بلند و بالا عمارتیں
فہرست مضامین
- انتسابْ
- حدیثِ دل
- حرفے چند
- حرف آغاز
- عبرت و بصیرت کا مرقع
- عبرتناک تعمیرات
- لمحوں نے خطا کی تھی
- صدیوں نے سزا پائی
- حضرت عالمگیرؒ کا علمی کارنامہ
- مسجد کے پاس دوسری مسجد
- مکۃ المکرمۃ میں بلند و بالا عمارتیں
- پہاڑ کی چوٹیوں کے برابر عمارتیں
- پر شکوہ مساجد ویران قلوب
- بلند و بالا محل
- قرآن، مسجد اور اولاد کی شکایت
- آبادی کا پھیلا ؤ
- بیکار مال
- دنیا میں مسافر کی طرح رہو
- دنیا ایک پُل ہے
- فخریہ مساجد
- ہر عمارت اپنے مالک کے لئے وبال
- مساجد کو لال پیلا کرنے کی ممانعت
- مساجد کی زینت
- گرجا گھروں اور کلیسا کی طرح تزئین کاری
- ویران قلوب
- کھلی مساجد، اونچے منبر
- خوشنما تعمیرات کی ابتدا
- حلال مال
- مسجد ضرار
- بانی کے نام کا کتبہ
- زندگی گزارنے کے لئے ضروری چیزیں
- قوم عاد کی میراث
- بلند و بالا مینارے
- جائداد مت بناؤ
- تعمیرات میں حرام مال
- ننگے سر اور ننگے پیر والے عمارتیں بنائیں گے
- مساجد میں بے جا تکلّفات
- اے ملعون!تیری یہ پختہ عمارتیں۔۔؟
- حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا ارشاد
- حضرت سلمانؓ فارسی کا نظریہ
- حضرت ابن عمرؓ کا معمول
- حضرت ابوالدرداءؓ کو حضرت عمرؓ کی تنبیہ
- دنیا کو اجاڑنے کا حکم
- کیا تمہیں حیا نہیں آتی؟
- حضرت خارجہؓ بن حذافہ کوحضرت عمرؓ کی تنبیہ
- حضرت ام طلقؓ کی نصیحت
- جب کوفہ کے گورنر نے مکان بنانے کی اجازت مانگی
- فرعون جیسے لوگ
- حضرت ابوذر غفاریؓ کی ناراضگی
- بڑی لمبی اور دور کی امیدیں
- تعمیر کے سلسلہ میں حضرت موسی علیہ السلام کا اتباع
- گورنروں کے نام! حضرت عمرؓ کا پیغام!
- ذرا سوچئے!
- دنیا کو اجاڑنے یعنی سادگی کا حکم
- حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ارشاد؟
- اپنی آخرت کے لئے عمل کرو!
- تعمیرات میں تنوع، مستقل فیشن
- ہلاکت کا وقت
- حضور قلب میں خلل انداز
- یہود و نصاریٰ کی تقلید
- دجال کا خروج
- الحذر!الحذر!
- اکابر اہل اللہ کا اُسوہ
- شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کا اُسوہ
- حضرت مفتی سعید احمد اجراڑویؒ کا اُسوہ
- عارف باللہ حضرت قاری صدیق احمدؒ کا اسوہ
- حضرت مفتی مظفر حسینؒ کا اُسوہ
- آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے
- حرف آخر
- مآخذ و مصادر
قیامت کی علامتیں
مفتی ناصر الدین مظاہری
انتسابْ
اس عظیم ہستی کے نام
جس کے
پاؤں کے نیچے
جنت
ہے۔
ناصر الدین مظاہریؔ
حدیثِ دل
تعمیر پہ وہ لوگ ہی دیتے ہیں توجہ
عقبیٰ کا جنہیں خوف نہ ملت کا کوئی غم
جدید تہذیب و تمدن نے ہر فن اور ہر میدان میں جو حیرت انگیز ترقی کی ہے اس کی وجہ سے ہر شخص نہ صرف حیرت زدہ ہے بلکہ ان کی آنکھیں بھی اس کی چکاچوند سے خیرہ ہیں۔
رسول اللہؐ کا ارشاد گرامی ہے حب الد نیا رأس کل خطیئۃ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے، اسی طرح ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا۔
’’مجھے اپنے جانے کے بعد تم پر سب سے زیادہ خطرہ دنیا کی زیب و زینت اور آرائش و آسائش کی چیزوں سے ہے جن کے دروازے تم پر کھول دئے جائیں گے ‘‘ ۔
رسول اللہؐ نے قیامت کی علامتوں اور نشانیوں سے اپنی امت کو روشناس فرما دیا ہے اور ہمارے اکابر اہل اللہ نے ان علامتوں کوی کجا کر کے امت کے سامنے پیش کرنے کی کوشش فرمائی ہے چنانچہ
٭ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی ؒ نے ’’قیامت نامہ ‘‘
٭ علامہ محمد بن رسول برزنجیؒ نے ’’الاشاعۃ لاشراط الساعۃ’‘
٭ ابوالفداء اسمعیل ابن کثیر نے النہایہ للبدایہ
٭ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے ’’علاماتِ قیامت’‘
٭ ’’عقیدۃ الاسلام فی حیوٰۃ عیسیٰ علیہ السلام’‘ ’’المعروف حیوٰۃ المسیح بمتن القرآن والحدیث الصحیح’‘
٭ ’’تحیۃ الاسلام فی حیوٰۃ عیسیٰ علیہ السلام ‘’
٭ ’’التصریح بما تواترفی نزول المسیح ‘‘
٭ حضرت مولانا مدنی ؒ نے’’ الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحۃ
٭ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے’’ تحقیق یاجوج وماجوج ‘‘
٭ حضرت مولانا سید بدر عالم میرٹھی ؒ نے ’’ترجمان السنۃ ‘‘
٭ ’’دجالی فتنہ کی تفصیلات’‘
٭ حضرت مولانا شیخ احمد علیؒ نے ’’ظہور مہدی، نزول عیسیٰؑ’‘
٭ حضرت مولانا عاشق بلند شہری ؒ نے ’’علاماتِ قیامت ‘‘
٭ حضرت مفتی محمد یوسف لدھیانویؒ نے’’ عصر حاضر حدیث کے آئینہ میں ‘‘
٭ حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہٗ نے ’’نزولِ مسیح اور قیامت ‘‘
٭ مولانا محمد عبد اللہ مدظلہٗ نے’’ عقیدۂ نزول سیدنا مسیح علیہ السلام ‘‘
٭ حضرت مولانا محمد ولی رازی مدظلہٗ نے ’’قیامت سے پہلے کیا ہو گا’‘
٭ مولانا اسعد قاسم سنبھلی نے ’’امام مہدی :شخصیت و حقیقت’‘
٭ اور علامہ ابن عربی ؒ کے علاوہ بہت سے حضرات نے اس سلسلہ کی احادیث شریفہ کے دفتر کے دفتر تیار کر کے امت محمدیہ کو باخبر اور متنبہ فرمایا ہے۔
بلند و بالا اور پر شکوہ و پر شوکت عمارات اور منقش و مزین مساجد وغیرہ کو بھی علامات قیامت میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لئے ہمارے کرم فرما مولانا جمیل احمد مظاہری رئیس المعہدالعالی سہارنپور نے راقم کو اس جانب متوجہ کیا اور یہ حکم بھی کہ اس سلسلہ میں تحقیقی مضمون قرآن و سنت کی روشنی میں تحریر کرو چنانچہ اس موضوع پر جب لکھنا شروع کیا تو معنون سے متعلق اس قدر مواد ملتا گیا کہ یہ مضمون مستقل رسالہ کی شکل اختیار کر گیا، اس لئے مناسب یہ سمجھا گیا کہ ’’آئینۂ مظاہر علوم’‘ میں اس مضمون کی تلخیص شائع کر دی جائے اور مکمل مضمون کو کتابچہ کی شکل دے دی جائے تاکہ عوام و خواص دونوں کے لئے استفادہ آسان ہو سکے۔
اپنے موضوع سے متعلق احادیث شریفہ کے تتبع اور تلاش میں احقر نے مستند اور معتبر کتابوں سے رجوع کیا ہے نیز اس موضوع سے متعلق بعض احادیث نہایت طویل تھیں اگر ان احادیث کو من و عن شامل کیا جاتا تو یہ رسالہ اپنے حجم میں کہیں زیادہ بڑھ جاتا اس لئے پوری حدیث شریف سے صرف موضوع سے متعلق حصوں کو لیا گیا ہے تاکہ رسالہ کی ضخامت زیادہ نہ ہونے پائے۔
اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول اور بار آور فرما کر ہمارے لئے صدقۂ جاریہ بنائے اور ہمیں اخلاص کی دولت عطا فرما کر اپنے بزرگوں کی کفش برداری کی توفیق مرحمت فرمائے۔
اس رسالہ کی تصحیح نیز مآخذ و مصادر سے مراجعت میں مولانا محمد سعیدی مدظلہ کی ذاتی دلچسپیاں اور مفتی محمد راشد ندوی سلمہ کی دوستانہ کرم فرمائیاں نیز اس کی کمپوزنگ اور ڈیزائننگ میں مولانا محمد عارف مظاہری، مولوی محمد عثمان قاسمی اور مولوی رفیع اللہ کی مساعیاں اور اس کی طباعت و اشاعت میں مولانا جمیل احمد مظاہری کی کوششوں کو بڑا دخل ہے جس کے لئے ہم اُن کے شکر گزار ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو اپنی شایانِ شان اجر سے نوازے۔
ناصر الدین مظاہری
مُدیر ماہنامہ’’ آئینہ مظاہر علوم’‘ سہارنپور
۱۴ شعبان۱۴۲۸ھ
حرفے چند
علامہ ابن جوزیؒ نے ’’صیدالخاطر’‘ میں لکھا ہے کہ
’’جو شخص دنیا کے انجام پر غور کرتا ہے، وہ بچ جاتا ہے اور جو آدمی لمبے سفر کا یقین رکھتا ہے وہ اس کی تیاری کرتا ہے اور اے شخص! تیرا معاملہ کیا عجیب ہے؟کہ ایک بات پر یقین رکھتا ہے پھر بھلا بیٹھتا ہے اور ایک بات کی مضرت کو جانتا بوجھتا ہے پھر اسی کو اختیار بھی کر لیتا ہے (اور تو لوگوں سے ڈرتا ہے حالانکہ سب سے بڑھ کر اللہ کا حق ہے کہ تو اس سے ڈرے)نفس تو تجھ پر اپنی غیریقینی باتوں میں بھی غالب آ جاتا ہے اور تو اس پر اپنی یقینی باتوں میں بھی غلبہ نہیں پا سکتا۔۔عجائبات عجیب تیرا اپنے فریب پر خوش ہونا ہے اور اپنی غفلت میں ان چیزوں کو بھلا دینا ہے جو تیرے لئے چھپاکے رکھی ہوئی ہیں۔۔تو اپنی صحت پر غرور کرتا ہے اور اچانک آنے والی بیماری کو بھلائے ہوئے ہے۔
اپنی عافیت و سلامتی پر خوش ہو رہا ہے اور آفت کے سرپر آ جانے سے غافل ہے، دوسروں کی موت نے تجھے تیری موت دکھا دی ہے اور دوسروں کی آرام گاہ(قبر)نے مرنے سے پہلے تیری قبر دکھا دی ہے۔لذتوں کے حصول نے اپنی ذات کے فنا ہونے کی یاد سے تجھے مصروف کر رکھا ہے کہ گویا مرنے والوں کی کوئی خبر تو نے سنی ہی نہیں ہے اور پیچھے رہنے والوں میں زمانہ کارروائیاں کرتا ہے جو تو نے دیکھی ہی نہیں سو اگر تو نہیں جانتا تو، لے:
٭ یہ ان کے مکانات ہیں۔۔جنھیں تیرے بعد ہواؤں کے چکروں نے کھنڈر بنا دیا ہے۔۔اور ۔۔یہ ان کی قبریں ہیں !
٭ کتنے محلات تو نے دیکھے ہوں گے۔۔جو ابھی لحد میں نہ اترے تھے مگر اتر گئے!
٭ کتنے محلات کے مالک تو نے دیکھے ہیں جن کے دشمن ان عہدوں پر فائز ہوئے جہاں سے وہ معزول ہوئے تھے!
٭ اے وہ شخص!جو ہر لمحہ ان حالات کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا عمل ایسے شخص کا سا ہے جو کچھ بھی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا!
٭ وہ آنکھ چین سے کیسے سو سکتی ہے جسے کچھ پتہ نہیں کہ اچھے اور برے ٹھکانے میں سے اسے کہاں اترنا ہے!
٭ جو چراگاہ کے آس پاس گھومتا ہے، قریب ہے کہ اس میں داخل ہو جائے!
٭ جو فتنہ کے قریب ہوتا ہے سلامتی اس سے دور ہو جاتی ہے!
ظاہر ہے دنیا ایک چراگاہ ہے، جس کی رنگینی و رعنائی، حسن و خوبصورتی اور اس کی زیبائی و دلفریبی کی طرح انسانی طبائع کا میلان و رجحان ایک فطری اور لابدی چیز ہے۔
جو لوگ خواہشات نفسانی کا گلا گھونٹ کر، تعیشات زندگی کو خیرباد کہہ کر اور اپنی آرزوؤں، امنگوں اور آس و امیدوں پر شرعی تقاضوں کو ترجیح دینے میں کامیاب ہوتے ہیں، قرآنی مطالبات کی کسوٹی پر اپنے آپ کو ناپنے اور تولنے کا ہنر جان لیتے ہیں وہ دنیاوی لذات، نفسانی خواہشات اور تمدنی تعیشات سے خائف نہیں ہوتے۔
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اور شیخ جنید بغدادی ؒ جیسے خدا جانے کتنے اکابر علماء ہیں جن کے در اور دربار پر دولت کے انبار نظر آتے ہیں، جہاں دولت کی ریل پیل کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں لیکن ان کی دولت اور ثروت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں سے نہ معلوم کتنے بھوکوں کو آسودگی میسر ہوتی ہے۔۔کتنے بے لباسوں کو لباس ملتا ہے۔۔کتنے پیاسوں کی سیرابی ہوتی ہے۔۔کتنے ضرورت مندوں کی ضروریات کا تکفل ہوتا ہے۔۔کتنے گھروں میں ان درباروں کی وجہ سے چولھے جلتے ہیں۔۔کتنے آشیانوں میں ان حضرات کی دریا دلی کے باعث چراغاں ہوتا ہے۔۔اور کتنے ہی مرجھائے اور کمہلائے چہروں پر ہنسی و مسرت کے کنول کھلتے ہیں۔
کاروباری نقطۂ نظر سے ان حضرات کی اقتصادی معیشت اور صنعت و حرفت ترقیات کے اعلیٰ مقام پر نظر آتی ہیں تو دوسری طرف زہد و تقویٰ، تدین و اخلاص کے بے پناہ سمندروں کو پئے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے انسان خطاؤں کا معجون مرکب ہے، غلطیوں کا صدور ممکن ہے، بہکنا، پھسلنا اور پھسل کر گر جانے کا بھی خدشہ و اندیشہ ہے اسی لئے آپؐ نے عام مسلمانوں کے لئے دنیا اور دنیاوی خرافات کونا پسند کر کے ان سے دور رہنے کی ترغیب اور ترہیب دی ہے تو اسی کے ساتھ ساتھ مال اور اولاد کو زندگیوں کی زینت قرار دیا ہے جو لوگ مال اور اولاد والے ہیں، شریعت کا اتباع، احکامات قرآنی کی تعمیل، فرمودات رسول کی تعمیر و تشکیل کو حرز جان بنانے والے ہیں ان کے لئے یہ چیزیں بہرحال زینت ہیں۔
دولت و ثروت، رزق اور روپیہ بقدر کفاف نہ تو برا ہے اور نہ ہی اس پر وعید ہے بلکہ آ پ صلی اللہ علیہ و سلم نے ضرورت کے بقدر ’’ذخیرہ اندوزی’‘ کی ترغیب بھی دی ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور انسان سوال کی ذلت سے بچا رہے۔
حضرت طلحہؓ اپنے بعد تین سو بہار چھوڑ گئے(ہر بہار میں تین تین قنطار تھے، بہار بوجھ کو کہتے ہیں جو تین سو رطل کا ہوتا ہے اور ایک قنطار ایک ہزار دو سو اوقیہ کا ہوتا ہے)حضرت زبیرؓ کا مال پانچ کروڑ کا تھا اور حضرت ابن مسعودؓ نے نوے ہزار کا مال چھوڑا۔
حضرت ابو عبداللہ مقری کو اپنے باپ کے ترکہ سے علاوہ اسباب و زمین کے پچاس ہزار دینار ورثہ میں ملے تھے۔(تلبیس ابلیس)
دنیا اور اسباب دنیا بھی اسی زمرے میں ہیں اس کی طرف رغبت اور بھر پور توجہ جو دنیوی اور اخروی نقصانات کا باعث ہو وہ بہر حال غلط ہے البتہ اس سے اتنا لگاؤ اور دلچسپی جس کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت اور ترغیب دی ہے قطعاً بری چیز نہیں ہے۔
حضرت سعد بن عبادہؓ دعا مانگا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ خداوندا!مجھ کو فراخ دستی عطا فرما۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ جب شفا پا چکے تو سونے کی ٹڈیاں ان کے پاس سے گزریں، حضرت ایوبؑ اپنی چادر پھیلا کر ان ٹڈیوں کو پکڑنے لگے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ ایوب!کیا تیرا پیٹ نہیں بھرا؟انہوں نے عرض کیا اے پروردگار تیرے فضل سے کس کا پیٹ بھرتا ہے؟۔(تلبیس ابلیس)
مقصد ان معروضات کا صرف یہ ہے کہ مال جمع کرنا ایک ایسا امر ہے جو انسانی طبائع میں رکھا گیا ہے اور پھر جب اس سے مقصود خیر ہو تو وہ خیر محض ہو گا۔
اسلام نے رہبانیت سے لوگوں کو منع کیا ہے، نہ تو اس کا کوئی مقام ہے اور نہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہے اسی لئے آپ نے لا رہبانیۃ فی الاسلام فرما کر مہر ثبت فرما دی تاکہ جو لوگ زاہدانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ بھی ان حدود اور قیود کے اندر رہ کر زندگی گزاریں جو شریعت نے متعین فرمائی ہیں۔
اسلام نے افراط و تفریط سے بھی منع کیا ہے، اس نے ہر موقع، ہر موڑ اور ہر زاوئے سے راہنما اصول متعین فرما دئے تاکہ آنے والی نسلیں ان ہی اصول و قوانین کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنوار اور سدھار سکیں اور ان میں سر مو انحراف یا جادۂ اعتدال سے برگشتگی (افراط و تفریط)کو گلے لگا کر اپنی زندگی کو مصائب و مشکلات کی نئی ڈگر پر نہ ڈال سکیں۔
تعمیرات کے سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بقدر ضرورت سر چھپانے کے لئے اور اپنے بال بچوں کے تکفل کے لئے اپنا آشیانہ بہر حال ہونا چاہئے کیونکہ ہر انسان کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، اپنے بیوی، بچوں کے حقوق اور جائز مطالبات ہوتے ہیں اگر آپ کا اپنا آشیانہ اور اپنا نشیمن نہیں ہے، آپ کے پاس رہنے اور سر چھپانے کے لئے ذاتی مکان اور جھونپڑا نہیں ہے تو آپ خود بھی پریشان رہیں گے اور اپنے بال بچوں کو بھی پریشان رکھیں گے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں جب کہ ہر شخص، ہر قوم، ہر ملک ترقیات اور اقتصادیات کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دھن میں جائز و نا جائز، حلال و حرام اور جا و بے جا دولت کمانے میں مصروف ہے، ایسے وقت میں غربا و مساکین اور فقراء و مفلسین کی طرف توجہ دینے کی کسے ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتوں نے اپنی رعایا کو ماہانہ وظائف دینے بند کر دیے، ضرورت مندوں کی خبرگیری اور دستگیری کے جذبات سرد پڑ گئے، دولت صرف محلات اور قلعوں میں قید ہو کر رہ گئی، اس لئے خود کو اور اپنے بچوں کو پالنے، سنبھالنے اور خاطرخواہ تعلیم و تربیت کے لئے ذریعۂ معاش کی بھی اسلام نے ترغیب دی ہے، جائز اور درست کاروبار کے کرنے اور منافع کمانے کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ مختلف طریقے، قاعدے، ضابطے اور فارمولے بھی عطا کئے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کے پاس مال اور کھیتیاں کافی مقدار میں تھیں، حضرت شعیبؑ بھی کاشتکاری کرتے تھے، حضرت نوح اور حضرت زکریاؑ بڑھئی کا کام کرتے تھے، حضرت ادریسؑ (درزی گیری)کپڑے سیتے تھے، حضرت لوطؑ بھی کھیت بوتے تھے، حضرت صالح سوداگر تھے، حضرت داؤد کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ زرہیں بنا کر بیچتے تھے، حضرت موسیٰ اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تو دنیا جانتی ہے کہ بکریاں چَرائی ہیں۔
یہ تو حضرات انبیاء کرام کی بات تھی، صحابۂ کرام اور تابعین کے بارے میں بھی تواتر کی حد تک ثابت ہے کہ وہ اپنا مستقل کاروبار کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت طلحہ ؓ کپڑے بیچا کرتے تھے، حضرت زبیرؓ ، حضرت عمرو بن العاصؓ ، حضرت عامر بن کریزؓ ، محمد بن سیرینؒ ، میمون بن مہرانؒ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نیز حضرت جنید بغدادیؒ جیسے اساطین امت بھی کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، حضرت سعد بن وقاصؓ تیر بناتے تھے، حضرت عثمانؓ بن طلحہ درزی کا کام کرتے تھے، حضرت ابراہیمؒ بن ادہم کھیتی کرتے تھے، حضرت سلیمان خواصؒ خوشہ چین تھے اور حضرت حذیفہ مرعشیؒ اینٹیں بناتے تھے، یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ اپنا تجارتی، صنعتی، معاشی اور اقتصادی کام کیا ہے۔
ہمارے علماء و اکابر نے بھی ہر معاملہ میں بقدر کفاف کے اصول کو حرز جان بنائے رکھا، افراط و تفریط سے بھی بچتے رہے، ضروریات زندگی پربھی اپنی توجہات مبذول کیں، بال بچوں کے لئے ذاتی مکان و آشیانہ کا بھی بندوبست کیا اس لئے کہ شریعت مطہرہ کا یہی تقاضا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہی فرمان ہے اور سب سے بڑھ کر خالق کائنات کا یہی منشاء ہے۔
حضرت قتادہؓ کا ارشادہے کہ
ماکان للمؤ من ان یری الافی ثلثۃ مواطن مسجدیعمرہ وبیت یسترہ وحاجۃ لابأس بھا۔(تنبیہ الغافلین۲۴۰مطبوعہ بیروت)
مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ تین چیزوں کے سوا اور کی طرف نظر لگائے(۱)مسجد جسے وہ آباد رکھتا ہے(۲)وہ گھر جس میں سر چھپاتا ہے (۳)حاجت ضروریہ کی چیز کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ
خمس کان علیہن ر سول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم والتابعون باحسان لزوم الجماعۃ واتباع السنۃ وعمارۃ المسجد وتلاوۃ القرآن والجہاد فی سبیل اللہ تعالیٰ۔ (تنبیہ الغافلین۲۴۰)
پانچ چیزیں ہیں جن پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے مخلص پیرو کار پابندی سے لگے ہوئے تھے
(۱)جماعت کا اہتمام
(۲)اتباع سنت
(۳) مسجد کی تعمیر
(۴)قرآن پاک کی تلاوت
(۵)جہاد فی سبیل اللہ ۔
سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ جب ہندوستان سے ہجرت فرما کر ام القریٰ تشریف لے گئے تو اپنے ذاتی مکان کے لئے نہ صرف فکر مند ر ہے بلکہ بارگاہ الہی میں دست بہ دعا بھی ہوئے، چنانچہ ایک عقیدتمند نے ایک مکان کا بندوبست کیا پھر آپ کی طبیعت کو سکون میسر آیا۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی بھی یہی رائے گرامی ہے کہ آدمی کا اپنا ذاتی مکان ہونا ہی چاہئے تاکہ وہ دوسروں کی نظروں میں ذلیل و خوار نہ ہو سکے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ بھی انسان کے لئے ذاتی مکان اور بقدر ضرورت اس کی تزئین کے قائل تھے۔
یہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تو یہاں تک ارشاد گرامی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت دی ہے، بقدر ضرورت رزق عطا فرمایا ہے، وسعت اور کشادگی ہے تو اپنے رہن سہن، نشست و برخاست اور لباس و غذا سے بھی اس کا اظہار شریعت کی متعین کردہ حدود و قیود کے اندر ہونا بہتر ہے۔
چنانچہ ابو داؤد شریف میں ہے کہ
عن ابی الاحوص عن ابیہ قال اتیت النبی صلی اللہ علیہ و سلم فی ثوب دون فقال ألک مال؟ قال نعم! قال من ای المال؟قال قداتانی اللّٰہ من الابل والغنم والخیل والرقیق، قال فاذا أتاک اللّٰہ مالافلیراثرنعمۃ اللّٰہ علیک وکرامتہ۔ (ابوداؤد ۲/۵۶۲)
حضرت ابوالاحوص اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں آپؐ کی خدمت میں گھٹیا کپڑے پہن کر حاضر ہوا تو آپؐ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس مال نہیں ہے؟میں نے عرض کیا کہ مال تو ہے، آپؐ نے پوچھا کہ کس قسم کا مال ہے؟میں نے عرض کیا کہ مجھے اللہ نے اونٹ، گائے، بکریاں، گھورے اور غلام ہر طرح کا مال عطا کیا ہے!یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ نے تم کو مال سے نوازا ہے تو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت و کرامت کا اثر تمہارے بدن پر ظاہر ہو۔ (مشکوٰۃ۲/۳۷۵)
اسی طرح ایک صحابی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ میرے جسم پر کم قیمت کے کپڑے تھے تو فرمایا کہ کیا تیرے پاس از قسم مال ہے؟میں نے عرض کیا کہ ہاں !اللہ نے مجھے ہر قسم کے مال و دولت سے نوازا ہے، پھر فرمایا خدا کی قسم نعمت اور اس کی بخشش کو تمہارے جسم سے ظاہر چاہئے۔
مطلب یہ ہے کہ تونگری اور مالداری کی حالت کے مناسب کپڑے پہنو اور خدا کی نعمت کا شکر ادا کرو۔
امام احمد بن حنبلؒ سے کسی نے حضرت سری سقطیؒ کے بارے میں سوال کیا، جواب دیا کہ وہ بزرگ طیب الطعم تھے، یعنی پاک اور حلال کھانے والے مشہور ہیں۔
احقر کو علامہ ابن جوزیؒ کی وہ بات نہایت پسند پائی جو انہوں نے اپنی ایک کتاب ’’تلبیس ابلیس’‘ میں تحریر فرمائی ہے کہ جو لباس صاحب لباس کے لئے عیب ناک ہے وہ جس میں زہد اور افلاس کا اظہار پایا جائے ایسا لباس گویا خدا سے شکایت کرنے کی زبان اور پہننے والے کی حقارت کا سبب ہے اور یہ سب مکروہ ہے۔
حضرت ابوالعباس بن عطاؒ اپنے زمانہ میں بہت ہی اچھا کپڑا پہنتے تھے۔
اگر کوئی شخص ذخیرۂ احادیث میں غواصی کرے تو اسے اس موضوع سے متعلق بے انتہا صدف، موتی اور جواہرات مل سکتے ہیں۔
مجھ ناچیز کا نہ تو یہ میدان ہے اور نہ ہی ایسی سہولیات حاصل ہیں پھر بھی حتی المقدور ساعی اور کوشاں ہوں کہ قوم و ملت کو دین ہدایت کے حقیقی تقاضوں اور مطالبات سے روشناس کر کے ایک فرض سے سبکدوش اور ایک ذمہ داری سے عہدہ براہو جاؤں !
تعمیرات کے سلسلہ میں زیر نظر کتاب کا پس منظر صرف یہ ہے کہ ہر معاملہ میں سنت و شریعت کو اختیار کیا جائے، اعتدال و میانہ روی اور حدود کی رعایت رکھی جائے، افراط و تفریط سے خود بھی بچا جائے اور حتیٰ المقدور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دی جائے کیونکہ اس قسم کی تعمیرات جو دور حاضر میں ہو رہی ہیں، سینکڑوں منزلہ عمارات، وسیع، و عریض کشادہ بلڈنگیں، نفیس و دیدہ زیب قلعے اور بلند و بالا ٹاور اور پلازے نسل انسانی کے لئے سود مند کم اور نقصان دہ زیادہ ہیں۔
زلزلوں کی صورت میں ان عمارات کے ذریعہ نقصانات جس انداز میں ہو رہے ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، انسانی جانوں کا اتلاف بلند و بالا عمارات ہی سے زیادہ ہوتا ہے، مال و دولت کا ضیاع بھی ان ہی عمارات سے عام طور پر ہوتا ہے، حادثات کا سبب یہی عمارتیں ہوتی ہیں اور یہ وہ نقصانات ہیں جو ظاہر میں نظر آتے ہیں اور وہ نقصانات جو نظر نہیں آتے ان کی نشاندہی احادیث شریفہ کی روشنی میں زیر نظر کتاب میں کی گئی ہے۔
عزیز مکرم مفتی ناصر الدین مظاہری سلمہ زمانۂ طالب علمی سے ہی لکھنے اور پڑھنے کا ستھرا ذوق رکھتے ہیں، ان کے پر مغز علمی، دینی، معاشرتی تحقیقی، ادبی، تاریخی اور فقہی موضوعات پر مختلف مضامین و مقالات ملک کے مختلف اخبارات و رسائل اور جرائد و مجلات میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور اہل علم اور اہل ذوق ان کے مضامین دلچسپی اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔
ایک طویل عرصہ سے میرے ذہن و دماغ میں ’’تعمیرات کے سلسلہ میں افراط و تفریط’‘ کا موضوع گردش کر رہا تھا اور ضرورت تھی کہ اس موضوع پر کسی صاحب علم کو لکھنے کی توفیق میسر آ جائے تاکہ مسلمانوں کو اس سلسلہ میں دین کا صحیح اور مثبت رخ نظر آ جائے۔
مفتی ناصرالدین صاحب مظاہری خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے احادیث شریفہ کا ایک بڑا ذخیرہ موضوع سے متعلق نہ صرف یکجا کر دیا بلکہ صحابۂ کرام، تابعین عظام اور اکابر علماء کے اقوال و فرمودات اور ان کے طرز و تعامل کو بھی زیب قرطاس کر دیا ہے۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء۔
المعہدالعالی کے اہداف و مقاصد میں ایک یہ بھی ہے کہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی ان خامیوں اور کمیوں کی نشاندہی کی جائے جن کی طرف عام طور پر لوگوں کی نظر نہیں جاتی ہے۔حالانکہ وہ چیزیں اپنی ہلاکت آفرینی میں ’’میٹھا زہر’‘ کا مصداق ہیں۔
اسی مقصد کے پیش نظر عزیز گرامی مفتی ناصر الدین صاحب مظاہری کی یہ علمی کاوش المعہدالعالی کے شعبۂ نشر و اشاعت سے شائع کی جا رہی ہے اور عوام و خواص سے امید بھی کی جا رہی ہے کہ وہ زندگی کے ہر رخ اور ہر موڑ پر دین و شریعت کا دامن اعتدال و میانہ روی کے ساتھ تھام کر افراط و تفریط سے بچتے ہوئے متقیانہ زندگی کے خوگر ہو کر اسلام کے احیا و سربلندی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
جمیل احمد مظاہری
رئیس المعہدالعالی پرانا کلسیہ روڈ سہارنپور
۲۰/ربیع الاول ۱۴۲۸ھ
حرف آغاز
أَحْمَدُہٗ وَاُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّابَعْدُ!
اَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی تَقْویٰ مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌأَمَّنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی شَفَاجُرُفٍ ھَارٍ فَانْھَارَ بِہٖ فِیْ نَارِجَھَنَّمَ وَاللّٰہُ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔ لَایَزَالُ بُنْیَانُھُمُ الَّذِیْ بَنَوْارِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ (جزء، ۱۱۔۲/۹۔۱۰۸)
ترجمہ : بھلا جس نے بنیاد رکھی اپنی عمارت کی اللہ سے ڈر نے پر اور اس کی رضامندی پروہ بہتر ہے یا جس نے بنیاد رکھی اپنی عمارت کی کنارہ پر ایک تھالی کے جو گرنے کو ہے پھر اس کو لے کر ڈھے پڑا دوزخ کی آگ میں اور اللہ راہ نہیں دیتا ظالم لوگوں کو، ہمیشہ رہے گا اس عمارت سے جو انہوں نے بنائی تھی شبہ ان کے دلوں میں مگر جب ٹکڑے ہو جائیں ان کے دل کے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔
خدا جانے کسی شاعر نے کس جذب و سرمستی میں ڈوب کر کہا تھا ؎
جنہیں دن رات فکر آشیاں ہے
کریں گے کیا وہ تعمیر گلستاں
دیدہ زیب و خوشنما عمارات، بلند و بالا اور اعلیٰ و ارفع محلات، شاندار حویلیوں اور نقش و نگار، آرائش و زیبائش، ٹیپ ٹاپ اور نہایت خوبصورت مکانات بنا نے کا چلن عام ہو چکا ہے، امیر و غریب، فقیر و مفلس، شاہ و گدا، صنعت کار و کاشتکار سبھی کے ذہن و دماغ پر ایک دوسرے سے اچھے مکانات بنانے اور رنگین و حسین نقش و نگار کرانے کا بھوت سوار ہے، اقتصادیات کا دیوالیہ ہو جائے، معیشت تباہ و برباد ہو جائے، آمدنی کے سار ے وسائل منجمد ہو جائیں، مالیات اور ذخائر سے بھرپور تجوریوں میں گرد و غبار اڑنے لگے، تجارت کو گھن لگ جائے اور غربت و مفلسی دستک دینے لگے پھر بھی عمدہ و اعلیٰ کوٹھیوں بلند و بالا حویلیوں اور اونچے اونچے فلک بوس مکانوں کے خوابوں کا تسلسل ٹوٹنے اور ٹوٹ کر بکھرنے کا نام نہیں لیتا۔
عبرت و بصیرت کا مرقع
تاریخ میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں، جن کی کل آمدنی پر تعیش مکانوں، لباسوں اور پر تکلف غذاؤں پر صرف ہو گئی، کل تک جن کے ناموں کے ساتھ دنیا نوابوں، راجاؤں، مہا راجاؤں اور سیٹھ و ساہوکاروں کے القاب لگانے پر مجبور تھی آج یہ حال ہے کہ دنیا ان پر تھوکتی ہے، طعن و تشنیع کرتی ہے، ان کی پر تعیش زندگی کے پر ملامت تذکرے ہوتے ہیں، گلی گلی ایسے اشخاص کے تذکرے دلچسپی کے لئے نہیں ’’عبرت و بصیرت کے لئے سنائے جاتے ہیں۔
عبرتناک تعمیرات
ہندوستان میں کئی سو سال تک سلطنت کرنے والے مغل حکمرانوں کی عبرتناک تعمیرات ’’آج ہر اس شخص کے لئے ذلت و رسوائی، نکبت و پستی اور خود ان حکمرانوں کی پر تعیش زندگی سے نہ صرف دبیز پردے اٹھاتی ہیں بلکہ حالات اور ماحول سے ناواقفیت، مستقبل کے بارے میں ان کی کوتاہ علمی اور آنے والی نسلوں کے لئے ان کی بے رغبتی اور لاپرواہی ارباب عقل و خرد کو جس بات کا پتہ دیتی ہیں اس کے تذکرہ سے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
لمحوں نے خطا کی تھی
آگرہ کے تاج محل، لال قلعہ، دہلی کے قطب مینار، لال قلعہ، پرانا قلعہ اسی طرح لکھنؤ اور فتح پور سیکری سمیت پورے ہندوستان میں ہمارے ’’مستقبل نا شناس شاہوں کی دلچسپیوں ‘‘ کا خمیازہ آج پوری مسلمان قوم بھگت رہی ہے، لال قلعہ سمیت قسم قسم کے آثار قدیمہ جو ایک طرف ’’مسلم شاہوں اور حکمرانوں ‘‘ کی فضول خرچیوں کی منھ بولتی تصویر ہیں تو دوسری طرف خود انہی کی قوم اور نسل کے لئے نہ صرف بیکار ہیں بلکہ تاریخ کی ستم ظریفی کہئے کہ موجودہ حکومتوں کے سوتیلے سلوک، ان عمارتوں اور قلعوں پر اغیار کے قبضوں اور ان کے تقدس کی پامالی دیکھ کر آنکھیں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیں۔
صدیوں نے سزا پائی
چشم بینا اور فکر دانا رکھنے والے حضرات بچشم خود دیکھ رہے ہیں کہ ’’آثار قدیمہ’‘ کے نام سے ہماری عبادت گاہیں بھی متعصب ذہنیت رکھنے والی حکومت کی تحویل میں پہنچ کر اپنی ذلت و رسوائی پر ماتم کناں ہیں۔
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
وہ قوم نہیں لائق ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں اِمروز نہیں ہے
تاج محل سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا ؟آگرہ کے لال قلعہ نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو مزید واضح کیا، دہلی کے لال قلعہ پر اغیار کے قبضے نے ہمارا منہ چڑایا، قطب مینار کی رفعت نے ہمیں اپنی اوقات یاد دلانے میں اہم کردار ادا کیا پرانے قلعوں میں واقع اسلامی عبادت گاہوں نے ہماری بے بسی و بے حسی کا رونا رویا، پھر کیا ضرورت تھی ایسی عمارات کو تعمیر کرنے کی جن کو ان شاہوں اور بادشاہوں کی نسل آگے چل کر اگر دیکھنا بھی چا ہے تو دیگر لوگوں کی طرح دوسروں کے رحم و کرم اور ’’ٹکٹ و چیکنگ ‘‘ کے مراحل سے گذر کر۔۔ہم اپنے ہی مکانوں کے لئے غیر ہو گئے ، ہم سے ہمارے محلات چھین کر الٹے ہماری شہریت پر انگلیاں اٹھنے لگیں ؟ ہماری حویلیاں ہمارے لئے باعث ننگ و عار ہو گئیں، اب لال قلعہ پر ہندوستانی علم، تاج محل کی پر شکوہ عمارت، پرانے قلعے کی ویرانی و بربادی، قطب مینا ر اور جامع مسجد کی رفعت و قدامت سے ہماری یہ نسل کوئی عبرت حاصل نہیں کرتی، انہیں اپنے اجداد کی ہزار سالہ خدمات اور قربانیوں کا اگر کوئی پھل یا بالفاظ دیگر اپنے حکمرانوں کی ’’وراثت ‘‘ ملی ہے تو یہی آثار قدیمہ ہیں جن کے لئے ہم غیر ہیں اور ہماری سوئی ہوئی غیرت ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنے میں یکسر ناکام ہے۔فیا أسفا
دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
اشکباری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در
گریۂ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر
حضرت مولانا عبدالماجد دریابادیؒ صحافت اور قلم کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہیں، انہوں نے اپنے سفرنامہ بمبئی کا والہانہ تذکرہ سپرد قلم فرمایا ہے اور جب بمبئی کے نہایت خوبصورت علاقہ مالابار ہل سے گزرے تو انہیں خستہ و بوسیدہ کھنڈرات اور کہنہ محلات نظر آئے۔۔ان محلات کی قدیم شان و عظمت کی کہانی مولانا دریابادی کی زبانی آپ بھی پڑھتے چلئے اور پھر مکینوں کے انخلاء کے بعد ان محلات کی داستان دلخراش پر چار چار آنسو بہائیے:
’’بمبئی کے ایک نہایت فیشن ایبل علاقہ مالابار ہل سے گزرتے ہوئے جگمگاتی ہوئی کوٹھیوں کے درمیان ایک ویرانہ پر گزر ہوا، ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین کا ایسا نظر پڑا جس پر کبھی کوئی عمارت رہی ہو گی، رہبر نے بتایا کہ یہ جنحیرہ ہاؤس تھا یعنی وہ محل جس میں بیگم صاحبہ جنحیرہ مع اپنی دونوں بہنوں زہرا فیضی اور عطیہ فیضی کے ساتھ رہتی تھیں، اب کیا تھا کہ شبلی کے اس پرستار کے سامنے نفاست مجسم عطیہ فیضی اور ان کی ساری لطافتوں، نفاستوں اور نزاکتوں کا کیسا نقشہ پھر گیا، مکان کیسا پر رونق، دلکش اور سجا سجایا ہو گا اور اپنے انجام سے بالکل بے خبر، ابھی تصور کو اس تذکر و تفکر سے فراغت نہیں ہوئی تھی کہ ایک دوسرا پلاٹ بہت بڑا نظر کے سامنے آ گیا سر تا سر کھنڈر، ملبہ پر ملبہ اور رہبر نے جو بتایا اسے سننے کے لئے دل کسی طرح تیار نہ تھا، ہاتف غیب کے بجائے رہبر کی زبان سے نکلا ’’نظام حیدرآباد کا محل تھا’‘ یقین آئے یا نہ آئے بہرحال یقین کرنا ہی تھا، نظام عالی مقام جو رئیسوں کے رئیس اور امیر الامراء تھے، جن کا شمار ہندستان اور ایشیا ہی کے نہیں بلکہ دنیا کے متمول ترین انسانوں میں تھا پھر سو برس بھی تو نہیں ہوئے، سقوط مملکت ۱۹۴۸ء میں ہوا ہے، پورے ۲۴برس کی مدت ہوئی، انقلاب حال اور اس درجہ تیزی کے ساتھ عبرت کے ذخیرہ میں اپنی مثال آپ ہے ‘‘
بولی عبرت کہ ہوش میں آؤ
اے حریصان مال و شوکت و جاہ
مٹ گیا نقش حامد و محمود
رہ گیا لا الٰہ الا اللّٰہ
حضرت مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی نے صحیح ترجمانی کی ہے
’’دارالحکومت دہلی :جس کی سیکڑوں سال کی تاریخ پر مسلمانوں کی خدمات اور قربانیوں کے انمٹ نقوش پنہاں ہیں، اس شہر کا چپہ چپہ مسلمانوں کی شاندار ماضی کا گواہ ہے، جامع مسجد، لال قلعہ، قطب مینار اور سیکڑوں آثار قدیمہ کی شکستہ، منہدم عمارتیں مسلمانوں کی روشن تاریخ کو زبان حال سے دہرا رہی ہیں ‘‘ ۔
شکستہ منہدم دیوار و در ہیں
ہماری عظمت رفتہ کی یادیں
تہذیب اسلامی کے گہرے نقوش
مصر، الجزائر، نائیجیریا اور لیبیا وغیرہ افریقی ممالک ہیں لیکن آج ان کا شمار عربی ممالک میں ہوتا ہے، ایسا کیوں ہے؟جواب بالکل صاف اور واضح ہے کہ مسلمان جہاں جہاں اور دنیا کے جس خطہ و علاقہ میں پہنچے اپنی زبان، تہذیب اور تعلیمات کے گہرے نقوش دیگر اقوام و ملل کے قلوب پر ایسے مرتسم کرتے چلے گئے کہ وہاں کی لغت و ثقافت سب کچھ بدل ڈالا لیکن ہندستان میں مغلیہ سلطنت کے عہدِ حکومت میں نہ تو یہاں کی زبان کو عربی کیا جا سکا، نہ ہی یہاں کی تہذیب و معاشرت پر اپنی تہذیب کے گہرے نقوش ثبت کئے جا سکے، نہ تو کوئی ایسا نصاب اور قانون وضع ہوا جس کی وجہ سے آنے والے کل ان کی مسلمان قوم در در کی ٹھوکریں کھانے سے محفوظ رہ سکتی۔
حضرت عالمگیرؒ کا علمی کارنامہ
حضرت عالمگیر علیہ الرحمہ نے اپنے دور حکومت میں علماء امت واَعیان مملکت کے ذریعہ فتاویٰ عالمگیری مرتب کرائی جو بلا شبہ اسلامی تاریخ کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے، اسی طرح غرباء و مساکین کے تعاون میں ان بادشاہوں نے ہمیشہ سخاوت اور فیاضی کا عدیم النظیر مظاہرہ کیا ہے، جس کا ہمیں دل کی گہرائیوں سے اعتراف ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی تمامتر صلاحیتیں تعمیرات کی نذر ہو گئیں ورنہ آج کی تاریخ میں ہندستان کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔
ہمارے مغل حکمراں ہوں یا شاہانِ اودھ تعمیرات پر بے دریغ روپیہ خرچ کرنے کے بجائے اگر دینی تعلیم کے لئے بڑے بڑے مدارس کھولتے، اسلامی احکامات اور فرامین جاری کرنے کے لئے اس فن کے ماہر ین کی ٹیم تیار کر کے انہیں ان کی شایانِ شان سہولت فراہم کرتے، مختلف سماجی اور فلاحی ادار ے قائم کرتے تاکہ اس سے ان کی نسل آئندہ بھی فیضیاب ہو پاتی، اسلامی مراکز قائم کرتے تاکہ مسلم امت ان سے خاطرخواہ فائدہ اٹھا سکتی، اسلامی تعلیم اور عصری علوم کے لئے پورے ملک میں اسلامی یونیورسٹیاں بناتے تاکہ ان شاہوں کی علم پروری آئند ہ بھی کام دیتی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور وہ ہوا، جس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا !
علامہ اقبال نے پیرس کی ایک مسجد کو دیکھ کر بہت درد کے ساتھ فرمایا تھا
مری نگاہ کمال و ہنر کو کیا دیکھے
کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے فرنگی کرشمہ بازوں نے
تنِ حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ
یہ بت کدہ انھیں غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ
ہمارے با ذوق ’’مغلوں ‘‘ کی عمارات و محلات سے خود ان کو یا ہم کو جو فائدہ ہو رہا ہے، گزشتہ سطور سے ظاہر ہے لیکن بڑی بڑی بلڈنگوں اور فلک بوس عمارتوں کی تعمیرات اِس زمانہ میں بھی کثرت کے ساتھ وجود پذیر ہو رہی ہیں، اس ابتلاء میں مبتلا افراد و شخصیات میں ہمارا کم پڑھا لکھا طبقہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے پیش نظر احادیثِ رسول، فرامین صحابہ اور اقوالِ اکابر ہیں شاید حالات زمانہ نے اس مقدس طبقہ کو بھی اس تلویث و آلودگی پر مجبور کر دیا ہے۔
تعمیرات کے سلسلے میں حد سے بڑھی ہوئی دلچسپیاں صرف مغل حکمرانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ایران سمیت ممالک عربیہ، افریقہ، اسپین اور یورپ وغیرہ مختلف خطوں اور علاقوں میں ہزاروں سال پہلے کی تعمیرات آج بھی سیاحوں کے لئے مرکز توجہ ہیں۔
حیرت تو اس پر ہے کہ’’ بحر میت ‘‘ اور ’’سدوم’‘ میں جو حضرت لوط علیہ السلام کی نالائق اور نافرمان قوم آباد تھی اس بستی کو اللہ تعالیٰ نے الٹ دیا تھا تاکہ عقل والے عبرت پکڑ سکیں ؟لیکن آج وہاں سیاحوں کے قافلے جوق در جوق اور کارواں در کارواں پہنچ کر اپنی خباثتوں، حرام کاریوں، عیاشیوں اور نیم برہنگیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
یمن شام اور غسان وغیرہ میں اسلام کی آمد سے پہلے ایسی تعمیرات موجود تھیں جو اپنی کہنگی، قدامت، بوسیدگی اور اپنے معماروں و مکینوں کی داستانِ دلخراش بیان کر رہی تھیں۔
۶۵۶ء مطابق ۱۲۵۸ء میں مغلوں نے بغداد پر قبضہ کر کے قتل عام شروع کیا اور آخری عباسی حکمراں معتصم باللہ ، ہلاکو خان کے ہاتھوں قتل ہوا، اس فساد میں جس طرح بغداد تہہ و بالا ہوا اور علوم و فنون کے ذخائر کو جس بے دردی اور شقاوت قلبی کے ساتھ ضائع کیا گیا اس کے تذکرہ ہی سے ہر آنکھ اشکبار اور ہر شخص دلفگار ہے۔
اس فتنہ و فساد کے بعد بغداد کی کیا حالت ہو گئی تھی، موسیو فلانڈین کی زبانی
’’بہت سی گرد کے نیچے دبی دبائی ہوئی چند مکانات کی بنیادیں نکلی ہیں جن میں بہ مشکل ہارون الرشید اور زبیدہ کی یادگار نظر آتی ہے’‘
قیامت قریب آ رہی ہے
رسو ل اللہؐ نے با ر بار ارشاد فرمایا کہ قیامت کے قریب:
٭مسجدوں کے احاطے بڑے بڑے اور منبر اونچے اونچے ہوں گے۔
٭مسجد کی محرابیں زر کاری سے مزین ہوں گی لیکن انکے دل ویران ہوں گے۔
٭قرآن شریف کے نسخوں کو آراستہ کیا جائے گا۔
٭مسجدیں خوبصورت بنائی جائیں گی ان کے مینارے اونچے ا ونچے ہوں گے مگر دل ویران ہوں گے۔
٭لوگ انسان کی جان کی کوئی وقعت نہ سمجھیں گے اور اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے۔
٭مسجدوں میں بدکاروں کی آوازیں بلند ہوں گی۔وعلت اصوات الفسقۃ فی المساجد۔
٭لوگ مسجدوں کے اندر آئیں گے مگر د و رکعت پڑھنے کی توفیق نہ ہو گی۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
ان یمرالرجل فی المسجد فلا یرکع رکعتین (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ۱۵۲، ابوداؤد، جمع الفوائد)
قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی مسجد سے گذر جائے گا مگر دو رکعت نماز(تحیۃ المسجد)بھی نہیں پڑھے گا۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں۔
وحتیّٰ تتخذالمساجد طرقاًفلا یسجد للہ فیہا۔ (الاشاعۃلاشراط الساعۃ ۱۵۳، طبرانی)
لوگ مساجد کو راستہ بنائیں گے مگر اللہ کے لئے اس میں سجدہ نہیں کریں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپؐ کا ارشا د گرامی بھی نقل کیا ہے
یأتی علی الناس زمان یکون حدیثہم فی مساجدہم فی امر دنیاہم فلا تجالسوہم فلیس للہ فیہم حاجۃ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ۱۵۳، بیہقی)
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مساجد میں دنیاداری کی باتیں ہوں گی پس ایسی مجالس میں مت بیٹھو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ رسول اکرم ا کی شدید ممانعت اور وعید کے باوجود ’’تعمیرات ‘‘ کے نام پر کس قدر فضول خرچی اور بے دریغ رقوم ضائع ہو رہی ہیں، جگہ جگہ شاندار مسجدوں کی تعمیر، ایک بڑی مسجد سے قریب دوسری وسیع و عریض اور بلند و بالا مسجد کا وجود، ایسے علاقوں اور محلوں میں جہاں گنے چنے افراد نماز پڑھتے ہوں وہاں بلا ضرورت کشادہ اور فلک بوس مسجدوں کی تعمیر، محل وقوع کے اعتبار سے نامناسب جگہ پر مسجدوں کا وجود، مساجد کی تعمیر میں مقابلہ آرائی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا ناپسندیدہ جذبہ، بڑی بڑی مسجدیں مگر نمازی ندارد، بڑے بڑے محراب نما مصلے مگر مصلی غائب، اونچے اونچے منبر مگر لائق خطیب و امام نہیں، ایسی جگہوں پر شاندار مساجد قائم کرنا اور ان پر اس قدر روپیہ پیسہ خرچ کرنا کہاں کی دانائی ہے ؟ ؎
مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
مسجد کے پاس دوسری مسجد
اگر کسی جگہ مسجد پہلے سے موجود ہے اور وہ مصلیوں کے لئے کافی ہے تو اس سے قریب دوسری مسجد تعمیر کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔
امداد الفتاویٰ کے حاشیہ میں یہ عبارت مرقوم ہے کہ
’’اگر دوسری مسجد قریب ہو تو اور مسجد بنانا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس سے پہلی مسجد کی اضاعت لازم آتی ہے، لیکن اگر بن جاوے تو اس کا منہدم کرنا اور بے ادبی کرنا جائز نہیں اور ایسی مسجد کی مثال ایسی ہے جیسے مغصوب کاغذ پر اگر قرآن لکھا جا وے تو نہ اس کی بے ادبی درست ہے نہ اس میں تلاوت درست ہے’‘ (حاشیہ امداد الفتاویٰ ۲/۶۶۸)
مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں
’’ایک محلہ میں متعدد مسجدیں بنانا کسی حال میں ضرر سے خالی نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ محلہ کی آبادی اتنی دور میں پھیلی ہوئی ہو کہ دوسرے کنارے کے لوگ نہ پہنچ سکیں ورنہ پھر احتیاط اسی میں ہے کہ ایک محلہ میں ایک سے زائد مسجد نہ ہو، یا چند بھی ہوں تو اس طرح کہ نزدیک نزدیک نہ ہوں، جس سے ایک جماعت میں انتشار پیدا ہو جائے۔
ایک مسجد کے ہوتے ہوئے اس کی بغل میں دوسری مسجد اس وقت تک نہیں بنائی جا سکتی جب تک کوئی شرعی مجبوری درپیش نہ آئے مثلاً یہ کہ پہلی مسجد تنگ ہو جائے، اس کو وسعت دینے کی گنجائش نہ ہو، یا ایک مسجد میں اجتماع سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو، بغیر کسی ایسی شرعی مجبوری کے دو مسجدیں بنا کر انتشار و تشتت پیدا کرنا اس اجتماعی نظام کے سراسر خلاف ہے کہ اس سے شیرازۂ دینی بکھر جائے گا، عبادات کا عروۃ الوثقیٰ مضمحل ہو جائے گا اور مسجد کی رونق جاتی رہے گی۔ (اسلام کا نظام مساجد ص ۱۵۹)
مکۃ المکرمۃ میں بلند و بالا عمارتیں
رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ
اذا رأیت مکۃ قد بعجت کظائم وساوی بناؤھا رؤس الجبال فاعلم ان الامرقداظلک فخذ حذرک ۔
(غریب الحدیث ۱/۲۶۹)
جب تم دیکھو کہ مکۃ المکرمہ کا پیٹ چیر کر نہروں جیسی چیزیں بنا دی گئی ہیں اور مکہ کی عمارتیں پہاڑوں کی چوٹیوں کے برابر اونچی ہو گئی ہیں تو سمجھ لو کہ معاملہ تمہارے سر پر آ چکا ہے اس لئے سنبھل کر رہو۔
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی اس حدیث کی وضاحت میں تحریر فرماتے ہیں
’’یہ حدیث صدیوں سے حدیث کی کتابوں میں نقل ہوتی آ رہی ہے لیکن اس کو پڑھنے والے یہ بات پوری طرح نہیں سمجھ سکتے تھے کہ مکہ مکرمہ کے پیٹ چیر نے کا کیا مطلب ہے اور اس کا پیٹ چیر کر نہروں جیسی چیزیں کیسے بنا دی جائیں گی لیکن آج جس شخص کو بھی مکہ مکرمہ کی زیارت کا موقع ملا ہے وہ دیکھ سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں واقع کتنے پہاڑوں اور چٹانوں کے پیٹ چیر کر زمین دوز راستے اور سرنگیں بنا دی گئی ہیں، آ ج مکہ مکرمہ کے شہر میں ان سرنگوں کا جال بچھا ہوا نظر آتا ہے اور ان میں نہروں کی طرح شفاف سڑکوں پر کس طرح ٹریفک رواں دواں ہے اس کے علاوہ مکہ مکرمہ کی عمارتیں نہ صرف پہاڑ کی چوٹیوں کے برابر ہو گئی ہیں بلکہ بعض جگہ ان سے بھی اونچی چلی گئی ہیں ‘‘
عمارتوں پر بے دریغ دولت کے ضیاع اور ان کو منقش و مزین کرنے کے بارے میں آپؐ نے اپنی امت کو پوری سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
پہاڑ کی چوٹیوں کے برابر عمارتیں
طبرانی میں یہ روایت موجود ہے کہ
سیبلغ البناء سلعاًثم یأتی علی المدینۃ زمان یمر السفر علی بعض اقطارھا فیقول: قد کانت ھذہ مرۃ عامرۃ من طول الزمان وعفو الاثر۔ (الاشاعۃ، طبرانی )
پر شکوہ مساجد ویران قلوب
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہؐ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے
یوشک ان یاتی علی الناس زمان لا یبقی من الاسلام الا اسمہ ولا یبقی من القرآ ن الا رسمہ مساجد ھم عامرۃ وھی خراب من الھدی علما ؤ ھم شر من تحت ادیم السماء من عندہم تخرج الفتنۃ وفیھم تعود۔ (بیہقی ومشکوۃ)
(قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ ) اہل مسجد ایک دوسرے کو ڈھکیلیں گے اور وہ امام نہیں پائیں گے جو ان کو نماز پڑھاوے مختلف جگہوں پر اور مختلف مساجد میں آج نماز پڑھانے کے لئے امام میسر نہیں حتی کہ فرداً فرداً لوگ نماز پڑھ کر چلے جاتے ہیں۔
بلند و بالا محل
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی ایک طویل روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں
وحتی تبنی الغرف ای القصورفتطاول (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ۱۵۱، ابن ابی الدنیا، طبرانی)
یہاں تک کہ بالا خانے بنائیں جائیں گے یعنی بلند و بالا محل تعمیر کئے جائیں گے۔
قرآن، مسجد اور اولاد کی شکایت
یجییُٔ یوم القیامۃ المصحف والمسجد والعترۃ فیقول المصحف یارب خرقونی ومزقونی ویقول المسجد یارب خربونی وعطلونی وضیعونی، وتقول العترۃ یارب طردونا وقتلونا وشردوناوأ جثوبرکبتی للخصومۃ۔فیقول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ، ذلک الیَّ وانا اولیٰ بذلک۔ (الاشاعۃ۱۵۵، دیلمی عن جابر، احمد والطبرانی عن ابی امامۃ)
آبادی کا پھیلا ؤ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ
لاتقوم الساعۃ حتی یبلغ البناء اہاب اویہاب۔ (مسلم حدیث ۷۲۱۹، ۔الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ۲۹۵)
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ اھاب یا یھاب تک عمارتیں (آبادی) نہ پہنچ جائے۔
صاحب اشراط الساعۃ لکھتے ہیں کہ اھاب یایھاب یہ حرۃ العربیۃ کے قریب ایک بستی ہے اور یہاں تک آبادی پہنچنے والی ہے۔
بیکار مال
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا
اذا لم یبارک للعبد فی مالہ جعلہ فی الماء والطین۔ ( بیہقی، مشکوٰۃ۱۴۴)
جب انسان کے لئے اس کے مال میں برکت نہیں دی جاتی ہے تو وہ اسے اینٹ گارے میں لگا دیتا ہے۔
حضرت خبابؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فر ما یا
یؤجرالرجل فی نفقتہ الا التراب۔(ترمذی و ابن ماجہ )
انسان جو کچھ خرچ کرتا ہے اس پر اجر ملتا ہے سوائے اس پیسے کے جو اس نے مٹی (مکان ) میں خرچ کیا
اسی طرح کی ایک روایت حضرت حارثہ بن مضرب ؓ کی ہے جس کو ترمذی نے نقل فرمایا ہے کہ
یؤجرالرجل فی نفقتہ الا التراب(ترمذی ۲/۷۱)
آدمی کو مٹی میں خرچ کرنے کے سوا اور سب جگہ خرچ کرنے میں ثواب دیا جائے گا۔
چنانچہ حضرت ابراہیم سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
کل بناء وبال علیک قلت أرایت مالابدمنہ قال لا اجرولاوزر۔(ترمذی ۲/۷۵)
ہر عمارت تجھ پر وبال ہے، پوچھا گیا اور جس کے بغیر چارہ نہ ہو ؟ جواب دیا اس کا بنانا باعث ثواب ہے نہ موجب گناہ۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے
رجال لا تلہیہم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ۔ (پ۱۴)
ایسے لوگ کہ جنہیں نہ تجارت غفلت میں ڈالتی ہے نہ (خریدو) فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد سے۔
ترمذی شریف میں ایک روایت ہے کہ
ان لکل امۃ فتنۃ وفتنۃ امتی المال (ترمذی ص ۵۶ج۲)
ہر امت کے لئے ایک امتحان و فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کے لئے آزمائش مال ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ
النفقۃ کلہا فی سبیل اللّٰہ الا البناء فلا خیر فیہ۔ (ترمذی شریف ص۲/۷۵)
خرچ و اخراجات سب اللہ تعالیٰ کے راستہ میں شمار ہوتے ہیں سوائے مکان و عمارت کے کہ اس میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہے۔
دنیا میں مسافر کی طرح رہو
ہمارے اسلاف نے صرف اسی قدر تعمیر کو ضروری سمجھا جس میں ضرورت کے مطابق آرام کے ساتھ سر چھپانے کی گنجائش ہو چونکہ یہ دنیا ایک سرائے اور مسافر خانہ ہے جہاں سے کو چ کرنے کے لئے ہر مسافر کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔
کن فی الدنیا کأنک غریب أوعابر سبیل۔ (ترمذی ۲/۵۷)
تم دنیا میں پردیسی یا راہ گذر کی طرح زندگی گزارو۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ
مالی والدنیا وانما مثلی ومثل الدنیاکمثل راکب صارفی یوم صائف فرفعت لہ شجرۃ فقال تحت ظلھا ساعۃ ثم راح وترکھا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، حاکم)
مجھ کو دنیا سے کیا کام اور میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی سوار گرمی کے دن میں چلے اور اس کو کوئی پیڑ مل جائے اور اس کے سایہ کے نیچے ایک ساعت سو رہے پھر چل دے اور اسے چھوڑ دے۔
اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت امام غزالی ؒ فرماتے ہیں
’’جو کوئی دنیا کو اس نظر سے دیکھے کبھی اس کی رغبت نہ کرے اور نہ پرواہ کرے کہ دن کس طرح گزرتے ہیں تنگی میں یا فراخی میں رنج میں یا راحت میں اور اینٹ پر اینٹ بھی نہ رکھے۔
آنحضرتؐ کو دنیا کی کیفیت خوب معلوم تھی اس لئے زندگی بھر نہ مکان اینٹ کا بنایا نہ لکڑی کا بلکہ بعض صحابہ کو لکڑی کا مکان دیکھ کر فرمایا ارے !الامر اعجل من ھذا (میں دیکھتا ہوں اس امر کو اس سے جلد تر(ابوداؤد و ترمذی) اور مکان کا بنوانا برا معلوم ہوا’‘ ۔
حضرت سعید بن مسیبؒ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
عن سعید بن المسیب قال:قیل یارسول اللہ لو بنیتہ یعنی المسجد؟قال؟لا، بل جرائدعلیٰ اعواد، الشأن اعجل من ذٰ لک۔ (کتاب الزہد والرقاق ۵۵، جزء الرابع)
صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کیا آپ کے لئے ایک عمارت یعنی مسجد بنا دی جائے؟فرمایا:نہیں، بلکہ چٹائیوں اور بانس کی بناؤ!اور موت اس سے بھی قریب ہے۔
دنیا ایک پُل ہے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں
’’دنیا ایک پل ہے اس پر گزر جاؤ اور عمارت نہ بنا ؤ ‘‘ (احیاء العلوم اردو۔۳/۳۱۶)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس ارشاد گرامی کی وضاحت کرتے ہوئے امام غزالی ؒ فرماتے ہیں
’’اور پل پر عمارت بنانی اور اقسام زینت سے آراستہ کرنا اور پھر چھوڑ کر چلے جانا نہایت جہل اور ذلت ہے ‘‘ ( احیاء العلوم اردو۔۳/۳۱۶)
فخریہ مساجد
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
ان من أشراط الساعۃ ان یتباہی الناس فی المساجد۔ (ابوداؤد، نسائی، دارمی، ابن ماجہ، مشکوۃ ۶۹)
قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ باہم مسجد بنانے میں فخر کریں گے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت منقول ہے کہ
یتباہون بہا ثم لا یعمرونہا الاقلیلا (بخاری)
وہ باہم ان عمارتوں کے ذریعہ ایک دوسرے پر فخر کرتے ہیں پھر ان کو بہت کم دن آباد رکھ پاتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ
لاتقوم الساعۃ حتیٰ یتباہی الناس فی المساجد(ابن ماجہ)
ای یتفاخر کل واحد بمسجدی ارفع وازین واحسن واوسع۔ (عبارت بین السطور ابن ماجہ ۵۴)
ہر عمارت اپنے مالک کے لئے وبال
ابو داؤد شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت ہے کہ
’’ ایک روز رسول اللہؐ نے ایک انصاری صحابی کے اونچے مکان کو دیکھ کر دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ فلاں انصاری کی عمارت ہے۔ آپ نے توقف فرمایا، پھر ایک روز وہ انصاری صحابی حاضر خدمت ہوئے اور سلام عرض کیا آپ نے اعراض فرمایا انہوں نے پھر سلام کیا آ پ نے پھر بھی اعراض کیا تو انہوں نے دیگر ساتھیوں سے معلوم کیا کہ آپ ؐ کیوں خفا ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ آپؐ نے تمہارا مکان دیکھ لیا ہے، وہ صحابی اپنے گھر پہنچے اور مکان کو گرا دیا۔۔۔۔ایک دن پھر آپؐ کا گزر اس طر ف ہوا تو وہ مکان نہ دیکھ کر فرمایا کہ وہ مکان کیا ہوا عرض کیا گیا کہ مالک مکان نے آپ کے اعراض و بے توجہی کے باعث اس مکان کو گرا دیا تو آپ نے فرمایا سن لو! ہر عمارت اپنے مالک کے لئے وبال بنے گی سوائے اس کے جو ضروری اور لازمی ہو۔’‘
حضرت مولانا احسن نانوتوی ؒ نے احیاء العلوم (اردو)کے حاشیہ میں یہ روایت تحریر فرمائی ہے کہ
’’عمارت بناؤ واسطے ویران ہونے کے اور بچے جنو واسطے فنا ہونے ‘‘ (احیاء ۳/۳۹۳)
ظاہر ہے یہاں جو بھی تعمیرات کی جائیں گی وہ یہیں رہ جائیں گی، ہمارے ساتھ نہ تو ہماری دولت جائے گی اور نہ ہی یہ بلند بالا عمارات اور محلات جائیں گے، ہاں ! اگر کوئی چیز ساتھ جائے گی تو وہ ہمارے اعمال ہیں۔
مساجد کو لال پیلا کرنے کی ممانعت
بخاری شریف میں ہے کہ
قال ابو سعید کان سقف المسجد من جرید النخل وامرعمر ببناء المسجد وقال اکن الناس من المطر وایاک ان تحمر اوتصفر فتفتن الناس۔ (بخاری۱/۶۴
مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی حضرت عمر نے مسجد نبوی کی تعمیر کا حکم دیا اور (تعمیر کی ضرورت بتاتے ہوئے)فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں (مگر)تم مسجد کو لال پیلا(رنگین) کرنے سے احتیاط کرو ورنہ لوگ فتنہ میں پڑ جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ بقدرِ ضرورت تعمیر درست ہے لیکن بیجا اسراف، فضول خرچی اور دکھاوے کے لئے یا ڈینگیں مارنے کے لئے بلڈنگیں بنانا درست نہیں۔
مساجد کی زینت
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے آپؐ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے۔
اذازخرفتم مساجدکم وحلیتم مصاحفکم فالدمار علیکم۔ (الاشاعۃ ۱۵۵، حاکم)
جب تم مساجد کو مزین کرنے لگو اور قرآن کریم کو زرق برق لباس (جزدان)پہنانے لگو تو سمجھ لو کہ قیامت آنے والی ہے۔
آج پوری دنیا میں مساجد کو نہ صرف مزین کیا جا رہا ہے بلکہ قرآن کریم کو بھی عمدہ اور نفیس ترین کاغذ پر دلکش و خوشنما رنگوں میں شائع کیا جا رہا ہے لیکن ان کے پڑھنے ندارد ہیں۔
ابن ماجہ شریف کے حاشیہ میں ہے کہ
قولہ الازخرفوا:ای زینوا واصل الزخرف الذہب ای نقشوہا وموہوہا بالذہب وہذا وعید شدیدلمن لم تصدی بعمارۃ الظاہر وتخریب الباطن فان الصاحابۃ کانوا ارغب الناس فی اعمال الخیرواسرعہم فی افعال البر وماشیدوا ماسجدہم الا قلیلاوفی امثال ہذہ المواطن۔(حاشیہ ابن ماجہ۵۴)
زخرف: زینت کو کہتے ہیں، دراصل ’’تزخرف’‘ نام ہے سونے کے پانی چڑھانے اور سنوارنے کا کیونکہ لغت میں ’’زخرف’‘ کے معنیٰ سونا اور کسی چیز کو کمال حسن دینا ہے، یہ بناؤ اور سنگار زیب و زینت نقش و نگار دوسری قوموں سے مسلمانوں میں منتقل ہوا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہمارے اندر زیب و زینت کا مرض یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ وہ قومیں ہم سے پیچھے رہ گئیں، ہم آگے نکل گئے۔(نظام مساجدملخصاً)
مساجد کو بیل بوٹوں اور رنگ و روغن سے مزین کرنے میں دولت کا ضیاع اپنی جگہ دوسرا نقصان دہ پہلو نمازیوں کے خشوع و خضوع کے جانے کا بھی ہے۔
امام نوویؒ مسلم شریف کی شرح میں فرماتے ہیں
’’مسجد کی محراب کی تزئین اور اس کی دیواروں کو منقش بنانا ایسی چیزیں ہیں جو نمازیوں کی توجہ اپنی طرف جذب کر لیتی ہیں، لہذا محراب اور در و دیوار کی تزئین، نیز نقش و نگار بنانا مکروہ ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی منقش چادر کو دور کرتے ہوئے یہی علت بیان فرمائی تھی۔
اسی وجہ سے علما نے سادہ، مضبوط اور بقدر ضرورت خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی ہے، غیر ضروری پھول پتیوں سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔
بحرالرائق میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
والاولیٰ ان تکون حیطان المسجد ابیض غیرمنقوشۃ ولامکتوب علیہا ویکرہ ان تکون منقوشۃ بصوروکتابۃ۔ (بحرالرائق۵:۲۵۱)
اچھا یہ ہے کہ مسجد کی دیواریں سفید اور نقش و نگار سے پاک ہوں، ان پر لکھا ہوا بھی نہ ہو۔صور و کتابت سے منقش کرنا مکروہ ہے
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی رائے گرامی جو تفسیر عزیزی میں موجود ہے اس کو بھی پڑھتے چلئے
’’تعمیر مسجد میں احتیاط سے کام لیں کہ وہ مطلاّ و مزین کی حد کو نہ پہنچنے پائے کی دیواروں اور چھتوں پر سونے کا پانی نہ چڑھائیں اور نہ پھول پتیوں سے آراستہ بنائیں اور نہ نیلے رنگ وغیرہ سے رنگین کریں، کیونکہ اس طرح کی چیزیں مسجد کو تماشا گاہ کے درجہ میں کر دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امیر المؤ منین فاروق اعظمؓ نے مسجد نبوی کی تجدیدات کے وقت تاکید کر دی تھی کہ مسجد ایسی ہو جو لوگوں کی بارش وغیرہ سے حفاظت کرے، خبردار سرخ، زرد، رنگوں سے رنگین مت بنانا کہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہو جائیں ‘‘ ۔
مولانا ابرار الحقؒ مظاہری ہردوئی ارشاد فرماتے ہیں
’’آج کل مساجد میں پینٹ کا رواج ہو رہا ہے حالانکہ اس میں کس قدر بدبو ہوتی ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ خشک ہونے پر یہ بو زائل ہو جاتی ہے، مگر افسوس!کہ یہ منکرات اور معصیت کے ارتکاب کو کہ اس سے اذیت ملائکہ اور مسلمین ہے، کیا تھوڑی دیر کے لئے بھی روا رکھنا جائز ہو گا؟۔۔میں نے بمبئی کی ایک مسجد میں یہ بیان کیا کہ یہ پینٹ بدبو دار نا جائز ہے اور اس کے لئے چندہ دینے والے بھی گنہگار ہوں گے، بس ایک صاحب نے مہتمم سے اپنے سو روپئے اسی وقت واپس لے لئے، ایک اہل علم نے اسی مجلس میں دریافت کیا کہ پھر دروازوں اور کھڑکیوں پر کیسے رنگ ہو؟اس میں بھی تو بدبو ہوتی ہے؟میں نے کہا کہ دروازوں اور کھڑکیوں کو لگانے سے پہلے ہی مسجد کے باہر رنگ لیا جائے’‘ (مجالس ابرار ص ۲۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے
ما اساء قوم قط الا زخرفوا مساجدھم (ابن ماجہ )
جب کسی قوم کے اعمال بگڑتے ہیں تو وہ اپنی مسجدوں کو مزین کرتی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے
أراکم ستشرفون مساجدھم کماشرفت الیھود کنائسھا وکما شرفت النصاریٰ بیعھا (ابن ماجہ )
میں دیکھتا ہوں کہ تم قریب ہی زمانہ میں مسجدوں کو بلند و بالا بنانا شروع کرد و گے جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنے کنیسے اور گرجے بنواتے ہیں۔
حضرت انسؓ کا ارشاد ہے
یتباھون بھا ثم لایعمرونھا الا قلیلا (بخاری )
مسجدوں میں لوگ تفاخر کریں گے مگر پھر اس کی آبادی کا خیال کم ہی لوگوں کو ہو گا۔
گرجا گھروں اور کلیسا کی طرح تزئین کاری
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ
تزخرف المساجد کماتزخرف الکنائس والبیع وتطول المنابروتکثر الصفوف مع قلوب متباغضۃ۔ (الاشاعۃ۱۵۸، ابن مردویہ)
مساجد ایسے مزین و منقش کی جائیں گی جیسے کلیسا اور گرجا گھر اور منبر اونچے کئے جائیں گے صفیں کثرت کے ساتھ ہوں گی مگر(ان صفوں میں شامل ہونے والوں کے )قلوب ایک دوسرے سے نفرت کریں گے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی یہ روایت بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
تزخرف المساجد کماتزخرف الکنائس والبیع وتحلی المصاحف ویطیلون المنابر۔ (الاشاعۃ ۱۶۰)
مساجد ایسے مزین و منقش کی جائیں گی جیسے کلیسا اور گرجا گھر اور قرآن کریم کو آراستہ کریں گے اور منبر بہت اونچے بنائے جائیں گے
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
عندہا یوضع الدین وترفع الدنیا ویشید البناء وتعطل الحدودویمیتون سنتی۔ الاشاعۃ۱۶۲
اس وقت دین اٹھ جائے گا، دنیاداری بڑھ جائے گی، عمارتیں مضبوط بنائی جائیں گی، حدود (شریعت)کو معطل کر دیا جائے گا اور میری سنتوں کو مارا جائے گا(سنتوں سے روگردانی کی جائے گی)
محمد بن رسول برزنجیؒ ’’وشیدالبناء’‘ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
طولوہامن الشید بمعنی الرفع او جصصوہا عملوہا بالشید۔ الاشاعۃ ۱۶۵
یعنی اس کو بہت اونچا اور بلند کیا جائے گا(سیمنٹ وغیرہ سے)یا گچ کیا جائے گا۔
ابن ماجہ شریف کے حاشیہ میں ہے
کانت الیہود والنصاریٰ تزخرفوا المساجد عندما حرفوا امردینہم وانتم تصیرون الیٰ مثل حالہم فی الاہتمام بالمسجد وتزیینہا وکان المسجد علیٰ عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باللبن وسقفہ بالساج (ابن ماجہ ص۵۴)
ابو داؤد شریف میں ہے کہ
امرت بتشییدالمساجد (ابوداؤد)
مجھ کو مساجد کے مضبوط و بلند بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ
وحلیت المصاحف وزخرفت المساجد وطولت المنابر وفسدت القلوب۔( الاشاعۃ لاشراط الساعۃ۱۶۴)
قرآن کریم کو آراستہ و پیراستہ کیا جائے گا مساجد کو مزین اور منبر کو اونچا کیا جائے گا درآنحالیکہ ان کے قلوب میں فساد و بگاڑ ہو گا۔
ویران قلوب
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا
ان تزخرف المحاریب وان تخرب القلوب۔ (الاشاعۃ ۱۴۵، طبرانی وابن عساکر)
(قیامت کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ)محرابوں کو مزین کیا جائے گا مگر ان کے قلوب ویران ہوں گے۔
آج پوری دنیا میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مساجد کی تزئین کاری اور منبر و محراب کی زینت و پرکاری پر کس قدر توجہ دی جا رہی ہے اعلیٰ سے اعلیٰ اور نفیس ترین ڈیزائننگ پر بے دریغ دولت خرچ کی جا رہی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان فضول کاموں پر اپنی تمامتر توجہات اور دلچسپی کا مظاہرہ کرنے والوں کے قلوب ویران ہیں نہ تو معماروں کے اندر خلوص وللہ یت ہے اور نہ ہی انجینئروں، ٹھیکیداروں اور متولیان کے قلوب خوفِ خدا اور زہد و اتقاء سے معمور ہیں، کمال تو یہ ہے کہ مساجد کی تعمیر کرنے والے مستری اور کارکنان نماز کے اوقات میں بھی اپنا تعمیری کام جاری رکھتے ہیں نہ تو خود انہیں نماز کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی ان سے نماز کے لئے کہا جاتا ہے کیا اس جرم اور تغافل کا ہم سے حساب نہیں ہو گا۔
کھلی مساجد، اونچے منبر
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی مذکورہ بالا روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ
ان تکثف المساجد وان تعلوالمنابر۔(الاشاعۃ ۱۴۵)
مسجدیں کھلی اور محراب بلند ہوں گے۔
کھلی فضا، کشادہ و عریض صحن، ہوادار اور پروقار برآمدے، نفیس و نقشیں قالین، مخملی فرش، چمک دار منبر اور نہ جانے کتنے فانوس و قمقمے مساجد میں نظر آرہے ہیں، بیل بوٹے، زر کاری، تراش و خراش، تکلفات و تصنعات اور بے جا رنگ و روغن کونسا ایسا کام ہے جو مسجدوں اور دیگر تعمیرات میں نہیں ہو رہا ہے لیکن اگر کوئی چیز ویران ہے تو وہ ہمارے قلوب ہیں جن کے اندر سے للہ یت ختم ہو چکی ہے۔
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ فرماتے ہیں
’’آہ!آہ!آج ہماری بہت سی مسجدیں تو نماز اور جماعت کو ترستی ہیں۔۔ان میں انسانوں کے بجائے قسم قسم کے جانور معتکف نظر آتے آتے ہیں
گفتم ایں شرط آدمیت نیست
مرغ تسبیح خواں و تو خاموش
اور جو کچھ آباد بھی ہیں تو ایسی کہ شرعی اصطلاح میں ان کو آباد نہیں کہا جا سکتا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایسی مسجد کے متعلق ارشاد فرماتے ہیںمساجدہم معودۃ وہی خراب(ترجمہ)اخیر زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی مگر درحقیقت ویران، اول تو ان میں نمازی کم ہیں اور جو کچھ ہیں تو مسجدیں ان کی نشست گاہ (چوپال) بنی ہوئی ہیں اور دنیا کے تمام دھندے کی بارگاہ اور اس قسم کی یہ توقیر آج خدا کے گھر اس کے ذکر سے خالی ہیں اور دنیا کے تمام دھندے اس میں موجود ہر قسم کے قصے قضیے وہاں طے ہوتے ہیں، بازاروں کا شور و شغب وہاں موجود ہے، وہ کھانا کھانے کے کمرے بھی ہیں اور لیٹنے اور سونے کے لئے آرام گاہیں بھی ہیں غرض سب کچھ ہے مگر اس چیز کا قحط ہے جس کے لئے خداوند عالم کی یہ بارگاہیں بنائی گئی ہیں ‘‘ ۔ (آداب المساجد)
آباد کو ویران اور ویران کو آباد کیا جائے گا
محمد بن عطیہ السعدی ؒ کی روایت کوابن عساکرؒ نے نقل کیا ہے
ان یعمر خراب الدنیا ویخرب عمرانہا (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ۱۴۵، طبرانیو ابن عساکر)
(علاماتِ قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ ) ویران اور خراب کو آباد کریں گے اور آباد کو ویران کریں گے۔
علامہ محمد بن رسول برزنجی حسینی ؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ای : یخرب البلد العامر ویبنی بمحل آخرکما نقل مصر الی القاھرۃ وکما نقل الکوفۃ الی نجفۃ (الاشاعۃ ۱۴۵)
(یعنی )آبادی کو ویران کر کے دوسری جگہوں پر تعمیر کریں گے جیسے مصر کو قاہرہ منتقل کیا گیا، ایسے ہی کوفہ کو نجف منتقل کر دیا گیا۔
حضرت عبد اللہ بن زینب ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا
واخرب العامر واُعمرالخراب (الاشاعۃ ۱۵۲، عبدالر زا ق)
آبادیوں کو ویران کیا جائے گا اور ویرانیوں کو آباد کیا جائے گا۔
خوشنما تعمیرات کی ابتدا
خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ کا دور خلافت فتوحات اور اسلامی ترقیات کے باب میں نہایت نمایاں مقام کا حامل ہے لیکن ان کے دور خلافت میں تعمیرات میں تنوع کے سلسلہ میں غایت احتیاط رکھی گئی لیکن خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں تھوڑی سی زیبائش آئی اور وہ بھی مستحکم عمارات کے ضمن میں، بات یہ ہوئی کہ اس دور میں نفاست بڑھ گئی تھی، لوگوں نے محل بنوانے شروع کر دئے، جس کی وجہ سے حضرت عثمانؓ نے بھی اس کی ضرورت محسوس فرمائی کہ مسجد کی عمارت میں ترقی دی جائے۔
مسجد کی زینت میں حضرت عثمانؓ کے دور میں پھر بھی اعتدال تھا لیکن بنی امیہ کے خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں چونکہ صحابہ کرام کا اخیر زمانہ تھا، اس وقت مدینہ کے عامل (گورنر)حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ تھے ان ہی کی نگرانی میں مسجد نبوی کی تعمیر جدید شروع ہوئی اور صناع و معمار قیصر روم کے یہاں سے منگوائے گئے، ساز و سامان بھی بہت کچھ وہیں سے آیا، کاری گر چونکہ قبطی یا رومی تھے اس لئے انہوں نے موقع بموقع مسجد کی بے حرمتی بھی کی اور نقش و نگار اور جھاڑ و فانوس کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا، صرف قبلہ والی دیوار پر۴۷ہزار اشرفیاں خرچ کی گئی تھیں، تین چار سال میں یہ کام مکمل ہوا تھا۔تکمیل عمارت کے بعد ولید دیکھنے آئے تو اتفاق سے ان کی ملاقات حضرت عثمانؓ کے کسی صاحبزادے سے ہو گئی ولید نے ان سے کہا دیکھئے آپ کے والد کی تعمیر کردہ مسجد اور اس میں کتنا فرق ہے؟یہ سن کر صاحب زادے نے جواب دیا کہ ہاں میرے باپ کی تعمیر مسجد تھی اور آپ کی یہ تعمیر کردہ عمارت یہود و نصاریٰ کے کنیسوں جیسی ہے۔
(اسلام کا نظام مساجد ص ۱۶۹)
حلال مال
ہر چیز میں ضروری ہے کہ نیت کی اصلاح کے ساتھ اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ مسجد میں جو مال لگایا جا رہا ہے وہ حلال کمائی کا ہے یا نہیں ؟
حرام مال اپنا ایک اثر رکھتا ہے جو کبھی نہ کبھی فتنہ و فساد کا مرکز بن جاتا ہے جیسے زہر کہ اگر فوری طور پر کچھ بھی نہ ہو تو بھی مطمئن نہ رہنا چاہئے پھر یہ مال جو مسجد جیسی پاک جگہ میں صرف ہو رہا ہو، یہ دربار الہی ہے اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس لئے اس میں ناپاک مال کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے۔ان اللّٰہ طیب لایقبل الا الطیب(مسلم)
بیشک اللہ تبارک تعالی پاک ہے وہ بجز پاک اور حلال کے قبول نہیں کرتا۔ (اسلام کا نظام مساجد)
مساجد کا نقش و نگار وقف کے مال سے جائز نہیں
مسجد کا نقش و نگار وقف کے مال سے جائز نہیں ہے لیکن استحکام جائز ہے
واما المتولی یفعل من مال الوقف مایرجع الیٰ احکام البناء دون مایرجع الیٰ نقش حتیٰ لو فعلہ یضمن۔ (ہدایہ۲/۱۲۴)
متولی مال وقف سے تعمیری استحکام تو کر سکتا ہے، نقش و نگار نہیں اگر (بیجا)نقش و نگار کرے گا تو ضامن ہو گا۔
فقہ کی مشہور کتاب در مختار میں ہے کہ
ویکرہ التکلف بدقائق النقوش ونحوہا (در مختار باب الوتر والنوافل)
باریک نقش و نگار اور تزئین کاری مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ
’’مکان بنوانا کس قدر اونچا درست ہے، زید کہتا ہے کہ چھ گز سے زیادہ مکان بنوانا نہ چاہئے’‘
اس سوال کا جواب حضرت امام ربانیؒ تحریر فرمایا کہ
’’قدر گزر اور ضرورت سے زیادہ تعمیر ناپسند ہے، قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم کل بناء وبال الامالا بدمنہ یعنی جو تعمیر ہے وہ سب وبال اور خرابی ہے مگر جس قدر کہ ضروری ہو، مگر پانچ چھ گز کی کچھ قید نہیں ہے ہر شخص کی ضرورت مختلف ہے’‘ (فتاویٰ رشیدیہ۵۵۷)
اسی طرح عموماً کسی دینی تقریب یا رمضان شریف میں ختم کلام اللہ کے موقع پر بعض لوگ ضرورت سے زیادہ روشنی وغیرہ کا نظم کرتے ہیں، ایسے ہی موقع کے لئے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فرماتے ہیں
حاجت سے زیادہ روشنی ہر روز ہر وقت حرام اسراف ہے اور ایسی برکت کے وقت میں زیادہ موجب خسران ہے’‘ (ایضاً۵۲۴)
حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں
’’حضرت گنگوہیؒ کا قول یاد آتا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی فہرست مسجد کے چندہ وغیرہ کی لے کر آتا تو فرماتے کہ میاں !کیوں لوگوں کے پیچھے پڑے ہو؟مسجد یا مدرسہ بنانا ہی ہے تو کچی دیواریں اٹھا کر بنا لو، اگر وہ کہتا کہ حضرت کچی دیواریں گر جائیں گی، تو فرماتے کہ میاں !پکی بھی آخر گریں گی، تو جب گر جائیں گی دوسرا بنا وے گا، تم قیامت تک کا بندوبست کرنے کی فکر میں کیوں پڑے ہو؟بات یہ ہے کہ
آرزو می خواہ لیک اندازہ خواہ
برنتابدکوہ رایک برگ گاہ
چارپارا قدر بار نہ
برضعیفان قدر ہمت کار نہ ‘‘
حضرت تھانویؒ نے ایک دوسری جگہ تحریر فرمایا ہے کہ
’’آج کل مسجدیں بہت عالیشان ہیں، مگر نمازیوں کی کمی ہے، اس کے بجائے اگر مسجدیں کچی ہوں اور نمازی زیادہ ہوں تو یہ بہت اچھا ہے، غرض اصل کام کے لئے تو روپیہ تھوڑا بھی کافی ہے جو ترغیب سے بھی مل سکتا ہے، یہ کیا ضرورت ہے کہ عالیشان مسجد بنانے کی ٹھان لو اور اس کے لئے لوگوں کے گلے گھونٹ گھونٹ کر سوال کی ذلت اٹھا کر چندہ لو۔۔علیٰ ہذا۔۔کوئی مدرسہ کھولنا ہو تو آج کل عادت یہ ہو گئی ہے جو مدرسہ کی اصلی غرض ہے اس کی طرف تو لوگ نظر کرتے نہیں زوائد کو شروع کر دیتے ہیں، سب سے پہلے عمارت بنتی ہے او ر وہ بھی ایسی ہوتی ہے کہ لوگ تماشہ کے لئے آیا کریں روپیہ جو کچھ ہوتا ہے وہ تو اس میں خرچ ہو جاتا ہے مدرسہ سے اصل غرض تعلیم ہے اس پر تو مٹی ڈال دی اور مدرسین اور طلبہ کی پڑھائی اور عالی شان عمارت بنا کر کھڑی کر دی چا ہے مدرسین ناقابل ہی ہوں اور چا ہے طلبہ بھوکے ہی مرتے ہوں کیا صاحبو کچے مکان میں تعلیم نہیں ہو سکتی عمارت کو تعلیم میں کیا دخل ہے، جتنا روپیہ عمارت میں صرف کرتے ہو اتنا روپیہ مدرسین کی تنخواہوں اور طلبہ کے وظیفوں میں خرچ کرو اس طرح تھوڑے روپیہ میں زیادہ کام ہو گا اور جو غرض ہے مد رسہ سے وہ بوجہ احسن پور ی ہو گی اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ دیکھنے والوں پر بھی اثر ہو گا، دنیا میں سب لوگ ظاہر بیں ہی نہیں ہیں سمجھدار لوگ بھی ہیں سب لوگ اس خیال کے نہیں ہیں کہ بڑا مدرسہ اس کو سمجھیں جس کی عمارت بڑی ہو بلکہ اس خیال کے لوگ بھی ہیں جو اصل مقصود کو دیکھتے ہیں، تعلیم اچھی ہو گی تو اس پر نظریں اچھی پڑیں گی اور اس میں امداد کرنے کے لئے خواہ مخواہ دلوں میں حرکت پیدا ہو گی’‘
(اصلاح اعمال ذم المکروہات ص ۴۴۲تا۴۴۴ ملخصا)
تاریخ حرمین شریفین جلد دوم میں ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا یا نبی اللہ ، اللہ تعالی کا آپ کو حکم ہوا ہے کہ ایک گھر ’’مسجد’‘ بنائیں اور اس کی تعمیر گارے اور پتھر سے کریں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کتنا بلند کر دیں ؟جواب میں ارشاد ہوا سات ذراع’‘ (تاریخ حرمین شریفین ص۱۴۵ج۲)
’’آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کے حجرے بھی صرف کھجور کی شاخوں اور محض کچی اینٹوں کے تھے اور دروازوں پر پردہ کے لئے سادہ پرانے کمبل پڑے رہتے تھے چراغ بھی نہیں چلتا تھا’‘ (تاریخ حرمین شریفین ص۱۴۷ج۲ )
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہو گئی تو حضرت کعب احبار فرمایا کرتے تھے ’’کاش یہ تعمیر مکمل نہ ہو’‘ اگر ایک طرف سے مکمل ہو تو دوسری طرف سے گر جائے لوگوں نے دریافت کیا، آپ ایسی بات کیوں کہتے ہیں ؟ جب کہ آپ خود حدیث بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دوسری مسجد کی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے؟انہوں نے جواب دیا!بیشک میرا اب بھی یہی عقیدہ ہے لیکن میں یہ بات اس لئے کہتا ہوں کہ اس عمارت کے مکمل ہونے پر مسلمانوں پر ایک فتنہ نازل ہو گا کہ اس کے اور زمین کے درمیان ایک بالشت سے زیادہ فاصلہ نہ ہو گا اور وہ فتنہ اس تعمیر تک رکا ہوا ہے، لوگوں نے کعب احبار سے پوچھا وہ کون سا فتنہ ہو گا؟ انہوں نے کہا اس شیخ یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ہونا؟ان کی یہ بات سن کر کسی نے پوچھا کیا حضرت عثمان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح قتل کئے جائیں گے؟۔ (تاریخ حرمین شریفین ص۱۶۰ج۲ بحوالہ حزب القلوب)
مولانا ابن الحسن عباسی لکھتے ہیں
’’آج عالم اسلام تاریخ کے بہت نازک دور سے گزر رہا ہے غیرمسلم قوتیں تمام اسباب و سر و سامان کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں، ہر صبح اور ہر شام اسلام کی چول ہلانے کے لئے کسی نئی ضرب کفر سمیت نمودار ہوتی ہے، برما اور فلسطین کے مسلمان بے کسی کے ہاتھوں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، اندلس کی وہ سرزمین جو آٹھ سو سال تک پرچم اسلام کی رفعت دیکھتی رہی آج مسلمانوں کے اس دیس میں اسلام کا نام و نشان نہیں، اسی اندلس کی وہ مسجد قرطبہ جو چار سو سال تک اذان رسول اللہ کی صداؤں سے معمور رہی آج وہ سیاحان عالم کے لئے تفریح گاہ بنی ہوئی ہے، بیت المقدس پر یہودیوں کا تسلط ہے اور اللہ کا یہ مقدس گھر مسلمانوں کے دسترس سے باہر ہے۔
دیدہ انجم میں ہے تیری زمین، آسمان آہ
کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذان
محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ مساجد کو تماشہ گاہ بنانے کو بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے، چنانچہ مظاہر علوم وقف کے دار الطلبہ قدیم کی مسجد کلثومیہ تیار ہونے پر بعض عورتیں پردہ کرا کے دیکھنے آئیں تو آپ ؒ نے فرمایا
’’جو وہاں جائے تو تحیۃ المسجد ضرور پڑھے’‘
بعض احباب نے حضرت محدث سہارنپوریؒ سے راجستھان کے مشہور قلعہ آمیر کو دیکھنے کے لئے اصرار کیا تو اس کو دیکھنے کے لئے پہاڑ پر تشریف لے گئے اس لئے کہ وہ قلعہ پہاڑ پر واقع ہے، اسی قلعہ سے قریب ایک پرانی یادگار شاہی مسجد بھی ہے جب آپ نے اس میں قدم رنجہ فرمایا تو اپنے خادم حضرت مولانا عاشق الہی میرٹھیؒ کو حکم دیا کہ
’’مولوی عاشق الہی!تحیۃ المسجد ادا کرنے کے لئے وضو کر لو کیونکہ مسجد کو تماشہ گاہ بنانا جائز نہیں، یہ عبادت کے لئے ہے نہ کہ یادگار سمجھ کر دیکھنے کے لئے’‘
ایک مرتبہ آپ شملہ تشریف لے گئے وہاں ایک مسجد کے نائب نے بعد نماز مسجد کا معائنہ کرایا اور خوشی خوشی مسجد کی پالش پر ہاتھ پھیر پھیر کر اس کی نفاست و عمدگی کی تعریف کی، حضرت علیہ الرحمۃ بڑی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ فرمایا
’’پالش تو بہت اچھی ہے مگر یہ تو بتلاؤ کہ یہ زیبائش جائز بھی ہے یا نہیں ؟اور بھئی یہ سب چندہ جمع کر کے کی گئی ہو گی، بھلا چندہ دہندگان سے ایسا کرنے کی اجازت بھی لی گئی تھی یا نہیں ؟
نائب امام صاحب اور تمام نمازی دنگ رہ گئے ذرا دیر کے بعد نائب صاحب نے فرمایا حضرت یہ تو پیش امام جانے، فرمایا واہ کیا خوب، آرائش کی تعریف تو آپ کریں اور جواب دیں مولوی صاحب، مثل ہے ’’دھیوتا کرے اور دادا چٹی بھرے’‘ (تذکرۃ الخلیل)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ تحریر فرماتے ہیں
’’مسجد کی دیواروں اور فروش میں رنگ برنگ کے بیل بوٹے نکالنا جو نماز میں خیال کو منتشر کرتے ہوں مکروہ ہے اور بالخصوص محراب قبلہ کی دیوار میں زیادہ مکروہ ہے’‘ (آداب المساجد)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں
’’تزئین اور گلکاری۔۔اور بے جا زینت و گلکاریاں مکروہ و مذموم (ہیں )البتہ اگر لکڑی یا گچھ اور چونا وغیرہ کے نقش بنا لئے جائیں تو مضائقہ نہیں، لیکن اس کا بھی ترک اولیٰ ہے اور خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے کہ بیل بوٹوں میں روپیہ صرف کرنے سے اولیٰ یہ ہے کہ اس کو فقراء اور مساکین پر صرف کیا جائے۔۔یہ سب چونے اور گچھ وغیرہ کے بیل بوٹے بنوانا بھی اس وقت درست ہے کہ بنوانے والا ان کو اپنے مال سے بنوا رہا ہو لیکن اگر وقف یا چندے سے بنائی جاتی ہے تو جب تک وقف کرنے والا یا چندہ دینے والے اس کی اجازت نہ دیں، اس وقت تک ہر گز جائز نہیں ہے اور اگر مہتمم مسجد کے بلا اجازت چندہ یا وقف کا روپیہ جائز نقش و نقوش میں صرف کیا تو وہ اس روپیہ کا ذمہ دار ہو گا۔۔اسی طرح مسجد کی دیواروں پر لکھنا بھی درست نہیں ہے۔(آداب المساجد ملخصاً)
حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ
’’دیواروں دروازوں، محرابوں یا عمارت کے کسی حصہ پر آیات و احادیث یا ان کا ترجمہ لکھنا خلاف اولیٰ اور مکروہ ہے۔۔دیوار قبلہ پر نقش و نگار بنانا بھی مکروہ ہے، چندہ دینے والے اگر اس کام سے راضی ہوں تو پھر وجہ کراہت یہی ہو گی کہ نمازیوں کا دل اس پر مشغول رہے گا۔(کفایت المفتی ۳/۱۴۰)
حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ نے امدادالفتاویٰ میں کشاف اور مدارک کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ
کل مسجد بنی مباہاۃ اور یاء وسمعۃ اولغرضسویٰ ابتغاء وجہ اللّٰہ اوبمال غیر طیب فھولاحق بمسجد الضرار۔ (امدادالفتاویٰ ۲/۶۶۸)
ہر وہ مسجد جو فخر، ریاکاری، شہرت یا اور کسی ایسی غرض سے بنائی جائے جو اللہ کی خوشنودی کے علاوہ ہے یا غیر پاکیزہ مال سے بنی ہے وہ مسجد ضرار کے ساتھ لاحق ہو گی۔
مسجد ضرار
مسجد ضرار وہ مسجد ہے جو مسجد قبا کے مقابلہ میں بنائی گئی تھی بانی منافق اور دشمن رسول تھے جن کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور سازش کا جال بچھانا تھا، مسجد کی شکل میں یہ خفیہ کارروائی کرنے کے لئے منافقوں نے ایک گھر بنایا تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اطلاع دی تو آپ نے اس مسجد کو جلا کر خاکستر بنا دیا۔۔۔۔غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ مسجد ضرار میں چار چیزیں تھیں جن کی وجہ سے یہ مسجدیت سے نکل گئی۔
(۱) منافقین نے اپنی اغراض فاسدہ کی تکمیل کا ذریعہ اور مسلمانوں کی ضرر رسانی کا حیلہ بنایا تھا جس کو لفظ ضرار بتلا رہا ہے۔
(۲) اس کی آڑ میں کفر کی تقویت مقصود تھی اور اسلام کا ضعف و اضمحلال جیسا کہ لفظ کفر سے ظاہر ہے۔
(۳) مسلمانوں کی باہمی اخوت و محبت اور ان کی یکجائی پامال کر کے تفرقہ، اختلاف اور عداوت پیدا کرنا ان کی خواہش تھی جس پر لفظ تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُوْمِنِیْنَ شاہد ہے۔
(۴) منافقین اس مسجد ضرار کو دشمن خدا و رسول کی روپوشی اور گھات کے لئے تیار کیا تھا جس کا نام مفسرین نے ابو عامر خزاعی نصرانی بتایا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے لِمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ۔
مذکورہ بالا تنقیح کے بعد حضرت مفتی ظفیر الدین مدظلہ لکھتے ہیں
’’یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آنے کی ہے کہ مسلمان جو بھی مسجد بناتا ہے اس کا مقصدا ن میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا اس لئے وہ ظاہری احکام مسجد ہے گو عند اللہ مقبول نہ ہو، مسجدیت اور مقبولیت میں تلازم نہیں، نہ ایک جانب سے نہ دونوں جانب سے باقی اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہر مسلمان کو ایسی بات سے پرہیز لازم ہے جس سے اس کو ثواب سے محرومی ہو اور ہمہ دم اس کو حبط عمل سے ڈر تے رہنا چاہیے اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔
بانی کے نام کا کتبہ
بعض لوگ جو بدعت کا شکار ہو کر مسجد پر اپنا نام کندہ کراتے ہیں یا بانی اپنے نام کا کتبہ لگاتے ہیں یہ بھی ریا ہے اور بقول ابن جوزی اخلاص سے محروم ہیں ۔
ہمارے دور میں تعلّی، ترفع اور آن و شان کی جو رسم بد جاری ہو گئی ہے اور اخلاص کی جس طرح مٹی پلید ہو رہی ہے وہ قابل افسوس ہے۔ملا جیونؒ نے سچ فرمایا ہے کہ
’’ہمارے زمانہ کے وہ متعصب مشائخ اور بھی قابل تعجب ہیں جو ہر گلی کوچہ میں مسجد اس لئے بناتے پھرتے ہیں کہا نم و نمود حاصل ہو اور شان و شوکت نمایاں رہے یہ محض باپ دادا کی غلط پیروی کا نتیجہ ہے، ان کو مسجد ضرار کے واقعہ میں غور کرنا چاہئے اور انجام سے ڈرنا چاہئے۔
(اسلام نظام مساجد ص ۱۶۴، تفسیر احمدی ص۳۸۴)
سلف صالحین ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے کہ جن میں مسجد ضرار کی ذرہ برابر بھی بو آ جاتی تھی، اسی وجہ سے وہ نماز پڑھنے میں پرانی اور قدیم مسجدوں کو ترجیح دیتے تھے، مختلف علماء نے ان امور کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا ہے، عموماً اس طرح کی مسجدیں شہرت و عزت اور ریاکاری کے لئے بنائی جاتی ہیں اور جو مسجدیں ان اغراض فاسدہ کے لئے وجود میں آئی ہوں وہ بلا شبہ مسجد ضرار کی شکل میں ظاہر ی طور پر بھی آ جاتی ہیں، جس سے اجتناب ضروری ہے۔(اسلام کا نظام مساجد)
زندگی گزارنے کے لئے ضروری چیزیں
حضرت ابو سلیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورؐ کا ارشاد ہے
اگر اللہ پر ہم ایسا توکل کرتے جیسا کرنا چاہئے تو پھر ہم دو اینٹوں پر مشتمل دیوار بھی نہ بناتے اور نہ دروازوں میں تالے ڈالتے۔(توکل و اعتماد ص۳۲)
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ
مرعلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ونحن نعالج خصاً لنا فقال ما ہذہ فقلنا قدوہی فنحن نصلحہ فقال ما اری الامرالا أعجل من ذلک۔(ترمذی ابواب الزہد)
ہم لوگ اپنے مٹی کے گھر میں مرمت کر رہے تھے، اتنے میں آپؐ کا ادھر گزر ہوا، دریافت فرمایا یہ کیا کر رہے ہو؟ہم لوگوں نے عرض کیا کہ حضور!یہ کمزور ہو گیا ہے (اس کے گرنے کا اندیشہ ہے)ہم اسے ٹھیک کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں ایک خاص امر کو اس سے بھی جلد آتے دیکھ رہا ہوں۔
رسول خدا نے گھر، کپڑا اور روٹی کو زندگی گزارنے کے لئے کافی بتلایا ہے اور ظاہر ہے کہ ایک مسافر اپنے ساتھ رختِ سفر میں خیمہ، بقدرِ ضرورت کپڑے اور کھانے پینے کے سامان کے سوا رکھتا ہی کیا ہے ؟۔
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے ’’الغفاری’‘ میں حضرت ابوذر غفار یؓ کی زاہدانہ زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے
’’آنحضرتؐ نے راہبانہ صحرا نوردیوں سے روکا بھی تھا اور اس دنیا کو ایک گذر گاہ اور راستہ سے تشبیہ دے کر اپنے آپ کو ایک مسافر کی مانند بتایا ہے جو کسی چھاؤں کے نیچے تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کھڑا ہو گیا ہو، حضرت ابوذرؓ نے ان دونوں ارشادوں پر عملی تطبیق اس طرح دی تھی کہ آپ جب تک مدینہ منور ہ میں رہے زیادہ تر اِدھر اُدھر پڑے رہتے، کبھی مسجد میں، کبھی صفہ میں سو جاتے اور اس کے بعد آپ جہاں کہیں رہے کمبل کے خیمہ میں رہے، شام کے غدار شہر دمشق میں بھی جب تک آپ رہے، صوف کے جھونپڑے میں ہی رہے، اپنے بال بچوں کے ساتھ اسی قسم کے خیموں میں اپنی زندگی گذار دی حتی کہ جس مکان میں آپ نے اپنی آخری سانس پوری کی اس وقت بھی دیکھنے والوں نے یہی دیکھا کہ صوف کے معمولی خیمہ میں حضرت ابوذرؓ کی لاش پڑی ہوئی تھی پس اگرچہ وہ پہاڑ کھوہ میں نہیں گئے لیکن شہروں کے وسط میں ہی آپ نے کھوہ بنا لیا تھا اور یوں۔ ع
ایں طرفہ تماشا بیں لب تشنہ بآب اندر
کے خیالی تصور کی واقعی تصویر اپنی پوری زندگی سے کھینچ کر انہوں نے دکھا دی تھی ‘‘ ۔ (الغفاری ص ۳۱۔۱۳۰)
قوم عاد کی میراث
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے بقدرِ ضرورت مکان کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ
’’مختصر مکان ضرورت کے لائق کافی ہے زیادہ اونچا مناسب نہیں حدیث میں ہے وبیت یتدخل فیہ کہ مکان ایسا ہو کہ جس میں بتکلف داخل ہو سکے، زیادہ اونچا کرنا مکان کو قوم عاد کی میراث ہے، قومِ عادشان کے لئے نئے نئے اونچے اونچے مکان بنایا کرتے تھے ‘‘ ( آگے فرماتے ہیں )بلا ضرورت اونچا اور وسیع مکان بنانا فضول ہے بقدرِ ضرورت بنانا چاہیے ہاں اگر کسی شخص کو ضرورت زیادہ ہو کہ آدمی بھی ہوں اور جانور بھی، ان کی مقدار کے موافق وسعت کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، غرض اللہ تعالیٰ نے نفس بنیان پر نکیر نہیں فرمائی، ہاں بنیان مذموم پر نکیر فرمائی ‘‘ ۔ (حقیقت مال وجاہ ص ۶۰۲)
بلند و بالا مینارے
دوسری جگہ مساجد کے تعمیرات کے سلسلہ میں بڑھتی ہوئی خرافات اور ان کو مزین و منقش کرنے کے بارے میں بیجا تاویلات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا
’’آج کل تعمیر مساجد میں اپنے کو شتر بے مہار سمجھتے ہیں کسی قسم کی حدود و قیود کی رعایت نہیں کرتے اور اس جواب کو کافی خیال کرتے ہیں کہ ہم اپنا گھر تو نہیں بناتے حالانکہ یہ جواب بالکل ناکافی ہے کیونکہ خدا کے گھر میں تو بدرجہ اولیٰ احتیاط کی ضرورت ہے، وہاں احتیاط نہ کرنا زیادہ رنج و ملال کی بات ہے چنانچہ مساجد میں گنبد کو ضروری خیال کرتے ہیں اور استر کاری تو درجۂ فرائض میں سے ہے بلا اِ ن اُمور کے مسجد تو مسجد ہی نہیں ہو سکتی، مینارہ کو اس قدر طویل کرتے ہیں کہ جس کا بیان نہیں اور مینارہ کے طوالت کی اکثر یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ دور سے نظر آوے کہ مسجد ہے مگر یہ وجہ بھی صحیح نہیں ہے بعض دفعہ آڑ ہوتی ہے تو طویل مینارہ بھی دور سے نظر نہیں آتا۔
علاوہ ازیں دور سے نظر آنا بھی ضروری نہیں ہے، مینارہ بنانے کی اصل وجہ تو صرف یہ ہے کہ مسجد دوسری عمارات سے مشتبہ نہ ہو مینارہ مسجد ہونے کی علامت ہے اور وہ علامت نفس مینارہ ہے نہ کہ مینارہ کا اس قدر طول طویل ہونا تو علامت کے لئے چھوٹے چھوٹے گز گز بھر کے مینارے کافی ہیں یا بجائے مینارہ کے اور کوئی علامت کر دی جائے۔
بعض لوگ طوالت مینارہ کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ اس میں شانِ اسلام ہے تو میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات ہے تو شان کے برابر تو لمبا ہونا چاہیے تھا پھرتو سب مساجد کے مینارے کم از کم قطب کی لاٹ کے برابر تو ہوتے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسجد بننا تو دشوار ہی ہو جاتی ہے بس ایک مینارہ ہی پر عمریں تمام ہو جاتی ہیں جیسا کہ قطب کی لاٹ کی بابت مشہور ہے کہ بادشاہ کا مسجد بنانے کا قصد تھا مگر اس وقت تک ایک مینارہ بنایا تھا کہ بادشاہ صاحب چل بسے دوسرا مینارہ نہ بنا اور نہ پوری مسجد بنی ورنہ معلوم نہیں کیا کیا تکلفات ہوتے، ہماری اِن رُسوم سے ہماری مساجد کی واقعی وہی حالت ہو رہی ہے کہ مساجدھم عامرۃ وھی خراب کہ ظاہر میں تو مساجد آباد ہیں مگر باطن میں خراب ہے ان میں روح نہیں فقط ظاہر ہی ظاہر ہے ‘‘ ۔ (حقیقت ماہ وجاہ )
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
لیس لابن آدم حق فی سوی ہذہ الخصال بیت یسکنہ وثوب یواری عورتہ وجلف الخبز والماء (ترمذی۲/ ۵۹)
’’ان چیزوں کے علاوہ اور کسی چیز میں انسان کا کوئی حق نہیں، رہنے کے لئے ایک گھر، بدن کو چھپانے کے لئے کپڑا اور بغیر سالن کے روٹی و پانی۔
جائداد مت بناؤ
حضرت عبد اللہ بن مسعو دؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا
لا تتخذوا الضیعۃ فترغبوا فی الدنیا۔ (ترمذی ۲/۵۶، بیہقی واحمد والحاکم)
جائداد مت بناؤ ورنہ تم دنیا میں رغبت کرنے لگو گے۔
مطلب یہ ہے کہ کاروبار تجارت، جائداد و زراعت وغیرہ میں ایسے مشغول نہ ہو کہ پروردگار عالم کی عبادت سے غافل ہو جاؤ اور جس طرح آخرت کی تیاری کرنا چاہئے اس سے رہ جاؤ، دنیاوی چیزوں میں اس قدر مصروف نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے غافل ہو جاؤ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
الد نیا دارمن لا دارلہ ومال من لا مال لہ ولہا یجمع من لا عقل لہ (احمد، بیہقی)
دنیا اس کا گھر ہے جس کا اور کوئی گھر نہیں اور اس کا مال ہے جس کے پاس اور کوئی مال نہیں اُسے وہ جمع کرتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔
تعمیرات میں حرام مال
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا
اتقوا الحرام فی البنیان فانہ اساس الخراب۔(بیہقی )
تعمیر میں حرام سے بچو! اس لئے کہ یہ تباہی کی بنیاد ہے۔
امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں
’’حرام مال سے بنائے ہوئے مکان میں قیام اور سکونت اختیار کرنا مکروہ تحریمہ بلکہ حرام ہووے گا جیسے طعام خریدہ از حرام کا حال ہے کچھ فرق نہیں ‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ ۵۵۷)
ننگے سر اور ننگے پیر والے عمارتیں بنائیں گے
ایک مرتبہ حضرت جبرئیل امین نے دربار نبوت میں حاضر ہو کر چند سوالات کئے جس میں ایک سوال یہ بھی تھا
اخبرنی عن الساعۃ قال مالمسؤل عنہا باعلم من السائل قال فاخبرنی عن اماراتہاقال ان تلدالامۃ ربتہاوان تری الحفاۃ العراۃ العا لۃرعاء الشاء یتطاولون فی البنیان۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
اے رسول خدا مجھے قیامت کے بارے میں بتایئے(وہ کب آئے گی)آپؐ نے فرمایا مسئول عنہ (جس سے سوال کیا گیا ہے) سائل سے زیادہ نہیں جانتا، انہوں نے فرمایا اس کی علامتیں بتا دیجئے آپ نے فرمایا کہ جب ننگے سر والے، ننگے پیر والے اور بکریاں چَرانے والے بھی بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرنے لگیں اور ان عمارتوں پر ڈینگیں مارنے لگیں تو سمجھو کہ قیامت قریب آ گئی ہے۔
مساجد میں بے جا تکلّفات
حضرت حکیم الامت ؒ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
’’رہے اور تکلفات مثل شامیانہ وقنادیل وفروش کہ محض زینت مکان کے لئے ہے یہ چنداں قبیح نہیں اگر چہ زائد از حاجت یہ بھی فضول ہیں اور اس قدر تزئین واہیات ہے، رسول اللہؐ فرماتے ہیں ما امرت بتشییدالمساجد اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں لتزخرفتھا کما زخرفت الیھود والنصاری’‘ (ابوداؤد)
تو فی الواقع جس قدر تکلفات مساجد میں بڑھ گئے ہیں جو زائد از حاجت ہیں سب فضول ہیں مگر چونکہ اصل سب کی محتاج الیہ ہے اگر چہ لوگوں نے اس پر زیادتیاں کر لی ہیں اس وجہ سے کسی درجہ کم بری ہیں مثلاً شامیانہ کہ حقیقت میں دھوپ سے بچنے کے لئے مثل چھت کے ہے اصل میں ایسی چیز محتاج الیہ ہے مگر اس پر یہ تکلفات کہ کپڑا اس کا رنگین و منقش و بیش قیمت و مکلف ہو یہ فضول ہے، فرش ہے اصل میں اس کی احتیاج ہے تاکہ کپڑے اور بدن خاک مٹی سے بچیں مگر اس میں یہ افراط کہ بیش بہا شطرنجیاں اور قالین اس پر تمام اقسام اقسام بیل بوٹے یہ لغو ہے، قندیل ہے اصل میں اس کی حاجت ہے تاریکی میں مسجد میں روشنی ضرور ہے، مسجد کی دیواریں تیل سے بچانے کے لئے اور نیز چراغ کو ہوا سے بچانے کے لئے اگر چراغ کسی قندیل میں رکھ دیا کچھ حرج نہ تھا مگر اس پر یہ زیادتی کہ ضرورت ایک کی وہاں بیسیوں لٹک رہی ہیں کہیں چمنی کہیں فانوس، کہیں گلاس کہیں ہانڈی، کہیں جھاڑ کہیں لالٹین پھر اس میں موم اور چربی کی بتیاں حاجت سے زائد یہ واہیات۔ دیواریں ہیں پائیدار ی کیلئے، چونا و کچ کافی ہیں پھر اس میں یہ تکلف کہ بیل بوٹے رنگ برنگ سرخ و زرد یہ سب فضول ہے اس لئے متولی کو فضولیات کا وقف سے بنانا جائز نہیں اگر بناوے گا ضمان آوے گا (امداد الفتاویٰ ۲/۷۱۴)
حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے فتاویٰ ہندیہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ
فی حظر الہند یہ عن المضمرات والصرف الی الفقراء افضل وعلیہ الفتویٰ (احسن الفتاویٰ ۴۶۰ج ۲بحوالہ ردالمحتار ص ۶۱۶ج ۱)
مساجد کو منقش اور مزین کرنے پر بے دریغ روپیہ خرچ کرنے کے بجائے اس رقم کو فقراء و مساکین پر صرف کرنا چاہئے۔
اے ملعون!تیری یہ پختہ عمارتیں۔۔؟
مولانا ضیاء الدین نخشبی ؒ نے’’ سلک السلوک ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’ شاید تم کو خبر نہیں پہنچی کہ رسول اللہؐ نے تعمیر کے سلسلہ میں اینٹ پر اینٹ نہیں رکھی، جب کوئی شخص اپنی حیثیت سے زیادہ مکان بناتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ اے ملعون ! یہ پختہ تعمیر تیری آخر کتنے دن کام آوے گی، حدیث شریف میں آیا ہے کہ آخر زمانہ میں لوگ ایسے ہوں گے کہ وہ اپنے مکان کو نقش و نگار کے ساتھ اس طرح منقش کریں گے جیسے یمنی چادر نقشین ہوتی ہے۔
حضرت عمر ؓ نے شام جاتے وقت راستے میں ایک مکا ن دیکھا جو پختہ اینٹ اور چونے سے بنا ہوا تھا آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا اللہ اکبر!میرا گمان یہ نہیں تھا کہ اس امت میں ایسے بھی لوگ ہیں جو ہامان و فرعون کے مکان جیسا پر تکلف مکان بنائیں گے۔
سنو سنو!ایک دن ایک شخص حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے پاس جو حقیقت کے بانی مبانی ہیں آیا اور کہا کہ میں نے ایک مسجد بنوائی ہے میرا دل یہ چاہتا ہے کہ آپ کا بھی ایک ٹکڑا سونا اس میں لگ جاتا تاکہ اس کی برکت سے مخلوق کی توجہ اس مسجد کی جانب ہو جاتی، امام صاحب نے تھوڑی دیر غور و تامل کرنے کے بعد ایک ٹکڑا سونا پیش فرما دیا، وہ لے کر چلا گیا لیکن کچھ ہی مدت بعد وہ رقم واپس لایا اور عرض کیا کہ حضرت! جس ضرورت کے لئے آپ سے یہ رقم لی تھی وہ پوری ہو گئی لہٰذ ا اب یہ رقم فاضل ہے اس لئے واپس ہے، امام صاحب نے تبسم فرمایا اور وہ ٹکڑا سونے کا اپنے ہاتھ میں لے لیا، حاضرین مجلس نے عرض کیا کہ کیا وجہ ہوئی کہ دیتے وقت تو آپ نے بڑے تامل کے بعد دیا تھا اور لیتے وقت فوراً لے لیا اور چہرہ پر بشاشت کے آثار نمودار ہوئے ؟ فرمایا صحیح حدیث میں آیا ہے کہ حلال کمائی اینٹ اور گارے میں خرچ نہیں ہوا کرتی لہٰذا دیتے وقت میں نے اس لئے تامل کے بعد دیا (کہ مجھے خیال آیا) جب میری کمائی حلال کی ہے تو یہ کیونکر اینٹ گارے میں خرچ ہو گی، اگر چہ تعمیر مسجد ہی میں کیوں نہ ہو، تو واپسی کے وقت یہ معلوم ک رکے خوشی ہوئی کہ الحمد للہ میری کمائی حلال کی ہے اس لئے گارے مٹی میں نہ لگ سکی ‘‘ ۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں
نخشبی خانہ بر زمیں چہ کنی
نقد خود کس بخاک رہ نہ دہد
آنکہ ویرانی جہاں دیدست
خشت بر خشت ہیچ گہ نہ نہد
اے نخشبی! زمین پر او ر دنیا میں گھر بنا کر کیا کرو گے، اپنی آمدنی کو کوئی سمجھدار انسان مٹی میں نہیں ملایا کرتا، جس شخص نے اس دنیا کی ویرانی کو سمجھ لیا تو وہ اینٹ پر اینٹ کبھی نہیں رکھے گا (یعنی تعمیر میں روپیہ برباد نہ کرے گا)
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا ارشاد
حضرت ابووائل شقیق بن سلمہؒ کہتے ہیں جب حضرت خباب ؓ بیمار تھے تو ہم لوگ ان کی عیادت کرنے گئے ان کے پاس ایک کھلے ہوئے صندوق میں ۸۰ہزار دراہم موجود تھے، آپ نے ان دراہم سے اپنی لاتعلقی اور عدم محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے ساتھیوں نے دین کو زندہ کرنے کے لئے خوب محنت کی اور انہیں دنیا نہیں ملی، ان کے بعد ہم یہاں رہ گئے اور ہمیں خوب دولت ملی جو ساری مٹی گارہ(تعمیرات) میں لگا دی۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۴۹ بحوالہ ابونعیم فی الحلیۃ ۱/۱۴۵)
حضرت سلمانؓ فارسی کا نظریہ
حضرت مالک بن انسؒ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ کسی درخت کے سائے میں بیٹھا کرتے تھے (اور مسلمانوں کے اجتماعی کاموں کو انجام دیا کرتے تھے ) سایہ گھوم کر جدھر جاتا خود بھی ادھر کھسک جاتے، اس کام کے لئے ان کا کوئی گھر نہ تھا، ان سے ایک آدمی نے کہا کیا میں آپ کو ایک کمرہ نہ بنا دوں ؟ کہ گرمیوں میں اس کے سایہ میں رہا کریں اور سردیوں میں اس میں رہ کر سردی سے بچاؤ کر لیا کریں ؟حضرت سلمان فارسیؓ نے اس سے فرمایا کہ ہاں بنا دو ! جب وہ آدمی پشت پھیر کر چل پڑا تو حضرت سلمان ؓ نے اسے زور سے آواز دے کر کہا کہ کیسا کمرہ بناؤ گے ؟اس آدمی نے کہا ایسا کمرہ بناؤں گا کہ اگر آپ اس میں کھڑے ہوں تو آپ کا سر چھت کو لگے اور اگر آپ اس میں لیٹیں تو آپ کے پاؤں دیوار کو لگیں حضرت سلمان ؓ نے کہا پھر ٹھیک ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۸۴بحوالہ ابو نعیم فی الحلیۃ ۱/۲۰۲)
حضرت ابن عمرؓ کا معمول
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سے حضورؐ کا انتقال ہوا میں نے نہ اینٹ پر اینٹ رکھی ( کوئی تعمیر نہیں کی) اور نہ ہی کھجور کا کوئی پودا لگایا ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۹۱بحوالہ ابو نعیم فی الحلیۃ ۱/۳۰۳)
حضرت ابوالدرداءؓ کو حضرت عمرؓ کی تنبیہ
حضرت سلمہ بن کلثومؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء ؓ نے دمشق میں ایک اونچی عمارت بنائی، حضرت عمر بن خطاب ؓ کو مدینہ منورہ میں اس کی اطلاع ملی تو حضرت ابوالدرداء یہ کوخط لکھاکہ ’’اے عویمر بن ام عویمر!کیا تمہیں روم و فارس کی عمارتیں کافی نہیں ہیں کہ تم اور نئی عمارتیں بنانے لگ گئے ہو؟حضرت محمد ا کے صحابہ ؓ (ہر کام سوچ سمجھ کر کیا کرو کیونکہ)تم دوسروں کے لئے نمونہ ہو(لوگ تمہیں جیسا کرتے ہوئے دیکھیں گے ویسا ہی کرنے لگیں گے )۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۹۵بحوالہ ابن عساکر)
دنیا کو اجاڑنے کا حکم
حضرت راشد بن سعدؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ حضرت ابوالدرداء ؓ نے حمص میں دروازے پر ایک چھجہ بنوایا ہے تو حضرت عمرؓ نے انہیں یہ خط لکھا کہ اے عویمر!روم والوں نے جو تعمیرات کی ہیں کیا وہ دنیا کی زیب و زینت کے لئے تمہیں کافی نہیں تھیں ؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو دنیا کو اجاڑنے یعنی سادگی کا حکم دے رکھا ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۱۹۵بحوالہ ابن عساکر، بیھقی، کنزالعمال ۸/۶۲)
کیا تمہیں حیا نہیں آتی؟
حضرت ابودرداء ؓ کا واقعہ ہے کہ وہ اہل حمص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا تمہیں حیا نہیں آتی ایسی ایسی عمارتیں بناتے ہو جن میں سکونت بھی نہیں رکھتے، ایسی امیدیں باندھتے ہو جنہیں حاصل نہیں کر پاتے اور ایسا کچھ جمع کرتے ہو جس کا کھانا تمہیں نصیب نہیں ہوتا، تم سے پہلے لوگوں نے مضبوط عمارتیں بنائیں، کثیر مال جمع کئے، طویل طویل امیدیں باندھیں مگر قبور ان کا مسکن بنیں اور امیدیں دھوکہ ثابت ہوئیں اور مالی ذخیرے ہلاکت کا سامان بنے۔(تنبیہ الغافلین)
حضرت خارجہؓ بن حذافہ کوحضرت عمرؓ کی تنبیہ
حضرت یزید بن ابی حبیب ؒ کہتے ہیں مصر میں سب سے پہلے حضرت خارجہ بن حذافہ ؓ نے بالا خانہ بنایا تھا ؛ حضرت عمر بن الخطاب ؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کو یہ خط لکھا
’’سلام ہو، اما بعد!مجھے یہ خبر ملی ہے کہ خارجہ بن حذافہ نے بالا خانہ بنایا ہے ؛ خارجہ اپنے پڑوسیوں کے پردہ کی چیزوں پر جھانکنا چاہتے ہیں ؟لہٰذا جوں ہی تمہیں میرا یہ خط ملے اس بالاخانے کو گرا دو۔’‘ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۹۶بحوالہ ابو نعیم فی الحلیۃ ۷/۳۰۵)
حضرت ام طلقؓ کی نصیحت
حضرت عبد اللہ رومیؒ کہتے ہیں حضرت ام طلق ؓ کے گھر ان کی خدمت میں گیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے گھر کی چھت نیچی ہے میں نے کہا اے ام طلق !آپ کے گھرکی چھت بہت ہی نیچی ہے انہوں نے کہا اے میرے بیٹے ! حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے گورنروں کو یہ خط لکھا کہ تم اپنی عمارتیں اونچی نہ بناؤ کیونکہ تمہارا سب سے برا دن وہ ہو گا جس دن تم لوگ اونچی عمارتیں بناؤ گے۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۹۶بحوالہ ابن سعد، بخاری، کنزالعمال ۸/۶۳)
جب کوفہ کے گورنر نے مکان بنانے کی اجازت مانگی
حضرت سعد بن وقاصؓ کوفہ کے گورنر تھے انہوں نے خط لکھ کر حضرت عمرؓ سے گھر بنانے کی اجازت مانگی تو حضرت عمرؓ نے جواب لکھا کہ ایسا گھر بناؤ جس سے تمہاری دھوپ اور بارش سے بچنے کی ضرورت پوری ہو جائے کیونکہ دنیا تو گزارہ کرنے کی جگہ ہے۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۹۶بحوالہ کنز العمال ۴/۴۰۶)
فرعون جیسے لوگ
حضرت سفیانؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کو خبر ملی کہ ایک آدمی نے پکی اینٹوں سے مکان بنوایا ہے تو فرمایا میرا خیال نہیں تھا کہ اس امت میں فرعون جیسے لوگ بھی ہوں گے۔راوی کہتے ہیں حضرت عمرؓ فرعون کے اس جملہ کی طرف اشارہ فرما رہے تھے کہ فاوقد لی یا ھامان علی الطین فاجعل لی صرحاً (قصص) اے ہامان! تم ہمارے لئے مٹی کی اینٹیں بنوا کر ان کو آگ میں پزاوہ لگا کر پکواؤ پھر ان پختہ اینٹوں سے میرے واسطے ایک بلند عمارت بنواؤ۔(حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۹۷)
حضرت ابوذر غفاریؓ کی ناراضگی
حضرت ثابتؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابوذرؓ حضرت ابوالدرداء ؓ کے پاس سے گزر ے وہ اپنا گھر بنا رہے تھے تو حضرت ابوذرؓ نے کہا تم نے بڑے بڑے پتھر لوگوں کے کندھوں پر لاد دئے ہیں، حضرت ابوالدرداء ؓ نے کہا میں تو گھر بنا رہا ہوں، حضرت ابوذرؓ نے پھر وہی پہلے والا جملہ دہرایا، حضرت ابوالدرداء ؓ نے کہا کہ اے میرے بھائی !شاید میرے اس کام کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں ؟حضرت ابوذرؓ نے کہا اگر میں آپ کے پاس سے گزرتا اور آپ اپنے گھر والوں کے پاخانہ میں مشغول ہوتے تو یہ مجھے اس کام سے زیادہ محبوب تھا جس میں آپ مشغول ہیں۔(حیاۃ الصحابۃ ۲/۳۹۹)
بڑی لمبی اور دور کی امیدیں
حضرت عبد اللہ بن ہذیلؒ کہتے ہیں جب حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اپنا گھر بنایا تو حضرت عمارؓ سے کہا آؤ جو گھر میں نے بنایا ہے وہ دیکھ لو چنانچہ حضرت عمارؓ ان کے ساتھ گئے اور گھر دیکھ کر کہنے لگے آپ نے بڑا مضبوط گھر بنایا ہے اور بڑی لمبی اور دور کی امیدیں لگائی ہیں حالانکہ آپ جلد ہی دنیا سے چلے جائیں گے۔ (حیاۃ الصحابۃ ۲/۴۰۰)
تعمیر کے سلسلہ میں حضرت موسی علیہ السلام کا اتباع
حضرت عبادہ بن صامتؒ فرماتے ہیں کہ انصار نے آپس میں کہا کہ کب تک حضورؐ کھجور کی ٹہنیوں (سے بنی ہوئی مسجد)میں نماز پڑھتے رہیں گے ؟ اس پر انصار نے حضورؐ کے لئے بہت سے دینا ر جمع کئے اور وہ لے کر حضور اکی خدمت آئے اور عرض کیا کہ ہم اس سے مسجد کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور اُسے مزین بنانا چاہتے ہیں۔
حضورؐ نے فرمایا میں اپنے بھائی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز سے ہٹنا نہیں چاہتا میری مسجد کا چھپر ایسا ہو جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تھا۔(حیاۃ الصحابۃ ۳/۱۲۰)
حضرت حسن ؒ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چھپر اتنا اونچا تھا کہ جب وہ اپنا ہاتھ اٹھاتے تو چھپر کو لگ جاتا تھا۔ (حیاۃ الصحابۃ ۳/۱۲۰، بیہقی)
حضرت خالد بن معدانؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن رواحۃ اور حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہما کے پاس ایک بانس تھا جس سے وہ مسجد کی پیمائش کر رہے تھے کہ اتنے میں حضورؐ ان کے پاس باہر سے تشریف لائے اور ان سے فرمایا تم دونوں کیا کر رہے ہو؟ان دونوں نے عرض کیا ہم رسول اللہؐ کی مسجد ملک شام کے طرز پر بنانا چاہتے ہیں اور اس کا جتنا خرچہ ہو گا وہ انصار پر تقسیم کر دیا جائے گا، حضورؐ نے فرمایا یہ بانس مجھے دو، آپ نے ان دونوں سے وہ بانس لیا پھر چل پڑے اور دروازہ پر پہنچ کر آپ نے وہ بانس پھینک دیا اور فرمایا ہرگز نہیں !(ملک شام کی طرح مسجد کی شاندار عمارت نہیں بنانی)بس گھاس پھونس اور چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا سائبان ہو اور (موت کا)معاملہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے، کسی نے پوچھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سائبان کیسا تھا؟آپ نے فرمایا وہ جب کھڑے ہوتے تو ان کا سر چھت کو لگ جاتا۔ (حیاۃ الصحابۃ ۳/۱۲۱بحوالہ وفاء الوفاء ۱/۲۴)
قال لا، بل عرش کعرش موسیٰ یعنی العریش۔(کتاب الزہدوالرقاق)
گورنروں کے نام! حضرت عمرؓ کا پیغام!
حضرت عثمان بن عطاء ؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ نے بہت سے شہر فتح کر لئے تو ان شہروں کے گورنروں کو خط لکھے چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بصرہ کے گورنر تھے، انہیں خط میں یہ لکھا کہ سارے شہر کے لئے جمعہ کی نماز کے لئے ایک جامع مسجد بنائیں اور ہر قبیلہ کے لئے الگ الگ مسجد بنائیں (ہر قبیلہ والے پانچوں نمازیں اپنی مسجد میں پڑھا کریں لیکن )جمعہ کے دن سب جامع مسجد میں آ کر جمعہ پڑھا کریں، اسی مضمون کا خط کوفہ کے گورنر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو، مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص ؓ کو اور دیگر لشکروں کے امیروں کو لکھا اور یہ بھی لکھا کہ دیہات میں رہائش نہ رکھیں بلکہ شہروں میں رہیں اور ہر شہر میں ایک ہی مسجد بنائیں اور جیسے کوفہ، بصرہ اور مصر والوں نے مسجدیں بنائی ہیں اس طرح ہر قبیلہ والے اپنی اپنی مسجد نہ بنائیں چنانچہ لوگ حضرت عمرؓ کے اس فرمان کے پابند ہو گئے۔(حیاۃ الصحابۃ ۳/۱۲۳بحوالہ ابن عساکر)
ذرا سوچئے!
مذکور ہ بالا احادیث کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس سلسلہ میں ہم سے کس قدر کوتاہیاں سرزد ہو رہی ہیں شدید ممانعت اور وعیدات کے باوجود کیا ہم نے تعمیرات کے سلسلہ میں اپنا ہاتھ روک لیا ہے ؟ کیا بقدرِ ضرورت اور بقدرِ کفاف پر ہمارا عمل ہو رہا ہے ؟کیا قسم قسم کی تعمیرات اور ان پر دولت کا بے دریغ اسراف کر کے ہم اللہ اور اس کے رسول اکے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں ؟کیا نت نئے ڈیزائنوں، بلند و بالا عمارتوں، وسیع و عریض کوٹھیوں، شاندار و جاندار بلڈنگوں، خوبصورت و خوشنما محلوں، دیدہ زیب و نفیس، نقش و نگار اور خوب سے خوب تر بنانے میں ہماری دولت، ثروت، دماغ اور وقت ضائع نہیں ہو رہا ہے ؟ فخر و مباہات، عجب و تکبر، ریا و نفاق اور اپنی مالداری کا مظاہرہ کرنے کے لئے نقشہ نویسوں سے لے کر انجینئروں تک میں ایک دوڑ اور ہوڑ لگی ہوئی ہے، مہنگے ترین انجینئروں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، طرح طرح کے نقشے اور دیدہ زیب چارٹ بنوانے پر آج اتنی رقم صرف کر دی جاتی ہے، کہ اتنی رقم میں رہائش کے لئے ایک سادہ مکان تیار ہو سکتا ہے پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان عمارتوں اور بلڈنگوں میں ہم کتنے دن رہیں گے جس وقت بلاوا آ جائے گا سب کچھ چھوڑ چھاڑ بلکہ دنیائے دنیٰ سے ہاتھ جھاڑ کے ہر کسی کو جانا ہے، نہ عمارتیں ساتھ جائیں گی، نہ شہرت کام آئے گی، نہ دولت و ثروت کچھ تعاون کر سکیں گی اور نہ ہی قرب الٰہی کا ذریعہ بن سکیں گی بلکہ الٹے ہماری یہ ہی عمارتیں جان لے لیتی ہیں، زلزلوں کی صورت میں ان عمارتوں کا نقصان ظاہر ہوتا ہے۔
طلب میں دنیا کی ہو گو کسی کی عمر دراز
رہا کرے مئے عیش و سرور سے دمساز
ولیک اس کی مثل اس طرح ہے آخر
دنیا کو اجاڑنے یعنی سادگی کا حکم
مکان ایسا بنانا چاہیے کہ جو مکین کو نہ لے بیٹھے
حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں
’’آ ج کل یہ بھی مرض ہے کہ بہت اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں پھر جب وہ گرتی ہیں تو کسی چیز کا پتہ نہیں چلتا سب کو لے کر بیٹھ جاتی ہیں، ان آفات سے محفوظ گاؤں کے مکان ہیں جو نیچا ہونے کی وجہ سے زلزلہ میں بھی نہیں گرتی، ۲۸ اپریل منگل کے دن کانگڑے میں زلزلہ آیا، زلزلہ میں شدت تھی ایک تو زلزلہ کی شدت دوسرے بڑے اور اونچے مکانوں میں حرکت، تو میں نے کہا یا اللہ تیرا شکر ہے کہ ہمارے مکان چھوٹے چھوٹے ہیں جو زلزلوں کے اثر سے محفوظ ہیں اس واسطے کہ یہ قاعدہ ہے کہ مرکز سے محیط کو جس قدر بعد ہو گا اس میں حرکت زیادہ ہو گی، دیواریں جس قد ر لمبی ہوں گی، زلزلہ میں حرکت زیادہ ہو گی، یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ نیچے نیچے گھر والے دنیا میں بھی شدتِ زلزلہ سے محفوظ رہیں گے اور خدا تعالیٰ کے یہاں بھی محفوظ رہیں گے، خدا تعالیٰ کو یہ مسئلہ بھی بتانا تھا کہ مکان ایسا بنانا چاہیے کہ جو مکین کو نہ لے بیٹھے اور کچے مکانوں اور نیچے گھروں میں گو بعض تکالیف ہوتی ہیں مگر راحتیں زیادہ ہیں اگر کبھی گر پڑا تو جلدی سے دوسرا ویسا بن سکتا ہے ؎
خدا گر بہ حکمت بہ بندد درے
کشاید بہ فضل وکرم دیگرے
اور یہاں اللہ تعالیٰ نے تاسیس بنیان پر نکیر نہیں فرمایا بلکہ مقید بقید خاص پر نکیر فرمایا ہے معلوم ہوا کہ خود مکان بنانا مذموم نہیں بلکہ وہ تو اگر بقدر ضرورت ہو تو محمود ہے ‘‘ ۔(حقیقت ماہ و جاہ )
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ارشاد؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بڑھیا کو روتے ہوئے دیکھا وجہ معلوم کی تو بڑھیا نے عرض کیا کہ میرا ایک بچہ صرف ڈیڑھ سو سال کی عمر میں انتقال کر گیا اس کی کم عمری میں انتقال پر روتی ہوں آپ نے فرمایا کہ بڑی بی ! ایک امت آنے وا لی ہے جس کی اوسط عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہوں گی لیکن وہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کریں گی بڑھیا نے کہا کہ خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میری عمر اس قدر کم ہو گی تو اتنی زندگی تو میں کسی پیڑ کے نیچے رہ کر گذار دوں گی۔
اپنی آخرت کے لئے عمل کرو!
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ روایت فرماتے ہیں
بنی ملک من الملوک بنیاناً ثم صنع للناس طعاماً۔ فدخلوا ینظرون الیہ ویسألہم قوم من اہلہ ہل ترون عیباً؟فیقولون لا، حتیٰ دخل علیہم عابدان فقالا:نعم نری عیباً، قال: وماعیبہ؟قالا:یخرب ویموت اھلہ، ثم سالہم الملک ہل عاب واحد بنیانی؟ قالوا:لا، الارجلین تافہین لیسا بشی، قال، ہل تعرفونہما؟ قالوا: لا، قال اطلبوہما، فطلبوہما، فجاء وا بہما، فقال ہل تعلمان فی بنیانی عیباً، قال نعم، قال: ماہو؟ قالا، یخرب ویموت اہلہ فرفعوا، منزلتہما، قال :فماتامرانی؟قالا:تعمل لآخرتک۔ (کتاب الزہدوالرقاق ۴۳، جزء الرابع )
بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے ایک عمارت تعمیر کرائی، پھر لوگوں کو کھانے پر بلایا(دعوت کی)پس لوگ آئے اور ان سے پوچھا گیا کہ کیا تم لوگوں نے اس عمارت میں کوئی عیب دیکھا ہے؟ان لوگوں نے کہا نہیں :یہاں تک کہ دو عابد اس عمارت میں داخل ہوئے تو ان دونوں نے کہا، ہاں ہم وے ایک عیب دیکھا، تو ان سے پوچھا گیا کہ کیا عیب دیکھا؟انہوں نے کہا یہ عمارت ٹوٹ جائے گی اور اس کے مکین مر جائیں گے۔ پھر بادشاہ نے درباریوں سے پوچھا کہ کیا کسی نے کوئی عیب نکالا؟انہوں نے کہا مگر دو درویش صفت لوگوں نے جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے:بادشاہ پوچھا کیا تم انہیں جانتے ہو؟کہا، نہیں، بادشاہ نے انہیں طلب کیا، وہ آئے تو بادشاہ نے ان سے پوچھا کیا تم اس عمارت کا کوئی عیب جانتے ہو؟کہا جی ہاں ! پوچھا وہ کیا؟انہوں نے کہا یہ عمارت ٹوٹ جائے گی اور اس کے رہنے والے مر جائیں گے اور ان کے عہدے و مرتبے اٹھ جائیں گے، بادشاہ نے کہا کہ ہمیں کوئی حکم دیجئے!انہوں نے کہا کہ اپنی آخرت کے لئے عمل کرو!
تعمیرات میں تنوع، مستقل فیشن
مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں
’’آج جس کے پاس بھی پیسہ ہے وہ ضروری اور غیر ضروری تعمیرات پر اسے بے دریغ خرچ کر رہا ہے جس شہر میں چلے جائیے، نت نئی ڈیزائنوں کی بلڈنگیں جابجا نظر آئیں گی اس معاملہ میں اس قدر اسراف ہو رہا ہے جو ناقابل بیان ہے، بڑے بڑے سرمایہ دار جو دینی ضرورتوں میں چند روپیہ دیتے ہوئے بھی جھجکتے ہیں اور دسیوں حیلے بہانے بناتے ہیں وہ اپنی ذاتی تعمیرات میں بلا ضرورت بے حساب رقم خرچ دیتے ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کتنی بڑی فضول خرچی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
آج کل تعمیرات میں تنوع بھی ایک مستقل فیشن بن گیا ہے ہر مالدار یہ چاہتا ہے کہ اس کا گھر اس ڈیزائن کا بنے جیسا آج تک دنیا میں کسی نے نہ بنوایا ہو یہ سب شوخیاں اور شو بازیاں اللہ تعالیٰ کو اور رسول اللہ ؐ کو بالکل پسند نہیں ہیں، پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ جس کی رقومات کو ضائع کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے پیسہ کو مٹی گارے (تعمیرات )میں خرچ کرا دیتا ہے ‘‘ ۔(لمحات فکریہ ص ۷۱بحوالہ الزواجر ۱/۴۲۸)
ہلاکت کا وقت
حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ
’’جب کسی قوم کا کام بگڑتا ہے تو وہ اپنی مسجدوں کو نقش و نقوش اور بیل بوٹوں سے آراستہ کرنے لگتے ہیں ‘‘ ۔(ابن ماجہ)
حضور قلب میں خلل انداز
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ
’’جب تم اپنی مساجد کو مزین کرنے لگو(جو کہ نماز میں مخل ہو)اور اپنے قرآنوں کو ایسا آراستہ کرو (جو حضور قلب میں خلل انداز ہو)تو سمجھ لو کہ یہ تمہاری ہلاکت کا وقت ہے’‘ ۔ (کنز)
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ عیسی ٰ علیہ السلام نے فرمایا
اتخذوا المساجدمساکن، والبیوت منازل، وکلومن بقل البریۃ وانجوامن الدنیابسلام۔ (قال شریک:فذکرت ذالک لسلیمان فزادنی ’’واشربوالماء القرح’‘ (کتاب الزہدوالرقاق ۱۹۸)
مسجدوں کو اپنا مسکن بنا لو!گھروں کو اپنی منزل بناؤ!اور کھاؤ ہر نیکی کے پھل کو اور دنیا سے امن و سلامتی کے ساتھ نجات حاصل حاصل کر لو۔ (شریکؒ کہتے ہیں کہ میں سلیمانؒ سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مزید اضافہ فرمایا کہ’’ماء قرح پیو)
یہود و نصاریٰ کی تقلید
حضرت ابن عباس ؓ مساجد کی بے جا آرائش کو یہود و نصاریٰ کا دستور فرماتے ہیں اور اس سے ناراضی کے لہجہ میں فرماتے ہیں کہ تم مساجد کو مزین کرو گے جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا(ابوداؤد)
دجال کا خروج
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا
عمران بیت المقدس خراب یثرب، وخراب یثرب خروج الملحمۃ فتح القسطنطنیۃ وفتح القسطنیطنۃ خروج الدجال۔ (ابوداؤد )
الحذر!الحذر!
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا
سیأتی علی الناس زمان تمات فیہ الصلوۃ ویشرف فیہ البنیاد ویکثر فیہ الحلف والتلاعن ویفشوا فیہ الرشا والزناوتباع الآخربالد نیافاذارأیت ذلک فالنجا النجا، قیل : وکیف النجا؟ قال: کن حلسا من احلاس بیتک وکف لسانک ویدک۔(الاشاعۃ ۱۷۲، ابن ابی الدنیا)
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ نمازیں فوت کی جائیں گی، عمارتیں بنائی جائیں گی، قسم اور لعنت و ملامت کی کثرت ہو جائے گی، بارش اور زنا عام ہو گا آخرت کو دنیا سے فروخت کیا جائے گا پس جب ایسی حالت دیکھو تو نجات حاصل کرو، پوچھا گیا کہ نجات کیسے حاصل کی جائے گی، فرمایا گھروں کے گوشوں میں دُبک کر بیٹھ جاؤ اپنی زبان اور ہاتھ کو تھام کر رکھو اور خاموشی اختیار کرو۔
اکابر اہل اللہ کا اُسوہ
ہمارے بزرگوں نے اپنے کردار اور افعال سے ثابت کر دکھایا کہ یہ ناسوتی اور فانی دنیا واقعی ایک سرائے اور مسافر خانہ ہے جہاں ایک تھکا ماندہ مسافر صرف سستانے اور وقتی طور پر راحت کا سانس لینے کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے رک جاتا ہے، اپنی تھکن کو دور کرتا ہے، بے ہنگم سانسوں پر قابو پاتا ہے، پیروں کی تکان اور جسم کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس درمیان بھی اسے جلد از جلد اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کا فکر دامن گیر رہتا ہے۔
راقم السطور نے مادر علمی مظاہر علوم کے اکابر علماء اور بانیان کرام کو زہد و قناعت کی بلندیوں پر فائز پایا، چنانچہ حضرت مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپور، حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی(بانیان مظاہر)استاذ الکل حضرت مولانا عبد اللطیف پور قاضوی، مناظر اسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ ؒ (نظماء مظاہر علوم)نیز حضرت مولانا سید ظہور الحسن کسولوی، حضرت مولانا علیم اللہ مظاہری اور دیگر اساطین امت کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کر دیا کہ یہ دنیا واقعی مسافر خانہ ہے، ان حضرات نے یہاں قیام کے دوران کوئی گھر بنایا اور نہ ہی کوئی در اور دربار سجا کر اپنے آپ کو مشہور کرنے کی کوئی حکمت عملی اپنائی۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کا اُسوہ
حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ نے اپنی پوری زندگی مدرسہ کی خدمت میں وقف فرمائی اور اپنے قدیم آبائی مکان کو اپنی ضروریات کے لئے کافی سمجھتے رہے، نہ تو اپنے لئے کوئی مکان خریدا اور نہ ہی اپنے قدیم مکان میں کسی آرائش و زیبائش کو پسند کیا، وہی قدیم اور خستہ و بوسیدہ مکان، سادہ اتنا کہ اگر کسی اجنبی کو اچانک یہ بتا دیا جائے کہ یہی وہ خانقاہ اور یہی وہ آرام گاہ ہے جہاں حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ؒ قیام فرما تھے تو شاید پہلے مرحلہ میں اجنبی شخص انکار کر دے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ نے وسعت کے باوجود کبھی پر تکلف تعمیرات کو پسند نہیں فرمایا اور آج بھی الحمدللہ اس کاخ فقیری کو ’’کچا گھر’‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے تھے۔
حضرت مفتی سعید احمد اجراڑویؒ کا اُسوہ
صاحبِ معلم الحجاج مفتیِ اعظم حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجراڑویؒ کی پوری زندگی مظاہر علوم وقف کی خدمت میں گزری مگر ان کا بھی اپنا مکان نہیں تھا، کرایہ کے مکان میں عمر عزیز کے ایام گذرے، آپؒ کی اہلیہ نے اگر کبھی مکان کی فرمائش کی تو بہت خوش اسلوبی کے ساتھ سمجھا دیا کہ ہمارا یہاں کوئی عزیز نہیں ہے، رشتہ داریاں نہیں ہیں، صرف مظاہر علوم کی ملازمت ہے، اگر مدرسہ والے ملازمت سے جواب دے دیں تو اس گھر کا کیا بنے گا۔
آپؒ نے اپنی زندگی اس انداز میں بسر کی کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی زندگی کا عکس جھلکنے لگتا ہے اور اپنے بیٹوں کو بھی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسی زندگی بسر کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔
آپ ؒ نے کوئی وراثت نہیں چھوڑی گھر کے اندر روز مرہ کے استعمال کے لئے جو برتن وغیرہ تھے وہ حضرت مفتی صاحبؒ کی اہلیہ کے تھے، گویا آپ ؒ کی پوری زندگی اس شعر کی عملی تصویر تھی
چند اور اق کتب چند بزرگوں کے خطوط
بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا
حضرت مولانا مفتی سعید احمد اجراڑویؒ کے تفصیلی حالات، علمی کارنامے، زاہدانہ زندگی اور شخصی نقوش کو جانے کیلئے’’ حیات سعید’‘ کا انتظار کیجئے جو زیر ترتیب ہے اور بہت جلد انشاء اللہ منصہ شہود پر جلوہ فگن ہو گی )
عارف باللہ حضرت قاری صدیق احمدؒ کا اسوہ
عارف باللہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ کے زہد و استغنا، اور توکل و بے نیازی سے دنیا واقف ہے، انہوں نے بھی اپنے لئے پختہ مکان کی تعمیر پر کبھی توجہ نہیں دی، پوری زندگی مسافر کی مانند گزار دی، نہ تو دولت و ثروت کو جمع فرمایا اور نہ ہی کبھی اس طرف توجہ فرمائی۔
آپ جس مکان میں رہائش پذیر تھے وہ مکان اخیر تک کچا ہی رہا بلکہ حضرت والا اخیر عمر میں مکان کے جس حصہ میں قیام فرماتے تھے وہ تو آج بھی کچا ہے۔(فللّٰہ الحمد)
ایک صاحب خیر نے مکان کی تعمیر کے لئے حضرت والاؒ کو ایک لاکھ روپئے دینے چا ہے لیکن حضرتؒ نے پورے استغناء و بے نیازی کے ساتھ نہ صرف منع فرما دیا بلکہ اس سلسلہ میں ایک صاحب نے بطور سفارش اس ہدیہ کو قبول کرنے کے لئے اصرار کیا تو حضرت باندویؒ نے جواباً فرما دیا کہ آپ خود لے لیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت مفتی مظفر حسینؒ کا اُسوہ
میں نے فقیہ الاسلام حضرت مولانا شاہ مفتی مظفر حسینؒ اجراڑوی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، مظاہر علوم جیسے بڑے ادارہ کے تقریباً چالیس سال تک منتظم اور متولی رہے، دور دراز کے اسفار بھی فرمائے، عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد آپ کے حلقۂ استرشاد میں داخل ہوئی، معتقدین اور متعلقین نے اپنا مکان بنانے کے لئے بڑی بڑی رقوم پیش کرنے کی کوشش کی، زمین خرید کر اور اس پر مکان تعمیر کر کے آپ کو دینا چاہا، بہتوں نے اس کی بھی پیش کش کی کہ ہمارے مکان کو قبول فرما لیں ہم کہیں اور بنا لیں گے؟
لیکن حضرت فقیہ الاسلامؒ (اللہ ان کی قبر مبارک کو نور سے منور فرمائے) ہمیشہ انکار فرماتے رہے، نہ تو آپ نے کبھی کو ئی رقم اور دولت جمع فرمائی، نہ ہی مکان کے لئے کوئی فکر کی۔
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے
’’آج کل مدارس کے ذمہ داران کا عام حال یہ ہے کہ ضرورت کی جگہ روپیہ خرچ نہیں کرتے ہیں مدرسین و ملازمین کی تنخواہیں کم اور تعمیر میں زیادہ روپیہ صرف کر دیتے ہیں، تعلیم ہو نہ ہو تعمیر کا منصوبہ کروڑوں روپیہ، آج کل تعمیر کے کام پر بہت زور دیا جاتا ہے، گویا قلب موضوع ہو رہا ہے، کہ اہم کو غیر اہم تصور کر لیا گیا ہے، ہمارے حضرت (مولانا تھانوی)کا ایک وعظ ذم المکروہات کے موضوع پر (قابل مطالعہ ہے)اس وعظ میں حضرت نے تقریباً یہی ارشاد فرمایا ہے، واقعی اگر مدرسین کو تنخواہیں معقول دی جائیں تو ان کا ذہن دوسری طرف نہ جائے اور وہ سکون و اطمینان سے تعلیمی خدمات انجام دے سکیں ‘‘ (ملفوظات فقیہ الاسلامؒ ۔ص ۸۸)
(فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ کے تفصیلی حالات اور کارنامے نیز نصف صدی سے زائد عرصہ تک عالمی دینی مرکزمظاہر علوم سہانپور کی طویل ترین لازوال خدمات اور قربانیوں سے واقفیت کے لئے ’’سوانح مفتی مظفر حسینؒ ‘‘ کا انتظار کیجئے جو زیر ترتیب ہے )
مذکورہ بالا احادیث و آثار کے علاوہ بھی ذخیرۂ احادیث میں اور بھی کافی مواد موجود ہے لیکن عقل والوں کے لئے چونکہ اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اس لئے ان ہی چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں۔
حرف آخر
یہ احادیث اور بزرگوں کے واقعات محض خوش طبعی کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے لکھے گئے ہیں کہ ہم ان کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنواریں اور تعمیرات پر دولت ضائع کرنے کے بجائے اشاعت اسلام پر خرچ کریں اور صرف اسی قدر تعمیر کریں جس کی ضرورت ہے اور شریعت میں اجازت ہے نیز ایسی تعمیر سے بچیں جس کا وجود باعث ہلاکت اور شریعت میں اس کی ممانعت ہے۔
ان چند گزارشات اور قلبی واردات کو بذریعہ قلم زیبِ قرطاس کر کے آپ کے درمیان سے رخصت ہوا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ
جہاں اے برادرنہ ماند بہ کس
دل اندر جہاں آفریں بندوبس
وأسأل اللّٰہ سبحانہ أن ینفع بہ قبل الناس نفسی وأن یجعلہ ذخراً إلیٰ فی یوم رمسی وإن أکن اصبت فیما کتبت فذلک فضل اللّٰہ عزوجل ومنتہ وإن تکن الاخری فمن الشیطان ومن نفسی المتعجلۃ واللّٰہ عزوجل ورسولہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم منہ برائ، ولایفوتنی أن أذکربالخیر من أعان علیٰ إتمام ہذا الکتاب ونشرہ أسأل اللّٰہ لی ولہم التوفیق والاجتماع فی مستقر رحمتہ فی دارالکرامۃ والحمدللّٰہ أولاً، والحمدللّٰہ آخراً۔ولاحول ولاقوۃ إلاباللّٰہ العلیّ العظیم وصلیٰ اللّٰہ علیٰ نبینامحمدوآلہ وصحبہ و سلم۔
ناصر الدین المظاہری
مُدیر ماہنامہ’’ آئینہ مظاہر علوم’‘ سہارنپور
۱۴ شعبان۱۴۲۸ھ
مآخذ و مصادر
٭ محمد بن اسمعیلؒ ادب المفرد
٭ محمد بن اسمعیلؒ بخاری شریف
٭ منذریؒ الترغیب والترہیب علیٰ ھامش مشکوٰۃ
٭ ابن حجرعسقلانیؒ تہذیب التہذیب
٭ ابن حجرعسقلانیؒ تعجیل المنفعۃ
٭ ابی نعیمؒ حلیۃ الاولیاء
٭ مسلم بن الحجاج قشیری صحیح مسلم شریف
٭ عبداللہ بن مبارکؒ کتاب الز ہدوالرقاق
٭ امام احمدبن حنبلؒ الزہد
٭ محمد بن عبداللّٰہ خطیب تبریزیؒ مشکوۃالمصابیح
٭ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ سنن ترمذی شریف
٭ محمد بن یزید قزوینیؒ ابن ماجہ شریف
٭ سلیمان بن اشعثؒ سنن ابی داؤدشریف
٭ احمد بن محمد بن حنبلؒ مسند احمدشریف
٭ علامہ ابن جوزیؒ صیدالخاطر
٭ محمد بن عبداللہ الحاکمؒ مستدرک
٭ احمد بن علی بن شعیبؒ سنن نسائی شریف
٭ عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمیؒ دارمی شریف
٭ احمد بن علی بن شعیبؒ عمل الیوم والیلۃ
٭ علی المتقی کنزالعمال
٭ ابن قتیبہ عبداللہ بن مسلمؒ غریب الحدیث
٭ علی بن ابی بکر مرغینانیؒ ہدایہ شریف
٭ ابوالفداء اسمعیل ابن کثیرؒ النہایہ للبدایہ (تاریخ ابن کثیر)
٭ عبداللّٰہ بن محمد بن علی الحصکفیؒ درالمختار
٭ فقیہ ابواللیث سمرقندیؒ تنبیہ الغافلین
٭ علامہ ابن جوزیؒ تلبیس ابلیس
٭ حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ احسن الفتاویٰ
٭ علامہ جلال الدین السیوطیؒ درِّمنثور
٭ ابی بکر احمد بن الحسینؒ شعب الایمان
٭ ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی السنن الکبریٰ
٭ محمد بن رسولؒ الاشاعۃ لاشراط الساعۃ
٭ ابو محمد الغزالیؒ احیاء علوم الدین
٭ مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ حیاۃ الصحابۃ
٭ مولانا رومؒ مثنوی
٭ ضیاء الدین نخشبیؒ ترغیب الفقراء الملوک
٭ مولانا اشرف علی تھانویؒ امدادالفتاوی
٭ مولانا اشرف علی تھانویؒ الفصل للوصل
٭ مولانا اشرف علی تھانویؒ اصلاح ظاہر
٭ مولانا اشرف علی تھانویؒ ذم المکروہات
٭ مولانا اشرف علی تھانویؒ مال وجاہ
٭ مولانا اشرف علی تھانویؒ بہشتی زیور
٭ مولانا اشرف علی تھانویؒ تاسیس البنیان
٭ حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ فضائل اعمال
٭ حضرت مولانا سید ظہورالحسن کسولویؒ ارواح ثلٰثہ
٭ حضرت مولانا محمد منظور نعما نیؒ معارف الحدیث
٭ ڈاکٹر حبیب اللہ مختا رؒ دل کو نرم کیجئے!
٭ مفتی محمد سلمان منصور پوری لمحات فکریہ
٭ مولانا عبدالرحمن جامیؒ حیات مصلح الامتؒ
٭ مولانا مفتی محمد عبید اللہ اسعدی تذکرۃ الصدیق
٭ مولانا عاشق الہی میرٹھیؒ تذکرۃ الخلیلؒ
٭ مولانا عاشق الہی بلندشہریؒ قیامت کب آئے گی
٭ مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ آداب المساجد
٭ ڈاکٹر حبیب اللّٰہ مختار شہیدؒ توکل و اعتماد
٭ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ جہان دیدہ
٭ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ ذکروفکر
٭ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ دنیامرے آگے
٭ مولانا عبدالماجد دریابادیؒ سیاحت ماجدی
٭ ڈاکٹر سید علی بلگرامیؒ عربوں کا فن تعمیر
٭ مولانا عطاء الرحمن قاسمی دلی کی تاریخی مساجد
٭ مولانا نسیم احمد غازی مدظلہ حیات اسعدؒ
٭ مولانا علامہ روحانی بازیؒ گلستانِ قناعت
٭ مولانا حکیم محمد اختر مدظلہ دنیاکی حقیقت
٭ مولانا محمد ولی رازیؒ قیامت سے پہلے کیا ہو گا
٭ مفتی سعید احمد اجراڑویؒ آداب السلام
٭ مولانا ذوالفقارنقشبندی مدظلہ از لاہور تا خاک بخاریٰ و سمرقند
٭ مفتی محمد ظفیرالدین مدظلہ اسلام کا نظام مساجد
٭ مولانا عبد الماجددریابادیؒ سیاحت ماجدی
٭ مولانا حکیم محمد اختر مدظلہ مجالس ابرار
٭ محمد اقبال قریشی معارف الاکابر
٭ مولانا غیور عالم ہرسولوی ملفوظات فقیہ الاسلام
٭ مولانا عبدالرحمن جامی حالات مصلح الامتؒ
٭ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ ؒ تالیفات مصلح الا مت
٭ ڈاکٹر عبد الحئی عارفیؒ اسوۂ رسول اکرم ا
٭ قاری شریف احمد(پاکستان) تاریخ حرمین شریفین
٭ خصوصی ضمیمہ حیدرآباد روزنامہ راشٹریہ سہارا(نئی دہلی)
٭٭٭
تشکر: مصنف اور ڈاکٹر سیف قاضی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید