FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تتلیوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹیں

 

 

                تنویر انجم

جمع و ترتیب: تصنیف حیدر

 

 

 

 

 

تنویر انجم کی نظمیں

 

تنویر انجم اردو نظم کا ایسا نام ہیں، جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ادبی دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اچھے لکھنے والوں کا تعاون حاصل ہے، اس کے ذریعے ہم ان اہم لوگوں کی تخلیقات آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں، جن کو عام طور پر نیٹ پر ڈھونڈ کر پڑھنا ممکن نہیں ہوتا جو اردو کے عصری معیاری ادب کی شناخت کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنویر انجم کی یہ نظمیں ویب سائٹ پر پیش کرتے ہوئے مجھے بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے، اس کے ساتھ میں کسی بھی قسم کے تعارفی یا تنقیدی جملے نہیں لکھنا چاہتا، بس ان نظموں کی اہمیت آپ پر خود اپنے روشن دروازے کھولے گی اور آپ بھی رد و قبول کے اظہاریے میں بلا شک کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونگے، کیونکہ ادبی دنیا اچھی تخلیقات پر ادبی مباحث قائم کروانا بھی اپنا منصب سمجھتی ہے۔ شکریہ!

تصنیف حیدر

 

 

 

 

 

گاؤ پر گال

 

 

گاؤ پر گال!

بچو ا ن کے الزام سے

بچو ان کے تیزاب سے

بچو ان کی گولی سے

گاؤ لڑکیو!

گاؤ پر گال!

 

پوچھو ان سے لڑکیو!

پوچھو ان سے پر گال!

کیا تم آزادی کے سپاہی نہیں ہو

کیا تم آزادی کے گیت نہیں گاتے

تم بندوقیں لیے گھومتے ہو

ہمارے پاس صرف گیت ہیں

کیوں ہمارے لیے تمھارے پاس ہیں

یہ الزام

یہ تیزاب

یہ بندوقیں

کرو خود کو آزاد، ہماری زنجیر سے

سوال کرو ان سے

بچ کے رہو ان سے

گاتی رہو لڑکیو!

گاؤ پر گال

٭٭٭

 

 

 

قطار کہتی ہے

 

 

قطار کہتی ہے

بس ایک بار ملے گا

جو لینے آئے ہو

داخلے کا فارم

قرضِ حسنہ

نوکری کا انٹرویو

تاج محل کا ٹکٹ

خیرات کی روٹی

یا کوئی بھی چیز

جو لینے آئے ہو

بس ایک بار ملے گی

قطار کہتی ہے

اگر دینے والے کو تم یاد رہ گئے

یا ایمانداری برت کر بتا دیا تم نے

کہ اسی قطار میں دوبارہ لگ گئے ہو تم

یا بانٹی جا رہی ہو جس میں

گردنیں کاٹ کر

گردنوں میں پھندے ڈال کر

گولیاں چلا کر

یا کسی بھی طرح کی

اچھی یا بری موت

٭٭٭

 

 

 

 

دعائیں

 

خدا کرے

تمھاری نظر میں محبت

معمولی ہو جائے

 

خدا کرے

تمھاری نظر میں نفرت

معمولی ہو جائے

 

خدا کرے

تمھاری نظر میں انتقام

معمولی ہو جائے

 

خدا کرے

تمھاری نظر میں دولت

معمولی ہو جائے

 

خدا کرے

تمھاری نظر میں ہر خواہش

معمولی ہو جائے

 

خدا کرے

تمھاری نظر میں تمھارا دکھ

معمولی ہو جائے

 

خدا کرے

تمھاری نظر میں میری زندگی

معمولی ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

تم باز نہیں آؤ گی

 

کنیز!

گھڑی میں وقت دیکھنا

تم نے کہاں سے سیکھا؟

تم نے کب سیکھا؟

اپنے ہاتھ میں رکھو

صفائی کا سامان

 

کنیز!

نوٹوں کی پہچان تمھیں کس نے کرائی؟

گنتی کس نے سکھائی؟

رکھوا اپنا معاوضہ

گلک میں گنے بغیر

 

کنیز!

اتنے دور واقع

اتنے زمانے سے چھوڑے ہوئے

گھر کو واپسی کا سفر کیسے کر سکتی ہو

ہمارے نومولود کو نہلاؤ

کپڑے بدلواؤ

 

کنیز!

یہاں کہاں بیٹھی ہو

خانۂ کعبہ کا رخ تمھیں کس نے بتایا

کس نے سکھائیں مقدس سورتیں

سب کے وضو کے لیے

گرم پانی لاؤ

 

کنیز!

لگتا ہے تم باز نہیں آؤ گی

کنیز!

تمھارا نام کنیز کس نے رکھا؟

٭٭٭

 

 

 

 

گھوڑا برائے قتل

 

گھوڑا

سفید، کالا  یا کتھئی؟

سفید

 

اس پر زین

نیلی، پیلی یا سُرخ؟

نیلی

 

اس کی رفتار

دلکی،پھویا یا سرپٹ

دلکی

 

اس کی منزل

صحرا،دریا یا شہر؟

صحرا

 

اس کا مالک

انسان،خدا یا چراگاہ؟

انسان

 

اس کے مالک کی قسمت

اس کے ساتھ، اس کے اوپر یا اس کے آگے؟

اس کے ساتھ

 

اس کی موت کا مقام

جنگل،اصطبل یا میدانِ جنگ؟

جنگل

 

اس کا نام؟

زندگی، جسم یا روح؟

زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

پانی ہونے تک

 

 

کچھ روز رہیں ہم

گہرے رنگو ں میں

کچھ روز کھیلیں ہم

قوسِ قزح میں

جھولا ڈال کر

کچھ روز دیکھیں ہم

صبح کی شفق

شام کی شفق

کچھ روز ڈھونڈیں ہم

سمندر پر افق

پگھلنے والے ہیں

برف کے تودے

پہلے پگھلیں ہم

پانی ہو جائیں

کریں محبت

گہری محبت

اس جزیرے میں

پانی آنے تک

اس جزیرے کے

پانی ہونے تک

٭٭٭

 

 

 

 

صنفی مساوات کا نیا قانون

 

نئے قانون کے اعلان کے بعد

صنفی مساوت کا ایک اور مرحلہ طے ہو گیا

حق دے دیا گیا

تمام خواتین کو

کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ

باقاعدہ فوج میں شامل ہوں

گھروں سے دور غیر ممالک میں

محاذوں پر جائیں

بندوقیں اٹھائیں

دشمنوں کا نشانہ باندھیں

گولیاں چلائیں

دشمنوں کو گرتے ہوے دیکھیں

اور بہادری کے تمغے وصول کرتے ہوئے

یاد کریں

کہ ان کے نہتے دشمن

مرنے سے پہلے

انھیں مردوں کے مساوی قرار دیتے ہوئے

ان کے منھ پر بھی تھوک رہے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

خدا کی طرح

 

کیا کہتا ہے تمھارا محکمۂ شماریات

گزشتہ سال کے بارے میں

کیا کہتے ہیں تمھارے اعداد

تمھارے ریکارڈ

 

ایک ایکڑ زمین پر

سب سے زیادہ گندم کس نے اُگائی

 

کس جوڑے نے پرورش کے لیے

سب سے زیادہ یتیم بچوں کو گھر میں جگہ دی

 

سب سے زیادہ بیمار

کس کے ہاتھوں شفا یاب ہوئے

 

کس استاد نے

سب سے زیادہ بچوں کو الجبرا سکھایا

 

کس نے تخلیق کیے

سب سے زیادہ فن پارے

عظیم تصاویر

عظیم ادب کے نمونے

عظیم نغمات

 

کس مزدور نے

سب سے زیادہ لمبا فاقہ کیا

 

کس جیلر کی اذیت دہی نے

سب سے زیادہ قیدیوں سے راز اگلوائے

 

کس کمپنی نے

مارکیٹ کو قابو کیا

سب سے زیادہ دولت کمائی

 

کس عدالت نے

سب سے زیادہ موت کی سزائیں سنائیں

 

کس فوجی کمانڈر نے

سب سے زیادہ ملکی یا غیر ملکی زمین ہتھیائی

سب سے زیادہ دشمنوں کو موت کے منھ میں دھکیلا

 

کیا ہے قابلِ شمار

کیا ناقابلِ شمار

کیوں نہیں بتاتا تمہارا محکمۂ شماریات

 

کیا ہے قابلِ جزا

کیا ہے قابلِ سزا

کیوں غافل ہے

اعمال کے شمار سے

تمہارا محکمۂ شماریات

خدا کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

تتلیوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹیں

 

 

(1)

کہیں نہ کہیں

تتلیاں پھڑپھڑا رہی ہیں اپنے پر

اور برپا کر رہی ہیں طوفان

مختلف جگہوں پر

بدل دیتی ہیں موسم

تتلیوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹیں

اور ستاروں کی سمت اور رفتار

اور ہماری قسمتیں

سوچنے کا مقام ہے ہر پل

قدم کس طرح اور کس طرف پڑے

اور کیسے بدل جائیں ہماری منزلیں

تتلیاں نادان ہیں

ناواقف ہیں اپنے برپا کیے ہوئے طوفانوں سے

بالکل ہماری طرح

جو نہیں جانتے

اچھا ہے یا برا

ہمارا سانس لینا یاسانس روک لینا

 

(2)

مڑ چکی تھی میں

جب گر گیا ٹوٹ کر درخت سے

ایک سوکھا پتہ

میرے شانے پر

اور دیکھ لیا تم نے

اور رک گئے

جھاڑنے کے لیے

میرے شانے سے

وہ سوکھا پتہ

ایک بار پھر کہا تم نے

سوچ لو ایک بار اور

بات کر لینے میں کیا ہرج ہے

اور بات کر لی ہم نے

اور گزار لی ایک زندگی

ایک دوسرے کے خاندانوں کو جان کر

اپنے بچوں کے ساتھ

اور جب لے جا رہے تھے لوگ

تمھیں کاندھوں پر

مجھے یاد آگیا یونہی ایک لمحے کو

اگر نہ گرا ہوتا ٹوٹ کر درخت سے

وہ سوکھا پتہ

میرے شانے پر

 

(3)

وہ غلط پھینکی گئی تیز گیند تھی

جو لگی پیٹ میں جا کر ایک لڑکے کے

اور پھاڑ دیا اس کا اپینڈکس

اور غم سے پاگل کر دیا اس کے بھائی کو

سوسال گزر چکے ہیں

میں ہاتھ مل رہی ہوں

اس تیز گیند پر

آنسوؤں کے درمیان

ایک صدی کے نسل درنسل جاری

پاگل پن کا بوجھ

اپنے سر پر اٹھائے

 

(4)

رات ڈرامہ دلچسپ تھا

نیند دیر سے آئی

بھول گئی وہ جلدی میں

میز پر پڑا نظر کا چشمہ

اس اہم دن

جب مل گیا اسے وہ

اور ہو گیا پہلی نظر میں

ہمیشہ کے لیے اس کا اپنا

باوجود اس بات کے

کہ بہت نفرت تھی اسے نظر کے چشمے سے

بہت سال بیت گئے

جب اس نے سوچا

کاش اس رات نہ دیکھا ہوتا اس نے

وہ دلچسپ ڈرامہ

یا نہ بھولا ہوتا جلدی میں

میز پر پڑا نظر کا چشمہ

 

 

(5)

معمولی زکام تھا مگر

نہیں کرسکی وہ ہمت

بچے کے اسکول کی میٹنگ میں جانے کی

نہیں جاسکا وہ وقت پر دفتر

بچے کے اسکول کی میٹنگ کی باعث

نہیں دے سکا وہ اس کی تنخواہ

صحیح وقت پر

نہیں دے سکی وہ واجب الادا فیس

بچے کے اسکول میں

صحیح وقت پر

نہیں کرسکا وہ برداشت

فیس نہ لانے پر

ماسٹر کی مار

نہیں پڑھ سکا دوسری جماعت کے بعد

کرتے رہ گئے دھوپ میں مزدوری

وہ اور اس کے بچے

کسی اجنبی کے

معمولی زکام کے باعث

 

(6)

بھول گئی نوکرانی اس رات

پانی کا گلاس سرہانے رکھنا

کھل گئی اس کی آنکھ

آدھی رات کو

روتے روتے سونے کے بعد

شدید پیاس سے

اور بلا لیا اسے

صحن میں رکھے مٹکے کے برابر

کنویں کے اندر سے

اس کے عکس نے

کھل جاتی ہے آنکھ

آدھی رات کو

روتے روتے سونے کے بعد

میرے پیاروں کی

دل کے درد سے

دیرینہ یادوں سے

ڈراؤنے خوابوں سے

جو جگائے رکھتے ہیں مجھے دن اور رات

کبھی نہیں بھولتی

میں پانی کا گلاس

ان کے سرہانے رکھنا

 

(7)

پرندے نے سوچا

ایک لمحے کے ہزار ویں حصے میں

دائیں مڑے یا بائیں

اور مڑ گیا بائیں

اور ٹکرا گیا

شور مچاتے، تیز رفتار

بہت بڑے پرندے سے

جو اسے نگلتے ہی گرا

اور پاش پاش ہو گیا

شہر کے معززین آدھے رہ گئے

بدل گئے خاندانوں کے سربراہ

تباہ ہو گئے کچھ کارو بار

کچھ چھونے لگے آسمانوں کو

الٹ گئیں نقد بریں

ہزاروں موجود لوگوں کی

اور ان کی بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے

جب مڑ گیا پرندہ

دائیں جانب کے بجائے

بائیں جانب

 

(8)

اجنبی ہے وہ

مگر سنا تھا کہیں اس نے میرا نام

ڈھونڈ کر نکال لی ہے اس نے میری فائل

اور فیصلہ کیا ہے

میں اس کام کے لیے مناسب ہوں

اب چھوڑنا ہو گی

مجھے یہ سرزمین

بڑا ہونا ہو گا میرے بچوں کے میرے بغیر

بھول جائیں گے مجھے وہ

جنھیں میں قریب رکھتی ہوں

آ جائیں گے قریب

پتا نہیں کون سے اجنبی لوگ

شریک نہ ہو پاؤں میں شاید

شادیوں اور اموات میں

اپنے پیاروں کی

نہ جانے کون تھا

جس نے لیا تھا میرا نام

اس کے سامنے

برسبیلِ تذکرہ

 

(9)

ہو گئی بارش

غیر متوقع

پھیل گئی کیچڑ

پھسل گئے گھوڑے

ہار گیا وہ

ایک اہم جنگ

بن گئی محکوم

اس کی جنگجو قوم

بدل گئی تاریخ

ہمیشہ کے لیے

 

 

(10)

جب کھڑا کیا تھا استاد نے

اسے بنچ پر

وہ سب پیدا نہیں ہوئے تھے

جو مارے گئے اس کی شرمندگی کے ہاتھوں

پلتی رہی اک آگ

تیس سال تک

اس کے سینے میں

اور گھس گیا ایک دن

وہ ان کی کلاس میں

اور ایک ایک کر کے ختم کر دیں

سب بچوں کی تمسخرانہ مسکراہٹیں

لے لیا اپنی ذلت کا انتقام

بے رحم دنیا سے

 

(11)

جا رہی تھی اس کی بیوی کی دوست

ملک سے باہر

ملنا ضروری تھا

بلائے جا رہی تھی کب سے

اسے چلنے کے لیے

بغیر پڑھے دینا پڑے

اسے اوسط نمبر آخری جوابی کاپی کے

اور باندھ دیا اس نے بنڈل

نہیں مل سکا کسی یونیورسٹی میں داخلہ

مستقبل کے عظیم سائنسداں کو

نہیں ہوسکی وہ عظیم ایجاد

جو بدل دیتی ہماری قوم کی تقدیر

 

(12)

سوچا تو ضرور ہو گا اس نے

کیلے کا چھلکا گلی میں پھینکنے سے پہلے

میری قسمت کے بارے میں

پہنچ گئی میں ہسپتال

کھو بیٹھی اپنی ملازمت

بند ہو گئے ترقی کے دروازے

روٹھ گئی خوشحالی

نہ بن سکے میرے بچے

جو بننا تھا انھیں

اور ان کے بچے

سوچا تو ضرور ہو گا اس نے

کیلے کا چھلکا گلی میں پھینکنے سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

جب کوہ قاف آیا میری کھڑکی کے سامنے

 

 

دستک دے رہی تھی پری

میری کھڑکی پر آج پھر

نیند سے بند تھیں میری آنکھیں

مگر اٹھ کر کھولنا ہی پڑی کھڑکی

اس کی مسلسل دستک سے

’’کیوں آئی ہو پھر

میری زندگی الٹ پلٹ کرنے

معلوم تو ہے تمھیں

کوئی تحفہ تمھارا کبھی میرے کام نہ آیا‘‘

ناراض تھی میں پری سے

مگر جانتی تھی میں اور وہ بھی

کہ بے جا تھی میری ناراضگی

وہ لا چکی تھی میرے لیے بہت سے کارآمد تحفے

دستر خوان جو ہمیشہ کھانوں سے پر رہتا تھا

کھا کھا کر بیمار ہوئے اور کچھ مر بھی گئے

میرے پیارے لوگ

کسی کام کے قابل نہ رہے ہم سب

 

دوبارہ جوان کر دینے والا شربت

جسے پی کر ہم بھول گئے اپنا آپ

پہچان نہ سکے ایک دوسرے کی شکلیں

غرور نے پاگل کر دیا ہمیں

گزارنا پڑیں ہمیں بے مقصد زندگیاں دو دو بار

 

آبِ حیات

جسے پی کر تڑپ رہے ہیں

میرے کتنے ہی پیارے

موت کی آرزو میں

باعثِ عبرت ہیں وہ ان کے لیے

جنھیں مرنے کی عیاشی میسر ہے

 

مستقبل دکھانے والا پیالہ

جس میں دیکھ کر آنے والے دن

جینے سے پہلے ہی مر گئے

سب دیکھنے والے

 

دنیا کی نظروں سے غائب کر دینے والی ٹوپی

جسے پہن کر میں جان گئی وہ راز

جنھوں نے چھین لیا میرے دل کا چین

میری خوشیاں

ہمیشہ کے لیے

بنا دیا مجھے قاتل

 

نفرت ہو گئی ہے مجھے اس کے تحفوں سے

مگر پکڑ ہی لیتی ہے وہ

مجھے اپنے جال میں ہر بار

’’خوب جانتی ہوں میں تمھارے فریب

کیا تماشہ دکھاؤ گی اس بار‘‘

کہا میں نے پری سے

’’آنکھیں تو کھولو

دیکھو آج میں لائی ہوں تمھارے لیے

پورا کوہ قاف

ذرا نظارہ کرو اپنی کھڑکی سے‘‘

چونک کر آنکھیں کھول دیں میں نے

منظر بدل چکا تھا میری کھڑکی سے باہر

غائب ہو چکی تھیں

میرے آسمان کو ہر طرف سے روکے

بلند و بالا عمارتیں

ہرا  بھرا کوہ قاف کھڑا تھا میرے سامنے

 

’’کیا لے چلو گی مجھے

کوہ قاف کی سیر کے لیے؟‘‘

پوچھا میں نے پری سے

’’ہاں کیوں نہیں‘‘ کہا پری نے

’’مگر چھوڑ نہ دینا میرا ہاتھ راستے میں

میں پری نہیں ہوں‘‘

ہنسنے لگی پری

’’کیا میں جانتی نہیں ہوں تمھیں

اور تمام دوسری مخلوقات کو

آؤ چلو کرا لاؤں تمھیں سیر‘‘

 

پکڑ لیا اس نے میرا ہاتھ

اور لے گئی مجھے اڑا کر

دیکھتی رہی میں فضاؤں سے

پریاں، پریزاد اور دیو

’’تمھاری دنیا تو تقریباً ویسی ہی ہے جیسی میری

ایک فرق ہے

جو خوبصورت ہے وہ زیادہ خوبصورت ہے

اور جو بدصورت ہے وہ زیادہ بدصورت

اب اتار دو مجھے کوہ قاف میں

قریب سے دیکھنے دو مجھے سب کچھ‘‘

کہا میں نے پری سے

’’ایسا مت کرو

بس دور ہی سے دیکھو‘‘

اس نے کہا

’’اتنی دور سے دیکھنا بھی کیا دیکھنا ہے‘‘

’’تمھیں واپس نہیں جانے دے گا

یہ کوہ قاف

اگر تم گئیں اس کے نزدیک‘‘

’’کون روک سکے گا مجھے

اپنی دنیا میں جانے سے

میں نہیں چھوڑ سکتی یہ موقع

بہت قریب سے دیکھنے کا

کوہ قاف کی سادہ دنیا کو‘‘

چھوڑ دیا پری نے مجھے

جادو کی دنیا میں

اور اوجھل ہو گئی میری نظروں سے

کبھی نہ ملنے کے لیے

 

میں گرفتار ہوں

اسی کوہ قاف میں

بن کر اک پری

جب تک نہ لے آؤں میں

کسی اور کو اپنی جگہ

اُ س کی کھڑکی سے

٭٭٭

 

 

 

 

گن رہی ہو کیا

 

کیا انگلیوں کی پوریں ہیں

گنتی کے لیے

جو گنتی رہتی ہو تم

انگلیوں کی پوروں پر

سوتے اور جاگتے

پتا نہیں کیا کیا

کیوں دہلاتی ہو

پیار کرنے والوں کو

اپنے پاگل پن کی واضح نشانیوں سے

 

جب دنیا کی بیشتر چیزیں

قابل شمار ہیں

وہ کیونکر سمجھ پائیں گے

تمھارے دل کے راز

 

تو گن رہی ہو کیا جس کا شمار ختم نہیں ہوتا

سورج کی کرنیں

جنگل کے درخت

ہواؤں کے جھونکے

آسمان کے تارے

 

یا اپنی پیشروؤں کی طرح

تم بھی گن رہی ہو

اپنی یا اوروں کی قمیضوں کے بٹن

چھت میں لگی کڑیاں

دیواروں کے دھبے

یا کھڑکی کی سلاخیں

٭٭٭

ماخذ:

http://www.adbiduniya.com/2015/08/tanveer-anjum-ki-nazmein.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عب