FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

اپنے کہے کنارے

 

حصہ اول

غزلیں

 

                نعمان شوق

 

 

 

 

علاقہ بڑھ رہا ہے قیدیوں کا

خدا حافظ پرانی بیڑیوں کا

 

پرندے پنکھ جب تک کھولتے ہیں

چلا جاتا ہے موسم سردیوں کا

 

دلوں میں گھر بنایا بھی تو ہم نے

وہی ماچس کی ننّھی تیلیوں کا

 

شہنشاہی تو ہے سانپوں کی لیکن

رکھا ہے تاج سر پر تتلیوں کا

 

یہ خود مختار دنیا جانتی ہے

کہاں تک راج ہے کٹھ پتلیوں کا

 

وہ دیکھو برف کی چٹّان ٹوٹی

اثر ہونے لگا ہے تالیوں کا

 

کہاں تک ساتھ لے جاتا ہے دیکھوں

مجھے سیلاب سوکھی پتّیوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نکل آئے جسموں کے سیلاب سے

وہی جگمگاتے بدن خواب سے

 

بلندی کو کس کی نظر لگ گئی

اترنے لگے سانپ محراب سے

 

ترے عکس سے ہوں میں روشن تمام

کوئی سطر لے لے کسی باب سے

 

سزا یافتہ خواہشوں سے کہو

کبھی تو اتر آئیں مہتاب سے

 

مجھے روشنی کے بھنور سے نکال

میں گھبرا گیا اس تب و تاب سے

 

شہنشاہ کی نیند خطرے میں ہے

رعایا کو فرصت نہیں خواب سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھل رہی ہے مری کمی کہ نہیں

پوچھ لوں صبح بھی ہوئی کہ نہیں

 

میں جہاں ہوں وہاں سے دیکھ ذرا

اچّھی لگتی ہے تیرگی کہ نہیں

 

خون کو تم ہی کم سمجھتے تھے

مل گئی خاک کو نمی کہ نہیں

 

گھر ہمارا جلائے جانے سے

رات خوشحال ہو گئی کہ نہیں

 

ہم نہ کہتے تھے امتحاں مت لو

آ گئی پھر وہی گھڑی کہ نہیں

 

وہ مرا ہو کے ہی رہا آخر

یہ بھی افواہ سچ ہوئی کہ نہیں

 

عمر کتنی طویل لگتی تھی

باتوں باتوں میں کٹ گئی کہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذکر ہے چاروں طرف تیرا ہی بیتی رات سے

جی ہمارا بھر نہ جائے ان کی ان کی بات سے

 

پانی پانی ہو رہے ہیں سب نئے آتش پرست

کام لینا چاہتے تھے جانے کیا برسات سے

 

وہ چہل قدمی کو نکلے ہیں دیارِ شعر میں

اور ڈر بھی لگ رہا ہے شہر کے حالات سے

 

آج پھر طعنے دیے اس نے گلابی پھول کے

کتنے ہوں یہ بھی تو سمجھائے مجھے وہ ہاتھ  سے

 

اپنے بادل سے کہو جا کے برس جائے کہیں

ان دنوں بنتی نہیں میری کسی برسات سے

 

آجکل دانشوری کا بھوت ہے کچھ یوں سوار

پان کھانے پر بھی ہو گا مشورہ سقراط سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آنکھیں آنکھوں سے لگیں ، چہروں سے پھر چہرے لگے

ایک اک کر کے سبھی بچھڑے ہوئے ملنے لگے

 

ختم ہونے کا نہیں ہے دائرے کا یہ سفر

دھیرے دھیرے پھر اسی کی سمت ہم بڑھنے لگے

 

جسم و جاں پر کیسی ویرانی کا سایہ پڑ گیا

زرد پتے آج پھر اڑتے ہوئے اچھے لگے

 

کون سا موسم ہے یہ میرے تمھارے درمیاں

کیسے کیسے پھول تھے ہاتھوں میں مرجھانے لگے

 

کیا بلندی کیسی پستی کھیل بچوّں کے تمام

سب کے سب خودکار زینے کی طرف بڑھنے لگے

 

دل میں ہے مہماں کوئی ٹھہرا ہوا، اور دل بھی کیا

ایک    کمرہ    جس     میں    ہیں    چاروں     طرف     جالے     لگے

٭      ٭٭

 

 

 

 

 

 

 

جو تیرے ساتھ ذرا دیر تک رکا ہوتا

میں اک خیال سے آگے نہیں گیا ہوتا

 

فقیر لوگ رہے اپنے اپنے حال میں مست

نہیں تو شہر کا نقشہ بدل چکا ہوتا

 

میں اپنے دل سے مخاطب تھا تاجروں سے نہیں

کہ ناپ تول کے سب کچھ کہا سنا ہوتا

 

وہ بادشاہ محبت میں ہار بھی جاتے

تو سلطنت کا بڑا کام ہو گیا ہوتا

 

کوئی تو جاگ گیا ہوتا باغ جلنے تک

مری صدا سے کسی کا بھلا ہوا ہوتا

 

ہم ایسے لوگ تو اکتا گئے تھے عشق سے بھی

وہ بے وفا نہیں ہوتا تو جانے کیا ہوتا

 

بھلا ہوا کہ جدا ہو گیا وہ جادوگر

میں بند آنکھیں لئے ساتھ چل رہا ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یہ طئے ہوا کبھی پیراک ہو نہیں سکتا

میں ڈوب سکتا ہوں لیکن ڈبو نہیں سکتا

 

ابھی کچھ اور نکھارے گا میرا لمس اسے

اس آگ سے وہ ابھی ہاتھ دھو نہیں سکتا

 

جو کھیل کھیل میں خود کو تباہ کر ڈالے

ہمارے جیسا کوئی اور ہو نہیں سکتا

 

میں کتنی بار تجھے کھو چکا ہوں یاد تو کر

سو اب میں رونا بھی چاہوں تو رو نہیں سکتا

 

تمہارا ہونا ضروری ہے میرے ہونے سے

میں آپ اپنے تصوّر میں کھو نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بس ایک بار ہی آیا نظر وہ رستے میں

میں اس کے بعد سمٹتا گیا دریچے میں

 

کہاں سے دشت میں آنے لگے غزال نئے

نہ وحشت آنکھ میں جن کے نہ مشک نافے میں

 

میں ایک بار یہاں اس کے ساتھ آیا تھا

مگر وہ بات کہاں اب کسی نظارے میں

 

بدن نے کتنی بڑھا لی ہے سلطنت اپنی

بسے ہیں عشق و ہوس سب اسی علاقے میں

 

ہم ایسے لوگوں سے بازار چل نہیں سکتا

خسارہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں ہر منافعے میں

 

جہاں ارادہ تھا گوشہ نشین ہونے کا

بسا لی خلق نے دنیا اسی خرابے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پرچم  اپنی  ضد  کے  لہرائے  ہوئے

ہم  گریں گے   پنکھ   پھیلائے  ہوئے

 

میرے  آئینے  میں  ہے  بھرپور  وہ

باقی سب ہیں آنکھ بھر لائے ہوئے

 

بیٹھے  ہیں  دنیا  کا   نقشہ  کھول  کر

لوگ  سب  دنیا  سے  اکتائے  ہوئے

 

تیرے  آنے  کی  خبر  سے  کھل  اٹھے

پھول والے  سب  تھے  مرجھائے  ہوئے

 

ہم  سخی   لوگوں  کو  عرصہ  ہو  گیا

اپنے   اپنے   ہاتھ  دفنائے    ہوئے

٭٭٭

 

 

 

اوڑھ  کر  جسم  سو  گئے   ہم   بھی

وہ  گیا  دل  سے  تو  گئے   ہم  بھی

 

ایک  بار  اس  نے  آنکھ   بھر  دیکھا

پھر  اسی   جیسے  ہو  گئے   ہم   بھی

 

کچھ  تو  بارش  کا  تھا  نشہ  اس  کو

اور   تھوڑا   بھگو   گئے   ہم  بھی

 

اپنی  خوشبو  میں  تر  بہ  تر  تھا   وہ

اس کے پہلو میں کھو گئے ہم بھی

 

بچ   گیا   صرف   نیند   کا   رشتہ

سو  گیا  وہ  تو  سو  گئے  ہم  بھی

 

شہر  آشوب   لکھنے   والے   تھے

جان  سے  ہاتھ  دھو  گئے  ہم  بھی

 

تو  نے  ا تنا   غرور   کس   پہ  کیا

دیکھ  لے  خاک  ہو  گئے  ہم  بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں  رو  رہا  تھا  مرے  آس  پاس  تھا  وہ  بھی

اداس کر کے کسی کو اداس تھا وہ بھی

 

تمام خواب تھے بازار سے خریدے ہوئے

نئے لباس میں کل بے لباس تھا وہ بھی

 

جگہ بنائی تھی مشکل سے اس کی جنت میں

پتہ چلا کہ ہمارا قیاس تھا وہ بھی

 

اگرچہ عشق میں سچ بولنے کی شرط نہ تھی

جواب دیتے ہوئے بدحواس تھا وہ بھی

 

سمجھ سکا نہ کبھی تشنگی کا مطلب وہ

یہی لگا کہ بدن بھر اداس تھا وہ بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

خون کا چھڑکاؤ جاری ہے بدن کی خاک پر

بھول جاتا ہوں میں رکھ کر اپنی مٹی چاک پر

 

اک ہلاکت خیز آندھی میں سبھی گل ہو گئے

جو چراغوں کی طرح تھے روزنِ ادراک پر

 

پار کرنا ہے یہ دریا اس کنارے سے جہاں

رکھ دئے جاتے ہیں پربت سینۂ پیراک پر

 

گھر سے نکلے تھے بنانے جو زمانے کا نصیب

پاؤں رکّھے سو رہے ہیں مسندِافلاک پر

 

کس کو فرصت مل گئی کارِ جہاں سے ان دنوں

کون سجدے کر رہا ہے دامنِ صد چاک پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ اپنے شہرِ فراغت سے کم نکلتا ہے

نکل بھی آئے تو فرصت سے کم نکلتا ہے

 

میں خانقاہ کے باہر کھڑا ہوں مدت سے

یہاں بھی کام عقیدت سے کم نکلتا ہے

 

فلک کی سیر کے پیغام آتے رہتے ہیں

بدن ہی خاک کی دہشت سے کم نکلتا ہے

 

سنبھل سنبھل کے تو چلتا ہے وہ ستارہ بھی

تمہاری جیسی نزاکت سے کم نکلتا ہے

 

میں ناپتا ہوں تو ہر بار رقبۂ افلاک

مری نگاہ کی وسعت سے کم نکلتا ہے

 

ہمیشہ عشق کو ہی ماننی پڑی ہے ہار

ہمیشہ حسن ضرورت سے کم نکلتا ہے

 

یہ نفرتوں کو مٹانے کی ضد رہے باقی

مگر یہ کام محبت سے کم نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رات دن کرتا ہوں خود کو رائیگاں کس کے لئے

سوچنا فرصت میں اک دن مہرباں کس کے لئے

 

ہم فقیروں کو یہاں کی بود و باش اچھی لگی

ہاں مگر یہ نقشۂ سود و زیاں کس کے لئے

 

خشکیوں پر رہنے والے فیصلہ فرمائیں گے

کشتیاں کس کے لئے ہیں بادباں کس کے لئے

 

شہر شعلوں کے حوالے کر کے وہ رخصت ہوا

پھر بھٹکتا ہے یہ گلیوں میں دھواں کس کے لئے

 

سوچتا ہوں شہر میں اس کے سوا ایسا ہے کون

رک گئے اک موڑ پہ سب رفتگاں کس کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

خطا معاف تو ویسے تو ہے خدا سب کا

تری خدائی میں ہو گا بھی کیا بھلا سب کا

 

یہ بھیڑ ہے جو ترے در پہ گمرہی کی ہے

چھپا نہیں ہے مری جان مدعا سب کا

 

سفید داغ لئے تھے سفید پوش ترے

اک ایک کر کے مگر راز کھل گیا سب کا

 

اسے ہی میل کا پتھر سمجھ کے بیٹھے ہیں

جس ایک سنگ نے روکا ہے راستہ سب کا

 

مرے سوا وہ میسر کسے کسے نہ ہوا

کسی کی ضد میں چلو ہو گیا بھلا سب کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مختصر کو مختصر کرتے ہوئے

دائرے میں سب سفر کرتے ہوئے

 

ہم ہوا ہی چاہتے تھے ماہتاب

اک عبادت رات بھر کرتے ہوئے

 

اپنی منزل تک پہنچنا ہے مجھے

ہر دوا کو بے اثر کرتے ہوئے

 

آ گئے اپنے ہی دل کے آس پاس

ہم تری جانب سفر کرتے ہوئے

 

ایک بحرِ بیکراں تھا ایک ہم

چشمِ تر کو اور تر کرتے ہوئے

 

ہو گئے نا معتبر ہم ایک دن

ہر کسی کو معتبر کرتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کون سے خواب بو رہا ہوں میں

تیز بارش ہے سو رہا ہوں میں

 

قحطِ صوت و صدا میں کیا کم ہے

کچھ نہ کچھ بول تو رہا ہوں میں

 

کوئی آتا ہے اپنی راہ میں کیا

یونہی دیوار ہو رہا ہوں میں

 

وہ نہ سمجھے گا اس اندھیرے کو

کیوں گھٹا ٹوپ ہو رہا ہوں میں

 

خواب بھی تنگ آ چکے میرے

جاگتا ہوں نہ سو رہا ہوں میں

 

اس سے اک ہار کا قرار جو تھا

اپنی آنکھیں پرو رہا ہوں میں

٭٭ ٭

 

 

 

 

 

 

 

عشق الزام تک نہیں پہنچا

میں ترے نام تک نہیں پہنچا

 

ہونٹ بھی ہونٹ تک نہیں آئے

جام بھی جام تک نہیں پہنچا

 

آنکھ سے پٹّیاں نہیں اتریں

شور کہرام تک نہیں پہنچا

 

شعر تک تو پہنچ گیا شاعر

شعر الہام تک نہیں پہنچا

 

وہ جو اجرت کا اک تماشہ تھا

تیرے خدام تک نہیں پہنچا

 

اس کو ہر اسم اسمِ اعظم ہے

جو ترے نام تک نہیں پہنچا

 

ہاں مگر حسن میں وہ باغِ بہشت

میرے گلفام تک نہیں پہنچا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مسکراتے ہوئے سبھی سے ملے

آئے رونے پہ تو ندی سے ملے

 

اتنے دن کٹ چکے ہیں جنگل میں

اب کوئی خاک آدمی سے ملے

 

اتنا رستہ تو چھوڑ دے کوئے

روشنی جا کے روشنی سے ملے

 

وہ خدا تھا تو اپنی خیر نہیں

ہم بھی کل وجد میں کسی سے ملے

 

سنگ سے ہی عرق کشید کیا

ہم تو ساحل پہ ریت ہی سے ملے

 

در سے لوٹا نہیں دئے مہمان

موت بھی آئی تو خوشی سے ملے

 

شاعری سے مجھے تو کچھ نہ ملا

جس کو ملنا ہو شاعری سے ملے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سیکڑوں سال انتظار ہوا

کون سا تیر دل کے پار ہوا

 

بک رہے تھے سکون کے سامان

جس نے دیکھا وہ بے قرار ہوا

 

ہم بھی ماچس کی تیلیوں سے تھے

جو ہوا صرف ایک بار ہوا

 

لا پتہ تھے سو مل گئے خود کو

تھا جو موجود وہ شکار ہوا

 

ہم نے تعبیر مختلف ڈھونڈی

اک اشارہ ہی بار بار ہوا

 

موت مصروف تھی بہت اس روز

کیسے بیمار کو قرار ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

رات دن صرف یہی خواب تماشہ دیکھوں

تو نہیں ہے تو کم از کم ترے جیسا دیکھوں

 

کیسی دنیا مرے اطراف بسا دی تم نے

ایک آواز سنوں ایک ہی چہرہ دیکھوں

 

میں بھی راضی نہ تھا یک طرفہ جدائی کے لئے

اس کی چاہت بھی یہی تھی کہ ہمیشہ دیکھوں

 

میری الجھن نہ کوئی اور سمجھ پائے گا

تجھ کو دیکھوں کہ میں بادل کو برستا دیکھوں

 

تو وہی ہے جو کبھی کانوں میں رس گھولتا تھا

بول کچھ تو، ترا بدلا ہوا چہرہ دیکھوں

 

اتنا مردہ بھی نہیں شوقِ سیاحت میرا

ہاں ! مگر دیکھنے لائق ہو تو دنیا دیکھوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یہاں  وہاں   تری  تشہیر  کرتے  رہتے  ہیں

غزل ہے کیا تجھے تحریر کرتے رہتے ہیں

 

فقیر دل کے سوا پاس کچھ نہیں رکھتے

اسے جلاتے ہیں تنویر کرتے رہتے ہیں

 

سبھی پرانے پرندوں کو کر دیا آزاد

نئے خیال کو زنجیر کرتے رہتے ہیں

 

تمہارا نام ہی لکھتے ہیں صرف نامے پر

اور اپنے خط کو جہانگیر کرتے رہتے ہیں

 

وہ سنگ گرمیِ گفتار سے پگھلتا ہے

اسی خیال سے تقریر کرتے رہتے ہیں

 

پلٹ کے آئی نہیں دوسری نظر اس کی

سو اک نگاہ کی تفسیر کرتے رہتے ہیں

 

اب ایسی سادہ دلی پر ہنسی تو آئے گی

تجھے بھلانے کی تدبیر کرتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی کے آتے اداسی کا دم نکلتا ہے

مگر وہ شخص ذرا گھر سے کم نکلتا ہے

 

اٹھا رہے تھے کبھی ہم بھی لطفِ بے خبری

یہاں تو آٹھوں پہر جامِ جم نکلتا ہے

 

ملے نہ حسبِ طلب گر ضمیر کی قیمت

تو بات بات پہ کاغذ قلم نکلتا ہے

 

نہ دیکھ مڑ کے ارادہ بدل نہ جائے کہیں

جسے نکلنا ہو وہ ایکدم نکلتا ہے

 

کہاں سے مجھ میں یہ خلقت تمام آن بسی

کہ ’میں‘ بھی بولنا چاہوں تو ہم نکلتا ہے

 

رقیب فال نکالیں کلامِ حافظ سے

کہ آج پردے سے کس کا صنم نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

لب سے لب ،آنکھوں سے آنکھیں ،تن سے تن ملنے لگے

جن کے روحیں بھی نہ تھیں ان کو بدن ملنے لگے

 

جانِ جاں مایوس مت ہو حالتِ بازار سے

شاید اگلے سال تک دیوانہ پن ملنے لگے

 

ہم سے لوگوں نے قلمدانوں میں کیا رکھے قلم

کیسے کیسے صاحبانِ فکر و فن ملنے لگے

 

جن دوانوں کو گلے بے رنگیِ دنیا سے تھے

اب تو خوش ہو جائیں صحرا سے چمن ملنے لگے

 

دو بھٹکتی روحیں کل آئیں نظر پھر ایک ساتھ

بارشوں کی رات دو بہکے بدن ملنے لگے

 

کون اب مجھ کو بتائے گا مرے گھر کا پتہ

تیری گلیوں میں ہی سارے کم سخن ملنے لگے

٭٭ ٭

 

 

 

 

 

بدن کے ساتھ ضرورت کہاں تھی آنے کی

کسی نے شان بڑھائی غریب خانے کی

 

تمام پھولوں کو پہچانتا ہوں خوشبو سے

اگرچہ عمر نہیں نام بھول جانے کی

 

نہ جانے کون سا دن تھا ہمارے شہر کو جب

پتہ چلا کہ ضرورت ہے مسکرانے کی

 

ہم آپ اپنا مقدّر بنانے والے ہیں

ہمارے ساتھ لڑائی ہے کارخانے کی

 

خدا معاف کرے سارے منصفوں کے گناہ

ہم ہی نے شرط لگائی تھی ہار جانے کی

 

ہم عشق والے بھی ڈوبے بدن کی خوشبو میں

یہاں بھی آگ بھڑکنے لگی زمانے لگی

٭٭٭

 

 

 

 

خوشبو میں تر بہ تر نہ سہی پیرہن تو ہے

دل سے نکل کے سوچ رہا ہوں بدن تو ہے

 

دشمن کے ہاتھ میں ہے حکومت کی باگ ڈور

درویش اپنے حال میں پھر بھی مگن تو ہے

 

کیا اہتمام کرنا کسی رات کے لئے

اک نور کا ظہور بدن در بدن تو ہے

 

چاہے وہ اس کے بعد سدا وقت پر ملا

آنکھوں میں انتظار کی پہلی چبھن تو ہے

 

حالانکہ میں نے خود کو نظر بند کر لیا

لیکن ابھی خیال کا آوارہ پن تو ہے

 

دل دے نہ دے مگر یہ ترا حسنِ بے مثال

واپس نہ کر فقیر کو آخر بدن تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ سلسلے رہے نہ کسی گلعذار سے

دامن بچا کے بڑھ گئے آگے بہار سے

 

اک بار آ گئی تھی کسی بات پہ ہنسی

اور اس کے بعد برسوں رہے سوگوار سے

 

اک لمحۂ سکون کا کتنا ہو انتظار

دنیا سنوارنی ہے اسی خلفشار سے

 

پھر اس کے بعد سونا ہے اور وہ بھی گہری نیند

مجمع بہل تو لے ذرا چیخ و پکار سے

 

خطرے میں پڑ گئی ہے حکومت فقیر کی

سیکھیں گے شہریاری کسی شہریار سے

 

دیوار پر اب آئینے کی بھی جگہ نہیں

کتنے دیے جلاؤ گے تصویرِ یار سے

 

اک گل نے آ کے تھام لیا پھر ہمارا ہاتھ

دو چار روز روٹھے رہے ہم بہار سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شاعری مرثیہ خوانی میں بدلتی جائے

ہر عبارت جو معانی میں بدلتی جائے

 

پھر ہوئے ہم اسی عیاریِ موسم کے شکار

پھر وہی برف جو پانی میں بدلتی جائے

 

اسقدر دیر لگاتے نہیں لوٹ آنے میں

اب تو ہر چیز نشانی میں بدلتی جائے

 

کیا کرے میرے زمانے کا مورّخ بھی اگر

رات کی رات کہانی میں بدلتی جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھاگ کر جائیں کہاں اس کرۂ خوں ریز سے

جنگ ہے اس مرتبہ چنگیز کی چنگیز سے

 

بار بار اپنے کناروں سے پلٹ آیا ہوں میں

بار بار الجھا ہوں اک جسمِ تلاطم خیز سے

 

ہم ہی دیوارِ قناعت سے لگے بیٹھے ہیں یوں

لا رہے ہیں خاک سارے خطّۂ زرخیز سے

 

آئیے مانگیں دعائے مغفرت ان کے لئے

کر رہے تھے جو علاجِ دردِ دل پرہیز سے

 

یوں بچھا رکھا ہے اس نے ہر طرف دامِ سکون

جوق در جوق آئینگے سب شہرِ شور انگیز سے

٭٭٭

 

 

 

 

ہر روز فصیلوں کا نیا بوجھ زمیں پر

کیا شہر بسانا بھی ضروری ہے یہیں پر

 

گرتی ہے کبھی ایک کبھی دوسری دیوار

احسان مکانوں کا برابر ہے مکیں پر

 

مٹی پہ نیا شہر لکھا اپنے لہو سے

ہم لوگ کہیں کے تھے بسے جا کے کہیں پر

 

میں سجدہ گہِ خواب سے باہر تو نکل آؤں

مٹتا ہی نہیں نام جو لکھا ہے جبیں پر

 

مانا کہ یہاں شعر سے کچھ بھی نہیں بدلا

دو چار شگوفے تو کھلائے ہیں زمیں پر

 

ہم کو ہے کہیں جان کا خطرہ تو یہیں ہے

ہر سال اڑاتا ہے کبوتر وہ یہیں پر

٭٭٭

 

 

 

 

بس خاک بن کے خاک پہ تحریر ہو سکوں

ایسے مجھے اجاڑ نہ تعمیر ہو سکوں

 

مجھ کو بلائے جاتا ہے پیہم لہو کا شور

میں کیا کروں کہ جنگ میں شمشیر ہو سکوں

 

ہر شخص کو لگے کہ اسے دیکھتا ہوں میں

کچھ یوں نگاہ ڈال کہ تصویر ہو سکوں

 

اپنا ہی اک خیال ہوں اپنے جہاں میں گم

فرصت کہاں نصیب کہ تحریر ہو سکوں

 

وہ جانتا ہے اس کی صدا میں اثر ہے کیا

آواز دے رہا ہے کہ تسخیر ہو سکوں

 

لوحِ بدن پہ ہونے دے ایسے رقم مجھے

میں ذرّۂ حقیر جہانگیر ہو سکوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں نے بھی اپنے دھیان میں اپنا سفر کیا

اس نے بھی راستے کو ذرا مختصر کیا

 

اسباب پہلے بھیج دئے سب ہوا کے ساتھ

چادر بچھائی خاک کی پتّوں کو گھر کیا

 

پوچھو کہ اس کے ذہن میں نقشہ بھی ہے کوئی

جس نے بھرے جہان کو زیر و زبر کیا

 

سب فاصلے مری ہی خطا تھے مجھے قبول

لیکن تری صدا نے بھی کتنا سفر کیا

 

اک روز بڑھ کے چوم لئے میں نے اس کے ہونٹ

اپنے تمام زہر کو یوں بے اثر کیا

 

وہ ورد کر رہا تھا کسی اور نام کا

تعویذ نے مریض پہ الٹا اثر کیا

 

مجھ کو تھی ناپسند اسے شاعری پسند

تھک ہار کے یہ عیب بھی آخر ہنر کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے

آپ تو آئے نہیں پر پھول مہنگے ہو گئے

 

ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ

ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے

 

مجھ کو اس حسنِ نظر کی داد ملنی چاہئے

پہلے سے اچھے تھے جو کچھ اور اچھے ہو گئے

 

مدّتوں سے ہم نے کوئی خواب بھی دیکھا نہیں

مدّتوں اک شخص کو جی بھر کے دیکھے ہو گئے

 

بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے

٭٭ ٭

 

 

 

 

 

 

وہ جادوگر نکل کے جیسے ہی پردے سے آتے ہیں

ہزاروں سرسراتے سانپ گلدستے سے آتے ہیں

 

نہ سودا سر میں ہے کوئی نہ تصویرِ بتاں دل میں

یہ کیسے لوگ ابکے بار ویرانے سے آتے ہیں

 

اسی سے گھر کی خوشحالی کا اندازہ لگا لیجئے

فرشتے نیکیوں کے چور دروازے سے آتے ہیں

 

اسی مٹی سے ہم نے سربلندی کا سبق سیکھا

اتر کے عرش سے اس کے ہی سمجھانے سے آتے ہیں

 

یہ تاجر تو سمجھتے ہیں ہمارے دکھ تمھارے دکھ

وہی آنسو ہیں جو بازار گر جانے سے آتے ہیں

 

یہ کس جلتے ہوئے جنگل کی ہم پہ مہربانی ہے

جدھر دیکھیں ادھر سے ناچتے شعلے سے آتے ہیں

 

تمہاری اک جھلک کے واسطے ہم کیا نہیں کرتے

منوں مٹّی ہٹا کر جسم کے ملبے سے آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی کمال کی چھب جو سخن سے نکلے پھر

تمہارے نام کی خوشبو دہن سے نکلے پھر

 

ہوائے تازہ چلی پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے

بدن نژاد پرندے بدن سے نکلے پھر

 

وہ ٹمٹماتی ہوئی رنگ و بو کی لو کیا تھی

دیے بجھاتے ہوئے ہم چمن سے نکلے پھر

 

بھلا نہیں تھا مرا دفعتاً چلے جانا

ذرا ذرا سا تری انجمن سے نکلے پھر

 

ثمر تمام تھے میٹھے یہ کوئی بات ہوئی

ہم اپنی مرضی سے باغِ عدن سے نکلے پھر

٭٭٭

 

 

 

 

پردۂ روح ذرا دیر کو ہٹ سکتا ہے

مسئلہ عشقِ مجازی پہ نمٹ سکتا ہے

 

کوئی پربت کوئی صحرا مرے رستے میں رکھو

ایک پتّھر تو اشارے سے بھی ہٹ سکتا ہے

 

اس نے رکھے ہیں ابھی آدھے کھلے دروازے

آدھے رستے سے مسافر بھی پلٹ سکتا ہے

 

ہم ترے شہر میں آزاد نہیں تھے اتنے

آجکل کوئی کسی سے بھی لپٹ سکتا ہے

 

ایک مجبور سپاہی پہ بھروسہ کیسا

قول سے ہی نہیں رن سے بھی پلٹ سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت دیر زور آزمائی ہوئی

بالآخر اسی کی خدائی ہوئی

 

ہنسی تو وہی تھی مرے یار کی

مگر آنسوؤں میں نہائی ہوئی

 

مصاحب نہ جب بن سکے شاہ کے

تو محلوں میں خواجہ سرائی ہوئی

 

ہم اس سے جدا بھی نہ ہو پائے ، بس

بدن کی بدن سے رہائی ہوئی

 

جنوں والے سارے ٹھکانے لگے

بہت دیر تک پیشوائی ہوئی

 

خدائی کا اعلان جس نے کیا

اسی سے ہماری لڑائی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

پتہ سب ہے ستائش اور ہو گی

مری شہرت کی سازش اور ہو گی

 

بڑھے گا اور سوناپن زمیں کا

یہاں جتنی رہائش اور ہو گی

 

ہمارا ساتھ یوں بھی چھوٹنا تھا

ابھی تو آزمائش اور ہو گی

 

تو کیا ہم ہار دل سے مان جائیں

نہیں! اک بار کوشش اور ہو گی

 

میں طعنے سن چکا ہوں شہر بھر کے

ابھی اس کی نوازش اور ہو گی

 

نہ چھوڑو گے اگر انکار کی لت

مجھے ملنے کی خواہش اور ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پسِ دیوارِ شہرت بولتے ہیں

سنیں کیا مابدولت بولتے ہیں

 

دلوں کے حال تو رب جانتا ہے

جہاں والے عبادت بولتے ہیں

 

نہیں ملتی کبھی صدیوں کی آہٹ

کئی لمحے نہایت بولتے ہیں

 

میں پتھر بن چکا ہوں جب تو سارے

پرندے، پیڑ، پربت بولتے ہیں

 

میاں وہ گرد تو ہم جھاڑ آئے

جسے دنیا کی دولت بولتے ہیں

 

اب اس سے آگے سرحد جھوٹ کی ہے

جہاں سب بے ضرورت بولتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اتنے عاشق تھے وہاں رفتار کے

شہر نیچے آ گیا کہسار کے

 

آستینوں سے لہو تو پونچھ لو

لوگ بھوکے ہیں تمہارے پیار کے

 

جن کو دیواریں گرانی تھیں تمام

بن گئے سائے وہی دیوار کیا

 

جیت کی عادت قبیلے کو نہ تھی

سارے دشمن ہو گئے سردار کے

 

ایسی دنیا میں ہیں صحت مند ہم

جس میں ہیں محسن سبھی بیمار کے

 

عشق کا مطلب کسے معلوم تھا

جن دنوں آئے تھے ہم دل ہار کے

 

یوں بھی ہوتا ہے کہ ڈر جاتی ہے موت

رک بھی جاتے ہیں وہ پتھر مار کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شہر آلودہ ٹھکانے سے ہوا

سب تمہارے دل جلانے سے ہوا

 

سن رہا ہوں ختم موجوں کا سکون

چاند کے نزدیک آنے سے ہوا

 

وہ نہ تھا راضی کسی بھی بات پر

سب ہوا لیکن بہانے سے ہوا

 

عشق میں سچّا تھا وہ میری طرح

بے وفا تو آزمانے سے ہوا

 

اس کی یادوں سے لگے بیٹھے تھے ہم

حادثہ دیوار ڈھانے سے ہوا

 

سب چمکتے چاند تارے بجھ گئے

دیکھ کیا آنسو بہانے سے ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

انھیں خبر ہی نہ کی جو مداخلت کرتے

مزے میں وقت کٹا اپنی تعزیت کرتے

 

کشادہ اور ہوا ہوتا صحن مسجد کا

گناہگار جو تھوڑی معاونت کرتے

 

فلک کو جیت بھی لیتے تو ہم سے تنگ نظر

کہیں فصیل اٹھاتے کہیں پہ چھت کرتے

 

کہا تو ہوتا ادھر سے گزرنے والے ہو

قدم قدم پہ ہم آنکھوں کو انگنت کرتے

 

پھر ایک بار وہ چنگیز سرخرو ٹھہرا

انھیں خرید لیا جو مزاحمت کرتے

 

نظر خدا کے خزانے پہ گر نہیں ہوتی

یہ متّقی تو خدا کی مخالفت کرتے

 

وہ شہر چھوڑ دیا ، ہار مان لی ہم نے

منافقوں سے کہاں تک منافقت کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ختم ہوتا نہیں گھمسان زمینوں کے لئے

لوگ صحرا میں بھی لڑتے ہیں سفینوں کے لئے

 

جس ہوا میں ہیں خدا جانے کہاں لے جائے

تاج ٹھوکر میں نہ رکھ خاک نشینوں کے لئے

 

کتنے ارمان سے یہ شہر بسایا ہو گا

اب مکانات ترستے ہیں مکینوں کے لئے

 

دوسرا کوئی جہاں تو وہ بنانے سے رہا

ہم دیوانوں کے لئے آپ حسینوں کے لئے

 

بوالہوس اتنے برے لوگ نہیں ہوتے یار

کوئی صورت نکل آئے گی حسینوں کے لئے

 

داؤ پر لگ گئیں آبادیاں ایک اک کر کے

جنگ ہوتی رہی ویران زمینوں کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

توڑ ڈالے گئے رباب اور چنگ

اب تو بس جنگ ، آر پار کی جنگ

 

اس لئے حسن پروری کی ہے

توڑنا ہے یہ حلقۂ بد رنگ

 

تخت پر پاؤں رکّھے سوتے ہیں

خاک پر خوش ہیں تیرے مست ملنگ

 

ہم تو قائل اسی کمال کے ہیں

روپ کتنے ترے ، ہیں کتنے رنگ

 

ساری گلیوں میں سرپھرے لڑکے

آسماں ہے کہ اک بڑی سی پتنگ

 

وہ جو خود کو خدا سمجھتا تھا

آج اس کا بھی قافیہ ہے تنگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر بار سوچتا ہوں کہ اس بار تو نہیں

پھر سوچتا ہوں سوچنا بیکار تو نہیں

 

بارش کے دور دور تک آثار تو نہیں

میں اپنی خواہشوں کا گنہگار تو نہیں

 

شاید بدن کی اوٹ میں بن جائے میرا کام

وہ روح میں اترنے کو تیار تو نہیں

 

مرنے کے بعد بول رہا ہوں وثوق سے

گھر میں بھی سارے لوگ عزا دار تو نہیں

 

دو چار بار اس سے سرِ راہ مل تو لو

پھر سوچنا وہ راہ کی دیوار تو نہیں

 

اک دائرے میں ناچ رہا ہوں ترے لئے

کیسے تجھے بتاؤں میں پرکار تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ قربتوں میں نہ ہی فاصلوں میں کھلتے ہیں

ہمارے پھول ہماری رتوں میں کھلتے ہیں

 

تم ایک رنگ سے ناراض ہو کے بیٹھے ہو

ہزار رنگ مری خواہشوں میں کھلتے ہیں

 

تمھاری آنکھوں سے ہشیار کر رہے ہیں لوگ

تو کیا سراب ان ہی پانیوں میں کھلتے ہیں

 

غلط نہیں تھا غرور اس کا اپنی خوشبو پر

وہ سارے لفظ ابھی تک خطوں میں کھلتے ہیں

 

ملے گی مجھ کو اجازت کہاں بکھرنے کی

یہاں تو پھول بھی اپنی حدوں میں کھلتے ہیں

 

کل اس کو بھیگتے دیکھا تو یہ یقین آیا

بدن ہیں ایسے بھی جو بارشوں میں کھلتے ہیں

 

جدا ہوا ہے وہ جب سے تمام برف کے پھول

خدا گواہ مری دھڑکنوں میں کھلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

زخم سب ایک سے زخموں کے نشاں ایک سے ہیں

تم جہاں رہ کے گئے سارے وہاں ایک سے ہیں

 

تم بھی تو سارے زمانے سے الگ ہو کتنے

چاہنے والے تمہارے بھی کہاں ایک سے ہیں

 

اک تو جنت میں نہیں کوئی ترے نام کا پھول

اور پھر سارے نظارے بھی وہاں ایک سے ہیں

 

وہی دنیا کے تماشے وہی بازار کا شور

شہر سب ایک سے ہیں سارے مکاں ایک سے ہیں

 

سب کو آتا ہے کہاں سورج اگانے کا ہنر

جاگنے والے بھی راتوں میں کہاں ایک سے ہیں

 

کچھ نہیں بدلا درندوں کی رہائش کے سوا

ہر زمیں ایک سی ہے سارے زماں ایک سے ہیں

 

ساتھ رہ کے بھی الگ یوں تو رہے ہم اور تم

دل پہ دونوں کے بچھڑنے کے نشاں ایک سے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کٹتی پیشانیاں کنارے کی

داستانیں ہیں تیز دھارے کی

 

کوئی صورت نہیں ہے میرے پاس

اک تمہارے سوا گزارے کی

 

غم نہ کر دل کے ڈوب جانے کا

عمر اتنی ہی تھی شرارے کی

 

ایک میلا لگا تھا خوابوں کا

یہ شروعات تھی خسارے کی

 

ہم بھی اک موج میں تھے پچھلے سال

رہ گئی ریت اب کنارے کی

 

ہم نے دانستہ چھوڑ دی اک شام

ڈور اڑتے ہوئے غبارے کی

 

دن کو رخصت کیا بہانے سے

رات تھی وہ مرے ستارے کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہر ستارے کی پذیرائی ہوئی

اس قدر آباد تنہائی ہوئی

 

راستے کی گرد ہو جانے کے بعد

جاگتی کیا آنکھ پتھرائی ہوئی

 

پھر وہی تقدیر کا بیجا گلہ

پھر وہی آواز بھرائی ہوئی

 

یاد کرتی ہے گھنے پیڑوں کی چھاؤں

ساری باتیں تیری فرمائی ہوئی

 

ناچتے موروں کے تن جھلسے ہوئے

بدلیاں چاروں طرف چھائی ہوئی

 

ہم پرندوں کی صدا انمول ہے

دیکھنا پھر صبح مرجھائی ہوئی

 

ہر صدا گم اک بھیانک شور میں

ہر کسی کی روح گھبرائی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

سب جھومتے درخت تو سکتے میں آ گئے

اڑتے ہوئے پرند بھی پنجرے میں آ گئے

 

تم راہ میں کھڑے ہو تمہیں کچھ خبر بھی ہے

گملے کے سارے پھول دریچے میں آ گئے

 

سب نے سنائے شعر مگر تو کہیں نہ تھا

ہم تو ترے خیال کے دھوکے میں آ گئے

 

اب تو ہے اور تیرے بدن کی مٹھاس ہے

ہم تو پلٹ کے اپنے جزیرے میں آ گئے

 

دنیا سے دور رہنے کا یہ بھی سبب بنا

سب آئینے ہمارے ہی کمرے میں آ گئے

 

بے رنگ زندگی کا گلہ ہے ، نہیں بھی ہے

لوگ اتنے پھول لے کے جنازے میں آ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اک بار مل کے اور بھی تنہائی بڑھ گئی

کیا ہو اگر کسی سے شناسائی بڑھ گئی

 

رو رو کے لوگ کہتے تھے جاتی رہے گی آنکھ

ایسا نہیں ہوا ، مری بینائی بڑھ گئی

 

ایک اک کر کے ناؤ میں کم ہو رہے ہیں لوگ

دریا سے ہوشیار کہ گہرائی بڑھ گئی

 

چنگاریاں اڑانا ہی مقصد ہوا کا تھا

جس سمت اس کو آگ نظر آئی بڑھ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب تک ہے ساتھ ساتھ مجھے کچھ کمی نہیں

لیکن وہ مہربان ابھی ہے ، ابھی نہیں

 

دل کی عبارتوں میں خدا کے بھی نام ہیں

دل سے پڑھو تو ساری کتابیں بری نہیں

 

پچھلے دنوں ہمارے کئی دوست کم ہوئے

شدت میں پھر بھی درد کی کوئی کمی نہیں

 

کچے گھڑوں کا حشر ابھی بھولا نہیں ہوں میں

دریاؤں میں بھی پہلی سی دریا دلی نہیں

 

سودائیوں میں کچھ تو تھے اپنی مثال آپ

لیکن ہماری طرح کسی کی چلی نہیں

 

شیطان بھی ہیں مجھ میں فرشتے بھی بے شمار

حیران ہوں خدا کی بھی کوئی کمی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

وہ جس گلی کی طرف اک نگاہ کرتے ہیں

پلک جھپکتے اسے شاہراہ کرتے ہیں

 

میں خاک پوش کہاں اس مقام کے قابل

مرے خیال مجھے عالی جاہ کرتے ہیں

 

ابھی تو صرف شروعات تھی محبت کی

جسے بنایا نہیں تھا تباہ کرتے ہیں

 

ہٹاؤ چاند ستارے نظر کے سامنے سے

ہم اپنی رات کو خود ہی سیاہ کرتے ہیں

 

سزا کی سوچنے لگتے ہیں جرم سے پہلے

گناہ کرنے سے پہلے گناہ کرتے ہیں

 

ہمارے بیچ تعلق جنم جنم کا ہے

جسے بناتا ہوں میں وہ تباہ کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سنے جانے سے پہلے بولتا ہوں

میں اپنی خامشی سے ڈر گیا ہوں

 

بہت مصروف تو میں بھی ہوں لیکن

تمہیں تم سے ملانے آ گیا ہوں

 

کوئی اس بھیڑ کو واپس بلائے

یہ میں کیسے سمندر میں کھڑا ہوں

 

اگر تو درحقیقت تو نہیں ہے

تو سن لے میں بھی تیرا واہمہ ہوں

 

سنوگے حال میری بزدلی کا

اجالے سے اجالے میں ڈرا ہوں

 

ذرا یہ ہاتھ میرے ہاتھ میں دو

میں اپنی دوستی سے تھک چکا ہوں

 

تری دنیا کو ٹھکرانا نہیں تھا

کوئی دنیا ہے جس میں جی رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ادھر بھی آنے لگیں خوشبوئیں ذرا سی پر

پڑا نہ فرق کوئی دشت کی اداسی پر

 

سناؤ شعر بھی تشریح بھی کئے جاؤ

وہ وقت آن پڑا ہے سخن شناسی پر

 

پھر اس سے ہاتھ چھڑاؤں گا اور روؤں گا

پھر ایک نظم لکھی جائے گی اداسی پر

 

وہ سارے لوگ جنھیں ظرف سے زیادہ ملا

خفا خفا سے لگے قدر ناشناسی پر

 

بدن کو سوجھتا کچھ بھی نہیں بدن کے سوا

یہ کیسی رات اتر آئی بے لباسی پر

 

پہنتے خاک ہیں خاک اوڑھتے بچھاتے ہیں

ہماری رائے بھی لی جائے خوش لباسی پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

نہ پوچھو سپنے کیسے ٹوٹتے ہیں

اچانک جیسے تارے ٹوٹتے ہیں

 

وہاں تک میں ہی میں بکھرا پڑا ہوں

جہاں تک زرد پتے ٹوٹتے ہیں

 

ہمارے دل کی حالت پر نہ جاؤ

بڑوں سے بھی کھلونے ٹوٹتے ہیں

 

پرندوں کو چہکنے سے نہ روکو

یہاں تو روز پتے ٹوٹتے ہیں

 

بھنک لگنے نہیں دیتے کسی کو

سلیقے سے بھروسے ٹوٹتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آگ سے لبریز اپنے جام تک جاتے ہوئے

رک گئے کیوں عشق کے الزام تک جاتے ہوئے

 

کس قدر خوش کن ہوئی جاتی ہے اور کتنی حسیں

میری بے چینی ترے آرام تک جاتے ہوئے

 

ہر تکبّر کا یہی انجام اس نے طئے کیا

رنگ گل کا اڑ گیا گلفام تک جاتے ہوئے

 

نرخ اتنے گر گئے بازارِ جاں میں دفعتاً

گھٹ گئے کچھ لوگ اپنے دام تک جاتے ہوئے

 

دھوپ کی دیوار سے ٹکرا کے لوٹ آئینگے کیا

صبح کے سارے مسافر شام تک جاتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی اچھی کبھی بے حد بری تھی

مگر چاہت کی اپنی چاشنی تھی

 

وہاں صدیوں جیا ہوں اپنے دم پر

جہاں دنیا نہیں تھی زندگی تھی

 

کنارے پاؤں سے تلوار کر دی

ہمیں یہ جنگ ایسے جیتنی تھی

 

ستارے خوش تھے ، پہلی بار ان سے

کسی نے روشنی میں بات کی تھی

 

یہ سچ تو ہے مگر کیسے کہو گے

دیا جب تک نہیں تھا روشنی تھی

 

سبھی قلعوں کی حالت ایک جیسی

وہی بے رونقی پھیلی ہوئی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جہاں تک زندگی پھیلی ہوئی ہے

یہی بیچارگی پھیلی ہوئی ہے

 

محل کو چاندنی میں دیکھ آئے

اداسی تک ندی پھیلی ہوئی ہے

 

نکالو قبر سے سب چاند تارے

بھیانک تیرگی پھیلی ہوئی ہے

 

یہاں بھی ہاتھ میں تسبیح سب کے

یہاں تک عاشقی پھیلی ہوئی ہے

 

تمہارا نام اور میری زباں پر

یہ کیا دیوانگی پھیلی ہوئی ہے

 

کبھی یہ سب علاقے تھے ہمارے

جہاں تک گمرہی پھیلی ہوئی ہے

 

سیہ پڑنے لگے مینار و منبر

بہت آلودگی پھیلی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس اک پل کو زمانہ لکھ دیا ہے

نشے میں تیرے کیا کیا لکھ دیا ہے

 

خدایا بوجھ اٹھاؤں کیسے ، تو نے

یہ کس پتھر پہ دنیا لکھ دیا ہے

 

مرے طعنے اسے اچھے لگیں گے

جہاں بھر نے قصیدہ لکھ دیا ہے

 

میں کاغذ کا کوئی ٹکڑا نہیں ہوں

یہ کس نے نام اپنا لکھ دیا ہے

 

کتابیں اور بھی پڑھنی تھیں مجھ کو

کروں کیا اس نے چہرہ لکھ دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہی قصہ پرانا لکھ دیا ہے

جہاں تم ہو زمانہ لکھ دیا ہے

 

کہاں جائیں تھکے ہارے پرندے

یہاں بھی کارخانہ لکھ دیا ہے

 

حقیقت درد کی تم جانتے ہو

مورخ نے فسانہ لکھ دیا ہے

 

کہاں وہ اور کہاں یہ دل ہمارا

پتہ اس نے پرانا لکھ دیا ہے

 

ہے کوئی شہر میں ہشیار اس سے

میاں کس کو دوانہ لکھ دیا ہے

 

بتاؤ نام پنجرے کا بھلا سا

ابھی تو آشیانہ لکھ دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ذہانت کا بھروسہ کچھ نہیں ہے

ذرا سوچوں تو اپنا کچھ نہیں ہے

 

میں سارے راز تیرے جانتا ہوں

بتا دوں کیا یہ دنیا کچھ نہیں ہے

 

میں صدیوں نیند میں چلتا رہا ہوں

سوائے خواب میرا کچھ نہیں ہے

 

محبت کا سنا ہے نام تم سے

ابھی تک تو ارادہ کچھ نہیں ہے

 

میں آئینہ بنے رہنے میں خوش ہوں

مرے آگے یہ چہرہ کچھ نہیں ہے

 

کہو تو میں ابھی اعلان کر دوں

تمہارے پاس میرا کچھ نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل اس کی دسترس سے دور ہے کیا

یہ مجرم آج بھی مفرور ہے کیا

 

یہ دنیا بوجھ بنتی جا رہی ہے

ترا عاشق کوئی مزدور ہے کیا

 

میں اپنے سچ پہ شرمندہ نہیں ہوں

تمہیں یہ آئینہ منظور ہے کیا

 

محبت والے ہیں کتنے زمیں پر

اکیلا چاند ہی بے نور ہے کیا

 

میں اپنی طرح سے دل ہارتا ہوں

محبت کا کوئی منشور ہے کیا

 

ڈراتے ہو خدا کا نام لے کر

یہ بندہ اس قدر مجبور ہے کیا

 

اسے دیکھے زمانے ہو گئے ہیں

ابھی دلی ہماری دور ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مرے ہوئے تھے جہاں سارے مارتے کس کو

مجھے پکارنے والے پکارتے کس کو

 

یہ تم سے مل کے لگا جسم بھی ضروری ہے

نظر بچا کے نظر میں اتارتے کس کو

 

دلوں نے لاج رکھی جاں سے جانے والوں کی

نہیں تو لوگ محبت میں ہارتے کس کو

 

تمہارے نام کی تاثیر کا جواب نہ تھا

تمہارے بعد دوانے پکارتے کس کو

 

ہمیں تو باغ بھی سارے لگے لگائے ملے

وہ جسم ہوتا نہیں تو سنوارتے کس کو

٭٭ ٭

 

 

 

 

 

 

تصویر اپنی دیکھ کے تصویر بن گیا

آئینہ تھا کہ پاؤں کی زنجیر بن گیا

 

ہم کو ڈرا کے ، آپ کو خیرات بانٹ کے

اک شخص راتوں رات جہانگیر بن گیا

 

سچ بولنا میں اتنا اذیّت پسند تھا!

تم نے نگاہ پھیری تو شمشیر بن گیا

 

دو آنکھیں تھیں جو اس کے لئے جاگتی رہیں

اک خواب تھا جو باعثِ تعزیر بن گیا

 

ہم تو تمہارے ساتھ تھے ہم کو خبر کہاں

کب تپتے ریگزار میں کشمیر بن گیا

 

اک پل کا لمس ساتھ رہا عمر بھر مرے

پھر فاصلے سے وہ مری تقدیر بن گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نشہ بہت سا ملا اور شراب تھوڑی سی

ہوئی تو میری صدا کامیاب تھوڑی سی

 

رہے خیال کہ عزت ہے اس فقیر کی بھی

یہ اور بات ہے عزت مآب تھوڑی سی

 

ذرا ذرا سا بھرا ہے مرے جنوں کا جام

عطا ہوئی ہے مجھے بے حساب تھوڑی سی

 

سنا گیا ہے فسانے کو مختصر کر کے

پڑھی گئی ہے ہماری کتاب تھوڑی سی

 

میں زندگی سے مسلسل سوال کرتا رہا

بس ایک بار ہوئی لاجواب تھوڑی سی

 

بپا ہے جشن مرے خیمے کی تباہی کا

ابھی تو ڈھیلی ہوئی ہے طناب تھوڑی سی

 

نہ جانے حسن کا معیار آج کیا ہوتا

اگر ہوا سے سرکتی نقاب تھوڑی سی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

نقاب اڑنے لگی اور ان کا چہرہ بھی

اسی طرح سے بنا تھا مرا تماشہ بھی

 

ہم ایسی کون سی دھن میں تھے کس کے دھیان میں تھے

ہمارے پاس وہ آیا بھی مسکرایا بھی

 

اب آ رہے ہو نبھانے جنم جنم کا ساتھ

تمہیں پکارنے والے نے شہر چھوڑا بھی

 

بڑے سلیقے سے ہر چیز گھر میں رکھی ہے

بہت سنبھال کے رکھا گیا ہے چہرہ بھی

 

ندی کے دونوں کنارے کب ایسے ملتے ہیں

اسی کو سوچ رہا تھا اسی کو دیکھا بھی

 

اسے بتانا نہیں تھا مگر بتائیں گے

کہ آج ٹوٹ گیا ہے بدن سے رشتہ بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

رہے جو مدتوں گم مل گئے ہیں

مزہ آئے گا ہم تم مل گئے ہیں

 

کئی قبریں چمک اٹھیں اچانک

کئی رستے جو تھے گم ، مل گئے ہیں

 

محبت کے بنا ممکن نہیں تھا

ندی سے آ کے قلزم مل گئے ہیں

 

وہی ہے سلسلہ درویش والا

یہاں بھی آپ سے تم مل گئے ہیں

 

زمانہ جن کے پیچھے چل رہا تھا

گلی میں تیری گم صم مل گئے ہیں

 

مرے صحرا میں پانی کے نشاں بھی

تلاطم در تلاطم مل گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہو پرانی مگر ایسی بھی پرانی نہ لگے

قصۂ درد ، جو سننے میں کہانی نہ لگے

 

ایسی ارزانی ہے دنیا میں کہ ڈر جاتا ہوں

یہ مرا خون بھی بہتا ہوا پانی نہ لگے

 

میرے جیسوں کو محبت نے بھرم میں رکھا

یہ بھی کوشش ہوئی دنیا کبھی فانی نہ لگے

 

زندگی کرنے کی یہ شرط رکھی ہے اس نے

آنکھ لگ جائے مگر ختم کہانی نہ لگے

 

منصبِ عشق سے ہونا ہے سبکدوش کہ یوں

ساری دنیا ہی ترے پیچھے دوانی نہ لگے

 

تیرے دھوکے میں میں کس کس سے نہیں مل آیا

یہ الگ بات کہ کوئی ترا ثانی نہ لگے

 

چاہتا ہوں کہ میں بچھڑوں بھی تو بچھڑوں ایسے

عہدِ رفتہ تری چاہت کی نشانی نہ لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کس نے دیکھا ہے جھلستے ہوئے پر کو میرے

لوگ آسان سمجھتے ہیں سفر کو میرے

 

تم تو پاپوش بھی دہلیز پہ چھوڑ آتے ہو

ایک افواہ سجا دیتی ہے گھر کو میرے

 

عشق میں ہم نے کرامات دکھائیں کیا کیا

دشت بھی چھو کے گزرنے لگے در کو میرے

 

تیرے آنے کی ، ترے آ کے چلے جانے کی

ملتی رہتی ہے خبر شام و سحر کو میرے

 

ہاتھ کو اپنے لہو سے ذرا صیقل کر لوں

اس نے آواز لگائی ہے ہنر کو میرے

 

میرا قبلہ بھی مجھے کوئی نہیں لوٹاتا

لت بھی سجدے کی لگا دی گئی سر کو میرے

 

ذہن سے ظرف تک اتری ہوئی تاریکی میں

شعر آئیں گے نظر اہلِ نظر کو میرے !

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

رات دن یوں تو پریشان بہت کرتا ہے

موقعہ ملتے ہی وہ احسان بہت کرتا ہے

 

شہر کو اور بڑا شہر بناتا ہے وہ

اور ویرانے کو ویران بہت کرتا ہے

 

جان لے لینے کی دھمکی کا برا کیا مانیں

وہ مری جان مری جان بہت کرتا ہے

 

راہ سج جاتی ہے آنے کی خبر سنتے ہی

اور پھر وہ مجھے سنسان بہت کرتا ہے

 

شرط کوئی نہ لگا لینا مقدر سے کبھی

کھیل ہی کھیل میں ویران بہت کرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تجھ میں مل جائیں مری جاں ترے جیسے ہو جائیں

کم سے کم اپنی نگاہوں میں تو اچھے ہو جائیں

 

جا ، ترا دل بھی ترے شہر سا آباد رہے

میرے جیسے یہاں دو چار دوانے ہو جائیں

 

اتنی حساس بنانی ہے یہ جنگل کی فضا

جیسے ہی آنکھ اٹھاؤ تم اجالے ہو جائیں

 

بد دماغی کو ہماری نہ ہوا دے اتنا

جی میں آتا ہے کئی بار اکیلے ہو جائیں

 

لے چلو دور ، بہت دور مسیحاؤں سے

اب یہ خدشہ ہے کہ بیمار نہ سارے ہو جائیں

 

اپنے جیسوں سے ملے کتنے برس بیت گئے

ہم تری قید سے چھوٹیں تو ستارے ہو جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بدن کی موت سے مشکل نئی کھڑی ہو گی

جدھر نگاہ اٹھاؤ گے زندگی ہو گی

 

ہمارے باغ میں آؤ بھلا لگے گا تمہیں

تمہارے نام کی دنیا کھلی ہوئی ہو گی

 

اب امتحان لیا جائے گا بصیرت کا

اب اس سے آگے بہت تیز روشنی ہو گی

 

برس رہی ہے نئی برف سی پہاڑوں پر

اتر کے آتی ہوئی یہ ندی مری ہو گی

 

ہمارے ہاتھ تو اس دوستی نے کاٹ دیے

سنا تھا ہاتھ بڑھانے سے دوستی ہو گی

 

تمہارے نام کی تاثیر ہی کچھ ایسی ہے

جہاں جہاں میں پکاروں گا روشنی ہو گی

 

بھرا نہیں ہے ابھی کاسۂ دل و دنیا

ابھی کچھ اور محبت کی شاعری ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ گل ، وہ بوٹے تمہارے بدن پہ لگتے ہیں

کسی سے بولوں تو دھبے چمن پہ لگتے ہیں

 

مرے ہوؤں پہ بھی تہمت ہے مارے جانے کی

کہاں کے داغ ہمارے کفن پہ لگتے ہیں

 

تمام قوسِ قزح بچھ گئی ہے کمرے میں

یہ کس جہان کے میلے بدن پہ لگتے ہیں

 

کہاں سے آئیں گے نہریں نکالنے والے

تمام سنگ ترے کوہ کن پہ لگتے ہیں

 

سدھے ہوئے نہیں لگتے تمہارے تیر انداز

کسی کے زخم کسی کے بدن پہ لگتے ہیں

 

تمام دشت معطر ہے مشک سے اپنے

نشانے چاروں طرف سے ہرن پہ لگتے ہیں

 

کھڑے ہوئے ہیں میاں میر سر جھکائے ہوئے

تمام شعر کے دشمن سخن پہ لگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل میں پہلے اک نہایت گرم موسم رکھ دیا

سلسلہ پھر بارشوں کا اس نے پیہم رکھ دیا

 

روح کی گلیوں کا تھا میں ایک آوارہ فقیر

اس نے میرے دل میں بھی خود کو مجسم رکھ دیا

 

راستے کے پتھروں سے کم پریشاں ہوں میں کیا

تم نے تو قدموں میں میرے سارا عالم رکھ دیا

 

دل میں اب کچھ بھی نہیں تو سامنے بیٹھے ہو تم

مرنے والے کے سرہانے آبِ زمزم رکھ دیا

 

پاؤں کے نیچے سے پہلے کھینچ لی ساری زمین

پیار سے پھر نام میرا شاہ عالم رکھ دیا

 

ایسی نمناکی کہ آنکھیں بھی گلہ کرنے لگیں

میرے حصے میں خدا نے کیسا موسم رکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اسے نکال کے لاؤں پھر اس کی جنت سے

بھرا نہیں ہے ابھی جی مرا محبت سے

 

نہیں ، میں ایسی سعادت سے باز آتا ہوں

کہ اپنی خاک اڑاؤں تری اجازت سے

 

میں اٹھ کے آ گیا محفل سے تو برا مت مان

سماع چھوٹا بہت تھا مری سماعت سے

 

کل اپنے نام سے اس نے مجھے پکار لیا

میں تھوڑی دیر رہا خوش بھی اس شرارت سے

 

بٹھایا تختِ فلک پر فقیر نے تجھ کو

بنی ہے ایک حکومت مری حمایت سے

 

وہ نفرتوں کے علم دار سرخرو ٹھہرے

دلوں نے اتنا رکھا فاصلہ محبت سے

 

نکال لیں گے مرے شعر میں کوئی خوبی

یہ لوگ باز نہ آئیں گے اپنی عادت سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سبھی جہان میں اپنے ہیں بس پرائے ہم

اگر یہی ہے محبت تو باز آئے ہم

 

حکومتیں بھی غلاموں کو سونپ دیں اپنی

کسی کو حلقۂ زنجیر میں نہ لائے ہم

 

مناؤ جشن کہ بازی تو تم نے جیت ہی لی

رہے خیال ابھی ہاتھ تو نہ آئے ہم

 

جہان بھر کے اندھیرے کو دور کر دیتے

اس ایک رات میں اتنے چراغ لائے ہم

 

تمہارے ساتھ کبھی بارشوں میں بھیگے تھے

تمام عمر رہے عطر میں نہائے ہم

 

بڑی کمی تھی وہاں بھی نئے نظاروں کی

سو پیچھے چھوڑ کے آئے بدن سرائے ہم

 

یہی کہ اس کو مرا شعر ہونا آ ہی گیا

یہ سوچ سوچ کے کل خوب جگمگائے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک آیت پڑھ کے اپنے آپ پر دم کر دیا

ہم نے ہر چہرے کی جانب دیکھنا کم کر دیا

 

احتراماً اس کے قدموں میں جھکا ، نادان میں

اس نے میرا قد ہمیشہ کے لئے کم کر دیا

 

اور پھر اس سے شفا بھی مل گئی بیمار کو

آنسوؤں کو پی کے ہم نے آبِ زمزم کر دیا

 

مجھ سے اوروں کی جدائی بھی سہی جاتی نہیں

میں نے دو بھیگی ہوئی پلکوں کو باہم کر دیا

 

کھل رہے ہیں مجھ میں دنیا کے سبھی نایاب پھول

اتنی سرکش خاک کو کس ابر نے نم کر دیا

 

کر رہے تھے عشق میں سود و زیاں کا وہ حساب

ان کے تخمینے نے میرا درد بھی کم کر دیا

 

تخلیہ کہہ کے وہ خود تخلیق میں مصروف ہے

اور میرے پیچھے اس نے سارا عالم کر دیا

 

ساتھ جتنی دیر رہ لوں کون سا کھلتا ہے وہ

اس نے دانستہ مرے شعروں کو مبہم کر دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

رعونت اس قدر ارشاد فرمانے میں رکھی ہے

کہ جیسے ساری دنیا ان کے پیمانے میں رکھی ہے

 

ہزاروں اکبرِ اعظم ہمارے گرد بستے ہیں

محبت آج بھی اک سرد تہہ خانے میں رکھی ہے

 

کبھی دیکھا تھا ننگے پاؤں چلتے اس کو ساحل پر

ذرا سی ریت اب بھی میرے ویرانے میں رکھی ہے

 

ہزاروں بار بدلی ہے ہزاروں سال میں دنیا

مگر دیوانگی پہلی سی دیوانے میں رکھی ہے

 

ہم ان کے خوف پر اس سے زیادہ ہنس نہیں سکتے

ہماری لاش تک اک اسلحہ خانے میں میں رکھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری سادہ طبیعت کو لبھانے آتے رہتے ہیں

یہاں اڑتے ہوئے رنگیں غبارے آتے رہتے ہیں

 

میں ایسا عشق ہوں جس میں بدن حائل نہیں ہوتا

اسی دیوار سے چھن کر اجالے آتے رہتے ہیں

 

اگر زندہ ہوں میں تو پھر یہ تازہ قبر کس کی ہے

ستارے بھی یہاں آنسو بہانے آتے رہتے ہیں

 

تو اس گھر کو ہر اک جانب سے خطرہ ہے تباہی کا

اگر اس گھر میں نیکی کے فرشتے آتے رہتے ہیں

 

اب ان آنکھوں کی ویرانی کا سدِ باب کیسے ہو

یہاں بھی دور دیسوں سے پرندے آتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ستارہ ساز یہ ہم پر کرم فرماتے رہتے ہیں

اندھیری رات میں جگنو سا کچھ چمکاتے رہتے ہیں

 

سنا ہے شور سے حل ہوغ نے سارے مسئلے اک دن

سو ہم آواز کو آواز سے ٹکراتے رہتے ہیں

 

جہاں میں امن کیسے پھیلتا ہے کیسے پھیلے گا

وہ سب کو تیر سے تلوار سے سمجھاتے رہتے ہیں

 

اب اپنے گرد اکٹھا بھیڑ سے گھبرا گیا ہوں میں

تماشہ دیکھنے والے تو آتے جاتے رہتے ہیں

 

بڑا دلچسپ کاروبار اب کے سال چل نکلا

ہوس کے آئینے کو عشق سے چمکاتے رہتے ہیں

 

اسی دنیا سے دیواریں اٹھانا ہم نے سیکھا ہے

ہم اس دنیا کو ہر دیوار سے ٹکراتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے

نہا کے روشنیوں میں لگے بہکتے ہوئے

 

یہ رنگ رنگ کے پیکر یہ تیز موسیقی

ہر اک بدن پہ کئی زخم ہیں تھرکتے ہوئے

 

بہت سے لوگ تھے رقصاں مگر الاؤ کے گرد

کسی کو دیکھا نہیں اس طرح دمکتے ہوئے

 

یہ حق پرستوں کی بستی اجڑ نہ جائے کہیں

مجھے ملے ہیں کئی آئینے سسکتے ہوئے

 

یہ کون سامنے بیٹھا ہے خوب رو ایسا

ملال ہونے لگے آنکھ بھی جھپکتے ہوئے

 

اب ایسے خوف کے سائے میں خواب دیکھیں کیا

یہاں تو آنکھ بھی ڈرنے لگی چھلکتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شرر مثال سبھی خاک داں میں رکھے ہیں

ہم ایسے لوگ ابھی تک جہاں میں رکھے ہیں

 

کسی کو آتا ہے جذبوں کا ترجمہ کرنا

ہمارے درد بھی کیسی زباں میں رکھے ہیں

 

وہ سارے خواب جو انمول لگ رہے تھے کبھی

سجی سجائی ہوئی اک دکاں میں رکھے ہیں

 

سیاہ رات کے مخبر تھے ہوشیار بہت

ہمارے چاند کہاں آسماں میں رکھے ہیں

 

اسے بھی راس نہیں آئے دوستی کے رنگ

ہمارے تیر بھی کب سے کماں میں رکھے ہیں

 

مرے درخت نہ ہو سوگوار اتنا بھی

تمام خاک کے پتلے خزاں میں رکھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کمال یہ بھی ہوا تیرے اک اشارے پر

رکی ہوئی ہے ندی تیسرے کنارے پر

 

چلو کہ سوئیں کھلے آسمان کے نیچے

ستارے ٹوٹ کے گرتے نہیں ستارے پر

 

صدا لگائی فقیروں نے ابکے بار کہاں

کوئی بھی قبر سے نکلا نہیں پکارے پر

 

دعا کرو کہ کسی کی تو بد دعا لگ جائے

یہ ناؤ تیر رہی ہے لہو کے دھارے پر

 

اندھیرا اور بھرا جائے کتنا آنکھوں میں

وہ رات چھوٹ نہ جائے کہیں کنارے پر

 

بلندیوں سے جنھیں دور کا علاقہ نہیں

ان ہی کے نام لکھے جائیں گے مینارے  پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گزر کل عشق کی گلیوں سے میرا ہونے والا ہے

میاں مجنوں سنبھل کر پھر تماشہ ہونے والا ہے

 

یہی دیوار مرکز ہے مری ساری توجہ کا

یہیں سے ایک رستہ اور پیدا ہونے والا ہے

 

زوالِ آدمِ خاکی بھی رک کے دیکھتے جاؤ

سنا ہے اب وہ انساں سے فرشتہ ہونے والا ہے

 

ہمارے سامنے اندھا کنواں ہے، آپ کہتے ہیں

اسی سے آفتابِ تازہ پیدا ہونے والا ہے

 

لگے ہیں سرپھرے کچھ خواب کو سچ کر دکھانے میں

تو گویا داستانوں میں اضافہ ہونے والا ہے

 

بڑا شاطر شکاری ہے جسے ہم روح کہتے ہیں

بدن بھی ایک دن اس کا نوالہ ہونے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پکارتا ہے انھیں جو گزر چکے دل سے

یہ احتجاج کئی لوگ کر چکے دل سے

 

تمام رات ہمیں آئی کس سکون کی نیند

یہ تب ہوا کہ جب آنکھوں کو بھر چکے دل سے

 

نہ ہم پہ قرض ہوس کا نہ بارِ عشق کوئی

معاملات سبھی صاف کر چکے دل سے

 

کبھی لباس کبھی بال دیکھنے والے

تجھے پتہ ہی نہیں ہم سنور چکے دل سے

 

نہ رنگ سے کوئی مطلب نہ راگ سے رشتہ

یہ شہر وہ ہے جہاں لوگ مر چکے دل سے

 

ہم ہی تھے عشق میں آہستہ رو سو کیا کرتے

وہ جلدباز تو کب کے اتر چکے دل سے

 

تمہارے باغ سے اب کوچ کا ارادہ ہے

ہم اپنی عمر کی چادر کو بھر چکے دل سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل بھی احساسات بھی جذبات بھی

کم نہیں ہیں ہم پہ الزامات بھی

 

جنگ کی ہوتی رہے گی بات بھی

چھوڑنے والے نہیں ہم ساتھ بھی

 

روک دو یہ روشنی کی تیز دھار

میری مٹی میں گندھی ہے رات بھی

 

مقتدی میرے سبھی میں ہوں امام

ہیں کمالِ عشق کے درجات بھی

 

چاند اپنے آپ کو کہتے ہو تم

آؤ دیکھیں ہو گئی ہے رات بھی

 

دور تک ہم بھیگتے چلتے رہے

دیر تک ہوتی رہی برسات بھی

 

ساتھ چلنے میں پریشانی بھی ہے

ہاتھ میں تھامے ہوئے ہیں ہاتھ بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سب خزانے دل کے خالی ہو چکے

بانٹنے والے سوالی ہو چکے

 

وہ تباہی آئی شہرِ عشق میں

جتنے بت تھے سب خیالی ہو چکے

 

اک دیے نے ساری دنیا جیت لی

کیا مرے سورج زوالی ہو چکے

 

مسئلہ پہچان کا ہے عشق میں

ان کا کیا وہ تو مثالی ہو چکے

 

اب ہمیں ایندھن بنایا جائے گا

پیڑ سے جنگل تو خالی ہو چکے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

لال ، پیلے اور گلابی لوگ سب

قید میں ہیں انقلابی لوگ سب

 

چاہتا ہوں میں تشدد چھوڑنا

خط ہی لکھتے ہیں جوابی لوگ سب

 

کیا جنوں ہے مانگتے ہیں رات دن

میرے حصے کی خرابی لوگ سب

 

سانس لیتے ہیں سسکتے بھی ہیں لفظ

کب یہ سمجھینگے کتابی لوگ سب

 

کیسے روکوں ساتھ چلنے سے انھیں

موم کے پتلے گلابی لوگ سب

 

کہہ چکے ظلِ الٰہی تخلیہ

پھر بھی چاہیں باریابی لوگ سب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یقیں حد سے زیادہ تھا کسی کی سربراہی میں

بڑی لگتی تھی یہ دنیا ہمیں بھی کم نگاہی میں

 

ابھی تلوار چمکی ہے تو تھوڑا ہوش آیا ہے

ذرا سی موت کی آہٹ نے جاں بھر دی سپاہی میں

 

رعونت میں اگر تم سے بڑے فرعوں بیٹھے ہیں

ہمارا بھی کوئی ثانی تو ہو گا کج کلاہی میں

 

خداوندا یہ راتیں کیوں مسلسل ہوتی جاتی ہیں

بناؤگے ملا کر کیا سیاہی کو سیاہی میں

 

ترے احسان کی چھتری سے اب باہر نکلنا ہے

ہمارا ہاتھ ہونا چاہیئے اپنی تباہی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

مرا کچھ بھی نہیں یہ سوچ کے شرمندہ ہوتا ہوں

مگر کم ہے کہ تیرے نور سے تابندہ ہوتا ہوں

 

مجھے خود بھی خبر ہوتی نہیں ہے اپنے ہونے کی

میں ایسے نغمے گاتا ہوں میں یوں رقصندہ ہوتا ہوں

 

تو اے دنیا مری دیوانگی پر جشن برپا کر

میں اپنے حال سے لڑ کر ترا آئندہ ہوتا ہوں

 

یہ کیسی قید ہے جس سے مفر حاصل نہیں مجھ کو

میں اپنے کام کر کے بھی ترا کارندہ ہوتا ہوں

 

یہ میری روح پہ سایہ ہے کس مظلوم ساعت کا

کسی کا قتل ہو ہر بار میں شرمندہ ہوتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خود اپنی کسی بزم میں شامل بھی ہوا جائے

اک روز تری یاد سے غافل بھی ہوا جائے

 

جسموں کی تلاوت کا ثمر کچھ بھی ملا ہو

آیت کی طرح روح پہ نازل بھی ہوا جائے

 

فرصت ملے پیڑوں کو جلانے سے کبھی تو

جنگل کے کسی جشن میں شامل بھی ہوا جائے

 

اس درجہ شہادت کی ہوس ٹھیک نہیں ہے

ہاں! پہلے کسی زخم کے قابل بھی ہوا جائے

 

میں اپنے کناروں کو بہت کاٹ چکا ہوں

کچھ سوچ سمجھ کے مرا ساحل بھی ہوا جائے

 

معلوم تو ہو جائے کہ ہمدرد ہیں کتنے

میلے میں ذرا دیر کو بسمل بھی ہوا جائے

 

دربار میں ہونے سے نہیں کام چلے گا

ہر بات پہ ’ہاں‘ بول کے شامل بھی ہوا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہتر تو یہی ہے اسے حاصل نہ ہوا جائے

اک بار ہوئے سہل تو مشکل نہ ہوا جائے

 

رنگوں کو چھوا جائے تو کچھ بات بنے گی

تصویر سے تصویر کا قائل نہ ہوا جائے

 

ہم بھی تھے کبھی چاہنے والوں میں تمہارے

اب ہم سے کسی بھیڑ میں شامل نہ ہوا جائے

 

کٹتے ہوئے پیڑوں پہ مرا نام بھی لکھ دو

اڑتے ہوئے پتوں کے مماثل نہ ہوا جائے

 

اثبات کی تہذیب بھی ہم سیکھ ہی لیں گے

اک بار کے انکار سے بد دل نہ ہوا جائے

 

کشکول اٹھانا ہے تو یہ در ہو کہ وہ در

تا عمر اسی شخص کا سائل نہ ہوا جائے

 

آنکھوں سے ہی ہو جائیں گے سب کام ہمارے

بس ایک محبت کے لئے دل نہ ہوا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چلے آئے اٹھ کے وہ پاس اور بھی

بنا میں زمانے میں خاص اور بھی

 

رہائی ملے گی نظر بند کو

سجے گا مرا خوش لباس اور بھی

 

نظر کے ستارے نظر پہ گرے

یہ دنیا اب آئے گی راس اور بھی

 

ترے زہر کا ہے یہ سارا کمال

بڑھی زندگی میں مٹھاس اور بھی

 

بڑے کام کے تھے جو پتھر لگے

محبت بڑھی آس پاس اور بھی

 

نہ توڑو تعلق وہ جیسا بھی ہے

پھرو گے میاں بدحواس اور بھی

 

ذہانت کی کیا داد ملتی وہاں

گنوا آئے ہوش و ہواس اور بھی

 

اکیلے ہمیں تو نہیں عشق بن

زمانے میں ہیں بے لباس اور بھی

 

لگا اب کہ سچ مچ بھلی تھی وہ دھوپ

بڑھائی ہے بارش نے پیاس اور بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بدن کی رات کو شبنم کے قطروں سے بھگو جائیں

اسے آزاد کر دیں خود بھی گہری نیند سو جائیں

 

یہ ٹکڑوں میں بٹی دنیا اگر جیتے تو کیا جیتے

ہر اک دیوار کے رستے میں خود دیوار ہو جائیں

 

کچھ اس انداز سے روشن جہاں کو کر رہے ہیں وہ

دیے جلنے سے پہلے ہی پتنگے راکھ ہو جائیں

 

طریقہ ڈھونڈنا ہو گا فنا سے بچ نکلنے کا

تجھے تصویر کر لیں یا تری تصویر ہو جائیں!

 

جہنم کی طرح جلتی تری آنکھیں مری آنکھیں

کسی دریا کسی ساگر میں کیا دل کو ڈبو جائیں

 

گھنی راتوں کے جنگل سے صدا آسیب کی آئی

جنھیں برباد ہونا ہو وہ سب بیدار ہو جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ستارے ٹوٹنے سے اِس طرف دیوار گرتی ہے

یہ جتنی روشنی ہے جھیل کے اْس پار گرتی ہے

 

مجھے نام اور پتے معلوم ہیں ان سب خداؤں کے

جہاں خلقت تری سجدے میں سو سو بار گرتی ہے

 

ہمارے خوف سے بازار اچھلتے ہیں جہاں بھر میں

سسکنے سے ہمارے کون سی سرکار گرتی ہے

 

میں اپنی بیڑیاں کاٹوں کہ اس کے دست و پا کھولوں

مرے قدموں میں یہ دنیا تو اب بیکار گرتی ہے

 

یہ مجھ میں آ بسا ہے کون میری فتح کا دشمن

وہ ہنستا ہے مرے ہاتھوں سے جب تلوار گرتی ہے

 

مجھے کیا اعتراض ان کی اڑانوں پر دھماکوں پر

مگر وہ ریت ان آنکھوں میں جو ہر بار گرتی ہے

 

دلوں کے درمیاں یہ فاصلے اچھے نہیں لگتے

ذرا سا مسکرا دینے سے بھی دیوار گرتی ہے

 

سیاحت پانیوں کی شوق ہے مذہب نہیں میرا

اگر پتوار گرتی ہے تو بس پتوار گرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میری دعا سلام یہاں ایک ہی سے ہے

یاری تمام شہر کی لیکن اسی سے ہے

 

اب ہنسنے والا کون ہے لاشوں کے ڈھیر پر

رونق تمام آپ کی زندہ دلی سے ہے

 

تھوڑا سا رہ گیا ہے گئی رات کا نشہ

وہ بھی فقط خیال کی آوارگی سے ہے

 

اس فیصلے سے کس کو خوشی ہو گی ہے پتہ

اک آس پھر بھی ہم کو تری منصفی سے ہے

 

اب سوچتا ہوں ترکِ تعلق ہے کیا برا

جو شاعری کا حال تری بے رخی سے ہے

 

اک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں تھے لوگ

اس شہر کا یہ حال تری ساحری سے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چپ چاپ جل رہے ہیں شجر بولتے نہیں

بس دیکھتے ہیں رقصِ شرر بولتے نہیں

 

سنتا ہی کون شہر میں درویش کی صدا

اچھا ہوا کہ لعل و گہر بولتے نہیں

 

یہ معجزہ بھی آپ کی غارت گری کا ہے

ہوتے نہیں قلم تو یہ سر بولتے نہیں

 

رکھتے ہی بے ضمیر بھی پاسِ معاہدہ

بکنے کے بعد اہلِ نظر بولتے نہیں

 

جب تک تھے حاشیے پہ کیا خوب احتجاج

جس دن سے بن گئے ہیں خبر بولتے نہیں

 

دانشوری تو سیکھ لی طوطوں نے بھی مگر

جو رٹ چکے ہیں اس سے دگر بولتے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پاس ان کے اسلحہ ہے مرے ساتھ میرے خواب

پکڑے گئے ہیں آج رنگے ہات میرے خواب

 

بادل میں آگ، خون بھی، پانی کی بوند بھی

دیکھیں گے جانے کون سی برسات میرے خواب

 

جمہوریت کے کھیل میں اپنی بساط کیا

ہیں کب سے یرغمال مری ذات میرے خواب

 

ٹکڑے بدن کے بانٹوں کہ آنکھیں اچھال دوں

مدت پہ آئے لوٹ کے کل رات میرے خواب

 

اپنے گھروں کو لوٹ چکی فتح مند فوج

کب تک لگائے بیٹھے رہیں گھات میرے خواب

 

انصاف سے لدی ہیں جہاں میں عدالتیں

پھیلا رہے ہیں صرف خرافات میرے خواب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جدھر کچھ بھی نہیں ہے دل ادھر بھی جا نکلتا ہے

ترے دیوار ہونے سے بھی اک رستہ نکلتا ہے

 

یہاں سے بچ نکلنے کی کوئی ترکیب تو ہو گی

نظر جس ہاتھ پہ جاتی ہے گلدستہ نکلتا ہے

 

تو کیا میں چین سے اپنے بھی دل میں رہ نہیں سکتا

یہاں بھی جو ملا مجھ کو ترے جیسا نکلتا ہے

 

سماں تقریب کا یا سوگ کا ہے جانے مقتل میں

جدھر دیکھوں ادھر میرا کوئی اپنا نکلتا ہے

 

ملی ہیں دیر سے آسانیاں سب سازشاً مجھ کو

محبت دل سے اب اور پاؤں سے کانٹا نکلتا ہے

 

ان ہی بنجر زمینوں پر گھنی برسات اترے گی

جہاں آنکھیں نہیں ہوتیں وہیں چہرہ نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں اپنا سب سے بڑا نکتہ چین ہوتا ہوں

پسند آؤں اسے تو حسین ہوتا ہوں

 

تمہارا در ہے کہاں اور تم کہاں ہو یار

کہیں میں چشم کہیں پر جبین ہوتا ہوں

 

سنا ہے اس کو ضرورت نہیں ہے انساں کی

یہ بات سچ ہے تو میں بھی مشین ہوتا ہوں

 

ڈرا رہی ہیں فلک والی بے شمار آنکھیں

بدن کے ساتھ میں زیرِ زمین ہوتا ہوں

 

یہ کون کرتا ہے ہر پل مری خبر گیری

میں کار آمدِ دنیا نہ دین ہوتا ہوں

 

وہ آئینہ نہیں چہرہ مجھے لگا اپنا

کہاں میں سب کے بدن میں مکین ہوتا ہوں

 

اے میرے دل مری تکرار کا برا مت مان

کبھی کبھی تو میں اتنا ذہین ہوتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

فطرت بدل رہی ہے پرانے اصول بھی

شاید کہ روح پر ہو بدن کا نزول بھی

 

ہم صلح خو یہاں بھی کہاں سرخ رو ہوئے

تلوار سے اگائے ہیں لوگوں نے پھول بھی

 

برسوں سے بند بند تھیں شاید یہ کھڑکیاں

تازہ ہوا کے ساتھ چلی آئی دھول بھی

 

آساں نہیں ہے ساتھ ترے وقت کاٹنا

کتنا کٹھن ہے اپنے بدن کا حصول بھی

 

اتنی بڑی سزا نے مرا قد بڑھا دیا

اتنی بڑی نہیں تھی مری ایک بھول بھی

 

دوزخ کی کوئی اچھی سی صورت دکھائیے

ہم دعوتِ گناہ کریں گے قبول بھی

 

جاں آپ پر لٹانے کی ہے بات ہی کچھ اور

کیا لطف دے رہا ہے یہ کارِ فضول بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تباہ خود کو ، اسے لازوال کرتے ہیں

ہمارے لوگ جنوں میں کمال کرتے ہیں

 

مگر یہ راز فقط تتلیاں سمجھتی ہیں

چمکتے رنگ بھی جینا محال کرتے ہیں

 

کبھی کبھی تو درندوں پہ پیار آتا ہے

تمام شہر کی یوں دیکھ بھال کرتے ہیں

 

یہ کیا کہ دل بھی دکھانے کوئی نہیں آتا

چلو پرانے مراسم بحال کرتے ہیں

 

بلاؤ خواب نگر میں پھر اس ستارے کو

وہی کرو جو سبھی خوش خیال کرتے ہیں

 

کسی مذاق پہ کھل کر میں ہنس نہیں پاتا

ہنسی ہنسی میں وہ جینا محال کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کبھی سوچا نہ تھا ایسا بھی رہے گا ہو کر

میں ترے شہر میں جیتا ہوں کسی کا ہو کر

 

چوٹ لگتی ہے اسے لہجے کی سچّائی سے

اب اگر اس سے ملوں گا تو نہتّا ہو کر

 

اپنی غزلیں بھی جلانی ہیں خطوط اس کے بھی

اب دکھانا ہے اسے اور بھی تنہا ہو کر

 

کون سے باغ میں کھلتے ہیں ترے نام کے پھول

کوہساروں سے اتر آیا ہوں دریا ہو کر

 

میں نے اس ڈر سے تجھے غور سے دیکھا بھی نہیں

اک خیال اور چلا آئے گا صحرا ہو کر

 

جتنا ویران ہے وہ شخص بچھڑ کر مجھ سے

اتنا حیران نہیں میں بھی اکیلا ہو کر

٭٭٭

حصہ دوم

تشکر:  شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

اپنے کہے کنارے

 

حصہ دوم

غزلیں

 

                نعمان شوق

 

حصہ اول

 

 

 

 

درِ یزید سے جن کو وظیفے ملتے ہیں

بہ روزِ عید بھی آنسو بہا کے ملتے ہیں

 

یہ سوچ سوچ کے حیران ہو رہا ہوں میں

تمہیں نہ ملنے کے کتنے بہانے ملتے ہیں

 

میں سن رہا ہوں کہ امرت ہے اس کی ایک اک بوند

اسی ندی کے کنارے درندے ملتے ہیں

 

اداس روشنی جن کی اداس کرتی ہے

یہاں چراغ کے ایسے ذخیرے ملتے ہیں

 

بہت کٹھن ہے فرشتوں کے دیس میں جینا

ہریک موڑ پہ خطرے ہی خطرے ملتے ہیں

 

فقیر ہوں میں دیارِ بدن کی گلیوں کا

جہاں دریچوں سے کھل کر دریچے ملتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

انسانیت کے زعم نے برباد کر دیا

پنجرے میں آ کے شیر کو آزاد کر دیا

 

اپنے ہی سونے پن کا مداوا نہ کر سکے

کہنے کو ہم نے شہر تو آباد کر دیا

 

جی بھر کے قتلِ عام کیا پہلے ہر طرف

پھر اس نے مملکت کو خداداد کر دیا

 

دل سے کوئی علاقہ نہ تھا دور دور تک

تیشہ تھما کے ہاتھ میں فرہاد کر دیا

 

ہر متقی کو اس سے سبق لینا چاہئے

جنت کی چاہ نے جسے شدّاد کر دیا

 

ہاتھوں میں اس کا ہاتھ لئے سوچتے رہے

تھا کون جس نے عشق میں برباد کر دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ کس کا نام میں نے محبت میں لے لیا

شعلوں نے ہر طرف سے حفاظت میں لے لیا

 

ایک ایک کر کے چھوٹ چکے سب ہمارے دوست

کس کس کو تم نے اپنی حکومت میں لے لیا

 

میں یوں تو بادشاہ تھا اپنے جہان کا

کیا کیا نہ کام اس نے مروّت میں لے لیا

 

تا عمر ہاتھ ملتا رہا جس کے بعد دل

وہ فیصلہ بھی درد کی شدّت میں لے لیا

 

تھا ہاتھ اس کا ہاتھ میں دل میں تھا کوئی اور

یوں انتقام اس سے محبت میں لے لیا

 

خود کو بھی اپنا دوست سمجھنا نہیں ہے اب

یہ عہد بھی تمھاری رفاقت میں لے لیا

 

حالانکہ کچھ غرض نہیں حور و قصور سے

پھر بھی مکان آپ کی جنت میں لے لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بھرے ہوئے ہیں ابھی روشنی کی دولت سے

دیے جلائیں گے ہم بھی مگر ضرورت سے

 

بہت سے خواب حقیقت میں دلنواز نہ تھے

بہت سے لوگ چلے آ رہے ہیں جنت سے

 

اسی نگاہ سے پھر تم نے مجھ کو دیکھ لیا

بدن اتار کے آیا تھا کتنی محنت سے

 

یہی کہ تو بڑا خوشحال ہے خداوندا

ذرا پتہ نہیں چلتا جہاں کی حالت سے

 

چمکتے چاند ستاروں کو دفن کر آئے

بجھے چراغ کو رکھا گیا حفاظت سے

 

بدن کے طاق میں جلتے ہیں بس بدن کے دیپ

یہ روشنی ہے بہت کم مری ضرورت سے

 

پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا

ہمیں ڈرانے لگے وہ ہماری طاقت سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آسماں چاہو آسماں مل جائے

وہ اگر ہو کے مہرباں مل جائے

 

جسم میں یوں چمک رہی ہے روح

ریت میں جیسے کہکشاں مل جائے

 

آئینے پر بھی اک نگاہ جناب

کیا پتہ کون کب کہاں مل جائے

 

صرف اک ضرب اور کام تمام

نقش کوئی تو جاوداں مل جائے

 

پاس تیری نشانیاں تو ہوں

اپنے ہونے کا کچھ نشاں مل جائے

 

شہر میں باوضو نہیں پھرتے

کب کوئی شام مہرباں مل جائے

 

میں وہیں کا نہ ہو کے رہ جاؤں

اس کے جیسا کوئی جہاں مل جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

توڑ ڈالے گئے رباب اور چنگ

اب تو بس جنگ ، آر پار کی جنگ

 

تخت پر پاؤں رکھ کے سوتے ہیں

خاک پر خوش ہیں تیرے مست ملنگ

 

اس لئے حسن پروری کی ہے

توڑنا ہے یہ حلقۂ بدرنگ

 

وہ جو خود کو خدا سمجھتا تھا

آج اس کا بھی قافیہ ہے تنگ

 

شعر میں کچھ نیا ملے تو ملے

وہی قاموس ہے وہی فرہنگ

 

کیا سے کیا بن گیا وہ پل بھر میں

ایسا چھایا مری غزل کا رنگ

٭٭٭

 

 

 

 

بدن سے روح تلک تشنگی اسی کی ہے

مگر یہ پیاس جگائی ہوئی اسی کی ہے

 

کچھ اس طرح سے نظر بند کر دیا اس نے

جدھر نگاہ اٹھے روشنی اسی کی ہے

 

رکھے ہیں سوکھے ہوئے پھول بھی سلیقے سے

مرے مزاج میں شائستگی اسی کی ہے

 

سکھایا خاک کو بھی اس نے کیمیا ہونا

میں جی رہا ہوں تو کیا زندگی اسی کی ہے

 

سنا ہے اس کے نمک خوار ہیں قلم والے

سخن کسی کا سخن پروری اسی کی ہے

 

وہی ہے آٹھ پہر مجھ میں جگمگاتا ہوا

تمام پھیلی ہوئی روشنی اسی کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمام یوں تو اندھیروں کا بول بالا ہے

جدھر نگاہ ہے میری ادھر اجالا ہے

 

اسی پتے پہ لکھے ہیں تمام خط اس نے

مرا بدن ہی مری روح کا حوالہ ہے

 

میں اپنی طرح کا فرہاد ہوں یہ کم تو نہیں

پہاڑ کاٹ کے اک راستہ نکالا ہے

 

اب انتظار سے آگے نکل چکا ہوں میں

ترے بغیر بھی دل میں بہت اجالا ہے

 

یہی خبر تو زمانے سے سن رہا ہوں میں

ذرا سی دیر میں سورج نکلنے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یہ رقص وہ ہے کہ اب میرے ساتھ کوئی نہیں

اور اپنے بوجھ سے پہلے ہی تھک چکی ہے زمیں

 

لگے ہوئے ہیں سب اپنا خدا بدلنے میں

مری جبیں ہے کہ اب تک رکھی ہوئی ہے وہیں

 

وہ کیسا جشن تھا میں آج تک نہیں بھولا

بجھے الاؤ تو لپٹیں بدن سے اٹھنے لگیں

 

کھنڈر میں آج کسے یاد کر کے روئیں گے

کوئی چراغ سا جلتا تھا میرے ساتھ یہیں

 

بڑی کمی ہے توازن کی درمیاں اپنے

ہزار خواہشیں میری اور اس کی ایک نہیں

 

تمہیں تو میرؔ جی دستار کا ہی رونا تھا

کہاں رکھوں میں عقیدہ کہاں چھپاؤں جبیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماچس کی ایک تیلی دوبارہ جلائے کیا

جو آزما چکا ہو تمہیں آزمائے کیا

 

بازار میں یہ ہوتا ہے ہر آدمی کے ساتھ

آنکھیں رکھی ہوں جیب میں تو دیکھ پائے کیا

 

کل تالیوں کا شور اڑا لے گیا جنھیں

وہ لوگ آسمانوں سے پھر لوٹ آئے کیا

 

چپ چاپ دیکھتا ہوں حفاظت کے بندوبست

جو خود سے ڈر گیا ہو کسی کو ڈرائے کیا

 

سب پیڑ سر جھکائے کھڑے ہیں قطار میں

ہم آج راستوں کو بہت یاد آئے کیا

 

سب منہمک خریدنے یا بیچنے میں ہیں

اتنی بڑی دکان میں اپنے پرائے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بتوں میں پھر سے بحال اعتقاد ہونے لگا

خدا کے نام پہ اتنا فساد ہونے لگا

 

خموش طبع تھیں حد درجہ خواہشیں میری

یہ شور آپ کے آنے کے بعد ہونے لگا

 

مری زمین کبھی پہلے اتنی تنگ نہ تھی

ہر ایک شخص یہاں سندباد ہونے لگا

 

سمجھ رہے تھے کہ رونق بڑھے گی دنیا کی

بلائے جاں یہی دل کا کشاد ہونے لگا

 

سو بھولنے کا اسے فیصلہ کیا اک دن

سبق تھا ایسا کہ ہر اک کو یاد ہونے لگا

 

ہمارے لوگ ابھی قبر میں نہیں اترے

ابھی سے زیرِ زمیں کیوں فساد ہونے لگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

لہو نے تیز کی رفتارِ زندگی آخر

بدن تمام مری دسترس میں آ ہی گیا

 

یہ میں ہوں اور یہ کاغذ پہ پھیلی تنہائی

تو جاتے جاتے بالآخر کوئی چلا ہی گیا

 

سمجھنے والے اب اس شہر میں بچے کتنے

اس ایک شام بھی مجھ کو فقط سنا ہی گیا

 

ہمیں نے کچھ نہیں جانا ترے تعلق کو

ستارہ یہ بھی ذرا دیر جگمگا ہی گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ جو صحراؤں کی خدائی ہے

اک نئے عشق کی کمائی ہے

 

سردیاں کٹ گئیں تو آنگن میں

میرے حصّے کی دھوپ آئی ہے

 

اک خدا بھی نہ ہم تراش سکے

یہ تصوّر کی نارسائی ہے

 

عصرِ غالب طویل تر ٹھہرا

اب بھی نمرود کی خدائی ہے

 

آج چہرے کو ڈھانپ کر رکھنا

میرے زخموں کی رونمائی ہے

 

اِس اذیت پسند دنیا میں

ہم نے رو رو کے داد پائی ہے

 

لاش کی شکل دیکھتے ہی لگا

زندگی پھر سے لوٹ آئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک ستارے سے جدا خاک بکف ہوں میں بھی

کوزہ گر دیکھ مجھے تیری طرف ہوں میں بھی

 

یہی خلوت ہے مرا تختِ سلیماں کب سے

اِس خرابے میں زہے عز و شرف ہوں میں بھی

 

اتنا بے چین کہاں تھا میں گہر بننے کو

اپنے ساحل پہ گرفتارِ صدف ہوں میں بھی

 

ہر کوئی دیکھ رہا ہے تجھے اک میرے سوا

اور ترے دل کے سوا چاروں طرف ہوں میں بھی

 

کیا نشہ ہے کہ اترتا ہی نہیں صدیوں سے

تو اگر رقص میں ہے دست بہ دف ہوں میں بھی

 

وہ ہے مصروف بہت جنگ کی تیاری میں

اس کو معلوم کہاں اپنا ہدف ہوں میں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وہ روشنی کا سفر ختم ہو چکا ہے بہت

مرا نصیب ستارہ تو سو چکا کب کا

 

پھر اک جہان تراشوں گا اس جہان سے ہی

جو میرا سوچا ہوا تھا وہ ہو چکا کب کا

 

نہ جانے چاہتے کیا ہیں یہ بارشوں والے

میں اپنے حصے کے آنسو تو بو چکا کب کا

 

نہ راس آئی رفاقت چمکتی راتوں کی

میں اپنی جاگتی آنکھوں میں سو چکا کب کا

 

میں بھاگتے ہوئے بادل سے بھیک کیا مانگوں

جسے بھگونا تھا مجھ کو بھگو چکا کب کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

وقت ہے یوں تو کناروں کے لئے آرام کا

اک بھنور دریا میں پڑتا ہے تمہارے نام کا

 

وہ نئی تہمت کے منصوبے بنانے لگ گئے

شہر چھوٹا پڑ گیا میرے لئے الزام کا

 

لوٹ آئے ہیں گھروں کو سب کے سب مشکل پسند

ایک پتھر مل گیا تھا راستے میں کام کا

 

کیا قصیدے لکھے جاتے ہیں غزل کے شعر میں

میرؔ کے گھر میں نشہ ہونے لگا خیامؔ کا

 

ہو رہی ہیں دونوں جانب جنگ کی تیاریاں

لوگ مطلب جانتے ہیں امن کے پیغام کا

 

وہ پرانی چاہتوں سے ان دنوں بیزار ہے

میں بھی عادی ہو گیا ہوں نت نئے الزام کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رات لمبی تھی، ستارہ مرا تعجیل میں تھا

جس کو جلنا نہیں آیا وہی قندیل میں تھا

 

اک جہاں اور پسِ کارِ جہاں تھا باقی

اک بدن اور مرے عشق کی تکمیل میں تھا

 

پھر سیاہی نے سمیٹا مرا سامان آ کر

کل اثاثہ مرا اک شام کی زنبیل میں تھا

 

ایک لرزہ تھا ستاروں کے بدن پر طاری

میں تو ڈوبا ہوا اک حسن کی تفصیل میں تھا

 

اب تو ہر چہرہ اسے زرد دکھائی دے گا

دیر تک آئینہ بیمار کی تحویل میں تھا

 

جو ملا وہ بڑی عجلت میں ملا تھا مجھ سے

اور میں گویا ہمیشہ سے ہی تعطیل میں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نذر کیا کیا نہ کرایا گیا عریانی کو

جسم نے ڈھانپ دیا جسم کی ویرانی کو

 

اتنا خالی تو کوئی شہر نہیں ملنے کا

لے کے جاؤگے کہاں بے سروسامانی کو

 

آج وہ ہاتھ تو آیا پہ بڑی مشکل سے

آج اپنی ہی نظر لگ گئی آسانی کو

 

کیسی افتاد پڑی ہے کہ ترے سارے فقیر

اپنے حجرے سے نکل آئے جہاںبانی کو

 

آپ کو حسن کہاں اپنا دکھائی دے گا

ایک ٹک دیکھتے رہیے مری حیرانی کو

 

سب شکاری کی طرف ہوں یہ نہیں ہو سکتا

کوئی تو ہو گا پرندوں کی نگہبانی کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

لذتِ وصل پہ اک ہجر کا سایہ پڑ جائے

ساتھ جس کے بھی ہو وہ شخص اکیلا پڑ جائے

 

ہاں! میں اک شہر کے آسیب سے بچ نکلا ہوں

اب یہ ممکن ہے کہ پیچھے کوئی صحرا پڑ جائے

 

تیری آنکھوں کا بیاں آج بھی کرنا چاہوں

میرے لفظوں کا بدن آج بھی نیلا پڑ جائے

 

یہ جو دریا بڑھا آتا ہے سمندر کی طرف

اس سے مل کر نہ کہیں اور اکیلا پڑ جائے

 

بھول جائیں گے مرے حال پہ ہنسنا یہ لوگ

تم سا اک پھول اگر ڈھونڈ کے لانا پڑ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہیں دیوار اٹھانا کہیں در کرنا ہے

یہ جو دنیا ہے اسے زیر و زبر کرنا ہے

 

میرے اطراف لکیریں وہ بنائی ہیں کہ بس

سر میں سودا یہی ہر دم کہ سفر کرنا ہے

 

ایک تخریب سے پیدا شدہ دنیا ہے یہ

جو بھی کرنا ہے یہاں بارِ دگر کرنا ہے

 

ہم ترے عشق سے آگے نکل آئے ہیں بہت

اب اسی قریۂ وحشت میں سفر کرنا ہے

 

احتیاطیں بھی ضروری ہیں بلندی والو

خاک پہ گر کے ستاروں کو خبر کرنا ہے

 

یہ اندھیروں کی طرف جاتی ندی دیکھتے ہو

اسی رستے پہ مجھے سارا سفر کرنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اتنی تعظیم ہوئی شہر میں عریانی کی

رات آنکھوں نے بھی جی بھر کے بدن خوانی کی

 

ناپ سکتا ہے کوئی سرد ہوا تیرے سوا

یہ جو خندق ہے مرے چار سو ویرانی کی

 

دل کو معزول کیا عشق سے تونے لیکن

خاک پہ رہ کے بھی سلطان نے سلطانی کی

 

سب اڑاتے ہیں مری سرد دماغی کا مذاق

یعنی دنیا کو ضرورت ہے نگہبانی کی

 

پھول کون ایسے کھلاتا ہے مرے چاروں طرف

دھوپ کی جن کو ضرورت نہ طلب پانی کی

 

دبدبہ بڑھتا گیا شہر میں خوشحالی کا

مل گئی داد مرے دشت کو ویرانی کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسی پرانے طریقے کو آزمایا گیا

جو رو رہے تھے انھیں خاک میں سلایا گیا

 

اب اس کی بزم میں جا بیٹھنا ہے یوں جیسے

مجھے پتہ ہی نہیں ہے کسے بلایا گیا

 

برا ہے وقت میاں اب اسی پہ شکر کرو

وہ لوٹ آئے جنھیں راستہ دکھایا گیا

 

یہی کہ اس کو ضرورت نہیں رہی میری

یہ واقعہ بھی بہت دیر سے بتایا گیا

 

سبھی کو رزق دیا ہے خدا نے حصے کا

اسے ہنسایا گیا اور مجھے رلایا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس

میں بندگی کے زعم میں چلا اٹھا کہ بس

 

اک کھیل نے ہمارا مقدر بدل دیا

وہ تو ہمیں پکار کے ایسا چھپا کہ بس

 

پہلے تو اک نشے کو کیا سر پہ خود سوار

پھر یوں کسی خیال سے جی ہٹ گیا کہ بس

 

جنت ملے گی، اس نے کہا، مومنین کو

جلتے ہوئے مکان سے آئی صدا کہ بس

 

بے ربطگی کی دھند میں لپٹے ہوئے قدم

جسم اور جاں کے بیچ ہے وہ فاصلہ کہ بس

 

نغمہ سمجھ کے شور سے محظوظ ہوتی بھیڑ

انبوہِ بیکراں میں کوئی چیختا کہ بس

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دہشت کے یہ کیسے سائے بیٹھے ہیں

سجدے اپنا نور چھپائے بیٹھے ہیں

 

آگ لگانا سب کے بس کی بات نہیں

کچھ تو اپنے ہاتھ جلائے بیٹھے ہیں

 

سب پہ بھروسہ کرنے کا انجام ہے یہ

چھاؤں میں بھی چھتری پھیلائے بیٹھے ہیں

 

لہروں کو تہذیب سکھائی جائے گی

گیلی ریت پہ عریاں سائے بیٹھے ہیں

 

روگ لگا کیا ٹوٹ کے ملنے والوں کو

خود میں ہی سمٹے سمٹائے بیٹھے ہیں

 

اتنی دہشت پہلے کب تھی خوابوں کی

اچھی خاصی نیند اڑائے بیٹھے ہیں

 

آنکھیں ہی آنکھیں تھیں جن کے چہرے پر

وہ بھی سو سو دھوکے کھائے بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آئندگاں کی صف میں کوئی نام اور تھا

ہم جس کی بھینٹ چڑھ گئے الزام اور تھا

 

کم خوش نہیں میں اپنی رفاقت میں آج بھی

لیکن تمہارے قرب کا آرام اور تھا

 

اپنی جگہ ہیں خوشبوئیں باغِ بہشت کی

سمجھاؤں کس طرح مرا گلفام اور تھا

 

وہ طنز کو بھی حسنِ طلب جان خوش ہوئے

الٹا پڑھا گیا، مرا پیغام اور تھا

 

دل دے کے دور کر دیا مزدورِ عشق کو

اجرت تو مل گئی مگر انعام اور تھا

 

اچھا ہوا کہ آپ نے دل کی نہیں سنی

اس شب مرے وجود میں کہرام اور تھا

 

مصرعے غزل کے اس کے بدن سے لپٹ گئے

مجھ پر کھلا کہ معنیِ الہام اور تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر سفر رائگاں کی جانب ہے

اور نظر آسماں کی جانب ہے

 

میرا قبلہ سنبھال کر رکھنا

سر ترے آستاں کی جانب ہے

 

میری تلوار تھی کبھی میری

اب صفِ دوستاں کی جانب ہے

 

در حقیقت بہت اکیلا ہوں

جن مرا داستاں کی جانب ہے

 

کیا نظر ہے ذرا نہیں اٹھتی

اور سفر کہکشاں کی جانب ہے

 

جھیل دیتی رہے صدا پہ صدا

اب قدم بیکراں کی جانب ہے

 

پھر کرینگے نئے نگر آباد

دل ابھی رفتگاں کی جانب ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دجلہ ء خوں سے سر اٹھانا ہے

رنج بارِ دگر اٹھانا ہے

 

دل کو صحبت نہیں پسند مری

اس خرابے سے گھر اٹھانا ہے

 

وہ پرندہ تو آسماں کا ہوا

بس ہمیں بال و پر اٹھانا ہے

 

پھر کسی دوسرے صنم کے لئے

خاکِ نا معتبر اٹھانا ہے

 

سجدہ ء شکر باریاب ہوا

اپنی مٹی سے سر اٹھانا ہے

 

حجتیں شہر کی تمام ہوئیں

آج نقشے سے گھر اٹھانا ہے

 

گرچہ شیطان مر نہیں سکتا

ایک پتھر مگر اٹھانا ہے

 

تو نے لوٹا دیا سوالی کو

رنج اب در بہ در اٹھانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یکبارگی نکال دیا دل سے ڈر تمام

پھر لے کے گھومتے پھرے کاسے میں سر تمام

 

کچھ آگ ڈھونڈ لائیے چقماقِ جسم سے

ہونا نہیں ہے صبح سے پہلے سفر تمام

 

ہم لوگ کب کے خوف سے رو پوش ہو گئے

سب کام کر رہی ہے تمہاری نظر تمام

 

مشکل ہے عشق، دل میں ہوس کی جگہ تو ہو

نزدیک جا کے دیکھئے خالی ہیں گھر تمام

 

تم جیسے اور لوگ بھی ہیں اس نگر میں کیا

حیرت سرا بنی ہے ہر اک رہگزر تمام

 

اڑنے سے پہلے سب کو یہ منظر دکھائیے

دیوار پر سجائیے چڑیوں کے پر تمام

 

اتنے بھی تیز گام نہ تھے خواجگانِ دل

گرتے سنبھلتے ہو گیا آخر سفر تمام

٭٭٭

 

 

 

 

 

کاغذ کو لفظ لفظ محبت نے چھو لیا

مجھ کو بھی ایک جذبے کی حدت نے چھو لیا

 

پہلے تو مجھ پہ ہوش کا پتلا ہنسا بہت

پھر یوں ہوا اسے مری وحشت نے چھو لیا

 

مطلب کسے جہان کے مال و منال سے

لیکن فقیر کو تری دولت نے چھو لیا

 

سیارگاں طواف میں ہیں تب سے میرے گرد

جب سے بدن کو اس کی تمازت نے چھو لیا

 

سر سبز خواہشوں کی عجب فصل آ گئی

مجھ کو نئی نویلی ضرورت نے چھو لیا

 

ضائع ہوئیں فقیر کی سجدہ گزاریاں

پیشانیوں کو پھر درِ دولت نے چھو لیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عشق خائف نہیں اندیشۂ پسپائی سے

ہار جاتا ہوں مگر دشت کی پہنائی سے

 

وہ نظربند مجھے کر تو گیا تھا لیکن

ایک رستہ نکل آیا مری تنہائی سے

 

کیا ہوئے چہرے مرے آئینہ خانے سے سب

میں جھگڑنے لگا جاتی ہوئی بینائی سے

 

مجھ کو ہنگامہ ء دنیا سے سروکار نہیں

کھیلتا رہتا ہوں خود ساختہ تنہائی سے

 

بس اسی بات پہ خوش رہتے ہیں سب بالا نشیں

کوئی آواز لگاتا رہے گہرائی سے

 

ایک دریا جو مجھے چھو کے گزرتا تھا کبھی

فاصلہ رکھنے لگا ہے ترے صحرائی سے

 

ان زمینوں سے ابلتی ہوئی تاریکی کو

آسماں دیکھ رہا ہے مگر اونچائی سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ دھوپ کا ہے نہ اب بارشوں کا ڈر دل میں

کھلی ہوئی ہیں کئی چھتریاں ، مگر دل میں

 

یہ گنبدوں میں تڑپتی صدائیں کچھ بھی نہیں

تمہیں پکارتا رہتا ہوں اس قدر دل میں

 

پتہ نہ چل سکا اس کو کسی کے ہونے کا

قیام تھا ہی مرا اتنا مختصر دل میں

 

میں دیکھ بھال میں اس کی تباہ ہوتا ہوا

بنا گیا تھا کوئی عالیشان گھر دل میں

 

یہیں پہ دیکھا گیا تھا وہ شخص آخری بار

اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں ادھر ادھر دل میں

 

یہ زینہ زینہ اترتی ہوئی اداسی ہے

یقیں نہیں تو کبھی دیکھ جھانک کر دل میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خدا معاف کرے زندگی بناتے ہیں

مرے گناہ مجھے آدمی بناتے ہیں

 

ہوس ہے سارے جہانوں پہ حکمرانی کی

وہ صرف چاند نہیں، رات بھی بناتے ہیں

 

مرے لئے تو مقدس ہیں وہ صحیفے بھی

جو روشنی کے لئے روشنی بناتے ہیں

 

نہ اس ہجوم میں رکھو مجھے خدا کے لئے

جو شعر کہتے نہیں شاعری بناتے ہیں

 

تباہ کر تو دوں ظاہر پرست دنیا کو

یہ آئینے بھی مرے لوگ ہی بناتے ہیں

 

میں آسمان بناتا ہوں میری بات کرو

یہاں تو چاند ستارے سبھی بناتے ہیں

 

میں شکریہ ادا کرتا ہوں سب رقیبوں کا

یہی اندھیرے مجھے روشنی بناتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم

ایک مجمعے کے لئے شعر سناتے ہوئے ہم

 

کس گماں میں ہیں ترے شہر کے بھٹکے ہوئے لوگ

دیکھنے والے پلٹ کر نہیں جاتے ہوئے ہم

 

کیسی جنت کے طلبگار ہیں تو جانتا ہے

تیری لکھی ہوئی دنیا کو مٹاتے ہوئے ہم

 

ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی !

یاد تو ہوغ نے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم

 

توڑ ڈالیں گے کسی دن گھنے جنگل کا غرور

لکڑیاں چنتے ہوئے، آگ جلاتے ہوئے ہم

 

تم تو سردی کی حسیں دھوپ کا چہرہ ہو جسے

دیکھتے رہتے ہیں دیوار سے جاتے ہوئے ہم

 

خود کو یاد آتے ہی بیساختہ ہنس پڑتے ہیں

کبھی خط تو کبھی تصویر جلاتے ہوئے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

گونجتے رہتے ہیں بے صوت و صدا لمحوں میں

ہم ترے ہجر کے آسیب نما لمحوں میں

 

چل پڑی دل کی کمک لے کے محبت کی سپاہ

چل گیا آپ کے آنے کا پتہ لمحوں میں

 

میں نے اک عمر گنوائی ہے تو چلنا سیکھا

بن گئے لوگ مرے راہنما لمحوں میں

 

آدمی بننے کو درکار ہیں صدیاں مرے دوست

اور تم بن گئے پتھر سے خدا لمحوں میں

 

مجھ سے کم کم ہی ملا کر کہ بھلا ہو میرا

میں بہکتا ہوں ان ہی راہنما لمحوں میں

 

سینۂ سنگ میں بل کھاتی ندی جیسا تھا

کیسے پتھر نے اسے توڑ دیا لمحوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک تصویر نے ہلچل وہ مچائی دل میں

پھر سے چھوڑی ہوئی دنیا چلی آئی دل میں

 

ہر عجب بات مرے ساتھ ہی ہوتی کیوں ہے

نہ کوئی چیز ہے اپنی نہ پرائی دل میں

 

پہلے ہنگامِ بدن نے مجھے تاراج کیا

پھر دبے پاؤں محبت چلی آئی دل میں

 

آسماں آ گیا قدموں میں اتر کر میرے

کیسی چڑیا ابھی اڑتی ہوئی آئی دل میں

 

میرے ہمراہ رہے اور زمانے پھر بھی

کب سے ہے ایک ہی لمحے کی خدائی دل میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ ایسے لوگ دل میں سرِ شام آ گئے

جتنے تھے ماہتاب سبھی کام آ گئے

 

بیزار ہیں زمانے سے اعلان کر دیا

پھر عاجزی کے ساتھ سرِ عام آ گئے

 

اس نے کہا کہ مصر کا بازار سج گیا

دھوکے میں سارے شہر کے گلفام آ گئے

 

لمسِ بدن نے پوچھا کوئے ہے جہاں میں کیا

بیساختہ زباں پہ کئی نام آ گئے

 

میں نے نظر اٹھائی تھی سیارگاں کی سمت

سب عارضی چراغ سرِ بام آ گئے

 

وہ قدر ناشناسی کہ لفظوں کے زرنگار

گمنام گھر سے نکلے تھے گمنام آ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب فنا ہوتے ہوئے شہر ہیں نگرانی میں

چاند بن کر اتر آؤ مری طغیانی میں

 

آئے تو ہوغ نے بہت خاک اڑانے والے

میں اضافہ ہوں ترے دشت کی ویرانی میں

 

کیا ہے ، آئینے سے باہر کوئی آتا ہی نہیں

لوگ سب قید ہوئے جاتے ہیں حیرانی میں

 

جس میں عشق اور ہوس کا کوئی جھگڑا ہی نہیں

ایک صحرا تو ہے ایسا مری سلطانی میں

 

سب دل آویز تبسم پہ ہی مر مٹتے ہیں

جھانکتا کون ہے تصویر کی ویرانی میں

 

میں اکیلا ترا مجذوب ہوں ، سو اہلِ جہاں

ہیں تعینات شب و روز نگہبانی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

صحرا و شہر سب سے آزاد ہو رہا ہوں

اپنے کہے کنارے آباد ہو رہا ہوں

 

یا حسن بڑھ گیا ہے حد سے زیادہ اس کا

یا میں ہی اپنے فن میں استاد ہو رہا ہوں

 

اس بار دل کے رستے حملہ کرے گی دنیا

سرحد بنا رہا ہوں، فولاد ہو رہا ہوں

 

چالاک کم نہیں ہے محبوب ہے جو میرا

میں بھی سنبھل سنبھل کر فرہاد ہو رہا ہوں

 

روح و بدن برابر لفظوں میں ڈھل رہے ہیں

اک تجربے سے میں بھی ایجاد ہو رہا ہوں

 

تھوڑا بہت مجھے بھی سننے لگی ہے دنیا

تیری زباں سے شاید ارشاد ہو رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

رات سے پہلے کسی طور وہ نازل ہو جائے

ایک جسم اور مری روح کو حاصل ہو جائے

 

مورچے کھولتا رہتا ہوں سمندر کے خلاف

جس کو مٹنا ہے وہ آئے مرا ساحل ہو جائے

 

کھیل ہی کھیل میں چھو لوں میں کنارا اپنا

ایسے سوؤں کہ جگانا مجھے مشکل ہو جائے

 

لگ کے بیمار کے سینے سے نہ رونا ایسے

زندگانی کی طرح موت بھی مشکل ہو جائے

 

رکھ رہے ہیں ترے پتھر مرے زخموں کا حساب

اب یہ مجمع بھی مرے کشف کا قائل ہو جائے

 

اسقدر دیر نہ کرنا کہ یہ آسیب نگر

رات کا روپ لے اور روح پہ نازل ہو جائے

 

جنگ اپنوں سے ہے تو دل کو کنارے کر لوں

راستے میں یہی تلوار نہ حائل ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر چیز محبت میں روا رکھی ہوئی ہے

اک سنگ پہ بنیادِ خدا رکھی ہوئی ہے

 

سب دیکھ سکیں خوف سے پتّوں کا لرزنا

ہر شاخ پہ بس اتنی ہوا رکھی ہوئی ہے

 

یاں سر کو اٹھانا ہے بھرے گھر کو اٹھانا

اک کونے کئی دن سے انا رکھی ہوئی ہے

 

لہجے کی چمک سے در و دیوار منوّر

رخصت ہوئے سب لوگ، صدا رکھی ہوئی ہے

 

چلنا مرا دوبھر ہوا جاتا ہے زمیں پر

جاتا ہوں جدھر ایک دعا رکھی ہوئی ہے

 

کمبخت اڑایا بھی تو کیا مال اڑایا

ہر چیز مرے دل کے سوا رکھی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اچّھی بھلی عبادت بیکار ہو رہی ہے

جنّت ہماری کب سے تیّار ہو رہی ہے

 

بارش سے ساری فصلوں کو فائدے ہوئے ہیں

مٹّی کہیں کی بھی ہو ہموار ہو رہی ہے

 

چہرہ بدل بدل کر تم مل رہے ہو مجھ سے

یا ایک ہی محبّت سو بار ہو رہی ہے

 

ان چیونٹیوں سے بچنا مشکل ہے، سخت مشکل

جسموں پہ خواہشوں کی یلغار ہو رہی ہے

 

اپنا وجود کوئی کیوں سونپ دے کسی کو

میری بھی کوزہ گر سے تکرار ہو رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اشعار سے غرض نہ کسی کو کتاب سے

مقبول ہو رہا ہوں ترے انتساب سے

 

ہر بار آ رہی ہے نئی رات سامنے

چلتا نہیں ہے کام مرا ایک خواب سے

 

میری طرف نہ دیکھ زمانے، چل اپنی چال

آگے نکل چکا ہوں ترے انقلاب سے

 

خالی پڑے ہوئے تھے بہت دن سے کوزہ گر

مٹّی نکال لائے جہانِ خراب سے

 

کروٹ بدل کے سو گئے پھر سے ترے فقیر

دنیا چمک رہی تھی بڑی آب و تاب سے

 

تجھ کو پتہ تو ہو گا گئی رات کے سفیر

کتنے چراغ جلنے لگے ایک خواب سے

 

اک وہ کہ جن کو چاہئے ہر کم نظر کی داد

اک ہم کہ اپنے لفظ ہٹا لیں کتاب سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہیں لا پتہ زمانے سے سارے کے سارے خواب

کس کے بدن سے لپٹے ہوئے ہیں ہمارے خواب

 

میں شام کی بلائیں لوں یا بوسہ صبح کا

بکھرے پڑے ہیں رات کے دونوں کنارے خواب

 

تم چھت پہ آتے جاتے رہو گے اسی طرح

تو دیکھنے لگیں گے سبھی کے ستارے خواب

 

مانا سجا سنوار کے بھیجے گئے ہو تم

آئینے بھی تو دیکھ رہے ہیں تمہارے خواب

 

اپنی تو ساری عمر پس و پیش میں کٹی

سو بار زیب تن کئے سو بار اتارے خواب

 

نذریں بھی کیا گزارتے ہم بوریا نشیں

اس نے بھی سرفراز کئے سب گزارے خواب

 

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ کس دیس جائیں گے

ہم تار تار لوگ لئے اتنے سارے خواب

٭٭٭

 

 

 

 

 

کل وہ چقماق بدن آیا تھا تیاری سے

روشنی خوب ہوئی رات کی چنگاری سے

 

ان درختوں کی اداسی پہ ترس آتا ہے

لکڑیاں رنگ نہ دوں آگ کی پچکاری سے

 

میں نے سامان سفر باندھ کے پھر کھول دیا

ایک تصویر نے دیکھا مجھے الماری سے

 

کوئی دعوی بھی نہیں کرتا مسیحائی کا

ہم بھی آزاد ہوئے جاتے ہیں بیماری سے

 

منھ لگایا ہی نہیں اسلحہ سازوں کو کبھی

میں نے دنیا کو ہرایا بھی تو دلداری سے

 

عشق بھی لوگ نمائش کے لئے کرتے ہیں

کیا نمازیں بھی پڑھی جاتی ہیں عیّاری سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سارا بازار چلا آیا ہے گھر میں پھر بھی

باز آتے ہیں کہاں لوگ خریداری سے

 

آخری نیند سے پہلے کہاں سمجھیں گے ہم

خواب سے ڈرنا ضروری ہے کہ بیداری سے

 

کیا نشہ کرنے لگا ہوں کہ زمانہ گزرا

سر اٹھایا نہیں جاتا مرا سرشاری سے

 

حسن جس چھاؤں میں بیٹھا تھا وہ قاتل تو نہ تھی

جل گئے جسم نگاہوں کی شجر کاری سے

 

کم سے کم میں تو مرید ان کا نہیں ہو سکتا

جو پسِ رقصِ جنوں بیٹھے ہیں ہشیاری سے

٭٭٭

 

 

 

 

صدیوں سیکھے گا ابھی جان لٹانا مری جان

تب مقابل مرے آئے گا زمانہ مری جان

 

چھوڑ آتے ہو کبھی روح کبھی جسم اپنا

جب بھی ملتے ہو نیا ایک بہانہ مری جان

 

اب بھی گلیوں میں محبت کی اندھیرا ہے بہت

ایک دل اور دریچے میں جلانا مری جان

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہاں آتا ہے جو بھی ، ہوش ساحل سے ہی آتا ہے

ہمارے پیر کو بھی حال مشکل سے ہی آتا ہے

 

وہ کیسی روشنی کا تجربہ کرتے ہیں روز و شب

دھواں سارے کا سارا ان کی محفل سے ہی آتا ہے

 

مجھے ویسے تو تم اپنے قبیلے کے نہیں لگتے

مگر یہ رقص کا انداز بسمل سے ہی آتا ہے

 

سبھی ندیاں گلے ملتی ہیں باہم اور اک ہم ہیں

ستارے تک ستارہ چل کے مشکل سے ہی آتا ہے

 

میں ٹوٹے آئینے میں اپنی آرائش کا عادی ہوں

میاں یہ کشف ہے اور کشف مشکل سے ہی آتا ہے

 

سنو اس پرسکوں بستی میں سارا جرم میرا ہے

یہ جتنا شور سنتے ہو مرے دل سے ہی آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک خطہ میں جہاں گوشہ نشیں ہو سکتا

اتنی چھوٹی تری دنیا ہے، نہیں ہو سکتا

 

کاش مجھ کو مرے ہونے کا یقیں ہو سکتا

لیکن ایسا تری دنیا میں نہیں ہو سکتا

 

کچھ کمی سی لگی مجھ کو تری سلطانی میں

میں بھی اک روز ترے زیرِ نگیں ہو سکتا

 

ڈال رکھا ہے گلے میں وہ ہوس کا تعویذ

عشق کرنا بھی میں چاہوں تو نہیں ہو سکتا

 

اپنی آنکھوں کی اداسی نہیں دیکھی جاتی

ان مکانوں میں کوئی اور مکیں ہو سکتا

 

اب تو ڈھونڈے نہیں ملتے کئی شہروں کے نشاں

یہ دھماکہ بھی اگر زیرِ زمیں ہو سکتا

 

سیر آج اس نے بدن باغ کرائی مجھ کو

وہ جو ہر بات پہ کہتا تھا، نہیں ہو سکتا

 

میں جو افلاک پہ اک جست میں آ بیٹھا ہوں

پھر سے اک بار اگر خاک نشیں ہو سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

روح میں جھانک تو لیتے کہ برستی ہے خزاں

جسم بیکار کے پھولوں سے ڈھکے جاتے ہو

 

ایک رنگ آج بھی اترا نہیں جسم و جاں سے

تم تو ہر پھول کی تعریف کئے جاتے ہو

 

کیا قیامت کی خدا نے تمہیں دی ہے رفتار

روح میں تیر کی مانند چلے جاتے ہو

 

اتنا آسان سمجھتے ہو کسی کا ہونا

رات دن نام محبت کا لئے جاتے ہو

 

حسن ہی حسن بکھیرا ہے زمیں پر اس نے

خود کو کیا سوچ کے ہلکان کئے جاتے ہو

 

میرے سینے سے یہ پتھر تو ہٹاؤ پہلے

پھول پر پھول عقیدت میں رکھے جاتے ہو

 

ہم سے زنجیرِ شکایت بھی ہلائی نہ گئی

جانے کیا سوچ کے ناراض ہوئے جاتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب دیکھتے ہیں جسموں کے بھی آرپار لوگ

آنکھیں خرید لائے نئی ہوشیار لوگ

 

سجنے سنورنے والے تجھے کچھ خبر بھی ہے

کرتے نہیں کسی کا یہاں انتظار لوگ

 

جنت میں ان کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں ہر طرف

جانے کہاں گئے وہ تہجد گزار لوگ

 

ہم جن کو دیکھ دیکھ نمازیں پڑھا کئے

جنت میں تو نہیں وہ تہجد گزار لوگ

 

اس کھیل میں تو رونقِ صحرا چلی گئی

دل کا قرار بننے لگے بے قرار لوگ

 

وہ حسن اتنی بات پہ برہم بہت ہوا

دل کو سجا سنوار کے لائے تھے یار لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب کو جلدی ہے بہت لوٹ کے گھر جانے کی

اور یہ رات ہے بیمار کے ڈر جانے کی

 

دیر تک آنکھ کھلی رکھنے سے پرہیز کرو

یہ علامت ہے اداسی کے ٹھہر جانے کی

 

مخبری اس کے لئے کوئی تو کرتا ہے ضرور

اس کو عادت نہیں بے وجہ سنور جانے کی

 

زندگی اور حسیں اور حسیں لگتی ہے

ایسی ترکیب بتاتے ہیں وہ مر جانے کی

 

یوں بھی وہ دیر سے آیا ہے محبت کی طرف

اتنی جلدی ہے کسے لوٹ کے گھر جانے کی

 

سادہ کاغذ پہ مری جان لکھا ہے اس نے

یہ رقم کم نہیں لگتی مجھے ہرجانے کی

 

میرے دل میں تو نہیں دیکھ لیا ہے میں نے

کیا پتہ بات وہ کرتا تھا کدھر جانے کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

طرزِ بدن کو طرزِ بیاں جانتے ہوئے

سب دادگر ہیں خاکِ ہنر چھانتے ہوئے

 

تاریخ کا وہ مسخ شدہ باب ہیں کہ ہم

ڈرنے لگے ہیں خود کو بھی پہچانتے ہوئے

 

اس کی مخالفت مرا ایمان بن نہ جائے

جو ہنس رہا ہے خود کو خدا مانتے ہوئے

 

کب تک بچیں گے دھوپ سے ہم خوش خیال لوگ

سو بار ایک دل کی ردا تانتے ہوئے

 

اب عمر کاٹنی ہے تقیہ کے رزق پر

جو ہو رہا ہے اس کو غلط جانتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوشبو بھری ہواؤں کے تن چومتے رہے

کل شب درخت میری طرح جھومتے رہے

 

ہم بت پرست کب تھے مگر ایسا ہو گیا

وہ سنگ جتنی دیر رہا چومتے رہے

 

گھر لوٹنے کے نام سے ڈرنے لگے ہیں لوگ

اک رات ہم بھی سارا نگر گھومتے رہے

 

سر بھی کہاں بچے تھے مگر سرمدوں کے جسم

اپنی ہوا میں دیر تلک جھومتے رہے

 

اس پھول پر ہی ٹوٹ پڑیں سب مصیبتیں

ہم بے بدن ہوا کی طرح گھومتے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

از سرِ نو مجھے تیار کیا جائے گا

یعنی ویرانے کو گھر بار کیا جائے گا

 

لشکری پہن کے نکلے ہیں فقیرانہ لباس

شاید اب روح کو مسمار کیا جائے گا

 

ان چراغوں سے بغاوت کا دھواں اٹھتا ہے

سب سے پہلے انہیں بیکار کیا جائے گا

 

بجھ گیا چاند مگر دل سے عقیدت نہ گئی

اب دریچوں کا ہی دیدار کیا جائے گا

 

سب طرفدار ہوئے جھوٹی مسیحائی کے

جو نہیں ہیں انہیں بیمار کیا جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

برسوں پرانے زخم کو بیکار کر دیا

ہم نے ترا جواب بھی تیار کر دیا

 

طوقِ بدن اتار کے پھینکا زمیں سے دور

دنیا کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا

 

خود ہی دکھائے خواب بھی توسیعِ شہر کے

جنگل کو خود ہی چیخ کے ہشیار کر دیا

 

جمہوریت کے بیچ پھنسی اقلیت تھا دل

موقعہ جسے جدھر سے ملا وار کر دیا

 

آئے تھے کچھ ستارے تری روشنی کے ساتھ

ہم اپنے ہی نشے میں تھے انکار کر دیا

 

وہ نیند تھی کہ موت مجھے کچھ پتہ نہیں

گہرے گھنے سکوت نے بیدار کر دیا

 

ہم آئینے کے سامنے آئے تو رو پڑے

اس نے سجا سنوار کے بیکار کر دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس طرف دیکھئے انبوہِ سگاں رقص میں ہے

شہر آشوب لکھے کون سناں رقص میں ہے

 

روح کی تھاپ نہ روکو کہ قیامت ہو گی

تم کو معلوم نہیں کون کہاں رقص میں ہے

 

میں تو مشکل میں ہوں اس تختِ سلیماں پر بھی

اور مرے چاروں طرف سارا جہاں رقص میں ہے

 

اس قیامت کی بشارت تو کتابوں میں نہ تھی

خواب میں گم ہیں مکیں اور مکاں رقص میں ہے

 

شہر میں حال کسی اور کو آتا ہی نہیں

آنکھ اٹھاتا ہوں جدھر صرف دھواں رقص میں ہے

 

بھید کیا ہے تری سنگیت بھری دنیا کا

خاکِ جاں رقص میں ہے آبِ رواں رقص میں ہے

 

کوئی دنیا میں اگر ہے تو دکھائی دے مجھے

میں اکیلا ہوں مری خاک جہاں رقص میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس شب و روز کے ملبے سے رہائی دے مجھے

اپنی دنیا میں کسی لمحہ رسائی دے مجھے

 

چاہتا ہوں کہ پکارے تمہیں دن رات جہاں

ہر طرف میری ہی آواز سنائی دے مجھے

 

بھیڑ میں شہر کی آسیب بنا پھرتا ہوں

جو مرا جسم تھا شاید ہی دکھائی دے مجھے

 

کوئی سنگیت مری روح کو جچتا ہی نہیں

تیری آواز کا قیدی ہوں رہائی دے مجھے

 

اپنے نشے میں کسی چوٹ کا احساس نہیں

تم پکارو تو مرا درد دکھائی دے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب ایسی ویسی محبت کو کیا سنبھالوں میں

یہ خار و خس کا بدن پھونک ہی نہ ڈالوں میں

 

گر ایک دل سے نہیں بھرتا میرے یار کا دل

تو اک بدن میں بھلا کتنے سانپ پالوں میں

 

نہ قبر کی ہے جگہ شہر میں نہ مسجد کی

بتاؤ روح کے کانٹے کہاں نکالوں میں

 

صداقتوں پہ برا وقت آنے والا ہے

اب اس کے کانپتے ہاتھوں سے آئینہ لوں میں

 

کئی زمانے مرا انتظار کرتے ہیں

زمیں رکے تو کوئی راستہ نکالوں میں

 

میں آنکھ کھول کے چلنے کی لت نہ چھوڑ سکا

نہیں تو ایک نہ اک روز خود کو پا لوں میں

 

ہزار زخم ملے ہیں مگر نہیں ملتا

وہ ایک سنگ جسے آئینہ بنا لوں میں

 

سنو میں ہجر میں قائل نہیں ہوں رونے کا

کہو تو جشن یہ اپنی طرح منا لوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایسی ویسی کٹی پھٹی دنیا

جا ، نہیں دیکھتے تری دنیا

 

تم تو اس شب کے انتظار میں تھے

جاگ جاؤ کہ سو چکی دنیا

 

نیند کی قبر کھودتا ہوں میں

روز ملتی ہے جاگتی دنیا

 

تیرتے رہئے بادلوں کی طرح

میرے اندر ہے اک نئی دنیا

 

شر پسندوں کے ساتھ کون رہے

خیر سے ہم نے چھوڑ دی دنیا

 

قبر میں اک گناہگار سا میں

اور کیڑوں سی رینگتی دنیا

 

میں کہاں قید رہنے والا تھا

ایک جھٹکے میں کھل گئی دنیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہار مانی نہ ہار مانیں گے

عشق چھوڑا نہ ترک کی دنیا

 

ہم فقیر اپنے آستاں کے تھے

اس طرف بھی نکل پڑی دنیا

 

ایک کروٹ پہ رات کیا کٹتی

ہم نے ایجاد کی نئی دنیا

 

کیا ہے یہ حسن وسن ، کچھ بھی نہیں

دیکھتا میں تو دیکھتی دنیا

 

وہ تو چمکا کر آئینے کو گئے

رہ گئی دھوپ سے سجی دنیا

 

سارے بو جہل منصبوں والے

اور اتنی پڑھی لکھی دنیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

آج کل صرف ضرورت کے سہارے ہوں میں

جاگ دریائے ہوس تیرے کنارے ہوں میں

 

اب ذرا سا ہی بچا رہ گیا اپنے جیسا

روپ برسوں سے کسی اور کا دھارے ہوں میں

 

کون باتیں کرے گرتی ہوئی دیواروں سے

اس خرابے میں تو اک خوف کے مارے ہوں میں

 

اک نظر دیکھ ادھر بھی مری جاتی ہوئی دھوپ

بھیگے کپڑے کی طرح دل کو پسارے ہوں میں

 

اپنا انجام جو ہونا ہے خبر ہے مجھ کو

کن خداؤں کی طرف ہاتھ پسارے ہوں میں

 

اب مرے عشق کو فرصت نہیں یکجائی کی

کون کہتا ہے محبت کے سہارے ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسے بتاؤں کہ سچ بولنا ضروری ہے

تعلقات میں یہ تجربہ ضروری ہے

 

نظر ہٹا بھی تو سکتی ہے کم نظر دنیا

وہیں ہے بھیڑ جہاں تخلیہ ضروری ہے

 

ترے بغیر کوئی اور عشق ہو کیسے

کہ مشرکوں کے لئے بھی خدا ضروری ہے

 

نہیں تو شہر یہ سو جائے گا سدا کے لئے

مجھے خبر ہے مرا بولنا ضروری ہے

 

کسی کو ہوتا نہیں یوں محبتوں کا یقیں

چراغ بجھ کے بتائے ہوا ضروری ہے

 

میں خود کو بھولتا جاتا ہوں اور ایسے میں

ترا پکارتے رہنا بڑا ضروری ہے

 

وہ میری روح کی آواز سن رہا ہو گا

بدن رہے نہ رہے رابطہ ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواہشیں چیخ رہی تھیں کہ وطن چھوٹ گیا

جلد بازی میں کہیں دور بدن چھوٹ گیا

 

گفتگو بند ہے تجھ سے تو نہیں کوئی ملال

رنج یہ ہے کہ مرا طرزِ سخن چھوٹ گیا

 

کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے محبت کی طرف

کاغذی پھول بھی کہتے ہیں چمن چھوٹ گیا

 

میں نہ کہتا تھا اڑاتے نہیں تتلی کا مذاق

لمس سے دیکھ ترا رنگِ بدن چھوٹ گیا

 

چھوڑ رکھا ہے کئی دن سے سنورنا اس نے

قیدِ گل سے تو بہرحال چمن چھوٹ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدن کی آرزو کرتے ہی رہنا

سحر تک بس وضو کرتے ہی رہنا

 

نشے میں کچھ کسر باقی ہے اب بھی

ابھی بس گفتگو کرتے ہی رہنا

 

بہت پرہیز ہے نا میرے دل سے

تو اب آنکھیں لہو کرتے ہی رہنا

 

ہے جتنا شور انعامات اتنے

مسلسل ہا ؤ ہو کرتے ہی رہنا

 

خس و خاشاک کے پردے ہٹا کر

تلاشِ رنگ و بو کرتے ہی رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

جو مجھے پہچانتا ہے اور میں

اب تو بس اپنا خدا ہے اور میں

 

بارشوں میں ناچتے ہیں رات بھر

ایک جنگل کی ہوا ہے اور میں

 

جب میں کہتا ہوں کوئی دل میں نہیں

وہ پلٹ کر پوچھتا ہے اور میں

 

جس کو سارے بے گھروں کی فکر ہے

روح میں میری بسا ہے اور میں

 

جنگ تو ہو کر رہے گی لازماً

سامنے اک آئینہ ہے اور میں

 

اس کی نظروں سے ہی خود کو دیکھنا

اب یہ الٹا راستہ ہے اور میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مسلسل چاک دل کو کرتے رہنا

اسے آواز دینا، ڈرتے رہنا

 

اب اپنی یاد چھوڑے جا رہا ہوں

یہ کاسہ آنسوؤں سے بھرتے رہنا

 

تو کیا یہ بزدلی ہے دنیا والو

ہمیں راس آ گیا ہے مرتے رہنا

 

یہ پرچم جھک گیا تو ہم کہاں ہیں

محبت کی حمایت کرتے رہنا

 

پسند آتا نہیں ہے شاعری کو

مرے زخموں کا ایسے بھرتے رہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم ہی نے دوست بنایا بچھڑنے والوں کو

تو کیا سنبھالتے دھاگے ادھڑنے والوں کو

 

مثالِ نیزہ نگاہوں میں گڑنے والوں کو

گلاب پیش کریں جنگ لڑنے والوں کو

 

میں شہرِ عشق کا حاکم بنانا چاہتا ہوں

اس احتیاط سے بیمار پڑنے والوں کو

 

نہیں ہے کچھ تو صدائے مخالفت ہی سہی

کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ جھگڑنے والوں کو

 

وہ میرے لمس سے مہتاب بن چکا ہوتا

مگر ملا بھی تو جگنو پکڑنے والوں کو

 

وہ پیڑ ایسے نہ تھے جیسے تم اگاتے ہو

بہت ملال ہوا تھا اکھڑنے والوں کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

آسماں پر کبھی ستارے پر

کاٹ دی عمر استعارے پر

 

اب ہم اتنے کہاں رہے اپنے

ناچتے ہیں ترے اشارے پر

 

شہر بھی آ گیا وہیں بسنے

تھک کے سوئے تھے جس کنارے پر

 

آگ کی تتلیاں اڑاتا ہوں

راکھ ہوتے ہوئے شکارے پر

 

ہم کسے ڈھونڈتے چلے آئے

وقت کے آخری کنارے پر

 

دیکھ ہم قول سے نہیں پھرتے

بہتے آئے لہو کے دھارے پر

 

ہم ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں

اس شرارے سے اس شرارے پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

تنگیِ وقت کا ماتم نہیں رکنے والا

عرصۂ وصل بڑھاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں

 

دشمنوں سے وہی کرتا ہے حفاظت میری

جس کو آواز لگاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں

 

راکھ کے ڈھیر پہ یہ ناچتے گاتے ہوئے لوگ

اب یہاں پھول کھلاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں

 

جیت جائیں گے یہاں شور مچانے والے

گنگناتے ہوئے گاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں

 

سب جہانگیر نیاموں سے نکل آئیں گے

اب تو زنجیر ہلاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سجدے میں گر پڑے ہیں سبھی والیانِ شہر

خطرے میں ایک بار پھر امن و امانِ شہر

 

دیوانگی میں بکتے رہے ہم نہ جانے کیا

دانشوروں سے بھرتا گیا خاکدانِ شہر

 

سود و زیاں سے آگے کوئی سوچتا نہیں

سچ پوچھئے تو بچّے ہیں یہ بالغانِ شہر

 

لاتے کہاں سے روز نیا جسم مانگ کر

پردے میں قید رہنے لگے پھر بتانِ شہر

 

سب کوچ کر رہے ہیں بدن چھوڑ چھاڑ کر

ہاتھوں میں ان کے آئی ہے جب سے کمانِ شہر

 

کل رات آسمان تو جیسے کہیں نہ تھا

چھت پر ٹہل رہے تھے سبھی مہہ وشانِ شہر

 

ہم آپ آپ والے بھی تو بولنے لگے

پوری طرح بگاڑ چکی ہے زبانِ شہر

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہہ رہا تھا کہ زندگی ہے موت

اس کو بہلا کے لے گئی ہے موت

 

بزدلوں کو زباں تو ہے لیکن

بولتے ہیں جو بولتی ہے موت

 

کس سفر پر نکل پڑی دنیا

موت کے آگے چل رہی ہے موت

 

میری نیندیں ہلاک کرتے ہیں

خواب وہ جن کی ہو چکی ہے موت

 

کس خدا کی یہاں خدائی ہے

سو گیا شہر جاگتی ہے موت

 

جنگلوں کا بھی حال ابتر ہے

پیڑ سوکھے ہری بھری ہے موت

 

خون میں تر بہ تر یہ خواب ہیں کیا

خالی آنکھوں میں ناچتی ہے موت

 

کیا یہ منظر بدل نہیں سکتا

پتلیوں پر جمی ہوئی ہے موت

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدن کی قید میں ہونا ہے رائیگاں مجھ کو

یہ جانتا ہوں مگر چین ہی کہاں مجھ کو

 

یہ شاہِ عشق کا مجھ پہ کرم فزوں تر ہے

بنا دیا ہے حکومت کا ترجماں مجھ کو

 

میں کیسے مان لوں میرا کوئی وجود نہیں

تری نگاہ نے ڈھونڈا کہاں کہاں مجھ کو

 

میں اگلی صف میں کھڑا ہوں گناہگاروں کی

جگا رہی ہے مرے جسم کی اذاں مجھ کو

 

یہ کس مقام پہ بجتے ہیں خوشبوؤں کے دف

لہو کا زور لئے جائے گا کہاں مجھ کو

 

میں چاہتا ہوں ذرا دیر تیرے ساتھ رہوں

پکارتے ہیں مرے دکھ یہاں وہاں مجھ کو

 

ہوا میں اب بھی وہی آنسوؤں کی خوشبو ہے

تمام چہرے لگیں گے دھواں دھواں مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ان گنت راتوں سے مل کر ایک ہو جائے گی رات

اور تھوڑی دیر ہم سوئے تو سو جائے گی رات

 

جشن کے ماحول کی میعاد پوری ہو چکی

اپنی اپنی خواہشوں کے تن ڈھکو، جائے گی رات

 

تیرگی کا یہ سمندر تیر کر جیتیں گے ہم

ڈوب جانے سے تو سرکش اور ہو جائے گی رات

 

دل کی دیواروں پہ روشن ہیں اندھیروں کے دیے

کاش اسے معلوم ہوتا ایسے ہو جائے گی رات

 

خواب زاروں میں تکلف کی نہیں کوئی فصیل

اس بدن سے اس بدن تک رنگ بو جائے گی رات

 

نیند کچی تھی ہمارے خواب تھے سہمے ہوئے

ایک ہنگامہ ہوا جلدی اٹھو جائے گی رات

٭٭٭

 

 

 

 

 

اداس روح بدن تار تار ہونے لگے

طویل اتنا اگر انتظار ہونے لگے

 

یہ خواب کون دکھانے لگا ترقّی کے

جب آدمی بھی عدد میں شمار ہونے لگے

 

یہ خود پسند نہیں جانتے کہ کیا ہو گا

جو ایک جیسی صدا بار بار ہونے لگے

 

بہت دنوں سے ادھر دیکھتے نہیں تم بھی

تو کیسے تیر مرے آر پار ہونے لگے

 

بلندیوں سے گرے آ رہے ہیں سر کے بل

یہ کون لوگ ہیں کس کا شکار ہونے لگے

 

اسے سلانے کا یہ کون سا طریقہ ہے

کہ سارے شہر میں چیخ اور پکار ہونے لگے

 

کسی کو دیکھنا چاہا نظر پڑی تم پر

مرے حساب سے تم بے شمار ہونے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جانے کس اُمید پہ چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ

نفرتوں کی شام یاد آئے پرانے یار لوگ

 

وہ تو کہیے آپ کی خوشبو نے پہچانا مجھے

عطر کہہ کے ورنہ کیا کیا بیچتے عطار لوگ

 

پہلے مانگیں سر بلندی کی دعائیں عشق میں

پھر ہوس کی چاکری کرنے لگے بیمار لوگ

 

آپ کی سادہ دلی سے تنگ آ جاتا ہوں میں

میرے دل میں رہ چکے ہیں اس قدر ہشیار لوگ

 

اس جوانمردی کے صدقے جائیے ہر بات پر

سر کٹانے کے لئے رہتے ہیں اب تیّار لوگ

 

پھیلتا ہی جا رہا ہے دن بہ دن صحرائے عشق

خاک اڑاتے پھر رہے ہیں سب کے سب بیکار لوگ

 

بادشاہت ہو نہ ہو لیکن بھرم قائم رہے

ہر گھڑی بس گھیر کے بیٹھے رہیں دو چار لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب خوں ٹپک رہا ہے نہ آنسو سبیل سے

بندہ نواز جھانک تو لیجئے فصیل سے

 

غم اس قدر نہیں تھے ڈھلے جتنے شعر میں

دولت بنائی خوب متاعِ قلیل سے

 

مامور کر دیے گئے کارِ جہاں پہ کیوں

ہم عشق والے پوچھیں گے ربِّ جلیل سے

 

سارے ثبوت اس کے خلاف آ رہے ہیں اب

جب ہم شکست مان چکے ہیں دلیل سے

 

کچھ لوگ جا نہ پائے گھروں کو بھی لوٹ کر

اتنی گزند پہنچی صدائے رحیل سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھنس گئیں آپ اپنی چالوں میں

مکڑیاں مکڑیوں کے جالوں میں

 

میں نے تجھ کو کہاں کہاں ڈھونڈا

رات کے بے بدن اجالوں میں

 

جانے کتنی بدل گئی دنیا

تو وہی ہے مگر خیالوں میں

 

آج پھر قاتلان ذہن و ضمیر

گھر گئے ہیں انہی سوالوں میں

 

سب سے روشن تری عبارت ہے

جسم کے ان گنت حوالوں میں

 

خوں زیادہ شراب کم پی ہے

آپ نے بھی گزشتہ سالوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اتنی زیادہ مجھ سے توقع خراب ہے

جتنا لٹا چکا ہوں وہی بے حساب ہے

 

اتنی بری نگاہ سے دیکھو نہ اپنا جسم

کہتے ہیں لوگ یہ بھی خدا کی کتا ب ہے

 

اس نے کمال کر دیا پلکوں کو چوم کر

جو کچھ بھی آ رہا ہے نظر لاجواب ہے

 

بیکار ہم ہوئے تھے سبکدوش عشق سے

دنیا کا حال دل سے زیادہ خراب ہے

 

دلچسپیاں ہیں اس کی فقط شعر سننے تک

میرا سخن بھی اتنا کہاں باریاب ہے

 

کچھ تو تعصبات ہیں اہل جنوں کے بھی

ایسا نہیں کہ عقل میں سب کچھ خراب ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کشتی بدن کی جیسے کنارے پہ آ لگی

بھٹکا رہی تھی رات مگر رہنما لگی

 

ڈر ڈر کے جاگتے ہوئے کاٹی تمام رات

گلیوں میں تیرے نام کی اتنی صدا لگی

 

ہم لوگ بھر چکے ہیں نشاط گناہ سے

اس مرتبہ یہ آگ بڑی بے مزہ لگی

 

ٹھہرو کہ مسجدوں میں بہت خون بہہ گیا

سوچو یہ کس کے ہاتھ کتاب خدا لگی

 

مڑ مڑ کے دیکھنا ہی پڑا سب کو بار بار

ہر شکل تیرے روپ کا ہی سلسلہ لگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چھن چھن کے گر رہا ہے اندھیرا نگاہ سے

تنگ آ چکے ہیں لوگ ترے مہر و ماہ سے

 

ملبے پہ عمر کاٹنا مشکل لگا مجھے

پھر اک جہاں بنایا جہان تباہ سے

 

اس بار ہم فقیر بڑی مشکلوں میں ہیں

اپنے بچھائے پھول ہٹانے ہیں راہ سے

 

تقسیم عز و جاہ میں یہ بھی رہے خیال

نسبت ہے اس فقیر کو کس خانقاہ سے

 

لازم ہے ہر نگاہ پر ان کا بھی احترام

جو اٹھ کے آ رہے ہیں بدن بارگاہ سے

 

پڑتا نہیں ہے فرق انہیں اس کے باوجود

عالم تمام رنج ہے عالم پناہ سے

 

یارب انہیں بھی بخش ذرا دولت نظر

وہ جن کو داد چاہئے ہر کم نگاہ سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

گونجتا ہے پہلے جنگل تالیوں کے شور سے

پھر پرندے چیختے ہیں گھونسلوں میں زور سے

 

طاق میں پھیلی سیاہی ہے کہ ان لمحوں کی یاد

تیرگی سے لڑ رہے تھے کچھ دیے کمزور سے

 

کس کو پروا ہے ہماری جان کی اب جان من

ہم ہی خود کو گھیر کے بیٹھے ہیں چاروں اور سے

 

اس کے سر پر تاج رکھ کر جا بسے صحرا میں سب

اسقدر خائف ہوئے لوگ ایک آدم خور سے

 

کیا کوئی پھر رات کی دیوار سے ٹکرا گیا

کل ہوا تھا روشنی کا اک جھماکہ زور سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواب کے نشے میں تھا پھر بھی سنبھل کر آیا

رات جنت سے نکل کر وہ مرے گھر آیا

 

آنکھ اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ملتی ہے مجھے

اک ستارہ تو کئی بار اتر کر آیا

 

اور کچھ کہہ لیں اسے عشق نہیں کہہ سکتے

ایک پتھر کی طرف دووسرا پتھر آیا

 

خود فراموش ہوں احسان فراموش نہیں

کم سے کم یاد تو وہ شخص برابر آیا

 

آنکھ میں چبھ گئی گستاخیِ بیجا اس کی

کل وہ آیا تو مری روح کچل کر آیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگر یہ شعلے ہماری طرف لپکتے نہیں

تو ہم سیاہ نصیب اس طرح دمکتے نہیں

 

ہمارے دل کی شریعت میں کفر ہے یہ بھی

جو دیکھنا ہو اسے آنکھ بھی جھپکتے نہیں

 

میاں یہ ساتوں سمندر ہمارے دوست ہیں کیا

ہمارا ظرف کہ ساحل پہ سر پٹکتے نہیں

 

یہ وقت رک سا گیا ہے تمہارے جاتے ہی

نہیں بدلتی ہے تاریخ دن سرکتے نہیں

 

ہنسی ہنسی میں گنوانے کی چیز جان  ہے کیا

عجیب لوگ ہیں روتے نہیں بلکتے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نیند میں ساتھ ہمارے کوئی چلنے لگ جائے

تو یہ آنکھوں پہ جمی برف پگھلنے لگ جائے

 

آ گئے تیرے طلبگار بھی بازاروں میں

دل بھی ممکن ہے کہ ٹکسال میں ڈھلنے لگ جائے

 

زہر کا سب پہ اثر ایک سا ہوتا ہے کیا

مت ہو حیران طبیعت جو سنبھلنے لگ جائے

 

شہر میں بھیڑ سے بچ بچ کے نکلنا بہتر

کیا پتہ کون کہاں آگ اگلنے لگ جائے

 

کتنی بار آئیں گے دیوانے صدا پر اس کی

وہ جو ہر بار ہی آواز بدلنے لگ جائے

 

تالیوں سے تو پرندے نہیں اڑنے والے

ہاں یہ ممکن ہے اگر پیڑ ہی جلنے لگ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرے پیچھے جو سبھی چاہنے والے پڑ جائیں

تو مری جان تجھے جان کے لالے پڑ جائیں

 

انتظام ایسی تباہی کا کیا ہے اس نے

جسم ویران نہ ہو روح پہ تالے پڑ جائیں

 

زندہ انسانوں کے جلنے کا دھواں ایسا تھا

یہ چمکتے ہوئے الفاظ بھی کالے پڑ جائیں

 

تجھ کو دیکھے بنا سجتی ہی نہیں روح مری

تو نہ دیکھے تو مرے جسم میں جالے پڑ جائیں

 

میری آنکھوں میں کبھی جھانک تو مہتاب مرے

اس سیاہی میں بھی خوش رنگ اجالے پڑ جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بدن بن کر محبت آ گئی ہے

تو چہرے پر بھی رنگت آ گئی ہے

 

مرے مولا یہ جنگل شہر کر دے

درختوں پر رعونت آ گئی ہے

 

میں کترا کر نکلنا چاہتا تھا

مگر رستے میں جنت آ گئی ہے

 

مصر ہیں سب خدا بننے پہ یارب

یہاں کس کی شریعت آ گئی ہے

 

ہرے پیڑوں کو بھی جلنا پڑے گا

جڑوں تک اتنی نفرت آ گئی ہے

 

علاقہ جسم کا ہرگز نہیں یہ

ضرورت بے ضرورت آ گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ٹوٹے جہاں تمام شکارے وہیں کہیں

کمہلا رہے ہیں پھول ہمارے وہیں کہیں

 

پشتہ جہاں بلند تھا پہرہ بھی سخت تھا

توڑے ندی نے اپنے کنارے وہیں کہیں

 

اس روشنی کے شہر سے تنگ آ چکا تھا میں

بکھرے پڑے ہیں میرے ستارے وہیں کہیں

 

وہ اک جھلک دکھا کے بدن پوش ہو گیا

ہیں رقص میں تمام نظارے وہیں کہیں

 

اس سے کہو کہ ورد کرے اپنے نام کا

اس سے کہو کہ مجھ کو پکارے وہیں کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ہر چیز دیکھتا ہے جو چشم فراغ سے

دل کا معاملہ ہے اسی بد دماغ سے

 

اس نے کہا کہ نور بدن کو بھی چاہئے

میں نے کہا چراغ جلا لو چراغ سے

 

اب یہ تمہارے آنے کی افواہ ہی سہی

ہم تو تمام پھول اٹھا لائے باغ سے

 

دل نے بحال کر دی اندھیروں کی سلطنت

اس بار جو کریں گے کریں گے دماغ سے

 

سورج ہے یہ تو ڈوب کے مر جانا چاہئے

اتنا ذرا سا نور خدا کے چراغ سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دریاؤں کو ملال سمندر نہ ہو سکے

ہم کیا کریں جو خود کو میسر نہ ہو سکے

 

اس پل کی رائیگانی کا ہے آج بھی قلق

پتھر کو چومتے ہوئے پتھر نہ ہو سکے

 

لگ جاؤ پھر یقین کے ساتھ انہدام میں

وہ بھی کوئی خدا ہے جو بے گھر نہ ہو سکے

 

احسان کون لیتا ہے ایسی بہار کا

سو پھول مل کے اس کے برابر نہ ہو سکے

 

یہ حادثہ فروش ادھر دیکھتے نہیں

آنکھوں کے آر پار جو منظر نہ ہو سکے

 

جذبوں کی روشنی بھی کوئی چیز ہے میاں

ہم لوگ اک دیے کے برابر نہ ہو سکے

 

ممکن بنا رہے ہیں وہ ناممکنات کو

ہے کوئی ایسا کام جو مر کر نہ ہو سکے

 

اک آخری چراغ جلائیں اب ان کے نام

ایسے تمام دل جو منور نہ ہو سکے

 

ہیں آجکل شباب پر مصروفیات دوست

وہ اک گناہ کو بھی میسر نہ ہو سکے

 

سچ پوچھیے تو لمس بدن کا مزہ نہیں

جب تک یہ کھیل روح کے اندر نہ ہو سکے

 

لپٹا بھی ایک بار تو کس احتیاط سے

ایسے کہ سارا جسم معطر نہ ہو سکے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جدھر دیکھئے صرف بازار ہیں

مگر مشکلوں میں خریدار ہیں

 

مسیحا خدا بنتے جاتے ہیں سب

جو بیمار رہتے تھے بیمار ہیں

 

مشینوں سے چٹان کٹنے لگی

کریں کیا جو فرہاد بیکار ہیں

 

وہ لمحہ بھی آ ہی گیا جنگ میں

مرے خواب مٹنے کو تیار ہیں

 

ابھی اپنی خوشبو سے پردہ کرو

ستارے بدن کے طلبگار ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹوٹنے کی دیر تھی زنجیر اچھی ہو گئی

تیرے جاتے ہی تری تصویر اچھی ہو گئی

 

مرحبا ! جمہوریت میں خوں بہا بھی معاف ہے

ہر خطا بر حکم عالمگیر اچھی ہو گئی

 

کیسے کیسے شہر بس جاتے ہیں قبرستان میں

بے در و دیوار بھی تعمیر اچھی ہو گئی

 

مسجدوں میں قتل کا اﷲ رکھے گا حساب

اپنی نظروں میں تو یہ شمشیر اچھی ہو گئی

 

عشق میں آباد ہوتے جا رہے ہیں یار لوگ

ہم بھی خوش ہیں زہر کی تاثیر اچھی ہو گئی

 

مشق جاری ہے تمہارا نام لکھنے کی سو اب

شعر اچھے ہوں نہ ہوں تحریر اچھی ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر واردات میں ہی نکل آئے اپنے ہاتھ

ان کی بھی آستین سے لہرائے اپنے ہاتھ

 

اتنا کہاں کسی کو مری وحشتوں کا علم

کون آ کے میرے ہا تھ پہ رکھ جائے اپنے ہاتھ

 

ہر کام اس کے حکم سے کرتا رہا تھا میں

رشوت میں سر دیا ہے تو مل پائے اپنے ہاتھ

 

پہچانتا ہوں تخت کو جاتی ہوئی لکیر

قاتل نہیں ہے کوئی تو دکھلائے اپنے ہاتھ

 

بازار کو خراج ہمارا قبول ہو

فاقہ پڑا قلم پہ تو بیچ آئے اپنے ہاتھ

 

سب جانتے ہیں کس نے اجاڑی ہیں بستیاں

کوئی تو اس ہجوم میں لہرائے اپنے ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

چار  جانب سے چہروں کی بوچھار ہے

پوچھئے آئینے سے کہ تیار ہے

 

اب یہاں بھی گراؤ کوئی آسماں

سونے والے پرندوں کی بھرمار ہے

 

شعر بننے کی فرصت نہیں ہو جسے

اب مجھے بھی وہی عشق درکار ہے

 

سوچتا ہوں کہ ڈرنے کا ناٹک کروں

سن رہا ہوں بہت تیز تلوار ہے

 

اک بھٹکتی ہوئی روح گھبرا گئی

شہر ہے یہ کہ جسموں کا بازار ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حق پرستوں میں اگر سب غیر جانب دار ہیں

تو شہادت کے لئے ہم بھی کہاں تیار ہیں

 

اس کہانی کا ارادہ ملتوی کرتا ہوں میں

اس کے سب کردار اب تک صاحبِ کردار ہیں

 

میرے اندر چل رہا ہے اک عجب سا اجتماع

اور یہاں آپس میں سارے برسرِپیکار ہیں

 

خون کس کس کو پلائیںکس سے ڈسوائیں بدن

کیسے کیسے سانپ اپنے زہر سے بیمار ہیں

 

اور اس دیوار پر ہے اب تماشہ گر نگاہ

سب تماشہ دیکھنے والے پسِ دیوار ہیں

 

ہاں اسے اس بات پر ناراض ہونا چاہئے

ہم بھی دنیا میں ہیں اور تھوڑے سے دنیا دار ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ اک دریا اور اسے حیرانی ہے

میری پیاس کا مطلب سارا پانی ہے

 

اب بھی اک تصویر میں ہے وہ ساتھ مرے

جس نے اپنی شکل نہیں پہچانی ہے

 

وقت بہت لگتا ہے آنے جانے میں

کہنے کو تو دنیا آنی جانی ہے

 

اک دشمن کے ساتھ یہاں تک آ پہنچے

اور کہاں تک آنکھوں کی ویرانی ہے

 

اس نے ہنس کر ہاتھ چھڑایا ہے اپنا

آج جدا ہو جانے میں آسانی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اس بار انتظام تو سردی کا ہو گیا

کیا حال پیڑ کٹتے ہی بستی کا ہو گیا

 

اس بار سنگسار ہوئے بے گناہ لوگ

اک راستہ بدن کی بحالی کا ہو گیا

 

جزیہ وصول کیجئے یا شہر اجاڑیے

اب تو خدا بھی آپ کی مرضی کا ہو گیا

 

مٹی کے اک دیے کی مجھے بد دعا لگی

لو دے کے ایک بار میں مٹی کا ہو گیا

 

جلتے مکان دیکھ کے لوگ اتنے خوش ہوئے

پل میں سماں ہی جیسے دوالی کا ہو گیا

 

نکلا نہ میں بھی گھر سے، سنی میں نے بھی وہ چیخ

کتنا بڑا علاقہ سپاہی کا ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ایک نمرود کو خدا کر کے

جشن ہو گا معاہدہ کر کے

 

جھومتی ہے خوشی سے پاگل شاخ

اپنی سب پتیاں گرا کر کے

 

ہم بھی ناخوش ہیں ان خزانوں سے

آپ بھی تھک گئے صدا کر کے

 

دکھ کا کچھ تو اثر ہوا ہوتا

آئے ہو کون سا نشہ کر کے

 

کیوں الجھتے ہو قبر والوں سے

کچھ ملا کیا محاصرہ کر کے

 

ہم نے کوئی دیا جلایا نہیں

تھک گئی رات التجا کر کے

 

ان کی آنکھیں زبان بھی ان کی

جیت لیں گے مناظرہ کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگر دیار خدا میں خدا کہیں ہوتا

تو بچ نکلنے کا بھی راستہ کہیں ہوتا

 

ترے خیال کی یہ روشنی غنیمت ہے

مگر کنارہ بھی تو رات کا کہیں ہوتا

 

مرے تمام زمانے جہاں سنورتے تھے

وہ میرا دوست مرا آئینہ کہیں ہوتا

 

صدا دلوں کی پہنچتی جو اس کے کانوں تک

دعا کے ہاتھ کہیں مدعا کہیں ہوتا

 

جہاں وکیل ملے ہیں ہر ایک ملزم کو

مرے لئے بھی کوئی بولتا کہیں ہوتا

 

اب اور ہونا ہے کیا بھیڑ کی حکومت میں

کسی کتاب میں لکھا ہوا کہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب کے حصے میں نہیں آیا مرا جانِ سخن

ہیں خط افلاس سے نیچے خدایانِ سخن

 

ریزگاری کی طرح الفاظ سب بجنے لگے

قیمت شاعر بڑھی تو گھٹ گئی شانِ سخن

 

رونق بازار بنتا جا رہا ہے حسنِ شعر

اب کہاں شامیں گزاریں گے فدایانِ سخن

 

اس کی نظروں پر بھروسہ کرنے والے ہوشیار

جس کی عینک میں ہرا ہے یہ بیابانِ سخن

 

میر جی شہر غزل تاراج ہوتا دیکھئے

کس قدر آباد ہوتا تھا خراسانِ سخن

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سروں سے روز نیا آسماں گزرتا ہے

مگر وہ ایک ستارہ کہاں گزرتا ہے

 

ہمارے ہاتھ سے دنیا ابھی نہیں نکلی

ذرا سے نشے میں کیا کیا گماں گزرتا ہے

 

پہاڑ کاٹ کے میں راستے بناتا تھا

مری ہی قبر پہ چل کر جہاں گزرتا ہے

 

بس اک یقین بہت ہے تباہ کرنے کو

چراغ بجھنے سے پہلے دھواں گزرتا ہے

 

یہ گمرہی بھی اسی کی عطا ہے جس کے پاس

مجھے بھی خود پر بدن کا گماں گزرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

مسجدوں میں قتل ہونے کی روایت ہے یہاں

اور جسے بھی دیکھئے وہ با جماعت ہے یہاں

 

ان کے سُر میں سُر ملا کر چیختی خلقت تمام

دیکھئے اک جھوٹ میں بھی کتنی طاقت ہے یہاں

 

اور اس دعوے کی ہم تردید کر سکتے نہیں

لوگ کہتے ہیں محبت ہی محبت ہے یہاں

 

فیصلہ یہ بھی عدالت کو ہی کرنے دیجئے

آپ کو انصاف کی کتنی ضرورت ہے یہاں

 

ہم یہ جنگل چھوڑنے والے نہیں سن لیجئے

بھیڑیوں میں اب بھی تھوڑی آدمیّت ہے یہاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

لفظوں سے خاموشی بننے والے ہیں

اب ہم اپنی دھڑکن سننے والے ہیں

 

ایک انارکلی کا ماتم ختم کرو

دنیا وہ دیوار میں چننے والے ہیں

 

شعر سنا کر جان گنوانے جائیں کیوں

مجمعے میں جب مجرا سننے والے ہیں

 

دل کی بھی آواز الجھ کر رہ جائے

اب ہم وہ سنّاٹا بننے والے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بن گیا قصہ ، چمن ہونا مرا

تیرے چھونے سے بدن ہونا مرا

 

بھیڑ کے اصرار پر منصف کی ’ہاں‘

اور لہو سے زیب تن ہونا مرا

 

اس نے گہری چپ کی چادر اوڑھ لی

جس کو آتا تھا سخن ہونا مرا

 

وہ جو ہے سارے جہاں کا بادشاہ

وہ بھی دیکھے بے وطن ہونا مرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب اپنے اپنے خداؤں میں جا کے بیٹھ گئے

سو ہم بھی خوف کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے

 

مجھے اس آگ کی تفصیل میں نہیں جانا

جنھیں بنانی تھیں خبریں بنا کے بیٹھ گئے

 

کبوتروں میں یہ دہشت کہاں سے در آئی

کہ مسجدوں سے بہت دور جا کے بیٹھ گئے

 

ہمارا قہر ہماری ہی جان پر ٹوٹا

تمام خاک بدن کی اڑا کے بیٹھ گئے

 

کل آفتاب کو اس طرح ڈوبتے دیکھا

ہم اپنے جلتے دیوں کو بجھا کے بیٹھ گئے

 

یہاں بھی جھانکتی رہتی تھیں شک بھری نظریں

سو ہم بھی روح پہ قشقہ لگا کے بیٹھ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی ہی قبر کے مجاور سب

معجزے سے بنے ہیں شاعر سب

 

منصفی بے مثال ہے اس کی

مر رہے ہیں سزا کی خاطر سب

 

جو نہیں ہے وہی دکھائیں گے

ایک ضد پر اڑے ہیں ساحر سب

 

اب کوئی شہر ہو ، کسی کا نہیں

لوٹ آئیں مرے مسافر سب

 

پھر چمکنے لگی ہے صبح نئی

پھر چہکنے لگے ہیں طائر سب

 

کیا وہی سلطنت خدا کی ہے

جس میں برسوں سے ہیں مہاجر سب

 

بے ضمیروں کے دن بھی آ ہی گئے

حکمراں بن گئے ہیں تاجر سب

٭٭٭

 

 

 

 

 

نئے چراغ کی لو پاؤں سے لپٹتی ہے

مگر وہ رات کہاں راستے سے ہٹتی ہے

 

میں خانقاہِ بدن سے اداس لوٹ آیا

یہاں بھی چاہنے والوں میں خاک بٹتی ہے

 

ذرا سا سچ بھی کسی سے کہا نہیں جاتا

ذرا سی بات پہ گردن ہماری کٹتی ہے

 

یہ کس کے پاؤں رکھے ہیں ہوا کے سینے پر

اگر میں سانس بھی لیتا ہوں عمر گھٹتی ہے

 

ابھی بہت ہیں اندھیروں کو پوجنے والے

یہاں چراغ بجھاؤ تو رات کٹتی ہے

٭٭٭

تشکر:  شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید