FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تفسیر جلالین (اردو)

 

 

جلال الدین السیوطی، جلال الدین المحلّی

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

سات جلدوں میں، قرآنی منازل کے لحاظ سے

 

جلد اول : منزل اول، سورۃ فاتحہ تا سورۃ النساء

جلد دوم : منزل دوم، سورۃ مائدہ تا سورۃ توبہ

جلد سوم، منزل سوم، سورۃ یونس تا سورۃ نحل

جلد چہارم، منزل چہارم، سورۃ اسراء تا سورۃ فرقان

جلد پنجم، منزل پنجم، سورۃ الشعراء تا سورۃ یاسین

جلد ششم، منزل ششم، سورۃ صافات تا سورۃ حجرات

جلد ہفتم، منزل ہفتم، سورۃ ق تا الناس

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد دوم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل 

 

جلد سوم

 

ورڈ فائل 

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد چہارم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد پنجم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

جلد ششم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

جلد ہفتم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں…..

 

۱۴۔ سورۃ ابراہیم

سورة ابراھیم مکیۃ وھی اثنتان وخمسون ایۃ وسبع رکوعات
سورة ابراہیم مکیۃ الا، الم تر الی الذین بدلوا نعمۃ اللہ (الایتین) احدیٰ او ثنتان او اربع او خمس وخمسون آیۃ۔
سورة ابراہیم مکی ہے، مگر الم تر الی الذین الخ دو آیتیں ۵۱، ۵۲، ۵۴، ۵۵ آیتیں ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

آیت نمبر ۱ تا ۶

 

ترجمہ: شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، الرٰ، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے اے محمد اس کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو کفر کی ظلمتوں سے ان کے رب کے حکم سے ایمان کی روشنی کی طرف نکالیں، اور الی النور سے الی صراط العزیز بدل ہے یعنی غالب اور قابل ستائش اللہ کے راستہ کی طرف (لائیں) (اللہ) کا جر (العزیز) سے بدل یا عطف بیان ہونے کی وجہ سے ہے، اس کا مابعد (یعنی الذین لہ الخ) اللہ کی صفت ہے اور (اللہ) کے رفع کی صورت میں اللہ مبتداء ہو گا اور الذین لہ اس کی خبر ہو گی وہ اللہ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے، ملک اور تخلیق اور مملوک ہونے کے اعتبار سے، اور کافروں کے لئے تو شدید عذاب کی وجہ سے ہلاکت (و بربادی) ہے جو دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں پسند کرتے ہیں (الذین) الکافرین کی صفت ہے، اور لوگوں کو اللہ کے راستہ یعنی دین اسلام سے روکتے ہیں اور اس راستہ میں کجی نکالتے ہیں یہی لوگ پر لے درجہ کی گمراہی میں ہیں (یعنی) حق سے دور ہیں ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان ہی میں بھیجا ہے تاکہ وہ جو کچھ لے کر آیا ہے اسے ان کو سمجھائے اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت بخشے، وہ اپنے ملک میں غلبہ والا اور اپنی صنعت میں حکمت والا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ ہم نے موسیٰ کو اپنے نو معجزے دے کر بھیجا اور ان سے کہا یہ کہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو کفر کی ظلمت سے ایمان کی روشنی کی طرف نکال اور انھیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد دلا بلا شبہ اس تذکیر میں طاعتوں پر ہر صبر کرنے والے اور نعمتوں پر شکر کرنے والے کے لئے نشانیاں ہیں اور اس وقت کا ذکر جبکہ موسیٰؑ نے اپنے قوم سے کہا تم اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جبکہ تم کو قوم فرعون سے نجات دی وہ تم کو شدید تکلیف پہنچا رہا تھا اور تمہارے نو مولود لڑکوں کو قتل کر رہا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ رہا تھا اور اس نجات یا عذاب میں ہمارے رب کی طرف سے بڑا انعام یا بڑی آزمائش تھی۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

قولہ: ھذا القرآن، اس تقدیر میں اشارہ ہے کہ کتاب انزلناہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، نہ کہ کتاب مبتداء اور انزلناہ اس کی خبر، اس لئے کہ کتاب نکرۂ محضہ ہے جس کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔
قولہ: ویبدل من الی النور، الی صراط العزیز، الی صراط العزیز، الی النور سے اعادۂ عامل کے ساتھ بدل ہے۔
قولہ: بالجر بدل او عطف بیان، یعنی لفظ اللہ، العزیز سے بدل ہے یا عطف بیان ہے۔
سوال: اللہ، علم ہے اور العزیز صفت ہے علم کا صفت سے بدل واقع ہونا صحیح نہیں ہے۔
جواب: العزیز صفت مختصہ ہونے کی وجہ سے بمنزلہ علم کے ہے لہٰذا لفظ اللہ کا اس سے بدل واقع ہونا درست ہے۔
قاعدۂ معروفہ: صفت معرفہ اگر موصوف پر مقدم ہو تو صفت کا اعراب حسب عامل ہوتا ہے اور موصوف بدل یا عطف بیان واقع ہوتا ہے، اصل عبارت اس طرح ہے، ’’الی صراط اللہ العزیز الحمید الذی لہ ما فی السموات وما فی الارض‘‘ لفظ اللہ کی تین صفات ہیں ان میں سے دو مقدم ہیں اور ایک مؤخر ہے العزیز اور الحمید مقدم ہیں اور الذی لہ مافی السموٰات الخ مؤخر ہے۔ اسی معروف قاعدہ کے اعتبار سے لفظ اللہ، العزیز سے بدل یا عطف بیان واقع ہے، دوسری صورت لفظ اللہ میں رفع کی ہے، اس میں لفظ اللہ مبتداء اور الذی لہ مافی السموات الخ کی خبر ہو گی۔
قولہ: نعت، یعنی الذین یستحبون الخ جملہ ہو کر للکافرین کی صفت ہونے کی وجہ سے محلا مجرور ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ مبتداء ہونے کی وجہ سے محلا مرفوع ہے اور اولئک فی ضلال بعید اس کی خبر ہے۔
قولہ: بنعمہ۔ ایام اللہ سے نعمت مراد اس طرح ہے کہ یہ ظرف بول کر مظروف مراد لینے کے قبیل سے ہے نعمتیں اور احسانات چونکہ ایام میں حاصل ہوتے ہیں اس لئے ایام بول کر انعامات اور احسانات مراد لئے ہیں۔
قولہ: یستبقون، یستحیون کی تفسیر یستبقون سے کر کے اشارہ کر دیا کہ یستحیون کے معنی موضوع لہ مراد نہیں ہیں بلکہ لازم معنی مراد ہیں۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

سورة ابراہیم ترتیب کے لحاظ سے چودھویں سورت ہے، باختلاف تعداد چند آیتوں کے علاوہ پوری سورت مکی ہے، سورت کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ہے اس سورت کے مرکزی مضامین میں ان لوگوں کو فہمائش اور تنبیہ کرنا ہے کہ جو نبیﷺ کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے، اور آپ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لئے ہر طرح کی تدبیریں اور بدتر چالیں چل رہے تھے۔ اس سورت کی شروع میں رسالت اور نبوت اور ان کی کچھ خصوصیات کا ذکر ہے، پھر توحید کا بیان ہے اور اس کے شواہد کا ذکر ہے اسی سلسلہ میں حضرت ابراہیمؑ کا قصہ ذکر کیا گیا ہے، اور اسی کی مناسبت سے سورت کا نام سورة ابراہیم ہے۔
الرٰ،۔۔۔۔ باذن ربھم، الرٰ ان حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے متعلق بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس میں اسلم اور محتاط طریقہ سلف صالحین کا ہے کہ اس پر ایمان و یقین رکھیں کہ جو کچھ اس کی مراد ہے وہ حق ہے لیکن اس کے معنی کی تحقیق و تفتیش کے درپے نہ ہوں۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطانی راستوں سے ہٹا کہ خدا کے راستہ پر لانا ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص خدا کی راہ پر نہیں وہ جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو، بخلاف اس کے کہ جس نے خدا کا راستہ پالیا وہ علم کی روشنی میں آ گیا خواہ وہ ان پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔
ہدایت صرف خدا کا فعل ہے : لتخرج الناس۔۔۔۔ باذن ربھم، ناس سے تمام عالم کے انسان مراد ہیں، ظلمٰت، ظلمۃ کی جمع ہے یہاں ظلمت سے کفر و شرک اور بداعمالیوں کی ظلمت مراد ہے اور نور سے مراد ایمان کی روشنی ہے، چونکہ کفر و شرک کی بہت سی انواع و اقسام ہیں اس لئے ظلمات کو جمع لایا گیا ہے اور ایمان اور حق ایک ہی ہے اس لئے نور کو مفرد کے صیغہ کے ساتھ لایا گیا ہے، اس آیت میں تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کو اگرچہ آپﷺ کا فعل قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت میں ہدایت دینا اللہ کا کام ہے یہ اسناد مجازی نسبت الی السبب کے قبیل سے ہے اس لئے کہ ہدایت دینا محض اللہ کا کام ہے آپ کا کام صرف رہنمائی کرنا ہے ’’انک لاتھدی من احببت‘‘ آپ اپنے مہربان چچا خواجہ ابو طالب کو تمام تر خواہش کے باوجود ایمان پر نہ لا سکے اسی آیت کے آخر میں الا باذن ربھم کا لفظ دیا تاکہ یہ شبہ ختم ہو جائے کہ کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکالنا آپ کا کام ہے، اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ خواہ وہ نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو راہ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔
اللہ کے راستہ سے روکنے کا مطلب: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بد ظن کرنے کے لئے میں میکھ نکالتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور کتابوں پر عمل کر کے دکھانے کے لئے رسول بھیجے تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو اس کی قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دشوار نہ ہو لیکن اس کے باوجود ہدایت ملے گی اس کو جس کو اللہ چاہے گا۔
جس طرح ہم نے اے محمد آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں اسی طرح ہم نے موسیٰؑ کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں کفر و جہل کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی سے روشناس کرائیں۔
ان فی ذلک۔۔۔۔ شکور، صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اس لئے یہاں صرف ان ہی دو کا ذکر کیا گیا ہے یہاں دونوں مبالغہ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں ’’صبار‘‘ بہت صبر کرنے والا ’’شکور‘‘ بہت شکر کرنے والا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو شکر ادا کرنے کی توفیق مل گئی وہ کبھی نعمتوں اور برکتوں سے محروم نہ ہو گا، اور اللہ نے فرمایا اگر تم میری نعمتوں کی ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔

 

آیت نمبر ۷ تا ۱۲

 

ترجمہ: اور جب تمہارے رب نے آگاہ کر دیا کہ اگر تم توحید اور اطاعت کے ذریعہ میری نعمتوں کا شکر کرو گے تو میں بیشک تم کو مزید دوں گا، اور اگر تم کفر و معصیت کے ذریعہ (میر) نعمتوں کی ناشکری کرو گے تو میں تم کو ضرور عذاب دوں گا، لاعذبنکم، (جواب محذوف پر) ان عذابی لشدید دلالت کر رہا ہے، یقیناً میرا عذاب نہایت سکٹ ہے، اور موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تم اور روئے زمین کے تمام باشندے ناشکری کریں تو بھی اللہ اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے اور اپنی صنعت میں قابل ستائش ہے کیا تمہارے پاس استفہام تقریری ہے تم سے پہلے لوگوں کی (یعنی) قوم نوح کی اور عاد کی اور قوم ہود اور ثمود کی اور قوم صالح کی اور ان لوگوں کی جو ان کے بعد ہوئے خبریں آئیں جن کی تعداد ان کی کثرت کی وجہ سے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کے پاس ان کے رسول اپنی صداقت پر واضح دلائل لے کر آئے تو ان امتوں نے اپنے ہاتھ شدت غضب کی وجہ سے کاٹنے کے لئے اپنے منہ میں دبائے اور کہہ دیا کہ بزعم خود جس چیز کو تم دے کر بھیجے گئے ہو اس کے ہم منکر ہیں اور ہم تو یقیناً اس کے بارے میں جس کی تم دعوت دے رہے ہو الجھن میں ڈالنے والے شک میں ہیں، ان کے رسولوں نے ان سے کہا کیا تم حق تعالیٰ کے بارے میں شک میں ہو استفہام انکاری ہے، توحید پر واضح دلائل موجود ہونے کی وجہ سے اس کی توحید میں کسی شک (کی گنجائش) نہیں ہے وہ آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے وہ تم کو اپنی اطاعت کی طرف بلا رہا ہے تاکہ تم سے تمہارے گناہوں کو معاف کرے من زائدہ ہے یہ امر واقعہ ہے کہ اسلام کی وجہ سے اسلام سے پہلے کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں یا (من تبعیضیہ) ہے حقوق العباد کو خارج کرنے کے لئے اور یہ کہ ایک مقررہ وقت تک کے لئے تمہیں مہلت عطا فرمائے یعنی موت تک ان لوگوں نے جواب دیا تم تو ہمارے جیسے انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں بتوں سے روک دو جن کی بندگی ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں اچھا تو ہمارے سامنے اپنی صداقت پر کوئی کھلی دلیل پیش کرو ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا یہ تو سچ ہے کہ ہم تمہارے ہی جیسے انسان ہیں جیسا کہ تم نے کہا لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نبوت عطا کر کے اپنا فضل کرتا ہے اور ہماری مجال نہیں کہ ہم اللہ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ لا کر تم کو دکھا سکیں اس لئے کہ ہم تربیت یافتہ بندے ہیں، اور ایمان والوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے، آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں یعنی ہمارے لئے اس سے کوئی مانع نہیں ہے جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں دکھائیں واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ضرور اس پر صبر کریں گے (یعنی) تمہاری ایذا رسانی پر، توکل کرنے والوں کے لئے یہی لائق ہے کہ اللہ پر توکل کریں۔

تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد

قولہ: اعلم، تاذن کی تفسیر اعلم سے کر کے اشارہ کر دیا کہ تأذن باب تفعل اپنی خاصیت کے اعتبار سے تکلف پر دلالت کرتا ہے جو شان باری تعالیٰ کے مناسب نہیں ہے لہٰذا تأذن بمعنی اذن ہے۔
قولہ: لاعذبنکم یہ شرط کی جزاء ہے جو محذوف ہے، نہ کہ ان عذابی لشدید لہٰذا ان عذابی کے شرط پر عدم ترتب کا اعتراض ختم ہو گیا، اور حذف جواب پر ان عذابی لشدید دلالت کر رہا ہے۔
قولہ: ای الیھا، اس میں اشارہ ہے کہ فی بمعنی الی ہے، ایدیھم اور افواھم، دونوں کی ضمیریں کفار کی طرف راجع ہیں یعنی کفار نے اپنے ہاتھ شدید غصہ کی وجہ سے اپنے منہ میں دبائے اور یہ تفسیر عضوا علیکم الانامل من الغیظ کے مطابق ہے، اور بعض حضرات نے ثانی ھم کی ضمیر رسل کی طرف لوٹائی ہے، مطلب یہ بیان کیا ہے کہ امت کے لوگوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے منہ پر رکھ دئیے تاکہ حق بات نہ بول سکیں، یہ خلاف ظاہر ہے۔
قولہ: بزعمکم یہ اس سوال کا جواب ہے کہ بما ارسلتم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار ما جاء بہ الرسل کے قائل تھے حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں تو تمہارا رسول ہونا تسلیم نہیں مگر بقول شما بھی ہم تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
قولہ: لاشک فی توحیدہ ایک شبہ کا جواب ہے کہ شبہ یہ ہے کہ ہمزہ انکاری کا حق یہ ہے کہ شک (مظروف) پر داخل ہو نہ کر ظرف پر اور یہاں اللہ پر داخل ہے جو کہ ظرف ہے حاصل جواب یہ ہے کہ کلام شک میں نہیں ہے بلکہ مشکوک میں ہے فتدبر۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

اذ تأذن ربکم، تأذن، اعلم کے معنی میں ہے، بولا جاتا ہے تأذن بوعدہ لکم، ای اعلمکم بوعدہ لکم، اس نے اپنے وعدہ سے تمہیں آگاہ کیا، ان عذابی لشدید، سے معلوم ہوتا ہے کہ کفران نعمت اللہ کو سخت ناپسند ہے اسی وجہ سے اس نے ناشکری پر سخت عذاب کی وعید بیان کی ہے، آپﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ’’کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی‘‘۔ (صحیح مسلم)
مطلب یہ ہے کہ شکر گزاری میں خود بندہ ہی کا فائدہ ہے اور اگر ناشکری کرے گا تو اس میں اللہ کا کوئی نقصان نہیں ہے وہ تو بے نیاز ہے اگر سارا جہان ناشکرا ہو جائے تو اس کا کیا بگڑے گا؟
ایک حدیث قدسی: ایک حدیث قدسی میں آتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’یا عبادی! لو ان او لکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی! لو ان اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل منکم ما نقص ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی! لو أن اولکم واٰخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صعید واحد، فسالونی فاعطیت کل انسان مسألتہ ما نقص ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقص المخیط اذا ادخل فی البحر‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب البر)
ترجمہ: اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور روئے زمین کے تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سے سب زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہو گا، اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کے طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی، اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور انسان و جن سب ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہو گی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے۔ (فسبحانہ و تعالیٰ الغنی الحمید) ۔
فردوا ایدیھم فی افواھم، مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں:
(۱) انہوں نے ہاتھ اپنے منہ میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں۔
(۲) انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو۔
(۳) انہوں نے اپنا ہاتھ استہزاء اور تعجب کے طور پر اپنے منہ پر رکھ لئے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے
(۴) انہوں نے اپنا ہاتھ رسول کے منہ پر رکھ کر کہا خاموش رہو۔
(۵) بطور غیظ و غضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں پر رکھ لئے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے ’’عضوا علیکم الانامل من الغیظ‘‘ وہ غیظ و غضب کی وجہ سے تم پر اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں، اکثر مفسرین نے اس آخری معنی کو پسند کیا ہے ان میں طبری اور شوکانی بھی شامل ہیں۔
قالوا انا کفرنا۔۔۔۔ الیہ مریب یعنی جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم دعوت دے رہے ہو اس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی ایسا شک کہ جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے۔ (باقی آیات کی تفسیر واضح ہے)۔

آیت نمبر ۱۳ تا ۲۱

 

ترجمہ: اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تم کو یقیناً ملک بدر کر دیں گے الایہ کہ تم ہمارے مذہب میں داخل ہو جاؤ، تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کافروں ہی کو غارت کر دیں گے اور ان کے ہلاکت کے بعد تم کو ان کی زمین پر بسا دیں گے، یہ مدد اور وراثت ارضی اس کے لئے ہے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھے گا اور عذاب کی وعید کا ڈر رکھے گا اور رسولوں نے اپنی قوم کے مقابلہ میں اللہ سے مدد طلب کی اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں ہر سرکشی کرنے والا ضدی حق کا دشمن نامراد ہو گیا، اس کے سامنے جہنم ہے جس میں وہ داخل ہو گا جہاں وہ پیپ کا پانی پلایا جائے گا، اور وہ ایسا پانی ہے کہ جو جہنمیوں کے اندر سے نکلے گا جو پیپ اور خون کا آمیزہ ہو گا جس کو وہ مجبوراً پیئے گا (یعنی) اس کی تلخی کی وجہ سے تھوڑا تھوڑا کر کے پیئے گا اس کی قباحت اور کراہت کی وجہ سے اس کو نگل نہ سکے گا، اور اس کی ہر طرف سے موت آتی نظر آئے گی یعنی موت کے اسباب جو موت کے متقاضی ہوں گے مختلف اقسام کے عذابوں سے، مگر وہ مرے گا نہیں اور اس عذاب کے بعد ایک نہ ختم ہونے والا سخت عذاب ہو گا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والے لوگوں کے اعمال صالحہ مثلا صلہ رحمی اور صدقہ کی مثال ان سے منتفع نہ ہونے میں الذین کفروا مبتداء (مبدول منہ) اور اعمالھم بدل ہے اس راکھ کی سی ہے کہ جس پر آندھی کے دن تیز و تند ہوا چلی ہو (اور) اس کو اڑتا ہوا غبار کر دیا کہ اس کے اجر کے پانے پر قادر نہ ہوں گے (یعنی اپنے اعمال صالحہ کا اجر پانے پر قادر نہ ہو) اور مجرور (کرماد) مبتداء کی خبر ہے، جو بھی انہوں نے دنیا میں عمل (صالح) کیا کفار اسی پر یعنی اس کا اجر پانے پر اس کی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے قادر نہ ہوں گے یہی دور کی گمراہی ہلاکت ہے، اے مخاطب! کیا تو نے نہیں دیکھا استفہام تقریری ہے، کہ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو با مقصد پیدا کیا، بالحق، خلق کے متعلق ہے اگر وہ چاہے تو تم سب کو ختم کر دے اور تمہارے بجائے ایک نئی مخلوق پیدا کردے اور اللہ کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں ہے، اور پوری مخلوق (روز محشر) اللہ کے روبرو حاضر ہو گی اور تعبیر یہاں اور آئندہ صیغۂ ماضی کے ذریعہ یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے ہے اس وقت کمزور لوگ یعنی تابعین سربراہوں (یعنی) متبوعین سے کہیں گے ہم تو تمہارے تابعدار تھے تبعا، تابع کی جمع ہے تو کیا تم اللہ کے عذاب میں سے کچھ ہم سے دفع کر سکتے ہو پہلا من تبیین کے لئے ہے اور دوسرا تبعیض کے لئے ہے، مخدومین جواب دیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی تمہاری رہنمائی کرتے (یعنی) ہم تم کو ہدایت کی طرف دعوت دیتے، اب ہم خواہ وائے ویلا کریں یا صبر کریں دونوں ہمارے لئے برابر ہیں (اب) ہمارے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے من زائدہ ہے۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

قولہ: لتصیرن مفسر علام نے لتعودن کی تفسیر لتصیرن سے کر کے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔
سوال: سوال یہ ہے کہ عود کے لئے پہلے اس حالت پر ہونا ضروری ہے جس سے عود کرے اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاءؑ پہلے اپنی امت کے دین پر ہوتے تھے بعد میں اس سے نکل کر دین حق پر آتے تھے حالانکہ امر واقعہ ایسا نہیں ہے نبی ابتداء ہی سے دین حق پر ہوتے ہیں؟
جواب: جواب کا حاصل یہ ہے تعودن، تصیرن کے معنی میں ہے، یعنی تم ہمارے دین پر ہو جاؤ۔
قولہ: بعدھلاکھم، اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ: یدخلھا، یدخلھا محذوف مان کر اشارہ کر دیا کہ یسقی کا عطف محذوف پر ہے تاکہ عطف فعل علی الاسم لازم نہ آئے۔
قولہ: فیھا۔ سوال: (فیھا) مقدر ماننے کا کیا فائدہ ہے؟
جواب: جب معطوف جملہ واقع ہوتا ہے تو اس میں عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو معطوف علیہ کی طرف راجع ہوتا ہے۔
قولہ: یتجرعہ، ای یتکلف۔
قولہ: یزدردہ، الازدراد خوشگواری اور سہولت سے کسی چیز کا حلق میں اتارنا۔
قولہ: اسبابہ المقتضیۃ للموت، اس میں اشارہ ہے کہ جہنم میں موت نہیں ہو گی اس لئے کہ موت کے لئے تو ایک ہی سبب کافی ہوتا ہے چہ جائے کہ بہت سے اسباب موجود ہوں اور پھر بھی موت نہ آئے، یہ موت نہ آنے کی دلیل ہے۔
قولہ: ویبدل منہ یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال: مبتداء اور خبر کے درمیان (اعمالھم) کا فصل بالاجنبی لازم آ رہا ہے جو درست نہیں ہے۔
جواب: یہ فصل اجنبی نہیں ہے بلکہ وہ مبتداء سے بدل ہے اور بدل مبدل منہ سے اجنبی نہیں ہوتا۔
قولہ: فی یوم عاصف، عاصف کی یوم کی طرف اسناد مجاز کے طور پر ہے اور یوم عاصف، نھارہ صائم ولیلۃ قائم کے قبیل سے ہے۔
قولہ: من الاولی للتبیین یعنی من اپنے بعد واقع ہونے والے لفظ شئ کے بیان کے لئے ہے بیان جو کہ عذاب اللہ ہے مبین یعنی شئ پر مقدم ہے تقدیر عبارت یہ ہے، ’’ھل انتم مغنون عنا بعض الشئ ھو بعض عذاب اللہ‘‘۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

قال الذین۔۔۔ الخ حضرات انبیاء کے وعظ و تذکیر سے بجائے اس کے کہ منکرین کے دل کچھ نرم پڑتے اور ٹھنڈے دل سے اپنے رسول کی بتائی باتوں پر غور کرتے الٹے انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم ہی ہمارے دھرم میں آ جاؤ ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انبیاءؑ منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے گمراہ لوگوں کے دین دھرم میں شامل ہوا کرتے تھے اور وحی ہدایت آنے کے بعد دین باطل کو ترک کر کے دین حق کی طرف آتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرف خاموش زندگی بسر کرتے تھے کسی دین کی تبلیغ اور رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے اس لئے ان کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ بھی ہماری ملت میں ہیں، اور کار نبوت شروع کرنے کے بعد ان پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ملت آبائی سے نکل گئے ہیں۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشرکوں کی ملت میں شامل نہیں ہوئے تھے کہ ان پر اس سے خروج کا الزام عائد کیا جائے۔
ولنسکننکم الارض الخ اسی وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی مدد فرمائی، اگرچہ آپﷺ کو بادل ناخواستہ مکہ سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں کے بعد ہی آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سرجھکائے کھڑے آپ کے اشارۂ ابرو کے منتظر تھے، لیکن آپ نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاشریب علیکم الیوم کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔
مثل الذین۔۔۔ الخ یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ بے وفائی، خودمختاری نافرمانی اور سرکشی کی روش اختیار کی اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا کہ جس کی دعوت انبیاء کرام لے کر آئے تھے، ایسے لوگوں کی زندگی بھر کا سرمایۂ عمل ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہو گا جیسا کہ راکھ کا ایک ڈھیر تھا، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا دیا کہ اس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہو کر رہ گیا، حتی کہ ان کی عبادتیں اور ان کی ظاہری نیکیاں اور ان کے خیراتی اور رفاہی کارنامے بھی جن پر ان کو فخر و ناز تھا سب کے سب آخر کار راکھ کا ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یوم قیامت کی آندھی صاف کر دے گی اور عالم آخرت میں اس کا ایک ذرہ بھی ان کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ وزن پا سکیں۔
دوزخیوں کی آپس میں گفتگو: جہنمی آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہ و زاری کریں چنانچہ وہ رو رو کر خوب آہ و زاری کریں گے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، پھر کہیں گے جنتیوں کو جنت ان کے صبر کی وجہ سے ملی چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں پھر وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، تو اس وقت کہیں گے کہ ہم صبر کریں یا جزع و فزع اب رہائی کی کوئی صورت نہیں یہ ان کی گفتگو جہنم کے اندر ہو گی۔

 

آیت نمبر ۲۲ تا ۲۷

 

ترجمہ: اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور اہل جنت، جنت میں، دوزخی دوزخ میں داخل کر دئیے جائیں گے اور دوزخی شیطان کے پاس جمع ہوں گے تو ابلیس ان سے کہے گا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بعث اور جزاء کے جتنے وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا کہ (بعث وغیرہ) کچھ ہونے والا نہیں ہے میں نے اس کو پورا نہیں کیا (یعنی اس کا جھوٹ ہونا ظاہر ہو گیا) اور میری تم پر کوئی زور زبردستی تو تھی نہیں کہ جس کے ذریعہ میں تم کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتا البتہ اتنی بات ضرورت ہے کہ میں نے تم کو دعوت دی تو تم نے میری بات پر لبیک کہہ دیا، لہٰذا اب تم میری دعوت پر لبیک کہنے پر مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں نہ تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری (مصرخی) یاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے اس سے پہلے دنیا میں جو تم نے مجھے خدا کا شریک ٹھہرا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے ظالموں کے لئے دردناک سزا یقینی ہے (بخلاف) ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کو ایسے باغوں میں داخل کیا جائے گا کہ جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں وہ اپنے رب کی اجازت سے ہمیشہ رہیں گے اس میں ان کے لئے اللہ اور فرشتوں کی طرف سے اور خود آپس میں بھی سلامتی کی مبارک بادی ہو گی خالدین (جنت) سے حال مقدرہ ہے، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ یعنی لا الٰہ الا اللہ کو اور کلمۃ طیبۃ۔ مثلا سے بدل ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ اچھی نسل کا درخت ہو اور وہ کھجور کا درخت ہے، کہ اس کی جڑیں زمین میں (گہری) جمی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ہر آن وہ اپنے رب کے حکم و ارادہ سے پھل دے رہا ہے کلمۂ ایمان کی مثال ایسی ہی ہے کہ قلب مومن میں جما ہوا ہے اور اس کا عمل آسمان کی طرف چڑھتا ہے اور مومن اپنے عمل کی برکت اور ثواب ہر آن پاتا ہے، یہ مثالیں اللہ تعالیٰ اس لئے دیتا ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت (سبق) حاصل کریں اور ایمان لے آئیں، اور کلمہ خبیثہ کی مثال کہ وہ کلمۂ کفر ہے برے نسل کے درخت کی سی ہے اور وہ حنظل کا درخت ہے کہ اس کو سطح زمین سے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس کے لئے کوئی استحکام نہیں ہے کلمہ کفر ایسا ہی ہے کہ نہ اس کے لئے استحکام ہے اور نہ اس کی شاخیں ہیں اور نہ برکت ایمان والوں کے لئے اللہ تعالیٰ ایک قول ثابت کی بنیاد پر کہ وہ کلمۂ توحید ہے دنیا اور آخرت کی (یعنی) قبر کی زندگی میں ثبات عطا کرتا ہے جبکہ دو فرشتے ان کے رب اور ان کے دین اور ان کے نبی کے بارے میں سوال کریں گے تو وہ درست جواب دیں گے، جیسا کہ شیخین کی حدیث میں ہے، اور ظالموں کافروں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ درست جواب تک رسائی نہیں پاتے بلکہ وہ کہتے ہیں (ھاء ھاء لاندری) ہائے افسوس کہ ہم نہیں جانتے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، اور اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

قولہ: وعد الحق، ای وعدا من حقہ ان ینجز، یعنی ایسا وعدہ کہ جس کا حق یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جائے اور اضافت موصوف الی
الصفت بھی قرار دیا جا سکتا ہے الی الوعد الحق۔
قولہ: لکن اس میں اشارہ ہے کہ الا ان دعوتکم، دعوتکم، مستثنیٰ منقطع ہے، اس لئے کہ دعاء سلطان کی جنس سے نہیں ہے۔
قولہ: بالفتح یعنی مصرخی میں یاء پر فتحہ اور کسرہ دونوں قراءتیں ہیں فتحہ تخفیف کے لئے ہے اور کسرہ اصل کے مطابق، مصرخ اسم فاعل مذکر، فریاد رسی کرنے والا (افعال) اصراخ، اضداد میں سے ہے اس کے معنی فریاد رسی کرنے والا، اور فریاد خواہ یعنی داد رس اور داد خواہ۔
قولہ: حال مقدرۃ یعنی مقدرین خلودھم، خالدین، جنّٰت سے حال ہے جنت کا وجود مقدم ہے اور دخول جنت بعد میں ہو گا معلوم ہوا کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک نہیں ہے حالانکہ ایک ہونا ضروری ہے، جواب یہ ہے کہ حال مقدرہ ہے ای مقدرین خلودھم۔
قولہ: تعطی اس میں اشارہ ہے کہ تؤتی ایتاء سے ہے نہ اتیان ہے۔
قولہ: اجتثت اس کو اکھاڑا گیا ماضی مجہول واحد مؤنث غائب، مصدر اجتثاث (افتعال)

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

اللہ کا وعدہ: وقال۔۔۔۔ (الآیۃ) یہاں فیصلے سے مراد یہ ہے کہ مطیع جنت میں اور نافرمان دوزخ میں پہنچ چکیں گے، اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ ایک روز جزاء اور سزا کا آنے والا ہے، اہل ایمان کو اس روز نجات نصیب ہو گی اور اہل کفر کو ہلاکت۔
شیطان کا وعدہ: شیطان کا وعدہ یہ ہے کہ کفر پر ایمان کو ترجیح نہیں، جنت اور دوزخ سب ڈھکو سلے ہیں، آخرت میں جزا سزا کسی کو نہیں ہو گی۔ دوزخ میں جب دوزخی سارا الزام ابلیس پر ڈالیں گے تو شیطان کہے گا کہ تمہارے گللے شکوے اس حد تک تو صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا، اس سے مجھے ہرگز انکار نہیں، اللہ کے وعدے اور اس کی وعید میں تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی ہر بات اور ہر وعدہ صد فی صد صحیح نکلا، اور میں خود یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دنیا میں دلائے اور خوشنما باغ تم کو دکھائے اور پر فریب توقعات کے جال میں میں نے تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت کچھ ہے ہی نہیں، سب ڈھکوسلے ہیں اور اگر بالفرض ہوئی بھی تو فلاں حضرت کے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھر و نجات دلانے کا ذمہ ان کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا یا اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ کہلواتا رہا سب دھوکا اور فریب تھا۔
وما کان۔۔۔۔ الخ جہنم میں ابلیس جہنمیوں کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہے گا کہ میں کب تمہارا ہاتھ پکڑ کر زبردستی غلط راستے پر کھینچ کر لایا نہ میرا تم پر کوئی دباؤ تھا نہ زور و زبردستی، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ دعوت حق کے مقابلہ میں اپنی دعوت باطل تمہارے سامنے پیش کی سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف بلایا، باقی ماننے اور نہ ماننے کا اختیار تو آپ حضرات کو ہی حاصل تھا میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہیں تھی لہٰذا اس غلط انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالنے کے بجائے خود تمہیں اٹھانی چاہیے، اس لئے کہ اس انتخاب میں تمام تر قصور تمہارا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کیا اور دعوائے محض کے پیچھے لگے رہے جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں تھی لہٰذا نہ تم کو اس قہر و غضب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس عذاب سے مجھے نکلوا سکتے ہو، کہ جس میں میں مبتلا ہوں، اور مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں اگر تم مجھے یا کسی اور کو اللہ کا شریک سمجھتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی اس کی تدبیر وہی کرتا رہا بھلا اس کا شریک کوئی کیونکر ہو سکتا ہے؟
الم تر کیف۔۔۔۔ الخ اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے کہ جو گرمی سردی غرضیکہ ہر موسم میں پھل دیتا ہے، اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر وقت آسمان کی طرف جاتے رہتے ہیں، کلمہ طیبہ سے اسلام یا لا الہ الا اللہ اور شجرۂ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے۔ کلمۂ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرۂ خبیثہ سے مراد حنظل (اندرائن) کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں اوپر ہوتی ہیں اور ذرا سے اشارہ میں اکھڑ جاتی ہیں، یعنی کافر کے اعمال نیک بالکل بے حیثیت ہیں نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔

 

آیت نمبر ۲۸ تا ۳۴

 

ترجمہ: کیا آپ نے ان پر نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں یعنی ان کا شکر کو ناشکری سے بدل دیا اور وہ کفار قریش ہیں، اور اپنی قوم کو گمراہ کر کے ہلاکت کے گھر میں لا اتارا یعنی جہنم میں یہ عطف بیان ہے جس میں یہ سب داخل ہوں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے اور انہوں نے اللہ کے شریک ٹھہرا لئے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ دین اسلام سے بہکائیں یاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اپنی دنیا میں (چند دن) مزے اڑا لو، تمہاری جائے بازگشت تو آخر جہنم ہی ہے (اے نبی) میرے ان بندوں سے جو ایمان لائے ہیں کہہ دیجئے کہ نماز کی پابندی کریں، اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے ظاہر اور پوشیدہ طور پر خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے کہ جس میں نہ خریدو فروخت ہو گی نہ دوستی (نہ ان کے پاس کچھ ہو گا کہ جس کو وہ فدیہ میں دے سکیں) اور وہ دن قیامت کا ہو گا، اللہ وہ ذات ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور بادلوں سے پانی برسایا اس پانی کے ذریعہ تمہارے رزق کے لئے پھل پیدا کئے اور کشتیوں کو تابع کر دیا کہ دریا میں سواریوں اور بوجھ کو اللہ کی اجازت سے لے کر چلتی ہیں اور اسی نے دریا تمہارے اختیار میں کر دئیے اور سورج و چاند کو تمہارے لئے مسخر کر دیا (یعنی تمہارے کام میں لگا دیا) کہ اپنی منزلوں میں رواں دواں ہیں (ذرہ برابر) سستی نہیں کرتے اور رات کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو بھی تاکہ تم اس میں اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور جو چیز تم نے اس سے طلب کی اس میں سے تمہاری مصلحت کے مطابق عطا کی، اگر تم اللہ کے انعامات کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے یعنی تمہارے اندر ان کو شمار کرنے کی طاقت نہیں یقیناً کافر انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے یعنی اپنی رب کی نعمتوں کی ناشکری اور معصیت کر کے اپنے اوپر بڑا ہی ظلم کرنے والا ہے۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

قولہ: ای شکرھا، یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال: یہ ہے کہ بدلوا نعمۃ اللہ کفرا کے معنی ہیں کہ ان لوگوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل لیا، حالانکہ نعمت عین ہے اور کفر و صف ہے اور تبدیل عین بالوصف کے کوئی معنی نہیں ہیں۔
جواب: مضاف محذوف ہے مطلب یہ ہے کہ نعمت کے شکر کو ناشکری سے بدل دیا، یعنی شکر کرنے کے بجائے ناشکری کی۔
قولہ: لیضلوا۔ سوال: جعلوا للہ اندادا، کی غرض اضلال اور ضلال کو قرار دیا ہے حالانکہ شریک قرار دینے سے مشرکین کی غرض اضلال اور ضلال نہیں تھی۔
جواب: جواب کا حاصل یہ ہے کہ اضلال اور ضلال اگرچہ انداد کی غرض نہیں ہے مگر نتیجہ ضرور ہے لہٰذا نتیجہ کو غرض قرار دیا ہے
قولہ: قل لعبادی الذین آمنوا یقیموا الصلوٰۃ الخ۔
سوال: یقیموا الصلوۃ الخ کا مقولہ واقع ہونا درست نہیں ہے اس لئے کہ اقامت صلوۃ مخاطب کا عمل ہے نہ کہ قائل کا مقولہ، حالانکہ مقولہ کے لئے قائل کا ہی مقولہ ہونا ضروری ہے۔
جواب: قل کا مقولہ محذوف ہے اور جواب امر جو کہ یقیموا الصلوٰۃ ہے حذف پر دال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے قل لعبادی الذین آمنوا أقیموا وأنفقوا، لیقیموا الصلوٰۃ وینفقوا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ امر مقولہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے قل لھم لیقیموا الخ قُلْ کی دلالت کی وجہ سے لام کو حذف کر دیا گیا ہے یقیموا ہو گیا اور اگر ابتداء حذف کے ساتھ یقیموا کو مقولہ قرار دے دیا جائے تو درست نہ ہو گا۔
قولہ: سرا وعلانیۃ دونوں أنفقوا امر کی ضمیر سے حال واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں، ای ینفقون مسرین ومعلفین۔
قولہ: السفن، اسد کے وزن پر جمع ہے لہٰذا تجری فعل کا مؤنث لانا درست ہے۔
قولہ: دائبین، ایک دستور پر چلنے والے یہ دائبٌ کا تثنیہ ہے، بمعنی حال، عادت، رسم، دستور، (ف) دأب یدأب، دأبا لگا تار کسی کام میں لگنا۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

الم تر۔۔۔۔ کفرا، یہ ذکر سرداران کفر اور پیشوایان ضلالت کا ہو رہا ہے، اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کر دیا اگرچہ یہ آیت شان نزول کے اعتبار سے خاص ہے مگر اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین اور لوگوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، سو جس نے اس نعمت کی قدر کی اسے قبول کیا تو اس نے اس کا شکر ادا کیا اور وہ جنتی ہو گیا، اور جس نے اسے رد کر دیا اور کفر اختیار کئے رکھا وہ مستحق دوزخ ہوا۔
نعمۃ کا لفظ اگرچہ مفرد استعمال ہوا ہے مگر مراد اس سے جنس کے طور پر عام ہے اس سے دنیا کی تمام نعمتیں جو محسوس و مشاہد ہیں جن کا تعلق انسان کے ظاہری منافع سے ہے مراد ہو سکتی ہیں اور معنوی و روحانی نعمتیں بھی جن کا تعلق انسان کے رشد و ہدایت کے لئے حق تعالیٰ کی طرف سے انبیاء اور آسمانی کتابوں اور نشانیوں کی شکل میں نازل ہوتی ہیں مراد ہو سکتی ہیں، اور دونوں بھی۔ دونوں قسم کی نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ انسان اللہ کی عظمت اور قدرت کو پہچانتا اس کی نعمتوں کا شکر گذار ہوتا اس کی نافرمانبرداری اختیار کرتا مگر کفار و مشرکین نے نعمتوں کا مقابلہ شکر کے بجائے کفران نعمت سے اور اس کے احسانات کا مقابلہ سرکشی اور نافرمانی سے کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت و بربادی کے مقام میں ڈال دیا اور خود بھی ہلاک ہوئے۔
قل تمتعوا، تمتعوا کے معنی کسی چیز سے چند روزہ عارضی فائدہ حاصل کرنے کے ہیں، اس آیت میں مشرکین کو بتلا دیا گیا ہے کہ چند روز دنیا میں عیش کر لو اور دنیا کی نعمتوں سے چند روز فائدہ اٹھالو مگر انجام کار تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔
قل لعبادی، سابقہ آیت میں نافرمان بندوں، کفار و مشرکین کی مذمت اور ان کے انجام بد کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں اپنے فرمانبردار اور شکر گذار مومن بندوں کا ذکر ہے اور ان کو ادائے شکر کے طریقوں کی ہدایت ہے جس میں سب سے پہلی ہدایت اقامت صلوۃ کی ہے اقامت صلوۃ کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر تعدیل ارکان کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، صلہ رحمی کی جائے، ضرورت مندوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے مالی فرائض ادا کئے جائیں۔
لابیع فیہ۔۔۔ خلۃ کی جمع ہے جس کے معنی بے غرض مخلصانہ دوستی کے ہیں، نیز اس لفظ کو باب مفاعلہ کا مصدر بھی کہہ سکتے ہیں جیسے، قتال، دفاع وغیرہ اس صورت میں اس کے معنی دو شخصوں کے درمیان مخلصانہ دوستی کے ہوں گے، یہ سب نیکیاں دنیا ہی میں موت سے پہلے پہلے کر لینی چاہئیں، اس کے بعد قیامت کا دن ایسا ہو گا کہ جہاں نہ خریدو فروخت ممکن ہو گی اور نہ ہی خود غرضی کی دوستی کسی کے کام آئے گی۔
اللہ الذی۔۔۔ الخ اس آیت میں آخر رکوع تک اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑی بڑی نعمتوں کی یاد دہانی کرا کے انسان کو اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت و ترغیب دی ہے، غرضیکہ اللہ کی نعمتیں ان گنت اور بیشمار ہیں انہیں کوئی حیطۂ شمار میں نہیں لا سکتا چہ جائے کہ ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کر سکے، ایک اثر میں حضرت داؤدؑ کا قول ذکر کیا گیا ہے، انہوں نے کہا ’’اے رب میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں؟ جبکہ شکر بجائے خود تیری طرف سے میرے اوپر ایک نعمت ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کر دیا جبکہ تو نے یہ اعتراف کر لیا کہ اے اللہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ (ابن کثیر)

 

آیت نمبر ۳۵ تا ۴۱

 

ترجمہ: اور اس وقت کا ذکر کرو کہ جب ابراہیمؑ نے دعاء کی کہ اے میرے پروردگار تو اس شہر مکہ کو امن والا بنا دے اور بلا شبہ اللہ نے ان کی دعاء قبول فرما لی اور اس کا محترم بنا دیا ، کہ وہاں نہ کسی انسان کا خون بہایا جاتا ہے اور نہ وہاں کسی پر ظلم کیا جاتا ہے اور نہ اس کے جانور کا شکار کیا جاتا ہے اور نہ اس کی ہری گھاس اکھاڑی جاتی ہے، اور تو (اے میرے پروردگار) مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ ہم بت پرستی کریں دور رکھ، اے میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سے انسانوں کو ان کے ان کی بندگی کرنے کی وجہ سے گمراہ کر دیا، پس جس نے توحید کے معاملے میں میری اتباع کی تو وہ میرا یعنی میرے اہل ملت میں ہے، اور جس نے میری نافرمانی کی تو آپ بہت ہی معاف کرنے والے اور نہایت رحم کرنے والے ہیں (حضرت ابراہیمؑ کی) یہ دعا اس علم سے پہلے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک معاف نہ فرمائیں گے، اے ہمارے پروردگار، میں نے اپنی بعض اولاد کو کہ وہ اسماعیل ہیں مع اس کی والدہ ہاجرہ کے بے آب وگیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس کہ وہ طوفان (نوح) سے پہلے گھر تھا بسا دیا ہے، اے ہمارے پروردگار یہ اس لئے کیا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو کچھ لوگوں کے دلوں کو (اس گھر کی طرف) مائل و مشتاق کر دے، حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا اگر حضرت ابراہیمؑ افئدۃ الناس کہتے تو اس کی طرف فارس اور روم اور تمام لوگ مائل ہو جاتے، اور تو انھیں پھلوں (ہر قسم کی پیداوار) کی روزی عطا فرماتا کہ وہ تیرا شکر ادا کریں اور خطہ طائف کو منتقل کر کے یہ دعاء قبول کر لی گئی، اے ہمارے پروردگار تو بخوبی جانتا ہے جسے ہم چھپائیں یا ظاہر کریں اور اللہ پر زمین اور آسمان کی کوئی شئ پوشیدہ نہیں من زائدہ ہے، مذکورہ کلام میں احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ابراہیمؑ کا کلام ہو، اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اس بڑھاپے میں اسماعیل بیٹا عطا کیا اسماعیل کی پیدائش اس وقت آئی جبکہ ابراہیمؑ کی عمر ۹۹ سال تھی، اور اسحٰق عطا کیا (اسحٰق) کی پیدائش اس وقت ہوئی جبکہ ابراہیمؑ کی عمر ۱۱۲ سال تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا رب دعا کا سننے والا ہے اے میرے پروردگار تو مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد میں بھی ایسے لوگ پیدا فرما کہ جو نماز قائم کریں، اور لفظ من استعمال فرمایا اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو بتلا دیا کہ ان میں کچھ کافر بھی ہوں گے، اے ہمارے پروردگار تو مذکورہ دعاء کو قبول فرما، اے ہمارے پروردگار تو مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور دیگر مومنوں کو بھی جس دن حساب ہونے لگے اور والدین کے لئے یہ دعاء اللہ سے ان کی عداوت ظاہر ہونے سے پہلے کی تھی اور کہا گیا ہے کہ ان کی والدہ ایمان لے آئی تھیں اور ایک قراءت میں والدی اور ولدی افراد کے ساتھ ہے۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

قولہ: سورة بقرہ میں بلدا نکرہ استعمال ہوا ہے اور یہاں البلد معرفہ اس میں کیا حکمت ہے؟
جواب: سوۂ بقرہ میں تعمیر بلد سے پہلے دعاء فرمائی کہ یا اللہ تویہاں ایک شہر تعمیر فرما دے اور یہاں جو دعاء ہے وہ تعمیر بلد ہے بعد اس کے مامون ہونے کی ہے۔
قولہ: ذا امن۔ سوال: آمنا کی تفسیر ذا امن سے کرنے میں کیا مصلحت ہے؟
جواب: یہ ہے کہ آمن نسبت کا صیغہ ہے کہ اسم فاعل کا، جیسا کہ تامر تمر بیچنے والا، آمن کے معنی ہیں امن والا، نہ کہ امن دینے والا، اس لئے کہ آمن اسم فاعل بمعنی امن دینے والا درست نہیں ہے اس لئے کہ بلد غیر ذی روح اور غیر ذوی العقول میں سے ہے لہٰذا اس میں امن دینے کی صلاحیت نہیں ہے اور نہ امن کی نسبت بلد کی طرف مناسب اس لئے کہ امن دینا درحقیقت اللہ کا کام ہے۔
قولہ: یختلی، یہ اختلاء (افتعال) سے ہے معنی سبز گھاس وغیرہ اکھاڑنا۔
قولہ: اجنبنی (ن) امر واحد مذکر حاضر اصل میں اجنب ہے اس میں نون و قایہ یاء متکلم کی ہے تو مجھے بچا، تو مجھ کو دور رکھ۔
قولہ: عن أن نعبد الاصنام، لفظ عن کا اضافہ کر کے بتا دیا کہ ان نعبد میں ان مصدریہ ہے نہ کہ تفسیر یہ اس لئے کہ أن تفسیر کے لئے ماقبل میں لفظ قول یا اس کے ہم معنی ہونا ضروری ہے جو یہاں نہیں ہے۔
قولہ: اضللن کثیرا، اضلال کی اسناد بتوں کی طرف مجازی ہے یہ اسناد الشئ الی سببہ کے قبیل سے ہے چونکہ یہ بت لوگوں کے گمراہ ہونے کے سبب ہیں اس لئے اضلال کی نسبت انہی کی طرف کر دی۔
قولہ: الذی کان قبل الطوفان، یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ عند بیتک المحرم فرمانا کیسے درست ہے جبکہ وادی غیر ذی ذرع میں کوئی بیت تھا ہی نہیں۔
جواب: جواب کا حاصل یہ ہے بیت کہنا یا تو ما کان کے اعتبار سے ہے یا مایکون کے اعتبار سے، یعنی طوفان نوحؑ سے پہلے وہاں بیت تھا اور آئندہ بھی موجود ہو گا۔
قولہ: تحن، ای تشتاق و تمیل۔ قولہ: افئدۃ الناس یعنی اگر بغیر من تبعیضیہ کے کہتے تو ہر انسان کی رغبت ہوتی۔
قولہ: اسمعٰیل، اسحٰق، اسمعیل کا نام اسماعیل اس لئے ہوا کہ حضرت ابراہیمؑ جب اللہ تعالیٰ سے اولاد کے لئے دعاء فرماتے تھے تو فرماتے تھے، اسمع یا ایل، اسمع امر بمعنی سن اور ایل عبرانی میں اللہ کو کہتے ہیں، اب اسمعٰیل کا ترجمہ ہوا اے خدا تو سن! اور جب اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کی دعاء سن لی اور فرزند عطا کر دیا تو اس کا نام اسمعٰیل رکھ دیا، اور اسحٰق کو عبرانی میں اضحاک کہتے ہیں۔
قولہ: اجعل، اس میں اشارہ ہے کہ ومن ذریتی کا عطف اجعلنی کی ضمیر منصوب پر ہے۔
قولہ: من یقیمھا یہ اشارہ ہے کہ اجعلنی کا مفعول ثانی محذوف ہے۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

ربط آیات: واذ قال ابراہیم الخ، گذشتہ آیات میں عقیدۂ توحید کی معقولیت اور اہمیت کا اور شرک و جہالت کی مذمت کا بیان تھا، اب یہاں اسی مناسبت سے ابراہیمؑ کا قصہ ذکر فرمایا، اس قصہ کے ضمن میں اہل مکہ کو یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ اے اہل مکہ! تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے ہو اور تمہارا رشتۂ نسب حضرت خلیل اللہ سے ملتا ہے، مگر ذرا غور تو کرو کہ تمہارے جدامجد کا عقیدہ اور عمل کیا تھا؟ توحید کے معاملہ میں زمرۂ انبیاءؑ میں سب سے زیادہ کامیاب جہاد حضرت خلیل اللہ کا جہاد تھا، اسی لئے ملت ابراہیمی کو دین حنیف کا نام دیا جاتا ہے تاکہ اہل مکہ تقلید آبائی کے خوگر شاید اپنے جدامد کے عقیدہ و عمل پر نظر کر کے کفر و شرک سے باز آ جائیں، اسی مصلحت سے ابراہیمؑ کا قصہ سنایا گیا ہے
دعاء ابراہیمی کی تاثیر: وارزقھم۔۔۔۔۔ یشکرون، دعاء ابراہیمی کی تاثیر کس قدر عیاں ہے کہ مکہ جیسی بے آب وگیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں اور حج کے موقع پر بھی جبکہ لاکھوں افراد کا اضافی اجتماع ہوتا ہے پھلوں کی فراوانی میں کمی نہیں آتی، نہ صرف پھل بلکہ دنیا بھر کی مصنوعات مکہ میں بآسانی دستیاب ہوتی ہے۔
رب اجعلنی۔۔۔ ذریتی، اس دعاء میں اپنے ساتھ اپنی اولاد کو بھی شریک فرمایا اور اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی نماز کی پابندی کی دعاء کی، اور اپنی مغفرت اور اپنے والدین کے لئے بھی مغفرت کی دعاء فرمائی حالانکہ والد یعنی آذر کا کافر ہونا قرآن میں مذکور ہے ہو سکتا ہے کہ یہ ممانعت سے پہلے کی دعاء ہو، اور جب آذر کا عدو اللہ ہونا معلوم ہو گیا تو دعاء ترک کر دی۔

 

آیت نمبر ۴۲ تا ۵۲

 

ترجمہ: مکہ کے کافر جو کچھ کرتے ہیں اس سے تم خدا کو ہرگز غافل نہ سمجھو، وہ تو ان کو عذاب سے اس دن تک کے لئے مہلت دئیے ہوئے ہیں کہ جس دن منظر کی ہولناکی کی وجہ سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، کہا جاتا ہے شخص بصر فلان، یعنی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جس کو وہ بند نہ کر سکا، حال یہ کہ وہ آسمان کی طرف اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے (داعی کی آواز کی طرف) تیزی سے دوڑے چلے جا رہے ہوں گے (ایک لمحہ کے لئے بھی) ان کی پلک نہ جھپکے گی اور ان کے قلوب ان کے خوف کی وجہ سے عقل سے خالی ہوں گے اور اے محمدﷺ آپ کافر لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آوے گا اور وہ قیامت کا دن ہو گا، اور ظالم کافر کہیں گے اے ہمارے پروردگار، تو ہمیں تھوڑے وقت کی مہلت دے بایں صورت کہ تو ہمیں دنیا کی طرف لوٹا دے تاکہ ہم تیری توحیدی دعوت قبول کر لیں اور تیرے رسولوں کی اتباع کریں تو ان سے جھڑکی کے طور پر کہا جائے گا، کیا تم اس سے پہلے دنیا میں قسم کھا کر نہیں کہا کرتے تھے کہ ہمارے لئے تو دنیا سے آخرت کی طرف ٹلنا ہی نہیں ہے حالانکہ تم دنیا میں ان کی بستیوں میں رہ چکے ہو کہ جنہوں نے امم سابقہ میں سے کفر کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور تمہارے لئے ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ عذاب کا کیسا معاملہ کیا تھا؟ پھر بھی تم باز نہیں آئے، اور ہم نے تمہارے (سمجھانے) کے لئے قرآن میں طرح طرح کی مثالیں بیان کیں مگر تم نے عبرت حاصل نہ کی، اور یہ لوگ نبیﷺ کے ساتھ اپنی چالیں چل رہے ہیں اس طریقہ پر کہ ان لوگوں نے آپ کے قتل کا یا قید کرنے کا یا وطن سے نکالنے کا ارادہ کیا اور اللہ کو ان کے مکر کا علم ہے یا اللہ کے پاس ان کی سزا ہے، اور ان کی چالیں اگرچہ کتنی ہی عظیم ہوں ایسی نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکیں، معنی یہ ہیں کہ ان کی چالیں قابل توجہ نہ تھیں اور وہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور پہاڑوں سے مراد حقیقۃ پہاڑ ہی ہیں، یا اسلام احکام ہیں جن کی ثبات وقرار میں پہاڑوں کے ساتھ تشبیہ دی اور ایک قراءت میں (لتزول) کے لام کے فتحہ اور فعل کو رفع کے ساتھ ہے اور ان مخففہ ہے اور مقصد ان کے مکر کے عظیم ہونے کو بیان کرنا ہے اور کہا گیا ہے کہ مکر سے مراد ان کا کفر ہے اور تکاد السمٰوات یتفطرن (الآیۃ) ثانی قراءت کے مناسب ہے، اور پہلی قراءت کے مناسب وہی ہے جو پڑھا گیا ہے، (یعنی) وما کان مکرھم الخ آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں سے نصرت کے بارے میں وعدہ خلافی کرے گا اللہ تعالیٰ غالب ہے اس کو کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی اور اپنے نافرمانی کرنے والے سے بدلہ لینے والا ہے (اور) اس دن کو یاد کرو کہ موجودہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور وہ قیامت کا دن ہو گا، تو لوگوں کو ایک صاف ستھری سفید زمین پر جمع کیا جائے گا، جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے، اور روایت کی مسلم نے ایک حدیث جس میں سوال کیا گیا رسولﷺ سے کہ (تبدیلی ارض) کے دن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا پل صراط پر، اور (سب لوگ) قبروں سے نکل کر خدائے واحد غالب کے روبرو حاضر ہوں گے اور اے محمد آپ اس دن مجرموں کافروں کو بیڑیوں میں یا طوقوں میں شیاطین کے ساتھ جکڑے ہوئے دیکھو گے حال یہ ہے کہ ان کا لباس گندھک (یا تارکول) کا ہو گا، اس لئے کہ گندھک آگ بھڑکانے والی بہت زیادہ ہوتی ہے اور آگ ان کے چہروں پر بھی چھائی ہوئی ہو گی تاکہ اللہ ہر شخص کو اس کے اعمال نیک و بد کا بدلہ دے، لیجزی، برزوا کے متعلق ہے بلا شبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے ولاا ہے اللہ تعالیٰ پوری مخلوق کا حساب دنیا کے دنوں کے اعتبار سے نصف دن میں لے گا اس مضمون کی حدیث کی وجہ سے یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے اطلاع نامہ ہے یعنی لوگوں کی تبلیغ کے لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ان کو آگاہ کر دیا جائے اور تاکہ لوگ ان دلائل کو جان لیں جو قرآن میں ہیں کہ اللہ ایک اکیلا معبود ہے اور تاکہ اہل عقل (و بصیرت) اس سے نصیحت حاصل کریں، (لیذکر) اصل میں یاء ذال میں ادغام کے ساتھ ہے۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

قولہ: تشخص (ف) مضارع واحد مؤنث غائب، مصدر شخوص، ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا، آنکھوں کا کھلا رہ جانا، آنکھوں کا چڑھ جانا۔
قولہ: مھطعین یہ مھطع اسم فاعل کی جمع ہے (افعال) اھطاع سرجھکانا تیزی سے دوڑنا مھطعین، اصحاب مضاف محذوف سے حال ہے تقدیرع عبارت یہ ہے، اصحاب الابصار مھطعین۔
قولہ: مقنعی، اقناع سے اسم فاعل اٹھائے ہوئے، (افعال) اصل میں مقنعین تھا، نون اضافت کی وجہ سے حذف ہو گیا، مادہ قنع ہے
قولہ: افئدتھم، افئدۃ، فؤاد کی جمع ہے بمعنی دل۔
قولہ: ھواء یہ اسم ہے بمعنی خالی، خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے دل کا خالی ہونا ہر بھلائی سے خالی، ہواء اس فضاء کو کہتے ہیں جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے، محاورہ میں ڈر پوک دل کی صفت واقع ہوتی ہے۔
قولہ: نجب یہ اخرنا امر کا جواب ہے۔
قولہ: یقال لھم، ماقبل سے ربط پیدا کرنے کے لئے اس کے محذوف ماننے کی ضرورت پیش آئی۔
قولہ: تبین، اس کا فاعل دلالت کلام کی وجہ سے مضمر ہے اور وہ حال ہے، تقدیر عبارت یہ ہے تبین لکم کیف فعلنا بھم؟
قولہ: ان ما، اس میں اشارہ ہے کہ ان نافیہ ہے اور لتزول میں لام تاکید نفی کے لئے ہے، وفی قراءت بفتح لام الاولی ورفع الاخیرۃ ای لتزول، اس صورت میں ان مخففہ عن الثقیلہ ہو گا، مطلب یہ ہو گا کہ ان کا مکر اتنا شدید تھا کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائے، (لتزول) کا لام، مخففہ اور نافیہ کے درمیان فارقہ ہے۔
خلاصہ: ثانی قراءت یعنی أن مخففہ کی صورت میں (لتزول) سے کفار کے مکر کو عظیم اور شدید ہونے کو بیان کرنا مقصود ہے، اور پہلی قراءت یعنی ان نافیہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ (لتنزول) سے ان کے مکر کے ضعف کو بیان کرنا مقصود ہے یعنی ان کا مکر خدائی تدبیر کے مقابلہ میں اتنا ضعیف اور کمزور ہے کہ وہ قابل توجہ بھی نہیں ہے اور نہ وہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتا ہے، دوسری قراءت کے اللہ تعالیٰ کا
قول تکاد السموات یتفطرن الخ مناسب ہے اور پہلی قراءت کے اللہ تعالیٰ کا قول: ’’ما کان مکرھم لتزول منہ الجبال‘‘ مناسب ہے۔
قولہ: قطران، قطران ایک سیال سیاہ غلیظ مادہ ہوتا ہے جس میں حدت ہوتی ہے، اگر اس کی خارشی اونٹوں کے مالش کر دی جائے تو خارش ختم ہو جاتی ہے یہ مادہ آگ بہت جلدی پکڑتا ہے اور بدبو دار ہوتا ہے، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ گندھک اور بعض نے تارکول کیا ہے۔
قولہ: متعلق بِبَرَزُوْا، یعنی لیجزی، برزوا کے متعلق ہے اور درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔
قولہ: انزل لتبلیغھم، ھذا بلاغ میں چونکہ وصف کا حمل ذات پر لازم آ رہا ہے اس لئے شارحؒ تعالیٰ نے مذکورہ عبارت مقدر مانی تاکہ حمل درست ہو جائے، یعنی یہ ہذا کی خبر نہیں ہے بلکہ خبر محذوف ہے خبر کی علت کے قائم مقام کر دیا ہے۔

تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد

سورة ابراہیمؑ کے اس آخری رکوع میں، خلاصہ کے طور پر انہی اہل مکہ کو پچھلی قوموں کی سرگذشت سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین ہے اور اب بھی ہوش میں نہ آنے کی صورت میں قیامت کے ہولناک عذابوں سے ڈرایا گیا ہے۔
ولا تحسبن۔۔۔ الظلمون، پہلی آیت میں رسول اللہﷺ اور ہر مظلوم کو تسلی اور ظالم کے لئے سخت عذاب کی دھمکی ہے کہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل دینے سے بے فکر نہ ہو جائیں اور یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے جرائم کی خبر نہیں اس لئے کوئی عذاب اور مصیبت ان پر نہ آئے گا، بلکہ اللہ کی نظر سے ان کا کوئی عمل مخفی نہیں مگر اس نے اپنی رحمت اور حکمت کے تقاضے سے ڈھیل دے رکھی ہے۔
تشخص۔۔ الابصار، یعنی قیامت کا ہولناک نظارہ ان کے سامنے ہو گا اور ٹکٹکی لگائے اسے دیکھ رہے ہوں گے اس طرح کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں نہ پلک جھپکے گی اور نہ نظر ہٹے گی۔
اولم تکونوا۔۔۔ من زوال، یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ نہ کوئی حساب کتاب ہے اور نہ دوزخ و جنت اور نہ کسی کو دوبارہ زندہ ہونا ہے، ان کی عبرت کے لئے گذشتہ قوموں کے حالات و واقعات بیان کر دئیے جن کے گھروں میں اب تم چل پھر رہے ہو اور ان کے کھنڈر بھی تمہیں دعوت غور و فکر دے رہے ہیں، اگر تم ان سے عبرت نہ پکڑو اور ان کے انجام سے بچنے کی فکر نہ کرو تو تمہاری مرضی، پھر تم بھی اس انجام کے لئے تیار رہو، حالانکہ تم دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانین الٰہی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کے لئے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے، مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کرنے سے باز نہ آئے، اور یہی سمجھتے رہے کہ ہماری چالیں ضرور کامیاب ہوں گے۔
وقد مکروا مکرھم الخ اس آیت میں مخالفانہ تدبیروں کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی ان لوگوں نے دین حق کو مٹانے اور مسلمانوں کو ستانے کے لئے بھرپور تدبیریں کیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مخفی اور ظاہر تدبیروں سے واقف ہے اللہ ان کے نا کام بنا دینے پر قادر ہے اگرچہ ان کی تدابیر اتنی عظیم و شدید تھیں کہ ان کے مقابلہ پر پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سامنے ساری تدبیریں گردوغبار کی طرف ہباء منثورا ہو گئیں، یہ مطلب ان مخففہ عن المثقلہ کی صورت میں ہو گا اور ان کو نافیہ قرار دے کر یہ معنی ہوں گے، اگرچہ انہوں نے بہت سی تدبیریں اور چالیں چلیں، لیکن ان کی تدبیروں اور چالوں سے یہ ممکن نہ تھا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں، اور پہاڑ سے مراد آپﷺ کا عزم و استقلال ہے۔
فلا تحسبن۔۔۔ وعدہ، اگرچہ اس میں روئے سخن آپﷺ کی طرف ہے مگر مراد مخالفین ہیں یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے جو وعدے فتح و نصرت اور کامیابی کے کیے ہیں وہ ان کے خلاف کرے گا اللہ بڑا زبردست ہے وہ ضرور دشمنوں سے انتقام لے گا اور اپنے پیغمبروں سے جو وعدے کئے ہیں ان کو ضرور پورا کرے گا۔
یوم تبدل الارض غیر الارض والسمٰوات (الآیۃ) اس آیت میں موجود زمین و آسمان کی تبدیلی کا ذکر ہے یہ تبدیلی ذات کے اعتبار سے بھی ہو سکتی ہے اور صفات کے اعتبار سے بھی اور دونوں طریقوں سے بھی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ارض و سماء کی تبدیلی کے وقت مخلوق پل صراط پر ہو گی، غرضیکہ موجودہ نظام طبعی درہم برہم کر دیا جائے گا اور نفخۂ اولی اور ثانیہ کی مدت کے درمیان زمین و آسمان کی موجودہ ہیئت بدل ڈالی جائے گی، اور ایک دوسرا نظام طبیعت دوسرے قوانین فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا پھر نفخۂ ثانیہ کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیق آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے ازسر نو زندہ کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں گے اسی کا نام حشر ہے، قرآنی اشارات اور حدیث کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہو گی، بلکہ ٹھیک اسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کئے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں۔
تم بحمد للہ
٭٭٭

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ دوم

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل 

 

حصہ سوم

 

ورڈ فائل 

ای پب فائل

کنڈل فائل