں اس کے سوا کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اُسے خداوندانہ اختیارات حاصل ہوں۔
(۴۷)اس کی تشریح حاشیہ نمبر ۱۹ میں گزر چکی ہے۔
(۴۸) اللہ کی باتوں سے مراد ہیں اس کے تخلیقی کام اور اس کی قدرت و حکمت کے کرشمے۔ یہ مضمون اس سے ذرا مختلف الفاظ میں سورہ کہف آیت ۱۰۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ بظاہر ایک شخص یہ گمان کر ے گا شاید اس قو ل میں مبالغہ کیا۔ لیکن اگر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو محسوس ہو گا کہ درحقیقت اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے۔ جتنے قلم اس زمین کے درختوں سے بن سکتے ہیں اور جتنی روشنائی زمین کے موجودہ سمندر اور ویسے ہی سات مزید سمندر فراہم کر سکتے ہیں، اب سے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کی تخلیق کے سارے کرشمے تو درکنار، شائد موجودات عالَم کی مکمل فہرست بھی نہیں لکھی جا سکتی۔ تنہا اس زمین پر جتنی کو جو دات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل ہے، کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبطِ تحریر میں لائی جا سکیں۔
اس بیان سے دراصل یہ تصوّر دلانا مقصُود ہے کہ جو خدا اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لایا ہے اور ازل سے ابد تک اس کا سارا نظم و نسق چلا رہا ہے اس کی خدائی میں اُن چھوٹی چھوٹی ہستیوں کی حیثیت ہی کیا ہے جنہیں تم معبود بنائے بیٹھے ہو۔ اس عظیم الشان سلطنت کے چلانے میں دخیل ہونا تو درکنار، اس کے کسی اقل قلیل جُز سے پوری واقفیت اور محض واقفیت تک کسی مخلوق کے بس کی چیز نہیں ہے۔ پھر بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو یہاں خداوندانہ اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی مل سکے جس کی بنا پر وہ دعائیں سننے اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے پر قادر ہو۔
(۴۹)یعنی وہ بیک وقت ساری کائنات کی آوازیں الگ الگ سُن رہا ہے اور کوئی آواز اس کی سماعت کو اس طرح مشغول نہیں کرتی کہ اسے سنتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ سُن سکے۔ اسی طرح وہ بیک وقت ساری کائنات کو اس کی ایک ایک چیز اور ایک ایک واقعہ کی تفصیل کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور کسے چیز کے دیکھنے میں اس کی بینائی اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسے دیکھتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ دیکھ سکے۔ ٹھیک ایسا ہو معاملہ انسانوں کے پیدا کرنے اور دو بار ہ وجود میں لانے کا بھی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے آدمی بھی پیدا ہوئی ہیں اور آئندہ قیامت تک ہوں گے ان سب کو وہ ایک آن کی آن میں پھر پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی قدرتِ تخلیق ایک انسان کو بنانے میں اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسی وقت وہ دوسرے انسان نہ پیدا کر سکے۔ اس کے لیے ایک انسان کا بنانا اور کھربوں انسانوں کا بنا دینا یکساں ہے۔
(۵۰)یعنی رات اور دن کا پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ آنا خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سورج اور چاند پوری طرح ایک ضابطہ میں کسے ہوئے ہیں۔ سورج اور چاند کا ذکر یہاں محض اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں عالمِ بالا کی وہ نمایاں ترین چیزیں ہیں جن کو انسان قدیم زمانے سے معبود بناتا چلا آ رہا ہے اور آج بھی بہت سے انسان انھیں دیتا مان رہے ہیں۔ ورنہ درحقیقت زمین سمیت کائنات کے تمام تاروں اور سیّاروں کو اللہ تعالیٰ نے ایک اٹل ضابطے میں کس رکھا ہے جس سے وہ یک سرِ مو ہٹ نہیں کر سکتے۔
(۵۱)یعنی ہر چیز کی جو مدّت مقرر کر دی گئی ہے اسی وقت تک وہ چل رہی ہے۔ سورج ہو یا چاند، یا کائنات کا کوئی اور تارا یا سے ّارہ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ ہر ایک کا ایک وقت آغاز ہے جس سے پہلے وہ موجود نہ تھی، اور ایک وقت اختتام ہے جس کے بعد وہ موجود نہ رہے گی۔ اس ذکر سے مقصود یہ جتانا ہے کہ ایسی حادث، اور بے بس چیزیں آخر معبود کیسے ہو سکتی ہیں۔
(۵۲)یعنی حقیقی فاعِل مختار ہے، خلق و تدبیر کے اختیارات کا اصل مالک ہے۔
(۵۳)یعنی وہ سب محض تمہارے تخیلّات کے آفریدہ خدا ہیں۔ تم نے فرض کر لیا ہے کہ فلاں صاحب خدائی میں کوئی دخل دکھتے ہیں اور فلاں حضرت کو مشکل کشائی و حاجت روائی کے اختیارات حاصل ہیں۔ حالاں کہ فی الواقع ان میں سے کوئی صاحب بھی کچھ نہیں بنا سکتے۔
ترجمہ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے (۵۵)۔ در حقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو (۵۶)۔ اور جب (سمندر میں) اِن لوگوں پر ایک موج پہاڑوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے، پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اِقتصاد برتتا ہے (۵۷)، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدّار اور ناشکرا ہے (۵۸)۔
لوگو! بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہو (۵۹) ہو گا۔ فی الواقع اللہ کا وعدہ (۶۰) سچا ہے۔ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے (۶۱) اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے (۶۲)۔
اُس گھڑی کا علم الہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے (۶۳)۔ ع
تفسیر
(۵۵) یعنی ایسی نشانیاں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختیارات بالکل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان خواہ کیسے ہی مضبوط اور بحری سفر کے لیے موزوں جہاز بنا لے اور جہاز رانی کے فن اور اس سے تعلق رکھنے والی معلومات اور تجربات میں کتنا ہی کمال حاصل کر لے، لیکن سندر میں جن ہولناک طاقتوں سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ تنہا اپنی تدابیر کے بل بوتے پر بخیریت سفر نہیں کر سکتا جب تک اللہ کا فضل شامِل حال نہ ہو۔ اس کی نگاہ کرم پھرتے ہی آدمی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے ذرائع و وسائل اور کمالات فن کتنے پانی میں ہیں۔ اسی طرح آدمی امن و اطمینان کی حالت میں چاہے کیسا ہی سخت دہریہ یا کٹّا مشرک ہو، لیکن سمندر کے طوفان میں جب اس کی کشتی ڈولنے لگتی ہے اس وقت دہریے کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا ہے، اور مشرک بھی جان لیتا ہے کہ خدا بس ایک ہی ہے۔
(۵۶) یعنی جن لوگوں میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں وہ جب ان نشانیوں سے حقیقت کو پہچانتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے توحید کا سبق اصل کر کے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتے ہیں۔ پہلی صفت یہ کہ وہ صَبّار(بڑے صبر کرنے والے ) ہوں۔ ان کے مزاج میں تلوُّن نہ ہو بلکہ ثابت قدمی ہو۔ گوارا اور ناگوار، سخت اور نرم، اچھے اور بُرے، تمام حالات میں ایک عقیدۂ صالحہ پر قائم رہیں۔ یہ کمزوری ان میں نہ ہو کہ بُرا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑ گڑا نے لگے اور اچھا وقت آتے ہی سب کچھ بھو ل گئے، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ دوسری صفت یہ کہ وہ شکور(بڑے شکر کرنے والے ) ہوں۔ نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں بلکہ نعمت کی قدر پہچانتے ہوں اور نعمت دینے والے کے لیے ایک مستقل جذبۂ شکر و سپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھیں۔
(۵۷)اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ اقتصاد کو اگر راست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُن میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اُس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کر کیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا د یتا ہے۔ اور اگر اقتصاد بمعنی توسُّط و اعتدال لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر و دہریّت کے عقیدے میں اُس شدّت پر قائم نہیں رہتے جس پر اس تجربے سے پہلے تھے، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی۔ اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہو۔ مدّعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پر آ جاتا ہے اور شرک و دہریّت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پُکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نے اس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آ گیا۔ تیسری وہ جس کے اندر حس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا۔
(۵۸)یہ دو صفات اُن دو صفتوں کے مقابلے میں ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی کی آیت میں کیا گیا تھا۔ غدار وہ شخص ہے جو سخت بے وفا ہو اور اپنے عہد و پیماں کا کوئی پاس نہ رکھے۔ اور ناشکرا وہ ہے جس پر خواہ کتنی ہی نعمتوں کی بارش کر دی جائے وہ احسان مان کر نہ دے اور اپنے مُحسن کے مقابلے میں سرکشی سے پیش آئے یہ صفات جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ خطرے کا وقت ٹل جانے کے بعد بے تکلف اپنے کفر، اپنی دہریّت اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے طوفان کی حالت میں خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کچھ نشانیاں خارج میں بھی اور خود اپنے نفس میں بھی پائی تھیں اور ان کا خدا کو پکارنا اسی وجدانِ حقیقت کا نتیجہ تھا۔ ان میں سے جو دہریے ہیں وہ اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک کمزوری تھی جو بحالتِ اضطراب ہم سے سرزد ہو گئی، ورنہ درحقیقت خدا وُدا کوئی نہ تھا جس نے ہمیں طوفان سے بچایا ہو، ہم تو فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ رہے مشرکین، تو وہ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگوں، یا دیوی دیوتاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا جس کے طفیل ہم بچ گئے، چنانچہ ساحل پر پہنچتے ہی وہ اپنے معبودانِ باطل کے شکریے ادا کرنے شروع کر دیتے ہیں اور انہی کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں۔ یہ خیال تک انھیں نہیں آتا کہ جب ساری اُمیدوں کے سہارے ٹوٹ گئے تھے اُس وقت اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی نہ تھا جس کا دامن انہوں نے تھاما ہو۔
(۵۹)یعنی دوست، لیڈر، پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اس کے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی ک اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی وہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دُنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہر گز صحیح نہیں ہے۔
(۶۰)اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔
(۶۱)دنیا کی زندگی سطح ہیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے، اس بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کر لو، کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصُود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’’ معیار زندگی ‘‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلّیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے، اور جس کی دنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔ یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں’’ دُنیوی زندگی کے دھوکے ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
(۶۲) الغرور (دھوکے باز ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخصِ خاص یا شئے خاص کا تعیّن کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رُخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے۔
’’اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے ‘‘کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں۔ کسی کو اس کا ’’ دھوکے باز ‘‘ یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دُنیا بندوں کے حوالے ہے۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہو تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے، اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کا تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔
(۶۳)یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب یہ جو قیامت کا ذکر اور آخرت کا وعدہ سن کر کفارِ مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے، کیوں کہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔
پہلا فقرہ: ’’ اُس کھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ ‘‘ یہ اصل سوال کا جواب ہے۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دُنیا کے انجام کا کب آئے گا۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے۔ مگر اس کا سر رشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب، جہاں، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی، یا کس زمین پر بارش اُلٹی نقصان دہ ہو جائے گی۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہی جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا بُرائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی۔ تُم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو۔ اسی طرح دُنبے کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اِس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے، کہ اس آیت میں امورِ غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حالاں کہ غیب نام ہی ا ُس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اِس غیب کی کوئی حد نہیں ہے۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جِلد سوم، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸)۔
٭٭٭
۳۲۔ سورۃ السَّجدہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نام
آیت ۱۵ میں سجدہ کا جو مضمون آیا ہے اسی کو سورہ کا عنوان قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
انداز بیاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول مکّہ ک دَور متوسّط ہے، اور اس کا بھی ابتدائی زمانہ، کیوں کہ اس کلام کے پس منظر میں ظلم و ستم کی وہ شدّت نظر نہیں آتی جو بعد کے ادوار کی سورتوں کے پیچھے نظر آتی ہے۔
موضوع اور مباحث
سُورہ کا موضوع توحید آخرت اور رسالت کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کرنا اور ان تینوں حقیقتوں پر ایمان کی دعوت دینا ہے۔ کفارِ مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق آپس میں چرچے کر رہے تھے کہ یہ شخص عجیب عجیب باتیں گھڑ گھڑ کر سُنا رہا ہے۔ کبھی مرنے کے بعد کی خبریں دیتا ہے اور کہتا ہے مٹی میں رَل مِل جانے کے بعد تم پھر اُٹھائے جاؤ گے اور حساب کتاب ہو گا اور دوزخ ہو گی اور جنت ہو گی کبھی کہتا ہے کہ یہ دیوی دیوتا اور بزرگ کوئی چیز نہیں ہیں، بس اکیلا ایک خدا ہی معبُود ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں، آسمان سے مجھ پر وحی آتی ہے اور یہ کلام جو میں تم کو سنا رہا ہوں، میرا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔ یہ عجیب افسانے ہیں جو یہ شخص ہمیں سُنا رہا ہے۔۔ انہی باتوں کا جواب اس سورہ کا موضوع بحث ہے۔
اِس جواب میں کفّار سے کہا گیا ہے کہ بلا شک و ریب یہ خدا ہی کا کلام ہے اور اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ نبوّت کے فیض سے محروم، غفلت میں پڑی ہوئی ایک قوم کو چونکایا جائے۔ اِسے تم اِفتراء کیسے کہہ سکتے ہو جب کہ اس کا منزَّل من اللہ ہونا ظاہر و باہر ہے۔
پھر ان سے فرمایا گیا ہے کہ یہ قرآن جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہے، عقل سے کام لے کر خود سوچو کہ ان میں کیا چیز اچنبھے کی ہے۔ آسمان و زمین کے انتظام کو دیکھو، خود اپنی پیدائش اور بناوٹ پر غور کرو، کیا یہ سب کچھ اُس تعلیم کی صداقت پر شاہد نہیں ہے او اس نبی کی زبان سے اِس قرآن میں تم کو دی جا رہی ہے ؟ یہ نظام کائنات توحید پر دلالت کر رہا ہے یا شرک پر؟ اور اس سارے نظام کو دیکھ کر اور خود اپنی پیدائش پر نگاہ ڈال کر کیا تمہاری عقل یہی گواہی دیتی ہے کہ جس نے اب تمہیں پیدا کر رکھا ہے وہ پھر تمہیں پیدا نہ کر سکے گا ؟
پھر عالمِ آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ایمان کے ثمرات ا ور کفر کے نتائج و عواقب بیان کر کے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ بُرا انجام سامنے آنے سے پہلے کفر چھوڑ دیں اور قرآن کی اس تعلیم کو قبول کر لیں جسے مان کر خود ان کی اپنی ہی عاقبت درست ہو گی۔
پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک آخری اور فیصلہ کُن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اُس سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں مصیبتیں، آفات اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے۔ ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے، تاکہ اُسے تنبیہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔ آدمی اگر ان ابتدائی چوٹوں ہی سے ہوش میں آ جائے تو اس کے حق میں بہتر ہے۔
پھر فرمایا کہ دُنیا میں یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ تو نہیں ہے کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے کتاب آئی ہو۔ اس سے پہلے آخر موسیٰ (علیہ السلام ) پر بھی کتاب آئی تھی جسے تم سب لو گ جانتے ہو۔ یہ آخر کونسی ایسی بات ہے کہ اس پر تم لوگ یوں کان کھڑے کر رہے ہو یقین مانو کہ یہ کتاب خدا ہی کی طرف سے آئی ہے اور خوب سمجھ لو کہ اب پھر وہی کچھ ہو گا جو موسیٰ کے عہد میں ہو چکا ہے۔ امامت و پیشوائی اب انہی کو نصیب ہو گی جو اس کتابِ الہٰی کو مان لیں گے۔ اسے رد کر دینے والوں کے لیے ناکامی مقدر ہو چکی ہے۔
پھر کفّارِ مکّہ سے کہا گیا ہے کہ اپنے تجارتی سفروں کے دَوران میں تم جن پچھلی تباہ شدہ قوموں کی بستیوں پر سے گزرتے ہو ان کا انجام دیکھ لو، کیا یہی انجام تم اپنے لیے پسند کرتے ہو؟ ظاہر سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ آج تم دیکھ رہے ہو کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)کی بات چند لڑکوں اور چند غلاموں اور غریب لوگوں کے سوا کوئی نہیں سُن رہا ہے اور ہر طرف سے ان پر طعن اور ملامت اور پھبتیوں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس سے تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ چلنے والی بات نہیں ہے، چار دن چلے گی اور پھر ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ تمہاری نظر کا دھوکا ہے، کیا یہ تمہارا رات دن کا مشاہدہ نہیں ہے کہ آج ایک زمین بالکل بے آب و گیاہ پڑی ہے جسے دیکھ کر گمان تک نہیں ہو تا کہ اس کے پیٹ میں روئیدگی کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، مگر کل ایک ہی بارش میں وہ اس طرح بھَبک اُٹھتی ہے کہ اس کے چپّے چپّے سے جو کی طاقتیں پھوٹنی شروع ہو جاتی ہیں۔
خاتمۂ کلام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ تمہاری باتیں سُن کر مذاق اُڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ حضرت، یہ فیصلہ کُن فتح آپ کو کب نصیب ہونے والی ہے، ذرا تاریخ تو ارشاد ہو۔ ان سے کہو کہ جب ہمارے اور تمہارے فیصلے کا وقت آ جائے گا اس وقت ماننا تمہارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو گا۔ ماننا ہے تو اب مان لو، اور آخری فیصلے ہی کا انتظار کرنا ہے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ترجمہ
ا ل م۔ اِس کتاب کی تنزیل بِلا شبہ ربّ العالمین کی طرف سے ہے۔ (۱) (۲)کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اِس خود گھڑ لیا ہے ؟ (۳) نہیں بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے (۴) تاکہ تو متنبّہ کرے ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں (۵) وہ(۶) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دِنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا(۷)، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مدد گار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟(۸)، وہ آسمان سے زمین تک دُنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اُوپر اُس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے (۹) وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا(۱۰)، زبردست (۱۱)، اور رحیم(۱۲) جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی (۱۳)
اُس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے (۱۴)، پھر اسے نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی(۱۶)، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دِل دیے (۱۷)۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو (۱۸)
(۱۹)اور یہ لوگ کہتے ہیں ’’ جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں (۲۰) اِن سے کہو ’’ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پُورا کا پُورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے (۲۱) ع
تفسیر
(۱) قرآن مجید کی متعدّد سُورتیں اس طرح کے کسی نہ کسی تعارفی فقرہ سے شروع ہوتی ہیں جس سے مقصود آغاز کلام ہی میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کلام کہاں سے آ رہا ہے۔ یہ بظاہر اُسی طرز کا ایک تمہیدی فقرہ ہے جیسے ریڈیو پر اعلا ن کرنے والا پروگرام کے آغاز میں کہتا ہے کہ ہم فلاں اسٹیشن سے بول رہے ہیں۔ لیکن ریڈیو کے اس معمولی سے اعلان کے برعکس قرآن مجید کی کسی سورت کا آغاز جب اس غیر معمولی اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ پیغام فرمانروائے کائنات کی طرف سے آ رہا ہے تو یہ محض مصدر کلام کا بیان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس میں ایک بہت بڑا دعویٰ، ایک عظیم چیلنج اور ایک سخت اِنذار بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ چھوٹتے ہی اِتنی بڑی خبر دیتا ہے کہ یہ ا نسانی کلام نہیں ہے، خدا وندِ عالم کا کلام ہے۔ یہ اعلان فوراً ہی یہ بھاری سوال آدمی کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ اس دعوے کو تسلیم کروں یا نہ کروں۔ تسلیم کرتا ہو ں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینا ہو گا، پھر میرے لیے اس کے مقابلہ میں کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی۔ تسلیم نہیں کرتا تو لا محالہ یہ خطرۂ عظیم مول لیتا ہوں کہ اگر واقعی یہ خداوندِ عالَم کا کلام ہے تو اسے رد کرنے کا نتیجہ مجھ کو ابدی شقاوت و بد بختی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔ اِس بِنا پر یہ تمہیدی فقرہ مجرد اپنی اس غیر معمولی نوعیت ہی کی بنا پر آدمی کو مجبور کر دیتا ہے کہ چوکنّا ہو کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اِس کلام کو سنے اور یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کلامِ الہٰی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے یا نہیں۔
یہاں صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے، بلکہ مزید براں پورے زور کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ، بیشک یہ خدا کی کتاب ہے، اس کے مَنَزَّل مِنَ اللہ ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اس تاکیدی فقرے کو اگر نزولِ قرآن کے واقعاتی پس منظر اور خود قرآن کے اپنے سیاق میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی مضمر ہے، اور یہ دلیل مکّہ معظّمہ کے اُن باشندوں سے پوشیدہ نہ تھی جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ اس کتاب کے پیش کرنے والے کی پوری زندگی اُن کے سامنے تھی، کتاب پیش کرنے سے پہلے کی بھی اور اس کے بعد کی بھی۔ وہ جانتے تھے کہ جو شخص اس دعوے کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا ہے وہ ہماری قوم کا سب سے زیادہ راستباز، سنجیدہ اور پاک سیرت ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دعوائے نبوّت سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اُس سے وہ باتیں کبھی نہ سُنی تھیں جو نبوّت کے بعد یکایک اُس نے بیان کرنی شروع کر دیں۔ وہ اس کتاب کی زبان اور طرز بیان میں اور خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان اور طرز بیان میں نمایاں فرق پاتے تھے اور اس بات کو ہدائتہً جانتے تھے کہ ایک ہی شخص کے دو اسٹائل اتنے صریح فرق کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔ وہ اس کتاب کے انتہائی معجزانہ ادب کو بھی دیکھ رہے اور اہل زبان کی حیثیت سے خود جانتے تھے کہ ان کے سارے ادیب اور شاعر اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ وہ اس سے بھی واقف نہ تھے کہ ان کی قوم کے شاعروں، کاہنوں اور خطیبوں کے کلام میں اور اس کلام میں کتنا عظیم فرق ہے اور جو پاکیزہ مضامین اس کلام میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ کتنے بلند پایہ ہیں۔ انہیں اس کتاب میں، اور اس کے پیش کرنے والے کی دعوت میں کہیں دور دور بھی اُس خود غرضی کا ادنیٰ شائبہ تک نظر نہیں آتا جس سے کسی جھوٹے مدّعی کاکام اور کلام کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوردبین لگا کر بھی اس امر کی نشا ن دہی نہیں کر سکتے تھے کہ نبوّت کا یہ دعویٰ کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذات کے لئے یا اپنے خاندان کے لئے یا اپنی قوم کے لئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی اپنی کیا غرض پوشیدہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اس دعوت کی طرف ان کی قوم کے کیسے لوگ کھِنچ رہے ہیں اور اس سے وابستہ ہو کر ان کی زندگیوں میں کتنا بڑا انقلاب واقع ہو رہا ہے۔ یہ ساری باتیں مل جل کر خود دلیل دعویٰ بنی ہوئی تھیں اِسی لئے اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل کافی تھا کہ اس کتاب کا ربّ العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس پر کسی دلیل کے اضافے کی کوئی حاجت نہ تھی۔
(۲) اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکینِ مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کرتے تھے۔
(۳)یہ محض سوال و استفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن ساری باتوں کے باوجود، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اسے خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسُوب کر دیا ہے ؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو اور اُن کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اور اس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں، وہ اس بیہودہ الزام کو سُن کر کیا رائے قائم کریں گے ؟
(۴)جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ، کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی، اُسی طرح اب اِس آیت میں بھی کفّارِ مکہ کے الزامِ افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ’’ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے ‘‘ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔ کون، کس ماحول میں، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ اُس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا ربّ العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفّار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا۔ ا س پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اس کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو ؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے۔
(۵)یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے۔ تم خود جانتے کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے۔
واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے۔ اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا۔ بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے۔
یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہو گی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت دے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ کوجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی، اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل، ورقہ بن نَو فَل، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو الرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’ الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔ ۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔ ۴۶۵)
(۶) اب مشرکین کے دوسرے اعتراض کو لیا جاتا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید پر کرتے تھے۔ ان کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے دیوتاؤں، اور بزرگوں کی معبودیت سے انکار کرتے ہیں اور ہان کے پکارے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود کوئی کار ساز، کوئی حاجت روا، کوئی دعائیں سننے والا، اور بگڑی بنانے والا، اور کوئی حاکمِ ذی اختیار نہیں ہے۔
(۷)تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ص ۳۶۔ ۲۶۱۔ ۲۶۲۔ ۴۴۱۔ ۴۴۲۔
(۸)یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے۔ تم کس خیالِ خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اُس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے، مخلوق ہے۔ اور اللہ اس دُنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے، بلکہ اپنی اِس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرما روا بھی وہ آپ ہی ہے۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے ؟اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟
(۹) یعنی تمہاری نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے۔ کفّارِ عرب کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں۔ اُن کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے :
وَیَسْتَعْجِلُوْ نَکَ بِاعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِف اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًاعِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ o (آیت ۴۷)
یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے۔
دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے :
سَاَلَ سَآئِلُٗ م بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ(oلا) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعُٗ(oلا)مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ O تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَے ْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍOفَا صْبِرْ صَبْرًاجَمِیْلًاoاِنَّھُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا (oلا)وَّنَرٰہٗ قَرِیْباًoط (المعارج۔ آیات ۱۔ ۷)
پوچھنے والا پوچھتا ہے اُس عذاب کو جو واقع ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے، اُس خدا کی طرف سے جو چَڑھتے درجوں والا ہے (یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا )۔ چَڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔ پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔
ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے بُرے نتائج سامنے آ جائیں۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں، صدیاں بھی کوئی بڑی مدّت نہیں ہیں۔
(۱۰)یعنی دوسرے جو بھی ہیں ان کے لیے ایک چیز ظاہر ہے تو بے شمار چیزیں ان سے پوشیدہ ہیں۔ فرشتے ہوں یا جن، یا نبی اور ولی اور برگزیدہ انسان، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو سب کچھ جاننے والا ہو۔ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ اس پر ہر چیز عیاں ہے۔ جو کچھ گزر چکا ہے، جو کچھ موجود ہے، اور جو کچھ آنے والا ہے، سب اس پر روشن ہے۔
(۱۱) یعنی ہر چیز پر غالب۔ کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے اور اس کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے۔ ہر شے اس سے مغلوب ہے اور کسی میں اس کے مقابلے کا بل بوتا نہیں ہے۔
(۱۲)یعنی اس غلبے اور قوتِ قاہرہ کے باوجود وہ ظالم نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر رحیم و شفیق ہے۔
(۱۳) یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تُکی ہو۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اُس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اُس کے لیے موزوں ترین شکل پر، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے، اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے نقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہو۔
(۱۴)یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل(Direct Creation) سے انسان کو پیدا کیا، اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اُس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کر دیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آ گئی۔ اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ آیت قرآن مجید کی اُن آیات میں سے ہے جو انسان اوّل کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں۔ ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چَڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں۔ لیکن انسان کی نہ سہی، تمام انواعِ حیوانی کی نہ سہی، اوّلین جرثومۂ حیات کی براہِ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے، حالاں کہ صرف ایک خُلیّہ (Cell)والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اُس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھیراتے ہیں۔ اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا، پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے، اور پھر اس نسل تناسُل (Procreation)کی مختلف صورتوں سے چلی ہے۔ اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ۲۵۹۔ ۳۱۹۔ ۵۶۶۔ جلد دوم، صفحات ۱۰۔ ۱۱۔ ۱۰۶۔ ۵۰۴۔ جلد سوّم، صفحات ۲۰۱۔ ۲۶۹)۔
(۱۵)یعنی ایک باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء و جوارح کے ساتھ مکمل کر دیا۔
(۱۶)روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مُراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحبِ شخصیّت ہستی، صاحبِ اَنا ہستی، اور حامِل خلافت ہستی بنتا ہے۔ اِس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسُوب ہو کر اُس کی چیز کہلاتی۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تُو ہیں۔ ان کا سر چشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔ یہ اوصاف کسی بے علم، بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم، صفحات ۵۰۴۔ ۵۰۵)۔
(۱۷)یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا۔ ’’اُس کی تخلیق کی‘‘، ’’ اُس کی نسل چلائی ‘‘، ’’اُس کو نِک سُک سے درست کیا ‘‘، ’’ اُس کے اندر روح پھونکی ‘‘۔ اس لیے اُس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔ پھر جب رُوح پھونک دی گئی تو اب اُس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’’ تم کو کان دیے ‘‘، ’’ تم کو آنکھیں دیں ‘‘، ’’ تم کو دِل دیے ‘‘ اس لیے کہ حامِل رُوح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اُسے مخاطب کیا جائے۔
کان اور آنکھوں سے مُراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ حصُولِ علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامّہ بھی ہیں، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیّوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد ’’دِل ‘‘سے مُراد وہ ذہن (Mind)ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف اِمکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
(۱۸) یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اِتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ دِل تمہیں اس لیے دیے گئی تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہِ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اِس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو، اور اس سے کچھ اونچے اُٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریّت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذّتوں میں غرق ہو جاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوّا بنانا چاہیے تھا۔
(۱۹)رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بُنیادی عقیدے یعنی آخرت پر اُن کے اعتراض کو لے کر اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمونِ ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ ’’ وہ کہتے ہیں محمدؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں ‘‘، اور ’’ وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کر دوبارہ نہ اُٹھیں گے ‘‘۔
(۲۰) اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کفّار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’ ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے ‘‘ آخر کیا معنی رکھتا ہے۔ ’’ہم‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَ لتی مِلتی ہے ؟( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ’’ہم ‘‘ نکل چکا ہوتا ہے۔ اس جسم کا نام ’’ہم ‘‘ نہیں ہے۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ’’ہم ‘‘ ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اس کا کوئی جُز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا۔ اور جب یہ ’’ہم ‘‘ کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ’’ہم ‘‘ کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مُردہ جسم کو لے جا کر دفن کر دیتا ہے ‘ کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس کا خالی جسم کو دفن کر تا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے۔ رہا اس کا دوسرا جز: ’’ کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘ ؟تو یہ ا نکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلی اس ’’ ہم‘‘ اس اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کر لیا ہوتا۔ اس ’’ہم‘‘ کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہیں لوہا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کالبُد خاکی میں یہ ’’ ہم‘‘ براجمان ہو گیا۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ’’ہم‘‘ نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ’’ ہم ‘‘کو یہ مکان بنا کر دیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سر نو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال تو خود ہی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنی عقل کو اس رُخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ‘‘۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آ سکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھُوٹے پھریں اور دِل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-ires)یہاں سے نکل جائیں۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ کچھ نہ ہو۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے۔
(۲۱)یعنی تمہارا ’’ہم ‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ، موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا۔ اُس کا کوئی ادنیٰ جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا۔ اور وہ پورا کا پورا حراست(Custody)میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کر دیا جائے گا۔
اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے :
۱)۔ اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی، کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو آ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver)کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر اس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرِ موت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔ (اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔ الانعام، ۹۳۔ النحل، ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔ ۹۴۔
۲)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی رہتی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’’ موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا۔ ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے۔
۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life )نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی ‘ اس کی وہ اَنا (Ego)ہے جو ’’ میں ‘‘ اور ’’ ہم‘‘ اور’’ تم‘‘ کے الفاظ تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact)نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو۔ اور ہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا ‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اور اسی کو جزا و سزا دیکھنی ہو گی۔
ترجمہ
کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مُجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے ) ’’ اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تا کہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آ گیا ہے۔ ‘‘ (جواب میں ارشاد ہو گا) (۲۲)’’ اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے (۲۳) مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جِنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا (۲۴) پس اب چکھو مزا اپنی اِس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا(۲۵)، ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کر دیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ‘‘۔
ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سُنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبّر نہیں کرتے (۲۶)سجدہ۔ اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں (۲۷)، اور جو کچھ رزق ہم نے اُنھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (۲۸)۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لیے چھُپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفِس کو خبر نہیں ہے (۲۹) بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟(۳۰) یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے (۳۱)
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اُن کے لیے تو جنّتوں کی قیام گاہیں ہیں (۳۲)، ضیافت کے طور پر اُن کے اعمال کے بدلے میں۔ اور جنہوں نے فِسق اختیار کیا ہے اُن کا ٹھکِانا دوزخ ہے۔ جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں دے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا اِنھیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے )باز آ جائیں (۳۳) اور اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا جِسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے (۳۴) ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔ ع
تفسیر
(۲۲) اب اُس حالت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے جب اپنے رب کی طرف پلٹ کر یہ انسانی ’’اَنا‘‘ اپنا حساب دینے کے لے اس کے حضور کھڑی ہو گی۔
(۲۳) یعنی ا س طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں، ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ۱۶۰۔ ۱۶۱۔ ۵۶۵۔ ۶۲۵۔ ۵۳۲۔ ۶۰۳۔ ۶۰۴۔ جلد دوّم ص، ۲۷۶۔ جلد سوّم ص ۳۰۰)
(۲۴)اشارہ ہے اُس قول کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم ؑ کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اُس وقت کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَا لْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور اُن لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔ ‘‘
اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اور ان شیاطین کے پیرو انسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے۔
(۲۵) یعنی دنیا کے عیش میں گم ہو کر تم نے اس بات کو بالکل بھلا دیا کہ کبھی اپنے رب کے سامنے بھی جانا ہے۔
(۲۶)بالفاظ دیگر وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے نفس کی کبریائی انہیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی۔
(۲۷)یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اُن کا حال اُن دُنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دِن کی محنتوں کی کلفت دُور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اور شراب نوشی اور کھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں۔ اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دِن بھر اپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں۔ اس کے خوف سے کانپتے ہیں اور اسی سے اپنی ساری اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں۔
بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصّہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں۔
(۲۸)رزق سے مُراد ہے رزق حلال۔ مال حرام کو اللہ تعالیٰ اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اِس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے۔
(۲۹)بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قال اللہ تعالیٰ اعددت بعبادی الصالحین ما لا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشرٍ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے ‘‘۔ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیرو بن شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد، ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے ‘‘ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ، حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیفہ بن شُعْبہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد، ابن جرریر اور ترمذی نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔
(۳۰) یہاں مومن اور فاسق کی دو متقابل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ مومن سے مُراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب واحد مان کر اُس قانون کی اطاعت اختیار کر لے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے۔ اس کے برعکس فاسق وہ جو فسق (خروج از طاعت، یا با الفاظ دیگر بغاوت، خود مختاری اور اطاعت غیر اللہ) کا رویّہ اختیار کرے۔
(۳۱)یعنی نہ دُنیا میں ان کا طرزِ فِکر و طرز حیات یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یکساں ہو سکتا ہے۔
(۳۲)یعنی وہ جنّتیں اُن کی سیر گاہیں نہیں ہوں گی بلکہ وہی ان کی قیام گاہیں بھی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
(۳۳)’’عذاب اکبر‘‘ سے مُراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلہ میں ’’ عذاب ادنیٰ ‘‘ کا الفاظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مُراد وہ تکلیفیں ہیں جو اِسی دُنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔ اُن آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آ جائیں اور اُس طرز فِکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اُس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا اِنتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دِلاتی ہیں۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دِلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کی کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اُسی کار فرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے، اور نہ کسی جِن، یا روح، یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ ان سے سبق لے کر دُنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔
(۳۴)’’رب کی آیات ‘‘ یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آ جاتی ہیں۔ قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں :
۱۔ وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔
۲۔ وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدائش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہے۔
۳۔ وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اس کے لاشعور میں، اور اُس کے اخلاقی تصوّرات میں پائی جاتی ہیں۔
۴۔ وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔
۵۔ وہ نشانیاں جو انسان پر آفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔
۶۔ اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔
یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتا رہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خُدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سِوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تو اس دُنیا میں آزاد و خود مختار اور غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے۔ پس تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کر او ر خود مختاری کی روش سے باز آ جا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دِل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کر لیتا ہے، اور اپنے دِل و دِماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دُنیا میں اپنے امتحان کی مدّت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے۔
ترجمہ
اِس سے پہلے ہم موسیٰؑ کو کتاب دے چکے ہیں، لہٰذا اُسی چیز کے ملنے پر تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیے (۳۵) اُس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا(۳۶)، اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے (۳۷)
یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل ) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (۳۸) اور کیا اِن لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں ) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟(۳۹) اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سُنتے نہیں ہیں ؟ اور کیا اِن لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بے آب گیاہ زمین کی طرف پانی بَہا لاتے ہیں، پھر اسی زمین سے وہ فصل اُگاتے ہیں جس سے ان کے جانوروں کو بھی چارہ مِلتا ہے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں ؟ تو کیا انہیں کچھ نہیں سوجھتا ؟ (۴۰)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ یہ فیصلہ کب ہو گا اگر تم سچّے ہو ؟‘‘(۴۱) ان سے کہو ’’ فیصلے کے دن ایمان لانا اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا جنہوں نے کفر کیا ہے اور پھر ان کو کوئی مہلت نہ ملے گی‘‘(۴۲) اچھا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور انتظار کرو، یہ بھی منتظر ہیں۔ ع
تفسیر
(۳۵)خطاب بظاہری نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو حضورؐ کی رسالت میں، اور آپ کے اوپر کتاب اِلٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے۔ یہاں سے کلام کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو آغاز سورہ (آیات نمبر ۲ اور ۳ )میں بیان ہوا تھا۔ کفارِ مکہ کہہ رہے تھے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر خدا کی طرف سے کوئی کتاب نہیں آئی ہے انہوں نے اسے خود گھڑ لیا ہے اور دعویٰ یہ کر رہے ہیں کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے۔ اس کا ایک جواب ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا۔ اب اس کا دوسرا جواب دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے نبی یہ نادان لوگ تم پر کتابِ الٰہی کے نازل ہو نے کو اپنے نزدیک بعید از امکان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص بھی اگر اس کا انکار نہ کرے تو کم از کم اس کے متعلق شک ہی میں پڑ جائے۔ لیکن ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا ایک نرالا واقعہ تو نہیں ہے جو انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ہی پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں جن سے مشہور ترین کتاب وہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو دی گئی تھی۔ لہٰذا اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے تو آج آخر اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے۔
(۳۶) یعنی وہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائی گئی تھی اور یہ کتاب اسی طرح تم لوگوں کی رہنمائی کے لئے بھیجی گئی ہے جیسا کہ آیت نمبر ۳ میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اس ارشاد کی پوری معنویت اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ہی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے اور کفار مکہ بھی اس سے ناواقف نہ تھے بنی اسرائیل کئی صدی تک مصر میں انتہائی ذلت و نکبت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس حالت میں اللہ تعا لیٰ نے ان کے درمیان مو سیٰ (علیہ السّلام)کو پیدا کیا ان کے ذریعہ سے اس قوم کو غلامی کی حالت سے نکالا پھر ان پر کتاب نازل کی اور اس کے فیض سے وہی دبی اور پِسی ہوئی قوم ہدایت پا کر دنیا میں ایک نامور قوم بن گئی۔ اس تاریخ کی طرف اشارہ کر کے اہلِ عرب سے فرمایا جا رہا ہے کے جس طرح بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے وہ کتاب بھجی گئی ہے۔
(۳۷)یعنی بنی اسرائیل کو اس کتاب نے جو کچھ بنا یا اور جن مدارج پر ان پہنچایا وہ محض ا ن کے درمیان کتاب کے آ جانے کا کرشمہ نہ تھا گویا یہ کوئی تعویذ ہو جو باندھ کر اس قوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہو اور اس کے لٹکتے ہی قوم نے بامِ عروج پر چڑھنا شروع کر دیا ہو بلکہ یہ ساری کرامت اس یقین کی تھی جو وہ اللہ کی آیات پر لائے اور اس صبر اور ثابت قدمی کی تھی جو انہوں نے احکامِ الہٰی کی پیروی میں دکھائی۔ خود بنی اسرائیل کے اندر بھی پیشوائی انہی کو نصیب ہوئی جو ان سے کتاب اللہ کے سچے مومن تھے اور دُنیوی فائدوں اور لذتوں کی طمع میں پھسل جانے والے نہ تھے۔ انہوں نے جب حق پر ستی میں ہر خطر ے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہر نقصان اور ہر تکلیف کو بر داشت کیا اور اپنے نفس کی شہوات سے لے کر باہر کے اعدائے دین تک ہر ایک کے خلاف مجاہدہ کا حق ادا کر دیا تب ہی وہ دنیا کے امام بنے اس سے مقصود کفارِ عرب کو متنبہ کر نا ہے کہ جس طرح خدا کی کتاب کے نزول نے بنی اسرائیل کے اندر قسمتوں کے فیصلے کیے تھے اسی طرح اب اس کتاب کا نزول تمہارے درمیان بھی قسمتوں کا فیصلہ کر دے گا۔ اب وہی لوگ امام بنیں گے جو اس کو مان کہ صبر و ثبات کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے اس سے منہ موڑنے والوں کی تقدیر گردش میں آ چکی ہے۔
(۳۸) یہ اشارہ ہے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طرف جن کے اندر بنی اسرائیل ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونے اور اپنے راست رو ائمہ کی پیروی چھوڑ دینے اور دُنیا پرستی میں پڑ جانے کے بعد مبتلا ہوئے۔ اس حالت کا ایک نتیجہ تو ظاہر ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بنی اسرائیل ذلت و نکبت میں گرفتار ہیں۔ دوسرا وہ ہے جو دنیا نہیں جانتی اور وہ قیامت کے روز ظاہر ہو گا۔
(۳۹)یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویّے کے ساتھ معلق ہو گیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا۔ رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے۔ اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے۔ انکار کر دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامانِ عبرت بن کر رہ گئے۔
(۴۰)سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں یہ ذکر حیات بعدالموت پر استدلال کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن میں بالعموم ہوتا ہے، بلکہ اِس سلسلۂ کلام میں یہ بات ایک اور ہی مقصد کے لیے فرمائی گئی ہے۔ ا س میں دراصل ایک لطیف اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح ایک بنجر پڑی ہوئی زمین کو دیکھ کر آدمی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ بھی کبھی لہلہاتی کشت زار بن جائے گی، مگر خدا کی بھیجی ہوئی برسات کا ایک ہی ریلا اس کا رنگ بدل دیتا ہے، اُسی طرح یہ دعوتِ اسلام بھی اِس وقت تم کو ایک نہ چلنے والی چیز نظر آتی ہے، لیکن خدا کی قدرت کا ایک ہی کرشمہ اس کو وہ فروغ دے گا کہ تم دنگ رہ جاؤ گے۔
(۴۱)یعنی تم جو کہتے ہو کہ آخر کار اللہ کی مدد آئے گی اور ہمیں جھٹلانے والوں پر اُس کا غضب ٹوٹ پڑے گا، تو بتاؤ وہ وقت کب آئے گا ؟ کب ہمارا تمہارا فیصلہ ہو گا؟
(۴۲)یعنی یہ کونسی ایسی چیز ہے جس کے لیے تم بے چین ہوتے ہو۔ خُدا کا عذاب آ گیا تو پھر سنبھلنے کا موقع تم کو نصیب نہ ہو گا۔ اس مہلت کو غنیمت جانو جو عذاب آنے سے پہلے تم کو ملی ہوئی ہے۔ عذاب سامنے دیکھ کر ایمان لاؤ گے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp
تشکر: سبط الحسین
جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید
مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، عبد الحمید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ترجمہ
۲۶ اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں)پھیلتے چلے جا رہے ہو۔۲۷ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں۲۸ تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو ۲۹ اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی۔۳۰ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش،۳۱ اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔۳۲ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے۔ اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔۳۳ یقیناً اس میں سے بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (غور سے ) سنتے ہیں۔
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی۔۳۴ اور آسمان سے پانی بر سا تا ہے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔۳۵ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔۳۶ پھر جو نہی کہ اس نےتمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے۔۳۷ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اس کے بندے ہیں، سب کے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔وہی ہے جو تخلیق کی ابتد کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔۳۸ آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ ؏۳
تفسیر
۲۶: خبردار رہنا چاہیے کہ یہاں سے رکوع کے خاتمہ تک اللہ تعالیٰ کی جو نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں وہ ایک طرف تو اوپر کے سلسلۂ کلام کی مناسبت سے حیاتِ اُخروی کے امکان و وقوع پر دلالت کرتی ہیں، اور دوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ صرف ایک خدا اس کا تنہا خالق، مدبّر، مالک اور فرمانروا ہے جس کے سوا انسانوں کا کوئی معبود نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے تقریر ما سبق اور تقریر مابعد، دونوں کے ساتھ مربوط ہے۔
۲۷: یعنی انسان کا مایۂ تخلیق اِس کے سوا کیا ہے کہ چند بے جان مادّے ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کچھ کاربن، کچھ کیلسیم، کچھ سوڈیم اور ایسے ہی چند اور عناصر۔ انہی کو ترکیب دے کر وہ حیرت انگیز ہستی بنا کھڑی کی گئی ہے جس کا نام انسان ہے اور اس کے اندر احساسات، جذبات، شعور، تغفُّل اور تخیُّل کی وہ عجیب قوتیں پیدا کر دی گئی ہیں جن میں سے کسی کا منبع بھی اس کے عناصر ترکیبی میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہی نہیں کہ ایک انسان اتفاقاً ایسا بن کھڑا ہوا ہو، بلکہ اس کے اندر وہ عجیب تولیدی قوت بھی پیدا کر دی گئی جس کی بدولت کروڑوں اور اربوں انسان وہی ساخت اور وہی صلاحیتیں لیے ہوئے بے شمار موروثی اور بے حد و حساب انفرادی خصوصیات کے حامل نکلتے چلے آرہے ہیں۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی حکیمانہ خلقت کسی صانع حکیم کی تخلیق کے بغیر آپ سے آپ ہو گئی ہے؟ کیا تم بحالتِ ہوش و حواس یہ کہہ سکتے ہو کہ تخلیق انسان جیسا عظیم الشان منصوبہ بنانا اور اس کو عمل میں لانا اور زمین و آسمان کی بے حد و حساب قوتوں کو انسانی زندگی کے لیے سازگار کر دینا بہت سے خداؤں کی فکر و تدبّر کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا تمہارا دماغ اپنی صحیح حالت میں ہوتا ہے جب تم یہ گمان کرتے ہو کہ جو خدا انسان کو خالص عدم سے وجود میں لایا ہے وہ اسی انسان کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟
۲۸: یعنی خالق کا کمالِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صِنف نہیں بنائی، بلکہ اسے دو صنفوں(Sexes ) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف، اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں۔ مزید براں وہ خالقِ حکیم اِن دونوں صنفوں کے افراد کو آغازِ آفرینش سے برابر تناسب کے ساتھ پیدا کیے چلا جا رہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطۂ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اِس معاملہ میں اثر انداز ہو سکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنا نہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیدا ہوتے رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں، اور نہ اِس معاملہ ہی میں اس کے پاس اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ ہزارہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقاً بھی نہیں ہو سکتا، اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز صریحاً اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالقِ حکیم، اور ایک ہی خالقِ حکیم نے اپنی غالب حکمت و قدرت سے ابتداءً مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حد و حساب مرد اور بے حد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں۔
۲۹: یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہو گیا ہے کہ بلکہ بنانے والے نے بالارادہ اِس غرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس، اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہر کر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا، اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کر دی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو اُن کے باہمی اتصال و وابستگی کے بغیر مبدّل بسکون نہیں ہو سکتا، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی، لیکن کسی تہذیب و تمدّن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدّن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ مانگ، وہ پیاس، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسّر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کر نہ رہیں۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے۔ اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدُّن کا نشو و نما ہوا۔ اس نشو و نما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوئی ہیں مگر وہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں ’’گھر‘‘ کی تاسیس پر مجبور کر دیا گیا۔ کون صاحبِ عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہکار فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقاً سر زد ہو گیا ہے؟ یا بہت سے خدا یہ انتظام کر سکتے تھے کہ اس گہرے حکیمانہ مقصد کو ملحوظ رکھ کر ہزار ہا برس سے مسلسل بے شمار مردوں اور بے شمار عورتوں کو یہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیدا کر تے چلے جائیں؟ یہ تو ایک حکیم اور ایک ہی حکیم کی حکمت کا صریح نشان ہے جسے صرف عقل کے اندھے ہی دیکھنے سے انکار کر سکتے ہیں۔
۲۶: خبردار رہنا چاہیے کہ یہاں سے رکوع کے خاتمہ تک اللہ تعالیٰ کی جو نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں وہ ایک طرف تو اوپر کے سلسلۂ کلام کی مناسبت سے حیاتِ اُخروی کے امکان و وقوع پر دلالت کرتی ہیں، اور دوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ صرف ایک خدا اس کا تنہا خالق، مدبّر، مالک اور فرمانروا ہے جس کے سوا انسانوں کا کوئی معبود نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے تقریر ما سبق اور تقریر مابعد، دونوں کے ساتھ مربوط ہے۔
۳۱: یعنی اُن کا عدم سے وجود میں آنا، اور ایک اٹل ضابطے پر ان کا قائم ہونا، اور بے شمار قوتوں کا ان کے اندر انتہائی تناسُب و توازُن کے ساتھ کام کرنا، اپنے اندر اس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہے کہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اور ایک ہی خالق وجود میں لایا ہے، اور وہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیر کر رہا ہے۔ ایک طرف اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ وہ ابتدائی قوت (Energy ) کہاں سے آئی جس نے مادّے کی شکل اختیار کی، پھر مادّے کے یہ بہت سے عناصر کیسے بنے، پھر ان عناصر کی اس قدر حکیمانہ ترکیب سے اتنی حیرت انگیز مناسبتوں کے ساتھ یہ مدہوش کن نظامِ عالم کیسے بن گیا، اور اب یہ نظام کروڑ ہا کروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانونِ فطرت کی بندش میں کسا ہو ا چل رہا ہے، تو ہر غر متعصب عقل اس نتیجے پر پہنچے گی کہ یہ سب کچھ کسی علیم و حکیم کے غالب ارادے کے بغیر محض بخت و اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری طرح اگر یہ دیکھا جائے کہ زمین سے لے کر کائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کے عناصر سے مرکب ہیں اور ایک ہی قانونِ فطرت ان میں کار فرما ہے تو ہر عقل جو ہٹ دھرم نہیں ہے، بلا شبہہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا اِس پوری کائنات کا خالق اور ربّ ہے۔
۳۲: یعنی با وجود یکہ تمہارے قوائے نطقیہ یکساں ہیں، نہ منہ اور زبان کی ساخت میں کوئی فرق ہے اور نہ دماغ کی ساخت میں، مگر زمین کے مختلف خِطّوں میں تمہاری زبانیں مختلف ہیں، پھر ایک ہی زبان بولنے والے علاقوں میں شہر شہر اور بستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں، اور مزید یہ کہ ہر شخص کا لہجہ اور تلفظ اور طرزِ گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ اِسی طرح تمہارا مادّۂ تخلیق اور تمہاری بناوٹ کا فارمولا ایک ہی ہے، مگر تمہارے رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ قوم اور قوم تو درکنار، ایک ماں باپ کے دو بیٹوں کا رنگ بھی بالکل یکساں نہیں ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر صرف دو ہی چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ لیکن اسی رُخ پر آگے بڑھ کر دیکھیے تو دنیا میں آپ ہر طرح اتنا تنوُّع (Variety ) پائیں گے کہ اس کا احاطہ مشکل ہو جائے گا۔ انسان، حیوان، نباتات اور دوسری تمام اشیاء کی جس نوع کو بھی آپ لے لیں اس کے افراد میں بنیادی یکسانی کے باوجود بے شمار اختلافات موجود ہیں، حتیٰ کہ کسی نوع کا بھی کوئی ایک فرد دوسرے سے بالکل مشابہ نہیں ہے، حتیٰ کہ ایک درخت کے دو پتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز صاف بتا رہی ہے کہ یہ دنیا کوئی ایسا کارخانہ نہیں ہے جس میں خود کار مشینیں چل رہی ہوں اور کثیر پیدا آوری(Mass Production ) کے طریقے پر ہر قسم کی اشیاء کا بس ایک ایک ٹھپّہ ہو جس سے ڈھل ڈھل کر ایک ہی طرح کی چیزیں نکلتی چلی آ رہی ہوں۔ بلکہ یہاں ایک ایسا زبردست کاریگر کام کر رہا ہے جو ہر ہر چیز کو پوری انفرادی توجہ کے ساتھ ایک نئے ڈیزائن، نئے نقش و نگار، نئے تناسُب اور نئے اوصاف کے ساتھ بناتا ہے اور اس کی بنائی ہوئی ہر چیز اپنی جگہ منفرد ہے۔ اس کی قوت ایجاد ہر آن ہر چیز کا ایک نیا ماڈل نکال رہی ہے، اور اس کی صناعی ایک ڈیزائن کو دوسری مرتبہ دوہرانا اپنے کمال کی توہین سمجھتی ہے۔ اس حیرت انگیز منظر کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر دیکھے گا وہ کبھی اس احمقانہ تصور میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک دفعہ اس کارخانے کو چلا کر کہیں جا سویا ہے۔ یہ تو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ہر وقت کارِ تخلیق میں لگا ہوا ہے اور اپنی خلق کی ایک ایک چیز پر انفرادی توجہ صرف کر رہا ہے۔
۳۳: فضل کو تلاش کرنے سے مراد رزق کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا ہے۔ انسان اگرچہ بالعموم رات کو سوتا اور دن کو اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے، لیکن یہ کُلّیہ نہیں ہے۔ بہت سے انسان دن کو بھی سوتے اور رات کو بھی معاش کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسی لیے رات اور دن کا اکٹھا ذکر کر کے فرمایا کہ ان دونوں اوقات میں تم سوتے بھی ہو اور اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہو۔ یہ چیز بھی اُن نشانیوں میں سے ہے جو ایک خالقِ حکیم کی تدبیر کا پتہ دیتی ہیں۔ بلکہ مزید برآں یہ چیز اس بات کی نشان دہی بھی کرتی ہے کہ وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجہ رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اُسے سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے۔ انسان دنیا میں مسلسل محنت نہیں کر سکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے تا کہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔ اس غرض کے لیے خالقِ حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کر دینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے ’’نیند‘‘ کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود، خود بخود ہر چند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آ دبوچتا ہے، چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کر دیتا ہے، اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد خودبخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعاً ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے۔ مزید براں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کُن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیر خواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کر کے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کر کر کے اپنی قوتِ کار کو ہی نہیں، قوتِ حیات تک کو ختم کر ڈالتا۔ پھر رزق کی تلاش کے لیے ’’اللہ کے فضل کی تلاش‘‘ کا لفظ استعمال کر کے نشانیوں کے ایک دوسرے سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آدمی آخر یہ رزق تلاش ہی کہاں کر سکتا تھا اگر زمین و آسمان کی بے حد و حساب طاقتوں کو رزق کے اسباب و ذرائع پیدا کرنے میں نہ لگا دیا گیا ہوتا، اور زمین میں انسان کے لیے رزق کے بے شمار ذرائع نہ پیدا کر دیے گئے ہوتے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ رزق کی یہ تلاش اور اس کا اکتساب اُس صورت میں بھی ممکن نہ ہوتا اگر انسان کو اِس کام کے لیے مناسب ترین اعضاء اور مناسب ترین جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں نہ دی گئی ہوتیں۔ پس آدمی کے اندر تلاشِ رزق کی قابلیت اور اُس کے وجود سے باہر وسائلِ رزق کی موجودگی، صاف صاف ایک ربِّ رحیم و کریم کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔ جو عقل بیمار نہ ہو وہ کبھی یہ فرض نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ اتفاقاً ہو گیا ہے، یا یہ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ ہے، یا کوئی بے درد اندھی قوت اِس فضل و کرم کی ذمّہ دار ہے۔
۳۴: یعنی اس کی گرج اور چمک سے امید بھی بندھتی ہے کہ بارش ہو گی اور فصلیں تیار ہوں گی، مگر ساتھ ہی خوف بھی لاحق ہوتا ہے کہ کہیں بجلی نہ گر پڑے یا ایسی طوفانی بارش نہ ہو جائے جو سب کچھ بہا لے جائے۔
۳۵: یہ چیز ایک طرف حیات بعد الموت کی نشان دہی کرتی ہے، اور دوسری طرف یہی چیز اِ س امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ خدا ہے، اور زمین و آسمان کی تدبیر کرنے والا ایک ہی خدا ہے۔ زمین کی بے شمار مخلوقات کے رزق کا انحصار اُس پیداوار ہر ہے جو زمین سے نکلتی ہے۔ اس پیداوار کا انحصار زمین کی صلاحیتِ بار آوری پر ہے۔ اس صلاحیت کے روبکار آنے کا انحصار بارش پر ہے، خواہ وہ براہِ راست زمین پر برسے ، یا اس کے ذخیرے سطحِ زمین پر جمع ہوں، یا زیر زمین چشموں اور کنوؤں کی شکل اختیار کریں، یا پہاڑوں پر یخ بستہ ہو کر دریاؤں کی شکل میں بہیں۔ پھر اس بارش کا انحصار سورج کی گرمی پر، موسموں کے رد و بدل پر، فضائی حرارت و برودت پر، ہواؤں کی گردش پر، اور اُ س بجلی پر ہے جو بادلوں سے بارش برسنے کی محرک بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بارش کے پانی میں ایک طرح کی قدرتی کھا د بھی شامل کر دیتی ہے۔ زمین سے لے کر آسمان تک کی اِن تمام مختلف چیزوں کے درمیان یہ ربط اور مناسبتیں قائم ہونا، پھر ان سب کا بے شمار مختلف النوع مقاصد اور مصلحتوں کے لیے صریحاً سازگار ہونا، اور ہزاروں لاکھوں برس تک اِن کا پوری ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل سازگاری کرتے چلے جانا، کیا یہ سب کچھ محض اتفاقاً ہو سکتا ہے؟ کیا یہ کسی صانع کی حکمت اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کی غالب تدبیر کے بغیر ہو گیا ہے؟ اور کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ زمین، سورج، ہوا، پانی، حرارت، برودت، اور زمین کی مخلوقات کا خالق اور ربّ ایک ہی ہے؟
۳۶: یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ اُس کے حکم سے ایک دفعہ وجود میں آ گئے ہیں، بلکہ ان کا مسلسل قائم رہنا اور ان کے اندر ایک عظیم الشان کارگاہِ ہستی کا پیہم چلتے رہنا بھی اسی کے حکم کی بدولت ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اگر اس کا حکم انہیں بر قرار نہ رکھے تو یہ سارا نظام یک لخت درہم برہم ہو جائے۔
۳۷: یعنی کائنات کے خالق و مدبر کے لیے تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا کوئی ایسا بڑا کام نہیں ہے کہ اُسے اِس کے لیے بہت بڑی تیاریاں کرنی ہوں گی، بلکہ اس کی صرف ایک پکار اِس کے لیے بالکل کافی ہو گی کہ آغازِ آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب ایک ساتھ زمین کے ہر گوشے سے نِکل کھڑے ہوں۔
۳۸: یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنا اگر اُس کے لیے مشکل نہ تھا، تو آخر تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا؟ پہلی مرتبہ کی پیدائش میں تو تم خود جیتے جاگتے موجود ہو۔ اس لیے اس کا مشکل نہ ہونا تو ظاہر ہے۔ اب یہ بالکل سیدھی سادھی عقل کی بات ہے کہ ایک دفعہ جس نے کسی چیز کو بنایا ہو اس کے لیے وہی چیز دوبارہ بنانا نسبتًہ زیادہ ہی آسان ہونا چاہیے۔
ترجمہ
وہ تمہیں ۳۹ خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے۔ کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟۴۰ –۔۔۔۔ اس طرح ہم آیا ت کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو۔۴۱ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔ ۴۲ پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروو) یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین۴۳ کی سمت میں جمادو،۴۴ قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے،۴۵ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی،۴۶ یہی بالکل راست اور درست دین ہے،۴۷ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (قائم ہو جاؤ اس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے،۴۸ اور ڈرو اس سے ۴۹ اور نماز قائم کرو،۵۰ اور نہ ہو جاؤ ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا دیا ہے او گروہوں میں بٹ گئے ہیں،ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔۵۱ لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتے ہیں،۵۲ پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انھیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں ۵۳ تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں۔ اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟۵۴
جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔۵۵ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے(جس کا چاہتا ہے)۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔۵۶ پس (اے مومن)رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق) ۵۷۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔۵۸ جو سُود تم دیتے ہو تا کہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا،۵۹ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کر نے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔۶۰ ۶۱اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا،۶۲ پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟۶۳ پاک ہے وہ اور بہت بالا و بر تر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ؏۴
تفسیر
۳۹: یہاں تک توحید اور آخرت کا بیان مِلا جُلا چل رہا تھا۔ اس میں جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان کے اندر توحید کے دلائل بھی ہیں اور وہی دلائی یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آخرت کا آنا غیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد آگے خالص توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے۔
۴۰: مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اس کی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اُس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھیراتے تھے، اور ان سے دعائیں مانگتے، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے۔ اِن بناوٹی شریکوں کے بارے میں اُن کا اصل عقیدہ اُس تَلبِیْہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانۂ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبّیک اللّٰہم لبّیک لَا شریک لک الّا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک (طَبَرانی عن ابن عباس)۔ ’’میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اُس شریک کے جو تیرا اپنا ہے، تو اُس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اُس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اِسی شرک کی تردید فرما رہا ہے۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقاً تمہاری غلامی میں آ گئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پا سکتے، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اُس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھیراتے ہو۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النَّحل، حاشیہ ۶۲)۔
۴۱: یعنی جب کوئی شخص سیدھی سیدھی عقل کی بات نہ خود سوچے اور نہ کسی کے سمجھانے سے سمجھنے کے لیے تیار ہو تو پھر اس کی عقل پر اللہ کی پھٹکار پڑ جاتی ہے اور اس کے بعد ہر وہ چیز جو کسی معقول آدمی کو حق بات تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے، وہ اس ضدی جہالت پسند انسان کو الٹی مزید گمراہی میں مبتلا کر تی چلی جاتی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے ’’بھٹکانے‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ راستی پسند انسان جب اللہ سے ہدایت کی توفیق طلب کرتا ہے تو اللہ اس کی طلبِ صادق کے مطابق اس کے لیے زیادہ سے زیادہ اسبابِ ہدایت پیدا فرما دیتا ہے۔ اور گمراہی پسند انسان جب گمراہ ہی ہونے پر اصرار کرتا ہے تو پھر اللہ ا س کے لیے وہی اسباب پیدا کرتا چلا جاتا ہے جو اسے بھٹکا کر روز بروز حق سے دور لیے چلے جاتے ہیں۔
۴۲: یہ ’’پس‘‘ اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پر کھل چکی، اور تم کو معلوم ہو گیا کہ اس کائنات کا اور خود انسان کا خالق و مالک اور حاکم ذی اختیار ایک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے تو اس کے بعد لا محالہ تمہارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے۔
۴۳: اِس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے، جس میں بندگی، عبادت، اور طاعت کا مستحق اللہ وحدہُ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے، جس میں الُوہیّت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعاً کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ٹھیرایا جاتا، جس میں انسان اپنی رضا و رغبت سے اس بات کی پابندی اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کر ے گا۔
۴۴: ’’یک سو ہو کر اپنا رُخ اِس طرف جما دو‘‘، یعنی پھر کسی اور طرف کا رُخ نہ کرو۔ زندگی کے لیے اِس راہ کو اختیار کر لینے کے بعد پھر کسی دوسرے راستے کی طرف التفات تک نہ ہونے پائے۔ پھر تمہاری فکر اور سوچ ہو تو مسلمان کی سی اور تمہاری پسند اور ناپسند ہو تو مسلمان کی سی۔ تمہاری قدریں اور تمہارے معیار ہوں تو وہ جو اسلام تمہیں دیتا ہے، تمہارے اخلاق اور تمہاری سیرت و کردار کا ٹھپّہ ہو تو اُس طرح کا جو اسلام چاہتا ہے، اور تمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات چلیں تو اُس طریقے پر جو اسلام نے تمہیں بتایا ہے۔
۴۵: یعنی تمام انسان اِس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی ربّ اور کوئی معبود اور مُطاعِ حقیقی ایک اللہ کے سوا نہیں ہے۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہو جانا چاہیے۔ اگر خود مختاری کا رویہ اختیار کرو گے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے اور اگر بندگی ٔ غیر کا طوق اپنے گلے میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے۔ اس مضمون کو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ما من مولود یولد الا علی الفطرۃ فا بواہ یھودانہ او ینصر انہ او یمجسانہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء، ھل تحسون فیھا من جد عاء۔ یعنی ہر بچہ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے، اصل انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم جانور برآمد ہوتا ہے، کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں۔ مُسند احمد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ما بال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتیٰ قتلو ا الذُّرّیّۃ، ’’لوگوں کو کیا ہو گیا کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے؟ فرمایا انما خیارکم ابناء المشرکین، ’’تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو اولاد ہیں۔‘‘ پھر فرمایا کل نسمۃ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فا بوا ھا یھود انھا او ینصر انھا، ’’ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث جو امام احمد ؒ نے عیاض بن حمار المُجاشِعی سے نقل کی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلہم و انھم اتتھم الشیاطین فاضلتہم عن دینہم و حَرَّ مَتْ علیہم ما احللتُ لھم و اَمَرَتْھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہٖ سُلطانا۔ ’’میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا، پھر شیاطین نے آ کر انہیں ان کے دین سے گمراہ کیا، اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا، اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ اُن چیزوں کو شریک ٹھیرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔‘‘
۴۶: یعنی خدا نے انسان کو اپنا بندہ بنایا ہے اور اپنی ہی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی۔ نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتا ہے، نہ کسی غیر خدا کو خدا بنا لینے سے وہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتا ہے۔ انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنا بیٹھے، لیکن یہ امرِ واقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے۔ انسان اپنی حماقت اور جہالت کی بنا پر جس کو بھی چاہے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے لے اور جسے بھی چاہے اپنی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ بیٹھے، مگر حقیقتِ نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل ہیں نہ اس کے اختیارات، اور نہ کسی دوسرے کے پاس یہ طاقت ہے کہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے۔ ایک دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے۔‘‘ یعنی اللہ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے اس کو بگاڑنا اور مسخ کرنا درست نہیں ہے۔
۴۷: یعنی فطرتِ سلیمہ پر قائم رہنا ہی سیدھا اور صحیح طریقہ ہے۔
۴۸: اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی و خود مختاری کا رویّہ اختیار کر کے اپنے مالکِ حقیقی سے انحراف کیا ہو، یا جس نے بھی بندگی ِٔ غیر کا طریقہ اختیار کر کے اپنے اصلی و حقیقی ربّ سے بے وفائی کی ہو، وہ اپنی اس رو ش سے باز آ جائے اور اُسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیدا ہو ا ہے۔
۴۹: یعنی تمہاری دل میں اس بات کا خوف ہونا چاہیے کہ اگر اللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کے مقابلے میں خود مختاری کا رویہ اختیار کیا، یا اس کے بجائ ے کسی اور کی بندگی کی تو اِس غداری و نمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہو گی۔ اس لیے تمہیں ایسی ہر روش سے بچنا چاہیے جو تم کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہو۔
۵۰: اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کے غضب کا خوف، دونوں قلب کے افعال ہیں۔ اس قلبی کیفیت کو اپنے ظہور اور اپنے استحکام کے لیے لازماً کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہے جس سے خارج میں بھی ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے، اور آدمی کے اپنے نفس میں بھی اِس رجوع و تقویٰ کی کیفیت کو ایک عملی مُمارَست کے ذریعہ سے پے در پے نشو و نما نصیب ہوتا چلا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اُس ذہنی تبدیلی کا حکم دینے کے بعد فوراً ہی اِس جسمانی عمل، یعنی اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی حد تک رہتا ہے، اس میں استحکام اور پائیداری نہیں ہوتی۔ اُس خیال کے ماند پڑ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے اور بدل جانے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ اُس کے مطابق کام کرنے لگتا ہے تو وہ خیال اس کے اندر جڑ پکڑ لیتا ہے، اور جوں جوں وہ اس پر عمل کر تا جاتا ہے، اس کا استحکام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس عقیدہ و فکر کا بدل جانا یا ماند پڑ جانا مشکل سے مشکل تر ہو تا جاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو رجوع الی اللہ اور خوفِ خدا کو مستحکم کر نے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے۔ کیونکہ دوسرا جو عمل بھی ہو، اُس کی نوبت دیر دیر میں آتی ہے یا متفرق صورتوں میں مختلف مواقع پر آتی ہے۔ لیکن نماز ایک ایسا عمل ہے جو ہر چند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کو دائماً کرنا ہوتا ہے، اور اس میں ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق، جو قرآن نے اسے پڑھایا ہے، آدمی کو بار بار دُہرانا ہوتا ہے تاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے۔ مزید براں کفار اور اہل ایمان، دونوں پر یہ ظاہر ہونا ضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سے کس کس نے بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعتِ رب کی روش اختیار کر لی ہے۔ اہلِ ایمان پر اِس کا ظہور اس لیے درکار ہے کہ ان کی ایک جماعت اور سوسائٹی بن سکے اور وہ خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں اور ایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کا تعلق ڈھیلا پڑنا شروع ہو اسی وقت کوئی کھلی علامت فوراً ہی تمام اہل ایمان کو اس کی حالت سے باخبر کر دے۔ کفار پر اِس کا ظہور اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر کی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کو خداوندِ حقیقی کی طرف بار بار پلٹتے دیکھ کر جاگ سکے ، اور جب تک وہ نہ جاگے ان پر خدا کے فرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کر دہشت طاری ہو تی رہے۔ ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامتِ صلوٰۃ ہی سب سے زیادہ موزوں ذریعہ ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ کا یہ حکم مکّۂ معظمہ کے اُس دَور میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھر جماعت کفارِ قریش کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کے بعد بھی ۹ برس تک پستی رہی۔ اُس وقت دُور دُور بھی کہیں اسلامی حکومت کا نام و نشان نہیں تھا۔ اگر نماز اسلامی حکومت کے بغیر بے معنی ہوتی، جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں، یا اقامتِ صلوٰۃ سے مراد نماز قائم کرنا سرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ ’’نظامِ ربوبیت‘‘ چلانا ہوتا، جیسا کہ منکرینِ سنت کا دعویٰ ہے، تو اس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ حکم آنے کے بعد ۹ سال تک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمان اِس حکم کی تعمیل آخر کس طرح کرتے رہے؟
۵۱: یہ اشارہ ہے اِس چیز کی طرف کہ نوعِ انسانی کا اصل دین وہی دینِ فطرت ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دین مشرکانہ مذاہب سے بتدریج ارتقاء کرتا ہوا توحید تک پہنچا ہے، جیسا کہ قیاس و گمان سے ایک فلسفۂ مذہب گھڑ لینے والے حضرات سمجھتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس یہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب کے سب اُس اصلی دین میں بگاڑ آنے سے رونما ہوئے ہیں۔ اور یہ بگاڑ اس لیے آیا ہے کہ مختلف لوگوں نے فطری حقائق پر اپنی اپنی نَو ایجاد باتوں کا اضافہ کر کے اپنے الگ دین بنا ڈالے اور ہر ایک اصل حقیقت کے بجائے اُس اضافہ شدہ چیز کا گرویدہ ہو گیا جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہو کر ایک مستقل فرقہ بنا تھا۔ اب جو شخص بھی ہدایت پا سکتا ہے وہ اِسی طرح پا سکتا ہے کہ اُس اصل حقیقت کی طرف پلٹ جائے جو دینِ حق کی بنیاد تھی، اور بعد کے ان تمام اضافوں سے اور ان کے گرویدہ ہونے والے گروہوں سے دامن جھاڑ کر بالکل الگ ہو جائے۔ ان کے ساتھ ربط کا جو رشتہ بھی وہ لگائے رکھے گا وہی دین میں خلل کا موجب ہو گا۔
۴۰: مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اس کی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اُس کی مخلوقات میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھیراتے تھے، اور ان سے دعائیں مانگتے، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے۔ اِن بناوٹی شریکوں کے بارے میں اُن کا اصل عقیدہ اُس تَلبِیْہ کے الفاظ میں ہم کو ملتا ہے جو خانۂ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے تھے۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبّیک اللّٰہم لبّیک لَا شریک لک الّا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک (طَبَرانی عن ابن عباس)۔ ’’میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اُس شریک کے جو تیرا اپنا ہے، تو اُس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اُس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اِسی شرک کی تردید فرما رہا ہے۔ تمثیل کا منشا یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقاً تمہاری غلامی میں آ گئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پا سکتے، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اُس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھیراتے ہو۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النَّحل، حاشیہ ۶۲)۔
۵۲: یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔ امیدوں کے سہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں، ان کا دل خود ہی اندر سے پکارنے لگتا ہے کہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہے اور اسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔
۵۳: یعنی پھر دوسرے معبودوں کی نذریں اور نیازیں چڑھنی شروع ہو جاتی ہیں اور کہا جانے لگتا ہے کہ یہ مصیبت فلاں حضرت کے طفیل اور فلاں آستانے کے صدقے میں ٹلی ہے۔
۵۴: یعنی آخر کسی دلیل سے ان لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ بلائیں خدا نہیں ٹالتا بلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں؟ کیا عقل اس کی شہادت دیتی ہے؟ یا کوئی کتابِ الہٰی ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ میں اپنے خدائی کے اختیارات فلاں فلاں حضرتوں کو دے چکا ہوں اور اب وہ تم لوگوں کے کام بنایا کریں گے؟
۵۵: اوپر کی آیت میں انسان کی جہالت و حماقت اور اس کی ناشکری و نمک حرامی پر گرفت تھی۔ اِس آیت میں اس کے چھچھورے پن اور کم ظرفی پر گرفت کی گئی ہے۔ اِس تھُڑدلے کو جب دنیا میں کچھ دولت، طاقت، عزت نصیب ہو جاتی ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اِس کا کام خوب چل رہا ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ میرے ہی کچھ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو مجھے وہ کچھ میسر ہُوا جس سے دوسرے محروم ہیں۔ اس غلط فہمی میں فخر و غرور کا نشہ اس پر ایسا چڑھتا ہے کہ پھر یہ نہ خدا کو خاطر میں لاتا ہے نہ خلق کو۔ لیکن جونہی کہ اقبال نے منہ موڑا اِس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور بدنصیبی کی ایک ہی چوٹ اس پر دل شکستگی کی وہ کیفیت طاری کر دیتی ہے ج میں یہ ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کر گزرتا ہے، حتیٰ کہ خود کشی تک کر جاتا ہے۔
۵۶: یعنی اہل ایمان اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ کفر و شرک کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے، اور ا س کے برعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیا ہیں۔ جو شخص سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کو رزق کے خزانوں کا مالک سمجھتا ہو، وہ کبھی اُس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہو سکتا جس میں خدا کو بھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اُسے کشادہ رزق ملے تو پھولے گا نہیں، شکر کرے گا، خلقِ خدا کے ساتھ تواضع اور فیاضی سے پیش آئے گا، اور خدا کا مال خدا کی راہ میں صرف کرنے سے ہر گز دریغ نہ کرے گا۔ تنگی کے ساتھ رزق ملے، یا فاقے ہی پڑ جائیں، تب بھی صبر سے کام لے گا، دیانت و امانت اور خود داری کو ہاتھ سے نہ دے گا، اور آخرت تک خدا سے فضل و کرم کی آس لگائے رہے گا۔ یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کو نصیب ہو سکتی ہے اور نہ مشرک کو۔
۵۷: یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو خیرات دے۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اُس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پانے کے یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے، اور تو کوئی بڑی ہستی ہے دان کرنے والی، اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال اُن دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے ہے یا نہیں۔ اس ارشاد الہٰی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت (Free Economy ) کی موجودگی ناگزیر ہے۔ یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوقِ ملکیت ساقط کر دیے جائیں، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہو جائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے، حتیٰ کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کر دے سکے ، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبۂ خیر سگالی پرورش کر سکے۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظامِ تمدّن و معیشت، جسے آج کل ہمارے ملک میں ’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘ کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جا رہا ہے، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کے نشوونما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعاً بند ہو جاتا ہے۔ قرآن کی اسکیم تو اُسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائلِ دولت کے مالک ہوں، اُن پر آزادانہ تصرّف کے اختیارات رکھتے ہوں، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں۔ اِسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم و شفقت، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلیٰ اوصاف پیدا ہوں، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی، احسان مندی، اور جزاء الاحسان بالاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہو جائے جس میں بدی کا رُکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی ٔ نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں۔
۵۸: یہ مطلب نہیں ہے کہ فلاح صرف مسکین اور مسافر اور رشتہ دار کا حق ادا کر دینے سے حاصل ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی چیز حصُول فلاح کے لیے درکار نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اِن حقوق کو نہیں پہچانتے اور نہیں ادا کرتے وہ فلاح پانے والے نہیں ہیں، بلکہ فلاح پانے والے وہ ہیں جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ حقوق پہچانتے اور ادا کرتے ہیں۔
۵۹: قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت میں نازل ہوئی۔ اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ تو سو د یہ سمجھتے ہوئے دیتے ہو کہ جس کو ہم یہ زائد مال دے رہے ہیں اس کی دولت بڑھی گی، لیکن درحقیقت اللہ کے نزدیک سود سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ آگے چل کر جب مدینۂ طیبہ میں سود کی حرمت کا حکم نازل کیا گیا تو اس پر مزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبوٰ وَ یُرْ بِی الصَّدَقٰتِ، ’’ اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘ (بعد کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران، آیت ۱۳۰۔ البقرہ، آیات ۲۷۵ تا ۲۸۱)۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربوٰ سے مراد وہ سود نہیں ہے جو شرعاً حرام کیا گیا ہے، بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اِس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں ا س سے زیادہ واپس کرے گا، یا مُعطی کے لیے کوئی مفید خدمت انجام دے گا، یا اس کا خوشحال ہو جانا معطی کی اپنی ذات کے لیے نافع ہو گا۔ یہ ابنِ عباسؓ، مجاہدؓ، ضحاکؓ، قتادَہ، عِکْرِمَہ، محمد بن کَعْب القُر َظِی اور شَعبی کا قول ہے۔ اور غالباً یہ تفسیر اِن حضرات نے اس بنا پر فرمائی ہے کہ آیت میں اِس فعل کا نتیجہ صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس دولت کو کوئی افزائش نصیب نہ ہو گی، حالانکہ اگر معاملہ اُس سود کا ہوتا جسے شریعت نے حرام کیا ہے تو مثبت طور پر فرمایا جاتا کہ اللہ کے ہاں اس پر سخت عذاب دیا جائے گا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں اس سے مراد وہی معروف ربوٰ ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے حضرت حس بصری اور سُدِّی کی ہے اور علامۂ آلوسی کا خیال ہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے، کیونکہ عربی زبان میں ربوٰ کا لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی تاویل کو مفسر نیسابوری نے بھی اختیار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیر صحیح ہے، اس لیے کہ معروف معنی کو چھوڑنے کے لیے وہ دلیل کافی نہیں ہے جو اوپر تفسیرِ اول کے حق میں بیان ہوئی ہے۔ سورۂ روم کا نزول جس زمانے میں ہوا ہے اُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ یہ اعلان اس کے کئی برس بعد ہُوا ہے۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو بعد میں کسی وقت حرام کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے وہ پہلے سے ذہنوں کو تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔شراب کے معاملے میں بھی پہلے صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے (النحل آیت ۶۷)، پھر فرمایا کہ اس کا گناہ اس کے فائدے سے زیادہ ہے (البقرہ ۲۱۹)، پھر حکم دیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ (النساء ۴۳)، پھر اس کی قطعی حر مت کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اسی طرح یہاں سود کے متعلق صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ یہ وہ چیز نہیں ہے جس سے دولت کی افزائش ہوتی ہو، بلکہ حقیقی افزائشِ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد سود در سود کو منع کیا گیا (آل عمران، آیت ۱۳۰)۔ اور سب سے آخر میں بجائے خود سود ہی کی قطعی حرمت کا فیصلہ کر دیا گیا (البقرہ، آیت ۵)۔
۶۰: اس بڑھوتری کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جتنی خالص نیت اور جتنے گہرے جذبۂ ایثار اور جس قدر شدید طلب رضائے الہٰی کے ساتھ کوئی شخص راہِ خدا میں مال صرف کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ سے زیادہ اجر دے گا۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص راہِ خدا میں ایک کھجور بھی دے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر اُحد پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔
۶۱: یہاں سے پھر کفار و مشرکین کو سمجھانے کے لیے سلسلۂ کلام توحید و آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے۔
۵۶: یعنی اہل ایمان اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ کفر و شرک کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے، اور ا س کے برعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیا ہیں۔ جو شخص سچے دل سے خدا پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کو رزق کے خزانوں کا مالک سمجھتا ہو، وہ کبھی اُس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہو سکتا جس میں خدا کو بھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ اُسے کشادہ رزق ملے تو پھولے گا نہیں، شکر کرے گا، خلقِ خدا کے ساتھ تواضع اور فیاضی سے پیش آئے گا، اور خدا کا مال خدا کی راہ میں صرف کرنے سے ہر گز دریغ نہ کرے گا۔ تنگی کے ساتھ رزق ملے، یا فاقے ہی پڑ جائیں، تب بھی صبر سے کام لے گا، دیانت و امانت اور خود داری کو ہاتھ سے نہ دے گا، اور آخرت تک خدا سے فضل و کرم کی آس لگائے رہے گا۔ یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کو نصیب ہو سکتی ہے اور نہ مشرک کو۔
۶۲: یعنی زمین میں تمہارے رزق کے لیے جملہ و سائل فراہم کیے اور ایسا انتظام کر دیا کہ رزق کی گردش سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ حصّہ پہنچ جائے۔
۶۳: یعنی اگر تمہارے بنائے ہوئے معبودوں میں سے کوئی بھی نہ پیدا کرنے والا ہے، نہ رزق دینے والا، نہ موت و زیست اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، اور نہ مر جانے کے بعد وہ کسی کو زندہ کر دینے پر قادر ہے، تو آخر یہ لوگ ہیں کس مرض کی دوا کہ تم نے اِنہیں معبُود بنا لیا؟
ترجمہ
خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزّہ چکھائے اُن کو اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔۶۴ (اے نبیؐ )ان سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گُزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہو چکا ہے، ان میں اکثر مشرک ہی تھے۔۶۵ پس (اے نبیؐ )اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اِس دینِ راست کی سمت میں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صُورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔۶۶ اُس دن لوگ پھٹ کر ایک دُوسرے سے الگ ہو جائیں گے۔ جس نے کُفر کیا ہے اُس کے کُفر کا وبال اُسی پر ہے۔۶۷ اور جن لوگوں نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے فلاح کا راستہ صاف کر رہے ہیں تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے۔ یقیناً وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے۶۸ اور تمہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرنے کے لیے اور اِس غرض کے لیے کہ کشتیاں اُس کے حکم سے چلیں۶۹ اور تم اُس کا فضل تلاش کرو۷۰ اور اُس کے شکر گزار بنو۔اور ہم نے تُم سے پہلے رسُولوں کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے،۷۱ پھر جنہوں نے جُرم کیا۷۲ اُن سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں۔ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اُٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور اُنہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں ٹپکے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے۔ دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جِلا اُٹھاتا ہے،۷۳ یقیناً وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں جس کے اثر سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں۷۴ تو وہ کُفر کرتے رہ جاتے ہیں۔۷۵ (اے نبیؐ )تم مُردوں کو نہیں سُنا سکتے،۷۶ نہ اُن بہروں کو اپنی پُکار سُنا سکتے ہو جو پیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہوں۷۷ اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر راہِ راست دکھا سکتے ہو۔۷۸ تم تو صرف اُنہی کو سُنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے اور سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ ؏۵
تفسیر
۶۴: اس بڑھوتری کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جتنی خالص نیت اور جتنے گہرے جذبۂ ایثار اور جس قدر شدید طلب رضائے الہٰی کے ساتھ کوئی شخص راہِ خدا میں مال صرف کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ سے زیادہ اجر دے گا۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اگر ایک شخص راہِ خدا میں ایک کھجور بھی دے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر اُحد پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔
۶۵: یعنی روم و ایران کی تباہ کن جنگ آج کوئی نیا حادثہ نہیں ہے۔ پچھلی تاریخ بڑی بڑی قوموں کی تباہی و بربادی کے ریکارڈ سے بھری ہوئی ہے۔ اور ان سب قوموں کو جن خرابیوں نے برباد کیا اُن سب کی جڑ یہی شرک تھا جس سے باز آنے کے لیے آج تم سے کہا جا رہا ہے۔
۶۶: یعنی کس کو نہ اللہ تعالیٰ خود ٹالے گا اور نہ اس نے کسی کے لیے ایسی کسی تدبیر کی کوئی گنجائش چھوڑی ہے کہ وہ اسے ٹال سکے۔
۶۷: یہ ایک جامع فقرہ ہے جو تمام اُن مضرتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے جو کافر کو اپنے کفر کی بدولت پہنچ سکتی ہیں۔ مضرتوں کی کوئی مفصل فہرست بھی اتنی جامع نہیں ہو سکتی۔
۶۸: یعنی بارانِ رحمت کی خوشخبری دینے کے لیے۔
۶۹: یہ ایک اور قسم کی ہواؤں کا ذکر ہے جو جہاز رانی میں مددگار ہوتی ہیں۔ قدیم زمانہ کی بادبانی کشتیوں اور جہازوں کا سفر زیادہ تر بادِ موافق پر منحصر تھا اور بادِ مخالف ان کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوتی تھی۔ اس لیے بارش لانے والی ہواؤں کے بعد ان ہواؤں کا ذکر ایک نعمتِ خاص کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔
۷۰: یعنی تجارت کے لیے سفر کرو۔
۷۱: یعنی ایک قسم کی نشانیاں تو وہ ہیں جو کائناتِ فطرت میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، جن سے انسان کو اپنی زندگی میں ہر آن سابقہ پیش آتا ہے، جن میں سے ایک ہواؤں کی گردش کا یہ نظام ہے جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو انبیاء علیہم السلام معجزات کی صورت میں، کلامِ الہٰی کی صورت میں، اپنی غیر معمولی پاکیزہ سیرت کی شکل میں، اور انسانی معاشرے پر اپنی حیات بخش تاثیرات کی شکل میں لے کر آئے۔ یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتی ہیں، اور وہ یہ ہے کہ جس توحید کی تعلیم انبیاء دے رہے ہیں وہی بر حق ہے۔ ان میں سے ہر نشانی دوسری کی مؤیِّد ہے۔ کائنات کی نشانیاں انبیاء کے بیان کی صداقت پر شہادت دیتی ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی نشانیاں اُس حقیقت کو کھولتی ہیں جس کی طرف کائنات کی نشانیاں اشارے کر رہی ہیں۔
۷۲: یعنی جو لوگ ان دونوں نشانیوں کی طرف سے اندھے بن کر توحید سے انکار پر جمے رہے اور خدا سے بغاوت ہی کیے چلے گئے۔
۷۳: یہاں جس انداز سے نبوت اور بارش کا ذکر یکے بعد دیگرے کیا گیا ہے اس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لے ویسی ہی رحمت ہے جیسی بارش کی آمد اس کی مادّی زندگی کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہے۔ جس طرح آسمانی بارش کے نزول سے مردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اُٹھتی ہے اور اس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں، اسی طرح آسمانی وحی کا نزول اخلاق و روحانیت کی ویران پڑی ہوئی دنیا کو جِلا اُٹھاتا ہے اور اس میں فضائل و محامد کے گلزار لہلہانے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کفار کی اپنی بد قسمتی ہے کہ خدا کی طرف سے یہ نعمت جب ان کے ہاں آتی ہے تو وہ اس کا کفران کرتے ہیں اور اس کو اپنے لیے مژدۂ رحمت سمجھنے کے بجائے پیامِ موت سمجھ لیتے ہیں۔
۷۴: یعنی بارانِ رحمت کے بعد جب کھیتیاں سر سبز ہو چکی ہوں اور اس وقت اگر کوئی ایسی سخت سرد یا سخت گرم ہوا چل پڑے جو ہری بھری فصلوں کو جلا کر رکھ دے۔
۷۵: یعنی پھر وہ خدا کو کوسنے لگتے ہیں اور اس پر الزام رکھنے لگتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی مصیبتیں ہم پر ڈال رکھی ہیں۔ حالانکہ جب خدا نے ان پر نعمت کی بارش کی تھی اس وقت انہوں نے شکر کے بجائے اس کی ناقدری کی تھی۔ یہاں پھر ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ جب خدا کے رسول اس کی طرف سے پیامِ رحمت لاتے ہیں تو لوگ ان کی بات نہیں مانتے اور اس نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ پھر جب ان کے کفر کی پاداش میں خدا ان پر ظالموں اور جبّاروں کو مسلّط کر دیتا ہے اور وہ جو رو ستم کی چکی میں انہیں پیستے ہیں اور جوہرِ آدمیت کا قلع قمع کر ڈالتے ہیں تو وہی لوگ خد ا کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور اسے الزام دیتے ہیں کہ اس نے یہ کیسی ظلم سے بھری ہوئی دنیا بنا ڈالی ہے۔
۷۶: یہاں مُردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر مر چکے ہیں، جن کے اندر اخلاقی زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی ہے، جن کی بندگی ٔ نفس اور ضد اور ہٹ دھرمی نے اُس صلاحیت ہی کا خاتمہ کر دیا ہے جو آدمی کو حق بات سمجھنے اور قبول کرنے کے قابل بناتی ہے۔
۷۷: بہروں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دلوں پر ایسے قفل چڑھا رکھے ہیں کہ سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہیں سنتے۔ پھر جب ایسے لوگ یہ کوشش بھی کریں کہ دعوتِ حق کی آواز سرے سے ان کے کان میں پڑنے ہی نہ پائے، اور داعی کی شکل دیکھتے ہی دور بھاگنا شروع کر دیں تو ظاہر ہے کہ کوئی انہیں کیا سنائے اور کیسے سنائے؟
۷۸: یعنی نبی کا کام یہ تو نہیں ہے کہ اندھوں کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ساری عمر راہِ راست پر چلاتا رہے۔ وہ تو راہِ راست کی طرف رہنمائی ہی کر سکتا ہے۔ مگر جن لوگوں کی ہِیے کی آنکھیں پھوٹ چکی ہوں اور جنہیں وہ راستہ نظر ہی نہ آتا ہو جو نبی انہیں دکھانے کی کوشش کرتا ہے، ان کی رہنمائی کر نا نبی کے بس کا کام نہیں ہے۔
ترجمہ
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوّت بخشی، پھر اس قوّت کے بعد تمہیں ضعیف اور بُوڑھا کر دیا۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔۷۹ وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور جب وہ ساعت برپا ہو گی۸۰ تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں،۸۱ اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔۸۲ مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم روزِ حشر تک پڑے رہے ہو، سو یہ وہی روزِ حشر ہے، لیکن تم جانتے نہ تھے۔ پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ اُن سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔۸۳
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے۔ تم خواہ کوئی نشانی لے آؤ جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ یہی کہیں گے کہ تم باطل پر ہو۔ اِس طرح ٹھپّہ لگا دیتا ہے اللہ ان لوگوں کے دلوں پر جو بے علم ہیں۔ پس (اے نبیؐ )صبر کرو، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے،۸۴ اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔۸۵ ؏۶
تفسیر
۷۹: یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا، یہ ساری حالتیں اسی کی پیدا کردہ ہیں۔ یہ اسی کی مشیت پر موقوف ہے کہ جسے چاہے کمزور پیدا کرے اور جس کو چاہے طاقت ور بنائے، جسے چاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنے دے اور جس کو چاہے جوانا مرگ کر دے، جسے چاہے لمبی عمر دے کر بھی تندرست و توانا رکھے اور جس کو چاہے شاندار جوانی کے بعد بڑھاپے میں، اس طرح ایڑیاں رگڑوائے کہ دنیا اسے دیکھ کر عبرت کرنے لگے۔ انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتا رہے مگر خدا کے قبضۂ قدرت میں وہ اِس طرح بے بس ہے کہ جو حالت بھی خدا اس پر طاری کر دے اسے وہ اپنی کسی تدبیر سے نہیں بد ل سکتا۔
۸۰: یعنی قیامت جس کے آنے کے خبر دی جا رہی ہے۔
۸۱: یعنی مرنے کے وقت سے قیامت کی اُس گھڑی تک۔ ان دونوں ساعتوں کے درمیان چاہے دس بیس ہزار برس ہی گزر چکے ہوں، مگر وہ یہ محسوس کریں گے کہ چند گھنٹے پہلے ہم سوئے تھے اور اب اچانک ایک حادثہ نے ہمیں جگا اُٹھایا ہے۔
۸۲: یعنی ایسے ہی غلط اندازے یہ لوگ دنیا میں بھی لگاتے ہیں۔ وہاں بھی یہ حقیقت کے ادراک سے محروم تھے، اسی وجہ سے یہ حکم لگایا کرتے تھے کہ کوئی قیامت ویامت نہیں آنی، مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں، اور کسی خدا کے سامنے حاضر ہو کر ہمیں حساب نہیں دینا۔
۸۳: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے ’’نہ ان سے یہ چاہا جائے گا کہ اپنے ربّ کو راضی کرو،‘‘ اس لیے کہ توبہ اور ایمان اور عملِ صالح کی طرف رجوع کرنے کے سارے مواقع کو وہ کھو چکے ہوں گے اور امتحان کا وقت ختم ہو کر فیصلے کی گھڑی آ چکی ہو گی۔
۸۰: یعنی قیامت جس کے آنے کے خبر دی جا رہی ہے۔
۸۵: یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ، یا ان کی بہتان و افترا کی مہم سے تم مرعوب ہو جاؤ، یا ان کی پھبتیوں اور طعنوں اور تضحیک و استہزاء سے تم پست ہم ت ہو جاؤ، یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم و ستم سے تم ڈر جاؤ، یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ، یا قومی مفاد کے نام پر جو اپیلیں وہ تم سے کر رہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کر لینے پر اتر آؤ۔ اس کے بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند، اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ، اور اپنے عزم میں اتنا راسخ، اور اپنے کیرکٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جا سکے ، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جا سکے ، نہ کسی فریب سے تم کو پھُسلایا جا سکے ، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے ، اور نہ دین کے معاملہ میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جا سکے۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالیٰ کے کلام بلاغت نظام نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ ’’یہ بے یقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں۔‘‘ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا اللہ اپنے آخری نبی کو بھاری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا۔ آپ سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیتِ عظمیٰ نے وہ انقلاب برپا کر کے دکھا دیا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کر دی اور اپنے سارے حربے استعمال کر ڈالے۔
٭٭٭
۳۱۔ سورۃ القمان
نام
اس سورہ کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کو دبانے اور روکنے کے لئے جبر و ظلم کا آغاز ہو چکا تھا اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفانِ مخالفت نے پوری شدت اختیار نہ کی تھی۔ اس کی نشان دہی آیت ۱۴۔ ۱۵ سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق تو بے شک خدا کے بعد سب سے نہ مانو یہی بات سورۂ عنکبوت میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دَور میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن دونوں کے مجموعی انداز بیان اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے، اس لیے کہ اس کے پس منظر میں کسی شدید مخالفت کا نشان نہیں ملتا، اور اس کے برعکس سورۂ عنکبوت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانہ میں مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم ہو رہا تھا۔
موضوع و مضمون
اس سورہ میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم خداوندِ عالم کی طرف سے پیش کر رہے ہیں، اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کر ہر طرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیارِ عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہہ رہے ہیں۔ تمہارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمہارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمہارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خود دیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ا لم۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں (۱)،
ہدایت اور رحمت نیکو کار لوگوں کے لیے (۲)، جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں(۳)۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ (۴)
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے (۵) جو کلام دلفریب(۶) خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر (۷) بھٹکا دے اور اسے راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے (۸)۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے (۹)۔ اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ اچھا، مژدہ سُنا دو اسے ایک درد ناک عذاب کا۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، اُن کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں (۱۰) جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے (۱۱)۔
اس (۱۲) نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں (۱۳)۔ اُس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے (۱۴)۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اُگا دیں۔ یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے ؟(۱۵) اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں(۱۶)۔ ع
تفسیر
(۱) یعنی ایسی کتاب کی آیات جو حکمت سے لبریز ہے، جس کی ہر بات حکیمانہ ہے۔
(۲) یعنی یہ آیات راہِ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور خدا کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہیں، مگر اس رحمت اور ہدایت سے فائدہ اُٹھانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جو نیک بننا چاہتے ہیں، جنہیں بھلائی کی جستجو ہے، جن کی صفت یہ ہے کہ برائیوں پر جب انہیں متنبہ کر دیا جائے تو ان سے رُک جاتے ہیں اور خیر کی راہیں جب ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جائیں تو ان پر چلنے لگتے ہیں۔ رہے بدکار اور شرپسند لوگ تو وہ نہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں گے نہ اس رحمت میں سے حصہ پائیں گے۔
(۳) یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ دراصل پہلے "نیکو کار” کا عام لفظ اِستعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر اُن ’’ نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھُوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کار گزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہ یہ ’’ نیکوکار ‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر و اخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر و اخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔
(۴)جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اُس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے بھی تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ و سلم اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ اِس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ ’’ یہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیالِ خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اُس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے اِنکار کیا ہے۔
یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دُنیا کی حد تک اور وہ بھی صرف مادّی خوشحالی کے معنی میں لے گا۔ فلاح کا قرآنی تصوّر معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیم القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھنا چاہیے : البقرہ، آیات ۲ تا ۵۔ آل عمران، آیات ۱۰۲، ۱۳۰، ۲۰۰۔ المائدہ، آیات ۳۵، ۹۰ الانعام، ۲۱۔ الاعراف، آیات ۷، ۸، ۱۵۷۔ التوبہ، ۸۸۔ یونس، ۱۷۔ النحل، ۱۱۶۔ الحج، ۷۷۔ المومنون، ۱۔ ۱۱۷۔ النور، ۵۱۔ الروم، ۳۸۔
(۵) یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔
(۶) اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لعنت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے، مثلاً گپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔
لہو الحدیث ’’ خریدنے ‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ و سلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، ساحر ہے، شاعر ہے، مجنوں ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں ؟کیا لوگوں کو جُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھیرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام، ج ۱، ص۳۲۰۔ ۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتا کہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے۔
لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء، ’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے ‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ، حاکم بیہقی )۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، مجاہد، عِکرمہ، سعید بن جُبیر، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں۔ ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمامہ ؓباہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’ مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے۔ ‘‘ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔ ’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے ‘‘۔ ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے، اور ان کی قیمت حرام ہے۔ ‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْیَّشْترِیْلَھْوالْحَدِیثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من خلس الیٰ قینۃیسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ ‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت ‘‘تمام تر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ ‘‘ نہ بنی تھیں۔ اسی لئے حضور ؐ نے مغنیات کی بیع و شاکا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے )۔
(۷) ’’ علم کے بغیر‘‘ کا تعلق ’’ خریدتا ہے ‘‘ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور ’’ بھٹکاوے ‘‘ کے ساتھ بھی۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے۔ ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیاتِ الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انھیں حاصل کر رہا ہے۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اُٹھا ہے، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلقِ خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے۔
(۸)یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کر کے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے۔ اس کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جائے۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خدا کی آیات سنانے نکلیں، اُدھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہو رہا ہو، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو، اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہو کر اس موڈ ہی میں نہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انھیں سنائی جا سکیں۔
(۹) یہ سزا ان کے جرم کی مناسبت سے ہے۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا۔
(۱۰)یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنّت کی نعمتیں ہیں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں۔ اگر پہلی بات فرمائی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز تو ضرور ہوں گے مگر وہ جنتیں ان کی اپنی نہ ہوں گی۔ اس کے بجائے جب یہ فرمایا گیا کہ ’’ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں، ‘‘ تو اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری پوری جنتیں ان کے حوالہ کر دی جائیں گی اور وہ اُن نعمتوں سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح ایک مالک اپنی چیز سے مستفید ہوتا ہے، نہ کہ اُس طرح جیسے کسی کو حقوق ملکیت دیے بغیر محض ایک چیز سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دے دیا جائے۔
(۱۱)یعنی کوئی چیز اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے ’’ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے ‘‘ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو بالارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہو سکتی ہو، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے۔ نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسر اس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اور غیر مستحق کو نواز دیا جائے۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحق ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا۔
(۱۲)اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدّعا، یعنی تردیدِ شرک اور دعوتِ توحید پر کلام شروع ہوتا ہے۔
(۱۳) اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔ ‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ‘‘۔ ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا تمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدو احسان عظیم الشان تارے اور سیاّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔ صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے۔
(۱۴)تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ۲، صفحہ ۵۳۰، حاشیہ نمبر ۱۲۔
(۱۵)یعنی اُن ہستیوں نے جن کو تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو، جنہیں تم اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ رہے ہو، جن کی بندگی بجا لانے پر تمہیں اتنا اصرار ہے۔
(۱۶) یعنی جب یہ لوگ اللہ کے سوا اس کائنات میں کسی دوسرے کی تخلیق کی کوئی نشان دہی نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے، تو ان کا غیر خالق ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھہرانا اور ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا اور ان سے دعائیں مانگنا اور حاجتیں طلب کرنا بجز اس کے کہ صریح بے عقلی ہے اور کوئی دوسر ی تاویل اُن کے اس احمقانہ فعل کی نہیں کی جا سکتی۔ جب تک کوئی شخص بالکل ہی نہ بہک گیا ہو اس سے اتنی بڑی حماقت سرزد نہیں ہو سکتی کہ آپ کے سامنے وہ خود اپنے معبودوں کے غیر خالق ہونے اور صرف اللہ ہی کے خالق ہونے ک اعتراف کرے اور پھر بھی انہیں معبود ماننے پر مُصِر رہے۔ کسی کے بھیجے میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو و ہ لامحالہ یہ سوچے گا کہ جو کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، اور جس کا زمین و آسمان کی کسی شے کی تخلیق میں برائے نام بھی کوئی حصہ نہیں ہے وہ آخر کیوں ہمارا معبود ہو؟ کیوں ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہوں یا اس کی قدم بوسی و آستانہ بوسی کرتے پھریں ؟ کیا طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ ہماری فریاد رسی اور حاجت روائی کر سکے ؟ بالفرض وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا بھی ہو تو ان کے جواب میں وہ خود کیا کارروائی کر سکتے ہے جبکہ وہ کچھ بنانے کے اختیارات رکھتا ہی نہیں؟بگڑتی وہی بنائے گا جو کچھ بنا سکتا ہو نہ کہ وہ جو کچھ بھی نہ بنا سکتا ہو۔
ترجمہ
ہم(۱۷) نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کے شکر گزار ہو (۱۸)۔ جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے (۱۹)۔
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اُس نے کہا ’’ بیٹا ! خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، (۲۰) حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے (۲۱)اور(۲۲)
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اُس کی ماں ضعف پر ضعف اُٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (۲۳)۔ (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ لیکن وہ اگر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا (۲۴) تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، (۲۵) اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ کیسے عمل کرتے رہے ہو(۲۶)۔
(اور لقمان(۲۷) نے کہا تھا کہ) ’’بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا(۲۸)۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کرنے کی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر (۲۹)۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے (۳۰)۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر(۳۱)، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خو پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا(۳۲)۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر(۳۳)، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے (۳۴)۔ ع
تفسیر
(۱۷)شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔ اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی۔
لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی۔ شعرائے جاہلیت، مثلاً امراؤ القیس، لَبِید، اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا۔ وہاں حضورؐ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھر رہے تھے۔ اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ یہ بہت اچھا کلام ہے، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے (سیر ۃ ابن ہشام، ج ۲، ص ۶۷۔ ۶۹۔ اُسُد الغابہ، ج ۲، صفحہ ۳۷۸) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت) مدینہ میں اپنی لیاقت، بہادری، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر ’’ کامل‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدّت بعد جنگ بُعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضورؐ سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا۔
تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیّت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی۔ معلومات کا انحصار اُن سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں۔ ان روایات کی رُو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے۔ مولانا سے ّد سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض ا لقرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قومِ عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ، مُجاہِد، عکْرِمَہ اور خالدالربعی کا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے، پھر روض ا لانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُبی تھا، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ (موجودہ عَقَبہ) کے علاقے کا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے (روض الانف، ج۱، ص۲۶۶۔ مسعودی، ج۱۔ ص۵۷)۔
یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ(Derenbours)نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو ’’ امثال لقمان الحکیم‘‘(Fables De Looman Le Sage) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے انی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسُوب کر دیا ہے۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھیرا دیا جائے۔ جو شخص بھی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں ’’لقمان‘‘ کے عنوان پر ہیلر(B. Heller) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا۔
(۱۸)یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اوّلین تقاضا یہ تھا کہ انسان ا پنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری و احسان مندی کا رویّہ اختیار کرے نہ کہ کفرانِ نعمت اور نمک حرامی کا۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل، تینوں صورتوں میں ہو۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر، اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے۔
(۱۹) یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفر اس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ بے نیاز ہے، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا، نہ کسی کا کفر اس امرِ واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی ا س کی حمد کرے یا نہ کرے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے۔
(۲۰)لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سے اس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہو سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، ان سے منافقانہ باتیں کر سکتا ہے، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک بُرے آدمی بُرا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لختِ جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دینِ شرک پر قائم رہنے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے، جیسا کہ آگے کی آیات بتا رہی ہیں۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیر خواہی؟
(۲۱)ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا۔ شرک اس وجہ سے ظلمِ عظیم ہے کہ آدمی اُن ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ، نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل، اور نہ اُن نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔ یہ ایسی بے انصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بے انصافی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آدمی پر اُس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اُس کا حق مارتا ہے۔ پھر اس بندگیٔ غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہے ا س میں وہ اپنے ذ ہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے، حالاں کہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہٗ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلّت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آ پ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحقِ عذاب بھی بناتا ہے۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا۔
(۲۲)یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی پوری عبارت ایک جملۂ معترضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے لقمان کے قول کی تشریح مزید کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔
(۲۳) ان الفاظ سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچّے کی مدّت رضاعت دو سال ہے۔ اس مدّت کے اندر اگر کسی بچّے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حس میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدّت میں بچے کا دودھ چھڑا د یا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَا تُ ُرْضِعَْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَی ْنِ کَامِلَی ْنِ لِمَنْ اَرَادَاَنْ ی ُّتِمَّ ارَّضَا عَۃَ ط’’ مائیں بچّوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اُس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو‘‘(آیت ۲۳۳)۔
ابن عباس ؓ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ کاہ ہے، اس لیے کہ قرآن ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہٗ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ط’’ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰ مہینوں میں ہُوا۔ ‘‘ (الاحقاف، آیت ۱۵)۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور نا جائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے۔
(۲۴)یعنی جو تیرے علم میں میرا شریک نہیں ہے۔
(۲۵)یعنی اولاد اور والدین، سب کو۔
(۲۶)تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، سورۂ عنکبوت، حواشی نمبر ۱۱۔ ۱۲۔
(۲۷)لقمان کے دوسرے نصائح کا ذکر یہاں یہ بتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ عقائد کی طرح اخلاق کے متعلق بھی جو تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہ بھی عرب میں کوئی انوکھی باتیں نہیں ہیں۔
(۲۸) یعنی اللہ کے علم سے اور اس کی گرفت سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی۔ چٹان کے اندر ایک دانہ تمہارے لیے مخفی ہو سکتا ہے، مگر اُس کے لیے عیاں ہے۔ آسمانوں میں کوئی ذرہ تم سے بعید ترین ہو سکتا ہے، مگر اللہ کے لیے وہ بہت قریب ہے۔ زمین کی تہوں میں پڑی ہوئی کوئی چیز تمہارے لیے سخت تاریکی میں ہے مگر اس کے لیے بالکل روشنی میں ہے۔ لہٰذا تم کہیں کسی حال میں بھی نیکی یا بدی کا کوئی کام ایسا نہیں کر سکتے جو اللہ سے مخفی رہ جائے۔ وہ نہ صرف یہ کہ اس سے واقف ہے، بلکہ جب محاسبہ کا وقت آئے گا تو وہ تمہاری ایک ایک حرکت کا ریکارڈ سامنے لا کر رکھ دے گا۔
(۲۹)اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص بھی نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے۔ دُنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے۔
(۳۰)دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اصلاحِ خلق کے لیے اُٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے لیے بڑا دِل گُردہ چاہیے۔
(۳۱)اصل الفاظ ہیں لَاتُصَعِّرْخَدَّکَ لِلنَّاسِ۔ صَعَر عربی زبان میں ایک بیماری کو کہتے ہیں جو اونٹ کی گردن میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے اُونٹ اپنا منہ ہر وقت ایک ہی طرف پھیرے رکھتا ہے۔ اس سے محاورہ نِکلا فلان صعّر خدّہ، ’’ فلاں شخص نے اونٹ کی طرح اپنا کلّا پھیر لیا ‘‘ یعنی تکبر کے ساتھ پیش آیا اور منہ پھیر کر بات کی۔ اسی کے متعلق قبیلۂ تغلب کا ایک شاعر عمرو بن حّی کہتا ہے،
وکنّا اذاالجبار صَعَّر خَدَّ ٭ اقمنَا لہ من میْلہ فتقوّ مَا
ہم ایسے تھے کہ جب کبھی کسی جبّار نے ہم سے بات کی تو ہم نے اس کی ٹیڑھ ایسی نکالی کہ وہ سیدھا ہو گیا۔ ‘‘
(۳۲)اصل الفاظ ہیں مختال اور فخور۔ مختال کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنی دانست میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہو۔ اور فخور اس کو کہتے ہیں جو اپنی بڑائی کا دوسروں پر اظہار کرے۔ آدمی چال میں اکڑ اور اتراہٹ اور تبختر کی شان لازماً اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے دماغ میں تکبر کی ہوا بھر جاتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو اپنی بڑائی محسوس کرائے۔
(۳۳)بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل، بلکہ میانہ روی اختیار کر ‘‘لیکن سیاقِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ رو ی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلّیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اُس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ دولت، اقتدار، حسن، علم، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے۔ اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کر مریل چال چلنے لگتا ہے۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ ہو، نہ مریل پن، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار۔
صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار فرمایا’’ سر اُٹھا کر چل، اسلام مریض نہیں ہے ‘‘۔ ایک اور شخص کو اُنہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ’’ ظالم، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے۔ ‘‘ان دونوں واقعات سے معلوم ہُوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک دینداری کا منشا ہر گز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں۔ پوچھا انہیں کیا ہو گیا ؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے )۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’ عمر سید القراء تھے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے ‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل، حاشیہ ۴۳۔ تفسیر سورہ الفرقان، حاشیہ ۷۹)۔
(۳۴)اس کا یہ منشا نہیں ہے کہ آدمی ہمیشہ آہستہ بولے اور کبھی زور سے بات نہ کرے۔ بلکہ گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مقصود کس طرح کے لہجے اور کس طرح کی آواز میں بات کرنے سے روکنا ہے۔ لہجے اور آواز کی ایک پستی و بلندی اور سختی و نرمی تو وہ ہوتی ہے جو فطری اور حقیقی ضروریات کے لحاظ سے ہو۔ مثلاً قریب کے آدمی یا کم آدمیوں سے آپ مخاطب تو آہستہ بولیں گے۔ دُور کے آدمی سے بولنا ہو یا بہت سے لوگوں سے خطاب کرنا ہو تو لامحالہ زور ہی سے بولنا ہو گا۔ ایسا ہی فرق لہجوں میں بھی موقع و محل کے لحاظ سے لازماً ہوتا ہے۔ تعریف کا لہجہ مذمت کے لہجے سے اور اظہار خوشنود ی کا لہجہ اظہار ناراضی کے لہجے سے مختلف ہونا ہی چاہیے۔ یہ چیز کسی درجہ میں بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے، نہ لقمان کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس فرق کو مٹا کر بس ہمیشہ ایک ہی طرح نرم آواز اور پست لہجے میں بات کیا کرے۔ قابلِ اعتراض جو چیز ہے وہ تکبر کا اظہار کرنے اور دھونس جمانے اور دوسرے کو ذلیل و مرعوب کرنے کے لیے گلا پھاڑنا اور گدھے کی سی آواز میں بولنا ہے۔
ترجمہ
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں(۳۵) اور اپنی کھُلی اور چھُپی نعمتیں (۳۶) تم پر تمام کر دی ہیں؟ اس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں (۳۷) بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب (۳۸)۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان اُن کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو (۳۹)؟
جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دے (۴۰) اور عملاً وہ نیک ہو (۴۱)، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا، اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ الہ ہی کے ہاتھ ہے۔ اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے (۴۳)، انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں۔ یقیناً اللہ سینوں کے چھُپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ ہم تھوڑی مدت انہیں دُنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں، پھر ان کو بے بس کر کے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے۔
اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو الحمدُ لِلّٰہ۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں(۴۵)۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ (۴۶) ہی کا ہے، بے شک اللہ بے نیاز اور آپ سے محمود ہے (۴۷)۔ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے ) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے ) ختم نہ ہوں گی (۴۸)۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے ) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے (۴۹)۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ اُس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے (۵۰)، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں، اور (کیا تم نہیں جانتے ) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے (۵۲) اور اسے چھوڑ کر جن دُوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں (۵۳)، اور (اس وجہ سے کہ) اللہ ہی بزرگ و برتر ہے (۵۴)۔ ع
تفسیر
(۳۵)کسی چیز کو کسی کے لیے مسخّر کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ چیز اس کے تابع کر دی جائے اور اسے اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اور جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ دوسری یہ کہ اس چیز کو ایسے ضابطہ کا پابند کر دیا جئے جس کی بدولت اُس شخص کے لیے نافع ہو جائے اور اس کے مفاد کی خدمت کرتی رہے۔ زین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک ہی معنی میں مسخّ نہیں کر دیا ہے، بلکہ بعض چیزیں پہلے معنی میں مسخر کی ہیں اور بعض دوسرے معنی میں۔ مثلاً ہوا، پانی، مٹی، آگ نباتات، معدنیات، مویشی وغیرہ بے شمار چیزیں پہلے معنی میں ہمارے لیے مسخر ہیں، اور چاند، سورج، وغیرہ دوسرے معنی میں۔
(۳۶)کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں، یا جو اس کے علم میں ہیں۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے۔ بے حد و حساب چیزیں ہیں جو انسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دُنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے، اس کی رز ق رسانی کے لیے، اس کے نشو و نما کے لیے، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلے اس سے بالکل مخفی تھیں، اور آج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سے اب تک پردہ نہیں اٹھا ہے۔
(۳۷)یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلاوہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سے اس کے تعلق کی کیا نوعیت ہے ؟ وغیرہ
(۳۸)یعنی نہ تو ان کے پاس کوئی ایسا ذریعۂ علم ہے جس سے انہوں نے براہ راست خود حقیقت کا مشاہدہ یا تجربہ کرلیا ہو، نہ کسی ایسے رہنمائی اِنہیں حاصل ہے جس نے حقیقت کا مشاہدہ کر کے انہیں بتایا ہو، اور نہ کوئی کتاب الٰہی ان کے پاس ہے جس پر یہ اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے ہوں۔
(۳۹)یعنی ہر شخص اور ہر خاندان اور ہر قوم کے باپ داد ا کا حق پر ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ محض یہ بات کہ یہ طریقہ باپ دادا کے وقتوں سے چلا آ رہا ہے ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ حق بھی ہے۔ کوئی عقلمند آدمی یہ بادانی کی حرکت نہیں کر سکتا کہ اگر اس کے باپ دادا گمراہ رہے ہوں تو وہ بھی آنکھیں بند کر کے انہی کی راہ پر چلے جائے اور کبھی یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہ محسوس کرے کہ یہ راہ جا کدھر رہی ہے۔
(۴۰)یعنی پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں دے دے۔ اپنی کوئی چیز اس کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے نہ رکھے۔ اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کر دے اور اسی کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی پوری زندگی کاگ قانون بنائے۔
(۴۱)یعنی ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو وہ حوالگی و سپردگی کا اعلان کر دے مگر عملاً وہ رویہ اختیار نہ کرے جو خدا کے ایک مطیع فرمان بندے کا ہونا چاہیے۔
(۴۲)یعنی نہ اس کو اس بات کا کوئی خطرہ کہ اسے غلط رہنمائی ملے گی، نہ ا س بات کا کوئی اندیشہ کہ خدا کی بندگی کر کے اس کا انجام خراب ہو گا۔
(۴۳)خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی، جو شخص تمہاری بات ماننے سے انکار کرتا ہے وہ اپنے نزدیک تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اسلام کو رد کر کے اور کفر پر اصرار کر کے تمہیں زک پہنچائی ہے، لیکن دراصل اس نے اپنے آپ کو پہنچائی ہے۔ اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا، اپنا کچھ بگاڑا ہے۔ اگر وہ نہیں مانتا تمہیں پروا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(۴۴)یعنی شکر ہے کہ تم اتنی بات تو جانتے اور مانتے ہو۔ لیکن جب حقیقت یہ ہے تو پھر حمد ساری کی ساری صرف اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ دوسری کوئی ہستی حمد کی مستحق کیسے ہو سکتی ہے جبکہ تخلیق کائنات میں کوئی اس کا حصہ ہی نہیں ہے۔
(۴۵)یعنی اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو خالقِ کائنات ماننے کے لازمی نتائج اور تقاضے کیا ہیں، اور کونسی باتیں اس کی نقیض پڑتی ہیں۔ جب ایک شخص یہ مانتا ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق صرف اللہ ہے تو لازماً اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہے، عبادت اور طاعت و بندگی کا مستحق بھی تنہا وہی ہے، تسبیح و تحمید بھی اس کے سوا کسی دوسرے کی نہیں کی جا سکتی، دعائیں بھی اس کے سوا کسی اور سے نہیں مانگی جا سکتیں، اور اپنی مخلوق کے لیے شارع اور حاکم بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ خالق ایک ہو اور معبود دوسرا، یہ بالکل عقل کے خلاف ہے، سراسر متضاد بات ہے جس کا قائل صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو جہالت میں پڑا ہوا ہو۔ اسی طرح ایک ہستی کو خالق ماننا اور پھر دوسری ہستیوں میں سے کسی کو حاجت روا و مشکل کشا ٹھیرانا، کسی کے آگے سر نیاز جھکانا، اور کسی کو حاکِم ذی اختیار اور مُطاعِ مطلق تسلیم کرنا، یہ سب بھی باہم متناقض باتیں ہیں جنہیں کوئی صاحب علم انسان قبول نہیں کر سکتا۔
(۴۶)یعنی حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے بلکہ درحقیقت وہی ان سب چیزوں کا مالک بھی ہے جو زمین و آسمانوں میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ نے اپنی یہ کائنات بنا کر یوں ہی نہیں چھوڑ دی ہے کہ جو چاہے اس کا، یا اس کے کسی حصے کا مالک بن بیٹھے۔ اپنی خلق کا وہ آپ ہی مالک ہے اور ہر چیز جو اس کائنات میں موجود ہے وہ اُس کی مِلک ہے۔ یہاں اس کے سوا کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اُسے خداوندانہ اختیارات حاصل ہوں۔
(۴۷)اس کی تشریح حاشیہ نمبر ۱۹ میں گزر چکی ہے۔
(۴۸) اللہ کی باتوں سے مراد ہیں اس کے تخلیقی کام اور اس کی قدرت و حکمت کے کرشمے۔ یہ مضمون اس سے ذرا مختلف الفاظ میں سورہ کہف آیت ۱۰۹ میں بھی بیان ہوا ہے۔ بظاہر ایک شخص یہ گمان کر ے گا شاید اس قو ل میں مبالغہ کیا۔ لیکن اگر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو محسوس ہو گا کہ درحقیقت اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے۔ جتنے قلم اس زمین کے درختوں سے بن سکتے ہیں اور جتنی روشنائی زمین کے موجودہ سمندر اور ویسے ہی سات مزید سمندر فراہم کر سکتے ہیں، اب سے اللہ کی قدرت و حکمت اور اس کی تخلیق کے سارے کرشمے تو درکنار، شائد موجودات عالَم کی مکمل فہرست بھی نہیں لکھی جا سکتی۔ تنہا اس زمین پر جتنی کو جو دات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل ہے، کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبطِ تحریر میں لائی جا سکیں۔
اس بیان سے دراصل یہ تصوّر دلانا مقصُود ہے کہ جو خدا اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لایا ہے اور ازل سے ابد تک اس کا سارا نظم و نسق چلا رہا ہے اس کی خدائی میں اُن چھوٹی چھوٹی ہستیوں کی حیثیت ہی کیا ہے جنہیں تم معبود بنائے بیٹھے ہو۔ اس عظیم الشان سلطنت کے چلانے میں دخیل ہونا تو درکنار، اس کے کسی اقل قلیل جُز سے پوری واقفیت اور محض واقفیت تک کسی مخلوق کے بس کی چیز نہیں ہے۔ پھر بھلا یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو یہاں خداوندانہ اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ بھی مل سکے جس کی بنا پر وہ دعائیں سننے اور قسمتیں بنانے اور بگاڑنے پر قادر ہو۔
(۴۹)یعنی وہ بیک وقت ساری کائنات کی آوازیں الگ الگ سُن رہا ہے اور کوئی آواز اس کی سماعت کو اس طرح مشغول نہیں کرتی کہ اسے سنتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ سُن سکے۔ اسی طرح وہ بیک وقت ساری کائنات کو اس کی ایک ایک چیز اور ایک ایک واقعہ کی تفصیل کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور کسے چیز کے دیکھنے میں اس کی بینائی اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسے دیکھتے ہوئے وہ دوسری چیزیں نہ دیکھ سکے۔ ٹھیک ایسا ہو معاملہ انسانوں کے پیدا کرنے اور دو بار ہ وجود میں لانے کا بھی ہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے آدمی بھی پیدا ہوئی ہیں اور آئندہ قیامت تک ہوں گے ان سب کو وہ ایک آن کی آن میں پھر پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی قدرتِ تخلیق ایک انسان کو بنانے میں اس طرح مشغول نہیں ہوتی کہ اسی وقت وہ دوسرے انسان نہ پیدا کر سکے۔ اس کے لیے ایک انسان کا بنانا اور کھربوں انسانوں کا بنا دینا یکساں ہے۔
(۵۰)یعنی رات اور دن کا پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ آنا خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سورج اور چاند پوری طرح ایک ضابطہ میں کسے ہوئے ہیں۔ سورج اور چاند کا ذکر یہاں محض اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں عالمِ بالا کی وہ نمایاں ترین چیزیں ہیں جن کو انسان قدیم زمانے سے معبود بناتا چلا آ رہا ہے اور آج بھی بہت سے انسان انھیں دیتا مان رہے ہیں۔ ورنہ درحقیقت زمین سمیت کائنات کے تمام تاروں اور سیّاروں کو اللہ تعالیٰ نے ایک اٹل ضابطے میں کس رکھا ہے جس سے وہ یک سرِ مو ہٹ نہیں کر سکتے۔
(۵۱)یعنی ہر چیز کی جو مدّت مقرر کر دی گئی ہے اسی وقت تک وہ چل رہی ہے۔ سورج ہو یا چاند، یا کائنات کا کوئی اور تارا یا سے ّارہ، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ ہر ایک کا ایک وقت آغاز ہے جس سے پہلے وہ موجود نہ تھی، اور ایک وقت اختتام ہے جس کے بعد وہ موجود نہ رہے گی۔ اس ذکر سے مقصود یہ جتانا ہے کہ ایسی حادث، اور بے بس چیزیں آخر معبود کیسے ہو سکتی ہیں۔
(۵۲)یعنی حقیقی فاعِل مختار ہے، خلق و تدبیر کے اختیارات کا اصل مالک ہے۔
(۵۳)یعنی وہ سب محض تمہارے تخیلّات کے آفریدہ خدا ہیں۔ تم نے فرض کر لیا ہے کہ فلاں صاحب خدائی میں کوئی دخل دکھتے ہیں اور فلاں حضرت کو مشکل کشائی و حاجت روائی کے اختیارات حاصل ہیں۔ حالاں کہ فی الواقع ان میں سے کوئی صاحب بھی کچھ نہیں بنا سکتے۔
ترجمہ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے (۵۵)۔ در حقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو (۵۶)۔ اور جب (سمندر میں) اِن لوگوں پر ایک موج پہاڑوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے، پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اِقتصاد برتتا ہے (۵۷)، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدّار اور ناشکرا ہے (۵۸)۔
لوگو! بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہو (۵۹) ہو گا۔ فی الواقع اللہ کا وعدہ (۶۰) سچا ہے۔ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے (۶۱) اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے (۶۲)۔
اُس گھڑی کا علم الہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے (۶۳)۔ ع
تفسیر
(۵۵) یعنی ایسی نشانیاں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختیارات بالکل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان خواہ کیسے ہی مضبوط اور بحری سفر کے لیے موزوں جہاز بنا لے اور جہاز رانی کے فن اور اس سے تعلق رکھنے والی معلومات اور تجربات میں کتنا ہی کمال حاصل کر لے، لیکن سندر میں جن ہولناک طاقتوں سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ تنہا اپنی تدابیر کے بل بوتے پر بخیریت سفر نہیں کر سکتا جب تک اللہ کا فضل شامِل حال نہ ہو۔ اس کی نگاہ کرم پھرتے ہی آدمی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے ذرائع و وسائل اور کمالات فن کتنے پانی میں ہیں۔ اسی طرح آدمی امن و اطمینان کی حالت میں چاہے کیسا ہی سخت دہریہ یا کٹّا مشرک ہو، لیکن سمندر کے طوفان میں جب اس کی کشتی ڈولنے لگتی ہے اس وقت دہریے کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا ہے، اور مشرک بھی جان لیتا ہے کہ خدا بس ایک ہی ہے۔
(۵۶) یعنی جن لوگوں میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں وہ جب ان نشانیوں سے حقیقت کو پہچانتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے توحید کا سبق اصل کر کے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتے ہیں۔ پہلی صفت یہ کہ وہ صَبّار(بڑے صبر کرنے والے ) ہوں۔ ان کے مزاج میں تلوُّن نہ ہو بلکہ ثابت قدمی ہو۔ گوارا اور ناگوار، سخت اور نرم، اچھے اور بُرے، تمام حالات میں ایک عقیدۂ صالحہ پر قائم رہیں۔ یہ کمزوری ان میں نہ ہو کہ بُرا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑ گڑا نے لگے اور اچھا وقت آتے ہی سب کچھ بھو ل گئے، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ دوسری صفت یہ کہ وہ شکور(بڑے شکر کرنے والے ) ہوں۔ نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں بلکہ نعمت کی قدر پہچانتے ہوں اور نعمت دینے والے کے لیے ایک مستقل جذبۂ شکر و سپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھیں۔
(۵۷)اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ اقتصاد کو اگر راست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُن میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اُس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کر کیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا د یتا ہے۔ اور اگر اقتصاد بمعنی توسُّط و اعتدال لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر و دہریّت کے عقیدے میں اُس شدّت پر قائم نہیں رہتے جس پر اس تجربے سے پہلے تھے، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی۔ اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہو۔ مدّعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پر آ جاتا ہے اور شرک و دہریّت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پُکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نے اس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آ گیا۔ تیسری وہ جس کے اندر حس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا۔
(۵۸)یہ دو صفات اُن دو صفتوں کے مقابلے میں ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی کی آیت میں کیا گیا تھا۔ غدار وہ شخص ہے جو سخت بے وفا ہو اور اپنے عہد و پیماں کا کوئی پاس نہ رکھے۔ اور ناشکرا وہ ہے جس پر خواہ کتنی ہی نعمتوں کی بارش کر دی جائے وہ احسان مان کر نہ دے اور اپنے مُحسن کے مقابلے میں سرکشی سے پیش آئے یہ صفات جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ خطرے کا وقت ٹل جانے کے بعد بے تکلف اپنے کفر، اپنی دہریّت اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے طوفان کی حالت میں خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کچھ نشانیاں خارج میں بھی اور خود اپنے نفس میں بھی پائی تھیں اور ان کا خدا کو پکارنا اسی وجدانِ حقیقت کا نتیجہ تھا۔ ان میں سے جو دہریے ہیں وہ اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک کمزوری تھی جو بحالتِ اضطراب ہم سے سرزد ہو گئی، ورنہ درحقیقت خدا وُدا کوئی نہ تھا جس نے ہمیں طوفان سے بچایا ہو، ہم تو فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ رہے مشرکین، تو وہ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگوں، یا دیوی دیوتاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا جس کے طفیل ہم بچ گئے، چنانچہ ساحل پر پہنچتے ہی وہ اپنے معبودانِ باطل کے شکریے ادا کرنے شروع کر دیتے ہیں اور انہی کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں۔ یہ خیال تک انھیں نہیں آتا کہ جب ساری اُمیدوں کے سہارے ٹوٹ گئے تھے اُس وقت اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کوئی نہ تھا جس کا دامن انہوں نے تھاما ہو۔
(۵۹)یعنی دوست، لیڈر، پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اس کے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی ک اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی وہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دُنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہر گز صحیح نہیں ہے۔
(۶۰)اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔
(۶۱)دنیا کی زندگی سطح ہیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے، اس بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کر لو، کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اُس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصُود بالذات سمجھ لیتا ہے اور ’’ معیار زندگی ‘‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلّیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے، اور جس کی دنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔ یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں’’ دُنیوی زندگی کے دھوکے ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
(۶۲) الغرور (دھوکے باز ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخصِ خاص یا شئے خاص کا تعیّن کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رُخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے۔
’’اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے ‘‘کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں۔ کسی کو اس کا ’’ دھوکے باز ‘‘ یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دُنیا بندوں کے حوالے ہے۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہو تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے، اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کا تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔
(۶۳)یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب یہ جو قیامت کا ذکر اور آخرت کا وعدہ سن کر کفارِ مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے، کیوں کہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔
پہلا فقرہ: ’’ اُس کھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ ‘‘ یہ اصل سوال کا جواب ہے۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دُنیا کے انجام کا کب آئے گا۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے۔ مگر اس کا سر رشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب، جہاں، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی، یا کس زمین پر بارش اُلٹی نقصان دہ ہو جائے گی۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہی جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا بُرائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی۔ تُم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو۔ اسی طرح دُنبے کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اِس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے، کہ اس آیت میں امورِ غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حالاں کہ غیب نام ہی ا ُس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اِس غیب کی کوئی حد نہیں ہے۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جِلد سوم، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸)۔
٭٭٭
۳۲۔ سورۃ السَّجدہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نام
آیت ۱۵ میں سجدہ کا جو مضمون آیا ہے اسی کو سورہ کا عنوان قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
انداز بیاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول مکّہ ک دَور متوسّط ہے، اور اس کا بھی ابتدائی زمانہ، کیوں کہ اس کلام کے پس منظر میں ظلم و ستم کی وہ شدّت نظر نہیں آتی جو بعد کے ادوار کی سورتوں کے پیچھے نظر آتی ہے۔
موضوع اور مباحث
سُورہ کا موضوع توحید آخرت اور رسالت کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کرنا اور ان تینوں حقیقتوں پر ایمان کی دعوت دینا ہے۔ کفارِ مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق آپس میں چرچے کر رہے تھے کہ یہ شخص عجیب عجیب باتیں گھڑ گھڑ کر سُنا رہا ہے۔ کبھی مرنے کے بعد کی خبریں دیتا ہے اور کہتا ہے مٹی میں رَل مِل جانے کے بعد تم پھر اُٹھائے جاؤ گے اور حساب کتاب ہو گا اور دوزخ ہو گی اور جنت ہو گی کبھی کہتا ہے کہ یہ دیوی دیوتا اور بزرگ کوئی چیز نہیں ہیں، بس اکیلا ایک خدا ہی معبُود ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں، آسمان سے مجھ پر وحی آتی ہے اور یہ کلام جو میں تم کو سنا رہا ہوں، میرا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔ یہ عجیب افسانے ہیں جو یہ شخص ہمیں سُنا رہا ہے۔۔ انہی باتوں کا جواب اس سورہ کا موضوع بحث ہے۔
اِس جواب میں کفّار سے کہا گیا ہے کہ بلا شک و ریب یہ خدا ہی کا کلام ہے اور اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ نبوّت کے فیض سے محروم، غفلت میں پڑی ہوئی ایک قوم کو چونکایا جائے۔ اِسے تم اِفتراء کیسے کہہ سکتے ہو جب کہ اس کا منزَّل من اللہ ہونا ظاہر و باہر ہے۔
پھر ان سے فرمایا گیا ہے کہ یہ قرآن جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہے، عقل سے کام لے کر خود سوچو کہ ان میں کیا چیز اچنبھے کی ہے۔ آسمان و زمین کے انتظام کو دیکھو، خود اپنی پیدائش اور بناوٹ پر غور کرو، کیا یہ سب کچھ اُس تعلیم کی صداقت پر شاہد نہیں ہے او اس نبی کی زبان سے اِس قرآن میں تم کو دی جا رہی ہے ؟ یہ نظام کائنات توحید پر دلالت کر رہا ہے یا شرک پر؟ اور اس سارے نظام کو دیکھ کر اور خود اپنی پیدائش پر نگاہ ڈال کر کیا تمہاری عقل یہی گواہی دیتی ہے کہ جس نے اب تمہیں پیدا کر رکھا ہے وہ پھر تمہیں پیدا نہ کر سکے گا ؟
پھر عالمِ آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ایمان کے ثمرات ا ور کفر کے نتائج و عواقب بیان کر کے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ بُرا انجام سامنے آنے سے پہلے کفر چھوڑ دیں اور قرآن کی اس تعلیم کو قبول کر لیں جسے مان کر خود ان کی اپنی ہی عاقبت درست ہو گی۔
پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک آخری اور فیصلہ کُن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اُس سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں مصیبتیں، آفات اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے۔ ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے، تاکہ اُسے تنبیہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔ آدمی اگر ان ابتدائی چوٹوں ہی سے ہوش میں آ جائے تو اس کے حق میں بہتر ہے۔
پھر فرمایا کہ دُنیا میں یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ تو نہیں ہے کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے کتاب آئی ہو۔ اس سے پہلے آخر موسیٰ (علیہ السلام ) پر بھی کتاب آئی تھی جسے تم سب لو گ جانتے ہو۔ یہ آخر کونسی ایسی بات ہے کہ اس پر تم لوگ یوں کان کھڑے کر رہے ہو یقین مانو کہ یہ کتاب خدا ہی کی طرف سے آئی ہے اور خوب سمجھ لو کہ اب پھر وہی کچھ ہو گا جو موسیٰ کے عہد میں ہو چکا ہے۔ امامت و پیشوائی اب انہی کو نصیب ہو گی جو اس کتابِ الہٰی کو مان لیں گے۔ اسے رد کر دینے والوں کے لیے ناکامی مقدر ہو چکی ہے۔
پھر کفّارِ مکّہ سے کہا گیا ہے کہ اپنے تجارتی سفروں کے دَوران میں تم جن پچھلی تباہ شدہ قوموں کی بستیوں پر سے گزرتے ہو ان کا انجام دیکھ لو، کیا یہی انجام تم اپنے لیے پسند کرتے ہو؟ ظاہر سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ آج تم دیکھ رہے ہو کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)کی بات چند لڑکوں اور چند غلاموں اور غریب لوگوں کے سوا کوئی نہیں سُن رہا ہے اور ہر طرف سے ان پر طعن اور ملامت اور پھبتیوں کی بارش ہو رہی ہے۔ اس سے تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ چلنے والی بات نہیں ہے، چار دن چلے گی اور پھر ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ تمہاری نظر کا دھوکا ہے، کیا یہ تمہارا رات دن کا مشاہدہ نہیں ہے کہ آج ایک زمین بالکل بے آب و گیاہ پڑی ہے جسے دیکھ کر گمان تک نہیں ہو تا کہ اس کے پیٹ میں روئیدگی کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، مگر کل ایک ہی بارش میں وہ اس طرح بھَبک اُٹھتی ہے کہ اس کے چپّے چپّے سے جو کی طاقتیں پھوٹنی شروع ہو جاتی ہیں۔
خاتمۂ کلام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ تمہاری باتیں سُن کر مذاق اُڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ حضرت، یہ فیصلہ کُن فتح آپ کو کب نصیب ہونے والی ہے، ذرا تاریخ تو ارشاد ہو۔ ان سے کہو کہ جب ہمارے اور تمہارے فیصلے کا وقت آ جائے گا اس وقت ماننا تمہارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو گا۔ ماننا ہے تو اب مان لو، اور آخری فیصلے ہی کا انتظار کرنا ہے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ترجمہ
ا ل م۔ اِس کتاب کی تنزیل بِلا شبہ ربّ العالمین کی طرف سے ہے۔ (۱) (۲)کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اِس خود گھڑ لیا ہے ؟ (۳) نہیں بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے (۴) تاکہ تو متنبّہ کرے ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں (۵) وہ(۶) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دِنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا(۷)، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مدد گار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟(۸)، وہ آسمان سے زمین تک دُنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اُوپر اُس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے (۹) وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا(۱۰)، زبردست (۱۱)، اور رحیم(۱۲) جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی (۱۳)
اُس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے (۱۴)، پھر اسے نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی(۱۶)، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دِل دیے (۱۷)۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو (۱۸)
(۱۹)اور یہ لوگ کہتے ہیں ’’ جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں (۲۰) اِن سے کہو ’’ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پُورا کا پُورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے (۲۱) ع
تفسیر
(۱) قرآن مجید کی متعدّد سُورتیں اس طرح کے کسی نہ کسی تعارفی فقرہ سے شروع ہوتی ہیں جس سے مقصود آغاز کلام ہی میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کلام کہاں سے آ رہا ہے۔ یہ بظاہر اُسی طرز کا ایک تمہیدی فقرہ ہے جیسے ریڈیو پر اعلا ن کرنے والا پروگرام کے آغاز میں کہتا ہے کہ ہم فلاں اسٹیشن سے بول رہے ہیں۔ لیکن ریڈیو کے اس معمولی سے اعلان کے برعکس قرآن مجید کی کسی سورت کا آغاز جب اس غیر معمولی اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ پیغام فرمانروائے کائنات کی طرف سے آ رہا ہے تو یہ محض مصدر کلام کا بیان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس میں ایک بہت بڑا دعویٰ، ایک عظیم چیلنج اور ایک سخت اِنذار بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ چھوٹتے ہی اِتنی بڑی خبر دیتا ہے کہ یہ ا نسانی کلام نہیں ہے، خدا وندِ عالم کا کلام ہے۔ یہ اعلان فوراً ہی یہ بھاری سوال آدمی کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ اس دعوے کو تسلیم کروں یا نہ کروں۔ تسلیم کرتا ہو ں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینا ہو گا، پھر میرے لیے اس کے مقابلہ میں کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی۔ تسلیم نہیں کرتا تو لا محالہ یہ خطرۂ عظیم مول لیتا ہوں کہ اگر واقعی یہ خداوندِ عالَم کا کلام ہے تو اسے رد کرنے کا نتیجہ مجھ کو ابدی شقاوت و بد بختی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔ اِس بِنا پر یہ تمہیدی فقرہ مجرد اپنی اس غیر معمولی نوعیت ہی کی بنا پر آدمی کو مجبور کر دیتا ہے کہ چوکنّا ہو کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اِس کلام کو سنے اور یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کلامِ الہٰی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے یا نہیں۔
یہاں صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے، بلکہ مزید براں پورے زور کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ، بیشک یہ خدا کی کتاب ہے، اس کے مَنَزَّل مِنَ اللہ ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اس تاکیدی فقرے کو اگر نزولِ قرآن کے واقعاتی پس منظر اور خود قرآن کے اپنے سیاق میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی مضمر ہے، اور یہ دلیل مکّہ معظّمہ کے اُن باشندوں سے پوشیدہ نہ تھی جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ اس کتاب کے پیش کرنے والے کی پوری زندگی اُن کے سامنے تھی، کتاب پیش کرنے سے پہلے کی بھی اور اس کے بعد کی بھی۔ وہ جانتے تھے کہ جو شخص اس دعوے کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا ہے وہ ہماری قوم کا سب سے زیادہ راستباز، سنجیدہ اور پاک سیرت ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دعوائے نبوّت سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اُس سے وہ باتیں کبھی نہ سُنی تھیں جو نبوّت کے بعد یکایک اُس نے بیان کرنی شروع کر دیں۔ وہ اس کتاب کی زبان اور طرز بیان میں اور خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان اور طرز بیان میں نمایاں فرق پاتے تھے اور اس بات کو ہدائتہً جانتے تھے کہ ایک ہی شخص کے دو اسٹائل اتنے صریح فرق کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔ وہ اس کتاب کے انتہائی معجزانہ ادب کو بھی دیکھ رہے اور اہل زبان کی حیثیت سے خود جانتے تھے کہ ان کے سارے ادیب اور شاعر اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ وہ اس سے بھی واقف نہ تھے کہ ان کی قوم کے شاعروں، کاہنوں اور خطیبوں کے کلام میں اور اس کلام میں کتنا عظیم فرق ہے اور جو پاکیزہ مضامین اس کلام میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ کتنے بلند پایہ ہیں۔ انہیں اس کتاب میں، اور اس کے پیش کرنے والے کی دعوت میں کہیں دور دور بھی اُس خود غرضی کا ادنیٰ شائبہ تک نظر نہیں آتا جس سے کسی جھوٹے مدّعی کاکام اور کلام کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوردبین لگا کر بھی اس امر کی نشا ن دہی نہیں کر سکتے تھے کہ نبوّت کا یہ دعویٰ کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذات کے لئے یا اپنے خاندان کے لئے یا اپنی قوم کے لئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی اپنی کیا غرض پوشیدہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اس دعوت کی طرف ان کی قوم کے کیسے لوگ کھِنچ رہے ہیں اور اس سے وابستہ ہو کر ان کی زندگیوں میں کتنا بڑا انقلاب واقع ہو رہا ہے۔ یہ ساری باتیں مل جل کر خود دلیل دعویٰ بنی ہوئی تھیں اِسی لئے اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل کافی تھا کہ اس کتاب کا ربّ العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اس پر کسی دلیل کے اضافے کی کوئی حاجت نہ تھی۔
(۲) اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکینِ مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کرتے تھے۔
(۳)یہ محض سوال و استفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُن ساری باتوں کے باوجود، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اسے خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسُوب کر دیا ہے ؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو اور اُن کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اور اس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں، وہ اس بیہودہ الزام کو سُن کر کیا رائے قائم کریں گے ؟
(۴)جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ، کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی، اُسی طرح اب اِس آیت میں بھی کفّارِ مکہ کے الزامِ افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ’’ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے ‘‘ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔ کون، کس ماحول میں، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ اُس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا ربّ العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفّار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا۔ ا س پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اس کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو ؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے۔
(۵)یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے۔ تم خود جانتے کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے۔
واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے۔ اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے۔ یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا۔ بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے۔
یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہو گی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت دے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے۔ یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین، دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی۔ شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ کوجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی، اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل، ورقہ بن نَو فَل، عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی، زُہَیربن ابی سَلْمیٰ، خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو الرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’ الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔ ۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔ ۴۶۵)
(۶) اب مشرکین کے دوسرے اعتراض کو لیا جاتا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید پر کرتے تھے۔ ان کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے دیوتاؤں، اور بزرگوں کی معبودیت سے انکار کرتے ہیں اور ہان کے پکارے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود کوئی کار ساز، کوئی حاجت روا، کوئی دعائیں سننے والا، اور بگڑی بنانے والا، اور کوئی حاکمِ ذی اختیار نہیں ہے۔
(۷)تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ص ۳۶۔ ۲۶۱۔ ۲۶۲۔ ۴۴۱۔ ۴۴۲۔
(۸)یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے۔ تم کس خیالِ خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اُس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو۔ اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے، مخلوق ہے۔ اور اللہ اس دُنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے، بلکہ اپنی اِس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرما روا بھی وہ آپ ہی ہے۔ پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا سکے ؟اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟
(۹) یعنی تمہاری نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے۔ کفّارِ عرب کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں۔ وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا۔ مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا، حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں۔ اُن کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے :
وَیَسْتَعْجِلُوْ نَکَ بِاعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِف اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًاعِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ o (آیت ۴۷)
یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے۔
دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے :
سَاَلَ سَآئِلُٗ م بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ(oلا) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعُٗ(oلا)مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ O تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَے ْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍOفَا صْبِرْ صَبْرًاجَمِیْلًاoاِنَّھُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا (oلا)وَّنَرٰہٗ قَرِیْباًoط (المعارج۔ آیات ۱۔ ۷)
پوچھنے والا پوچھتا ہے اُس عذاب کو جو واقع ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے، اُس خدا کی طرف سے جو چَڑھتے درجوں والا ہے (یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا )۔ چَڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔ پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔
ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے۔ کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے بُرے نتائج سامنے آ جائیں۔ ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں، صدیاں بھی کوئی بڑی مدّت نہیں ہیں۔
(۱۰)یعنی دوسرے جو بھی ہیں ان کے لیے ایک چیز ظاہر ہے تو بے شمار چیزیں ان سے پوشیدہ ہیں۔ فرشتے ہوں یا جن، یا نبی اور ولی اور برگزیدہ انسان، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو سب کچھ جاننے والا ہو۔ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ اس پر ہر چیز عیاں ہے۔ جو کچھ گزر چکا ہے، جو کچھ موجود ہے، اور جو کچھ آنے والا ہے، سب اس پر روشن ہے۔
(۱۱) یعنی ہر چیز پر غالب۔ کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے اور اس کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے۔ ہر شے اس سے مغلوب ہے اور کسی میں اس کے مقابلے کا بل بوتا نہیں ہے۔
(۱۲)یعنی اس غلبے اور قوتِ قاہرہ کے باوجود وہ ظالم نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر رحیم و شفیق ہے۔
(۱۳) یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں، مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تُکی ہو۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے۔ ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اُس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین ہے۔ جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اُس کے لیے موزوں ترین شکل پر، مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے۔ دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے، اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے چاہییں۔ تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے نقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہو۔
(۱۴)یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل(Direct Creation) سے انسان کو پیدا کیا، اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اُس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کر دیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آ گئی۔ اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ آیت قرآن مجید کی اُن آیات میں سے ہے جو انسان اوّل کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں۔ ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چَڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں۔ لیکن انسان کی نہ سہی، تمام انواعِ حیوانی کی نہ سہی، اوّلین جرثومۂ حیات کی براہِ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے، حالاں کہ صرف ایک خُلیّہ (Cell)والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اُس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھیراتے ہیں۔ اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا، پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے، اور پھر اس نسل تناسُل (Procreation)کی مختلف صورتوں سے چلی ہے۔ اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ۲۵۹۔ ۳۱۹۔ ۵۶۶۔ جلد دوم، صفحات ۱۰۔ ۱۱۔ ۱۰۶۔ ۵۰۴۔ جلد سوّم، صفحات ۲۰۱۔ ۲۶۹)۔
(۱۵)یعنی ایک باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء و جوارح کے ساتھ مکمل کر دیا۔
(۱۶)روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مُراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحبِ شخصیّت ہستی، صاحبِ اَنا ہستی، اور حامِل خلافت ہستی بنتا ہے۔ اِس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسُوب ہو کر اُس کی چیز کہلاتی۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تُو ہیں۔ ان کا سر چشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔ یہ اوصاف کسی بے علم، بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم، صفحات ۵۰۴۔ ۵۰۵)۔
(۱۷)یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا۔ ’’اُس کی تخلیق کی‘‘، ’’ اُس کی نسل چلائی ‘‘، ’’اُس کو نِک سُک سے درست کیا ‘‘، ’’ اُس کے اندر روح پھونکی ‘‘۔ اس لیے اُس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔ پھر جب رُوح پھونک دی گئی تو اب اُس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’’ تم کو کان دیے ‘‘، ’’ تم کو آنکھیں دیں ‘‘، ’’ تم کو دِل دیے ‘‘ اس لیے کہ حامِل رُوح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اُسے مخاطب کیا جائے۔
کان اور آنکھوں سے مُراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ حصُولِ علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامّہ بھی ہیں، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیّوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد ’’دِل ‘‘سے مُراد وہ ذہن (Mind)ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف اِمکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
(۱۸) یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اِتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ دِل تمہیں اس لیے دیے گئی تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہِ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اِس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو، اور اس سے کچھ اونچے اُٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریّت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذّتوں میں غرق ہو جاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوّا بنانا چاہیے تھا۔
(۱۹)رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بُنیادی عقیدے یعنی آخرت پر اُن کے اعتراض کو لے کر اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمونِ ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ ’’ وہ کہتے ہیں محمدؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں ‘‘، اور ’’ وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کر دوبارہ نہ اُٹھیں گے ‘‘۔
(۲۰) اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کفّار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ’’ ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے ‘‘ آخر کیا معنی رکھتا ہے۔ ’’ہم‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَ لتی مِلتی ہے ؟( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ’’ہم ‘‘ نکل چکا ہوتا ہے۔ اس جسم کا نام ’’ہم ‘‘ نہیں ہے۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ’’ہم ‘‘ ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اس کا کوئی جُز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا۔ اور جب یہ ’’ہم ‘‘ کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ’’ہم ‘‘ کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مُردہ جسم کو لے جا کر دفن کر دیتا ہے ‘ کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس کا خالی جسم کو دفن کر تا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے۔ رہا اس کا دوسرا جز: ’’ کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘ ؟تو یہ ا نکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلی اس ’’ ہم‘‘ اس اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کر لیا ہوتا۔ اس ’’ہم‘‘ کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہیں لوہا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کالبُد خاکی میں یہ ’’ ہم‘‘ براجمان ہو گیا۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ’’ہم‘‘ نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ’’ ہم ‘‘کو یہ مکان بنا کر دیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سر نو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال تو خود ہی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن وہ اپنی عقل کو اس رُخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ‘‘۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آ سکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھُوٹے پھریں اور دِل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-ires)یہاں سے نکل جائیں۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ کچھ نہ ہو۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے۔
(۲۱)یعنی تمہارا ’’ہم ‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ، موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا۔ اُس کا کوئی ادنیٰ جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا۔ اور وہ پورا کا پورا حراست(Custody)میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کر دیا جائے گا۔
اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے :
۱)۔ اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی، کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی۔ بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو آ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver)کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر اس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرِ موت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے۔ نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔ (اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔ الانعام، ۹۳۔ النحل، ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔ ۹۴۔
۲)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی رہتی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’’ موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا۔ ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے۔
۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life )نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی ‘ اس کی وہ اَنا (Ego)ہے جو ’’ میں ‘‘ اور ’’ ہم‘‘ اور’’ تم‘‘ کے الفاظ تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact)نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو۔ اور ہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے۔ اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا ‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اور اسی کو جزا و سزا دیکھنی ہو گی۔
ترجمہ
کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مُجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے ) ’’ اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تا کہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آ گیا ہے۔ ‘‘ (جواب میں ارشاد ہو گا) (۲۲)’’ اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے (۲۳) مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جِنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا (۲۴) پس اب چکھو مزا اپنی اِس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا(۲۵)، ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کر دیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ‘‘۔
ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سُنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبّر نہیں کرتے (۲۶)سجدہ۔ اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں (۲۷)، اور جو کچھ رزق ہم نے اُنھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (۲۸)۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لیے چھُپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفِس کو خبر نہیں ہے (۲۹) بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟(۳۰) یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے (۳۱)
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اُن کے لیے تو جنّتوں کی قیام گاہیں ہیں (۳۲)، ضیافت کے طور پر اُن کے اعمال کے بدلے میں۔ اور جنہوں نے فِسق اختیار کیا ہے اُن کا ٹھکِانا دوزخ ہے۔ جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں دے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا اِنھیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے )باز آ جائیں (۳۳) اور اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا جِسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے (۳۴) ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔ ع
تفسیر
(۲۲) اب اُس حالت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے جب اپنے رب کی طرف پلٹ کر یہ انسانی ’’اَنا‘‘ اپنا حساب دینے کے لے اس کے حضور کھڑی ہو گی۔
(۲۳) یعنی ا س طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں، ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ۱۶۰۔ ۱۶۱۔ ۵۶۵۔ ۶۲۵۔ ۵۳۲۔ ۶۰۳۔ ۶۰۴۔ جلد دوّم ص، ۲۷۶۔ جلد سوّم ص ۳۰۰)
(۲۴)اشارہ ہے اُس قول کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم ؑ کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اُس وقت کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَا لْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور اُن لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔ ‘‘
اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اور ان شیاطین کے پیرو انسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے۔
(۲۵) یعنی دنیا کے عیش میں گم ہو کر تم نے اس بات کو بالکل بھلا دیا کہ کبھی اپنے رب کے سامنے بھی جانا ہے۔
(۲۶)بالفاظ دیگر وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے نفس کی کبریائی انہیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی۔
(۲۷)یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اُن کا حال اُن دُنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دِن کی محنتوں کی کلفت دُور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اور شراب نوشی اور کھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں۔ اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دِن بھر اپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں۔ اس کے خوف سے کانپتے ہیں اور اسی سے اپنی ساری اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں۔
بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصّہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں۔
(۲۸)رزق سے مُراد ہے رزق حلال۔ مال حرام کو اللہ تعالیٰ اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اِس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے۔
(۲۹)بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قال اللہ تعالیٰ اعددت بعبادی الصالحین ما لا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشرٍ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے ‘‘۔ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیرو بن شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد، ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے ‘‘ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ، حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیفہ بن شُعْبہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد، ابن جرریر اور ترمذی نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔
(۳۰) یہاں مومن اور فاسق کی دو متقابل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ مومن سے مُراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب واحد مان کر اُس قانون کی اطاعت اختیار کر لے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے۔ اس کے برعکس فاسق وہ جو فسق (خروج از طاعت، یا با الفاظ دیگر بغاوت، خود مختاری اور اطاعت غیر اللہ) کا رویّہ اختیار کرے۔
(۳۱)یعنی نہ دُنیا میں ان کا طرزِ فِکر و طرز حیات یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یکساں ہو سکتا ہے۔
(۳۲)یعنی وہ جنّتیں اُن کی سیر گاہیں نہیں ہوں گی بلکہ وہی ان کی قیام گاہیں بھی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
(۳۳)’’عذاب اکبر‘‘ سے مُراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلہ میں ’’ عذاب ادنیٰ ‘‘ کا الفاظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مُراد وہ تکلیفیں ہیں جو اِسی دُنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت، المناک حادثے، نقصانات، ناکامیاں وغیرہ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔ اُن آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آ جائیں اور اُس طرز فِکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اُس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا اِنتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دِلاتی ہیں۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دِلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کی کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔ اصل طاقت اُسی کار فرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔ اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے، اور نہ کسی جِن، یا روح، یا دیوی اور دیوتا، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ ان سے سبق لے کر دُنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔
(۳۴)’’رب کی آیات ‘‘ یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آ جاتی ہیں۔ قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں :
۱۔ وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔
۲۔ وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدائش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہے۔
۳۔ وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں، اس کے لاشعور میں، اور اُس کے اخلاقی تصوّرات میں پائی جاتی ہیں۔
۴۔ وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔
۵۔ وہ نشانیاں جو انسان پر آفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔
۶۔ اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔
یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتا رہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خُدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سِوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔ تو اس دُنیا میں آزاد و خود مختار اور غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے۔ پس تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کر او ر خود مختاری کی روش سے باز آ جا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں، اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دِل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں، وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کر لیتا ہے، اور اپنے دِل و دِماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دُنیا میں اپنے امتحان کی مدّت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے۔
ترجمہ
اِس سے پہلے ہم موسیٰؑ کو کتاب دے چکے ہیں، لہٰذا اُسی چیز کے ملنے پر تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیے (۳۵) اُس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا(۳۶)، اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے (۳۷)
یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل ) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (۳۸) اور کیا اِن لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں ) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟(۳۹) اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سُنتے نہیں ہیں ؟ اور کیا اِن لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بے آب گیاہ زمین کی طرف پانی بَہا لاتے ہیں، پھر اسی زمین سے وہ فصل اُگاتے ہیں جس سے ان کے جانوروں کو بھی چارہ مِلتا ہے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں ؟ تو کیا انہیں کچھ نہیں سوجھتا ؟ (۴۰)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ یہ فیصلہ کب ہو گا اگر تم سچّے ہو ؟‘‘(۴۱) ان سے کہو ’’ فیصلے کے دن ایمان لانا اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا جنہوں نے کفر کیا ہے اور پھر ان کو کوئی مہلت نہ ملے گی‘‘(۴۲) اچھا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور انتظار کرو، یہ بھی منتظر ہیں۔ ع
تفسیر
(۳۵)خطاب بظاہری نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو حضورؐ کی رسالت میں، اور آپ کے اوپر کتاب اِلٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے۔ یہاں سے کلام کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو آغاز سورہ (آیات نمبر ۲ اور ۳ )میں بیان ہوا تھا۔ کفارِ مکہ کہہ رہے تھے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر خدا کی طرف سے کوئی کتاب نہیں آئی ہے انہوں نے اسے خود گھڑ لیا ہے اور دعویٰ یہ کر رہے ہیں کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے۔ اس کا ایک جواب ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا۔ اب اس کا دوسرا جواب دیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے نبی یہ نادان لوگ تم پر کتابِ الٰہی کے نازل ہو نے کو اپنے نزدیک بعید از امکان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص بھی اگر اس کا انکار نہ کرے تو کم از کم اس کے متعلق شک ہی میں پڑ جائے۔ لیکن ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا ایک نرالا واقعہ تو نہیں ہے جو انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ہی پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں جن سے مشہور ترین کتاب وہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو دی گئی تھی۔ لہٰذا اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے تو آج آخر اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے۔
(۳۶) یعنی وہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائی گئی تھی اور یہ کتاب اسی طرح تم لوگوں کی رہنمائی کے لئے بھیجی گئی ہے جیسا کہ آیت نمبر ۳ میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اس ارشاد کی پوری معنویت اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ہی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہے اور کفار مکہ بھی اس سے ناواقف نہ تھے بنی اسرائیل کئی صدی تک مصر میں انتہائی ذلت و نکبت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس حالت میں اللہ تعا لیٰ نے ان کے درمیان مو سیٰ (علیہ السّلام)کو پیدا کیا ان کے ذریعہ سے اس قوم کو غلامی کی حالت سے نکالا پھر ان پر کتاب نازل کی اور اس کے فیض سے وہی دبی اور پِسی ہوئی قوم ہدایت پا کر دنیا میں ایک نامور قوم بن گئی۔ اس تاریخ کی طرف اشارہ کر کے اہلِ عرب سے فرمایا جا رہا ہے کے جس طرح بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے وہ کتاب بھجی گئی ہے۔
(۳۷)یعنی بنی اسرائیل کو اس کتاب نے جو کچھ بنا یا اور جن مدارج پر ان پہنچایا وہ محض ا ن کے درمیان کتاب کے آ جانے کا کرشمہ نہ تھا گویا یہ کوئی تعویذ ہو جو باندھ کر اس قوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہو اور اس کے لٹکتے ہی قوم نے بامِ عروج پر چڑھنا شروع کر دیا ہو بلکہ یہ ساری کرامت اس یقین کی تھی جو وہ اللہ کی آیات پر لائے اور اس صبر اور ثابت قدمی کی تھی جو انہوں نے احکامِ الہٰی کی پیروی میں دکھائی۔ خود بنی اسرائیل کے اندر بھی پیشوائی انہی کو نصیب ہوئی جو ان سے کتاب اللہ کے سچے مومن تھے اور دُنیوی فائدوں اور لذتوں کی طمع میں پھسل جانے والے نہ تھے۔ انہوں نے جب حق پر ستی میں ہر خطر ے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہر نقصان اور ہر تکلیف کو بر داشت کیا اور اپنے نفس کی شہوات سے لے کر باہر کے اعدائے دین تک ہر ایک کے خلاف مجاہدہ کا حق ادا کر دیا تب ہی وہ دنیا کے امام بنے اس سے مقصود کفارِ عرب کو متنبہ کر نا ہے کہ جس طرح خدا کی کتاب کے نزول نے بنی اسرائیل کے اندر قسمتوں کے فیصلے کیے تھے اسی طرح اب اس کتاب کا نزول تمہارے درمیان بھی قسمتوں کا فیصلہ کر دے گا۔ اب وہی لوگ امام بنیں گے جو اس کو مان کہ صبر و ثبات کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے اس سے منہ موڑنے والوں کی تقدیر گردش میں آ چکی ہے۔
(۳۸) یہ اشارہ ہے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طرف جن کے اندر بنی اسرائیل ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونے اور اپنے راست رو ائمہ کی پیروی چھوڑ دینے اور دُنیا پرستی میں پڑ جانے کے بعد مبتلا ہوئے۔ اس حالت کا ایک نتیجہ تو ظاہر ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بنی اسرائیل ذلت و نکبت میں گرفتار ہیں۔ دوسرا وہ ہے جو دنیا نہیں جانتی اور وہ قیامت کے روز ظاہر ہو گا۔
(۳۹)یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویّے کے ساتھ معلق ہو گیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا۔ رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے۔ اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے۔ انکار کر دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامانِ عبرت بن کر رہ گئے۔
(۴۰)سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں یہ ذکر حیات بعدالموت پر استدلال کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن میں بالعموم ہوتا ہے، بلکہ اِس سلسلۂ کلام میں یہ بات ایک اور ہی مقصد کے لیے فرمائی گئی ہے۔ ا س میں دراصل ایک لطیف اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح ایک بنجر پڑی ہوئی زمین کو دیکھ کر آدمی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ بھی کبھی لہلہاتی کشت زار بن جائے گی، مگر خدا کی بھیجی ہوئی برسات کا ایک ہی ریلا اس کا رنگ بدل دیتا ہے، اُسی طرح یہ دعوتِ اسلام بھی اِس وقت تم کو ایک نہ چلنے والی چیز نظر آتی ہے، لیکن خدا کی قدرت کا ایک ہی کرشمہ اس کو وہ فروغ دے گا کہ تم دنگ رہ جاؤ گے۔
(۴۱)یعنی تم جو کہتے ہو کہ آخر کار اللہ کی مدد آئے گی اور ہمیں جھٹلانے والوں پر اُس کا غضب ٹوٹ پڑے گا، تو بتاؤ وہ وقت کب آئے گا ؟ کب ہمارا تمہارا فیصلہ ہو گا؟
(۴۲)یعنی یہ کونسی ایسی چیز ہے جس کے لیے تم بے چین ہوتے ہو۔ خُدا کا عذاب آ گیا تو پھر سنبھلنے کا موقع تم کو نصیب نہ ہو گا۔ اس مہلت کو غنیمت جانو جو عذاب آنے سے پہلے تم کو ملی ہوئی ہے۔ عذاب سامنے دیکھ کر ایمان لاؤ گے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp
تشکر: سبط الحسین
جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید
مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، عبد الحمید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید