فہرست مضامین
- اے موسمِ گریہ
- خُدا اور خلقِ خُدا
- محبت
- سورج !تیری آگ بجھے گی کتنے پانی سے؟
- فرض کرو ہم تارے ہوتے
- کالا جادو
- ہم لوگ
- سیلف میڈ لوگوں کا المیہ
- میرے گھر میں روشن رکھنا
- گلیڈی ایٹرز
- آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
- ہم ایسے مَرگ طلب بھی نہ تھے محبت میں
- تم سچے برحق سائیں
- تمہیں میں کس طرح دیکھوں
- تو چَل اے موسمِ گریہ
- محبت کے موسم
- یاد
- جب آنکھیں بُجھ کر راکھ ہُوئیں
- ایک کمرہٴ امتحان میں
- محبت کی طبعیت میں
- گلہ
- ایمان کے محافظوں سے
- دل اک خواب نگر ہے
- علی ذیشان کے لئے ایک نظم
- وقت کے دریا میں آؤ
- اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
- ملاپ
- اے زمیں
- زمیں
- دشتِ طلب
- کسے پُکاریں؟
- جنگل مجھ سے بات تو کر
- اب کون ہمیں دیکھے
- ایک پل
- تیرا کیا بنے گا اے دل
- ایک انوکھی کہانی
- ایک انوکھی کہانی ۔ ۲
- کیا یہ ایک کہانی ہے
- نئی نسل کا نوحہ
- آج
- اندیشہ
- اسرافیل کہاں ہے
- آبِ حیات
- تجھے یاد ہے اسی ریت پر
- وسری ملاقات
- دوسری جُدائی
- نئے لفظوں کی خوشبو
- شاعر
- اکیسویں صدی کے لئے ایک نظم
- ایک دن
اے موسمِ گریہ
امجد اسلام امجد کی کچھ نظمیں
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
خُدا اور خلقِ خُدا
یہ خلقِ خُدا جو بکھرے ہوئے
بے نام و نشاں پتوں کی طرح
بے چین ہوا کے رستے میں گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہے
آنکھوں میں شکستہ خواب لئے
سینے میں دلِ بے تاب لئے
ہونٹوں میں کراہیں ضبط کئے
ماتھے کے دریدہ صفحے پر
اک مہرِ ندامت ثبت کئے ٹھکرائی ہوئی سی پھرتی ہے
اے اہلِ چشم اے اہلِ جفا!
یہ طبل و علم یہ تاج و کلاہ و تختِ شہی
اس وقت تمہارے ساتھ سہی
تاریخ مگر یہ کہتی ہے
اسی خلقِ خُدا کے ملبے سے اک گونج کہیں سے اُٹھتی ہے
یہ دھرتی کروٹ لیتی ہے اور منظر بدلے جاتے ہیں
یہ طبل و علم یہ تختِ شہی ، سب خلقِ خُدا کے ملبے کا
اک حصہ بنتے جاتے ہیں
ہر راج محل کے پہلو میں اک رستہ ایسا ہوتا ہے
مقتل کی طرف جو کُھلتا ہے اور بن بتلائے آتا ہے
تختوں کو خالی کرتا ہے اور قبریں بھرتا جاتا ہے
٭٭٭
محبت
محبت اوس کی صورت
پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
گلوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی، مسکراتی جگمگاتی ہے
محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے
کسی فردوس کی صورت
محبت اوس کی صورت
محبت ابر کی صورت
دلوں کی سر زمیں پہ گھر کے آتی ہے اور برستی ہے
چمن کا ذرہ زرہ جھومتا ہے مسکراتا ہے
ازل کی بے نمو مٹی میں سبزہ سر اُٹھاتا ہے
محبت اُن کو بھی آباد اور شاداب کرتی ہے
جو دل ہیں قبر کی صورت
محبت ابر کی صورت
محبت آگ کی صورت
بجھے سینوں میں جلتی ہے تو دل بیدار ہوتے ہیں
محبت کی تپش میں کچھ عجب اسرار ہوتے ہیں
کہ جتنا یہ بھڑکتی ہے عروسِ جاں مہکتی ہے
دلوں کے ساحلوں پہ جمع ہوتی اور بکھرتی ہے
محبت جھاگ کی صورت
محبت آگ کی صورت
محبت خواب کی صورت
نگاہوں میں اُترتی ہے کسی مہتاب کی صورت
ستارے آرزو کے اس طرح سے جگمگاتے ہیں
کہ پہچانی نہیں جاتی دلِ بے تاب کی صورت
محبت کے شجر پر خواب کے پنچھی اُترتے ہیں
تو شاخیں جاگ اُٹھتی ہیں
تھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیں
تو کب کی منتظر آنکھوں میں شمعیں جاگ اُٹھتی ہیں
محبت ان میں جلتی ہے چراغِ آب کی صورت
محبت خواب کی صورت
محبت درد کی صورت
گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہے
شبانِ ہجر میں روشن ستارہ بن کے رہتی ہے
منڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھراتی ہیں
نگر میں نا امیدی کی ہوئیں سنسناتی ہیں
گلی جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتا
دکھے دل کے لئے جب کوئی دھوکا نہیں رہتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو
یہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہے
کسی ہمدرد کی صورت
گزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سے
فضا میں تیرتی ہے دیر تک یہ
گرد کی صورت
محبت درد کی صورت
٭٭٭
سورج !تیری آگ بجھے گی کتنے پانی سے؟
سوچ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
ایک ہی بیج سے جب یہ اتنے ڈھیروں پیڑ اُگے
ایک ہی پیڑ کی شاخ شاخ پہ مہکے جو سب پھول
ایک ہی پھول کے دامن میں جو سارے رنگ بھرے
پھر یہ کیسا فرق ہے ان میں ، کیسا ہے اُلجھاؤ
ایک ہی پھول کی ہر پتی میں دُنیا ایک نئی
ایک ہی شاخ پہ کھل اُٹھتے ہیں کیسے کیسے پھول!
ایک ہی پیڑ پہ مل جاتے ہیں باہم رنگ کئی
لیکن ان کے میل میں بھی ہے اک دوری موجود
کھا جاتے ہیں زرد سیہ کو سُرخ اور گہرے رنگ
زور آور سے دب جاتے ہیں ، جتنے ہیں کمزور
طاقت والے ہو جاتے ہیں طاقتور کے سنگ
پوچھ رہی ہے جانے کب سے آدم کی اولاد
سُکھ کا دن کب پیدا ہوگا رات کہانی سے
دھرتی! تیرا پیٹ بھرن کو کتنی مٹی ہو!
سورج تیری آگ بجھے گی کتنے پانی سے؟
٭٭٭
فرض کرو ہم تارے ہوتے
اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتے
اور پھر اِک دن
شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے
دریا کے دو دھارے ہوتے
اپنی اپنی موج میں بہتے
اور سمندر تک اس اندھی، وحشی اور منہ زور مسافت
کے جادو میں تنہا رہتے
فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے
اُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھر
کھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے!
ابرِ بہار کے جھونکے ہوتے
موسم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتے
ملتے اور جُدا ہو جاتے
خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتے
اور اَن دیکھے سپنے بوتے
اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے
فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔۔ ؟
٭٭٭
کالا جادو
میرا تمام فن، مری کاوش مرا ریاض
اک ناتمام گیت کے مصرعے ہیں جن کے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
انجام جس کا طے نہ ہو ایک ایسا کھیل
مری متاع بس یہی جادو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ سحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کُھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ
تقدیر کی عطا ہے کہ کوئی سزا ہے یہ
کس سے کہیں اے جان کہ یہ قصہ عجیب ہے
کہنے کو یوں تو عشق کا جادو ہے میرے پاس
پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اسکا بوجھ
سینے سے اک پہاڑ سا ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اثر کے باب میں ہلکا ہے اس قدر
تجھ پہ اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ
٭٭٭
ہم لوگ
دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے
آرزوئیں جلتی ہیں
جس طرف کو جاتے ہیں
منزلیں تمنا کی
ساتھ ساتھ چلتی ہیں
گرد اڑتی رہتی ہے
درد بڑھتا جاتا ہے
راستے نہیں گھٹتے
صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو
روشنی کی آمد کا پیش باب کہتے ہیں
اک کرن جو ملتی ہے، آفتاب کہتے ہیں
دائرے بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں
٭٭٭
سیلف میڈ لوگوں کا المیہ
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے
فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج ۔ ۔ دیر سے نکلتے ہیں
٭٭٭
میرے گھر میں روشن رکھنا
چینی کی گُڑیا سی جب وہ
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی
میری جانب آتی ہے تو
اُس کے لبوں پر ایک ستارہ کِھلتا ہے
"پاپا”
اللہ۔ اس آواز میں کتنی راحت ہے
ننھے ننھے ہاتھ بڑھا کر
جب وہ مجھ کو چُھوتی ہے تو یوں لگتا ہے
جیسے میری رُوح کی ساری سچّائی
اس کے لمس میں جاگ اٹھی ہے
اے مالک، اے ارض و سما کو چُٹکی میں بھر لینے والے
تیرے سب معمور خزانے
میری ایک طلب
میرا سب کچھ مجھ سے لے لے
لیکن جب تک
اس آکاش پہ تارے جلتے بُجھتے ہیں
میرے گھر میں روشن رکھنا یہ معصوم ہنسی
اے دنیا کے رب
کوئی نہیں ہے اس لمحے تیرے میرے پاس
سچ سچ مجھ سے کہہ
تیرے ان معمور خزانوں کی بے انت گرہ میں
بچے کی معصوم ہنسی سے زیادہ پیاری شے
کیا کوئی ہے؟
٭٭٭
گلیڈی ایٹرز
ہم اپنے قتل ہونے کا تماشہ دیکھتے ہیں
تو اپنی تیز ہوتی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں
’’ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا
میں نہیں تھا
میں تو زندہ ہوں۔۔۔۔یہاں
دیکھو،
مری آنکھیں ،مرا چہرہ، مرے بازو
سبھی کچھ تو سلامت ہے،،
ابھی کل ہی کا قصہ ہے
سرِ مقتل ہمارے دست و بازو کٹ رہے تھے
پہ ہم اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے ہوئے
ٹی وی کے قومی نشریاتی رابطے پر
سارے منظر دیکھتے تھے
اور یہ کہتے تھے
’’نہیں یہ ہم نہیں ہیں،،
ہماری آستیں پر خون کے دھبے ابھی تازہ ہیں
سوکھے بھی نہیں
٭٭٭
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعلِ خواب کچھ اس طور بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سِل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے
اب دھندلکے بھی نہیں زینت ِ چشمِ بے خواب
آس کا روپ محل،دست تہی ہے جیسے!
بحر ِ امکان پہ کائی سی جمی ہے جیسے!
ایسے لگتا ہے کہ جیسے میرا معمورہ ء جاں
کسی سیلاب زدہ گھر کی زبوں حالی ہے۔
نہ کوئی دوست نہ تارہ کہ جسے بتلاؤں !
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انَا کا شیشہ
میرا پندار مرے دل کے لئے گالی ہے
نبض تاروں کی طرح ڈوب رہی ہے جیسے
غم کی پہنائی سمندر سے بڑی ہے جیسے
آنکھ صحراؤں کے دامن کی طرح خالی ہے
دشتِ جاں کی طرف دیکھ کے یوں لگتا ہے
موت اس طرح کے جینے سے بھلی ہے جیسے
تیرگی چھٹنے لگی،وقت رگے گا کیوں کر
صبح ِ خورشید لیئے در پہ کھڑی ہے جیسے
داغِ رسوائی چھپائے سے نہیں چھپ سکتا
یہ تو یوں ہے کہ جبیں بول رہی ہے جیسے
٭٭٭
ہم ایسے مَرگ طلب بھی نہ تھے محبت میں
ہم ایسے مَرگ طلب بھی نہ تھے محبت میں
کہ جلتی آگ کے دریا میں بے خطر جاتے
(یقین جان، مری جاں کہ ہم ٹھہر جاتے)
تمہاری آنکھ کے آنسو تھے، سیلِ آب نہ تھا
چھلک بھی جاتے اگر، رزقِ خاک ہو جاتے
(مثال قطرۂ شبنم، چمکتے، کھو جاتے)
رہا وہ حرفِ وفا جس کی سبز کونپل پر
تمہارے بوسئہ لب سے گلاب جاگے ہیں
(سو وہ گلاب تو کونپل سے کٹ بھی سکتے ہیں)
رہے وہ خواب جو آنکھوں کے آبگینوں میں
دھنک کے رنگ لیے ڈولتے سے رہتے ہیں
(سو ایسے خواب تو آکر پلٹ بھی سکتے ہیں)
سو بات حرفِ وفا کی ہے اور نہ خوابوں کی
نہ ڈولتے ہوئے رنگوں سے پُر گلابوں کی
سمے کے چڑھتے اترتے ہوئے سمندر میں
سب ایک پَل کی حقیقت
سب ایک پَل کا سراب
دلوں میں ترکِ تمنا کا حوصلہ ہو اگر
تو کیسا حرفِ وفا!
اور کہاں کے خواب و گلاب!!
یہ کیسے دشت ِ ندامت میں گھر گئے اے جاں
کہ اِک تو ترکِ تمنا کا حوصلہ بھی نہیں
اور اس پہ یہ بھی قیامت
اگر ….. بفرض محال
تمہاری راہ سے پھرنے کا حوصلہ بھی ملے!
پلٹ کے جائیں کہاں، گھر کا راستہ بھی ملے!!
٭٭٭
تم سچے برحق سائیں
تم سچے برحق سائیں
سر سے لیکر پیروں تک
دنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں
اک بہتی ریت کی دہشت ہے
اور ریزہ ریزہ خواب مرے
بس ایک مسلسل حیرت ہے
کیا ساحل ، کیا گرداب مرے
اس بہتی ریت کے دریا پار
کیا جانے ہیں کیا کیا اسرار
تم آقا چاروں طرفوں کے
اور مرے چار طرف دیوار
اس دھرتی سے افلاک تلک
تم داتا، تم ہو پالن ہار
میں گلیوں کا ککھ سائیں
تم سچے برحق سائیں
سر سے لیکر پیروں تک
دنیا شک ہی شک سائیں
کچھ بھید ازل سے پہلے کا
کچھ راز ابد کی آنکھوں کے
کچھ حصہ ہجر سراپے کا
کچھ بھیگے موسم خوابوں کے
کوئی چارہ مری پستی کا
کوئی دارُو آنکھ ترستی کا
بس ایک نظر سے جُڑ جائے
آئینہ مری ہستی کا
ازلوں سے راہیں تکتا ہے
اک موسم دل کی بستی کا
اس کی اور بھی تَک سائیں
تم سچے برحق سائیں
سر سے لے کر پیروں تک
دنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں
میں ایک بھکاری لفظوں کا
یہ کاغذ ہیں کشکول مرے
ہیں ملبہ زخمی خوابوں کا
یہ رستہ بھٹکے بول مرے
یہ ارض و سما کی پہنائی
یہ مری ادھوری بینائی
کیا دیکھوں ، کیسے دیکھ سکوں
یہ ہجر کی جلوہ آرائی
یہ رستہ کالے کوسوں کا
اور اک مسلسل تنہائی
مانگوں اک جھلک سائیں
تم سچے برحق سائیں
سر سے لیکر پیروں تک
دنیا شک ہی شک سائیں
تم سچے برحق سائیں
٭٭٭
تمہیں میں کس طرح دیکھوں
دریچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کی چلمن ہے
اور اس چلمن کے پیچھے چھپ کے بیٹھے
کچھ ستارے ہیں ستاروں کی
نگاہوں میں عجیب سی ایک الجھن ہے
وہ ہم کو دیکھتے ہیں اور پھر آپس میں کہتے ہیں
یہ منظر آسماں کا تھا یہاں پر کس طرح پہنچا
زمیں ذادوں کی قسمت میں یہ جنت کس طرح آئی؟
ستاروں کی یہ حیرانی سمجھ میں آنے والی ہے
کہ ایسا دلنشیں منظر کسی نے کم ہی دیکھا ہے
ہمارے درمیاں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
اسے لفظوں میں لکھیں تو کتابیں جگمگااٹھیں
جو سوچیں اس کے بارے میں توروحیں گنگنا اٹھیں
یہ تم ہو میرے پہلو میں
کہ خواب زندگی تعبیر کی صورت میں آیا ہے؟
یہ کھلتے پھول سا چہرہ
جو اپنی مسکراہٹ سے جہاں میں روشنی کردے
لہو میں تازگی بھردے
بدن اک ڈھیر ریشم کا
جو ہاتھوں میں نہیں رکتا
انوکھی سی کوئی خوشبو کہ آنکھیں بند ہو جائیں
سخن کی جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائیں
چھپا کاجل بھری آنکھوں میں کوئی راز گہرا ہے
بہت نزدیک سے دیکھیں تو چیزیں پھیل جاتی ہیں
سو میرے چار سو دو جھیل سی آنکھوں کا پہرا ہے
تمہیں میں کس طرح دیکھوں
٭٭٭
تو چَل اے موسمِ گریہ
تو چل اے موسمِ گریہ، پھر اب کی بار بھی ہم ہی
تری انگلی پکڑتے ہیں تجھے گھر لے کے چلتے ہیں
وہاں ہر چیز ویسی ہے کوئی منظر نہیں بدلا
ترا کمرہ بھی ویسے ہی پڑا ہے، جس طرح تُو نے
اُسے دیکھا تھا، چھوڑا تھا
’’ترے بستر کے پہلو میں رکھی اس میز پر اب بھی
دھرا ہے مگ وہ کافی کا
کہ جس کے خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھی تک وسوسوں اور خواہشوں کی جھاگ کے دھبّے نمایاں ہیں
قلم ہے، جس کی نِب پر رَت جگوں کی روشنائی یوں لرزتی ہے
کہ جیسے سُوکھتے ہونٹوں پہ پپڑی جمنے لگتی ہے
وہ کاغذ ہیں
جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوﺅں سے بھیگے رہتے ہیں
ترے چپّل بھی رکھے ہیں
کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹے ہیں
جو اِتنا روندے جانے پر بھی اب تک سانس لیتے ہیں
ترے کپڑے،
جو غم کی بارشوں میں دُھل کے آئے تھے
مِری الماریوں کے ہینگروں میں اَب بھی لٹکے ہیں
دلاسوں کا وہ گیلا تولیہ
اور ہچکیوں کا اَدھ گھلا صابن
چمکتے واش بیسن میں پڑے ہیں اور
ٹھنڈے گرم پانی کی وہ دونوں ٹونٹیاں اب تک
رواں ہیں توُ جنھیں اس دن
کسِی جلدی میں چلتا چھوڑ آیا تھا
دریچے کی طرف دیوار پر لٹکی گھڑی
اب بھی، ہمیشہ کی طرح،
آدھا منٹ پیچھے ہی رہتی ہے
کلنڈر پر رُکی تاریخ نے پلکیں نہیں جھپکیں
اور اس کے ساتھ آویزاں!!
وہ اِک مہکارتا منظر،
وہ اِک تصویر جس میں وہ
مِرے شانے پہ سر رکھّے مِرے پہلو میں بیٹھی ہے
مِری گردن اور اِس کے گیسوﺅں کے پاس ایک تتِلی
خوشی سے اُڑتی پھرتی ہے
کچُھ ایسا سحر چھایا ہے
کہ دل رُکتا، ہَوا چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے-‘‘
مگر اے موسمِ گریہ،
اُسی ساعت
نجانے کس طرف سے تُو چلا آیا
ہمارے بیچ سے گزرا
ہمارے بیچ سے تُو اس طرح گزرا
کہ جیسے دو مخالف راستوں کو کاٹتی سرحد
کہ جس کے ہر طرف بس دُوریوں کی گرد اُڑتی ہے
اُسی اِک گرد کی تہہ سی
تجھے دروازے کی بَیل پر جمی شاید نظر آئے
کوئی تصویر کے اندر کمی شاید نظر آئے
تمنّا سے بھری آنکھیں جو ہر دَم مُسکراتی تھیں
اب اُن آنکھوں کے کونوں میں نمی شاید نظر آئے
٭٭٭
محبت کے موسم
زمانے کے سب موسموں سے نرالے
بہار و خزاں ان کی سب سے جدا
الگ ان کا سوکھا الگ ہے گھٹا
محبت کے خطے کی آب و ہوا
ماورا اُن عناصرے سے جو
موسموں کے تغیر کی بنیاد ہیں
یہ زمان و مکاں کے کم و بیش سے
ایسے آزاد ہیں
جیسے صبح ازل۔۔۔جیسے شام فنا
شب وروز عالم کے احکام کو
یہ محبت کے موسم نہیں مانتے
زندگی کی مسافت کے انجام کو
یہ محبت کے موسم نہیں مانتے
رفاقت کی خوشبو سے خالی ہو جو
یہ کوئی ایسا منظر نہیں دیکھتے
وفا کے علاوہ کسی کلام کو
یہ محبت کے موسم نہیں مانتے
٭٭٭
یاد
اس موسم میں جتنے پھول کھلیں گے
ان میں تیری یاد کی خوشبو ہر سو روشن ہوگی
پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کی تصویربناتا گزرے گا
اک یاد جگاتا گزرے گا
اس موسم میں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
ان میں تیری یاد کا پیکر منظرمنظر عریاں ہوگا
تیری جھل مل یاد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا
اس موسم میں
دل دنیا میں جو بھی آہٹ ہوگی
اس میں تیری یاد کا سایا گیت کی صورت ڈھل جائے گا
شبنم سے آواز ملا کر کلیاں اس کو دوہرائیں گی
تیری یاد کی سن گن لینے چاند مرے گھر اترے گا
آنکھیں پھول بچھائیں گی
اپنی یاد کی خوشبومجھ کو دان کرو اور اپنے دل میں آنے دو
یا میری جھولی کو بھر دو یا مجھ کو مرجانے دو
٭٭٭
جب آنکھیں بُجھ کر راکھ ہُوئیں
جب آنکھیں بُجھ کر راکھ ہُوئیں
جب دل کا جوالا سرد پڑا
جب شام و سحر کے صحرا میں
خوابوں کے ستارے ریت ہُوئے
جب عمُر رواں کے مَیداں میں
سب زندہ جذبے کھیت ہوئے
اس وقت مجھے محسوس ہوا
"جس عشق میں ساری عمُر کٹی شاید وہ نظر کا دھوکہ تھا
کرنوں سے کسی کے لہجے میں تنویر تھی میری اپنی ہی
شب تاب بدن کے جادو میں خود میرے لہو کا نشّہ تھا”
کل رات مگر جب کھڑکی پر
مہتاب نے آکر دستک دی
خوشبو کی طرح لہرانے لگی
ہر سمت کوئی سرگوشی سی
"جب آنکھیں بجھنے لگتی ہوں، جب دل کا جوالا سرد پڑے
اُس وقت کسی کو کیا معلوم، کون اپنا کون پرایا تھا!
لہجے میں نشہ تھا کس کے سبب اور کس نے کسے مہکایا تھا!”
٭٭٭
ایک کمرہٴ امتحان میں
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بےخیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر، انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
ھر طرف کن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اسطرح کوئی راستہ ہی مل جاٴے
بے نشاں جوابوں کا،کچھ پتا ہی مل جاٴے
مجھ کو دیکھتے ہیں تو
یوں جواب کاپی پر ،حاشیے لگاتے ہیں
دائرے بناتے ہیں
جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں
اس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
نقل کرنے والوں کے
نت نئے طریقوں سے
آپ لطف لیتا تھا، دوستوں سے کہتا تھا!
کس طرف سے جانے یہ
آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
سینکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے
وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں، اک سوال نامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے؟
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں!
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں
دائرے بناتا ہوں
یا سوال نامے کو
دیکھتا ہی جاتا ہوں
٭٭٭
محبت کی طبعیت میں
محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھاہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
ا سے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو !
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ، لہو میں جگمگاتی ہو !
ہزاروں طرح کے دلکش ، حسیں ہالے بناتی ہو !
ا سے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے !
محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑ ی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ’’مجھ سے محبت ہے ‘‘
کہو ’’مجھ سے محبت ہے ‘‘
تمہیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری ،ستاروں سے سوا روشن
پہاڑوں کی طرح قائم ، ہوا ئوں کی طرح دائم
زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
محبت کے کنائے ہیں ، وفا کے استعار ے ہیں
ہمارے ہیں
ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں سنہر ا دن نکلتا ہے
محبت جس طرف جائے ، زمانہ ساتھ چلتا ہے ‘‘
کچھ ایسی بے سکو نی ہے وفا کی سر زمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت کو صدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو، کہ جیسے ہاتھ میں پارا
کہ جیسے شام کاتارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں ر ہتی ہے ،
گماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے الفت کا !
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خد شوں میں رہتی ہے ،
محبت کے مسافر زند گی جب کا ٹ چکتے ہیں
تھکن کی کر چیاں چنتے ، وفا کی اجر کیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سر حد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھا م کر
دھیرے سے کہتا ہے
’’یہ سچ ہے نا !
ہماری زند گی اک دو سرے کے نام لکھی تھی !
دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
ا سی کا نام چاہت ہے !
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے !!،،
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
٭٭٭
گلہ
گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی
مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے
مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے
مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے
مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے
گلہ ہوا سے نہیں تُندیِ ہوا سے نہیں
ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں
عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں
گلہ تو گرتے مکانوں کے بام ودر سے ہے
گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے
ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا
کوئی درخت گرے یا رہے اُسے کیا ہے
گلہ تو اہلِ چمن کے دل و نظر سے ہے
خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے
گلہ سحر سے نہیں رونقِ سحر سے ہے
٭٭٭
ایمان کے محافظوں سے
میں خُدا وندِ بر تر کی تخلیق ہوں
جس نے پھولوں کو خوشبو، درختوں کو چھاؤں
سمندر کو پانی ہواؤںکو چلنے کی طاقت عطا کی
ستارے زمیں چاند سورج بنائے
میں کہتا ہوں سب آدمی ،آدمی ہیں
نہیں کوئی بہتر کسی سے
سوا اُن کے جو متقی ہیں،
میں کہتا ہوں اس خاک پر زندہ رہنے کا حق سب کو ہے
سب کو حق ہے کہ محنت کی تخلیق سے اپنے دامن بھریں
اس زمیں پر چلیں، آبرو سے رہیں، دل کی باتیں کہیں
مسکرا بھی سکیں
جس کی خواہش کریں اُس کو پا بھی سکیں
میں کہتا ہوں سب ابنِ آدم ہیں تو
کیوں نہ سب کو برابر کی عزت ملے
کیوں کوئی کج کلاہی کے نشے میں ہو
کیوں کسی کو فقط مرگِ تہمت ملے
میں اُن تیرہ بختوں ، سیہ قسمتوں کے لئے روشنی مانگتا ہوں
جنہیں تم نے صدیوں تک اپنی غرض اور انا کی بقا کے لئے
پتھروں کی طرح بے حقیقت گنا ہے
میں اُن کے لئے بولتا ہوں جنہیں
تم نے اپنی فصاحت کے طوقِ توہم میں جکڑا ہوا ہے
جسے تم نے ہر دور میں ظلم کے ہاتھ بیچا ہے
میرا خُدا ہے۔
٭٭٭
دل اک خواب نگر ہے
دل اک خواب نگر ہے جس میں لمحہ لمحہ
اُس کے سپنے بند آنکھوں میں نئے دریچے وا کرتے ہیں
ہر چہرے میں اُس کا چہرہ رکھ دیتے ہیں
میرے اُس کے بیچ ہزاروں دیواریں ہیں
رسموں اور رواجوں کی
بیگانوں کی قاتل نظروں اور اپنوں کی باتوں کی
اُس کی بے پروائی کی اور اپنی پاگل سوچوں کی
کالی دُشمن راہوں کی
میں اس طالم اندھی اور منہ زور فضا میں اک بے مایہ ذرہ تھا
جو اپنے سے لاکھوں میں گُم تھا
اُس کے خواب نے میری آنکھیں روشن کی ہیں
خاموشی میں جادو ہے تو پھر وہ جادو گر ہے
اُس کی چُپ نے میرے دل کو نطق دیا ہے
میں قطرہ تھا اُس کی ذات سمندر ہے
اُس کی محبت نے مجھ کو تخلیق کیا ہے
ارمانوں کی بانجھ ہوائیں
آنکھوں کے گُمنام جزیروں میں چلتی ہیں
اور خواہش کے خُشک درختوں کی شاخوں میں
سائیں سائیں کرتی ہیں
موسم آنکھیں پھیر کے دل کے درد نگر سے چل دیتے ہیں
بادل ویرانے پہ گھر کر بن برسے چل دیتے ہیں
اُس کے بنا آواز کی کرنیں۔ آنکھیں۔ پھول، ستارے، پتھر
دل اک شہرِ سنگ ہے جس میں گلیاں ،باغ، منارے، پتھر
خواہش جادو کی بستی ہے، مُڑ کے دیکھو، سارے پتھر
دریاؤں کے دھارے پتھر
وہ آئے تو پتھر کو آواز ملے
شہرِ سنگ کے دروازوں کو وا کرنے کا راز ملے
دل اک خواب نگرہے اس کے خوابوں کو آغاز ملے
٭٭٭
علی ذیشان کے لئے ایک نظم
مرے بیٹے نے آنکھیں اک نئی دُنیا میں کھولی ہیں
اُسے وہ خواب کیسے دوں
جنہیں تعبیر کرنے میں مری یہ عمر گزری ہے
مری تعظیم کی خاطر وہ ان کو لے تو لے شاید
مگر جو زندگی اُس کو ملی ہے، اُس کے دامن میں
ہمارے عہد کی قدریں تو کیا یادیں بھی کم کم ہیں
انوکھے پھول ہیں اُس کے نرالے اُس کے موسم ہیں
خود اپنی موج کی مستی میں بہنا چاہتا ہے وہ!
نئی دُنیا ، نئے منظر میں رہنا چاہتا ہے وہ
سمجھ میں کچھ نہیں آتا اُسے کیسے بتاؤں میں
زمیں پر آج تک جتنے بھی آدم زاد آئے ہیں
اسی مشکل سے گزرے ہیں
انہی رستوں میں اُلجھے ہیں
اسی منزل سے گزرے ہیں
ازل سے آج تک جتنے محبت کرنے والے ہیں
سبھی کی اک کہانی ہے
نئی لگتی تو ہے لیکن حقیقت میں پُرانی ہے
اُسے کیسے بتاؤں
کہ میرے باپ کی باتیں
مجھے بھی ایک ایسے وقت کا احوال لگتی تھیں
جو اک بھولا فسانہ تھا
میں اُس کی جیب کے متروک سکوں کو کہاں رکھتا
کہ یہ میرا زمانہ تھا
نئے بازار تھے میرے ، کرنسی اور تھی میری
وہ بستی اور تھی میری
مگر پھر یہ کُھلا مجھ پر نیا کچھ بھی نہیں شاید
ازل سے ایک منظر ہے فقط آنکھیں بدلتی ہیں
مری نظروں کا دھوکہ تھا کہ یہ چیزیں بدلتی ہیں
اُسے کیسے بتاؤں میں
کہ یہ عرفان کا لمحہ ابھی تک اُس تک نہیں پہنچا
مگر جس وقت پہنچے گا
اُسے بھی اپنے بیٹے کو یہی قصہ سُنانے میں
یہی دُشواریاں ہوں گی
کہ وہ بھی تو کچھ اپنی بات کہنا چاہتا ہو گا
نئی دُنیا نئے منظر میں رہنا چاہتا ہو گا
بس اپنی ذات کی مستی میں بہنا چاہتا ہوگا
٭٭٭
وقت کے دریا میں آؤ
وقت کے دریا میں آؤ ایک دن
یوں بہا دیں جا چکے لمحوں کی راکھ
جیسے ان سے کوئی بھی رشتہ نہ تھا
جیسے ہم اس آگ سے گزرے نہ تھے
آئنے یادوں کے جھلمل منظروں کی اوٹ سے
ہم کو دیکھیں اور ششدر سے رہیں
کیسے چہرے ہیں جو اپنے عکس سے ملتے نہیں
آتے جاتے موسموں کی آنکھ میں حیرت سی ہو
کیسے غنچے ہیں جو فصلِ گُل میں بھی کھلتے نہیں
وقت کے صحرا میں آؤ ایک دن
یوں چُرا کر ڈوبتے تاروں سے آنکھ
اپنے اپنے راستوں کی گرد میں روپوش ہوں
جیسے ہم نے منزلوں کے خواب تک دیکھے نہ تھے
٭٭٭
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
اُس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اُس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں اُس بسرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عُمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے
اُس جھیل کنارے پل دو پل وہ رُوپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اک شام کہیں آباد تو ہو
٭٭٭
ملاپ
اک دوجے میں اُلجھ گئے ہیں تیرے میرے ہاتھ
چلتی جائے ساتھ ہمارے رنگوں کی بارات
رستہ رستہ دمک رہا ہے تاروں کا اک کھیت
چمک رہی ہے پاؤں کے نیچے خُنک سنہری ریت
چاروں جانب لپک رہی ہے ایک سریلی تان
تان بھی ایسی جس کی رو میں کھنچتی جائے جان
چاند اور سورج سر گوشی میں باتیں کرتے جائیں
اک بے نام سے پھیلاؤ میں تارے اُڑتے جائیں
پھیل رہی ہے لمحہ لمحہ بھید بھری یہ رات
اک دوجے میں اُلجھ گئے ہیں تیرے میرے ہاتھ
٭٭٭
اے زمیں
یہ جو اقدار ہیں
یہ ہماری تمہاری جو اقدار ہیں
وقت کے کوڑے دانوں میں پھینکے گئے
کھوٹے سکوں کی مبہم سی جھنکار ہیں
(اور کچھ بھی نہیں)
یہ جو معیار ہیں
یہ ہمارے تمھارے جو معیار ہیں
شب و روز کی اس کسوٹی پہ تُلنے کو لائے گئے
تو کُھلا یہ کہ یہ
بس ہمارے خیالوں اور خواہشوں کا
لگایا ہوا ایک انبار ہیں
(جن کی قیمت صفر سے زیادہ نہیں)
یہ جو کردار ہیں
یہ ہمار ے تمہارے جو کردار ہیں
روشنی تیرگی ، جھوٹ سچ کی کشا کش میں اُلجھے ہوئے
اس ڈرامے کے جتنے بھی کردار ہیں
سب ہمارے ہی چہروں کے بنتے بگڑتے ہوئے نقش ہیں
جو کہ اسٹیج پر
فقط اپنی چہرہ نمائی کی خاطر
ہر اک رول کرنے کو تیار ہیں
یہ وہ مرتے ہوئے چند کردار ہیں
(جن کا کھیل اب کہیں پہ بھی جمتا نہیں)
یہ جو اسرار ہیں
یہ جو آنکھوں کے اور منظر وںکے میاں
جھلملاتے ہوئے لاکھوں اسرار ہیں
نیلے امبر کی چھت پر کھلے ادھ کھلے
جس قدر بھی ستارے نمودار ہیں
اپنے اندر کی اُلجھن میں اُلجھے ہوئے
یہ جو باہر کی دُنیا کے آزار ہیں
کتنے بے درد ہیں مرگ آثار ہیں
٭٭٭
زمیں
آگہی کی بکھرتی ہوئی دُھندکی
ایک دیوار سی
ہر طرف ہے تنی
اور باہر نکلنے کا رستہ نہیں
کوئی باہر نکلنے کا رستہ نہیں
جیسے جادو میں ہم سب گرفتار ہیں
در پہ زنجیر ہے
کھڑکیوں اور دریچوں میں تالے پڑے ہیں
چھتوں کی طرف کوئی زینہ نہیں !!
لاکھ سورج فلک پر ہویدا ہوئے
چاند نکلے کئی
اک کرن بھی مگر ہاتھ آئی نہیں
شہ لویں جن کی آندھی میں قائم رہیں
اب فقط وہ دئیے ہم کو درکار ہیں
ہم ہیں کیا اور ہماری حقیقت کیا ہے
اس سے قطع نظر
یہ زمیں آسماں اور یہ عصرِ رواں
اپنی دُھن میں مگن محوِ رفتار ہیں
ہاتھ میں کچھ ارادوں کے پُرزے لئے
اپنے اپنے ضمیروں کے کے قیدی بنے
راستوں میں کھڑے
ہر مسافت کے رستے کی دیوار ہیں
اپنی اقدار کے ۔ اپنے کردار کے
جتنے بھی عکس ہیں
آئینے اُن کی صورت سے بیزار ہیں
اے زمیں ہم نے تیری حفاظت نہ کی
ہم گنہگار ہیں۔۔۔ ہم گنہگار ہیں
٭٭٭
دشتِ طلب
درِ طلسمِ صدا کھلے تو اُسے پُکاریں
کہ اُس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا قبول رد ہے
اُسے دکھائیں کہ کتنے بادل
ہمارے کھیتوں سے بے تعلق نکل گئے ہیں
اُسے بتائیں کہ کتنی کلیاں
کشاد ہونے کی آرزو میں بکھر گئی ہیں
سنائیں اُس کو وہ لفظ جن کے
حروف بے صوت ہو گئے ہیں
رُلائیں اُس کو اُن آنسوؤں پر
جو خُشک آنکھو ں میں کھو گئے ہیں
گلو گرفتہ اُداس لمحے ، اُجاڑ صورت بکھرتے موسم
وہ بختِ گریاں جو سو گئے ہیں
درِ طلسم صدا کُھلا تو عجب ہے منظر
چہار جانب ہجومِ خلقت ہے مثلِ لشکر
اُسی کی جانب رواں دواں ہیں
برہنہ پا و شکستہ رنگ و غبار بر سر
سفید سائے، سیاہ پیکر
لبوں پہ خواہش کے سبز جنگل، نظر سمندر
صدائیں اتنی ہیں ماند پڑتا ہے شورِ محشر
اُسے سُنائیں تو کیا سُنائیں
کہ اپنی اپنی زباں میں سارے ہمارا قصہ سُنا رہے ہیں
وہ جس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا قبول رد تھا
ہر اک کی آواز سُن رہا ہے
درِ طلسمِ صدا کُھلا ہے
٭٭٭
کسے پُکاریں؟
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمہارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا، وہ استعارہ تھا میرے دل کا،
اگر نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اُس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئنوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں،اوس قطروں میں، خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھوں تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اُن پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رُک کے تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو اُس جزیرے پہ بھی اُترنا
٭٭٭
جنگل مجھ سے بات تو کر
جنگل مجھ سے بات تو کر
دیکھ کہاں سے آیا ہوں !
سناٹا ہے چاروں جانب اور ہوا کی سرگوشی میں
ٹوٹے ٹوٹے سے کچھ جملے
رات گئے تک ہونے والی بارش کے قطروں کی صورت
پتہ پتہ ٹپک رہے ہیں
تین برس اور سولہ دن پہلے کی گُزری شام کوئی
یہیں کہیں پر رُکی ہوئی ہے
اور اک گہرے سایوں والے پیڑ پہ اب بھی
ہم دونوں کے نام کھدے ہیں
(اور اک دل ہے جس میں کوئی تیر ترازو تب سے ہے)
جنگل، تیرے سامنے اُس دن ہم نے کتنی باتیں کی تھیں
تجھ کو بھی وہ یاد تو ہوں گی
سب نہ سہی پر تھوڑی تھوڑی
یہ جو ہوا کی سرگوشیہے اس کے ٹوٹے جُملوں جیسی
ابھی ابھی اس تھمنے والی بارش کے ان قطروں جیسی
تین برس اور سولہ دن کا اک اک لمحہ لایا ہوں
جنگل مجھ سے بات تو کر، دیکھ کہاں سے آیا ہوں
٭٭٭
اب کون ہمیں دیکھے
اب کون ہمیں دیکھے
ہم لوگ کہ رستوں کی مٹی میں ہوئے مٹی!
اشکوںسے بھری آنکھیںدیکھیں تو کہاں دیکھیں
اب درد کے صحرا سے آواز نہیں آتی
رازوں سے بھرا رستہ خاموش ہے صدیوں سے
ہر سمت اُداسی ہے ہر سمت ہے ویرانی
عُمروں کی پریشانی
اس خاک پہ رکھی ہے وہ چاند سی پیشانی
جس کی تب و تابش نے صدیوں کو کیا روشن
وہ ہاتھ ہیں بے مایہ
تھیں جن کی قلم رو میں قرنوں کی جہانگیری
وہ پاؤں نہیں اُٹھتے
تھا جن کے تسلط میں امکاں کا ہر رستہ!
ہم لوگ کہ رستوں کی مٹی میں ہوئے مٹی
اب کون ہمیں دیکھے!
٭٭٭
ایک پل
آہستگی سے گھٹتی ہوئی سہ پہر کی دھوپ
دل میں اُتر رہی ہے کسی خواب کی طرح
نیلے فلک پہ ابر کے ٹکڑے کہیں کہیں
لرزاں ہیں دل کے ساز پہ مضراب کی طرح
صحنِ چمن میں ڈولتے رنگوں کے درمیاں
ہے ایک بے قرار سی خوشبو رُکی ہوئی
ٹھہرے ہوئے سے وقت کی سرگو شیوں کے بیچ
تتلی کوئی ہے پھول کے لب پر جھکی ہوئی
پتے صبا کے پاؤں کی آہٹ کے منتظر
شاخوں کے درمیاں کوئی ھیرت رواں سی ہے
بیٹھی ہے یوں وہ گھاس پہ پھولوں کے روبرو
آنکھوں کے آس پاس کوئی کہکشاں سی ہے
چہرے پہ دھوپ چھاؤں کا میلہ لگا ہوا
شانوں پہ بے دریغ سے گیسو کھلے ہوئے
قوسِ قزح نے اپنا خزانہ لُٹا دیا
رنگت میں اس کی رنگ ہیں سارے گُھلے ہوئے
آہٹ پہ میرے پاؤں کی دھیرے سے چونک کر
دیکھا ہے اُس نے مڑ کے مجھے اد ا کے ساتھ
پھیلی ہے جسم و جاں میں عجب ایک سر خوشی
خوشبو سی کوئی اُڑنے لگی ہے ہوا کے ساتھ
٭٭٭
تیرا کیا بنے گا اے دل
کسی خواب سے فروزاں کسی یاد میں سمٹ کر
کسی حُسن سے درخشاں کسی نام سے لپٹ کر
وہ جو منزلیں وفا کی مرے راستوں میں آئیں
وہ جو لذتیں طلب کی مرے شوق نے اُٹھائیں
اُنہیں اب میں جمع کر کے کبھی دھیان میں جو لاؤں
تو ہجومِ رنگ و بو میں کوئی راستہ نہ پاؤں
کہیں خوشبوؤں کی جھلمل کہیں خواہشوں کے ریلے
کہیں تتلیوں کے جمگھٹ کہیں جگنوؤں کے میلے
پہ یہ دلفریب منظر کہیں ٹھہرتا نہیں ہے
کوئی عکس بھی مسلسل سرِ آئینہ نہیں ہے
یہی چند ثانیے ہیں مری ہرخوشی کا حاصل
انہیں کس طرح سمیٹوں کہ سمے کا تیز دھارا
سرِ موجِ زندگانی ہے فنا کا استعارا
نہ کھُلے گرہ بھنور کی نہ ملے نشانِ ساحل
ترا کیا بنے گا اے دل! ترا کیا بنے گا اے دل
٭٭٭
ایک انوکھی کہانی
اربوں کھربوں تاروں اور سیاروں کی اس
بھیڑ میں رُک کر دیکھ سکیں تو
اپنی زمیں کی ساری وسعت اور پھیلاؤ
دُنیا بھرکے صحراؤں میں پھیلی ریت کا اک ذرہ یا
ممکن ہے اس سے بھی کم ہو
لیکن پھر بھی
اس موہوم سے ذرے اندر
کیسی کیسی دُنیائیں اور کیا کیا منظر بستے ہیں
دیکھنے والی آنکھیں روز بدل جاتی ہیں، منظر بجھتے رہتے ہیں
لیکن ہر منظر کے اندر اپنا ایک تماشا ہے
دیکھنے والی سب آنکھوں کی اپنی اپنی دُنیا ہے
سورج کی شرطوں پہ چلتا یہ جو ہمارا
جلتا بجھتا سیارا ہے
اب تک کے معلوم جہانوں کی یہ واحد آبادی ہے
آدم کا اور اُس کی ساری نسلوں کا گہوارا ہے
ہست و بود کے جتنے منظر جتنے رنگ ہیں
ان سب کا ور تارا ہے
کیسا عجب تماشا ہے یہ
ایک ہی آدم کی اولادیں ایک ہی دھرتی پر رہتی ہیں
لیکن پھر بھی
اک دوجے کے بیچ میں کتنی دیواریں ہیں
رنگوں نسلوں ملکوں کی
دولت اور عقیدوں کی
جن سے دُنیا، ہم سب کی یہ ایک ہی دُنیا
ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے
کوئی کسی کا میت نہ ہوگا لمحوں کا فرما ن یہی ہے
ہر گلشن کا رنگ جُدا موسم کا اعلان یہی ہے
ہم جس خلقت کا حصہ ہیں اُس کی اب پہچان یہی ہے
بے چہرہ ، چہرے ہیں سب کے ، ہونٹ سوالی رہتے ہیں
بھوک کی بولی بولتی آنکھیں
پیٹ کے اندر ہوتی ہیں جو اکژخالی رہتے ہیں
آئی ۔ایم ۔ایف اور اس طرح کے کئی ادارے
اُس کے رزق کا لقمہ لقمہ گنتے ہیں اور اُس کو اُسکے
اپنے ہی پیڑوں کا پھل بھیک کی صورت میں ملتا ہے
یوں لگتا ہے جیسے سب اخلاقی قدریں سارے رشتے
صرف کتابوں میں ہوتے ہیں
جیسے بس یہ زور آور ہیں اصل حقیقت
باقی سارے قصے ہیں
ایک شکستہ آئینے کے ٹوٹے بکھرے حصے ہیں
ٹوٹے بکھرے ان حصوں کو جوڑے کون
چاروں اور سے گھیرا کرتی دیواروں کو توڑے کون
یوں لگتا ہے
جیسے یہ اک خواب ہے جس کی
کوئی بھی تعبیر نہیں
ٹکڑے ہو کر پھر سے ملنا
دھرتی کی تقدیر نہیں
شاید یہ سب ٹھیک ہو لیکن
دل کہتا ہے
اس سارے سنسار سے اوپر
اور کوئی بھی تو رہتا ہے
جس کے حکم سے وقت کا دھارا
رُکتا بھی ہے اور بہتا ہے
یہ جو اندر سے اُٹھتی ہے ایک صدا انجانی سُنئے
آئیے ایک کہانی سُنیے
٭٭٭
ایک انوکھی کہانی ۔ ۲
مکتب کی دیوار پہ چسپاں کرہ ٔ ارض کا اک نقشہ تھا
اس نقشے پر بنے ہوئے تھے کتنے ہزاروں شہر اور قصبے
نہریں ، جھیلیں، دریا ، جنگل
گہرے اور منہ زور سمندر، ساحل ،کوہستان
برفوں کی بے پایاں وسعت، جلتے ریگستان
اک دن اک بچے نے یونہی
کھیل کھیل میں نقشے والا کاغذ یک دم پھاڑ دیا
اور
اک اک کر کے اس کے اتنے ڈھیروں ٹکڑے کر ڈالے
جن کو اب ترتیب سے واپس جوڑ کے رکھنا ناممکن تھا
ٹیچر نے بچے کو ڈانٹا
” جب تک سارے ٹکڑے جوڑ کے نقشے کی ترتیب کے مطابق نہیں کرو گے
تُم کو چھٹی نہیں ملے گی
جاؤاُس کونے میں بیٹھو
اور یہ سارے پُرزے جوڑو
سارا نقشہ پھر سے اس کی اصلی شکل میں واپس لاؤ”
ٹیچر دل میں سوچ رہا تھا
کام بہت مشکل ہے لیکن بچے کی اصلاح کی خاطراتنی سختی لازم ہے
لیکن اس کی حیرت کی تو حد نہ رہی جب اُس نے دیکھا
بچہ پانچ منٹ میں سارا نقشہ جوڑ کے لے آیا تھا
ہر شے اپنی اصل جگہ پر ٹھیک طرح سے رکھی تھی
اُس نے پوچھا
"تُم نے اتنے ڈھیروں ٹکڑے اتنے تھوڑے وقت میں آخر
کیسے جوڑ لیے؟ ”
بچہ بولا:
"اس نقشے کے پیچھے ایک انسان کا چہرا بنا ہوا تھا
میں نے جب وہ چہرہ جوڑا
دُنیا کے نقشے کے ٹکڑے ، خود ہی جُڑ کر
اپنی جگہ پر آ بیٹھے ہیں”
٭٭٭
کیا یہ ایک کہانی ہے
شام تھی ساعتِ زوال میں گُم
زخم تھا اپنے اندمال میں گُم
حدِ ادارک میں تھا جو بھی کچھ
سب تھا بس ایک ہی سوال میں گُم
تیز آندھی میں کیا چراغ کی لو؟
برف میں کیسی آبلہ پائی؟
کارنس پر تھے پھول سوکھے ہوئے
سیڑھیوں میں بچھی تھی تنہائی
خواب تھے کھڑکیوں میں آویزاں
زینتِ طاق تھی شکیبائی
ایک نا طاقتی تھی چاروں طرف
راستہ راستہ تھی پسپائی
کہکشاؤں کے درمیاں لرزاں
ایک نا مختتم سی پہنائی
فاصلے تھے فریب آنکھوں کا
ناپتا کون غم کی گہرائی
اک گریزاں سے عکس کی خاطر
آئنے ہو رہے تھے سودائی
یوں ستارے تھے منتظر، جیسے
درِ محبوب پر تمنائی
وقت تھا روز و شب کی چال میں گُم
میں تھا اپنے کسی خیال میں گُم
٭٭٭
نئی نسل کا نوحہ
میں سوچتا ہوں
لکھا ھے جو کچھ،پڑھا ھے جو کچھ وہ کس لئے تھا،
کہاں سے پوچھوں!
وہ کس لیئےھے کسے بتاؤں!
مجھے عقیدوں کے خواب دے کر کہا گیا،ان میں روشنی ھے
چمکتی قدروں کی چھب دکھا کر مجھے بتایا یہ زندگی ھے
سکھائے مجھ کو کمال ایسے
یقیں نہ لا ئیں سکھانے والے اگر انھیں کو میں جا سناؤں
میں کہنہ آنکھوں کی دسترس میں نئے مناظر کہاں سے لاؤں
کہاں پہ جنسِ کمال رکھوں۔ خیالِ تازہ کہاں سجاؤں
زمین پاؤں تلے نہیں ھے،تو کیسے ستاروں کی سمت جاؤں
پرانی قدریں جو محترم ہیں
انھیں سنبھالوں یا آنے والے نئے عقیدوں کا بھید پاؤں
وہ سب عقیدیں،تمام قدریں ،خیال سارے
جو مجھ کو سکّے بنا کے بخشے گئے تھے میرے حواس۔خمسہ سے معتبر تھےِ
جب ان کو رہبر بنا کے نکلا
تو میں نے دیکھا کہ میرے ھاتھوں میں کچھ نھیں ہے
میں ایسے بازار میں کھڑا ھوں جہاں کرنسی بدل چکی ہے۔۔
زمستاں مرے جسم میں موجزن ہے
کوئی بات کہہ کے،
میں جب اپنی سانسوں کو کہرے میں لپٹی ہوئی
شاہراہوں پہ چلتے ہوئے دیکھتا ہوں
تو بے روئے سانسوں کا جالا سا چاروں طرف پھیلتا ہے
اور آگے کی چیزوں ہیولوں کی مانند بنتی بگڑتی ہیں
تب لوگ کہتے ہیں
’یہ رُت زمستاں کے کھلنے کی ہے ‘
اور میں سوچتا ہوں
’زمستاں کہاں ہے
دُھواں بنتی سانسوں میں!
آنسو کے جالے میں!
یا ان ہیولوں کے بننے بگڑنے میں یا۔۔۔۔۔۔ ‘
اگر یہ حقیقت میں فصلِ زمستان ہے تو کس سے پوچھوں
کہ جو اتنے موسم گئے اور آئے
سبھی کی شباہت زمستاں سی کیوں تھی؟
۔۲۔
کئی سال گزرے
انہی شاہراہوں پہ چلتے ہوئے ہم کوئی بات کہہ کے
دُھواں بنتی سانسوں میں اپنے ہی الفاظ کو دیکھتے تھے
نجانے میں اس وقت کیا کہہ رہا تھا!
کہ تُم تھے جو کچھ کہتے کہتے اچانک رُکے تھے!
کہ پھر یہ زمستاں تھا جس نے کوئی ان کہی بات کاٹی تھی !
کچھ ٹھیک سے یاد آتا نہیں۔۔۔
صرف اتنا پتا ہے
کہ اس دن سے آنکھوں میں آنسو کے جالے ہیں
آگے کی چیزیں ہیولوں کی مانند بنتی بگڑتی ہیں۔۔۔
بنتی بگڑتی ہیں۔۔۔بنتی بگڑتی چلی جا رہی ہیں
۔۳۔
زمستاں جدائی کے موسم کا اک آئینہ ہے
اور اس آئینے میں
تمہیں جس گھڑی میں مسافت کی پھیلی ہوئی دُھند میں دیکھتا ہوں
مجھے ایسا لگتا ہے
جیسے ہر اک شے اسی ایک لمحے سے پیدا ہوئی ہے
ہر اک رُت اسی خواب کا عکس ہے ، سارے موسم مرے
جسم میں موجزن ہیں
لہو کے سمندر کی امواج ہیں
زمیں ، آسماں، پھول، تارے ، ہوائیں، سمندر، جزیرے پہاڑ
اور ندیاں
تمہارے ہی چہرے کے بھُولے ہوئے نقش ہیں اور موسم،
ازل سے ابد تک کا ہر ایک موسم
جُدائی کے موسم کی تجرید ہے۔۔۔
۔۴۔
زمستاں مرے ہست کا استعارہ ہے، وہ آئنہ ہے
جو کھوئے ہوئے عکس کا ترجماں ہے
جُدائی کے لمحے سے کچھ دیر پہلے جو تُم مسکرائے تھے
اس کا گماں ہے
کوئی بات کہہ کے
میں جب اپنی سانسوں کو کہرے میں لپٹی ہوئی شاہراہوں
پہ چلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بے روئے آنسو کا جالا سا چاروں
طرف پھیلتا ہے اور آگے کی چیزیں ہیولوں کی مانند بنتی بگڑتی ہیں
میں سوچتا ہوں
زمستاں کہاں ہے
٭٭٭
آج
یہ” آج” جو کل میں زندہ تھا
وہ "کل” جو آج میں زندہ ہے
وہ "کل” جو کل کے ساتھ گیا
وہ "کل "جو ابھی آئندہ ہے
گزر چکے اور آنے والے جتنے "کل” ہیں ,جتنے "کل” تھے
ان کا کوئی وجود نہ ہوتا
ہم اور تم بے اسم ہی رہتے
آج” اگر موجود نہ ہوتا”
ممکن ہے” آئندہ” صرف اک خواب ہو جس کی
تعبیروں میں جینے والی ساری آنکھیں ڈوب چکی ہوں
(لیکن وہ خود بجھ کر بھی رخشندہ ہو!)
ہو سکتا ہے
رفتہ” کی دہلیز پہ ٹھہری”
بھید بھری اس آنکھ کے اندر
چھپا ہوا آئندہ ہو
آئندہ "کے منہ پہ پڑی یہ غیب کی چادر”
اُٹھ جائے تو ہو سکتا ہے
اس میں ہمارا اور تمہارا
ایک اک لمحہ زندہ ہو
(روشن اور تابندہ ہو)
لیکن یہ بھی دھیان میں رکھنا
ہو سکتا ہے آنے والے کل میں ہمارا” آج” نہ ہو
اور اُس کی جگہ
اک ایسے وقت کا سایہ سا رقصندہ ہو،جو
ماضی حال اور مستقبل کے
تین کناروں والے اس دریا سے یکسر باہر ہو
(اور کہیں سے جنم ہو اس کا…. اور کہیں پہ ظاہر ہو)
ماضی حال اور مستقبل!
تین کناروں والے اس دریا کے اندر
اپنی اپنی موجیں مارتے چلتے ہیں
پھر اُس لہر میں ڈھلتے ہیں
جو صبحِ ازل کو اُچھلی تھیاور اب تک کہیں معلق ہے
اُسی معلق لہر کے بے خود قطرے ہیں ہم
ہم اور ہم سے اربوں ،کھربوں
(گزر چکے اور آنے والے)
سو اے وقت کی حیرت میں کھو جانے والی آنکھ ۔۔ٹھہر
آج” کے پُل پر رُک کر آگے پیچھے دیکھ”
روشنی اور تاریکی شاید، ایک ہی ڈال کے پتے ہیں
لمحوں کا یہ فرق نظر کا دھوکہ ہے
وقت کی اس "ناوقتی” کے سیلاب میں ۔۔شاید!
"آج” ہی واحد لمحہ ہے!!
عُمرِ رواں کی دہشت میں کھو جانے والی آنکھ ٹھہر!
٭٭٭
اندیشہ
ضروری نہیں ہے
ضروری نہیں ہے جو ساحل کی گیلی خنک ریت پر
ہاتھ میں ہاتھ دے کر
سفر اور تلاطم کے قصے سُنائے
جزیروں ، ہواؤں اور ان دیکھے موسم
اور آنکھوں سے اوجھل کناروں پہ بکھرے
ہوئے منظروں، ذائقوں اور رنگوں کی باتیں کرے
وہ ان وارداتوں سے گزرابھی ہو
گر کہے، آؤ ہم ان پریشاں موجوں کا پیچھا کریں
جو ترے اور مرے پاؤں کو چومتی ہیں
تلاطم کی بے نام منزل سے گزریں
یہ دیکھیں ہوائیں کسے ڈھونڈتی ہیں
تو چلنے سے پہلے ذرا سوچ لینا
ضروری نہیں ہےجو ان دیکھے رستوں کی خبریں سُنائے
وہ ان رستوں کا شنا سا بھی ہو
کہیں یہ نہ ہو جو سمندر میں تُم اُس کو ڈھونڈوتو وہ
ساحلوں پہ کھڑا مسکراتا رہے
٭٭٭
اسرافیل کہاں ہے
بستیوں میں ظلم کا پرچم کُھلا
لوگ پھر اندھے سفر کی راہ میں حائل ہوئے
پھر طلسمِ بابِ شہرِ غم کُھلا
پھر بدن سڑکوں پہ گرتے خوں سے اپنی کشمکش کی داستاں لکھنے لگے
چوک دشتِ ہول کا منظر بنے
مر مریں بانہوں میں ٹوٹی چوڑیوں کی کرچیاں اُتریں
تو سینے یاد کے محشر بنے
پھر کئی ماؤں کی آنکھیں زینتِ در ہو گئیں اور منتظر کانوں میں
کھوئی آہٹوں کے گھر بنے
آرزو کے راستے پتھر بنے
جبر کی منزل میں ہے ! ۔۔۔۔۔ہر ایک شے
کیوں زمیں پھٹتی نہیں اندھیر ہے
آسمانو ، دیکھتے ہو کس کا منہ
کیا دیر ہے
کوہسارو روئی کے گالے بنو
اور اے سمندر ، ساحلوں کے باب سے باہر نکل
نقشِ فردا ۔ خواب سے باہر نکل
٭٭٭
آبِ حیات
۔۱۔
آتے جاتے موسموں کی لوح پر
لکھے ہواؤں نے
بہت سے لفظ ایسے
جن کے معنی، اب کسی کو بھی نہیں آتے
کہ وہ گزرے زمانوں کے کسی انجان دوراہے پہ
رستہ بھول بیٹھے تھے
نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہ ماضی میں تو زندہ ہیں
مگر کچھ اس طرح جیسے
"مشینوں کے توسط سے کوئی کومے میں زندہ ہو”
کچھ ایسے لفظ بھی اس لوح پر لکھے ہوئے ہیں
جن کے معنی اب نہیں ظاہر
مگر اک وقت آئے گا
کہ یہ مفہوم کی پوشاک پہنیں گے
بلند آواز میں بولیں گے اور باتیں کریں گے
۔۲۔
کبھی کے مر چکے اور آنے والے لفظ میں کیسا یہ رشتہ ہے
کہ دونوں ایک ہی لمحے میں زندہ بھی ہیں ۔۔مردہ بھی
ہمارا کام تو بس لوح کی خالی جگہوں پر
حاشیوں کی بالکونی سے
انہیں آواز دینا ہے
کہ یہ اپنی جگہ پر آ کے بیٹھیں تو
ہماری بات بھی تحریر میں آئے
ہمارے ہست کا منظر کسی تصویر میں آئے
۔۳۔
ہمیں معلوم ہے اک دن
گزرتے وقت کی دیمک ہمیں بھی چاٹ جائے گی
کہ یہ اس کا وظیفہ ہے
یہ روشن دن جو نکلا ہے یہ آخر شام بھی ہوگا
” وہ مہلت جو ملی ہم کو وہ کیسے بے ثمر نکلی!
وضاحت کون سُنتا ہے
تلافی کس سے مانگیں ہم ”
ہمارے سر پہ اپنے خون کا الزام بھی ہوگا
تو اس دیمک کا رزقِ بے نشاں بننے سے پہلے
آخری حیلہ تو کر دیکھیں
جو کا غذاپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر دیکھیں
بہت مشکل سہی لیکن نہیں امکان سے باہر
کہ وہ الفاظ جن کے آج تک معنی نہیں ظاہر
ہم اُن کا بھید پا جائیں
اُنہیں اس لوح پر لکھی ہوئی تحریر کا حصہ بنا جائیں
اگراُس موڑ سے پہلے
جہاں اس بے جہتکاوش کو رزقِ خاک ہونا ہے
جہاں اس زندگی کے قرض کو بے باق ہونا ہے
جہاں پر ہر بقا لمحہ ، فنا پیغام بھی ہو گا
جہاں خورشید کا سایہ شریکِ شام بھی ہو گا
اگر اُس موڑ سے پہلے
کسی صورت
ہم ان لفظوں کے پوشیدہ معانی جان پائیں تو
سمے کی لوح پر لکھے ہوئے کچھ خاص ناموں میں
ہمارا نام بھی ہوگا
ہمارا کام بھی ہوگا۔
٭٭٭
تجھے یاد ہے اسی ریت پر
میں ہوں جس مکان کی چھت تلے
مرا گھر نہیں
ترا نام درج ہے جس جگہ
ترا در نہیں
تجھے یاد ہے کسی شام ہم نے بنایا تھا
کہیں ایک چھوٹا سا ریت گھر
اُسی ریت سے اُسی ریت پر
(اُسی ریت پر
جو تھی راہ میں کسی موج کے
کبھی اپنے ہونے کے دھیان میں
کبھی معجزوں کے گمان میں)
ہمیں علم تھا
ہمیں علم تھا کہ وہ ریت گھر
جو تھے منتظر کسی موج کے
انہیں ٹوٹ جانے سے روکنے کا خیال امرِ محال ہے
اسی موج و ریگ کے کھیل سے ہی بحال ہے
وہ تلازمہ
وہی رابطہ، جسے ماننے کے فشار میں
رہِ آگہی کے سراب بھی
سبھی خواب بھی
اسی ایک لمحۂ مختصر کے حصار میں ہے گھرا ہوا
خطِ ریگ بھی کفِ آب بھی
پہ یہ داستاں
تو تھی ترجماں کسی کھیل کی
اُسی کھیل کی
جسے کھیلتے ہمیں آلیاکسی رات نے
اُسی رات نے
جسے اپنے خوں سے جواں کیا
مرے شوق نے ترے ساتھ نے
کسی ان چھوئے سے خیال نے
کسی دور ہوتی سی بات نے
تجھے یاد ہے مجھے یاد ہے
وہ جو بات کی بڑی دیر تک
مرے ہاتھ سے ترے ہاتھ نے
کہاں تھا گُماں، کسے تھی خبر
جو کہا تھا شوق کی لہر نے
جو لکھا ریت کی لوح پر
اُسی ایک شام کا کھیل تھا
اُسی ایک پل کا جمال تھا
اُسی کھیل میں
اُسی شام کو
وہ جو ریت گھر سے بکھر گئے
وہ جو ایک پل میں اُجڑ گئے
مرے خواب تھے
ترے خواب تھے
٭٭٭
وسری ملاقات
جر کی پہلی شام سے اب تک
جتنی شامیں گزری تھیں
اُن کی پتھر چُپ میں ، میں نے
(اُس کے سامنے کرنے والی)
کیا کیا باتیں سوچی تھیں!
"باتیں گزرے برسوں کی جو ہم نے الگ سے کاٹے ہیں
غموں کی اور اُن خوشیوں کی ہم جن سے ہو کر گزرے ہیں
جیتوں اور اُن ماتوں کی جو عمرِ رواں کا رزق ہوئیں
آسوں اور اُمنگوں کی جو دشتِ گُماں کا رزق ہوئیں ”
کیسے کیسے بھٹکے آہو ، صحرائے امکان میں آئے
شمعِ طلب کے کیسے کیسے روشن پہلو دھیاں میں آئے
"ڈھلتی رات کا جادو ہو گا
لمحہ لمحہ خوشبو ہو گا
پھول اور تتلی یکجا ہوں گے
رنگ ہوا سے پیدا ہو نگے
ایک ہی وصل کی بارش سے وہ سارے شکوے دھو دے گا
یعنی میرے ساتھ لپٹ کر ، کچھ نہ کہے گا رو دے گا
ارمانوں کا پھول اچانک کھل ہی گیا
جس کے غم میں آنکھ برستی رہتی تھی
آج مجھے وہ مل ہی گیا
جس کو میری پیاس ترستی رہتی تھی
وہ ایک چھلکتا جام مرے ہمراہ رہا
آج وہ ساری شام مرے ہمراہ رہا
لیکن اب وہ اور تھا کوئی ، اور تھا اُس کا روپ نگر
اوس رُکی تھی آنکھوں میں تو راکھ جمی تھی بالوں پر
اور کوئی تھی دُنیا اُس کی اور تھے اُس کے شام و سحر
( میری حیرت لکھی ہوئی تھی شاید میرے چہرے پر)
اُس نے کہا، تُم مجھے نہ دیکھو، آبِ روانِ وقت سے پوچھو
جیون کے اس پُل نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے
مجھ میں جو اک شخص تھا زندہ ، وہ تو کب کا بکھر ہے
میں تو فقط رستہ ہوں اُس کا دریا جو تھا اُتر چکا ہے
آؤ چلو اب اپنی اپنی دُنیا کو ہم لوٹ چلیں
حدِ ابد تک اس رستے میں بکھرے ہیں غم لوٹ چلیں
پلٹے ہم تو ہم دونوں کے ساتھ زمانہ پلٹ گیا
ان دیکھی تعبیر لئے اک خواب پرانا پلٹ گیا
چاروں جانب بکھر رہی تھی
ایک ادھوری تنہائی
ہوا نے رُک کر ہم دونوں کو مُڑتے دیکھا تو گھبرائی
پت جھڑ کی دہلیز پہ اُس نے
پیڑ سے کچھ سرگوشی کی
اس کے بعد اُس راہ گزر پر
دور تلک خاموشی تھی
آسماں پر بادل تھا اور اُس میں تارے سمٹے تھے
ہم دونوں کے قدموں سے کچھ سوکھے پتے لپٹے تھے
٭٭٭
دوسری جُدائی
تری خوشبو
ہوا کے سبز دامن میں بسی
تو سوچ نے آنکھوں میں خواہش کے دریچے کھول کر دل سے کہا
"خدا شاہد
کہ ہم نے آج تک بچھڑے ہوؤں کو پھر کبھی ملتے نہیں دیکھا
مگر حیرت سماعت پر کہ یہ آہٹ اُسی کی ہے
جسے تُم نے گنوایا تھا
جُدائی کی ہواجس کے مہکتے مہکتے جسم کی خوشبو سے خالی تھی
جسے کھونے کا لمحہ ہر نئے موسم کا حاصل تھا
ستارے جس کی صورت دیکھنے ہر شب نکلتے تھے
نظارے ہاتھ ملتے تھے ”
۔۲۔
یکایک شہر کی گلیوں میں اُس کے نام کی خوشبو اُڑی میں نے
رفاقت کے پُرانے نرم لہجے میں اُسے آواز دی
اُس نے مجھے دیکھا
مگر اُس کی نگاہوں میں فقط حیرت ہویدا تھی
کہ جیسے پوچھتا ہو اس تخاطب کا سبب کیا ہے
وہی چہرہ ،وہی آنکھیں، وہی خوش وضع پیکرتھا
کہ جیسے موسموں کا گُھن اُسے چھونے سے قاصر ہو
میں بچے کی طرح ششدر کھڑا تھا
اُس نے بالوں کو جھٹک کر ڈوبتے سورج کو گھورا
راستے کو آنکھ میں تولا،مجھے دیکھا
"سفر لمبا ہے” وہ بولا
میری منزل تمھاری رہگزر سے سینکڑوں فرسنگ آگے ہے
خدا حافظ!
٭٭٭
نئے لفظوں کی خوشبو
لکھوں وہ لفظ، کسی نے لکھے نہ ہوں اب تک
کروں وہ بات نہ جس سے ہو آشنا کوئی
چُنوں وہ رنگ جو پیدا نہیں ہوئے، لیکن
یہ آگہی کے علم کس لئے بلند کروں
جو میرے ذہن میں جلتا ہے اُس چراغ کی لو
وہ روشنی تو نہیں جس کی آرزو لے کر
ازل سے محوِ سفر ہیں یہ آدمی زادے
سیاہ بخت لئے ۔۔رزق پائے باد بنے
دیارِ ذہن میں جلتے ہوئے چراغ، ٹھہر
تری ضیا ءتو کوئی اور راہ پا لے گی
یہ موجِ سیل ہے رستہ نیا بنا لے گی
مگر یہ قبر سے تاریک بستیاں میری
یہاں چراغ نہیں سُورجوں کی حاجت ہے
ہمارے خوں سے مہکتے ہوئے جواں سُورج
زمانے بھر کےغریبوں کے ترجماں سُورج
جہاں جہاں ہے اندھیرا، وہاں وہاں سورج
میں ایسے لفظ لکھوں گا جو سب کے دل میں ہیں
فقط وہ بات کروں گا جو سب سمجھتے ہیں
اور ایسے رنگ چُنوں گا جو میری گل میں ہیں
٭٭٭
شاعر
کیسے کایگر ہیں یہ!
آس کے درختوں سے
لفظ کاٹتے ہیں اورسیڑھیاں بناتے ہیں!
کیسے با ہنر ہیں یہ!
غم کے بیج بوتے ہیں
اور دلوں میں خوشیوں کی کھیتیاں اُگاتے ہیں
کیسے چارہ گر ہیں یہ!
وقت کے سمندر میں
کشتیاں بناتے ہیں آپ ڈوب جاتے ہیں
٭٭٭
اکیسویں صدی کے لئے ایک نظم
سمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
پر ان کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
وہ سارے رسے روائتوں کے جن کی گرہیں کسی ہوئی ہیں
ہمارے ہاتھوں سر اور پاﺅں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک
ہماری رُوحوں میں کھُبتے جاتے ہیں
اور ہم کو بچانے والا، چھڑانے والا کوئی نہیں ہے!
زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
دلوں میں پھندے ہیں
اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کسی ہے
چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!
مرے عزیزو مجھے یہ غم ہے
جو ہو چکا ہے بہت ہی کم ہے
سمے کے رستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اب ختم ہو رہے ہیں
بچے کھچے یہ جو بال و پر ہیں
جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
ہمارے بچوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
اب ان کی باری بھی آ رہی ہے
وہ ایک مہلت جو آخری تھی
وہ جا رہی ہے
تو اس سے پہلےزمین کھائے
ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کر دے
یہ سرد مٹی جو بھُر بھُری ہے
ہماری آنکھوں کے زرد حلقے لہو سے بھر دے
مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مل کے دیکھیں
کہاں سے سورج نکل رہے ہیں
سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں
٭٭٭
ایک دن
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گُزرتے ہیں
کیسے کیسے گُماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبرپُکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط، بے نوا، گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بد نما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں ، دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں پہ کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
نام جو کٹ گئے ہیں، اُن کے حرف
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھتے نشانوں پر
چاک سے لائنیں لگاتے ہیں
پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری اک سوال کرتی ہے
"کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہوں گے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے
اُن کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشان صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہوگا!!
٭٭٭
ماخذ:
http://amjadislamamjad.net/nazam.php
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید