فہرست مضامین
تحسین غزل
نصاب
(ولیؔ، سراجؔ اور دردؔ)
امتیاز احمد
خواجہ میر درد
تمہید اور مقصد
اپنے معاصر اور بعد کے شاعروں میں بھی خواجہ میر دردؔ کو اس اعتبار سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ ان کی شاعری میں تصوف کے مسائل صرف شاعری کے لئے نہیں ہیں بلکہ وہ عملی طور پر صوفی تھے۔ اس سبق کا مقصد یہ ہے کہ اردو غزل کے اس خاص رنگ سے آپ کو واقف کرایا جائے۔ اس کے خاص خاص استعاروں ، لفظیات اور تراکیب تک آپ کی پہنچ ہو سکے۔ اور آپ اس تہذیب تک پہنچ سکیں جسے اردو تہذیب کہتے ہیں ۔
آئیے ۱ ب درد کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ درد کی پہلی غزل ہے
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہو کر چشم تر شبنم
بہار باغ تو یوں ہی رہی لیکن کدھر شبنم
ہمیں تو باغ تجھ بن خانہ ماتم نظر آیا
ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم
کرے ہے کچھ سے کچھ تاثیر صحبت صاف طبعوں کی
ہوئی آتش سے گل کے بیٹھتے رشک شرر شبنم
نہ پایا جو گیا اس باغ سے ہر گز سراغ اس کا
نہ پلٹی پھر صبا ایدھر نہ پھر آئی نظر شبنم
نہ سمجھا درد ہم نے بھید یاں کی شادی و غم کا
سحر خنداں ہے کیوں روتی ہے کسکو یاد کر شبنم
پوری غزل کو رک رک کر دوچار مرتبہ پڑھیے ۔ مشکل الفاظ پر غور کیجیے حا وی انداز اور غیر معمولی طور پر نمایاں باتوں پر توجہ دیجیے ۔ اور اب دیکھیے کہ غزل کیا کہتی ہے؟
تشریح
اس غزل کے مرکز میں ایک لفظ ہے جو آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہو گا۔ اور وہ لفظ ہے چمن یعنی باغ ۔ اسے ہم کہیں گے غزل کا بنیادی استعارہ۔اب آپ پوچھیں گے کہ یہ باغ۔یا چمن کس چیز کے استعارہ کے طور پر آیا ہے ؟آپ نے بالکل ٹھیک سوال کیا ۔ یہ بنیادی طور پر اس کائنات کا استعارہ ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ استعارہ بظاہر آپ کو کہیں نمایاں نظر نہیں آ رہا ہو گا ۔ یہیں سے اس غزل کی خوبیوں کا شمار شروع ہوتا ہے ۔ کوئی عام شاعر ہوتا تو یہ لفظ استعمال کر لیتا اور اس کی خزاں یا بہار کا ذکر کر کے شعر ختم کر دیتا ۔ لیکن دردؔ یہ نہیں کرتے ہیں ۔ وہ پوری غزل میں تین جگہ باغ اور ایک جگہ چمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن بہت دبے ہوئے انداز میں ۔ اس کے متعلقات گل ، پھول ، صبا ، شبنم وغیرہ کا ذکر زیادہ حاوی نظر آتا ہے ۔
غزل کے پہلے شعر کو دیکھیں تو اس میں باغ اور اس کا مترادف لفظ /چمن /دو بار استعمال ہوا ہے ۔ شعر شروع ہی لفظ/چمن/سے ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جو لفظ پڑھنے والے کے ذہن کو سب سے زیادہ اپنی گرفت میں لیتا اور اس شعر میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے وہ لفظ صبح اور شبنم ہے۔ صبح ، وقت کا تعین کرتا ہے اور شبنم وہ کردار ہے جس کی کہانی اس شعر میں بیان ہوئی ہے ، چمن وہ Localeیا واردات کی جگہ ہے جہاں یہ واقعہ ہوا ۔ ایک اور ترکیب اہم ہے ۔ اور وہ ترکیب ہے ، چشم تر کی۔ بھیگی ہوئی آنکھ ، جو دل گرفتگی کی علامت ہے ۔ شاعر اس شعر میں دراصل ایک کہانی بیان کر رہا ہے کہ چمن میں صبح کے وقت شبنم بہت دکھی ہو کر یہ کہہ رہی تھی کہ دیکھیے ہر صبح ہماری نمی سے باغ کو سرسبزی اور شادابی ملتی ہے لیکن سورج کے نکلتے ہی ہمارا وجود فنا ہو جاتا ہے۔ کد ھر شبنم کے سوالیہ اور استعجابیہ انداز میں انکار کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے کہ شبنم کا وجود باقی نہیں رہتا ہے ۔کہنا یہ ہے کہ ہر عروج، ہر ترقی ہر بلندی کے حصول کے لیے کسی دوسرے وجود کو اس کی قیمت ضرور چکانی ہوتی ہے باغ کی بہار کی یہی قیمت شبنم چکاتی ہے ۔ اگر شبنم اپنے وجود کو خطرے میں نہ ڈالے تو باغ کی بہار کا وجود ہی عدم میں بدل جائے گا ، ختم ہو جائے گا ۔لطف کی بات یہ ہے کہ شبنم جس کی بنیادی صفت اس کی نمی ہے اس کے بارے میں حسن تعلیل کی صنعت استعمال کر کے یہ کہا ہے کہ وہ نم اسلئے ہے کہ دکھی ہے اور دکھ کا اظہار آنکھوں کی نمی یا آنسووں کے بہنے سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے آنسوؤں کے بہنے کے ذکر کے لئے آنکھ کا ذکر ضروری تھا اور آنکھ کے ذکر کے لئے شبنم کا جسم تصور کرنا ضروری تھا ۔ اس لیے شاعر نے حسن تعلیل سے پہلے تجسیم کی صنعت استعمال کر کے شبنم کو personifyکیا ، اسے ایک جسم دیا جس کی ایک آنکھ ہوتی ہے جو بھیگتی ہے ۔ پھر یہ مضمون باندھا۔ تو دیکھا آپ نے ایک سیدھا سادہ شعر جس میں آپ کو کوئی پیچیدگی نظر نہیں آ رہی تھی شاعر کے لیے کتنا مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔
آئیے دوسرے شعر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں دوسرا شعر ہے ؎
ہمیں تو باغ تجھ بن خانہ ماتم نظر آیا۔ ادھر گل پھاڑ تے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم شعر کا بنیادی حوالہ خانہ ماتم، یعنی ماتم کا گھر ہے ۔ دوسرے مصرعے میں اس خانہ ماتم کی تصویر پیش کی گئی ہے ۔ یہ تصویر ایسی ہے کہ گل یعنی پھول جو خوبصورتی ، نزاکت ، رنگینی کا استعارہ ہے وہ اپنا گریبان چاک کر رہے ہیں ۔ اس لفظ جَیب کی جیم پر زبر ہے ۔ اس کے معنی گریبان کے ہوتے ہیں ۔ اور یہ اس جِیب سے مختلف ہے جس کے معنی pocketکے ہوتے ہیں جس کی جیم کے نیچے زیر لگاتے ہیں ۔ یہ لباس کا وہ حصہ ہوتا ہے جو کالر کے بعد شروع ہوتا ہے اور جسم کے اس حصہ کو ڈھانکتا ہے جو گردن اور سینہ کے درمیان ہوتا ہے۔ تو اس شعر میں پیش کی گئی تصویر کا ایک حصّہ یہ ہے کہ شبنم آنسوبہا رہی ہے ۔ تصویر کے دونوں رخ میں غم کا پہلو چھپا ہوا ہے ۔ شعر کی خوبصورتی اس کی حسن تعلیل کی صنعت میں چھپی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ کلی جب کھل کر پھول بنتی ہے تو اس کی پنکھڑیاں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں ۔ پنکھڑیوں کے اس الگ الگ ہو جانے کو شاعر نے گریبان چاک کرنے سے تعبیر کیا ہے ۔ اس طرح رات میں شبنم کے قطرے آسمان سے زمین کی طرف آتے ہیں ۔ اس شبنم کے قطروں کے ٹپکنے کو شبنم کے رونے سے تعبیر کیا ہے۔ اور دونوں کی وجہ ایک بیان کی ہے کہ چونکہ محبوب باغ میں موجود نہیں ہے اس لیے یہ سب اس کے نہ ہونے کا مختلف انداز میں غم منا رہے ہیں ۔ لیکن یہ ساری باتیں اس ایک لفظ کی غیر موجودگی میں بے معنی ہو جا تی ہیں جس سے شعر شروع ہوتا اور جو شعر کا مرکز و محور ہے یعنی ہمیں ۔ ممکن ہے دوسرے لوگوں کو تمھاری غیر موجودگی میں بھی یہ باغ اسی طرح سر سبز و شاداب نظر آتا ہو جس طرح تمھاری موجودگی میں نظر آتا ہے ۔ لیکن میرے (عاشق) لئے تو باغ کی ساری سرسبزی اور شادابی محبوب کے دم سے ہے۔ محبوب ہوتا ہے تو اسے ساری چیزیں خوشگوار معلوم ہوتی ہیں محبوب نہیں ہوتا ہے تو وہی چیزیں ناخوشگوار بن جا تی ہیں ۔ یہ صرف عشق کا اثر ہے اور کچھ نہیں ۔
تیسرا شعر ہے اور کیا ہی خوبصورت شعر ہے۔
کرے ہے کچھ سے کچھ تاثیر صحبت صاف طبعوں کی
ہوئی آتش سے گل کے بیٹھتے رشک شرر شبنم
تاثیر کے معنی آپ جانتے ہیں اثر کے ہوتے ہیں ۔ صحبت کہتے ہیں کسی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو اور صاف طبع صاف طبیعت ۔ نیک طبیعت یا اچھی طبیعت رکھنے والوں کو کہتے ہیں اس شعر کی تکنیک یہ ہے کہ ایک مصرع میں ایک دعویٰ کیا ہے اوردوسرے اور مصرع میں اس کی دلیل دی ہے شاعری میں اس صنعت کو تمثیل کی صنعت کہتے ہیں (نثر میں تمثیل ایک مختلف چیز ہے ۔ دونوں کو گڈمڈ نہیں کیجیے گا )دعویٰ یہ ہے کہ نیک طبیعت رکھنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا انسان کی شخصیت پر عجیب و غریب اثر ڈالتا ہے ۔ حیرت میں ڈالنے والے اثر ات مرتب کرتا ہے ۔ اس کی مثال یا دلیل دوسرے مصرع میں ہے ۔ لیکن اس دوسرے مصرع کو بہت احتیاط سے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس مصرع میں دو جگہ کاما (،)لگا لیں ۔ پہلی جگہ/کے /کے بعد ہے ۔ یعنی جہا ں مصرع کا ابتدائی حصہ ّ /ہوئی آتش سے گل کے /ختم ہو جاتا ہے ۔ پھر دوسرا کا ما /بیٹھتے / کے بعد لگائیں ۔ یو ں اس مصرع کو تین حصوں میں تقسیم کر کے اور دو جگہ وقفہ یا کاما د ے کر پڑھیں ۔ پہلا حصہّ آپ کو یہ بتا ے گا کہ(۱)پھول یا گلاب کے پھول دونوں میں ایک آگ ہوتی ہے۔ آپ کہیں گے یہ کیسی بات ہے ۔ پھول میں آگ ہو گی تو پھول جل کر خاکستر ہو جائے گا ۔ آپ کی بات بھی ٹھیک ہے ۔ پھول میں آگ کہاں سے آسکتی ہے ۔ لیکن شاعر یہ سمجھتا ہے کہ پھول میں آگ ہوتی ہے تو آپ کو یہ بات ماننی ہو گی ۔ آپ کہیں گے کے اچھی دادا گیری ہے ۔ میں کیوں مان لوں اور کیسے مان لو ں کہ پھول میں آگ ہوتی ہے ۔ توسنئے۔ شاعر کے خیال میں اور آپ کے خیال میں بھی پھول کا رنگ خاص طور سے گلاب کے پھول کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور آگ کا رنگ بھی سرخ ہوتا ہے اس لئے پھول کی سرخی کو اس کی آگ سے تعبیر کرتے ہیں جو شاعر نے کیا ہے (۲)دوسری بات جو شاعر اس حصہّ میں بتانا چاہتا ہے وہ اس پھول کی آگ کا اثر ہے جس کے لئے اس نے ہونا کا صیغہ ماضی ’ہوئی‘ استعمال کیا ہے ۔ دوسرے حصہّ میں صرف ایک لفظ /بیٹھتے /ہے ظاہر ہے یہ بھی فعل ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فعل کا فاعل کون ہے؟ کام کرنے والا کون ہے؟ کس کے لئے شاعر بیٹھتے کا لفظ استعمال کر رہا ہے آتش گل کے بیٹھنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ ہاں پھول پر کوئی چیز بیٹھ سکتی ہے ۔ مصرع کی حد کے اندر وہ چیز شبنم ہوسکتی ہے ۔ یعنی شبنم کے گلاب کی پنکھڑیوں پر بیٹھتے ہی اس کی رنگینی کی وجہ سے شبنم کے قطرے شرر (چنگاری )کے لئے بھی باعث رشک بن گئے ۔ چنگاری بھی اس بات پر رشک کرنے لگی کہ یہ رنگینی مجھے کیوں نصیب نہیں ہوئی ۔ یہاں رک کر غور کریں تو یہ ایک عام مشاہدہ کا شعر معلوم ہوتا ہے ۔ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ پھول کی پنکھڑی پر رکے ہوے شبنم کے قطرے پھول کی رنگینی کی وجہ سے خوش نما معلوم ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن اس عام مشاہدہ کو شاعر نے اس اندازسے پیش کیا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی شعر بن گیا ہے۔
غزل کا چوتھا شعر ہے ؎
نہ پایا جو گیا اس باغ سے ہر گز سراغ اس کا
نہ پلٹی پھر صبا ایدھر نہ آئی پھر نظر شبنم
اس شعر میں بھی وہی ٹکنیک استعمال کی گئی ہے جو پچھلے شعر میں استعمال ہوئی تھی ۔ پہلے مصرعے میں ایک دعویٰ کیا گیا اور دوسرے مصرعہ میں اس کی دلیل دی گئی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ جو ایک مرتبہ اس دنیا کے باغ سے چلا جاتا ہے پھر اس کا کہیں کوئی پتہ نہیں ملتا ہے ۔ دلیل یہ ہے کہ صبا (صبح کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہو ا) جو ایک خاص وقت میں چلتی ہے اس وقت کے بعد اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا ہے ۔ یہی حال شبنم کا بھی ہے ۔ جیسے ہی سورج کی کرنیں زمین پر پڑنی شروع ہوتی ہیں تمام سبزہ و برگ پرچھا ئی ہوئی شبنم خشک ہو جاتی ہے اور پھر وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ۔
آئیے اب اس غزل کے مقطع پر غور کرتے ہیں ۔غزل کا مقطع ہے۔
نہ سمجھا درد ہم نے بھید یاں کی شادی و غم کا
سحرخنداں ہے کیوں ؟ روتی ہے کسکو یاد کر شبنم ؟
بھید، راز کو کہتے ہیں ، شادی کے معنی خوشی کے ہیں ، سحر صبح کو کہتے ہیں ، خنداں بہ معنی مسکراتی ہوئی یا مسکراتا ہوا ۔ شعر بنیادی طور پر شادی اور غم کے تضاد سے پیدا tensionسے بنا ہے اور اسtension یا تناؤ نے اس میں ایک طرح کی فکری دبازت پیدا کر دی ہے ۔ شعر کے پہلے مصرعے کا دوسرا لفظ /سمجھا /اور اس کے ساتھ /نہ/ حرف انکار کا اضافہ شروع میں ہی اس سوچتے ہوے گمبھیر انداز کی طرف ، اس فکری لب و لہجہ کی طرف اشارہ کر دیتا ہے جس کی ارتقائی صورت ہمیں غالب کے یہاں نظر آتی ہے۔
جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟
یہ پری چہرہ لو گ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے ؟
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہِ چشم سر مہ سا کیا ہے ؟
خواجہ میر درد کائنات کے بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ اٹھا تے ہیں کہ اس دنیا میں خوشی اور غم کی موجودگی کا راز کیا ہے ؟ خوشی ہے تو کیوں ہے؟ اور غم ہے تو کیوں ہے؟ اس خوشی اور غم کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے؟ اس راز کو میں آج تک نہیں سمجھ سکا ہوں ۔ دوسرے مصرعہ میں ان دونوں کے مظاہر کا ذکر کرتے ہیں ۔ خوشی کا اظہار مسکرانے سے ہوتا ہے اور غم کا اظہر رو نے سے ہوتا ہے ان دونوں کو شاعر نے دو مظاہر فطرت سے جوڑ دیا ہے ۔ ایک مظہر صبح کی خوشگواری ہے اور دوسرا مظہر شبنم کا گرنا۔ شاعر صبح کی خوشگواری، اس کی روشنی، اور اس کی چمک کو اس کے مسکرانے سے تعبیر کرتا ہے اور شبنم کے گرنے کو اس کے رونے سے اور یہ سوال کرتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے ؟ اس کے پاس بھی اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے صرف QUESTاورQUARYہے۔ ایک سوال ہے جو ذہن کو پریشان کرتا ہے اور جب تک انسانی ذہن کی یہ سوال کرنے کی خصوصیت /صفت برقرار رہے گی اس شعر کی اہمیت باقی رہے گی ۔ یہ شعر اس کی نمائندگی کرتا رہے گا ۔
درد کی دوسری غزل یہ ہے ؎
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجوکریں
دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو۔۔۔!
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے روبرو کریں
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں
ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدان شہر
اے درد آ کے بیعت دست سبو کریں
پوری غزل کو دو چار بار پڑھیے ۔ ایک ایک لفظ پر غور کیجیے ۔ دیکھیے کیا بات ہے جو سمجھ میں نہیں آ رہی ہے ؟ کوئی مشکل لفظ ۔ ترکیب ، کوئی صنعت جو سمجھ میں نہیں آ رہی ہو۔
ایک بات کی طرف آپ کا ذہن ضرور جائے گا اور وہ یہ کہ یہ غزل درد کی اس غزل سے مختلف ہے جس کا مطالعہ آپ نے اس سے پہلے کیا ہے ۔ پچھلی غزل میں ایک بنیادی استعارہ موجود تھا جس پر غزل کی پوری عمارت کھڑی کی گئی تھی ۔ اس غزل میں ایسا کوئی بنیادی استعارہ موجود نہیں ہے ۔ تمام اشعار الگ الگ اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ پہلے شعر میں ایک بے دلی اور اضمحلال کی کیفیت کا اظہار ہے دوسرے شعر میں اپنی گنہ گاری پر ناز ہے تیسرے شعر میں حقیقت پسند ی کی وجہ سے نا مقبولیت کا ذکر ہے ۔ چوتھے شعر میں دنیا کی بے ثباتی کا مضمون ہے تو پانچویں شعر میں ایک کھلے ڈلے رویے کا اظہار اور اس پر اصرار ہے ۔ صرف مضامین کی سطح پر ہی نہیں اسلوب اور لفظیات کی سطح پر بھی اشعار ایک دوسرے سے الگ شناخت رکھتے ہیں ۔
پہلے شعر میں شاعر آسمان سے تخاطب اختیار کرتا ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ روایتی طور پر اردو شاعری میں فلکِ کج رفتار کی ترکیب استعمال ہوتی رہی ہے ۔ اس کے پس پشت یہ تصور کارفرما رہا ہے کہ آسمان قادر مطلق کی نمائندگی کرتا ہے اس لئے دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اسی آسمان کی گردش کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اسی لیے ہمارا شاعر کہتا ہے کہ ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا ؟
اسی تصور میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ فلک کج رفتار کبھی کسی کا بھلا نہیں چاہتا ۔ اس شعر میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ شاعر آسمان سے شکایت کے لہجہ میں خطاب کر کے کہتا ہے کہ اب (اور یاد رکھیے یہ اب اس شعر میں بہت اہم ہے )ہم تجھ سے کس چیز کی ہوس کریں (ہوس کہتے ہیں ضرورت سے زیادہ بڑھی ہوئی خواہش کو) خواہش تو دل میں پیدا ہوتی ہے اور تو نے میرا دل پہلے ہی میرے محبوب کو بخش دیا ہے یعنی مجھے عشق میں گرفتار کر دیا ہے ۔ جب دل ہی اپنے پاس نہ ہو جو خواہش کے پیدا ہونے کی جگہ ہے تو خواہش کے پیدا ہونے یا کسی چیز کی آرزو کرنے کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ۔
دوسرا شعر ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسی شاعر کا شعر ہے ۔
اہل ور ع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
لیکن گناہگاروں میں میں برگزیدہ ہوں
اہل ورع کہتے ہیں متقی اور پرہیزگار لوگوں کو۔ شاعر کہتا ہے کہ متقی اور پرہیز گار لوگوں کے درمیان تو میں ذلیل ہوسکتا ہوں لیکن گناہگاروں کے طبقہ میں میرا بھی ایک مرتبہ ہے جو کسی طرح شیخ یا واعظ کے مرتبہ سے کم نہیں ہے ۔درد کا شعر اس شعر سے آگے جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ درد شیخ سے تخاطب اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے شعر میں ایک طرح کی ڈرامائیت پیدا ہو جاتی ہے اور پڑھنے والے پر اس کا اثر نسبتاًزیادہ ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ درد کا لہجہ ایک طرح سے چیلنج کا ہے ۔ صرف سادہ بیان کا نہیں ہے۔ اس سے شعر میں ایک دوسری جہت کا اضافہ ہوتا ہے ۔ شعر کا پہلا لفظ تر دامنی ہے جس کے معنی گنہ گاری کے ہوتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے پیر مرد ، اے شیخ ، اے بزرگ میری گنہگاری سے، میرے پر عصیاں ہونے سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا ۔ میری تمام گنہگاری اور خطا کاری کے باوجود آج بھی میرا مرتبہ یہ ہے کہ اگر میں اپنے آلودہ دامن کو نچوڑ دوں تو اس کی آلودگی اتنی مقدس ،اتنی پاک اور پاکیزہ ہو گی کہ فرشتے اس سے وضو کرنا پسند کریں گے ۔ اس گنہگاری میں بھی ایک تقدیس کا پہلو چھپا ہوا ہے ۔ آپ کے ذہن میں خود بخود یہ سوال پیدا ہو رہا ہو گا کہ کیا خواجہ میر درؔد اپنی بزرگی کا اس بلند آہنگی کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں ؟ ایسا شخص جو مجسم عاجزی ، انکساری اور فروتنی ہے جو اپنے لیے نقش پاکی تشبیہ استعمال کرتا ہے جو ہزاروں کوششوں کے باوجود بھی اٹھا ے نہیں اُٹھ سکتا ۔۔۔ میں بھی جوں نقش پا ہوں چشم براہ ۔ ذرا زمیں پر بنے ہوئے پاؤں کے نشانات کو دیکھیے ۔ کس طرح یہ نشانات زمین پر پڑے ہوئے ہوتے ہیں تو اندازہ ہو گا کہ اپنے لیے نقش پا کی تشبیہ استعمال کرنے والا شخص ؎ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں کی بلندی سے گفتگو نہیں کرسکتا ۔ یہ اس کی شخصیت کا خاصہّ ہی نہیں ہوسکتا ہے ۔ دونوں میں سے کوئی نہ کوئی ایک تصویر ایسی ضرور ہے جو اس کی نہیں ہے ۔ ذرا غور کیجیے ۔ شعر کو دو چار مرتبہ غور سے پڑھیے ۔ ادھر اُدھر ذہن دوڑائیے ۔ دو جگہ دو الفاظ پر آپ کی نظر رکے گی۔آپ ٹھٹکیں گے ۔ یہ کیوں ہے ؟ یہ دونوں لفظ ہیں ہماری اور نچوڑ دیں ۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ دونوں جگہ جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہاں کسی فرد کی بات نہیں ہو رہی ہے شاعرپوری نوع کی بات کررہا ہے ۔ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ وہ نوع کیا ہے ؟ وہ گروپ ، وہ قسم کون سی ہے ؟ ظاہر ہے وہ نوع وہ قسم وہ ہے جس سے خود شاعر کا بھی تعلق ہے۔ شیخ کو مخاطب کر کے یہ بات بھی صاف کر دی ہے کہ وہ طبقہ شیوخ کے طبقہ سے مختلف بلکہ ان کا الٹا ہے ۔ ظاہر ہے۔ یہ ایسے لوگوں کا طبقہ ہے جو ظاہر دار نہیں ، جو متقی نہیں ہیں ۔ جو پر ہیز گار نہیں ہیں جو اپنے آپ کو لیے دیے رہنے والے نہیں ہیں ، جو آزادہ رو ہیں ، پابندیوں کو بہت زیادہ خاطر میں نہیں لا نے والے ہیں ۔ جو محدود معنی میں بہت زیادہ مذہبی نہیں ہیں اسی لیے شریعت کی پابندی کرنے والے انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے اور انہیں لعن طعن کرتے ہیں ۔ اور یہ شعر اسی لعن طعن کا جواب ہے ۔ مقصود یہ ہے کہ ظاہر دار اور ظاہر بیں لوگ اُ س گنہگاری کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور اس گنہگاری کے پیچھے جو عرفان ذات ، عرفان کائنات اور خدا کی ذات میں اپنے آپ کو گم کر دینے کا پہلو چھپا ہوا ہے اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ اسی لیے پہلا مصرع طنز کا پہلو بھی لیے ہوے ہے کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے ۔
تیسرا شعر ہے۔
ہر چند آئینہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لے وہ جس کے مجھے رو برو کریں
آئینہ کی صفت یہ ہے کہ وہ صاف ہوتا ہے ، مجلا ہوتا ہے ، جو چیز اس کے سامنے رکھی جا تی ہے اس کا عکس اس میں نظر آنے لگتا ہے ۔ لیکن اس کا منفی پہلو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ سچ بولتا ہے ، جو جیسا ہو تا ہے اس کو ویسا ہی دکھاتا ہے ۔ اسی لیے اردو کا محاورہ آئینہ دکھانا ہے حقیقت سے واقف کرانا جو جیسا ہے اس کی حقیقت اُسے بتا دینا ۔ شاعر کہتا ہے کہ باوجود یکہ میں صاف ، روشن اور مجلا ہوں مجھ میں لوگوں کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جیسے ہی لوگوں کو مجھ میں اپنا عکس نظر آتا ہے وہ میری طرف سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ کیونکہ ان میں حقیقت کے روبرو ہونے، حقیقت کا سامنا کر نے اور اپنی خامیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ۔ ہر چند بہ معنی باوجود یکہ آئینہ ہونا ۔ صاف ہونا واضح ہونا ۔ منہ پھیر لینا ۔ نا پسندیدگی کا اظہار کرنا ، روبرو کرنا ۔ آمنے سامنے کرنا ۔
چوتھا شعر بے ثباتی دنیا سے متعلق ہے اور دیکھیے کس بے نیازی سے کہا گیا ہے ؎
نے گل کو ہے ثبات نہ ہمکو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں
شعر کی خوبصورتی یہ ہے کہ خطاب چمن سے ہے ۔ اور چمن کو اس کے حقیقی اور استعاراتی دونوں معنی میں استعمال کیا ہے ۔ یعنی یہ دنیا کا استعارہ بھی ہے جس کی سب سے خوبصورت چیز انسان ہے جس کے لیے شاعر نے /ہم / کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اور وہ حقیقی باغ بھی جس میں پیڑ پودے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور جس کی سب سے خوبصورت چیز گل یعنی پھول یا گلاب کا پھول ہوتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ جب نہ اُ س حقیقی باغ کے پھولوں کو ٹھہراؤ حاصل ہے ۔ صبح کھلتے ہیں اور شام کو مرجھا جاتے ہیں اور نہ اس استعاراتی باغ (دنیا) کے پھول (انسان )کو ٹھہراؤ حاصل ہے ۔ کب موت آ جائے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے تو اے باغ میں کس بھرو سے پر دنیا کی خوبصورت اور خوشگوار چیزوں کی خواہش کروں ۔ کسی کو تو ٹھہراؤ حاصل ہو ۔ نہ خواہش کرنے والے کو ٹھہراؤ حاصل ہے اور نہ جس کی خواہش کی جائے اُسے ٹھہراؤ حاصل ہے پھر خواہش کا فائدہ ؟ رنگ و بو ، خوبصورت اور خوشگوار چیزوں کی نمائندگی کرتا ہے ۔ اچھا چلیے ۔ جو چیزیں خواہش کیے جانے یا حاصل کیے جانے کے لائق ہیں اُن کو ٹھہراؤ نہ حاصل ہوتا لیکن مجھے خود اپنے بارے میں معلوم ہوتا کہ میری زندگی اتنے دن کی ہے ، مجھے فرض کرو چالیس یا پچاس سال جینا ہے تو بھی میں ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ جو لفظ یا جملہ میں بول رہا ہوں وہ لفظ یا وہ جملہ میں پوری طرح بول پاؤں گا یہ بات بھی معلوم نہیں ہے ۔ پھر دنیا کی ان چیزوں کے پیچھے میں کیوں پڑا رہوں ، ان کے لیے کیوں پریشان ر ہوں ۔
مقطع میں شاعر نے پھر زاہدان خود بیں پر طنزو تعریض کا پہلو نکال لیا ہے ۔ شعر دیکھیے
ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدان شہر
اے درد آ کے بیعت دست سبو کریں
شاعر نے بہت خوبصورتی سے ایک tensionایک تناؤ پیدا کیا ہے ۔ دو متضاد چیزوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے ۔ لیکن اس میں صنعت تضاد نہیں ہے۔ سبو کہتے ہیں اُس چھوٹے گھڑے یا ٹھلیا کو جس میں شراب رکھی جاتی ہے ، بیعت کہتے ہیں کسی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ اقرار کرنے کو کہ آج سے میں آپ کو اپنا رہنما مانتا ہوں اور آپ جو کچھ کہیں گے اور جیسے کہیں گے اسی پر عمل کروں گا دست معنی ہاتھ صلاح معنی مشورہ ۔
سبو کہہ کر شاعر نے صاحب سبو مراد لیا ہے گھڑا رکھنے والا۔ یعنی وہ شخص جو شراب پلاتا ہے۔ پیر مغاں ۔ اس صنعت کو جس میں لفظ کا استعمال اس کے حقیقی معنی میں نہ ہو کر مجازی معنی میں ہوا ہو اور دونوں معنی میں جو تعلق ہو وہ تشبیہ کا نہ ہو مجاز مرسل کہتے ہیں ۔ زاہد کا اس لیئے نام لیا ہے اور جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے کہ وہ مذہبی طبقہ کی نمائندگی کرتا ہے ۔وہ شراب پینے اور پلانے دونوں کو برا سمجھتا ہے۔ وہ اپنے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کے بر عکس ساقی کا رویہ کشادگی قلب کا ہوتا ہے گناہگار اپنی گناہگاری پر شرمندہ ہوتا ہے اور عبادت گذار اپنی عبادت پر نازاں ۔ بائبل میں ایک واقعہ ہے کہ ایک غریب اور ایک امیر آدمی چرچ جاتے ہیں ۔غریب آدمی چرچ کے دروازہ پر ہی کھڑا رہتا ہے اور بہت گرگرا کر یہ کہتا ہے کہ اے خدا میں تو کسی قابل نہیں ہوں ، میں نے کوئی نیکی نہیں کی ہے، کسی کی بھلائی کا بھی کوئی کام میں نے نہیں کیا ہے میں تو دن رات اپنی روزی کی تلاش میں لگا رہتا ہوں اور بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتا ہوں ۔ اے میرے خدا مجھے معاف کردے۔ میں بہت گنہگار ہوں ۔ دوسرا شخص جو امیر ہے، دولت مند ہے چرچ میں داخل ہوتا ہے اور خوب ڈینگیں ہانکتا ہے کہ اے خدا میں نے یہ نیک کام کیا،وہ نیک کام کیا، تمھارے بندوں کی بھلائی کے لیے فلاں کام کیا فلاں کام کیا، وغیرہ۔ پھر ایک بہت ہی شاندار جملہ آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے وہ غریب اور گناہگار آدمی زیادہ پسند ہے جو اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہے۔ اسلامی روایت میں بھی خدا کی سرزمیں پر اکڑ کر نہیں چلنے کا جو بار بار حوالہ ملتا ہے وہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور درد متقی اور پرہیزگار لوگوں کو شراب پلانے والے کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو کہتے ہیں تو وہ یہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ شراب پینے اور پلانے کی روایت میں عجز و انکسار کا پہلو پایا جاتا ہے۔ اور یہ بات خالق کائنات کو بہت پسند ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ صوفیا اپنے پیر مرشد کے لیئے بھی ساقی کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ چنانچہ حافظ کا بہت مشہور شعر ہے ؎
بہ مئے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بود زرسم و راہ منزل ہا
اگر شراب پلانے والا بوڑھا، یعنی ساقی، یعنی تمھارا پیر یہ کہہ رہا ہے کہ اپنی جائے نماز یا اس کپڑے کو جس پر تم عبادت کرتے ہو شراب کے پیالہ میں ڈبو دو تو اسے شراب کے پیالہ میں ڈبو دو۔ کیونکہ سلوک کی منزلیں طے کرنے والا راستہ کے پیچ و خم سے ناواقف نہیں ہوتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ یہ بات کیوں کہہ رہا ہے۔ کوئی نہ کوئی مصلحت تو ہو گی جس کی وجہ سے وہ یہ بات کہہ رہا ہو گا۔ اس شعر میں بھی ظاہر دار عبادت گزاروں کے مقابلہ میں صوفی صافی کو اسی لئے ترجیح دی گئی ہے کہ وہ راستہ کے پیچ و خم سے واقف ہے۔
لفظ و معنی
شمار ۔ گنتی
کائنات ۔ دنیا
مترادف ۔ ہم معنی لفظ
واردات ۔ وارد کی جمع، واقعہ، حادثہ
سر سبزی ۔ ہرا بھرا پن
شادابی ۔ ترو تازگی
فنا ہونا ۔ ختم ہو جانا
استعجابیہ ۔ حیرت پیدا کرنے والا
شناخت ۔ پہچان
عصیاں ۔ گناہ
تقدیس ۔ مقدس ہونا
ظاہردار ۔ دکھاوا کرنے والا
قادر مطلق ۔ جو پوری قدرت رکھتا ہو ، مراد اللہ تعالیٰ
جہت ۔ پہلو
متقی ۔ ڈرنے والا
خاصہّ ۔ خصوصیت
ظاہر بیں ۔ اوپری چیزیں دیکھنے والے
منفی ۔ نفی کیا ہوا، انکار کیا ہوا
گرفت ۔ پکڑ
مرکزی کردار ۔ سب سے اہم کردار
دلگرفتگی ۔ دکھی ہونا
حصول ۔ حاصل کرنا
عدم ۔ نہ ہونا
صفت ۔ خصوصیت، خوبی
محور ۔ جس پر کوئی چیز گھومے، چاک کی کیل
مرکز ۔ بیچوں بیچ، دائرے کا درمیانی نقطہ
مشاہدہ ۔ دیکھنا
تخاطب ۔ خطاب کرنا
کج رفتار ۔ ٹیڑھی چال رکھنے والا
شیوخ ۔ شیخ کی جمع، بزرگ
شریعت ۔ اسلامی قانون
عرفان ۔ پہچان، تمیز، علم
٭٭٭
ولیؔ اورنگ آبادی
تمہید اور مقصد
دوستو! ولیؔ اورنگ آبادی کی شخصیت اور انکے کارناموں سے آپ واقف ہو چکے ہیں ۔ اس سبق میں ہماری کوشش ہو گی کہ ۱۔ آپ کے اندر شعر کو اور خاص طور سے غزل کے شعر کو اور وہ بھی کلاسیکی غزل کے شعر کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ ۲۔ اور اس صلاحیت کے ساتھ آپ ولیؔ اورنگ آبادی کی غزلوں کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کر سکیں ۔ اس کام کے لئے آپ کے نصاب میں ولیؔ کی دو بہت خوبصورت غزلیں شامل کی گئی ہیں ۔ آپ کی کامیابی اس بات میں ہے کہ آپ ان غزلوں کی خوبصورتی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
آیئے! اب ولیؔ کی غزلوں کا مطالعہ کریں ۔ ولیؔ کی پہلی غزل جو آپ کے نصاب میں ہے وہ یہ ہے اور یقیناً بہت خوبصورت غزل ہے ؎
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہے ترے نین غزالاں سوں کہوں گا
دی حق نے تجھے بادشہی حسن نگر کی
جا کشور ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا
تعریف ترے قد کی الف وارسری جن
جا سروؔ گلستاں میں خوش الحاں سوں کہوں
جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن
یہ سوز ترا مشعل سوزاں سوں کہوں گا
یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بیجا
اس رخ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا
بے صبر نہ ہوا ے ولیؔ اس درد سوں ہر گز
چلتا ہوں ترا درد میں درماں سوں کہوں گا۔
تشریح
پوری غزل کو ذرا رک رک کر دو چار بار پڑھیئے۔ گنگنایئے۔ پھر غور کیجئے۔ آپ کے ذہن میں دو باتیں ایک ساتھ آئیں گی۔ پہلی بات یہ کہ اس غزل کی زبان ذراسی قدیم ہے۔ لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ سمجھ میں نہ آ سکے۔ اور دوسری بات یہ کہ پوری غزل میں دونوں مصرعے دو لخت سے معلوم ہوتے ہیں ۔ آپ کو معلوم ہے یہ دو لخت کیا ہوتا ہے۔ دو لخت کے معنی ہیں دو ٹکڑے۔ شعر میں جب دونوں مصرعے الگ الگ معلوم ہوں تو اسے دو لخت ہونا کہتے ہیں ۔ اور یہ بات غزل کا عیب سمجھی جاتی ہے کہ اس کے دونوں مصرعے الگ الگ ہیں اور ان میں کوئی ربط نہیں ہے۔ ہاں ! تو ہم لوگ بات یہ کر رہے تھے کہ اس غزل کے تمام اشعار کے دونوں مصرعے الگ الگ محسوس ہوتے ہیں ۔ ان میں کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارا یہ احساس ٹھیک ہے یا نہیں اس کا اندازہ تو غزل کے الگ الگ اشعار کے مطالعہ سے ہی ہو گا۔ تو آیئے غزل کا پہلا شعر پڑھتے ہیں ۔ پہلا شعر ہے ؎
تجھ لب کی صفت لعل بد خشاں سوں کہوں گا
جادو ہے ترے نین غزالاں سوں کہوں گا
اس میں کوئی لفظ آپ کو مشکل معلوم ہوتا ہے؟ کوئی ایسا لفظ جس کے آپ کو معنی نہ معلوم ہوں ۔ پہلے ان الفاظ کو ایک کا پی پر الگ لکھ لیجئے۔ پھر ان کے مفہوم، معنی یا مطلب پر غور کیجئے۔ تجھ، کے معنی آپ جانتے ہیں تیرے یا تمھارے، لب کے معنی ہونٹ، صفت کے معنی خصوصیت، اچھائی یا برائی، لعل ایک قیمتی پتھر ہے اور بدخشاں ایک ملک کا نام ہے جہاں کا لعل سب سے اچھا ہوتا ہے، سوں کے معنی سے کے ہیں ، کہنا کا مطلب آپ جانتے ہیں ۔ بیان کرنا، بتانا یا ذکر کرنا، /گا/ علامت استقبال یعنی مستقبل کے صیغے یا زمانہ کی پہچان ہے۔ اب دوسرے مصرعہ کو لیجئے۔ جادو بہ معنی سحر، ترے یعنی تمھارے، نین معنی آنکھیں ، غزال معنی ہرن، غزالاں اسی کی جمع ہے۔ /سوں / اور کہوں گا پر بات ہو چکی ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ پہلے مصرعہ میں شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ تمھارے ہونٹوں کی تعریف، خوبی یا خوبصورتی، یا نزاکت، یا رنگینی یا ایک ساتھ ان سب کا بیان میں بدخشاں کے لعل کے سامنے کروں گا۔ بدخشاں کے لعل کو یہ بتاؤں گا کہ دیکھو میرے محبوب کے ہونٹ کتنے خوبصورت ، کتنے نازک، کتنے رنگین ہیں ۔ پھر دوسرے مصرعے میں وہ کہتا ہے کہ ہرن جس کی آنکھیں سب سے خوبصورت سمجھی جاتی ہیں اس سے جا کر میں یہ بات بتاؤں گا کہ میرے محبوب کی آنکھیں کیسی جادو کرنے والی ہیں ۔۔! ظاہر ہے ان دونوں مصرعوں میں موجودہ شکل میں کوئی ربط سمجھ میں نہیں آتا اور اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں ہوتا ہے۔ کہیں شاعر نے یہ کام جان بوجھ کر تو نہیں کیا ہے۔؟ کہیں وہ ہمیں ذہن پر زور ڈالنے کے لئے تو مجبور نہیں کر رہا ہے؟ کہیں اس نے کچھ ان کہا تو نہیں چھوڑ دیا ہے؟ کوئی خالی جگہ جسے پر کرنے کی وہ قاری سے امید کر رہا ہو؟ شاید اس کا جواب ہاں میں ہو۔
اب ذرا ایک منٹ کے لئے رک کر یہ دیکھیں کہ ہم نے اس غزل کے بارے میں کیا باتیں کی ہیں ؟ اب تک ہم نے اس غزل کے بارے میں دو باتیں کی ہیں پہلی بات یہ کہ اس کی زبان ذرا سی قدیم ہے اور دوسری بات یہ کہ اس کے مصرعے دو لخت معلوم ہوتے ہیں ۔ یہاں رک کر اگر ہم اس غزل کے بارے میں دو اور باتیں کر لیں تو ممکن ہے دو لخت والے مسئلہ کے حل کا کوئی راستہ نکل آئے۔ اس غزل کے بارے میں تیسری بات تو یہ ہے کہ چوتھے اور چھٹے شعر کو چھوڑ کر بقیہ تمام اشعار محبوب کے جسمانی حسن سے متعلق ہیں اور چوتھی بات یہ کہ اس جسمانی حسن کے بیان کے لیئے شاعر نے تقابل کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس تقابل کے لئے کائنات کے بہترین مظاہر کا انتخاب کیا ہے۔ اور ان بہترین مظاہر کائنات کے مقابلہ میں محبوب کی صفات کو ارفع و اعلیٰ بتایا ہے۔ یہ بات اگر براہ راست بیان کی جاتی، کھلے طور پر بیان کی جاتی تو بھونڈی معلوم ہوتی اس لئے شاعر نے ایک اور طریقہ اختیار کیا جو کچھ باتوں کو چھپا دینے یا ان کہا چھوڑ دینے کا ہے جسے اصطلاح میں مقدرات یا محزوفات کہتے ہیں (اس وقت آپ کو اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے) اور تیسری بات یہ کہ پوری غزل کا انداز تخاطب کا ہے یعنی کسی کو مخاطب کر کے یہ اشعار کہے گئے ہیں اسی لئے تجھ، ترے، تجھے وغیرہ کا بکثرت استعمال ملتا ہے۔ اب ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے غزل کا مطالعہ کیجئے تو اندازہ ہو گا کہ اس میں تو کوئی پریشانی کی بات ہی نہیں ہے۔ میں تو خواہ مخواہ پریشان تھا۔ مثال کے طور پر پہلے شعر کو لیجئے۔ شاعر کہتا ہے کہ تیرے ہونٹوں کی خوبی میں بدخشاں کے لعل سے اور تیری آنکھوں کی جادو اثری کا بیان ہرن سے کروں گا تو بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور شعر بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔لیکن جیسے ہی ہم اس کے شروع میں ایک لفظ ’جب‘ کا اضافہ کر لیتے ہیں یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے یعنی جب میں تمھارے ہونٹوں کی تعریف بدخشاں کے لعل سے کروں گا تو وہ بھی حیرت زدہ رہ جائے گا کہ تمھارے ہونٹ اس سے زیادہ خوبصورت ، اس سے زیادہ رنگین، اس سے زیادہ دلکش ہیں اور اسے بھی رشک آنے لگے گا کہ کاش مرے اندر بھی یہ خوبیاں اس شدت سے پائی جاتیں اسی طرح جب میں خوبصورت آنکھ رکھنے والے ہرنوں کو تمھاری آنکوں کی خوبصورتی اور جادو اثری کے بارے میں بتاؤں گا تو وہ بھی اسے سن کر انگشت بدنداں رہ جائیں گے اور اس بات پر رشک کرنے لگیں گے کہ کاش میرے اندر بھی یہ خوبیاں اس شدت کے ساتھ پائی جاتیں ۔ ظاہر یہ سارے مفاہیم صرف اس وجہ سے ہماری سمجھ میں آسکے کہ ہم نے شعر میں چھپی ان ان کہی باتوں ، ان محزوفات کو دریافت کر لیا جو شاعر نے جان بوجھ کر رکھی ہیں ۔ اگر ہم اسے دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو ہمارے لئے اس غزل کو سمجھ پانا آسان کام نہیں تھا۔
اب آپ اسی طرح غزل کے بقیہ اشعار کو سمجھ سکتے ہیں ۔ دوسرا شعر پڑھئے ؎
دی حق نے تجھے باد شہی حسن نگر کی
جا کشور ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا
اس کے مشکل الفاظ پر غور کیجئے۔ پہلا لفظ دی۔ فعل دینا کا صیغۂ ماضی مطلق ہے۔ یعنی اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دینے کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ حق کے معنی سچ، درست، راست، واجب اور سنراوار کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔ اس شعر میں یہ لفظ اسی آخری معنی میں استعمال ہوا ہے، بادشہی، بادشاہی یا بادشاہت کا مخفف ہے یا یوں سمجھیے کہ شعری ضرورت سے اس کے بیچ کی الف گرا دی گئی ہے اور حسن نگر شہر حسن یا حسن کا شہر کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ ترکیب بنانے کے اس طریقہ کو اضافت مقلوبی کہتے ہیں (ان دونوں چیزوں شعری ضرورت اور اضافت مقلوبی سے آپ آگے کی کلاسز میں واقف ہوتے جائیں گے) کشور، ملک کو کہتے ہیں ، ایران آپ جانتے ہیں مشہور ملک کا نام ہے، سلیمان علیہ السلام سے بھی آپ واقف ہیں جو مشہور پیغمبر گذرے ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ۱۔انسانوں کے علاوہ بھی تمام مخلوقات کی زبان جانتے اور سمجھتے تھے اور
۲۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام ذی روح پر بھی ان کی حکومت تھی۔ یوں حضرت سلیمان علیہ السلام ملک گیری یا کشور کشائی یا بادشاہت کے انتہائی نمونہ کے طور پر اس کا استعارہ بن جاتے ہیں دوسری طرف حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت کی طرف اشارہ سے شعر میں تلمیح کی صنعت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ شاعر اس شعر میں محبوب کے ظاہری حسن کا ذکر کر رہا ہے کہ وہ اتنا زیادہ حسین ہے کے اس کے حسن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے حسن کے شہر کی بادشاہت عطا کر دی ہے۔ تمام حسینوں کا سردار اور ان میں سب سے ممتاز بنا دیا ہے۔ اپنی اس مملکت پر اسے کیسا تصرف حاصل ہے اور حسینوں کے درمیان اسے کیسی بزرگی، کیسی بلندی، کیسا شرف اور کیسی عزت حاصل ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر میں ایران کے ملک میں حضرت سلیمان علیہ السلام سے جا کر یہ بات کہوں گا جنہیں تمام ذی روح مخلوقات پر حکمرانی حاصل ہے تو وہ بھی اس بات پر رشک کرنے لگیں گے کہ کاش مجھے بھی ایسی حکومت، ایسی سلطنت، ایسی بزرگی اور ایسی برتری حاصل ہوتی۔خاص بات یہ ہے کہ عام طور سے محبوب کی جس سلطنت کا اردو شاعری میں ذکر کیا جاتا ہے وہ دل کی سلطنت ہے۔ وہ اپنے چاہنے والوں کے دل پر حکومت کرتا ہے لیکن اس شعر میں ولیؔ نے ایک دوسرا پہلو پیدا کیا ہے۔ تیسرا شعر پڑھیے۔ بہت خوبصورت شعر ہے۔
تعریف ترے قد کی الف و ارسری جن
جاسروگلستاں میں خوش الحاں سوں کہوں گا۔
ذرا شعر کے الفاظ پر غور کیجئے۔ تعریف کرنا کہتے ہیں سراہنے کو، اچھائی بیان کرنے کو، ترے ،محبوب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔، قد کہتے ہیں ڈیل ڈول کو، قامت کو، الف آپ جانتے ہیں اردو زبان کے حروف تہجی کا پہلا حرف ہے وار کلمۂ نسبت اور کلمۂ تشبیہ ہے یعنی مانند، جیسا، سری جن محبوب کو کہتے ہیں ۔
’سروگلستاں ‘ میں واؤ کے نیچے زیر یعنی اضافت نہیں لگائیں گے۔ بغیر اضافت یا بغیر زیر کے پڑھیئے۔ یہ اسی طرح کی ترکیب ہے جیسی اس سے پہلے والے شعر میں حسن نگر کی ترکیب تھی۔ یعنی گلستانِ سرد کی اضافت کی تقلیب کر کے سرد گلستاں بنا لیا ہے۔ مطلب وہی ہے یعنی سرو کے درخت کا باغ۔ خوش کہتے ہیں اچھے کو۔ چنانچہ عام بول چال میں بھی خوش رو یعنی اچھے چہرے والا، خوش لباس یعنی اچھے لباس والا، خوش قامت یعنی اچھے قد والا، خوش بدن یعنی اچھے جسم والا، خوش چشم یعنی اچھی آنکھوں والا وغیرہ الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ الحاں کو دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں ۔ الف کے نیچے اگر زیر دے کر پڑھیں گے تو اس کے معنی گیت، سریا گانے کے ہوں گے اور اگر الف پر زبر پڑھیں گے تو اس کے معنی آواز کے ہوں گے۔ پہلی صورت میں خوش الحاں کے معنی اچھا گانا گانے والے کے ہوں گے اور دوسری صورت میں اچھی آواز رکھنے والے کے ہوں گے۔ دونوں چونکہ ایک دوسرے سے متعلق ہے اس لیئے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔روایتی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پرندے جو باغ میں چہچہاتے رہتے ہیں ان کا چہچہانا در اصل سروکے درخت کی خوش قدی کی تعریف میں ہوتا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ اے محبوب تمھارے الف کی طرح سیدھے اور اونچے قد کی تعریف جب میں سروکے باغ میں چہچہانے یا نغمہ سرا ہونے والے پرندوں سے کروں گا اور انہیں تمھاری خوش قدی کی تفصیلات بتاؤں گا تو وہ اپنی نغمہ سرائی پر شرمندہ ہوں گے اور اس بات پر رشک کریں گے کہ کاش! ان کا محبوب یعنی سروکا درخت بھی میرے محبوب جیسا خوش قد ہوتا۔ کاش اس میں بھی وہ صفات پائی جاتیں جو میرے محبوب میں پائی جاتی ہیں ۔ یعنی سرو کے درخت کی خوش قدی میرے محبوب کی خوش قدی کے سامنے ہیچ ہے۔
چوتھا شعر ان تینوں اشعار سے ذرا سا مختلف ہے۔ اس میں محبوب کے بجائے عاشق کا ذکر ہے۔ کلاسیکی غزل کے عاشق کی اس خوبی یا خصوصیت کا ذکر ہے کہ وہ ہمیشہ محبوب کے فراق میں ، اس کے غم میں جلتا رہتا، گھلتا رہتا،حیران و پریشان رہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاعر اس مضمون کو کس انداز میں پیش کرتا ہے کہ یہ دوسرے شاعروں کے اس مضمون سے متعلق اشعار سے مختلف ہو جاتا ہے۔ ذرا اس کے الفاظ پر غور کیجئے۔ پہلا لفظ ایک فعل ہے/جلتا / اور اس کے بعد صیغہ واحد متکلم یعنی میں کی ضمیر ہوں استعمال ہوئی ہے۔ یعنی شعر کا زمانہ حال جاری Present Continuousہے شب کے معنی رات اور روز کے معنی دن /و/ دونوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہے یعنی /اور/ ساجن محبوب کو کہتے ہیں ، سوز جلن کو بھی کہتے ہیں اور جلانے والے کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سوزاں بنا ہے۔ یعنی جلتا ہوا اور وہ چیز جس کی خوبی مستقل جلتے رہنا ہے وہ مشعل ہے یعنی شمع۔
اب شعر کے مفہوم کی طرف آیئے شمع عاشق کا استعارہ ہے۔ دونوں اپنے معشوق کے عشق میں جلتے اور پگھلتے رہتے ہیں لیکن شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ میرے جلنے اور پگھلنے کی جو کیفیت ہے جو شدت ہے اس کا بیان جب میں اس شمع سے کروں گا جو بظاہر ہر وقت جلتی ہی رہتی ہے (اور عاشق کا جلنا عام لوگوں کو نظر نہیں آتا) تو وہ بھی میری کیفیت کو سنکر حیرت زدہ رہ جائے گی اور اس پر رشک کرے گی کہ کاش میری سوزش میں بھی یہ شدت پائی جاتی۔
پانچواں شعر پھر محبوب کی صفات حمیدہ کے بیان میں ہے۔ اس کی تعریف میں ہے۔ ذرا شعر پڑھ کر دیکھئے کیا غضب کا شعر ہے ؎
یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بیجا
اس مکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا
محبوب کے چہرے کے لئے صفحہ کا استعارہ استعمال کیا اور چونکہ کتاب کے صفحے پر بہت سے زیر زبر پیش اور نقطے ہوتے ہیں اس لئے محبوب کے چہرے کے نقوش کو ان نقطوں سے تعبیر کیا۔ پھر اس استعارہ کو اور وسعت دی اور یہ کہا کہ کتابوں میں سب سے اہم کتاب جسے ام الکتب یعنی کتابوں کی ماں کہا گیا ہے قرآن ہے اور قرآن کے ایک ایک لفظ نقطے، شوشے، زبر زیر پیش ہر شے کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ہر جز و کل کا حافظ و ناصر ہے اس لیئے اس میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں اور حسن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے تمام اجزا موزوں متناسب اور برمحل ہوں ۔ اس پورے پس منظر میں شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کا چہرہ کتاب کے صفحہ کی طرح تو ہے لیکن ایسی کتاب کے صفحہ کی طرح ہے جس کے تمام اجزا اتنے بر محل، اتنے موزوں اور اتنے متناسب ہیں کہ اگر میں یہ بات قرآن سے جا کر کہوں گا تو قرآن جیسی کتاب بھی جو توازن، تناسب، موزونیت اور بر محل ہونے کی بہترین مثال ہے وہ بھی اس بات پر رشک کرنے لگے گی کہ یہ خوبیاں میرے اندر کیوں موجود نہ ہوئیں ۔ کاش میرے اندر بھی یہ خوبیاں موجود ہوتیں ۔ دیکھا آپ نے محبوب ہوتا ہی ایسی چیز ہے کہ اس کے چکر میں قرآن بھی زد میں آ جاتا ہے۔ وہ محبوب ہی کیا جس کی موجودگی میں یہ سب باتیں یاد رہیں ۔
غزل کا آخری شعر ہے ؎
بے صبر نہ ہوا ے ولیؔ اس درد سوں ہرگز
چلتا ہوں ترا درد میں درماں سوں کہوں گا
اس شعر میں صرف ایک لفظ درماں ، ایسا ہے جس کے معنی معلوم کرنے کی آپ کو ضرورت پڑے گی۔ اور وہ بھی کچھ ایسا نہیں ہے جس کے لئے آپ بہت پریشان ہوں ۔ تھوڑا سا غور کر لیں تو آپ کو خود ہی اس کے معنی معلوم ہو جائیں گے۔ شعر میں اس لفظ کا استعمال ایک اور لفظ کے ساتھ آیا ہے۔ اور وہ لفظ ہے ’درد‘ بہ معنی تکلیف اور اس تکلیف میں بے صبری کا مظاہرہ نہ کرنے یا پریشان نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ تمھاری تکلیف میں درماں سے کہہ دوں گا۔ اب آپ یقینا اس لفظ کے معنی سمجھ گئے ہوں گے۔ جی ہاں ! بالکل صحیح اندازہ لگایا آپ نے۔ درماں کے معنی ہوتے ہیں علاج کے۔ شعر کی خوبی یہی کہ شاعر نے علاج کرنے والے یعنی معالج کو ہی علاج بنا دیا ہے۔ عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کو تکلیف بتا کر دوا لے آؤ۔ لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے۔ ڈاکٹر خود ہی علاج بھی ہے۔ اس لیئے شاعر نے علاج یعنی دوا سے ہی درد کا بیان کرنے کی بات کہی ہے جو ایک نئی بات ہے۔ اور پہلو یہ رکھا ہے کہ جب اسے تمھاری تکلیف کے بارے میں پتہ چلے گا تو وہ کوئی نہ کوئی پہلو تمھارے سکون کا نکال ہی لے گا۔
آئیے اب ولیؔ کی دوسری غزل پڑھتے ہیں ۔ غزل یہ ہے ؎
مت غصّہ کے شعلہ سوں جلتے کوں جلاتی جا
ٹک مہر کے پانی سوں یہ آگ بجھاتی جا
اس رین اندھیری میں مت بھول پڑوں تس سوں
ٹک پاؤں کے بچھووں کی آواز سناتی جا
تجھ مکھ کی پرستش میں کٹی عمر مری ساری
اے بت کی پجن ہاری اس بت کو پجاتی جا
تجھ عشق میں جل جل کر سب تن کو کیا کاجل
یہ روشنی افزا ہے انکھین کو لگاتی جا
تجھ گھر کی طرف سندر آتا ہے ولی دائم
مشتاق ہے درشن کا ٹک درس دکھاتی جا
پوری غزل کو تھوڑی توجہ سے دو چار بار پڑھئے۔ اور غور کیجئے کہ اس غزل کی کون سی چیز یا کون سی بات آپ کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے یا سب سے اہم معلوم ہوتی ہے؟ یا عام بول چال کی زبان میں بات کریں تو کون سی بات دوسری غزلوں سے مختلف اور خاص طور سے نمایاں معلوم ہوتی ہے؟ تھوڑی سی توجہ دیجئے ۔ کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ اگر آپ توجہ نہیں دیں گے تو بہت آسانی سے اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ سکتے اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس غزل میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ لیکن یہی سہل پسندی آپ کی ناکامی ہو گی۔ یہ پوری غزل ایک خاص وجہ کے آپ کے نصاب میں شامل کی گئی ہے۔ یہ وجہ اس غزل کے قافیہ میں چھپی ہوئی ہے یعنی جلاتی،بجھاتی، سناتی،پجاتی، لگاتی، اور دکھاتی، کے استعمال میں ۔ چلیئے۔ میں نے آپ کو ایک اشارہ دے دیا۔ اب اپنا ذہن دوڑایئے اور جلدی سے بتا دیجئے کہ وہ خاص وجہ کیا ہے۔؟ ظاہر ہے جیسا میں نے عرض کیا وہ خاص وجہ اس غزل کے قافیہ میں چھپی ہوئی ہے۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ پوری غزل کے تمام قوافی افعال ہیں ۔ یعنی ایسے الفاظ ہیں جو کسی کام کے ہونے یا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ٹھیک۔! اسی کے ساتھ آپ کا ذہن اس بات کی طرف بھی ضرور متوجہ ہوا ہو گا کہ ان تمام افعال کی جو شکل یہاں استعمال ہوئی ہے وہ شکل تا نیشی ہے۔ یعنی ان الفاظ سے جو قافیہ میں استعمال ہوئے ہیں ہمیں یہ پتہ چل جاتا ہے کہ شعر میں جس کام کا ذکر کیا گیا یا کیا جا رہا ہے اس کا فاعل یا کام کرنے والا کون ہے؟۔۔ وہ فاعل ایک نسوانی وجود یعنی عورت ہے۔ اور یہ بات اردو کی کلاسیکی شاعری کی رسومیات کے خلاف جاتی ہے۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کی رسومیات میں یہ بات روز اول سے ہی شامل ہے کہ عشق کے جذبہ کا اظہار ایسے الفاظ میں کیا جائے گا جس سے محبوب/معشوق کی جنس کا پتہ نہیں چلتا ہو۔ ولیؔ کی غزلوں میں عام طور سے اس روایت کی پاسداری ملتی ہے۔ لیکن معدودے چند غزلیں ایسی بھی ہیں جن میں محبوب کی جنس کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے کہ وہ عورت ہے۔ اور ان چند غزلوں میں سے ایک غزل یہ بھی ہے۔
مت غصہّ کے شعلے سوں جلتے کوں جلاتی جا
ٹک مہر کے پانی سوں یہ آگ بجھاتی جا
کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس کے معنی بتانے کی ضرورت پڑے۔ زیادہ سے زیادہ مہر کے معنی آپ پوچھ سکتے ہیں جس کے معنی محبت کے ہوتے ہیں ۔ اب شعر کے محاسن پر غور کیجئے۔ شاعر نے واضح طور پر الفاظ کا دو گروپ بنایا ہے۔ ایک گروپ میں غصہّ اور اس کے متعلقات ہیں ۔ اور دوسرے میں محبت اور اس کے متعلقات ہیں ۔ غصہّ کو شعلہ سے اور مہر یا محبت کو پانی سے تعبیر کیا ہے۔ اس بات کو آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاعر نے غصہّ کے لیے شعلہ اور محبت کے لئے پانی کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوتی۔ اس شعلہ کی رعایت سے جلنا اور جلانا اور پانی کی رعایت سے بجھانے کے الفاظ استعمال کیئے گئے جسے رعایت لفظی یا مراعات النظیر کہتے ہیں ۔ پھر شعلہ اور پانی ، جلنا اور بجھانا اور غصّہ اور مہر کے استعمال میں تضاد کی صنعت کا بھی استعمال کر لیا۔ اور اس استعمال سے جو مفہوم بر آمد کیا وہ یہ کہ عاشق کا تو مقدر ہی عشق کی آگ میں زندگی بھر جلتے رہنا ہے اس لیئے اس پر مزید غصہّ کر کے اسے اور زیادہ جلانا مناسب نہیں ۔ اس کے جذبہ عشق کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ محبت اور عنایت سے پیش آیا جائے تاکہ اس کے اندر کی آگ اس پانی سے کچھ بجھ سکے۔
اسی طرح اس غزل کا دوسرا شعر ہے
اس رین اندھیری میں مت بھول پڑوں تس سوں
ٹک پاؤں کے بچھوؤں کی آواز سناتی جا
رین، رات کو کہتے ہیں ۔ تس بہ معنی تجھ ہے، سوں بہ معنی سے، ٹک بہ معنی تھوڑا سا اور بچھوا پاؤں کی انگلیوں میں پہنی جانے والی اس انگوٹھی کو کہتے ہیں جس میں دو گھنگھرو لگے ہوتے ہیں جو چلنے میں ہلکی ہلکی خوشگوار آواز پیدا کرتے ہیں ۔
اب آیئے اس شعر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شعر کا پہلا لفظ ’اِس‘ ہے اور یہ اندھیری رات کے لیئے استعمال ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اندھیری رات کون سی ہے؟ شاعر نے صرف اندھیری رات کہنے پر اکتفا کیوں نہیں کیا؟ اسے یہ اسم اشارہ/اس/ استعمال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا شاعر کسی خاص رات کے اندھیرے پن کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے؟ شاید ہاں !
فارسی کے ایک شاعر کا شعر ہے کہ ؎
شب تاریک و بیم موج و گرداب چنیں حائل
کجادانند حال ماسبک ساران ساحل ھا
یعنی اندھیری رات ہے، دریا کی بپھری ہوئی موجوں کا خوف ہے اور ایک غضب کے گرداب یعنی بھنور میں میں پھنسا ہوا ہوں ۔ اس حالت کو ساحل کے کنارے کھڑے ہوئے لوگ کہاں سمجھ سکتے ہیں یعنی نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔ یہاں شاعر نے حالات کی دشواری اور پریشانی کو بیان کرنے کے لئے ایک پورا مصرعہ استعمال کیا ہے جس میں تین باتوں کا ذکر کیا ہے شب تاریک، بیم موج اور گرداب چنیں تاکہ حالات کی شدت کو اس کی پوری Intensity کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ کثرت استعمال سے یہ مضمون صرف ایک ترکیب/شب تاریک/کے استعارہ میں در آیا ہے اور ولیؔ نے اسے اندھیری رات یا رین اندھیری کے ذریعے پیش کر دیا ہے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ ان مشکل اور دشوار گذار حالات میں جو تمھارے ہجر سے پیدا ہوئے ہیں کہیں میں تمہارے راستے سے بھٹک نہ جاؤں اس لیئے پاؤں کے بچھوؤں کی آواز سنا کر یعنی اپنی موجود گی کا احساس دلا کر میری رہنمائی کرتی رہو تاکہ میں راہ مستقیم پر قائم رہ سکوں ۔ یہ راہ محبوب حقیقی کی بھی ہو سکتی ہے اور محبوب مجازی کی بھی۔ خاص بات یہ ہے کہ اندھیری رات میں راستہ بھٹک جانے یا راستہ سے ہٹ کر کسی اور راستہ پر چل پڑنے کا ڈر ہر مسافر کو ہوتا ہے۔ یوں شعر اپنی لغوی سطح بھی بر قرار رکھتا ہے۔
تیسرا شعر ہے ؎
تجھ مکھ کی پرستش میں کٹی عمر مری ساری
اے بت کی پجن ہاری اس بت کو پجاتی جا
پرستش کے معنی پوجا کے ہوتے ہیں ، مکھ ،رخ یا چہرے کو کہتے ہیں ، پجن ہاری کا مطلب ہے پوجنے والی، بت کا لفظ دو جگہ استعمال ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ یہ مورتی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور دوسری مرتبہ محبوب کے لیئے استعمال ہوا ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ پوری عمر میں تمہارے عشق میں مبتلا رہ کر تمھارے رخ روشن کی پوجا یا پرستش کرتا رہا لیکن اس کے باوجود مجھے کبھی تمھارا قرب یا تمھارا وصال حاصل نہیں ہو سکا۔ تم ہمیشہ دوسرے بتوں کی پرستش میں مصروف رہی جبکہ تم خود اس لائق ہو کہ تمہاری پوجا کی جائے۔ اس لئے اے بت کی پوجا کرنے والی کبھی اپنے قرب کی دولت سے سرفراز کر کے مجھے بھی اپنی پوجا کرنے کا موقع فراہم کرتا کہ میرے دل کی مراد بر آئے۔ بت کی پجن ہاری میں ایک پہلو تو حقیقی بت کا ہے اور دوسرا پہلو کسی حسین چہرہ کا بھی ہے۔
چوتھا شعر پڑھیئے ؎
تجھ عشق میں جل جل کر سب تن کو کیا کاجل
یہ روشنی افزا ہے انکھین کو لگاتی جا
شعر کا بنیادی استعارہ آگ ہے جس کا کہیں ذکر نہیں ہوا ہے۔ لیکن یہ شعر کی تہہ میں چھپا ہوا ہے۔
مفہوم یہی ہے کہ عشق کا جذبہ ایک آگ کی طرح ہے جو عاشق کو اندر ہی اندر جلا کر خاک کر دیتا ہے۔ اور کاجل بنانے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ متعلقہ چیزوں کو جلا کر راکھ کر لیا جاتا ہے۔ اس سے شاعر نے یہ پہلو پیدا کیا ہے کہ تمھارے عشق میں مستقل جلتے رہنے کی وجہ سے میری حیثیت کا جل کی ہو گئی ہے یا میں کاجل کی طرح ہو گیا ہوں ۔ اور کاجل کو روشنی بڑھانے کے لیئے آنکھوں میں لگایا جاتا ہے۔ لہذا اگر تم کو اپنی آنکھوں کی روشنی میں اضافہ کرنا ہے تو میری خاک کو آنکھوں سے لگا لو۔ چونکہ آنکھوں سے لگانے کا محاورہ محبت اور احترام کے اظہار کے لیئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اس لئے مطلب یہ ہوا کہ کسی بہانے سے ہو اور کسی وجہ سے ہو لیکن تم مجھے اپنے قرب کی دولت سے سرفراز کر دو۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے جو لوگ بھی اپنی جان کی بازی لگا دیتے اور کسی دوسری چیز کی پرواہ نہیں کرتے ہیں ان کو دنیا آنکھوں سے لگاتی اور ان سے محبت کرتی ہے اور چونکہ میں نے بھی تمھیں حاصل کرنے کے مقصد سے اپنی جان کی بازی لگا دی ہے اس لیئے میں بھی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھ سے خلوص اور محبت سے پیش آیا جائے۔
تن، جسم کو کہتے ہیں ، روشنی افزا کا مطلب ہے روشنی بڑھانے والا، اور انکھین، آنکھوں کو کہتے ہیں ۔
غزل کا مقطع (قطع کرنے کی جگہ، کاٹنے کی جگہ، ختم ہونے کی جگہ،غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنے تخلص کا استعمال کرتا ہے) ہے ؎
تجھ گھر کی طرف سندر آتا ہے ولیؔ دائم
مشتاق ہے درشن کا ٹک درس دکھاتی جا
سندر کے معنی خوبصورت کے ہیں یہاں معشوق کے لئے استعمال کیا ہے۔ دائم کے معنی ہیں ہمیشہ، مستقل، مشتاق کا مطلب ہے شائق، شوق رکھنے والا، درشن کے معنی دیکھنا۔ درس، درشن کا ہی مخفف ہے۔
شعر میں کچھ زیادہ پیچیدگی نہیں ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ولیؔ تمھارے گھر کی طرف مستقل/ہمیشہ آتا رہتا ہے۔ اور اس بات کا خواہش مند ہے کہ تم اس کو اپنا جلوہ دکھا دو۔ اس لیئے ذرا سا ہی سہی تھوڑا سا ہی سہی لیکن تم اسے اپنا جلوہ دکھا دو تاکہ اس کی زندگی کا مقصد حاصل ہو جائے۔
پوری غزل تخاطب کے انداز میں ہے اس لیئے اور بھی لطف دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر یا واحد متکلم محبوب کے سامنے بیٹھا اس سے باتیں کر رہا ہے۔
لفظ و معنی
معدود ۔ تھوڑا سا گنا ہوا
مطالعہ کرنا ۔ پڑھنا
قدیم ۔ پرانا/پرانی
دولخت ۔ دو ٹکڑے
اختیار کرنا ۔ اپنانا
کائنات ۔ دنیا
ارفع ۔ بلند
اعلیٰ ۔ اونچا
مقدرات ۔ تقدیر کیا ہوا
انگشت بدنداں رہنا ۔ حیرت زدہ رہنا
دریافت کرنا ۔ پتہ لگانا، معلوم کرنا
دیگر ۔ دوسرے
ذی روح ۔ روح رکھنے والے
حمیدہ ۔ پسندیدہ، جس کی تعریف کی گئی ہو
حافظ ۔ حفاظت کرنے والا
جزو ۔ حصہّ
کل ۔ پورا
کلاسیکی ۔ پرانا
رسومیات ۔ رائج طور طریقے (رسم و رواج)
روز اوّل ۔ پہلا دن
اظہار ۔ ظاہر کرنا
متعلقات ۔ تعلق رکھنے والے
اسم اشارہ ۔ وہ لفظ جس سے کسی چیز کے قریب یا دور ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہو۔
محبوب حقیقی ۔ اصلی محبوب یعنی خدا
لغوی سطح ۔ وہ معنی جو لغت میں لکھے ہوئے ہیں ۔
تخاطب ۔ خطاب کرنا، کہنا،
سرفراز ۔ سر بلند، اونچا مرتبہ رکھنے والا،
مستحق ۔ حقدار، حق رکھنے والا
افعال ۔ فعل کی جمع، وہ لفظ جس سے کسی کام کے ہونے یا کرنے کا پتہ چلے۔
عیب ۔ خرابی
ربط ۔ تعلق
قاری ۔ پڑھنے والا
تقابل ۔ مقابلہ کرنا
انتخاب کرنا ۔ چننا
مظاہر ۔ ظاہر ہونے کی جگہ، ظاہر ہونے والی چیز
صفات ۔ خوبی، اچھائی،
براہ راست ۔ سیدھے طریقے سے
محزوفات ۔ حذف کیا ہوا
جادو اثری ۔ جادو کی طرح اثر کرنا
ملک گیری ۔ بادشاہت
کشور کشائی ۔ بادشاہت
ممتاز ۔ نمایاں
مملکت ۔ حکومت
نقوش ۔ نقش کی جمع، بہ معنی نشان،
ناصر ۔ مدد کرنے والا
اجزا ۔ جز کی جمع مطلب حصّے
موزوں ۔ تلا ہوا، وزن کیا ہوا، مناسب
متناسب ۔ ایک دوسرے سے نسبت رکھنے والا
بر محل ۔ بالکل صحیح جگہ پر، صحیح موقع پر
محاسن ۔ خوبصورتی
اکتفا ۔ کفایت کرنا، بس کرنا
راہ مستقیم ۔ سیدھا راستہ
قائم رہنا ۔ کھڑا رہنا
محبوب مجازی ۔ وہ محبوب جو اصلی نہ ہو یعنی اس دنیا کے محبوب
وصال ۔ ملنا، ملن
متعلقہ ۔ تعلق رکھنے والی
قرب ۔ نزدیک ہونا،
جان کی بازی لگانا ۔ جان کو خطرے میں ڈالنا
٭٭٭
سراج اورنگ آبادی
تمہید اور مقصد
اس سبق کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے اندر شاعری کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے اور آپ اچھے اور خراب شعر میں فرق کر سکیں ۔ ان معیارات سے واقف ہو جائیں جن سے شعر کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ اور شعر سے لطف اندوز ہونے لگیں ۔ یہ جان جائیں کہ شعر کو کیسے پڑھنا چاہئے؟
آیئے! اب سراج اور نگ آبادی کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ سراج کی پہلی غزل ہے ؎
قد ترا سرو رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
گلشن دل میں عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دھوپ میں غم کی عبث جی کو جلایا افسوس
اس کے سایہ میں اماں تھا مجھے معلوم نہ تھا
یار نے ابرو و مژگاں میں مجھے صید کیا
صاحب تیرو کماں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سب جگت ڈھونڈ پھرا یار نہ پایا لیکن
دل کے گوشہ میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
شب ہجراں کی نہ تھی تاب مجھے مثل سراج
رخ ترا نور فشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
پوری غزل کو دو تین بار پڑھیئے۔ رک رک کر، تھوڑا سا سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ مشکل الفاظ پر توجہ دیجئے۔ اپنے آپ سے یہ سوال کیجئے کہ کون سی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ اور کیوں نہیں آ رہی ہے۔؟
تشریح
اس غزل میں دو چیزیں سب سے نمایاں ہیں ۔ پہلی چیز ہر شعر کے آخر میں آنے والا لفظ ’تھا‘ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس لفظ کو جو شعر کے آخر میں آتا ہے اور جس کی ہر شعر میں تکرار ہوتی ہے اسے ردیف کہتے ہیں ۔ تو کیا اس غزل کی ردیف ’تھا‘ ہے؟ سوچ کر جواب دیجئے۔ ضروری نہیں ہے کہ ردیف ایک ہی لفظ پر مشتمل ہو۔ ایک سے زیادہ الفاظ بھی ہو سکتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ الفاظ مطلع کے دونوں مصرعوں اور بقیہ شعروں کے دوسرے مصرعوں کے آخر میں بالکل اسی طرح سے بغیر کسی تبدیلی کے آئیں گے۔ غور کیجئے۔ وہ کون سا لفظ یا وہ کون کون سے الفاظ ہیں جو اس غزل کے تمام شعروں کے دوسرے مصرعوں اور مطلعے کے دونوں مصرعوں کے آخر میں تکرار کے ساتھ بغیر کسی تبدیلی کے آتے ہیں ؟ آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اس غزل میں ردیف ایک لفظ نہیں بلکہ پانچ الفاظ پر مشتمل ہے۔ اور یہ پانچوں الفاظ ’تھا مجھے معلوم نہ تھا‘ ہیں ۔ ان پر نشان کھینچ لیجئے۔ اب صرف ان پانچ الفاظ پر غور کیجئے ۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم نے الفاظ کی گنتی میں غلطی کی ہے۔ الفاظ تو در حقیقت چار ہی ہیں ۔ یعنی/مجھے/معلوم/نہ/تھا/۔ ان میں سے ایک لفظ یعنی/تھا/ کی ردیف میں بھی تکرار ہو گئی ہے۔ اس طرح مطلع میں یہ لفظ چار مرتبہ اور اس کے بعد کے تمام اشعار میں دو دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ مقطع (آپ جانتے ہیں نا یہ کیا ہوتا ہے؟ غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنے تخلص کا استعمال کرتا ہے ) میں اس ’تھا‘ کی ایک دوسری شکل یعنی ’تھی‘ کا بھی شاعر نے استعمال کیا ہے۔ یعنی پانچ اشعار کی اس غزل میں بارہ مرتبہ یہ ایک لفظ ’تھا‘ استعمال ہوا ہے اور ایک مرتبہ اس کی بدلی ہوئی شکل تھی، یعنی کل ملا کر تیرہ مرتبہ اس کا استعمال ہوا ہے۔ اب ذرا اس غزل کے الفاظ کی مجموعی تعداد کی بھی گنتی کر لیجئے۔ ایک شعر کو چھوڑ کر تمام اشعار میں اٹھارہ اٹھارہ الفاظ ہیں ۔ صرف ایک شعر میں انیس الفاظ ہیں ۔ پانچوں شعروں کو ملا کر استعمال ہونے والے الفاظ کی کل تعداد ۹۱ اکیانوے بنتی ہے۔ اس اکیانوے میں سے تیرہ کل کا کتنا فیصد بنتا ہے؟ لگ بھگ چودہ فیصد۔/۱۴
معاف کیجئے گا۔ شعر پڑھتے پڑھتے ہم لوگ ریاضی کے دائرے میں داخل ہو گئے۔ آپ بھی پتہ نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ یہ ریاضی ہی پڑھنی ہوتی تو اردو شاعری کا پرچہ کیوں لیتا۔ لیکن آپ پریشان نہ ہوں ۔ شاعری کے ذریعہ آپ کو ریاضی پڑھانے کا میرا ارادہ بالکل نہیں ہے۔ صرف اس بات کی طرف آپ کے ذہن کو لے جانا چاہتا تھا کہ اس پوری غزل کا حاوی انداز کیا ہے۔ سو آپ کو معلوم ہو گیا۔ یعنی پوری غزل پر ایک لفظ حاوی ہے۔ بالکل چھایا ہوا ہے۔ اور وہ لفظ ہے۔ ’تھا‘
آیئے ذرا اس بات پر بھی غور کر لیں کہ اس ’تھا‘ کا مطلب کیا ہے؟ اتنی بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ ماضی کا صیغہ ہے۔ گذرے ہوئے زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس میں پورا ہو جانے اور مکمل ہو جانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ پوری غزل گذرے ہوئے زمانہ اور اس زمانہ کے کسی گذرے ہوئے واقعے یا حادثے کو پیش کرتی ہے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر بات اتنی ہی سی تھی تو شاعر کو ایک شعر میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس لفظ کے استعمال کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا وقت کے گذر چکنے کے احساس کو پیدا کرنے کے لیئے ایک ’تھا‘ کافی نہیں ہے؟ کہیں شاعر اس لفظ کا کوئی اور استعمال تو نہیں کر رہا ہے؟
آیئے ایک بار پھر غزل کو پڑھتے ہیں ؎
قد ترا سرورواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
گلشن دل میں عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دھوپ میں غم کی عبث جی کو جلایا افسوس
اس کے سایہ میں اماں تھا مجھے معلوم نہ تھا
یار نے ابرو و مژگاں میں مجھے صید کیا
صاحب تیر و کماں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سب جگت ڈھونڈ پھرا یار نہ پایا لیکن
دل کے گوشے میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
شب ہجراں کی نہ تھی تاب مجھے مثل سراج
رخ ترا نور فشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
ذرا ایک منٹ رکئے۔! آپ کو کچھ الفاظ ضرورت سے زیادہ نمایاں یا ابھرے ہوئے تو نہیں معلوم ہوتے؟ غور کیجئے۔ تھوڑی توجہ سے آپ کو خود بخود اندازہ ہو جائے گا کہ/رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا/ عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا/ اماں تھا مجھے معلوم نہ تھا/ کماں تھا مجھے معلوم نہ تھا/نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا/اور/فشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا/خاص طور سے ابھرے ہوئے ہیں ۔ یعنی ردیف کے ساتھ قافیہ بھی اس میں شامل ہے۔ اب آپ کو مسئلہ کچھ کچھ حل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہو گا۔ غزل کے موجود ہ ڈھانچے میں ہر شعر میں ایک ’تھا‘ سے دوسرے ’تھا‘ کے درمیاں تین اور دوسرے الفاظ آتے ہیں ۔ یہ الفاظ اس طرح ہیں /مجھے معلوم نہ / ظاہر ہے یہ ردیف میں آنے والا لفظ ’نہ‘ آخری لفظ ’تھا‘ سے ملا کر پڑھا جائے گا۔ ایک ساتھ یعنی / نہ تھا/جو انکار یا رد کو سامنے لاتا ہے۔ یہ انکار یا رد اپنے پہلے آنے والے لفظ معلوم سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی جس بات کی تردید ہو رہی ہے وہ کوئی معلومات ہے۔ پوری غزل واحد متکلم میں کہی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ردیف کا بڑا حصہ ایک مختصر نثر پارہ پر مشتمل ہے یعنی/ مجھے معلوم نہ تھا/ ظاہر ہے اس انکار یا تردید کی موجودگی بجائے خود اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی چیز کے ہونے کا اقرار کیا جائے۔ گو یا ردیف میں پہلی مرتبہ جہاں ’تھا‘ کا استعمال ہوا ہے وہ اثبات کا مفہوم رکھتا ہے۔ ہست کا مفہوم رکھتا ہے۔ کسی چیز کے ہونے کا مفہوم رکھتا ہے۔ جبکہ دوسری جگہ اس کے وجود کے علم سے نا واقفیت کا اظہار ہے۔ یہ نا واقفیت یا نہ جاننا کسی وجود کو عدم میں یا ہستی کو نیستی میں نہیں بدل دیتی لیکن اس جاننے اور نہ جاننے اور ہونے اور نہ ہونے کی کش مکش سے پیدا تناؤ یا Tensionسے اس غزل کی تشکیل ہوئی ہے۔ یہ تو ہوئی اس غزل کے سلسلہ میں پہلی بات۔ اب ذرا دوسری بات پر بھی غور کر لیجئے۔ پہلے مصرعہ میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ تمھارا قد سررواں تھا اور دوسرے مصرعہ میں کہتا ہے کہ یہ سرورواں میرے دل کے گلشن میں ظاہر تھا یہ بات مجھے معلوم نہیں تھی۔ دونوں مصرعوں میں کوئی ربط سمجھ میں نہیں آتا پوری غزل اسی انداز میں ہے۔ دوسرے اشعار کے بھی دونوں مصرعوں میں کوئی ربط سمجھ میں نہیں آتا۔ تو کیا واقعی ان مصرعوں میں کوئی ربط نہیں ہے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ شاعر نے عمداً دونوں مصرعوں کے بیچ ایک خلا رکھا ہے جسے آپ کو پر کرنا ہے۔ یہ کچھ نہ کہہ کر بھی سب کچھ کہ دینے کا وہ انداز ہے جس کے لیئے جذبی نے خاموشی نظر کی خطابت کی ترکیب استعمال کی ہے۔ اب آیئے الگ الگ شعروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
پہلے شعر میں شاعر نے باغ کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ دل ایک باغ ہے۔ باغ میں سرو کا درخت لگا یا جاتا ہے اور دل محبوب کے قیام کی جگہ ہے اور محبوب کے قد کی خوبصورتی کو سرو کے قد سے تشبیہ دیتے ہیں یوں شعر کی منطق یہ بنی کہ محبوب کا قد سرو کے قد کی طرح تھا اور چونکہ سرو کے قد کی طرح سے تھا اس لیئے میرے دل کے باغ میں اُگ آیا تھا۔ لیکن ان دونوں باتوں میں سے کسی بات کا مجھے علم نہیں تھا۔ یعنی کب عشق ہو گیا، کب تمھارا قد اچھا لگنے لگا، کب اس سرو قدی نے میرے دل میں جگہ کر لی پتہ نہیں چلا۔ معلوم اس وقت ہوا جب یہ پوری طرح جڑ پکڑ کر اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ ممکن ہے اگر یہ بات ابتدا میں معلوم ہو جاتی تو اس کا تدارک کیا جا سکتا۔ لیکن عشق کا مرض تو اس کینسر کی طرح سے ہے جو اپنی انتہا کو پہنچ کر ہی اپنی علامات ظاہر کرتا ہے اس لیئے اس کا کوئی علاج بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کاش مجھے یہ بات پہلے معلوم ہو جاتی۔!
دوسرے شعر میں اس غم گیتی کا ذکر ہے جس کی شکایت غالبؔ نے ان الفاظ میں کی ہے ؎
غم گیتی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
یعنی اس دنیا کے غم کے دو ہی علاج ہیں وصل محبوب یا وصل مرگ۔ چونکہ محبوب کے ملنے کے آثار دور دور کہیں نظر نہیں آرہے ہیں تو اب تو اس کا علاج موت ہی کے پاس ہے اور کسی کے پاس نہیں ۔ سراج اورنگ آبادی نے یہاں اس مضمون کو ذرا مختلف انداز میں باندھا ہے۔ یعنی محبوب کا وجود تمام غموں کو دور کرنے والا ہوتا ہے، اس کے سایہ میں کتنا سکون اور اطمینان ہوتا ہے صرف اتنی سی بات معلوم نہیں ہونے کی وجہ سے میں پوری زندگی دنیا وی غموں کی دھوپ میں جلتا رہا۔ یہاں بھی وہی پہلو موجود ہے کہ کاش یہ بات مجھے پہلے معلوم ہو گئی ہوتی تو پوری زندگی جن آلام و مصائب دنیا وی سے دو چار رہا ان سے نجات پا جاتا۔ ایک اور خوبی اس شعر کی یہ ہے کہ عام طور سے شعر ا غم کے لئے بادل کا استعارہ استعمال کرتے ہیں سراج اورنگ آبادی نے اسے دھوپ سے بدل کر اس میں دنیا وی دشواریوں اور پریشانیوں کا پہلو خود بخود پیدا کر دیا ہے۔
تیسرے شعر میں لف و نشر مرتب کا خوبصورت استعمال ہے۔ ابر و کی رعایت سے تیر اور مژگاں کی رعایت سے دوسرے مصرعہ میں کمان اسی ترتیب سے رکھا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ جس طرح شکاری کمان سے تیر چلا کر شکار کرتا ہے اسی طرح میرے محبوب نے بھی اپنے تیر و کمان سے زخمی کر کے مجھے قید کر لیا ہے۔ کاش مجھے یہ بات پہلے سے معلوم ہوتی کہ وہ اتنا ماہر تیر انداز ہے تو میں پہلے ہی اس سے بچنے کی صورتیں سوچ لیتا یا کوئی انتظام کر لیتا۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا اور اب میں اس کے قبضے میں ہوں ۔ چوتھے شعر میں شاعر نے حضرت علیؓ کے اس قول کی طرف اشارہ کیا ہے کہ من عَرَفَ نفسہ‘ فَقَد عَرَف ربْہ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ فارسی میں فرید الدین عطار کی مثنوی منطق الطیر میں موجود سی مرغ کی روایت بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ میر تقی میرؔ کے اس شعر کا بنیادی مضمون بھی یہی ہے ؎
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تیں ۔ معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
سراج کہتے ہیں کہ میں نے ساری دنیا میں ڈھونڈ لیا لیکن میرا محبوب مجھے کہیں نہیں ملا۔ جب ہر طرف سے مایوس ہو کر واپس آ گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو میرے ہی دل میں چھپا بیٹھا تھا۔ بس اتنی سی بات تھی کہ مجھے یہ بات پہلے معلوم نہ تھی۔ یہ پہلو بھی ہے کہ معلوم ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ بات تو اسی وقت معلوم ہو تی ہے جب ساری دنیا ڈھونڈ کر آدمی واپس آ جاتا ہے
دل کے پردے میں چھپی تصویر یار
اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
لیکن یہ مرتبہ اتنا سہل الحصول بھی نہیں ہوتا کہ ہر شخص کو حاصل ہو جائے۔
پانچویں شعر میں دو باتیں خاص طور سے اہم ہیں ۔ پہلی بات یہ کہ سراج کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوا ہے اولاً اپنے لغوی معنی چراغ کے معنی میں اور ثانیاً سراج اور نگ آبادی کے معنی میں دوسری بات یہ کہ اس شعر کے دونوں مصرعوں کا Structureایسا ہے کہ دوسرا مصرعہ عملی طور پر پہلے مصرعہ کے /مثل سراج/ سے شروع ہو جاتا ہے۔ پہلا مصرعہ عملی طور پر /شب ہجراں کی نہ تھی تاب مجھے/ پر ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ جو بعد میں انگریزی نظموں کے زیر اثر ہمارے یہاں نظم میں Run on lines کا تصور آیا جس کو اختر الا یمان نے خاص طور سے استعمال کیا وہ سراج اور نگ آبادی کی غزلوں میں بغیر کسی مغربی اثر کے پہلے سے موجود ہے ۔غزل کا مصرعوں کا تصور stop end lines کا ہے۔ ایک مصرعہ دوسرے مصرعہ میں سرایت نہیں کرتا۔
شاعر کہہ یہ رہا ہے کہ وہ شب ہجر جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ ؎
شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
میں جب آنکھ کھولا بہت رات نکلی
اس شب ہجر کو برداشت کرنے کی مجھ میں بالکل طاقت موجود نہیں تھی۔ اس کی دشواریاں ، اس کی پریشانیاں ،اس کی الجھنیں ، اس کی تاریکی، ان سب کو برداشت کر پانا میرے لیئے بالکل ممکن نہیں تھا لیکن اس کے باوجود مجبوراً مجھے یہ سب کچھ کرنا پڑا کیونکہ مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ تمھارا چہرہ چراغ کی طرح سے نور بکھیرنے والا ہے۔ اگر مجھے یہ بات معلوم ہوتی کہ تمھارے رخ روشن کے سامنے آتے ہی میری یہ ساری دشواریاں اور پریشانیاں دور ہو جائیں گی تو مجھے شب ہجراں کے آلام بر داشت نہ کرنے پڑتے۔
اس غزل سے قدرے مختلف سراجؔ کی دوسری غزل ہے۔ آیئے اس کا مطالعہ کریں ۔ غزل ہے ؎
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
شہہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمت غیب سیں اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سے بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
تر ے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدرسیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جلا رہی نہ پری کو جلوہ گری رہی
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا نہ حذر رہا جو رہی سو بے خبری رہی
جیسا کہ پچھلی غزل کے سلسلہ میں ہم نے کہا تھا اس غزل کو بھی دو تین بار پڑھیئے۔ رک رک کر، مشکل الفاظ پر غور کیجئے اور دیکھئے کہ یہ آپ کے قابو میں آتی ہے یا نہیں ؟
تشریح
سب سے پہلے جو چیز آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرے گی وہ غزل کی ردیف ’رہی‘ ہے۔ پچھلی غزل کی پانچ الفاظ کی طویل ردیف کے بر عکس اس غزل کی ردیف تین حروف پر مشتمل ایک مختصر سا لفظ ’رہی‘ ہے۔ ہونے کے Beingیعنی وجود پر اصرار کے بر عکس ’رہنا‘ Existenceکے بجائے Sustain کرنے کی صفت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس ردیف کے ساتھ قافیہ کو ملا کر پڑھیں تو یہ بات اور بھی واضح ہو جائے گی۔ پری رہی/ بے خبری رہی/ پروہ دری رہی/ ہری رہی/ بھری رہی/ دھری رہی/ جلوہ گری رہی ان تمام استعامالات میں Sustain کرنے یا باقی رہنے یا بچائے رہنے کا پہلو موجود ہے۔ یہاں وجود میں آنے اور وجود کو باقی رکھنے دونوں میں فرق کیجئے۔
تھوڑی دیر کے لیئے رکیے۔ اوپر جو بات کہی گئی ہے اسے پھر سے پڑھیے اور یہ غور کیجئے کہ اس دنیا میں وجود میں آنے یا عام الفاظ میں پیدا ہونے کے لئے ہم نے کیا کیا کوششیں کی ہیں ؟ کوئی کوشش کی بھی ہے یا نہیں ؟ ۔ انسان کو اور اپنے آپ کو چھوڑیئے ہم نے تو کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ دوسری مخلوقات چرندوں ، پرندوں ، درندوں ، نباتات، جمادات، ان سب پر غور کیجئے۔ کیا یہ سب اپنی پیدائش کے لئے کوئی کوشش کرتے ہیں ؟ آپ اپنی پیدائش اور اپنے بچوں کی پیدائش میں فرق کیجئے ہم اپنے بچوں کی پیدائش کے لئے کوشش کرتے ہیں اپنی پیدائش کے لئے نہیں ۔ اسی طرح مخلوقات کی ایک نوع یا قسم کے طور پر جب ہمارا وجود عمل میں آیا تو اس کے لئے بھی ہم نے کوئی کوشش نہیں کی۔ ہمارے ذاتی یا نوعی دونوں طرح کے وجود کی ساری کوشش اس بات میں صرف ہوتی ہے کہ ہم اپنے وجود کو کیسے باقی رکھ سکیں ، بر قرار رکھ سکیں ۔ یہاں سے Survival of the fittest کا مسئلہ سامنے آتا ہے جس کی تفصیل میں جا کر میں آپ کو درد سر میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ اس لئے اس مسئلہ کو ڈارون صاحب کے پاس ہی رہنے دیتے ہیں ۔ (آپ جانتے ہیں نا یہ کون صاحب ہیں ؟ یہ وہی حضرت ہیں جو ہمارا رشتہ بندروں کے قبیلہ سے جوڑتے ہیں ۔ جی ہاں آپ نے ٹھیک پہچانا Origin of Species کے مصنف) تو خیر انہیں ان کی بوزنہ یعنی بندروں کی برادری کے ساتھ رہنے دیجئے اور فی الحال ہم چلتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کے ایک فرد سراج اورنگ آبادی کی اس غزل کی طرف جس پر ہم بات کر رہے ہیں ۔
تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس غزل کی ردیف قافیہ سے مل کر وجود کے باقی رہنے یا بچائے رہنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہماری اس بات کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ وجود کو باقی رکھنے کے لئے حرکت اور عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور ماہرین لسانیات کے مطابق حروف تہجی میں جو حرف یا آوازوں کے نظام میں جو آواز سب سے زیادہ حرکت اور عمل کو پیش کرتی ہے وہ ’ر‘ کی آواز یا حرف ہے۔ اب ذرا رک کر پوری غزل کو ایک بار پھر سے پڑھیے۔ لیکن ذرا غور سے۔ چلیئے میں بھی آپ کے ساتھ پڑھتا ہوں ؎
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
شہہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمت غیب سیں اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سے بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی
بوز اب لباس بر ا اور غصہّر دا یر ارشد خالد
ز عبیدوہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدرسیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جلا رہی نہ پری کو جلوہ گری رہی
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
آپ نے دیکھا کہ سات اشعار کی اس غزل میں ایک سو ساٹھ الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اور ان ایک سو ساٹھ الفاظ میں سے اکیاون الفاظ وہ ہیں جن میں ’ر‘ کی حرکی آواز استعمال ہوئی ہے جو کل کا 31.87 فیصد ہے، یعنی لگ بھگ ایک تہائی الفاظ حرکت اور عمل کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اسی لئے پوری غزل میں روانی کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔
غزل کا پہلا شعر عشق، عاشق یا معشوق کے بجائے عشق کے اثرات سے متعلق ہے۔ اس کے لئے شاعر جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ تحیر ہے۔ یعنی حیرت پیدا کرنا یا حیرت میں ڈالنا، اور پھر اس کے ساتھ ایک اور لفظ استعمال کرتا ہے یعنی ’خبر‘۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عشق کی حیرت پیدا کر دینے، یا حیرت میں ڈال دینے یا بے خود کر دینے والی صفت کی خبر کیا ہو گی؟ اور اس سے شعر کے بقیہ حصوں میں بیان کی گئی چیزوں کا کیا تعلق ہو گا۔؟ کہیں اس خبر کے News کے علاوہ کچھ اور معنی تو نہیں ہوتے ہیں ؟ رکیئے! ایک فارسی شاعر کا مصرعہ یاد آ رہا ہے ؎
آں راکہ خبر شد خبر ش باز نیامد
سامنے کا ترجمہ تو اس مصرعہ کا یہ ہے کہ جن لوگوں کو خبر ہو گئی ان کی پھر خبر نہیں ملی۔ اس مصرعہ میں دو جگہ خبر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ظاہر ہے دونوں جگہ ایک معنی میں نہیں ہوا ہے۔ دوسری مرتبہ تو خبر اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن پہلی مرتبہ یہ اس سے مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ آیئے۔ یہ غور کریں کہ یہ مختلف معنی کیا ہو سکتا ہے؟ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس معنی کا کسی نہ کسی طرح لفظ ’خبر‘ کے لغوی معنی سے کوئی تعلق ضرور ہو گا۔ اس بنیاد پر اگر ہم اپنی عمارت تعمیر کریں تو یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ہر خبر کے باطن میں یا اس کے پس پردہ کوئی نہ کوئی بات چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس چھپی ہوئی بات کی وجہ سے خبر سننے ولا اس بات یا اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچتا یا اس کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ تو اب معلوم ہوا کہ فارسی والے مصرعہ میں پہلی مرتبہ جو خبر کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ عرفان حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سراجؔ کے اس شعر میں شاعر نے دوسرے مصرعہ میں بے خبری کا لفظ استعمال کر کے اسے نسبتاً واضح کر دیا ہے۔ بے خبری با خبری کی بر عکس صفت ہے۔ یوں اس تضاد سے ایک تناؤ یا Tensionپیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ باخبری جو در حقیقت عرفان حاصل کرنا ہے بے خبری پیدا کرتی ہے۔ یوں مذکورہ تناؤ یا Tensionکے ساتھ Paradox یا قول محال کی صورت حال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک بات اور باقی رہ جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ عرفان کس چیز کا ہے؟ شاعر خود اس کی وضاحت کرتا ہے/ خبر تحیر عشق/ یعنی جب مجھے متحیر کر دینے والے عشق کے تجربے کا عرفان حاصل ہو گیا تو عاشق، معشوق، دیوانہ پن، اور دیوانہ پن میں نظر آنے والا پریوں کا خواب کچھ بھی باقی نہ رہا۔ بس ایک حیرت، یا سرشاری یا سکون یا بے خبری کی کیفیت باقی رہ گئی جس میں آس پاس کی کسی چیز کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا۔ عشق کی ایک انتہا یہ ہے کہ عاشق کے ہوش وحواس جاتے رہیں اور وہ دیوانہ ہو جائے۔ دوسری انتہا یا دوسرا تجربہ یہ ہے کہ عاشق اپنے آپ کو معشوق کی ذات میں ضم کر دے۔ الگ سے اس کا کوئی وجود ہی باقی نہ رہے۔ یہ وہ تجربہ ہے جو خسرو کے اس شعر میں بیان ہوا ہے۔ ؎
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری
یعنی میں تو ہو جاؤں ، تو میں ہو جا، میں جسم ہو جاؤں ، تو جان ہو جا تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ میں الگ ہوں اور تو الگ ہے۔ لیکن سراج یہاں ان دونوں تجربوں سے مختلف ایک ایسے تجربے کا ذکر کر رہا ہے جس میں ’میں ‘ اور تو اور جنون اور اس کے نتیجہ کے طور پر نظر آنے والی پری کسی چیز کا کوئی وجود نہ ہو۔ ظاہر ہے ان تمام چیزوں کے وجود کے احساس کے جاتے رہنے سے جو چیز پیدا ہو گی وہ بے خبری ہی ہو گی یہی عشق کی انتہا ہے۔
دوسرے شعر میں شاعر نے پھر ایک Paradox یا قول محال استعمال ہے۔ آپ جانتے ہیں نا یہ قول محال کیا ہوتا؟ دو ایسے الفاظ کا جو ایک دوسرے کے متضاد ہوں اس طرح استعمال کہ ان میں کوئی مطابقت نہ ہونے کے باوجود ایک مطابقت پائی جاتی ہو؟ اب بتایئے اس شعر میں شاعر نے کون سا قول محال استعمال کیا ہے؟ میں ایک بار پھر شعر پڑھتا ہوں ۔ آپ اسے لکھ لیجئے اب غور کیجئے۔ شعر ہے ؎
شہہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
آپ نے دیکھا کہ شاعر نے جو قول محال یا Paradox استعمال کیا ہے وہ ’لباس برہنگی‘ ہے۔ برہنگی تو ننگے پن کو کہتے ہیں یعنی لباس کا نہ ہونا۔ اور لباس اس برہنگی کو چھپانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن شاعر یہاں ایک تیسری بات کہہ رہا ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ برہنگی یا ننگا پن جو ہے یہ نگا پن نہیں ہے۔ یہ برہنگی نہیں ہے۔ یعنی جسے ہم برہنگی سمجھتے ہیں جسے ہم ننگا پن سمجھتے ہیں وہ درحقیقت برہنگی یا ننگا پن نہیں ہے بلکہ وہ بھی ایک طرح کا لباس ہے ہماری بہت سی باتیں ہمارے ننگے پن کی وجہ سے چھپ جاتی ہیں ۔ پوشیدہ رہ جاتی ہیں ۔ ہے نہ یہ حیرت میں ڈالنے والی بات؟ شعر کے باہر کی دنیا کی جو Logic یا منطق ہے اس کے مطابق یہ بے وقوفی کی بات معلوم ہو رہی ہو گی۔ لیکن اس بے وقوفی کی بات یا غیر منطقی بات میں شاعر ایک منطق پیدا کرتا ہے۔ اس عمل کو Defamiliarizationیا اجنبیانے کا عمل کہتے ہیں ۔ یعنی جانی بوجھی چیزوں میں انجانا پن اور انجانی چیزو ں میں جانا پہچانا پن یا مانو سیت پیدا کرنا۔ تو بات ’لباس برہنگی‘ کی ہو رہی تھی۔ شاعر کہہ یہ رہا ہے کہ بے خودی کے بادشاہ نے یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ مرتبہ عنایت کر دیا ہے کہ لباس اور بے لباسی دونوں لفظ میرے لئے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں نہ لباس اب چھپانے کا ذریعہ ہے نہ بے لباسی کھولنے کا۔ یعنی میں اب ان تمام رسمی اور روایتی حدود سے آگے بڑھ گیا ہوں ۔ اسی وجہ سے عام زندگی اور عام زبان میں جو چیزیں ایک دوسرے کا الٹ سمجھی جاتی ہیں یعنی عقل اور دیوانہ پن دونوں میں سے کوئی چیز میرے اندر باقی نہیں رہی ہے۔ عام طور سے سمجھا یہ جاتا ہے کہ اگر آدمی عقلمند یا سمجھدار نہیں ہو گا تو دیوانہ یا پاگل ہو گا۔ لیکن میرا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ میرے اندر نہ خرد یا عقل کی وہ خوبی پائی جاتی ہے جو ایک دوسرے کو جوڑتی ہے نہ اس کے متضاد دیوانہ پن یا پاگل پن یا جنون کی وہ صفت پائی جاتی ہے جو چیزوں کو چاک چاک کرتی ہے۔ دریدن فارسی کا مصدر ہے جس کے معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے یہ لفظ پردہ دری بنا یعنی پردہ کو پھاڑنا۔ ظاہر ہے اس پردہ دری کا تعلق اس بر ہنگی سے بھی ہے جس کا پہلے مصرعہ میں استعمال ہوا ہے اور اس جنون سے بھی جس کے نتیجہ کے طور پر پردہ دری کا عمل سرزد ہوتا ہے۔ اسی طرح بخیہ گری یعنی سینے کے عمل کا تعلق پہلے مصرعہ کے لباس اور نتیجہ کے طور پر اس خرد یا عقل سے بھی ہے جس کی وجہ سے انسان بخیہ گری کرتا ہے، تو آپ نے دیکھا کہ شاعر نے ہر لفظ ایک دوسرے کی رعایت سے رکھا ہے۔ اسی کو رعایت لفظی کہتے ہیں ۔ اس قول محال اور رعایت لفظی کے علاوہ شاعر نے دو اور حسن بھی اس شعر میں چھپا رکھا ہے۔ ان میں سے ایک کا نام صنعت تضاد ہے اور دوسرے کا نام لف و نشر مرتب۔ اب آپ بتائیے کہ اس شعر میں یہ دونوں صنعتیں کیسے پائی جاتی ہیں ؟ مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ آپ یہ دونوں باتیں ضرور بتا سکتے ہیں ۔ بس تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بہت سامنے کی بات ہے۔ تضاد کہتے ہیں الٹ کو یا بر عکس کو جیسے صبح کا تضاد شام ہے۔ تو ثابت یہ ہوا کہ اگر شاعر شعر میں ایک دوسرے کا الٹ یا بر عکس لفظ استعمال کرتا ہے اور اس کے معنی وہی لیتا ہے جو درحقیقت ہے تو اسے صنعت تضاد کہتے ہیں ۔اب اس شعر میں دیکھئے کن لفظوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ خرد اور جنون اور بخیہ گری اور پردہ دری۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک دوسرے کے الٹ ہیں اور اس شعر میں استعمال ہوئے ہیں اس لئے اس شعر میں صنعت تضاد ہے۔ اب لف و نشر مرتب کو دیکھئے۔ جب پہلے مصرعہ میں بعض چیزوں کا ایک خاص ترتیب سے ذکر کیا جائے اور دوسرے مصرعہ میں ان چیزوں کے متعلقات کا اسی ترتیب سے ذکر کیا جائے تو اسے لف و نثر مرتب کہتے ہیں ۔ اب اس شعر میں دیکھئے شاعر نے کیا کیا ہے۔ پہلے مصرعہ میں لباس اور برہنگی دو لفظ استعمال کیئے اور دوسرے مصرعہ میں اسی ترتیب سے لباس کی مناسبت سے خرد اور بخیہ گری اور اسلئے بعد برہنگی کی مناسبت سے جنوں اور پردہ دری کے الفاظ استعمال کیے۔ یوں یہ لف و نشر مرتب کی صنعت ہو گئی۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ شعر پڑھتے ہوئے آپ کو ان میں سے کسی صنعت کا احساس نہیں ہوتا۔ پہلے آپ شعر کے جادو کا شکار ہوتے ہیں ۔ شعر آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پہلے آپ اسے enjoyکرنا شروع کرتے ہیں ۔ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ گنگناتے ہیں ۔ اس کے بعد آپ یہ سوچتے ہیں کہ اس شعر میں جو خوبی پیدا ہوئی ہے وہ کیوں پیدا ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو۔ صنعتیں پہلے آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں اور شعر سے لطف اندوز ہونے کی باری ہی نہ آئے تو وہ شعر اچھا نہیں سمجھا جائے گا۔
آیئے تیسرے شعر کو پڑھیں ؎
چلی سمت غیب سیں اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم، جسے دل کہیں سوہری رہی
ذرا سا مشکل الفاظ پر غور کر لیں ۔ سمت غیب یعنی غیب کی طرف، اس طرف جدھر ہم دیکھ نہیں سکتے ہیں ، چمن معنی باغ، سرور معنی خوشی، شاخ معنی ٹہنی یا ڈال، نہال معنی پودا اور سیں بہ معنی سے۔
اب آیئے شعر پر غور کریں ۔ شعر کا بنیادی لفظ کیا ہے؟ چمن۔یعنی باغ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ باغ کس چیز کا ہے؟ شاعر فوراً ہمیں بتا دیتا ہے کہ یہ باغ آم یا امرود یا گلاب کا نہیں بلکہ خوشی کا ہے۔ یعنی باغ یا چمن کا لفظ اپنے Originalلغوی معنی میں اس معنی میں جس معنی کے لئے یہ بنا ہے نہیں استعمال ہوا ہے۔ بلکہ اس حقیقی معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کسی اور معنی کو کیا کہتے ہیں ؟ ذرا سا غور کر کے بتایئے۔ میں آپ کو اشارہ دیتا ہوں ۔ یہ حقیقت کا الٹا ہوتا ہے۔ کچھ میم سے شروع ہتا ہے۔ بہت اچھا۔ آپ بالکل ٹھیک پہنچے۔ اسے مجازی معنی کہتے ہیں ۔ لیکن ایک اور گڑ بڑ ہے۔ اس مجازی معنی یا الفاظ کے مجازی معنی میں استعمال کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں ۔ یہاں کون سی قسم ہے۔ اٹکل لگائیے۔ اس قسم کو استعارہ کہتے ہیں ۔ تو شاعر نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ سرور یعنی خوشی کے لئے چمن کا استعارہ استعمال کیا۔ پھر اس کے بعد چمن کے جو دوسرے لوازمات ہوتے ہیں ان کا ذکر کیا۔ یعنی نہال جسے ہم عام بول چال میں پودہ کہتے ہیں ۔ اس پودہ کی شاخیں ہوتی ہیں ، یہ شاخیں ہری ہوتی ہیں اور ان پودوں اور ان کی شاخوں کو ہوا کے جھونکے ہلاتے رہتے ہیں جس سے باغ کی خوشگواری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یوں شاعر نے چمن کے ساتھ شاخ اور نہال، ہری اور ہوا کے الفاظ استعمال کیئے۔ اور یہ کہا کہ غیب کی سمت سے ایک ایسی ہوا چلی کہ میری خوشیوں کا باغ جل کر راکھ ہو گیا یعنی میری ساری خوشیاں ختم ہو گئیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب خوشیاں ختم ہو جائیں گی تو غم پیدا ہو جائے گا۔ اس لئے دوسرے مصرعے میں شاعر نے غم کے پودے کی شاخ (شاخ نہال غم) کے ہرے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ کہ ساری خوشیاں ختم ہو گئی ہیں صرف غم ہی غم رہ گیا۔ لیکن اس غم ہی غم کے باقی رہ جانے کے پہلو کو شاخ نہال غم کے استعارہ کے ذریعہ اس خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ غم کی شدت کم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک بات اور ہے ۔خوشی (سرور) اور غم اور جلنا اور ہرا رہنا میں تضاد کی صنعت ملحوظ رکھی ہے۔
اب چوتھے شعر پر آیئے ؎
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سے بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو، خم دل میں تھی سو بھری رہی
تغافل کہتے ہیں غفلت برتنے کو، گلہ کہتے ہیں شکایت یا شکوہ کو، صد کہتے ہیں سو کو، قدح لوہے کے بڑ ے پیالے کو، اور خم کہتے ہیں مٹکے کو۔ اس آخری لفظ کو خاص طور سے بہت احتیاط سے پڑھیئے گا۔ اس کی خ پر پیش ہے۔ اسے زبر دے کر نہیں پڑھیے گا۔ زبر دے کر پڑھنے سے اس کے معنی ٹیڑھے کے ہو جائیں گے۔ اب آیئے شعر پر غور کرتے ہیں ۔ شعر میں صرف دو باتیں سمجھنے کی ہیں اور دونوں باتیں پہلے مصرع میں ہیں ۔ پہلی بات شعر کا مضمون یا موضوع ہے یا وہ بات ہے جس کے بارے میں شعر کہا گیا ہے۔ اور دوسری بات اس مضمون یا موضوع کو پیش کرنے کا انداز ہے۔ اپنی آسانی کے لئے ہم دوسری بات کو پہلے لیتے ہیں ۔ یہ بات یا انداز جس حصہ میں آیا ہے وہ حصہ ہے/کس زبان سے بیاں کروں / آپ جانتے ہیں کہ قواعد کی اصطلاح میں اس طرح کے جملوں کو استفہامیہ جملہ کہتے ہیں ۔ ایسا جملہ جس میں سوال کیا گیا ہو۔ لیکن اس سوال میں ایک جواب بھی پوشیدہ ہے اور وہ جواب انکار میں ہے۔ یعنی اس سوال کا جواب کہ محبوب سے مجھے جو گلہ یا شکایت ہے اسے میں کس زبان سے بیان کروں ؟ کوئی زبان ایسی ہے جو اس کے بیان کی متحمل ہو سکے کا جواب بھی اسی میں چھپا ہوا ہے کہ نہیں کوئی زبان ایسی ہے ہی نہیں جس سے یہ شکایت بیان کی جا سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ شکایت ہے کیا جس کا بیان کرنے کی کوئی زبان متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ یہ بات شعر کے شروع میں ہی شاعر نے بیان کر دی ہے/نظر تغافل یار/ یعنی محبوب میری طرف سے جو لا پرواہی اور جو غفلت برتتا ہے اس کا بیان ممکن نہیں ہے۔ دوسرا مصرع اس اعتبار سے بہت صاف ہے کہ جب محبوب تغافل شعار ہے، غفلت برتتا ہے، عاشق کی طرف سے لا پرواہ رہنا اس کی عادت ہے تو عاشق کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ دل کی دل میں ہی رہ جاتی ہیں ۔ آرزوؤں اور تمناؤں کے لئے شراب، دل کے لئے خم یا مٹکے کا استعارہ مشرقی شاعری میں ہمیشہ سے رائج ہے۔ تمناؤں کی شراب جس مٹکے میں بند تھی ہمیشہ اسی میں بند رہی۔ اسے باہر آنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا۔ یہ مضمون بھی کلاسیکی شاعری کا بہت پسند یدہ مضمون ہے اردو کی کلاسیکل شاعری میں سچا عاشق ہمیشہ مجبور و مظلوم ہوتا اور معشوق ظالم اور تغافل شعار ہوتا ہے۔ صرف رقیب وہ کردار ہے جس کی خواہشیں اور آرزوئیں پوری ہوتی ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ شعر کلاسیکل شاعری کی شعریات (اصول شعر) کی بہت اچھی نمائندگی کرتا ہے۔
پانچواں شعر اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہ عشق اور عقل کی کش مکش اور اس کش مکش میں عشق کی فتح مندی کو پیش کرتا ہے۔ آیئے پہلے اس شعر کے الفاظ پر غور کر لیں ۔ دو مرتبہ دھری اور دو مرتبہ گھڑی کے لفظ کے استعمال سے اندرونی قوافی کا آہنگ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن/ڑ/ اور /ھ/ کی آوازیں ناگوار بھی محسوس ہوتی ہیں ۔ لیکن اس سے ایک بے تکلفی کی فضا بھی بنتی ہے۔ گھڑی کے ایک معنی اس آلہ یا مشین کے ہوتے ہیں جس میں ہم وقت دیکھتے ہیں اور دوسرے معنی لمحہ کے ہوتے ہیں ۔ درس، Lesson یا سبق کو کہتے ہیں ۔ درس لینا، پڑھنے کو کہتے ہیں ۔ نسخہ کے ایک معنی Prescriptionیا دواؤں کے پرچہ ترکیب استعمال یعنی کسی خاص مرض کے سلسلہ میں دی جانے والی دواؤں اور ان کے استعمال کے طریقوں کے بارے میں لکھے گئے پرچہ کے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کتاب کے ہیں ۔
اب آیئے شعر کو پھر سے پڑھتے ہیں ؎
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخہء عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
شاعر اس لمحہ کی اثر پذیری پر حیرت کا اظہار کر رہا ہے جس لمحہ اس نے کتاب عشق کا درس لیا یعنی عشق میں مبتلا ہوا تھا۔ یعنی وہ کیسا عجیب و غریب لمحہ تھا جس کے اثر سے ساری عقل و دانش سے بھری ہوئی کتابیں جب ایک بار طاق نسیاں پر سجادی گئیں تو پھر ان کے نیچے اترنے کی نوبت نہیں آتی۔ یعنی جذبۂ عشق ہے ہی ایسی بے پناہ کشش رکھنے والا جذبہ کہ یہ پورے وجود پر چھا جاتا اور اپنے علاوہ کسی اور کے وجود کو بھی باقی نہیں رہنے دیتا ہے۔ دوسرے مصرع میں /کہ کتا/ کے استعمال میں صوتی تنافر بھی پایا جاتا ہے اور اگر اسے پہلے مصرعہ کے آخری لفظ/کا/سے جوڑ کر پڑھیں تو/کا کہ کتا/ کی وجہ سے یہ صوتی تنافر اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود شعر پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
چھٹا شعر محبوب کے حسن کے اثر سے متعلق ہے۔ اس کے بیان کے لیئے شاعر نے دو چیزوں کا انتخاب کیا ہے ایک چیز آئینہ ہے اور دوسری پری ہے۔ اب ذرا یہ شعر پڑھیے ؎
ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینہ میں جلا رہی نہ پری کو جلوہ گری رہی
آپ کو اندازہ ہو گا کہ ’آئینہ‘ مادی یعنی Materialوجود ہے اور پری ایک غیر مادّی یا Superficialوجود ہے۔ پہلی چیز یعنی ’آئینہ‘ حسن کو دیکھنے کا آلہ ہے Instrumentہے اور دوسری چیز حسن کا پیکر ہے۔ دونوں کے متعلق شاعر نے ایک ایک صفت Adjectiveکا ذکر کیا ہے۔ آیئنہ کے متعلق شاعر نے/جلا/ کی صفت استعمال کی ہے جس کے معنی چمک کے ہیں اور پری کے لیئے جلوہ گری کی صفت استعمال کی ہے جس کے معنی جلوہ دکھانے یا نظارہ دکھانے کے ہیں ۔ ان دونوں چیزوں اور ان سے متعلق دونوں صفات کا تعلق حسن سے ہے۔ اگر آئینہ میں چمک ہے تو سامنے والے کا چہرہ اس میں صاف نظر آئے گا اور اگر چمک نہیں ہے تو صاف نظر نہیں آئے گا لیکن شاعر یہاں تیسری بات کہہ رہا ہے اور وہ یہ کہ محبوب کے حیرت زدہ کر دینے والے حسن کی کثرت کا آئینہ پر یہ اثر ہوا کہ اس کی چمک غائب ہو گئی۔ اسی طرح پری جو اپنے حسن پر نازاں ہو کر لوگوں کو اپنا جلوہ دکھایا کرتی تھی وہ بھی محبوب کے وفور حسن کے سبب حیرت زدہ ہو کر اپنا جلوہ دکھانا بھول گئی۔ صرف ایک حیرانی کا عالم باقی رہ گیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے قرآن نے واقعہ طور کا ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ رَبِ اَرِنی یعنی اے میرے رب مجھے اپنا جلوہ دکھا۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا لن ترانی یعنی اے موسیٰ تو اس کی تاب نہیں لا پائے گا۔ حضرت موسیٰ نے پھر اصرار کیا اور یوں پیہم اصرار کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر اپنے نور کی ہلکی سی جھلک دکھائی۔ نور کا ایک جھماکا ہوا اور حضرت موسیٰ کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ شاعر نے اس پورے واقعے میں سے کسی بات کا ذکر نہیں کیا ہے کوئی اشارہ بھی نہیں کیا ہے۔ نہ تلمیح کی صنعت استعمال کی ہے (یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہو گی کہ تلمیح کسے کہتے ہیں ۔ ہاں ہاں بالکل ٹھیک وہی صنعت جس میں شاعر کسی لفظ کے استعمال کے ذریعے کسی گذرے ہوئے واقعے یا حادثے کی طرف اشارہ کر دیتا ہے) لیکن اس کے باوجود اپنے مفہوم کو بڑی خوبصورتی سے بیان کر دیا ہے۔
ساتویں اور آخری شعر میں بھی شاعر نے اسی عشق کے جذبے کے اثر کا ذکر کیا ہے۔ بنیادی استعارہ ’آگ‘ کا ہے (آپ جانتے ہیں نا یہ استعارہ کیا ہوتا ہے؟ ضرور جانتے ہوں گے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کو اتنی چھوٹی سی بات نہ معلوم ہو) ذرا شعر پڑھیئے ؎
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا نہ حذر رہا ، جو رہی سو بے خبری رہی
آپ جانتے ہیں یہ آگ کا ہے کی ہے؟ عشق کی ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آگ کیا کام کرتی ہے؟ جلاتی ہے۔ بس شعر سمجھ میں آ گیا۔ یعنی اس عشق کی آگ نے مجھے جلا کر کے خاک کر دیا ہے۔تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اب میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا ہے۔ لیکن ذرا سا رکئے۔۔! یہ شاعر نے /بے نوا/ کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔ نوا کے معنی تو آواز کے ہوتے ہیں اور بے نوا کے معنی بے آواز یعنی جس کی کوئی آواز نہیں ہوَ یعنی اس سراج کو جس کی اپنی کوئی آواز نہیں ہے عشق کی آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا ہے۔ بات کچھ بنتی نظر نہیں آتی ہے آواز کا آگ یا جلانے یا خاکستر کرنے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ کہیں نوا کے کوئی اور معنی تو نہیں ہوتے ہیں ؟ ذرا غور کیجئے۔ ایک آدھ لغت دیکھ لیجئے۔ دیکھئے ایک لغت ہے ’فرہنگ عامرہ‘۔ اس میں ’نوا‘ کے معنی آواز کے ساتھ ساتھ ’سامان‘ کے بھی ہیں ۔ اب معنی صاف ہوئے نا۔۔۔! شعر ایسے ہی آہستہ آہستہ کھلتا ہے۔ دو چار ملاقاتوں میں ۔ اب دیکھئے اس شعر کے کیا معنی ہوئے۔ وہ سراج جو پہلے سے ہی بے سروسامان تھا، پہلے بھی اس کے پاس کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھی، عشق کی آگ نے اس کے اس بے سروسامان و جود کو بھی خاکستر کر کے رکھ دیا۔ سامان تو پہلے ہی نہیں تھا اب وجود بھی نہیں رہا تو کاہے کا خطرہ اور کس چیز سے بچاؤ؟ نہ کسی چیز کی فکر ہے کہ اس کو خطرہ لا حق ہو سکتا اور نہ ہی اس خطرہ سے بچنے کی کوئی ضرورت ہے۔ بس ایک بے خبری کا عالم ہے کہ جس میں ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہے۔۔۔ پوری غزل ایک سرشاری کے عالم میں لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔کہ ساری دنیا سے بے تعلق ہو کر ایک سرشاری اور بے خوفی کے عالم میں ایک خاص کیفیت میں کہے ہوئے اشعار ہیں جو شروع سے آخر تک کیف میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اور وہ کیفیت اسی بے خبری کی ہے۔۔۔ جو رہی جو بے خبری رہی۔
لفظ و معنی
ریاضی ۔ حساب
دائرہ ۔ حلقہ، گھیرا، گردش
حاوی ۔ چھایا ہوا
ماضی ۔ گذرا ہوا زمانہ
ہستی ۔ ہونا
نیستی ۔ نہ ہونا
ناواقفیت ۔ نہ جاننا
کش مکش ۔ کھینچا تانی
خلا ۔ خالی جگہ
پر کرنا ۔ بھرنا
علامات ۔ نشانیاں
مصائب ۔ مصیبت کی جمع
آلام ۔ الم کی جمع بہ معنی غم
سہل الحصول ۔ آسانی سے حاصل ہونے والا
لغوی ۔ لغت میں دئے ہوئے
اولاً ۔ پہلے
ثانیاً ۔ دوسرے
وفور ۔ زیادہ ہونا
صوتی تنافر ۔ ایسے ا لفاظ کا جمع کرنا جن کا پڑھنا مشکل ہو
نازاں ۔ ناز کرنے والا،فخر کرنے والا، مغرور
بر عکس ۔ الٹا، الٹ
استعمالات ۔ استعمال کی جمع، Usage
مخلوقات ۔ مخلوق کی جمع، بنائی گئی چیز
چرند ۔ چرنے والے جانور
درند ۔ پھاڑ کھانے والا
نباتات ۔ پیڑ پودے
جمادات ۔ بے جان چیزیں ، پتھر
نوع ۔ قسم،
تقویت ۔ طاقت، قوت
حرکی ۔ حرکت والی
متحیر کرنا ۔ حیرت میں ڈالنا
ضم کرنا ۔ مٹا دینا، ملا دینا
لوازمات ۔ ضروری چیزیں
قواعد ۔ گرامر
اصطلاح ۔ اصلی معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال
ہونے والا لفظ جس پر کوئی گروہ متفق ہو
استفہامیہ ۔ سوالیہ
نسیان ۔ بھولنے کا مرض
پیہم ۔ مسلسل ٭٭٭
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید