FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

تفسیر سورۂ فاتحہ

 

تفسیر سورۂ فاتحہ

 

 

               محمد یعقوب آسی

 

 

 

 

سبق نمبر 1

 

اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

میں پناہ مانگتا ہوں (مانگتی ہوں) اللہ کی، راندے ہوئے شیطان سے

 

               اَعُوْذُ

 

اس کا مادہ ع و ذ اور باب نَصَرَ یَنْصُرُ ہے۔ فعل ماضی مطلق معروف کا پہلا صیغہ عَاذَ (اصل: عَوَذَ) ہوا یعنی: اس نے پناہ طلب کی۔ اور فعل مضارع معروف کا پہلا صیغہ یَعُوْذُ (اصل: یَعْوُذُ ) ہوا، یعنی وہ پناہ طلب کرتا ہے۔ متکلم کے لئے یَعُوْذُ سے اَعُوْذُ بنا، یعنی میں پناہ طلب کرتا ہوں یا کرتی ہوں، میں پناہ مانگتا ہوں۔

 

               بِاللّٰہِ

 

اس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ب حرفِ جر ہے، جس کے عمومی معانی ہیں: ساتھ، پر، سے، کہ؛ وغیرہ۔ واضح رہے کہ حرفِ جر کے معانی جملے میں اس کے مقام کے مطابق متنوع ہوا کرتے ہیں اور ہمیں اہلِ زبان کا تتبع کرنا ہوتا ہے۔ اردو ترجمہ میں ہم حرفِ جر کو اردو کے مطابق بدل دیتے ہیں۔ دوسرا حصہ اللّٰہ ہے۔ یہ اللہ کریم کا ذاتی نام ہے اور ہمیشہ اسم معرفہ (اسم علم) ہوتا ہے۔ بِاللّٰہِ کا با محاورہ ترجمہ ہوا: اللہ کی (پناہ پہلے مذکور ہے)۔ اسم علم (معرفہ) ہونے کی وجہ سے لفظ اللہ مجرور ہوا، یعنی اس کے آخری حرف ہ پر کسرہ (زیر) واقع ہوا۔ یاد رہے کہ اسم معرفہ کا اعراب یعنی حرکت جو اس کے آخری حرف پر واقع ہو، اس میں تنوین نہیں ہوتی۔ یعنی دو زبر، دو زیر یا دو پیش نہیں ہوں گے۔

اَعُوْذُبِاللّٰہِ …. میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں

 

               مِنَ

 

یہ حرف جر ہے مِنْ (نون پر جزم)۔ اس کے فوراً بعد واقع ہونے والا اسم اس کا مجرور کہلاتا ہے۔ جیسے بِاللّٰہِ میں ب حرف جر اور اللّٰہ مجرور ہے۔

 

               الشَّیْطٰنِ

 

نوٹ کیجئے کہ یہاں شیطان کے اسم سے پہلے ال داخل ہوا ہے، اس کو لام تعریف کہتے ہیں۔ اسمِ نکرہ سے اسم معرفہ بنانا ہو تو ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس پر لام تعریف یعنی ال داخل کرتے ہیں۔ شیطان کا معنی ہوا: شرارت کرنے والا، بھٹکانے والا۔ اس پر ال داخل ہوا تو اس کے معانی خاص ابلیس کے لئے ہو گئے۔ شیطٰن بغیر ال کے ہوتا تو اس کے آخری حرف ن پر تنوین ہوتی۔ مِنْ شیطٰنٍ مگر یہاں شیطان معرف باللام ہے یعنی اس پر ال داخل ہوا ہے۔ ایک نکتہ اور واضح ہو جائے کہ اگر یہاں لفظ مِنْ کا وصال الشیطٰن سے نہ ہوتا تو الف پر زبر ہوتی۔ یعنی یہ ہمزہ کہلاتا۔ الف اور ہمزہ بسا اوقات الف کی صورت میں لکھے جاتے ہیں، تاہم یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں الف پر کوئی حرکت ہے یا اس پر جزم ہے، تو اسے ہمزہ سمجھا جائے گا اور اگر کچھ بھی نہیں یعنی خالی ہے تو اسے الف سمجھا جائے گا۔

مِنَ الشَّیْطٰنِ …. اس خاص شیطان یعنی ابلیس سے

 

               الرَّجِیْمِ

 

اس کا مادہ ر ج م ہے۔ رجم کے معانی ہیں، پتھر مارنا، بھگا دینا، دھتکار دینا۔ رجیم اسم مفعول بر وزن فعیل ہوا: وہ جس کو پتھر مارے گئے یا بھگا دیا گیا، یا دھتکار دیا گیا۔ اس جملے میں یہ الشیطٰن کی صِفَت کے طور پر آیا ہے۔ یعنی بھگایا ہوا، دھتکارا ہوا۔ الشیطٰن موصوف ہوا اور الرجیم صفت، دونوں مل کر ترکیب توصیفی بنے۔ یاد رہے کہ ترکیب توصیفی کے دونوں رکن (موصوف اور صفت) ساخت میں متماثل ہوں گے: دونوں نکرہ، یا دونوں معرفہ، دونوں مرفوع یا دونوں منصوب یا دونوں مجرور۔ رفع، نصب اور جر کے بارے میں کسی آئندہ سبق میں پڑھیں گے۔

یہاں جملہ کا دوسرا حصہ یوں بنا۔

مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ …. اس دھتکارے ہوئے شیطان یعنی ابلیس سے

اَعُوْذُبِاللّٰہِ …. میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں

اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس دھتکارے ہوئے شیطان یعنی ابلیس سے

*****

 

 

سبق نمبر 2

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

(شروع) اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا مہربان ہے

 

بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم کو تسمیہ بھی کہا جاتا ہے، یعنی (اللہ کا) نام لینا۔ یہاں اسم صفت کے کچھ مدارج اور معروف اشکال کو جان لینا ممد ثابت ہو گا۔ عام اور سادہ صورت فاعِل کے وزن پر ہے (ان اسباق میں جہاں واضح طور پر بتایا نہ گیا ہو، وزن، اوزان سے صرفی وزن اور اوزان مراد لئے جائیں گے نہ کہ عروضی)۔راحِم، رازِق، عالم، قابل، فاضل، جامع، ماجد، راکب؛ وغیرہ۔ فَعِیْل کے وزن پر آنے والے اسمائے صِفَت میں دوام، عادت، مستقل خاصیت وغیرہ کے معانی پائے جاتے ہیں۔ عالم (جاننے والا)، علیم (جس کا خاصہ ہے کہ وہ عالم ہو)، جامع (جس میں متعدد خصائص جمع ہوں)، جمیع (سب کے سب)، ماجد (مرتبہ میں بزرگ)، مجید (بزرگی جس کی شان ہو)۔ اسمِ صفت میں یہ دونوں تفضیلِ نفسی کہلاتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں تفضیلِ بعض ہے، یعنی مقابلۃً۔ اس کا ایک وزن اَفعَل ہے۔ کامل سے اکمل، عالم سے اَعلَم، والی سے اَولیٰ، عالی سے اعلیٰ، ماجد سے اَمجد، فاضل سے اَفضَل؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ اس میں ایک اور صورت صِفَتِ مبالغہ کی ہے؛ وزن: فَعْلَان۔ اس کے مفہوم میں بہت زیادہ، حد سے زیادہ، بے حد، بہت نمایاں طور پر کے معانی از خود شامل ہیں۔ عَفّان، ہلکان، شعبان، مرجان، صفوان، فرحان، وغیرہ۔ تسمیہ میں ہمارے پاس مادہ ر ح م پر مبنی دو اسمِ صفت ہیں۔ تنبیہ: ان کا سُبحان، بُطلان، طُغیان سے مغالطہ نہ کریں کہ ان میں کلمہ فا پر پیش ہے، زبر نہیں۔ رحمان (بر وزنِ فَعْلان) صفت مبالغہ میں آتا ہے یعنی وہ جو مبالغے کی حد تک رحم کرنے والا ہو۔ اللہ کریم کے اسمائے حُسنیٰ کے حوالے سے تو مبالغہ بھی معانی کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ سو، ہم اس کا معنی کرتے ہیں: جو بے انتہا رحم کرنے والا ہے۔ دوسری صفت دوامی ہے : رحیم (بر وزنِ فَعِیل)؛ مراد ہے کہ رحم کرنا اور کرتے رہنا، اللہ کریم کی شان ہے۔ ہم اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

اللہ کے نام سے جو بے انتہا رحم کرتا ہے اور کرتا ہی رہتا ہے

 

ہنوز یہاں ایک چیز رہ گئی۔ عمومی تراجم میں لکھا جاتا ہے: شروع اللہ کے نام سے … شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے … وغیرہ۔ عربی کا عمومی اسلوب بھی ہے اور قرآن شریف کا بھی کہ جہاں کسی جملے کے شروع میں ایسا مفہوم ہو جسے بیان کرنا یا تو معانی کو محدود کرتا ہو، یا قاری یا سامع کے ادراک پر بھاری ہو سکتا ہو، الفاظ کو چھپا لیا جاتا ہے۔ ایک مثال سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ … (سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت) ہے۔ تسمیہ میں شامل چند بہت وسیع مفاہیم کا ذکر ہو جائے۔ ہر معروف امر کی ابتدا اللہ کے نام سے ہوتی ہے، کائنات کا پورا نظام اللہ کے نام سے قائم ہے، اسی کے نام سے ختم ہو گا؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ یہ اللہ کی حکمت ہے کہ اس نے تسمیہ میں کچھ لفظاً مذکور نہیں کیا بلکہ اس کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بہت کچھ ہے جو اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے، قائم رہتا ہے، فنا ہوتا ہے۔ اوپر ہم نے شیطان (موصوف) کے ساتھ رجیم (صفت) کا مطالعہ کیا۔ یہاں اللہ (موصوف) کے ساتھ دو صفتوں کا متصل ذکر ہے: رحمان اور رحیم۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا صفت اور موصوف لفظاً بہر طور متماثل ہوتے ہیں؛ یہاں بھی لفظ اللہ میں ہائے ہوز، رحمان میں نون اور رحیم میں میم کے نیچے زیر ہے، اور سب میں ال تعریف کا موجود ہے۔ واضح رہے کہ لفظ اللہ میں ال تعریف از خود شامل ہے۔ اگر یہی ترکیب تنہا واقع ہوتی تو مذکورہ حروف پر پیش ہوتی، بجائے زیر کے۔ لفظ کے ٹکڑے بِسْمِ کو دیکھے یہ ب حرف جر اور اسم مجرور پر مشتمل ہے؛ یعنی نام کے ساتھ۔ اور یہ اسم یعنی نام آگے مضاف ہے اللہ الرحمٰن الرحیم کے سا تھ جو کہ یہاں مضاف الیہ ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مضاف الیہ مجرور ہوتا ہے یعنی اس پر واقع ہونے والی آخری حرکت زیر ہوتی ہے۔ مضاف کا مرفوع، مجرور یا مکسور ہونا جملے کی ساخت پر منحصر ہے۔ یہاں مضاف اسم حرفِ جر ب کی وجہ سے مجرور ہے لہٰذا میم پر زیر واقع ہوئی۔ مزید واضح ہو کہ لفظ اسم کا ہمزہ بصورت الف بہت سارے مقامات پر ضم ہو جاتا ہے۔ یہاں پورا جملہ بنا:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

(ہر معروف ابتدا، انتہا) اللہ کے نام سے جو بے انتہا رحم کرتا ہے اور کرتا ہی رہتا ہے

*****

 

 

 

سبق نمبر 3

 

ہمیں دو بہت خاص ہدایتیں دی گئی ہیں۔ (۱) قرآن شریف پڑھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان کی شیطانیت سے۔ اور (۲) کوئی بھی معروف کام شروع کرو تو اللہ کا نام لے لیا کرو۔ قرآن شریف کی تلاوت سے بڑھ کر اچھا کام کیا ہوگا! یہاں ہم شیطان کی شیطانیت سے پناہ مانگنے کا فلسفہ اپنی عقل کی حد تک سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ اتنا کہ اس نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکمِ الٰہی بھی نہیں مانا بلکہ اللہ کے جلال کی قسم کھا کر اعلان کر دیا کہ وہ انسان کو شش جہات سے گھیرے گا اور اس کے اندر یوں دوڑے گا جیسے رگوں میں خون رواں ہوتا ہے، اور سب سے خطرناک بات یہ ساتواں رخ ہے۔ ہمارے لئے ہدایات موجود ہیں کہ شیطانی حملوں سے (بہ توفیقِ الٰہی) بچنا کیسے ہے۔ شیطان کو بہت ساری خطرناک قوتیں حاصل ہیں اور انسان جتنا مضبوط ہے اتنا کمزور بھی ہے اور اس کو شیطان سے ہفت پہلو جنگ درپیش ہے۔ اللہ کے کلام کو پڑھنا اللہ کے احکام کو تازہ کرنا اور اس کے ساتھ کلام کرنے جیسا ہے۔ ایک مسلمان جو سوچ سمجھ کر اور مفاہیم اور مطالب کو سامنے رکھ کر اللہ کے کلام کی تلاوت بلکہ مطالعہ کرے وہ شیطان کو کیوں بھانے لگا! بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ شیطان اس وقت زیادہ شدت سے حملہ کرے گا جب بندہ قرآن شریف پڑھنے لگے۔ شیطان کے مقابلے میں اگر کوئی اس کی مدد کو پہنچ سکتا ہے تو وہ رحمان خود ہے۔ اس لئے تاکید ہوتی ہے کہ ان خاص لمحات میں رحمان کی پناہ میں آ جایا کرو۔

کسی کام کو شروع کرتے ہوئے اللہ کا نام لینے میں بہتسی حکمتیں مضمر ہیں۔ خلاف عقل بات ہو گی کہ ایک شخص عصیان و طغیان کا عمل شروع کرتے وقت نام اس اللہ کا لے جس کے حکم سے سرتابی کرنے چلا ہے۔ اللہ کا نام لے گا تو فطری طور پر سوچے گا ضرور کہ میں جو کرنے چلا ہوں وہ اللہ کی معصیت تو نہیں؟ اور اگر میرا یہ عمل اللہ کے احکام کے مطابق ہے تو اس پر اللہ کا شکر بھی ادا کرے گا، اور یہ اللہ تعالیٰ کو رحمان اور رحیم ماننے کا عملی اظہار ہے۔

وما توفیقی الا باللہ۔

*****

 

 

 

سبق نمبر 4

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

سب اچھی تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے

 

ہم پہلے جان چکے کہ لام تعریف (ال) کسی اسم نکرہ کو معرفہ بناتا ہے۔کتاب سے مراد کوئی سی کتاب ہو سکتی ہے، یعنی اسم نکرہ اور الکتاب سے مراد کوئی خاص کتا ب ہے جس کا سیاق و سباق میں ذکر ہو۔ یہ معرفہ یا معرف باللام ہوا۔ اس کا مطالعہ ہم سورۃ البقرۃ کے شروع کی آیات میں کریں گے، ان شاء اللہ۔

حمد قاعدے کے مطابق یہاں اسم نکرہ مذکر مرفوع ہے، یعنی حَمْدٌ : اچھی صفت کا ذکر کرنا، کسی میں موجود اچھی بات خوبی کو بیان کرنا، کسی میں اچھی بات کو پانا حمد ہے۔ جب کسی اسم کے آخری حرف پر پیش ہو، چاہئے تنوین کے ساتھ ہو یا بغیر تنوین کے، اس کو مرفوع کہتے ہیں اور پیش کے ہونے کو رفع کا نام دیتے ہیں۔ اس کے بہت سارے مواقع ہیں، عربی کا معلم میں تفصیل سے مذکور ہیں۔جب حَمْدٌ پر لام تعریف واقع ہوا تو تنوین باقی نہ رہی اَلْحَمْدُ بن گیا۔ یہاں یہ الف لام ایک اور معنی میں آتا ہے۔ سب کے سب، تمام کے تمام، اگر کوئی استثناء ہو گا تو بعد میں مذکور ہوگا۔ یہاں کوئی استثناء مذکور نہیں۔ الحَمْدُ (تمام کی تمام اچھی تعریفیں) ، جیسا کہ پہلے پتایا جا چکا عربی کے جملہ اسمیہ میں فعل ناقص ’’ہے، ہیں، ہوں، ہو‘‘ از خود موجود ہوتا ہے۔ لِلّٰہِ (اللہ کے لئے)۔ لَ، لِ یہ حرفِ جار ہے، معانی: کے لئے، کی خاطر، کے مقصد کو، کی ملکیت وغیرہ موقع محل کے مطابق۔ اس لام پر کبھی زبر ہوتی ہے کبھی زیر،مثالیں آگے آتی جائیں گی۔ لِ۔ اَللّٰہ (اللہ کے لئے، اللہ کا حق، اللہ کو سزاوار) اس لام حرف جر کی وجہ سے اللہ مجرور ہوا اور اس کی ہ پر زیر واقع ہوئی: لِلّٰہِ۔ یہاں تک کے جملے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا ترجمہ ہوا: تمام اچھائیاں اللہ کے لئے ہیں یا اس کا حق ہیں۔ اب آگے چلتے ہیں۔

لفظ عالَم (لام پر زبر کے ساتھ): جہان۔ انسانوں کا جہان، جنوں کا جہان، فرشتوں کا جہان، حشرات کا جہان، اَنعام و مواشی، وحوش کا جہان، پرندوں درندوں خزندوں کے جہان، پاننی مٹی آگ ہوا کے جہان، سمندر میں چھپے ہوئے جہان، زمین میں پوشیدہ جہان، پہاڑوں پتھروں کے جہان، خورد حیات کا جہان، الیکٹران نیوٹران پروٹان پازیٹران فوٹان کا جہان، الفا بیٹا گیما ایکس ریز کا جہان، ستاروں کا جہان، سیارون کا جہان، رنگ و نور کا جہان، مقناطیس اور دیگر قوتوں کا جہان؛ اور ایسے ہزاروں جہان جو ہماری نظر سے پوشیدہ ہیں یا ہمارے شعور میں بھی نہیں، ایسے جہان جو کبھی بنے مٹ گئے، جو ابھی بن رہے ہیں، یا بنیں گے۔ الحمد کی طرح یہاں بھی ال (سارے کے سارے) اور عالم کی جمع عالمین؛ مراد ہے جنتے بھی جہان موجود ہیں، کبھی موجود رہے ہیں یا کبھی وجود میں آئیں گے۔ جمع دو طریقوں سے بناتے ہیں: جمع سالم اور جمع مکسر؛ جمع سالم مرفوع عالَم سے عالمون، اور مجرور و منصوب عالمین ہے۔ یہاں العالمین یہاں مضاف الیہ بھی ہے؛ مضاف یہاں رب ہے۔ مرفوع حالت میں ربُّ العالمین ہوتا، لیکن یہاں ربُّ العالمین اللہ کی صفت کے طور پر آیا ہے اللّٰہ یہاں موصوف ہے؛ صفت اور موصوف رفع و نصب و جر میں برابر ہوتے ہیں۔ ادھر اللّٰہ مجرور ہے اور لِ جر ہے، سو اللّٰہ کا اعراب مجرور ہوا (ہ پر زیر واقع ہوئی) اور اس کا اثر ربّ کی ب پر ہوا۔ اعراب یوں طے ہوتے ہیں، تفصیل عربی گرامر کی کسی بھی اچھی کتاب میں مل سکتی ہے۔

اب آتے ہیں لفظ رَبّ کی طرف۔ قرآن شریف کے اردو تراجم میں اس کا ترجمہ عام طور پر ’’پالنے والا‘‘ ملتا ہے۔ یہ بلاشبہ درست ہے تاہم علمائے کرام مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیں کہ یہ کسی قدر محدود معنٰی ہے۔ لفظ رَبّ میں بہت زیادہ وسعتِ معنوی پائی جاتی ہے۔ اس کا اپنی محدود عقل کے مطابق کچھ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کا مادہ ہے: ر ب ب، اردو میں معروف الفاظ: ارباب، ربوبیت، ربّانی، ربّی، وغیرہم سے ہمارے اہلِ علم خوب شناسا ہیں۔ اللہ کریم ہمیں والدین کے حق میں دعا کے لئے یہ الفاظ سکھاتے ہیں: رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانَیْ صَغِیْرًا ( میرے رب! ان دونوں پر رحم و رحمت فرمائیے جیسے ان دونوں نے مجھے میں پالا پوسا جب میں چھوٹا تھا)۔ سورۃ یوسف میں ہے: ’’ …. اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کو کیا ہوا تھا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے، میرا رب ان کی چال سے خوب واقف ہے‘‘ ؛ یہاں ایک ہی آیت میں پہلے موقع پر رب سے مراد اُس فرستادے کا آقا اور حاکم ہے اور دوسرے موقع پر اللہ تعالیٰ کی ذات۔ سورۃ الرحمٰن میں ہے: ربُّ المشرقَینِ و ربُّ المغربَینِ۔ قرآن کریم کے اسلوب میں ربُّ السمٰوٰتِ والارضِ بھی ہے۔ لغت کے مطابق ربّ کے معانی ہیں: بالادست، مالک و مختار، نعمت والا، انتظام کرنے والا، جمع کرنے والا، درست کرنے والا، پرورش کرنے والا، عدم سے وجود میں لانے والا، قائم رکھنے والا، فنا کرنے والا، اشیاء و انفس کی فطرت متعین کرنے والا؛ اور مزید معانی بھی ہیں۔ ان کی روشنی میں ’’پالنے والا‘‘ معانی درست ہیں مگر محدود ہیں۔’’رب ہونا‘‘ کے لئے عربی میں رِبابۃ، رُبُوبۃ، اور رُبوبِیَّۃ معروف تراجم ہیں۔ سو، ہم اس لفظ کا ترجمہ ’’رب‘‘ ہی کریں گے کہ اس میں سارے مذکورہ معانی شامل ہیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

سب اچھی تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے

وضاحت۔۔۔۔۔ لفظ رب بغیر اضافت کے صرف اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور غیراللہ کے لیے استعمال کرنا ہو تو اضافت ضروری ہے ، جیسے مذکورہ بالا آیت میں "ارجع الی ربك” میں رب کی ضمیر مخاطب کی طرف اضافت ہو رہی ہے۔ "رب” کے معنی کی وسعت : عدم سے وجود اور پھر وجود سے عدم تک لانے والا اور اس دوران ساری ضروریات پوری کرنے والا۔

(از۔ جناب محمد اسامہ سرسری)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

سبق نمبر 5

 

               الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

یہاں بالکل وہی صورت ہے جو تسمیہ میں ہے۔ پہلی آیت پر وقف کر کے پڑھیں گے تو یہ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھا جائے گا اور اگر ملا کر پڑھیں گے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سب اچھی تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے؛ جو بے انتہا رحم کرتا ہے اور کرتا ہی رہتا ہے

ان دونوں جملوں کی بناوٹ اور اعراب کا مطالعہ بھی کرتے چلیں۔

اَلْحَمْدُ( تمام تعریفیں): اس سے جُمْلے کی ابتدا ہوتی ہے، سو، اس کے آخری حرف د پر پیش ہے۔ اس صورت کو مرفوع کہتے ہیں۔ لِلّٰہِ (اللہ کے لئے ہیں): ل حرف جر اور اللہ مجرور ہے، لِلہ کی ہ پر زیر کی علامت آئی۔ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (تمام جہانوں کا رب): اس ترکیب میں رب مضاف ہے اور العالَمین مضاف الیہ ہے۔ مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور (العالمین) ہوا، اور رب صفت ہے سو موصوف کے مجرور ہونے کی وجہ سے صفت بھی مجرور ہوا۔ جملے میں اللہ موصوف ہے اور ربّ العالَمین اس کی صفت ہے۔ الرَّحْمٰنِ (بے انتہا رحم کرنے والا): موصوف مجرور تو صفت بھی مجرور، اور الرَّحِیْمِ (رحم کرنا جس کا مستقل وصف ہے) میں بھی یہی قاعدہ کار فرما ہے۔

***

 

 

سبق نمبر 6

 

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ

جو دین کے دن کا مالک ہے

 

پہلے تھوڑی سی بات تسلسل کی ہو جائے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ (سب اچھی تعریفیں اللہ کے لئے ہیں)رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ( جو تمام جہانوں کا رب ہے؛ )الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (جوبے انتہا رحم کرتا ہے اور کرتا ہی رہتا ہے)؛ اسی تسلسل میں مالک مجرور ہوا یعنی اس کے آخری حرف پر زیر واقع ہوئی۔ رب، رحمان اور رحیم کے ساتھ اللہ کریم کی اگلی صفت مالک مذکور ہوئی۔ کہ پہلے بیان کردہ صفات کے علاوہ اللہ تعالیٰ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن بھی ہے۔ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ دوہرا مرکب اضافی ہے۔ دین کے دن کا مالک، ان میں کاف، میم اور نون پر زیر آئی ہے۔

دین کے معانی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دانَ یَدِینُ دَیناً اور دان یدِینُ دِیناً (مادہ: د ی ن)۔ دَین قرض کے معانی لاتا ہے۔ لغات کے مطابق دِین کے کچھ معانی: مالک ہونا، غلام بنانا، ذلیل کرنا، حکم دینا، خدمت کرنا، بھلائی کرنا، عزیز ہونا، فیصلہ کرنا، ملکیت، قدرت، حکم، مذہب، ملت، حالت، عادت، سیرت، تدبیر، گناہ، مجبوری، پرہیزگاری، بدلہ، قہر؛ وغیرہ۔ دیانت اسی سے ہے یعنی وہ تمام امور جو اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کی ذیل میں آئیں۔ دَینونہ قضا اور حساب کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم کے اسلوب میں دین پوری زندگی پر محیط ہے اور اس کا ترجمہ دستورِ حیات، طرزِ حیات، اُسوۃ، آئینِ زندگی کیا جاتا ہے۔ یوں مذہب (ری لی جن)کا مروجہ محدود تصور جس کے مطابق یہ کچھ رسمی عبادات ومناسک کے مجموعے کا نام ہے، درست نہیں ہے۔ ری لی جن کا تصور یہ ہے کہ ’’عبادات و مناسک اور دیگر امورِ زندگی ماسوائے مناسک ایک دوسرے سے مشروط نہیں‘‘۔ قرآن و سنت کی روشنی میں انسان کی پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ دین ہے اور یہاں جس دن کی بات ہو رہی ہے وہ اسی کے حساب کتاب کا دن ہے۔

مختصر الفاظ میں انسان کے تمام جبلی اور فطری امور، خیالات و تصورات، جلوت و خلوت، ذاتی انفرادی، خانگی، معاشرتی معاملات، محبتیں اور نفرتیں، روزی روٹی کمانے اور خرچ کرنے کا نظام، گھر سے ریاست تک کے جملہ انتظامی امور، تعلقات، مفادات، لڑائی جھگڑے، تفریحات و لذّات، تمدن، سفارات؛ سب کا سب دین میں شامل ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ انسان کو اس دنیا میں رہ کر حساب کتاب کے اسی دن کی تیاری کرنی ہے جسے یوم الدین کہا گیا ہے اور جس دن اسے اس کے اپنے دین (پورے کے پورے اعمال) کی بنیاد پر انعام و اکرام سے نوازا جائے گا یا سزا سنائی جائے گی۔ قرآن شریف میں دونوں کے لفظ ’’جزا‘‘ آیا ہے۔

مالک کے معانی جزوی طور پر بیان ہو چکے۔ لغت کے مطابق مالک وہ ہے جو خود اختیار رکھتا ہو، دسرے کو مالک بنا سکے (اختیار ، ذمہ داری وغیرہ دے سکے، بادشاہ، صاحبِ قوت و اقتدار، اہل اور لائق، شان و شوکت والا، عزت اور قدرت والا؛ وغیرہ۔ اللہ کریم کے دیگر صفاتی ناموں اور خاص طور پر پچھلی آیت میں بیان کردہ صفت رب کے تناظر میں مالک یوم الدین وہ ہستی ہے جس کو رب اور مالک کے جملہ اختیارات اور قوتیں حاصل ہیں۔ اور ہم ہر جگہ، ہر حالت میں اسی کے رحم و کرم پر ہیں، اسی کے اختیار میں ہیں، فرار کا بھی کوئی راستہ نہیں۔

اللہ کریم اپنی رحمت کے صدقے ہمیں فطرتِ سلیم، فکر و فہم، تدبر و تفکر اور توفیق سے نوازے، اور ہم پر رحم فرمائے کہ وہ رحمان و رحیم ہے۔ آمین!

***

 

 

 

سبق نمبر 7

 

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔۔۔۔۔

ہم صرف اور صرف تیری بندگی کرتے ہیں اور صرف اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں

 

سورۃ الفاتحہ کی گزشتہ آیات میں اللہ کریم نے اپنی ذاتِ با برکات کا تعارف پیش فرمایا یہ سب اچھے اوصاف اس کے ہیں، وہ سب جہانوں کا رب ہے، وہ رحمان اور رحیم ہے اور حساب کتاب کے دن بھی اسی کا حکم چلے گا۔ اس میں ہمیں بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم اللہ کا ذکر اِس انداز میں کریں، یہ اللہ کو اتنا پسند ہے کہ اس کو ہر نماز میں لازم قرار دیا۔

اسی تربیت کا سلسلہ جاری ہے اور ہمیں سکھایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگنا کس طرح ہے اور کیا کچھ ایسا مانگنا ہے جو بہترین ہے۔ اس میں پہلے تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہے کہ اے اللہ کریما! ہم صرف اور صرف تیری بندگی کرتے ہیں۔ اِیّا: تخصیص کے لئے لاتے ہیں جو ماسوائے مذکور سے سب کو خارج کر دیتا ہے۔ یہاں مذکور کَ ہے یعنی تو (اللہ تعالیٰ) اسم ضمیر متصل واحد حاضر مذکر۔ نَعْبُدُ(ہم بندگی کرتے ہیں): عبادت اور عبودیت (مادہ: ع ب د) عَبَدَ، یَعْبُدُ(باب نصر ینصر)سے فعل مضارع معروف، صیغہ جمع متکلم مذکر و مؤنث نَعْبُدُ (ہم بندگی کرتے ہیں۔ یعنی بندگی خالصتاً اللہ کی کرنی ہے، اور اِس کو تسلیم بھی کرنا ہے۔

بندگی یا عبادت کا ٹھیک ٹھیک مفہوم کیا ہے۔ بندگی، غلامی، ایک جاننا، خدمت کرنا، ذلیل ہونا، خذوع کرنا، پرستش کرنا، پوجنا۔ یہ جو عرفِ عام میں نماز، روزہ، اذکار، حج، عمرہ ، دعا اور ان کے ظاہری مناسک کو عبادت کے مفہوم میں سمجھا جاتا ہے یہ کافی و کامل نہیں۔ یہ تو بندگی کا ایک حصہ ہے۔ اوپر ذکر آ چکا کہ وہ رب ہے، مالک و مختار ہے تو اس کی بندگی حقیقت میں یہ ہے کہ زندگی کا ہر عمل اس کے حکم کے تابع ہو جائے۔ ایّاک کا مقام یوں ہے کچھ دوسرے ربوبیت کے دعوے دار اشخاص یا نظام ایسے ہو سکتے ہیں جو انسانوں کو اپنے احکام پر چلانا چاہیں۔ ایاک ایسے نظاموں اور خود ساختہ یا بنا دیے گئے خداؤں کی بندگی سے انکار ہے اور اس عمل کو اللّٰہ اور صرف اللّٰہ سے منسلک کرتا ہے۔ جو جھوٹے خداؤں، اشخاص اور نظاموں کا انکار کرے گا اس کو گو نا گوں مسائل سے بھی دو چار ہونا پڑے گا۔

ایسے میں مدد بھی اسی اللّٰہ سے طلب کرنی ہے۔ اعانت (مادہ: ع و ن) سے باب استفعال یعنی مدد مانگنا استعانت ہے: اِستَعانَ (اصل: اِستَعْوَنَ) یَسْتَعِیْنُ (اصل: یَستَعْوِنُ)۔ فعل مضارع معروف کا صیغہ جمع متکلم ہوا: نَسْتَعِیْنُ (ہم مدد مانگتے ہیں)۔ مدد مانگنے کے اس عمل کے کئی مظاہر ہو سکتے ہیں: یا اللہ فلاں مسئلہ پیش آ رہا ہے، کیا کروں! (ہدایت طلب کرنا)، یا اللہ فلاں مشکل پیش آ رہی ہے، کیا کروں! (سہارا اور مدد چاہنا) وغیرہ۔ اللہ کریم نے ایسے ہزارہا سوالوں کے جواب اور ایسی صورت حالات میں کرنے کے کام اپنے رسولوں کے ذریعے اپنی کتابوں کی صورت میں اور انبیائے کرام کے ارشادات اور معمولات کی صورت میں بندوں کو بہم پہنچا دیے ہیں۔

مدد مانگنے کا عمل حقیقت میں ان ہدایات پر عمل پیرا ہونا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ کریم سے اپنے لئے حفاظت، قوت، نصرت اور استقلال کی دعا کرنا ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

***

 

 

سبق نمبر8

 

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

ہمیں سیدھی راہ پر چلا

 

ہدایت، صراط، مستقیم۔آئیے ان تینوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ہدی (مادہ:ہ د ی):اس سے بہت سارے وسیع المعانی اسماء و افعال نکلتے ہیں۔ .. ہدایت:رہنمائی، ہُدٰی: رہنمائی، بیان، دلالت … ہَدْیُ: طریقہ، سیرت، ہِدْیَہ: طریقہ، سیرت .. ہدیۃُ الامر: جہتِ کار … اِہْدَا، اِہْدٰی: ہدایت کرنا، ہدایت پر ڈالنا … ہَدْیَہ: قربانی کا جانور

صراط (مادہ: ص ر ط)۔ صِراط : راستہ، صُرُط (ج)۔ … صُراط: لمبی تیز تلوار

استقامت (مادہ: ق و م): قامَ، یقُومُ، قَومًا و قَومۃً و قِیامًا و قامَۃً: کھڑا ہونا، ٹھہرنا، … استقام اِستقامۃً: سیدھا ہونا، درست ہونا۔

اِہْدِ (فعل امر واحد حاضر مذکر): ہدایت کر، راہنمائی کر، راستہ دکھا۔ قواعد کے لئے ’’عربی کا معلم‘‘ دیکھئے۔ یہاں اس فعل کے دو مفعول ہیں؛ پہلا : نا (ہم) ضمیر متصل جمع متکلم؛ دوسرا : اَلصِّراط (راستہ) یعنی صِراط معرف باللام: کسی خاص راستے کی بات ہو رہی ہے۔ آگے اس راستے کی صفت اَلمُستَقِیم واقع ہوئی: ایک خاص سیدھا راستہ، جو یقیناً اسلام ہے جس کا تعارف گزشتہ آیات میں دین کی حیثیت سے آ چکا۔ دین کے معانی ذہن میں تازہ کئے لیتے ہیں یعنی مکمل طرزِ حیات۔ ہمیں تعلیم کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ، اللہ! ہمیں دینِ اسلام پر چلا، کہ یہی سیدھا راستہ ہے اور اسی میں پوری زندگی میں پیش آنے والے جملہ امور پر روشن ہدایات کتاب و سنت کی صورت میں میسر ہیں۔ سیدھے راستے پر چلنے کا حقیقی مفہوم ہے: اسلام کو بطور دین تسلیم و اختیار کرنا کہ زندگی کے کسی بھی امر میں اللہ کریم اور رسول کریم کے ارشادات سے سرتابی نہ کی جائے۔ صِراط کی مزید تشریح میں دو بہت اہم نکات آگے بیان ہوتے ہیں۔

***

 

 

 

سبق نمبر 9

 

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ

انعمتَ۔۔۔ مادہ: ن ع م باب: اِفعال۔ فعل ماضی مطلق: اَنعَمَ (اس نے انعام کیا، اس نے نعمت دی، اس نے عطا کیا)۔ انعَمتَ : صیغہ واحد حاضر مذکر۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے لئے آیا ہے۔ گزشتہ سبق (ہمین سیدھے راستے پر چلا) سے چوڑتے ہوئے۔۔ صراط الذین (ان لوگوں کا راستہ) انعمتَ علیھم (تو نے ان پر انعام کیا)۔۔ غیر (ماسوا، دوسرا، اس سے ہٹ کر، بغیر، کسی امر سے خارج قرار دینے کو بھی لاتے ہیں)۔ المغضوب علیھم (وہ لوگ جن پر غضب کیا گیا) وضاحت آگے آتی ہے۔ وَ لا (اور نہ) الضالین (گمراہ لوگ، بھٹکے ہوئے لوگ)۔

(ہمیں سیدھے راستے پر چلا) ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے عنایات کیں؛ ان لوگوں کا راستے پر نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ ہی ان لوگوں کے راستے پر جو بھٹک گئے۔

"المغضوب علیهم” نحوی مطالعہ مختصر مختصر (جناب محمد اسامہ سرسری)۔

۔۔۔ عربی نحو کے مطابق جس طرح فعل کے لیے فاعل ، مفاعیل خمسہ اور متعلقات ضروری ہوتے ہیں اسی طرح شبہ فعل کے لیے بھی ہوتے ہیں اور "شبہ فعل” اس اسم فاعل یا اسم مفعول کو کہتے ہیں جس کے شروع میں "الف لام” تعریفی ہو ، جیسے الضارب اور المضروب ، کیونکہ یہ الف لام "الذی” اسم موصول کے معنی میں ہوتا ہے ، یوں "الضارب” کا مطلب ہے "الذی ضَرَبَ” (وہ جس نے مارا) اور "المضروب” کا مطلب ہے "الذی ضُرِب” (وہ جس کو مارا گیا)

اسی طرح: "المغضوب علیھم” کا مطلب ہے "الذین غُضِبَ علیھم” یعنی وہ لوگ جن پر غضب کیا گیا۔

خلاصۂ جواب:

"المغضوب علیھم” شبہ فعل ہے اور فعل مجہول کے قائم مقام ہے ، "علی” حرف جر کے واسطے سے "ھم” ضمیر اس کا نائب فاعل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشہور قول تو یہی ہے کہ المغضوب علیہم سے یہود مراد ہیں اور الضالین سے نصاریٰ، مگر تفسیر کبیر میں امام رازی صاحب لکھتے ہیں کہ بہتر یوں کہنا ہے کہ المغضوب علیہم سے فساق اور الضالین سے کفار مراد ہیں، ایک تیسرا قول یہ بھی لکھا ہے کہ اول سے کفار اور ثانی سے منافقین مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ (محمد اسامہ)

***

 

 

 

سبق نمبر 10

 

سورہ الفاتحہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اللہ کریم کی اس کتاب ’’قرآن مجید‘‘ کا افتتاحیہ ہے۔ اللہ کے کلام کا ایک ایک لفظ ایسا اہم اور بے مثال ہے کہ کوئی انسان کیسے کوئی ترجیح متعین کرے گا؟ حسبِ موقع اکتسابِ فیض و برکات کے لئے البتہ ہم کسی ایک سورہ یا آیت کو سامنے رکھ لیتے ہیں، تب بھی اس کتاب کا سارا متن ساتھ رہے تو بات بنتی ہے۔ آئیے، اس افتتاحیے پر مختصر سی بات چیت کرتے ہیں۔

۔۔۔

اس کو سبع مثانی بھی کہتے ہیں ’’بار بار دہرائی جانے والی سات آیات‘‘ کہ ہم بہ توفیقِ الٰہی ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں۔ بات شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ تمام اچھی باتیں اور صفات اللہ کریم کی ہیں، ان میں چار کا یہاں ذکر ہوتا ہے۔ اللہ کے دربار میں مؤدب اور ہوشیار کھڑے ہو کر جب ہم بار بار صدقِ دل کے ساتھ اقرار کرتے ہیں کہ میرا اللہ (۱) رب ہے، (۲) رحمان ہے، (۳) رحیم ہے، اور (۴) مالک ہے ؛ تو پھر میرے لئے زندگی میں کسی آئیں بائیں شائیں کی گنجائش رہ ہی نہیں جاتی۔ اگلی ہی بات حساب کے دن کی آتی ہے کہ وہ جزا کے دن کا مالک ہے تو مجھے کانپ جانا چاہئے! تب میری کیا کیفیت ہو گی جب ربِ ذوالجلال کے سامنے اسی طرح کھڑے ہو کر اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ بول، تیرے ساتھ کیا کِیا جائے۔ بالکل فطری انداز میں دل سے اٹھتی ہوئی پکار ہے: ایاک نعبد، اور مدد اعانت بھی سب کچھ اسی سے مانگنی ہے کہ اس کے اختیار کی کوئی حد نہیں اور کوئی سفارش کرنے والا بھی نہیں ہو گا الّا باِذنہ، وہ بھی اجازت ملے گی تب! اے کاش ہم کچھ سوچیں سمجھیں۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم سیدھی راہ پر چلیں! اس کے لئے بھی تو اسی اللہ کی طرف سے ہدایت نصیب ہو گی تب نا! یہی بات دعا بن کر نکلتی ہے اللہ! ہمیں سیدھی راہ پر ڈال اور سیدھی راہ پر رکھ۔ بے حد و حساب عظمتوں والے اللہ کے سامنے کھڑا ہونا کوئی آسان سی بات ہے؟ ٹانگیں، بازو، ہونٹ تو کیا، روح تک کانپ جانی چاہئے۔ اور اپنا حساب اپنے سامنے آ جانا چاہئے، پچھلی نماز سے اب تک کا حساب ہی سامنے آ جائے تو یہ بھی بہت بڑی آگاہی ہو گی، جو اسی ہدایت کا حصہ بنے گی جس کی ہم طلب کر رہے ہیں۔ بات آگے بڑھتی ہے کہ ہم سے کچھ ایسا سرزد نہ ہو جائے جس پر ہم اللہ کے غضب کے لائق قرار پائیں یا کچھ ایسا نہ کر بیٹھیں اپنی اسی سیدھی راہ سے ہی بھٹک جائیں۔ اس سب کچھ کا ادراک ہو جائے، احساس نصیب ہو جائے اور ہمیں معلوم ہو کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں کس سے کہہ رہے ہیں تو ایک پکار بے اختیار اٹھتی ہے۔ آمین!

٭٭٭

ماخذ:

https://www.facebook.com/groups/310619725752604/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدت