FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بات کہی نہیں گئی

 

 

 

                   سیمیں کرن

 

(ادب سلسلہ شمارہ ایک سے مواد حاصل ہوا)

 

 

 

 

 

ثنا بخاری نے اپنی سوجی اور روئی ہوئی آنکھوں کی پکار کو گہرے آئی شیڈ کی ان کہی سے ڈھانپا، دل اس بے ایمانی پہ کر لایا تو اس نے دل کی بات بہت سختی سے ان سنی کر دی، مجبوری تھی، آج بہت اہم پروگرام تھا، لائیو شو تھا، ڈاکٹر سعادت حسن اک ملک گیر شہرت کی حامل این جی او کے ڈائریکٹر تھے، بہت سے انٹرویوز اور پروگراموں میں مدعو کیے جا چکے تھے اور ثنا بخاری کی آرزو تھی کہ یہ پروگرام و انٹرویو عام روٹین سے ہٹ کر ہو کہ ان کے لیے بھی یادگار بن جائے سوالات بھی اس نے عام ڈگر سے ہٹ کر تیار کیے تھے، اور سچ تو یہ تھا کہ اسا ین جی او کا منشور اس کے دل کو چھو گیا تھا، اس کی متجسس روح پہ سوالوں کے سرے خود بخود اگے تھے … اس نے آئینے میں اپنی تیاری کو اک بار پھر ناقدانہ نظر سے دیکھا، اپنے دکھوں، محرومیوں کو ان سنا کرتے کرتے تھک چکی تھی وہ، ماں نے اسے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ مگر آج وہ تھکی ہوئی پژ مردہ اور پسماندہ نہیں دکھنا چاہتی تھی وہ اس پروگرام کو ہر لحاظ سے کامیاب دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سیٹ پر ڈاکٹر سعادت حسن کے سامنے بیٹھی تھی، تعارفی کلمات کے بعد پروگرام کا آغاز ہو چکا تھا، وہ انھیں دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ میں پکڑے کاغذ سے پڑھنا شروع کیا۔’’بات اصل میں یہ ہے کہ وہ ٹالسٹائی کا اسپ ابلق ہویا پھر کافکا کا گریگر سیمس منٹو کی ’’بیگو‘‘ ہو یا پھر قرۃالعین کی ’’یاسمین بلمونٹ‘‘ یا پھر میر و غالب، غم جاں و زمانہ ہائے روز گار کے بعد اک وجودی اک سلگتی آگ اک تشنہ آرزو اور اک ان کہی کا غم ہے، اک ایسی ان کہی جو باوجود کوشش کہی نہیں جا سکتی !اک ان سنی جو سننے سنائے جانے کی آرزو میں دب کر اک نا مٹنے والی خلش بن کر رہ گئی۔ اس کرے پر اس انسان کا سب سے بڑا اور عظیم دکھ ہی یہ ہے کہ جو اور جب وہ کہنا چاہتا ہے، کہہ نہیں پاتا، وجوہات ہزار ہار رہی ہوں۔ مگر ان کہی! اور جو سننے کی آرزو رکھتا ہے اسے قوت گویائی نہیں ملتی، وہ سب جو ان دیکھا، ان سنا، ان کہا رہ جاتا ہے، زندگی کے سب سے عظیم کرب کی اساس ٹھہرتا ہے … اور ’’آؤ بات کریں ‘‘ ’’اک ایسا اہم فورم ہے جو آپ کو آواز دیتا ہے کہ ان کہی کو کہہ دو اور ان سنی کو سن لو۔ ‘‘یہ منشور پڑھ کر ثنا بخاری نے ڈاکٹرسعادت حسن کی جانب دیکھا اور مسکرائی ’’ڈاکٹر صاحب یہ کسی ادبی تنظیم کا منشور معلوم پڑتا ہے اور یہ کسی این جی او کا مینی فیسٹو ہو تو آپ کو اک جھٹکا ضرور دیتا ہے، لگتا ہے ادب سے گہری دلچسپی ہے آپ کو ‘‘کیا ادب ہی تو اس تنظیم کے قیام کا باعث نہیں بنا؟‘‘ ڈاکٹر سعادت حسن یہ بات سن کر جیسے بہت محظوظ ہوئے، کہہ سکتی ہیں، ادب سے دلچسپی تو ہمیشہ سے تھی، ادب نے انسانی نفسیات کے ہزار ہا رنگ مجھ پہ آشکار کیے اور اس کے دکھوں کو سمجھنے کی مہمیز ملی یا پھر انسان کو سمجھنے کے لیے میں نے ادب کا سہارا لیا۔ سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس بات کا میں تعین نہیں کر پاتا کہ دونوں میں سے سبقت کس کو ہے ؟ لیکن یہ سچ ہے کہ ادب کے مطالعے نے ہی مجھے یہ تحریک دی کہ میں اس نتیجے پہ پہنچ سکوں کہ اک ان سنی اور ان کہی ہی اس کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ کیا سارا ادب اس ان کہی اور ان سنی کا نتیجہ نہیں لگتا آپ کو؟ ثنا بخاری چوکنے والوں میں سے کہاں تھی، فوراً بات پکڑ کر بولی ’’یہ تو بہت بڑی بات کہہ دی آپ نے ڈاکٹر صاحب، آپ نے اک معصیت اورانسانی مصیبت و دکھ کو نعمت بنا دیا پھر تو، یعنی ان سنی ان کہی کا فروغ ہونا چاہئے آپ کے خیال میں ؟ ڈاکٹرسعادت مسکرائے اور بولے ’’جیسے آپ نے میرا منشور کو پڑھ کر مجھے بتایا کہ ادب سے گہری دلچسپی ہے آپ کو تو آپ کے سوال کو سن کر میں آپ سے پوچھتا بلکہ کہتا ہوں کہ آپ کو فلسفہ تصوف سے گہرا شغف لگتا ہے ؟ ثنا بخاری مسکراہٹ دبا کر بولی ’’ ڈاکٹر صاحب یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔ ‘‘ دیکھئے۔

ڈاکٹر سعادت بولے ’’اپنے انگلش کا وہ ایڈیم تو سن ہی رکھا ہو گا کہ”Blessing is in disguise” تو فطرت جب ایک مصیبت تخلیق کرتی ہے تو اس کے پردے میں کوئی نعمت بھی چھپی ہوتی ہے، سیلاب آتے ہیں تو زر خیزیوں کو ادھر اُدھر بکھرا دیتے ہیں، کچھ کو ملیا میٹ اور کچھ کو زرخیز زمینیں دے دیتے ہیں، مردار کی بو پھیلتی ہے تو خاکروب پرندے چلے آتے ہیں، جن علاقوں میں انتہا کی سردی پڑتی ہے وہاں انتہائی گرم مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ آپ فطرت کے جب اس نظام کو سمجھنے لگتے ہیں کہ کیسی خاموشی سے ہر معصیت و الم کے ساتھ انتظام، انصرام اور کوئی نعمت جڑی ہوتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان کی مصیبتوں، ر نج اور آلام کا کوئی بند و بست نہ ہوتا؟‘‘

ثنا بخاری کا اگلا سوال مزید کڑا تھا۔ ’’تو کیا آپ کے خیال میں ان کہی اور ان سنی ایک قدرتی آفت ہے جس کا انتظام و انصرام بھی فطرت نے اپنے ذمے لے رکھا ہے ‘‘؟

ڈاکٹر سعادت سنبھل کر بیٹھ گئے۔

’’ثنا آپ ماشاء اللہ بہت ذہین ہیں، انسانی کجی، خامی اگر فطرت کی کارسازی ہے تو یقیناً انتظام بھی اسی کے ذمے ہے۔

کیا اس ان کہی اور ان سنی کے پیچھے آپ کو انسانی اختلافات کا ہا تھ نہیں لگتا ؟کیا انسانوں کے نظریات کے اختلافات ہی آڑ نہیں بن جاتے جب بات ان کہی رہ جاتی ہے ؟‘‘

ثنا نے سر اثبات میں ہلایا فقط!تو کیا فطرت کی کارگزاری نہیں یہ کہ مختلف النوع و ذہن کے انسان پیدا کیے ؟

ڈاکٹر سعادت نے سوال کیا۔

’’جی صحیح فرمایا آپ نے ‘‘ثنا بخاری نے تائید کی۔

اب کے سعادت بولے ’’ تو پھر مان لیجیے کہ انسانوں میں کچھ لوگوں کو زخم اور کچھ کو مرہم پیدا کیا گیا، کچھ کو یہ خیال ودیعت کیا گیا کہ وہ ان سنی اور ان کہی کو سن کر زخموں پہ مرہم رکھیں۔ ثنا یہ سن کر بولی ’’تو کیا ڈاکٹر صاحب آپ اس این جی او کو بنانے کا سارا کریڈٹ قدرت کو دینا چاہتے ہیں، گویا یہ ادارہ کوئی الہامی ادارہ ہے ؟ سوال کچھ زیادہ تلخ تھا جس کی کڑواہٹ نے منہ کا ذائقہ خراب کر دیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر سعادت کو سنتے اور سہنے کا کمال ظرف فطرت نے بخشا تھا…

’’ہدایت الہامی ہی ہوتی ہے ثنا بی بی، جسے ہم توفیق کہتے ہیں یہ میرا ذاتی خیال اور اپروچ ہے جس سے آپ کو بہر حال اختلاف کا حق ہے کہ توفیق جس کو ہم کہتے ہیں یہ بھی اک خاص طرح کا بٹن ہے جو اک خاص ٹمپریچر کے بعد حرکت میں آ جاتا ہے، آپ جس طرز عمل پہ زندگی گزارتے ہیں، وہ اچھائی ہو یا برائی، فطرت کچھ دیر بعد آپ کو اسی طرز عمل میں سہولت دینے لگتی ہے۔ کائنات میں خیر اور شر کی قوتیں پھیلی ہوتی ہیں، ہم نے کس کو چارج کیا، یہی آزمائش ٹھہری اور یہی توفیق سے جڑی ہوئی! ثنا کے منہ سے بے ساختہ داد نکلی ’’واہ، ڈاکٹر صاحب آپ نے گویا میرا ارادہ بھانپ لیا تھا جو توفیق کو لا کر قضا و قدر کا مسئلہ بھی سمیٹ دیا کہ میں آپ کے مرہم اور زخم کی اصطلاح پہ مزید اب کوئی بات ہی نہیں کر سکتی!

اب ثنا بخاری کا رخ کیمرے کی جانب تھا اور وہ بولی ’’ناظرین آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مہمان ’’آؤ بات کریں ‘‘ نامی این جی او کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سعادت حسن ہیں۔ ان کی سماجی خدمات کا اعتراف ملک بھر میں کیا جاتا ہے، امید ہے کہ آپ اس گفتگو میں نہ صرف دلچسپی لے رہے ہوں گے بلکہ آپ کے ذہنوں میں بھی بہت سے سوال ہوں گے اپنے اس محسن کے لیے، اگر آپ نے اس انٹر ویو کو اچھا فیڈ بیک دیا تو ہم ڈاکٹر صاحب کو اک بارپھر اپنے اسٹوڈیوز میں بلائیں گے اور پھر آپ براہ راست ان سے سوالات کر سکیں گے، جی تو ناظرین ہم ڈاکٹر صاحب سے یہ گفتگو جاری رکھیں گے، بلکہ آپ کو ان کی بیگم سے بھی ملوائیں گے تو لیتے ہیں اک چھوٹا سا بریک، کہیں مت جائیے، ہمارے ساتھ رہیے۔ ‘‘

ثنا کو ڈائریکٹر کی جانب سے ہدایات موصول ہوئیں کہ اب سوالوں کو تھوڑا شگفتہ رنگ دے، گفتگو ثقیل اور فلاسفیکل ہو گئی ہے۔ ان ہدایات میں تنبیہ کا رنگ بھی تھا جب ڈائریکٹر نے کہا کہ وہ اپنے سوالوں کی تسکین کے لیے خود ذاتی ملاقات رکھے !ثنا نے ڈاکٹر سعادت کی جانب رخ کیا، پروگرام لائیو تھا، اور بولی ’’بریک کے اس وقفے میں آخری سوال کا جواب دیجیے اس کے بعد ہم ناظرین کی دلچسپی کے سوالات پہ آ جائیں گے، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سنی اوران کہی کو آپ کسی بہت بڑے تناظر اور اسکوپ میں دیکھتے ہیں ؟ درست یا غلط۔ ؟

ڈاکٹر سعادت اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دھیمے لہجے میں بولے ’’صحیح سمجھی ہیں ثنا آپ بالکل ایسا ہی سمجھتا ہوں، یہ پوری کائنات گویا کچھ کہہ رہی ہے جو حضرت انسان سنتا نہیں، ان سنی کر کے یونہی گزر جاتا ہے اور کچھ ہیں جو اس کہی، اس قول و قال کو سمجھنا چاہتے ہیں، قدرت کی سمفنی کو سننا اور سمجھنا چاہتے ہیں مگر قدرت بہت کچھ کہہ کر بھی بہت سی ان سنی رکھتی ہے ان کہی رہنے دیتی ہے، ان کہی کے عمل کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ ‘‘

ثنا کے چہرے پہ یکدم تحریر، تحسین اور اثبات کے تاثرات ابھر آئے !بریک کے بعد لائیو پروگرام دوبارہ شروع ہو چکا تھا اور اب یہ ثنا کا امتحان تھا کہ اک اہم موضوع، اک اہم شخصیت کے ساتھ پروگرام کو وہ کیسے اتنا دلچسپ بناتی تھی کہ وہ لوگوں کے دلوں کو چھولے ! ’’جی تو ناظرین ابھی تک تو ڈاکٹر صاحب سے ان کی این جی او کے منشور کے نفسیاتی اور فلسفیانہ تناظر میں گفتگو ہو رہی تھی، اب ان سے پوچھوں گی کہ حقیقی زندگی میں وہ کون سے ایسے عوامل یا شخصیات تھیں جنہوں نے ان کو لوگوں کی زندگیوں کے ان کہے، ان سنے رازوں کو جاننے، ٹٹولنے اور پھر دور کرنے پہ مجبور کیا، جی ڈاکٹر صاحب بتائیے ؟‘‘

ڈاکٹر سعادت اس سوال کے لیے تیار تھے ’’ثنا اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنے ارد گرد کے افراد کا مطالعہ میرا محبوب مشغلہ رہا ہے، سب سے پہلے یا یوں کہہ لیں کہ جو واقعہ اس تنظیم کی کارسازی کا موجب بنا، وہ ہمارے گھر میں کام کرنے والی ہماری بی اماں تھیں۔ خاموش، وفادار، اپنے کام سے کام رکھنے و الی خدمت گزار خاتون، صبح کو آتیں اور سہ پہر ڈھلے چلی جاتیں، در اصل آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے گھر کی مینجر، اسسٹنٹ یا میری والدہ کی سکریٹری تھیں، میری والدہ کی گو ناگوں ذمہ داریوں جن میں بزنس و دیگر امور شامل تھے، گھر کے ہر امر کی نگرانی بی اماں کے ہاتھ ہی میں تھی، دور پار سے رشتے دار بھی تھیں، ضرورت مند تھیں، بیوہ اور چھ بیٹیوں کی ماں، دو چھوٹے اور لاڈ میں بگڑے بیٹے، اس کنبے کو چلانے کا ذمہ دار قدرت نے ان کو چنا تھا، یکے بعد دیگرے انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیں، بس جب شادی ہوتی تو وہ بتا دیتیں، ورنہ بہت غیرت مند خاتون تھیں بس چپ چاپ اک حزن و غم میں ڈوبی خاموشی سے اپنے کام نپٹاتی۔ نو جوانی کا زمانہ تھا، آتے جاتے ملاقات ہو جاتی یا سلام دعا، پھر پتہ چلا کہ وہ اپنی پانچ بیٹیوں کی یکے بعد دیگرے شادیاں کر چکی تھیں، اک بیٹا بھی بیاہ لیا، یہ وہ وقت تھا جب ایک طویل عرصے کے بعد میں نے بی اماں کو قدرے آسودگی سے سانس لیتے دیکھا، وہ کچھ خوشگوار موڈ میں رہنے لگیں گو کہ باتیں تو اب بھی بہت نہیں کرتی تھیں …‘‘

ڈاکٹر سعادت کچھ پل کو سانس لینے کو رکے پھر گویا ہوئے ’’یہ حضرت انسان بھی عجیب ہے، کبھی تو بن کہے ہی سب کچھ کہہ دیتا ہے اور کبھی سب کچھ کہہ سن کر بھی جانے کتنے ناسور خود میں چھپائے پھرتا ہے۔ ‘‘

ثنا نے تائید میں جواب دیا ’’جی آپ درست کہتے ہیں ان کہی اک ناسور ہی ہے اور آپ کی بات کے تناظر میں کہوں گی کہ ان کہی وہ بوجھ ہے جو رب سے بھی نہیں اٹھایا گیا اور اظہار قوت نے یہ کائنات تخلیق کروا دی کن کہہ کر!‘‘

ڈاکٹر سعادت نے بے ساختہ داد دی اور بولے ’’یہ بات تو بڑی گہری صوفیانہ حقیقت ہے ثنا‘‘

ثنا نے گفتگو کو پھر وہیں سے جوڑا ’’جی تو پھر آگے چلیے ‘‘

’’جی تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اک طویل مدت کے بعد میں نے بی اماں کو خوش دیکھا، کچھ آسودہ، مگر یہ عرصہ کوئی بہت طویل نہیں تھا، دو سال بس دو سال بعد بی اماں بہت پریشان رہنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جیسے پانی میں گری صابن کی ٹکی گھلنے لگتی ہے، اسی طرح ان کی صحت گری، اک توانا محنتی عورت کو یوں ضائع ہوتے دیکھنا بڑا تکلیف دہ امر تھا اور جبکہ میں عملی زندگی میں داخل ہو چکا تھا، اک دن مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے ان کو کریدا، میرے کریدنے کی دیر تھی، جیسے کوئی لاوا پھٹتا ہے وہ بہہ نکلیں۔ جو وہ بولیں، وہ تو اک لمبی المناک داستان تھی مگر قصہ مختصر یہ کہ ان کی پانچ بیاہی بیٹیوں میں سے صرف ایک کے گھر دو بچے زندہ پیدا ہوئے اور دو وفات پا گئے اور باقی چاروں ابھی تک بے اولاد تھیں، حال ہی میں جس بیٹی کی شادی کی، اس کی شادی کو بھی سال سے اوپر کچھ وقت ہو چلا تھا وہ بھی تا حال کوئی خوش کن خبر نہ دے سکی تھی جس پر اس کے سسرال والے الزام دھرتے تھے کہ تم ساری بہنوں پہ آسیب کا سایہ ہے اور وہ اس کو طلاق دلوا کر بیٹے کی اور شادی کریں گے اور یہ خبر پورے خاندان و علاقے میں ایسی پھیلی کہ اب آخری بیٹی کا رشتہ نہیں ہو رہا تھا اور بیٹا خاندان سے باہر پسند کی لڑکی لایا تو نو ماہ میں ہی باپ بن گیا، یہ غم بی اماں کو اندر ہی اندر چاٹ رہا تھا، وہ پھپک پھپک کر روتے ہوئے بولیں سعادت بیٹا، راتوں کو سو نہیں پاتی، ساری رات وظیفے کرتی ہوں، دم درود، مگر کہیں کوئی آس نہیں بندھی تم نے پوچھا تو یوں لگا کسی نے روشنی کر دی، تم سے کہہ کر جانے کیوں بوجھ ہلکا ہو گیا۔ ـ‘‘

بی اماں کے چہرے پہ جو ان کہی کا دباؤ جما تھا اور ساری شخصیت گھٹی ہوئی تھی، مجھے یوں لگا کہ پرندے کو گویا رہائی ملی، وہ زندگی میں پہلی بار اتنا بولی تھیں …توبس بی اماں ہی وہ کردار ہیں جنھوں نے میرے احساس کو مہمیز کیا کہ انسانی دکھوں کو سن کر پھر ان کے حل کے لیے کوشش کی جائے کیونکہ حل جواب ہے اس بات کا کہ سوال سن لیا گیا۔ ‘‘

شرکا ء نے خوب تالیاں بجائیں اور دیر تک ڈاکٹر سعادت کے لیے تالیاں بجتی رہیں۔

ثنا نے پوچھا ’’تو ڈاکٹر سعادت پھر آپ نے کیا کیا بی اماں کے لیے ؟

ڈاکٹر سعادت نے جواب دیا ’’اس سوال کو میں نے اپنے جیسے کچھ مخلص اور مخیردوستوں کے سامنے رکھا اور اپنا خیال بھی اور پھر وہ ’’آؤ بات کریں ‘‘ کا جنم ہوا اور ہمارا پہلا کیس بی اماں تھیں جن کی بیٹیوں کو ہم نے شہر کے معروف گائناکولوجسٹ کو دکھایا اور الحمد للہ اب چار میں سے تین صاحب اولاد ہیں ‘‘

تالیاں پھر بجنے لگیں۔ ثنا کے کان میں شاید ڈائریکٹر کی جانب سے کوئی ہدایات موصول ہوئی تھیں۔

ثنا نے فوراً سوال داغا ’’ڈاکٹر سعادت اپنے مزید تجربات ہم سے بانٹیے ‘‘ ڈاکٹر سعادت نے کچھ پل کو سر جھکایا پھر دوبارہ گو یا ہوئے۔

’’ثنا ’’آؤ بات کریں ‘‘ اک ایسا چینل تھا اور ہے کہ اس پہ لوگوں کی جانب سے جیسا رد عمل ملا، وہ میری توقع سے بڑھ کر تھا، یہ سینہ بہت سے لوگوں کے رازوں کا امین ہے ایسے ان کہے، ان سنے دکھوں کا تعفن لیے لوگ جانے کیسے جیتے پھرتے تھے، اک آستانہ انہیں ملا تو وہ اپنے اس بوجھ کو ڈھو کر خود سستا لیتے، ایسے لوگ بھی ملے جن کو حل کی طلب تھی نہ آرزو وہ بس یہ چاہتے تھے کہ ان کو سن لیا جائے وہ اسیر پرندے تھے جن کو پنجرے سے محبت ہو جائے، میں آپ کو کیا کیا بتاؤں ثنا؟! یہ گویا طلسم ہو شربا کا سفر تھا یا پھر داستان الف لیلیٰ جہاں روز اک نئی داستان اِک نئی کہانی منتظر ہوتی۔

ثنا یہ سن کر بولی ’’اس کا مطلب ہے کے آپ کی حیرت و تجسس کا دامن بہت وسیع تھا جو اس دستر خوان پر آپ ابھی تک سیر نہیں ہوئے، آپ کو یہ کیوں محسوس نہیں ہوا یا اکتاہٹ نہیں ہوئی، روز وہی چند ایک ہی طرح کی کہانیوں یا دکھوں کو سن کر کہ آخری بنی آدم کے وہی چند اک مسائل ہیں، بس کردار بدل جاتے ہیں ؟!

ڈاکٹر سعادت کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ’’ثنا سوال کا جواب تو آپ نے خود دے دیا، کردار کی انفرادیت کہانی، پرانی کہانی کو جدت دے دیتی ہے ‘‘

ڈاکٹر صاحب کے لیے اِک بار پھر بہت سی تالیاں بج اٹھیں۔ ثنا نے اِک بار پھر مضبوط سوال کی ڈوری پھینک کر پروگرام پر اپنی گرفت سخت کی۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب تو آپ ہمیں اپنے تجربے اور کسی حیران کن واقعے کی بابت بتا رہے تھے ؟‘‘

ڈاکٹر سعادت نے کچھ دیر کو سر جھکایا اور گویا ہوئے ’’پتہ نہیں آپ اسے حیران کن سمجھیں یا نہیں، حیرت بھی تو اپنے لبادے بدل لیتی ہے۔ ۔ ۔ مگر اتنے کرداروں کی اتنی کہانیوں میں بی اماں کے بعد اک جوڑے نے مجھے بہت حیران کیا۔ ‘‘

مجمع میں کچھ بھنبھناہٹوں کے بعد سناٹا سا چھا گیا اور ثنا بھی جیسے ہمہ تن گوش ہو گئی۔

ڈاکٹر سعادت بولے ’’بظاہر تو کچھ بھی نہیں تھا ان کی کہانی میں مگر میری حیرت مجھ سے سوال کرتی تھی، وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے پاس سب کچھ ہوتا ہے، مال دولت، اولاد آسائش، صحت، جوانی، نعمتوں کے انبار کے باوجود وہ دونوں اِک دوسرے سے انتہائی نا خوش تھے۔ حیرت ہوئی، کیوں ؟مگر کیوں …؟چھوٹے چھوٹے گلے جن کو کہی کے نمک مرہم سے بے ضرر کینچوے کی موت مارا جا سکتا تھا وہ اژدہے پھنیر ناگ بنے رشتے کو نگل رہے تھے …

کہی، ان کہی بن کر اک دوسرے کو سمجھنے میں مانع تھی۔ عورت مظلوم اور مرد جابر کے روپ میں اپنی حاکمیت کے گھمنڈ میں کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہ تھا، بقول اس کے جب عورت کو عزت کی روٹی کپڑا اور مکان ملے تو اس کو مرد کے لیے بچھا بستر ہونا چاہیے، عورت کچھ دوچار لفظ پڑھ لکھ گئی تھی اور ذاتی تشخص اور عزت نفس کی طالب؟!کیا کیا جائے میاں بیوی کے مسئلے اتنے نازک کہ تیسرا فریق تو بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے، بس شیشہ گری کا کام تھا، آخر بہت طریقے اور غیر محسوس طریقے سے شوہر کی تحلیل نفسی کی گئی اور اس کے رویوں کو بدلنے میں تھوڑی پیش رفت ہوئی، ہمارے ساتھ بات کرنے کے نتیجے میں وہ دونوں اپنی نا خوشی کو سمجھنے کے قابل ہو گئے، کچھ عرصہ دونوں نے مثبت کوشش کی، یوں سمجھیے کہ دلدل میں پھنسی گاڑی کو کچھ دور تک نکالا… مگر کچھ عرصے بعد وہ دونوں علیٰحدہ ہو گئے، یہ واقعہ مجھ پہ بہت گہرے اثرات چھوڑ گیا!‘‘

ڈاکٹر سعادت کچھ پل کو سانس لینے کو رکے ’’مجھے یوں لگا کہ میری ان کہی کو کہہ دینے کی جرات دلانے کا یہ نتیجہ نکالا کہ وہ علاحدگی پر منتج ہوا، یہ بات کہنے کی قوت کا اِک منفی سمت میں مجھے ادراک ہوا، یوں سمجھیے کہ قوت کے مثبت و منفی پہلو مجھ پہ آشکار ہو گئے۔ ۔ ‘‘

وہ لوگ مجھے اِک سبق بھی دے گئے اور وہ بھی اِک منفرد تجربہ تھا۔ ‘‘

ثنا کے چہرے سے تحیر آمیز تحسین پسینے کی طرح چھلکی پڑ رہی تھی، لگتا کہ سوالوں کے دام میں خود میزبان آ گیا کہ مہمان نے پوری سچائی سے ہر عیب و ہنر کھول دیا تھا…

اس دوران ہال میں شرکا نے اپنے کچھ درخواست نما خطوط ڈاکٹر سعادت کو دیے، کچھ سوالات پوچھے گئے اور اس کے بعد ثنا بخاری نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیئے، ان کی نجی زندگی، حالات، والدین سے متعلق! ڈاکٹر سعادت نے اپنی بیوی سارہ سعادت سے لائیو رابطہ کیا اور بتایا کہ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ ساتھ نہیں آ سکی ہیں۔

ثنا بخاری نے ان کی ازدواجی زندگی پر اس اصول کی بابت سوال کیا تو ڈاکٹر سعادت اک مان کے ساتھ مسکراتے ہوئے بولے ’’میں نے اور سارہ نے ہمیشہ اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ہم ہر چھوٹی بڑی بات ایک دوسرے سے بانٹیں، ہمارے درمیان کوئی راز نہ ہو اور ہم اس میں کامیاب رہے، ہم نے آئینہ صفت زندگی گزاری جس میں ایک دوسرے کے عکس جھلملاتے تھے۔

بس عرصہ پانچ سال سے سارہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والے اور دعا دینے والے ہاتھ اسے اس مرض سے نکال لائیں گے۔ ‘‘

ثنا بخاری نے اختتامی کلمات کہتے ہوئے پروگرام کو وائنڈ اپ کیا۔ پروگرام کے فیڈ بیک اور ریٹنگ پہ ڈائریکٹر نے اسے مبارکباد دی کہ بہت کامیاب انٹرویو تھا حالانکہ اس سے پہلے وہ بہت سے پروگرامز میں آ چکے تھے۔ بلاشبہ اک بڑے چینل سے اتنا شاندار انٹرویو جس نے ’’آؤ بات کریں ‘‘ کے پیغام و منشور کو دور تک بکھیر دیا تھا۔ اور ثنا بخاری کے لیے بھی یہ جیسے اک نیا موڑ تھا، دل پہ ’’آو بات کریں ‘‘ کے پیغام منشور نے عجیب سی دستک دی تھی، اس نے تمام عمر ان کہی ان سنی کا موذی کینسر دل میں پالا تھا جو اس کے ارد گرد موجود ہر بچے کھچے رشتے کو بھی نگل گیا تھا۔ وہ اک دبنگ اور دھانسو قسم کی لڑکی دکھتی تھی جو اوپر بہت سے خول چڑھائے پھرتی تھی اور خود تک کوئی رسائی نہیں دیتی تھی۔ ماں نے اس کے بچپن میں ثنا کے باپ سے طلاق لے کر دوسری شادی کر لی، دوسرا شوہر بھی کم و بیش پہلے جیسا تھا تو دل کی ہر بغاوت کو ان سنی کر کے پھر صبر کر لیا، اتنا صبر کیا کہ ثنا نظر انداز ہونے لگی، وہ اک غصے اور بغاوت کی شکل اختیار کرتا گیا، ثنا ماں سے بہن بھائیوں سے اور سب سے دور ہوتی گئی۔ اک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ ہو گئی، خوب کماتی تھی، اڑاتی تھی مگر سب گرہیں دل میں ویسی ہی پڑی تھیں، زندگی میں دو تین لوگ آئے مگر سب اک بریک اپ پر منتج ہوئے کہ اس کی زندگی کا ہر سچ سننا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا اور وہ کوئی ایسا رشتہ نہیں نبھانا چاہتی تھی جہاں وہ مصلحتوں کی چپ مہر لگا کر ماں جیسی زندگی گزارے، اور آج وہ سنتی تھی کہ اک ایسا شخص ہے جو ان کہی ان سنی کو اس دنیا، اس کرے کے انسان کا سب سے بڑا دکھ گردانتا ہے اور جو اپنے سے منسلک ہر شخص، ہر رشتے کو سننا چاہتا ہے … اور وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی بیوی کتنی خوش نصیب عورت ہو گی وہ اس عورت کو دیکھنا اوراس سے ملنا چاہتی تھی، اس کے چہرے پہ پھیلے اس سکون اور شانتی کے بہتے دریا کو رواں دواں دیکھنا چاہتی تھی جو سب کہہ دینے پہ محسوس ہوتا ہے۔ ثنا بخاری کو اس کا تجسس اس کی بے چین روح ڈاکٹر سعادت حسن کے گھر تک لے گئی، یہ قطعی اک غیر رسمی اور اچانک ملاقات تھی جس سے ڈاکٹر سعادت بھی لا علم تھے کہ ثنا ڈاکٹر سے نہیں اس کی بیوی سے ملاقات کی متمنی تھی! ثنا بخاری دو ڈھائی بجے سنسان سی کڑکتی دوپہر میں سعادت لاؤنج جا پہنچی۔ ملازمہ نے کچھ پس و پیش اور ٹی وی کے رعب میں بیگم صاحبہ کے بیڈروم تک پہنچا دیا یہ بتاتے ہوئے کہ بیگم صاحبہ بیماری کے باعث کمرے میں ہیں۔

ثنا دروازے پہ ہلکی سی ناک دے کر اندر داخل ہو گئی اندر وہیل چیئر پہ اِک مدقوق سی عورت جو کیمو تھراپی کے اذیت ناک عمل سے گزر رہی تھی شاید، نہ عورت لگتی تھی نہ مرد، ہڈیوں کا ڈھانچہ، ہاتھ میں اِک ڈائری پکڑے زار و قطار اپنی کسی مد ہوشی میں روتی جاتی تھی…ثنا بخاری کے اندر کا مہم جو اینکر باہر آ گیا، وہ پل میں بدگمان ہوئی ہزاروں دھوکے بھرے اندیشے ڈاکٹر سعادت کی نیکی کو نگلنے لگے …

وہ گھٹنوں کے بل جھکی اور کمزور لمحے میں کاری ضرب لگائی ’’وہ درد جو اندر ہی اندر پال رہی ہیں، دنیا میں کسی اِک سے کہہ کر خود کو ہلکا کر لیں، کسی اجنبی سے جہاں کوئی خوف کوئی اندیشہ نہ ہو چلیے پہلی اعتماد کی اینٹ میں رکھتی ہوں، آپ کو اپنا ہر درد کہہ سناتی ہوں۔ ‘‘

مسز سعادت نے حیرت سے آنکھیں کھولیں، یہ کون تھا جو اس دلیری سے بنا اجازت ان کی تنہائی میں گھس آیا تھا اور اتنا اپنائیت بھرا اصرار!ذہن پہ زور دیا تو ثنا کو پہچان لیا ’’تم نے ہی سعادت کا انٹرویو کیا تھا نہ‘‘

اُس نے فقط سر ہلایا، سارہ سعادت نے اِک بھرپور جائزہ لیا ثنا کا، وہ دیکھنے میں ہی اِک بے چین پارا صفت اور متجس روح دکھتی تھی۔ اِک طاقتور شخصیت جو ان دیکھی ان سُنی ان کہی غلافوں میں چھپی کہانیوں، دِل کے قید خانے میں مقید کہانیوں کے تالے کھولنے کی صلاحیت رکھتی تھی، مگر جو کوئی اُس کی آنکھوں کو دیکھتا تو وہ سیاہ گہری گھور سیاہ آنکھیں کسی شب ہجرسی، ان گنت ان کہی کہانیاں چھپائے وحشت کے پردے لیے ہوتے تھیں۔ مسز سعادت دھیرے سے مسکرائیں ’’تو کیا آپ کو مجھ بیمار کا انٹرویو کرنا ہے، مگر میں تو اب اِک بوجھ ہوں سعادت پہ، اُن کے کاز میں کوئی مدد نہیں کر پاتی اُن کی‘‘

اِس دوران ثنا نے دیکھا کہ مسز سعادت نے غیر محسوس طریقے سے اُس ڈائری کو اپنے آنچل میں چھپا لیا مگر ثنا نے دیکھ لینے کے باوجود محسوس نہیں کروایا اب کے ثنا کچھ عجیب مضبوط لہجے میں بولی ’’نہیں، میں تو یہاں اِک ایسی خوش نصیب عورت سے ملنے آئی تھی جو پورے ابلاغ سے سنی جا چکی مگر ملاقات تنہائی میں بند خاتون سے ہوئی مسز سعادت ہنس پڑیں ’’ڈائری میں بند خاتون کسی افسانے یا ناول کا عنوان لگتا ہے، مگر میری زندگی اِک کھلی کتاب ہے۔

تم اِسے افسانہ نہ بناؤ، میں سعادت جیسے فرشتہ صفت اِنسان کے ساتھ بہت خوش ہوں، بس بیماری نے تھکا دیا ہے اور ڈائری لکھنا میری عادت ٹھہری اِس روز نامچے اور بیماری کا لکھنا آنسو بن جاتا ہے !سارہ سعادت نے بات لپیٹ کر پھر مقام صفر پر رکھ دی، مگر ثنا کا پروفیشنل تجربہ اور متجس آنکھ کسی ان کہی کو دیکھ تو چکی تھی مگر اَب سماعت بنانا چاہتی تھی!ثنا کو لگا کہ برف پگھلانا آسان کام نہ ہو گا، اُسے اپنے زخم بھی کھول کر دِکھانے پڑیں گے !اُس نے اِک بار پھر سارہ کو دیکھا، اور پھر اُسے یوں لگا کہ اُس کی روح کو بھی ویسا ہی گھن چاٹ چکا ہے، من بھیتر میں جھانکا تو وہاں سارا جیسی مدقوق عورت نظر آئی۔ وہ اِک بار پھر رقت سے بولی ’’ یہ اِک غیر رسمی ملاقات میں یہاں اینکر کے سازو سامان کے ساتھ نہیں آئی تھی، میں سعادت کی سارہ سے ملنے آئی تھی اِک با نصیب عورت جو بہت غور سے سنی گئی مگر آپکی شکستگی نے مجھے توڑ دیا۔ بہت سے لوگوں سے بہت کچھ کہا مگر بہت کچھ ایسا ہے جو شاید کسی اجنبی مکمل اجنبی سے ہی کہا جا سکتا ہے جو اِسے سُن کر ان کہی میں بدل کر وقت کے سمندر میں پھینک آئے، آئیں اِک دوسرے کو سنیں۔ ‘‘

سارہ سعادت اِک لمحے کو کانپ سی گئیں، مد ہوشی اور بے ہوشی کے درمیان وہ بڑبڑائیں ’’فرشتے بھی کہاں مکمل فرشتے ہوتے ہیں جو ہر بوجھ ڈھو سکیں ‘‘، اِتنا کہہ کر وہ مکمل بے ہوشی میں چلی گئیں ثنا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، وہ باہر کی جانب بھاگنے لگی تو دیکھا ڈھیلے ہوتے ہاتھوں سے ڈائری پھسل گئی تھی، اُس نے ڈائری اُٹھائی مگر یہ وقت ڈائری دیکھنے کا نہیں تھا، اس کے شور مچانے پہ ملازمہ دوڑی آئی۔ ثنا کے بتانے پہ وہ کچھ ڈھیلی پڑ گئی ’’بی بی آپ پریشان نہ ہوں بیگم صاحبہ پہ اکثر ایسے بے ہوشی کے دورے پڑ جاتے ہیں، شاید دوائیوں اور کمزوری کی وجہ سے ملازمہ نے ان کے ہاتھ پاؤں صحیح کر کے ایزی چیئر پہ اُن کو نیم دراز کر دیا اور گردن کے نیچے کشن رکھ دیا اور اِس کے بعد فارغ ہو کر ثنا کی طرف مُڑی ’’او بی بی جی آپ وہ ٹی وی والے ہو نہ جنہوں نے صاحب کا اِنٹرویو کیا تھا؟آپ ٹی وی پہ بہت سوہنی لگتی ہو اور آج بھی بہت پیاری لگ رہی ہو‘ ثنا دلچسپی سے اُسے دیکھا اور بولی ’’اچھا تم نے وہ اِنٹرویو دیکھا تھا؟‘‘وہ اثبات میں سر ہلایا کر بولی ’’ہاں جی بیگم صاحب کے ساتھ دیکھا تھا، بہت سی مشکل مشکل پڑھی لکھی باتیں تو نہیں سمجھ آئیں جی، پر بہت سی باتیں بہت اچھی لگیں اور پتہ بی بی میرے دِل نے کیا سوچا اُس وقت؟ثنا نے فقط اِستفسارانہ انداز میں سرہلایا، وہ بولی میرے دِل نے کہا کہ مجھے تو دِن رات میاں کی سُسرال کی سارےلوگوں کی اِتنی باتیں سننی پڑتی ہیں، کاش وہ دِن آئے جب کوئی مجھ سے کچھ نہ کہے، اور اِک وہ رَب ہے جو ساروں کی سُنتا ہے، سارے دُکھ، دعائیں، شکوے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیتا۔ ‘‘

ان پڑھ سی ملازمہ کی اِتنی گہری بات اور گفتگو اور مکالمے کہ زندہ بدن سے گویا کسی اور بچے کا جنم ہُوا تھا!ثنا آہستہ سے بولی ’’ذرا سوچو تم کچھ لوگوں کو سُن کر دُکھی ہو جاتی ہو اور کہتی ہو کہ مر جاؤں تو سکون آ جائے کچھ نہ سننا پڑے اور وہ رَب ہے جو ہر کسی کی جائز نا جائز ازل سے سنتا ہی چَلا جا رہا ہے …اور پھر کسی ان کہے ان سنے سمندر میں چھانٹ چھانٹ پھینک دیتا ہے۔ ‘‘

ملازمہ ثنا کی اِس بڑبڑاہٹ سے تنگ آ کر بولی ’’بی بی میں آپ کے اور بیگم صاحبہ کے لیے جُوس لے کر آتی ہوں، تب تک بیگم صاحبہ کو ہوش بھی آ جائے گا‘‘

اَب کمرے میں ثنا اور بے ہوش سارہ سعادت اور اُس ڈائری کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ تجسس اخلاقی جرم میں ڈھل گیا، اُس نے ڈائری کھولی، سب سے پہلا انکشاف تو یہ تھا کہ کوئی بیس برس پُرانی ڈائری تھی، کچھ سوکھے پھول گر پڑے، اُن سوکھے پھولوں پہ تاریخ اور مقام لکھا تھا اور ساتھ "J”مٹا مٹا نظر آتا تھا، یعنی یہ سعادت نے نہیں کسی "J”نے دیے تھے۔

کچھ مبہم سی علامتوں میں جملے تھے جو کسی محبت کی کہانی کو ایسے دِکھاتے تھے جیسے کسی حسینہ کا نقاب ذرا سا سرکا ہو! اور پھر خود کو ڈھانپ لے اور پھر کچھ اور صفحے پلٹے تو سعادت سے شادی کا ذکر تھا، کچھ خوف اور آنسو لکھے نظر آئے مبہم سی عبارت میں جس کو ثنا ’’فرشتے بھی مکمل فرشتے کہاں ہوتے ہیں ‘‘جیسے بارود لگے جملے سے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اِس اثنا ء میں سارہ سعادت کو ہوش آنے لگا، ثنا جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی، ثنا پر کچھ دیر نظر یں جمائے شاید وہ خود کو شعور سے منطبق کر رہی تھی اور پھر، مکمل طور پہ ہوش میں آنے کے بعد اُس کو اپنی ڈائری کا خیال تھما دی۔ سارہ نے ثنا کے چہرے پہ جانکاری کے کسی ان کہے لمحے کو کھوجنا چاہا مگر ثنا کو تاثرات کو ان کہا کرنا آتا تھا!ثنا بخاری اِک دم اُکتا گئی تھی، مزید ان کہے رازوں کو جاننے کی طلب و آرزو ہی نہ رہی۔ وہ یہاں کسی کھوج میں تھوڑا آئی تھی وہ تو یہاں اُس خوش قسمت عورت سے ملنے آئی تھی جو پورے ابلاٖغ سے سُنی جا چکی تھی مگر یہاں ڈائری میں مدفون بہت سی ان کہی قبریں اور اِن قبروں کو اُڑاتا بارود کہ فرشتے بھی بھلا مکمل فرشتے کب ہوتے ہیں کہ ہر بوجھ ڈھو سکیں، ہاتھ لگا تھا۔ وہ آہستہ سے آگے بڑھی، سارہ سعادت کے رُخسار کا بوسہ لیا اور کہا ’’آپ کی طبیعت خراب ہے میں پھر کسی روز آؤں گی۔ وہ اپنا بیگ سنبھالے جب سیڑھیاں اُتر ہی رہی تھی تو نہیں جانتی تھی کہ سارہ سعادت کے اِس راز سے ڈاکٹر سعادت کس حد تک واقف ہیں، ہو پائیں گے یا نہیں، وہ جاننے کی آرزو لیے کبھی پھر آ سکے گی اور جان بھی گئی تو کیا سعادت حسن کو بتا پائے گی یا نہیں ؟

ڈاکٹر سعادت اگر پہلے سے بہت کچھ جانتے ہیں کہ ان کی زندگی پہ کون سے ان دیکھے پردے گرے ہیں یا پھر سارہ سعادت کسی ان سنے ان جانے راز کو لے کر قبر میں اُتر جائے گی!اُسے لگا سینے پہ بہت بوجھ بڑھ گیا ہے۔ باہر آ کر اس نے لمبے سانس لیے مگر وہ اِس بات سے ایمان کی حد تک متفق ہو گئی تھی کہ اِس کُرے پہ انسان کا سب سے بڑا دُکھ یہی ہے کہ وہ ان سُنا رہ گیا!

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ،  شمارہ ایک ۔ جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی جس سے اس برقی کتاب کا متن حاصل ہوا۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید