ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
ایک دن کا بادشاہ
اطہر پرویز
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
(اسی نام کی کتاب سے ماخوذ)
آپ نے خلیفہ ہارون رشید کا نام سنا ہو گا۔ خلیفہ ہارون رشید بغداد کے حاکم تھے۔ کہتے ہیں کہ ہارون رشید کے زمانے میں بغداد میں ایک بہت بڑا تاجر تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام تھا ابو الحسن— باپ کے مرنے کے بعد ابو الحسن نے ساری دولت کو دو حصوں میں بانٹا۔ ایک حصے سے اس نے بڑے بڑے مکان اور دکانیں خریدیں۔ ان مکانوں اور دکانوں کے کرایے سے اس کا خرچ بہت اچھی طرح چلنے لگا۔ دوسرے حصے کو اس نے نقد روپیہ کی شکل میں رکھا۔ اس کو وہ اپنے عیش و آرام اور سیر و تفریح پر خرچ کرتا۔ ہر وقت اس کے گھر پر یار دوستوں کی بھیڑ لگتی رہتی۔ تمام دن ناچ گانے اور ہنسی مذاق ہوتے، بڑی شاندار دعوتیں ہوتیں۔ اس طرح اس کے دن عید اور راتیں شب برات کی طرح گذر رہی تھیں۔ ابو الحسن بھی صبح سے شام تک اسی میں مگن رہتا۔ اس کے دوستوں کا یہ حال تھا کہ جسے دیکھیے ابو الحسن کی محبت کا دم بھر رہا ہے۔ اس طرح ابو الحسن اپنے دوستوں کے ساتھ مزے میں زندگی گذار رہا تھا۔ آخر سال بھر کے اندر وہ سارا روپیہ ختم ہو گیا۔ روپیہ کا ختم ہونا تھا کہ دوستوں نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اگر کوئی دوست راستے میں مل بھی جاتا تو منہ پھیر کر دوسری طرف چلا جاتا۔ ابو الحسن کو اس بات کا افسوس ہوا کہ جن لوگوں کو وہ اپنا دوست سمجھتا تھا اور جو ہر وقت سایے کی طرح اس کے ساتھ لگے رہتے تھے، وہ در اصل سب اس کے روپے پیسے کے دوست تھے۔
ابو الحسن پر اپنے دوستوں کے اس سلوک کا بہت اثر ہوا اور اس نے طے کیا کہ وہ بغداد کے لوگوں کی صحبت میں نہ بیٹھے گا اور نہ ان کو کبھی کھانے پینے کی دعوت ہی دے گا اور نہ کبھی اُن کے گھر جائے گا۔ لیکن روزانہ شام کو وہ بغداد کے پُل پر چلا جاتا اور جو کوئی پردیسی مسافر نظر آتا، اسے اپنے ساتھ لاتا اور اس کی خوب خاطر تواضع کرتا، اسے ایک رات کے لیے اپنے یہاں مہمان رکھتا اور صبح کو اسے رخصت کرتا۔ لیکن وہ کبھی کسی بغداد کے رہنے والے کو اپنے گھر نہ بلاتا۔ اس طرح اُس نے دوستی کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اس لیے کہ جن مسافروں کو وہ مہمان رکھتا، اُن سے دوبارہ نہ ملتا تھا۔
ایک مرتبہ اسی طرح شام کو وہ مسافر کی تلاش میں باہر نکلا تو اُسے بغداد کے پُل پر ایک بہت شریف آدمی نظر آیا جو صورت سے موصل کا سوداگر معلوم ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر ہی ابو الحسن سمجھ گیا کہ یہ ضرور موصل کا سوداگر ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ نہ تو وہ کوئی پردیسی تھا اور نہ موصل کا سوداگر۔ یہ خود بغداد کا حاکم تھا— خلیفہ ہارون رشید۔ خلیفہ کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ کبھی کبھی بھیس بدل کر بغداد کے گلی کوچوں میں گھوما کرتا تھا۔ اسی طرح اس کو اپنی رعایا کا صحیح صحیح حال معلوم ہو جاتا۔ اس مرتبہ خلیفہ نے موصل کے سوداگر کا بھیس بنایا، لیکن ابو الحسن یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ خلیفہ ہے، وہ تو یہی سمجھا کہ یہ موصل کا سوداگر ہے۔ ابو الحسن نے آگے بڑھ کر اسے بڑے ادب سے سلام کیا اور کہا — ’’خدا آپ کا بھلا کرے۔ میری خواہش ہے کہ آج کی رات آپ میرے یہاں مہمان رہیں اور صبح کو جہاں چاہیں چلے جائیں۔‘‘ پھر ابو الحسن نے خلیفہ کو بتایا کہ وہ صرف پردیسیوں ہی کی خاطر مدارات کرتا ہے۔ خلیفہ نے جب ذرا تکلف کیا تو ابو الحسن نے کہا— ’’آپ اس کا خیال نہ کریں، خدا کی مہربانی سے میرے گھر میں اُس کا دیا ہوا بہت کچھ موجود ہے اور آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔‘‘
خلیفہ کو یہ آدمی بہت عجیب سا لگا۔ لیکن اس نے ابو الحسن کی دعوت قبول کر لی۔ ابو الحسن خلیفہ کو لے کر گھر آیا اور یہاں اس کو بڑی عزت کے ساتھ بٹھایا اور اس کی خوب خاطر مدارات کی۔ کھانے کے بعد اُس نے بہت اچھی شراب پلائی۔ دونوں نے مزے لے لے کر شراب پی۔ پھر ابو الحسن نے کہا ’’آپ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے ساری دنیا کی سیر کی ہے۔ اور آپ کا تجربہ بہت زیادہ ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میری ملاقات ایک ایسے آدمی سے ہوئی ہے جس نے ساری دنیا دیکھی ہے۔ آج کی رات مجھے بھی آپ کے تجربے سے فائدہ پہنچے گا۔
خلیفہ نے ابو الحسن کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ اپنا سارا حال بیان کرو۔ کہ تم کیوں صرف پردیسیوں کو مہمان کے طور پر لاتے ہو اور یہاں بغداد میں تمھارا کوئی دوست نہیں ہے۔
ابو الحسن نے اپنا سارا حال خلیفہ ہارون رشید کو سنایا کہ کس طرح میں نے دوستوں کے ساتھ رنگ رلیوں میں اپنی آدھی پونجی ختم کر دی اور اب دوستوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اسی لیے میں نے اب طے کیا ہے کہ صرف پردیسیوں کی خاطر مدارات کروں گا۔ پردیسیوں کی دوستی میں یہ فائدہ ہے کہ یہ تھوڑی دیر کی رہتی ہے اور میں اس کے بعد اُن سے دوبارہ نہیں ملتا۔ اس لیے آپ سے بھی یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آج کے بعد میں آپ سے دوبارہ نہ ملوں تو آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ میں اپنے اس اصول پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ اور بہت دنوں سے اس پر عمل کر رہا ہوں۔
خلیفہ نے کہا ’’تم نے یہ بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ تم نے جو میری خاطر مدارات کی ہے، اس کے بدلے میں، میں بھی تمھاری دعوت کرتا۔ لیکن میں تمھارے اصول کو توڑنا نہیں چاہتا۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ اس کے بدلے میں تمھارے کام آ سکوں۔ شاید میرے ذریعہ تمھاری کوئی خواہش پوری ہو جائے۔ حالانکہ میں ایک سوداگر ہوں، لیکن بڑے بڑے لوگ میری بات مانتے ہیں۔ اگر تم کو میری مدد کی ضرورت ہو تو بتاؤ کیونکہ میں کل صبح تمھارے اٹھنے سے پہلے چلا جاؤں گا۔ اور یہ میں تم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں تمھارے دوسرے دوستوں کی طرح نہیں ہوں۔ مجھے اپنا بھائی سمجھو۔‘‘
ابو الحسن نے کہا۔ ’’اے بھائی موصل کے سوداگر! مجھے دنیا میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کا دیا ہوا میرے گھر میں سب کچھ موجود ہے۔ میں تو خود آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میرا اتنا خیال کیا کہ میری دعوت قبول کر لی اور میرے گھر مہمان کے طور پر آئے، اور میرے ساتھ کھانا کھایا۔ مجھے یہاں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہے۔ البتہ ایک بات بتاؤں؟ آپ جانتے ہیں کہ بغداد کے ہر محلے میں ایک مسجد ہے۔ اسی طرح ہمارے محلے میں بھی ایک مسجد ہے۔ اس مسجد کا امام بہت خراب آدمی ہے۔ اس کے چار دوست بھی ہیں۔ وہ بھی اتنے ہی خراب ہیں۔ خدا کی عبادت کرنے کے بجائے وہ لوگوں سے جھگڑا کرتے پھرتے ہیں۔ ان لوگوں نے سارے محلے کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر آدمی ان سے تنگ آ چکا ہے۔ نیک اور اچھے آدمیوں کے تو یہ لوگ خاص طور پر دشمن ہیں۔ میں تو ان سے اتنا چڑتا ہوں کہ اگر مجھے ایک دن کی بادشاہت مل جائے تو میں ان کے سو سو کوڑے لگواؤں تاکہ پھر وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔‘‘
خلیفہ نے کہا۔ ’’یہ تو ٹھیک ہے اور خدا کرے کہ خلیفہ تم کو چوبیس گھنٹے کے لیے بغداد کا بادشاہ بنا دے — میری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘
ابو الحسن نے کہا۔ ’’میں بھی آپ سے کیسی بیوقوفی کی باتیں کر رہا ہوں۔ بھلا ایسا بھی کہیں ہو سکتا ہے کہ میں چو بیس گھنٹے کے لیے خلیفہ بن جاؤں۔ یہ تو میں نے کہنے کے لیے ایک بات کہہ دی۔ آپ کو اس وقت میری بات پر ہنسی آ رہی ہو گی۔ اگر خلیفہ میری بات سن لے تو یقیناً مجھے پاگل خانے میں بند کر دے گا۔ در اصل میں شراب کے نشے میں ایسی باتیں کر رہا ہوں۔ اس کا ذکر کسی سے مت کرنا۔‘‘
خلیفہ نے کہا— ’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ ایسے امام کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔‘‘
ابو الحسن نے کہا ’’ارے چھوڑو، اس نالائق امام کی بات۔ یہ وقت برے آدمیوں کا ذکر کرنے کا نہیں۔ آؤ ہم تم ایک ایک گلاس اور پئیں اور پھر چل کر اطمینان سے سوئیں۔ اس لیے کہ تم کو صبح سویرے جانا ہے۔‘‘
جب ابو الحسن یہ کہہ رہا تھا تو خلیفہ نے ایک بات اور سوچی۔ اُس نے ابو الحسن کے گلاس میں ایک پاوڈر ڈال دیا۔ اس پاو ڈر میں یہ اثر تھا کہ اس سے آدمی چند گھنٹوں کے لیے بے ہوش ہو جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جیسے ہی اُس نے گلاس ختم کیا۔ اس پاوڈر نے اپنا اثر کیا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔
خلیفہ نے اپنے غلام کو آواز دی، جو باہر اُن کا انتظار کر رہا تھا اور اس سے کہا— ’’اس آدمی کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر محل میں لے چلو۔ البتہ اس کا گھر یاد رکھنا کیونکہ اس آدمی کو یہاں پھر واپس لانا ہے۔‘‘
غلام نے ابو الحسن کو اپنے کندھوں پر ڈال لیا۔ آگے آگے خلیفہ اور پیچھے پیچھے ابو الحسن کو اپنے کندھوں پر لیے ہوئے غلام۔ اسی طرح ہارون رشید اس کو لے کر محل میں آئے اور محل کے لوگوں سے کہا— ’’اس آدمی کے کپڑے اتار کر اس کو میرے سونے کے کپڑے پہنا دو اور پھر اسے میرے بستر پر لٹا دو— —‘‘
اس کے بعد خلیفہ نے محل کے تمام لوگوں کو، وزیروں اور داروغہ کو بلایا، محل کی کام کرنے والی کنیزوں کو آواز دی اور اُن سے کہا۔
’’کل صبح صبح تم لوگ یہاں آؤ اور اس آدمی کو جو میرے بستر پر لیٹا ہے، اپنا خلیفہ سمجھو اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آؤ جیسا کہ میرے ساتھ پیش آتے ہو اور اس کے ہر حکم کی اس طرح پابندی کرو جیسے میرے حکم کو مانتے ہو۔ اگر کوئی اس کا حکم نہ مانے گا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔‘‘
پھر خلیفہ نے اپنے وزیر جعفر کو بلایا اور اس سے کہا ’’اے جعفر! میں کل تک اس آدمی کو خلیفہ کے اختیارات دیتا ہوں۔ یہ جو کوئی حکم دے اُس پر عمل کرو۔ جس کو روپیہ پیسہ دینے کے لیے کہے اس کو روپیہ پیسہ دو۔ جس کو سزا دینے کے لیے کہے، اس کو سزا دو۔ کسی کام کے لیے مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اس کو ذرا سی دیر کے لیے بھی یہ شک پیدا نہ ہونے دینا کہ وہ خلیفہ نہیں ہے۔ یا یہ کہ میں اس سے مذاق کر رہا ہوں۔‘‘
اگلے دن خلیفہ کے کہنے کے مطابق سب لوگ وہاں آ گئے۔ جب ابو الحسن کی آنکھ کھلی۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک شاندار کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔ یہ کمرہ طرح طرح کے سامان سے سجا ہوا تھا۔ محل کا ہر آدمی اپنی اپنی جگہ پر ادب سے کھڑا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ہر طرف قیمتی ساز و سامان رکھا ہوا ہے، دیواروں پر رنگ برنگے پردے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے بستر کے چاروں طرف بہت ہی خوبصورت کنیزیں کھڑی ہوئی تھیں۔ ان کے پیچھے وزیر، امیر، اور ان کے پیچھے گانے والے تھے۔ ایک عالیشان میز پر خلیفہ کی پوشاک رکھی ہوئی تھی۔ جس کو وہ فوراً پہچان گیا۔
اس منظر کو دیکھ کر پہلے تو ابو الحسن گھبرا گیا۔ اس نے سوچا کہ میں ضرور کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ کہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ میں خلیفہ بن جاؤں۔ یہ شراب کا اثر تو نہیں جو میں نے موصل کے سوداگر کے ساتھ پی تھی۔ اس نے اپنی آنکھ بند کر لی۔ ذرا سی دیر میں ایک کنیز نے بڑھ کر کہا۔ ’’عالی جاہ! آپ کے جاگنے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘
اب تو ابو الحسن کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ پاس سے ہلکے ہلکے باجے کی آواز سنائی دی۔ اس نے دل میں کہا ’’اے ابو الحسن! کیا تم کو کبھی اس طرح اٹھایا گیا ہے — اے ابو الحسن! تم کہاں آ گئے ہو۔ یہ تمھارا گھر ہے یا شاہی محل— تم جاگ رہے ہو یا سو رہے ہو۔‘‘ ابو الحسن نے کنیز کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ تم نے مجھے غلط سمجھا۔ میں نے تم کو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ میرا اس محل سے کوئی تعلق ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں یہاں کیسے آیا؟ اگر تم کچھ بتا سکتی ہو تو بتاؤ تمھارا کیا نام ہے اور تم کون ہو۔‘‘
کنیز نے کہا— ’’میرا نام شیریں ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔ آپ ہمارے حاکم ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نیند خراب ہو گئی ہے اس لیے آپ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے کہ آپ ہی ہمارے حاکم ہیں۔‘‘
یہ سن کر ابو الحسن نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور اپنے تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ پھر بڑی تیزی کے ساتھ اٹھا اور بولا— ’’میری سمجھ میں اب بھی کچھ نہیں آ رہا ہے۔ سچ بتاؤ کہ میں کون ہوں؟‘‘-
’’آپ ہیں ہمارے خلیفہ ہارون رشید۔‘‘ سب نے ایک ساتھ جواب دیا۔
ابو الحسن کو پھر بھی یقین نہ آیا۔ اُس نے اپنی انگلی دانتوں سے کاٹی۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ جاگ رہا ہوں یا سو رہا ہوں۔ لیکن جیسے ہی اُس نے اُنگلی کاٹی، اس کو بہت تکلیف ہوئی۔ لیکن یہ بات کتنی عجیب ہے کہ کل تک وہ ابو الحسن تھا اور آج خلیفہ ہے۔ پھر اُس نے تمام غلاموں اور کنیزوں سے کہا ’’سچ سچ بتاؤ میں کون ہوں۔ یہ مذاق کا وقت نہیں ہے۔‘‘
سب نے ایک ساتھ کہا— ’’آپ ہمارے خلیفہ ہارون رشید ہیں۔ اور ہم سب آپ کے وفادار غلام ہیں — آپ کے حکم کو ماننے والے۔‘‘
ابو الحسن نے کہا۔ ’’تم سب جھوٹے ہو کیا تم میرے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔‘‘
اب وزیر جعفر آگے بڑھا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’ہم سب کے خلیفہ!— ہمارے قصور معاف کریں۔ آج کافی دیر ہو گئی ورنہ پہلے تو آپ بہت جلد اٹھا کرتے تھے۔ اور میری درخواست ہے کہ آپ چل کر سلطنت کے کام کاج کی دیکھ بھال کریں۔ ہم سب آپ کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں‘‘— — یہ کہہ کر اس نے ہاتھ بڑھا کر سہارا دیا، اور ابو الحسن کو اٹھا کر بٹھا دیا۔ شیریں شاہی لباس لے کر بڑھی۔ وہ ابو الحسن کو ایک اور کمرے میں لے گئی یہاں اس نے گلاب کے عرق سے منہ ہاتھ دھویا اور ابو الحسن کو شاہی لباس پہنا دیا۔ پھر شیریں نے بڑھ کر خلافت کا تاج، اُن کے سر پر رکھ دیا۔ اور سونے کا ایک ڈنڈا جو خلیفہ کے ہاتھ میں رہتا تھا ابو الحسن کو دے دیا۔ یہ ڈنڈا خلافت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ ابو الحسن اس کو لے کر بڑی شان سے شاہی تخت کی طرف بڑھے۔ پھر تو وہ سچ مچ کے خلیفہ بن کر تخت پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد سب درباری اپنی اپنی جگہ آ کر بیٹھے۔ ابو الحسن بار بار اپنے شاہی لباس کو دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے۔
وزیر جعفر نے کھڑے ہو کر کئی بار جھک جھک کر سلام کیا اور وہ بھی آداب بجا لائے اور تخت کے پاس آ کر بیٹھے۔ وزیر جعفر نے دعا دی کہ ’’خلیفہ ہارون رشید پر ہمیشہ خدا کا سایہ رہے۔ اور وہ ہزاروں سال تک سلامت رہیں اور اپنی رعایا کو اسی طرح پالتے پوستے رہیں۔‘‘
اب تو ابو الحسن کو تھوڑا تھوڑا یقین ہونے لگا کہ میں جاگ رہا ہوں، اور واقعی خلیفہ ہوں اور سارا دربار میرا اپنا دربار ہے۔
وزیر جعفر نے کہا کہ ’’ملک کے تمام امیر اور فوج کے سردار باہر موجود ہیں اور آپ کی اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب آپ اجازت دیں تو وہ سلام کے لیے حاضر ہوں اور دربار میں اپنی جگہ لیں۔‘‘
ابو الحسن نے کہا— ’’دربار کے دروازے کھول دو۔ سب کو آنے کی اجازت ہے۔‘‘ اس کے بعد سب سر جھکائے ہوئے آئے اور آداب بجا لائے۔ پھر اپنی اپنی جگہ پر ادب سے کھڑے ہو گئے۔
اب ابو الحسن کے سامنے ایک ایک کر کے تمام مقدمے پیش کیے گئے۔ ابو الحسن نے خلیفہ کی حیثیت سے ہر مقدمے کو غور سے سنا اور ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا، اور صحیح صحیح فیصلہ کیا۔ خلیفہ ہارون رشید پیچھے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے سارا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ انھیں اس بات کی خوشی تھی کہ ابو الحسن نے جو فیصلہ کیا وہ سوچ سمجھ کر انصاف اور عقلمندی سے کیا۔ اچانک ابو الحسن کی نظر کوتوال شہر پر پڑی— ابو الحسن کو جیسے کوئی بات اچانک یاد آ گئی ہو۔ انھوں نے اس سے کہا۔ — ’’اے کوتوال! تم ہماری پولیس کے سب سے بڑے افسر ہو۔ تمھارے پاس شہر کا سارا انتظام ہے۔ میں تم کو حکم دیتا ہوں۔ تم یہاں سے سیدھے فلاں محلے کی مسجد کے امام کے پاس جاؤ۔ وہاں تم کو مسجد میں امام اور اُس کے چار ساتھی ملیں گے۔ تم اُن کو گدھوں پر الٹا بٹھا کر سارے شہر میں گھماؤ اور چلّا چلّا کر کہتے جاؤ کہ ’’یہ سزا اِن لوگوں کو اس لیے دی جا رہی ہے کہ یہ دوسروں کے معاملات میں دخل دیا کرتے ہیں اور اپنے پڑوسیوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں اور اپنے کام سے لا پرواہی کرتے ہیں، جب سارے شہر میں اِن کو گھما پھرا دو تو پھر ان پانچوں کو سو سو کوڑے لگاؤ— —‘‘
کوتوال نے کہا ’’آپ کے حکم کی ابھی تعمیل ہو گی۔‘‘
یہ سن کر ابو الحسن بہت خوش ہوا اور خوش ہو کر اس نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے بعد ابو الحسن نے وزیر جعفر سے کہا۔ ’’اس وقت خزانچی کو حکم دیا جائے کہ ایک ہزار سونے کی اشرفیاں لے کر اُسی محلے میں جائے اور وہاں معلوم کرے کہ ابو الحسن کا گھر کہاں ہے؟ تم کو اس کا گھر معلوم کرنے میں مشکل نہ ہو گی کیونکہ ابو الحسن بہت شریف آدمی ہے وہ کسی سے جھگڑا نہیں کرتا اور نہ کسی کی بات میں دخل دیتا ہے۔ اسی لیے محلے کے سب لوگ اس اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر ابو الحسن کی ماں سے ملو اور اس سے کہو ’’اے ابو الحسن کی ماں! ہمارے خلیفہ ابو الحسن سے بہت خوش ہیں کیونکہ وہ بہت شریف آدمی ہے اور وہ پردیسیوں کو اپنے یہاں مہمان رکھتا ہے اور ان کا خیال رکھتا ہے۔‘‘
خزانچی نے ابو الحسن کے حکم کی تعمیل کی اور وزیر نے اطلاع دی کہ ابو الحسن کی ماں کو ایک ہزار اشرفیاں دے دی گئیں۔ اُسے سن کر ابو الحسن بہت خوش ہوا اور اس نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔
اس کے بعد ابو الحسن نے جعفر وزیر سے پوچھا— ’’کیا کوئی اور معاملہ ہے جو اس وقت یہاں پیش کیا جائے گا۔‘‘
جعفر وزیر نے کہا— ’’جہاں پناہ! آج کے سارے کام آپ کے حکم کے مطابق ہوئے۔ اس طرح آج کا کام ختم ہوتا ہے۔‘‘
ابو الحسن نے دربار برخاست کر دیا اور دربار کے افسر اور فوج کے سردار باہر چلے گئے۔ اور ابو الحسن وزیر جعفر کے ساتھ پھر محل میں داخل ہوئے۔ ابو الحسن کے داخل ہوتے ہی ایسا لگا جیسا کہ سارا محل خوشیوں سے جگمگا اٹھا۔ یہاں ہر طرف سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے، وہاں ایک سے ایک خوبصورت عورت استقبال کے لیے موجود تھی۔ ابو الحسن کو اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئیں۔ اب ہر طرف سے ہلکے ہلکے باجے کی آوازیں آنے لگیں۔ جب ابو الحسن بیٹھے تو یہ سب عورتیں بھی ان کے آس پاس بیٹھ گئیں۔ ابو الحسن نے دل میں کہا۔ ’’یہ لوگ صحیح کہتے ہیں۔ میں واقعی ہارون رشید ہوں۔ میں دیکھ سکتا ہوں، سونگھ سکتا ہوں، چل سکتا ہوں، سن سکتا ہوں۔ قدم قدم پر میرا استقبال ہو رہا ہے۔ پھر میرے خلیفہ ہونے میں کمی ہی کیا رہ گئی۔ یہاں ہر ایک میرے حکم کا انتظار کر رہا ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ میں خلیفہ ہارون رشید نہیں ہوں۔ ہر جگہ میرا حکم مانا جاتا ہے۔‘‘
ابو الحسن کے سامنے مزے دار کھانا رکھا گیا۔ اس نے اتنا اچھا کھانا جو دیکھا تو اس کی بھوک اور بڑھ گئی۔ اس نے خوب مزے لے لے کر کھانا شروع کر دیا۔ جو عورتیں پاس بیٹھی تھیں، ان سے بھی کہا کہ تم سب کھاؤ— سات خوبصورت عورتیں پنکھا جھلا رہی تھیں۔ ابو الحسن نے کہا۔ ’’ایک پنکھا کافی ہے۔ آؤ تم سب بھی میرے پاس بیٹھ جاؤ اور کھانا کھاؤ۔‘‘ اس نے خاص طور پر اس کنیز کو اپنے پاس بٹھایا، جس کا نام شیریں تھا۔ دوسری تمام کنیزیں پہلے تو خاموش رہیں لیکن ابو الحسن کے دوبارہ کہنے پر بیٹھ گئیں۔ جب کھانا ختم ہوا تو کچھ کنیزیں ایک سونے کا برتن لائیں اور گلاب کے عرق سے ابو الحسن کے ہاتھ دھلائے گئے اور عطر میں بسے ہوئے خوشبو دار تولیے سے اس کے ہاتھ پونچھے گئے۔
اس کمرے میں سے ابو الحسن کو لے کر یہ کنیزیں ایک اور کمرے میں آئیں، جہاں سونے چاندی کی پلیٹوں میں طرح طرح کے پھل رکھے ہوئے تھے۔ یہاں بھی باجوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ کچھ لڑکیوں نے بڑھ کر ابو الحسن کا استقبال کیا۔ ابو الحسن نے خود بھی پھل کھائے اور باقی سب کو بھی تقسیم کیے۔ سب نے خلیفہ کا تحفہ سمجھ کر قبول کیا۔ یہاں سے ابو الحسن کو تیسرے کمرے میں لایا گیا۔ اس کمرے میں دنیا کے بہترین میوے، مٹھائیاں اور حلوے رکھے تھے۔ ابو الحسن نے یہاں بھی تھوڑا بہت کھایا اور سب سے کھانے کے لیے کہا۔ اس کے بعد یہاں سے ابو الحسن کو ایک اور کمرے میں لے گئے۔ یہ کمرہ ان دونوں کمروں سے بھی زیادہ شاندار تھا۔ ایک سے ایک خوبصورت رنگین بوتلیں شربتوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس کمرے میں جو کنیزیں تھیں، ان میں ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ الگ الگ رنگوں کی ریشم کی پوشاکیں پہنے ہوئی تھیں۔ انھوں نے جس رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے، اس رنگ کے شربت ابو الحسن کے سامنے پیش کیے گئے۔ ابو الحسن نے مزا لے لے کر شربت پیا۔ انھوں نے اتنا ذائقہ دار شربت اس سے پہلے کبھی نہیں پیا تھا، گھنٹوں ناچ اور گانا ہوتا رہا۔ جب شام ہوئی تو شراب کا دور چلا— وہ دیر تک ہنسی مذاق کی باتیں کرتا رہا۔ جب رات کا وقت آیا تو ابو الحسن کو نیند آنے لگی۔ خلیفہ کے حکم سے اس کنیز نے جس کا نام شیریں تھا۔ ابو الحسن کے شراب کے پیالے میں وہی پاوڈر ملا دیا، جس سے آدمی بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اور ابو الحسن سے کہا ’’اس گلاب کو میرے ہاتھ سے پی لیجئے۔ پھر میں آپ کو بہت اچھا گانا سناؤں گی۔‘‘
ابو الحسن نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر خوب مزا لے لے کر پیا۔ کنیز نے گانا شروع کیا۔ جب وہ گانا گا چکی تو ابو الحسن کا جی چاہا کہ اس کی تعریف کرے، لیکن وہ منہ کھول کر رہ گیا۔ منہ سے آواز نہ نکلی اور اسے نیند آ گئی۔
اب خلیفہ باہر آئے۔ انھوں نے نوکروں کو حکم دیا کہ ابو الحسن کو پھر وہی کپڑے پہنا دیے جائیں، جو وہ یہاں محل میں آنے سے پہلے پہنے ہوئے تھا۔ جب ابو الحسن کو اس کے اپنے کپڑے پہنا دیے گئے، تو اسی غلام کو بلایا جو ابو الحسن کو اس کے گھر سے اٹھا کر لایا تھا اور خلیفہ نے اس سے کہا۔ ’’اس آدمی کو لے کر جا کر اس کے مکان کے اسی کمرے میں چھوڑ دو۔
غلام نے ابو الحسن کو اپنی پیٹھ پر لادا اور رات ہی کے وقت اس کے گھر پر چھوڑ آیا۔ ابو الحسن رات بھر بے ہوش پڑا رہا۔ جب صبح کو اس کی آنکھ کھلی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اپنے اسی گھر میں ہے۔ نہ وہ عالیشان محل ہے نہ وہ شاندار کمرہ ہے، نہ وہ مسہری، نہ وہ خوبصورت کنیزیں ہیں اور نہ دربار شاہی اور نہ جعفر وزیر اور نہ کنیز شیریں اور نہ گانے بجانے کی آوازیں۔ کچھ بھی تو نہیں۔ ابو الحسن کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اس نے زور زور سے آوازیں دینا شروع کیں۔ اور ایک ایک کنیز کا نام لے لے کر پکارا۔ پھر وزیر جعفر کو آواز دی۔ ذرا سی دیر تک وہ انتظار کرتا رہا اور جب کوئی نہ آیا تو ابو الحسن کو بہت غصہ آیا۔ اور غصہ میں بولا۔ ’’جعفر! شیریں! ارے تم سب کہاں مر گئے۔ سنتے نہیں خلیفہ تم کو کتنی دیر سے آواز دے رہے ہیں۔‘‘
اس چیخ پکار کی آواز سن کر ابو الحسن کی ماں دوڑتی ہوئی آئی، اور بولی— ’’بیٹا! تجھے کیا ہو گیا ہے، جو اتنے زور زور سے چلّا رہا ہے۔‘‘
ابو الحسن نے بڑے غور سے اس کو دیکھا اور بولا۔ ’’بڑی بی! تم کس کو اپنا بیٹا کہہ رہی ہو؟— تم کو یہ نہیں معلوم کہ تم خلیفہ سے بات کر رہی ہو۔ خلیفہ ہارون رشید سے۔‘‘
ماں نے کہا۔ ’’میں تجھ سے کہہ رہی ہوں اور کس سے کہتی۔ کیا تو میرا بیٹا نہیں ہے۔ کیا تو مجھے بھی بھول گیا ہے۔ دیکھ یہ گھر تیرا ہے۔ جب سے تو پیدا ہوا ہے، اسی گھر میں رہ رہا ہے اور میں تیری ماں ہوں، اپنے ابو الحسن کی ماں۔‘‘
ابو الحسن نے کہا۔ ’’میں اور تیرا بیٹا؟ تو کیا بات کر رہی ہے؟ تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا؟۔ ذرا زبان سنبھال کر بات کر۔ میں خلیفہ ہوں — خلیفہ ہارون رشید۔ میری بات تیری سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ تو جا کر میری کنیز شیریں کو بھیج دے۔‘‘
ماں نے کہا۔ ’’بیٹا! تیری طبیعت خراب ہے۔ ٹھیک سے دیکھ۔ مجھے پہچان۔ میں تیری ماں ہوں۔ تجھے کیا ہو گیا ہے۔ دیکھ مجھے ٹھیک سے دیکھ۔ تو نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا۔‘‘
اب ابو الحسن نے کہا۔ ’’میں خلیفہ ہارون رشید! تم کو حکم دیتا ہوں کہ میری آنکھوں کے سامنے سے دور ہو جاؤ، ورنہ پھر میں تم کو کوتوال سے کہہ کر پٹواؤں گا۔ جانتی ہو کہ میں خلیفہ ہوں اور سارے بغداد میں میرا حکم چلتا ہے۔‘‘
ابو الحسن کی ماں دوڑ کر اس کے لیے پانی لائی۔ ابو الحسن نے پانی پیا۔ پھر سوچنے لگا یہ عورت تو میری ماں ہے اور میں اس پر غصہ کر رہا ہوں۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔
اُس کی ماں نے پوچھا۔ ’’بیٹا! اب تیری طبیعت کیسی ہے۔؟‘‘
ابو الحسن نے کہا۔ ’’میری سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے اچھی طرح یاد آ رہا ہے کہ ابھی ابھی میں خلیفہ تھا۔ میں لوگوں کو حکم دے رہا تھا۔ میں محل میں سو رہا تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں تم کو پہچان رہا ہوں کہ تم میری ماں ہو۔‘‘
ابو الحسن کی ماں مارے خوشی کے اچھل پڑی۔ اس نے کہا ’’بیٹا! اب تیری طبیعت ٹھیک ہے۔ دیکھ اچھا ہوا کہ تیری طبیعت ٹھیک ہو گئی۔ یہ تیرا گھر ہے۔ تو خلیفہ نہیں ہے۔ خلیفہ تو وہ ہے جس کے حکم سے کل مسجد کے امام اور اس کے چاروں بدمعاش ساتھیوں کی پٹائی ہوئی ہے۔ تجھے معلوم ہے کہ کوتوال نے سارے شہر میں اُن کو گدھے پر اُلٹا بٹھا کر گھمایا۔ پھر ان کے سو سو کوڑے لگائے۔‘‘
اس کو سنتے ہی ابو الحسن پر جیسے کوئی دورہ پڑ گیا۔ وہ چیخنے لگا۔ ’’ارے بڑھیا۔ تب تو میں ہی خلیفہ ہارون رشید ہوں۔ میرے ہی حکم سے امام اور اس کے ساتھیوں کو سزا ملی ہے۔ میں نے ہی کوتوال کو بھیجا تھا۔ اب مجھ سے ہرگز یہ مت کہنا کہ میں خلیفہ نہیں ہوں۔ ورنہ تم کو بھی کوتوال سے سزا دلواؤں گا۔ اب مجھ سے فوراً معافی مانگو— سر جھکا کر معافی مانگو۔‘‘
اس کی یہ حالت دیکھ کر ماں بہت پریشان ہوئی اور بولی۔ ’’بیٹا! خدا کا نام لے۔ تجھے ایسی بات نہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ بات خلیفہ سے جا کر کہہ دے گا تو بہت برا ہو گا۔ اس وقت خلیفہ ہمارے اوپر بہت مہربان ہے۔ اس نے کل ہی تو ہمارے لیے اشرفیاں بھیجی ہیں ایک ہزار سونے کی اشرفیاں — ہمیں اس کا حکم ماننا چاہیے اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ کرنا چاہیے، اور ہاں تو تو جانتا ہے کہ خزانچی نے اشرفیاں دیتے ہوئے کیا کہا تھا۔ اس نے کہا تھا۔ یہ انعام اس لیے دیا کہ ہمارے خلیفہ ابو الحسن سے بہت خوش ہیں کیونکہ وہ بہت شریف آدمی ہے اور پردیسیوں کو اپنے یہاں مہمان رکھتا ہے۔‘‘
ماں کی زبان سے یہ نکلنا تھا کہ ابو الحسن اچھل پڑا اور بولا۔ ’’اے کمبخت بڑھیا! اب بھی تجھ کو یقین نہیں آیا کہ میں خلیفہ ہوں ارے یہ اشرفیاں میں نے ہی تو تجھے بھیجی تھیں۔ میرے ہی حکم سے خزانچی نے سرکاری خزانے سے ایک ہزار اشرفیاں تجھے لا کر دی تھیں۔ بول میں کون ہوں۔‘‘
اس نے کہا ’’تو میرا بیٹا ہے ابو الحسن۔‘‘
اب تو ابو الحسن کو اتنا غصہ آیا کہ وہ اسے پیٹنے لگا۔ وہ پیٹتا جاتا تھا اور پوچھتا جاتا تھا کہ ’’بتا میں کون ہوں؟۔ کیا اب بھی مجھے خلیفہ نہیں مانے گی؟۔‘‘
اور ہر بار اس کی ماں جواب دیتی۔ ’’نہیں! تم میرے بیٹے ہو! ہم دونوں خلیفہ کی وفادار رعایا ہیں۔‘‘
یہ چیخ پکار سن کر پاس پڑوس کے لوگ دوڑ پڑے۔ انھوں نے اس کی ماں کو چھڑایا اور ابو الحسن سے بولے۔ ’’اے ابو الحسن! تجھے کیا ہو گیا ہے۔ کیا کوئی شریف آدمی اپنی ماں کو پیٹتا ہے؟ تجھے اپنی ماں کو پیٹتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘
ابو الحسن نے ناراض ہو کر کہا۔ ’’تم لوگ کون ہو؟ میں تم کو نہیں جانتا۔ جاؤ میری کنیزوں کو بھیجو، شیریں کو بھیجو، کوتوال کو بھیجو۔ تم کو نہیں معلوم کہ میں خلیفہ ہوں۔ تم خلیفہ سے بات کر رہے ہو۔‘‘
اُن لوگوں نے کہا ’’ہم تیرے پڑوسی ہیں اور تو ابو الحسن ہے اور یہ تیری ماں ہے۔‘‘
ابو الحسن نے کہا ’’تم لوگ دیوانے ہو، جھوٹے ہو۔ میں تم کو وہی سزا دوں گا جو میں نے مسجد کے امام اور اس کے ساتھیوں کو دلوائی تھی۔
اب تو ہر ایک کو یقین ہو گیا کہ ابو الحسن کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ ڈرے کہ اس سے بات کرنا ٹھیک نہیں ہے، کہیں ہم کو بھی نہ مارے۔ انھوں نے فوراً پاگل خانے کے داروغہ کو اطلاع دے دی۔ ذرا سی دیر میں پاگل خانے کے سپاہی آ گئے وہاں اسے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ مگر وہ یہی کہتا رہا کہ ’’میں خلیفہ ہارون رشید ہوں۔ اس شہر میں میرا حکم چلتا ہے۔ مجھے چھوڑ دو ورنہ میں تم کو سزا دوں گا۔ لیکن کسی نے اس کی پرواہ نہ کی۔ الٹا اس پر پچاس کوڑے روزانہ پڑتے تھے۔
ابو الحسن کی ماں روزانہ پاگل خانے آتی، اپنے بیٹے کو دور سے دیکھتی۔ وہ بھی کوشش کرتی کہ کسی طرح اس کے بیٹے کی سمجھ میں آ جائے اور اس کا دماغ ٹھیک ہو جائے وہ دن رات اپنے بیٹے کے غم میں روتی رہتی۔ آخر دس دن کے بعد وہ سوچنے لگا کہ اگر میں واقعی خلیفہ ہوتا تو پھر صبح کو اس گھر میں کیوں آتا۔ میں شاہی لباس پہنے ہوتا۔ جعفر وزیر اور محل کی تمام کنیزیں — یہ سب لوگ کہاں چلے گئے؟ لیکن پھر اس کو خیال آتا کہ آخر کیا بات ہے۔ میں نے ہی جعفر وزیر سے کہہ کر ماں کو ایک ہزار اشرفیاں بھجوائی تھیں۔
میں ابو الحسن ہوں یا خلیفہ— اس کی عقل کام نہ کرتی اور وہ پریشان ہو جاتا۔
وہ تمام دن اِن ہی خیالات میں ڈوبا رہتا۔ ایک دن اس کی ماں آئی اور بولی ’’میرے پیارے بیٹے! تیرا کیا حال ہے؟ تیرے دماغ سے وہ ساری باتیں نکلیں یا تو ابھی تک یہی سوچ رہا ہے کہ تو خلیفہ ہے؟ میرے بچے میرے اوپر رحم کر اور اپنی اصلی حالت پر آ جا۔ میں دن رات تیری طرف سے پریشان ہوں۔ میرا اور کوئی سہارا بھی نہیں ہے۔‘‘
ابو الحسن نے جواب۔ ’’میری پیاری ماں! مجھے اب اپنی غلطی معلوم ہو گئی ہے۔ کیا تم مجھے معاف کر سکتی ہو؟ میں نے در اصل ایک خواب دیکھا تھا۔ میں خلیفہ نہیں ہوں، بلکہ تمھارا بیٹا ابو الحسن ہوں۔ اب میں بالکل اچھا ہوں۔ مجھے گھر لے چلو۔ میں نے اپنے پڑوسیوں کو بھی برا بھلا کہا ہے۔ میں اُن سے بھی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔‘‘
اب تو اس کی ماں بے حد خوش ہوئی اور وہ دوڑی دوڑی پاگل خانے کے داروغہ کے پاس گئی۔ داروغہ نے جو ابو الحسن سے بات کی تو اسے بھی یقین ہو گیا کہ اب وہ اچھا ہے اور اسے چھوڑ دیا۔ اب ابو الحسن اپنے گھر ہنسی خوشی رہنے لگا۔ تھوڑے دن ہی میں اپنے گھر میں رہنے کے بعد اس کی صحت پہلی جیسی ہو گئی۔ اس کی پیٹھ پر جو کوڑوں کے زخم تھے وہ بھی بھر گئے۔ لیکن گھر میں اکیلے پڑے رہنے سے اس کا جی گھبرانے لگا۔ آخر اس نے طے کیا کہ وہ پہلے کی طرح شام کو بغداد کے پُل پر جایا کرے گا تاکہ مہمانوں کو اپنے گھر لا سکے۔
ایک روز وہ اپنی عادت کے مطابق بغداد کے پُل پر جا بیٹھا اتفاق سے اس روز خلیفہ ہارون رشید بھی بھیس بدل کر اپنی رعایا کو دیکھنے نکلے۔ ابو الحسن کی نظر خلیفہ پر پڑی۔ وہ دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ تو وہی موصل کا سوداگر ہے جو پچھلے مہینے ملا تھا۔ ابو الحسن نے جیسے ہی اس کو دیکھا، اس کو اپنی ساری پریشانیاں یاد آ گئیں۔ اس کو پہلے ہی اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ اس کی پریشانیوں میں موصل کے سوداگر کا ہاتھ تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ سوداگر ضرور کوئی جادوگر ہے۔ ابو الحسن اس کو دیکھ کر کانپنے لگا اور دل میں کہنے لگا ’’یا اللہ میرے اوپر رحم کر— مجھے یقین ہے کہ یہ کوئی جادو گر ہے۔‘‘
ابو الحسن نے فوراً اپنا منہ دوسری طرف کر لیا، جیسے کہ اس نے دیکھا ہی نہیں — لیکن خلیفہ نے سوچا کہ پھر کسی ترکیب سے اس کو محل میں لے جائیں۔ چنانچہ وہ ابو الحسن کے پاس گئے، اور کہنے لگے۔ ’’آپ مجھے نہیں پہچانے۔ میں آپ کے یہاں ایک دن مہمان رہا تھا۔ آپ نے میری بڑی خاطر تواضع کی تھی۔ آج خدا نے مجھے آپ سے پھر ملایا ہے۔ امید ہے کہ کچھ وقت آپ کے ساتھ بہت اچھی طرح گزرے گا۔‘‘
ابو الحسن نے بڑے غصے سے اپنا سر ہلایا اور بولا ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ جس کسی کو میں اپنے یہاں مہمان رکھتا ہوں اس سے دوبارہ نہیں ملتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے مجھے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب میں آپ پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ آپ کی وجہ سے اتنے دن دیوانہ رہا۔ پاگل خانے میں رہا۔ طرح طرح کی تکلیفیں اُٹھائیں۔ خدا کے واسطے اب مجھے معاف کرو۔‘‘
’’لیکن ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟‘‘- خلیفہ نے حیرت سے پوچھا جیسے اُنھیں کچھ پتہ نہ ہو۔ ’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے تو اپنا حال سناؤ۔ آخر کیا بات ہے۔ شاید میں تمھاری کوئی مدد کر سکوں۔‘‘
ابو الحسن نے خلیفہ کو اپنا سارا حال سنایا۔ خلیفہ نے بڑے غور سے سنا اور کہا— ’’میرے عزیز دوست! میری خواہش ہے کہ آج پھر میں تمھارے یہاں مہمان رہوں۔ انشاء اللہ سب ٹھیک ہو گا۔ تم بالکل پریشان نہ ہو۔‘‘ لیکن ابو الحسن کے حال پر خلیفہ کو بار بار ہنسی آ رہی تھی۔
ابو الحسن نے کہا۔ ’’موصل کے سوداگر! شاید آپ میری بات کو مذاق سمجھ رہے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی قمیض ہٹائی اور اپنی پیٹھ پر زخموں کے نشان دکھائے۔
ان زخموں کے نشانوں کو دیکھ کر خلیفہ کو واقعی افسوس ہوا اور انھوں نے ابو الحسن کو گلے لگا لیا اور کہا۔ ’’میرے بھائی، تم مجھے اپنے گھر لے چلو۔ مجھے تمھارے ساتھ بڑی ہمدردی ہے۔ انشا اللہ اب ایسی کوئی بات نہ ہو گی اور خدا تم کو ضرور برکت دے گا۔ یہ کہہ کر انھوں نے ابو الحسن کو اس طرح سینے سے لگایا کہ ابو الحسن ان کو اور اُن کے غلام کو اپنے گھر لے گیا۔
اس روز پھر وہی ہوا۔ ابو الحسن نے خلیفہ کی خوب خاطر مدارات کی۔ اس کو اچھے اچھے کھانے کھلائے۔ اس کے بعد شراب کا دور چلا۔ ابو الحسن نے بہترین شراب پلائی اور شراب کے نشے میں بڑی مزے مزے کی باتیں کیں۔ خلیفہ نے موقع پا کر ابو الحسن کے گلاس میں وہی پاوڈر ڈال دیا، جس سے ابو الحسن کو نیند آ گئی۔ خلیفہ نے غلام کو آواز دی اور اسے اشارہ کیا۔ غلام اسے کندھے پر ڈال کر محل میں لے گیا۔ اور پہلے کی طرح اس کو کپڑے بدل کر شاہی لباس میں بستر پر لٹا دیا گیا۔
اگلے روز صبح صبح جو اُس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہی عالیشان کمرہ ہے۔ وہی خوبصورت کنیزیں ہیں۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ کیا معاملہ ہے۔ ہر طرف سے ہلکے ہلکے باجوں کی آوازیں سنائی دیں۔ ابو الحسن کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ وہی جگہ ہے اور موصل کے سوداگر نے پھر وہی جادو کیا ہے۔ آج یہ محل۔ یہ خوبصورت کنیزیں ہیں۔ یہ ناچنا گانا ہے۔ اور کل میں پاگل خانے میں ہوں گا، جہاں میری پیٹھ پر کوڑے پڑیں گے — اے میرے خدا! میرے اوپر رحم کر— لعنت ہو اس موصل کے سوداگر پر— سارا موصل شہر برباد ہو جائے۔ خداوند تعالیٰ اس پر اپنا قہر نازل کرے۔‘‘
وہ بار بار آنکھیں کھولتا اور بند کرتا۔ اور ہر بار اس کو وہی منظر نظر آتا۔ اتنے میں کنیز شیریں آئی، اور ابو الحسن کے سرہانے کھڑی ہو کر بولی— ’’آپ کے جاگنے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘
ابو الحسن نے کہا— ’’تم اپنا کام کرو۔ میں ابو الحسن ہوں تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔ مجھے معاف کرو۔‘‘
کنیز نے کہا— ’’آپ ہمارے خلیفہ ہیں۔ مسلمانوں کی دنیا کے بادشاہ۔ آپ شاید کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔ آنکھیں کھولیے۔ مجھے دیکھیے میں آپ کی خاص کنیز شیریں ہوں۔ جس کو آپ نے اپنے ساتھ کھانا کھلایا تھا۔‘‘
ابو الحسن نے کہا ’’تم مجھ سے مذاق مت کرو۔ میں کسی کو نہیں جانتا۔‘‘
کنیز نے کہا— ’’اے خلیفہ! صبح ہو گئی۔ اب دن نکل رہا ہے۔ آپ کی طبیعت خراب نہ ہو تو یہ وقت آپ کے اٹھنے کا ہے میں سچ کہہ رہی ہوں۔ آپ ہمارے خلیفہ ہیں۔‘‘
ابو الحسن نے کہا— ’’تم غلط کہتی ہو۔ میں خلیفہ نہیں ہوں۔ موصل کے ایک سوداگر نے میرے اوپر جادو کر دیا ہے، جس کی وجہ سے میں مصیبت میں مبتلا ہوں۔ اس سے پہلے بھی اُس نے یہی کیا تھا۔‘‘
کنیز نے کہا ’’آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ آپ پر جادو نہیں ہوا ہے۔ آپ ہمارے خلیفہ ہیں۔‘‘ ابھی وہ یہ کہہ ہی رہی تھی کہ ہر طرف سے باجوں کی آوازیں آنے لگیں اور یہ آوازیں آہستہ آہستہ تیز ہونے لگیں۔
ابو الحسن کو یقین سا ہونے لگا کہ وہ خلیفہ ہے۔ پھر اِس نے اپنی انگلی شیریں کی طرف بڑھائی اور کہا ’’ذرا اسے اپنے دانت سے کاٹو تو پتہ چلے گا۔ میں جاگ رہا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں۔‘‘
کنیز نے جو انگلی کاٹی تو ابو الحسن کو سخت تکلیف ہوئی۔
ابو الحسن نے سوچا کہ میں خواب نہیں دیکھ رہا ہوں۔ یہ سب حقیقت ہے۔ اب باجوں کی آواز اور تیز ہو گئی اور لڑکیوں نے ناچنا شروع کر دیا۔ ابو الحسن کو لیٹے لیٹے نہ جانے کیا خیال آیا کہ وہ تیزی سے بستر سے اٹھا اور اس نے کپڑے اتار کر دور پھینکے، اور بڑے زوروں سے ناچنے لگا۔
خلیفہ پاس کے کمرے سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ اُن کی حالت یہ ہوئی کہ ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ اُن کے لیے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو گیا۔ آخر خلیفہ تڑپ کر تیزی سے ہنستے ہوئے نکلے۔ ابو الحسن کو اس طرح ننگا ناچتا ہوا دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکے اور بولے۔ ’’بس کرو بس— ابو الحسن— اگر تم اس طرح ناچتے رہے تو میں ہنستے ہنستے مر جاؤں گا۔‘‘
اسی وقت ناچ گانا بند ہو گیا۔ سب گانے والیاں اپنی اپنی جگہ ٹھہر گئیں اور اتنی خاموشی چھا گئی کہ سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز سنائی دیتی۔ ابو الحسن بھی ٹھہر گیا، اور اس کی نظر خلیفہ پر پڑی، وہ پہچان گیا کہ ارے! یہ تو وہی موصل کا سوداگر ہے۔ ارے! یہ تو خلیفہ ہارون رشید ہیں۔ اب ساری بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ یہ موصل کا سوداگر نہیں تھا بلکہ خود خلیفہ ہارون رشید تھے، جنھوں نے بھیس بدل کر مذاق کیا تھا۔ لیکن ابو الحسن نے اس طرح بات کی، جیسے وہ خلیفہ کو نہ پہچانا ہو۔ ’’اچھا! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دس دن تک روزانہ پچاس کوڑے کھانے سے بہتر ہے کہ آدمی ہنستے ہنستے مر جائے — آپ کی وجہ سے میں نے یہ مصیبت اٹھائی۔ دیکھیے میری پیٹھ پر یہ کوڑے کے نشان۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ خلیفہ نے کہا۔ ’’میں نے تمھارے ساتھ جو زیادتی کی ہے، اس کے بدلے میں تم کو اتنے انعام و اکرام دوں گا کہ تم ساری زندگی مزے سے گزار سکو گے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے حکم دیا کہ ’’ابو الحسن کو بہترین لباس پہنایا جائے۔‘‘ ذرا سی دیر میں ابو الحسن وہاں بڑے اچھے لباس پہنے ہوئے کھڑا تھا۔ خلیفہ نے اسے اپنے سینے سے لگایا، اور کہا ’’ابو الحسن مانگو کیا مانگتے ہو۔‘‘
ابو الحسن نے بڑے ادب سے اپنا سر جھکا دیا اور کہا ’’جہاں پناہ! آپ کی مہربانی، میری سب سے بڑی دولت ہے۔ اب تو میں اپنی باقی زندگی آپ کے قدموں میں گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ سن کر خلیفہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے کہا ’’تمھاری درخواست منظور کی جاتی ہے۔ تم جب چاہو میرے پاس آ سکتے ہو، میری بیوی زبیدہ بھی تم سے پردہ نہیں کرے گی— یہ عزت اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر خلیفہ نے ابو الحسن کو دس ہزار اشرفیاں دیں اور شاہی محل کے پاس رہنے کے لیے ایک مکان دیا۔
اس کے بعد ابو الحسن کو اپنی ماں یاد آئی وہ بڑی عزت کے ساتھ اپنی ماں سے ملنے کے لیے گیا اور اس نے سارا حال بیان کیا اور اسے بتایا کہ ہمارا مہمان موصل کا سوداگر نہیں تھا بلکہ موصل کے سوداگر کے بھیس میں خود خلیفہ ہارون رشید تھے اور انھوں نے ہی مجھ سے مذاق کیا تھا اور ایک دن کے لیے مجھے خلیفہ مقرر کر دیا تھا اور اسی وجہ سے میں اپنے آپ کو خلیفہ سمجھنے لگا تھا۔ اب خلیفہ نے مجھے دس ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دی ہیں اور مجھے اپنے محل کے پاس ایک مکان دیا ہے اور اب میں خلیفہ کا خاص آدمی ہوں۔‘‘
اس کی ماں یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔ اس کے بعد ابو الحسن پھر محل چلا گیا اور ذرا سی دیر میں اس واقعہ کی خبر بغداد کے کونے کونے میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد ابو الحسن بڑے مزے سے وہاں رہنے لگا۔ وہ سمجھدار تو تھا، اس کے ساتھ ہی بڑا خوش مزاج بھی تھا۔ اپنی مزے دار باتوں سے خلیفہ اور ملکہ زبیدہ کو خوش رکھتا۔ ابو الحسن کو محل کی ایک کنیز بہت پسند تھی، جس کا نام شیریں تھا۔ جب ابو الحسن ملکہ زبیدہ کے پاس جاتا تو اُس کنیز کو بار بار دیکھتا۔ زبیدہ نے اس کا ذکر خلیفہ سے بھی کیا۔ خلیفہ نے اس کی شادی ابو الحسن سے کر دی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ کئی روز تک دعوتیں ہوتی رہیں۔ ناچ گانے ہوئے۔ خلیفہ اور ملکہ زبیدہ نے بہت سا سامان جہیز کے طور پر دیا۔ اب وہ دونوں بڑے مزے میں رہنے لگے۔ ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے تھے اور بڑے عیش و آرام سے ہنسی خوشی رہتے۔ شیریں جیسی صورت کی اچھی تھی، ویسی ہی عادت کی بھی اچھی تھی۔ دونوں خوب ٹھاٹ سے رہتے، خوب روپیہ پیسہ خرچ کرتے۔
آخر ایک روز وہ سارا روپیہ جو خلیفہ نے ابو الحسن اور شیریں کو دیا تھا، ختم ہو گیا۔ ابو الحسن کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ خلیفہ سے کچھ اور روپیہ مانگے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ شیریں بھی پریشان تھی۔ وہ بھی سوچ رہی تھی کہ ملکہ سے کیسے کہے۔ آخر ابو الحسن نے ایک ترکیب سوچی۔ اس نے بیوی سے کہا کہ ’’آؤ ہم تم دونوں مر جائیں۔‘‘
یہ سن کر شیریں ناراض ہو گئی۔ ’’اگر ایسے بے موت مرنا چاہتے ہو تو تم ہی مرو۔ میں تو اس طرح مرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘
ابو الحسن نے کہا ’’تم بھی عجیب عورت ہو۔ میری بات پوری نہیں ہوئی۔ اور تم لڑنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ پہلے میری بات تو سنو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ میں اور تم سچ مچ نہیں مریں گے۔ ہم تو موت کا بہانا بنائیں گے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ میں لیٹ جاؤں گا، بالکل چپ چاپ پڑا رہوں گا، مردے کی طرح— تم میرے اوپر سفید چادر ڈال دینا تاکہ دیکھنے والا یہی سمجھے کہ جیسے میں مر گیا ہوں۔ تم میرے منہ کو قبلہ کی طرف کر دینا اور پھر روتی پیٹتی، بال کھولے، کپڑے پھاڑتی ہوئی محل کے اندر ملکہ زبیدہ کے پاس چلی جانا، اور جاتے ہی ان کے قدموں پر گر جانا— اور روتے ہوئے کہنا ’’ہائے ملکہ! میں کیا کروں۔ میرا شوہر مر گیا۔ میں بیوہ ہو گئی اور خوب دھاڑیں مار مار کر رونا۔ ملکہ پر تمھارے اس طرح رونے کا میرے مرنے کا حال سن کر بہت افسوس ہو گا۔ ملکہ یقیناً تم پر ترس کھا کر، تسلی دینے کے لیے میرے کفن دفن کے لیے روپیہ دے گی۔ پھر تم وہ روپیہ پیسہ لے کر آ جانا اور میری جگہ اسی طرح لیٹ جانا جیسے سچ مچ مر گئی ہو۔ اور میں روتا چیختا، ماتم کرتا، خلیفہ کے پاس جاؤں گا اور خلیفہ سے کہوں گا کہ میری بیوی شیریں مر گئی— پھر تم جانتی ہو کہ خلیفہ پر کتنا اثر ہو گا۔‘‘
شیریں نے کہا— ’’اچھا اب جلدی جاؤ اور کفن لے کر آؤ۔‘‘
ابو الحسن بازار گیا اور وہاں سے کفن لے آیا۔ پھر قالین پر چادر بچھا کر چپ چاپ مردہ بن کر لیٹ گیا۔ شیریں نے اس کا سر قبلہ کی طرف کر دیا اور اس کا منہ باریک کپڑے سے ڈھک دیا۔ اب شیریں خوب چیخ چیخ کر روئی اور بال کھول کر دھاڑیں مارتی ہوئی ملکہ زبیدہ کے پاس گئی اور رو رو کر ابو الحسن کا ذکر کرنے لگی، اور ملکہ کے قدموں پر گر پڑی اور ایسا لگا جیسے بے ہوش ہو گئی ہو۔ محل کی دوسری کنیزیں دوڑیں اور انھوں نے شیریں پر گلاب کا عرق چھڑکا۔ ذرا سی دیر کے بعد شیریں کو ہوش آیا۔ ملکہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا ’’شیریں! صبر کرو۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ابو الحسن بڑا اچھا آدمی تھا۔ خدا اس کو جنت نصیب کرے۔‘‘
ملکہ زبیدہ نے اسی وقت شیریں کو سو اشرفیاں دیں تاکہ ابو الحسن کے کفن دفن کا اچھا انتظام ہو جائے۔ اب شیریں اپنے گھر میں آئی اور کمرے کا دروازہ بند کرنے کے بعد اس نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔ ابو الحسن، اس کی آواز سن کر اٹھ بیٹھا اور اشرفیوں کی تھیلی دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
ابو الحسن نے کہا۔ ’’اب میری باری ہے خلیفہ کے پاس جانے کی۔ جیسے تم ملکہ کے پاس گئی تھیں۔ دیکھو میں بھی کامیاب ہوتا ہوں یا نہیں۔ ایک بار خلیفہ نے بھی تو مجھ سے مذاق کیا تھا۔ آج مجھے خلیفہ سے بدلہ لینے کا موقع ملا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے شیریں کو اپنی جگہ پر لٹایا اور اپنی آنکھوں میں پیاز ملی اور روتا ہوا خلیفہ کے پاس گیا۔ خلیفہ اس وقت دربار میں تھے۔ خلیفہ اور دربار کے تمام آدمی ابو الحسن کو اس حال میں دیکھ کر گھبرا گئے کیونکہ انھوں نے اس سے پہلے اسے کبھی اس حال میں نہیں دیکھا تھا۔ ابو الحسن خلیفہ کو دیکھ کر اور زور سے رویا۔ ’’ہائے میری پیاری شیریں! اب میں تجھے کہاں پاؤں گا۔‘‘
یہ سن کر خلیفہ سمجھ گیا کہ شیریں کا انتقال ہو گیا۔ خلیفہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دربار کے سب لوگ رونے لگے۔ خلیفہ نے کہا۔ ’’ابو الحسن— میرے بھائی۔ مجھے بھی تمھاری بیوی کی موت کا بہت غم ہے۔ لیکن خدا کی مرضی میں کون دخل دے سکتا ہے — سچی بات یہ ہے کہ شیریں جیسی عورت اور کہاں مل سکتی ہے۔ لیکن میں تم سے یہی کہوں گا کہ اب صبر کرو اور اس وقت اس کے کفن دفن کا انتظام کرو۔‘‘
اس کے بعد خلیفہ نے وزیر جعفر سے کہا کہ خزانچی سے کہہ کر فوراً سو اشرفیاں دے دو تاکہ شیریں کے دفن کرنے کا انتظام ہو سکے۔
اب ابو الحسن یہ سو اشرفیاں لے کر اپنے گھر میں داخل ہوا اور اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے شیریں کو اٹھایا اور کہا ’’دیکھو تم ہی ملکہ سے اشرفیوں کی تھیلی لے کر نہیں آئیں، میں بھی خلیفہ سے سو اشرفیاں لے کر آیا ہوں۔‘‘ وہ دونوں بے حد خوش ہوئے۔
اُدھر خلیفہ جلدی سے دربار کا کام ختم کر کے ملکہ زبیدہ کے محل میں گئے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ زبیدہ مسہری پر پڑی ہوئی ہے اور بے حد غمگین ہے۔ خلیفہ نے کہا — ’’میری پیاری ملکہ! اُداس مت ہو۔ خدا کی مرضی میں کون دخل دے سکتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شیریں کی موت کا صدمہ تم کو بہت ہو گا۔ لیکن اب کیا کیا جائے صبر کرو— میں جانتا ہوں کہ تم شیریں سے کتنی محبت کرتی تھیں۔‘‘
ملکہ نے کہا— ’’جہاں پناہ! آپ غلط سمجھے۔ میری کنیز شیریں خیریت سے ہے۔ موت تو ابو الحسن کی ہوئی ہے۔ ہائے بے چارہ ابو الحسن! کتنا اچھا آدمی تھا۔ خدا اس کو جنت میں جگہ دے۔‘‘
خلیفہ نے کہا۔ ’’ابو الحسن کی موت کا غم مت کرو۔ ابو الحسن تو اچھی طرح ہے۔ موت تو شیریں کی ہوئی۔ ابو الحسن نے ابھی خود آ کر مجھے اطلاع دی ہے تاکہ وہ شیریں کو دفن کرنے کا انتظام کرے۔ مجھے بھی شیریں کی موت کا بے حد افسوس ہے۔ وہ تم سے کتنی محبت کرتی تھی۔‘‘
ملکہ زبیدہ نے کہا۔ ’’جہاں پناہ! ویسے تو آپ کی عادت ہے کہ اکثر مذاق کرتے ہیں لیکن یہ وقت مذاق کا نہیں ہے۔ یہ میری کنیز نہیں مری بلکہ ابو الحسن کی موت ہوئی ہے۔ آپ خود سوچیے کہ آپ کا اپنا آدمی ابو الحسن مر گیا ہے اور آپ غلطی سے شیریں کو مردہ سمجھ رہے ہیں۔‘‘
اب خلیفہ کو بہت غصہ آیا۔ انھوں نے ناراض ہو کر کہا— ’’زبیدہ تم کو میری بات کا یقین کیوں نہیں آتا۔ ابو الحسن زندہ ہے، اور بالکل ٹھیک ہے۔ وہ خود میرے پاس اپنی بیوی کی موت کی اطلاع دے کر گیا ہے۔‘‘
زبیدہ نے کہا— ’’یہ بالکل غلط ہے۔ میں ہرگز نہیں مان سکتی۔ ابھی ایک گھنٹہ پہلے شیریں میرے پاس آئی تھی، روتی پیٹتی ہوئی۔ میں نے خود اسے سو اشرفیاں دی ہیں۔ مجھے بالکل یقین ہے کہ ابو الحسن مرا ہے۔ آپ یا تو غلط سمجھ رہے ہیں یا پھر مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔‘‘
اب تو خلیفہ کا غصہ اور بڑھ گیا۔ اس نے اپنے خاص غلام کو آواز دی اور کہا ’’جاؤ، ابو الحسن کے گھر— اور یہ دیکھ کر آؤ کہ کون مرا ہے۔ اور فوراً یہاں آ کر اطلاع دو۔‘‘
جب وہ غلام چلا گیا تو خلیفہ نے کہا ’’زبیدہ! ابھی تم کو معلوم ہو جائے گا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔‘‘
زبیدہ نے کہا ’’مجھے پہلے سے یقین ہے کہ شیریں زندہ ہے اور ابو الحسن مر گیا ہے۔ اس لیے کہ میں نے شیریں کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے اپنی آنکھ سے۔‘‘
خلیفہ کے حکم کے مطابق غلام ابو الحسن کے یہاں گیا۔ ابو الحسن اپنے مکان کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ خلیفہ اور ملکہ میں بحث ہو گی اور وہ ضرور کسی نہ کسی کو سچی بات معلوم کرنے کے لیے بھیجیں گے۔ اس لیے جیسے ہی ابو الحسن نے غلام کو اپنے گھر کی طرف آتے دیکھا۔ وہ سمجھ گیا کہ خلیفہ نے اس غلام کو بھیجا ہے۔ اس نے شیریں سے کہا— ’’شیریں! تم جلدی سے چپ چاپ کفن میں منہ چھپا کر پڑ جاؤ۔‘‘
شیریں اسی طرح لیٹ گئی۔ ذرا سی دیر میں غلام بھی آ گیا۔ اس نے کہا— ’’ابو الحسن! ایک عجیب بات ہے۔ ملکہ زبیدہ کہہ رہی ہیں کہ تم مر گئے ہو، تمھاری بیوی زندہ ہے۔ خلیفہ نے مجھے صحیح بات معلوم کرنے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘
ابو الحسن نے کہا۔ ’’تم خود اپنی آنکھ سے دیکھ لو کہ میں کتنی مصیبت میں مبتلا ہوں۔ ملکہ بھی سچ کہتی ہیں کہ شیریں کے بغیر میں مردے سے بھی زیادہ مردہ ہوں اور شیریں اتنی اچھی عورت تھی کہ مر جانے کے بعد بھی اس کا نام محل میں زندہ رہے گا‘‘-
وہ غلام شیریں کا منہ کفن میں ڈھکا ہوا دیکھ کر چلا گیا اور خلیفہ سے بولا— ’’جہاں پناہ! ابو الحسن تو خیریت سے ہے۔ لیکن اس کی بیوی ضرور مر گئی ہے۔ میں اس کی لاش کفن میں لپٹی ہوئی دیکھ کر آیا ہوں۔ لیکن بیوی کی موت کا اثر ابو الحسن پر بھی بہت ہے اور وہ بہت پریشان ہے۔‘‘
ملکہ نے کہا ’’میں نے تھوڑی دیر پہلے خود اپنی آنکھ سے شیریں کو دیکھا ہے۔ میں کیسے مان لوں کہ وہ مر گئی۔ تمھارا غلام جھوٹا ہے۔ میں اس کی بات نہیں مان سکتی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی ایک کنیز کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ جاؤ جا کر دیکھ کر آؤ کہ کون مرا ہے۔ یہ کمبخت غلام جھوٹ بول کر خلیفہ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ سچے ہیں اور میں جھوٹی ہوں۔‘‘
کنیز نے کہا — ’’ہم نے تو خود تھوڑی دیر پہلے شیریں کو آپ کے پاس روتے پیٹتے دیکھا تھا۔ وہ اتنی جلدی کیسے مر سکتی تھی۔ موت تو ابو الحسن کی ہوئی۔‘‘
زبیدہ نے کہا ’’میں کیا کروں۔ خلیفہ کو یقین نہیں آ رہا۔ اسی لیے تو میں تم کو بھیج رہی ہوں۔ تم دیکھ کر آؤ اور صحیح صحیح بات بتاؤ۔ پھر زبیدہ نے خلیفہ سے کہا ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی اپنی کنیز کو بھیج کر معلوم کر لوں۔ آپ کا غلام تو جھوٹا ہے۔‘‘
خلیفہ نے کہا ’’تم میری بات کیوں ماننے لگیں۔ انھوں نے کنیز کو حکم دیا کہ جاؤ تم بھی دیکھ کر آؤ۔‘‘
ادھر ابو الحسن اور شیریں کھڑکی میں بیٹھے ہوئے دیکھ رہے تھے وہ سمجھ گئے کہ زبیدہ ہر گز غلام کی بات نہ مانے گی اور وہ اپنی کسی کنیز کو بھیجے گی۔ اتنے میں ان کی نظر اس کنیز پر پڑی جو حال معلوم کرنے کے لیے آ رہی تھی۔ ابو الحسن تیزی سے گیا اور مردے کی طرح کفن میں جا کر پڑ گیا۔ جب کنیز داخل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ شیریں کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں، بال کھلے ہوئے ہیں اور بری طرح بلک بلک کر رو رہی ہے۔ ابو الحسن کی لاش کفن میں لپٹی پڑی ہے۔ شیریں کو اس حال میں دیکھ کر اسے بڑا دکھ ہوا۔ اس نے شیریں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے تسلی دی۔ اور کافی دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہی۔ پھر چلتے ہوئے بولی— ’’بہن! اب میں چلتی ہوں۔ کیونکہ خلیفہ اور ملکہ میں بڑا جھگڑا ہو رہا ہے۔ ملکہ کہتی ہے کہ ابو الحسن مرا ہے اور خلیفہ کہہ رہے ہیں کہ شیریں کی موت ہوئی ہے۔ اب میں ملکہ کو اطمینان دلاتی ہوں کہ آپ کی شیریں زندہ ہے۔‘‘
کنیز نے آ کر سارا حال ملکہ کو سنایا۔ اب تو خلیفہ کو بھی فکر ہوئی کہ آخر یہ کیا بات ہے۔ خلیفہ نے کہا ’’ہم سب جھوٹے ہیں۔ اب بہتر یہی ہے کہ ہم سب ابو الحسن کے گھر چلیں اور خود اپنی آنکھ سے دیکھیں کہ کیا قصہ ہے۔‘‘
ذرا سی دیر میں خلیفہ اور ملکہ غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ ابو الحسن کے گھر گئے۔ ابو الحسن اور شیریں نے دور سے انھیں آتے دیکھا تو وہ پریشان ہو گئے۔ شیریں نے کہا ’’اب بتاؤ کیا کرو گے۔‘‘
ابو الحسن نے کہا ’’آؤ، اب ہم تم دونوں اس کفن میں لیٹ جائیں۔ چنانچہ خلیفہ کے آنے سے پہلے دونوں چپ چاپ کفن میں پڑ گئے۔
جب خلیفہ اور زبیدہ آئے تو وہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ ’’ارے! یہ تو دونوں مرے پڑے ہیں۔‘‘
زبیدہ نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا۔ ’’افسوس کہ تم اپنے شوہر کی موت کی تاب نہ لا سکی۔‘‘
خلیفہ نے کہا۔ ’’زبیدہ! تم غلط سمجھ رہی ہو۔ غم سے شیریں کی موت نہیں ہوئی۔ شیریں تو پہلے ہی مر چکی تھی۔ بیچارہ ابو الحسن اپنی بیوہ کے غم میں مر گیا۔
اب پھر دونوں میں بحث شروع ہو گئی۔
آخر ایک مرتبہ ملکہ نے کہا۔ ’’ابو الحسن کی کنیزیں کہاں ہیں انھیں ٹھیک بات معلوم ہو گی۔ انھوں نے ہی دوسرے کی لاش پر کفن ڈالا ہو گا۔
خلیفہ نے کہا ’’کہاں ہیں وہ سب کی سب۔ جو کوئی اس بھید کو کھولے گا۔ میں اسے ایک ہزار اشرفیاں دوں گا۔‘‘
جیسے ہی خلیفہ نے یہ بات کہی۔ ابو الحسن کفن پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔ ’’میرے پیارے خلیفہ! آپ صحیح کہتے ہیں کہ میں بعد میں مرا۔ شیریں کی موت کے غم میں — آپ ایک ہزار اشرفیاں مجھے دیں۔‘‘
ملکہ زبیدہ اور اس کی کنیزیں ڈر کے مارے اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں۔ لیکن خلیفہ سب کچھ سمجھ گئے کہ ابو الحسن نے ان سے مذاق کیا ہے اور خلیفہ سے پرانے مذاق کا بدلہ لیا ہے۔
اب شیریں اٹھی اور دوڑتی ہوئی ملکہ زبیدہ کے قدموں پر گر پڑی اور کہنے لگی— ’’میری پیاری ملکہ! انعام مجھے دلوائیے — آپ سچی ہیں۔ اس غم نے مجھے مار ڈالا۔ میں بعد میں مری۔‘‘
یہ سن کر ملکہ کو بھی ہنسی آ گئی اور وہ بھی بات سمجھ گئی— اس کے بعد ابو الحسن نے سارا واقعہ سنایا۔ جس کو سن کر خلیفہ کو سچی بات معلوم ہو گئی۔ اب پھر خلیفہ کو بڑے زور کی ہنسی آئی اور وہ بولے — ’’ابو الحسن! تم مجھے ہنساتے ہنساتے مار ڈالو گے۔
اس کے بعد خلیفہ نے شیریں اور ابو الحسن کو ایک ایک ہزار اشرفیاں دیں اور حکم دیا کہ آئندہ سے ابو الحسن کو ہر مہینے ایک ہزار اشرفیاں تنخواہ کے طور پر دی جائیں تاکہ پھر اِن کو مرنے کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘
خلیفہ اور ملکہ کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ابو الحسن اور شیریں کو دوبارہ زندگی مل گئی ہے اور وہ بے حد خوش ہوئے۔ ان کی محبت بھی بڑھ گئی۔ پھر تو ابو الحسن اور شیریں دونوں مزے میں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
ایک دن کا بادشاہ,اطہر پرویز,جمع و ترتیب: اعجاز عبید,اعجاز عبیدایک دن کا بادشاہ,اطہر پرویز,جمع و ترتیب: اعجاز عبید,اعجاز عبیدکنڈل فائل