FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 ایک اور نئی جلد کا اضافہ

فہرست مضامین

تفسیر تیسیر القرآن

جلد سوم (کہف تا یٰسین)

مولانا عبد الرحمٰن کیلانی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

۳۶۔ سورۃ یٰسٓ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

۱۔   یٰس [۱، ۲]

[۱] فضائل سورۃ یس:۔ سورہ یٰسین میں قرآن مجید کی دعوت کو بڑے پر زور دلائل کے ساتھ اور نہایت موثر پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ بندہ مومن کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور عالم آخرت کا نقشہ سامنے آ جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی ذہن میں رکھا جائے اور جو لوگ ترجمہ نہیں جانتے وہ ساتھ ساتھ اردو ترجمہ پڑھتے جائیں تاکہ اس سورت کی برکات سے مستفید ہوا جائے۔ یہ جو عام طور پر جامع ترمذی نہیں جانتے وہ ساتھ ساتھ اردو ترجمہ پڑھتے جائیں تاکہ اس سورت کی برکات سے مستفید ہوا جائے۔ یہ جو عام طور پر ترمذی کی روایت مشہور ہے کہ سورہ یٰسین قرآن کا دل ہے جس نے سورۃ یٰسین پڑھی اس کے عوض دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ بیہقی کی روایت کے مطابق اپنے مرنے والوں پر سورۃ یٰسین پڑھا کرو جس نے جمعہ کے روز سورہ یٰسین پڑھی اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ یہ روایات ضعیف ہیں۔ یاد رہے کہ سورۃ یٰسین کی فضیلت میں جتنی احادیث ملتی ہیں ان میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے وہ سب کی سب ضعیف یا موضوع ہیں۔

[۲] اگرچہ یہ لفظ بھی دو حروف مقطعات کا مجموعہ ہے۔ تاہم اس کے پہلے لفظ یا سے جو حرف ندا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ندا اور منادیٰ سے مل کر ایک جملہ بن رہا ہے۔ اسی لئے اکثر مفسرین نے اس کا ترجمہ اے شخص، اے مرد یا اے انسان سے کیا ہے۔ اور اس سے مراد رسول اللہﷺ ہیں۔

۲۔   حکمت والے قرآن کی قسم [۳]!

 

[۳] قرآن کا نزول ہی آپ کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے:۔ واؤ قسمیہ ہے اور قسم شہادت کے قائم مقام ہوا کرتی ہے۔ لعان کی صورت میں جو قسمیں اٹھائی جاتی ہیں تو وہ شہادتوں ہی کے قائم مقام ہوتی ہیں۔ ان تین مختصر سی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے لبریز قرآن حکیم اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (۱) آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور (۲) یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں اور وہ شہادت یہ ہے کہ آپ امی تھے۔ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا تھا۔ لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ نبوت سے پہلے آپ نے کبھی کوئی ایسا کلام یا اس سے ملتا جلتا کلام بھی پیش نہیں کیا تھا جس سے یہ شبہ ہو سکے کہ شاید یہ ملکہ اس کی فطرت میں موجود تھا۔ اور وہی ملکہ ترقی کرتا رہا حتیٰ کہ آپ ایسا کلام پیش کرنے پر قادر ہو گئے اور یہ سب باتیں کفار مکہ ذاتی طور پر جانتے تھے پھر چالیس سال کی عمر میں آپ کی زبان سے یک لخت ایسے کام کا جاری ہونا جس نے تمام فصحاء و بلغائے عرب کو اپنے مقابلہ میں گنگ بنا دیا تھا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آ گئے تھے تو اس سے صاف واضح تھا کہ یہ کلام آپﷺ کا کلام نہیں ہو سکتا بلکہ کسی ایسی ہستی کا ہی ہو سکتا ہے جو مافوق الفطرت ہو۔ حکیم ہو اور خبیر ہو۔ گویا ایسے کلام کی تنزیل ہی بیک وقت کئی ایک امور پر قوی شہادت مہیا کرتی تھا۔ مثلاً یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے اور یہ کلام اسی کا ہی ہو سکتا ہے۔ (۲) یہ کہ آپ بلا شبہ اس اللہ کے رسول ہیں اور (۳) ان دونوں باتوں سے لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا تھا کہ جو طرز زندگی آپ پیش فرما رہے ہیں۔ وہی انسانیت کے لئے سیدھی راہ ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط۔ (۴) یہ کہ قریش مکہ کے ہر قسم کے شکوک و شبہات لغو اور باطل ہیں۔ جیسے کبھی وہ کہتے تھے کہ اس نے یہ خود ہی گھڑ لیا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی دوسرا آدمی سکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

 

۳۔   آپ بلا شبہ رسولوں میں سے ایک رسول ہیں

۴۔   سیدھی راہ پر ہیں

۵۔   جو غالب اور رحم کرنے والے کا نازل [۴] کردہ ہے۔

 

[۴] یعنی اس قرآن حکیم کو نازل کرنے والا کوئی کمزور قسم کا ناصح نہیں ہے جس نے کچھ احکام اور نصائح بھیج دیئے ہوں۔ جسے اگر تم قبول کر لو تو اچھا ہے اور اگر نظر انداز کر دو تو بھی تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بلکہ اس کا نازل کرنے والا فرمانروائے کائنات ہے جو سب پر غالب ہے۔ اور اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ رحیم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے تمہاری رہنمائی کے لئے یہ قرآن اور یہ نبی بھیج کر تم پر بہت مہربانی فرمائی ہے۔ تاکہ تم لوگ گمراہیوں سے بچ کر دنیا و آخرت کی فلاح سے ہمکنار ہو سکو۔

 

۶۔   تاکہ آپ ایسی قوم کو ڈرائیں جن کے آباء و اجداد نہیں [۵] ڈرائے گئے تھے لہذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں

 

[۵] مکہ میں شعیبؑ کے دو ہزار سال بعد آپﷺ مبعوث ہوئے:۔ اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ مَا اُنْذِرَ میں اگر ما کو نافیہ سمجھا جائے جیسا کہ اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چونکہ ان کی طرف کوئی نبی نہیں آیا لہٰذا یہ لوگ گہری غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر ما کو موصولہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کے قدیمی آباء و اجداد مدتوں پہلے جس چیز سے ڈرائے گئے تھے اسی چیز سے آپ ان کو ڈرائیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ ، سیدنا اسمٰعیلؑ اور سیدنا شعیبؑ انہی کے آباء و اجداد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آخری نبی شعیبؑ تھے انہیں بھی دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اتنی مدت بعد رسول اللہﷺ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ آپﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کی حالت:۔ اور یہ اس طویل مدت کا ہی اثر تھا کہ یہ لوگ انتہائی جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے عادات و خصائل سخت بگڑ چکے تھے۔ شرک اس قدر عام تھا کہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور ہر قبیلہ کا الگ الگ بت بھی موجود تھا۔ ان میں اکثر لوگوں کا پیشہ لوٹ مار اور رہزنی تھا۔ شراب کے سخت رسیا تھے۔ فحاشی اور بے حیائی عام تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کھڑے کر دینا ان کا معمول تھا۔ پھر ان کے قبائلی نظام کی وجہ سے قبیلوں میں ایسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جو ختم ہونے میں آتا ہی نہ تھا۔ غرض ہر لحاظ سے یہ قوم ایک اجڈ، تہذیب سے نا آشنا اور ایک نا تراشیدہ اور اکھڑ قوم تھی جس کی اصلاح و ہدایت کے لئے آپﷺ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسی صورت حال سے اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپﷺ کی یہ ذمہ داری کس قدر سخت اور عظیم تھی۔

 

۷۔   ان میں سے اکثر پر (اللہ کا یہ) قول ثابت [۶] ہو چکا کہ وہ ایمان نہیں [۷] لائیں گے

 

[۶] قرآن کریم نے جہاں بھی حق القول کا لفظ استعمال فرمایا تو اس کے مخاطب عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں۔ جیسے کفار مکہ یا ان جیسی دوسری قومیں جو پہلے گزر چکیں یا بعد میں آنے والی ہیں۔ یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کو مانتے تو ہیں مگر ساتھ ہی انہوں نے کچھ ایسے سستی نجات کے عقیدے گھڑ رکھے ہوتے ہیں کہ آخرت پر ایمان لانے کے اصل مقصد کو فوت کر دیتے ہیں۔ جیسے یہود کا یہ عقیدہ کہ انہیں چند دنوں کے سوا جہنم کی آگ چھوئے گی ہی نہیں۔ یا جیسے یہود و نصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ اللہ انہیں کیوں عذاب کرے گا؟ یا مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ سید قوم کی پشت ہی پاک ہوتی ہے۔ وہ جو کام بھی کرتے رہیں وہ پاک ہی رہتی ہے۔ یا یہ عقیدہ کہ فلاں حضرت صاحب کی بیعت کر لی جائے یا دامن پکڑ لیا جائے تو وہ اپنے ساتھ ہی انہیں جنت میں لے جائیں گے۔ پیچھے نہیں رہنے دیں گے یا یہ کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے انہیں بخشوا کے چھوڑیں گے وغیرذلک ایسے تمام تر عقیدے فی الحقیقت آخرت کے عقیدہ کی نفی کر دیتے ہیں۔

[۷] اس جملہ کی تکمیل یوں ہوتی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں ایمان سے مراد ایمان بالآخرت ہے۔ ورنہ اللہ کی ہستی کو تو کفار مکہ بھی تسلیم کرتے تھے۔ البتہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور اسی وجہ سے آپ کی رسالت کا بھی انکار کر دیتے تھے۔

 

۸۔   ہم نے ان کے گلوں میں طوق [۸] ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ لہذا وہ سر اٹھائے ہی رہتے ہیں۔

 

[۸] تقلید آباء اور رسم و رواج کے طوق:۔ یہ طوق ان کی تقلید آباء کے طوق تھے، ان کی جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم کے طوق تھے، ان کے کبر و نخوت کے طوق تھے جنہوں نے ان کے گلوں کو اس حد تک دبا رکھا تھا اور ان کے سر اس قدر جکڑے ہوئے تھے کہ وہ کسی دوسری طرف دیکھ ہی نہ سکتے تھے۔ نہ ہی ان کی نگاہیں نیچے اپنی طرف دیکھ سکتی تھیں کہ وہ کم از کم اپنے اندر ہی موجود اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھ کر کچھ سبق حاصل کر سکیں۔

 

۹۔   نیز ہم نے ایک دیوار تو ان کے سامنے کھڑی کر دی ہے اور ایک ان کے پیچھے۔ (اس طرح) ہم نے ان پر پردہ [۹] ڈال رکھا ہے کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے

 

[۹] آگے بھی دیوار ہو، پیچھے بھی دیوار ہو اور جس جس طرف دیوار نہ ہو، وہاں کوئی پردہ ڈال کر ڈھانپ دیا جائے تو کوئی شخص دیکھ بھی کیسے سکتا ہے۔ ان کی یہ حالت اس لئے ہو گئی ہے کہ وہ اپنی ان جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم ہی سے چمٹا رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان باتوں کے باطل ہونے پر جو دلیل بھی پیش کی جائے اس پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس مقام پر مختصراً یہ اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے بالفاظ دیگر حق کو قبول نہ کرنے یا سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی ابتدا ہمیشہ انسان کی طرف سے ہوتی ہے۔ پھر جو راہ انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ کی طرف سے اسی راہ کی توفیق و تائید ملتی جاتی ہے۔ پھر ان اسباب کے اختیار کرنے کی بنا پر جو نتیجہ مترتب ہوتا ہے اس کی نسبت کبھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے، جیسے اس مقام پر ہے، کیونکہ نتائج مترتب کرنا اللہ کا کام ہے بندے کا نہیں اور کبھی اس کی نسبت بندے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ اسباب بندے نے ہی اختیار کئے تھے۔

 

۱۰۔   آپ انہیں ڈرائیں یا [۱۰] نہ ڈرائیں ان کے لئے یکساں ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے

 

[۱۰] یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ کوئی معقول سے معقول دلیل سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور ’میں نہ مانوں‘ کی خصلت اس میں پختہ ہو جاتی ہے لیکن وہ دل میں حقیقت کو تسلیم کر لینے کے باوجود زبان سے انکار کر دیتا ہے۔ یہی کیفیت ہوتی ہے جب اس پر کوئی نصیحت اور ہدایت کی بات کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اور اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر دلوں پر مہر لگا دینے سے تعبیر فرمایا ہے۔

 

۱۱۔   آپ تو صرف اسے ڈرا سکتے ہیں جو اس ذکر (قرآن) کی پیروی کرے اور بن دیکھے رحمان [۱۱] سے ڈرے، ایسے لوگوں کو آپ مغفرت اور با عزت اجر کی خوشخبری دے دیجئے۔

 

[۱۱] بن دیکھے رحمان سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو آخرت کے دن پر اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی باز پرس پر ٹھیک طرح سے ایمان رکھتے ہیں اور اپنے اس ایمان بالآخرت کے عقیدے کو سستی نجات کے عقیدے سے خراب نہیں کر لیتے اور ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں اللہ سے ڈر کر انتہائی محتاط زندگی گزارتے ہیں۔ اور ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی بخشش کے مستحق ہوتے ہیں۔ گناہ تو ان کے معاف کر دیئے جاتے ہیں اور نیک اعمال کا اجر بہت بڑھ چڑھ کر ملتا ہے۔

 

۱۲۔   بلا شبہ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں [۱۲]۔ ہم ان کے وہ اعمال بھی لکھتے جاتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے اور وہ آثار بھی جو پیچھے [۱۳] چھوڑ گئے۔ اور ہم نے ہر چیز کا ایک واضح کتاب [۱۴] (لوح محفوظ) میں ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔

 

[۱۲] اس کا ایک مفہوم تو واضح ہے اور یہی مفہوم دنیا میں بھی ہر آن مشاہدہ میں آ رہا ہے۔ اور یہی مفہوم عقیدہ آخرت کی بنیاد ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ قرآن نے بعض مقامات پر موتیٰ سے مراد مردہ دل کافر بھی لئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس جملہ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ عرب قوم جس کی اخلاقی اور روحانی قوتیں بالکل مرچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ پھر ان میں زندگی کی روح پھونک دے کہ وہ دنیا میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دے اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے اپنے عظیم آثار چھوڑ جائے۔

اثر کا لغوی مفہوم:۔ اثر کا معنی در اصل قدموں کے نشان ہیں۔ جو کسی انسان کے چلنے کے بعد زمین پر پڑ جاتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق زمین پر پڑے ہوئے قدموں پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنی سلمہ کے لوگوں نے (جن کے مکان مسجد نبوی سے دور تھے) ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکان چھوڑ دیں اور رسول اللہﷺ کے قریب آ کر رہائش پذیر ہوں۔ (تاکہ آسانی سے نماز با جماعت میں شامل ہو سکیں۔) آپﷺ کو مدینہ کی سرحدوں کا اجڑنا برا معلوم ہوا تو آپﷺ نے انہیں فرمایا: کیا تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اٰثَارَھُم سے مراد زمین پر چلنے سے پاؤں کے نشانات مراد ہیں۔

(بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب احتساب الآثار)

[۱۳] زندگی کے بعد اعمال نامہ میں درج ہونے والے اعمال:۔ ہر انسان کے اعمال نامہ میں تین طرح کے اندراجات ہوتے ہیں۔ ایک وہ اعمال و اقوال جو اس نے اپنی زندگی کے دوران سرانجام دیئے تھے۔ دوسرے اعمال کے اثرات جو عمل کرنے سے انسان کے اپنے جسم، اس کے اعضاء و جوارح، زمین یا فضا میں مرتسم ہوتے رہتے ہیں۔ اور تیسرے وہ اعمال جن کے اچھے یا برے اثرات اس کی زندگی کے بعد بھی باقی رہ گئے۔ مثلاً کسی شخص نے کوئی مفید کتاب تصنیف کی یا لوگوں کو علم دین سکھایا اور یہ سلسلہ آگے چلتا رہا یا کوئی چیز اللہ کی راہ میں وقف کر گیا۔ یہ سب کچھ اس کے عمل کے اثرات ہیں اور ان کا ثواب اس کے اعمال نامہ میں اس زندگی کے بعد بھی درج ہوتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی شرکیہ عقیدہ یا بدعت یا کوئی بد رسم نکالی تو جو شخص ان باتوں کو اپنائیں گے حصہ رسدی ان کا گناہ اس کے ایجاد کرنے والے کے اعمال نامہ میں بھی درج ہوتا رہتا ہے۔

[۱۴] لوح محفوظ کے نام اور صفات:۔ کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے۔ جس کے مزید نام ام الکتاب اور کتاب مکنون بھی قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ اس امام مبین کا مکمل ادراک تو انسان کے احاطہ سے باہر ہے تاہم روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی تختی یا کتاب ہے جس میں کائنات کی تقدیر کے متعلق تمام امور پہلے سے لکھ دیئے گئے ہیں۔ اور ان میں رد و بدل نہیں ہوتا اور یہ تمام احکام و فرامین اور کلمات الٰہی کا مصدر ہے اور مکنون اس لحاظ سے ہے کہ اس کے مندرجات کی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو خبر نہیں۔ گویا لوگوں کے جو اعمال نامے تیار ہو رہے ہیں جو اعمال و آثار کے وقوع کے بعد لکھے جاتے ہیں۔ عین اللہ کے اس علم کے مطابق ہوتے ہیں جس کے مطابق اس نے ہر چیز پہلے سے ہی امام مبین میں درج کر رکھی ہے۔

 

۱۳۔   آپ انہیں اس بستی والوں کی مثال [۱۵] بیان کیجئے جبکہ ان کے پاس رسول آئے تھے۔

 

[۱۵] اصحاب القریہ اور مرد حق گو:۔ یہ بستی کون سی تھی؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد روم میں واقع انطاکیہ شہر ہے۔ پھر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ رسول بلا واسطہ رسول تھے یا بالواسطہ رسول یا مبلغ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مبلغ سیدنا عیسیٰؑ نے ہی بھیجے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سیدنا عیسیٰؑ کے حواریوں میں سے تھے۔ قرآن کے بیان سے سرسری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کے رسول تھے۔ اور اگر یہی بات ہو تو ان کا زمانہ سیدنا عیسیٰؑ سے پہلے کا زمانہ ہونا چاہئے کیونکہ سیدنا عیسیٰؑ کے بعد رسول اللہﷺ کی بعثت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا۔ اور بستی کے نام کی تعیین یا رسول کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہونے کی تعیین کوئی مقصود بالذات چیز بھی نہیں کہ اس کی تحقیق ضروری ہو۔ مقصود بالذات چیز تو کفار مکہ کو سمجھانا ہے کیونکہ کفار مکہ اور ان بستی والوں کے حالات میں بہت سی باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔

 

۱۴۔   جب ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے تو انہوں نے ان دونوں کو جھٹلا دیا پھر ہم نے ایک تیسرے رسول سے انہیں تقویت دی۔ تب ان تینوں نے کہا: ’’ہم تمہاری طرف (رسول کی حیثیت سے) بھیجے گئے ہیں۔

۱۵۔   وہ کہنے لگے: ’’تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو [۱۶] اور اللہ نے تو کچھ بھی نہیں اتارا (بلکہ) تم تو محض جھوٹ [۱۷] بولتے ہو‘‘

 

[۱۶] قریش بھی رسول اللہﷺ کو یہی کچھ کہتے تھے کہ تم بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہو آخر تم میں ہم سے بڑھ کر وہ کون سی خوبی ہے جو اللہ نے تمہیں ہی نبوت کے لئے منتخب کیا اور یہ ایسا اعتراض ہے جو ہر نبی کے منکر اپنے اپنے نبی کے متعلق کرتے آئے تھے۔ گویا نبوت کے متعلق جاہلی تصور یہ ہے کہ جو بشر ہو وہ رسول نہیں ہو سکتا اور اس کے عین برعکس دوسرا جاہلی تصور یہ ہے کہ جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ قرآن سب انبیاء کو بشر بھی ثابت کرتا ہے اور رسول بھی۔

[۱۷] قریش مکہ بھی آپﷺ کو یہ الزام دیتے تھے کہ جو کلام یہ پیش کرتا ہے خود ہی تصنیف کر کے اللہ کے نام سے منسوب کر دیتا ہے۔

 

۱۶۔   وہ کہنے لگے: ’’ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ ہم یقیناً تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں

۱۷۔   اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پیغام پہنچا دینا ہے‘‘

۱۸۔   وہ کہنے لگے کہ: ’’ہم تو تمہیں منحوس [۱۸] سمجھتے ہیں۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور ہمارے [۱۹] ہاتھوں تمہیں دردناک سزا ملے گی‘‘

 

[۱۸] انبیاء کی دعوت پر کافروں کو کیا مصیبت پڑتی ہے؟ منکرین حق کو جھنجھوڑنے کے لئے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ چھوٹے موٹے عذاب یا سختیاں بطور تنبیہ نازل ہوا کرتی ہیں۔ اور اگر ایسا کوئی عذاب نہ بھی آئے تو بھی ایک بات کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے۔ نبی جب دعوت دیتا ہے تو کچھ اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کچھ اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ اس طرح دو فریق بن جاتے ہیں جن کی آپس میں ٹھن جاتی ہے۔ ایک آدمی اگر ایماندار ہے تو اس کے رشتہ دار کافر ہوتے ہیں۔ منکرین حق کے لئے یہ ایک الگ مصیبت بن جاتی ہے۔ بہرحال عذاب کی صورت ہو یا ایسی تفریق کی، منکرین حق اس کا الزام رسولوں پر دھرتے اور کہتے تھے کہ جب سے تم آئے ہو ہمیں یہ مصیبت پڑ گئی ہے اور یہ تمہاری ہی نحوست کا نتیجہ ہے۔ ورنہ پہلے سب مل جل کر اچھے خاصے آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

[۱۹] کافر قوم کی دھمکی:۔ ان لوگوں نے اپنے رسولوں کو محض ایسی دھمکی ہی دی تھی جب کہ کفار مکہ نے کئی بار آپﷺ کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی جان سے مار ڈالنے کی کوششیں اور سازشیں کی تھیں۔

 

۱۹۔   وہ کہنے لگے: ’’تمہاری نحوست تو تمہارے اپنے ساتھ [۲۰] لگی ہے۔ اگر تمہیں نصیحت کی جائے (تو کیا اسے تم نحوست سمجھتے ہو؟) بلکہ تم ہو ہی حد سے گزرے [۲۱] ہوئے لوگ۔

 

[۲۰] یعنی تمہاری نحوست کی اصل وجہ وہ نہیں جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پہلے تمہارے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا تھا۔ لہٰذا تم اللہ کی طرف سے معذور تھے۔ اب ہم نے اگر تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تو تم نے اس سے سرتابی کی اور اکڑ بیٹھے۔ اس کی پاداش میں تمہیں اللہ کی طرف سے یہ سزا مل رہی ہے اور یہ تمہارے اپنے ہی اعمال کی نحوست ہے کہیں باہر سے نہیں آئی۔

[۲۱] یعنی تمہارا انداز فکر اس قدر بگڑ چکا ہے کہ جو لوگ تمہارے خیر خواہ ہیں اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ان کو تم جان سے مار ڈالنے یا تکلیفیں پہچانے کی دھمکیاں دیتے ہو۔ اور اللہ کی نافرمانی پر اگر تمہیں کوئی دکھ پہنچے تو اس کا ذمہ دار بھی ہمیں ٹھہراتے ہو۔ کچھ انصاف کی بات کرو۔ تم تو عقل اور آدمیت کی سب حدیں پھاند گئے ہو۔

 

۲۰۔   اس وقت شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا [۲۲] ہوا آیا اور کہنے لگا: ’’میری قوم کے لوگو! ان رسولوں کی پیروی اختیار کر لو

 

[۲۲] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان رسولوں اور ان کی قوم میں جو مکالمہ اوپر مذکور ہوا ہے وہ کوئی چند دنوں پر مشتمل نہیں بلکہ کئی سالوں کی مدت پر محیط تھا اور رسولوں کی دعوت اور ان کے انکار اور دھمکیوں کا چرچا اس شہر کے علاوہ ارد گرد کے مضافات میں بھی پھیل چکا تھا۔ چنانچہ انہیں مضافات میں سے ایک صالح مرد جس کا نام حبیب بتایا جاتا ہے نے جب یہ سنا کہ شہر والے اپنے رسولوں کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور مبادا وہ کوئی ایسی حرکت کر نہ بیٹھیں، تو اس سے برداشت نہ ہو سکا۔ وہ خود ایک عبادت گزار انسان تھا۔ اور اپنے ہاتھوں کی حلال کمائی کھاتا تھا۔ اور اچھی شہرت رکھتا تھا، یہ باتیں سنتے ہی دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھائے کہ وہ ان رسولوں کی مخالفت سے باز آ جائیں۔

 

۲۱۔   ایسے رسولوں کی جو تم سے کچھ اجر نہیں مانگتے اور وہ خود راہ راست [۲۳] پر ہیں۔

 

[۲۳] اس مرد حق گو نے اصحاب قریہ کو کیا کیا باتیں سمجھائیں؟ اس صالح مرد نے قوم کے پاس آ کر انہیں دو باتیں سمجھائیں ایک یہ کہ یہ رسول جو تعلیم پیش کرتے ہیں پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور ان کی اخلاقی حالت بھی تم سے بہت بلند ہے۔ دوسرے جو کچھ وہ تمہیں تعلیم دیتے ہیں اس پر نہ تو تم سے کچھ معاوضہ طلب کرتے ہیں اور نہ اس کام سے ان کا اپنا کوئی ذاتی مفاد وابستہ ہے۔ اور جو بات وہ کہتے ہیں تمہاری ہی بھلائی کے لئے کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے بے لوث مخلصوں کی بات تمہیں ضرور مان لینا چاہئے۔ بلکہ ان کی قدر کرنا چاہئے۔

 

۲۲۔   اور میں اس ہستی کی کیوں نہ عبادت کروں جس نے مجھے پیدا کیا [۲۴] اور تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ [۲۵] کر جانا ہے۔

 

[۲۴] تیسری بات جو مرد صالح نے سمجھائی۔ اس میں قوم کو مخاطب نہیں کیا تاکہ وہ چڑ نہ جائیں بلکہ اسے اپنی ذات سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ عبادت کی مستحق وہی ہستی ہو سکتی ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی لئے میں صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اور اللہ کے سوا جن ہستیوں کو تم نے اپنا حاجت روا قرار دے رکھا ہے ان کا میرے پیدا کرنے اور رزق دینے میں کچھ حصہ ہی نہیں تو آخر میں انہیں کیوں پکاروں اور کیوں ان کی عبادت کروں۔

[۲۵] چوتھی بات ان کے انجام سے متعلق انہیں سمجھائی کہ آخر تم سب نے مرنا ہے۔ اور تم سب کی روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں۔ اور تمہیں اس ہستی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس کی بندگی کی دعوت پر آج تمہیں اعتراض ہے اور جو تمہیں یہ بات سمجھائے اس کے درپے آزار ہو جاتے ہو۔ پھر تم خود ہی سوچ لو کہ تمہارا انجام کیا ہو سکتا ہے؟

 

۲۳۔   کیا میں اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا لوں کہ اگر رحمن مجھے کوئی تکلیف دینا چاہے تو نہ ان کی سفارش میرے کسی کام آئے اور نہ ہی وہ خود [۲۶] مجھے چھڑا سکیں؟

 

[۲۶] پانچویں بات اس نے یہ سمجھائی کہ میں ایسے مشکل کشاؤں کی مشکل کشائی کا ہرگز قائل نہیں کہ اگر میرا پروردگار مجھے کسی تکلیف میں مبتلا کر دے تو ان میں نہ تو اتنی طاقت ہے کہ وہ اللہ کے مقابلہ میں مجھے اس تکلیف سے بچا سکیں اور نہ یہ کر سکتے ہوں کہ اللہ سے سفارش کر کے مجھے اس مشکل سے نجات دلا سکیں۔ یہ باتیں وہ کہہ تو اپنے آپ رہا تھا مگر ’بمصداق گفتہ آید در حدیث دیگراں‘ سنا سب کچھ قوم کو رہا تھا کہ تمہیں اس طرح کی بے بس اور بے اختیار چیزوں کو ہرگز معبود نہ بنانا چاہئے۔ اور یہی عیوب کفار مکہ میں پائے جاتے تھے۔

 

۲۴۔   تب تو میں یقیناً صریح گمراہی میں جا پڑا

۲۵۔   میں تو بلا شبہ تمہارے [۲۷] پروردگار پر ایمان لا چکا، تم میری بات توجہ سے سنو (اور مان لو)

 

[۲۷] اپنے ایمان کا برملا اعلان:۔ یہ باتیں سمجھانے کے بعد اس نے کافروں کے بھرے مجمع میں پوری جرأت کے ساتھ اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور اعلان بھی اس انداز میں کیا کہ ’’میں تمہارے پروردگار پر ایمان لا چکا‘‘ یہ نہیں کہا کہ میں اپنے پروردگار پر ایمان لا چکا۔ یعنی جیسے وہ میرا پروردگار ہے ویسے ہی تمہارا بھی ہے۔ اور میں اس پر ایمان لا کر غلطی نہیں کر رہا بلکہ تم ایمان نہ لا کر غلطی کر رہے ہو۔

 

۲۶۔   (آخر جب اسے قتل کر ڈالا گیا تو) اسے کہا گیا کہ ’’جنت میں داخل [۲۸] ہو جاؤ‘‘ وہ کہنے لگا: ’’کاش میری قوم کو علم ہو جاتا

 

[۲۸] مرد حق گو کی شہادت:۔ رسولوں کی دعوت پر تو یہ لوگ محض دھمکیاں ہی دے رہے تھے اور شاید ڈرتے بھی ہوں کہ اگر فی الواقع رسول ہوں تو ہم پر کوئی آفت نہ آئے۔ مگر جب اس مرد حق گو نے ناصحانہ انداز میں ان کے معبودوں کی سب خامیاں ان پر واضح کر دیں تو اسے انہوں نے اپنی اور اپنے معبودوں کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی سمجھ کر اسے فوراً قتل کر دیا اور اس کے قتل ہونے کے ساتھ اسے فرشتوں نے یہ خوشخبری دے دی کہ جنت تمہاری منتظر ہے۔ اس میں داخل ہو جاؤ۔ کیونکہ وہ صحیح معنوں میں شہید تھا اور اس نے اللہ کے دین کی خاطر اپنی جان دی تھی۔ اور شہداء کے متعلق قرآن اور صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ شہید براہ راست جنت میں چلے جاتے ہیں اور وہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ ان کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے باغوں میں چہچہاتی پھرتی ہیں۔

 

۲۷۔   کہ میرے پروردگار نے مجھے بخش دیا [۲۹] اور مجھے معززین میں شامل کر دیا‘‘

 

[۲۹] قوم اس کی اس قدر دشمن بن گئی تھی کہ اسے جان سے ہی مار ڈالا۔ مگر اس کا اخلاق اس قدر بلند تھا کہ اپنے جانی دشمنوں کے لئے بددعا کے بجائے ان کے حق میں خیر خواہی کی بات ہی اس کے ذہن میں آئی۔ اگر اسے کچھ تمنا تھی تو صرف یہ کہ کاش میری قوم کو یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ نے مجھ پر کس قدر انعام و کرام کئے ہیں۔ تو شاید وہ بھی ایمان لے آئیں۔ اس قصہ کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے در اصل کفار مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ جس طرح وہ مرد صالح اپنی قوم کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ تھا، اسی طرح محمدﷺ بھی تمہارے سچے خیر خواہ ہیں۔

 

۲۸۔   اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا، نہ ہی ہمیں لشکر اتارنے کی حاجت تھی۔

۲۹۔   وہ تو بس ایک دھماکہ ہوا جس سے وہ سب بجھ [۳۰] کر رہ گئے

 

[۳۰] اصحاب القریہ پر چیخ کا عذاب:۔ یہ مرد صالح تو شہید ہو گیا، رہے پیغمبر تو ان کے متعلق کوئی صراحت نہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا؟ تاہم قرآن کی صراحت سے ایک ضابطہ الٰہی معلوم ہوتا ہے کہ جس بستی پر اللہ اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو اپنے رسولوں اور ایمانداروں کو اس عذاب سے بچانے کا پہلے انتظام کر دیتا ہے۔ اور یہ تو اس آیت سے واضح ہے کہ ان رسولوں کی تکذیب اور اس مرد مومن کی شہادت کے بعد اس قوم پر عذاب آیا تھا اور یہ عذاب کچھ ایسا نہ تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوجیں نازل کی ہوں نہ ہی اتنے معمولی سے کام کے لئے اللہ تعالیٰ کو فوجیں بھیجنے کی ضرورت تھی۔ اس قوم سے بس اتنا ہی معاملہ ہوا کہ زور کا ایک دھماکہ ہوا جس کی پہلی ضرب بھی وہ سہار نہ سکے اور جہاں جہاں تھے۔ اسی مقام پر ہی ڈھیر ہو کر رہ گئے۔

 

۳۰۔   افسوس ہے بندوں پر کہ ان کے پاس جو بھی رسول آیا اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔

۳۱۔   کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ کتنی ہی قومیں ہم ان سے [۳۱] پہلے ہلاک کر چکے ہیں جو ان کے پاس لوٹ کر نہیں آئیں گی

 

[۳۱] یعنی سابقہ اقوام کے انجام کی طرف نہ دیکھتے ہیں نہ اس میں غور و فکر کرتے ہیں وہ قومیں بھی اپنے رسولوں کا مذاق اڑاتی رہیں۔ اور اس کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا جاتا تھا اور ان کا ایسا نام و نشان تک مٹ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی بچ کر ان کے پاس واپس نہیں لوٹا پھر بھی ان کافروں کا یہی دستور رہا کہ جب کوئی نیا رسول آتا تو اس سے اسی طرح تمسخر اور استہزاء شروع کر دیتے جو پہلے کفار کی عادت تھی اور کچھ سبق حاصل نہیں کرتے تھے۔ اور آج کفار مکہ کا بھی رسول اللہﷺ کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

 

۳۲۔   اور یہ سب لوگ (ایک دن) ہمارے حضور حاضر کئے جائیں گے۔

۳۳۔   ان لوگوں کے لئے مردہ زمین (بھی) ایک نشانی ہے ہم نے اسے زندہ کیا اور اس سے اناج [۳۲] نکالا جس کا کچھ حصہ وہ کھاتے ہیں

 

[۳۲] دلائل توحید۔۔ ہر قسم کی نباتات کا بہترین حصہ انسان کے لئے ہوتا ہے:۔ زمین سے جو اناج بھی پیدا ہوتا ہے اس کا بہتر حصہ تو انسانوں کی خوراک بنتا ہے اور ناقص حصہ مویشیوں اور دوسرے جانوروں کی۔ مثلاً گندم کے اناج میں سے گندم کے دانے بہتر حصہ ہے اور یہ انسانوں کی خوراک ہے۔ اور باقی کا حصہ جسے بھوسہ یا توڑی کہتے ہیں مویشیوں کی خوراک بنتا ہے۔ یہی حال سب غلوں کا ہے اور پھل دار درختوں میں سے پھل انسان کی خوراک بنتے ہیں اور پتے وغیرہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کی خوراک بنتے ہیں۔ پھر کچھ چیزیں انسانوں کے لباس کے کام آتی ہیں اور کچھ دواؤں کے اور کچھ جھاڑ جھنکار ایندھن کے کام آتے ہیں اور کچھ سے انسان کئی قسم کی مصنوعات تیار کرتا ہے۔ غرضیکہ زمین کی نباتات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو بلاواسطہ یا بالواسطہ آخر انسان ہی کے کام نہ آتی ہو۔

 

۳۴۔   نیز ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے اور اس کے اندر سے چشمے بہا دیئے

۳۵۔   تاکہ وہ اس کے پھل کھائیں حالانکہ یہ سب کچھ ان [۳۳] کے ہاتھوں نے نہیں بنایا۔ پھر کیا وہ شکر ادا نہیں کرتے۔

 

[۳۳] وما عملتہ ایدیھم کے مختلف مفہوم۔۔ زرعی پیداوار میں انسان کا حصہ:۔ ﴿وَمَا عَمِلَتْہُ أیْدِیْھِمْ﴾ میں اگر ما کو نافیہ قرار دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہو گا۔ نباتات کو پیدا کرنا انسان کا کام نہیں۔ نباتات اور پھلوں کی پیدائش میں جس قدر عناصر سرگرم عمل ہیں وہ سب کے سب اللہ کے حکم کے تحت اپنے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں تب جا کر نباتات وجود میں آتی، بڑھتی، پھلتی پھولتی اور انسانوں اور دوسرے جانداروں کا رزق بنتی ہے۔ اور مَا کو موصولہ قرار دیا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگرچہ نباتات کو وجود میں لانے والے سارے عناصر اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ تاہم اس میں کچھ نہ کچھ کام انسانوں کا بھی ہوتا ہے۔ مثلاً انسان بیج ڈالتا ہے، ہل چلاتا ہے، زمین کی سیرابی اور فصل کی نگہداشت کرتا ہے، لیکن اگر وہ غور کرے تو انسان کی یہ استعداد بھی اللہ ہی کا عطیہ ہے۔ اور انسان کے اتنا کام کرنے کے بعد بھی نباتات تب ہی اگ سکتی ہے جب پیداوار کے بڑے بڑے وسائل انسان کی اس حقیر سی کوشش کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہٰذا اللہ کا شکر بہرحال واجب ہوا۔

تمام خوردنی اشیاء کی اصل زرعی پیداوار ہے:۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہی اصل اشیاء ہیں پھر انسان ان پر محنت کر کے بعض دوسری اشیائے ضرورت تیار کر لیتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے گندم، گنا، چنے اور دودھ پیدا کیا ہے۔ اب انسان ان سے کچھ چیزیں انفرادی طور پر حاصل کرتا ہے۔ مثلاً گندم سے روٹی، اور اس کی قسمیں اور گنے سے گڑ، شکر اور چینی اور دودھ سے دہی، مکھن، لسی، بالائی اور گھی وغیرہ پھر انہیں چیزوں کے امتزاج سے ہزاروں چیزیں بناتا چلا جاتا ہے۔ اور کئی طرح کے سالن، اچار، چٹنیاں، مربے، مٹھائیاں وغیرہ تیار کر لیتا ہے۔ کئی چیزوں سے اپنی پوشاک کی ضروریات بناتا ہے یہ استعداد بھی انسان کو اللہ ہی نے بخشی ہے۔ لہٰذا ہر حال میں اللہ کا شکر واجب ہوا۔

 

۳۶۔   پاک ہے وہ ذات جس نے زمین کی نباتات سے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے اور خود ان کی اپنی [۳۴] جنس کے بھی اور ان چیزوں کے بھی جنہیں یہ جانتے بھی نہیں

 

[۳۴] زوج کے مختلف معانی اور ان کی وسعت:۔ ازواج کے کئی معنی ہیں مثلاً اس کا اطلاق نر و مادہ پر بھی ہوتا ہے۔ مرد، عورت کے لئے زوج ہے اور عورت مرد کے لئے۔ اور ان دونوں میں اللہ تعالیٰ نے فطرتی طور پر ایک دوسرے کے لئے کشش رکھ دی ہے۔ پھر اس زوج کے ایک دوسرے سے ملنے سے آگے مزید تخلیق کا سلسلہ چلتا ہے۔ اور یہ سلسلہ صرف حیوانات میں ہی نہیں نباتات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ درخت تو ایسے ہیں جن کا عام انسانوں کو بھی علم ہوتا ہے۔ مثلاً کھجور اور انار کے درخت نر بھی ہوتے ہیں اور ما دہ بھی، جب پھل لگنے کا موسم ہوتا ہے تو ہوائیں نر درختوں کا بیج اٹھا کر مادہ درختوں پر پھینک دیتی ہیں۔ تو مزید پیدائش عمل میں آتی ہے۔ اور نباتات کی ہر قسم میں یہ نر و مادہ کا سلسلہ موجود ہے خواہ اس کا ابھی تک انسان کو علم ہوا ہو یا نہ ہو۔ پھر یہ سلسلہ جمادات حتیٰ کہ مادہ کے ایک ذرہ کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ اس میں بھی مثبت اور منفی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ جو آپس میں ایک دوسرے کے لئے کشش رکھتی ہیں۔ دوسرے زوج کا لفظ آپس میں مماثلت رکھنے والی چیزوں کے لئے بھی آتا ہے۔ مثلاً ایک جوتا دوسرے جوتے کا زوج ہوتا ہے۔ اور اس معنی میں بھی یہ لفظ قرآن میں موجود ہے جیسے فرمایا: وَاٰخَرُ مِنْ شَکْلِہٖ أزْوَاج (۳۸: ۵۸) (یعنی اس سے ملتی جلتی دوسری چیزیں) اور ازوج کا تیسرا معنی ایک دوسرے کے مخالف اشیاء جیسے دن رات کا زوج ہے اور رات دن کا یا سایہ دھوپ کا اور دھوپ سایہ کا یا روشنی تاریکی کی زوج اور تاریکی روشنی کی گویا یہ زوج کا سلسلہ اتنا وسیع ہے جو نباتات اور حیوانات کے علاوہ بھی تمام اشیاء میں پایا جاتا ہے۔ خواہ تمہیں اس کا علم ہو یا نہ ہو سکے۔ اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے سبحان الذی کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ایک ایسی ذات ہے جو ہر قسم کے زوج سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی مقابل ہے اور نہ مماثل۔ کیونکہ مقابلہ یا مماثلت ان چیزوں میں ہو سکتی ہے جو کسی درجہ میں فی الجملہ اشتراک رکھتی ہوں مگر خالق اور مخلوق کا کسی حقیقت میں اشتراک نہیں ہوتا اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں شرک کی جتنی بھی اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سے ہر قسم میں اللہ تعالیٰ اس کی ذات میں کسی نہ کسی کمی، کمزوری، عیب یا نقص کا الزام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سبحان کا لفظ کہہ کر مشرکوں کے ہر قسم کے شرکیہ عقیدہ کی تردید فرما دی۔

 

۳۷۔   اور ان کے لئے ایک نشانی [۳۵] رات (بھی) ہے جس کے اوپر سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔

 

[۳۵] رات کا ذکر دن سے پہلے اور فطری تقویم:۔ قرآن کریم نے جب دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ذکر فرمایا۔ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ ایک یہ کہ فطری تقویم یہ ہے کہ دن رات کی (یعنی ایک دن یا ۲۴ گھنٹے) کی مدت کا شمار ایک دن سورج غروب ہونے سے لے کر دوسرے دن سورج غروب ہونے تک ہے۔ اور یہ مدت ہمیشہ ۲۴ گھنٹے ہی رہتی ہے خواہ گرمیوں کا موسم ہو یا سردیوں کا اور اس میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں پڑتا اور دوسرے یہ کہ اصل چیز رات اور تاریکی ہی تھی یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے سورج پیدا فرما کر روشنی کا بھی انتظام فرما دیا۔ اور اس میں تمہارے لئے اور بھی بے شمار فائدے رکھ دیئے۔ حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ رات اور دن کا یہ انتظام نہ فرماتے تو اس زمین پر نہ کوئی نباتات اگ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی جاندار زندہ رہ سکتا تھا۔

 

۳۸۔   اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل [۳۶] رہا ہے۔ یہی زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔

 

[۳۶] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح فضا میں دوسرے تمام سیارے اپنے اپنے مدار پر گردش کر رہے ہیں اسی طرح سورج بھی اپنے مدار یا اپنی مقر رہ گزر گاہ پر چل رہا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر غالب اور اپنی مخلوقات کے تمام تر حالات سے واقف ہے، چاہے گا یہ سورج اسی طرح اپنی مقر رہ گزر گار پر چلتا رہے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے: سورج کا عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہونا:۔ ایک دفعہ خود رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو ذرؓ سے پوچھا: ’’جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے؟‘‘ سیدنا ابو ذرؓ کہنے لگے: ’’اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’سورج غروب ہونے پر اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے اور دوسرے دن طلوع ہونے کا اذن مانگتا ہے تو اسے اذن دے دیا جاتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا کہ جدھر سے آیا ہے ادھر ہی لوٹ جا۔ پھر وہ مغرب سے طلوع ہو گا۔ پھر آپﷺ نے یہی آیت پڑھی‘‘

(بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب وکان عرشہ علی الماء)

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل اور مرکز گریز قوت کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ حکیم و خبیر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم و تزاحم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی مقر رہ گردش میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام اللہ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں دوسرے یہ کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔ آج کا مغرب زدہ طالب علم سورج کے طلوع و غروب ہونے اور عرش کے نیچے جا کر دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب ہوتا نظر آتا ہے تو یہ محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے حالانکہ اللہ کا عرش اتنا بڑا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے تلے ہے اور جن و انس کے سوا ہر چیز اس کے ہاں سجدہ ریز یا اللہ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سرانجام دینے پر لگی ہوئی ہے۔

 

۳۹۔   اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں تا آنکہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح [۳۷] رہ جاتا ہے۔

 

[۳۷] اشکال قمر اور منازل قمر:۔ سورج ہمیشہ مشرق سے طلوع ہو کر شام کو مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔ اور اس کی شکل بھی ایک ہی جیسی رہتی ہے لہٰذا اس کے معمول میں کبھی فرق نہیں آتا۔ جبکہ چاند کا مسئلہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ کسی بھی قمری مہینے کی ابتدا میں مغرب کی سمت نمودار ہوتا ہے اور بالکل ایک پھانک سی نظر آتا ہے جسے قرآن نے کھجور کی پرانی اور خشک ٹہنی سے تشبیہ دی ہے اور اسے ہلال کہتے ہیں۔ دوسرے دن یہ ذرا موٹا بھی ہو جاتا ہے اور مشرق کی طرف ہٹ کر نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ روز موٹا ہوتا جاتا ہے اور شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ اور چاند بنتا جاتا ہے حتیٰ کہ سات دن بعد عین سر پر طلوع ہوتا ہے اور نصف دائرہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے پھر چودھویں دن مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور پورا گول ہوتا ہے۔ گویا ہر روز وہ نئی شکل بدلتا ہے اور ہر روز اس کی منزل جداگانہ ہوتی ہے پھر یہ گھٹنا شروع ہو جاتا ہے پھر پہلے کی طرح پھانک کی شکل اختیار کر لیتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاند کے لئے مقرر کردہ منزلیں ہیں۔

 

۴۰۔   نہ تو سورج سے یہ ہو سکتا ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن [۳۸] پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ سب اپنے اپنے مدار پر تیزی سے رواں دواں [۳۹] ہیں۔

 

[۳۸] اس جملے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ سورج چاند کی نسبت بڑا سیارہ ہے۔ اس کی کشش ثقل بھی چاند کی نسبت بہت زیادہ ہے تاہم یہ ممکن نہیں کہ سورج چاند کو اپنی طرف کھینچ لے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کے مدار میں جا داخل ہو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی ممکن نہیں کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور اسی وقت سورج طلوع ہو جائے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ دن کی مقر رہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی رات آ جائے۔ اور جتنا وقت دن کی روشنی کے لئے مقرر ہے ان میں رات یکایک اپنی تاریکیوں سمیت آ موجود ہو۔

[۳۹] سورج اور چاند کی گردش اور فلک کا مفہوم:۔ سَبَّحَ کے معنی پانی یا ہوا میں نہایت تیز رفتاری سے گزر جانا یا تیرنا۔ اور فلک کے معنی سیاروں کے مدارات یا ان کی گزر گاہیں (Orbits) ہیں۔ اس آیت میں پہلے صرف سورج اور چاند کا ذکر فرمایا پھر کل کا لفظ استعمال فرمایا جو جمع کے لئے آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور چاند کے علاوہ باقی تمام سیارے بھی فضا میں تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ اور چونکہ ہماری زمین بھی ایک سیارہ ہے لہٰذا یہ بھی محو گردش ہے۔ البتہ زمین کی گردش کے متعلق چند مخصوص وجوہ کی بنا پر استثناء ممکن ہے اور زمین کی گردش کے متعلق آج تک چار نظریے بدل چکے ہیں (تفصیل کے لئے دیکھئے میری تصنیف الشمس والقمر بحسبان)

 

۴۱۔   اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی [۴۰] کشتی میں سوار کیا

 

[۴۰] بھری ہوئی کشتی سے مراد وہ کشتی ہے جو سیدنا نوحؑ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق طوفان سے پہلے بنائی تھی۔ جس میں سیدنا نوحؑ کے علاوہ تمام ایماندار، ان کا سامان خورد و نوش، ہر قسم کے جاندار کا ایک ایک جوڑا لدا ہوا تھا۔ جس سے یہ کشتی بھر گئی تھی اور اس میں گویا پوری بنی نوع انسان لدی ہوئی تھی وہ یوں کہ جتنے بھی انسان موجود ہیں سب کے سب ان کشتی میں سوار لوگوں کی اولاد ہیں۔

 

۴۲۔   پھر ان کے لئے ایسی ہی اور چیزیں پیدا [۴۱] کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔

 

[۴۱] من مثلہ سے مراد یہ بھی لی جا سکتی ہے کہ سیدنا نوحؑ کی کشتی جیسی کشتی بنانا انسان نے سیکھ لیا جس کی تعلیم اللہ نے دی تھی۔ اس لحاظ سے سیدنا نوحؑ ہی کشتی یا جہاز کے موجد ہیں اور یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے کہ کشتی جیسی کوئی اور چیز یا چیزیں بھی پیدا کیں اور اس سے مراد وہ تمام سواریاں لی جا سکتی ہیں جو سمندر یا خشکی یا فضا میں چلتی ہیں اور انسان ان پر سوار ہوتا ہے۔

 

۴۳۔   اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں پھر نہ تو ان کا کوئی فریاد رس ہو گا اور نہ وہ بچائے [۴۲] جا سکیں گے۔

 

[۴۲] سمندر میں غرقابی کا حسرت ناک منظر:۔ سمندر میں انسان کے کشتی پر سوار ہو کر سفر کرنے کے منظر کو قرآن نے متعدد مقامات پر اپنی نشانی کے طور پر پیش کیا ہے اگر کسی نے سمندری سفر کیا ہو تو وہی اس منظر کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ سمندر کے عین درمیان جہاز چل رہا ہے اوپر دیکھیں تو صرف نیلا آسمان نظر آتا ہے کوئی پرندہ تک نظر نہیں آتا، نیچے دیکھیں تو حد نگاہ تک سیاہ پانی نظر آتا ہے۔ پھر جب سمندر کی موجیں اور تیز ہوائیں جہاز کو ڈگمگا دیتی ہیں تو ہر مسافر سہما سہما نظر آنے لگتا ہے۔ نزدیک کوئی خشکی نہیں، کوئی بستی نہیں جہاز میں سوار تمام مسافروں کی زندگی کا انجام بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ ایک شدید جھٹکا لگے جو جہاز کو الٹ دے تو تمام مسافروں کی لاشیں سمندر کیا تھاہ گہرائیوں تک پہنچ کر دم لیں یا کسی آبی جانور کا لقمہ بن جائیں اور اس حال میں جان دیں کہ ان کے لواحقین کو خبر تک بھی نہ ہو سکے۔

 

۴۴۔   مگر ہماری رحمت [۴۳] سے ہی (پار لگ جاتے ہیں) اور کچھ مدت تک زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

 

[۴۳] یہ بس اللہ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ سمندر اور ہواؤں کی سرکش اور بے پناہ قوت کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور مسافر اور تاجر اکثر اوقات صحیح و سلامت دوسرے کنارے پر جا اترتے ہیں۔ اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہو تو بنی نوع انسان کی ایک کثیر تعداد سمندر کا لقمہ اجل بن جائے۔

 

۴۵۔   اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس انجام سے ڈر جاؤ جو تمہارے سامنے [۴۴] ہے یا پیچھے گزر چکا ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (تو اس کی کچھ پروا نہیں کرتے)

 

[۴۴] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ سابقہ قوموں کا یہ انجام بھی تمہارے سامنے ہے اور تم خود بھی ایسے ہی انجام کی طرف جا رہے ہو کیونکہ جس قوم نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا زور توڑ کے رکھ دیا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آئندہ تم سے تمہارے اعمال کا محاسبہ کیا جانے والا ہے اس کو بھی مد نظر رکھو اور ان اعمال کو بھی جو تم کر چکے ہو۔ اگر تم اپنے برے انجام سے ڈر گئے اور کچھ سبق حاصل کر لیا تو پھر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اللہ تم پر مہربانی فرمائے گا۔

 

۴۶۔   اور جب بھی ان کے پاس ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی [۴۵] آتی ہے تو وہ اس سے اعراض ہی کر جاتے ہیں

 

[۴۵] نشانی سے مراد خرق عادت یا معجزہ بھی ہو سکتا ہے اور قرآن کی آیات بھی کہ قرآن کی ہر آیت بذات خود ایک معجزہ ہے۔ اور آفاق و انفس کی آیات بھی یعنی جب بھی کوئی نشانی ان کے سامنے آتی یا لائی جاتی ہے تو اس میں غور و فکر کرنا بلکہ اسے توجہ سے سننا یا دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

 

۴۷۔   اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرو۔ تو کافر ایمان والوں کو یوں جواب دیتے ہیں کہ: ’’کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو خود [۴۶] ہی کھلا سکتا تھا؟‘‘ تم تو صریح گمراہی میں پڑ گئے ہو۔

 

[۴۶] مشیت کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب جرم اپنا ہو:۔ یہ ہے ان کج بحث اور ہٹ دھرم لوگوں کی ’خوے بدرا بہانہ بسیار‘ والی بات یعنی وہ خوب جانتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کرنا بڑا اچھا اور نیک کام ہے۔ امیری ہو یا غریبی اللہ ہر حال میں سب کی آزمائش کرتا ہے۔ امیروں کی اس طرح کہ وہ غریبوں کو کچھ دیتے ہیں یا نہیں اور غریبوں کی اس طرح کہ وہ اس حال میں صبر اور اللہ کا شکر کرتے ہیں یا نہیں۔ اصل مشیت تو اللہ کی یہ ہے کہ کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنا کر دونوں کی آزمائش کرے جبکہ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو انہیں خود ہی اپنے پاس سے دے دیتا۔ اور ان کی واضح گمراہی یا ان کا یہ استدلال باطل اسی لحاظ سے ہے کہ مشیت الٰہی کا سہارا اس وقت لیتے ہیں جب یہ خود مجرم ہوں اور جب کوئی دوسرا مجرم ہو اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہو تو کبھی مشیت الٰہی کا سہارا نہ لیں گے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکو ان سے مال چھین لے جائے تو اس وقت اس کے خلاف پوری چارہ جوئی کریں گے اور اس وقت کبھی نہ کہیں گے کہ ڈاکو کا کوئی قصور نہیں یا ہمیں سب کچھ برداشت کر لینا چاہئے کیونکہ اللہ کی مشیئت یہی تھی۔ واضح رہے کہ یہ مطلب اس لحاظ سے ہو گا جب ﴿إنْ أنْتُمْ الآَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ﴾ کو اللہ کا فرمان سمجھا جائے۔ اور اگر اس جملہ کو صدقہ نہ دینے والے کافروں کا کلام سمجھا جائے اور اس کے مخاطب مسلمان ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمانو! تمہاری گمراہی بڑی واضح ہے کہ جن لوگوں کا اللہ پیٹ بھرنا نہیں چاہتا تم ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو۔

 

۴۸۔   نیز وہ کہتے ہیں کہ: ’’اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ (قیامت) کب پورا ہو گا؟‘‘

۴۹۔   وہ صرف ایک دھماکے کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں آ پکڑے گا جبکہ یہ آپس میں [۴۷] جھگڑ رہے ہوں گے۔

 

[۴۷] قیامت دفعتاً آ جائے گی:۔ قیامت جب آئے گی تو وہ آہستہ آہستہ نہیں آئے گی جسے تم دیکھ کر سمجھ لو کہ آ رہی ہے اور کچھ سنبھل جاؤ۔ بلکہ اس وقت تم اپنے اپنے کام کاج میں پوری طرح منہمک ہو گے، کوئی کاروبار کر رہا ہو گا، کوئی سودا بازی کرتے ہوئے جھگڑ رہا ہو گا، اس وقت اچانک ایک زور کا دھماکہ ہو گا اور جو شخص جس حال میں بھی ہو گا وہیں دھر لیا جائے گا۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ قیامت اس حال میں آئے گی کہ دو آدمی اپنا کپڑا بچھائے بیٹھے ہوں گے وہ اس کی سودا بازی اور کپڑا لپیٹنے سے ابھی فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی اور آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر چلے گا۔ ابھی اس کو پئے گا نہیں کہ قیامت آ جائے گی اور کوئی آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہو گا پھر ابھی اس کا پانی پیا نہیں جائے گا کہ قیامت آ جائے گی اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ منہ کی طرف اٹھا رہا ہو گا اور ابھی کھایا نہ ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔

(بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب بلا عنوان)

 

۵۰۔   اس وقت وہ نہ تو وصیت کر سکیں گے اور نہ ہی اپنے گھروں کو واپس [۴۸] جا سکیں گے۔

 

[۴۸] قیامت آ گئی تو پھر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ کچھ وصیت ہی کر سکیں یا جو باہر ہیں وہ اپنے گھر واپس جا سکیں بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی موجود ہو گا وہیں اس کا کام تمام کر دیا جائے گا۔

 

۵۱۔   اور (جب) صور پھونکا جائے گا تو وہ فوراً اپنی قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے

۵۲۔   کہیں گے: ’’افسوس! ہمیں ہماری خواب گاہ سے کس [۴۹] نے اٹھا کھڑا کیا؟‘‘ یہ تو وہی چیز ہے جس کا رحمن [۵۰] نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا

 

[۴۹] دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا اثر:۔ نفخہ صور اول سے تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے اور اسی بے ہوشی کے عالم میں ہی ان کی موت واقع ہو گی۔ پھر جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو وہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ کیا حادثہ پیش آیا تھا اور وہ اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ جیسے کسی شخص کا بس سے ایکسیڈنٹ ہو جائے تو وہ بے ہوش ہو جائے۔ اور اسے ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کچھ مدت بعد ہوش میں آتا اور آنکھیں کھولتا ہے تو اس وقت وہ یہ دیکھتا ہے کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور کیسے یہاں پہنچ گیا ہوں؟ اسے اپنی بے ہوشی کی بھی کچھ خبر نہیں ہوتی یہی حال ان لوگوں کا ہو گا۔ وہ بالکل اجنبی اور دہشت ناک ماحول دیکھ کر پہلی بات جو کریں گے وہ یہ ہو گی کہ ہم تو آرام سے پڑے سو رہے تھے ہمیں کس نے جگا دیا ہے؟ انہیں کچھ اپنی موت سے پہلے کی کوئی خبر ذہن میں آئے گی نہ عذاب قبر کی۔ وہ قیامت کی ہولناکیوں کے مقابلہ میں اسے بھی بس ایک خواب ہی سمجھیں گے۔

[۵۰] اس جملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب وہ اس ماحول کو سمجھنے کے لئے اپنے ذہن پر زور ڈالیں گے تو انہیں از خود یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ تو وہی چیز ہے جو رسول ہمیں کہا کرتے تھے اور ہم اس کا انکار کر دیا کرتے تھے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کی اس سراسیمگی کی حالت میں اہل ایمان یا فرشتے انہیں مطلع کریں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا اللہ نے تم لوگوں سے وعدہ کیا تھا اور جب بھی رسول تمہیں اللہ کے اس وعدہ اور اس قیامت کے دن سے ڈراتے تھے تو ہر بار تم یہی کہہ دیتے تھے کہ وہ کب ہو گا سو آج اپنی آنکھوں سے وہ دن دیکھ لو۔

 

۵۳۔   وہ بس ایک ہی گرجدار آواز ہو گی پھر وہ فوراً سب کے سب [۵۱] ہمارے حضور پیش کر دیئے جائیں گے

 

[۵۱] جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہو جائے گا تو فرشتے انہیں دھکیل کر میدان محشر کی طرف لے جائیں گے اور وہ مجرموں کی طرح اللہ کے حضور جواب دہی کے لئے پیش کر دیئے جائیں گے۔ اور ساتھ ہی انہیں یہ بتا دیا جائے گا کہ تم دنیا میں جیسے اعمال کر کے آئے ہو ویسا ہی تمہیں بدلہ دیا جائے گا تاہم یہ یقین رکھو کہ تمہیں تمہارے جرائم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔

 

۵۴۔   آج کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے رہے۔

۵۵۔   آج اہل جنت مزے اڑانے میں مشغول ہوں گے

۵۶۔   وہ اور ان کی بیویاں چھاؤں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے۔

۵۷۔   وہاں انہیں کھانے کو میوے بھی ملیں گے اور جو کچھ وہ طلب کریں گے [۵۲] وہ بھی ملے گا

 

[۵۲] یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق مجرموں کے ساتھ اپنے فرمانبرداروں کا اور ان کے حسن اجر کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ مجرموں سے ابھی جواب طلبی اور حساب لینے کا کام باقی ہو گا مگر اس وقت اہل جنت، جنت میں داخل ہو چکے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور بعض دوسروں سے آسان اور سرسری سا حساب لے کر انہیں جنت میں داخل کیا جا چکا ہو گا۔ وہاں وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہوں گے۔ ٹھنڈی چھاؤں میں ان کے تخت بچھائے گئے ہوں گے وہ اور ان کی بیویاں آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ہر قسم کے میوے اور پھل ان کے پاس حاضر ہوں گے۔ علاوہ ازیں جس چیز کی بھی وہ آرزو کریں گے فوراً حاضر کر دی جائے گی۔

 

۵۸۔   مہربان پروردگار فرمائے گا (تم پر) سلامتی [۵۳] ہو۔

 

[۵۳] ان اہل جنت کے مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا۔ خواہ یہ اللہ کی طرف سے سلام فرشتوں کی وساطت سے ہو۔ یا بلاواسطہ اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرمائیں۔ کیونکہ عالم آخرت کے احوال عالم دنیا جیسے نہیں ہوں گے۔ اس دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا۔ مگر جنت میں اہل جنت اللہ تعالیٰ کو یوں دیکھ سکیں گے جیسے یہاں ہم چاند کی طرف دیکھ سکتے ہیں اور ہمیں راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس دنیا میں اللہ کو کسی نے نہیں دیکھا البتہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰؑ سے براہ راست بلاواسطہ کلام ضرور کیا ہے۔ لہٰذا عالم آخرت میں اللہ تعالیٰ کا اہل جنت سے اور اہل جنت کا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا بدرجہ اولیٰ ممکن ہو گا۔

 

۵۹۔   اور اے مجرمو! آج تم الگ [۵۴] ہو جاؤ

 

[۵۴] اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ دنیا میں مجرم اور فرمانبردار سب ملے جلے رہتے ہیں اور ایسا ہی ممکن ہے کہ باپ مجرم اور بیٹا اللہ کا فرمانبردار ہو اور وہ ایک ہی جگہ رہتے ہوں۔ وہاں یہ صورت نہیں ہو گی۔ نہ وہاں نسب کا لحاظ ہو گا۔ بلکہ مجرموں کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اللہ کے فرمانبرداروں سے الگ ہو جائیں اور جن لوگوں کا وہ دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے بچشم خود دیکھ لیں کہ آج ان کو کیسی کیسی نعمتیں اور آرام مہیا ہیں۔ اور دوسرا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اے گروہ مجرمین! تم باہم مل کر نہ رہو۔ بلکہ الگ الگ کھڑے ہو جاؤ۔ کیونکہ تم سے انفرادی طور پر ٹھیک ٹھاک باز پرس ہونے والی ہے۔

 

۶۰۔   اے بنی آدم! کیا میں نے تمہیں تاکید نہیں کی تھی کہ شیطان کی عبادت [۵۵] نہ کرنا وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

 

[۵۵] شیطان کی عبادت کیسے ہوتی ہے؟ اس آیت میں عبادت کا لفظ دو معنی ادا کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ عبادت بمعنی اطاعت لیا جائے۔ کیونکہ شیطان کی عبادت تو کوئی کیا کرے گا اس پر تو سب لعنت ہی بھیجتے ہیں اور دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ آج تک اللہ کے سوا جتنے بھی معبودوں کی عبادت کی جاتی رہی ہے شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ہی کی جاتی رہی ہے۔ لہٰذا فی الحقیقت یہ شیطان ہی کی عبادت ہوئی۔

 

۶۱۔   اور میری ہی عبادت [۵۶] کرنا۔ یہی سیدھا راستہ ہے

 

[۵۶] عبادت کا مفہوم:۔ سیدھے راستہ کی تفصیل میں جائیں تو اس سے مراد تمام تر شریعت ہے اور انتہائی مختصر الفاظ میں سیدھے راستہ کی تعریف کی جائے تو وہ یہ ہے کہ ’’صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے‘‘ اس جملہ میں شرک کی تمام تر اقسام کی تردید ہو گئی۔ پھر عبادت کا مفہوم بھی بہت وسیع ہے۔ عبادت سے عموماً ارکان اسلام کی بجا آوری مراد لی جاتی ہے تو یہ عبادت کی صرف ایک معروف قسم ہے۔ کسی کو اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا بھی عبادت ہے۔ پھر عبادت کا لغوی معنی بندگی اور غلام ہے وہ بھی تذلل کے ساتھ اور غلام ہر وقت غلام ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں کتاب و سنت کے تمام اوامر و نواہی کی بجا آوری بھی آ جاتی ہے۔

 

۶۲۔   وہ تو تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ [۵۷] کر چکا ہے کیا تم سوچتے نہیں؟

 

[۵۷] باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے عہد لیا تھا، اور یہ عہد ألَسْتُ بِرَبِّکُمْ تھا، پھر اللہ نے سمجھنے سوچنے کے لئے تمہیں عقل بھی دی تھی، پھر اللہ تعالیٰ اس عہد کی یاددہانی کے لئے اپنے رسول اور کتابیں بھی بھیجتا رہا پھر یہی شیطان بنی آدم کی ایک کثیر تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لہٰذا اے عہد فراموش مجرمو! تم نے اپنی عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا تو اب اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ جہنم تمہاری منتظر ہے۔ رسولوں کی دعوت سے انکار اور ضد کی سزا یہی ہے کہ اب اس جہنم میں داخل ہو جاؤ۔

 

۶۳۔   یہ ہے وہ جہنم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا

۶۴۔   آج اس میں داخل ہو جاؤ کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے۔

۶۵۔   آج ہم ان کے منہ بند [۵۸] کر دیں گے اور ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور پاؤں گواہی دیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے

 

[۵۸] کٹر قسم کے مجرم جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی بجائے وہاں بھی حسب عادت جھوٹ بولنا شروع کر دیں گے اور اپنے گناہوں سے مکر جائیں گے۔ پھر ان پر شہادتیں قائم کی جائیں گی تو ان شہادتوں اور گواہوں کو بھی جھٹلا دیں گے اور یہی کچھ انہوں نے اس دنیا میں سیکھا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ ان کا یہ علاج کریں گے کہ ان کی زبانوں سے قوت گویائی سلب کر لیں گے۔ اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو قوت گویائی عطا کر دی جائے گی تو ان کے یہ اعضا جن سے انہوں نے گناہ کے کام سرزد کئے ہوں گے ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر ۲۰ کے مطابق ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ جب ان کے اپنے اعضاء کی گواہیوں کے مطابق ان کے جرم ثابت ہو جائیں گے تو وہ اپنے ان گواہی دینے والے اعضاء کو مخاطب کر کے کہیں گے کہ ظالمو! ہم نے تمہیں بچانے کے لئے ہی تو جھوٹ بولا تھا۔ پھر تم نے یہ کیا ظلم ڈھا دیا؟ تو اعضاء انہیں جواب دیں گے کہ ’’ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی بخشی تھی جس نے ہر چیز کو بخشی ہے‘‘ (۴۱: ۲۱) پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم صحیح صحیح گواہی نہ دیتے؟

اعضاء و جوارح کی گواہی کیسے ہو گی؟ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کے اعضاء سے ان کے خلاف زبردستی گواہی نہیں لیں گے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے مگر یہ بات اس کی صفت عدل کے خلاف ہے کہ اگر وہ زبردستی ان کے خلاف شہادت چاہتا تو خود ان سے اور ان کی زبانوں سے بھی لے سکتا تھا۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان سے جو اقوال، اعمال اور افعال سرزد ہوتے ہیں تو اس کے اثرات (جسے سورۃ یٰسین میں اٰثَارَھُم کہا گیا ہے) فضا میں مرتسم ہوتے جاتے ہیں اور خود انسان کے اعضا پر بھی مرتسم ہوتے ہیں جدید تحقیق کے مطابق بنی آدم سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے اقوال اور آوازیں بدستور فضا میں موجود ہیں۔ مگر وہ آپس میں ملی جلی اور گڈ مڈ ہیں اور انسان تا حال اس بات پر قادر نہیں ہو سکا کہ کسی خاص شخص کے مثلاً کسی نبی کے تمام تر اقوال الگ کر کے سن سکے۔ البتہ انسان اس بات پر بھی قادر ہو چکا ہے کہ تین چار گھنٹے کے اندر اندر کسی مجرم کے اعضاء کا خورد بینی مطالعہ کر کے یہ معلوم کر سکے کہ اس شخص نے واقعی یہ جرم کیا ہے یا نہیں؟ اور اللہ تعالیٰ تو خود ہر چیز کا خالق اور ہر چیز کی فطرت اور حقیقت کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہٰذا جب مجرم لوگوں کے ان اعضاء کو قوت گویائی دی جائے گی تو وہی حقیقت وہ بیان کریں گے جو ان پر گناہ کے دوران ثبت ہوئی تھی وہ برملا بول اٹھیں گے کہ اس شخص نے ہم سے فلاں اور فلاں گناہ کا کام کیا تھا اور فلاں فلاں وقت کیا تھا۔

 

۶۶۔   اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں مٹا دیں پھر وہ راہ کی طرف آگے بڑھیں تو کیونکر [۵۹] دیکھ سکیں گے

 

[۵۹] فوراً سزا دینا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے:۔ ایسے کٹر مجرموں کو اگر ہم چاہیں تو اس دنیا میں بھی سزا دے سکتے ہیں۔ ان کی بینائی سلب کر سکتے ہیں کہ وہ چاہیں بھی تو گناہوں کے کاموں کی طرف آگے بڑھ ہی نہ سکیں اور انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دے۔ اسی طرح اگر چاہیں تو ان پر فالج گرا کر ان کو اپاہج بنا سکتے ہیں کہ اپنی جگہ سے حرکت کر ہی نہ سکیں، نہ آگے بڑھ سکیں نہ پیچھے جا سکیں۔ بس اپنے بستر پر ہی ہاتھ پاؤں رگڑتے رہیں۔ یا ان کا حلیہ ہی بگاڑ سکتے ہیں کہ ان کی دوسری بھی کئی قوتیں ختم ہو جائیں۔ مگر مجرموں کو فوری طور پر پکڑنا ہماری مشیئت کے خلاف ہے اور یہ لوگ اس مہلت کا بڑا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

 

۶۷۔   اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ہی انہیں مسخ کر دیں۔ پھر نہ یہ آگے چل سکیں اور نہ ہی پیچھے لوٹ سکیں گے۔

۶۸۔   اور جس شخص کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں ہی الٹ دیتے ہیں کیا یہ سوچتے [۶۰] نہیں۔

 

[۶۰] بڑھاپے میں بچپنے کی حالت:۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی تمام تر قوتیں ترقی پذیر ہوتی ہیں۔ لیکن جب جوانی سے ڈھل جاتا ہے تو ان تمام قوتوں میں انحطاط آنا شروع ہو جاتا ہے۔ بچپن میں وہ چلنے میں سہارے کا محتاج تھا تو بڑھاپے میں بھی محتاج ہو جاتا ہے۔ اس کی طاقت، اس کی ہمت، اس کا عزم، اس کی عقل غرضیکہ ہر چیز میں اس قدر زوال آ جاتا ہے کہ وہ بچوں جیسا ہو جاتا ہے۔ اور اس سارے عمل میں انسان خود مجبور محض ہوتا ہے۔ کیا پھر بھی اسے سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہم چاہیں تو اسے اندھا بھی کر سکتے ہیں۔ اسے اپاہج بھی بنا سکتے ہیں اس کا حلیہ بھی بگاڑ سکتے ہیں اور وہ چاہے یا نہ چاہے ہم اسے دوبارہ زندہ کر کے اس کے گناہوں کی اسے سزا بھی دے سکتے ہیں۔

 

۶۹۔   ہم نے اس (نبی) کو شعر کہنا نہیں سکھایا [۶۱] اور یہ اس کے لئے مناسب [۶۲] بھی نہ تھا۔ یہ تو ایک نصیحت اور واضح پڑھی جانے والی کتاب ہے

 

[۶۱] آپ کے لئے شاعری اس لئے مناسب نہیں کہ شاعروں کے کلام میں جب تک جھوٹ اور مبالغہ کی آمیزش نہ ہو اس کے کلام میں نہ حسن پیدا ہوتا ہے اور نہ دلکشی اور نہ ہی کوئی ان کے اشعار کو پسند کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے تخیلات خواہ کتنے ہی بلند ہوں ان کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی عملی زندگی عموماً ان کے اقوال کے برعکس ہوتی ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کے انداز فکر کے لئے کوئی متعین راہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر میدان میں ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ شعر میں اگر کوئی چیز پسندیدہ ہو سکتی ہے تو وہ اس کی تاثیر اور دل نشینی ہے اور یہ چیز قرآن میں نثر ہونے کے باوجود بدرجہ اتم پائی جاتی ہے گویا شعر میں جو چیز کام کی تھی یا اس کی روح تھی وہ پوری طرح قرآن میں موجود ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ عرب جنہیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ غیر عرب کو عجمی کہتے تھے۔ قرآن کو شعر یا سحر کہنے لگتے تھے اور حامل قرآن کو شاعر اور ساحر۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شعر اور سحر کو قرآن سے کوئی نسبت نہیں کیا کبھی شاعری یا جادو کی بنیاد پر دنیا میں قومیت و روحانیت کی ایسی عظیم الشان اور لازوال عمارت کھڑی ہو سکتی ہے جو قرآنی تعلیم کی اساس پر قائم ہوئی اور آج تک قائم ہے۔

آپ کا وزن توڑ کر شعر پڑھنا:۔ آپﷺ کی اللہ تعالیٰ نے طبیعت ہی ایسی بنائی تھی کہ آپﷺ شعر کو موزوں نہیں کر سکتے تھے اور اگر کبھی کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر پڑھتے تو اس کا وزن توڑ دیتے تھے۔ چنانچہ سیدنا رافع بن خدیجؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جنگ ہوازن کے اموال غنیمت میں سے ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصین اور اقرع بن حابس کو سو سو اونٹ دیئے اور عباس بن مرداس (انصاری) کو کچھ کم دیئے تو اس نے چند شعر کہے جن کا پہلا شعر یہ تھا۔

اتجعل نھبی و نھب العبید
بین العیینہ والاقرع

(یعنی کیا آپﷺ میرا اور میرے گھوڑے عبید کا حصہ عیینہ اوراقرع کو دے رہے ہیں) جب آپﷺ کو اس شکوہ کی خبر ملی تو آپ نے صرف انصار کو ایک خیمہ کے نیچے اکٹھا کیا پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کس نے یہ شعر کہا ہے اور جب آپ نے مندرجہ بالا شعر پڑھا تو اسے یوں پڑھا۔

اتجعل نھبی ونھب العبید
بین الاقرع والعیینۃ

گویا آپﷺ نے دوسرے مصرعہ کا وزن توڑ دیا تو یہ سن کر ایک صحابی کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ

﴿وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہ﴾
(مسلم۔ کتاب الجہاد وا لسیر۔ باب فتح مکۃ عن ابی ہریرہ)
آپ نے زندگی بھر میں دو تین شعر کہے جنہیں اگر شعر کے بجائے منظوم کلام کہا جائے تو مناسب ہو گا۔ وہ در اصل نثر کے ٹکڑے ہوتے جو بے ساختہ منظوم بن جاتے تھے اور وہ یہ ہیں۔
۱۔ آپﷺ کے اشعار:۔ سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جہاد کے دوران آپﷺ کو ٹھوکر لگی جس سے آپﷺ کے پاؤں کی انگلی خون آلود ہو گئی اس وقت آپﷺ نے اس انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا:
ھَلْ أنْتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِیْتِ۔۔
وَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ مَا لَقِیْتِ
’’تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہو گئی۔ اگر تو اللہ کی راہ میں زخمی ہو گئی تو کیا ہوا‘‘
(بخاری کتاب الادب۔ باب مایجوز من الشعر)
۲۔ جنگ حنین میں ایک موقعہ ایسا آیا جب بہت سے صحابہ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت آپ ایک سفید خچر پر سوار بڑے جوش سے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ۔۔
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
’’اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں‘‘
(بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قولہ تعالیٰ یوم حنین اذ أعجبتکم کثرتکم)
[۶۲] آپ کو شعر کیوں نہیں سکھایا گیا؟ ہم نے آپﷺ کی طبیعت شاعرانہ اس لئے نہیں بنائی کہ یہ قرآن کتاب ہدایت ہے۔ جس میں دنیا و آخرت کی زندگی کے ٹھوس حقائق مذکور ہیں۔ جبکہ شاعری نری طبع آزمائی اور خیالی تک بندیاں ہوتی ہیں تو جب قرآن کی شاعری سے کوئی نسبت نہیں تو حامل قرآن کی طبیعت قرآن کے مزاج کے موافق ہونی چاہئے۔ نہ کہ شاعر کے موافق۔

 

۷۰۔   تاکہ جو زندہ ہے وہ اسے ڈرائے اور انکار کرنے والوں [۶۳] پر حجت قائم ہو جائے۔

 

[۶۳] یعنی جس شخص کا ضمیر ابھی مردہ نہیں ہوا اور وہ ہدایت کا طالب ہے آپ اسے اس کے انجام سے آگاہ کریں۔ تاکہ ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں پر حجت پوری ہو سکے اور یہ کام تب ہی ممکن ہے کہ قرآن اور حامل قرآن کا مزاج شاعرانہ نہیں بلکہ حکیمانہ اور ناصحانہ ہو۔

 

۷۱۔   کیا وہ دیکھتے نہیں کہ جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہیں ان میں سے ان کے لئے چوپائے [۶۴] پیدا تو ہم نے کئے اور اب یہ ان کے مالک ہیں۔

 

[۶۴] مثلاً گائے، بیل، بھیڑ، بکری، اونٹ، گھوڑے، گدھے یہ سب قسم کے جانور الگ الگ انواع ہیں۔ اور سب انسان کے فائدے کے لئے اللہ نے بنائی ہیں ان کی نسل بھی ایسے ہی نطفہ سے چلتی ہے جیسے انسان کی چلتی ہے۔ اور نطفہ بے جان مادوں سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ چیزیں انسان کی مملوک نہیں تھیں۔ اللہ نے انسان کو عقل دی۔ عقل کے ذریعہ اس نے چوپایوں کو اپنے قابو میں کیا۔ پھر ان میں اپنے لئے فوائد دیکھے تو انہیں اپنے گھروں میں پالنا شروع کر دیا اور آپس میں ان کی خرید و فروخت شروع کر دی اور ان کے مالک بن بیٹھے۔

 

۷۲۔   اور ہم نے ان مویشیوں کو ان کا مطیع [۶۵] بنا دیا ہے کہ ان میں کسی پر تو سوار ہوتے ہیں اور کسی کا گوشت کھاتے ہیں

 

[۶۵] مویشیوں سے حاصل ہونے والے فوائد:۔ انسان کی سرشت اللہ تعالیٰ نے یہ بنائی کہ اپنی عقل سے کام لے کر ہر قسم کے جانوروں کو اپنے قابو میں لائے اور چوپایوں کی سرشت یہ بنا دی کہ انسان کے مطیع فرمان بن جائیں ورنہ ان چوپایوں میں اکثر ایسے ہیں جو انسان سے بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ ایک گھوڑا انسان کو دولتی مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ ایک اونٹ انسان کی کھوپڑی میں اپنے دانت گاڑ کر اور ایک ہاتھی اسے اپنے پاؤں تلے مسل کر انسان کو فنا کر کے اس سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ مگر انسان پر اللہ تعالیٰ کی یہ خاص مہربانی ہے کہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کو ایک کم عمر بچہ نکیل پکڑ کر جدھر چاہے لے جا سکتا ہے۔ پھر وہ بے جان چیزوں کی طرح اپنے سے بہت عظیم الجثہ اور طاقتور جانداروں کو بھی مطیع بنا کر ان سے کئی طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ یہ چوپائے انسان کی سواری کے کام بھی آتے ہیں اور اس کی خوراک بھی بنتے ہیں۔ ان کے بالوں سے وہ لباس بھی تیار کرتا ہے۔ ان سے دودھ بھی حاصل کرتا ہے۔ جس سے دہی، مکھن، بالائی، گھی وغیرہ بنتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان چوپایوں کے مرنے یا ذبح ہونے کے بعد بھی ان کی کھالوں، ہڈیوں اور دانتوں کو اپنے کام میں لاتا ہے۔

 

۷۳۔   نیز ان سے انہیں اور بھی کئی فوائد اور مشروب حاصل ہوتے ہیں کیا پھر بھی یہ شکر ادا [۶۶] نہیں کرتے۔

 

[۶۶] یہ سب قسم کے احسانات تو انسان پر اللہ تعالیٰ نے کئے۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا اس نے انہیں جانوروں کی قربانیاں بتوں کے نام پر کیں اور استھانوں میں کیں۔ بتوں کے نام پر جانور آزاد چھوڑے۔ جن کا ان جانوروں کی پیدائش میں اور ان کو انسان کے مطیع فرمان بنانے میں کچھ بھی عمل دخل نہ تھا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کفران نعمت اور نمک حرامی ہو سکتی ہے؟

 

۷۴۔   اور انہوں نے اللہ کے علاوہ کئی الٰہ بنا رکھے ہیں (اس امید پر) کہ ان کی مدد کی جائے

۷۵۔   (حالانکہ) وہ ان کی کچھ مدد نہ کر سکیں گے بلکہ وہ ان کے لشکر (مخالف) کی حیثیت [۶۷] سے پیش کئے جائیں گے

 

[۶۷] معبودان باطل کی دنیا اور آخرت میں بے بسی:۔ انسان نے جس چیز کی بھی عبادت کی ہے۔ یا فریاد کی ہے یا اس کے آگے نذریں نیازیں پیش کی ہیں تو اس لئے کہ وہ معبود ان کی مشکل دور کریں گے یا کوئی حاجت پوری کر دیں گے۔ یا اگر وہ روز آخرت پر بھی ایمان رکھتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ وہ قیامت کو سفارش کر دیں گے یا عذاب سے بچا لیں گے اور ان سب باتوں میں مدد کا پہلو شامل ہے۔ اور مدد کے لفظ میں یہ سب باتیں آ جاتی ہیں۔ اب اس مدد کے دو پہلو ہیں ایک دنیا میں، دوسرے آخرت میں۔ دنیا میں ان کی مدد کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عابدوں کی مدد تو کیا کریں گے وہ تو اپنی بقاء اپنی حفاظت اور اپنی ضروریات کے لئے ان کے محتاج ہیں کہ وہ ان کے آستانوں میں اور قبروں پر جھاڑو دیں۔ ان کو چمکا کر رکھیں، روشنی کا انتظام کریں۔ اگر ان عابدوں کے یہ لشکر نہ ہوں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ یہ خود ان کے حاضر باش غلام بنے ہوئے ہیں۔ ان کے آستانے اور بارگاہیں تعمیر کرتے اور سجاتے ہیں۔ ان کے لئے پروپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ خلق خدا کو ان کا گرویدہ بنائیں۔ یہ خود تو ان کی حمایت میں لڑتے اور جھگڑے ہیں۔ تب کہیں جا کر ان کی خدائی چلتی ہے۔ ان معبودوں کے عابدوں کا لشکر اگر ان کی یہ خدمات سرانجام نہ دیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہ چلے۔ اور آخرت میں ان کی مدد کا یہ حال ہو گا کہ جب اللہ تعالیٰ ان عابدوں کو ان معبودوں کے ساتھ اپنے سامنے لا کھڑا کریں گے تو یہی معبود ان کے دشمن بن جائیں گے اور ایسے دلائل دیں گے کہ خود تو بچ جائیں مگر انہیں گرفتار کرا کے چھوڑیں گے۔ اس وقت ان عابدوں کو پتہ چل جائے گا کہ جن معبودوں کی حمایت میں وہ زندگی بھر لڑتے بھڑتے رہے وہ آج کس طرح انہیں آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ڈٹ کر ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔

 

۷۶۔   لہٰذا ان کی باتیں آپ کو غمزدہ نہ کریں۔ ہم یقیناً جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے [۶۸] ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔

 

[۶۸] اگر یہ لوگ اپنے پروردگار اور منعم حقیقی کے معاملہ میں اس قدر نا انصاف اور ظالم واقع ہوئے ہیں تو آپﷺ کو بھی ان کے اس معاندانہ رویہ پر غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ یہ لوگ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ آپ کاہن ہیں، دیوانہ ہیں، جادوگر ہیں، اللہ پر افترا باندھتے ہیں۔ اور دوسرے لوگوں کو یہ باتیں اس لئے کہتے ہیں کہ جیسے بھی بن پڑے اسلام کو اور آپ کو دبا سکیں۔ لیکن یہی لوگ اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے اور پوری طرح سمجھتے تھے کہ جو الزامات یہ رسول اللہ صلی اللہ پر لگا رہے ہیں وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہیں۔ لہٰذا آپﷺ کو پریشان اور غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ حق کے مقابلہ میں ان کا یہ جھوٹا پروپیگنڈہ زیادہ دیر نہ چل سکے گا۔

 

۷۷۔   کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر وہ (حقائق سے اعراض کر کے) صریح [۶۹] جھگڑالو بن گیا۔

 

[۶۹] انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس نطفہ سے پیدا کیا گیا ہے جو بے جان چیزوں سے بنا تھا۔ پھر اللہ نے اس میں روح پھونکی تو نہ صرف یہ کہ وہ دوسرے جانداروں کی طرح چلنے پھرنے، کھانے پینے اور پرورش پانے لگا بلکہ اس میں عقل و فہم، قوت استنباط، بحث و استدلال اور تقریر و خطابت کی وہ قابلیتیں پیدا ہو گئیں جو دوسرے کسی جاندار کو حاصل نہ تھیں۔ اور جب وہ اس منزل پر پہنچ گیا تو اپنے خالق کے بارے میں کئی طرح کی بحثیں اور جھگڑے اٹھا کھڑے کئے۔

 

۷۸۔   وہ ہمارے لئے تو مثال بیان کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے، کہتا ہے کہ: ’’ہڈیاں جب بوسیدہ ہو چکی ہوں گی تو انہیں کون زندہ [۷۰] کرے گا؟‘‘

 

[۷۰] یعنی وہ اپنے پروردگار کو عام مخلوق کی طرح عاجز سمجھتا ہے کہ جب انسان کسی مردے کو زندہ نہیں کر سکتا تو ہم بھی نہیں کر سکتے۔ وہ ایک بوسیدہ ہڈی کو دکھا کر اور اپنے ہاتھوں سے اسے مسل کر اور چورا چورا کر کے کہتا ہے کہ بتاؤ یہ زندہ ہو سکتی ہے؟ اس وقت اسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ جس نطفہ سے وہ خود پیدا ہوا ہے وہ بھی بے جان غذاؤں سے بنا تھا۔ اگر وہ اس بات پر غور کرتا تو کبھی ایسا اعتراض نہ کرتا۔

 

۷۹۔   آپ اسے کہئے کہ: ’’اسے وہی زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کا پیدا [۷۱] کرنا جانتا ہے

 

[۷۱] اللہ کی تخلیق کے مختلف طریقے:۔ یعنی ایک بیج سے تناور درخت بنا کھڑا کرنے کی صورت اور ہے۔ بے جان غذاؤں سے نطفہ اور نطفہ سے حیوانات اور انسان کو پیدا کر دکھانے کی صورت اور ہے۔ اور کسی مردہ انسان کے گلے سڑے اجزاء کو ملا کر اکٹھا کر کے ان کو زندہ کھڑا کر دینے کی صورت اور ہے۔ غرضیکہ کائنات میں تخلیق کئی صورتوں سے ہو رہی ہے اور اللہ چونکہ خود ہر چیز کا خالق ہے۔ لہٰذا وہ ان سب طریقوں اور صورتوں کو پوری طرح جانتا ہے اور انسان جو ان صورتوں میں کوئی ایک صورت بھی نہیں جانتا نہ جان سکتا ہے وہ اپنے خیال اور اپنی محدود عقل کے مطابق ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے۔

 

۸۰۔   وہی ہے جس نے تمہارے لئے سرسبز درخت سے آگ پیدا [۷۲] کر دی جس سے تم آگ سلگاتے ہو۔

 

[۷۲] اللہ نے ہر مردہ میں زندہ اور زندہ میں مردے کی خاصیت رکھ دی ہے:۔ یعنی درخت کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر آخر میں اسے ایندھن بنا کر اس سے آگ نکالی۔ درخت کا آغاز پانی سے ہوا اور انتہا آگ پر ہوئی اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد بلکہ ایک لحاظ سے ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ آگ تھوڑی مقدار میں ہو تو پانی اس کا وجود ختم کر دیتا ہے۔ اور پانی کم مقدار میں ہو تو آگ اسے آبی بخارات میں تبدیل کر کے اسے ختم کر دیتی ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ایک ہی چیز کے آغاز اور انجام میں متضاد صفات پیدا کر سکتے ہیں تو پھر ایک ہی چیز کو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کیوں نہیں بنا سکتے۔ یہ تو عام درختوں اور پودوں کا حال ہے۔ پھر کچھ درخت ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں رگڑنے سے اس طرح آگ پیدا ہو جاتی ہے جس طرح چقماق پتھر سے پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں موم بتی کی طرح جلتی ہیں۔ کیونکہ ان میں روغن خاصی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر درخت اور پودا جو پانی سے پیدا ہوا ہے اس کے اندر بھی آتش گیری کی صفات رکھ دی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح ہر مردہ میں زندہ ہونے اور زندہ میں مرنے کی صفت بھی فطری طور پر رکھ دی گئی ہے۔

۸۱۔   کیا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا [۷۳] کیا اس بات پر قادر نہیں کہ وہ ان جیسوں کو پیدا کر سکے۔ کیوں نہیں۔ وہی تو سب کچھ پیدا کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

 

[۷۳] درختوں کے فائدے اور آگ کا حصول:۔ آسمانوں اور زمین جیسی عظیم مخلوق کو بھی دیکھ لو اور اپنے آپ پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو کہ ان کے مقابلہ میں تمہاری یا تم جیسوں کی کیا حیثیت اور حقیقت ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تو کیا تمہیں ہی وہ دوبارہ پیدا نہ کر سکے گا حالانکہ وہ تخلیق کے تمام طریقوں کو خوب جانتا ہے۔

 

۸۲۔   اس کا کام تو صرف یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا اعادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی [۷۴] ہے۔

 

[۷۴] اللہ کے کلمہ کن کہنے کا مفہوم:۔ کن یا ’ہو جا‘ کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آ جائے۔ ایسے امور میں بالعموم اللہ کا قانون تدریج کام کرتا ہے جیسا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام (یا چھ ادوار) میں بنایا۔ اگرچہ اس کی قدرت سے یہ بھی مستبعد نہیں کہ فوراً کسی چیز کو عدم سے وجود میں لے آئے۔ اور اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ نے کسی کام اور جس مقصد کے لئے بنایا ہے وہ چیز فوراً وہ کام شروع کر دے۔ اس کے لئے صرف اللہ کے امر کی ضرورت ہے اور وہ کام اسی وقت ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اللہ کے اس امر کو ہم روح بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے کسی کارخانے میں بڑی بڑی دیو ہیکل برقی مشینیں نصب ہوتی ہیں۔ مگر وہ اس وقت تک بے حس و حرکت کھڑی رہتی ہیں جب تک ان میں برقی رو نہ گزاری جائے یا سوئچ آن نہ کیا جائے۔ سوئچ آن کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ فوراً متحرک ہو کر اپنا وہ کام کرنا شروع کر دیتی ہیں جس کام کے لئے بنائی گئی تھیں۔ بالکل یہی صورت اللہ تعالیٰ کے امر ”کن” کی ہے ادھر اللہ نے ارادہ کیا ادھر وہ چیز بن گئی جو مطلوب تھی۔ مقصد یہ ہے کہ تمام انسانوں کی دوبارہ پیدائش بھی فقط اللہ کے ایک اشارے یا ارادے یا امر کن کی محتاج ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ ارادہ کرے گا تو فوراً تمام انسان زندہ ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہو جائیں گے اور انسانوں کے لئے یہ اضطراری امر ہو گا جس کے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہو گا۔

 

۸۳۔   پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ ہر [۷۵] چیز کی حکومت ہے اور اسی کی طرح تم لوٹائے جاؤ گے۔

[۷۵] ہر چیز پر حکومت و تسلط، ہر چیز پر تصرف و اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر یہ مشرکین اللہ کے اختیارات دوسروں میں بانٹ کر اللہ پر جو کئی طرح کے عیوب، کمی، نقص وغیرہ کا الزام لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات مشرکوں کی ایسی تمام بے ہودگیوں سے پاک ہے۔

٭٭٭

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل