فہرست مضامین
- تفسیر سورۂ فاتحہ
- تفسیر سورۂ فاتحہ
تفسیر سورۂ فاتحہ
امام قرطبی
سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ مَکِیَّۃ
آیت نمبر ۱ تا ۸
تفسیر سورۂ فاتحہ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴿1﴾
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اس کے متعلق چار ابواب ہیں۔
الباب الاول
یہ بات سورۂ فاتحہ کے فضائل اور اس کے اسماء کے بارے میں ہے اور اس باب میں سات مسائل کا ذکر ہو گا۔
مسئلہ نمبر ۱ : ترمذی نے حضرت ابی بن کعب سے روایت کیا، فرمایا : رسولﷺ نے فرمایا : تورات اور انجیل میں اللہ تعالیٰ نے ام القرآن (سورۂ فاتحہ) کی مثل کلام نہیں اتارا اور یہ سورہ سبع مثانی (ایسی سات آیات جو بار بار پڑھی جاتی ہیں) ہے۔ یہ میرے بندے کے درمیان منقسم ہے اور میرے بندے کے لئے وہی ہے جو اس نے سوال کیا۔ (۱) مالک نے علاء بن عبد الرحمٰن بن یعقوب سے روایت کیا ہے کہ ابو سعید مولیٰ عبد اللہ بن عامر بن کریز نے انہیں بتایا کہ رسول اللہﷺ نے ابی بن کعب کو بلایا جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ پھر مذکورہ بالا حدیث ذکر کی۔ ابن عبد البر نے فرمایا : ابو سعید کے نام پر آگاہی نہیں ہوئی وہ اہل مدینہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے اور ان کی یہ حدیث مرسل ہے اور یہی حدیث ابو سعید بن معلیٰ سے بھی مروی ہے، یہ صحابہ میں سے ایک شخص ہے اس کے نام پر بھی آگاہی نہیں ہوئی۔ اس حدیث کو ابو سعید نے حفص بن عاصم اور عبید بن حسنین سے روایت کیا ہے۔
میں (قرطبی) کہتا ہوں :’’التمہید‘‘ میں اسی طرح ہے کہ اس کے نام پر آگاہی نہیں ہوئی اور ’’کتاب الصحابہ‘‘ میں اس کے نام میں اختلاف ذکر کیا گیا ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے ابو سعید بن معلیٰ سے روایت کیا ہے۔ ابو سعید نے فرمایا : میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے مجھے آواز دی۔ میں نے آپ کو جواب نہ دیا (میں دیر سے حاضر خدمت ہوا ) تو عرض کی : یا رسول اللہ ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم (الانفال :24) لبیک کہو اللہ اور ( اس کے) رسول کی پکار پر جب وہ رسول بلائے تمہیں) پھر رسول اللہﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا، جب آپﷺ نے مسجد سے نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کی : حضور ! آپ نے فرمایا نہیں تھا کہ میں تجھے ایک سورت سکھاؤں گا جو قرآن میں سب سورتوں سے عظیم ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : وہ سورت یہ ہے الحمد للہ رب العلمین۔ یہ سبع مثانی ہے اور وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے (۱)۔ ابن عبد البر وغیرہ نے فرمایا : ابو سعید بن معلیٰ جلیل القدر انصار میں سے ہے اور انصار کے سرداروں میں سے ہے۔ امام بخاری نے تنہا ان سے روایت کیا ہے۔ اس کا نام رافع ہے۔ اسے حارث بن نفیح بن معلیٰ کہا جاتا ہے اور اوس بن معلیٰ بھی کہا جاتا ہے اور ابو سعید بن اوس بن معلیٰ بھی کہا جاتا ہے ان کا وصال ۷۴ ہجری میں ہوا جبکہ ان کی عمر ۶۴ سال تھی۔ قبلہ کی تبدیلی ہوئی تو یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ مزید ذکر آگے آئے گا۔ حضرت ابی بن کعب کی حدیث کو یزید بن زریع نے مسند (متصل) ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں : ہمیں روح بن قاسم نے علاء بن عبد الرحمٰن سے روایت کر کے بتایا، علاء نے اپنے باپ سے، ان کے باپ نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا، حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا : رسول اللہﷺ ابی کے پاس تشریف لے گئے جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ پھر مکمل حدیث کا مفہوم ذکر کیا۔
ابن انباری نے اپنی کتاب ’’الرد‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ مجھے میرے باپ نے بتایا، انہوں نے فرمایا : مجھے ابو عبید اللہ وراق نے بتایا۔ انہوں نے کہا : ہمیں ابو داؤد نے بیان کیا انہوں نے کہا : ہمیں شیبان نے بتایا انہوں نے منصور سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کیا، فرمایا : ابلیس۔ اللہ اس پر لعنت کرے۔ چار مرتبہ (افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ) رویا : (۱) جب اس پر لعنت کی گئی (۲) جب اسے جنت سے نکالا گیا (۳) جب حضرت محمدﷺ کا مبعوث کیا گیا (۴) جب سورۂ فاتحہ نازل ہوئی اور یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی۔
مسئلہ نمبر 2: علماء کا بعض سورتوں اور بعض آیتوں کا دوسری بعض سورتوں اور آیتوں پر فضیلت رکھنے کے متعلق اختلاف ہے (اسی طرح) بعض اسماء حسنی کا دوسرے بعض اسماء حسنیٰ پر فضیلت رکھنے کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں : کسی سورت آیت اور اسم کو دوسری سورت آیت اور اسم پر فضیلت نہیں ہے کیونکہ قرآن سارا اللہ کا کلام ہے، اسی طرح اس کے اسماء حسنیٰ کے درمیان بھی کوئی تفاضل نہیں ہے یہ قول شیخ ابو الحسن اشعری، قاضی ابوبکر بن طیب، ابو حاتم محمد بن حیان بستی اور فقہاء کی ایک جماعت کا ہے۔ امام مالک سے بھی اس کا مفہوم مروی ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ نے کہا : بعض قرآن کو بعض قرآن پر فضیلت دینا غلطی ہے۔ اسی طرح امام مالک نے ایک سورت کو بار بار پڑھنا یا اسے ہی دہراتے رہنا مکروہ قرار دیا ہے۔ امام مالک سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد بخیر منھا او مثلھا (البقرہ :106) کے تحت یہ مروی ہے کہ ہم منسوخ آیت کی جگہ محکم آیت لے آتے ہیں۔ ابن کنانہ نے امام مالک سے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ ان علماء نے اس طرح حجت پکڑی ہے کہ افضل، منضول کے نقص کا شعور دیتا ہے، جبکہ تمام قرآن میں ذاتیت ایک ہے اور وہ کلام اللہ ہونا ہے اور اللہ کے کلام میں کوئی نقص نہیں ہے۔
سبتی نے کہا : حدیث کے الفاظ ’’تورات و انجیل میں سورۂ فاتحہ کی مثل نہیں اتارا گیا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تورات اور انجیل کو پڑھنے والے کو اتنا ثواب عطا نہیں فرماتا جو ام القرآن (سورہ فاتحہ) پڑھنے والے کو عطا فرماتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت (محمدیہ ) کو دوسری امتوں پر اپنے فضل خاص سے فضیلت بخشی ہے اور اپنے کلام قرآن کی قراءت پر دوسرے اپنے کلام کی قراءت کی نسبت زیادہ فضیلت دی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی جناب سے اس امت کے لئے خاص فضل ہے اور فرمایا : اعظم سورت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت قرآن کی سورتوں میں سے اجر کے اعتبار سے عظیم ہے، نہ کہ بعض قرآن بعض سے افضل ہے۔
بعض علماء بعض قرآن کی بعض پر فضیلت کے قائل ہیں، وہ فرماتے ہیں : قرآن کی آیت والھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحم۔ (البقرہ) آیۃ الکرسی، سورۂ حشر کی آخری آیات، سورۂ اخلاص اور وہ سورتیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی صفات پر دلالت کرتی ہے ان میں جو فضیلت ہے وہ تمت یدا ابی لھب (لہب :1) اور اس جیسی دوسری سورتوں میں موجود نہیں ہے۔
اور تفضیل معانی عجیبہ اور کثرت معانی کے اعتبار سے ہے نہ کہ صفت کے اعتبار سے ہے اور یہی حق ہے اور جو علماء تفصیل کے قائل ہیں ان میں سے اسحاق بن راہویہ وغیرہ متکلمین علماء میں سے ہیں اور یہ قول قاضی ابو بکر بن عربی، ابن حصار کا مختار ہے۔ ان علماء کے قول کی وجہ ابو سعید بن معلیٰ اور حضرت ابی بن کعب کی حدیث ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے ابی ! تیرے نزدیک کتاب اللہ میں کون سی آیت عظیم تر ہے، میں نے عرض کی اللہ لا الہ الا ھو الحئی القیوم (البقرہ : 255) حضرت ابی نے فرمایا : آپﷺ نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا : اے ابا منذر ! تجھے یہ علم مبارک ہو۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے۔
ابن عربی نے کہا : حضورﷺ کا ارشاد کہ اللہ تعالیٰ نے تورات، انجیل اور قرآن میں اس (سورہ فاتحہ) کی مثل نازل نہیں کیا (۱)۔ اس حدیث میں حضورﷺ نے باقی کتب کا ذکر نہیں کیا جیسے منزل صحیفے اور زبور وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مذکور دوسری کتب سے افضل ہیں اور جب کوئی چیز کسی افضل سے افضل ہو تو وہ تمام چیزوں سے افضل ہوتی ہے جیسے تیرا قول زید، علماء سے افضل ہے۔ پس وہ تمام لوگوں سے افضل ہے۔ سورۂ فاتحہ میں ایسی صفات ہیں جو کسی دوسری سورت میں نہیں حتی کہ بعض علماء نے کہا : پورا قرآن اس سورت میں ہے اس کے پچیس کلمات ہیں جو تمام علوم قرآن کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہیں۔ اس سورت کے شرف میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم فرمایا ہے اور قربت صرف اسی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور کوئی عمل اس کے ثواب کو لاحق نہیں ہوتا۔ اسی مفہوم کی وجہ سے یہ قرآن عظیم کی اصل بن گئی۔ جیسا کہ سورہ قل ھو اللہ احد قرآن کا ثلث (۱/۳) ہے کیونکہ قرآن، توحید، احکام اور مواعظ کا نام ہے اور سورہ قل ھو اللہ احد میں ساری توحید ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے نبی کریمﷺ نے حضرت ابی بن کعب سے پوچھا : قرآن میں کون سی آیت عظیم ہے ؟ تو حضرت ابی نے کہا اللہ لا الہ الا ھو الحئی القیوم (البقرہ : 255) یہ آیت عظیم ہے کیونکہ یہ تمام توحید ہے جیسا کہ آپﷺ کا ارشاد ہے افضل ما قلتہ انا والنبیون من قبلی لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ افضل ذکر بن گیا کیونکہ یہ ایسے کلمات ہیں جو توحید میں تمام علوم کو گھیرے ہوئے ہیں۔ سورۂ فاتحہ توحید، عبادت، وعظ اور نصیحت کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں۔
مسئلہ نمبر 3: حضرت علی بن ابی طالبؓ نے روایت فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : سورۂ فاتحہ، آیۃ الکرسی، شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو (آل عمران : 18) قل اللھم مالک الملک (آل عمران :26) یہ آیات عرش سے معلق ہیں ان کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے،
ابو عمر ودانی نے اپنے کتاب البیان میں اس روایت کو متصل نقل کیا ہے۔
مسئلہ نمبر 4: سورہ فاتحہ کے اسماء
اس کے بارہ اسماء ہیں۔
۱۔ الصلاۃ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف، نصف تقسیم کیا یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔
۲۔ سورۃ الحمد
چونکہ اس میں حمد کا ذکر ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ سورۃ اعراف، سورۂ انفال اور سورۂ توبہ وغیرہا۔
۳۔ فاتحۃ الکتاب
اس نام میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ لفظاً اس کے ساتھ قرآن کی قراءت کا آغاز کیا جاتا ہے اور خطا مصحف میں اس کے ساتھ کتابت کا آغاز کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ نمازوں کو شروع کیا جاتا ہے
۴۔ ام الکتاب
اس نام میں اختلاف ہے۔ جمہور نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ حضرت انس، حسن بصری اور ابن سیرین نے مکروہ قرار دیا ہے۔ حسن نے کہا : ام الکتاب حلال اور حرام احکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ایت محکمت ھن ام الکتب واخر متشبھت (آل عمران :7) حضرت انس اور ابن سیرین نے کہا : ام الکتاب لوح محفوظ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانہ فی ام الکتب (الزخرف : 4)
۵۔ ام القرآن
اس نام بھی اختلاف ہے۔ جمہور نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ حضرت انس اور ابن سیرین نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ احادیث ثابتہ ان دونوں اقوال کی تردید کرتی ہیں۔ امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : الحمد للہ ام القرآن، ام الکتاب اور السبع المثانی ہے ۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بخاری میں ہے فرمایا : ام الکتاب نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ مصاحف میں اس کے لکھنے کے ساتھ آغاز کیا جاتا ہے اور نماز میں اس کی قراءت کے ساتھ آغاز کیا جاتا ہے ۔ یحییٰ بن یعمر نے کہا : ام القریٰ مکہ ہے، ام خراسان مرد ہے اور ام القرآن سورۂ الحمد ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا : سورۂ فاتحہ کو ام القرآن اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ قرآن کے آغاز میں ہے اور قرآن کے تمام علوم کو متضمن ہے۔ اسی وجہ سے مکہ کو ام القریٰ کہا جاتا ہے کیونکہ مکہ، زمین کا پہلا ٹکڑا ہے پھر اس سے زمین پھیلائی گئی۔ اسی وجہ سے ماں کو ام کہا جاتا ہے کیونکہ وہ نسل کی اصل ہوتی ہے اور امیہ بن ابی الصلت کے قول میں زمین کو ام کہا گیا ہے۔
فالارض معقلنا وکانت امنا فیھا مقابرنا وفیھا نولد
زمین ہماری پناہ گاہ ہے اور زمین ہماری اصل ہے اس میں ہماری مقابر ہیں اور اس میں ہماری پیدائش ہے۔
جنگ کے جھنڈے کو بھی ام کہا جاتا ہے کیونکہ وہ آگے ہوتا ہے اور لشکر اس کی پیروی کرتا ہے اور ام کی اصل امۃ ہے۔ اسی وجہ سے اس کی جمع امھات آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وامھتکم (النساء :23)۔ بغیر ھاء کے امات بھی کہا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا : فرجت الظلام باماتکا۔ تو نے اپنی نسبی شرافت سے تاریکیوں کو ختم کر دیا۔
بعض علماء نے فرمایا : انسانوں میں امہات اور چوپاؤں میں امات بولا جاتا ہے ابن فارس نے ’’الجمل‘‘ میں یہی بیان کیا ہے۔
۶۔ المثانی
یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ یہ ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ اس امت کے لئے خاص کی گئی ہے پہلی امتوں میں سے کسی پر یہ نازل نہیں ہوئی، اسی امت کے لئے محفوظ کی گئی تھی۔
۷۔ القرآن العظیم
یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ اس ضمن میں قرآن کے تمام علوم ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف کمال و جلال کے ساتھ اس کی ثنا پر مشتمل ہے اور عبادت کے امر اور اخلاص، بغیر اعانت الٰہیہ کے کسی کام کرنے سے عجز کے اعتراف پر مشتمل ہے نیز صراط مستقیم کی طرف ہدایت کے لئے اسی کی بارگاہ میں تضرع و زاری پر مشتمل ہے۔ نیز اس میں عہد توڑنے والوں کے احوال کی کفایت بھی ہے اور محنت کرنے والوں کے انجام کے بیان پر مشتمل ہے۔
۸۔ الشفاء
دارمی نے حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : فاتحہ الکتاب ہر زہر سے شفاء ہے ۔
۹۔ الرقیہ (دم کرنا)
حضرت ابو سعید خدری کی حدیث سے یہ نام ثابت ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ رسولﷺ نے اس شخص سے فرمایا، جس نے قبیلہ کے سردار کو دم کیا تھا : تجھے کیا معلوم کہ یہ دم ہے۔ حضرت ابو سعید نے کہا : یا رسول اللہ !ﷺ یہ ایک چیز تھی جو میرے دل میں ڈالی گئی تھی ۔ اس حدیث کو ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث مکمل آگے آئے گی۔
۱۔ اساس
ایک شخص نے امام شعبی سے اپنے پہلو میں درد کی شکایت کی تو امام شعبی نے کہا : تو اساس القرآن، فاتحہ الکتاب پڑھ۔ میں نے حضرت ابن عباس کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر چیز کے لئے ایک اساس (بنیاد) ہوتی ہے، دنیا کی اساس مکہ ہے، کیونکہ اس سے زمین پھیلائی اور آسمانوں کی اساس عریب ہے یہ ساتواں آسمان ہے، زمین کی اساس عجیب ہے، یہ نچلی ساتویں زمین ہے، جنتوں کی اساس جنت عدن ہے، یہ جنتوں کی ناف ہے اس پر جنت کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ آگ کی اساس جہنم ہے اور نیچے والا ساتواں طبقہ ہے اس پر درکات کی بنیاد رکھی گئی ہے، خلق کی اساس آدم ہیں اور انبیاء کی اساس نوح ہیں، بنی اسرائیل کی اساس یعقوب ہیں، کتب کی اساس قرآن ہے، قرآن کی اساس سورۂ فاتحہ ہے، سورہ فاتحہ کی اساس بسملہ ہے جب تو بیمار ہو یا تجھے تکلیف ہو تو تجھے سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہئے، تجھے شفا ہو گی۔
۱۱۔ وافیہ
سفیان بن عیینہ نے یہ نام بیان کیا ہے۔ اس نام کی وجہ ہے کہ یہ نصف نصف نہیں ہوتی اور جدائی کو برداشت نہیں کرتی۔ اگر کوئی باقی سورتوں میں سے کسی سورت کا نصف ایک رکعت میں پڑھے اور نصف دوسری رکعت میں پڑھے تو یہ جائز ہو گا۔ اگر سورۂ فاتحہ کو آدھا آدھا کر کے دو رکعتوں میں پڑھے تو جائز نہ ہو گا۔
۱۲۔ کافیہ
یحییٰ بن ابی کثیر نے فرمایا : اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ باقی تمام سورتوں سے کفایت کرتی ہے جبکہ باقی تمام سورتیں اس سے کفایت نہیں کرتیں۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جو محمد بن خلاء آ سکندرانی نے روایت کی، فرمایا : نبی کریمﷺ نے فرمایا : ام القرآن دوسری تمام سورتوں کا بدل ہے جبکہ دوسری سورتیں اس کا بدل نہیں ۔
مسئلہ نمبر 5: مہلب نے کہا : دم کا مقام یہ ہے ایاک نعبدوایاک نستعین۔ بعض علماء نے فرمایا : پوری سورت دم ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے ایک شخص کو ارشاد فرمایا : جس نے سورۂ فاتحہ سے دم کرنے کی خبر دی تھی : تجھے کیسے معلوم تھا کہ یہ سورت دم ہے ۔ آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس میں دم ہے۔ پس یہ دلیل ہے کہ پوری سورت دم ہے کیونکہ یہ کتاب کا آغاز ہے اور تمام علوم کو متضمن ہے جیسے ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
مسئلہ نمبر 6: دوسری چیزوں کا نام المثانی اور ام الکتاب رکھنے کی وجہ سے اس کا نام المثانی اور ام الکتاب رکھنے سے کوئی چیز مانع نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کتبا متشابھا مثانی (الزمر : 23) اس آیت میں کتاب پر مثانی کا اطلاق فرمایا ہے کیونکہ اس میں اخبار بار بار بیان کی جاتی ہیں۔ سبع طوال سورتوں کو بھی مثانی کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں فرائض اور قصص دہرائے جاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : رسول اللہﷺ کو سبعا من المثانی دی گئیں۔ فرمایا : اس سے مراد السبع الطوال سورتیں ہیں یہ قول نسائی نے ذکر کیا ہے اور السبع الطوال سورتیں سورۂ بقرہ سے اعراف تک چھ سورتیں ہیں اور ساتویں میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : سورۂ یونس ساتویں ہے، بعض نے فرمایا : سورۂ انفال اور توبہ ہے۔ یہ حضرات مجاہد، سعید بن جبیر کا قول ہے۔ اعشی ہمدان نے کہا تھا :
فلجوا المسجد وادعوا ربکم وادرسوا ھذی المثانی الطول
یعنی مساجد میں داخل ہو جاؤ اور اپنے رب کو پکارو اور یہ مثانی اور طوال سورتیں پڑھو۔
مزید بیان ان شاء اللہ سورۃ الحجر میں آئے گا۔
مسئلہ نمبر 7: المثانی، مثنیٰ کی جمع ہے اس سے مراد دوسری ہے، طول جمع ہے اطول کی، الانفال کو مثانی کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ مقدار میں طویل سورتوں کے بعد ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ وہ سورت ہے جس کی آیات مفصل سورتوں سے زائد ہیں اور مئین سورتوں سے کم ہیں۔ مئون ان سورتوں کو کہا جاتا ہے جن میں سے ہر سورت کی سو سے زائد آیات ہوتی ہیں۔
دوسرا باب
یہ باب سورۂ فاتحہ کے نزول اور اس کے احکام کے بارے میں ہے۔ اس میں بیس مسائل ہیں۔
مسئلہ نمبر 1: اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ سورۂ فاتحہ کی سات آیات ہیں، مگر صرف حسین الجعفی سے روایت کیا گیا ہے کہ اس کی چھ آیات ہیں ۔ اور یہ قول شاذ ہے۔ (اسی طرح) عمرو بن عبید سے مروی ہے کہ اس نے ایاک نعبد کو علیحدہ آیت شمار کیا ہے اور آٹھ آیات بنائی ہیں۔ یہ قول بھی شاذ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لقد اتینک سبعا من المثانی (الحجر :87) اور فرمایا : میں نے نماز کو تقسیم کیا ۔ (الحدیث ) یہ آیت اور حدیث ان دونوں اقوال کا رد کرتی ہیں۔
اس بات پر بھی امت کا اجماع ہے کہ یہ سورۂ قرآن سے ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ اگر یہ قرآن میں سے ہوتی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود اپنے مصحف میں اسے لکھتے، جب انہوں نے اسے اپنے مصحف میں نہیں لکھا تو یہ دلیل ہے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے، جیسا کہ معوذتین (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ) کا حکم ان کے ہاں تھا۔
اس کا جواب ابو بکر انباری نے یہ دیا ہے۔ فرمایا : ہمیں حسن بن حباب نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں سلیمان بن اشعث نے بتایا انہوں نے کہا : ہمیں ابن ابی قدامہ نے بتایا انہوں نے کہا : ہمیں جریر نے اعمش سے روایت کر کے بتایا، فرمایا : میرا خیال ہے انہوں نے ابراہیم سے روایت کیا، ابراہیم نے فرمایا : حضرت عبد اللہ بن مسعود سے کہا گیا تم اپنے مصحف میں سورۂ فاتحہ کیوں نہیں لکھتے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : اگر میں اسے لکھتا تو میں اسے ہر سورت کے ساتھ لکھتا۔ ابو بکر نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ ہر رکعت میں تلاوت کی گئی سورت سے پہلے ام القرآن سے آغاز کیا جاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : میں نے اس کو چھوڑ کر اختصار کیا ہے اور میں نے اس بات پر اعتماد کیا ہے کہ مسلمان اس کو محفوظ کئے ہوئے ہیں میں نے اسے کسی ایک جگہ پر نہیں لکھا۔ مجھ پر لازم تھا کہ میں اسے ہر سورت کے ساتھ لکھتا کیونکہ نماز میں یہ ہر سورت سے مقدم ہوتی ہے۔
مسئلہ نمبر 2: علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ کیا یہ مکی سورت ہے یا مدنی سورت ہے۔ حضرات ابن عباس، قتادہ اور ابو العالیہ الریاحی اس کا نام رفیع ہے وغیرہم نے فرمایا : یہ سورت مکی ہے۔ حضرات ابو ہریرہ، مجاہد، عطا، بن یسار، زہری وغیرہم نے فرمایا : یہ مدنی سورت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا نصف مکہ میں نازل ہوا اور نصف مدینہ میں نازل ہوا۔ یہ قول ابو لیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ پہلا قول اصح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولقد اتینک سبعا من المثانی والقرآن العظیم۔ یہ آیت سورۃ الحجر کی ہے اور سورۃ الحجر بالا جماع مکی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نماز مکہ میں فرض تھی اور اسلام میں کبھی بغیر الحمد کے نماز نہیں تھی۔ اس پر نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : ’’لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب‘‘ (سورۃ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں)۔ یہ حکم کے متعلق خبر ہے نہ کہ ابتدا کے متعلق خبر ہے۔ واللہ اعلم۔
قاضی ابن طیب نے اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ذکر کیا ہے کہ قرآن کا کون سا حصہ سب سے پہلے نازل ہوا۔ بعض علماء نے فرمایا : سورۂ مدثر، بعض نے فرمایا : اقرا بعض نے فرمایا : سورۂ فاتحہ۔ بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ابو میسرہ عمرو بن شرحبیل سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہ کو فرمایا : جب میں تنہا خلوت میں ہوتا ہوں تو میں ایک آواز سنتا ہوں، اللہ کی قسم ! مجھے کچھ ہونے کا اندیشہ ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا : معاذ اللہ ! اللہ کی یہ شان نہیں کہ آپ کے ساتھ ایسا کرے، اللہ کی قسم ! تم امانت کو ادا کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، بات سچی کرتے ہو۔ جب حضرت ابو بکرؓ داخل ہوئے رسول اللہﷺ وہاں موجود نہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکرؓ کو رسول اللہﷺ کی بات بتائی اور کہا : اے عتیق ! تم حضرت محمدﷺ کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس جاؤ۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا : ہمارے ساتھ ورقہ کی طر ف چلو۔ آپﷺ نے پوچھا : تمہیں یہ بات کس نے بتائی ہے۔ ابو بکر نے کہا : خدیجہ نے۔ پس دونوں ورقہ کی طرف چلے اور اسے صورت حال بتائی۔ آپﷺ نے فرمایا : جب میں تنہا ہوتا ہوں تو پیچھے سے یا محمد، یا محمد کی آواز سنتا ہوں، پھر میں زمین میں بھاگ پڑتا ہوں۔ ورقہ نے کہا : ایسا نہ کیا کر۔ جب تیرے پاس آواز آئے تو ٹھہر جاؤ حتی کہ وہ جو کہے سن لو، پھر میرے پاس آؤ اور مجھے بتاؤ۔ جب آپ تنہائی میں تھے تو آواز آئی۔ یا محمد ! کہو : بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔ ملک یوم الدین۔ ایاک نعبد وایاک نستعین۔ اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔ کہو : لا الہ الا اللہ۔ پھر آپﷺ ورقہ کے پاس آئے اور یہ سب کچھ ذکر کیا۔ ورقہ نے آپ سے کہا : بشارت ہو، بشارت ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہ ہے جس کی بشارت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی اور تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ناموس کی مثل پر ہے، تو نبی مرسل ہے، تو ایک وقت جہاد کا حکم دے گا۔ اگر مجھے وہ وقت میسر آیا تو میں آپ کے ساتھ مل کر ضرور جہاد کروں گا۔ جب ورقہ فوت ہو گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : میں نے ورقہ کو جنت میں دیکھا اس پر ریشمی کپڑے تھے، کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی ۔ بیہقی نے فرمایا : یہ حدیث منقطع ہے اگر یہ محفوظ ہو تو پھر یہ احتمال ہو گا کہ یہ اقرا باسم ربک اور یایھا المدثر کے نزول کے بعد الحمد کے نزول کی خبر ہو۔
مسئلہ نمبر 3: ابن عطیہ نے کہا : بعض علماء نے گمان کیا کہ جبریل سورۂ الحمد کے ساتھ نازل نہیں ہوئے کیونکہ مسلم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : جبریل نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے اوپر سے ایک آواز سنی، آپﷺ نے سر اٹھایا اور کہا : یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا، اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا ہے۔ جبریل نے کہا : یہ فرشتہ زمین پر اترا ہے آج سے پہلے کبھی نہیں اترا، اس نے سلام کیا اور کہا : تمہیں دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کئے گئے۔ (وہ نور یہ ہیں) فاتحۃ الکتاب اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات۔ آپ ان میں سے کوئی حرف نہیں پڑھیں گے مگر تمہیں وہ عطا کیا جائے گا ۔ ابن عطیہ نے کہا : حقیقت اس طرح نہیں ہے جس طرح بعض علماء نے گمان کیا ہے کیونکہ یہ حدیث تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جبریل نبی کریمﷺ کے پاس اس فرشتے سے پہلے آئے۔ اس کی آمد اور جو کچھ وہ لے کر آ رہا تھا اس کے متعلق آگاہ کیا۔ اس بنا پر جبریل اس کے نزول میں شریک ہو گیا۔ واللہ اعلم۔
میں (علامہ قرطبی) کہتا ہوں : حدیث کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جبریل امین نے نبی کریمﷺ کو اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ اس کا نزول مکہ میں ہوا تھا اور جبریل اس سورت کو لے کر آئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نزل بہ الروح الامین۔ (الشعراء) یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ سارا قرآن جبریل امین لے کر آئے۔ پس جبریل اس کی تلاوت مکہ میں لے کر آئے ہوں گے اور یہ فرشتہ مدینہ طیبہ میں اس کا ثواب لے کر آیا ہو گا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ سورت مکی، مدنی ہے جبریل امین اس کو دو مرتبہ لے کر آئے تھے۔ یہ قول ثعلبی نے حکایت کیا ہے اور جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ اولیٰ ہے کیونکہ ہمارا قول قرآن وسنت کو جمع کرنے والا ہے۔
مسئلہ نمبر 4: یہ پہلے گزر چکا ہے کہ بسم اللہ صحیح قول کے مطابق اس سورت کا جز نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا تو نماز کا حکم یہ ہے کہ جب وہ تکبیر تحریمہ کہے تو سورۂ فاتحہ پڑھے اور خاموش نہ رہے، نہ توجیہہ ذکر کرے اور نہ تسبیح کیونکہ حضرت عائشہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہا کی احادیث اسی پر دلالت کرتی ہیں جو پیچھے گزر چکی ہیں۔ جبکہ توجیہہ، تسبیح اور سکوت کی احادیث بھی موجود ہیں۔ علماء کی ایک جماعت نے یہ فرمایا ہے : حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ یہ دونوں حضرات جب نماز شروع کرتے تھے تو یہ پڑھتے تھے : سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدل ولا الہ غیرک حضرت سفیان، احمد، اسحاق اور اصحاب الرائے کا یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول وہ ہے جو حضرت علی سے مروی ہے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے پھر کہتے : وجھت وجھی اس کو مسلم نے ذکر کیا ہے۔ پوری حدیث سورۂ انعام کے آخر میں آئے گی۔ اس مسئلہ میں مکمل گفتگو وہاں آئے گی۔
ابن منذر نے کہا : یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز میں تکبیر (تحریمہ) کہتے تو قراءت سے پہلے تھوڑی دیر خاموش رہتے اور یہ دعا پڑھتے : اللھم باعد بینی وبین خطایای کما باعدت بن المشرق والمغرب اللھم نقنی من خطایای کما ینقی الثوب الابیض من الدنس اللھم اغسلنی من خطایای بالماء والثلج والبرد۔ حضرت ابوہریرہ نے اس پر عمل کیا۔ ابو سلمۃ بن عبد الرحمن نے کہا : امام کے لئے دو سکتے ہیں۔ ان سکتوں میں قراءت کو غنیمت جانو ۔ حضرات اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، امام احمد بن حنبل کا میلان بھی اس مسئلہ میں نبی کریمﷺ کی حدیث کی طرف ہے۔
مسئلہ نمبر 5: نماز میں سورۂ فاتحہ کی قراءت کے وجوب میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک اور ان کے متبعین علماء نے فرمایا : یہ امام اور منفرد کے لئے ہر رکعت میں متعین ہے۔ ابن خویز منداد بصری مالکی نے کہا : امام مالک کا قول مختلف نہیں ہے کہ جو دو رکعت والی نماز میں ایک رکعت میں الحمد شریف پڑھنا بھول جائے تو اس کی نماز باطل ہے اور جائز نہیں ہے اور اس شخص کے متعلق امام مالک کا قول مختلف ہے جو چار یا تین رکعت والی نماز میں کسی ایک رکعت میں الحمد بھول جائے، کبھی تو فرمایا : وہ نماز کا اعادہ کرے اور کبھی فرمایا : سجدہ سہو کرے۔ ابن عبد حکیم وغیرہ نے امام مالک سے یہ روایت کیا ہے۔ ابن خویز منداد نے فرمایا : یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس رکعت کا اعادہ کرے اور سلام کے بعد نماز ی دوسری رکعت پڑھے گا جیسا کہ وہ شخص جس نے بھول کر سجدہ ساقط کر دیا۔ یہ ابن قاسم کا مختار مذہب ہے۔ حضرت حسن بصری، اکثر اہل بصرہ اور مغیرہ بن عبد الرحمن مخزومی مدنی نے کہا : جب کوئی شخص نماز میں ایک مرتبہ ام القرآن پڑھ لے تو وہ کافی ہو جائے گی، اس پر اعادہ نہ ہو گا کیونکہ نماز میں اس نے ام القرآن پڑھ لی ہے۔ پس اس کی نماز مکمل ہو گی کیونکہ کریمﷺ نے فرمایا : اس کی نماز مکمل نہیں جس نے ام القرآن (الحمد) نہیں پڑھی ۔ اور اس شخص نے الحمد ایک مرتبہ پڑھ لی ہے (پس اس کی نماز مکمل ہو گی)۔ میں کہتا ہوں : اس حدیث میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ اس کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔ یہی قول صحیح ہے جیسا کہ آگے وضاحت آئے گی اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اس کی نماز نہیں جس نے نماز کی اکثر رکعات میں الحمد شریف نہیں پڑھی۔ یہی اختلاف کا سبب ہے۔ واللہ اعلم۔
حضرات امام ابو حنیفہ، ثوری، اوزاعی نے فرمایا : اگر جان بوجھ کر پوری نماز میں الحمد شریف چھوڑ دی اور کوئی دوسری سورت پڑھ دی تو اس کی نماز جائز ہو جائے گی۔ امام اوزاعی سے اس کے متعلق اختلاف مروی ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن نے کہا : قراءت کی کم از کم مقدار تین آیات ہیں یا ایک بڑی آیت ہے جیسے قرضہ والی آیت۔ اور امام محمد سے یہ بھی مروی ہے۔ فرمایا : میں آیت کی مقدار اور کلمہ مفہومہ کی مقدار میں اجتہاد کو جائز قرار دیتا ہوں جیسے الحمد للہ، اور میں ایسے حرف کو جائز قرار نہیں دیتا جو کلام نہ ہو۔
علامہ طبری نے فرمایا : نماز ہر رکعت میں الحمد کی تلاوت کرے گا، اگر الحمد نہیں پڑھے گا تو نماز جائز نہ ہو گی مگر یہ کہ الحمد کی مثل قرآن سے الحمد کی آیات کی تعداد اور اس کے حروف کی تعداد کے مطابق تلاوت کرے۔
ابن عبد البر نے کہا : اس کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ الحمد کی تعیین اور تخصیص نے اس حکم کے ساتھ اس کو خاص کر دیا ہے اور یہ محال ہے کہ جس پر الحمد کا پڑھنا واجب ہے وہ اس کا بدل پڑھ لے اور الحمد چھوڑ دے جبکہ وہ الحمد پڑھنے پر قادر بھی ہو بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ الحمد ہی پڑھے اور اسی کی طرف لوٹے جیسا کہ دوسری عبادات میں متعین فرائض ہیں۔
مسئلہ نمبر 6: مقتدی اگر امام کو رکوع میں پا لے تو امام مقتدی کی طرف سے قراءت کرنے والا ہو گا کیونکہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے تو مقتدی تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے، قراءت نہ کرے اور اگر امام کو قیام میں پائے تو قراءت کرے۔
مسئلہ نمبر 7: اور کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ امام کے پیچھے سری نماز میں قراءت چھوڑ دے۔ اگر وہ قراءت چھوڑ دے گا تو اچھا نہیں کرے گا، لیکن امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک اس پر کچھ واجب نہ ہو گا۔ اور جب امام، سری قراءت کر رہا ہو تو پھر یہ مسئلہ ہے۔
مسئلہ نمبر 8: امام کے پیچھے جہری نماز میں نہ سورۂ فاتحہ پڑھے اور نہ کوئی دوسری سورت پڑھے۔ امام مالک کا مشہور مذہب یہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا (الاعراف :204) (جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو) اور رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے : ’’کیا بات ہے مجھ سے قرآن میں جھگڑا کیا جا رہا ہے‘‘۔ اور نبی کریمﷺ کا امام کے بارے ارشاد ہے : ’’جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو‘‘ (صحیح مسلم۔ کتاب الصلاۃ)۔ اور ارشاد فرمایا : ’’جس کا امام ہو، امام کی قراءت اس کی قراءت ہے ‘‘۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اور امام شافعی سے یہ قول بویطی اور امام احمد بن حنبل نے حکایت فرمایا کہ کسی کی نماز نہ ہو گی حتی کہ وہ ہر رکعت میں الحمد پڑھے خواہ وہ امام ہو یا مقتدی ہو۔ امام جہری کی قراءت کر رہا ہو یا سری۔ امام شافعی عراق میں مقتدی کے بارے میں کہتے تھے جب امام سری قراءت کرے تو مقتدی قراءت کرے اور جب جہری قراءت کرے تو مقتدی قراءت نہ کرے جیسا کہ امام مالک کا مشہور مذہب ہے۔ اور امام شافعی کے مصر میں امام کے جہری قراءت کرنے کی صورت میں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی قراءت کرے دوسرا یہ کہ امام کی قراءت کافی ہے مقتدی خود قراءت نہ کرے۔ یہ ابن منذر نے حکایت کیا ہے۔ ابن وہب، اشہب، ابن عبدالحکم، ابن حبیب اور کوفہ کے علماء نے کہا : مقتدی بالکل قراءت نہ کرے۔ خواہ امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری قراءت کر رہا ہو۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے یہ حکم عام ہے اور جابر کا قول ہے : جس نے نماز پڑھی اور اس میں الحمد نہیں پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۔
مسئلہ نمبر 9: ان اقوال میں سے صحیح قول امام شافعی، امام احمد کا ہے اور امام مالک کا دوسرا قول ہے کیونکہ ہر شخص کے لئے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا بالعموم متعین ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : اس کی نماز نہیں جس نے نماز میں الحمد نہیں پڑھی ۔ اور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : جس نے نماز پڑھی اور اس میں الحمد نہیں پڑھی اس کی نماز ناقص ہے ۔ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : مجھے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اعلان کروں کہ سورہ الحمد اور اس سے زائد کی قراءت کے بغیر نماز نہیں ۔ اس حدیث کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے، جس طرح کہ کسی رکعت کا سجدہ اور رکوع دوسری رکعت کے قائم مقام نہیں ہوتا اسی طرح ایک رکعت کی قراءت دوسری رکعت کے قائم مقام نہیں ہوتی۔
عبد اللہ بن عون، ایوب سختیانی اور ابو ثور وغیرہ اصحاب شوافع، داؤد بن علی نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کی مثل اوزاعی سے بھی مروی ہے اور یہی قول مکحول کا بھی ہے۔ حضرات عمر بن خطاب، عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی عاص اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، فرماتے ہیں : سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔ یہی قول حضرت ابن عمر کا ہے اور اوزاعی کا مشہور مذہب بھی یہی ہے۔ یہ صحابہ مقتداء ہیں اور ان ذوات میں اسوہ ہے یہ تمام حضرات ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے وجوب کے قائل ہیں۔
امام ابو عبد اللہ بن محمد یزید بن ماجہ القزوینی نے اپنی سنن میں ایسی روایت نقل کی ہے جو اختلاف کو ختم کر دیتی ہے اور ہر احتمال کو زائل کر دیتی ہے۔ فرمایا : ہمیں ابو کریب نے بتایا، انہوں نے فرمایا : ہمیں محمد بن فضیل نے بتایا۔ دوسری سند اس طرح ہے ہمیں سوید بن سعید نے بتایا، ہمیں علی بن مسہر نے بتایا تمام نے ابو سفیان سعدی سے روایت کیا، انہوں نے ابو نضرہ سے روایت کیا انہوں نے حضرت ابو سعید سے روایت کیا، فرمایا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جس نے ہر رکعت میں الحمد اور کوئی دوسری سورت نہیں پڑھی ۔ خواہ فرضی نماز ہو یا نفلی نماز ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس شخص سے فرمایا جس کو آپ نماز سکھا رہے تھے : ’’تو اس طرح اپنی تمام نماز میں کر ‘‘۔ آگے یہ حدیث تفصیل سے آئے گی۔ دوسری دلیل اس کے متعلق وہ روایت ہے جو ابو داؤد نے نافع بن محمود الربیع سے روایت کی ہے، فرمایا : حضرت عبادہ بن صامت صبح کی نماز میں لیٹ ہو گئے تو ابو نعیم مؤذن نے تکبیر کہی اور خود ہی لوگوں کو نماز پڑھا دی۔ حضرت عبادہ بن صامت آئے تو میں بھی ان کے ساتھ تھا حتیٰ کہ ہم نے ابو نعیم کے پیچھے صف بنائی، ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے عبادہ نے الحمد پڑھنی شروع کر دی جب سلام پھیرا تو میں نے عبادہ سے کہا : میں تجھے الحمد پڑھتے ہوئے سن رہا تھا جبکہ ابو نعیم جہری قراءت کر رہے تھے ؟ عبادہ نے کہا : ہاں۔ ہمیں رسولﷺ نے ایک نماز پڑھائی جس میں آپ جہری قراءت کر رہے تھے، آپ پر قراءت خلط ملط ہو گئی جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو ہماری طرف رخ انور پھیر لیا اور فرمایا : کیا تم قراءت کرتے ہو جب میں جہری قراءت کرتا ہوں ؟ ہم میں سے بعض نے کہا : ہم واقعی ایسا کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کیا کرو، میں کہہ رہا تھا مجھے کیا ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے، تم قرآن میں سے کچھ نہ پڑھا کرو جب میں جہری قراءت کر رہا ہوں، مگر صرف سورہ الحمد (پڑھا کرو) ۔ یہ مقتدی کے بارے میں نص صریح ہے کہ وہ بھی سورہ الحمد پڑھے۔ اس حدیث کا معنی ابو عیسیٰ ترمذی نے محمد بن اسحاق کی حدیث سے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ اور تابعین کا عمل ہے۔ حضرات مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ یہ حضرات امام کے پیچھے قراءت کا نظریہ رکھتے تھے۔
اس حدیث کو دار قطنی نے بھی نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ اسناد حسن ہے۔ اس کے راوی تمام ثقہ ہیں اور انہوں نے ذکر کیا کہ محمود بن ربیع ایلیاء میں رہتے تھے اور ابو نعیم پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں اذان دی۔ ابو محمد عبد الحق نے کہا : نافع بن محمود کو بخاری نے اپنی تاریخ میں ذکر نہیں کیا اور نہ ابن ابی حاتم نے اسے ذکر کیا اور نہ بخاری اور مسلم نے اس سے کوئی چیز نقل کی۔ اس کے متعلق ابو عمر نے فرمایا : یہ مجہول ہے۔ دارقطنی نے یزید بن شریک سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا : میں نے کہا اگر آپ بھی امام ہوں ؟ انہوں نے کہا : اگرچہ میں بھی ہوں۔ میں نے کہا : اگرچہ آپ جہری قراءت کر رہے ہوں ؟ انہوں نے کہا : اگرچہ میں جہری قراءت کر رہا ہوں ۔ دار قطنی نے کہا : یہ سند صحیح ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : امام ضامن ہے جو کچھ وہ کرے تم بھی وہ کرو۔ ابو حاتم نے کہا : یہ اس کے لئے (دلیل ) صحیح ہے جو امام کے پیچھے قراءت کا قائل ہے۔ حضرت ابو ہریرہ نے الفارسی کو یہی فتویٰ دیا تھا کہ وہ دل میں قراءت کیا کرے جب اس نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا تھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی استدلال کیا گیا ہے میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس کا نصف میرے لئے ہے اور اس کا نصف میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے سوال کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : پڑھو بندہ کہتا ہے : الحمد للہ رب العلمین۔ (الحدیث)
مسئلہ نمبر 10: پہلے علماء نے حضورﷺ کے ارشد واذا قرا فانصتوا (جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو) سے استدلال کیا ہے۔ اسے مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے نقل کیا ہے اور فرمایا : جریر عن سلیمان عن قتادہ کی سند سے جو حدیث مروی ہے اس میں زیادتی ہے : واذا قرأفانصتوا۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ سے اس زیادتی کو ذکر کرنے میں سلیمان تیمی کی متابعت نہیں کی گئی بلکہ قتادہ کے شاگردوں میں سے حفاظ نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے ان الفاظ کو ذکر نہیں کیا۔ حفاظ حدیث میں یہ افراد شامل ہیں : شعبہ، ہشام، سعید بن ابی عروبہ، ہمام، ابو عوانہ، معمر، عدی بن ابی عمارہ۔
دارقطنی نے کہا : ان حفاظ کا اجماع دلیل ہے کہ سلیمان تیمی کو ان الفاظ میں وہم ہوا ہے۔ عبد اللہ بن عامر عن قتادہ کی سند سے تیمی کی متابعت مروی ہے لیکن وہ قوی نہیں ہے۔ قطان نے اس کو ترک کیا ہے۔ ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے یہ زیادہ نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ زیادتی اذا قرء فانصتوا محفوظ نہیں ہے ۔ ابو محمد عبد الحق نے ذکر کیا ہے کہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔
میں کہتا ہوں : امام مسلم کا حضرت ابو موسیٰ کی حدیث سے ان الفاظ کو اپنی کتاب میں داخل کرنا ان کے نزدیک اس کی صحت کی دلیل ہے اگرچہ اس کی صحت کا تمام علماء کا اجماع نہیں ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن منذر نے صحیح کہا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا (الاعراف : 204) تو یہ مکہ میں نازل ہوا اور نماز میں کلام کرنے کی حرمت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی جیسا کہ حضرت زید بن ارقم نے فرمایا : پس اس میں حجت نہ رہی کیونکہ مقصود مشرکین تھے جیسا کہ حضرت سعید بن مسیب نے کہا ہے۔ دارقطنی نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت نماز میں رسول اللہﷺ کے پیچھے آواز بلند کرنے کے بارے نازل ہوئی۔ اور دار قطنی نے فرمایا : عبد اللہ بن عامر ضعیف ہے۔ رہا حضور (علیہ السلام) کا یہ ارشاد کیا بات ہے کہ قرآن مجھ سے چھینا جا رہا ہے ۔ اسے امام مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے ابن اکیمہ لیثی سے روایت کیا ہے۔ امام مالک نے اس کے نام کے بارے فرمایا : عمرو۔ جبکہ دوسرے محدثین نے کہا : عامر، بعض نے کہا : یزید، بعض نے کہا : عمارہ، بعض نے کہا : عباد، اس کی کنیت ابو الولید تھی، ایک سو ایک ہجری میں اس کا وصال ہوا جبکہ اس کی عمر ۹۹ سال تھی۔ ان سے زہری نے صرف یہی حدیث روایت کی ہے اور یہ ثقہ ہے۔ محمد بن عمر وغیرہ نے اس سے روایت کیا ہے۔ اس کی حدیث میں یہ معنی موجود ہے جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم بلند آواز سے قراءت نہ کرو کیونکہ یہ تنازع، چھیننا اور تخالج ہے (بلکہ) دل میں پڑھو۔ حضرت عبادہ کی حدیث اور حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کے فتاویٰ بھی اس حدیث کے مفہوم کو بیان کرتے ہیں۔ اگر مالی انازع القرآن (کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے) سے وہ یہ منع کا مفہوم سمجھتے تو اس کے خلاف فتویٰ نہ دیتے۔ حضرت ابن اکیمہ کی حدیث میں زہری کا قول ہے کہ پھر لوگ اس نماز میں رسول اللہﷺ کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے جن میں رسول اللہﷺ بلند آواز سے قراءت کرتے تھے جب انہوں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی۔ یہاں قراءت سے مراد الحمد ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ وباللہ توفیقنا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں توفیق ملتی ہے۔
رہا رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد :‘‘ جس کا امام ہو، تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے ‘‘ یہ حدیث ضعیف ہے۔ حسن بن عمارہ نے اسے متصل ذکر کیا ہے اور وہ متروک ہے۔ ابو حنیفہ (امام اعظم ) وہ بھی ضعیف ہے (یہ تبصرہ تعجب کی بات ہے خصوصاً جب حضرت عبد اللہ بن مبارک جیسے محدث آپ کی شاگردی پر فخر کریں۔ مترجم)۔ ان دونوں حضرات نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے انہوں نے عبد اللہ بن شداد سے انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے۔ اسے دار قطنی نے نقل کیا ہے اور فرمایا : اس حدیث کو حضرات سفیان ثوری، شعبہ، اسرائیل، ابن یونس، شریک، ابو خالد الدالانی، ابو الاحوص، سفیان بن عیینہ، جریر بن عبد الحمید وغیرہم نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے انہوں نے عبد اللہ بن شداد سے انہوں نے مرسلاً نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے اور مرسل ہی درست ہے۔ رہا حضرت جابر کا قول کہ ’’جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں الحمد نہ پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی، مگر جب امام کے پیچھے ہو‘‘ ۔ اس قول کو مالک نے وہب بن کیسان سے انہوں نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے۔
ابن عبد البر نے کہا : اس قول کو یحییٰ بن سلام صاحب تفسیر نے مالک سے انہوں نے ابو نعیم وہب بن کیسان سے انہوں نے حضرت جابر سے انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے۔ صواب حضرت جابر پر موقوف ہے جیسا کہ مؤطا میں ہے۔ اس حدیث میں فقہی مسئلہ یہی مستنبط ہوتا ہے کہ وہ رکعت باطل ہے جس میں الحمد نہ پڑھی گئی۔ یہ دلیل ہے اس مذہب کی جس کی طرف ابن قاسم گئے ہیں اور انہوں نے مالک سے اس رکعت کے لغو ہونے اور دوسری رکعت پر بنا کرنے کو روایت کیا ہے۔ نمازی اس رکعت کو شمار نہیں کرے گا جس میں اس نے الحمد نہ پڑھی ہو گی۔ اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام کی قراءت اس کے مقتدیوں کی قراءت ہے ۔ یہ حضرت جابر کا مذہب تھا اور دوسرے لوگوں نے ان کی اس مسئلہ میں مخالفت کی ہے۔
مسئلہ نمبر 11: ابن عربی نے فرمایا : نبی کریمﷺ کے ارشاد : لا صلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب (اس کی نماز نہیں جس نے الحمد نہیں پڑھی) اس کی اصل کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ کیا یہ کمال اور تمام کی نفی پر محمول ہے یا جواز کی نفی پر محمول ہے۔ ناظر کے حال کے اختلاف کی وجہ سے فتویٰ بھی مختلف ہے۔ اس اصل میں مشہور اور اقویٰ یہ ہے کہ نفی عموم پر ۔۔۔۔ن م
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴿2﴾
سب خوبیاں اللّٰہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا
پس الحمد للہ رب العلمین کا مطلب یہ ہے کہ میں نے خود اپنی حمد کی ہے اس سے پہلے کہ عالمین میں سے کوئی میری حمد کرتا اور میں نے اپنی خود حمد ازل میں بغیر کسی علت کے کی تھی اور مخلوق جو میری حمد کرتی ہے وہ علل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : مخلوق جس کو کمال کلی عطا نہیں کیا گیا اس کا اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں تاکہ وہ اپنے لئے منافع حاصل کرے اور اپنے آپ سے نقصان دور کرے۔
بعض علماء نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کے بندے اس کی حمد سے عاجز ہیں تو اس نے اپنی حمد ازل میں خود ہی کی۔ پس اس کے بندوں نے انتہائی کوشش کی اس کی حمد سے عاجزی کا اظہار ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ سید المرسلینﷺ نے کیسے عجز کا اظہار فرمایا : ارشاد فرمایا : لا احصو ثناء علیک۔ (میں تیری ثناء نہیں کر سکتا)۔
اور یہ شعر پڑھو :
اذا نحن اثنینا علیک بصالح فانت کما نثنی وفوق الذی نثنی
اور جب ہم کسی کرم کی وجہ سے تیری ثنا کرتے ہیں تو تو واقعی اسی طرح ہے جس طرح ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تو اس سے بلند مرتبہ ہے جو ہم تیری تعریف کرتے ہیں۔
بعض علماء نے فرمایا : اس نے ازل میں اپنی حمد خود فرمائی جب اس نے اپنے بندوں پر نعمتوں کی کثرت کو دیکھا اور ان کے شکر کے قیام کے عجز کو دیکھا تو اس نے اپنی تعریف کی اور ان کی طرف سے اپنی تعریف خود کی تاکہ ان کے سامنے نعمت مزید خوشگوار ہو جائے اس حیثیت سے کہ اس نے لوگوں سے احسان کا بوجھ بھی ساقط کر دیا۔
مسئلہ نمبر 7: ساتوں قراء اور جمہور لوگوں کا الحمد کی دال پر رفع پڑھنے میں اجماع ہے۔ سفیان بن عیینہ، رؤبہ بن عجاج سے الحمد میں دال کا نصب مروی ہے اور یہ فعل کے اظہار کی تقدیر پر ہے ۔ بعض علماء نے فرمایا : الحمد للہ رفع کے ساتھ مبتدا اور خبر میں اور خبر کی سبیل فائدہ دینا ہوتا ہے۔ اس میں کیا فائدہ ہے ؟ جواب یہ ہے کہ سیبویہ نے کہا : جب کوئی شخص الحمد للہ رفع کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس میں اسی قسم کا معنی ہوتا ہے جو تیرے اس قول میں ہے : حمدت اللہ حمد اً مگر وہ جو الحمد کو رفع دے رہا ہے وہ یہ خبر دے رہا ہے وہ یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی طرف سے حمد اور تمام مخلوق کی طرف سے حمد للہ کے لئے ہے اور وہ جو الحمد کو نصب دیتا ہے وہ خبر دیتا ہے کہ تنہا اس کی طرف سے حمد اللہ کے لئے ہے۔ سیبویہ کے علاوہ علماء نے فرمایا : وہ یہ کلام اللہ تعالیٰ کے عفو، مغفرت، اس کی تعظیم اور اس کی بزرگی بیان کرنے کے لئے کرتا ہے اور خبر کے معنی کے خلاف ہے، اس میں سوال کا معنی ہے۔ حدیث میں ہے ’’جس کو میرے ذکر نے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا میں اس سے افضل دوں گا جو میں سوال کرنے والوں کو دوں گا‘‘ ۔
بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا اپنی حمدو ثناء کرنا بندوں کو یہ سکھانے کے لئے ہے۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہو گا کہ تم الحمد للہ کہو۔ طبری نے کہا : الحمد للہ تعریف ہے اس کے ساتھ اس نے اپنی ہی تعریف کی اور اس کے ضمن مین اپنے بندوں کو حکم فرمایا کہ تم بھی اس کی تعریف کرو۔ گویا یوں فرمایا : الحمد للہ کہو۔ اسی طرح ہو گا کہ ایاک نعبد کہو۔ عرب اس طرح حذف کرتے ہیں کہ ظاہر کلام اس حذف پر دلالت کرتا ہے۔ جس طرح شاعر نے کہا :
واعلم اننی ساکون رمسا اذا سار النواعج لا یسیر
فقال السائلون لمن حفرتم فقل القائلون لھم وزیر
میں جانتا ہوں کہ ہو جاؤں گا جب تیز رفتار اونٹنیاں نہیں چلیں گی۔ سوال کرنے والوں نے کہا کس کے لئے قبر کھود رہے ہو جواب دینے والوں نے کہا ان کا وزیر ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس کے لئے قبر کھودی جا رہی ہے وہ وزیر ہے۔ پس اس کو حذف کر دیا گیا کیونکہ ظاہر کلام اس پر دلالت کر رہا تھا اور یہ عرب کلام میں کثیر ہے ۔ ابن ابی عبلہ سے الحمد للہ دال اور لام کے ضمہ کے ساتھ پڑھنا مروی ہے اس بنا پر کہ دوسرا حرف اعراب میں پہلے حرف کو تابع کر دیا گیا ہو۔ با کا لفظ متجانس ہو جائے اور لفظوں میں تجانس کا طلب کرنا عربوں کے کلام میں بہت زیادہ ہے۔ مثلاً اجؤک، وھو منحدر من الجبل (o)۔ اس میں دال اور جیم کو ضمہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ شاعر کا قول ہے : اضرب السآمین امک ھابل۔ اس مصرعہ میں ہمزہ کے ضمہ کی وجہ سے نون ضمہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اہل مکہ کی قراءت میں مردفین راء پر ضمہ پڑھا گیا ہے میم کی اتباع کرتے ہوئے۔ اسی طرح مقتلین میں میم کی اتباع میں قاف پر ضمہ پڑھا گیا ہے۔ اس طرح عرب کہتے ہیں : لامک یعنی لام کی اتباع میں ہمزہ کو کسرہ دیتے ہیں۔ نعمان بن بشیر کے لئے یہ کہا :
ویل امھا فی ھواء الجو طالبۃ ولا کھذا الذی فی الارض مطلوب
اس شعر میں ہمزہ کو کسرہ دیا ہے۔
اصل میں ویل، لامھا تھا پہلے لام کو حذف کیا گیا اب کسرہ کے بعد ہمزہ پر ضمہ بھاری تھا پھر اس ہمزہ کو لام کی طرف منتقل کر دیا پھر لام کو میم کی طرح حرکت دی گئی۔ حسن بن ابی الحسن اور زید بن علی سے مروی ہے، الحمد للہ۔ یعنی دال کے کسرہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے پہلے حرف کو حرکت میں دوسرے حرف کی اتباع کرائی گئی ۔
مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے رب العلمین۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا مالک ہے، ہر چیز جس کا وہ مالک ہے وہ اس کا رب ہے۔ پس الرب کا مطلب المالک ہے اور ’’الصحاح ‘‘ میں الرب، اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ اس لئے بغیر نسبت و اضافت کے کسی دوسرے کے لئے نہیں بولا جائے گا، لوگ زمانہ جاہلیت میں مالک کے لئے رب کا لفظ بولتے تھے۔ حارث بن حلزہ نے کہا :
وھو الرب والشھید علی یوم الحیارین والبلاء بلاء
اس میں رب، مالک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
رب کا معنی سردار بھی ہوتا ہے۔ اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں استعمال ہوا ہے : اذکرنی عند ربک (یوسف : 42) (یعنی اپنے مالک کے پاس میں ذکر کرنا) اور حدیث میں ہے ان تلد الا مۃ ربتھا۔ ۔ یعنی لونڈی اپنے سردار کو جنم دے گی۔ اور ہم نے اپنی کتاب ’’التذکرہ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور الرب سے مراد مصلح، مدبر، جابر اور قائم (نگران) بھی ہوتا ہے۔ الہروی وغیرہ نے کہا : جو شخص کسی شے کی اصلاح کرتا ہے اور اسے مکمل کرتا ہے اس کے لئے بولا جاتا ہے : ربہ یریہ فھو رب لہ وراب۔ اسی وجہ سے علماء کو ربانیون کہا جاتا ہے جو کتب کے مطالعہ میں رہتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے ھل لک من نعمۃ تربھا علیہ ۔ یعنی کیا تیرے پاس کوئی نعمت ہے جس کی تو دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے اور الرب بمعنی معبود بھی استعمال ہوتا ہے۔ شاعر کا قول ہے :
ارب یبول الثعلبان براسہ لقد ذل من بالت علیہ الثعالب
اور یہ لفظ زبادتی اور کثرت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ رباہ وربیہ وربتہ (یعنی اس سے اسے زیادہ کر دیا) یہ معنی نحاس نے بیان کیا ہے۔ ’’الصحاح‘‘ میں ہے : رب فلان ولد ہ یربہ ربا، ورببہ وترببہ کا معنی ہے رباہ اور المویوب کا مطلب ہے الیربی۔ جس میں کثرت کی گئی ہو۔
مسئلہ نمبر 9: بعض علماء نے فرمایا : یہ اسم (رب) اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے کیونکہ اسے پکارنے والے کثرت سے پکارتے ہیں اور قرآن حکیم میں غور کرنے سے بھی یہی پتہ چلتا ہے جیسا کہ سورۂ آل عمران، سورۂ ابراہیم وغیرہ میں ہے۔ یہ وصف رب اور مربوب کے درمیان تعلق کا شعور دیتا ہے ساتھ ساتھ اپنے ضمن میں ہر حال میں مہربانی، رحمت اور مخلوق کے اس کی طرف محتاج ہونے کا بھی رکھتا ہے۔
اس کے اشتقاق کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : یہ التربیۃ سے مشتق ہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کا مدبر اور مربی ہے۔ اسی مفہوم میں ہے : ربائبکم التی فی حجورکم (النساء :23) (تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جو تمہاری گودوں میں (پرورش پارہی) ہیں) بیوی کی بیٹی کو ربیبۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا خاوند اس کی تربیت کرتا ہے۔ پس اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا مدبر اور مربی ہے تو یہ فعل کی صفت ہو گی اور اس بنا پر کہ الرب بمعنی مالک اور سردار ہے تو یہ ذات کی صفت ہو گی۔
مسئلہ نمبر 10: جب رب پر الف لام داخل ہو تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ خاص ہوتا ہے کیونکہ الف لام عہد کے لئے ہو گا۔ اور اگر ہم الف لام حذف کر دیں تو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان مشترک ہو گا۔ کہا جاتا ہے : اللہ رب العباد، (اللہ بندوں کا رب ہے) زید رب الدار (زید گھر کا مالک ہے ) اللہ تعالیٰ رب الارباب ہے، وہ مالک و مملوک کا مالک ہے وہ ہر ایک کا خالق و رازق ہے۔ اس کے علاوہ ہر رب، غیر خالق اور غیر رازق ہے ہر مملوک، مالک بنایا گیا ہے اس کے بعد کہ وہ مالک نہ تھا اور اس سے ملکیت چھینی بھی جائے گی، مخلوق میں سے مالک کسی چیز کا مالک ہوتا ہے اور کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ان معانی کے مخالف ہے اور خالق و مخلوق کی صفت کے درمیان یہی فرق ہے۔
مسئلہ نمبر 11: العلمین، اہل تاویل کا العلمین کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ قتادہ نے کہا : العالمون، جمع ہے عالم کی اور عالم سے مراد اللہ کے سوا ہر موجود ہے اور لفظاً اس کا واحد نہیں ہے جیسے رھط اور قوم کا لفظاً واحد نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ہر زمانہ کے لوگ عالم ہیں۔ یہ حسین بن فضل کا قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اتاتون الذکران من العلمین (الشعراء) اس آیت میں العلمین سے مراد لوگ ہیں۔ حجاج نے کہا :
فخندف ھامۃ ھذا العالم
جریر بن خطفی نے کہا :
تنصفہ البریۃ وھو سام ویضحی العالمون لہ عیالا
اس شعر میں العالمون لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا : عالمون سے مراد جن وانس ہیں اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : لیکون للعلمین نذیرا (الفرقان ) (اور آپﷺ جن وانس کو ڈرانے والے تھے نہ کہ چوپاؤں کو)۔ فراء اور ابو عبیدہ نے کہا : العالم سے مراد ہر ذی عقل ہے اور یہ چار امم ہیں : انسان، جن، ملائکہ اور شیاطین۔ بہائم، چوپاؤں کو عالم میں نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ جمع ذی عقل کی جمع ہوتی ہے۔
اعثی نے کہا :
ما ان سمعت بمثلھم فی العالمینا میں نے ذی عقل لوگوں میں ان کی مثل نہیں سنا۔
زید بن اسلم نے کہا : اس سے مراد وہ ہیں جن کو رزق دیا جاتا ہے۔ اسی قسم کا قول ابو عمرو بن علاء کا ہے کہ وہ روحانیون ہیں۔ حضرت ابن عباس کے قول کا معنی بھی یہی ہے، ہر ذی روح جو زمین کی سطح پر چلا۔ وہب بن منبہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کے اٹھارہ ہزار عالم ہیں دنیا ان عالموں میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری نے کہا : اللہ تعالیٰ کے چالیس ہزار عالم ہیں۔ دنیا، مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے۔ مقاتل نے کہا : عالمون، اسی ہزار عالم ہے، چالیس ہزار عالم خشکی میں ہیں اور چالیس ہزار عالم سمندر میں ہیں۔ ربیع بن انس نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جن ایک عالم ہے، انسان ایک عالم ہے، اس کے علاوہ زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں پندرہ ہزار عالم ہیں اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنی عبادت کے لئے تخلیق فرمایا ہے۔ میں کہتا ہوں : ان اقوال میں سے صحیح ترین قول یہ ہے کہ عالم ہر مخلوق و موجود کو شامل ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : قال فرعون وما رب العلمین قال رب السموت والارض وما بینھما (الشعراء)
اور یہ علم اور علامۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ یہ اپنے موجد پر دلالت کرتا ہے اسی طرح زجاج نے کہا : عالم سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں پیدا فرمایا۔ خلیل نے کہا : العلم، العلامۃ اور المعلم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرے۔ عالم چونکہ دال ہے اپنے خالق و مدبر پر اور یہ واضح ہے۔
ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت جنید کے سامنے کہا : الحمد للہ تو حضرت جنید نے اسے کہا : اسے مکمل کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تم کہو : رب العلمین اس شخص نے پوچھا : العالمین کون ہیں حتیٰ کہ تم اللہ کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہو ؟ حضرت جنید نے فرمایا : اے بھائی ! تم کہو کیونکہ حادث کا جب قدیم کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے تو حادث کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا
مسئلہ نمبر 12: رب میں رفع اور نصب جائز ہے۔ نصب، مدح کی بنا پر اور رفع قطع کی بنا پر۔ یعنی عبارت یوں ہو گی : ھو رب العالمین۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴿3﴾
بہت مہربان رحمت والا
مسئلہ نمبر 13: الرحمن الرحیم۔ رب العلمین سے اپنی صفت بیان کرنے کے بعد اپنی تعریف ان کلمات سے فرمائی کہ وہ بہت مہربان اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے، چونکہ رب العلمین کی صفت سے متصف ہونے میں ترہیب تھی اس لئے ساتھ ہی الرحمن الرحیم ذکر فرما دیا کیوں کہ اس میں ترغیب تھی تاکہ اس کا خوف اور اس کی طرف رغبت دونوں کو اپنی صفات میں جمع کر لے، پس یہ اس کی طاعت اور نافرمانی سے اجتناب میں مددگار ثابت ہوں گی جیسا کہ ارشاد فرمایا : نبئ عبادی ای انا الغفور الرحیم وان عذابی ھو العذاب الالیم (الحجر) (بتا دوسرے بندوں کو کہ میں بلاشبہ بہت بخشنے والا از حد رحم کرنے والا ہوں (اور یہ بھی بتا دو کہ ) میرا عذاب بھی دردناک عذاب ہے)۔
اور فرمایا : غافر الذنب وقابل الثوب شدید العقاب ذی الطول (غافر :3) (گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا، سخت سزا دینے والا، فضل و کرم فرمانے والا ہے)۔
اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اگر مومن وہ سزا جان لے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو کوئی جنت کا ’’طمع بھی نہ کرے اور اگر کافر اللہ کی رحمت جان لے تو کوئی جنت سے مایوس نہ ہو‘‘ ۔
الرحمن اور الرحیم دونوں اسموں کے معانی گزر چکے ہیں پس دوبارہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴿4﴾
روزِ جزاء کا مالک
مسئلہ نمبر 14: ملک یوم الدین۔ محمد بن سمیع نے مالک کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس میں چار لغات ہیں : ۱۔ مالک، ۲۔ ملک، ۳۔ ملک۔۔۔ ملک سے مخففہ۔۔۔۔ ۴۔ ملیک۔
شاعر نے کہا :
وایام لنا غر طوال عصینا الملک فیھا ان ندینا
ہمارے لئے روشن لمبے دن تھے۔ ان میں ہم نے بادشاہ کی اطاعت کرنے میں نافرمانی کی۔
اور ایک شاعر نے کہا :
فاقنح بما قسم الملیک فانما قسم الخلائق بیننا علامھا
میں اس پر قناعت کرتا ہوں جو مالک نے تقسیم فرمایا اور طباع کو ان کے جاننے والے نے ہمارے درمیان تقسیم فرمایا۔
اس شعر میں الخلائق سے مراد وہ فطرت ہے جس پر انسان پیدا کیا جاتا ہے، نافع سے ملک میں کسرہ کا اشباع مروی ہے۔ اس شخص کی لغت پر جو حرکات میں اشباع کرتا ہے ملکی پڑھا گیا ہے۔ یہ بھی عربوں کی ایک لغت ہے، جس کو مہدوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔
مسئلہ نمبر 15: علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ملک زیادہ بلیغ ہے یا مالک۔ دونوں قراءتیں نبی کریمﷺ، حضرات ابو بکر اور عمر رضی للہ عنہما سے مروی ہیں۔ امام ترمذی نے ان کو ذکر فرمایا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ملک، یہ مالک سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ ہر ملک مالک ہوتا ہے اور ہر مالک، ملک نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک کا امر، ہر مالک میں اس کی ملک میں نافذ ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ مالک، ملک کی تدبیر سے ہی تصرف کرتا ہے۔ ابو عبیدہ اور مبرد نے یہ کہا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : مالک زیادہ بلیغ ہے کیونکہ وہ انسانوں اور دوسری چیزوں کا مالک ہوتا ہے۔ پس مالک ازروئے تصرف کے زیادہ بلیغ اور عظیم ہے کیونکہ شرع کے قوانین کا اجراء اس کی طرف سے ہوتا ہے پھر مالک کے پاس تملک میں زیادتی ہوتی ہے۔
ابو علی نے کہا : ابو بکر بن سراج نے ان لوگوں سے حکایت کیا ہے جنہوں نے ملک کی قراءت کو پسند کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رب العلمین کے ساتھ اپنی توصیف فرمائی کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ اس لئے مالک کی قراءت کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو تکرار ہو جائے گا۔
ابو علی نے کہا : اس میں کوئی حجت نہیں کیونکہ قرآن حکیم میں اس انداز میں بہت سی اشیاء آئی ہیں عام مقدم ہوتا ہے پھر خاص کا ذکر ہوتا ہے جیسے ھو اللہ الخالق البارئ المصور۔ خالق عام ہے۔ پھر المصور کا ذکر فرمایا کیونکہ اس میں صنعت اور حکمت کے وجود پر تنبیہ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وبالاخرۃ ھم یوقنون (البقرہ) یہ الذین یؤمنون بالغیب (البقرہ :3) کے بعد ذکر فرمایا، جبکہ غیب کا کلمہ آخرت اور دوسری غائب چیزوں کو شامل تھا لیکن آخرت کی عظمت اور اس کے اعتقاد کے وجوب پر تنبیہ اور منکرین کفار کا رد کرنے کے لئے پھر ذکر فرمایا۔ اسی طرح فرمایا : الرحمن الرحیم ہے۔ پہلے الرحمن ذکر فرمایا جو عام ہے اس کے بعد الرحیم ذکر فرمایا کیونکہ وکان بالمومنین رحیما کے ارشاد میں مومنین کے ساتھ اس کی رحمت تخصیص ہے ۔
ابو حاتم نے کہا : مالک۔ خالق کی مدح میں ملک سے زیادہ بلیغ ہے اور ملک مخلوق کی مدح میں مالک سے زیادہ بلیغ ہے۔ ان کے درمیان فرق یہ ہے کہ مخلوق میں سے مالک کبھی ملک نہیں ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ مالک ہو گا تو ملک بھی ہو گا۔ یہ قول قاضی ابو بکر بن عربی نے پسند کیا ہے اور انہوں نے اس کی تین وجوہ ذکر فرمائی ہیں :
۱۔ تو مالک کو خاص اور عام کی طرف مضاف کرتا ہے اور تو کہتا ہے : مالک الدار والارض والثوب (گھر کا مالک، زمین کا مالک، کپڑے کا مالک ) جس طرح تو کہتا ہے : مالک الملوک (بادشاہوں کا مالک)۔
۲۔ مالک کا اطلاق زیادہ اور تھوڑی ملکیت والے پر ہوتا ہے۔ جب تو ان دونوں قولوں میں غور و فکر کرے گا تو دونوں کو ایک پائے گا۔
۳۔ تو کہتا ہے : مالک الملک، جبکہ تو ملک الملک نہیں کہتا۔
ابن حصار نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ مالک سے مراد ملک پر دلالت ہے اور یہ ملک کو متضمن نہیں ہے اور ملک دونوں امروں کو شامل ہے پس مبالغہ کی وجہ سے اولیٰ ہے۔ اور یہ کمال کو بھی متضمن ہے اسی وجہ سے وہ دوسرے تمام بادشاہوں پر ملک کا مستحق ہے۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ملاحظہ نہیں فرمایا : ان اللہ اصطفہ علیکم وزادہ بسطۃ فی العلم والجسم (البقرہ : 247) ( بے شک اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے اسے تمہارے مقابلہ میں اور زیادہ دی ہے اسے کشادگی علم میں اور جسم میں ) اسی وجہ سے نبی کریمﷺ نے فرمایا : الا مامۃ فی قریش ۔ اور قریش، عرب قبائل میں سے افضل ہیں اور عرب، عجم سے افضل و اشرف ہیں۔ اقتدار اور اختیار کو متضمن ہیں۔ یہ الملک میں ضروری امر ہے اگر وہ قادر، مختار نہ ہو اور اس کا حکم اور امر نافذ نہ ہو تو دشمن اس پر جبر کرے گا اور غیر اس پر غالب آ جائے گا اور اس کی رعیت ذلیل ورسوا ہو جائے گی اور یہ سخت پکڑ، امر، نہی، وعدہ، وعید کو بھی متضمن ہے۔
آپ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول ملاحظہ نہیں فرمایا : وما لی لا اری الھد ھد ام کان من الغائبین لا عذبتہ عذابا شدیدا (النمل) اس کے علاوہ بھی امور عجیبہ عمدہ معانی ملک میں پائے جاتے ہیں جو مالک میں نہیں پائے جاتے۔ میں کہتا ہوں : بعض علماء نے حجت پکڑی ہے کہ ملک زیادہ بلیغ ہے کیونکہ مالک میں ایک حرف زائد ہے اور اس کے قاری (پڑھنے والے ) کے لئے دس نیکیاں زیادہ ہوں، جبکہ ملک کے پڑھنے والے کے لئے دس نیکیاں کم ہوں گی۔ میں کہتا ہوں : یہ صیغہ کے اعتبار سے ہے نہ کہ معنی کے اعتبار سے ہے۔ ملک کے ساتھ قرأت ثابت ہے، اور ملک میں جو معنی پایا جاتا ہے وہ مالک میں نہیں ہے جیسا کہ ہم نے بیان کر دیا ہے۔ واللہ اعلم۔
مسئلہ نمبر 16: کسی کا یہ نام نہیں رکھا جائے گا اور اس کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے گا۔ بخاری اور مسلم نے ’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا : میں الملک ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں گئے‘‘ اور حضرت ابو ہریرہؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین نام اس شخص کا ہے جسے مالک الاملاک کہا جائے ۔ مسلم میں یہ زائد ہے۔ ’’اللہ کے سوا کوئی مالک نہ ہو گا‘‘ ۔ سفیان نے کہا : ملک الاملاک شاھان شاہ کی مثل ہے۔ امام احمد بن حنبل نے کہا : میں نے ابو عمر وشیبانی سے اخنع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس کا معنی اوضع (گھٹیا) ہے۔ ان سے ہی مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز اللہ کی بارگاہ میں باعث ناراضگی اور برا ترین شخص وہ ہو گا جسے ملک الاملاک کہا جاتا ہو گا، اللہ کے سوا کوئی ملک نہیں ہے ۔ ابن حصار نے کہا اسی طرح ملک یوم الدین اور مالک الملک ہے اس میں تو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ تمام مخلوق پر یہ نام رکھنا حرام کیا گیا ہے جس طرح ملک الاملاک حرام کیا گیا ہے، اور رہا مالک اور ملک بطور وصف ذکر کرنا۔
مسئلہ نمبر 17: ان کے ساتھ اس کو موصوف کرنا جائز ہو گا جو ان دونوں مفہوموں کے ساتھ متصف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے تمہارے لئے طالوت کو اسی طرح نبی کریمﷺ نے فرمایا : ناس من امتی عرض علی غذاۃ فی سبیل اللہ یرکبون ثبج ھذا البحر ملوکا علی الاسرۃ او مثل الملوک علی الاسرۃ یعنی میری امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کئے گئے جو اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے تھے وہ اس سمندر کے وسط پر سوار تھے (جیسے) تختوں پر بادشاہ ہوتے ہیں یا فرمایا بادشاہوں کی مثل تختوں پر سوار تھے۔
مسئلہ نمبر 18: اگر کوئی یہ کہے کہ ملک یوم الدین کیسے فرمایا جبکہ یوم الدین ابھی آیا ہی نہیں اور اپنی ایسی چیز کی ملکیت سے صفت بیان کرنا کیسے صحیح ہے جس کو اس نے ابھی پایا ہی نہیں ؟ اسے کہا جائے گا کہ مالک اسم فاعل کا صیغہ ہے ملک یملک سے۔ اور اسم فاعل عرب کلام میں اپنے مابعد کی طرف مضاف کیا جاتا ہے اور وہ فعل مستقبل کے معنی میں ہوتا ہے اور عربوں کے نزدیک یہ کلام معقول، پختہ اور صحیح ہوتی ہے۔ جیسے تو کہتا ہے : ھذا ضارب زید غداً یعنی وہ کل زید کو مارے گا اور اسی طرح ھذا حاج بیت اللہ فی العامل المقبل، اس کا مطلب ہے آئندہ سال وہ حج کرے گا۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ فعل اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے حالانکہ اس نے ابھی وہ فعل کیا نہیں اور اس سے مراد استقبال لیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ملک یوم الدین استقبال کی تاویل پر ہے یعنی وہ مالک ہو گا روز جزا کا یا وہ روز جزا کا مالک ہو گا جب وہ دن آئے گا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مالک کی تاویل قدرت کی طرف لوٹنے والی ہو گی یعنی وہ روز جزا میں قادر ہو گا، یا یہ معنی کہ وہ روز جزا پر قادر ہو گا اور اسے پیدا کرنے پر قادر ہے کیونکہ کسی شے کا مالک اسی شے میں تصرف کرنے والا اور اس پر قادر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کا مالک ہے اور اپنے ارادہ کے مطابق انہیں پھیرنے والا ہے اس پر اسے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ پہلی وجہ عربی زبان کے اصول سے زیادہ مس کرنے والی ہے اور اس کے ضابطہ کے مطابق زیادہ جاری ہونے والی ہے۔ یہ ابو القاسم الزجاجی کا قول ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر کہا جائے کہ یہاں یوم الدین کی ملکیت کی تخصیص کیوں کی گئی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اور دوسری چیزوں کا بھی مالک ہو گا۔ جواباً کہا جائے گا کہ لوگ دنیا میں ملک میں جھگڑا کرنے والے تھے جیسے فرعون، نمرود وغیرہما، لیکن اس دن اس کی ملک میں کوئی اس سے جھگڑا کرنے والا نہ ہو گا تمام لوگ سر جھکائے ہوئے ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لمن الملک الیوم (غافر :16) آج بادشاہی کس کے لئے ہے، ساری مخلوق جواب دے گی : للہ الواحد القھار اللہ واحد قہار کی ہے۔ اسی لئے فرمایا : ملک یوم الدین یعنی اس دن میں نہ کوئی مالک ہو گا، نہ قاضی ہو گا، نہ کوئی جزا دینے والا ہو گا سوائے اللہ تعالیٰ کے، پاک ہے وہ ذات کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس کے۔
مسئلہ نمبر 19: اگر اللہ تعالیٰ کی صفت بیان کی جائے کہ وہ ملک ہے تو یہ اس کی ذات کی صفات سے ہو گی۔ اگر مالک کے ساتھ صفت بیان کی جائے تو یہ اس کے فعل کی صفات سے ہو گی۔
مسئلہ نمبر 20: الیوم سے مراد طلوع فجر سے لے کر غروب شمس تک وقت ہے پھر یہ عاریۃً یا مجازاً قیامت کے آغاز سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے تک اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے تک کے لئے بولا جاتا ہے کبھی الیوم پورے دن کی ایک گھڑی کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :3) یوم کی جمع ایام ہے۔ اصل میں ایوام تھا پھر ادغام کیا گیا بعض اوقات، شدت کو الیوم سے تعبیر کرنے میں کہا جاتا ہے۔ یو م ایوم، جس کہا جاتا ہے : لیلۃ لیلاء۔ راجز نے کہا :
نعم اخو الھیجاء فی الیوم الیمی۔
ہیجا کا بھائی شدت میں کتنا اچھا تھا۔
اس مصرعہ میں الیمی میں قلب کیا گیا ہے۔ واؤ کو مؤخر کیا گیا ہے اور میم کو مقدم کیا گیا ہے۔ پھر واؤ کو یاء سے قلب کیا گیا ہے کیونکہ وہ طرف کلمہ میں ہے جیسا کہ عرب دلو کی جمع میں ادل کہتے ہیں۔
مسئلہ نمبر 21: الدین۔ اس کا مطلب اعمال پر جزا اور اعمال کا حساب ہے۔ حضرات ابن مسعود، ابن عباس، ابن جریج اور قتادہ وغیرہم نے اسی طرح فرمایا ہے۔ نبی کریمﷺ سے بھی یہ مروی ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے : یومئذ توفیھم دینھم الحق (النور : 25) اس آیت میں دین سے مراد حساب ہے۔ فرمایا : الیوم تجزی کل نفس بما کسبت (غافر : 17) اور فرمایا الیوم تجزون ما کنتم تعملون (الجاثیہ : 28) اور فرمایا ءانا لمدینون (صافات) یعنی ہم جزا دئیے جائیں گے اور ہمارا محاسبہ کیا جائے گا۔ لبید نے کہا :
حصادک یوماً ما زرعت وانما یدان الفتی یوما کما ھودائن
تو اس دن وہی کاٹے گا جو تو نے بویا، جو ان کو جزا دی جائے گی جو وہ کرنے والا ہو گا۔
ایک اور نے کہا :
اذا ما رمونا رمیناھم ودنا ھم مثل ما یقرضونا
جب انہوں نے ہم پر تیر پھینکے تو ہم نے ان پر تیر پھینکے اور ہم نے انہیں جزا دی جیسا انہوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ ایک اور نے کہا :
واعلم یقیناً ان ملکک زائل واعلم بان کما تدین تدان
جان لو کہ تمہاری حکومت ختم ہونے والی ہے اور جان لو جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
اہل لغت نے بیان کیا ہے : دنتہ بفعلہ دینا (مصدر) دال کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے۔ اس کا معنی ہے : میں نے اسے جزا دی، اسی سے ہے : الدیان۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یعنی جزا دینے والا ہے۔ حدیث شریف میں ہے : الکیس من دان نفسہ (عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے) بعض نے فرمایا : الدین سے مراد فیصلہ ہے۔ یہ بھی حضرات ابن عباس سے مروی ہے۔ اسی معنی میں طرفہ کا قول ہے۔
لعمرک ما کا نت حمولۃ معبد علی جدھا حربا لدینک من مضر
تیری عمر کی قسم معبد کے اونٹ کنوئیں پر تیرے فیصلہ کی وجہ سے مضر قبیلہ سے جنگ کرنے کے لئے نہیں تھے۔
دین کے یہ تینوں معانی قریب قریب ہیں۔ الدین کا معنی طاعت بھی ہے۔ اس معنی میں عمرو بن کلثوم کا شعر ہے۔
وایام لنا غر طوال عصینا الملک فیھا ان ندینا
ہمارے لئے روشن لمبے دن تھے۔ ہم نے ان میں بادشاہ کی اطاعت کرنے میں نافرمانی کی۔
پس یہ دین کا لفظ مشترک ہے۔
مسئلہ نمبر 22: ثعلب نے کہا : دان الرجل کا مطلب ہے اس نے اطاعت کی اور دان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس نے نافرمانی کی۔ دان اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کوئی عزت پائے اور اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کوئی ذلیل ہو اور اس وقت بھی بولا جاتا ہے جب کوئی غالب آئے۔ پس یہ لفظ اضداد میں سے ہے۔ الدین کا اطلاق عادت اور شان پر بھی ہوتا ہے جیسا ہے کہ ایک شاعر نے کہا :
کدینک من ام الحویرث قبلھا جیسا کہ تیری شان ام الحویرث کی طرف سے ہے۔
مثقب نے اپنی اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا :
تقول اذا درأت لھا وفینی اھذا دینہ ابدا ودینی
وہ اونٹنی کہتی ہے جب میں اس کا تنگ زمین پر بچھا دیتا ہوں یہ اس کی اور میری ہمیشہ کی عادت ہے۔
الدین بادشاہ کی عملداری کو بھی کہتے ہیں۔ زہیر نے کہا :
لئن حللت بجو فی بنی اسد فی دین عمرو وحالت بیننا فدک
اگر تو بنی اسد میں جو کے مقام پر عمرو کی عملداری میں اترے گا تو ہمارے درمیان فدک کا مقام حائل ہو گا۔
شاعر نے عمرو کی طاعت کی جگہ مراد لی ہے۔
الدین سے مراد بیماری بھی ہے۔ لحیانی سے مروی ہے، اس نے کہا :
یا دین قلبک من سلمی وقد دینا
اس میں دین بمعنی مرض استعمال کیا ہے۔
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴿5﴾
ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں
مسئلہ نمبر 23: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ایاک نعبد۔ اللہ تعالیٰ نے غائب کے صیغوں سے خطاب کے صیغہ کی طرف رجوع فرمایا کلام میں رنگینی پیدا کرنے کے لئے کیونکہ سورت کے آغاز سے لے کر یہاں تک اللہ تعالیٰ کے متعلق خبر تھی اور اس کی ثنا تھی۔ جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وسقھم ربھم شرابا طھوراً (الدہر) (اور پلائے گا انہیں ان کا پروردگار نہایت پاکیزہ شراب)۔ پھر آگے مخاطب کی ضمیر ذکر فرمائی۔ فرمایا : ان ھذا کان لکم جزآءً (الدہر :22) ( انہیں کیا جائے گا ) یہ تمہارا صلہ ہے۔ اسی طرح اس کا الٹ بھی قرآن میں ہے یعنی پہلے مخاطب کے صیغے اور پھر غائب کے صیغے ذکر فرمائے۔
حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم (یونس :22) یہاں تک کہ جب تم سوار ہوتے ہو کشتیوں میں اور وہ چلنے لگتی ہیں مسافروں کو لے کر ) اس کا ذکر آگے آئے گا۔
نعبد کا معنی ہے نطیع (ہم عبادت کرتے ہیں ) عبادت کا مطلب طاعت اور عجز وانکساری کا اظہار کرنا ہے۔ طریق معبد اس راستہ کو کہتے ہیں جو چلنے والوں کے لئے آسان بنایا گیا ہو۔ یہ ہروی کا قول ہے۔ بندہ جب یہ کہتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کو ثابت کرتا ہے، کیونکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں وغیرہ کو بھی پوجتے ہیں۔ وایاک نستعین۔ یعنی ہم تجھے سے ہی مدد، تائید اور توفیق طلب کرتے ہیں۔ سلمی نے ’’حقائق‘‘ میں کہا : میں نے محمد بن عبد اللہ بن شاذان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابو حفص فرغانی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس نے ایاک نعبد وایاک نستعین کا اقرار کیا وہ جبر و قدر سے بری ہو گیا۔
مسئلہ نمبر 24: اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہاں مفعول کو فعل پر مقدم کیوں کیا گیا ہے تو جواباً کہا جائے گا اہتمام کی خاطر مقدم کیا گیا ہے۔ عربوں کی یہ عادت ہے کہ اہم کو مقدم کر دیتے ہیں۔ ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک بدو نے دوسرے بدو کو گالی دی تو جس کو گالی دی گئی اس نے گالی دینے والے سے اعراض کیا۔ گالی دینے والے نے اس سے کہا : ایاک اعنی (میری مراد تو ہی ہے)۔ اسے دوسرے نے کہا : وعنک اعرض میں تجھ ہی سے اعراض کرتا ہوں۔ دونوں نے اہم کو مقدم کیا۔ اسی طرح بندے اور عبادت کو معبود پر مقدم نہیں کیا گیا۔ پس نعبدک اور نسعتینک، ولا نعبد ایاک ونسعتین ایاک جائز نہیں کہ فعل کو مفعول کی ضمیر پر مقدم کیا جائے، لفظ قرآن کی اتباع کی جائے گی۔ عجاج نے کہا :
ایاک ادعو فتقبل ملقی واغفر خطایای وکثر ورقی
میں تجھ سے ہی التجا کرتا ہوں، میری عاجزی کو قبول فرما، میرے گناہ معاف فرما اور میرے مال سے زیادہ فرما۔
اور ثمر بھی مروی ہے۔ رہا شاعر کا قول :
الیک حتی بلغت ایاکا اونٹنی تیری طرف چلی حتیٰ کہ تیرے پاس پہنچ گئی۔
یہ شاذ ہے اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔ ورق راء کے کسرہ کے ساتھ ہو تو مراد دراہم اور واو کے فتحہ کے ساتھ ہو تو مراد مال ہو گا۔ آیت میں ضمیر کو مکرر فرمایا تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ تیری عبادت کرتے ہیں اور غیر سے مدد چاہتے ہیں۔
مسئلہ نمبر 25: جمہور قراء اور علماء ایاک کو یاء کی شد کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ عمرو بن فائد نے ایان کو ہمزہ کے کسرہ اور یاء کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ انہوں نے یاء کی تضعیف کو ناپسند کیا ہے کیونکہ یاء کی تشدید اور اس کے ماقبل کسرہ ہونے کی وجہ سے ثقل لازم آتا ہے یہ قرأت مرغوب نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں معنی ہو گا ہم تیرے سورج یا تیری روشنی کی عبادت کرتے ہیں ایاۃ الشمس کا مطلب ہے سورج کی روشنی اور کبھی ہمزہ کو فتح بھی دیا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا :
سقتہ ایاۃ الشمس الا لثاتہ اسف فلم تکدم علیہ باثمد
اس میں شاعر نے ایاۃ کو ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
اگر تو ہا کو گرا دے تو مد کے ساتھ پڑھے گا۔ کہا جاتا ہے : الا یاۃ للشمس کالھالۃ للقمر یعنی چاند کے اردگرد کے دائرہ کو ہالہ کہتے ہیں اور سورج کے دائرہ کو ایاۃ کہتے ہیں۔ فضل رقاشی نے ایاک ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ مشہور لغت ہے ۔ ابو سوار غنوی نے دونوں جگہ پر ھیاک پڑھا ہے۔ یہ بھی ایک لغت ہے۔ شاعر نے کہا :
فھیاک والامر الذی ان توسعت مورادہ ضاقت علیک مصادرہ
یہاں ھیاک، ایاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔
مسئلہ نمبر 26: وایاک نستعین۔
جملہ کا جملہ پر عطف ہے۔ یحییٰ بن وثاب اور اعمش نے نستعین کو نون کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ تمیم، اسد، قیس اور ربیعہ قبائل کی لغت ہے تاکہ مدد طلب کرنے والے پر دلالت کرے، نون کو کسرہ دیا جاتا ہے جس طرح الف وصل کو کسرہ دیا جاتا ہے۔ نستعین اصل میں نستمعون تھا واؤ کی حرکت عین کو دی تو واو یاء بن گئی۔ اس کا مصدر استعانۃ ہے اصل میں استمعوان تھا۔ واو کی حرکت عین کو دی گئی تو واو الف سے بدل گئی، دوساکن جمع نہیں ہوتے، تو دوسرے الف کو حذف کیا گیا کیونکہ یہ زائدہ تھا۔ بعض نے فرمایا : پہلے الف کو حذف کیا گیا کیونکہ دوسرا معنی کے لئے ہے اور ھاء عوضا لازم ہے (یعنی واو کو حذف کیا تو اس کے عوض آخر میں ھاء لازم ہے۔ )
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴿6﴾
ہم کو سیدھا راستہ چلا
مسئلہ نمبر 27: اھدنا الصراط المستقیم
اھدنا، مربوب کی، رب کی بارگاہ میں دعا اور رغبت ہے۔ معنی یہ ہے کہ ہماری سیدھے راستہ پر رہنمائی فرما اور سیدھے راستہ کی طرف ہمیں ہدایت عطا فرما اور ہمیں اپنی ہدایت کا وہ راستہ دکھا جو تیری عبادت اور تیرے قرب تک پہنچنے والا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے دعا اور تمام چیزوں کو اس سورت میں رکھ دیا۔ اس کے نصف میں ثنا ہے اور نصف میں حاجات کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ اس سورت میں جو دعا ہے وہ اس دعا سے افضل ہے جو دعا کرنے والا خود مانگتا ہے کیونکہ یہ وہ کلام ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔ اور حدیث میں ہے : ’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ معزز کوئی چیز نہیں‘‘ ۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں سنن کے استعمال کی رہنمائی فرما۔ بعض نے فرمایا : اس میں اصل امالہ (مائل کرنا ) ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : انا ھدنا الیک (اعراف :156) یعنی ھدنا کا معنی ہم مائل ہوئے ہے۔ نبی کریمﷺ مرض کی حالت میں مسجد میں تشریف لائے۔ اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے راوی نے کہا : یتھا دٰی اثنین یعنی دو آدمیوں کے درمیان جھک کر چل رہے تھے۔ یہاں یتھادٰی بمعنی یتبایل ہے۔ اس سے الھدیۃ ہے جو ایک شخص کی ملکیت سے دوسرے کی ملکیت کی طرف جاتا ہے۔ اسی سے الھدی اس حیوان کو کہا جاتا ہے جو حرم کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ معنی یہ ہے کہ ہمارے دلوں کو حق کی طرف مائل کر دے۔ فضیل بن عیاض نے کہا : الصراط المستقیم سے مراد دلائل کا راستہ ہے، یہ خاص ہے، جبکہ عمومی معنی بہتر ہے۔
محمد بن حنفیہ نے اھدنا الصراط المستقیم کے بارے میں فرمایا : یہ اللہ کا دین ہے، اللہ تعالیٰ اس کے علاوہ بندوں سے کوئی دین قبول نہیں کرتا۔
عاصم احوال نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے، الصراط المستقیم سے مراد رسول اللہﷺ اور آپ کے بعد کے دو خلفاء ہیں۔ عاصم نے کہا : میں نے حسن سے کہا : ابو العالیہ کہتے ہیں : الصراط المستقیم سے رسول اللہﷺ اور آپ کے دونوں ساتھی (ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما) ہیں۔ حسن نے کہا : انہوں نے سچ کہا اور ٹھیک کہا ہے۔
مسئلہ نمبر 28: الصراط کا اصل معنی عرب کلام میں الطریق ہے۔ عامر بن طفیل نے کہا :
شعنا ارضھم بالخیل حتی ترکنا ھم اذل من الصراط
شاعر نے الصراط کو راستہ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
جریر نے کہا :
امیر المومنین علی صراط اذا اعوج الموارد مستقیم
اس شعر میں صراط بمعنی راستہ استعمال کیا ہے یعنی امیر المومنین سیدھے راستہ پر ہے۔
ایک اور نے کہا :
فصد عن نھج الصراط الواضح اس نے واضح راستہ سے روکا۔
نقاش نے بیان کیا کہ رومی لغت میں الصراط کا مطلب الطریق (راستہ) ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ ضعیف قول ہے ۔ السراط (سین کے ساتھ) بھی پڑھا گیا اور اس صورت میں یہ الاستراط سے مشتق ہو گا جس کا معنی الابتلاع (نکلنا ) ہے۔ گویا راستہ چلنے والوں کو نگل لیتا ہے۔ راء اور صاد کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور سین اصل ہے۔ سلمہ نے فراء سے روایت کیا ہے، فراء نے کہا : الذراط۔ خالص زاء کے ساتھ عذرہ، کلب اور بنی القین کی لغت ہے۔ فرمایا : لوگ کہتے ہیں : ازدق جب انہوں نے اصدق کہنا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں : الازد اور الاسد ولسق بہ اور لصق بہ۔ الصراط، دوسرے مفعول کی حیثیت سے منصوب ہے، کیونکہ ہدایت کا فعل حرف جر کے واسطہ سے دوسرے مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاھدوھم الی صراط الحجیم (الصافات ) اور ہدایت کا فعل بغیر حرف جر کے بھی دوسرے مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ المستقیم الصراط کی صفت ہے۔ مستقیم اسے کہتے ہیں جس میں کوئی ٹیڑھا پن اور انحراف (موڑ) نہ ہو۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ (انعام :153) مستقیم اصل میں مستقوم تھا۔ واو کی حرکت نقل کر کے ماقبل قاف کو دی گئی پھر واو ماقبل کسرہ کی وجہ سے یاء سے بدل گئی۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۥۙ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ﴿7﴾
راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا
مسئلہ نمبر 29: صراط الذین انعمت علیھم
صراط، الصراط سے بدل کل ہے جیسے تو کہتا ہے : جاء بی زید ابوک۔ اس آیت کا مطلب ہے ہمیں ہمیشہ اپنی ہدایت عطا فرما کیونکہ انسان راستہ کی طرف رہنمائی کیا جاتا ہے پھر وہ اس سے بھٹک بھی جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس صراط سے مراداور صراط ہے۔ اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا فہم۔ یہ جعفر بن محمد کا قول ہے اور قرآن کی لغت الذین ہی ہے حالت رفع، نصبی اور جری میں اور ہذیل حالت رفعی میں اللذون کہتے ہیں۔ عربوں میں کچھ کہتے ہیں اللذو اور بعض الذی کہتے ہیں (خواہ حالت رفعی ہو نصبی ہو یا جری ہو ) جیسا کہ آگے آئے گا۔
علیھم میں دس لغات ہیں : علیھم ھاء کے ضمہ اور میم کے سکون کے ساتھ ھا کے کسرہ اور میم کے سکون کے ساتھ۔ علیھمی ھا اور میم کے کسرہ اور کسرہ کے بعد یاء کے الحاق کے ساتھ۔ علیھمو۔ ھا کے کسرہ، میم کے ضمہ اور ضمہ کے بعد واو کی زیادتی کے ساتھ۔ علیھموھاء اور میم کے ضمہ اور میم کے بعد واؤ کے ادخال کے ساتھ علیھم ھا اور میم کے ضمہ کے ساتھ واو کی زیادتی کے بغیر۔ یہ چھ وجوہ قراء ائمہ سے منقول اور چار وجوہ عربوں سے منقول ہیں قراء کی طرف سے بیان نہیں کی گئیں۔ علیھمی ھا کے ضمہ، میم کے کسرہ اور میم کے بعد یاء کے ادخال کے ساتھ یہ حضرت حسن بصری نے عربوں سے حکایت کیا ہے۔ علیھم ھا کے ضمہ اور میم کے کسرہ کے ساتھ یاء کی زیادتی کے بغیر۔ علیھم ھا کے کسرہ اور میم کے ضمہ کے ساتھ واو کے الحاق کے بغیر۔ علیھم ھاء اور میم کے کسرہ کے ساتھ میم کے بعد یاء کے بغیر۔ یہ تمام صورتیں درست ہیں۔ یہ ابن انباری کا قول ہے۔
مسئلہ نمبر 30: حضرت عمر بن خطاب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے صراط من انعمت علیھم پڑھا ہے۔ علماء مفسرین کا اختلاف ہے کہ کون لوگ مراد ہیں جن پر انعام کیا گیا ہے۔ جمہور مفسرین نے فرمایا : اس سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذی انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا (النساء ) (اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اور (اس کے ) رسول کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور کیا ہی اچھے ہیں یہ ساتھی )۔
ہدایت تقاضا کرتی ہے کہ یہ لوگ صراط مستقیم پر ہیں اور آیت اور الحمد میں ہی مطلوب ہے اور تمام اقوال کا مرجع یہی ہے۔ اس لئے متعدد اقوال ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ فاللہ المستعان۔
مسئلہ نمبر 31: اس آیت میں قدریہ اور معتزلہ، امامیہ کا رد ہے کیونکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان سے فعل کے صدور میں انسان کا ارادہ ہی کافی ہے خواہ وہ فعل طاعت ہو یا معصیت ہو کیونکہ ان کے نزدیک انسان اپنے افعال کا خالق ہے وہ اپنے افعال کے صدور میں اپنے رب کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی تکذیب فرمائی کیونکہ انہوں نے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کا اس کی بارگاہ سے سوال کیا۔ اگر معاملہ ان کے سپرد ہوتا اور ان کے اختیار میں ہوتا ان کے رب کے پاس یہ معاملہ نہ ہوتا تو وہ ہدایت کا اس سے سوال نہ کرتے اور ہر نماز میں بار بار سوال نہ کرتے۔ اسی طرح مصیبت کے دور کرنے میں اس کی طرف ان کا تضرع درازی کرنا بھی ہے۔
اور مکروہ سے مرا د ہدایت کے مخالف چیز ہے۔ جب انہوں نے کہا : صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین جس طرح انہوں نے اس سے اپنی ہدایت کا سوال کیا اس طرح انہوں نے سوال کیا کہ انہیں گمراہ نہ کر۔ اسی طرح وہ دعا مانگتے ہیں اور کہتے ہیں : ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا (آل عمران : 8)
مسئلہ نمبر 32: غیر المغضوب علیھم والا الضآلین
علماء کا اختلاف ہے کہ المغضوب علیھم اور الضآلین سے کون مراد ہیں۔ جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ المغضوب علیھم سے مراد یہود ہیں اور الضآلین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ عدی بن حاتم کی حدیث میں اور ان کے اسلام کے قصہ میں نبی کریمﷺ سے یہ بات تفسیر سے ذکر کی گئی ہے ۔ اس حدیث کو ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند میں اور ترمذی نے اپنی جامع میں نقل کیا ہے۔ اس تفسیر کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے جو یہود کے بارے میں وارد ہے وباء و بغضب من اللہ (البقرہ :61) (وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے۔ ) اور فرمایا غضب اللہ علیھم (الفتح : 6) (ان پر اللہ کا غضب ہوا) اور نصاریٰ کے بارے میں فرمایا : قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا و ضلوا عن سواء السبیل (المائدہ 77) (جو گمراہ ہو چکی ہے پہلے سے (قوم) اور گمراہ کر چکے ہیں بہت سے لوگوں کو اور بھٹک چکے ہیں راہ راست سے ) بعض علماء فرماتے ہیں : المغضوب علیھم سے مراد مشرکین ہیں اور الضآ لین سے مراد منافقین ہیں۔ اور بعض نے فرمایا : المغضوب علیھم مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے نماز میں اس سورت کی فرضیت کو ساقط کیا۔ الضآلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کی قراءت کی برکت سے گمراہ ہوئے۔ یہ قول سلمی نے اپنی ’’حقائق‘‘ میں اور ماوردی نے اپنی تفسیر میں حکایت کیا ہے لیکن اس قول کی کوئی حقیقت نہیں۔ ماوردی نے کہا : یہ قول مردود ہے کیونکہ جب اس کے مفہوم میں اخبار آپس میں معارض ہیں اور آثار مقابل ہیں اور اختلاف پھیلا ہوا ہے تو اس پر اس حکم کا اطلاق جائز نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : المغضوب علیھم سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدعتوں کی اتباع کی اور اس وجہ سے ان پر غضب ہوا۔ الضآلین سے سنن ہدیٰ سے گمراہ لوگ مراد ہیں۔
میں کہتا ہوں : یہ قول حسن ہے اور نبی کریمﷺ کی تفسیر اولیٰ، اعلیٰ اور احسن ہے۔ علیھم حالت رفعی میں ہے کیونکہ اس کا معنی ان پر غضب کیا گیا۔ لغت میں غضب کا معنی شدت ہے۔ رجل غضوب، یعنی سخت حلق والا شخص۔ الغضوب برے سانپ کو کہتے ہیں اس کی شدت کی وجہ سے۔ الغضبتہ اس ڈھال کو کہتے ہیں جو اونٹ کی جلد سے بنائی جاتی ہے اور تہہ در تہہ ہوتی ہے۔ اس کی شدت کی وجہ سے اسے الغضبۃ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت میں غضب کا معنی سزا کا ارادہ کرنا ہے۔ یہ ذات کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کی ذات کی صفات سے ہے۔ یا اس کا معنی نفس عقوبت (سزا) ہے۔ اسی مفہوم میں حدیث استعمال ہوئی ہے : ان الصدقۃ لتطفی غضب الرب۔ (صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے یہ فعل کی صفت ہے )۔
مسئلہ نمبر 33: ولا الضآلین عرب کلام میں الضلال کا مطلب حق کے راستہ اور قصد کے طریقوں سے دور چلا جانا ہے۔ اس معنی میں یہ مثال ہے : ضل اللبن فی الماء، یعنی دودھ پانی میں غائب ہو گیا۔ ء اذا ضللنا فی الارض (السجدہ :10)۔ یعنی ہم موت کے ساتھ غائب ہو جائیں گے اور مٹی بن جائیں گے۔ شاعر نے کہا :
أ لم تسأل فتخبرک الدیار عن لحی المضلل این ساروا
کیا تو نے نہیں پوچھا کہ تجھے گیسے خبر دیتے غائب قبیلہ کے متعلق کہ وہ کہاں چلے گئے۔
الضلضلۃ اس ملائم پتھر کو کہتے ہیں پانی جسے وادی میں گھماتا رہتا ہے۔ اسی طرح الغضبۃ پہاڑ میں اس چٹان کو کہتے ہیں جس کا رنگ پہاڑ سے مختلف ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا :
او غضبۃ فی ھضبۃ ما امنعا
مسئلہ نمبر 34: حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابی بن کعب نے غیر المغضوب علیھم وغیر الضالین پڑھا ہے اور ان دونوں حضرات سے راء پر نصب اور جر کا پڑھنا مروی ہے اور جریہ الذین سے علیھم میں ھا اور میم سے بدل ہونے کی وجہ سے ہو گا یا الذین کی صفت کی حیثیت سے ہو گا۔ الذین معرفہ ہے اور اصول یہ ہے کہ معرفہ کی صفت نکرہ سے اور نکرہ کی صفت معرفہ سے نہیں لگائی جاتی۔ لیکن یہاں الذین سے متعین افراد نہیں ہیں بلکہ یہ عام ہے۔ پس یہ تیرے اس قول کے قائم مقام ہو گا : انی لا مربمثلک فاکرمہ۔ یا غیر کا لفظ معرفہ بن گیا ہے کیونکہ یہ دو چیزوں کے درمیان ہے جن کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہے۔ (یعنی دو ضدوں کے درمیان ہے اور دو ضدوں کے درمیان غیر آئے تو معرفہ بن جاتا ہے ) جیسے الحی غیر المیت، الساکن غیر المتحرک، القائم القاعد
یہ ترکیب کے دو قول ہیں : پہلا فارسی کا ہے اور دوسرا زمخشری کا ہے اور غیر پر نصب کی دو وجہیں ہیں : یا تو الذین سے حال ہے یا علیھم میں ھا اور میم سے حال ہے۔ گویا تو نے کہا : انعمت علیھم لا مغضوبا علیھم یا استثناء کی بنا پر نصب ہے۔ گویا تو کہتا ہے : الا المغضوب علیھم۔ اور اعنی فعل کے ساتھ نصب جائز ہے۔ خلیل سے یہ حکایت کیا گیا ہے۔
مسئلہ نمبر 35: ولا الضآلین میں جو لا ہے اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ زائد ہ ہے۔ یہ طبری کا قول ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا قول ہے : ما منعک الا تسجد (اعراف : 12) (اس میں لا زائدہ ہے)۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ تاکید کے لئے داخل کیا گیا ہے تاکہ وہم نہ ہو کہ الضآلین، الذین پر معطوف ہے۔ یہ قول مکی اور مہدوی نے حکایت کیا ہے۔ کوفیوں نے کہا لا بمعنی غیر ہے۔ یہ عمر اور ابی کی قراءت ہے جیسا کہ نیچے گزر چکا ہے۔
مسئلہ نمبر 36: الضآلین اصل میں الضاللین تھا۔ پہلے لام کی حرکت حذف کی گئی پھر لام کو لام میں ادغام کیا گیا۔ پس دو ساکن جمع ہوئے۔ مدۃ الالف اور لام مدغمہ۔ ایوب سختیانی نے ولا الضالین غیر ممدودہ ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ گویا اس نے التقاء ساکنین سے دوری اختیار کی۔ یہ بھی ایک لغت ہے۔ ابو زید نے حکایت کیا ہے، فرمایا : میں عمرو بن عبید کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے : فیومئذ لا یسأل عن ذنبہ انس ولا جان۔ میں نے گمان کیا انہوں نے غلطی کی ہے حتیٰ کہ میں نے عربوں سے سنا : دابۃ وشابۃ۔ ابو الفتح نے کہا : اس لغت پر بہت سے اقوال ہیں۔
اذا ما العوالی بالعبیط احمارت۔
جب تازہ خون کی وجہ سے نیزوں کی انیاں سرخ ہو گئیں۔
سورۂ الحمد کی تفسیر ہم مکمل کرتے ہیں۔ سب تعریفیں اور احسان اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.gegasoft.com/quran-reader/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید