FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

 

 

تذکرۂ خواتین

حصہ دوم

 

یعنی ان عورتوں کا کلام جو فارسی میں شعر کہتی تھیں

 

مصور درد مولانا

عبد الباری آسیؔ

الدنی

 

 

 


ردیف الف

آرامؔ

کسی بادشاہ ہندوستان کے محلات میں سے تھیں۔  مگر گردش زمانہ کو دیکھیے اتنا مٹا دیا کہ آج یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کون سا ذی جاہ تھا جس کے شبستان اقبال میں دل آرام جو اس نازک خیال کا نام ہے، جلوہ افروز تھی۔  بعض کا قیاس ہے کہ رنگیلے مزاج بادشاہ نورالدین جہانگیر کی حرم محترم تھیں۔  مگر یہ بات پایۂ تحقیق کو نہیں پہنچتی۔  خدا بہتر جاننے والا ہے۔  آج ہمارے سامنے صرف یہ چند شعر موجود ہیں جو نقل کئے جاتے ہیں۔

محو از دل خود ساز ہمہ نقش عدم را
منزل گہ اغیار مکن فرش حرم را
سرمایۂ عقبیٰ بکف آور کہ مبادا
تقدیر کشد بر سر تو تیغ دودم را
بآہ و نالہ کردم صید خود وحشی نگاہاں را
بزور جذب کردم رام باخود کجکلاہاں را
بہ پوشیدم سحر گہ چوں لباس بیریائی را
گرو کردم بجام مے لباس پارسائی را
شدم ہمدم بہ میخواران بہ خلوت خانۂ حیرت
شکستم ساغر و پیمانۂ زہد ریائی را
گرفتم دامن صحرا شدم ہم پیشۂ مجنوں
سبق آموز گشتم دین عشق بینوائی را

ترجمہ (ا)

اپنے دل سے تمام نقش عدم مٹا دے۔  فرش حرم کو دوسروں یا غیروں کے رہنے کی جگہ نہ بنا۔

اسی مضمون کا ایک شعر تذکرۂ خزانہ عامرۂ مولفہ مولانا غلام علی آزاد میں ایک مرتبہ دیکھا تھا جو اب تک یاد ہے۔

 

غیر حق را مید ہی رہ در حریم دل چرا
میکنی بیگانہ را مہمان ایں من زل چرا

ترجمہ

(1) غیر حق کو راہ دیتا ہے حریم دل میں کیوں
کرتا ہے بیگانہ کو مہمان اس منزل میں کیوں

(2)عقبیٰ کا سرمایہ حاصل کر کہیں ایسا نہ ہو کہ قضا تیرے سر پر تیز تلوار کھینچ لے۔

(3) میں نے آہ و نالہ کر کے وحشی نگاہوں کو اپنا شکار کر لیا۔  اپنے جذب کے زور سے میں نے ٹیڑھی ٹوپی والے معشوقوں کو اپنا تابعدار کر لیا۔

(4) صبح کے وقت جب میں نے بے ریائی کی شراب پی تو ایک جام مے کے بدلے اپنے جامۂ پارسائی کو گرو کر دیا۔

(5) دل میں حیرت کے خلوت خانہ میں شرابیوں کا ہمدم ہو گیا اور زہد کے ساغر اور پیمانۂ ریائی کو توڑ ڈالا۔

(6) میں جنگل میں نکل گیا اور مجنوں کا ہم پیشہ ہو گیا۔  اور بینوائی کے عشق کا سبق پڑھانے والا ہو گیا۔


آرزوی

سمرقند کی رہنے والی ایک شاعرہ تھی تذکر مرأۃالخیال سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت حسین اور صاحب جمال تھی۔  شعر نہایت عمدہ کہتی تھی۔  اکثر نازک نازک مضامین نظم کرتی تھی اور معاصرین سے خراج تحسین وصول کرتی تھی۔  اس کا یہ مطلع نہایت مشہور ہے۔

شدیم خاک رہت گر بدرد ما نرسی
چناں رویم کہ دیگر بگرد ما نرسی

ترجمہ۔  ہم تیری راہ میں خاک ہو گئے ہیں اگر تو ہمارے درد کو نہ پہنچا تو ہم ایسے جائیں گے کہ پھر تو ہماری گرد کو بھی نہ پہنچ سکے گا۔

ماند داغ عشق او بر جانم از ہر آرزو
آرزو و سوزست عشق و من سراسر آرزو

ترجمہ۔  تمام آرزوؤں کے فنا ہونے پر اس کے عشق کا داغ میری جان پر رہ گیا ہے۔  عشق آرزو سوز ہے اور میں سراپا آرزو ہوں۔


آغا باجی

فتح علی شاہ قاچار گزشتہ شاہ ایران کی حرم محترم تھیں۔  شعر کہتی تھیں اور خوب کہتی تھیں۔  چند شعر جو مجھے ملے درج کرتا ہوں۔

خرم آں کو بہ سر کوئے تو جائے دارد
کہ سر کوئے تو خوش آب و ہوائے دارد
بسفر رفت و دلم شد جرس ناقۂ او
رسم انیست کہ ہر ناقہ ورائے دارد
سوختم از آتش غم ناصحا تا کے زمنع
میزنی بر آتشم دامن برو خاموش باش
تا حشر نویسند اگر می نہ شود طے
نے دفتر حسن تو نہ طومار فراقم

ترجمہ (1)  وہ بڑا اچھا جو تیری گلی میں رہتا ہے۔  کیونکہ تیری گلی کی آب و ہوا بڑی اچھی ہے۔
(2) میرا معشوق سفر میں گیا اور میرا دل اس کے ناقہ کا جرس بن کر اس کے ساتھ گیا ہے۔  کیوں نہ ہو، یہ رسم ہے ہر ناقہ کے ساتھ جرس ہوا کرتا ہے۔

(3) میں غم کی آگ سے جل گیا۔  اے ناصح تو کب تک منع کر کر کے میری آگ کو بھڑکائے گا۔  بس بہتر یہی ہے کہ جا خاموش رہ۔

(4) اگر حشر تک لکھتے رہیں تو بھی لکھا نہ جائے گا۔  نہ تیرے حسن کا دفتر اور نہ میری جدائی کا طومار۔


آغا کوچک

سیف اللہ مرزا قاچار کی صبیہ تھی۔  کبھی کبھی شعر کہتی تھی۔  یہ رباعی اسی کی ہے۔

گویند بہشت و حور و کوثر باقی است
در روز جزا دوزخ و محشر باقی است
دوزخ چہ بود بغض علی و آلش
جنت بہ محبت پیمبر باقی است

ترجمہ (1) کہتے ہیں کہ بہشت اور حور اور کوثر باقی رہیں گے۔  روز جزا میں دوزخ اور محشر باقی رہیں گے۔

(2) دوزخ کیا چیز ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور آپ کی اولاد امجاد سے بغض رکھنا۔  اور جنت پیغمبر کی محبت کی وجہ سے باقی ہے۔


آقا بیگہ اباق

سلطان حسین جس کی علم دوستی شہرۂ آفاق تھی اور جس کے امرا میں امیر علی شیر ایک علم پرور دوست امیر تھا۔  اسی کے زمانہ میں یہ شاعرہ شہر ہرات میں رہتی تھی۔  نہایت متمول اور ذی رتبہ تھی۔  خاص و عام کی حاجت برآری اس کا شعار تھا۔  تمام سامان ظاہری اور جائداد و املاک اس کے پاس تھی۔  بڑے بڑے ادیبوں اور فاضلوں کا مجمع رہتا تھا اور اس نے اپنی علو ہمتی سے سب کے وظائف اور تنخواہیں مقرر کر رکھی تھیں۔  چنانچہ خواجہ آصفی کی بھی تنخواہ مقرر تھی۔  یہ اس زمانہ کے ایک مشہور و معروف شاعر تھے۔  ایک مرتبہ اتفاق سے ان کی تنخواہ پہنچنے میں کچھ دیر ہو گئی۔  انہوں نے کچھ دن انتظار کیا۔  جب انتظار سے کوئی کام نہ چلا تو یہ قطعہ آقا بیگہ کو لکھ بھیجا۔

ایا عروس خطا بخش جرم پوش بگو
کہ کے وظیفۂ مارا قرار خواہی داد
بوقت غلہ مرا گفتۂ کہ باز دہم
سرم فدائے درت چند بار خواہی داد

ترجمہ۔  اے خطا بخش اور جرم پوش دلہن یہ بتا کہ ہمارا وظیفہ کب قرار دے گی۔  تو نے غلہ دیتے وقت کہا تھا کہ پھر دیا جائے گا۔  میں تیرے قربان کتنے مرتبہ تو دے گی۔

آقا بیگہ یہ قطعہ پڑھ کر ہنسی اور وظیفہ مقرر معہ کچھ زائد سامان وغیرہ کے
بھیج دیا۔  آقا بیگہ کا دیوان اگرچہ بڑا ہو گا۔  اور ظاہر ہے کہ اس قدر شاعر دوست شاعرہ خود بھی کیسی باکمال ہو گی مگر افسوس کہ آج ان کے چند اشعار کے سوا اور اس کے کلام کا پتا نہیں۔

 

  آہ

نسب نامہ دولت کیقباد
ورق بر ورق بردہر سوئے باد

شعر یہ ہیں۔

آوازاں دامے کہ دارد رشتۂ جاں تاب ازو
و اے بر لعلے کہ ہر دم میخورد خونآب ازو
نتواں دید رخ خوب ترا ماہ بماہ
زانکہ آساں نتواں کرد بخورشید نگا

ترجمہ۔  ہائے فریاد ہے اس جال سے جس سے میرا رشتہ جاں امٹھا جاتا ہے۔  افسوس ہے اس لب سے کہ ہر وقت شراب اس سے اپنا خون پیتی ہے۔
(2) تیرے خوب صورت رخسارہ کو ماہ بماہ نہیں دیکھا جا سکتا۔  اس واسطے کہ آفتاب کو آسانی سے نہیں دیکھ سکتے۔

آقا دوست۔
قیام درویشن کی لڑکی تھی سبزوار کی رہنے والی تھی۔  نہایت فاضل تھی۔  خصوصیت سے علم عروض و قوافی میں بہت کامل دستگاہ حاصل تھی۔  آج صرف چند شعر اس سے یادگار ہیں۔

ز آشنائی تو عاقبت جدائی بود
فغاں کہ با تو مرا ایں چہ آشنائی بود
——————————————————————-

ریختہ صفحہ 188 کتاب 188

ہر کجا آں مہ بآں زلف پریشاں بگزرد
ہر کہ کفر زلف او بیند زایماں بگزرد
اے محباں بوالعجب دردیست درد عاشقی
ہر کہ دامن گیرد ایں دردش زدرماں بگزرد
در فراقش دوستی گرید چو ابر نو بہار
گریۂ رازش چو بیند ابر گریاں بگزرد

ترجمہ (1)  تیری دوستی کا نتیجہ آخر جدائی تھا۔  ہائے دہائی ہے میری تیرے ساتھ یہ کیا اور کیسی آشنائی تھی۔

(2) جہاں کہیں میرا معشوق اپنی زلف پریشاں کئے ہوئے گزرتا ہے جو اس کی زلف کے کفر کو دیکھتا ہے۔  ایمان کو چھوڑ دیتا ہے۔

(3) اے دوستو عاشقی کا درد عجب درد ہے۔  یہ درد جس کا دامن پکڑ لیتا ہے وہ علاج سے درگزرتا ہے۔

(4) جو کوئی عاشق ہوا پھر سر و سامان کی امید نہ رکھو۔  کیونکہ عاشق اپنے سر اور سامان کو چھوڑ دیتا ہے۔

(5) اس کی جدائی میں جو دوست ابر نوبہار کی طرح روتا ہے۔  تو جب اس کا رونا دیکھتا ہے تو ابر بھی روتا ہوا گزرتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ردیف ب

بزرگی

کشمیر جنت نظیر کے خطہ کی رہنے والی ایک طوائف تھی۔  گانے بجانے میں مشاق اور دلربائی میں شہرۂ آفاقی تھی۔  آخر میں خدائے کریم نے ہدایت دی اور تمام منہیات سے توبہ کر کے گوشۂ قناعت اختیار کیا۔  دروازہ بند کئے رہتی تھی اور کوئی شخص آنے نہ پاتا تھا۔  عہد جہانگیر میں زندہ تھی۔  ایک شعر اس کا ملتا ہے جو درج کرتا ہوں۔

مو بمو در نالہ ام گوئی کہ استاد ازل
رشتۂ جانم بجائے تار در طنبور بست

ترجمہ۔  میں سر بسر نالہ و زاری بنی ہوئی ہوں۔  گویا کہ استاد ازل نے میرے رشتۂ جاں کو بجائے تار کے طنبور میں باندھا ہے۔

 

 

بلیغہ۔

شیراز کی رہنے والی نہایت طلیق اللسان اور فصیح البیان شاعرہ تھی۔  یہ مطلع اسی کا ہے۔

شب سگ کویت بہر جائیکہ پہلو میزند
روز خورشید آں زمیں را بوسہ بر رو میزند

ترجمہ۔  رات کو تیری گلی کا کتا جس جگہ کہ پہلو رکھتا ہے صبح کے وقت سورج اس زمین کے بوسے لیتا ہے۔


بیدلی۔

یہ شاعرہ ہرات کی رہنے والی خواجہ عبد اللہ کی بیوی تھی۔  خواجہ عبد اللہ ہرات کا رہنے والا خواجہ حکیم کا بیٹا تھا۔  مشہور و معروف آدمی تھا۔  اس شاعرہ کا صرف ایک مطلع اب یادگار ہے۔

روم بہ باغ و زنرگس دو دیدہ وام کنم
کہ تا نظارہ آں سرو خوش خرام کنم

ترجمہ۔  میں باغ میں جاؤں اور جا کر نرگس سے دو آنکھیں قرض لوں۔  تاکہ اس سرو خوش خرام کو دیکھ سکوں۔


بیدلی۔

ناچنے گانے میں مہارت تامہ رکھتی تھی۔  ایران کے ایک قصبہ خیاباں کی رہنے والی تھی۔  ایک شعر اس کی نغمہ سنجی کا یادگار ہے۔

چشم پر خوں و خیال خام آں دلبر درو
مجمر پر آتش است و پارۂ عنبر درو

ترجمہ۔  میری آنکھ میں خون بھرا ہوا ہے۔  اور اس دلبر کا خیال خام اس میں ہے۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آگ بھری ہوئی انگیٹھی میں عنبر کا ٹکڑا کوئی ڈال دیتا ہے۔

 

بیگی۔

تخلص ہے اور آقا بیگی نام تھا۔ اباق جلائز شاید کوئی معزز خطاب یا نسبی لقب نام کے ساتھ شامل تھا۔  امیر علی جلایر کی بیٹی تھی۔  امیر درویش علی کتاب وار حاکم قبۃ الاسلام بلخ برادر امیر نظام الدین علی شیر کی اہلیہ تھی۔  ہرات میں نہایت عزت و حشمت کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی۔  سلطان حسین بہادر خاں کے مقرباں خاص میں تھی۔  خود بھی شعرائے معاصر کے وظیفے اور تنخواہیں مقرر کر رکھی تھیں۔  اس کی یہ رباعی ملتی ہے۔

آبے کہ فلک بلب چکاند مارا
سر گشتہ بہ بحر و بر دواند مارا
اے کاش بہ منزلے رساند مارا
کزہستی خود باز رہاند مارا

ترجمہ (1) آسمان وہ پانی جو ہمارے لبوں پر ٹپکاتا ہے۔  ہم کو سرگشتہ کر کے جنگلوں اور دریاؤں میں پھراتا ہے۔

(2) کاش ہم کو ایسی جگہ پہنچا دے کہ ہم اپنی ہستی سے چھوٹ جائیں۔

بیگی کبھی کبھی شراب بھی پیا کرتی تھی۔  مگر ایک وقت آیا کہ وہ خود متنبہ ہو گئی۔  اور شراب خوری سے توبہ کر لی۔  ایک مرتبہ مرزا بدیع الزماں کی مجلس عیش و سرور گرم تھی۔  بیگی بھی وہاں موجود تھی۔  شراب کا دور چل رہا تھا۔  بدیع الزماں شراب پی رہے تھے مگر بیگی خاموش تھی۔  اسی وقت یہ مطلع نظم کر کے میرزائے مذکور کو سنایا۔

من اگر توبہ زمے کردہ ام اے سرو سہی
تو خود ایں توبہ نہ کر دی کہ مرا مے نہ دہی

اسی شعر کا گویا مرزا غالب نے ترجمہ کیا ہے۔

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا

بنت۔

حسام الدین سالار کی صبیہ تھی۔  شاہ عباس صفوی کے زمانہ کی ایک مشہور شاعرہ نغز گفتار تھی۔  دو شعر اس سے یادگار ہیں جو درج کئے جاتے ہیں۔  باقی کلام ضائع ہو گیا۔  نہیں ملتا

روزیکہ طرب بالب و خال تو کنیم
جاں تازہ بفرخندہ جمال تو کنیم
ایں جرم کہ زندہ ماندہ ام بے رخ تو
در گردن امید وصال تو کنیم

ترجمہ (1) جس روز کہ تیرے لب اور خال کے دیکھنے سے خوشی ہو گی۔  ہم تیرے جمال کو دیکھ کر اپنی جان کو تازہ کریں گے۔

(2) یہ جرم کہ ہم بغیر تیرے دیکھے زندہ رہے۔  تیری امید وصل کے سر ڈالیں گے۔


بنو بیگم

دہلی کی رہنے والی تھی۔  نہایت ذکی اور ذہین تھی۔  نہایت رنگین شعر کہتی تھی۔  ایک یہ شعر اس سے یادگار ہے۔

گر میسر شود آں روئے چو خورشید مرا
بادشاہی چہ کہ دعویٰ خدائی نکنم

٭٭٭

 

 


ردیف بائے فارسی


پری بیگہ۔

نیشا پور کی رہنے والی تھی کلام نہایت مست ہوتا تھا۔  ایک ہی شعر تذکرۂ اختر تاباں سے مل سکا جو درج ہے۔

سراسر جانی اے باد صبا در قالب شوقم
سرت گردم مگر در کوے او بسیار میگردی

ترجمہ۔  اے باد صبا میرے قالب شوق میں تو سراسر جان معلوم ہوتی ہے۔  میں تیرے قربان جاؤں شاید تو اس کی گلی میں بہت چکر لگاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ردیف تائے فوقانی


تصویر۔

مرشد آباد کی رہنے والی تھی۔  بلقیس خانم نام تھا۔  اردو کی شاعرہ تھی۔  میر جوشش عظیم آبادی نے مصنف تذکرہ اختر تاباں سے بیان کیا کہ اگرچہ یہ صرف اردو شعر کہتی تھی مگر ایک یہ شعر فارسی بھی اسی کا ہے۔

فتنہ زائی منت شناختہ ام
بد بلائی منت شناختہ ام

ترجمہ۔  تو بڑا فتنہ پرداز ہے میں نے تجھے خوب سمجھ لیا ہے۔  تو بڑا ہی بدلا ہے میں نے تجھے پہچان لیا ہے۔

میر جوشش کا بیان ہے کہ ایک روز یہ اپنے بچہ کو گود میں لئے گھر کے صحن میں کھڑی تھی اور کھلا رہی تھی۔  میر عشق جو اس کے شوہر تھے باہر سے آئے اور اس حال میں اس کو دیکھ کر یہ مصرع پڑھا

دیدم بدوش آں مہ طفلے پری نژزادے

تصویر سے رہا نہ گیا اور فوراً دوسرا مصرع لگا کر شوہر کے سامنے پڑھا۔  عجیب و غریب مصرع کہا ہے۔

چو مصرعے کہ باشد پیوند مستزادے

توتی۔

ایک ایرانی پردہ نشین خاتون کا تخلص تھا۔  مرزا کمال الدین سنجر قزوینی مرزا سپہر لسان الملک مولف ناسخ التواریخ کی زبانی صاحب تذکرۂ اختر تاباں یہ نقل کرتے ہیں کہ توتی کے شوہر امرد پرست ایرانی مذاق کے بزرگ تھے۔  ایک لڑکے پر ایسے فریفتہ تھے کہ بیچاری توتی کی طرف کبھی ملتفت ہی نہ ہوتے تھے۔  توتی اپنے شوہر کی اس نامعقول حرکت سے عاجز تھی۔  ایک دن جان پر کھیل کر یہ رباعی کہی اور شوہر کے حوالے کی۔

آں شوخ کہ ہست حسن عالمگیرش
یا رب چہ شود شبے بخوابم زیرش
اے خواجہ بیا تا من و تو صلح کنیم
تو با۔۔ ۔  نش بساز و من با۔۔ ۔۔  ش

شوہر کے دل پر یہ رباعی سن کر ایک چوٹ لگی۔  سخت متنبہ ہوا اور اسی دن سے اپنی بدنما حرکت کو چھوڑ کر توتی کی طرف متوجہ ہو گیا۔  اور عمر بھر ایسی خلاف فطرت حرکت سے مجتنب رہا۔

 

تون آتواں۔

ملا بقائی کی بیوی تھی۔  ملا بقائی امیر علی شیر کا مصاحب اور مقرب تھا۔  نہایت ظریف اور بذلہ سنج آدمی تھا۔  میاں بیوی میں اکثر مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔  اور ایک دوسرے پر چوٹیں چلا کرتے تھے۔  ایک دن بقائی نے یہ رباعی کہی اور چھیڑ کے لئے تونی آتواں کے روبرو پڑھی۔

یاراں ستم پیرہ زنے کشت مرا
کاواک شدہ چونے از و پشت مرا
گر پشت بسوئے او دمے خواب کنم
بیدار کند بضرب انگشت مرا

ترجمہ (1)  یارو مجھے ایک بڑھیا عورت کے ستم نے مار ڈالا۔  میری کمر نے کی طرح اس کی وجہ سے خالی ہو گئی ہے۔

(2)  اگر دم بھر اس کی طرف پشت کر کے لیٹتا ہوں تو انگلی کے ٹہوکے دے دے کر مجھے جگا دیتی ہے۔

حاضر جواب تونی آتواں بھلا کب چوکنے والی تھی۔  فوراً اس نے جواب دیا۔

ہم خوابگی سست رگے کشت مرا
روزی نبود از و بجز پشت مرا
قوت نہ چنانکہ پا تواند برداشت
بہتر بود از پشت دو صد مشت مرا

ترجمہ (1)  ایک عنیں نامرد کے پاس سونے نے مجھے مار ڈالا۔  سوائے پیٹھ کے اور کچھ مجھے اس سے روزی نہیں۔

(2)  اتنی بھی قوت نہیں کہ پاؤں اٹھا سکے۔  پشت سے تو میرے لئے دو سو گھونسے بہتر ہیں۔

مگر جواہر العجائب میں یہ رباعی یوں درج ہے۔

مُلا ہمہ ناز و غمزہ ات کشت مرا
تا چند زنی طعنہ بانگشت مرا
شبہا ہمہ پشت سوے من خواب کنی
بگزار کہ دل گرفت از پشت مرا

ترجمہ (1)  مُلّا تیرے ناز و غمزہ نے مجھے مار ڈالا۔  کب تک انگلی مٹکا مٹکا کر مجھے طعنے دے گا۔

(2)  راتوں کو تو میری طرف پشت پھر کر سوتا ہے۔  بس ہٹ اس پشت سے میں عاجز ہو گئی۔  میرا جی بھر گیا۔

٭٭٭

 

 


ردیف جیم


جاناں بیگم

عبد الرحیم خانخانان کی لڑکی تھی۔  نہایت حسین و خوبصورت ذکی اور ذہین تھی۔  جہانگیر نے جب اس کے حسن عالمگیر کا شہر سنا تو نادیدہ عاشق ہو گیا اور منگنی کا پیام دیا۔  مگر خانخاناں کو یہ منظور نہ تھا۔  اس واسطے وہ بہت رنجیدہ ہوا اور لڑکی کے دانت اکھڑوا اور سر منڈوا کر دربار میں حاضر کر دیا۔  بادشاہ کو بے حد افسوس ہوا۔  اور انعام و اکرام دے کر رخصت کر دیا۔  1070ھ میں انتقال کیا۔  یہ شعر اسی کا ہے۔

عاشق زخلق عشق تو پنہاں چہ ساں کند
پیداست از دو چشم ترش خوں گریستن

ترجمہ۔  عاشق دنیا سے تیرا عشق کیونکر چھپائے۔  اس کی دونوں چشم تر سے خون رونا ظاہر ہوتا ہے۔

 

جمیلہ

صفاہاں کی رہنے والی ایک خوش فکر عورت تھی۔  صرف ایک شعر اس سے یادگار ہے۔

جز خار غم نرست زگلزار بخت ما
آنہم خلید در جگر لخت لخت ما

ترجمہ۔  ہمارے نصیبہ کے باغ میں غم کے خار کے سوا اور کچھ اگا ہی نہیں اور وہ کانٹا بھی ہمارے ہی جگر لخت لخت میں چبھا۔

جہاں آرا بیگم

ہندوستان کے مشہور و معروف بادشاہ شاہجہان کی بیٹی اور اورنگ زیب عالمگیر کی حقیقی بہن تھی۔  یہ عفیفہ ممتاز محل نامور بیگم کے بطن سے بتاریخ 21 صفر المظفر 1032 ھ مطابق یکم اپریل 1614ء ایسے وقت میں پیدا ہوئی جبکہ اس کا نامور باپ شاہجہاں شاہزادۂ خرم کی حیثیت سے رانا امر سنگہ والیِ اودے پورے سے حکم شاہی کی بموجب معرکہ آرا تھا۔  جس وقت جہاں آرا پیدا ہوئی وہی زمانہ شاہجہاں کی فتح اور کامیابی کا تھا۔  اس مولود کو سب نے نہایت مسعود خیال کیا اور نہایت خوشیاں منائی گئیں اور اس کو اس کے دادا شاہنشاہ نورالدین جہانگیر کے پاس بھیج دیا گیا۔  سن شعور پر پہنچتے ہی اس کی تعلیم و تربیت شروع ہوئی اور نہایت اعلیٰ پیمانہ پر تعلیم دلائی گئی۔  جہاں آرا علم عربی فارسی اور حفظ و قرآن قرأت و تجوید خوشنویسی وغیرہ وغیرہ ہر ایک بات سے بخوبی بہرہ مند تھی۔  1037 ھ میں جہاں آرا کی عمر تقریباً 14 برس کی تھی یہی وہ سال ہے کہ شاہجہاں تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوا۔  جہاں آرا نے بھی ہدایا کے طریق پر نذر و نیاز پیش کئے جس کے جلدو اور صلہ میں شاہجہاں نے تقریباً 20 لاکھ روپیہ کے زیورات اس کو عطا کئے۔

جب 1040 ھ مطابق 1631ء میں ممتاز محل راہی ملک بقا ہوئی تو شاہجہاں نے از راہ عنایت وہ اختیارات جو اس کو حاصل تھے جہاں آرا کے سپرد کر دئے۔

جہاں آرا بیگم کو کتب اخلاق و تصوف سے بہت گہری دلچسپی تھی۔  وہ اپنا زیادہ وقت قرآن شریف کی تلاوت میں صرف کیا کرتی تھی۔  باقی وقت خانگی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں صرف ہوتا تھا۔  یکا یک 1054 ھ مطابق 1644ء کو جب حرم شاہی میں ایک جشن نہایت تزک و احتشام سے کیا گیا تھا تو اتفاقاً ایک موم بتی سے اس کے آنچل میں آگ لگ گئی جس سے زخمی ہو کر عرصہ تک بیمار رہی۔  اچھے ہونے پر بادشاہ نے اس کو بہت سے انعامات شاہی سے سرفراز کیا۔  جس کی تفصیل اس کی خاص سوانح عمری میں موجود ہے۔  جب شاہ جہاں نظر بند ہوا تو عین حیات تک جہاں آرا اس کی خدمت میں مشغول رہی بلکہ اور بھی عجیب و غریب کام جو اس نے کیا وہ یہ تھا کہ عالمگیر کے لئے شاہجہاں سے اس کے قصوروں کا معافی نامہ لکھوایا۔  اورنگ زیب کی تخت نشینی پر بھی اس کا اعزاز وہی رہا جو شاہجہاں کے سامنے تھا۔  خود عالمگیر نے بھی اس کو تنزہ نقاب بیگم خطاب دیا اور ایک لاکھ اشرفیاں مرحمت کیں۔  اس کے بعد زندگی بھر جہاں آرا نہایت معزز طریقہ سے بسر کرتی رہی اور عالمگیر کی مصاحب خاص اور مشیر کی حیثیت سے رہی۔  1092 ھ مطابق 16 اپریل 1681ء میں ستر برس کی عمر میں جہاں آرا نے وفات پائی اور دہلی میں حضرت امیر خسرو رح کے مزار کے قریب مدفون ہوئی۔  اس کا مقبرہ سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔  گرداگرد کی جالیاں بے حد نفاست سے کاٹی گئی ہیں۔  اس پر کوئی چھت نہیں ہے اور اس طرح سے گویا آسمانی برکات اس پر ہمیشہ بعد مرگ بھی نازل ہوتے ہیں۔  اس کے لوح مزار پر خود اسی کا یہ شعر لکھا ہوا ہے۔

ھو الحیی القیوم

بغیر سبزہ نہ پوشد کسے مزار مرا
کہ قبر پوش غریباں ہمیں گیاہ بس است

جہاں آرا نہایت نیک مزاج متدین اور پارسا تھی۔  صوفیائے کرام کے ملفوظات سے اسے بہت شوق تھا۔  اس نے اپنی شادی نہیں کی۔  مگر عمر بھر نہایت پارسائی کے ساتھ زندگی بسر کی۔  اگرچہ مغربی مصنفوں نے اس کے شادی نہ کرنے کی بنا پر اس پر بہت سے الزام لگائے ہیں مگر ان میں تعصب کے سوا اور کوئی اصلیت نہیں۔

وہ نہایت علم دوست تھی۔  اس کو لغویات سے نفرت قطعی تھی۔  شعر و شاعری سے کمال دلچسپی رکھتی تھی۔  نثر میں اس کی تصنیف مونس الارواح ہے۔  اس نے اپنا سیاحت نامہ بھی مرتب کیا ہے۔  مشہور ہے کہ اس نے ایک مثنوی بھی لکھی مگر وہ مل نہیں سکتی۔  اور اب تقریباً ناپید ہے۔  بہ یقین یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا دیوان غزلیات مرتب ہوا تھا یا نہیں مگر چند شعر اب بھی یادگار ہیں جو درج کرتا ہوں۔

رباعی

آنجا کہ کمال کبریاے تو بود
عالم نمے از بحر عطائے تو بود
مارا چہ حد حمد و ثنائے تو بود
ہم حمد و ثنائے تو سزاے تو بود

ترجمہ (1)  جہاں کہ تیری کمال کبریائی ہو۔  تمام عالم اس کے دریائے بخشش سے ایک کم ہے۔

(2)  ہم کو تیری حمد اور ثنا کی کیا مجال ہے۔  بس تیری حمد و ثنا تیری ہی حمد و ثنا کی لائق ہے۔

اے بو صفت بیان ما ہمہ ہیچ
ہمہ آن تو آن ما ہمہ ہیچ
ہر چہ بیند ما ہمہ نقص
ہر چہ گوید زبان ماہمہ ہیچ
ما بہ کنہ حقیقت نرسیم
اے یقین و گماں ما ہمہ ہیچ

ترجمہ (1)  اے وہ ذات کے تیرے وصف میں ہمارا بیان بے کار ہے۔  تمام تیری ملک سے ہے اور ہماری ملک کچھ نہیں۔

(2)  جو کچھ ہمارا خیال دیکھتا ہے وہ سب نقصان ہیں۔  اور جو ہماری زبان کہتی ہے وہ سب ہیچ ہے۔

(3)  ہم تیری کنہ حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یعنی ہمارا یقین اور گمان سب ہیچ ہیں۔

شاہجہاں کے انتقال پر جہاں آرا نے یہ پردرد مرثیہ کہا۔

اے آفتاب من کہ شدی غایب از نظر
آیا شب فراق ترا ہم بود سحر
اے بادشاہ عالم و اے قبلۂ جہاں
بکشاے چشم رحمت و برحال من نگر
حالم چنیں زغصہ دما دم بود بدست
سوزم چو شمع در غم و دودم ور زسر

جہاں آرا کے دربار سے اکثر نامی شعراء انعام و اکرام پاتے رہتے تھے اور بقدر لیاقت سب اس کے جود و کرم سے بہرہ مند تھے۔  چنانچہ محمد علی ماہر اکبر آبادی نے جہاں آرا کی تعریف میں مثنوی کہی اور پیش کی۔  تو صرف اس شعر کے صلے میں اس فیاض اور سخن فہم ملکہ نے پانچ سو روپے انعام دیے۔

بہ ذات او صفات کردگار است
کہ خود پنہان و فیضش آشکار است

ترجمہ۔  اس کی ذات میں صفات خداوندی پائی جاتی ہیں۔  یعنی وہ خود چھپی ہوئی ہے اور اس کا فیض ظاہر ہے۔

ایسے ہی ایک مرتبہ جہاں آرا بیگم باغ کی سیر کے لئے نکلی تو میر صیدی طہرانی نے یہ مشہور مطلع کہا۔

برقعہ برخ افگندہ برد ناز بہ باغش
تا نگہت گل بیختہ آید بہ دماغش

ترجمہ۔  ناز اس کو برقع پہنا کر باغ میں اس لئے لے جاتا ہے تاکہ پھول کی خوشبو چھن چھن کر اس کے دماغ میں آئے۔

بیگم نے شعر کو بہت پسند کیا۔  مگر اس شوخی پر بے حد غصہ آیا۔  حکم دیا کہ شاعر کو کشاں کشاں سامنے لاؤ۔  چنانچہ میاں صیدی پکڑے گئے اور سامنے لائے گئے۔  بار بار مطلع سنا اور پانچ ہزار انعام دے کر شہر بدر ہونے کا حکم دے دیا۔

ایسے ہی ملک الشعراء حاجی محمد جان موسی قدسی نے جہاں آرا کے جل جانے کے متعلق ایک قصیدہ لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔  بادشاہی انعام جو کچھ ملا ہو مگر خود جہاں آرا نے پانچ ہزار روپے اس شعر کے صلے میں دیے۔

تا سرزدہ از شمع چنیں بے ادبی
پروانہ زعشق شمع را سوختہ است

ترجمہ۔  جب سے کہ شمع سے یہ بے ادبی ہوئی ہے۔  پروانہ نے عشق سے شمع کو جلایا ہے۔


جہاں خاتون

شیراز کی رہنے والی تھی۔  نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔  حافظ شیرازی کی معاصر تھی۔  اکثر دونوں میں باہم شاعرانہ ملاقات ہوا کرتی تھی۔  ایک دن ملاقات کے لئے گئی تھی کہ خواجہ نے اپنی یہ غزل پڑھ کر جہاں خاتون کو سنائی۔

دردم از یار ست و درماں نیزہم
دل فدائے او شد و جاں نیزہم

پڑھتے پڑھتے جب اس شعر پر پہنچے۔

اعتمادے نیست برکار جہاں
بلکہ بر گردوں گرداں نیزہم

جہاں خاتون نے یہ صوفیانہ شعر سن کر فی البدیہہ یہ شعر کہا۔

حافظاؔ ایں مئی پرستی تابہ کے
مے زتو بیزار و مستاں نیزہم

ترجمہ۔  اے حافظ یہ شراب خوری کب تک۔  تجھ سے شراب بھی بیزار ہے اور شراب خور بھی۔ یہ شعر بھی جہاں خاتون کا ہے۔

مصورے است کہ صورت زآب میسازد
زذرہ ذرۂ خاک آفتاب می سازد

ترجمہ۔  ایسا مصور ہے کہ پانی سے صورتیں بناتا ہے اور ایک ایک ذرہ سے آفتاب بناتا ہے۔

جہاں خانم

ناصرالدین شاہ قاچار کی والدہ کا نام تھا۔  بر طریق تفنن طبع کبھی کبھی شعر و شاعری کی طرف متوجہ ہوتی تھیں۔  اور جو کچھ کہتی تھیں خوب کہتی تھیں۔  کیوں نہ ہو ایک تو اہل زبان اور پھر بادشاہ وقت۔  پھر اگر اچھا شعر نہ کہتیں تو اور کون کہتا۔  مگر افسوس کہ کلام اس وقت دستیاب نہیں ہوتا۔  مجبوراً دو شعر جو اخلاقی درجہ رکھتے ہیں، لکھے دیتا ہوں۔

از مرد و زن آنکہ ہوش مند است
اندر ہمہ حال سر بلند است

بیدانش اگر زنست و گر مرد
باشد بمثل چو خار خار بے ورد

ترجمہ (1)  مرد اور عورتوں میں سے جو عقل مند ہے۔  وہ ہر حال میں سر بلند ہے۔

(2)  بے عقل خواہ عورت ہو یا مرد ہو وہ بے کار اس کانٹے کی طرح ہے جس کے پاس گلاب نہیں ہے۔

جہانی۔

دہلی کی رہنے والی تھی۔  نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔  اب ایک شعر یادگار ہے۔

گل و باغ و رخ آن غنچہ دہن ہر دو یکے است
قدر عناے وے و سر و چمن ہر یکے است

ترجمہ۔  باغ کے پھول اور اس غنچہ دہن کے رخسار دونوں ایک ہیں۔  اس کا قدر عنا اور سرو چمن دونوں ایک ہیں۔٭٭٭

 

ردیف حاء حّطی


حاکمی۔

یہی تخلص تھا اور غالباً یہی نام تھا۔  شہر خواف کی حاکم تھی۔  کبھی کبھی فکر سخن کرتی تھی۔

کماں ابروئے من فکر من زار بلاکش کن
فگن در سینہ ام تیرے و پیکانش در آتش کن

ترجمہ۔  اے میرے کمان ابرو مجھ ناتوان بلاکش کے لئے کچھ فکر کر۔  میرے سینہ پر ایک تیر لگا اور اس کا پیکان آگ میں گرم کر لے۔

حجابی۔

استر آباد کی رہنے والی۔  خواجہ ہادی کی لڑکی تھی۔  نہایت حسین اور صاحب جمال تھی اور اس قدر عفت مآب تھی کہ خلوت و جلوت میں منہ پر نقاب ڈالے رہتی تھی۔  اسی مناسبت کی وجہ سے اس کا تخلص حجابیؔ ہوا تھا۔  ایک شعر اس سے یادگار ہے جو تذکرۂ مرأۃ الخیال سے لکھا جاتا ہے۔

مہ جمال تو و آفتاب ہر دو یکے است
خط عذار تو و مشک ناب ہر دو یکے است

ترجمہ۔  تیرے جمال کا چاند اور آفتاب دونوں ایک ہیں۔  تیرے رخسار کا خط اور مشک خالص دونوں برابر ہیں۔


حجابی استر آبادی۔

استر آباد کی رہنے والی تھی۔  نہایت حسین و جمیل تھی۔  ملا ہلالی کی لڑکی تھی اور شعر گوئی میں مشاق اور شہرۂ آفاق تھی۔

بہار سبزہ و گل خوش بہ روئے جانان است
وگرنہ ہر یک ازیں جملہ آفت جان است
بہ غنچہ مہر چہ بند و زگل چہ بکشاید
ولے کہ خوش شدہ از خار خار ہجران است
حدیث زلف دلآویز آں نگار امشب
زمن مپرس کہ بس خاطرم پریشان است
مگوئے شعر حجابی کہ نزد سیمبراں
ہزار بیت و غزل پیش حبہ کمیسان است

ترجمہ (1)  اگر معشوق سامنے ہو تو سبزہ و گل کی بہار اچھی معلوم ہوتی ہے وگرنہ ان سب میں سے ہر ایک آفت جاں ہے۔

(2)  غنچہ کے ساتھ محبت کیا کرے۔  اور پھول سے شگفتہ کیا ہوتا ہے۔  جو دل جدائی کے کانٹوں سے خون ہو گیا ہے۔

(3)  اس کی زلف دلآویز کی باتیں آج کی رات مجھ سے مت پوچھ میرا دل بہت پریشان ہے۔

(4)  اے حجابی شعر مت کہہ معشوقوں کے نزدیک ہزار بیت اور غزل سب یکساں ہیں۔

اسی غزل میں یہ شعر خوب کہا ہے۔

مراں بخواریم اے باغباں زگلشن خویش
کہ پنچ روز دگر گل بہ خاک یکسان است

ترجمہ۔  اے باغباں اپنے باغ سے مجھے خواری سے نہ نکال کہ پانچ دن بعد پھول اور خاک یکساں ہو جائیں گے۔


حجابی جرباد قانیہ۔

ایران کی ایک شاعرہ تھی۔  بہت عمدہ شعر کہتی تھی۔  دو شعر مل سکے ہیں، حاضر ہیں۔

حفظ ناموس تو شد مانع رسوائی من
ورنہ مجنوں تو رسوا تر ازیں می بایست
بعمر خویش کسے کز تو یک سخن نشنود
اگر کند گلۂ از تو شرمسار تو نیست

ترجمہ (1)  تیرا حفظ ناموس میری رسوائی کا مانع ہوا ورنہ تیرا مجنوں اس سے زیادہ رسوا ہونا چاہیے تھا۔  اپنی عمر کے کے دور میں جس نے کبھی تجھ سے ایک بات بھی نہیں سنی اگر وہ کوئی گلہ کرے تو تجھ سے اسے شرمندہ نہ ہونا چاہیے۔


حسینہ۔

تخلص اور حسینہ بیگم نام ہے۔  مصنف تذکرۂ اختر تاباں کی والدہ ماجدہ کا۔  اکثر اردو اور کبھی کبھی فارسی کا شعر بھی کہتی تھیں۔  مگر جو کچھ کہتی تھیں چند روز بعد خود ہی اس کلام کو ضائع کر دیتیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ میں صرف بطریق تفنن طبع شعر کہتی ہوں۔  مجھے اس سے کوئی فائدہ یا شہرت مقصود نہیں ہے۔  بھوپال میں انتقال کیا۔  اور وہیں شہر کے باہر مغرب کی طرف قلعہ کی فصیل کے پاس احمد علی شاہ کے تکیہ میں مدفون ہیں۔  اور سر لوح مزار پر یہ شعر جو ان کے شوہر کے ہیں۔  لکھے ہیں۔

چوں حسینہ بیگم عفت سرشت
دفعتاً دنیائے فانی رات بہ ہشت
جس عباس حزیں تاریخ او
با ادب فرمود رضوان بہشت
بر سر لوح مرزار پاک آں
فادخلی فی جنتی 1248 باید نوشت

یہ پانچ شعر اس عفیفہ سے یادگار ہیں۔

نقش نگیں دلم صورت جاں پرورت
ورد زبانم بود روز و شبان نام تو
ایں مصرع چہ خوش گفت عاقلے
دیوانہ باش تا غم تو دیگراں خورند
چشم ہر کس صبحدم افتد بروے آں صنم
روز او تا شام باشد ہمچونام و شام عید
ماہ نو ہر کس بہ بیند بر رخ آں ماہ رو
ماہ کامل بگذارد اورا بہ شادی بے گماں
سرت گردم کجا بودی تو امروز
وصالت شد مرا عید دل افروز

ترجمہ (1)  میرے دل کے نگینہ پر تیری صورت جاں پرور نقش ہے اور میری زبان کا ورد رات دن تیرا نام ہے۔
(2)  یہ مصرع عجیب کسی عقلمند نے کیا خوب کہا ہے۔  دیوانہ رہ کہ تیرا غم دوسرے کھائیں۔
(3)  صبح کے وقت جو کوئی اس کو دیکھتا ہے اس کا دن صبح سے شام تک نام و روز عید کی طرح گزرتا ہے۔
(4)  شروع ماہ میں جو کوئی اس ماہ کا منہ دیکھتا ہے تمام مہینہ اس کا خوشی کے ساتھ گزرتا ہے۔
(5)  تیرے قربان تو آج کہاں تھا۔  تیرا وصال میرے لئے عید ہو گیا۔


حیاتی بیگم۔

نور علی شاہ صوفی کی اہلیہ تھی۔  شعر کہتی تھی اور خوب خوب کہتی تھی۔  افسوس ہے کہ اس شاعرہ کا مفصل حال سکونت وغیرہ کا مجھے معلوم نہ ہو سکا۔  ایک قلمی بیاض سے یہ شعر ملے۔

منع دلم از نالہ مکن درپئے محمل
کز نالہ کسے منع نکرد است جرس را
چارۂ درد من بے چارہ را
داند و عمداً تغافل میکند

مثنوی۔
ایا طائر قدس عرش آشیاں
مجودانہ از دام ایں خاکدان
قفس بشکن و بالد پر باز کن
بہ گلگشت گلزار پرواز کن

ترجمہ (1)  میرا دل اگر تیرے محمل کے پیچھے روتا ہے تو اس کو منع مت کر۔  کسی نے نالہ سے جرس کو منع نہیں کیا ہے۔

(2)  مجھ بیچارہ کے درد کا علاج وہ جانتا ہے اور جان کر تغافل کرتا ہے۔

(ترجمہ مثنوی) خبردار ہو اے طائر عرش آشیاں۔  اس خاکدان سے دانہ مت ڈھونڈھ۔

(2) قفس کو توڑ دے اور پر کھول دے۔  اور گلزار کی گلگشت میں پرواز کر۔

حاجیہ

یہ ایرانی شاعرہ فتح علی شاہ قاچار کی حرم محترم تھی۔  نہایت نیک مزاج اور خوش گو تھی اس کا کلام یہ ہے اکثر نعت کہتی تھی۔

طواف کعبہ مرا حاجیہ میسر شد
خدا زیارت طیبہ کنوں بفرماید

ترجمہ۔  اے حاجیہ مجھے کعبہ کا طواف میسر ہو گیا۔  اب خدا طیبہ کی زیارت نصیب کرے۔

 

٭٭٭

 

 

 

ردیف خاء معجمہ


خان زادہ۔

فخر النسا نام تھا۔  امیر یادگار خان کی لڑکی تھی۔  تبریز کی رہنے والی تھی۔  شعر نہایت عمدہ کہتی تھی۔  یہ مطلع اس سے یادگار ہے۔

شبے در منزل ما میہماں خواہی شدن یا نے
انیس خاطر ایں ناتواں خواہی شدن یا نے

ترجمہ۔  تو ایک رات ہمارے گھر مہمان ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔  اس ناتوان کے دل کا انیس ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔

تذکرہ مراۃ الخیال کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ شاعرہ اس قدر حسین تھی کہ شاید اس کا اس وقت کوئی ہمسر نہ تھا۔

 

 

خاتون۔

قطب الدین کرمانی کی لڑکی کا تخلص ہے۔  بہت عمدہ شعر کہتی تھی۔  سعدی کی معاصر تھی۔  694 ھ میں انتقال کیا۔  حسین قلی خاں کے تذکرہ میں یہ رباعی خاتون کے نام سے لکھی ہے۔

بس غصہ کہ از چشمۂ نوش تو رسید
تا دست من امروز بدوش تو رسید
در گوش تو دانہاے در زمی بینم
آب چشمم مگر بہ گوش تو رسید

تذکرۂ جواہر العجائب ملا فخری ہروی میں جو طہماسپ شاہ معاصر اکبر بادشاہ کے عہد میں لکھا گیا ہے اس میں یہ رباعی بھی اسی کے نام سے لکھی ہوئی ہے۔

آں روز کہ در ازل نشانش کردند
آسائش جاں بیدلانش کر دند
دعوے بلب نگار میکرد نبات
زاں روے بہ چوب در دہانش کر دند

میرزا آفتاب طہرانی نے یہ پانچ شعر مصنف اختر تاباں کو اسی کے نام سے سنائے تھے۔

من آن زنم کہ ہمہ کار من نکو کاری است
بزیر مقنع من فرہ کلہ داری است
درون پردۂ عصمت کہ جائگاہ منست
مسافران صبا را گزر بہ دشواری است
جمال و سایہ خود را دریغ میدارم
زآفتاب کہ آں کوچہ گرد بازاری است
نہ ہر زنے بد و گز مقنع است کد بانو
نہ ہر سرے زکلا ہے سزاے سرداری است
ہمیشہ باد سر زن بزیر مقنع او
کہ تار و پود ولے از عصمت و نکو کاری است

ترجمہ رباعی اول۔  چونکہ تیرے چشمۂ نوش یعنی لبوں سے بہت رنج پہنچا یہاں تک کہ آج میرا ہاتھ تیرے روش تک پہنچا۔  میں تیرے کان میں موتی کے دانے دیکھ رہا ہوں۔  میری آنکھ کا پانی شاید تیرے کانوں میں پہنچ گیا۔

ترجمہ رباعی دوم۔  جب ازل کے دن اس کو منتخب کر کے بے دلوں کی جان کا آرام بنایا۔  تو مصری اس کے شیریں ہونٹوں کے مقابلہ کا دعویٰ کر رہی تھی۔  اسی لیے تین لکڑیاں اس کے منہ میں ٹھونس دی گئیں۔  مصری لکڑیوں پر بنائی جاتی ہے۔

ترجمہ اشعار (1)

میں وہ عورت ہوں کہ میرا ہر کام نیکی ہے۔  میرے ڈوپٹہ کے نیچے مرد کا دبدبہ اور سرداری ہے۔

(2) میں عصمت کے پردہ کے اندر رہتی ہوں جہاں ہوا کا بھی گزر نہیں ہو سکتا۔

(3) میں اپنے جمال اور اپنے سایہ کو آفتاب سے بھی چھپاتی ہوں۔
کیوں کہ وہ ایک کوچہ گرد اور بازاری ہے۔

(4)  ہر عورت دو گز کا ڈوپٹہ اوڑھ کر کدبانو نہیں بن سکتی۔  ہر کوئی ٹوپی پہن کر سردار بننے کے قابل نہیں ہو جاتا۔

(5) عورت کا سر ہمیشہ ڈوپٹہ میں چھپا رہنا چاہیے اور وہ ڈوپٹہ بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جس کا تانا بانا عصمت اور نیکو کاری سے ہو۔

٭٭٭

 

 


ردیف دال

دختر

ایک شاعرہ عفیفہ روزگار کا تخلص تھا جو ایران کی رہنے والی تھی۔  یہ شعر اسی کا ہے۔

مگو رسوائے عشق از مردم عالم غمی دارد
کہ عاشق گشتن و رسوا شدن ہم عالمے دارد

ترجمہ۔  یہ نہ سمجھ کہ رسوائے عشق دنیا کے آدمیوں سے کچھ آزردہ ہے۔  کیونکہ عاشق ہونا اور بدنام ہونا بھی ایک شان رکھتا ہے۔

دلشاد خاتون

امیر علی جلایر کی صاحبزادی تھیں۔  نظم و نثر دونوں خوب لکھتی تھیں۔  یہ شعر نمونتاً درج ہیں۔

اشکے کہ سر زگوشۂ بروں کند
بر روئے من نشیند و دعوے خوں کند
حل شد از غم ہمہ مشکل کہ مرادر دل بود
جز غم عشق کہ حل کردن آن مشکل بود

ترجمہ
(1) جو اشک میری آنکھوں سے نکلتا ہے وہ میرے منہ پر آتا اور خون کا دعویدار ہوتا ہے۔

(2) غم سے میری وہ تمام مشکلیں حل ہو گئیں جو میرے دل میں تھیں۔  نہ ہوا تو غم عشق حل نہ ہوا۔  اس کا حل ہونا دشوار تھا۔

٭٭٭

 

 

 

ردیف را

رابعہ صفاہانیہ

اصفہان کی رہنے والی ایک شاعرہ خوش گو خوبرو کا نام ہے جو دولت سامانیہ میں زندہ تھی۔  یہ اس کے شعر ہیں۔

دعوتم آں است بر تو کا یزدت عاشق کناد
بر یکے سنگیں دل و نامہرباں چوں خویشتن
تابدانی درد عشق و داغ مہر و غم خوری
چوں بہ ہجر اندر بہ پیچی پس بدانی قدر من

ترجمہ
میری تیرے لئے دعا ہے کہ خدا تجھے کسی کا عاشق کر دے۔  جو تجھ سا ہی سنگین دل اور انمل ہو تاکہ تو عشق کے درد کی اور محبت کے داغ کی حالت معلوم کر کے غم کھائے۔  جدائی کی سختیاں اٹھائے تب تجھے میری قدر معلوم ہو۔

غالب نے بھی ایک شعر اسی انداز کا کہا ہے۔

 

عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے


رخشندہ بانو

بغداد کی رہنے والی تھی۔  1300 ھ میں اپنے بھائی کے ساتھ بھوپال میں آئی تھی اور شاہجہاں بیگم صاحبہ والی بھوپال بالقابہ کی خدمت میں ایک مدحیہ قصیدہ کہہ کر گزرانا تھا۔  جس کے صلہ میں معقول انعام پایا۔  دو شعر اس کے لکھے جاتے ہیں۔

ہست امیدم کہ باشم در حضورت ہر زماں
تا بود جاں در تنم باشم ترا خدمتگذار
در جناب حضرتت ہاشم ہمیشہ چوں ایاز
سایۂ لطف تو بر سر با شدم لیل و نہار

ترجمہ
(1)مجھ کو امید ہے کہ میں تیرے حضور میں ہر وقت رہوں۔  جاں جب تک میرے جسم میں رہے میں تیرا خدمت گذار رہوں۔

(2) تیری بارگاہ میں ایاز کی طرح میں حاضر رہوں۔  میرے سر پر تیری مہربانی کا رات دن سایہ رہے۔

رشحہ

کاشان کی رہنے والی تھی۔  اور ہاتف کاشانی کی لڑکی تھی۔  علی اکبر نظیری کی بیوی اور مرزا احمد کشتہ کی ماں تھی۔  فتح علی شاہ قاچار کے زمانہ میں عیش و آرام سے کاشان میں رہتی تھی۔  شعر و شاعری سے فطری ذوق اور قدرتی لگاؤ تھا۔  صاحب دیوان تھی۔  چند شعر درج کئے جاتے ہیں۔

آن بت گل چہرہ یار رب بستہ از سنبل نقاب
یا بہ افسوں کردہ پنہاں در دل شب آفتاب
دل رفت و زخوں دیدہ مارا
پیداست برخ ازیں علامت
می تبد از شوق دل در سینہ ام گوئی کہ باز
تیر دلدوزی بدل زارو کمانے میرسد
بقصد صید تو چوں رشحہ دیدمش گفتم
کسے ندیدہ شکار مگس کند شہباز

ترجمہ
(1) یا الٰہی اس گل چہرہ معشق نے سنبل سے نقاب باندھی ہے یا افسوں کے ساتھ رات کے دل میں آفتاب چھپا دیا ہے۔

(2) ہمارا دل چلا گیا اور خون کے آنکھوں میں بہنے سے رخسار کے اوپر یہ علامت ظاہر ہے۔

(3) شوق دل سے میرے سینے میں دھڑکتا ہے۔  شاید پھر کوئی دلدوز تیر کوئی معشوق میرے سینہ میں لگاتا ہے۔

(4) اے رشحہ جب میں نے تیرے معشوق کو تیرے شکار کے لئے تیار دیکھا تو کہا کہ کسی نے شہباز کو مکھی کا شکار کرتے نہیں دیکھا ہے۔

٭٭٭

٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل