FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

بول تول

اردو کا لسانی تہذیبی مطالعہ

 

 

محمد یعقوب آسیؔ

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

آموزگاروں کے نام

 

 

 

 

 

کوائف

 

کتاب کا نام: بول تول (اردو کا لسانی تہذیبی مطالعہ)۔

مصنف: محمد یعقوب آسیؔ

سرورق: محمد یعقوب آسیؔ

اشاعت: انٹرنیٹ ایڈیشن (فروری ۲۰۱۹ء)

قیمت: آپ کی پر خلوص دعائیں

 

 

 

اتنی سی بات

 

زبان ہے کیا؟ یہ سو سوالوں کا وہ ایک سوال ہے جس کا شافی جواب اگر نا ممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔ یہ لکھنے اور پڑھنے کی چیز ہے یا بولنے اور سننے کی؟ آوازیں ہیں؟ حروف ہیں؟ الفاظ ہیں؟ معانی ہیں؟ جذبات ہیں؟ خبریں ہیں؟ علم ہے؟ نام ہیں؟ کام ہیں؟ یہ آخر ہے کیا! ہم نے یہ جو کچھ یہاں گنا ہے یہی زبان ہے؟ یا یہ زبان عناصر، مقاصد، محرکات وغیرہ ہو سکتے ہیں۔

ہم اسے ذرا مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ انسان کے منہ کے اندر ایک بہت لچک دار اور نازک سا عضو ہے جو حلقوم سے اٹھتی ہوئی مرتعش لہروں میں تنوع پیدا کرتا ہے، اتنا کہ اسے ایک باضابطہ نطق بنا دیتا ہے۔ اس جزوِ بدنی کا نام زبان ہے (tongue) ہے۔ جو اپنی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ چھریوں برچھیوں کی بتیسی، جبڑوں اور ناک کے حصار میں آزادانہ حرکت کرتی ہے، اپنے پورے ماحول کو کام میں لاتی ہے۔ یوں ارتعاش کی وہ لہر محض لہر نہیں رہ جاتی بلکہ ایک قابلِ فہم زبان (language) میں ڈھل جاتی ہے۔ زبان محض آوازوں کا نام نہیں، یہ ایک مکمل ثقافتی اظہاریہ ہوتا ہے۔

لفظ کی رسائی بہت دور تک ہے۔ روح کہہ لیجئے، ہوا کہہ لیجئے، بادِ بہاری، بادِ سموم، نسیم، گردباد، کچھ بھی کہہ لیجئے لفظ اپنی پوری تب و تاب اور قوت کے ساتھ بہت دور تک جاتا ہے اور بہت دیر تک اثر رکھتا ہے۔ لفظ آبِ حیات بھی ہے اور زہرِ ہلاہل بھی، جاں فزا رِم جھِم بھی ہے اور بلاخور طوفان بھی۔ اس کا اثر شجر، حجر سب پر ہوتا ہے مگر محسوس کرنے کو زندگی درکار ہوتی ہے۔ گویا یہ زندگی کا زندگی کے نام پیغام ہے، زندگی کے سارے رنگ، سارے لہجے جیتی جاگتی آنکھوں اور کانوں کے لئے ہوتے ہیں۔ اور ان کی بصارت، بصیرت، سماعت، محسوسات پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ لفظ کو قوت البتہ اس کا منبع دیتا ہے اور شناخت بھی۔ جہاں منبع نظرانداز ہو گیا، یا کمزور پڑ گیا، وہاں لفظ کی پہلے قوت اور پھر شناخت بھی جاتی رہی، اس میں کوئی دوسری بات ہے ہی نہیں۔

یہی خواص ہماری اردو میں بھی ہیں۔ اس کی رسائی بھی اور رعنائی بھی، اس کی صحت بھی اور تاثیر بھی اس کے اپنے لوگوں کی ثقافت اور اس کی مضبوطی پر منحصر ہے۔ لوگ، زندگی، ذات، معاشرہ، طرزِ حیات، افکار، عقائد، محسوسات، خدشات، امیدیں، واہمے، المیے، رزمیے، حزنیے، لطافت، خشونت، وسعتِ نظر، وسعتِ تخییل، دجل و فریب، جدل و فساد، احسان، دوستی، دشمنی، نظریہ، عقیدہ، مذہب، خدا کا تصور، جو کچھ ثقافت میں ہو گا، دوسروں پر بعد میں اور خود اردو پر پہلے اثر انداز ہو گا۔ اتنی سی بات ہے اور اس اتنی سی بات کو بیان کرنے کی اس کوشش کا نام "بول تول” ہے۔

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان

ابتدائے ترامیم 23 فروری 2019ء

 

 

 

 

اولین زبان، نفوذ، لشکری زبان

 

تخلیق کائنات کی ابتداء قلم سے ہوئی اور اسے کہا گیا کہ لکھ! اسے جو کہا گیا، جیسے کہا وہ لکھتا چلا گیا۔ پھر روشنائی خشک ہو گئی۔ لکھی ہوئی اور بولی ہوئی زبان انسان کی اولین زبان ہے۔ اسی زبان میں حکم ہوا کہ: اے آدم، تم اور تمہاری زوجہ جنت میں رہو، جو چاہو، خوب کھاؤ پیو، مگر فلاں شجر کو نہ چھیڑنا نہیں تو نقصان اٹھاؤ گے۔ پھر کچھ ایسا ہو گیا کہ وہ ابلیس کے بہکاوے میں آ گئے ور اس درخت کو چھیڑ بیٹھے۔ احساس ہوا کہ ہم نے یہ کیا کر دیا، تو پکار اٹھے: اے ہمارے رب! ہم نے خود پر ظلم کر لیا، اگر تو نے ہمیں معاف نہیں کیا اور ہم پر رحم نہیں کیا تو ہم مارے گئے۔ خالقِ کائنات نے ان کو معاف کر دیا اور انہیں زمین پر اتار دیا گیا کہ اب یہاں رہو، اور جس گھر سے چلے تھے اس کو پھر سے حاصل کرنے کی کوششوں میں لگ جاؤ۔ جن اشیاء سے انسان کو کام لینا تھا ان کا علم پہلے سے عطا کر دیا گیا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ، آدم، حوا، فرشتوں اور ابلیس کے مابین مکالمہ ہوا، اس کا ابلاغ بھی ہوا اور مختلف مواقع پر ہر ایک کا پیرایۂ اظہار تبدیل بھی ہوا۔

یہ سارا مکالمہ اور ابلاغ ایک مکمل اور کامل زبان میں ہوا ہو گا۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ اس زبان کا نام کیا تھا، اس کے الفاظ کیا تھے، ہمیں دو باتوں کو ماننا پڑے گا۔ اول یہ کہ وہ زبان سب کی زبان تھی، خالق کی بھی، مخلوق (انسان، جنات، ملائکہ) کی بھی۔ اور دوسری بات کہ کرۂ ارض پر آباد نوعِ انسان کی اولین اور واحد زبان وہی تھی۔

ایک گھرانا، ایک خاندان، پھر ایک قبیلہ، پھر کئی قبیلے، ایک قوم، دوسری قوم، تیسری قوم! آدم کے بیٹے جیسے جیسے دنیا پر پھیلتے گئے، اسی ایک زبان سے کئی نئی زبانیں پیدا ہوتی گئیں اور پھر ان کے تعامل سے اور زبانیں پیدا ہوئیں۔ نئی زبانوں اور پھر ان کے ملاپ کے نتیجے میں مزید نئی زبانوں کی پیدائش عین فطری بات ہے۔ گویا ہر زبان جو اس وقت بولی جا رہی ہے وہ بہ یک وقت کئی کئی زبانوں کے امتزاج کا حاصل ہے۔ گویا اظہاریے اور الفاظ کے لشکر ہیں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ہم بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ زبان ہوتی ہی لشکری ہے۔ زبان کی قوت اور استقلال کا انحصار اس کے لفظوں کی قوت پر نہیں، انہیں بولنے والوں کی قوت اور استقلال پر ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک قوم نے کسی بھی لحاظ سے دوسری قوم پر غلبہ پا لیا تو اس کی زبان بھی مغلوب کی زبان پر چڑھ دوڑی۔ ایک قوم مٹ گئی، کمزور ہو گئی، مغلوب ہوتی گئی تو اس کی زبان بھی کمزور ہوتی گئی اور اس میں دوسری زبانوں کا نفوذ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ ایک زبان ہوتے ہوتے ختم ہو گئی۔

زبان کا لشکری ہونا فطرت کا مظہر ہے نہ کہ کوئی برائی یا جبر۔ اردو کو لشکری زبان کا طعنہ دینے والے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کی پرورش کرنے والی تہذیب و ثقافت سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ کسی اور کا کھلونا تو نہیں بنے ہوئے؟ انہیں اس کا ادراک بھی ہے یا نہیں؟ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی فکرِ بیمار ہولے ہولے پوری ثقافت کے ہر پہلو میں کیڑے نکالنے لگتی ہے۔ اس کے پیچھے تعمیر سے زیادہ تخریب کارفرما ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کی کوئی معتبر اور تحقیقی مزاج والی لغات اٹھا کر دیکھ لیجئے، صاف طور پر پتہ چل جاتا ہے کہ اس میں فلاں، فلاں، فلاں، دس، بیس، پچاس، سو، دو سو، زبانوں کے اثرات ہیں۔ مذکورہ دو سو زبانوں پر کس کس کے اثرات تھے، یہ سلسلہ چلتے چلتے پھر اسی نکتے پر پہنچ جائے گا کہ اصلاً سب زبانوں کا منبع ایک ہی زبان ہے، وہی زبان جس میں ابو البشر سے کہا گیا تھا کہ: ان کو سب چیزوں کے بارے میں بتاؤ۔

تعمیری یا تخریبی سوچ اور طرزِ عمل اپنی جگہ، اردو ہماری زبان ہے۔ اور ہم عام طور پر یہ جانتے ہیں کہ اس کا جملہ کیسے بنتا ہے، جو الفاظ، تراکیب، محاورے وغیرہ ہمارے روزمرہ میں شامل ہیں، ان میں سے کون کس زبان سے آیا ہے، کس میں کیا لفظی، املائی اور معنوی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ یعنی اپنی زبان پر دوسری زبانوں کے اثرات کا ہمیں کچھ نہ کچھ ادراک ضرور ہوتا کہ جب کہ بدیسی زبانوں کے بارے میں ہمارا علم اتنا نہیں ہوتا۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی یہ نہیں جانتا کہ (مثال کے طور پر) انگریزی میں کتنی زبانوں کے الفاظ اور محاورے اور تراکیب شامل ہیں۔ ان کے بہت سارے الفاظ اور تراکیب اور ساختوں کی تو اصل کا بھی ہمیں پتہ نہیں ہوتا، اس طرح ہمارے کچھ لوگ انگریزی کو ایک اکائی اور اپنی زبان کو ایک ملغوبہ قرار دے دیتے ہیں کہ "جی ہماری تو زبان تک اپنی نہیں ہے”۔ اس غلط تصور سے آگے چل کر بہت سارے افتراق جنم لیتے ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے لوگوں میں تقسیم در تقسیم کا سبب بنتے ہیں۔

 

 

 

 

جملے کی ساخت، رسم الخط، الفاظ: درآمد اور ترویج

 

اردو زبان میں جملے کی ساخت پنجابی زبان پر ہے، رسم الخط اس نے فارسی کا استعمال کیا ہے۔ بہت ساری مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی لفظیات یوں رچی بسی ہیں کہ کسی ایک کو بھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسماء و افعال میں پنجابی، عربی، فارسی، اور مقامی زبانوں کے علاوہ ترکی اور وسط ایشیائی زبانوں کا بھی حصہ ہے، اور یورپی زبانوں کا بھی۔ ملا جلا کر اس میں دو درجن سے زیادہ زبانوں کے الفاظ ہیں، جن میں سے بعض مثلاً رومی زبانیں، ہندوستانی زبانیں اور ہند چینی زبانیں بائیں سے دائیں طرف لکھی جاتی ہیں۔ پنجابی زبان کے دو رسم الخط ہیں: شاہ مکھی اور گورمکھی، ہندوستانی زبانوں میں سے اکثر دیوناگری خط میں ہیں، ساری نہیں۔

پشتو، سندھی، بلوچی، دری، عربی وغیرہ کا خط فارسی رسم الخط کہلاتا ہے۔ اتاترک سے پہلے تک ترکی بھی فارسی رسم الخط میں تھی۔ ایک ہی رسم الخط کی زبانوں کے حروفِ تہجی میں اور اصوات میں تھوڑا بہت فرق آ جانا اِن کو رسم الخط سے باہر نہیں کر دیتا۔ مثال کے طور پر اس وقت کی ساری یورپی زبانوں، انگریزی، ترکی بلکہ روسی تک کے رسم الخط کو رومی خط ہی کہا جاتا ہے۔ رسم الخط، حروفِ تہجی، اصوات وغیرہ کے حوالے سے زبانوں کی گروہ بندی اور ان کا باہمی اشتراک بجائے خود ایک بہت بڑا موضوع ہے، اور اس پر کم و بیش ہر زاویے سے خاصی تحقیق ہو چکی ہے۔ ہم نے یہاں صرف ان زبانوں کا اجمالی تذکرہ کیا ہے، جن کے الفاظ، براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی اصلی یا تبدیل شدہ املاء اصوات اور معانی کے ساتھ اردو میں شامل ہوئے ہیں۔ اردو کے خمیر میں بھی اور اس کی ساختیات میں بھی یہی زبانیں ہیں: عربی، فارسی، ہندوستانی زبانیں اور پراکرتیں۔ ارد کے جملے کی ساخت پنجابی پر ہے۔ دیگر زبانوں کا انکار بہر حال مقصود نہیں ہے، اثر اُن کا بھی کسی نہ کسی سطح پر ہے ضرور، تاہم زبان میں دو جمع دو، چار کا فارمولا لاگو نہیں ہوا کرتا۔ لسانیاتی حسن، جامعیت، امتزاج اور قبول وغیرہ کے حوالوں سے فرانسیسی، عربی، فارسی اور پنجابی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، تاہم وہ ہمارا موضوع نہیں۔

کوئی لفظ، جملہ، بات، محاورہ، ضرب المثل جب ایک زبان سے دوسری میں شامل ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اپنی اصلی املاء و اصوات اور ساختیات کے عین مطابق نافذ ہو گا۔ کہیں وہ بعینہٖ رواج پا سکتا ہے اور کہیں اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ پھر، ایک زبان کے اندر واقع ہونے والی بتدریج تبدیلیاں ہیں جو کہیں صدیوں میں جا کر نمایاں ہوتی ہیں۔ یوں کہ مروجہ الفاظ اور جملے اپنی موروثی زبان سے کٹ کر نئی زبان میں رچ بس جاتے ہیں۔

 

 

 

 

 

زبان کی سطحیں، نفوذ و مدافعت

 

زبان کی عام طور پر تین سطحیں ہوا کرتی ہیں، اشرافی سطح، عوامی سطح، اور سُوقی سطح (واضح رہے کہ یہ سطحیں یا طبقات زبان کے ہیں، لوگوں کے نہیں)۔ سب سے زیادہ مقبول اور مستعمل دوسری سطح کی یعنی عوامی زبان ہوتی ہے۔ عوام الناس کو زبان کی باریکیوں اور ساختیات، صنائع بدائع، سجع و قوافی سے بہت زیادہ علاقہ نہیں ہوتا، بلکہ وہاں مقصدیت اہم ہوتی ہے۔ لکھنے، بولنے والا اپنے اپنے معاشرتی مقام اور حوالے سے ایسی زبان میں بات کرتا ہے جو مخاطب کے لئے قابلِ فہم ہو۔ اس میں مقصد اور شائستگی کا عنصر جتنا زیادہ ہو گا، زبان اتنی ہی اچھی سمجھی جائے گی۔ عوامی زبان کھیت کھلیان اور باورچی خانے سے شروع ہوتی ہے اور زندگی کے جملہ میدانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ گھر، خاندان، جینا مرنا، رسوم و رواج، تعلیم و تعلم، لین دین، خرید و فروخت، وعظ و نصیحت، عبادات، عقائد، تہوار، پنچایت، دفتر، فیکٹری، جاگیر، اصطبل، ہسپتال، قبرستان، منڈی، آڑھت، تھانہ، کچہری، ایک چھوٹی سی بستی سے لے کر پورے ملک تک کے انتظامی امور، ہر میدان سے وابستہ شخص بنیادی طور پر "عوامی زبان” سے وابستہ ہوتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر عوامی زبان کا خاصہ یہ بھی ہے کہ اس میں ذخیرۂ الفاظ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ معنویت اور ابلاغ سے بھی عاری نہیں ہوتی۔

عوامی زبان دوسری تہذیبوں اور زبانوں کا اثر بہت جلد قبول کرتی ہے۔ اور اس میں ایسی تراکیب اور الفاظ بھی رواج پا جاتے ہیں جو زبان کے قواعد کے سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ ممکنہ طور پر انہی کو غلط العام اور غلط العوام کہا جاتا ہے۔

زبان میں شائستگی کی سطح یکساں نہیں ہوا کرتی۔ مختلف معاشی، معاشرتی اور تہذیبی اقدار میں اونچ نیچ کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ زبان میں کھردرا پن آ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ گالی گلوچ اور اخلاقی اقدار سے گری ہوئی زبان بھی اسی معاشرے میں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔ اس میں تو تکار کا عنصر نمایاں ہوتا ہے، اور یہ زبان ایک شائستہ مزاج شخص کو گراں گزرتی ہے۔ اسے ہم بازاری زبان کہہ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ "بازاری زبان” اور "بازار کی زبان” ہم معنی ترکیبیں نہیں ہیں، امتیاز کی خاطر ہم نے اسے یہاں "سُوقی زبان” کہا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کسی چیز کا نام یا کوئی لفظ بذاتِ خود برا یا ناشائستہ نہیں ہوتا، الفاظ کا اشتراک، جملے کی ساخت اور غلط موقع محل، بولنے والے کا انداز، اس کو ناشائستہ بنا دیتے ہیں۔

زبان کی بلند ترین سطح اشرافی زبان ہے۔ ہم نے ارادتاً اس کے لئے لفظ اشرافیہ استعمال نہیں کیا، کہ اشرافیہ سے عام طور ایک خاص طبقے کے لوگ مراد لیا جاتا ہے، جب کہ اشرافی سے ہماری مراد زبان ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اگر آپ کا تعلق اشرافیہ سے ہے تو آپ کی زبان بھی اشرافی رہی ہو گی۔ یا آپ بڑی تگ و دو کر کے سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں تو آپ کی زبان بھی سفید پوش ہو گی۔ یا آپ کا تعلق معاشرے کے نظر انداز کردہ طبقے سے ہے تو آپ کی زبان بازاری ہو گی۔ معاشرتی طبقات سے قطع نظر آپ کی زبان کی سطح کوئی بھی بلکہ مختلف مواقع پر مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ عام طور پر شریفانہ زندگی گزارنے والا شخص کبھی گالی بھی تو دے سکتا ہے۔ لہٰذا ہم زبان کے طبقات کو انسان کے معاشرتی طبقات سے مشروط نہیں کر سکتے۔ "اشرافی زبان” کے کچھ نمایاں اوصاف بیان ہو جائیں: ز بان کے مسلمہ قواعد و ضوابط کی پاسداری، لفظ، تلفظ، املاء کی صحت، جمالیات اور نگارش، معنی آفرینی، روانی اور سلاست، تراکیب اور دیگر ساختیات، محاورے اور ضرب المثل کا درست استعمال، صنائع اور بدائع، لسانی فضا کی یگانگت، موضوع سے موافقت اور جامعیت، روایت، وغیرہ۔

دیگر تہذیبوں اور زبانوں کے اثرات جیسا کہ پہلے بتایا  جا چکا عوامی زبان پر بہت جلد پڑتے ہیں اور ان کا اظہار بھی ہونے لگتا ہے۔ اشرافی زبان میں مدافعت کا عنصر عوامی زبان سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ سو، اشرافی زبان میں نئے الفاظ کی قبولیت اور نئے رویوں کا نفوذ قابلِ توجہ حد تک زیادہ وقت لیتا ہے۔ اشرافی زبان کا یہ طبقہ روایات اور جمالیات کا امین ہوتا ہے جو عوامی زبان میں بھی ویسی اہمیت نہیں رکھتیں۔ یوں اشرافی زبان معیارات کی زبان ہوتی ہے۔ ادب کو اصولی طور پر اس سطح سے نیچے نہیں اترنا چاہئے کہ ادیب معاشرے کے ساتھ ساتھ زبان کی اقدار کا بھی محافظ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ فکری اور تہذیبی جمود اور چیز ہے، روایت اور چیز ہے۔ روایت پر بہت سے اہل علم و فکر بہت کچھ لکھ چکے ہیں، اس کو یہاں دہرانا چنداں ضروری نہیں۔

 

 

 

 

ثقافت اور زبان کے بنیادی عناصر

 

فارس اور عربستان، بر صغیر پاک و ہند سے تھوڑا سا باہر ہیں۔ تاہم تاریخی اور ثقافتی حوالے سے ان دونوں خطوں کی زبانوں نے اردو کی بنیاد میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ بر صغیر کی زبانوں کی بات ہم بعد میں کریں گے پہلے ان دونوں زبانوں کے اردو پر اثرات کو مختصراً دیکھ لیتے ہیں۔ تفصیلی مطالعے کے لئے معتد بہ مواد باضابطہ کتابوں کی صورت میں دستیاب ہے۔ ہمیں کچھ کچھ ساختیاتی زاویۂ نظر سے دیکھنا ہے۔ مثالوں سے بات سمجھنا آسان بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا ہم کچھ مثالوں سے بھی کام لیں گے۔ پہلے ایک بنیادی اصول سمجھ لیا جائے۔

کرۂ ارض پر انسانی آبادیوں کی تشکیل میں بنیادی اہمیت پانی کی رہی ہے۔ اولین آبادیاں وہاں پانی کے آس پاس قائم ہوتی رہیں ہیں۔ یعنی قدرتی چشموں کے اردگرد، ندیوں اور دریاؤں کے ساتھ ساتھ، جھیلوں کے چار چوفیرے اور سمندر کے ساحل کے قریب، کہ جہاں پانی ہو گا وہاں زندگی کی دیگر ضروریات کا سامان بھی ہو گا، ہریالی بھی ملے گی، جانوروں کے لئے چارہ اور انسانوں کے لئے پھل اور شکار وغیرہ بھی ملے گا۔ گرد و نواح میں جہاں کہیں کھلی اور قابلِ کاشت زمین مل گئی وہاں آبادیاں مستقل ہو گئیں۔ اس کو زندگی کا مادی پہلو سمجھ لیجئے۔

قدرتی وسائل کے ساتھ انسان کی قوتِ ایجاد بھی کار فرما رہی۔ آبادیوں میں وسعت ہوئی، بود و باش کے انداز میں تبدیلی آئی، مختلف قبیلوں میں نسلی اختلاط عمل میں آیا، زبانوں نے ایک دوسرے پر اثر ڈالا۔ انسانی نفسیاتی اور معاشرتی پہلوں میں اہم ترین چیز نسل اور زبان کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد اور نظریات ہیں۔ باہم ملتے جلتے عقائد والے لوگوں نے باہم اکٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ اس طرح مذہب انسانی تہذیب کی تشکیل کی بنیاد میں شامل رہا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی مذہب کتنا سچا، کتنا جھوٹا، کتنا آسمانی اور کتنا زمینی ہے، زبان پر اس کے بہت گہرے اور مستقل اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ حاصلِ بحث یہ ہے کہ ثقافت کی بنیاد مذہب پر ہوتی ہے اور زبان اس کا سب سے مؤثر ذریعۂ اظہار ہے۔

برِ صغیر میں عربی زبان تاجروں اور مبلغین کی بدولت پہنچی۔ محمد بن قاسم کا دیبل پر حملہ بہت بعد کی بات ہے۔ پھر جب اس کے سپاہی یہیں بس گئے تو اس سے اسلام اور عربی دونوں کے اثرات میں تیزی آ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ عربی نے بیرونی زبانوں کے اثرات قبول نہیں کئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی کہ بیرونی لوگوں کو خطۂ عرب سے کوئی دل چسپی نہ رہی ہو۔ دوسرے عربوں کو اپنی زبان پر اتنا ناز تھا کہ وہ غیر عربوں کو عجمی کہا کرتے۔ ایک ایرانی تہذیب ایسی تھی جس نے عربی کو الفاظ دئے بھی اور اس سے لئے بھی۔

بر صغیر میں فارسی لانے والی پہلی جماعت تاجروں اور صوفیاء کی تھی۔ یہ بات سرے سے غلط ہے کہ فارسی کو مغل لے کر آئے۔ فارسی مغلوں کی آمد سے بہت پہلے یہاں پہنچ چکی تھی، اُن کے آنے سے اس کی ترویج میں تیزی ضرور آئی کہ تخت و تاج کے اثرات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ مقامی زبانوں میں سے پنجابی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اردو نے جملے کی ساخت بھی پنجابی سے لی ہے اور بے شماراسماء و مصادر یا تو جوں کے توں لے لئے یا تھوڑی بہت صوتیاتی اور املائی تبدیلیوں کے ساتھ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پنجابی زبان اردو کی ماں ہے۔

عربی اور فارسی میں کچھ اصوات ایسی بھی ہیں جو مقامی زبانوں میں نہیں تھیں۔ ایساہی کچھ معاملہ فارسی رسم الخط میں بھی تھا کہ اس میں کچھ مقامی اصوات کے لئے حروف ہجا نہیں تھے۔ یہ مسئلہ بہر طور خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہو گیا۔ درآمدی اور مقامی دونوں نوعیت کی زبانوں میں صوتیاتی تغیرات بھی واقع ہوئے۔ فارسی رسم الخط والے الفاظ میں ہجوں کی تبدیلیاں بھی واقع ہوئی، اعراب کی بھی اور معانی کی بھی۔ بائیں سے دائیں طرف لکھی جانی والی زبانوں کے حروفِ ہجاء ہی مختلف تھے، اس لئے وہاں صوتیات کو بنیاد بنا کر فارسی خط کے مطابق ہجوں کا تعین ہوا۔ اس میں جہاں اردو حروف تہجی میں (ٹ، ڈ، ڑ، وغیرہ کا) اضافہ ہوا وہیں دیوناگری حروف میں (ف، ز، غ، ق، وغیرہ کی) نو آمدہ آوازوں کے لئے بِندی کی ٹیکنیک سے کام لیا گیا۔

 

 

 

 

خطِ نستعلیق، حروفِ ہجاء، لفظ سازی، اعراب

 

اردو کے رسم الخط اور حروف کو جوڑ کر الفاظ بنانے کے مختصر بیان یہاں ہو جائے تو بہتر ہے۔ اردو کا رسم الخط فارسی ہے اور اس کے لئے مناسب ترین خط (فانٹ) خطِ نستعلیق ہے (دیگر فانٹ ممنوع بہرحال نہیں ہیں)۔

عربی اور فارسی دونوں تختیوں کے حروف کے علاوہ غیر عربی غیر فارسی آوازوں کے حامل حروف اس میں شامل ہیں، ترتیب حرفوں کی بنیادی اشکال کے مطابق ہے۔ مفرد حروف: ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ی ے۔ عربی اور فارسی میں ی، ے میں کوئی فرق نہیں، اردو میں یائے لین اور یائے مجہول کے لئے لکھتے ہیں، یائے معروف کے لئے ی۔ اردو میں الف اور ہمزہ دو الگ الگ حروف ہیں، عربی کے ہمزۃ الوصل کو اردو میں الف سے ظاہر کرتے ہیں۔

کچھ مقامی اور بیرونی صوتیات جو اس فہرست میں شامل حروف سے ادا نہیں ہو پاتیں، انہیں کچھ مخصوص بنیادی حروف کو ہائے مخلوط (ھ) سے ملا کر حاصل کیا گیا ہے: بھ پھ تھ ٹھ جھ چھ دھ ڈھ ڑھ کھ گھ لھ مھ نھ۔ فارسی اور عربی میں گولہ اور دو چشمی ھ کا امتیاز نہیں کیا جاتا، اردو میں یہ صرف مذکورہ بالا حروف کا جزو ہے، اردو کا کوئی لفظ دو چشمی ھ سے شروع نہیں ہوتا۔ آ، گول ۃ، واوِ معدولہ، نون غنہ، الف مقصورہ (بشکلِ واو، بشکلِ یائے) رسمی فہرست میں شامل نہیں تاہم یہ زبان کا حصہ تسلیم کئے گئے ہیں۔ خطاطی کے معاملات اپنے ہیں، کہ وہاں املاء سے زیادہ اہمیت اشکال اور ان کی تزئین کو دی جاتی ہے۔

قدیم عربی ترتیبِ ابجد (اَبْجَدْ، ہَوَّزْ، حُطِّیْ، کَلْمَنْ، سَعْفَصْ، قَرْشَتْ، ثَخَّذْ، ضَظَّغْ) کچھ خاص خاص علوم (علم الاعداد، علم جفر، علم رمل، زائچے، جادو ٹونے وغیرہ) کے لئے مستعمل ہے۔ تاہم چار حروف کی قطعی توضیح میں بھی مدد دیتی ہے: ہائے ہَوّز (گول ہ)، حائے حُطّی (ح)، قاف قرشت (ق)، کاف کلمن (ک)۔

لفظ بنانے کے عمل میں حروف کی صورتوں میں تغیر اور نقطہ ہائے اتصال کا طریقہ بھی فارسی کے مطابق ہے۔ آ، ا، د، ڈ، ذ، ر، ڑ، ز، ژ، و اپنے بعد واقع ہونے والے حرف سے نہیں جڑتے، بقیہ سارے لفظ کی ساخت کے مطابق پہلے اور بعد والے حرف سے جڑ جاتے ہیں۔ نون غنہ لفظ کے اندر واقع ہو تو نون کی طرح نقطے کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور جہاں ضروری ہو اس پر علامتِ غنہ بنا دیتے ہیں، لفظ کے آخر میں ہو تو اس میں نقطہ نہیں لکھا جاتا۔ ی، ے لفظ کے اندر واقع ہوں تو ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں۔

بنیادی اعراب تین ہیں: زبر، زیر، پیش، ان کی کشیدہ صورتیں کھڑا زبر، کھڑا زیر، اور الٹا پیش ہیں۔ سکون کی علامت جزم ہے۔ تنوین کی صورت میں بنیادی اعراب کو دوہرا لکھتے ہیں اور صوتیت میں نون ساکن کا اضافہ ہوتا ہے۔ علامتِ تشدید بھی اعراب کا جزو ہے۔ لام تعریف اور الف غیر متلوء عربی الفاظ میں آتے ہیں، ان کو قائم رکھا جاتا ہے۔ الف مقصورہ بھی عربی کا خاصہ ہے، اس میں (و، ی) کی املا قائم رہتی ہے۔ اعراب لگانے کی ضرورت عام طور پر محسوس نہیں ہوتی، تاہم جہاں غلطی یا اِشکال کا اِمکان ہو وہاں اعراب لگا لینے چاہئیں۔

ترکیبِ اضافی اور ترکیبِ توصیفی کی صورت میں مضاف اور موصوف پہلے آتا ہے اور اس پر زیرِ اضافت وارد ہوتی ہے۔ ترکیبِ توصیفی میں یہی زیر، زیرِ توصیف کہلاتا ہے۔ نون غنہ جہاں فارسی اسماء کے آخر میں واقع ہو، زیرِ اضافت، زیرِ توصیف اور واوِ عطفی کے زیرِ اثر نون ناطق میں بدل جاتا ہے اور اس میں نقطہ لکھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ غیر عربی غیر فارسی اسماء پر ان تینوں (زیرِ اضافت، زیرِ توصیف، واوِ عطفی) میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہو سکتا۔ غیر مترجم اسمائے معرفہ کو استثناء حاصل ہے۔ مثالوں کی یہاں چنداں ضرورت نہیں ہے، قواعد کی کتابوں میں تفصیلی مباحث موجود ہیں۔

کسی ایک زبان کے خمیر میں کسی دوسری زبان کا موجود ہونا یا شامل ہو جانا، دوسری زبانوں کے الفاظ اور روزمرہ کا نفوذ اور زبان میں حصہ بننے کا عمل قریب قریب ویسا ہی غیر محسوس اور سست رفتار ہوتا ہے جیسا کسی بھی شے کا زمین کا رزق بننا اور پھر اس سے زندگی کا پھوٹنا۔ ہم کسی بھی زبان کا کوئی کیمیائی یا حسابی تجزیہ نہیں کر سکتے تاہم اس کے خمیر اور نشو و نما کا مشاہدہ ضرور کر سکتے ہیں۔ زبان بیک وقت علم بھی ہے اور فن بھی ہے اور اس کی جڑیں تہذیب و ثقافت کے اندر تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ دو اور دو چار کی صورت میں حل ہو جانے والا سوال ہرگز نہیں۔

 

 

 

 

زبان اور مذہب

 

گزشتہ کچھ دہائیوں سے ایک اور بے بنیاد بات پھیلائی جا رہی ہے کہ زبان و ادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ عالمی سطح کی یہ تحریک در اصل ایک طویل دجالی منصوبے کا شاخسانہ ہے۔ پہلے اتحاد بین المذاہب کا غلغلہ ہوا، اس کے شاید خاطر خواہ نتائج نہیں ملے ہوں گے، پھر مذہبِ انسانیت (Humanism) کے بہروپ میں لا مذہبیت پھیلانے کا منصوبہ بنایا گیا جو آج کل زور و شور سے جاری ہے اور یہ کہ "زبان و ادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا”، اسی کا ایک حصہ ہے۔

اسلام کی لغت میں دین اور مذہب کے معانی مختلف ہیں۔ عوامی زبان میں ان دونوں کو ہم معنی سمجھا جاتا ہے، اس لئے ہم بھی یہاں ان کے امتیاز پر بحث نہیں کریں گے بلکہ عوامی اسلوب کو اعتبار دیں گے۔ مذہب انسان کی گھٹی میں پڑا ہے، وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ یہ الگ بحث ہے کہ کون سا مذہب آسمانی ہے، زمینی ہے، خالص ہے، نا خالص ہے، اس کی تعلیمات اور عقائد کیا ہیں، کیا ٹھیک ہے کیا ٹھیک نہیں ہے، اس کے ماننے والے کیسے ہیں کیسے ہونے چاہئیں، وغیرہ۔ انسان کو ایک معبود کا تصور بلکہ یقین ہونا لازمی ہے، کوئی اس حقیقت سے آنکھیں موند لے تو موند لے، اس سے کچھ نہیں ہوتا۔

میرا، آپ کا مذہب جو بھی ہے وہ میری، آپ کی روزمرہ کی گفتگو میں بھی دکھائی دیتا ہے اور تحریروں میں بھی۔ غزل مسلمان ہے اگر اس میں اسلام کی جھلک ہے، قطعہ ہندو ہے اگر اس میں اس کا ہندو شاعر نظر آ رہا ہے، نظم عیسائی ہے اگر وہ یسوع مسیح کی بات کرتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ مسلم ادب میں نعت ہے حمد ہے منقبت ہے مدح ہے جنت دوزخ کا تصور ہے، قبر ہے، مزار ہے، دعا ہے اور بھی بہت کچھ ہے، وہ شعر یا نثر کی کوئی سی صنف ہو۔ اسی طرح ہندو ادب میں انہیں اصناف میں میں بھجن ہیں، آواگون ہے، دیوتا دیویاں ہیں، دیوداس اور دیو داسیاں ہیں، اپسرائیں ہیں۔ یہ تو ہر ادب میں ہے۔ جو مذہب لکھاری کا ہے وہی مذہب اس کے لکھے کا ہے۔ مذہب کی بات نہ کرنا مذہب کا انکار نہیں کہلا سکتا۔ یا مذہب کا سرے سے انکار کر دینا ہی تو دہریت ہے اور دجالی منصوبہ بھی یہی ہے کہ انسان کو مذہب سے بیزار یا کم از کم بے گانہ کر دیا جائے۔ میں مسلمان ہوں، فلاں ہندو ہے، فلاں سکھ ہے، فلاں عیسائی ہے، فلاں ستارہ پرست ہے، فلاں زرتشت کا پیرو ہے، فلاں بدھ کا پیرو ہے، جو کچھ بھی ہے، ہے تو سہی نا! اور اس کا مذہب اس کی علیک سلیک، ہیلو ہائے میں بھی جھلکے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ثقافت کی بنیاد یعنی مذہب ثقافت ہی کے اعلیٰ ترین مظہر یعنی زبان میں اور اس سے ایک قدم آگے زبان کی بہترین صورت یعنی ادب میں نہ جھلکے!

حاصل یہ ہے کہ مذہب افکار کی جڑوں میں سمایا ہوتا ہے، ثقافتی زندگی پر گہرے اثرات رکھتا ہے، اظہار کے تمام وسیلوں پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ زبان جیسا حساس وسیلۂ اظہار مذہب کے اثرات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا بلکہ روزمرہ کی گفتگو سے لے کر دقیق و عمیق مباحث تک اپنا رنگ دکھاتا ہے۔

یہاں اس امر کی بھی توثیق ہو جاتی ہے کہ اردو ایک خاص معاشرتی اور ثقافتی فضا رکھتی ہے۔ تحریک آزادی کے دوران پیش آنے والا ہندی اردو تنازعہ ایسا چھوٹا واقعہ بھی نہیں تھا کہ اس کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ آج کے ہندوستان میں اردو کے حالات کا وہ لوگ بہتر ادراک رکھتے ہیں جو اس فضا میں رہ رہے ہیں۔

میں تو پوری دیانت داری سے اس بات کا قائل ہو کہ مذہب کا خانہ خالی رہنا محال ہے۔ اور انسانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ مذہب سے بے نیاز یا بالاتر نہیں۔ سو، ادب کا بھی مذہب ہوتا ہے!! وہی جو ادیب کا ہے۔ ایک شخص اگر سچا لامذہب ہے تو اس کا تخلیق کیا ہوا ادب لامذہب ہو بھی سکتا ہے۔

 

 

 

چار اساسی زبانیں، ایک عربی

 

ایک بہت عام سی صورتِ حال دیکھئے۔ ہمارے ایک عام پڑھے لکھے صاحب جب انگریزی کی کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں تو الفاظ اور جملوں سے گزرتے وقت وہ عام طور پر یہ دھیان نہیں دیتے کہ فلاں لفظ یا ترکیب اصلاً کس زبان سے ہے، مثلاً:

Cliché, Persona non grata, Randez Vous, Astrology, Fobia, Bacteria, etc.

وہ ان سب کو انگریزی ہی گمان کرتے ہیں اور اس میں کوئی بڑی قباحت بھی نہیں۔ وہی صاحب اردو کی کوئی چیز پڑھ رہے ہوں تو انہیں دورانِ مطالعہ یہ ادراک بھی ہو جاتا ہے کہ ایک جملے میں مثلاً: یہ لفظ فارسی سے ہے، یہ ترکیب عربی سے ہے، یہ محاورہ پنجابی سے ترجمہ شدہ ہے، یہ لفظ غالباً ترکی سے آیا ہے، یہ سنسکرت کا تبدیل شدہ لفظ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اپنی زبان کے ساتھ اتنی شناسائی تو ہونی بھی چاہئے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہو گا کہ "اردو تو ہے ہی ملغوبہ، انگریزی ٹھیک ہے سب ایک ہی زبان ہے” یا یہ کہ "چینی زبان ساری ایک ہی ہے” وغیرہ۔

اردو پر تین چار بڑی زبانوں کے اثرات کی اور ان کے الفاظ اور محاورات کے نفوذ کی بات ہم عربی کے الف سے بات شروع کرتے ہیں۔ یہاں ہم صرف ان قواعد کی بات کریں گے جو یا تو اردو میں متوازی اطلاق رکھتے ہیں یا اردو لفظ سازی میں ان کی کوئی اہمیت ہے۔ یہاں عربی صَرف و نحو پڑھانا مقصود نہیں، تاہم کچھ اہم نکات کی تفہیم بہت سارے مسائل سے بچا لے گی۔

الف اور ہمزہ عربی میں بھی الگ الگ ہیں تاہم بہت سارے مقامات پر ہمزہ کو الف کی صورت میں بھی لکھا جاتا ہے۔ شناخت ان کے مابین یہ ہے کہ اگر الف پر کوئی اعراب یا جزم آتا ہے تو وہ ہمزہ ہے ورنہ الف ہے۔ الف ممدودۃ کا عمیق مطالعہ بتاتا ہے کہ کہیں یہ (ہمزۃ مفتوح اور الف) کا مجموعہ ہے تو کہیں (ہمزہ زبر ہمزہ) کا۔ عربی میں الف ہمیشہ خالی ہوتا ہے۔ الف بطور حرفِ علت ہمیشہ معروف ہوتا ہے یعنی اس سے پہلے حرف پر زبر ہوتا ہے۔

دوسرے دو حرفِ علت ہیں: واو، یائے۔ ان سے پہلے حرف پر زبر ہو تو یہ لِین کے حکم میں آتے ہیں۔ جیسے: غَور، کَون، جَوف، اَوزان میں واوِ لین ہے، جب کہ: جَیش، حَیف، علَیک، کَیف میں یائے لین ہے۔ واوِ معروف سے پہلے حرف پر پیش ہوتا ہے: طُوفان، قبُور، ہُود، قَیُّوم، اور یائے معروف سے پہلے حرف کے نیچے زیر: فِی، دِین، رَحِیم، مَجِید، وغیرہ۔ یعنی الف کا اعراب زبر ہے، واو کا پیش، اور یائے کا زیر۔ اسی اعراب کا طویل ہونا معروف کہلاتا ہے۔ کھڑا زبر الف کا، کھڑا زیر یائے معروف اور الٹا پیش واوِ معروف کا قائم مقام ہو سکتا ہے: اسحاق، اسحٰق، اِبراھیم، اِبراہٖم، داؤُد، داوٗد، وغیرہ۔ یاد رہے کہ ایک حرف پر کھڑا زبر واقع ہے اور اس کے بعد یائے یا واو ہے تو یہ صورت الف مقصورہ (مقصور بِالیاء، مقصور بِالواو) ہے: اعلیٰ، مصطفیٰ، زکٰوۃ، صلٰوۃ۔

تنوین میں اعراب کو دوہرا لکھتے ہیں۔ اس سے متعلقہ حرف پر نون مجزوم کی صوتیت شامل ہو جاتی ہے۔ شفیعٌ (تنوین رفع)، کریمٍ (تنوین جر)، غَورًا (تنوین نصب)، یاد رہے کہ تنوین رفع، اور تنوین جر میں یہ خالی الف جمع کرنا غلط ہے، جب کہ تنوین نصب پر (ماسوائے تائے مدوّرہ کے) خالی الف املاء کا لازمی حصہ ہے۔ معرف باللام اور مضاف پر تنوین نہیں ہوتی اور تنوین نصب والا الف بھی باقی نہیں رہتا۔

عربی الفاظ میں آخری حرف یا تو متحرک ہو گا، اور وقف کی صورت میں اس کی حرکت سکون میں بدل جائے گی، یا پھر مجزوم ہو گا، جو اپنے سے پہلے حرف کو ساتھ ملا کر خود ساکن ہو جاتا ہے۔ اس وصف کو "ساکن بالقوۃ” کہا جاتا ہے۔ تنوین جب سکون میں بدلتی ہے تو نون تنوین کی صوتیت بھی حذف ہو جاتی ہے، تاہم تنوین نصب والا الف باقی رہتا ہے اور الف معروف بن جاتا ہے۔

عربی کے مادہ کے حروف میں اگر کوئی حرفِ علت (الف، واو، یائے) یا ہمزہ ہو تو مشتقات میں اس کی صورت بدل بھی جاتی ہے، یعنی ایک حرفِ علت (یا ہمزہ) بدل کر کسی دوسرے حرفِ علت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ تاہم ان قواعد کی تفصیل یہاں بہت ضروری نہیں، حسبِ ضرورت ان پر بات کی جا سکتی ہے۔

 

 

 

 

فارسی اور بھاشا

 

عربی کے ساکن بالقوۃ کے مقابل اردو میں متحرک بالقوۃ کا تصور مؤثر ہے۔ یعنی: اردو کے الفاظ میں چاہے وہ کسی بھی زبان سے آئے ہوں، آخری حرف ساکن ہوتا ہے، اسے موقع اور ضرورت کے مطابق متحرک کیا جا سکتا ہے۔ یہاں چار صورتیں ہو گئیں۔

اول: تنوین کی صورت میں نون تنوین ساکن (مجزوم)، کھڑا زبر، کھڑا زیر، الٹا پیش کی صورت میں (ا، ی، و) ساکن (مجزوم) تصور کئے جاتے ہیں۔

دوم: آخری حرف پر جزم ہے تو اس سے پہلے پر کوئی حرکت ہے، یا آخری حرف حرفِ علت ہے تو وہ بھی مجزوم سمجھا جائے گا۔

سوم: آخری حرف مجزوم نہیں مگر ساکن ہے (اس کو اصطلاح کی زبان میں "موقوف” کہا جائے یعنی اس پر وقف واقع ہوا، جزم کی شرط کے بغیر): زمین (ن)، صبر (ر)، وجود(د)، جناب (ب)، وغیرہ۔

چہارم: لفظ کے آخر میں دو دو ساکن (موقوف)، ایسا تائے فارسی میں ہوتا ہے: ساخت (خ، ت)، دوست (س، ت)، وغیرہ۔

گویا موجودہ اصطلاحی زبان کے مطابق تیسری صورت میں دو، اور چوتھی صورت میں تین ساکن جمع ہو گئے۔ جب ہم چھوٹی کلاسوں میں ہوتے تھے تو ہمارے اساتذہ کا طریقۂ تعلیم بہت واضح اور غیر مبہم ہوتا تھا۔ وہ مذکورہ چاروں صورتوں کو کچھ اس انداز میں ازبر کرایا کرتے کہ ایک ایک باریکی ذہن نشین ہو جاتی۔ کچھ مثالیں دیکھئے:

۔ (1) فے زبر واو فَو، رے دو زبر رَن، الف خالی: فَورًا۔ نون زبر سین نَس، لام دو زیر لِن: نَسلٍ۔ یے زبر یَ، قاف زیر یے قی، نون دو زبر نَن، الف خالی: یقینًا۔ بے زیر بِ، ہے کھڑی زیر ہی: بِہٖ۔ رے زبر حے رَح، میم کھڑی زبر ما، نون موقوف: رحمٰن۔

۔ (2) کاف زبر میم کَم۔ تے زبر بے تَب۔ کاف الف کا، ت زیر بے تِب: کاتِب۔ جیم الف جا۔ رے واو رو۔ تے پیش واو تُو۔ سین یے سے۔ سین زیر یے سِی۔ کاف زبر یے کَے، سین الف سا: کَیسا۔ دال زبر واو دَو، ڑے واو ڑو: دَوڑو۔

۔ (3) کاف الف کا، رے موقوف: کار۔ زے زبر زَ، میم زیر یے مِی، نون موقوف: زَمِین۔ صاد زبر بے صَب، رے موقوف صَبر۔ جیم زبر جَ، نون الف نا، بے موقوف: جَناب۔ پے الف پا، نون غنہ پاں، چے موقوف: پانچ۔ کاف ھ کی بنی کھے، کھے یے کھے، نون غنہ کھیں، چے موقوف: کھینچ۔ قاف زبر یے قَے، نون غنہ قَیں، چے زیر یے چِی: قَینچی۔

۔ (4) گاف واو گو، شین موقوف، تے موقوف: گوشت۔ بے زبر رے بَر، دال الف دا، شین موقوف، تے موقوف: برداشت۔ شین زبر شَ، نون الف نا، خے موقوف، تے موقوف: شَناخت۔

شذرہ: بعض اساتذہ لفظ موقوف کی جگہ ساکن بھی بولا کرتے، گویا ساکن وہ ہے جس پر نہ جزم ہو نہ حرکت۔ حرفِ علت از خود جوڑ کے حصے کے طور پر مذکورہ ہوتا ہے اور ساکن مجزوم کے حکم میں آتا ہے۔

ایک وضاحت: الف، واو، یائے حروفِ علت ہیں۔ مگر جب خود اِن پر کوئی حرکت یا کوئی حرفِ علت واقع ہو تو یہ حرفِ ناطق ہو گا: وُہی (و)، یَہاں (ی)، اَبھی(ا)، کنوارا (و)، شاید (ی)، اَلاَمان (پہلے دونوں الف)، اُونی (ا)، وِیران (و)، یوگا (ی)، یاسر (ی)، آواز (پہلا الف)، اِیران (پہلا الف)، اوجھل (ا)، ووٹ (پہلا واو)، یہی (پہلا یائے)، اِشارہ (پہلا الف)، اُتَرنا اُتارنا (پہلا الف) یُوحَنّا (ی)، یعقوب یونس(ی)، یَحییٰ (پہلا اور دوسرا یائے، تیسرا یائے الف مقصورہ کے حکم میں آئے گا)، وعلیٰ ہٰذا القیاس۔

دیوناگری اور گرمکھی رسم الخط میں "آدھا حرف” بھی ہوتا ہے، جو اردو میں مستعمل ہے (و، ی، ر)۔ تاہم اردو میں ان کو پورا حرف لکھا جاتا ہے اور بولتے آدھا ہیں، عروض میں آدھے حرف کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔

آدھا (ی): پیار، پیاس، دھیان، گیان، بیاہ، بیاس(ی)۔ پیاز، بیالیس، ریال، جیالا، میں یہ آدھا حرف نہیں پورا ہے۔

آدھا (ر): پریم، پریت، پریوار (ر)۔ پری، چھری، دری، میں یہ آدھا حرف نہیں پورا ہے۔

آدھا (و): سواگت، پھوار، دوارا (و)۔ دوا، دوائی، ہوا، بوائی، میں یہ آدھا حرف نہیں پورا ہے۔

لفظ "بیوپار” میں یا تو (ی) کو آدھا سمجھا جائے گا یا (و) کو۔ ترجیحاً (ی) کو آدھا سمجھ کر لفظ کی صوتیت (بوپار) بن جاتی ہے۔ اس لفظ کے پنجابی اسلوب میں البتہ یہ (ی، و) دونوں ختم ہو کر لفظ (بُپار) یا (وِپار)بھی بن جاتا ہے۔

 

 

 

بعض فارسی عناصر

 

اردو کے حروف تہجی میں سے ٹوپی والے تینوں حروف (ٹ، ڈ، ڑ) اور مرکب حروف (بھ، پھ، تھ۔۔ ۔ لھ، مھ، نھ: پوری پٹی) فارسی میں نہیں ہیں، باقی سب ہیں۔ زائے فارسی (ژ) فارسی سے خاص ہے تاہم اس کی صوتیت کچھ اور زبانوں میں بھی واقع ہوتی ہے۔ ذال (ذ) کچھ لوگوں کے مطابق فارسی حروف میں شامل ہے، کچھ کے مطابق نہیں ہے۔ تاہم اردو میں مستعمل فارسی الفاظ میں ذال پایا جاتا ہے۔ فارسی، عربی میں گول (ی) اور لمبی (ے) میں کوئی امتیاز نہیں اور نہ گول (ہ) اور دو چشمی (ھ) میں، اردو میں ہے۔ واوِ معدولہ بھی فارسی سے ہے، اس کے بارے میں پہلے بیان ہو چکا۔ نون فارسی، تائے فارسی اور یائے مستور، فارسی سے خاص ہیں۔ ہائے مختفی کا استعمال فارسی میں کسی قدر مختلف ہے۔ ان تینوں کا مختصر سا جائزہ لے لیا جائے۔

نون فارسی: اس نام کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ فارسی میں نون غنہ کامل نہیں پایا جاتا۔ وہ نون نقطے کے ساتھ لکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ نون غنہ کی اپنی کوئی آواز نہیں ہوتی بلکہ یہ حرفِ علت اور حرکت کو ناک کے راستے ادا کرنے کا نام ہے۔ نون غنہ پر کوئی حرکت واقع نہیں ہو سکتی جب کہ نون فارسی پر ہو سکتی ہے۔ نون فارسی کی آواز بالکل نون کی طرح ہوتی ہے تاہم جہاں غنہ کا محل ہو، اس کی آواز کسی قدر دب جاتی ہے۔ تاہم اتنی نہیں دبتی جتنی اُس حرفِ علت کی دب جاتی ہے، کہ اس کی جگہ اس کا اعراب بولتا ہے۔ نونِ فارسی لفظ کے آخر میں واقع ہو، یا لفظ کے اندر، اس سے پہلا حرف، حرفِ علت ہوتا ہے۔ اردو میں ہم اس کو حسبِ موقع نون غنہ (ں)یا نون ناطق(ن) لکھتے اور بولتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی نہج پر عربی الفاظ کا نون بھی اردو میں حسبِ موقع نون غنہ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اردو کی ساختیات کے حوالے سے نون فارسی کی موٹی شناخت یہ ہے کہ نون غنہ یا نون ناطق دونوں صورتوں میں لفظ کے معانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ مثال کے طور پر: مکان، مکاں، کمان، کماں، جہان، جہاں، دیوان، دیواں، زمین، زمیں، جوین، جویں، قرین، قریں، ہم نشین، ہم نشیں، دُون، دُوں، درُون، درُوں، فسون، فسوں، جنون، جنوں، زبان دان، زباں داں، باریک بین، باریک بیں۔ اس تبادلے میں جہاں معانی خراب ہو جائیں یا بدل جائیں تو یہ نون فارسی نہیں ہے اور ممکنہ طور پر ایسے لفظ کی اصل فارسی یا عربی نہیں ہے: جہاں (جس جگہ)، جُوں (جیسے، ایک کیڑا ہے)، جُون (نسل، ایک مہینہ ہے)، ماں (والدہ، مادر)، مان (فخر، بڑائی، زعم)، کان (انسانی جسم کا عضو ہے، معدن نکالنے کی جگہ)، کاں (گلے کا کوا)، دان (عطا کرنا)، داں (سمت)، ایسے الفاظ یا تو کسی مقامی زبان سے ہیں یا پھر کسی بدیسی زبان سے (ماسوائے عربی، فارسی) درآمدہ ہیں۔

تائے فارسی: فارسی کے کچھ مصادر سے فعل ماضی کا پہلا صیغہ یا اسمِ حاصل مصدر ایسا حاصل ہوتا ہے، کہ اس کے آخری تین حرف ساکن (ایک حرفِ علت، دو موقوف) ہوتے ہیں۔ ساختن سے ساخت، آویختن سے آویخت، برداشتن سے برداشت، برخاستن سے برخاست، اندوختن سے اندوخت، انداختن سے انداخت، سوختن سے سوخت، وغیرہ۔ تلفظ میں یہ ساخَت، آویخَت، برداشَت وغیرہ نہیں بلکہ ساخ ت، آویخ ت، برداشت وغیرہ ہیں۔ ان سب کا آخری حرف ت، تائے فارسی کہلاتا ہے۔ عروض میں تائے فارسی (ساکن یا موقوف) کوئی وزن نہیں رکھتا۔ متحرک ہو جائے تو اپنے بعد والے لفظ سے مل کر لفظ کا جزو بناتا ہے اور وہاں اس کی صوت بھی پوری ہوتی ہے: ساختہ، فروختگی، سوختنی، وغیرہ۔ یاد رہے کہ بہشت، رخت، نشست، شکست، دَست، بخت، بت پرست، وغیرہ کا آخری ت، تائے فارسی نہیں ہے۔

تنبیہ: عربی کے لفظ "اَوسَط” کا درست صرفی وزن اَفعَل پر ہے۔ اس میںط کو تائے فارسی کی نہج پر اَوسط (س ساکن ط ساکن) پڑھنا فاش غلطی ہے۔

فارسی کے وہ تمام اسماء (بشمول اسمِ صفَت) جن کا آخری حرف الف یا واو ہو، ان کے آخر میں در اصل ایک (ی) ہوتی ہے جو ساکن ہو تو عام طور پر نہ لکھی جاتی ہے نہ بولی جاتی ہے۔ بعض اس کو لکھتے ہیں بولتے نہیں، بعض لکھتے بھی ہیں بولتے بھی ہیں۔ تاہم جب یہ متحرک ہو تو لکھنے میں بھی آتی ہے اور بولنے میں بھی۔ خوشبو، خوشبویات، خدا، خدایان، بابا، بابایان، ہم نوا، ہم نوایان، خوبرو، خوبرویان، وغیرہ۔ غالب ؔ نے اس کو اردو میں بھی استعمال کیا ہے۔ "چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسدؔ:: آپ کی صورت تو دیکھا چاہئے”۔ ہم نے اسے یائے مستور کا نام دیا ہے۔ اس پر واوِ عطفی واقع ہو، تو بھی بعض اس کو لکھتے بولتے ہیں، اور بعض نہیں۔ ترکیبِ اضافی و توصیفی کی صورت میں اس پر زیر واقع ہو تو یہ ہمزہ میں بدل جاتی ہے اور اردو میں عام طور پر "ئے” سے ظاہر کی جاتی ہے: نوا، نوایِ وقت، نوائے وقت، ہوا، ہوایِ غم، ہوائے غم، بو، بویِ گل، بوئے گل، خو، خویِ ستم، خوئے ستم، ادا، ادایِ ناز، ادائے ناز، وغیرہ۔ یائے مستور آخری یائے لین اور یائے معروف کے بعد بھی ہوتی ہے مگر لکھی یا بولی نہیں جاتی۔ ترکیب کی صورت میں یہ ہمزہ مکسور بن جاتی ہے اور لفظ کی اپنی (ی) کے بعد لکھی جاتی ہے: وادیٔ سنگ، مَیٔ لالہ فام (مَۓ لالہ فام)، والیٔ شہر، نیرنگیٔ دوراں، وغیرہ۔ اس قاعدے کی رو سے "مئی لالہ فام، مئے لالہ فام” (م ء ی، م ءے) لکھنا غلط ہے۔ درست ترتیب ہے: (می ء، مے ء)۔ یائے مستور بہ شکلِ ہمزہ اصلی (ی، ے) کے بعد واقع ہوتی ہے۔

ہائے مختفی وہ ہائے ہوز ہے جو کسی اسم کے آخر میں واقع ہو۔ عروض میں اس کو گرا دینا بہت عام ہے۔ اردو میں ہائے مختفی سے پہلا حرف عام طور پر مفتوح ہوتا ہے، جب کہ فارسی میں مکسور (ماسوائے جہاں سیاق و سباق سے وضاحت ہو جائے)۔ عربی میں ایسے اسم کا آخری حرف گول ۃ ہوتا ہے جو اردو میں ہائے ہوز کی طرح لکھا اور بولا جاتا ہے۔ فارسی والے ایسے بہت سارے عربی الفاظ میں بھی فارسی کی نہج پر حرف ماقبل تائے مدوّرہ کو بھی مکسور لکھتے بولتے ہیں۔ مثلاً: فارسی میں بچِہ، اردو میں بچَہ، فارسی میں کوچِہ، اردو میں کوچَہ، فارسی میں ستارِہ، اردو میں ستارَہ، فارسی میں چارِہ بیچارِہ، اردو میں چارَہ بیچارَہ، فارسی میں داروغِہ، اردو میں داروغَہ، فارسی میں بندِہ، اردو میں بندَہ، فارسی میں رسیدِہ، اردو میں رسیدَہ، فارسی میں کشتِہ، اردو میں کشتَہ، فارسی میں لاشِہ، اردو میں لاشَہ، فارسی میں نِہ، اردو میں نَہ، وغیرہ۔ قوافی بھی اس ساخت کے مطابق آتے ہیں، گویا فارسی شعر اور اردو شعر کے لئے قوافی کے نظام میں یہاں فرق واقع ہو گیا، اردو شعر میں فارسی الفاظ آئیں تو ان کی ساختیات اردو کے مطابق ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ فارسی میں دس کو دَہ بھی کہتے ہیں دِہ بھی اور گیارہ بارہ تیرہ۔۔ ۔ کو یازدِہ دوازدِہ، سِیزدِہ۔۔ ۔ وغیرہ۔ جن الفاظ میں (ا، و، ی) حذف ہو جائیں، وہاں حرف ماقبلہ کی حرکت حرف محذوف کے مطابق ہو گی: کوہ، کُہ، کاہ، کَہ، راہ، رَہ، شاہ، شَہ، دیہ، دِہ، وغیرہ۔

عربی میں گول ۃ عام طور پر مؤنث کو ظاہر کرتا ہے، اس لئے اسے تائے تانیث بھی کہتے ہیں۔ اردو میں ہائے ہوز کی طرح لکھتے اور بولتے ہیں۔ صدیق، صدیقۃ، صدیقہ، حمید، حمیدۃ، حمیدہ، منقول، منقولۃ، منقولہ، وغیرہ۔ بعض مردانہ نام بھی گول ۃ پر ختم ہوتے ہیں، تاہم ان کو مذکر ہی سمجھا جائے گا: اسامۃ، اسامہ، حذیفۃ، حذیفہ، طلحۃ، طلحہ، البتہ یہ غیر منصرف ہوتے ہیں۔

 

 

 

 

 

کچھ خاص الفاظ

 

فارسی میں تذکیر و تانیث لفظی سطح پر نہیں، صرف معنوی سطح پر ہوتی ہے۔ مثلاً شہزادِہ سے مراد مرد بھی ہو سکتا ہے عورت بھی۔ اکثر اسموں میں ایک ہی کلمہ مذکر مؤنث دونوں کے لئے ہوتا ہے: فن کار، خیاط، بزرگ، بچہ، عم زاد، ہم شیر، موسیق کار (موسیقار)، مزدور، دہقان، شبان، جوان، شیر، گرگ، سگ، گربہ، شتر، گاؤ، آموزگار، استاذ، دیوانہ، فرزانہ، وغیرہ، (اردو کی مثل: چھوٹا، چھوٹی، بڑا، بڑی، لڑکا، لڑکی، وغیرہ، یا عربی کی طرح: رفیق، رفیقہ، حسین، حسینہ، وغیرہ جیسا لفظی امتیاز فارسی میں نہیں ہوتا)۔

فارسی میں بہت کم اسم ایسے ہیں جو مذکر مؤنث کے لئے الگ الگ ہیں: زن، مرد، مادر، پدر، برادر، خواہر، پسر، دختر، وغیرہ۔ جو اسماء عربی سے یا کسی دوسری زبان سے آئے ہوں، وہ اپنی اصل یا مفرس یا کسی تبدیل شدہ صورت میں البتہ رائج ہیں: شاہ، ملکہ، رائی، رائینہ، وغیرہ۔ جہاں تذکیر و تانیث کی وضاحت ناگزیر ہو، اضافی کلمات داخل کرتے ہیں: گاوِ نر (بیل)، گاوِ مادہ (گائے)، نر سگ (کتا)، مادہ سگ (کتیا)، خیاط مرد (درزی)، خیاط زن (دَرزَن)، وغیرہ۔ شہزادِہ، دیوانِہ جیسے کلمات کو اردو والوں نے کچھ اس انداز میں تقسیم کر لیا: دیوانَہ (مذکر)، دیوانی (مؤنث)، شہزادَہ (مذکر)، شہزادی (مؤنث)، عم زاد یا عم زادَہ (مذکر)، عم زادی (مؤنث)، ہمشیر استعمال میں نہ رہا، ہمشیرہ کو بہن کے معانی دے دئے گئے۔ فارسی لفظ ہمشیر میں وہ سب لڑکے لڑکیاں شامل ہیں جنہوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہو، یہ لفظ کوئی اور شرط نہیں لگاتا۔ ہمشیرہ (مؤنث) اصولی طور پر درست نہیں ہے۔ گول ۃ یا ہائے ہوز بطور علامتِ تانیث عربی سے خاص ہے اس کو فارسی الاصل لفظ کا حصہ بنا لینا درست نہیں (ترکیب کی بات دوسری ہے) جب کہ ہمشیر میں یہ (ہ) فارسی کی ضرورت بھی نہیں۔ اسی نہج پر اردو میں فن کارہ، گلو کارہ، اداکارہ (مؤنث) رواج پا چکے ہیں تاہم درست نہیں ہیں۔ فن کار، گلوکار، اداکار میں مذکر یا مؤنث دونوں میں سے کوئی بھی آ سکتا ہے۔ یہاں یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ہدایت کار، بد کار، نیک یا نکو کار، رابطہ کار خاتون بھی ہو تو وہاں یہ گول (ہ) داخل نہیں کیا جاتا، یہ کلمات مرد، عورت، دونوں کے لئے درست مانے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایک لفظ رائج ہو گیا، سو ہو گیا، وہ آخر کار تسلیم بھی ہو جاتا ہے۔

تذکیر و تانیث کا عنصر (لفظی سطح پر) فارسی افعال کے صیغوں میں بھی نہیں پایا جاتا: مادر آمد (ماں آئی)، پدر آمد (باپ آیا)، گربہ ہلاک شد (یہ مذکر مؤنث دونوں میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے) بلا ہلاک ہو گیا، یا بلی ہلاک ہو گئی، وغیرہ۔ افعال میں فارسی کی گردان سب سے مختصر ہے۔ اس کے کل چھ صیغے ہیں: غائب (واحد، جمع)، حاضر (واحد، جمع) اور متکلم (واحد، جمع) جو مذکر مؤنث دونوں کے لئے ہیں۔ اردو میں مؤنث کے لئے بھی چھ صیغے داخل ہو گئے، گردان کے بارہ (12) جزو بن گئے۔ عربی میں تثنیہ بھی شامل ہو گیا اور صیغے اٹھارہ (18) ہو گئے، متکلم (واحد، مذکر، مؤنث) اور متکلم (تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث) کے اشتراک کے اثر سے یہ تعداد کم ہو کر چودہ (14) رہ گئی۔ انگریزی میں اصلاً آٹھ صیغے تھے، Thou کے ترک اور اس کے You میں ادغام کے سبب سات رہ گئے۔ تاہم یہ تعداد Pronoun کی ہے، فعل کی صورت (بلا امتیازِ تذکیر و تانیث) سب کے لئے ایک ہی رہتی ہے (غائب واحد کے لئے فعل حال سادہ میں s, es کا اضافہ کرتے ہیں)۔ فرانسیسی میں گردان چوبیس (24) صیغوں کی ہوتی ہے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

 

 

 

 

فارسی عربی اردو اشتراک

 

ہمارا مقصد گرامر پڑھانا یا لغات رٹوانا ہرگز نہیں ہے، ہمیں فارسی اور اردو کے مشترکہ یا تبدیل شدہ ورثے کا ایک طائرانہ جائزہ پیش کرنا ہے۔ حوالوں اور تفصیلی مطالعے کے لئے لغات اور گرامر کی کتابوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ لغات میں لفظ اپنا حوالہ خود ہوتا ہے اور لسانیات میں قاعدہ کلیہ اپنا حوالہ خود ہوتا ہے۔ یہاں کچھ ایسے قواعد اور الفاظ (اسماء و مصادر) کا ذکر شامل کیا جا رہا ہے، جو زبانوں کی سانجھ میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔

اردو کی طرح فارسی اور عربی دونوں میں فعل کی مفعول کے حوالے سے دو بڑی قِسمیں ہیں: فعل لازم وہ ہے جس کو معانی مکمل کرنے کے لئے مفعول کی ضرورت نہ ہو، متعدی وہ ہے جسے ضرورت ہو۔ کچھ ایسے فعل ہوتے ہیں جنہیں کہیں مفعول کی ضرورت ہوتی ہے کہیں نہیں ہوتی ان کو لازم و متعدی کہتے ہیں، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کو ایک ایک نہیں دو دو مفعول کی ضرورت ہوتی ہے وہ متعدی المتعدی ہیں۔ یہ تعارف یوں ضروری ہے کہ ہماری آئندہ گفتگو میں یہ بنیادی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔

عربی کے نظامِ مصادر اور علم صرف میں ایک بہت خاص چیز ہے "مادہ”۔ سب سے زیادہ تعداد ان کلمات کی ہے جن کا مادہ تین حرفوں کا ہوتا ہے، اس کو ثُلاثی کہتے ہیں، پھر چار حروف کا ہے اس کو رُباعی، اور پھر پانچ حروف کا ہے، اس کو خماسی کہتے ہیں۔ فعل ماضی مطلق کا پہلا صیغہ (واحد غائب مذکر) ہمیں اس مادے تک پہنچاتا ہے۔ علامتی طور پر مادے میں لفظ "فعل” کے تینوں حرف اسی ترتیب کے مطابق واقع ہوتے ہیں۔ جہاں ان پر کوئی اور حرف داخل نہیں وہ مجرد ہے اور جہاں کوئی اور حرف داخل ہے یا مثال کے طور پر بیچ والے حرف (ع) کی تکرار ہوتی ہے وہ مزید فیہ ہے۔ مجرد اور مزید فیہ دونوں میں تصریف کے متعینہ قواعد ہیں، جس کے مطابق کسی فعل معروف یا مجہول کے سارے صیغے تشکیل پاتے ہیں، اسماء حاصل کئے جاتے ہیں، وغیرہ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربی زبان قواعد کے عملی اطلاق میں مکمل ترین زبان ہے۔ وہاں ہر فعل ہر اسم کسی نہ کسی مادے پر مبنی ہے اور کسی نہ کسی قاعدے کے مطابق تشکیل پذیر ہوتا ہے۔

مقامی اساسی زبانوں (پنجابی، ہندی، وغیرہ) میں مجرد اسماء و مصادر بہت زیادہ ہیں، یعنی وہ اسماء و مصادر جو موجود ہیں اور بس ہیں، جیسے بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ دوسری زبانیں قواعد سے عاری ہیں۔ قواعد وہاں بھی ہیں اور مؤثر ہیں۔ اس پہلو کا بھی اجمالی مطالعہ کریں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ کوئی بھی تہذیب دوسری تہذیبوں سے مکمل انقطاع میں نہیں رہ سکتی۔ تاہم ایک بات بہت معروف ہے اور بڑی حد تک درست بھی، کہ عربی زبان نے دوسری زبانوں سے بہت کم بلکہ شاذ اسماء و مصادر لئے ہیں۔ فارسی اور عربی زبان کے ایک دوسری پر اثرات البتہ خاصے واضح ہیں۔ ان دونوں زبانوں میں بہت سارے کلمات ایسے ہیں جن پر شائبہ ہوتا ہے کہ یا تو یہ فارسی سے عربی میں گیا ہے یا عربی سے فارسی میں۔ ایسے چند الفاظ اور تصریفات جو ہمارے ہاں بھی معروف ہیں: گناہ (فارسی)، جُناح (عربی)، چراغ (فارسی)، سراج (عربی)، ہَرج (عربی)، ہرجانہ (فارسی)، دیوان (فارسی)، اس کی جمع: دواوین (قاعدہ عربی)، شوکت (فارسی، عربی: معانی کے فرق کے ساتھ)، دُکّان (فارسی)، اس کی جمع: دکاکین (قاعدہ عربی) اردو میں کاف غیر مشدد کے ساتھ مروج ہے، روغن (فارسی)، اس کے مشتقات مثلاً مرغّن (قاعدہ عربی)، شاہ (فارسی، عربی: معانی میں مشترک بھی اور مختلف بھی)، وغیرہ۔

کسی قدر عمیق مطالعے سے ہم پنجابی، ہندی، بھاشا (برج بھاشا) اور دیگر مقامی زبانوں میں بھی عربی فارسی اور ترکی کے اسماء کی جزوی یا کلی طور پر تبدیل شدہ صورتیں (موافق اور معکوس معانی بھی) دیکھ سکتے۔ مثلاً: کُڑُک (پنجابی)، قُرق (عربی)، وِشواش (ہندی)، وَسواس (عربی)، خَصم (پنجابی)، خَصم (عربی)، وغیرہم۔

 

 

 

 

اسمِ مصدر، ابو اب اور متعلقات

 

فِعل بمعنی کرنا: یہ ایک لفظ لے لیتے ہیں، اس کا ایک معنی کام ہے، جو کرنا کا اسم ہے۔ فَعَلَ (اس نے کِیا): فعل ماضی مطلق معروف صیغہ واحد حاضر مذکر، یہ آٹھ لفظی ترکیب ایک لفظ کے کوائف بتاتی ہے۔ اس کو تو بار بار پورا بولنا مشکل ہے، لکھنا مشکل تر۔ چلئے اس کو ایک نام دے دیتے ہیں: "ماضی کا پہلا صیغہ۔ صَرف (مختصر) میں اس کو یوں لکھتے ہیں: فَعَلَ، یَفعَلُ، فِعلًا: فَعَلَ ماضی کا پہلا صیغہ ہے (اس نے کیا)، یَفعَلُ: مضارع کا پہلا صیغہ ہے (وہ کرتا ہے، وہ کرے گا)، فِعلًا: اسمِ مَرّہ ہے (ایک کام)۔ ایک اور لفظ لے لیتے ہیں: ضَرَبَ (اس نے مارا، ضرب لگائی)، یَضرِبُ (وہ ضرب لگاتا ہے، وہ ضرب لگائے گا)، ضَربًا (ایک ضرب، ایک چوٹ)، یہ دونوں ثلاثی مجرد میں ہیں۔ یہاں باقی سارے فیصلے ہو گئے کہ: ان سے فعل امر کیا بنے گا، اسمِ آلہ کیا بنے گا، اسم ظرف کیا بنے گا، اسمِ فاعل کیا بنے گا، اسمِ مفعول کیا بنے گا، وغیرہ۔ ان دونوں کے مادے دیکھ لیجئے: (فع ل) اور (ضر ب)، ماضی کے پہلے صیغے پر مزید کچھ داخل نہیں ہوا، یہ ثلاثی مجرد ہے۔ مادہ (فع ل) کو بنیاد مانا گیا ہے۔ اس کی بنا پر (ضرب) کے مادے میں پہلا حرف (ض) فعل کے حرف (ف) کے مقابل آیا، کلمہ فاء کہلایا، دوسرا حرف (ر) فعل کے حرف (ع) کے مقابل آیا، کلمہ عین کہلایا، تیسرا حرف (ب) فعل کے حرف (ل) کے مقابل آیا، کلمہ لام کہلایا۔ یہ اصول بلا امتیاز ہر فعل پر اور اس کے مشتقات پر لاگو ہوتا ہے: ۔

کَتَبَ (اس نے لکھا): ک کلمہ فاء ہے، ت کلمہ عین ہے، ب کلمہ لام ہے، نَصَرَ (اس نے مدد کی): ن کلمہ فاء ہے، ص کلمہ عین ہے، ر کلمہ لام ہے، سَمِعَ (اس نے سنا): س کلمہ فاء ہے، م کلمہ عین ہے، ع کلمہ لام ہے، و علیٰ ہٰذا القیاس۔ تصریف یا گردان کی ضرورت پڑی تو دیکھ لیں گے۔ ان تین چار مادوں میں ہمیں کتنے ہی مانوس الفاظ کی بنیاد مل جاتی ہے: فعل، فاعل، مفعول، افعال، فعّال، مفاعلہ، تفاعل، ضرب، مضروب، اضطراب، مضطرب، ضارب، مضاربہ، ضربت، کتاب، کاتب، مکتوب، مکتبہ، کتابت، کاتبین، مکاتبت، مکاتیب، نصرت، ناصر، منصور، انصار، مستنصر، منتصر، انتصار، نصیر، سامع، سماعت، سماع، سمّاع، مسموع، سمیع، سمعی، وغیرہ۔ نامانوس اور مرکبات اس کے علاوہ ہیں، تین کلمات کا صرف بنیادی اور ادھورا سا تعارف ہمیں کتنے الفاظ سے مانوس کر گیا، یہ بات قابلِ غور ہے۔

رباعی اور خماسی مادوں کے مصادر اردو میں بہت کم مستعمل ہیں، ثلاثی مزید فیہ والے نسبتًا زیادہ مانوس ہیں، اور اردو میں کثرت سے پائے جاتے ہیں مثلًا:

تفعیل تفعِلہ: فَعَّل یُفَعِّلُ: تکریم، تقدیس، تسبیح، تشریح، تشہیر، تحصیل، تنظیم، تحقیر، تقریر، نتویر، تمثیل، تشبیہ، تقطیع، توقیر، تعمیر، وغیرہ۔

فِعال مفاعلہ: فاعَلَ یُفاعِلُ: وِصال، فراق، شِعار، مِزاج، دِفاع، مشاعرہ، مشاہرہ، مقابلہ، موازنہ، مطالعہ، محاسبہ، مناظرہ، وغیرہ۔

اِفعال: اَفعلَ یُفعِلُ: اِنکار، اِشکال، اِبطال، اِیقان، اِیصال، اِقرار، اِجمال، اِسراع، ایطاء، اِنشاء، اِعلاء، اِحیاء، اِقبال، اِعجاز، وغیرہ۔

تفعُّل: تفعَّلِ یتفعَّلُ: تقدس، تحمل، توقع، توجہ، تمنا، تبرج، تجرد، تحکم، تشکر، تعدد، تکبر، تشفی، تعفن، تدبر، تفکر، تامل، تاثر، وغیرہ۔

تفاعُل: تفاعَلَ یَتفاعَلُ: تواتر، تصادم، تساہل، تناظر، تخاطب، تماشا، تقاضا، تحاشا، تواضع، تکاثر، تعامل، تفاخر، تعادل، وغیرہ۔

اِنفعال: اِنفعَلَ یَنفعِلُ (اس باب میں فعل مجہول نہیں ہوتا): انصرام، انہدام، انضمام، انقطاع، انہضام، انجماد، انشراح، وغیرہ۔

افتعال: اِفتَعَلَ یَفتَعِلُ: انتظار، اقتباس، اقتدار، ابتلاء، انتشار، انتظام، ازدواج، اضطراب، اضطرار، انتباہ، انتساب، انتقام، وغیرہ۔

استِفعال: اِستفعَلَ یَستفعِلُ: استقبال، استقلال، استعمال، استحصال، استدلال، استفسار، استقرار، استصواب، استغفار، وغیرہ۔

عربی میں یہ سارے مصادر ہیں، مگر اردو میں بطور اسم مستعمل ہیں، اردو میں مصدر کی صورت اور ہے۔ عربی سے آئے ہوئے کچھ دیگر اسماء کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

اسمِ ظرف (زمان، مکان) مَفعَل کے وزن پر: منظَر، مقتَل، معبَد، معدَن، ماخَذ، مسجِد (مفعِل کے وزن پر ہے)۔

جمع کی کچھ مثالیں (مَفاعِل کے وزن پر): مساجِد، مَقابر، منَاظر، مآخِذ، مآثِر، مآرِب، مَذاہِب، مَقاصِد، مَواقِع، مَناقِب، مناسِک، وغیرہ۔

اسمِ فاعل (فاعِل کے وزن پر): جابر، قابل، ہاضم، ظاہر، باطن، عادل، ناقص، داخل، خارج، واضح، راجح، حامل، کاتب، وغیرہ۔

اسمِ صفت (فَعِیل کے وزن پر): مجید، ظہیر، ذہین، قبیح، فصیح، حسین، دخیل، طبیب، حکیم، عدیل، جمیل، صحیح، وغیرہ۔

اسمِ صفت تفضیل (اَفعَل کے وزن پر): انور، اصغر، اکبر، احمد، امجد، احسن، احکم، اجمل، اکرم، اکثر، اشدّ، احقّ، اَعَزّ، اجَلّ، وغیرہ۔

اسمِ مفعول (فَعِیل کے وزن پر: اردو میں یہ نسبتًا کم وارد ہوئے ہیں): حمید، مجید، قتیل، ذبیح، رجیم، وقیع، وغیرہ۔

اسمِ صفت مبالغہ (فَعلان کے وزن پر): رَحمان، فَیضان، شَیطان، حَیوان، قَحطان، سَلمان، حَیران، وغیرہ (وِیران فارسی کا ہے)۔

کچھ خاص اسماء (فُعلان کے وزن پر): قرآن، طُغیان، بُطلان، بُرہان، بُہتان، عُنوان، سُلطان، سُودان، وغیرہ۔

 

 

 

 

 

صفت کے درجے، الف مقصورہ

 

الف مقصورہ کے حوالے سے کچھ امور کا جان لینا بہت اہم ہے۔ یہ ہے کیا؟ کہاں پیدا ہوتا ہے؟ کہاں اس کو قائم رکھنا ضروری ہے اور کہاں اس پر تصرف واقع ہوتا ہے۔ پہلے اسماء کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

فارسی میں اسمِ صفت کے تین درجے ہیں۔ تفضیلِ نفسی (خود اپنے حوالے سے)، تفضیلِ بعض (دیگروں کے حوالے سے) اور تفضیلِ کل (اپنی نوع میں بقیہ سب کے حوالے سے): بہ، بہتر، بہترین، تازہ، تازہ تر، تازہ ترین، کم، کمتر، کم ترین، تیز، تیز تر، تیز ترین، خوش، خوش تر، خوش ترین، سادہ، سادہ تر، سادہ ترین، وغیرہ۔ فارسی میں عربی اسمائے صفت پر بھی ان تینوں درجوں کا اطلاق ہوتا ہے: حسین، حسین تر، حسین ترین، قریب، قریب تر، قریب ترین، قابل، قابل تر، قابل ترین، وغیرہ۔

عربی میں اسمِ صفت کے دو درجے ہیں، ایک صفتِ ذاتی کے حوالے سے (تفضیلِ نفسی کے لئے)، اوردوسرا دوسروں کے حوالے سے (تفضیلِ بعض، تفضیلِ کل: دونوں کے لئے)۔ اس لئے ہم یہاں دوسرے درجے کو تفضیل کا درجہ کہیں گے، پہلے کو کوئی نام دینا ضروری نہیں۔ اسمِ صفت مذکر کے دو بنیادی ابو اب ہیں۔

فاعل: قابل، واضح، عالم، عالی، جاہل، ناقص، دانی، وغیرہ۔

فعیل: حسین، قریب، بعید، وسیع، جمیل، شریف، کریم، عظیم، وغیرہ۔

اِن دونوں میں تفضیل مذکر کا درجہ اَفعَل کے وزن پر ہوتا ہے: اَنور، اکبر، اصغر، اَوسَط، اَدنیٰ، اعلیٰ، اَرفَع، اَمجد، وغیرہ۔ مؤنث بنانے کے لئے صفتِ ذاتی مذکر پر گول ۃ (ہائے ہوز) کا اضافہ کرتے ہیں: عالمہ، فاضلہ، حسینہ، جمیلہ، حمیدہ، کریمہ، بعیدہ، وغیرہ۔ صیغہ تفضیل مؤنث کا اردو میں مانوس ترین وزن فُعلیٰ ہے۔ کُبریٰ، صُغریٰ، وُسطیٰ، عُظمیٰ، اُخریٰ، دُنیا، عُلیا، وغیرہ۔ واضح رہے کہ تفضیل مذکر میں جہاں مادے کا آخری حرف (کلمہ لام)ی ہے، وہاں الف مقصورہ پیدا ہوا ہے۔ اَعلیٰ (عل ی)، اَدنیٰ (دن ی)، ان کی مؤنث کا وزن فُعلیٰ کی بجائے فُعلا بن گیا: اَعلیٰ سے عُلیا، اَدنیٰ سے دُنیا، وغیرہ۔ یہاں ہمزہ کا مقام نہیں، یعنی دُنیاء، عُلیاء درست نہیں ہیں۔ دُنیائے ادب، دُنیائے رنگ و نور جیسی تراکیب فارسی نہج پر ہیں، ان میں ہمزہ یائے مستور کا قائم مقام ہے۔

افعال میں الف مقصورہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں: مادہ کا آخری حرف (کلمہ لام)ی ہو، متحرک ہو، اور کلمہ عین پر زبر ہو: طغیان (طغ ی) میں ماضی طَغیٰ (طَغَیَ سے) اور مضارع یَطغیٰ (یَطغَیُ سے)، حیات (حی ی) میں ماضی حَییٰ (اردو میں مستعمل نہیں) اور مضارع یَحییٰ، نہی (نہ ی) میں ماضی نَہیٰ اور مضارع یَنہیٰ، وَ علیٰ ہٰذا القیاس۔ عیسیٰ اور موسیٰ غیر مُصَرَّف ہیں، اردو میں بعینہٖ نافذ ہیں۔ وصل مابعد کی صورت میں الف مقصورہ سادہ زبر سے بدل جاتی ہے، تاہم ی کی املاء قائم رہتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ کسی لفظ کی (موصول) املاء کے اندر واقع ہو تو ایسی یائے کے نقطے نہیں لگائے جاتے، دندانہ البتہ بنایا جاتا ہے (اسے عرفِ عام میں خالی دندانہ کہتے ہیں)۔ قرآن شریف میں اس کی کثیر مثالیں میسر ہیں۔

عَلیٰ اور اِلیٰ حرفِ جار ہیں۔ سالم لفظی حیثیت میں ہوں تو الف مقصورہ کے ساتھ رہیں گے۔ اپنے بعد آنے والے کسی لفظ سے ملیں تو الف مقصورہ یائے لین میں بدل جائے گا اور ادغام کی صورت میں یائے لین بھی ساکت ہو جائے گی: علَیہ، اِلَیہ، علَینا، اِلَینا، عَلَی الْاِطلاق، اِلَی الْقریۃ۔ لکھنے میں اسی پر کوئی اعراب نہیں آئے گا: عَلَی اللہِ، اِلَی اللہِ، عَلَی الاطلاق، اِلَی الآخر، علَی الرّغم، اِلَی السّمائِ، اِلَی اللّحدِ، وغیرہ۔ عیسیٰ اور موسیٰ پر بھی یہی اطلاق ہوتا ہے۔ آتَینا مُوسَی الکتابَ، عیسَی ابن مریمَ، و علیٰ ہٰذا القیاس۔

 

 

 

 

ابواب و اسماء، وسعت اور جمع مکسر

 

عربی سے اردو میں آنے والے کلمات میں اسمِ فاعل اور اسم، مفعول اشرافی اردو میں خاصے مانوس ہیں۔ ثلاثی مزید فیہ کے اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول میں صرف کلمہ عین کی حرکت یا فرق ہوتا ہے، اسمِ فاعل میں کلمہ عین کے نیچے زیر ہوتا ہے اور اسمِ مفعول میں زبر۔ ترتیب وار مثالیں ملاحظہ ہوں۔

تفعیل (مُفَعِّل، مفعَّل)۔ فاعل: موثِر، محدِّث، مقرِّر (تقریر کرنے والا)، مؤرِّخ، مدَلِّل، موخِّر، معمِّر، مفعول: مکمَّل، مقرَّر (کسی امر پر مامور)، مکرَّر، مشکَّل، مدَلَّل، معجَّم، مؤخَّر، مکرَّم، مشبَّہ، مؤقَّر، منوَّر، منظَّم، مُقدَّس، وغیرہ۔

مفاعلہ (مُفَاعِل، مفاعَل)۔ فاعل: مقابِل، مجاہِد، مطابق، مصاحب، معاوِن، محاسِب، مُناظِر، مفعول: موافَق، وغیرہ۔

اِفعال (مُفعِل، مُفعَل)۔ فاعل: مؤمِن، مُصلِح، مفسد، مشکل، معجز، منکِر، مشکِل، موصِل، منشی، مُقبِل، مُسرِع، موذی، مفعول: مُعتَد، منکَر، مجمَل، وغیرہ۔

تفعُّل (متفَعِّل، متفعَّل)۔ فاعل: متقَدِّم، مدَّثِّر، مزَّمِّل، متحمل، متوجِّہ، متمنّی، متبرِّج، متشکِّر، متکبِّر، متامِّل، متوقِع، مفعول: متوقَّع، متاثَّر، متعفَّن، متنبَّہ، وغیرہ۔

تفاعُل (متفاعِل، متفاعَل)۔ فاعل: متنازِع، متبادِل، متصادِم، متَشاکِل، متَشاعِر، متقابِل، متجانِس، مترادِف، متضادّ، متواتِر، متقاضی، متناظِر، مفعول: متنازَع، متبادَل، متجانَس، متناظَر، وغیرہ۔

اِنفِعال (مُنفَعِل)۔ فاعل: منہدم، منقسم، منفصل، منتقم، منتظم، منحصر، منقطِع، منجمِد، منشرِح، منضبِط، ، وغیرہ ( اس باب میں مجہول نہیں ہوتا)۔

انتباہ: بابِ انفعال اور بابِ افتعال میں اشکال کے امکانات بہت ہیں۔ یاد رہے کہ انفعال میںن حرفِ زائد ہے اور مفتعل میںت حرفِ زائد ہے۔

اِفتعال (مُفتَعِل، مفتعَل)۔ فاعل: منتشِر، منتظِر، مبتذل، متَّحِد، معتمِد، مشتمِل، مبتلی، منتظِم، مُزدَوِج، مضطرِب، مضطِرّ، منتقِم، مقتدِر، مفعول: منتشَر، منتظَر، معتمَد، مختصَر، مقتدَر، مضطَرّ، منتسَب، مصطفیٰ، مجتبیٰ، مرتضیٰ، منتہیٰ، وغیرہ۔

اِستِفعال (مُستفعِل، مستفعَل)۔ فاعل: مستحِقّ، مستقبِل، مستقِلّ، مستحصِل، مستدِلّ، مستسفِر، مستصیب، مستحسِن، مستغفِر، مفعول: مستحَقّ، مستقبَل، مستحصَل، مستسفَر، مستصاب، مستحسَن، مستغفَر، وغیرہ۔

اسم صفت کے دو اور اوزان اردو میں بہت مانوس ہیں، فَعُول اور فَعّال۔

فَعُول: شَکُور، غَفُور، وَدُود، رَؤف، یئُوس، کَنُود، وغیرہ۔

فَعّال: جَبّار، سَتّار، مَشّاق، غَوّاص، خَطّاب، خَطّاط، نَوّاب، ہَشّاش، بَشّاش، وغیرہ۔

وضاحت: مندرجہ بالا فہرستوں میں کچھ کلمات ایسے آئے ہیں جن کے ہجے معمول کے قواعد سے بظاہر ہٹے ہوئے ہیں۔ مثلاً: مدثر، مزمل، مصطفیٰ، مزدوج، مستصیب، وغیرہ۔ حقیقتاً کچھ بھی ہٹا ہوا نہیں ہے، ہم قواعد کی خالص عربی تشریحات میں نہیں گئے، بلکہ تشنگانِ علم کی تشنگی کو بڑھانے کا سامان کر دیا ہے۔

وُسعَت: واحد، تثنیہ اور، جمع میں متعدد ایسے اوزان پائے جاتے ہیں جن کا اسمائے صفت اور مصادر سے اِشکال ہو جانا معمول کی بات ہے۔ جمع کے دو طریقے ہیں: جمع سالم اور جمع مکسر، کہنے کو کہا جاتا ہے کہ جمع سالم تین یا سات تک کے لئے ہوتی ہے اور اس سے زیادہ کے لئے جمع مکسر، تاہم اس پر سختی سے عمل نہیں ہوتا۔ جمع سالم تذکیر و تانیث کے ساتھ ہوتی ہے، جبکہ جمع سالم سب کے لئے ہوتی ہے۔ معانی سے قطع نظر جمع مکسر کے ساتھ اسمِ اشارہ اور فعل کا صیغہ واحد مونث لاتے ہیں۔

واحد مذکر(عابد) کے لئے۔ تثنیہ مرفوع: عابدانِ، تثنیہ منصوب و مجرور: عابدَینِ، جمع سالم مرفوع: عابدُونَ، جمع سالم منصوب و مجرور: عابدِینَ، واحد مؤنث (عابدہ)کے لئے تثنیہ مرفوع: عابِدَتانِ، تثنیہ منصوب و مجرور: عابدَتَینِ، جمع: عابِداتِ۔ جمع مکسر: عُباد۔

واحد مذکر(صالح) کے لئے۔ تثنیہ مرفوع: صالِحانِ، تثنیہ منصوب و مجرور: صالِحَینِ، جمع سالم مرفوع: صالِحُونَ، جمع سالم منصوب و مجرور: صالحِینَ، واحد مؤنث (صالحہ)کے لئے تثنیہ مرفوع: صالحَتانِ، تثنیہ منصوب و مجرور: صالحَتَینِ، جمع: صالحاتِ۔ جمع مکسر: صُلَحاء

جمع سالم کی کچھ مزید صورتیں بھی ہیں: متقی سے متقون، متقین، عِلی سے عِلیّون، عِلیّین، وغیرہ۔ تاہم ان کی تفصیل میں جانا ہماری اس وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ اردو میں یہ سارے صیغے یکساں مستعمل نہیں۔ واحد بہت عام ہے، تثنیہ خاص ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں، اس میں بھی اکثر منصوب کو مرفوع کے معانی میں لے آتے ہیں۔ جمع سالم مذکر میں بھی رفع و نصب کا خیال نہیں رکھا جاتا، جمع سالم مؤنث کی تو صورت ہی ایک ہے۔ جمع مکسور البتہ بہت مستعمل ہے، اس کے متعدد اوزان ہیں جو اردو اور عربی دونوں کے لئے برابر ہیں، ماسوائے آخری حرکت کے، کہ وہ اردو میں موقوف ہو جاتی ہے۔ بہ این ہمہ عربی کے اعتبار سے ان کلمات کے آخری حرف کی حرکت ذِہن نشین ہونی چاہئے، اس سے تفہیم میں بہت سہولت رہتی ہے۔ جمع مکسر کے کچھ معروف اوزان درجِ ذیل ہیں۔

فُعُل: رُسُل، کُتُب، زُمُر، سُرُر، جُنُد، وغیرہ۔

فُعَلاء: صُلَحاء، طُلَباء، فُقَہاء، رُفَقاء، شُفَعاء، وغیرہ۔

فَعَلَہ: طَلَبہ، کَفَرَہ، بَرَرَہ، صَحَبہ، وغیرہ۔

اَفعال: اَنوار، اَنواع، اَقسام، اَوسان، اَطراف، اَکناف، اَجداد، اَسماء، وغیرہ۔

اَفعِلاء: اَتقیاء، اَنبیاء، اَولیاء، اَغنیاء، اطِبّاء، احِبّاء، اعِزّاء، اذِلّاء، وغیرہ۔

مَفاعِل: مواقِع، مَناظِر، مظاہِر، مَکارِم، مَدارِج، مسائِل، مضامِر، مقابِر، وغیرہ۔

مَفاعیل: مشاہیر، مزامیر، مکاتیب، مضامین، مصابیح، وغیرہ۔

فَواعِل: اوامِر، نواہی، جوانِب، ظواہِر، شواہِد، جوارِح، وغیرہ۔

فُعُول: حُدود، قُیود، نُصوص، بُطون، جُلود، قُلوب، وغیرہ۔

فَعَائِل: ربائب، حدائق، جزائر، بصائر، مدائن، وغیرہ۔

جمع مکسر مزید اوزان میں بھی ہیں، مثلًا: رُماۃ، قُراۃ، قُراء، ائِمّہ، صَحَب، فِتَن، وغیرہ۔

ہم نے وہی درج کئے ہیں جن سے ہم اردو میں بھی مانوس ہیں۔ مزید قاری پر چھوڑ دیا ہے تاکہ مزید جاننے کی خواہش کو رواج ملے۔

 

 

 

 

تانیث کی صورتیں، لفظی تغیرات

 

فارسی اور انگریزی میں مذکر مؤنث قیاسی ہیں، انگریزی کا نیوٹرل جنڈر بھی قیاسی ہے، جملے میں فعل پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عربی، اردو، پنجابی، ہندی وغیرہ میں کوئی اسم یا تو مذکر ہے یا مؤنث، اور جملے میں فعل پر بھی اس تذکیر و تانیث کا اثر ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کسی شے کا نر یا مادہ ہونا اور چیز ہے، مذکر یا مؤنث ہونا اور چیز ہے، جوڑا (چچا چچی، تایا تائی) ہونا اور چیز ہے۔ عربی میں اکثر اسماء مذکر ہیں، مؤنث کی دو صورتیں ہیں: مؤنث سماعی یا قیاسی اور مؤنث حقیقی۔ مؤنث حقیقی کا لفظی صورت میں مؤنث ہونا لازمی ہے، اس کی دو بڑی علامتیں ہیں۔

۔ ۱۔ مذکر اسم پر تائے تانیث یا گول ۃ کا اضافہ (جو ارد و میں ہائے ہوز بن جاتی ہے): صالحہ، واقعہ، باطلہ، ثانیہ، لطیفہ، نقشہ، حصہ، ہِرّہ، کلبہ، بقرہ، سدرہ، وغیرہ۔ (مستثنیات: مردانہ نام اگرچہ گول ۃ یا ہائے ہوز پر ختم ہو، مذکر ہی رہتے ہیں، مثلاً: اسامہ، طلحہ، عبیدہ، رواحہ، وغیرہ۔) اَب (باپ) سے بنائی ہوئی ظاہری تانیث ابۃ میں شدید محبت مقصود ہے، رہتا وہ مذکر ہی ہے۔ اسی طرح لیل اور لیلہ (رات) واح مذکر ہے۔

۔ ۲۔ آخری الف مقصورہ یا الف: سُعدیٰ، لُبنیٰ، اُخریٰ، دنیا، بُشریٰ، وغیرہ۔ (مستثنیات: اَفعَل کے وزن پر آنے والے مذکر اسم، اگرچہ ان کا آخر الف مقصورہ ہو: اَعلیٰ، اَشقیٰ، ادنیٰ، وغیرہ)، ان کا بیان پہلے ہو چکا ہے۔

انسان اور حیوانات کے جسم کے وہ حصے جو جوڑا جوڑا ہوں، مؤنث ہوتے ہیں: ہاتھ، پاؤں، بازو، آنکھیں، ہونٹ، ٹانگیں، وغیرہ۔ قدرتی ستاروں اور سیاروں کے نام: زمین، سورج، چاند، تارے، وغیرہ۔ شہروں اور ملکوں کے نام (ماسوائے مستثنیات جہاں مذکور ہوں)۔ وہ تمام رشتے جن کے معانی میں نسائیت ہو، چاہے لفظی طور پر ظاہر نہ ہوں: اُم (ماں)، عجوز (عورت جو بوجہ عمر مزید بچے جننے کے قابل نہ رہے)، مؤنث ہیں۔

مہینہ، ہفتہ، سال، دن، رات، صبح، شام وغیرہ مذکر ہیں۔ لیل سے تانیث لیلۃ میں کوئی امتیازی وصف مترشح ہوتا ہے: لیلۃ القدر، اربعین لیلۃ۔ نہر، بحر، دریاؤں سمندروں کے نام مذکر ہیں۔ پہاڑ اور ان کے نام مذکر ہیں۔ چیونٹی (نمل) مذکر ہے اس کی تانیث (نملۃ) تصغیر کے لئے ہے اور مؤنث حقیقی ہے۔ شہد کی مکھی (نحل) مؤنث قیاسی ہے اور اس کی تصغیر (نحلۃ) مؤنث حقیقی ہے۔ یہ امر حیرت کا باعث قطعاً نہیں ہو گا کہ ایک چیز عربی میں مذکر تو اردو میں مؤنث (کتاب، لیل، قمر، ہاتھ، پاؤں) عربی میں مؤنث تو اردو میں مذکر کیوں ہے۔ ہر زبان کا مزاج اور ورثہ اپنا اپنا ہوتا ہے اور تذکیر و تانیث کا تعین بھی اس کے مطابق ہوا کرتا ہے۔

 

 

 

 

ت، ۃ: معنوی تغیرات

 

یہ ہم جان چکے ہیں کہ تائے تانیث ہائے ہوز، تائے مدوّرہ، اور تائے سالم تینوں میں سے کسی صورت میں بھی لکھی جائے۔ اس کے معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ رہتی بھی مؤنث ہے۔ تاہم عربی میں اردو میں آنے کے عمل میں بعض معاملات میں معنوی فرق بھی واقع ہو گیا، اور اس کے مطابق تذکیر و تانیث میں بھی۔ مشتے از خروارے کے طور پر کچھ چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں۔

رسالہ، رسالۃ، رسالت، رسالات، رسائل، مراسلہ، مراسلۃ، مراسلت، مراسلات:

رسالۃ، رسالت ایک خاص منصب ہے جو اللہ کریم اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ رسالات ان ہدایات کو کہتے ہیں جو اللہ کریم کی طرف سے انبیائے کرام پر نازل ہوتی رہیں، کتاب کی صورت میں، صحائف کی صورت میں یا وحی کی دوسری صورتوں میں۔ رسالہ اردو میں مذکر ٹھہرا اور اس کے معانی مجلہ، مکتوب وغیرہ ہوئے۔ اس کی جمع فارسی طرز پر رسالہ جات بنائی گئی۔ رسالہ کا تعلق سامان کی ترسیل سے ہونے کے سبب بار بردار فوجی دستوں کو رسالہ کا نام دیا گیا۔ جمع مکسر رسائل میں پرچہ جات، مجلے، مخزن، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والا سامان سب کے معانی شامل ہیں۔ مراسلہ بھی اردو میں مذکر ہوا، اس کے معانی خط، فرمان وغیرہ ہوئے، جمع مراسلات اپنی لفظی ساخت کے علی الرغم مذکر مانا گیا، اس کے تسلسل کو مراسلت کہا گیا اور مونث تسلیم کیا گیا۔

عقیدہ، عقیدۃ، عقیدت، عقدہ، عقائد، عقود:

عقیدہ اردو میں مذکر، ان نظریات کو کہا گیا جو ایمانیات میں داخل ہیں۔ جہاں کسی عقیدہ و فکر کا حوالہ کسی خاص ہستی (رسول، صحابی، امام، استاد) کے احترام سے جڑا ہوا ہو، اس کو عقیدت مؤنث کہا گیا۔ عُقدہ (بمعنی گِرہ، گانٹھ) اردو میں مذکر ہوا جب کہ اس کے معانی گِرہ گانٹھ وغیرہ مؤنث ہوئے۔ عقدۃ النکاح عربی میں مؤنث اور اردو میں مذکر ہے، معانی ایک ہی ہیں۔ عقدہ کی جمع عقود، اور عقیدہ کی جمع عقائد ہے۔

طریق، طریقہ، طریقۃ، طریقت، طُرُق:

طریق اردو اور عربی دونوں میں مذکر ہے، معانی راستہ وہ بدنی ہو یا علمی، جمع طُرُق۔ علمِ روایت میں رواۃ (راویوں) کی لڑی کو طریق بھی کہتے ہیں۔ ایک روایت ایک سے زیادہ لڑیوں سے منقول ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ اس کے اتنے طرق ہیں۔ طریقہ اردو میں مذکر ہوا اور کوئی کام کرنے کے ڈھنگ وغیرہ کے معانی پائے۔ طریقت مؤنث خاص فکری نظری نظام کو کہا گیا، اس کو تصوف بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا معروف متناظر شریعت ہے۔

یہ فہرست بہت طویل ہے، ہمارا مقصد اس کو احاطہ کرنا نہیں ان کی ساختیات اور عربی اردو معنوی فرق کی طرف توجہ دلانا ہے۔

 

 

 

 

مصادر اور مشتقات

 

اردو میں مصدر کی علامت (نا) ہے: کھانا، پینا، سونا، جاگنا، دیکھنا، سننا۔ فارسی میں (تن) اور (دن): کردن، گفتن، نشستن، آمدن، شدن، خوابیدن (خفتن)، وغیرہ۔ ان دونوں زبانوں اور عربی میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ عربی کا ہر کلمہ جس میں اسماء بھی شامل ہیں، کسی نہ کسی قاعدے کے تحت بنتا ہے، جب کہ یہاں بہت سارے اسماء جیسے بنے ہوئے ہیں ویسے ہیں، ان کے پیچھے ضروری نہیں کہ قواعد ہی رہے ہوں گے۔ اردو اور فارسی میں مصدر کی ایک پرانی تعریف ہوا کرتی تھی: "مصدر وہ ہے جس سے دوسرے اسماء افعال حاصل ہوں، مصدر کسی دوسرے سے مشتق نہیں ہوتا”، یہ اب کارگر نہیں رہی۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ بہت سارے مصادر بھی اخذ کئے گئے۔ اس کی تبدیل شدہ تعریف کچھ ایسی ہونی چاہئے: "مصدر بنیادی طور پر اسم ہے مگر اس میں معانی فعل کے پائے جاتے ہیں، تاہم اس میں زمانہ اور فاعل و مفعول مذکور نہیں ہوتا”۔ انگریزی میں مصدر کو (verb) کہتے ہیں اور زمانے، فاعل مفعول وغیرہ کے لحاظ سے بننے والے فعل کو (tense)۔ اس کے مقابل اردو، فارسی میں بالترتیب "مصدر” اور "فعل” ہیں۔ ہم یوں کہیں گے کہ: جانا مصدر ہے اور فلاں گیا، وہ جائے گا، وہ نہیں گیا تھا (گیا، جائے گا، نہیں گیا تھا) فعل ہیں۔ مصدر کو "فعل تام” بھی کہتے ہیں، اس نسبت سے بلحاظِ سیاق و سباق لفظ فعل سے مصدر بھی مراد لے لیتے ہیں اور اس میں چنداں قباحت بھی نہیں، بات واضح رہنی چاہئے۔

فارسی کے عام قاعدے کے مطابق مصدر کا نون ہٹا دیں تو فعل ماضی کا پہلا صیغہ (واحد غائب) حاصل ہوتا ہے: آمدن سے آمد (وہ گیا)، گفتن سے گفت (اس نے کہا)، خریدن سے خرید (اس نے خریدا)، مُردن سے مُرد (وہ مر گیا)، خوردن سے خورد (اس نے کھایا)، نوشیدن سے نوشید (اس نے پیا)، نشستن سے نشست (وہ بیٹھا)، برخاستن سے برخاست (وہ اٹھا)۔

فارسی کا فعل ماضی کا پہلا صیغہ اردو میں اسم کے طور پر بھی مستعمل ہے: نشست و برخاست (بیٹھنا اٹھنا)، خرید و فروخت (خریدنا بیچنا)، آمد و رفت (آنا جانا)، فلاں کی آمد آمد ہے (وہ آنے ہی والا ہے)، دید (دیکھنا)، برداشت (سہنا)۔ اسم کی اس حیثیت کو اسم حاصل مصدر بھی کہتے ہیں یعنی وہ اسم جس میں فعل تام کے معانی پائے جائیں۔ اردو میں ان کی تذکیر و تانیث کی کوئی خاص پابندی نہیں، کچھ مذکر ہیں کچھ مؤنث ہیں، اس کا فیصلہ اردو میں ترویج پر ہے۔

مزید واضح رہے کہ مصدر سے اسمِ حاصل مصدر بنانے کا ایک واحد طریقہ نہیں۔ مصدر رَفتن (مزارِع: رَوَد)سے حاصل ہونے والے اسمِ حاصل مصدر: رَو (بہاؤ)، رَوِش (طرزِ عمل، راستہ)، رَفتار (معانی واضح ہیں)، روانی (بہاؤ، چلنے کا انداز وغیرہ)، روانگی (رخصت ہونا، کسی جانب سفر کو نکلنا) وغیرہ۔ اسمِ حاصل مصدر پر بس نہیں، کئی کئی معانی اور حاصل ہوتے ہیں: رَو (چلنے والا: تیز رَو، سست رَو)، رَواں (چلتا ہوا)، روانہ (جو کسی طرف چل نکلے)، وغیرہ۔ یہاں واضح ہو جائے کہ ایک اور مصدر ہے رُستن (پھوٹنا، اُگنا) (مضارِع: رُویَد): "سبزۂ نَو رُستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے” (اقبال)، رُستگاری (راہ پانا): "مَوت سے کس کو رُستگاری ہے”، رُستا خیز (پھوٹا اور اٹھنا: ظہور)، رُوئی (کپاس وغیرہ کے ریشے)، رُواں (بال)، رُو (اگنے والا: خود رُو: اپنے آپ اگنے والی جڑی بوٹیاں، گھاس وغیرہ)، جب کہ، خود رَو (اپنے آپ چلنے والا: آٹومیٹک)۔ رُو کا معنیٰ چہرہ یا رُخ بھی ہے، یہ الگ اسم ہے: بَد رُو (برے منہ والا)، قبلہ رُو (جس کا رُخ قبلہ کی طرف ہو)، رُو بہ رُو، رُ دَر رُو (آمنے سامنے)، رُو رعایت (چہرے کی رعایت: شرم رکھ لینا، اِکرام کرنا، لحاظ کرنا۔ اسے پنجابی میں منہ لحاظ کہتے ہیں)۔ پیش اور زبر کے اسی فرق سے ہیں: بَدرُو (برے چہرے والا) اور، بَدرَو (گندی نالی)، رُواں (بال) اور، رَواں (چلتا ہوا)۔ اس ایک مثال سے جان لیجئے کہ اردو میں فارسی کس حد تک رچی بسی ہے! اس کو اردو سے نکال باہر کرنے کی باتیں دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہیں!

ایک اور مثال کو مختصراً دیکھ لیتے ہیں۔ مصدر دیدن (دیکھنا) سے مضارع بِینَد: دِید، دِیدار (دیکھنا)، دِیدہ (آنکھ)، دِیدنی (دیکھنے کے قابل)، دِیدہ شنیدہ (دیکھا اور سنا ہوا: معروف)، بِین (دیکھنے والا: خود بین، باریک بین، دور بین، درُوں بین)، بینا (جو دیکھ سکے: دیدۂ بینا معروف ترکیب ہے)، بینائی (دیکھنے کی صلاحیت)، بینی (دیکھنے کی خصلت: باریک بینی، نقص بینی)۔ بینی ناک کو بھی کہتے ہیں: فلاں کو بہ یک بینی و دو گوش نکال باہر کیا گیا (لفظی معانی: ایک ناک اور دو کانوں کے ساتھ، یعنی فوری طور پر، وہ جس حالت میں بھی تھا)۔

 

 

 

 

افعالِ ناقصہ، مرکب مصادر

 

پہلے بھی عرض کیا  جا چکا ہے کہ مصدر کی وہ تعریف کہ وہ کسی سے مشتق نہ ہو بلکہ سارے مشتقات اس سے حاصل ہوں، اب چنداں مؤثر نہیں رہی۔ عربی میں مصدر اسمِ معرفہ کی قسم ہے اور اس کی اپنی بنیاد کسی ثلاثی رباعی یا خماسی مادے پر ہوتی ہے ہنوز درست طور پر سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ مصدر میں زمانہ داخل کر دیا جائے تو فعل بنتا ہے، جسے (اپنی معانی کے مطابق) یا تو مفعول کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، یا ایک مفعول کی ہوتی ہے یا اسے معانی مکمل کرنے کے لئے ایک سے زائد مفعول درکار ہوتے ہیں۔ کسی فعل کا اثبات یا نفی، یا اس پر سوال بھی فعل کی ضرورت ہے مصدر کی نہیں۔ اس لئے مصدر کو فعل تام بھی کہا جاتا ہے۔ تامّ یعنی تمامی، مکمل، پورے کا پورا۔ فعل میں بسا اوقات ایسے "ضمنی فعل” بھی شامل ہوتے ہیں جو اپنی انفرادی حیثیت میں ممکن ہے کہ کوئی معانی نہ رکھتے ہوں لیکن وہ کسی فعل کے معانی میں کوئی نہ کوئی تغیر لاتے ہیں، کسی انداز میں اس کی معنوی سمت اور حدود کا تعین کرتے ہیں، ان کو قواعد کی زبان میں فعل ناقص کہا جاتا ہے۔

فارسی کے مصادر ہستن، شدن، بودن، باشیدن، بائستن، خواستن، خواہیدن وغیرہ، اور ان کے مشتقات بہت زیادہ مستعمل ہیں۔

شُدن: اس کا سب سے زیادہ استعمال فعل معروف (بلحاظ فاعل) سے فعل مجہول (بلحاظ مفعول) بنانے میں ہوتا ہے۔ گرفت (اس نے پکڑا)، گرفتہ شد (وہ پکڑا گیا)، می گیرد (وہ پکڑتا ہے)، گرفتہ می شود (وہ پکڑا جاتا ہے)، خواہد گرفت (وہ پکڑے گا)، گرفتہ خواہد شد، گرفتن (پکڑنا)، گرفتن (پکڑنا)، گرفتہ شدن (پکڑا جانا)، وغیرہ۔ گردان ماضی: شد، شدند، شدی، شدید، شدم، شدیم، گردان مضارع: شَوَد، شَوَند، شَوی، شَوید، شَوَم، شَویم۔

خواستن اور خواہیدن: دونوں کا مضارع خواہد ہے جو فعل ماضی سے فعل مستقبل بناتا ہے۔ رَفتن (جانا)، رفت (وہ گیا)، خواہد رفت (وہ جائے گا)، شناختن (پہچاننا، پہچان لینا)، شناخت (اس نے پہچان لیا)، خواہد شناخت (وہ پہچان لے گا)، وغیرہ۔ گردان مضارع: خواہد، خواہند، خواہی، خواہید، خواہم، خواہیم۔

بائستن باشیدن: دونوں کا مضارع باشد ہے۔ یہ فعل میں شک و امکان کے معانی شامل کرتا ہے۔ رفت (وہ گیا)، رفتہ باشد (وہ چلا گیا ہو گا)، خُفتن (سونا)، خُفت (وہ سو گیا)، خفتہ باشد (وہ سویا ہو گا)، وغیرہ۔ گردان مضارع: باشد، باشند، باشی، باشید، باشم، باشیم۔

بودن: یہ فعل ماضی مطلق سے ماضی بعید بناتا ہے۔ گفتن (کہنا)، گفت (اس نے کہا)، گفتہ بود (اس نے کہا تھا)، شنیدن (سننا)، شنید (اس نے سنا)، شنیدہ بود (اس نے سنا تھا)، خواند (اس نے پڑھا)، خواندہ بود (اس نے پڑھا تھا)، وغیرہ۔ گردان ماضی: بُود (ہو گیا)، بودند، بودی، بودید، بودم، بودیم۔ گردان مضارع ساری اردو میں مستعمل نہیں پہلا صیغہ (بَوَد: ہو جائے) معروف ہے۔

ہستن: فعل ناقص میں یہ ہستن سے اَستن پر آ جاتا ہے۔ اس کا معنیٰ فعل حال کا ہے اگرچہ گردان ماضی کی صورت میں ہو۔ یہ ماضی مطلق سے ماضی قریب بناتا ہے۔ دیدن (دیکھنا)، دید (اس نے دیکھا)، دیدہ است (اس نے دیکھا ہے)، رفت (وہ گیا)، رفتہ است (وہ چلا گیا ہے)، فہمیدن (سمجھنا)، فہمید (اس نے سمجھ لیا)، فہمیدہ است (اس نے سمجھ لیا ہے)، گردان مضارع: است، اَند، ای، اید، اَم، ایم۔

ان کے علاوہ ایک لفظ "می” (یائے معروف کے ساتھ) ہے، "می” لکھیں یا "مے” ایک ہی بات ہے۔ اس کو حرف استمرار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ فعل ماضی مطلق کو فعل ماضی استمراری اور فعل مضارع کو فعل حال بناتا ہے۔ رفت (وہ گیا)، می رفت (وہ جاتا تھا)، رَوَد (وہ جائے)، می رَوَد (وہ جاتا ہے)، شنید (اس نے سنا)، می شنید (وہ سنتا تھا)، شُنوَد (وہ سنے)، می شُنوَد (وہ سنتا ہے)۔ می کو فعل امر پر بھی داخل کرتے ہیں۔ بکُن (کر)، می کُن (کرتا رہ، کِیا کر)، بنویس (لکھ)، می نویس (لکھا کر، لکھتا رہ)۔ فعل نہی کے لئے مضارع سے پہلےم داخل کرتے ہیں۔ مَکُن (نہ کر)، مَکُنید (نہ کرو)، مَبُر (نہ لے جا)، مَبُرید (نہ لے جاؤ)، وغیرہ۔

کچھ اور الفاظ جن کا آخری حرفی ہے: یکی، یکے (ایک)، فقیری، فقیرے (ایک فقیر)، پادشاہی، پادشا ہے (ایک بادشاہ)۔ اردو والوں نے فقیری اور پادشاہی جیسے کلمات میں اِشکال سے بچنے کے لئے (ایک کے معانی میں) گولی کی بجائے لمبیے کو اختیار کر لیا اور بولنے میں بھی اسے یائے مجہول بنا لیا (اس سے بہت سہولت ہوئی ہے): زنے، روبا ہے، مردے، روزے، گاہے، بارے، بلے (ہاں)، ولے (لیکن)، دامے درمے سخنے، وغیرہ۔ مَی، یا مَے (یائے لین کے ساتھ) کا معنیٰ شراب ہے۔ لفظ مَے (مَی) دو حرفی ہے۔ اس کو مئے (م ء ی) لکھنا قطعی طور پر غلط ہے۔

فارسی اور اردو کے مصادر میں بسا اوقات یا تو اسم ایک جزو کے طور پر شامل ہوتا ہے یا اسم مصدر کی ساخت میں جھلک رہا ہوتا ہے۔ اردو مصادر اپنے خصائص میں متعدد صورتیں رکھتے ہیں: سادہ یا اکہرا مصدر، اسم اور مصدر کا اشتراک، اسم بطور جزوِ مصدر، اسمِ صوت پر مبنی مصادر اور مرکب مصادر، لازم اور متعدی کے مصادر، وغیرہ۔

سادہ یا اکہرا مصدر: (لکھنا، بولنا، پڑھنا، دیکھنا، سننا، دِکھانا، پرکھنا، سنبھلنا، سنبھالنا)۔

اسم اور مصدر کا اشتراک: (پتھر ہو جانا، شکار کرنا، صاف کرنا، موم ہونا، کالا کرنا، آواز دینا، جال پھینکنا، گرفتار کرنا یا ہونا، حیران ہونا یا کرنا، ویران کرنا، تلاش کرنا، حکم دینا، سُن کرنا یا ہونا، گم سم ہو جانا، قدم جمانا، گتھم گتھا ہونا، گلے پڑنا، دانہ ڈالنا، سہولت دینا، نرمی کرنا، سختی کرنا، قید کرنا، فائدہ اٹھانا، سہارا دینا، دکھ اٹھانا، موج کرنا، مزے کرنا، مزے لینا، برا منانا، خجل کرنا یا ہونا)۔

اسم بطور جزوِ مصدر: (قومیانا، برقیانا، مقنانا، سٹھیانا، دفنانا، کفنانا، پٹاخنا، داغنا، سنولانا، پتھرانا، جھٹلانا، گرمانا، رنگنا، کھوجنا، پچکارنا، دُکھنا، دُکھانا، شرمانا، پھونکنا)۔

اسمِ صَوت پر مبنی مصدر: (گَڑ گ  َڑانا، ہنہنانا، چہچہانا، سنسنانا، کَڑکَڑانا، پھڑپھڑانا، کُٹکُٹانا)۔ دوہرا مصدر: (چلے جانا، بیٹھ جانا، سوچ لینا، کر دینا، مر جانا، کر بیٹھنا، کھو دینا، ڈھونڈ لینا، پا لینا، دیکھ لینا، ہو جانا، رو دینا، ہنس پڑنا، جم جانا، جما لینا، جما دینا)۔

لازم اور متعدی افعال پر مبنی مصادر: (چلنا، چلانا، چلوانا، دِکھنا، دیکھنا، دِکھانا، ہِلنا، ہِلانا، اُٹھنا، اُٹھانا، اُٹھوانا، بولنا، بلانا، بلوانا، اُبلنا، اُبالنا، مرنا، مارنا، مروانا، بچنا، بچانا، پَکنا، پکانا، پکوانا، ٹوٹنا، توڑنا، تُڑوانا) وغیرہ۔

ہمیں اپنے اہلِ قلم سے بجا طور پر توقع رکھنی چاہئے کہ وہ اشرافی زبان کے تقاضوں سے نہ صرف بخوبی واقف ہوں بلکہ اپنے علم کو کام میں بھی لائیں اور عوامی زبان پر اچھے اثرات مرتب کر سکیں۔

 

 

 

 

قوتِ نافذہ اور بازیافت

 

ایک زبان کے الفاظ کا دوسری زبان میں رائج ہو جانے کا عمل ہم نے ایک حد تک دیکھ لیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا  جا چکا، لفظ کی ترویج کا یہ عمل عوامی زبان میں زیادہ ہوتا ہے کہ ذخیرۂ الفاظ اسی حصے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک لفظ جیسے آیا، اس میں کچھ جمع تفریق ہوا، اور وہ رواج پا گیا۔ لفظ کی چھان پھٹک اور اس کو ایک عمدہ معیار تک لانے کا کام اشرافی زبان کے امینوں کا ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اعلانیہ اور کچھ غیر اعلانیہ طریقے تشکیل پا جاتے ہیں جن کے مطابق مختلف کلمات کی ترکیب سازی ہوتی ہے، موجود، مقامی اور درآمدہ کلمات، اور زبان کے تہذیبی مزاج کے تال میل سے نئے الفاظ (اسماء، مصادر، تراکیب، افعال) بنتے ہیں یا پہلے سے موجود الفاظ کو نئے معانی ملتے ہیں، یوں زبان میں ترقی اور انحطاط کا مرکب عمل جاری رہتا ہے۔

اہم سوال ہے کہ اس ترقی کی نگرانی کون کرتا ہے یعنی اس سارے عمل میں انتظامی اختیارات کا حامل کون ہے؟ کوئی ایک شخص؟ کوئی ایک ادارہ؟ کچھ اداروں کی شرکت؟ کوئی سرکار یا سرکاری محکمہ؟ اور کہاں کس کا کہا قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ادارے بھی ہیں، کسی نہ کسی حد تک سرکار بھی ہے، اہلِ زبان اور اہلِ علم بھی ہیں مگر قولِ فیصل کسی کا بھی نہیں ہے۔ کلی قوتِ نفاذ کسی کو بھی حاصل نہیں اور نہ کسی طرح کی تعزیرات کا کوئی وجود ہے۔ سفارشات البتہ موجود ہیں اور ان میں سے کچھ مؤثر بھی ہو جاتی ہیں، یعنی ان کو قبولِ عام حاصل ہو جاتا ہے، کچھ کو نہیں بھی ہوتا، بلکہ بہت کچھ تو عوامی زبان کے حامل طبقے کے علم میں بھی نہیں آتا۔ ایک ضمنی سوال! کہ ایسے میں زبان کے قواعد کیوں کر بن گئے؟ مذکر مؤنث یوں ہو گا، واحد جمع یوں ہو گا، نحو کا نقشہ یہ ہو گا، صَرف کے انداز یہ ہوں گے، افعال یوں اخذ ہوں گے، تراکیب یوں بنیں گی، علم بیان کے خدوخال کی تفصیل یہ ہو گی، یہ سارا کچھ کہاں سے آ گیا؟ اور ان کو قاعدے کی حیثیت کیسے مل گئی!اس کے پیچھے ایک پوری تہذیبی نفسیات کار فرما ہوتی ہے، اہلِ جمالیات اور اہلِ علم عامۃ الناس کو راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ عمل گفتگو اور تحریر و تقریر کی صورت میں رواں رہتے ہوئے ایک معاشرتی معمول بن جاتا ہے۔ اہلِ علم لوگ انہی معمولات کو شعبہ وار جمع کرتے ہیں، قواعد اخذ کرتے ہیں اور کوئی چیز ماخوذ قواعد سے ہٹی ہوئی ہو تو اس کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ یہی زبان کے قواعد ہیں اور اس نکتے پر ہماری اِن گزارشات کے بنیادی مخاطبین اشرافی زبان کے امین ہیں۔

اس موضوع پر طویل مباحث ہوتے رہتے ہیں اور مزید کی بھی گنجائش ہے۔ وہ اپنے اپنے ذوق اور مزاج کی بات ہے۔ یہاں صرف دو باتیں عرض کرنے کی ہیں۔

اول: قوتِ نافذہ وہی طبقہ ہے جو زبان کے جملہ معیارات کا امین ہے اور اس ضمن میں اپنا کام کئے جا رہا ہے، اپنی سفارشات بھی پیش کرتا رہتا ہے۔

دوم: بازیافت کا عمل بھی ادبِ عالیہ سے منسلک ہے۔ ہر شخص کا ادیب ہونا ضروری نہیں تاہم کوئی ایسا خزینہ موجود ہونا چاہئے جس سے مبادیات تک میں استفادہ کیا جا سکے۔ وہ ہمارا ادبِ عالیہ ہے۔

 

 

 

 

کچھ مشترکہ قواعد

 

جمع بنانے میں عربی کے قواعد کا مطالعہ ہم کر چکے۔ عربی والی جمع مکسر فارسی میں بھی اور اردو میں بھی بہت رائج ہے۔ فارسی والوں کے کچھ دیگر طریقے بھی دیکھتے چلیں۔

واحد پر الف نون کا اضافہ: طفل، طفلان، بزرگ، بزرگان، مرد، مردان، زن، زنان، سگ، سگان، چشم، چشمان، یار، یاران، وغیرہ۔

واحد پر ہا کا اضافہ: کتاب، کتابہا، غنچہ، غنچہ ہا، قلم، قلم ہا، خیابان، خیابان ہا، ہزار، ہزارہا، شجر، شجرہا، سگ، سگ ہا، سنگ، سنگ ہا، ہزار، ہزارہا، وغیرہ۔

واحد پر گان کا اضافہ: بچہ، بچگان، کشتہ، کشتگان، بیگانہ، بیگانگان، دیوانہ، دیوانگان، ستارگان، سیارگان، بے چارہ، بے چارگان، وغیرہ (آخریہ جاتی رہی)۔

واحد پر جات کا اضافہ: پرچہ، پرچہ جات، پارچہ، پارچہ جات، ضمیمہ، ضمیمہ جات، نقشہ، نقشہ جات، حوالہ، حوالہ جات، وغیرہ۔

واحد پر الف ت، یات کا اضافہ: ادویات، صدمات، خدشات، فردیات، غزلیات، سمیات، اخبارات، اشتہارات، وغیرہ۔

اسماء کے شروع اور آخر میں وحدت و جمع اور تذکیر و تانیث کے علاوہ بھی کچھ بڑھایا جاتا ہے جس سے معانی کے نئے در وا ہوتے ہیں۔ ان میں سابقے لاحقے بھی ہیں اور متعلقاتِ کلمہ بھی ہیں۔ سابقے لاحقے بہت معروف ہیں، ان کو درجہ وار دہرانے کی ضرورت نہیں، کچھ ملی جلی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

بے کار، بے بضاعت، بے سبب، بے وجہ، بے سمت، بے ہوش،

بلا شک و شبہ، بلا امتیاز، بلا جواز،

ناکارہ، ناکام، ناراض، نابلد، نابکار، ناشائستہ، ناہنجار، ناکتخدا،

ذی شعور، ذی فہم، ذو معنی، ذو زنقہ، ذو القرنین، ذو الجناح،

صاحبِ شعور، صاحبِ دل، صاحبِ مال، صاحبِ نظر،

علی الاطلاق، علی الرغم،

فن کار، قلم کار، صلاح کار، گلو کار،

رفو گر، کاریگر، بخیہ گر، ستم گر، شیشہ گر، نغمہ گر،

قبلہ نما، قطب نما، دائرہ نما، بیضہ نما، راہنما،

ہلاکت خیز، بلا خیز، فتنہ خیز،

شراب خور، حرام خور، گوشت خور، آدم خور، سبزی خور،

یہ فہرست بہت طویل اور بہت معروف ہے۔ متعلقات کلمہ بھی کلمات ہی ہوتے ہیں:

دِیوانگی، فرزانگی، آوارگی، شائستگی، ہمسائے گی، برجستگی، خستگی، خواندگی، تیرگی،

مردانہ، بچگانہ، زنانہ، دیوانہ (دیووں کی طرح: یہ دِیوانہ سے مختلف ہے)، احمقانہ،

ارضیات، اقبالیات، طبیعیات، ریاضیات، فلکیات، نفسیات، خُمریات،

پاکستانی، ہندی، ایرانی، نحوی، صَرفی، علمی، ادبی، حضرمی، موسوی، عیسوی، انگریزی، چینی، ولندیزی، ایشیائی، یورپی، دیوانی، فوجی، فوج داری، وغیرہ۔

ایک سے زیادہ کلمات کو باہم ملا کر ترکیب بناتے ہیں۔ اس کو مرکب ناقص کہتے ہیں کہ بات سمجھ میں تو آ رہی ہے مگر بات مکمل نہیں ہے۔ مکمل بات مرکب تام ہے اور اس کو جملہ یا فقرہ بھی کہا جاتا ہے۔

مرکب اضافی (زیر کے ساتھ) میں ایک شے کا تعلق دوسرے اسم سے ہوتا ہے۔ مضاف کو پہلے لکھتے ہیں اور مضاف الیہ کو بعد میں: خانۂ شمار، روزگارِ فقیر، کارِ دُونان، تلاشِ رزق، خوئے غلامی، طرزِ حکومت، بلائے جان، نوائے سروش، علمِ فلکیات، سوئے حرم۔

مرکب توصیفی (زیر کے ساتھ) میں کسی اسم کا وصف مذکور ہوتا ہے: موصوف کو پہلے لکھتے ہیں اور صفت کو بعد میں: مردِ نادان، شہرِ بزرگ، وقتِ معلوم، دورِ تاریک، کہسارِ بلند، بحرِ بسیط، جوئے رواں، رسومِ قبیحہ، اعمالِ صالحہ، انبیائے کرام، انبوہِ کثیر، میء لالہ فام، برگِ زرد، شجرِ ممنوعہ، شبِ تاریک، روزِ روشن۔

مرکب عطفی میں اسماء کو کسی خاص سبب کی بنا پر یا کسی خاص مقصد کے لئے یک جا کرتے ہیں۔ روز و شب، شب و روز، دین و دنیا، دیدہ و دل، آمد و رفت، مرد و زن، کہ و مہ، خوب و زِشت، در و دیوار، شمس و قمر، زمین و آسمان، شجر و حجر، سنگ و آہن، کوہ و دریا، کوچہ و بازار، آمد و رفت، آب و دانہ، کرّ و فرّ، غرور و تمکنت، صبر و رضا، وغیرہ۔ ان مرکبات میں یہ اصول مان لیا گیا کہ اس میں عربی اور فارسی اسماء و افعال باہم ہو سکتے ہیں، تاہم اسمائے معرفہ غیر عربی غیر فارسی میں کوئی قباحت نہیں: ایشیائے کوچک، رود بارِ انگلستان، دریائے اٹک، شیرِ کہوٹہ، وادیء پوٹھوہار، تاریخ و ثقافتِ کھٹمنڈو، کوہسارِ مرگلہ، قلم کارانِ روالپنڈی، لاہور و کراچی، پنجاب و سندھ، پنجابی و پٹھان، وغیرہ۔

پنجابی، ہندی، اور بدیسی زبانوں میں مرکب اضافی کے لئے کا کے کی لایا جانا درست مانا  جا چکا ہے۔ اسلم کا گھر، رات کی تاریکی، دن کا وقت، میری کتاب، پہاڑ کی چوٹی، مرکب توصیفی میں صفت پہلے اور موصوف بعد میں: اونچا پہاڑ، کم ظرف آدمی، اندھی نگری، بہرے لوگ، چھوٹی سوچ، بڑے قد، مرکب عطفی کے درمیان لفظ اور آئے گا: میں اور تو، پہاڑ اور گلہری، چڑیا اور جگنو، مکڑا اور مکھی، وغیرہ۔

ایک طریقہ حکِّ اضافت کا ہے: خواب جزیرہ، دل دنیا، دل بستی، سوچ نگری، قمار خانہ، خیمہ بستی، چڑیا گھر، اس میں بہت گنجائش ہے اور کسی بھی زبان سے آئے ہوئے اسماء مصادر کو زیرِ اضافت یا زیرِ توصیف کے بغیر مرکب کیا جا سکتا ہے: بس سٹاپ، چپل ہاؤس، سانچہ میکرز، کباب سینٹر، شیشہ سروس، چرغہ ہاؤس، ڈائی مرکز، عید کارڈ، کھسہ فروش، نان بائی، چمڑہ منڈی، طوطا چشم، پنج کٹھہ، وغیرہ۔

 

 

 

 

تغیرات اور امتیازات

 

لفظی اور معنوی تغیرات (مثلاً: رسالہ، رسالت، عقیدہ، عقیدت، وغیرہ) کے بارے میں گزشتہ سطور میں گفتگو ہوئی ہے۔ ایک دوست کہنے لگے کہ باب مفاعلہ کے سارے مصادر ارد میں غلط مستعمل ہیں، ان کے اعراب مَفَاعَلَۃ پر ہونے چاہئیں یعنی سارے زبر جب کہ ہمارے ہاں یہ سارے مُفَاعِلَۃ پر ہیں: مُشاعِرہ، مُقابِلہ، مُقاتِلہ، مُخاصِمہ، وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی میں یہ باب مُفاعَلَۃ ہے (میم پر پیش کے ساتھ)، اس میں اسمِ فاعل مُفاعِل کے وزن پر اور اسمِ مفعول مُفاعَل کے وزن پر ہے۔ اس باب کے افعال میں ایک سے زیادہ لوگوں کی شراکت کے معانی پائے جاتے ہیں۔ ایک اکیلا شاعر شعر پڑھے تو اس کو مُشاعِرہ نہیں کہتے۔ مُقابِلہ اور مُقاتِلہ آپ اپنی ذات سے نہیں کر سکتے، کم از کم ایک فریق اور درکار ہوتا ہے، اسی طرح مُخاصِمہ، مخاصمت، منافرت، مصاحبت میں ہے کہ اس میں کم از کم دو فریق شامل ہوتے ہیں اور ان میں تعلق فاعل مفعول کا نہیں بلکہ مشارکت یا مقابلے کا ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاں سب فاعل ہیں وہاں مُفاعِلَۃ درست ہے۔ قرآن شریف کی ایک سورت کا نام ہے: سُورۃُ المُجادِلَۃ۔ اس کی پہلی ہی آیت میں ہے: "جو آپ سے اپنے شوہر کے معاملے میں جدال (جرح، جھگڑا، بحث) کرتی تھی”۔ سو، میرے دوست کا مؤقف درست نہیں ہے۔ اور کلمات مُشاعِرہ، مُناظِرہ، مُطالِعہ، وغیرہ (بر وزنِ مُفَاعِلہ) بالکل درست ہیں۔ زبان بدلنے سے معانی میں تغیر واقع ہو جانا عین فطری عمل ہے، یہاں تو کوئی ایسا بڑا تغیر بھی واقع نہیں ہو رہا۔

ایک ایک لفظ یا لفظوں کے گروہ پر اس قدر باریک مباحث ہماری ان گزارشات کا حصہ نہیں۔ تاہم کچھ موٹی موٹی باتوں کا جان لینا ضروری ہے۔ عربی مصادر کے ابو اب سے اسمِ فاعل اور اسمِ مفعول کی بات ہو چکی۔

مَفعَل اسمِ مفعول نہیں، اسمِ ظرف کا وزن ہے: مَنظَر، مَکتَب، مَقتَل، مَعبَد، مَطمَع، مَجمَع، مرکز، مطبخ، وغیرہ۔ اسمِ ظرف کا ایک وزن مَفعِل بھی ہے: مسجِد، منزِل، محفِل، وغیرہ۔

اسمِ آلہ کے معروف و مانوس وزن مِفعَل اور مِفعال ہیں: مِسطر، مِفتاح، مِقیاس، مِسواک، مِصرع، مِشعَل ( مَشعَل درست املاء نہیں ہے)، وغیرہ۔

ہم نے یہاں اردو میں مانوس تر مصادر بیان کئے ہیں۔ تشنگانِ ذوق کے لئے کتب خانے بھی موجود ہیں اور انٹرنیٹ پر سمعی بصری مِسلیں بھی میسر ہیں۔

؏: سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

"مِسل” (مِ سْ ل) وہی ہے جسے انگریزی میں فائل اور فارسی میں دفتر کہتے ہیں۔

؏: پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۔

اردو اور فارسی میں مِثل ہے (میم مکسور، ثاء مجزوم) معانی: مثال، جیسا۔ عربی میں مَثَل بھی ہے مِثْل بھی ہے۔

عربی کے کتنے ہی اسماء جو ساخت میں وتد مفروق ہیں اور ان کا کلمہ لام حائے حطی یا عین یا ہائے ہوز ہے، اردو شعر میں وتد مجموع اور وتد مفروق دونوں طرح درست مانے گئے ہیں: صبح، قدح، شرح، قزح، طمع، قلع، قمع، طبع، شرع، وجہ، زِرہ، وغیرہ۔

عربی مادوں میں بنیادی حرف ہمزہ اردو میں صَرف کے مطابق الف، واو، یاے درست مانا گیا ہے: ایمان (ء م ن)، مومن، باس (ب ء س)، استیصال (ء ص ل)، اطمینان (طم ء ن ن)، طمانینت (یاد رہے کہ طمانیت غلط العام ہے)، تاثیر (ءث ر)، اثرات، وغیرہ۔ بہت معاملات میں ہمزہ کو قائم بھی رکھتے ہیں: مؤثر (ءث ر)۔ عربی کا ہمزہ الف کا مجموعہ اردو میں الف ممدودہ بن جاتا ہے: آباء، آثار، مآرب، مآخذ، وغیرہ۔

فارسی میں شہزادہ، شہزادی کی بات ہو چکی۔ بچہ، بچی، دیگچہ، دیگچی، تختہ، تختی، خوانچہ، خوانچی، وغیرہ اسی نہج پر ہیں۔ اردو تذکیر و تانیث میں (الف، ء، ی) کی شناخت بھی اس سے ملتی جلتی ہے: چاچا، چاچی، تایا، تائی، طوطا، طوطی، نابینا (اندھا)، نابینی (نابینی بمعنی اندھی اردو پنجابی میں درست ہے، فارسی میں نابینا دونوں کے لئے ہے)۔

ایک اور بہت اہم مسئلہ ہے کہ اردو اسماء کے آخر میں الف کہاں درست ہے اور ہمزہ کہاں درست ہے۔

فارسی کے وہ اسمِ فاعل جو فعل متعدی سے ہیں، اُن کے آخر میںہ نہیں الف ہے: بینا، گویا، دانا، شناسا، آسا(ترکیب میں دلاسا یعنی دِل آسا درست، دلاسہ غلط)، آرا، وغیرہ۔

فارسی کے فعل لازم سے ہیں اُن کے آخر میں الف نہیں، ہ ہے: زندہ، آمدہ، آئندہ، رفتہ، مردہ، بوسیدہ، پرندہ، شرمندہ، وغیرہ۔

ہندی اور مقامی زبانوں کے اکثر زنانہ ناموں کے آخر میں الف ہوتا ہے: پُشپا، رُوپا، کَنیا، ماتا، بُڑھیا، مایا، رکھشا، سہائتا، شوبھا، وغیرہ۔ ہندی اسم فاعل اور اسمِ صفت مذکر کے آخر میں بھی الف ہوتا ہے: کرتا، دھرتا، مکھیا، رکھوالا، راجا، سیانا، داتا، دیوتا، وغیرہ۔ یاد رہے کہ و، ی (معروف) والے اسمِ فاعل اور اسمِ صفت اس فہرست میں زیرِ بحث نہیں تاہم کچھ ملی جلی مثالیں دیکھتے چلئے: دوکھی، جو گی، دوشی، مالی، ساجھی، ہالی، ماشکی، ڈھولی یا ڈھولچی، جو گی، سادھو، مادھو، گرو، دھانسو، وغیرہ۔ جب کہ واوِ مجہول اسمائے مؤنث کی علامت ہے: بنتو، گلابو، نصیبو، وغیرہ۔

ایک وضاحت: موٹُو (واوِ معروف کے ساتھ: مذکر)، موٹو (واوِ مجہول کے ساتھ: مؤنث)، گھِیسُو (واوِ معروف کے ساتھ: مذکر)، گھِیسو(واوِ مجہول کے ساتھ: مؤنث)، بِلُّو (واوہِ معروف کے ساتھ: مذکر)، بِلّو (واوِ مجہول کے ساتھ: مؤنث)، وغیرہ۔

 

 

 

 

 

اردو، پنجابی اور فارسی رسم الخط

 

اردو کی پیدائش اور اس کی تاریخ کے حوالے سے بہت زیادہ تحقیقاتی مواد بھی موجود ہے اور تجزیاتی بھی۔ اردو اور پنجابی لکھتے پڑھتے ایک عمر گزار لینے کے بعد ہماری یہ رائے پختہ سے پختہ تر ہو گئی ہے کہ اردو نے پنجابی کی کوکھ سے جنم لیا ہے، کوئی اس کو مانے یا نہ مانے۔ زبان کے پیدا ہونے میں کسی شہر کسی صوبے کی کوئی قید نہیں لگ سکتی۔ اردو کے لفظیاتی سرمائے اور جملے کی ساخت کا تجزیہ کریں تو پورے ہندوستان، ایران، عربستان سے کہیں زیادہ، اس کے خد و خال پنجابی زبان سے پیوستہ نظر آتے ہیں۔ پنجابی کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوا ہے کہ طالع آزماؤں نے اس کے علاقائی لہجوں کو لہجے ماننے کی بجائے الگ الگ زبانوں کی حیثیت دینے پر ساری توانائیاں صَرف کر دیں۔ اس کے باوجود پنجابی آج بھی ہزارہ سے بہاول پور اور دلی سے پشاور تک معروف اور مستعمل ہے، پنجابی کا کلاسیکی ورثہ اس امر کا شاہد ہے۔

پنجابی کے مختلف لہجوں اور املاء پر کام کرنے کے دوران ایک ایسا تجربہ بھی ہوا جس نے اس خیال اور یقین میں بدل دیا کہ پنجابی اردو کی ماں ہے۔ ذخیزۂ الفاظ کا جائزہ لینا ہو تو اردو کی کوئی سی ڈکشنری اٹھا لیجئے اور الف ممدودہ سے مطالعے کا آغاز کر دیجئے۔ اردو اور پنجابی کے اسماء میں کہیں کہیں لہجے کا فرق ضرور ہے، ذخیرۂ الفاظ میں اتنی سانجھ ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اردو کے نین نقش، چال ڈھال، رنگ روپ سارا اپنی ماں پنجابی پر ہے۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ بیٹی کو زمانے کی ہوا لگ گئی اور وہ کچھ نکھر گئی ہے۔ عربی اور فارسی کا جتنا اثر اردو نے قبول کیا، کم و بیش اتنا ہی پنجابی نے بھی قبول کیا ہے۔ اردو نے افعال و مصادر کی ساخت میں بھی پنجابی کا سارا نظام اپنایا ہے، ضرب الامثال اور محاورے بھی اکثر پنجابی والے ہیں، اسماء تو ہیں ہی! زبان اور زبان کے اشتراک میں سب سے اہم بات جملے کی ساخت ہوتی ہے۔ ایک جملے کا تقابلی جائزہ ہی بہت کافی ہو گا (پھیلانے کو جتنا چاہے پھیلا لیں)۔

اردو: ماں تین دن سے بیمار پڑی ہے۔ کسی نے کوئی دوائی لا کر نہیں دی۔

پنجابی: ماں تناں دناں توں بیمار پئی اے۔ کسے نے کوئی دوائی لیا کے نہیں دتی۔

عربی: کانت الام مریضۃ لمدۃ ثلاثۃ ایام۔ لا احد جاء بای دواء۔

فارسی: مادر سہ روز بیمار شدہ است۔ ہیچ کس ہیچ داروی بہ ارمغان نیاورد۔

نوٹ: مندرجہ بالا پنجابی شاہ مکھی یعنی فارسی رسم الخط میں ہے اور معروفِ عام ہے۔ بہ این ہمہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ اردو اور پنجابی میں باہم ترجمہ لفظ بہ لفظ (اسی ترتیب میں) ممکن ہے۔ جو عربی اور فارسی میں بھی ممکن نہیں۔

گرمکھی لپی بھارتی پنجاب والوں تک محدود ہے۔ مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ عالمی سطح پر گرمکھی کو پنجابی کا رسم الخط جانا اور مانا جا رہا ہے۔ پاکستانی پنجاب کی آبادی دس کروڑ اور بھارتی پنجاب کی آبادی تین کروڑ ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوئی کہ شاہ مکھی لکھنے والوں کے بہت سارے بر خود غلط دماغوں نے اس کی ترویج سے کہیں زیادہ محنت اس کی تخریب اور حصے بخرے کرنے پر صرف کی۔ اب تو پنجابی کو گھروں سے نکال باہر پھینکا جا رہا ہے، سکول میں تو اسے داخلہ ہی نہیں ملا۔

ہندی کا رسم الخط دیوناگری سے ماخوذ ہے (بائیں سے دائیں)، لفظیات کا جھکاؤ واضح طور پر سنسکرت کی طرف ہے، بیسویں صدی کے نصف آخر سے پاکستانی اور ہندوستانی اردو میں خاصا بُعد پیدا ہوا ہے۔ انگریزی تو ہے ہی بدیسی زبان کہ اس کا رسم الخط، اسماء و افعال، اصول و قواعد اور ترتیبِ نحوی کے علاوہ صوتی نظام اردو سے قطعی مختلف ہے۔ واضح رہے کہ زبان اور رسم الخط دو مختلف چیزیں ہیں۔ ایک ہی زبان ایک سے زیادہ رسوم الخط میں بھی لکھی جا سکتی ہے تاہم وہ سارے یکساں طور پر مفید نہیں ہو سکتے۔ پنجابی کے لئے شاہ مکھی اور گرمکھی دونوں رسم الخط مستعمل ہیں اور پنجابی کو کسی میں بھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ نعرے بازوں اور سیاسی مفاد پرستوں کو زبان سے نہیں اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے کہ ایک صوبے کو زبان بلکہ لہجوں کی بنیاد پر تقسیم کر لو، اور کچھ نہیں تو ایک نئی اسمبلی، وزراء اور مشیروں کی جماعت کے علاوہ ایک وزیرِ اعلیٰ اور ایک گورنر کی جگہ تو بنے گی، کچھ نہ کچھ لے ہی مریں گے۔

متعدد زبانیں ایک ہی رسم الخط میں بھی ہو سکتی ہیں۔ اردو، پنجابی، فارسی، عربی کے علاوہ پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، ہندکو، شینا، وغیرہ اور اتاترک سے پہلے کی ترکی، سب فارسی رسم الخط میں ہیں۔ بہ این ہمہ ایک زبان کا ایک خاص رسم الخط اختیار کرنا ایک مستقل موضوع ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو کی سب سے زیادہ پذیرائی پاکستانی پنجاب نے کی ہے۔ گلی محلے اور بازار میں، دفاتر میں، بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن اور ہوائی اڈوں پر، جلسہ گاہوں اور تقریبات میں، کارخانوں میں، جتنا رواج اردو کا پاکستانی پنجاب میں ہے کسی اور صوبے میں نہیں۔ اب تو اہلِ پنجاب کے گھروں میں بھی پنجابی کی جگہ اردو نے لے لی ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ بعض مواقع پر پنجابی میں بات کرنا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس میں دیگر سماجی عوامل کے علاوہ یہ حقیقت بھی کار فرما ہے کہ پنجابی اور اردو میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ اس رویے سے عوام الناس میں تحریری پنجابی کے پنپنے کی رفتار جو پہلے ہی سست تھی، مزید سستی کا شکار ہوئی ہے۔ تاہم اردو نے عوامی اور اشرافی دونوں سطحوں پر ترقی کی ہے اگرچہ اردو کو ویسی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی جو ہونی چاہئے تھی۔ انگریز سرکار کو یہاں سے گئے پون صدی ہو گئی مگر سرکاری دفاتر اور تعلیمی ذرائع کی زبان ہنوز انگریزی ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ انگریزی ہے۔ یہ ایک اور المیہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم نامے کو بھی مِسلوں میں دبے تین برس ہو چلے ہیں۔

اردو میں مستعمل بعض مرکب حروف (لھ مھ نھ) پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ حروف ہندی میں نہیں ہیں اور نہ ہی دیوناگری خط میں ہیں، تو یہ اردو میں کہاں سے آ گئے۔ اس پر ہمارا بہت واضح مؤقف ہے کہ:

(اول): اردو نے فارسی کو اپنا رسم الخط بنایا ہے دیوناگری کو نہیں۔ ہندوستان میں بولی جانے والی وہ آوازیں جو اردو میں داخل ہیں (ٹ، ڈ، ڑ، بھ، پھ، تھ، ٹھ: پوری سیریز) جن کے لئے فارسی رسم الخط میں کوئی حرف مختص نہیں تھا، اردو نے فارسی کے حروف ہجاء میں کچھ بدل کر کچھ گھٹا بڑھا کر وہ آوازیں حاصل کر لیں۔ اردو میں "آدھے اکھر” بھی نہیں ہیں۔ ہم نے (ی، ر، و) کو پورا لکھ کر آدھا پڑھ لیا، اور اپنا مسئلہ حل کر لیا۔ گرمکھی والوں نے بھی بندی لگا کر نئے حرف بنا لئے۔ دیوناگری والے بھی کر سکتے ہیں، اگر وہ پسند کریں۔ بلکہ دیوناگری تو گورمکھی کی ماں ہے۔

(دوم): دیوناگری کے پاس (ذ ز ض ظ) کی آوازیں ہیں ہی نہیں۔ وہ جیم کی آواز سے کام چلا رہے ہیں، بِندی انہوں نے بھی لگائی ہے۔ پھر (ت ط) ہے، (ق ک) ہے، (گ غ) ہے، (خ کھ) ہے، (ح ہ) ہے، (ع ا) ہے، ان جوڑوں کے لئے ان کے پاس ایک ایک آواز ہے، جو اردو کے لئے کافی نہیں۔ موجودہ منظر نامے میں یہ اگر مجبوری ہے تو دیوناگری کے خط کی ہے نہ کہ اردو زبان کی۔ اور آپ کے قاری کی مجبوری یہ ہے کہ وہ وہی کچھ پڑھے گا اور ویسے ہی پڑھے گا جیسے آپ نے لکھا ہے۔ یہی کچھ لھ، مھ، نھ کے ساتھ ہے کہ ہمیں اردو میں بھی اور پنجابی (شاہ مکھی) میں بھی اِن آوازوں کے لئے حروف کی ضرورت تھی، سو ہم نے وضع کر لئے۔ رومن یہاں بھی خارج از بحث ہے۔

 

 

 

 

 

کچھ توجہ طلب جزئیات

 

تخاطب اور فعل امر جمع میں واو پر نون غنہ شامل کرنا درست نہیں۔ "بھائیو اور دوستو!” درست ہے ( "بھائیوں اور دوستوں!” غلط ہے)۔ تخاطب جمع کے لئے واحد اسم کے آخر میں واو داخل کر دیں اسے واوِ خطابیہ بھی کہا جا سکتا ہے: دوستو، بھائیو، لوگو، ساتھیو، شیرو، بزرگو، صاحبو، کم بختو، وحشیو، رفیقو، وغیرہ۔ واحد اسم کے آخر میں ہائے خفی، یا الف واقع ہو رہی ہو تو خطابیے میں حذف ہو جاتی ہے: بچہ سے بچو، چھوٹا سے چھوٹو، چڑیا سے چڑیو، دیوانہ سے دیوانو، وغیرہ۔ بعض واحد اسماء کے آخر میں واقع ہونے والا الف ساختیاتی اعتبار سے ناقابلِ حذف ہوتا ہے۔ دریا، ہوا، صحرا، خدا، آشنا، مہلا، ریکھا، راجا، وغیرہ۔ اسے قائم رکھتے ہوئے تخاطب جمع بنانے کے لئے ان پر ہمزہ واو کا اضافہ کرتے ہیں۔ دریاؤ، صحراؤ، ہواؤ، خداؤ، آشناؤ، مہلاؤ، ریکھاؤ، راجاؤ، وغیرہ۔ فعل امر جمع بھی اسی نہج پر ہے: سنو، دیکھو، سمجھو، سیکھو، بھاگو، آؤ، جاؤ، بجھاؤ، جیو، پیو، وغیرہ۔

ایک جیسی املاء کے حامل الفاظ اپنی اصل اور مقام کے مطابق الگ الگ معانی کے حامل ہو سکتے ہیں۔ تذکیر و تانیث سے قطع نظر چند مثالیں: آیا (بچوں اور مریضوں کی خادمہ)، آیا (آنا سے فعل ماضی کا صیغہ)، آیا (سوالیہ)، دِیا (چراغ)، دِیا (دینا سے فعل ماضی کا صیغہ)، سونا (دھات)، سونا (نیند کرنا)، سِینا (صحرائے سِینا، وادیئِ سینا: ایک علاقے کا نام ہے)، سِینا (سلائی کرنا)، چاند (قمر)، چاند (گنجا سر)، وغیرہ۔ اس کے علی الرغم لئے، لیے، لیجئے، لیجیے، سنئے، سنیے، دونوں صورتیں درست ہیں۔ لیجئے، دیجئے، کیجئے کا جیم اصلاً ی ہے، اس کی جگہ واو ہو تو اسے جیم سے بدلا بھی جاتا ہے اور نہیں بھی: ہوئیے، ہو جئے، ہو جیے، بوئیے، بوجئے، بوجیے، اور اگر الف ہو تو: آئیے، جائیے، فرمائیے، سنائیے، شرمائیے، وغیرہ۔ یہاں کوئی وجہِ نزاع ہے ہی نہیں، کہیں اگر معدودے چند الفاظ اعراب لگائے بغیر اس سانچے میں نہیں بیٹھتے تو وہاں اعراب کا اہتمام کیا جا سکتا ہے یا اُن کو استثناء میں رکھا جا سکتا ہے بجائے این کہ اُن کی وجہ سے پورا ڈھانچہ بدل دیا جائے۔

اگرچہ ہمارے ہاں ایسے بے شمار الفاظ ہیں جہاں صرف حرکت بدل جانے سے معانی بدل جاتے ہیں: اِدھر، اُدھر، دَل، دِل، عِلم، عَلَم، گھَر گھَر، گھِر گھِر، گھُر گھُر، بَس، بِس، پَل، پُل، سَر، سُر، سِر، چَپ، چُپ، چِپ، گھَن، گھِن، گھُن، خَم، خُم، دَم، دُم، وغیرہ (بہت طویل فہرست بنتی ہے)، ہمیں عام طور پر اعراب لگانے نہیں پڑتے، اِلا ماشاء اللہ۔ بہ این ہمہ اعراب کو کالعدم تصور نہ کر لیا جائے، جہاں اعراب نہ لگانے سے کوئی مغالطہ پیدا ہوتا ہو، کسی غلطی کا امکان ہو، آپ کسی کو زبان سکھا پڑھا رہے ہوں، موضوعِ بحث اعراب ہوں، یا کسی بھی سبب سے ضروری ہو، اعراب لگا لینا بہتر ہے۔

وضاحت: عربی میں اعراب پورے نظام کا نام ہے۔ حرکت، سکون، جزم وغیرہ کو جب وہ کسی لفظ کے آخری حرف پر ہو تو اعراب (رفع، نصب، جر، تنوین)، اور لفظ کے اندر کسی حرف پر ہو تو حرکت (ضمہ، فتحہ، کسرہ، جزم) کہتے ہیں۔ اردو میں ان سب کو بلا امتیاز اعراب کہہ دیا جاتا ہے اور نام حرکات کے لئے جاتے ہیں۔ جار مجرور، اضافت، توصیف، انصراف، مبنی، معرب وغیرہ کے اعراب عربی نظام میں ہیں، اسمِ مرۃ بھی عربی سے خاص ہے۔ اردو میں ان کا اطلاق ویسا نہیں ہوتا۔

آخری واو کی صوتیت کے حوالے سے کھڑی بولی، بھاشا، ہندی، اور اردو کے کچھ خاص خاص الفاظ میں مناقشہ پایا جاتا ہے۔ (۱) تاؤ (حدت، گرمی، تَپ): پنجابی میں تا، ہندی میں تاو، اردو میں تاؤ، ہم معنی اسماء ہیں۔ ہندی اور اردو میں تاؤ فعل امر ہیں۔ (۲) ہٹاؤ (اپنی جگہ سے ہٹنا یا ہٹانا): پنجابی میں ہٹا، ہندی میں ہٹاو، اردو میں ہٹاؤ، ہم معنی ہیں۔ ہندی اور اردو میں ہٹاؤ فعل امر ہیں۔ (۳) سبھاؤ (مزاج): پنجابی میں سبھا، ہندی میں سبھاو، اردو میں سبھاؤ، ہم معنی اسم ہیں۔ سبھا (پنچایت، مجلس) الگ لفظ ہے۔ ان کا تجزیہ کر کے دیکھیں۔ ہندی اسماء (تاو، ہٹاو، سبھاو) ادائیگی میں بالکل اردو کی طرح (تاؤ، ہٹاؤ، سبھاؤ) ہیں۔ تاؤ اور ہٹاؤ، ہندی میں فعل امر ہیں، اردو میں اسم بھی ہیں اور فعل امر بھی۔ مناقشہ یہ آن پڑا کہ ہندی رجحان رکھنے والوں کے ہاں ہجائی اور عروضی دونوں سطحوں پر اسم کی صورت میں تنہا واو اگرچہ بصورت ؤ لکھا ہو، اکیلا حرف (ہجائے کوتاہ) ہے اور فعل کی صورت میں ؤ دو حرفی (ہجائے بلند) ہے۔ اردو صوتیات میں یہ فرق یوں مؤثر نہیں ہے کہ ہمارے ہاں اکیلا واو ساکن محال ہے۔ کسی لفظ کا جزو ہو تو: حرف ماقبل سے جڑا ہوتا ہے (کَون، بولو، بھالو)، یا متحرک ہوتا ہے (وَہاں، وُہی، وِہاڑی)، یا واوِ معدولہ ہے، ترکیب میں ہو تو صوت میں اپنے ماقبل سے مل جاتا ہے (مال و زر، علم و عرفان)، وغیرہ۔ جہاں یہ ؤ لکھا ہے، وہ اصولی اور صوتیاتی دونوں طرح ہجائے بلند ہے، اسے ؤ (بہ صَوتِ "او”) پڑھا جائے گا (شعری ضرورت میں واو کا گرنا، نہ گرنا دوسری بات ہے)۔ یہی ہمارا مؤقف ہے۔

میرے بچو! مرے سائے میں سماؤ، آؤ

میں سہاروں گا کڑی دھوپ کا تاؤ، آؤ

دیکھے بھالے ہیں مرے، دام پرانے سارے

ہم سرو! کوئی نیا جال بچھاؤ، آؤ

آؤ، یعقوب سے پوچھیں کہ غمِ ہجر ہے کیا

کس طرح درد سے بن جاتے ہیں گھاؤ، آؤ

 

 

 

 

وسعت اور عصبیت

 

بیاہ (شادی، خانہ آبادی) سے بات شروع کی جائے۔ پنجابی کے کئی لہجوں میں اس کی صوتیت بالکل یہی ہے۔ ماجھی اور دیگر بہت سارے لہجوں میں اسے "ویاہ” کہتے ہیں (ب کی جگہ و)۔ دریائے بیاس کا نام "ویاس” اور "ویاہ” بھی مستعمل ہے (س کی بجائے ہ)۔ گھاس (اردو)، گھاہ، گھا (پنجابی)، بانس (اردو)، وانس، وَنجھ (پنجابی)، سانس (اردو)، ساہ (پنجابی)، بَس (اردو)، وَس، واہ (پنجابی)، برس (اردو)، ورھا (پنجابی)، برسنا (اردو)، وَرھنا، وَسنا (پنجابی)، بَسنا، بَستی (اردو)، وَسنا، وَستی (پنجابی)، ہزاروں مثالیں ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پنجابی میں (ب، و)، (س، ہ)، (گ، ج) وغیرہ ہر دو لہجوں معروف ہیں۔ اردو میں علت کے مقابل پنجابی میں اُن کے اعراب (الف، زبر، واو، پیش، یے، زیر) کی صورت بھی بہت عام ہے: بھول چوک (بھُل چُک)، پوت (پُت)، ٹوٹنا (ٹُٹنا)، لُوٹنا (لُٹنا)، بھُوننا (بھُننا)، بھُن جانا (بھُجنا)، دابنا (دَبنا)، دابے جانا (دبیجنا)، بھاگنا (بھَجنا)، بھیگنا، بھیگ جانا (بھِجنا)، ڈبونا (ڈوبنا)، چبھونا (چوبھنا)، وغیرہ۔ یہ تقابلی مطالعہ دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا طویل بھی ہے اور اس مؤقف پر بھی دال ہے کہ پنجابی اردو کی ماں ہے، بیٹی کو زمانے کی ہوا لگ گئی، بس!

ادھر ہندی اور پنجابی میں بھی بہت ساری سانجھیں ہیں اور ان کی جھلک بھی اردو میں پائی جاتی ہے۔ ملے جلے الفاظ کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں: بارش، برکھا، ورشا، برسنا، وسنا، ورھنا، مینہ، میگھا، بادل، بدّل، پورب، پچھم، پُوروا، پُرا، پچھو، چاند، چَند، چَن، چاننی، چاندنی، چندرما، بانس، بانسری، وانس، ونجھ، ونجھلی، بنسی، بان، وان، گاوا، ماجھا، بَولد، بکری، بکروٹا، بکر وال، چھیڑنا، چھِڑنا، چھیڑ، چھیڑو، چھَڑ، مُدھ، مُدھنا، مِدھنا، مدھانی، مِدھ، مکھن، مکھانا، مکھنی، مکھچو، گنتی سب میں تقریباً مشترک ہے، اردو اور پنجابی گنتی میں زیادہ قربت ہے۔

اِس مطالعے کا حاصل یہ ہے کہ اردو میں لچک بھی بہت ہے اور گنجائش بھی، اس خوبی کو زبان میں وسعت کا باعث بننا چاہئے۔ اردو کا ہر لکھاری اور قاری اپنی اپنی مذہبی ثقافتی سماجی اقدار و روایات اور رجحانات کے مطابق چلے گا، یہ عین فطری بات ہے۔ سو، یہ کہنا کہ اردو کو مذاہب سے بالاتر یا بیزار ہونا چاہئے، بالکل غلط ہے۔ اردو کو اِس قابل ہونا چاہئے (اور ہے بھی) کہ اپنے بولنے والوں کے سارے مذکورہ اور غیر مذکورہ رجحانات کو نبھا سکے۔ تکلیف دِہ فکری رویہ یہ ہے کہ اردو میں ہندومت کی جھلک آ گئی، کوئی بات نہیں، عیسائیت کی آ گئی، کوئی بات نہیں، فلاں کی آ گئی، کوئی بات نہیں، اسلام کی آ گئی تو شور مچ گیا کہ زبان اغوا ہو رہی ہے۔ ضرورت اس تلخ حقیقت کے ادراک کی ہے کہ مذکورہ فکری رویے کا محرک اور منتہا اردو دشمنی سے کہیں زیادہ اسلام دشمنی ہے۔

اُدھر اِس فکر کو ہوا دی جانے لگی کہ فارسی لفظیات باہر سے آئی ہیں، عربی باہر سے آئی ہے، فلاں باہر سے آئی ہے۔ یہ زبانیں اردو کے خمیر میں شامل ہیں، ان کو نکال دیجئے چھان بورا رہ جائے گا، اسے چاہے روسی خط میں لکھئے چاہے چینی خط میں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں یہاں کے لوگوں کو دیکھئے کتنی نسلیں ہیں اور آگے ان کے اشتراک سے کتنی نسلیں بن گئی ہیں۔ ان کے ابا و اجداد بھی تو باہر سے آئے ہیں۔ موجودہ دنیا کی اولین آبادی تو اراراط کے دامن میں بسی تھی! یہ اندر باہر والی باتیں تعصب کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ رسوم الخط کی بات پہلے ہو چکی کہ اردو کا اصل رسم الخط فارسی ہے اور یہی اس کو زیب دیتا ہے۔ مقامی، علاقائی، سیاسی مصلحتیں اپنی جگہ جو بھی رہی ہوں، کوئی اور خط اس کی جگہ لے ہی نہیں سکتا۔ ایک اٹل حقیقت یہ بھی ہے کہ فی زمانہ بغیر کسی خارجی قوت (سیاسی، فوجی، تجارتی تسلط) کے یہ زبان اسی رسم الخط کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔

 

 

 

 

بعض دل چسپ موازنے

 

یہاں مصادر کے چند جوڑے نقل کئے جا رہے ہیں جن میں لفظی اور معنوی دونوں سطح پر بہت دل چسپ قربت پائی جاتی ہے۔

چٹخنا اور چٹکنا: چٹخنا عام طور پر کرختی کے معانی رکھتا ہے جیسے پتھر، شیشے، دھات وغیرہ کا چٹخنا، جب کہ چٹکنا میں کسی حد تک نزاکت کے معانی شامل ہیں جیسے کلیوں کا چٹکنا۔

ڈھانکنا اور ڈھانپنا: ان میں حدِ فاصل کھینچنا قدرے مشکل ہے۔ کھانے پینے کی اور دوسری اشیاء کو ڈھانکا جاتا ہے، جسم کو ڈھانپا جاتا ہے۔

ناپنا اور ماپنا: عام مفہوم ناپنا کسی بھی طرح کی پیمائش کے لئے ہے یعنی لمبائی، چوڑائی، رقبہ، حجم، وزن، درجہ حرارت، فاصلے وغیرہ۔ گردن ناپنا (محاورہ) بھی اسی میں ہے۔ گھرہستی لہجے میں ماپنا مقبول ہے۔

کچھ الفاظ جن کے غلط یا درست ہونے کی بحث بجائے خود محبوب ہو چلی ہے، الفاظ جوں کے توں ہیں۔ علیحدہ، علاحدہ، وغیرہ، البتہ، علاوہ اصلاً عربی سے ہیں مگر املاء و اعراب اور معانی میں اتنے بدل گئے ہیں کہ اردو ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کو جیسے رائج ہیں ویسے ہی رہنے دیجئے۔ علیحدہ اور علاحدہ (برائے اردو) دونوں املائیں درست ہیں، علیحدہ بہت پہلے سے رائج ہے اسی کو چلنے دیجئے، کسی نئی پخ کی ضرورت تو کوئی نہیں۔

ناراضگی اور ناراضی (بمعنی حاصل مصدر: غصے ہونا) اگر غلط ہیں تو دونوں غلط ہیں اور اگر درست ہیں تو دونوں درست ہیں۔ لافانی، غیر فانی، بے معنی، ناکافی کی نہج پر نارضی اور ناراض ہم معنی ہو جاتے۔ ناراضگی میں گاف کا ہونا اس کو غلط بناتا ہے مگر اس کے بوجود نہ صرف یہ رائج ہے بلکہ ادائیگی، موجودگی، پیشگی جیسے الفاظ کے لئے بنائے ترویج بھی ہے۔ ہماری رائے ہے کہ اسے بطور غلط العوام قبول کر لیجئے اور ناراضی کو ناراض کے معانی پر رہنے دیجئے (بہ الفاظِ دیگر بھول جائیے) کہ لفظ ناراض پہلے سے مانوس ہے۔ اگر ایک لکھاری ناراضی کو ناراض کے معانی میں لاتا ہے تو وہ غلطی پر نہیں ہے۔

لفظ رہائش کسی لگے بندھے قاعدے کلیے پر نہ ہوتے ہوئے بھی اتنا زیادہ مستعمل ہے کہ عوامی زبان میں اس کی تراکیب بھی فارسی طرز پر بن چکی ہیں: جائے رہائش، مقامِ رہائش، وغیرہ۔ ادھراِس کے متبادل بہت سارے الفاظ بھی موجود ہیں: ٹھکانا، گھر، دولت خانہ، غریب خانہ، سکونت، مکان وغیرہ۔

دو لفظ: کافی اور خاصا، کافی کا درست محل وہ ہے کہ کسی شے عمل تعداد مقدار کا ذکر کسی خاص مقصد یا ضرورت کو پورا کرنے کے حوالے سے ہو۔ اس میں تعداد کا کافی یا ناکافی ہونا اس مقصد کے لئے ہوتا ہے۔ ایک کام کے لئے پانچ لوگ کافی ہوتے ہیں ایک کے لئے سو بھی کافی نہیں ہوتے، ایک مقصد کے لئے سو روپے کافی ہوتے ہیں ایک کے لئے ایک لاکھ بھی کافی نہیں ہوتے۔ خاصا (مؤنث: خاصی) کے لئے کوئی حوالہ لازم نہیں آتا، اس میں تعداد کا قابلِ لحاظ ہونا مشروط ہے۔ کافی لوگ آ گئے (کس مقصد کے لئے کافی؟)، خاصے لوگ آ گئے (ایسا کوئی تقاضا نہیں: بیانِ عام ہے)۔ میرے پاس کافی رقم موجود ہے (اس کے پیچھے کوئی مقصد مذکور یا غیر مذکور ہونا چاہئے جس کے لئے یہ رقم کافی ہے)، میرے پاس خاصی رقم ہے (ایسا کوئی تقاضا نہیں: بیانِ عام ہے)۔ خاصّہ کا معنیٰ خاصیت ہے (کوئی وصف جو خاص طور پر مذکور ہو)، اس کو خاصا، خاصی سے خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔

 

 

 

 

 

لکھنے کی اہمیت

 

لکھنا یقیناً ایک بہت اہم اور ذمہ دارانہ کام ہے۔ آپ لکھتے ہی اس لئے ہیں کہ اپنے قاری کے ذہن و دل پر اثر انداز ہو سکیں۔ یوں آپ کی تحریر کا اصل معیار اس کی اثر پذیری ہے۔ گالی دینے کی نہیں ہو رہی صاحبو! ہماری بات کا رخ بھلائی کی طرف ہے۔ نفسِ مضمون اور مقصد تو ظاہر ہے آپ کا ہے اور صنفِ سخن کا انتخاب بھی آپ کرتے ہیں، یہ تینوں چیزیں مل کر لفظیات کا تعین کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دقیق و عمیق علمی عقلی اور منطقی دلائل کے لئے سلیس اردو میں بات کرنا کارِ سہل نہیں۔ دوسری طرف روزمرہ زندگی کے موضوعات میں دقیق زبان کا استعمال آپ کے اور قاری کے درمیان فاصلہ پیدا کر سکتا ہے۔ آپ کو اپنی تحریروں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لانا ہے اور اپنے قاری کو بھی اپنے ساتھ رکھنا ہے۔ بلکہ اس کی ذہنی اور فکری سطح کو بلند کرنا ہے۔

تخلیقی زبان میں سب سے اہم چیز جمالیات ہے، یعنی قابلِ توجہ بنانا یا چاشنی پیدا کرنا۔ اس کے لئے آپ کہانی کاری بھی کر سکتے ہیں، افسانہ طرازی بھی، شگفتہ نگاری سے بھی کام لے سکتے ہیں اور سادہ بیانی سے بھی۔ آپ کا تخیل آپ کا اچھا معاون ہے، تاہم حقائق کے قریب تر رہنا اور اپنے معاشرے کی نفسیات کو پیشِ نظر رکھنا آپ کے لئے بہت ضروری ہے۔ آپ تخیلاتی دنیا اور تصوراتی معاشرت کے سہارے پر لکھ تو سکتے ہیں مگر وہ فن پارہ تبھی بنے گا جب اس میں توازن ہو گا۔ دیووں جنوں کی دنیا، عجیب و غریب جانور، معروف طبعی قوانین سے ہٹے ہوئے مظاہر، مافوق الفطرت کہانیاں جیتی جاگتی تلخ و شیریں زندگی سے وقتی فرار کا موقع ضرور دیتی ہیں، اور یہی ان کی افادیت ہے۔ آپ کا لکھا ہوا جتنا حقیقی ہو گا اور مستقل اقدار کے جتنا منسلک ہو گا، اتنا ہی دیرپا ہو گا۔ آپ خود روایات سے باغی ہیں تو آپ کو اس بغاوت کا جواز بھی اپنی اسی تحریر میں پیش کرنا ہے، جس میں آپ وہ طرز اختیار کر رہے ہیں، یہ عمل جتنا غیر محسوس انداز میں ہو، اتنا اچھا ہے۔

اپنے کہے لکھے کو ادب کا درجہ دلوانا ہے تو آپ کو زبان و بیان روزمرہ محاورہ تشبیہ و استعارہ تلمیحات اور مراعات و علامات سے بھی کام لینا پڑے گا۔ اور اس سے بھی پہلے املاء تلفظ معانی کی درستی کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔ نصابیات کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ آپ کی زبان صدیوں کا سفر کر کے آج جہاں پہنچی ہے اس میں نصابیات کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ لسانیاتی قواعد و ضوابط کی پابندی ایک ادیب نہیں کرے گا تو کون کرے گا! آپ کو ان پابندیوں میں رہتے ہوئے اپنے لئے راستہ بنانا ہے۔

تکلفات اور پر تکلف تحریر دونوں کی اپنی اپنی چاشنی ہوتی ہے لیکن آپ کو اور آپ کے قاری کو جتنی سہولت رواں نگاری میں ہے وہ کہیں اور نہیں۔ بہ این ہمہ آپ ان تکلفات سے قطعی بے گانگی بھی اختیار نہیں کر سکتے۔ آپ کو تحریر کے فطری بہاؤ میں آتا ہوا خود کار قسم کا توازن بھی بنانا ہے اور قاری کی توجہ کو بھی اپنی گرفت میں رکھنا ہے۔ اس کے لئے دریا کی ہموار اور خاموش روانی میں بھنور بھی پیدا کرنے ہیں اور لہریں بھی، نہیں تو آپ کا قاری آپ سے اکتا جائے گا۔

اپنے جملوں کو غیر ضروری طور پر طویل نہ کیجئے اور نہ اتنے مختصر کہ ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہو جائے۔ اختصار میں حسن اور چستی ہے تاہم اس کے لئے آپ کو محنت کرنی ہو گی۔ لمبی بات کو کم لفظوں میں بیان کرنے کے لئے ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ سلامتِ طبع بھی ضروری ہے۔ اپنی تحریر کو منطقی بہاؤ اور تسلسل میں رکھئے تاکہ آپ کا قاری آپ کے ساتھ ساتھ چل سکے اور اسے کہیں عقلی ذہنی فکری چھلانگ لگانی پڑے تو اسی تسلسل میں لگا جائے، اسے رُکنے نہ دیجئے۔

ایک ادیب کی حیثیت سے آپ اپنی زبان کے امین بھی ہیں۔ آپ کو موجود لسانی ورثے کی حفاظت بھی کرنی ہے اور اسے جامد بھی نہیں ہونے دینا۔ اس کے لئے آپ کو کردار نگاری بھی کرنی پڑے گی اور اپنی کہانیوں اور افسانوں میں کچھ الگ الگ لفظیاتی ماحول بھی بنانا پڑے گا۔ اس سے آپ کی تحریروں میں بھی تنوع پیدا ہو گا اور لسانی ورثے میں بھی مفید اضافہ ہو گا۔

٭٭٭٭

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان

سوموار 25۔ فروری 2019ء

 

اضافی معلومات (شخصی)۔

 

محمد یعقوب آسیؔ کی تصانیف

زمینی اشاعتیں

فاعلات: اردو کے لئے عروض کا نیا نظام۔ ۱۹۹۳ء

مجھے اک نظم کہنی تھی: اردو نظمیں۔ ۲۰۱۵ء

پنڈا پیر دھروئی جاندے: پنجابی شاعری۔ ۲۰۱۵ء

لفظ کھو جائیں گے: اردو غزلیں۔ ۲۰۱۵ء

خوشبو اور پہیلی: اردو نثر۔ ۲۰۱۸ء

انٹرنیٹ اشاعتیں

آسان عروض کے دس سبق: اسباق۔ ۲۰۱۲ء

فاعلات: ترمیم اور اضافے کے ساتھ۔ ۲۰۱۴ء

زبانِ یارِ من: فارسی زبان اہلِ قلم کے لئے۔ ۲۰۱۴ء

بھلے لوگ: انور مسعود اور علی مطہر اشعرؔ۔ ۲۰۱۴ء

رنگ باتیں کریں: ریڈیو ڈرامے۔ ۲۰۱۸ء

میرے حرف سفیر: تقاریظ۔ ۲۰۱۹ء

آئنے سے مکالمہ: شاعری اور شعری ترجمے۔ ۲۰۱۹ء

بول تول: اردو کا لسانی تہذیبی مطالعہ۔ ۲۰۱۹ء

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل