FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

بائیں پہلو کی پسلی

احمد رشید (علیگ)

ویٹنگ روم

اپنا وطن کو چھوڑے ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ اب تو ماہ و سال بھی یاد نہیں کہ آبا و أجداد کب جلا وطن ہوئے … غریب الوطن ہونا، جلا وطن ہونا، ہجرت ہونا ایک دیرینہ روایت ہے یا انسانی تہذیب کے مقدّرات کی کتاب میں مرقوم فیصلے۔ یہ بات سینہ بہ سینہ چلی آر ہی ہے کہ اپنا وطن بہت خوبصورت تھا۔ جب اپنا تھا تو خوبصورت تو ہونا ہی تھا۔ وہاں شور تھا نا کوئی شر۔ ہر سوٗ سکون و قرار تھا۔ فرحت و مسرت و شادمانی تھی۔ چاروں طرف لہلہاتا سبزہ پھولوں کی خو شبوؤں سے معطر فضا شب و روز کی رنگینی اور موسموں کی مستی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ میری نسل کے زیادہ تر لوگ اپنا وطن بھول گئِے ہیں۔ کبھی کسی کو یاد آتا ہے کبھی کبھی کسی کو بہت یاد آتا ہے۔

جد امجد نے اپنا وطن خیرباد کیا۔ محل نما رہائش گاہ کو چھوڑ نے میں بڑا ہی دکھ ہوا کافی عرصہ تک زبان در زبان اس کا چر چہ ہوا… پھر ذکر کم سے کم تر ہوتا گیا۔ اب تو کبھی یاد آئی تو آپس میں ذکر ہو گیا۔ نسل کے بوڑھے اپنا وطن یاد کر تے، یاد کر کے آہیں بھرتے ان کی آواز میں بڑا درد اور لہجہ رقت آمیز ہوتا۔ نوجوان اور بچّی کبھی اس ذکر میں شامل ہوتے تو بے دلی ان کے رویّے سے ظاہر ہوتی نہ تو کبھی توجہ دیتے اور سنجیدگی کا ہمیشہ فقدان ہوتا۔ جب وہی بچی سنِ پیرانِ سالی کو پہنچتے تو ذکر ان کی دلچسپی کا سبب بن جا تا اور وہ بھی اپنی غریب الوطنی کا شدت سے احساس کرنے لگتے اس کا ذکر کرتے وقت ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ یہ سلسلہ دیرینہ وقتوں سے اسی طرح جاری ہے۔ اپنا وطن واپسی کے لیے دلی یا بے دلی سے تیاریوں میں مصروف دکھائی دینے لگتے۔

یہاں اس امر کی جانب یہ اشارہ کرنا ناگزیر ہے جب جب اپنا وطن واپسی کی فکر ہوتی تو اپنے احباب و اقربا کے چھوٹنے سے رنجیدہ بھی ہوتے۔ اکثر بزرگ بھی سامانِ سفر باندھتے وقت دُکھی ہوتے اس وقت اپنے وطن واپسی کی خوشی کم اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا ہوتا۔ حالانکہ واپسی ایک حقیقت تھی۔

اب مسئلہ یہ تھا سفر سے پہلے سامانِ سفر کا باندھنا ضروری اور غیر ضروری چیزوں کا انتخاب کرنا تاکہ بو جھ ہلکا رہے اور سفر میں دقتوں کا سامنا نہ ہو۔ قصدِ سفر بھلے ہی اپنے بس میں نہ ہو لیکن متا عِ سفر اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور اگر ضروری سامانِ سفر کی قِلّت کا احساس شدت اختیار کر لے تو وطن واپسی کا خوف ایک ڈراؤ نا خواب بن جا تا ہے۔ وہ بھی اس پل مکھّی کی طرح مکڑی کے جال میں پھنسا تھا۔ کوئی غیبی طاقت یا اندرونی جذبہ سفر کے لئے مجبور کرتا ہے۔ اس نے سامانِ سفر باندھا اور جیسے ہی چلنے کا ارادہ کیا اسے خیال آیا سفر میں کام آنے والا سامان ایک نظر دیکھ لیا جائے لیکن میں تو اپنے وطن جا رہا ہوں سامانِ سفر باندھنے کی کیا ضرورت؟ سفر کرتے وقت ذہن سامان کی حفاظت اور دیکھ بھال میں لگا رہے گا اور لطفِ سفر فوت ہو جائے گا۔ سفر طویل ہو یا مختصر لطف سے خالی ہو تو بوجھ بن جاتا ہے بوجھ تلے انسان دبا سہما رہتا ہے۔ اپنے آرام کے لیے متاعِ سفر کا بوجھ کتنا ہی بڑھا لے مگر سفر تو پھر سفر ہے۔ تھکا دینے والا۔ اسی لئے سامان کم سے کم باند ہے تاکہ سفر آسان ہو جائے حساب کتاب گننے اور شمار کرنے کی الجھن سے نجات مل جائے۔ یہی نجات کامیاب زندگی اور آ سان سفر کی علامت ہے اس نے سامان کو ٹٹولا اس میں فا لتو چیزیں زیادہ ہیں اور ضروریاتِ سفر کا سامان کم ہے۔ وہ سو چتا ہے اس میں میرا اپنا کیا ہے؟ میں سفر کا تنہا مسافر اور اتنا بوجھ کوئی بوجھ بانٹنے والا بھی نہیں۔ میں اکیلا مسافر بوجھ تلے دبا ہوا۔ ایک کنگال مسا فر جا نب سفر رواں … جیسے تیسے اسٹیشن پہنچا … اسٹیشن پر مسافروں کا ہجوم۔ سب ہی مسافر انجان منزل کی طرف بھاگے جا رہے ہیں حواس باختہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ ٹرین کی آمدورفت کی گہما گہمی کانوں کو بہرہ کرنے والا ایک شور۔ اس بھیڑ میں آنکھوں کی بینائی آشنائی سے محروم، کسی کو کسی کی خبر نہیں نفسی نفسی کا عالم۔ ٹرین لیٹ ہو گئی۔ مقررہ وقت سے کافی لیٹ نہیں …نہیں …ٹرین ہمیشہ متعین وقت پر آتی ہے۔ شاید مجھے ہی سفر کی جلدی ہے۔ شاید یاد وطن اور احساس جدائی نے وقت کی گنتی کرنا بھلا دیا ہے۔ آخر! میں بوڑھا بھی تو ہو گیا ہوں۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا کوئی اپنا مل جائے بوجھ اٹھانے میں مدد ہو جائے گی سب ہی مسافر اپنے اپنے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں کوئی کسی کا مدد گار نہیں اس نے اپنا بوجھ اٹھا یا جیسے تیسے ویٹنگ روم میں دا خل ہوا اسے ویٹنگ روم، عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسا وہ عارضی وطن اور ویٹنگ کے فرق کو جاننے کے لیے دماغ کھپانے لگا؟نتیجہ صفر نکلا۔ وٹینگ روم سفید پتھروں سے بنا ہوا محل جیسا حسین و جمیل مگر گرد و غبار سے اٹا ہوا…دیواریں رنگ و روغن سے آ راستہ خاک آلود چھت پر نقش وں گار بنے ہوئے مگر صفائی نہ ہونے سے دھند لے پڑ گئے تھے …اس نے ویٹنگ روم میں راحت کی سا نس لی …با ہر کے نا خوش گوار مو سم کے مقابلے میں اندر کا موسم خوش گوار اور مناسب تھا اپنا سا مان احتیاط سے کمرے کے ایک کونے میں رکھا وٹینگ روم کی بے ترتیب چیزوں کو قرینہ سے رکھنے لگا۔ آیِنہ کو کھونٹی پر سیدھا کیا فر نیچر کی سمت بدلی …اور وٹینگ روم کی صفائی ستھرائی میں لگ گیا تھوڑی دیر کے لئے وہ یہ بھول گیا کہ وہ ایک مسافر ہے۔ نہ تکان کا دھیان، نہ بوجھ کی الجھن۔ ویٹنگ روم کی چہار دیواری رنگین اور خو بصورت تصاویر سے سجی ہوئی تھیں ان مختلف تصویروں کے درمیان دیوار کا مختصر حصّہ خالی پڑا تھا جو سپاٹ اور بدنما دکھائی دے رہا تھا اس نے سو چا اگر اس پر کوئی تصویر آویزاں کر دی جائئے تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ ویٹنگ روم کی زیب و زینت اور آ رائش میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ مسافر ہونے کا گمان اس کے ذہن سے محو ہو گیا وہ بھول گیا کہ ویٹنگ روم میں اس کا قیام صرف اتنا ہے کہ جب ریل گاڑی آ جائے تو اس پر اس کو سوار ہو جا نا ہے اور اسے اپنے وطن جانا ہے۔ اس کے آباء و اجداد کو اپنی مرضی سے، کسی سازش کے تحت یا کوئی اور وجہ سے خدا جانے اپنا وطن خیر باد کہنا پڑا۔ وہ بوڑھا ہو گیا ہے یاد داشت کمزور ہو گئیِ ہے۔ نا توانی اور کمزوری ہونے کے سبب مختلف بیماریوں کا غلبہ رہتا ہے جسم سے قوتِ مدافعت زائل ہو گئی ہے معمولی بیماری بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ خیر یہاں تو معاملہ پیرانِ سالی کا ہے اگر عہد طفلی سے جوانی تک کسی بھی عمر میں کمزوری ہو تو معمولی سے معمولی بیماری بھی حاوی ہو جاتی ہے اور اس وقت اپنے وطن کی یاد شدت سے جا گنے لگتی ہے اور اس وقت کمزوری یا کوئی اور وجہ سے دل کانپنے لگتا ہے، گھبراہٹ اور خوف طاری ہو جاتا ہے چونکہ اپنوں کو چھوڑنے کا غم بڑا وطن کی یاد کا الم چھوٹا ہوتا ہے۔؟

ویٹنگ روم کے بائیں جانب دبیز خوش رنگ قالین بچھی تھی۔ دائیں طرف صوفہ پر اس کے قدم خود بخود بڑھنے لگے وہ تھکا ماندہ اس میں دھنس گیا سا منے دیوار پر تصویروں کے درمیان خالی جگہ پر نظر جم گئی …وہ اسی لمحہ اٹھا اسٹیشن کے گیٹ سے با ہر نکلا… گر می کی وجہ سے دھوپ کی تمازت شدید تھی۔ آسمان صاف تھا ہلکے نیلے رنگ پر سفید بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ سورج سر کے اوپر آگ برسا رہا تھا۔ اچانک لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کے منہ پر طمانچے لگا نے شروع کر دیے وہ گھبرا گیا اسے پیاس محسوس ہوئی ویٹنگ روم کی طرف اس کے قدم واپس ہونے لگے دروازے میں داخل ہوتے ہی پیاس نے شدّت اختیار کر لی۔ اس کی آنکھیں نا معلوم شے کے لئے بے چین ہو گئیں اسے یاد آیا اسے پانی کی تلاش ہے۔ فریجر کے قریب گیا۔ پانی کا گلاس بھرا۔ غٹ غٹ ایک سانس میں پی گیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پھر گلاس میں بھرا۔ غٹ غٹ۔ پیاس ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ جوں جوں وہ پانی پیتا تو نس بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے پانی گرم کھولتا ہوا لگ رہا تھا۔ وہ گھبرایا ہوا۔ بار بار پانی پیتا رہا پیاسی نظریں ادھر ادھر گھوم رہی ہیں۔ ویٹنگ روم چند لمحہ پہلے جنتِ نشاں دکھائی دے رہا تھا اچانک دوزخ میں تبدیل ہو گیا۔ بے چینی کے عالم میں وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے اس کی نگاہیں جائے پناہ تلاش کر رہی ہوں دیو ار پر آویزاں تصویروں پر جا کر نگاہ ٹھہر گئی اس نے حواس درست کئے آنکھوں کو تصاویر کی جانب سمیٹا۔ اور صوفہ پر نڈھال ہو کر بیٹھ گیا۔

تصویر نمبر ایک۔ دو جمع تین ضرب دو بو لنے لگی۔ خوبصورت سبز قالین کے درمیان پہاڑ کی ہلکی سی سیاہی برف کی چادر سے ڈھکی ہے۔ روئی دھننے پر اُڑنے والا دھواں جیسا برف چاروں طرف گر رہا ہے۔ پہاڑ کی پشت پر ڈوبتے سورج کی شفق آسمان کے چھوٹے سے کونے پر پھیل رہی ہے۔ سبز زمین پر قد آور درخت صف بنائے صلوٰۃ میں مصروف ہیں۔ خوشگوار سبک خرام ہوا کی تال پر مختلف رنگوں کے پھول قطار لگائے نازک شاخوں پر نازنینوں کی طرح مٹک رہے میں۔ ہلکا ہلکا سرمئی اندھیرا مشرق میں پھیلا ہے اور اس کے درمیان سے ماہتاب جھانکتا کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھُپتا جیسے کوئی پردہ نشین چلمن کے پیچھے بیٹھی مسکراہٹ کے پھول بکھیر رہی ہو۔ رنگین اور خوشبو سے معطر فضا میں ایک جوان جوڑا اٹھکیلیاں کر رہا ہے فرشتوں جیسے معصوم ہو نٹوں پر کھیلتی ہوئی دلنواز مسکراہٹیں اس جوڑے کا استقبال کر رہی ہیں اور برف کے گولے بنا بنا کر ان کی طرف اچھال رہے ہیں ذرا فاصلے پر کچھ جانور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھاس چر رہے ہیں ایک عجیب اور دلفریب منظر کو دیکھ کر اس کا دل خوش ہو رہا تھا

’’لو از لائف‘‘ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا

شبنم کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تو وہ میرے دل کی کلی پر ایسے گری کہ پھول کی طرح کھل گیا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹی سرخ جوڑے میں ملبوس، میرے گھر میں گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح برسی۔ میرا گھر ہرا بھرا ہو گیا۔ زندگی کا ہر درد انگیز لمحہ اس کی ایک مسکراہٹ سے نشاط انگیز ہو جاتا۔ پھر وہ اپنے پھول سے بچوں میں ایسی مست ہوئی کہ میں فاضل اور فضول شے بن گیا۔ محبت کا سفر جب ممتا پر رکتا ہے تو وہی شریک حیات کی منزل ہوتا ہے۔

’’شبنم بھی ہے بچے بھی ہیں اور میں سفر کا اکیلا مسافر۔ بالکل تنہا‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔

اچانک تصویر نمبر دو۔ تین جمع چار ضرب دو بولنے لگی۔ ایک با رعب شخص سونے کا تاج اور چا ندی کے نعلین پہنے بڑے کر و فر کے ساتھ تخت نشین تھا سامنے ایک با ریش انسان زنجیروں میں جکڑا ہوا کھڑا تھا۔ ایک بد نما شکل کا آدمی ہا تھ میں تلوار لئے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ چھلے دار مونچھوں کے نیچے سیاہ ہونٹ ہل رہے تھے اور آنکھیں حکم کی منتظر تھیں۔ درباری نگاہیں بسجود ہاتھ باندھے اپنے ناخدا کے سامنے ادب و احترام کے ساتھ قطار میں کھڑے تھے۔

’’سچ بولنے کا انجام سزائے موت‘‘ بیساختہ اس کے منہ سے نکلا

تصویر نمبر تین۔ چار جمع پا نچ ضرب دو پر اس کی نگاہ گئی ایک مثلث کے اندر روشنی کو بکھیرتی ہوئی آنکھ، یہ آنکھ علم کی علامت، مثلث کے اضلاع کے چاروں طرف پھوٹتی ہوئی کرنیں جو جہالت کے سیاہ بادلوں کو ہٹا دیں گی۔

کئی چھڑیوں کا ایک بنڈل: – اتحاد میں قوت ہے۔

ٹوٹی ہوئی زنجیر: -غلامی سے نجات آزادی کی علامت۔

زمین پر گرا ہوا عصائے شا ہی! پیروں کے نیچے دبا ہوا سونے کا تاج۔

سانپ اپنی دم کو کاٹتے ہوئے ایک حلقے کی صورت میں: – ہمیشگی کی علامت کیونکہ کسی حلقے کی نہ تو ابتدا اور نہ انتہا۔

پنکھ دار عورت: – قانون کی تمثیل۔

قانون کی تختی: – قا نون سب کے لیے ایک ہی جیسا، اس کے سامنے سب برابر ہیں۔

ایک کھدر دھاری نیتا کی مٹھی میں انصاف کی دیوی۔

تصویر نمبر چار۔ پانچ جمع چھ ضرب دو بولنے لگی۔ بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے موتیوں جیسے دانتوں کے بیچ پائیریا کے کالے کالے کیڑے ان کے اوپر اڑتے ہوئے ہوائی جہاز اور ہیلی کوپٹر۔ سڑک پر دوڑتی ہوئی موٹر گاڑیاں فٹ پاتھ پر دوڑتی ہوئی سائیکلیں اور پیدل دوڑتے ہوئے لوگ۔ شراب اور رقص و سرود میں ڈوبی ہوئی محفلیں۔ دیواروں کے سایہ میں زمین پر سوئے ہوئے انسان، جھوٹن پر کتّے کی طرح دوڑتے میلے کچیلے مدقوق بچے۔

وہ سوچنے لگا وٹینگ روم کی دیواروں پر لگی ہوئی یہ تصویریں زندگی کی تمام بد صورتیوں کے ساتھ کتنی حسین وجمیل اور خوبصورت ہیں۔ پو ری کائنات ویٹنگ روم میں سمٹ گئی ہے۔ کائنات ویٹنگ روم ہے اور ویٹنگ روم کائنات بن گیا ہے۔ لیکن تصاویر کے درمیان دیوار پر چھوٹی سی خالی جگہ اس سجے ہوئے ویٹنگ روم میں کتنی بد زیب نظر آ رہی ہے اور ویٹنگ روم اس کی وجہ سے بد نما دکھائی دے رہا ہے۔ وہ اس کی آرائش اور سجا وٹ کے لیے پریشان ہو گیا …ارے … مجھے کیا… کرنا ہے؟

میں تو ایک مسافر ہوں۔ مجھے ویٹنگ روم کی زیب و زینت سے کیا لینا دینا؟۔ میں ایک تنہا مسا فر۔ جس کی اہل ہے مگر نہیں ہے۔ جس کے عیال ہیں لیکن نہیں ہیں۔ جس کے عزیز و اقارب، دوست و احباب ہیں مگر نہیں ہیں۔ کوئی نہیں ہے میرا وہ سوچنے لگا اس خالی جگہ کو مختلف ممالک میں چلنے والے سکوّں کی تصویر لگا کر بھر دی جائے۔ خالی جگہ بھر جائے گی اور ویٹنگ روم کی زیبائش میں اضافہ ہو جائے گا۔ پھر وہ سوچتا ہے میں تو ایک مسافر ہوں مجھے مال و دولت سیم و زر سے کیا لینا دینا۔ اچانک ویٹنگ روم کے دروازے پر اس کی نظر گئی ایک ہاکر تصویریں فروخت کر رہا ہے۔ وہ جلدی سے باہر نکلا مختلف تصاویر کو ہر زاویہ سے بغور دیکھنے لگا۔ اس کی نظر ایک تصویر پر جم گئیِ سمندر خشک ہو گیا ہے۔ ریت پر سیم وزر بکھرا ہے، مو تیوں، ہیروں اور قیمتی پتھروں کے درمیان مری ہوئی مچھلیاں بکھری پڑی ہیں۔ حواس باختہ انسانوں کا گر وہ، جن کے مدقوق چہرے گال پچکے ہوئے، پیٹ جن کے کمروں سے لگے ہوئے ان مری ہوئی مچھلیوں پر جھپٹ پڑے ہیں اور ان کو بٹورنے کے لیے ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں یہ ٹھیک رہے گی اس تصویر کو خر ید لوں اور اس خالی جگہ کو بھر دوں ویٹنگ روم کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ پھر اسے خیال آیا کہ میرے متاعِ سفر میں میرا کچھ ہو یا نہ ہو لیکن برسہا برس سے ایک تصویر رکھی ہوئی ہے جسے بڑی حفاظت سے لپیٹ کر میں نے رکھ رکھی ہے شا ید آج کام آ جائے اس کے استعمال کا یہی مناسب وقت ہے اسے نکالا جائے اور اس خالی جگہ میں لگا دیا جائے۔

اسے یاد آیا وسیع و عریض میدانِ عرفات میں فریضۂ حج ادا کرتا ہوا انسانوں کا جمِ غفیر ہے۔ ایک جسمانی اور روحانی منظر ہے …لبیک…الٰلھُّم لبیک کی دلسوز صداؤں سے میدان گو نج رہا ہے سینوں میں سوز و گداز کی کیفیت طاری ہے۔ آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے ہیں اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں سا مان ندارت۔ وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ ہذیانی سی کیفیت اس کے اوپر طاری ہو گئی ہانپتا کانپتا وہ صوفہ پر گر گیا۔ سوچنے لگا میرے سامان سفر میں کارآمد چیزوں کی قلت تھی جو وطن پہنچ کر کام آتیں۔ اب تو ویٹنگ روم کی مصروفیت میں بچی کچی متاع بھی ضائع ہو گئی۔ نقاہت اور مایوسی کے سبب اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اچانک ٹرین آ گئی اس کے پاس اتنی سکت اور طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ صحیح طور سے ٹرین میں سوار ہو سکے۔ اٹھنے کی کوشش میں وہ وہیں گر گیا چار آدمیوں نے شاید وہ بھی مسافر تھے جیسے تیسے اسے اٹھایا اور ٹرین میں اسی حالت میں احتیاط سے لٹا دیا ٹرین اسٹیشن چھوڑ چکی تھی۔

٭٭٭

بائیں پہلو کی پسلی

اس رنگ منچ پر ایک اور سانحہ رونما ہوا یہ پہلا ہے نہ آخری۔ میری تخلیق اس بے مانند بے مثل ربّا کی منشا ہے اگر میری مرضی شامل ہوتی تو جسد خاکی جو اشرف المخلوقات ہے کے بجائے میں زمین پر اُگا ہوا درخت خلق ہوتی جو میرے لیے باعثِ افتخار اس لیے ہوتا کہ انسان کی ضروریات زندگی میں مجھ ادنیٰ کی بھی حصّہ داری ہو جاتی پھر نہ تو دنیا وی آزمائش ہوتی نہ حساب و کتاب کی گنجائش اور عقوبت میں میزان سے نجات حاصل ہوتی۔ میں آفس سے آنے کے بعد آسودہ حال تھکن اوڑھ کر بستر پر دراز ہو گئی آنکھیں آہستہ آہستہ اپنے آپ بند ہونے لگیں لیکن نیند کی دیوی قید نہ ہو سکی۔۔ روشنی کی کشتی پر سوار خلا کے اس پار چاروں طرف پانی ہی پانی صرف پانی۔ ایک عجیب محیر العقول کائنات کا شاید آخری سرا عمودی سمت کی جانب۔

ایک غیبی ندا فضا میں گونجی ’’اگر نہ پیدا کرتا اے حبیب برگزیدہ ہر آئینہ نہ پیدا کرتا میں آسمان و زمین اور ساری مخلوق‘‘

درمیان میں بے پناہ سکوت، اتھاہ خاموشی۔ چاروں طرف ہوٗ کا سا عالم، فقط ہو۔ سلسلۂ وقت ٹوٹا ہوا۔ نہ صبح و شام، نہ شب و روز۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔

آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے قصّہ یوں ہے کہ پانی مخلوق ہوا۔ پانی سے ہر ایک جاندار چیز۔ زمین بنائی، زمیں کے اوپر پہاڑ قایم ہوئے۔ زمین میں برکت رکھی اور رہنے والوں کے لیے غذائیں بھی اس پر مقرر کر دیں۔

آسمان کے وجود میں آنے سے پہلے سارا خلا دھوئیں کی طرح تھا۔ پھر آسمان اور زمین کے ملاپ سے دنیا بسائی گئی آسمان سے سورج کی شعاعیں آئیں، گرمی پڑی، ہوائیں اٹھیں، اُن سے گرد اور بھاپ اوپر چڑھی، پھر پانی بن کر مینھ برسا، جس کی بدولت زمین سے طرح طرح کی چیزیں پیدا ہوئیں۔

اسی درمیان …ابو البشر کو منتخب کھنکتی ہوئی مٹی سے بنایا گیا

میری تخلیق باعثِ سکون و قرار اس لیے ہوئی کہ عالمِ تنہائی میں کوئی ہم جنس ابو البشر کا نہیں تھا۔ اور بے جفت بے حاجت ہی کی مرضی تھی کہ اُن کا جفت و ہمسر پیدا کرے جب وہ بے قرار اور بے سکون ہوئے، عالمِ تنہائی سے خوف زدہ ہوئے تو ان کو خواب میں ڈالا گیا وہ ایسے سوئے کہ نہ نیند آئی نہ بیدار ہوئے اس صورت میں ایک ہڈی بائیں پہلو سے اس طرح نکلوائی کہ اس سے اس کو درد و دالم نہ پہنچا اگر پہنچتا محبت عورتوں کی دلِ مردوں کے نہ ہوتی خیر ہوئی یہ دردِ تخلیق میرے سر جاتا… اس ہڈی سے مجھے بنایا۔ مجھکو بنایا نیک روئی و ملاحت اور حسن و جمال۔ اس کو بخشیں زیرکی و شرم اور شفقت و کمال۔

میری خوبصورتی پھر عالم تنہائی اوپر سے پا بندیِ حق ابو البشر بے چین ہو گئے۔ ابھی غمِ طاق ختم نہیں ہوا تھا اب غمِ جفت کا روگ لگ گیا۔

روشنی کی کشتی لنگر انداز تھی میں بستر پر دراز، آنکھیں بند تھیں، نہ نیند نہ بیداری، نیند آنکھوں سے بہت دور… میں خلاؤں سے بہت دور نکل چکی تھی… پانی بھی دور دور تک نہیں تھا۔ چاروں طرف نا قابلِ بیان خوبصورتی کا منظر تھا۔ اس درخت پر نظر گئی کہ جڑ اس درخت کی چاندی کی اور ڈالیاں سونے کی پتّیاں زبرجد سبز کی تھی۔ نہایت خوش وضع اور خوبصورت …

’’سبحان اللہ کیا خوبصورت درخت ہے؟ حس جمال پھڑکی

’’میں نے تجھے بخشا اُس درخت کو مگر اس سے میوہ مت کھانا کیونکہ تو مہمان ہے میرے گھر کا‘‘ غیب سے ندا آئی

’’اس درخت کے پاس جا‘‘ ایک آواز آئی

’’صبر کر‘‘ غیبی ندا

مجھ کج عقل کی مت ماری گئیِ لالچ اور خواہش میں آ گئی …ایک عجیب تذبذب کا عالم تھا …ہاں اور نا کی کشمکش تھی… صبر اور خواہش کی اس جنگ میں صبر ہار گیا۔ شجرِ ممنوعہ کے کھانے کا انجام یہ ہوا کہ ستر کھُل گئے۔ الزام میرے سر گیا۔

آخر کار مجھے اور ابو البشر کو اس اعلیٰ و ارفع مقام جہان بھوک، پیاس، بے ستری، دھوپ نہ تھی سے دار المعصیت و دار العداوت میں امتحان کے لیے پھینک دیا گیا… دوٗر …بہت دوٗر۔

’’آج بھی اُسی امتحان اور آزمائش سے گزر رہی ہوں‘‘ وہ بڑبڑائی… آنکھیں بند ہیں …نیند کو سوں دور ہے …نہ نیند ہے نہ عالمِ بیداری… نہ چین ہے نا بے چینی …آنکھیں پانی میں ڈوبی ہیں۔

دونوں بحالتِ ندامت و انفعال، گر یہ و زاری میں مصروف ہو گئے۔ ایک تو بے گھری کا غم دوسرے جدائی کا الم۔ ایک دوسرے کو پانے کی جستجو میں برسوں بیت گئے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ فاصلہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ اگر فاصلہ مٹتا ہے تو طوفان کھڑا ہوتا ہے۔

چلتے چلتے فاصلہ ختم ہوا …دونوں ملے ایک دوسرے کی رودادِ غم سنی… سلسلۂ زندگی آگے بڑھا۔ جب میں بحسن و جمال بصورت اقلیما خلق ہوئی تو قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا پہلا قتل روئے ارض پر رو نما ہوا… وجہ قتل میرا جمال ہوا، الزام میرے سر ہوا… میں سوچتی ہوں اس میں میرا کیا قصور؟… میرا ’’غازہ‘‘ کی طرح بے جمال ہونا بھی میرے لیے وبال۔ میرا حسن و جمال شر کا استعارہ۔ میرا بے جمال ہونا باعثِ اذیت اور حقارت جبکہ نہ جمال میرا نہ بے جمال ہونے میں دخل میرا… میری تخلیق، گناہ اور بہکاوے کی دلیل جبکہ یہ سب کرشمۂ کاتبِ تقدیر، کمالِ عزّ و جل۔

مجھ ابلا ناری کی کہانی بھی عجیب و غریب ہے۔ مخالف جنس کا ذکر ہی کیا۔ زیادتی کے عمل میں ہم جنسوں نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ نند بھابی، ساس بہو، دورانی جٹھانی، ماں بیٹی سب ایک دوسرے کے ساتھ پیکار میں مبتلا ہیں۔ چونکہ مرد، عورت کا عاشق ہوتا ہے اور جب عورت نازو انداز کے ساتھ اپنے ہم جنسوں کے خلاف کان بھرتی ہے تو پھر ایک بڑا فساد رونما ہوتا ہے۔ آج صبح ہی میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی۔

’’رحم مادر مین قتل کرنے کی خواہش ماؤں میں زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔ آج جدید دور میں رحم مادر میں اولاد کی جنس معلوم کر لی جاتی ہے۔ کلینک میں جنس معلوم کرنے کی اصل وجہ اسے ضائع کرنا ہے۔ لڑکیوں کی نادانی یا کسی زیادتی سے حاملہ ہو جانے پر بدنامی کے ڈر اور خاندانی وقار کی وجہ سے اسقاطِ حمل ضائع کروا دیا جاتا تھا۔ اب جہیز اور کنیا دان کی وجہ سے رحم مادر میں قتل کا سبب ہے۔ لڑکیوں کو خرچ اور لڑکوں کو آمدنی کا ذریعہ سمجھا جا تا ہے۔ لڑکیوں کے تعلق سے عدمِ تحفظ کا احساس والدین میں بڑھ رہا ہے کیوں کہ روز افزوں جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اس وحشت ناک عمل کی محض اس لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ اس سے انہیں زیادہ کمائی ہوتی ہے‘‘

آنکھیں بند ہیں، نیند کو سوں دور ہے …نہ نیند ہے نہ عالمِ بیداری… وہ خبر کا تجزیہ کرنے لگتی ہے …

: جدید دور میں تہذیبی انحطاط کا نام ’’ماں‘‘ ہے!

: ڈاکٹری زندگی کو موت کے منہ سے چھیننے کا پیشہ ہے لیکن ڈاکٹر موت کا دوسرا نام ہے۔

: لیڈی کے اندر جب ماں، بیٹی، بہن جیسے پاکیزہ رشتہ مرتے ہیں تب ڈاکٹر پیدا ہوتی ہے۔

: خاندانی وقار کی خاطر بیٹی کا اسقاطِ حمل ضروری ہے لیکن بیٹے کا ناجائز جنسی عمل باعث افتخار ہوتا ہے۔

: جہیز اور کنیا دان مرد کو ویشیہ کی طرح خریدنے کا ذریعہ ہے پھر بھی عورت غلام اور مرد مالک و مختار ہوتا ہے!

: روز افزوں جنسی جرائم میں اضافہ …یہاں مرد بھول جا تا ہے کہ وہ عورت جو ماں ہے اسی کے گندے خون سے پیدا ہوا ہے!

خبر کے تجزیہ کے دوران اسے یاد آیا چند سال پہلے اسی زمین پر مجھے بصورت چترا چتا میں زندہ جلا کر دھرم ادھیکاریوں نے اپنی تہذیبی عظمت میں چار چاند لگائے تھے۔ میرا قصور یہ تھا کہ میرا پتی مر گیا جیسے میں اپنی مرضی سے بیوہ ہو گئی۔ میرے پتی کو جینے کی تمنّا بہت زیادہ تھی…میں سوچتی ہوں وہ بھگوان تھا تو پھر مرا کیوں؟… میرا پتی مرا اور سزا بھی مجھے ہی ملی …چلو اچھا ہوا پل پل جلنے سے ایک بار جل گئی قصّہ ختم ہوا۔ لیکن معاملہ جیون پریم کا ہے۔ میں تو پتی کے پریم میں جل گئی… کیا میرا پتی، میرا سوامی، میری چتا میں جلتا؟ نہیں نہیں پتی دیو …نہیں …نہیں میرا سوامی …میں تو داسی ہوں … داسی بننا گوارہ …لیکن دیوداسی!؟… بچپن میں باپ کی ملکیت، جوانی میں شوہر کی، بیوگی میں اولاد کی مملوکہ… جبکہ آدھی زمین کی میں مالک اور آدھا آسمان میرا ہے پھر بھی میں کنگال!

آنکھیں بند ہیں۔ نیند کوسوں دور ہے۔ نہ عالم بیداری نہ عالم نیند۔ ذہن کے پٹ کھلے …اڑن طشتری پر سوار تمام عالم کی سیر۔

مجھے بصورت پانڈورہ (Pandora) تمام انسانی مصائب کا مو جب قرار دیا گیا۔ اور جب ایفروڈایٹ (Aphrodite) یعنی کام دیوی کا روپ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تو میری پرستش کا آغاز ہو گیا۔ ایک دیو تا کی بیوی ہوتے ہوئے تین مزید دیوتاؤں سے آشنائی کا چرچہ عام ہوا۔ میرے بطن سے کیوپڈ پیدا ہوا کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی دوست کی لگاوٹ کا نتیجہ ہے … میں دیوی تھی … میں دیوی ہوں۔

میں نے مذہبی پیشواؤں اور وقت کے حکمرانوں کے پیروں تلے اپنی زلفیں بچھا کر ان کو عزت دی پھر بھی انہوں نے فلورا نامی کھیل میں … اپنی دیوی کو بر سرِ عام برہنہ دوڑا کر رسوا کیا اور خود لطف اٹھا کر مجھے بد نام کیا۔ پتھر پڑ جائیں ان عقلوں پر میری (Mary) کو ایشور کا روپ دے کر عبا دت کرتے ہیں اور اس کے بیٹے کو صلیب پر لٹکا کر آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں۔ یہ کیسی عزت ہے؟ کہ مجھے گناہ کی ماں۔ ایک نا گزیر جدائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دلربائی… ایک آراستہ مصیبت کہا گیا۔ میری پیدائش شرمندگی کا باعث۔ اپنی جہالت کو غیرت اور خود داری کے دبیر پردے سے ڈھانکتے ہوئے مجھے زندہ در گور کر کے فخر محسوس کیا گیا۔

’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی‘‘

وہ خوف کے ما رے پسینہ پسینہ ہو گئی اُسی لمحہ آنکھیں کھل گئیں اور اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ با ہر بجلی تڑکی اسے لگا دور کہیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا ہو، آ سمان نے گہرا سیاہ رنگ کا کمبل اوڑھ لیا تھا چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا کمرا سیاہی میں ڈوب گیا تھا۔ اس کی آنکھیں کوئلے کی چھت اور تاروں بھرے آسمان کا فرق محسوس کرنے لگیں کیونکہ آسمان اور چھت کا فرق مٹ گیا تھا۔

’’شاید لائٹ چلی گئی‘‘

اس نے موم بتّی جلائی …اندھیرے میں ہلکی سی روشنی بھی راہ نمائی کرتی ہے۔ وہ باتھ روم میں داخل ہوئی اور نل کھول کر بیٹھ گئی …اس کی تھکن مٹی کی طرح زائل ہونے لگی۔ اس نے نیلی جھیل چاندی کے بدن پہ لپیٹی اور آئینہ کے سامنے بیٹھ گئی جس میں اس کا عکسِ بدن دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ کنول جیسے چہرے پر پاؤڈر کی تہہ جمائی اور دونوں شعلوں پر غازہ لپیٹ کر اس کی دہک میں اضافہ کیا۔ اپنی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں جھانک کر خود شرما گئی اور اپنے آپ میں سمٹنا شروع کر دیا۔

اچانک لائٹ آ گئی چاروں طرف خوشبو میں ڈوبی ہوئی روشنی پھیل گئی۔ اس کے اوپر سحر سا طاری ہو گیا۔ بستر پر دراز ہو گئیِ… ہلکا ہلکا نیند کا خمار طاری ہونے لگا… وہ خواب کی باہوں میں چلی گئی… چہار جانب دھواں دھواں …اندھیرا ہی اندھیرا … خواب، دھواں اندھیرا… خوابوں کی کشتی پر سوار، چاند کے اس پار، اس کا سفر جاری ہو گیا گھپ اندھیرا جیسے بحرِ ظلمات نے اپنے پر پھیلا دئے ہوں … پوری کائنات اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔

اچانک صبح صادق کی مانند ایک نوٗر چمکا آسمان پر گیا اور زمین پر روشنی کی طرح پھیل گیا۔ سارا عالم بوئے مشک و عنبر و عوٗد میں ڈوب گیا۔ عالم تجردی میں ہزاروں برس تسبیح و تہلیل میں مصروف رہا بعدہ اس نور نے عالمِ خلوت سے عالمِ صورت اختیار کی اور فرمایا ’’میں پیدا ہوا ہوں نور کل سے اور میرے نور سے سا ری مخلوق‘‘

پو ری کائنات بقعہ نور بن گئیِ، چہار سمت انوار کی بارش ہونے لگی مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب بس نور ہی نور از بس سارا عالم بحرِ نور میں ڈوب گیا ایک ابر کا ٹکڑا نورِ مجسّم پر سایہ بن گیا اور وہ نورِ مجسّم سارے عالم پر سایہ بن گیا۔ جب نورانی آنکھوں نے سارے عالم پر طائرانہ نظر ڈالی تو آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ ہر جانب افراتفری کا عالم تھا۔ ظلم و ستم کی آندھی زوروں پر تھی… زمین خاک و خون سے آلوٗد ہو رہی تھی… آسمان سسک رہا تھا۔

میری بدحالی کی داستاں یہ تھی کہ میری پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرے پر کلونس چھا جاتی شرم کا داغ لگنے سے میرا ہی خون منہ چھپاتا پھرتا اور سوچتا ذلّت کے ساتھ رہے یا ذلّت کو مٹی میں دبا دے۔

اس نے فرمایا ’’وہ گھر جنت جیسا خوبصورت ہے جس میں لڑکیاں ہوتی ہیں اور لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی‘‘

اس طرح ظلم و بربریت سے نجات دلا کر ہمیں عزت و وقعت دلائی۔ قانونِ فطرت کی روشنی میں مکمل ضابطۂ حیات ترتیب دیا اور کائنات میں غایت درجہ کا اعتدال و توازن کا اجالا بکھیر دیا۔ جس میں فطرتِ انسانی کے مخفی پہلو اس کی جسمانی ساخت، حیوانی جبلت اور انسانی سرشت کا پورا پورا دھیان رکھا۔

اچانک وہ خواب سے بیدار ہوئی چاروں طرف نظر دوڑائی کمرا روشنی اور خوشبو میں ڈوبا ہوا ہے، آنکھیں ایسی چکا چوند ہوئیں کہ ’’بس ایک جھماکا روشنی کا لے گیا آنکھیں میری‘‘ …یہ کیسی نئی روشنی ہے کہ دکھائی نہیں دیتا؟… یہ کیسی بیداری ہے کہ نیند نہیں ٹوٹتی؟ … گھڑی پر نظر گئی۔ ’’ابھی آٹھ بجے ہیں‘‘۔ وقت کبھی نہیں رُکتا …لیکن شاید رفتار سست ہو گئی ہے … بار بار تانگہ کی طرح پیچھے کو لوٹتا ہے۔ ٹیبل پر رکھے اخبار کی ایک سرخی پر اس کی نظر گئی ’’عورت قید و بند، پابندی اور رکاوٹ سے آزاد‘‘ کسی امریکن مصنفہ کا بیان

وہ سوچتی ہے لیکن حقیقی عورت کو کیا ملا؟ اگر ملا ہے تو مرد بن کر ملا، عورت کی حیثیت سے آج بھی ویسی ہی ذلیل ہے۔ عزت اگر ہے تو اس مردِ مؤنث یا زنِ مذّکر کے لیے جو جسمانی حیثیت سے تو عورت، مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو۔

’’عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے، حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرِ عام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا‘‘ اچانک اس کے منہ سے نکلا وہ زیرِ لب مسکرائی دیوار کے کلینڈر پر بنی ہوئی تصویر پر اس کی نظر گئی مرد و عورت نیم برہنہ بوس و کنار میں مصروف نظر آئے۔

اسے خیال آیا فاِطر السمٰوٰتِ و الارض نے جوڑے بنائے تاکہ ان کے پاس سکون حاصل کرو… وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو‘‘

وہ سوال کرتی ہے کیا یہ جسمانی ربط ہے، دل کا لگاؤ یا روحوں کے اتصال کا تعلق ہے‘‘

مختلف سوالوں سے الجھتے ہوئے … وہ پلنگ سے اٹھی … کھڑکی کے پٹ کھولے، ہلکی سی ہوا کا سرد جھونکا اندر داخل ہوا … باہر چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا، سڑک موٹر گاڑیوں اور اسکوٹروں کے بے ہنگم شور میں ڈوبی ہوئی گاڑیاں کہاں جا رہی ہیں؟… پتہ نہیں … ایک سفر ہے بے منزل سفر… کبھی اندھیرا، کبھی روشنی … اندھیرے کا سفر …اندھیرے سے اندھیرے تک کا سفر …ماں کے پیٹ سے زمین کے پیٹ تک اندھیرے کا سفر… وہ ماں اور زمین کے فرق کو جاننے میں مصروف ہو گئی۔ جس طرح کھیت میں کسان کا کام محض بیج بونا ہی نہیں اس کو پانی دینا، کھاد مہیا کرنا، اس کی صیانت کرنا بھی ضروری ہے … پھر کسان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ انتظار کرے اس کی پیداوار کا … یہ ذمہ داری ہے اس کی پرورش اور اس کی رکھوالی کا پورا بار سنبھالے … وہ کھڑکی سے آہستہ آہستہ پلنگ پر آ گئی… اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی

معمول کے مطابق صبح کا اٹھنا… سر پر شور اٹھائے سڑک پر دوڑنا… کیو لگانا… انتظار کرنا… بس کا چلنا… دھوئیں کا لباس پہننا … آفس کی کٹ کٹ بوس کی ڈانٹ ایک کڑوے گھونٹ کی طرح پینا… یہ غلامی ہے یا آزادی؟ … وہ سوچ نہیں پا رہی کیا اخبار کی خبر غلط ہے؟۔ میں کونسی صبح کی منتظر ہوں، پھر وہی اُکتا دینے والی زندگی کا مرکز …دائرہ کا ایک نقطہ… کیا میں قیدی ہوں؟… حالانکہ فعل اور انفعال دونوں ہی اس کارخانۂ حیات و کائنات کو چلانے کے لیے یکساں ضروری ہیں … ایک شے تاثیر دوسری شے تاثر ہوتا ہے لیکن میری زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے … روز تھکی ماندی آفس سے لوٹنا… سر سے پاؤں تک تھکن دھونا… انتظار کرنا وہ آئے گا… اس کے ساتھ گھومنا… کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھنا… چائے پینا گھر لوٹنا ہر روز یہی معمول… مجھے کس کا انتظار ہے؟… یہ سلسلہ روزِ ازل سے آج بھی جاری ہے کہ فاصلہ ختم ہی نہیں ہوتا… اگر فاصلہ مٹتا ہے تو پھر کوئی نیا طوفان کھڑا ہوتا ہے … یہ انتظار ہے یا نارِ جہنم… چاروں طرف آگ ہی آگ۔ اس میں نہ جلتا ہے نہ محفوظ رہتا ہے … نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے … آگ نہ ہوئی میرا مقدر ہو گئی… پھر وہی قید… حبسِ دوام کی سزا جو پانچ سال پہلے میں نے مختار کے ساتھ قبول کی تھی… وہ مختار تھا … میں مجبور… وہ حاکم تھا اور میں محکوم… وہ بھگوان تھا اور میں داسی…وہ میری مرضی تھا۔ تعلیمی دور میں، آرزوئیں اور تمنائیں تھیں … منزل پانے کی جستجو… میرے جاگتے خوابوں میں وہ داخل ہوا اور میری زندگی پر چھا گیا۔

جب اجلی دھوپ نے اپنے پر سیمنٹ لیے تو سورج کا قتل ہوا اور سرخ سرخ خون دوٗر مغرب تک پھیل گیا …مقتول سورج کا عکس بوند بوند جھیل میں ٹپک رہا تھا۔ میں اس کے ایک کنارے پر مختار کے گرم آغوش کے سانچے میں ڈھل گئی تھی۔ اس وقت میرا اپنا وجود کچھ بھی نہ تھا ایک ایسا رقیق مادّہ جو جس برتن میں گرتا ہے ویسی ہی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ موسم بڑا خوشگوار تھا، چاروں طرف سبزہ اگا ہوا تھا، سرمئی اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا… فضا پر مسرت تھی، خُنک ہوا سبک خرام تھی… دوش پر میرے گیسو محو رقص تھے۔

’’ایسا لگتا ہے شفق پر سرمئی چادر چھا رہی ہے‘‘ مختار نے میرے چہرے پر پڑی ہوئی زلفیں ہٹاتے ہوئے کہا

’’ہاں اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے‘‘

’’محسوس میں بھی کر رہا ہوں … چلو اس اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کر لیں‘‘ مختار نے اپنی باہوں کے دائرہ کو تنگ کیا۔

’’کیسے؟‘‘

’’تمہیں قیدی بنا کر‘‘

’’مجھے بھی تنہائی سے رہائی مل جائے گی‘‘

اور میں قید ہو گئی… ہر روز کی طرح سورج کا نکلنا… صبح کے معمولات سے فراغت حاصل کرنا… آفس چلے جانا… گھر واپس ہونا… پھر اپنی اپنی تھکن کو چائے کے ساتھ نگلنا… شام کا مختصر کھانا لینا… تھوڑی دیر بازار میں چہل قدمی کرنا… کبھی کبھی کوئی اچھی فلم کا دونوں کا ایک ساتھ دیکھنا… میں نے نوکری کے ساتھ ساتھ ایک ہاؤس وائف کی تقریباً سب ہی ذمہ داریاں اوڑھ لی تھیں … حالات اور مصروفیات میں، میری پوری حصّہ داری تھی… لیکن میں مختار کی حصّہ داری ڈھونڈنے لگی۔ یہیں سے عورت کی زندگی میں انتشار شروع ہوتا ہے اور بگاڑ تک نوبت آ جاتی ہے۔ کچھ دن کے بعد زندگی کے معمولات میں فرق پڑنے لگا جو میری امیدوں کے خلاف تھا… زندگی سکڑ کر بہت مختصر ہو گئی تھی۔ نوکری کے بعد مجھے صرف گھر دیکھنا تھا اور مختار آزاد تھا، گھریلو زندگی سے اسے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اکثر اکیلے ٹہلنے نکل جانا، تھک ہار کر سو جانا چونکہ میں عورت ہوں اسی لیے میری پابندیاں زیادہ ہیں ایسا وہ سوچتا تھا۔ صدیوں کی مظلومی و محکومی نے عورت کے ذہن سے عزّت نفس کا احساس مٹا دیا تھا اور میں بھی اس امر کو بھول گئی تھی کہ میرا بھی کوئی حق ہے، عورت کا کوئی مقام بھی ہے۔ مجھے سب کچھ برداشت تھا لیکن دیر رات گئے گھر لوٹنا پسند نہیں تھا۔

’’میں تمہارا انتظار کرتی رہتی ہوں، اور تم آوارہ گردی کرتے ہو‘‘

’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘

’’مطلب صاف ہے، تم اوٗب گئے ہو مجھ سے‘‘

میں خاموش ہو گئی، کمرے میں سکوت طاری تھا… وہ بھی بستر پر لیٹ گیا۔ بیڈ شیٹ پر پڑی ہوئی لکیر جو ہم دونوں کے درمیان ابھر آئی تھی وہ اس وقت اور گہری ہو گئی جب میں نے بائیں جانب کروٹ لی اور اپنی آنکھیں بند کئے خاموشی سے لیٹ گئی… کمرے کی کفن پوش دیواروں پر رات کی سیاہی گہری ہو رہی تھی اور سناٹے میں ڈوبی ہوئی تمام آوازیں لاش کی طرح تابوت میں قید ہو گئی تھیں … میں مسہری سے کمر لگا کر بیٹھ گئی… دیوار پر ٹنگے کلینڈر پر نظر گئی … جسم نے آشنا سی لذت محسوس کی، کبھی برف کی پرتیں اس کی انگلیوں کے گرم گرم لمس سے پگھلی تھی… وہ رات بڑی حسین تھی، حسین رات رنگین بھی ہوتی ہے … نرم بستر پر گلاب کی پنکھڑیاں بکھری تھیں، ماحول معطر تھا میں مختار کے آغوش میں سمٹ گئی تھی آنکھیں بے نام بے خودی کے عالم میں دور کہیں سفر میں نکل گئیں … چھوٹا سا کمرہ یا قوت اور زمرد کے بنے محل میں تبدیل ہو گیا… بیلا۔ چمیلی اور گلاب کی مہک سے فضا معطر تھی… پشت پر نہر گنگنا رہی تھی… جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا، شہد سے زیادہ میٹھا تھا… پرندے آسماں پر چہچہا رہے تھے۔ ہوا نہ سرد تھی، نہ گرم ایک عجیب مستی بھرا ماحول تھا… نہ مرنے کا غم تھا اور نہ جینے کی چنتا… تمنّا آرزو اور امیدوں سے لبریز کائنات تھی۔ خواب آور زندگی تھی۔ خوبصورت اجلی راتیں دن کی طرح روشن… دن رنگین رات کی طرح حسین۔ خوشبو، رنگ اور پریم میں ڈوبا ہوا سارا عالم تھا۔ چند لمحوں کے لیے میں صدیوں کی غلامی بھول گئی تھی… میں بھول گئی تھی کہ میں عورت ہوں صرف اتنا یاد رہ گیا تھا… کہ میں معشوقہ ہوں … ایک محبوبہ ہوں … دل کی رانی ہوں جس پر میری حکمرانی ہے اور مرد میری سلطنت ہے اگر حکم کروں تو ستاروں سے میرا دامن بھر دے جب عورت ایسے بے مہار طوفان میں بہتی ہے تو یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ مرد ایک ٹھوس مادہ ہوتا ہے جس کی اپنی صورت اور اپنا ایک حجم ہوتا ہے جو ٹوٹ کر ناقابل تقسیم جُز بن کر ایٹم کی طرح خطرناک ہو جاتا ہے۔ میں نے پہلو بدلا برابر میں مختار دنیا و ما فیھا سے بے خبر سو رہا تھا… جو میرے ایک ایک لمس کو چاٹتا تھا

’’تم شاعری سے زیادہ حسین اور لذّت آفریں ہو‘‘

’’غزل پڑھنے لگے‘‘

’’غزل محبوب کی پیکر تراش ہوتی ہے۔ لیکن تم تصوّر اتی حقیقت ہو‘‘

اس وقت ہم جھیل میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے … کائنات اپنے محور پر گھوم رہی تھی۔ آسمان کے گرد زمین چکر لگاتی ہے مگر لگتا ہے کہ آسمان گھوم رہا ہے۔ اچانک ہوا کے چلنے سے کھڑکی کے پٹ کھلے اور کلینڈر کھڑ کھڑ انے لگا جیسے ساعتوں کی گنتی کر رہا ہے۔

’’زندگی کے لیے ذہنی ملاپ کے ساتھ ساتھ جسمانی ہم آہنگی بھی ضروری ہے‘‘

’’تم مرد لوگ جسم کے آگے کچھ نہیں سوچ سکتے‘‘

میں نے ذہنی ملاپ کو بنیادی شرط کہا ہے‘‘

شاید یہی اختلاف رائے ہماری محبت کی بنیاد بنا تھا اور دوستی کا رشتہ رفتہ رفتہ محبت کے رشتہ سے ہم کنار ہونے لگا جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے سے ضرب ہو کر ایک عدد بن جاتے ہیں …

اچانک کلینڈر کھڑکھڑانے لگا… میں نے چونک کر دیکھا… مختار گہری نیند میں سویا ہوا ہے۔ چین کی نیند وہی سوتے ہیں جو بے غم ہوتے ہیں …

معمول کے مطابق صبح ہوتی… مختار بیڈ ٹی کے درمیان اخبار پڑھتا… ’’عراق تباہ ہوا‘‘، ’’افغانستان برباد ہوا‘‘ جب جب دنیا میں طاقت کا توازن بگڑے گا تباہی بربادی آئے گی… ایک طاقت دوسری طاقت سے ڈرتی ہے اس کی عزت کرتی ہے توازن برقرار رہتا ہے۔

’’میں محسوس کر رہی ہوں، ہم دونوں کے درمیان سے محبت زائل ہو رہی ہے‘‘

’’تم کیسے کہہ سکتی ہو‘‘ آنکھوں کے نیچے سے اخبار ہٹاتے ہوئے

’’مجھے ایسا لگتا ہے‘‘

’’یہ تمہارا وہم ہے‘‘

’’اور آپ کیا سوچتے ہیں‘‘؟

’’در اصل جب ہم دونوں ایک دوسرے کو پانے کی جستجو میں تھے … تو ملنے کے لیے ہر لمحہ بے چین رہتے تھے اور ان لمحوں کی ملاقات کو قیمتی بنانے کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑتا تھا… میں اکثر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر ہر زاویہ سے اپنے بال سنوارتا، شیو بناتا، خوشبو لگاتا تھا۔ لیکن اب وہ نہ انتظار کی کیفیت ہے اور نا ہی وصل کی لذت!

’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اکثر نو محبت کی شروعات کریں … ملاقات کے سلسلے قائم کریں … محبت کی باتیں کریں … سیر و تفریح کریں … ریسٹورنٹ جائیں …

’’کیا تم پاگل ہو گئی ہو… میں گھبرا گئی ہوں ان معمولات سے … زندگی کتنی تنگ ہو گئی ہے۔ آفس اور گھر کے درمیان میں!… ایسا لگتا ہے ازدواجی زندگی درمیان سے غائب ہو گئی ہے … مرد پورے طور سے مکمل اور عورت ادھوری ہو گئی ہے … یا بیچ میں کہیں مر گئی ہے‘‘

ہم دونوں کے درمیان دراڑ پڑ گئی نہ ٹوٹنے والی۔ وہ اس وقت اور گہری ہو گئی کہ مختار راتوں کو غائب رہنے لگا… دیر سے گھر لوٹنا اس کا معمول بن گیا … میرے اعتراضات بے معنی ہو کر رہ گئے۔

ہر جوڑ کا آخری نتیجہ توڑ ہوتا ہے۔ ایک دن میں نے علیحدگی اختیار کر کے رہائی حاصل کر لی…وہ لمحہ اس قدر قیمتی تھا کہ صدیوں کے قیدی پکھیرو کو فضا میں چھوڑ کر آزاد کر دیا گیا ہو۔

رات کا اندھیرا کافی گہرا ہو گیا تھا … اس اندھیرے پر خاموشی کا سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا… وہ پلنگ پر سر پکڑے بیٹھی تھی… باہر سڑک پر موٹر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں … کبھی روشنی کبھی اندھیرا… مجھے کس کا انتظار ہے؟… کیوں انتظار ہے؟ پھر وہی… رہائی اور قید کا سلسلہ… ٹیبل پر رکھے اخبار کو اٹھا لیا …

’’عرب بہاریہ‘‘ جلی خبر… لبنان میں انقلاب… شام میں انقلاب کی دھمک… اخبار کو اس نے ٹیبل پر رکھ دیا … گھڑی پر نظر گئی دس بج رہے تھے، اس کے چہرے سے اکتاہٹ اور کراہیت کے آثار نمایاں ہو رہے تھے … اچانک کواڑ کی چُر…چُر… ر…ر سے وہ چونک گئی… سامنے شاہین کھڑا مسکرا رہا تھا

’’معاف کرنا… میں لیٹ ہو گیا‘‘ شاہین نے شرمندگی کا احساس کیا

’’اچھا ہوا، آپ لیٹ ہو گئے …

’’تمہیں انتظار گراں خاطر گزرا ہو گا… لیکن اب نہیں گزرے گا‘‘ اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا

’’میں بھی یہی چاہتی ہوں، اب نہ گزرے‘‘ کڑوا گھونٹ نگلا

’’حبسِ دوام کی سزا دینے کے لیے ابّا راضی ہو گئے ہیں‘‘ شاہین نے مسکراتے ہوئے باہوں میں سمیٹنے کی کوشش کی

’’یہ سزا کا سلسلہ کب تک چلے گا؟‘‘ پیچھے ہٹتے ہوئے … نہیں …نہیں شاہین مجھے معاف کر دو… معاف… اب مجھے کوئی سزا نہیں چاہئے … مجھے …مجھے رہائی چاہئے مجھے انتظار ہے ایک ایسی قوت کا جو رات کی ظلمت کو پھاڑ کر صبح کی روشنی نمودار کر دے۔

٭٭٭

بھورے سید کا بھوت

یہی کوئی دس سال کی عمر ہو گی، جمعرات کی شام تھی، امی نے چراغ جلایا۔ اگر بتیاں سلگائیں اس طاق دیوار کے سوراخ میں اڑس دیں، جس کے چھوٹے سے دروازے پر گوٹا ٹکا سبز ریشمین کپڑے کا پردہ ٹنگا تھا جہاں دکھائی کچھ نہیں دیتا لیکن گھر کے سب ہی بزرگ کہتے تھے کہ اس میں سید بابا رہتے ہیں۔ یہ معمول برسوں سے چلا آ رہا تھا کہ اگر گھر میں کوئی آفتِ نا گہانی آ جاتی تو ہفتہ واری عمل روزانہ میں تبدیل ہو جاتا اور اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ آفت سے نجات نہیں مل جاتی، پھر ایک نئے سبز رنگ کا پردہ سیا جاتا اور پرانا بدل دیا جاتا۔ ایک جمعرات کو امی اگر بتی جلانا بھول گئیں اور مجھے بہرا بھوت بخار چڑھا۔ رات کو عجیب عجیب طرح کے خواب دکھائی دئیے۔ ایک مکروہ صورت بڈھیا جس کے چہرے پر سلوٹیں، گال پچکے ہوئے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی۔ میرے سرہانے بیٹھ جاتی اور میری گردن کو پوری طاقت سے دباتی، میں چھڑا کر زینے کی جانب بھاگتا۔

بڈھیا مجھے اپنی تیز رفتاری سے دبوچ لیتی، پورے مکان میں چوہے بلی کا یہ کھیل چلتا۔ خوف کے سبب پسینہ میں شرابور ہو جاتا۔ اس کی گرفت سے نکلنا میرے لیے محال ہو جاتا، یہاں تک کہ میرے منہ سے چیخ نکل جاتی، قریب سوئی ہوئی امی چونک کر جاگ جاتی اور مجھے ہلا جھلا کر اٹھا کر بٹھاتی … جلد از جلد پانی کا گلاس لاتی اور کہتی ’’کیا ہوا؟‘‘ … میں خواب کی تفصیل سناتا… وہ مجھے سمجھاتی ’’ڈرو نہیں بیٹا… سید بابا کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں‘‘۔ آخر کار کافی انتظار کے بعد جمعرات آئی، اگر بتیاں جلائی گئیں۔ بتاشوں پر فاتحہ لگی اور بخار اتر گیا۔ کم عمری کمزوری کا نام ہے اس لیے حفاظتی امور کا بڑھ جانا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کیونکہ چار دہائیوں قبل انسانوں کی آبادی کم تھی اور بھٗوتوں کی تعدادزیادہ۔ جوں جوں آبادی بڑھی، بھوتوں نے شہر چھوڑ کر سنسان علاقوں کو اپنی قیام گاہ بنا لیا ہے۔ یہ باریک بات میرے اب سمجھ میں آئی ہے کہ جب سے انسان بھٗوت ہو گئے ہیں، بھوتوں نے سنسان علاقے چھوڑ دئیے ہیں۔ اس لیے وارداتیں بڑھ گئیں ہیں انسان کے خوفناک ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ وہ واردات کرتے وقت، آبادی میں بھی نہیں چوکتا۔

اس وقت میرے بزرگوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ انسانوں سے خطرات بڑھنے کے امکانات قوی ہیں۔ جب بھی خوف کا ذکر ہوا تو انہوں نے سورج طلوع و غروب ہونے، سورج کے نصف النہار ہونے اور نصف رات کے بعد بھورے سید والی گلی سے گزرنے پر پابندی لگا دی چونکہ وہاں بد روحیں رہتی ہیں۔ بھورے سید مسلمانوں کا قبرستان ہے جو پاک روحوں کی آباد گاہ ہے۔ بد روح وہی بنتی ہے جو انسان حالتِ ناپاکی میں مرے۔ مسلمان استنجا کرتا ہے۔ سنت طریقے سے غسل کرتا ہے، ہر وقت پاک رہتا ہے پھر بھی نجس حالت میں مر جائے تو گندی روح آسمان کی جانب دوڑ لگاتی ہے اور فرشتوں کے کوڑے کھاتی ہے۔ میں سوچتا بھورے سید کا قبرستان بد روحوں کا مسکن کیوں کربن گیا۔؟

’’بار بار موت کو یاد کرنے کا ذکر، قبرستان میں دعا درود پڑھنے کا حکم کیوں ہے؟‘‘ عہد طفلی میں سوال کیا

’’سوالات کم کیا کرو؟‘‘ ایسا امی نے بولا

میں خاموش ہو گیا۔ اس بات کی مکمل احتیاط رکھی کہ ضروری کام کی وجہ سے بھی اس راستے سے کبھی نہیں گزرا کیونکہ بھوت قبرستان میں ہو یا نہ ہو لیکن میرے دل پر ضرور بیٹھ گیا تھا جو اکثر و بیشتر کسی نہ کسی موقع پر دل سے باہر نکل کر میرے چاروں طرف منڈلانے لگتا اور اس وقت تک غائب نہ ہوتا جب تک کہ طاق کے گدی نشین سید بابا کی فاتحہ خوانی ہو کر بچوں میں شیرینی تقسیم نہیں ہوتی۔

چار دہائی قبل، چاروں اطراف لق و دق میدان تھے، کھیت تھے مکان کی چھت سے اوپر کوٹ میں واقع جامع مسجد آسانی سے نظر آتی تھی، گھر کا نوکر بارہ دری بازار سے سودا سلف لینے جاتا دادی دور تک نظر رکھتی، مجال نہیں کہ نوکر اپنے فرائض سے لاپرواہی کرے۔ بھورے سید کے قریب وسیع و عریض میدان تھا۔ میدان میں ہڈی کا گودام، ہڈی کا گودام نیم کے درختوں سے ڈھکا تھا۔ حمید صاحب کے نزدیک لحیم شحیم نیم کے درخت پر اکثر مغرب کے آس پاس اور شب و روز کے بارہ بجے کے درمیان چھم چھم چھم چھن چھن چھن کی آواز آتی تھی۔ مذکورہ اوقات میں بچوں کی مجال کیا بڑے بھی گزرنے سے ڈرتے تھے … حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آواز سب ہی کو سنائی دیتی تھی لیکن دکھائی صرف ان کو دیتی جن پر وہ عورت سوار ہو جاتی تھی۔ بزرگوں نے بتایا نیم کے درخت کے نیچے ایک چھوٹی سے کٹھریا میں ایک مہتر اور مہترانی کافی عرصہ سے رہ رہے تھے محلے کی خدمت گزاری کے عیوض رہنے کے لیے جگہ دیدی گئی تھی… ویسے بھی نیچ ذات کو کون منہ لگاتا ہے؟ یہ بد نصیب لوگ، گوشت خوری کی نسبت سے یا مسلمان گندی قوم کہلانے کی وجہ سے کثیر مسلم علاقوں میں ہی ملیں گے خیر وجہ جو بھی ہو بہر حال وہ جوڑا بہت خوش و خرم تھا۔ عورت خوبصورت ہو تو مہترانی بھی رانی ہو جاتی ہے۔ مجھے خوب یاد ہے رادھے شیام گپتا جی جو چھٗوت چھات کے بے حد قائل تھے۔ پیاز کے چھلکوں پر دھرم بھرشت ہو جاتا تھا مگر مہترانی ان کے دل کی مہارانی تھی۔ ایک رات کے اندھیرے میں لوگوں نے ان کو اس حالت میں پکڑا تھا۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان جنس اور جسم کا فرق مٹ جاتا ہے۔ دن میں گپتا جی کے چھٗونے کی، بات دور کی سایہ پڑنے سے بھی اپوتر ہو جانے پر اشنان کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن اچانک سوبر(ڈلیوری) کی حالت میں زچہ بچہ دونوں ہی مر گئے … گویا ناپاکی کی حالت میں وہ آنجہانی ہو گئی اور آخر کار وہ گندی روح، چڑیل بن گئی جو دیکھنے میں مہترانی کی طرح خوبصورت تھی، میٹھی میٹھی باتوں میں پھسلا کر انسانوں سے خصوصی طور سے مردوں سے اپنے پرانے حساب چکاتی۔ لوگ کہتے ہیں چونکہ اس کے خوبصورت جسم پر مردوں نے بدصورت نگاہیں ڈالی ہیں، اپنے بستر گرم کئے ہیں اس لیے ایک ایک لمحہ کا بدلہ لینے کے لیے وہ درخت سے اترتی ہے۔ آج تک میری یہ سمجھ میں نہیں آیا معاملہ جب راضی با رضا کا ہوتا تو بدلہ لینے کی کیا تک ہے؟ اس میں مردوں کا کیا قصور؟ مگر قصور تو اس عورت کا بھی نہیں چونکہ جوانی اور خوبصورتی کا امتزاج ایک ایسا طوفان برپا کرتا ہے کہ انسانی قدریں اور مذہبی دیواریں سب ٹوٹ جاتی ہیں۔ مردوں کو جب کوئی خوبصورت عورت رجھاتی ہے تو وہ عورت کے پیروں کو نہیں دیکھتا کہ وہ پیچھے مڑے ہیں، یا پیٹ کی جانب مڑے ہیں بہکے قدم سے کیا لینا دینا عورت تو پھر عورت ہے۔

نیم کے درخت کی شاخیں حمید صاحب کے مکان کی طرف جھکی تھیں، چڑیل کا سایہ ہونے کے سبب مرد نکمے ہو گئے، گھر میں لڑکیاں کیا جوان ہوئیں، چڑیل کا شکنجہ کس گیا۔ آئے دن دورے پڑنا اس گھر کا معمول بن گیا تھا۔ شب و روز کے درمیان کسی بھی وقت ’’ہائے ہائے‘‘ کی آوازیں دیواریں پھوڑ کر کانوں میں داخل ہونے کے لوگ عادی ہو گئے تھے۔ چڑیل کیا چاہتی تھی، کسی کو پتہ نہیں تھا۔

ایک روز حمید صاحب کی بڑی بیٹی کو بیہوشی کا شدید دورہ پڑا… ’’ہائے ہائے آئیں آئیں … ہائے ہائے‘‘ کی درد انگیز صدائیں آ رہی تھیں۔ ان کے گھر میں خاندان اور محلے والوں کا ہجوم تھا۔ کمرے میں پٹ لیٹی سدھ بدھ کھوئے ہوئے تھی، بال بکھرے ہوئے تھے۔ قریب ہی قاری صاحب کے بیٹے عبدالرحمن گدی نشین کسی سریع الاثر عمل کا ورد کر رہے تھے۔ استاد کی اجازت سے وظائف اور عملیات پر مکمل عبور حاصل کرنے کے بعد۔ اس پیشہ میں مہارت اور مقبولیت حاصل کر لی تھی، جس طرح استاد کے حجرہ میں بیماروں کی بھیڑ رہتی تھی اسی طرح عبد الرحمن کے کمرے میں جماؤ رہتا۔ قاری صاحب نے عبد الرحمن کو بیٹے کی طرح پالا تھا زندگی بھر استقرارِ حمل کے تعویز دیتے رہے لیکن برائے امساک خود کو کوئی تعویز کا رگر ثابت نہیں ہوا یہ مشہور ہے کہ کوئی ڈاکٹر اپنا علاج نہیں کر سکتا کچھ ایسا ہی حال بزرگ قاری صاحب کا تھا۔ مولوی عبد الرحمن کی بزرگی کا کارنامہ دیگر لوگوں کی طرح میں بھی کمرے کے باہر حواس باختہ سن رہا تھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

’’میں …م…یں … دلاری ہوں‘‘ منمانے کی آواز

’’کہاں سے آئی ہے‘‘

’’ہڈی کے گودام سے‘‘

قریب بیٹھے ایک شخص نے دوسرے کے کان میں آہستہ سے کہا ’’بڑے پہونچے ہوئے ہیں …‘‘

’’میں نے سنا ہے کہ رات کے بارہ بجے کے بعد شاہ جمال کے قبرستان جا کر ہفت پیکر کا برسوں وِرد کر کے موکل قبضہ میں کیا ہے‘‘ دوسرے شخص نے جواب دیا

’’جاتی کیوں نہیں‘‘ چیخنے کی آواز

’’نہیں جاؤں گی… یہ لڑکی مجھے اچھی لگتی ہے‘‘ منمانے کی آواز

’’تو عورت ہو کر، عورت سے عشق کرتی ہے، بے حیا… بے شرم‘‘

مرد بھی تو مرد سے عشق کرتے ہیں‘‘ منمانے کی آواز

’’تجھے کوئی حق نہیں؟‘‘

’’انسانوں کو حق ہے‘‘؟ استفہامیہ انداز

یہاں مولوی صاحب چاروں خانے چت دکھائی دئیے، آواز میں لکنت تھی، گھگھیاتے ہوئے بڑے مشکل سے بولے، ’’تو کیوں ستا رہی ہے‘‘۔

’’جب انسان انسان کو ستاتے ہیں، تو دنیا تماشہ دیکھتی ہے‘‘ منمانے کی آواز

انسانی تہذیب پر یہ کاری ضرب مجھے برداشت نہیں ہوئی۔ میں نے کمرے میں جھانک کر دیکھا منظر وہی تھا مولوی صاحب زبان زد وظیفہ پڑھ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور سر سے کمر، کمر سے پیروں تک ہاتھ پھیرتے۔ لڑکی کبھی کبھی گردن اٹھا کر بولتی اور ٹھوڑی زمین پر رکھ دیتی… تھک جاتی تو چت لیٹ جاتی… ہائے ہائے کی آواز سے کمرا بد ستور گونج رہا تھا… ہائے ہائے بند ہونے پر خاموشی طاری ہو جاتی۔ کم عمر میں اس قدر خوفناک منظر کو دیکھنا مرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ پتہ نہیں میرے جسم کے کون سے حصّہ میں گدگدی کا احساس ہو رہا تھا؟ یہ گدگدی بھی بڑے ہی عجیب شے کا نام ہے، زندگی ایک معمہ ہے تو گدگدی بھی ناقابل بیان دیوانہ کا خواب ہوتی ہے۔ لیکن چڑیل بھوت اور آسیب کی بھی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ ان کے اتحاد کا اس سے بڑا نمونہ اور کیا ہو گا کہ یہ مخلوق آپس میں کبھی نہیں لڑتی، ان میں اتفاق ہوتا ہے نہ کینہ و حسد۔ ان کی کائنات میں اصلاح کے لیے نہ کوئی مسیحا آیا، نہ مدر ٹریسا اور نہ ہی کوئی امن کا دیوتا سوائے سلیمان علیہ السلام کے۔ اور انسانوں کی اصلاح کے لیے آدم علیہ السلام سے پیارے نبی تک لاکھوں نبیوں کا ایک سلسلہ ہے۔

تین دہائی قبل، میں جوان ہو گیا تھا۔ دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومنا، موج و مستی کرنا، ہواؤں میں اُڑنا، لڑکیوں کو تاکنا، خواب و خیال کی دنیا سجانا۔ اب رات میں کوئی مکروہ صورت عورت نہیں ڈراتی تھی، لیکن خواب میں خوبصورت لڑکیاں آتی تھیں، یہ خواب جاگتی آنکھوں کے تھے، یہ خواب سوتی آنکھوں کے تھے۔ فکر اور عشق جیسے امراض راتوں کی نیند چھین لیتے ہیں۔ ایک رات اپنی محبوبہ سے ملاقات کر کے امیر نشان سے آ رہا تھا… عشق کی عظمت اور قوت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ امی کی سخت ہدایت کے باوجود بھی رات میں لال ڈگی روڈ سے گزرنا عشق کی مجبوری تھی، جہاں نٹ رہتا تھا جو صرف مردوں کو پریشان کرتا تھا۔ چونکہ عشق بھی ایک بھوت ہوتا ہے جب وہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو اس کی تپش سے آ ہنی دیواریں بھی سیال ہو جاتی ہیں۔ رات سنسان اور بھیانک تھی۔ لال ڈگی سڑک کالے اژدھے کے مانند پڑی تھی، سخت سردی سے سڑک کے دونوں کنارے پر کھڑے درخت آسمان پر لگے ستاروں کی طرح ٹھٹر رہے تھے جب ستارے ٹھٹرتے ہیں تو تقدیر بھی سکڑ جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں طرف گڈھے میں بھرا پانی سنگھاڑوں کی بیلوں سے سیاہ مائل ہو رہا تھا۔ اسی جانب تانگہ کے قریب ایک شخص کالا کمبل اوڑھے سردی سے سکڑ رہا تھا

’’تانگہ خالی ہے‘‘

’’ہاں بابو جی… بیٹھو‘‘

تانگہ سڑک پر دوڑنے لگا… کھٹ کھٹ بگ ٹٹ پگ ٹٹ کی آوازیں خاموشی کو توڑ رہی تھیں منظر کی خوفناکی وصل محبوب کے سرور میں دھندلی ہو گئی اچانک عشق کا طلسم اس وقت ٹوٹ گیا جب کوچوان کے بائیں ہاتھ پر نظر گئی جس میں لگام تھی۔ عجیب بھیانک ہاتھ جس پر بڑے بڑے بال اگے ہوئے تھے سیاہ ہاتھ پر لمبے لمبے ناخون

’’یہ کیا‘‘؟ اچانک میرے زبان سے نکلا

کوچوان نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کا کمبل اتر چکا تھا… لمبوترہ چہرہ، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، دانت بڑے بڑے، اس مکروہ چہرے کو دیکھ میں خوف زدہ ہو کر بیہوش ہو گیا۔ پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔ میں کہاں چل رہا ہوں؟ کس طرح گھر آیا؟… سخت ترین بخار میں مبتلا ہو گیا، دہشت زدہ چہرہ زرد پڑ گیا…جسم لاغر ہو گیا۔، ڈاکٹر اور حکیم کو دکھایا، جوں جوں علاج ہوا، مرض بڑھتا گیا… سب جتن کر لیے گئے مگر افاقہ نہ ہوا۔ آخر کار شہر کے مشہور اور قیمتی ڈاکٹر سمیع حمید کو دکھایا گیا۔ بڑے دلچسپ اور پُر مذاق انسان تھے، اندازِ گفتگو ایسا کہ مرض آدھا رہ جائے۔ نہایت زندہ دل اور بے تکلف تھے۔ شراب کے بے حد شوقین تھے، مشہور تھا کہ بغیر پیئے مریض کو دیکھتے نہ ہی آپریشن کرتے ان کے پیشے کے ساتھ شراب ایسے گھل مل گئی تھی کہ مریضوں کو ان کے پیشہ پر اسی وقت اعتبار ہوتا جب وہ نشہ میں ہوتے۔

’’بہت دن کے بعد آئے‘‘ انہوں نے اس انداز سے کہا جیسے کوئی پرانی آشنائی ہو۔

’’ڈاکٹر صاحب، کتنے ہی ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھا دیا‘‘ والد صاحب نے کہا

تو مرض بڑھا کر آئے ہو‘‘ ڈاکٹر صاحب نے نبض ہاتھ میں لی اور میرے چہرے کو بغور دیکھنے لگے۔

’’ڈاکٹر صاحب میں نے ’مولوی‘ سیانا، پنڈت کو بھی دکھایا، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا‘‘ والد صاحب نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا

’’گھبرائیے نہیں، مرض کا علاج ڈاکٹروں کے پاس ہوتا ہے‘‘

’’ڈاکٹر صاحب جب ہر طرف سے مایوسی ہوتی ہے تب ہی انسان فلیتے اور تعویذوں پر یقین کرتا ہے‘‘

’’اس کے بعد خدا یاد آتا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب مسکرائے

’’لال ڈگی کا میں ہی تو نٹ ہوں‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب اتنا زور سے ہنسے کہ مطب گونج گیا

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے، کیوں مذاق کر رہے ہیں آپ؟‘‘ والد صاحب نے انکساری سے کہا

’’تمہیں معلوم ہے، جب انسان پر دولت کمانے کا بھوت سوار ہوتا ہے تو وہ خود بھوت بن جاتا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے یقین دہانی کرائی

ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ان کے مزاج کے عین مطابق تھی اس لیے ہمارے لیے قابل یقین نہیں تھی چونکہ بہت سے امراض کے علاج انسان کی نفسیات سے جُڑے ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنے نٹ ہونے کا اقرار کیا۔ بہر حال میرا علاج ہوا اور مجھے شفا ہوئی اور یہ شفا میرے نصیب میں تھی یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں تھی۔ امی نے سید بابا کے سامنے منت بولی تھی تین جمعراتوں کو حلوے پر فاتحہ لگی اور اگر بتی متواتر ہر روز جلی۔ سید بابا کے سامنے ڈاکٹر صاحب کی حیثیت ہی کیا ہے۔ سید بابا خدا کے نیک بندے اور ڈاکٹر صاحب ایک دنیا دار انسان، اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ سید بابا کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ عام خیال یہ تھا کہ سید بابا نے ایک ہفتہ کے اندر رو بہ صحت کر دیا… ان کی عظمت پر اعتماد پختہ تر ہو گیا۔

اب سے دو دوہائی قبل میری عمر تقریباً تیس سال کی ہو گی۔ شادی، تعلیم، مشاہدہ اور تجربوں نے سوچ و فکر میں سنجیدگی پیدا کر دی تھی۔ میں نائٹ شو دیکھ کر بھورے سید والی سڑک سے لوٹ رہا تھا۔ جیسے ہی سبزی فروش والی مسجد عبور کی قبرستان کی سر حد میں داخل ہوا۔ عجیب ہو کا عالم تھا۔ چاروں طرف سناٹے کو میرے قدموں کی چاپ توڑ رہی تھی۔ لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی تعاقب کر رہا ہو۔ مڑ کر دیکھا دور تک سڑک کالے بھوت کی طرح پڑی ہوئی تھی۔ آدم نہ آدم زاد۔ دو فرلانگ لمبی سڑک کی مسافت اس قدر طویل ہو گئی تھی کہ پیروں میں سمٹنا مشکل ہو گئی تھی۔ قدم بہت بھاری ہو گئے تھے۔ اچانک کھڑ کھڑ کھڑ کی آواز آئی… چونک کر چاروں طرف دیکھا۔ بائیں جانب گو تم تیاگی اسکول کے آ ہنی گیٹ پر نظر گئی وہ ہل رہا تھا… کھٹک کی آواز سے سنّاٹا ٹوٹ گیا۔ ایک اینٹ اتنی زور سے گری کہ میں خوف زدہ ہو گیا۔ شاید بلی کُودی ہو… قدموں کی آواز پر کتے بھونکنے لگے … سنسان سڑک کے خاموش منظر کو کھڑ کھڑڑ ڑ اور بھوں بھوں اوں اوں کی آوازوں نے بہت خوفناک بنا دیا تھا… دائیں جانب قبرستان میں اگے پیپل کے درخت سے چھُن چھُن چھُن کی آواز نے چونکا دیا… سوچنے لگا چڑیل ہڈی والے گودام میں نیم کے درخت پر رہتی ہے … یہاں کیسے آ گئی؟ چند لمحے میں چھن چھن کی آواز کو پھڑپھڑاہٹ نے چاٹ لیا۔ پرندے ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔ خوف میرے جسم میں سرایت کر گیا تھا۔ بدن میں کپکپاہٹ پیدا ہو گئی۔ سخت سردی پڑنے کے باوجود پسینہ کی بوندیں پیشانی اور مونچھوں پر ابھر آئیں … میں گھبرایا ہوا سڑک پر چل رہا تھا۔

اچانک میری نظر دُور سامنے گئی ایک کالا سایہ جس کی لمبائی تقریباً چالیس گز ہو گی یہ حساب میں نے اس طرح لگایا کہ مرحوم عبد الاحد کے مکان سے شروع ہو کر رشید ٹھیکیدار کے کارخانہ تک ختم ہو رہا تھا…وہ سایہ آگے کی جانب جھُکا… اس کی لمبائی سکڑ گئی… اس کا دایاں ہاتھ مڑا… اچانک ہاتھ کا سایہ کی لمبائی پھر بڑھ گئی… ہاتھ میں کوئی بھاری پتھر سا محسوس ہوا… خوف اور سردی سے جسم پر لرزہ طاری تھا… چُرمُر… چُرمُر… کی آواز سن کر پیچھے مڑ کر دیکھا… لال ڈگی کا نٹ سر پٹ سر پٹ پیچھا کر رہا تھا۔ پیپل کے درخت سے چھُن چھُن کی آواز میرا تعاقب کر رہی تھی۔ ہڈی والے گودام کی چڑیل میری پشت پر منمنا رہی تھی۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی، کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ بھاگنے کی کوشش کی لیکن قدم بھاری ہو گئے تھے۔ سامنے نظر گئی وہ کالا سایہ نالی کے قریب کھڑا تھا اس کے دونوں ہاتھ ستر پر رکھے تھے …اچانک سایہ اس قدر سکڑ گیا جیسے غائب ہو رہا ہو۔ ایسے بھیانک منظر کو دیکھ کر حافظہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے … بہت کوشش کے بعد یاد آیا پیارے حبیب پر جب سخت جادو کر دیا گیا تھا تو معوذ تین نازل ہوئی تھیں۔ میں نے زور زور سے وِرد شروع کر دیا… اس کی برکت سے سایہ وہیں جامد و ساکت کھڑا ہو گیا… قدم تیزی سے پوری کوشش کے ساتھ آگے بڑھائے … قبرستان پیچھے رہ گیا اور مرحوم عبدالاحد کے مکان سے دس قدم پیچھے ہی تھا۔

’’بشیر صاحب اتنی رات گئے کہاں سے آ رہے ہیں‘‘ فضا میں ایک آواز گونجی خوف کی وجہ سے میری گھِی گھِی بن گئی۔ چاروں طرف نظر دوڑائی جواب دینے کے بجائے میرے اوپر سکتہ سا طاری ہو گیا۔

وہ سایہ دو قدم آگے بڑھا… میرے شانہ کو زور سے حرکت دی ’’کہاں کھو گئے میں آپ ہی سے پوچھ رہا ہوں‘‘

’’ہوں‘‘ میں نے چونک کر دیکھا ’’ارے سعید صاحب آپ ہیں‘‘

’’ہاں، پیشاب کرنے آیا تھا… آپ کو دیکھ کر رُک گیا‘‘

ایک ہی لمحہ میں وہ خوفناک منظر میری نگاہوں سے غائب ہو گیا اور سوچنے لگا ڈاکٹر سمیع حمید کے مرنے کے بعد لال ڈگی کا نٹ بھی مر گیا تھا۔

٭٭٭

ایک خوبصورت عورت

ایک صبح کا وقت تھا۔ گرمی کے موسم میں ہوا خوری کے لیے لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ محلے کی گلیوں کے نکڑوں اور پول لائٹ کے نیچے اکثر مٹر گشتی کرتے ہیں، آنے جانے والی لڑکیوں پر پھبتیاں کستے ہیں۔ شرفاء کے نزدیک یہ جہالت کی نشانی ہے لیکن شرفاء بھی کب تک اصول وضو ابط کی رسیوں میں بندھے رہیں یکسانیت سے اوٗب کروہ بھی وقت گزاری کے لیے بیہودہ تفریحوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کی بیماری اس قوم میں شدت سے پائی جاتی ہے جو بے روز گاری کا شکار ہو۔ ریحان پرچون شاپ پر ایسی ہی ایک بھیڑ تھی۔ اور وہ اپنا دائیں پاؤں دوکان کے آگے بنے چبوترے پر رکھے کھڑا تھا۔ محلے کے بڑے بوڑھوں میں وہ چبوترہ بہت بد نام تھا چونکہ آئے دن وہاں آپس میں جھگڑا فساد ہوتا رہتا جس کے لوگ عادی ہو گئے تھے۔

’’بائیں ہاتھ سے پانی پینا شیطان کی خصلت ہے‘‘ صالح نے ٹوکا

’’میں خود شیطان ہوں‘‘ اس نے برجستہ درشت لہجہ میں کہا لوگوں کی چپڑ چپڑ اس لمحہ بند ہو گئی

صالح ہکا بکا اسے دیکھنے لگا جو بڑی بے شرمی سے اب بھی مسکرا رہا تھا۔ بھیڑ میں کھڑے لوگوں کی نگاہیں صالح کے چہرے پر مرکوز تھیں جس پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک رنگ جا رہا تھا۔

’’خدا سے خوف کھاؤ، بھول سے بھی ایسی بات نہیں بولنی چاہئے‘‘ صالح کے لب و لہجہ میں ٹھہراؤ تھا۔

اس وقت ماحول میں خاموشی طاری تھی اپنی اپنی باتوں کو بھول کر لوگ صالح کی طرف متوجہ ہو گئے اور امربا المعروف نہی عن المنکر کی باتیں سننے کے لیے جیسے منتظر ہو گئے کم از کم اس بہانے ذکر الٰہی میں شریک ہو کر ثواب کے مستحق ہو جائیں، یہ بھی تو خوف الٰہی کی علامت ہے۔

’’شراب ام الخبائث ہے‘‘ اپنی ناک کے نتھنوں کو انگلیوں سے پکڑتے ہوئے صالح نے کہا

’’لیکن مجھے بہت پسند ہے کیونکہ حیات و کائنات رنگین ہو جاتی ہے‘‘ ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اس نے اپنی گردن ہلائی۔

’’نہیں …حیات بدصورت اور کائنات دھندلی ہو جاتی ہے‘‘ صالح نے برجستہ جواب دیا۔

’’بدصورتی تلاش کرنا آسان ہو جاتا ہے‘‘ اس نے نشہ میں جھومتے ہوئے کہا۔

موسم اور شراب کی گرمی سے اس کے چہرے پر پسینہ کی بوندیں ابھر آئی تھیں۔ سبک خرام ہوا کا کوئی خنک جھونکا اس طرح گدگدی کر جاتا کہ لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کبھی پھیل جاتی کبھی سکڑ جاتی

’’شرفاء کی زبان میں یہ عیب جوئی کہلاتی ہے‘‘ صالح نے ٹھہر ٹھہر کر اپنے جملہ کی ادائیگی کی

’’عیب…جوئی…شرفاء…کا…عمل…ہے۔ (چند لمحے خاموشی رہی)…ا…و…ر… میں …بہت کمینہ ہوں‘‘ اس کے جملے کی بے ترتیبی سے نشہ کی شدت کا اندازہ ہو رہا تھا… اس کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ تھی… جواب کی منتظر نگاہیں صالح کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں … لوگ مسکرا رہے تھے چھچورے ٹھاٹھیں مار رہے تھے

’’نماز ہر برائی سے بچاتی ہے‘‘ صالح نے جیسے ہی اسلامی نقطہ نظر پیش کیا لوگ حلقہ بگوش ہو گئے

’’کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں نماز پڑھنا شروع کر دوں؟‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا

’’شراب چھوٹ جائے گی‘‘ صالح نے نرمی سے کہا

دھوپ آہستہ آہستہ پھیل گئی تھی۔ چبوترے کی جانب ابھی گزر نہیں ہوا تھا۔ ہوا کے نرم جھونکے سے لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ موقع محل گفتگو سے ہر شخص محظوظ ہو رہا تھا۔ سب کی نظریں اس کے سرخ چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ غصہ اور نشہ سے اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے گہرے ہو گئے تھے۔

’’میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ آپ میرے ہم پیالہ ہو جائیں، پھر کیوں مجھے اپنے اصولوں سے باندھنا چاہتے ہیں؟ (تھوڑی دیر خاموشی رہی)… یہ تو تنگ نظری ہے!‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔

’’لاحول ولا قوۃ الّا با اللہ‘‘ صالح نے قدرے ترش لہجہ میں کہا

’’مگر میں اتنا بزدل نہیں ہوں کہ آسمان کی جانب دوڑ جاؤں گا اور کوڑے کھاؤں گا …

کھڑے ہوئے لوگ زور زور سے ہنسنے لگے … ’’بھئی میری بات پوری ہونے دو‘‘

’’اچھا بولو…‘‘ چند لوگ ایک ساتھ گویا ہوئے۔

’’دوڑنے کے لیے زمین کافی ہے۔ صالح صاحب آپ آسمانوں کی باتیں کرتے ہیں جیسے زمین چھوٹی پڑ گئی ہو‘‘

صالح تلملا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ آنکھیں سرخ آلود ہو گئیں۔ دھوپ کی سرخی سے تپش بڑھ گئی تھی ہوا تھم گئی تھی۔ تڑک کر بولے ’’زمین پر پڑے گندگی کے ڈھیر کو صرف دکھاتے ہو… اور ہم اسے اٹھانے کی بات کرتے ہیں‘‘ صالح نے قریب پڑے ہوئے مٹی کے ڈھیر پر دھوپ پھیل چکی تھی کی طرف اشارہ کیا

’’انگشت نمائی کرتے ہو، اپنی پاکیزگی کی نمود کرنا آپ کی فطرت ہے‘‘

’’انسان کو عرفان ذات ہونا چاہئے‘‘ صالح نے گردن ہلاتے ہوئے طنز کیا

’’عرفان ذات نہیں۔ اسے خود فریبی کہیے‘‘ اس نے برجستہ کہا

قریب کھڑے ہوئے لوگ خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ ماحول میں سنجیدگی طاری تھی۔ صالح کے چہرے پر سرخی اور ناخوشگواری کے اثرات نمایاں تھے۔ دھوپ کی تمازت بڑھ گئی تھی۔

’’آپ دوسروں کو الم نشرح کرنے سے نہیں چوٗکتے اور اپنے آپ کو الم نشرح کرنے کی جرات نہیں … (تھوڑی دیر خاموشی)… میں بد فعل ہوں‘‘ اس نے سینہ ٹھونک کر کہا

صالح آگ بگولا ہو گیا اور تلملا کر چاروں طرف نگاہیں گھمائیں … آگ کا گولا آہستہ آہستہ سروں کے اوپر کھسک رہا تھا۔ لوگ زیرِ لب مسکرا رہے تھے …دھوپ چاروں طرف پھیل رہی تھی… ماحول میں گرمی آ گئی تھی…

غصہ حرام ہوتا ہے … اور آپ حرام کاری کر رہے ہیں‘‘ اس نے نشتر چبھویا

’’کیا بکتے ہو؟‘‘ ایک زنّاٹے دار تھپڑ اس کے گال پر رسید کر دیا۔ اس کی گونج سے ماحول مکدر ہو گیا لوگوں کے چہروں پر ناخوشگواری اور بے نام خوف کی لکیریں ابھر آئیں … صالح کی سانسیں پھولنے لگیں، پیشانی پر بل آ گئے … ’’نہایت بے غیرت ہیں آپ‘‘ اپنی ٹوٹی ہوئی سانسوں کو سمیٹتے ہوئے سخت لہجہ میں کہا۔

تھپڑ کی چوٹ سہہ کر وہ زہر خند مسکرایا اور آہستہ سے بولا ’’بے غیرت ہوں اسی لیے مجھے غصہ نہیں آیا… چونکہ… یہ حق تو آپ ہی کا ہے‘‘ اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہا… ماحول میں سکوت اور کدورت طاری تھی لوگ دم بخود تھے۔ صالح خاموش کھڑا گندگی کے ڈھیر کو دیکھتا کبھی اس کے چہرے کو گھوٗرتا۔

’’آپ لوگ صرف ناپ تول کرتے ہو… صراط مستقیم پر بھی چلتے ہو… اور ہم ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر چلتے ہیں پھر بھی ٹھوکر نہیں کھاتے‘‘ اس نے اپنے حواس کو سمیٹتے ہوئے صالح کی جانب آنکھوں سے اشارہ کیا جو گندگی کے ڈھیر کو ابھی تک گھوٗر رہا تھا … ارد گرد لوگ دم بخود گھڑے تھے۔

’’ہم ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر بھی سیدھے چلتے ہیں … ایک دن ہوا یوں ایک عورت شرفاء کے مجمع میں شرمسار کھڑی تھی… آنکھوں میں آنسوؤں کا طوفان تھا۔ میں اس طوفان میں ڈوب گیا شرفاء صرف قدرتی طوفان میں ڈوبتے ہیں … پھر ان کے لیے راحتیں آتی ہیں … امداد آتی ہیں … قدرت سے مقابلہ کرنے کے لیے کسرت ہوتی ہے …۔

’’کیسا طوفان؟‘‘ چند لوگوں نے حیرت و استعجاب سے پوچھا

’’در اصل شرفاء کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے … ابھی کچھ عرصہ پہلے گجرات میں تباہی کا طوفان آیا تھا‘‘

’’ہاں …ہاں آیا تھا‘‘ کھڑے ہوئے لوگ ایک ساتھ گویا ہوئے جیسے یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوں

’’اس لیے بھول جاتے ہو کہ صرف خبر یں سننے کی عادت پڑ گئی ہے‘‘ اس نے طنز کیا

’’یاد کرنے کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟‘‘ ایک شخص نے اپنی مجبوری کا اظہار اس طرح کیا کہ سب ہی لوگ اثبات میں سر ہلانے لگے۔

’’گھر جلے، دوکانیں جلیں، کاروبار جلے، آگ کا ایندھن مرد بنے، معصوم بچے بنے‘‘ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا

ماحول میں بے رنگی اور خاموشی طاری ہو گئی۔ لوگوں کے چہروں پر درد و غم کی لکیریں گہری ہو گئی تھی وہ سوچنے لگا عورتیں جلیں …ل…لے …کن یہ کون سمجھائے کہ عورتوں کے جلنے سے مرد بیوہ نہیں ہوتے۔ اگر مرد مرتا ہے تو کسی عورت کا بھائی مرا، بہن اپنے آپ مر جائے گی۔ مرد مرا کسی عورت کا بیٹا مرا، ماں اپنے آپ مر جائے گی۔ مرد مرا کسی عورت کا شوہر مرا، بیوہ اپنے آپ مر جائے گی…۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ایک شخص نے متجسس ہو کر خاموشی توڑی … وہ چونک گیا اور چاروں طرف اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی لوگ اس کی جانب متوجہ تھے اس کی نظر صالح پر مرکوز ہو گئی

’’اس کے گرم گرم آنسو میرے دل پر سیال سیسہ کی طرح پگھل رہے تھے … وہ کیسے بتائے اور کس منہ سے کہے کہ اس کا سب کچھ لٹ گیا؟… لیکن میں اسے لٹنا نہیں کہوں گا؟

’’صالح صاحب آپ کیا کہیں گے؟‘‘ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد اس نے سوال کیا۔

’’لٹنا… قیامت کی تباہی‘‘ صالح کے منہ سے اچانک نکلا

’’یعنی منجانب اللہ‘‘ اس نے طنز کیا

’’ہا…ہاں … اور کیا‘‘ صالح نے کہا

’’بس یہی ہماری کمزوری ہے …‘‘ ایک شخص نے اظہار مجبوری کیا

’’پھر رونا کیسا؟ جو کچھ ہوا بہتر ہی ہوا‘‘ اس نے طنز کیا

مجمع کے قریب لیٹے ہوئے کتّے کا پاؤں دبنے سے بھوٗں، بھوٗں کرتا ہوا اس کی ٹانگ کی طرف لپکا سب لوگ ایک ساتھ کتے پر جھپٹے … مجمع میں کھڑے ایک شخص نے پتھر اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا… وہ کائیں کائیں کرتا ہوا دم دبا کر بھاگا اور دور کھڑے ہو کر بھونکنے لگا۔ اب خاموشی نے فضا میں پنکھ پھیلا دئیے تھے۔ مجمع میں کھڑے ہوئے لوگ ماحول کی پر اسراریت سے مبہوت تھے جیسے کچھ ہونے والا ہے …۔

’’آپ لوگ سچ کو سن رہے ہیں اور وہ لوگ تماش بینوں کی طرح سچ کو دیکھ رہے تھے‘‘

’’ہاں تو… اس عورت کی بات بتائیے‘‘ صالح نے گفتگو کا کنارہ پکڑا

میں نے دیکھا سب ہی لوگ دم بخود حلقہ بگوش کھڑے اس کے چہرے کی جانب دیکھ رہے ہیں میں سوچنے لگا عورت شرفاء کے درمیان کھڑی مدد مانگ رہی تھی پھٹے ہوئے لباس میں جھانکتے ہوئے جسم پر پڑنے والی نظروں سے وہ مادرزاد بر ہنہ ہو گئی تھی۔

’’ہم لوگ ٹنڈ منڈ درخت کی مانند ننگے ہیں، پھر بھی ہواؤں کا سخت طوفان بھی ہمیں جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتا‘‘ اس نے صالح کی طرف کنکھیوں سے دیکھا اور زیر لب مسکرانے لگا

’’کیا ہوا اسے‘‘ مجمع کے لوگ ایک ساتھ بولے

’’فساد کی لٹی پٹی عورت تھی وہ… اور اپنے باپ کے گھر جانا چاہتی تھی‘‘ اس نے کہا۔

’’پھر تم نے کیا کیا‘‘؟ صالح نے چونک کر پوچھا

اس وقت میں نے کہا ’’آپ لوگ اس کے گھر کیوں نہیں پہنچا دیتے‘‘؟

’’کسی خوبصورت، اکیلی عورت کے ساتھ انجان راستوں پر شعلوں بھرا سفر ہوتا ہے … اور ہمارے پاؤں گوشت و پوست کے ہیں‘‘ شرفاء کی ایک ساتھ آواز گونجی

’’مدد کرو، کیونکہ تم ہی کر سکتے ہو، تمہارے آ ہنی پاؤں کس کام آئیں گے‘‘ شرفاء نے سر گوشی کی

’’میرے پاؤں آ ہنی ہیں، اس لیے بہک جاتے ہیں … کیا اُن پر بھروسہ کرو گے؟‘‘ میں نے آہستہ سے کہا

’’بھروسہ… آہنی پاؤں … بہکتے قدم‘‘ شرفاء کے مجمع میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں۔

’’بھروسہ کی بات چھوڑو… اس کی مدد کرو… پُن کا کام ہے‘‘ تماش بینوں نے اپنی بزدلی کا اظہار کیا

’’تم اس خوبصورت عورت کو لے کر گئے …‘‘ صالح نے چونک کر سوال کیا

اس نے صالح کو نظر انداز کرتے ہوئے مجمع پر نظر ڈالی سب ہمہ تن گوش تھے۔ ہونٹوں پر مہر سکوت لگی تھی۔ دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تھی، گرمی کی شدت سے چہروں پر پسینہ کی بوندیں ابھر آئی تھیں

’’پھر تم نے کیا کہا‘‘؟ اچانک ایک شخص نے خاموشی توڑی

’’میں حریص نہیں ہوں … پن تم کماؤ‘‘ اس وقت شرفاء ایک دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے جیسے تم دیکھ رہے ہو۔

اس نے صالح پر آنکھیں گاڑتے ہوئے کہا ہمارے جیسے لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم لوگ ڈھونگ نہیں کرتے … (تھوڑی دیر خاموشی کے بعد)… صالح صاحب رات کو میں رنڈی کی سلطنت میں گیا تھا جہاں مرد ہی جا سکتے ہیں …

اچانک فضا میں قہقہہ گونجا… کچھ لوگ آنکھوں آنکھوں میں کچھ کہنے لگے …بہت کم لوگوں کی نگاہیں ایسے جھک گئیں جیسے بھرے بازار میں کسی لفنگے نے شریف عورت کو چھیڑ دیا ہو۔

وہاں صرف عورت ہوتی ہے … بھارتیہ ناری نہیں ہوتی جس کی عزت لٹ جائے!؟… پوری دنیا اس کا گھر ہوتا ہے …نہ کوئی سرحد نہ بٹوارا… برائی بھلائی سے دُور… صرف ایک مقصد اور ایک منزل … ایک ایسی جمہوریت جہاں پایجامہ کھول کر مذہب نہیں دیکھا جاتا … کیا …کیا ہے وہ … سیکولرزم؟‘‘

قہقہوں کا شور فضا میں گونج گیا ’’پاگل ہے …دیوانہ ہے‘‘ کی تکرار اس کے کانوں میں آنے لگی ماحول میں معنی خیز سکوت طاری ہو گیا

’’اس عورت کا کیا ہوا‘‘؟ صالح نے متجسس ہو کر پوچھا

اس عورت نے مجھ سے کہا ’’مجھے اپنی کائنات میں لے چلو جہاں عورت کو صرف عورت سمجھا جائے۔ ان ہیجڑوں کی دنیا سے میں تنگ آ چکی ہوں …جہاں گؤ کشی کی مذمت اور انسان کشی کی حمایت کی جاتی ہے۔ جہاں مصلحت اور تقاضوں کے درمیان مرد، نامرد ہو جاتے ہیں اور عورت رنڈی بنا دی جاتی ہے … میرا فساد میں سب کچھ لٹ گیا…

’’کون تھی وہ عورت؟‘‘ صالح نے چونک کر پوچھا۔ پورا مجمع خاموش تھا… ماحول میں ہیجانی سی کیفیت طاری تھی۔

’’جن جنی… اور کون! ایک ہی طرح کے درد زہ سے پیدا ہونے والی نسل کی ماں‘‘ اس نے کہا

’’میرا کیا قصور تھا؟‘‘ اس عورت نے سوالیہ نگاہ مجھ پر ڈالی

’’نہیں …نہیں‘‘ اس کے علاوہ میں کچھ نہ کہہ سکا

’’سسرال والوں کی نظروں سے میں گر گئی‘‘ اس کی سانسیں ٹوٹ چکی تھیں

میں خاموشی سے اسے گھورتا رہا… میری آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں

’’اس وقت معصوم بچے چیخ رہے تھے ہمیں بچا لو… ہمیں بچا لو… (چند سانس لینے کے بعد) …میں سوچتی ہوں اگر وہ بچ بھی گئے تو اس بھیانک منظر کو دیکھنے کے بعد وہ اپنی ماں کا سودا کرنے کے لیے بھڑوے بن جائیں گے … اس کی چھاتی پر دودھ کی جگہ خون اور پیپ کی ندیاں بہائیں گے …

’’دہشت گردی دہشت گرد پیدا کرتی ہے‘‘ مجمع میں کھڑے لوگوں نے ایک ساتھ کہا

’’جے بولو دھرتی ماں، جے بولو دھرتی ماں …جے بجرنگ بلی… نعرہ تکبیر اللہ اکبر …ہم رام راجیہ بنائیں گے …‘‘ کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں آہ وبکا اور چیخ و پکار کی دردناک آوازیں دب گئی تھیں …‘‘ کہتے کہتے اس عورت کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہنے لگے۔

’’پھر اس عورت کا کیا ہوا‘‘؟ حیرت زدہ مجمع نے پوچھا

میں نے عورت سے کہا ’’یہ شرفاء لوگ ہیں جو گاندھی جی کے تین بندروں کی طرح گونگے، بہرے اور اندھے ہوتے ہیں …یہ لوگ اخبار پڑھیں گے … رونے کا ڈھونگ کریں گے …‘‘

’’بعد میں اپنے ڈھونگ کا احسان جتائیں گے‘‘ ایک شخص نے قطع کلامی کی مجمع کے لوگ دم بخود پسینہ میں شرابور تھے۔ دھوپ کی تمازت کے باوجود سب ہی متجسس تھے وہی کتا مجمع کے قریب سے زبان لٹکائے ہانپتا کانپتا گزرا اور قریب ہی پڑے کوڑے پر نمی لینے کے لیے پسر گیا۔ اچانک بدبو کا بھبوکا اٹھا سب ہی لوگوں نے کراہیت سے آنکھیں اٹھائیں اور ناک کے نتھنوں پر اپنی اپنی انگلیاں رکھ لیں … چاروں طرف جلتے ہوئے گوشت کی چراند اٹھنے لگی۔ لوگوں نے گھبرا کر اسے دیکھا وہ مجمع پر نگاہیں گاڑے کھڑا تھا۔

’’پھر اس عورت کا کیا ہوا؟‘‘ صالح نے پوچھا

جیسے ہی میں نے چلنے کے لیے قدم تیزی سے بڑھائے۔ وہ عورت سر پٹ میری جانب دوڑی اس کی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں … مجمع یوں ہی بے حس و حرکت دیکھ رہا تھا جیسے آپ لوگ سن رہے ہیں۔

’’کوئی مدد نہیں کی؟‘‘ سب نے حیرت پوچھا

سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے … ’’صالح صاحب …میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا… جیب خالی تھی… میں نے عورت کے سر کی چادر بچھا دی… وہ عورت میرے قریب اکڑوں بیٹھ گئی… شرفاء آہستہ آہستہ چلے گئے چادر خالی رہی… عورت کی بے چادری کام میں نہیں آئی… اس کے چہرے پر مایوسی کی لکیریں تھیں … میں نے چادر اس کے جسم پر لپیٹ دی

’’تمہیں تو ننگے جسم دیکھنے کی عادت ہے‘‘ عورت بدبدائی

’’لیکن میں ننگی روح دیکھنے کا عادی نہیں ہوں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا

’’میری روح تو کب کی مر گئی… جسم باقی رہ گیا ہے … (چند لمحے بھیانک خاموشی رہی)… مجھے اپنی دنیا میں لے چلو‘‘ اس نے انکساری اور مایوسی کے لہجہ میں کہا

’’پھر باپ کے گھر …‘‘

اس نے قطع کلامی کی ’’کیا لے کر جاؤں گی؟‘‘

مجمع حیرت و استعجاب کا مجسمہ بن گیا … دھوپ مکمل چبوترے پر پھیل چکی تھی۔ خاموشی اور گرمی کی سختی میں اضافہ ہو گیا تھا۔

اس وقت نووارد بوجھ کے احساس سے تذبذب میں مبتلا ہو گیا تھا… سوچنے لگا جسم مادی ہے اور جب روح جیسی پاکیزہ شے ننگی ہو گئی تو خوبصورت جسم کو چاٹنا تھوڑی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا اس کا کرایہ مل جائے گا اپنی شراب کے پیسے سیدھے ہو جائیں گے۔

’’تو کیا تم نے اسے بیچ دیا؟‘‘ مجمع نے چونک کر پوچھا

اسی لمحہ غیب سے آواز آئی ’’جسم لٹ گیا…اب روح تار تار ہو گی‘‘ …ابھی سوچ کے سمندر میں ڈوبا تھا کہ اچانک اچک کر پنجوں کے بل اس طرح کھڑا ہو گیا جیسے ندی کے پانی نے اچھال دیا ہو اور بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’’پا لیا… پا لیا …پا لیا‘‘

’’پھر کیا کیا تم نے؟‘‘

’’صالح صاحب! میں نے اس عورت کے سر اور گھٹنوں پر لال رنگ کا پھایا رکھا اور گندی اور بھدّی پٹیاں باندھیں … عورت کو گود میں اٹھا کر فٹ پاتھ پر بیٹھا دیا۔

’’بھائیو ہم جان بچا کر گجرات سے بھاگے ہیں …ہمارا سب کچھ لٹ گیا … ہماری مدد کرو‘‘ کی صدائیں شام تک گونجتی رہیں … تھکا ماندہ سورج بادلوں کی سرخی میں ڈوب گیا تھا… سرمئی چادر آسمان پرتن گئی تھی۔

’’میں گھر نہیں جانا چاہتی‘‘ عورت نے بچھی چادر سمیٹتے ہوئے التجا کی

’’وہ کون تھی؟‘‘

اس نے جھٹکے کے ساتھ مجمع کو قہر آلود نظروں سے دیکھا… ’’وہ عورت تھی…‘‘

’’اس کا مذہب…؟‘‘

’’مرد اور عورت کا ہونا کسی مذہب کا عمل یاردّ عمل نہیں ہوتا … ان کے درمیان کا رشتہ بے نام ہوتا ہے جو کسی گو دھرایا گجرات کا رد عمل نہیں ہوتا‘‘ اس نے صالح کی قطع کلامی کرتے ہوئے کہا

گرمی اور دھوپ میں کھڑے ہوئے لوگ حیرت زدہ تھے اور مبہوت ہو کر اس کے ہونٹوں کی ہر حرکت اور جنبش کی جانب متوجہ تھے

’’پھر وہ عورت…؟‘‘

عورت ٹرین میں بیٹھ چکی تھی… ٹرین کی رفتار کے ساتھ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی… غیر ارادی طور پر میرا دایاں ہاتھ فضا میں حرکت کرنے لگا … آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آنکھوں کی حدود سے نکل کر ریل اندھیرے میں ڈوب گئی تھی…بہت دور پٹریوں کے دونوں جوانب پول لائٹ جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی تھی۔

٭٭٭

فیصلے کے بعد

آفتاب زوال کی طرف مائل ہو کر در خاور میں روشنی سمیت سمٹ گیا باہر شفق رہ گئی بالکل اکیلی تنہا سوگ میں ڈوبی ہوئی شفق ہلکی سیاہی اور پھر گہری سیاہی میں تبدیل ہو کر کائنات پر لپٹ گئی ہے۔ ردائے آسمان پر ستارے ٹنک گئے ہیں۔ وہ جدید طرز کے ڈرائنگ روم سے اٹھ کر ڈریسنگ روم کی جانب چلی… دائیں طرف سیف میں اپنے ملبوسات کو قرینہ سے رکھتے ہوئے اسکائی کلر کی نائٹی پہن سنگار دان کے قد آدم آئنہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ہیر برش سے اپنے بالوں کو آراستہ کرتے سمے اس کی نظر مانگ کے بیچوں بیچ گئی بکھری ہوئی خاک اس کی آنکھوں میں بھر گئی۔ مچ مچاتی آنکھوں کو میڑا… آنکھیں بھیگ گئیں موتی پگھل پگھل کر گرنے لگے …کمرے کی بائیں دیوار سے سٹی ہوئی مسہری کے سرہانے ریک پر رکھے فریم سے جھانکتی ہوئی تصویر دھندلی نظر آ رہی ہے۔ اب سے دس سال پہلے اس کی خوبصورتی جوانی کی محتاج نہیں تھی حالانکہ دس سال کا عرصہ بوڑھا ہونے کے لیے بہت مختصر ہوتا ہے۔ پھر بھی اس مختصر وقت میں زندگی کے نہ جانے کتنے نشیب و فراز دیکھے مگر آنکھ سے کبھی آنسو نہیں ٹپکا۔ فریم میں جڑی تصویر آئنہ کی عکسی تصویر پر قہقہہ لگا رہی ہے وہ ان قہقہوں کے درمیان سہمی ڈری تنہا کھڑی ہے۔ زمین مسلسل اپنے محور پر آفتاب کے اِرد گِرد چکّر لگا رہی ہے اس کا سر گھوم رہا ہے۔ چھت پر ٹنگا پنکھا ایک ہی سمت گھوم رہا ہے۔ وہ سوچتی ہے آفتاب غروب ہو گیا۔ اپنے پیچھے شفق چھوڑ گیا… اور اب اندھیرا ہو گیا۔ ستارے ٹمٹمانے لگے … ذہن میں جگنو اڑنے لگے، ہلکی روشنی کی چمک کبھی گھپ اندھیرا…

’’آفتاب اور شفق کے بیچ روشنی کا رشتہ ہے‘‘ میں نے کہا تھا

’’شفق کیسی باتیں کرتی ہو؟‘‘ آفتاب نے مسکراتے ہوئے باہیں پھیلا دیں اور میں بھی اس کے اندر روشنی کی طرح سما گئی… اچانک فریم میں رکھی ہوئی تصویر پر نظر گئی آفتاب اپنی شفق کو باہوں میں سمیٹے مسکرا رہا ہے … روشنی کے پھوارے چاروں طرف پھوٹ رہے ہیں۔

’’آفتاب، شفق، شب و روز، چاند ستارے ان سب ہی کے درمیان روشنی مشترک ہے‘‘ اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا

’’لیکن اس میں شب کہاں سے آ گئی‘‘؟ … اُسی لمحہ اس کی نگاہ آئینہ پر گئی کالی رات کی مانند سیاہ بالوں میں خاک جیسے چندر گرہن، اس کی آنکھیں و رشا میں ڈوب گئیں۔

’’میں تیرا کل ہوں‘‘ عکس تصویر کے ہونٹوں پر جنبش ہوئی

چاروں طرف ایک شور کے درمیان خوف ناک گونج۔ آنسوؤں کی بوندیں سیاہ حلقوں سے نکل کر اس کے رخساروں پر پڑی ہوئی لکیروں میں اٹک گئیں جو کچھ دیر پہلے آنکھوں میں قید تھیں لیکن آنسو تو بے ارادہ نکلتے ہیں۔ اس نے ہتھیلیوں سے پونچھنا چاہا انہیں اور بھی بہنے کا موقع مل گیا … کوئی دوسرا نہیں ان کو سمیٹنے والا۔ کس کے کاندھے پر سر رکھ کر روئے۔

زندگی کا اکیلا پن کتنا سنگین ہوتا ہے …کوئی مجھ سے پوچھے … مگر کون پوچھے؟ اس کی نگاہ مسہری پہ رکھی تصویر پر گئی۔

زندگی…تنہائی…آزادی‘‘ فریم کے اندر سے آفتاب مسکرایا

وہ سوچتی ہے حقوق کی جنگ میں زندگی ہار گئی ہوں اور تنہائی ملی ہے آزادی کی جد و جہد میں … جہاں سے شروع وہیں ختم سی جیسے آفتاب نصف النہار پر رک گیا ہو… وہ الٹے پاؤں چلنے لگی بہت دوٗر پیچھے کی طرف۔

’’دیکھو آفتاب میں نے اپنے باپ سے وہ پایا جو میں نے چاہا‘‘ ایک کنکر سمندر میں پھینکا، پانی میں لہریں اٹھیں اور ساحل پر ڈوب گئیں۔

’’یہی ان کا مقدر ہے‘‘ کنکر پانی میں اچھالتے ہوئے آفتاب نے دائروں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جن کے بیچ کنکر گرا اور تہہ آب ہو گیا۔

میں سمجھی نہیں‘‘

’’اگر انسان کو اس کی فطرت کے مطابق زندہ رہنے کا موقع مل جائے تو یہ زندگی کی معراج ہے‘‘ اس نے ریت پر ایک دائرہ کھینچا۔ درمیان میں کنکر رکھا یہ تم ہو اور یہ دائرہ میں ہوں۔ تم مرکز اور میں حصار… میرا وجود بے معنی ہے تمہارے بغیر اور چہرے سے بال ہٹانے لگا۔

’’بس مجھے یہی چڑ ہوتی ہے … تم حصار‘‘

’’حصار نہیں … محافظ‘‘ آفتاب ہنسنے لگا اور اس کے قہقہوں کی گونج میں شفق کا احساس کمزوری قوی تر اور چہرے کا رنگ گہرا ہونے لگا

’’یعنی ہم کمزور ہیں‘‘ شفق کی جھنجلاہٹ بڑھنے لگی

’’یہ کس نے کہا‘‘ آفتاب کا استفہامیہ انداز۔ چند لمحے خاموشی طاری رہی سمندر کے کنارے ریت چاندی کے برادہ کی مانند چمک رہی تھی۔ ردائے آب پر سلوٹیں بکھری تھیں، دھوپ چاروں طرف چٹک رہی تھی۔ ہوا کی سبک خرامی سے پانی کی سطح پر معمولی سی حرکت ہوتی اور دائرے بنتے اور ڈوب جاتے۔

’’مطلب تو یہی ہے‘‘ شفق نے کہا

’’در اصل ہم آپ کی عزت اور طاقت، آپ کی فطرت کے دائرہ میں تسلیم کرتے ہیں‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا

’’کہاں تسلیم کیا؟‘‘ اچانک اس کے منہ سے نکلا۔ خاموشی ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگی۔ کمرے میں اس کی آواز کی گونج دیواروں سے ٹکرا کر کانوں میں واپس ہونے لگی اس کی نظر دیو قامت آئنہ پر گئی اپنا بوسیدہ چہرہ دیکھ کر بے چین ہو گئی۔

’’تمہارا چہرا تازہ گلاب کی طرح مہکتا ہے‘‘ آفتاب نے کہا تھا

’’میں گلاب رنگ شفق ہوں‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا

’’کیوں نہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہو جائیں‘‘ آفتاب نے سنجیدگی اختیار کی

’’ایک دوسرے کے ہونے میں کوئی شبہ‘‘؟

’’اس کے لیے ایجاب و قبول کی ضرورت ہوتی ہے جسے تم رسمی چیز کہتی ہو‘‘ آفتاب نے کہا تھا

اچانک اس کی نظر آئینہ پر گئی۔ صاف و شفاف آئینہ سے وہ غائب ہو چکی تھی اور آفتاب آئینہ کی اوٹ سے جھانک رہا تھا چاروں طرف اجالا سا پھیل گیا۔ اندھیرا سناٹے کے ساتھ اوجھل ہونے لگا…

’’کیا عورت کی ہر بات مان لینا اس کی حفاظت کرنا ہے؟… آفتاب بولو… اب میں کیا کروں؟… دوسروں کی حفاظت کرتے کرتے میں خود غیر محفوظ ہو گئی ہوں‘‘۔

’’تم تو آزادی نسواں کی مجاہد ہو… عورتوں کے حقوق کے لیے جہاد کرتی ہو‘‘ عکسی تصویر نے طنز کیا۔

وہ تلملا گئی… کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی… سنگار دان کے آئینہ سے آفتاب اب بھی جھانک رہا ہے … ہونٹوں پر طنز بھری مسکراہٹ، آنکھوں میں زہریلی شرارت ہے

’’تم نے مجھے قبول کیا تھا……

آفتاب نے قطع کلامی کی ’’کیا برا کیا؟‘‘

’’عورت کی تخلیق ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے … اسے سیدھا کرنے میں سختی برتی گئی تو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے … ا…و…ر… اور میں ٹوٹ گئی ہوں … قید ہو گئی ہوں آزادی کی جد و جہد میں …‘‘ اس نے اپنے آنسوؤں کو سمیٹتے ہوئے … آئینہ کو دیکھا… آئینہ صاف ہو چکا تھا اور وہ کمرے کی خاموشی کے ساتھ اکیلی رہ گئی ہے … اس رات کی طرح!؟

مارچ کی خوشگوار رات تھی۔ سبک خرام ہوا کی چلت پھرت سے گلابی سردی کا احساس جاگ رہا تھا۔ پلنگ صحن میں نکل آئے تھے۔ قریب ہی آفتاب میرے دائیں طرف دراز تھا۔ میری نگاہ آسمان کی اونچائی پر مرکوز تھی۔ ستارے اپنی بلندی پر مدھم روشنی سے تابندہ تھے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ سیڑھیوں پر چڑھ کر آسمان کو چھو لوں اور ستارے اپنے دامن میں بھر لوں

’’شفق دنیا کو حقوق ہی دلاتی رہو گی، تمہارے اپنے بچے کے لیے بھی کچھ فرائض ہیں‘‘ آفتاب کے الفاظ گرم سیسہ کی طرح میرے کانوں میں پگھلنے لگے

’’تمہارا بھی کوئی فرض ہے‘‘

’’ہاں … ہاں کیوں نہیں … نان نفقہ کا خیال رکھنا‘‘

میرے بدن میں آگ لگ گئی سوچنے لگی کتنے کم ذات ہوتے ہیں یہ مرد! اگر کماتے ہو تو کیا احسان کرتے ہو؟ ٹھیک ہے میں بھی سروس کروں گی‘‘

’’یہ میں نے کب کہا‘‘؟

’’کیا بات ہے عورتیں سروس نہیں کر سکتیں‘‘؟

’’ہماری بنیادی ضرورتیں پوری ہو جائیں تو عورتوں کا سروس کرنا کوئی ضروری نہیں ہے‘‘

’’بنیادی ضرورتوں کے علاوہ اور بھی ضرورتیں ہیں‘‘

’’تمہاری ذمہ داری ہے کہ بچے کے روشن مستقبل کے بارے میں سوچو، اگر تم اس جد و جہد میں کامیاب ہو گئیں تو سمجھو تم نے ملک و قوم کے ایک اہم تقاضہ کو پورا کیا‘‘ آفتاب نے سنجیدگی اختیار کی

’’مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، میرے حقوق کیا ہیں؟ میں اچھی طرح جانتی ہوں‘‘

’’مگر تم اپنے فرائض نہیں جانتی‘‘ آفتاب نے ترش لہجہ میں کہا

’’شوہر کے ہاتھ پاؤں دباؤں، بچوں کو دودھ پلاؤں، چولھا جلاؤں‘‘

’’کوئی برائی نہیں‘‘ آفتاب نے ہنستے ہوئے کہا۔ آفتاب جتنا ہنس رہا تھا… شفق اسی قدر سرخ ہو رہی تھی

’’عورت ضرور ہوں لیکن کمزور نہیں ہوں‘‘ اس نے نہایت ترشی سے کہا اور اس کی چیخ قہقہوں کی گونج میں لپٹ گئی

اس کی آنکھیں بھیگ گئیں فوٹو فریم سے نکل کر آفتاب اس کے قریب بیٹھ گیا … قہقہوں کی گونج سے کمرے کا سناٹا ٹوٹ گیا

’’آفتاب میں ٹوٹ گئی ہوں، آج بھی تم میرا مذاق اڑا رہے ہو‘‘ اس نے بجھے ہوئے لہجہ میں کہا

’’تم نے خود اپنا مذاق بنایا ہے‘‘ یہ کہہ کر آفتاب سٹ سے فریم میں بیٹھ گیا … وہ چونک گئی، چاروں طرف کمرے میں نگاہ گھمائی… وہ اکیلی ہے … اچانک اس کی نظر آئینہ پر گئی اس کا چہرہ کھوسٹ سا نظر آیا… اس نے سہم کر نظر ہٹا لی اور نظر مرکوز ہو گئی گذشتہ ایک شام پر …شام ہونے سے پہلے وہ جلد لوٹ آئی تھی۔ آفتاب بھی آفس سے لوٹ آیا تھا۔ اس نے مسکرا کر میرا خیر مقدم کیا…

’’چائے کی طلب ہو رہی ہے‘‘ آفتاب بینت کی کر سی پر بیٹھا تھا ’’آج میں بہت تھک گئی ہوں، سوسائٹی کی میٹنگ میں میری ایک سہیلی برجس طلاق کیس پر بڑی گرما گرم بحث تھی‘‘ میں سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہمارے درمیان میز تھی۔ میز پر چندر سائل اور اخبار پڑے تھے۔ آفتاب کچن میں چلا گیا … میں اخبار کو الٹ پلٹ کرنے لگی

’’کیا طے کیا گیا‘‘؟ آفتاب نے میز پر چائے رکھی

’’ہم عدالت کے فیصلہ کی تائید کرتے ہیں ایسا بیان اخبار میں دیا جائے گا‘‘ میں نے کہا تھا

’’اگر طلاق سخت ہو گئی، نہ جانے کتنی عورتیں نذر آتش ہو جائیں گی‘‘ آفتاب نے جواب دیا

’’لیکن طلاق کو اتنا نرم بھی نہیں ہونا چاہئے کہ جب جی چاہے مرد عورت کو لولی پاپ کی طرح اگل دے‘‘

’’مردوں نے طلاق کو جتنا آسان سمجھ رکھا ہے حقیقت میں اتنا آسان نہیں ہے‘‘ آفتاب نے سنجیدگی سے کہا

’’اسی لیے مردوں کے لیے کچھ پابندیاں عائد ہونی چاہئے‘‘

’’اصولوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت بے معنی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج میں تبدیلی لائی جائے‘‘ آفتاب نے کہا

’’اگر اصول غلط ہوں تو‘‘

’’سنو ہر چیز کو ناپنے کا ایک اسٹینڈرڈ پیمانہ ہوتا ہے۔ اگر اشیاء کی تول میں کوئی فرق ہے تو پیمانہ بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں ہمیں صحیح تول کے لیے اشیاء کو گھٹانے بڑھانے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے وہیں ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ تولنے والے کی نیت کیسی ہے؟‘‘ آفتاب نے چائے کی چسکی بھری اور پیالی کو پلیٹ میں رکھ کر میرے سرخ چہرے کو دیکھ کر مسکرانے لگا تھا۔

’’تم آفتاب کبھی سنجیدہ ہو جایا کرو، اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے‘‘

’’شفق تم سرخ ہو رہی ہو، بس یہی فرق ہے۔ ہم متوازن اور تم انتہا پسند ہو‘‘ آٖفتاب نے کہا

’’جی ہاں، ہم اس لیے انتہا پسند ہیں کیوں کہ حق پسند ہیں اور تم متوازن ہو اس لیے کہ مصلحت پسند ہو‘‘ میں نے طنز کیا۔

’’یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر انتہا پسند، حق پسند ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر متوازن، مصلحت پسند ہوتا ہے‘‘ آفتاب نے کہا تھا

’’اچھا‘‘ میں تلملا گئی تھی۔ میری زبان گونگی ہو گئی

’’ہاں‘‘ آفتاب مسکراتے ہوئے فریم سے نکل آیا۔ اور شفق کے قریب بیٹھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ جھیل جیسی گہری آنکھوں میں سیل رواں جاری ہے۔ کمرے میں خاموشی طاری ہے۔ سنگار دان کا قد آدم آئینہ سچ بول رہا ہے

’’آفتاب تم بھی میری طرح بوڑھے ہو گئے ہو‘‘

’’آفتاب کبھی بوڑھا نہیں ہوتا‘‘

’’اور شفق؟‘‘

’’کبھی گہری، کبھی ہلکی اور کبھی غائب‘‘ آفتاب کہہ کر غائب ہو گیا اور فریم میں داخل ہو گیا… شفق چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ رات گہری ہو رہی ہے۔ باہر کتوں کی بھٗوں بھٗوں کمرے میں گونج رہی ہے اور آفتاب کی آوازیں اس کا پیچھا کر رہی ہیں۔

’’حقوق اور فرائض کی تقسیم میں قدرت نے ہر جاندار کی فطرت کا خیال رکھا ہے۔ اگر تمہیں بائیں پسلی سے پیدا کیا ہے تو صاف ظاہر ہے تمہارے حقوق مرد کے کاندھے تک پہونچتے ہیں‘‘ آفتاب نے کہا تھا

’’سر تک کیوں نہیں‘‘؟ میں نے قطع کلامی کی

’’تم جو سوچتی ہو، بغیر دلیل اسی کو حق سمجھتی ہو۔ ہم دور اندیش ہوتے ہیں اس لیے طلاق دینے کا حق مردوں کو حاصل ہے‘‘ آفتاب نے اپنی بات پوری کی

’’اچھا‘‘

’’جی ہاں!…اچھا چھوڑو… میٹنگ میں کیا ہوا؟‘‘ آفتاب نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا تھا

’’عرفان نے بصیرت افروز تقریر کی، اس نے کہا تاریخ گواہ ہے عورتوں کے ساتھ ہر دور میں ظلم ہوئے، دورِ جہالت میں لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا… عورتوں کو ستی کیا جاتا تھا…

’’آج بھی ستی کیا جاتا ہے … اور آئندہ نذر آتش کیا جائے گا‘‘ آفتاب نے قطع کلامی کرتے ہوئے طنز کیا

میں نے آفتاب کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا ’’پلیٹو عورتوں اور مردوں کو مساوی حقوق دینے کی بات کرتا تھا لیکن وہ بھی عورتوں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہوئے نہیں چوکتا۔ افزائش نسل کے لیے وہ حکمراں طبقہ کے مرد اور عورتوں کو جانوروں کی طرح کا نجی ہاؤس میں ایک جگہ رکھنا چاہتا تھا‘‘

’’آج بھی ہر مرد پلیٹو کی طرح عورت کو فریب دے رہا ہے آزادی کا ڈھونگ رچا کر‘‘ آفتاب نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا

’’وہ کیسے؟‘‘

’’مرد آزادی نسواں کی آڑ میں، نوکری کرا کر اپنے کاندھے کا بوجھ بڑی چالاکی سے آدھا کر لیتا ہے لیکن عورت کے بوجھ کو اس نے آج تک ہلکا نہیں کیا۔ (تھوڑی دیر وقفہ کے بعد)… دردِ زہ میں عورت تڑپے گی، بچوں کو عورت ہی پیدا کرے گی، دودھ بھی عورت پلائے گی، کھانا بھی عورت ہی پکائے گی، آفتاب نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

اس وقت لاجواب ہو کر میں خاموش ہو گئی تھی… اور اب… خاموشی تو اب بھی طاری ہے … زندگی جیسے سناٹے میں ڈوب گئی ہو، کمرا خاموش ہے قد آدم سنگار دان تابوت کی طرح چُپّی سادھے کھڑا ہے، شمشان کی ہولناکی میرے چاروں طرف چھائی ہے

’’میں نے سچ کہا تھا‘‘ ایک آواز

’’ہاں تم نے سچ کہا تھا‘‘ ایک آواز کمرے میں گونجی اور دیواروں سے ٹکرا کر اسی کے کانوں میں داخل ہو گئی۔ اس کی نظر آئنہ پر گئی آفتاب جھانک رہا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے

وہ تلملا گئی ’’ہنسو… اور زور سے ہنسو‘‘ تقریباً وہ چیختی ہوئی بولی۔ آواز کمرے میں گونج گئی۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس نے اپنی ہتھیلیوں سے آنسو صاف کئے۔ سوچتی ہے ہنسنے کی آرزو میں، میں آنسوؤں کے زنداں میں قید ہو گئی ہوں۔

ایسی ہی سخت سردی کی رات تھی میں دیر رات گئے واپس ہوئی آفتاب اپنے بستر پر مسہری کے سرہانے کمر لگائے بیٹھا تھا اور کسی کتاب کے مطالبعہ میں منہک تھا اس نے مجھے دیکھا اور کتاب بند کر کے اپنے ہی قریب رکھ لی۔ زمین پر رکھے روم ہیٹر پر ہاتھ سیکنے لگا۔ کتاب پر نظر گئی کامو کے مشہور ناول ’’outsider‘‘ کے عنوان پر جم گئی۔ کپڑے change کئے چائے کا پانی گیس پر رکھا اور اس کے قریب بیٹھ گئی

’’میں بھی outsider سی ہو گئی ہوں‘‘

’’میں ایسا محسوس نہیں کرتا؟‘‘ آفتاب نے مسکراتے ہوئے کہا تھا

چند لمحات کے لیے کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی

’’تم آزاد ہو۔ آزادی کے لیے لڑتی ہو۔ پھر کمی کس بات کی ہے‘‘ آفتاب نے خاموشی کا سلسلہ توڑا

’’ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔ مگر پھر بھی دل پر ایک بوجھ رہتا ہے‘‘

’’کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم دونوں اپنی اپنی فطرت کے خلاف زندگی جی رہے ہوں‘‘ آفتاب نے مسکراتے ہوئے چٹکی لی

’’وہ کیسے؟‘‘ ترش لہجہ

دیکھو پانی ابل رہا ہے، اسمیں چینی اور پتی ڈالو، کہیں بکھر نہ جائے‘‘ آفتاب نے آنکھ دباتے ہوئے اشارہ کیا

پانی میں چینی اور پتی ڈالی، دیگچی نیچے اتاری دودھ اس میں انڈیلتے ہوئے ’’تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا‘‘

’’تمہاری آمد کا انتظار کرتا ہوں، تمہیں خوش آمدید کرتا ہوں، تمہیں دیکھ کر مسکراتا ہوں‘‘ آفتاب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا

’’ہاں انتظار کرنا، مسکراتے ہوئے میرا استقبال کرنا مرد کی فطرت کے خلاف ہے‘‘ سخت لہجہ

’’شفق… کم از کم آفتاب کے لیے‘‘ ایک طنز۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد (اس درمیان پیالی میں چائے انڈیل کر دی)

’’شفق آج کیا ہوا‘‘ آفتاب نے چائے کی پلیٹ بائیں ہاتھ میں لی اور دائیں ہاتھ سے پیالی ہونٹوں تک لے گیا

’’آزادی نسواں پر جلسہ تھا‘‘

’’یقیناً تحریک چلانی چاہئے۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے‘‘ آفتاب نے کہا اور اپنی گردن طنزیہ انداز میں ہلائی

’’لیکن عورت ہمیشہ اس حق سے محروم رہی ہے‘‘

’’بے شک‘‘ (تھوڑی دیر خاموشی) ’’مگر آزادی کے لیے کچھ پابندیاں بھی ہونی چاہئے‘‘ آفتاب نے سنجیدگی سے کہا

مجھ کو محسوس ہوا تھا کہ آفتاب میرے اوپر طنز کر رہا ہو… اور میں تلملا گئی تھی ’’تم میری آزادی اور ترقی سے جلتے ہو‘‘ میں نے نہایت سپاٹ انداز میں کہا

’’نہیں …نہیں …یہ کس نے کہا؟۔ تمہاری ترقی میری ترقی ہے … اور ’’آزادی‘‘۔ تم آزاد ہو کب؟ صبح سے شام تک مصروف رہتی ہو‘‘ آفتاب مسکرایا

اس نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی، آفتاب فریم میں مسکرا رہا ہے۔ رات کا اندھیرا گہرا ہو رہا ہے سوچتی ہے میری زندگی بھی رات کی مانند سیاہ اور سونی ہے۔ رات صبح کے تارہ کی منتظر ہے … رات کے اندھیرے کو آفتاب کی پہلی کرن کاٹ دے گی لیکن میرے مقدر میں نہ صبح کا تارہ ہے نہ آفتاب کی پہلی کرن ہے … آفتاب اپنی مسکراہٹ کے ساتھ فریم سے غایب ہو گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہو گیا … وہ اپنے بستر سے اٹھی… شاید لائٹ چلی گئی‘‘ وہ بد بدائی… انورٹر Inverter کا سوئچ آن کیا … اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی… لیکن وہ پھر گذشتہ زندگی کے اندھیرے میں ڈوب گئی۔

’’یہ ظلم نہیں ہے، کہ مرد کے لیے چار بیویاں جائز اور عورت ایک مرد کے حصار میں قید‘‘ آفتاب قہقہہ مار کر ہنسا… اور قدرے سنجیدہ ہو کر … اچھا شفق ایک بات بتاؤ اگر ایک، عورت ایک سے زائد مردوں سے شادی کر لے۔ کیا کوئی عورت یہ بتا سکتی ہے کہ اس کے رحم میں کون سے مرد کا قطرہ پل رہا ہے اور اگر وہ جان بھی لے تو کون سا مرد اس پر یقین کرے گا… پھر بعد میں اس کی کفالت کی ذمہ داری کون لے گا‘‘

اس وقت میں لاجواب ہو کر رہ گئی تھی اور حیرت زدہ ہو کر آفتاب کا منہ تکنے لگی… کمرے میں خاموشی طاری تھی… چائے کی چسکیوں سے خاموشی ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی تھی۔ میں نے چائے کا ایک گھونٹ سپ کیا۔

آفتاب نے پیالی پلیٹ پر رکھتے ہوئے کہا، اس بات پر لڑو، آج کے زمانے میں ایک سے زائد بیویوں کی کفالت کرنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے مردوں کو چاہئے کہ وہ ایک ہی شادی کریں‘‘ آفتاب نے قہقہہ لگا یا۔ کمرے میں قہقہوں کی گونج پھیل گئی تھی۔

چند لمحے بعد سمندر جیسی خاموشی پھر کمرے میں طاری ہو گئی۔ آفتاب نے پیالی پلنگ کے نیچے رکھی۔ کھٹ کی آواز نے خاموشی کو توڑ دیا۔ میں اٹھی دونوں پیالیوں کو ایک طرف رکھا اور ہیٹر پر ہاتھ سینکے لگی۔ آفتاب بھی ہاتھ سیکنے لگا۔ آفتاب نے میرے ہاتھوں کو سمیٹنے کی کوشش کی اور پیار سے مجھے گھورنے لگا۔ ہیٹر کی تپش میں اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ میں نے جھٹکے کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو کھینچ لیا ’’آج میں تھک گئی ہوں۔ نیند آ رہی ہے‘‘

’’تم روز ہی تھک جاتی ہو‘‘ آفتاب کا چہرہ اتر گیا تھا۔ اس نے قریب رکھی کتاب اٹھائی ’’outsider‘‘ بے اختیار منہ نے نکلا۔ میں نے اس کی آواز ان سنی کرتے ہوئے اپنے بستر کی راہ لی…۔

اچانک اس کی نظر فوٹو فریم پر گئی۔ آفتاب مسکرا رہا ہے … اس نے فریم اٹھایا شیشہ پر جمی دھول کو بڑے لاڈ سے صاف کی ’’آفتاب تم نے جب ہاتھ پکڑا تھا تو سختی سے تھامے کیوں نہیں رکھا‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں …‘‘ آفتاب تمہیں یاد ہو۔ تم نے نہر کے کنارے ریت پر ایک دائرہ بنایا اور درمیان میں کنکر رکھا ’’یہ تم ہو‘‘ دائرے کی طرف اشارہ کیا ’’یہ میں ہوں‘‘ …… ’’تم نے جھوٹ بولا تھا‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ تیز آواز میں نکلا… آواز کمرے کی دیواروں سے ٹکرائی اور اس کے واپس ہونے کا عمل اس کے کانوں ہی پر ختم ہوا۔ اس کی نظر آئینہ پر گئی… سوچنے لگی آئینہ سچ بولتا ہے اور سچ کتنا کڑوا ہوتا ہے لیکن انسان صرف سچائی کے سہارے اپنی پوری زندگی کس طرح گزارے۔ دھوکا فریب جھوٹ بھلے ہی گھناؤنے الفاظ ہوں مگر زندہ رہنے کے لیے کتنے ضروری ہیں … میں حق کی تلاش میں نکلی تھی۔ لیکن جھوٹ میں قید ہو کر رہ گئی ہوں۔

’’لیکن زندگی کی حقیقت کو پاگئی ہو‘‘ فوٹو فریم سے آفتاب بولا

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور آنسوؤں کے دریا میں دور تک بہتی چلی گئی۔ شاید بہاؤ کے الٹی سمت

دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ میں نہا کر سن باتھ لے رہی تھی۔ آفتاب آرم چیڑ پر بیٹھا اخبار کا سنڈے ایڈیشن پڑھ رہا تھا ’’حکومت جب کسی اہم مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ عوام کو کسی دوسرے مسئلہ میں الجھا دیتی ہے‘‘ اخبار کو آنکھوں کے نیچے سے ہٹاتے ہوئے بولا

’’آفتاب اور شفق ایک ہی آسمان کے نیچے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی‘‘ اس نے آفتاب کی گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا

’’ہاں اتنے قریب کہ اگر دور کھڑے ہو کر افق کو دیکھیں تو زمین اور آسمان ایک دوسرے کو گلے لگائے ہوتے ہیں‘‘ آفتاب نے کہا

’’وہ سراب ہے آسمان اور زمین کے درمیان ہمیشہ ہر مقام پر فاصلہ بر قرار رہتا ہے‘‘

’’یہ اپنا اپنا زاویہ نظر ہے‘‘ آفتاب نے اپنے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھیری

’’آفتاب میں سوچ رہی ہوں۔ تم اپنے کاندھے سے سر والے حق کو استعمال کرو‘‘

آفتاب چونک گیا حیرانی سے اخبار کو لپیٹ کر اپنے پہلو میں رکھنے لگا… چند لمحے خاموشی رہی… ’’مگر میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا‘‘ نظریں شفق کے چہرے پر مرکوز تھیں

’’مگر میں کرتی ہوں‘‘

’’کیا کل رات اسی موضوع پر سوسائٹی میں بحث ہوئی تھی؟‘‘

شفق کو لگا جیسے اس کی دکھتی رگ پر اس نے ہاتھ رکھ دیا ہو اس کے دل میں ایک نامعلوم خوف سر اٹھانے لگا جیسے اس کی چوری پکڑ لی گئی ہو۔ اسی لمحہ اس نے اپنے حواس درست کئے اور اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کیا ’’اگر تم جانتے ہی ہو تو سنو میں عرفان کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں‘‘ جذبہ احتجاج کی بیداری

آفتاب کی تپش میں شدت پیدا ہو گئی تھی، سینکڑوں اتار چڑھاؤ اس کے چہرے پر نظر آئے۔ وہ دیکھ رہی تھی اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں ہونٹوں پر بکھرنے والی مسکان کی کرنیں اچانک غائب ہو گئی تھیں … منہ کا تھوک گلے میں نگلتے ہوئے کہا ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں میرے ساتھ ساتھ عرفان کو بھی ایجاب و قبول کی رسم میں باندھ لو… (تھوڑی دیر خاموشی) تم تو اس حد تک آزادی نسواں کی قائل ہو‘‘ آفتاب نے اپنے دائیں ہاتھ کو حرکت دی

’’آفتاب تم سمجھتے کیوں نہیں؟ عرفان کا مشورہ ہے کہ پہلے میں تم سے نجات حاصل کروں‘‘

’’کمال ہے، عرفان ویمنس ویلفیئر سوسائٹی کا صدر ہے اور وہ عورت کو ایک ہی مرد کی ملکیت سمجھتا ہے؟ کیوں نا وہ اپنی تحریک کا آغاز اپنی زندگی ہی سے کرے‘‘ آفتاب نے طنز کیا

’’مجھے تمہارے مشورہ کی ضرورت نہیں۔ میں اپنی زندگی اپنی آزادی کی خود مالک ہوں‘‘ شفق کا ترش لہجہ

’’اچھا کیا چاہتی ہو‘‘ آفتاب نے جبراً اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیری

’’طلاق‘‘

’’یہ حق میرا ہے اور میں اس کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ حیرت ہے شفق میں نے تم کو تمہاری مرضی کے مطابق آزادی دی‘‘ آفتاب نے نہایت سنجیدگی سے کہا

’’مجھے آزاد کر دو۔ یہ اور احسان کر دو‘‘ شفق کا طنزیہ لہجہ

’’اس لیے یہ فوجداری کی دفعہ ۱۲۵ کے تحت مجھ سے نان نفقہ لینے کی حقدار ہو جاؤ۔ زندگی بھر کمائی میری کھاؤ اور گُن عرفان کے گاؤ۔ شفق اتنا بیوقوف نہیں ہوں کہ تمہیں اتنی آسانی سے آزاد کر دوں۔ میں تمہیں آزاد کر کے اپنے لیے زندگی بھر کی قید مول لینا نہیں چاہتا‘‘ آفتاب نے نہایت سختی سے اپنا فیصلہ سنایا

وہ ڈر سی گئی جیسے اسے نذرِ آتش کر دیا گیا ہو ’’آفتاب میں اگر یہ لکھ دوں کہ اپنی مرضی سے علیحدگی چاہتی ہوں اور نان نفقہ کی دعویدار نہیں ہوں گی تو‘‘

آفتاب کچھ زیادہ سنجیدہ ہو گیا ’’پھر سوچ لو، انتہا پسندی، تشدد کا پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘

’’حق پسندی کے لیے تشدد بھی کرنا ہوتا ہے‘‘

آفتاب نے زور دیتے ہوئے کہا ’’حق پسندی … حق‘‘ اگر ہے … تو تشدد کی کوئی ضرورت نہیں … جاؤ تم آزاد ہو‘‘

’’اور بس آزادی حاصل کرنے کی جد و جہد میں …میں ہمیشہ کے لیے قید ہو گئی‘‘ تقریباً چیختے ہوئے اس نے کہا …جملہ دیواروں سے ٹکرا کر واپس اس کے کانوں میں داخل ہو گیا۔ اس کی نظریں کمرے کے چاروں طرف گھومنے لگیں اچانک آفتاب کے فوٹو پر مرکوز ہو گئیں۔

’’تم نے کہا تھا… تمہیں آزاد کر کے، میں زندگی بھر کی قید نہیں لینا چاہتا… لیکن تم تو شاید آزاد ہو گئے اور مجھے آزادی کے ڈھونگ میں قید کر دیا۔ آخر مرد ہونا‘‘

آفتاب فریم میں مسکرا رہا ہے کمرے میں خاموشی طاری ہے … رات کی سیاہی گہری ہو رہی ہے … قدِ آدم آئینہ ساکت کھڑا ہے … اس نے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیری عکس آئینہ میں دیکھا

اس دن بھی میں بہت خوش تھی وہ خوشی جبریہ نہیں تھی بلکہ دل سے خوش تھی جیسے کوئی پرند ہو جس کے کٹے ہوئے پر پھر سے اگ آئے ہوں۔ لیکن یہ احساس صرف چند لمحے کا تھا میں اس لمحہ کو کبھی نہیں بھول سکتی جب عرفان نے گرم گرم پگھلا سیسہ میرے کانوں میں انڈیل دیا ’’تم ایک کی ہو کر نہیں رہی تو دوسرے مرد کی کیسے ہو کر رہ سکتی ہو‘‘؟… اس جملہ کے تیرنے مجھے اندر تک گھائل کر دیا مجھے لگا میرے بدن کے بال و پر نوچ دئیے گئے ہوں اور میں بے بس زخمی پرندہ کی طرح زمین پر تڑپ رہی ہوں … مجھ جیسے پرندے کے لیے کوئی پنجرے کی ضرورت نہیں … میں قید ہوں آفتاب کی دی گئی آزادی کے پنجرے میں … اس کے ہونٹوں کی تلخ مسکراہٹ آئینہ میں صاف نظر آ رہی ہے۔ اس کے چاروں طرف غبار … ہی غبار ہے، سر میں خاک، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے، چہرے پر سینکڑوں لکیروں کے درمیان اس کی شناخت کھو گئی ہے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل