FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔۔ ۱۲

بچوں کے غلام حیدر

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

پیڑ پیڑ مرا دانہ دے

ایک تھی گلہری۔ اس کا نام تھا کٹوؔ۔

کٹو پیڑ پر بیٹھی ایک چنا کھا رہی تھی۔

کٹو کا چنے کا دانا پیڑ کے ایک سوراخ میں گر گیا۔

کٹو بولی: ’’پیڑ پیڑ مرا دانہ دے۔

مرا دانہ دے!‘‘

پیڑ بولا: ’’میں تو نہیں دیتا!‘‘

کٹو نے سوچا۔ ’کون میری مدد کرے گا؟‘‘

کٹو ایک بڑھئی کے پاس گئی اور کہا:

’’بڑھئی بڑھئی تو پیڑ کو کاٹ دے۔!‘‘

’’میں پیڑ نہیں کاٹوں گا۔! ‘‘ بڑھئی بولا۔

پھر کٹو سپاہی کے پاس گئی اور بولی:

’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا۔ بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا،

سپاہی تو بڑھئی کو پکڑ لے!‘‘

’’نہیں۔ پیڑ اچھا ہوتا ہے۔ میں بڑھئی کو نہیں

پکڑوں گا۔!‘‘ سپاہی نے کہا۔

کٹو راجا کے پاس گئی اور بولی:

’’راجا راجا سپاہی کو نکال دے!‘‘

’’کیوں!؟‘‘ راجا نے پوچھا۔

’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، تو سپاہی کو نکال دے۔!‘‘

مگر پیڑ تو اچھا ہوتا ہے۔!‘‘ راجا نے کہا:

’’مگر وہ مرا دانا نہیں دیتا!‘‘

’’پھر بھی، میں سپاہی کو نہیں نکالوں گا‘‘۔ راجا بولا۔

اب کٹو رانی کے پاس گئی۔ کٹو نے رانی سے کہا:

’’رانی رانی، تو راجا سے روٹھ جا!‘‘

’’کیوں!؟‘‘ رانی نے پوچھا۔

’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا،

سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا‘‘

’’نہیں میں راجا سے نہیں روٹھوں گی اور پیڑ تو مجھے پھول دیتا ہے۔!‘‘ رانی نے کہا۔

’’مگر وہ مرا دانہ کیوں نہیں دیتا!؟‘‘

پھر کٹو چوہیا کے پاس پہنچی اور چوہیا سے کہا: ’’چوہیا چوہیا تو رانی کے کپڑے کاٹ لے!‘‘

’’کیوں میں رانی کے کپڑے کیوں کاٹوں!؟‘‘ چوہیا نے پوچھا۔

’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی‘‘

چوہیا بولی: میں رانی کے کپڑے نہیں کاٹوں گی۔!

اور پیڑ کی جڑ میں تو میری دادی رہتی ہے۔!‘‘

’’مگر پیڑ مرا دانہ کیوں نہیں دیتا۔!‘‘

کٹو سیدھی بلی کے پاس آئی اور بولی!

’’بلی خالہ، بلی خالہ۔ تم چوہیا کو پکڑ لو!‘‘

’’کیوں میں چوہیا کو کیوں پکڑوں!؟‘‘ بلی نے پوچھا۔

’’بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی‘‘

’’مگر میں چوہیا کو پھر بھی نہیں پکڑوں گی اور پیڑ کے نیچے تو سارے جانور آرام کرتے ہیں‘‘۔ بلی نے کہا۔

’’مگر پیڑ مرا دانا کیوں نہیں دیتا!؟‘‘

اب کٹو ایک ڈنڈے کے پاس پہنچی اور بولی:

’’ڈنڈے ڈنڈے۔ تو بلی کو مار!‘‘

’’کیوں۔! میں بلی کو کیوں ماروں!؟‘‘ ڈنڈے نے پوچھا۔

’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی، بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی۔‘‘

ڈنڈے نے کہا۔

’’مگر میں بلی کو نہیں ماروں گا اور میں تو خود پیڑ سے نکلا ہوں!‘‘

’’مگر پیڑ مرا دانا کیوں نہیں دیتا!؟‘‘

اس کے بعد کٹو آگ کے پاس گئی اور کہا:

’’آگ آگ تو ڈنڈے کو جلا دے!‘‘

آگ نے پوچھا: ’’میں ڈنڈے کو کیوں جلاؤں!؟‘‘

’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا

بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا

سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا

راجا سپاہی کو نہیں نکالتا

رانی راجا سے نہیں روٹھتی

چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی

بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی

ڈنڈا بلی کو نہیں مارتا!‘‘

’’مگر میں ڈنڈے کو نہیں جلاؤں گی

اور ہاں پیڑ کی لکڑی سے

تو آگ جلتی ہے۔!‘‘ آگ نے کہا۔

’’مگر پیڑ مرا دانا کیوں نہیں دیتا!‘‘

تب کٹو پانی کے پاس پہنچی۔ کٹو نے کہا:

’’پانی پانی تو آگ کو بجھا دے!‘‘

کیوں!؟‘‘ پانی نے پوچھا

’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا،

بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا،

سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا،

راجا سپاہی کو نہیں نکالتا،

رانی راجا سے نہیں روٹھتی

چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی،

بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی،

ڈنڈا بلی کو نہیں مارتا،

آگ ڈنڈے کو نہیں جلاتی‘‘

’’مگر میں آگ کو نہیں بجھاؤں گا اور ہاں پیڑ کی وجہ سے

تو بارش ہوتی ہے۔ بارش نہ ہو تو پانی کہاں سے آئے!‘‘ پانی نے کہا۔

پھر کٹو ہاتھی کے پاس گئی اور بولی:

’’ہاتھی ہاتھی، تو سارا پانی پی جا!‘‘

’’میں سارا پانی کیوں پی جاؤں!؟‘‘ ہاتھی نے پوچھا۔

’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی، بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی، ڈنڈا بلی کو نہیں مارتا، آگ ڈنڈے کو نہیں جلاتی، پانی آگ کو نہیں بجھاتا۔‘‘

’’مگر میں سارا پانی نہیں پیوں گا اور رہی پیڑ کی بات۔ تو میں خود پیڑ کے پتے کھاتا ہوں!‘‘

کٹو اداس ہو گئی۔

’’کوئی میری مدد نہیں کرتا!‘‘ مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔

آخر کیوں چھوٹی سی چیونٹی کے پاس پہنچی اور بولی:

’’چھوٹی چیونٹی، چھوٹی چیونٹی۔ کیا تم میری مدد کرو گی!؟‘‘

ہاں میں تمہاری مدد ضرور کروں گی!‘‘ چیونٹی نے کہا۔

’’تو چلو میرے ساتھ۔ ہاتھی کی سونڈ میں گھس جاؤ!‘‘

’’ہاں، مجھے ہاتھی کے موٹے موٹے پیروں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں ہاتھی کی سونڈ میں کاٹ لوں گی۔‘‘

اور پھر چلے چیونٹی اور کٹو ہاتھی کی طرف۔

اور ہاتھی، چیونٹی اور کٹو کو ساتھ ساتھ دیکھ کر ڈر گیا اور وہ چلا۔

اور پانی نے دیکھا۔ کہ:

آگے آگے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو چلے آ رہے ہیں۔ تو پانی سمجھ گیا۔ پانی ہاتھی سے ڈر گیا۔

اور وہ چلا آگ کی طرف۔

اور جب آگ نے دیکھا کہ:

آگے آگے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو دوڑے آرہے ہیں۔ تو آگ ساری بات سمجھ گئی۔ آگ پانی سے ڈر گئی۔

اور وہ چلی ڈنڈے کی طرف۔

اور ڈنڈے نے جو دیکھا کہ:

آگے آگے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو۔ تیز تیز آ رہے ہیں۔ تو ڈنڈا سب کچھ سمجھ گیا۔ وہ آگ سے ڈر گیا۔

اور پھر ڈنڈا چلا بلی کی طرف۔

اب جو بلی نے دیکھا کہ:

آگے آگے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو چلے آ رہے ہیں۔ تو بلی سمجھ گئی۔ بلی ڈنڈے سے ڈر گئی۔

اور وہ لپکی چوہیا کو پکڑنے۔

پھر جب چوہیا نے دیکھا۔ کہ:

آگے آگے بلی۔ بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ،

آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ تو چوہیا سب کچھ سمجھ گئی۔ اسے بلی سے بہت ڈر لگا۔

اور بس وہ بھاگی رانی کے کپڑے کاٹنے۔

اب جو رانی نے دیکھا۔ کہ:

آگے آگے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو، اس کے کپڑوں کی طرف جا رہے ہیں۔ تو رانی ساری بات سمجھ گئی۔

رانی چوہیا سے ڈر گئی۔

اور وہ چلی راجا سے لڑنے اور روٹھنے۔

راجہ نے دیکھا۔ کہ:

آگے آگے رانی، رانی کے پیچھے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو تیز چلے آ رہے ہیں۔

تو راجا کو ساری بات یاد آ گئی۔ وہ گھبرا گیا۔

اور وہ اٹھا سپاہی کو نکال دینے کے لیے۔

اب سپاہی نے جو دیکھا کہ:

آگے آگے راجا، راجا کے پیچھے رانی، رانی کے پیچھے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ تو وہ بہت ڈرا۔

اور وہ چلا بڑھئی کو پکڑنے۔

اور بڑھئی سمجھ گیا کہ:

سب سے آگے سپاہی، سپاہی کے پیچھے راجا، راجا کے پیچھے رانی، رانی کے پیچھے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی اور ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو۔ کیوں دوڑے چلے آ رہے ہیں!

اور بس اس نے اٹھائی کلہاڑی اور چلا پیڑ کی طرف۔

پیڑ ان سب کو دیکھ کر خوب ہنسا اور بولا:

’’تم مجھے کاٹو گے۔؟

تو گرمی میں ٹھنڈا ٹھنڈا سایا کون دے گا؟

بارش کیسے ہوگی؟

پھول پھل کہاں سے آئیں گے؟

چڑیاں، طوطے اور بندر کہاں رہیں گے؟

تم مجھے مت کاٹو۔ میں تو سب کے کام آتا ہوں!‘‘

’’تو پھر پیڑ پیڑ مرا دانا دے!‘‘ کٹو نے جلدی سے کہا

اور پیڑ نے دانا فوراً زمین پر گرا دیا۔

پھر سب خوش ہو گئے۔ پیڑ کے ٹھنڈے سایے میں ناچنے لگے۔

پیڑ جھوما، کٹو ناچی، ہاتھی اچھلا، بلی کو دی۔

اور پھر سب خوش خوش اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔

٭٭٭

اپنے بالوں کی حفاظت میں

’’بد تمیز!‘‘ ایک تھپڑ

’’ناکارہ!‘‘ دوسرا تھپڑ

’’پاجی‘‘ اور پھر تو جیسے تھپڑوں کی بارش ہی ہونے لگی اور دن میں تارے نظر آنے لگے۔ دیوار پر لٹکی کبیر، غالب اور آئنسٹائن کی تصویری ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو کر ناچ رہی تھیں اور پھر تو چہرے اور گنجے سر پر پڑنے والے بےشمار تھپڑوں کا حق دار ہوں؟ اس وقت میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور دلی کے ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔ میری آواز بہت اچھی تھی۔ شاید ہی اسکول کا کوئی جلسہ ایسا ہوا ہو جس میں میں نے کوئی نظم، ترانا یا گانا نہ گایا ہو۔

ان دنوں ایک خاص جلسے کی تیاری چل رہی تھی۔ اس جلسے کی صدارت ملک کی ایک مشہور شخصیت کو کرنی تھی۔ تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ چل رہی تھیں۔ کئی ہفتے پہلے سے کلاسیں صاف ہونے لگی تھیں۔ دیواروں کو چارٹ اور تصویروں سے سجایا جا رہا تھا۔ ان دنوں ہر شخص کسی نہ کسی کام میں مصروف نظر آتا تھا۔

ان خاص مہمان کے اعزاز میں ایک نظم بھی پڑھی جانی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ کام میرے علاوہ اسکول میں کون کرتا۔

ہاں، میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اس زمانے میں میرے بال کچھ زیادہ ہی لمبے رہتے تھے۔ میرے بالوں کی وجہ سے کئی بار میرے والدین بھی مجھ سے ناراض ہو چکے تھے اور اسی لیے ہاسٹل میں داخل ہوتے وقت مجھے خوشی تھی کہ اب میں اپنے بالوں کو اپنی مرضی سے بڑھا سکتا ہوں۔

مگر ہاسٹل میں داخل ہونے کے بعد جلدی ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں حالات اور بھی زیادہ خراب تھے۔

ہمارے وارڈن صاحب یوں تو بہت نیک اور محترم بزرگ تھے۔ لیکن تھے میرے والدین سے بھی زیادہ سخت وہ ایک آرٹسٹ تھے اور غیر ضروری حد تک ہر چیز کی صفائی اور سلیقے پر زور دیتے تھے۔۔۔ ظاہر ہے کہ میرے بال بہت جلد ہم دونوں کے بیچ فساد کی جڑ بن گئے تھے۔

ہر اتوار کو ہوسٹل میں ایک بوڑھا نائی آتا تھا، جسے ہم خلیفہ جی کہا کرتے تھے۔ میرا اتوار کا دن وارڈن صاحب کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے گذرتا تھا۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بھی چوتھے یا پانچویں ہفتے مجھے پکڑ کر خلیفہ جی کے حوالے کر ہی دیا جاتا تھا۔ خلیفہ جی کو میرا نام بھی لیتے جھر جھر آتی تھی۔ میں تھا ہی اتنا شیطان۔ میرے بالوں کو چھوتے ہوئے ان کے ساتھ کانپنے لگتے تھے۔

جلسے سے پہلے اتوار کو صبح سے ہی وارڈن صاحب بار بار مجھے آگاہ کر چکے تھے کہ اگر میں نے بال نہیں کٹوائے تو بہت سخت سزا ملے گی۔

وارڈن صاحب کی یہ بات مجھے سخت ناگوار گذر رہی تھی۔ کیونکہ میری خواہش تھی کہ اسٹیج پر میں اپنے بالوں کا شاندار تاج پہن کر جاؤں۔

وارڈن صاحب کے چنگل سے بچ نکلنا ناممکن ہو گیا اور مجھے سیدھا خلیفہ جی کے حوالے کر دیا گیا۔

جس کا خوف تھا وہ گھڑی آ گئی تھی۔ یہی وقت تھا فیصلہ کرنے کا۔ وارڈن صاحب کی دھمکیوں سے ڈر کر خود کو ان کے حوالہ کر دوں یا پھر بغاوت۔

اور بس مجھے شیطان نے ورغلا دیا اور میں نے بدلا لینے کی ٹھان لی۔ آج مجھے اپنا اگلا پچھلا سب حساب برابر کرنا تھا۔ میں نے شرافت سے خلیفہ جی کے سامنے اپنا سر پیش کر دیا اور سر پر استرا پھیرنے کی ہدایت کی۔

ظاہر ہے کہ خلیفہ جی نے میری بات پر ذرا سا بھی یقین نہیں کیا۔ لیکن میری ضد کے آگے آخرکار انہیں بار ماننی ہی پڑی۔ خلیفہ جی نے سر پر پانی لگایا استرا اٹھانے سے پہلے ایک بار پھر مجھ سے پوچھا۔

’’میاں، تو کیا تم سچ مچ گنجے ہونا چاہتے ہو؟‘‘

خلیفہ جی کو یقین دلانے میں مجھے تقریباً دس منٹ لگے تھے۔ آخرکار کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے استرا میرے سر پر پھیرنا شروع کر ہی دیا۔ کچھ ہی دیر میں میرے سر پر تین بار استرا پھیرا جا چکا تھا۔ اب میری چمکتی کھوپڑی پر بال کا نام و نشان تک نہ تھا۔ میں نے اپنی بھنویں بھی کچھ چھٹوا دیں۔ پھر میں نے بڑی احتیاط سے سر پر تیل لگا کر خوب چمکایا۔ کمرے میں جا کر ایک نیکر پہنا، کندھے پر تولیہ ڈالا اور بڑی شان سے ہاسٹل سے باہر نکلا۔ میرے ساتھی ہنستے ہنستے پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ تالیاں بجاتے شور مچاتے ہوئے وہ بھی میرے پیچھے ہو لیے۔ ہڑدنگوں کی اس ٹولی کے آگے آگے بدھ بھکشو جیسی شکل میں میں چل رہا تھا۔

وارڈن صاحب ایک کلاس سجانے میں مصروف تھے۔ ہمارا ہنستا غل مچاتا۔ یہ جرگہ جب وہاں سے گزرا تو وہ گھبرا کر جلدی سے باہر نکل آئے۔ مجھے اس حال میں دیکھ کر تو جیسے انہیں سکتہ سا ہو گیا۔ شاید انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے مجھے کئی بار سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر وہی ہوا جس کی مجھے امید تھی۔

اس دن میری خوب دھنائی ہوئی۔۔۔ خیر آج مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ ضروری بھی تھی۔

ظاہر ہے کہ ایسی شکل میں مجھے اسٹیج پر نہیں جانے دیا گیا مگر اس سے بھی بری بات یہ تھی کہ کئی مہینوں تک مجھے ایک بھکشو کی طرح رہنا پڑا اور یار دوستوں کی ٹول بازی کا نشانہ بننا پڑا۔ البتہ اس کے بعد سے کبھی کسی نے مجھ سے بال کٹوانے کے لئے نہیں کہا۔

اور آج تک اپنے بالوں کا میں خود ہی مالک ہوں۔

٭٭٭

امدادِ باہمی

چوراہے پر لگی بتیوں پر جیسے ہی ہری بتی بجھی اور پیلی جلی، راکیش، احمد، موہن اور دیوان اپنے اپنے اخباروں کی گڈی سنبھال کر تیار ہو گئے اور پھر لال بتی جلتے ہی۔۔۔ ’ایوان نیوز‘، ’سندھیا ٹائمس‘ چیختے چلاتے سڑک پر اتر آئے۔

بسوں، موٹروں، اسکوٹروں، کاروں کے اس چھتے میں کہیں جسم سمیٹ کر، کہیں گھس کر یا ادھر ادھر گھوم کر تیزی سے چکر لگانے اور ہر کار کے شیشے اور بس کی کھڑکی سے اپنا اخبار اندر بڑھانے کی انہیں پوری مہارت ہو گئی تھی۔ گاڑیوں کے چاروں طرف یہ ایسے گھومتے پھرتے تھے جیسے رنگ برنگی کیاریوں پر بھنورے منڈلا رہے ہوں۔

اور پھر ایک ڈیڑھ منٹ بعد جیسے ہی بتی ہری ہوئی یہ گاڑیوں کے بمپروں، اسکوٹر اور موٹر سائیکلوں کے پہیوں سے بچتے بچاتے ادھر ادھر کی پیڑیوں پر دوڑ پڑے اور اگلی لال بتی کا انتظار کرنے لگے۔

ایک اخبار کے پیسے  لینے میں دیوان کو ذرا دیر ہوئی تو وہ گاڑیوں کے جال میں پھنس سا گیا۔ ایک پٹری سے راکیش اور موہن اور دوسری سے احمد گھبرا کر زور ز  ور سے چلائے، ’’دیوان، دیوان۔۔۔ دیکھ پیچھے بس ہے‘‘ ۔۔۔ ارے وہ کنارے والی کار تیز ہو گئی ہے!‘‘ کئی گاڑیوں کے ہارن زور سے بجے۔۔۔ کچھ ڈرائیور زور زور سے بڑبڑاتے، برا بھلا کہتے آگے بڑھ گئے۔ دیوان آخرکار سے تو بچ گیا مگر اونچی پٹری کے کنارے سے ٹکرا کر ایسے گرا کہ ایک ٹانگ میں، کہنیوں میں اور ٹھوڑی میں کافی چوٹ آئی۔

یہ چاروں لڑکے جو آشرم کے چوراہے پر شام کا اخبار بیچتے ہیں، ان میں موہن ایک دو سال بڑا بھی لگتا ہے اور اخبار بیچنے کے کام میں سب سے پرانا بھی ہے۔۔۔ روزانہ دو ڈھائی بجے ایک اخبار والا بہت سے اخباروں کی گڈیاں سائیکل پر رکھے لاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو گن گن کر اخبار دے دیتا ہے۔۔۔ پھر رات کو آتا ہے اور ایک روپئے کے اخبار پر بارہ پیسے کے حساب سے انہیں دے کر بچے ہوئے اخبار اور پیسے گن کر لے جاتا ہے۔

ہر روز جیسے ہی اخبار آتے، سب سے پہلے موہن کسی ہندی اخبار سے موٹی موٹی خبریں پڑھ کر سب کو سنا دیتا۔۔۔ اس نے پانچویں کلاس تک پڑھا تھا، چھٹی کلاس کا امتحان نہیں دے سکا تھا۔۔۔۔ پھر احمد، جسے ٹوٹی پھوٹی انگریزی آتی ہے، ایوننگ نیوز اور ’مڈ ڈے‘ کی سب سے موٹی سرخی کی خبر کچھ اٹکل سے، یا کبھی کوئی تصویر دیکھ کر سب کو بتا دیتا اور پھر ان میں سے ہر ایک کوئی گرما گرم خبر چھانٹ لیتا اور ’’سڑک پر دن دہاڑے لوٹ لیا‘‘، ’’بسوں کی ٹکر میں چار مرے‘‘، ’’پردھان منتری کی کڑی چیتاونی‘‘ کی ہانکیں لگا لگا کر چار پانچ گھنٹے چوراہے پر ناچتا پھرتا۔ ہر شام ایسا ہی ہوتا تھا۔

شام کو جب انہیں پیسے ملتے، تو ان میں سے ہر ایک کچھ پیسوں کے چنے، مونگ پھلی، ’چنا جور گرم‘ یا ’مسالے والا پاپڑ‘ کھاتا ہوا اپنے گھر چلا جاتا۔ موہن، جسے یہ اپنا ’استاد‘ مانتے تھے اس نے انہیں اخبار بیچنے کے کچھ گھر بھی سکھا دیے تھے۔۔۔ جیسے بتی کا رنگ بدلنے کے کتنی دیر بعد یا کتنی دیر پہلے پٹری سے اترنا یا پٹری کی طرف پلٹنا چاہئے۔ بس میں بیٹھے ہوئے مسافر کو اس وقت تک اخبار نہیں دینا چاہئے، جب تک وہ نقد پیسے پہلے نہ دے دے، بچوں کو اخبار نہیں دینا چاہئے، اگر کسی اخبار کے پیسے نہ ملیں تب بھی کسی کار یا بس کے پیچھے زیادہ دوڑنا نہیں چاہئے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اتنی احتیاطوں کے بعد بھی کبھی کبھی ایک آدھ اخبار کے پیسے ضرور مارے جاتے تھے۔۔۔ مگر اخبار والا تو رات کو اخبار گن کر اپنے پورے پیسے گنوا لیتا تھا۔ بارش کے دن ان بے چاروں کے اخبار کافی کم بکتے تھے۔

اس دن چوٹ لگنے کے بعد جب کئی دن تک دیوان اخبار بیچنے نہیں آیا تو ایک دن موہن نے کہا، ’’ارے کسی نے دیوان کا گھر دیکھا ہے؟‘‘

’’ہاں! میں نے دیکھا ہے۔!‘‘ احمد نے بتایا۔

’’تو تو کل اس کا حال پوچھ کر آنا‘‘۔

’’اچھا ضرور۔۔۔!‘‘ احمد نے وعدہ کیا۔

اگلے دن احمد نے بتایا کہ دیوان کی کئی چوٹیں اب پکنے لگی ہیں اور ان کی ماں کے پاس بالکل پیسے نہیں ہیں۔ اس بات کو سن کر تینوں ساتھی آج کچھ چپ چپ اور اداس سے نظر آ رہے تھے۔ اخبار آنے سے کچھ پہلے موہن نے ایک دم کہا۔

’’سن احمد! اور راکیش تو بھی سن!‘‘

دونوں نے اسے بڑے غور سے دیکھا۔

’’ہم آج سے تین نہیں، چار لڑکوں کے اخبار لیں گے!‘‘

’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ دونوں نے لگ بھگ ساتھ ہی کہا۔

’’آج سے ہم دیوان کے حصے کے اخبار بھی بیچیں گے۔۔۔ تھوڑی بھاگ دوڑ ہی تو زیادہ کرنی ہوگی۔۔۔ اخبار والے سے کہہ دیں گے، اب وہ آٹھ بجے نہیں نو بجے پیسے لینے آیا کرے۔۔۔‘‘ موہن نے ایک ایک لفظ جما کر کہا، ’’اور تو احمد، اس کے حصے کے پیسے اس کے گھر دے کر آئے گا۔۔۔ جب تک وہ ٹھیک نہیں  ۔۔۔ بولو منظور ہے؟‘‘

’’منظور ہے، منظور ہے!‘‘ دونوں نے پورے جوش سے کہا۔

اور پھر اگلے کافی دنوں تک تینوں دوست دیوان کے حصے کے اخبار بیچنے کے لئے خوب بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ رات کو تینوں اپنے اپنے پیسے بغیر گنے ایک ساتھ جمع کر لیتے۔ انہیں چار برابر حصوں میں بانٹ لیا جاتا۔ اب انہوں نے مونگ پھلی یا ’مسالے والا پاپڑ‘ بھی کھانا بند کر دیا تھا۔ احمد دیوان کا حصہ اسی رات اس کے یہاں پہنچا دیتا۔۔۔ دیوان کی ماں نے جب پیسے لینے سے انکار کیا تو احمد نے کہہ دیا۔۔۔’’خالہ۔۔۔ تم اس وقت تو لے لو۔۔۔ بعد میں ہم دوست آپس میں حساب کر لیں گے‘‘۔

دیوان کے ٹھیک ہو جانے کے بعد اب چاروں نے باقاعدہ ایک ٹولی بنا لی ہے۔ اس کا نام انہوں نے ’’ایون نیوز ٹولی‘‘ رکھ لیا ہے۔ اب موہن ہی سارے اخبار لیتا ہے اور رات کو اخبار والے سے حساب کرتا ہے۔۔۔ پھر سارے پیسے برابر برابر بانٹ لیے جاتے ہیں۔۔۔ مگر ان میں سے ایک روپیہ پہلے نکال لیا جاتا ہے۔

سڑک کے کنارے بیٹھا پاپڑ والا یا چنا جور گرم والا ان کا انتظار کرتا رہتا ہے۔۔۔ یہ کسی دن چار پاپڑ اور کسی دن چار پڑیا چنا جور کی لے کر اس پر خوب مسالا ڈلوا کر ’سی سی‘ کی آوازوں کے ساتھ اسے کھاتے، آنسو پونچھتے اپنے اپنے گھر کی طرف چل دیتے ہیں۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل