فہرست مضامین
- اِمرأۃُ القرآن کا تحقیقی جائزہ
- وجہ تالیف
- انسان کی تخلیق کا تکامل
- عورت قرآن کی نظر میں
- شبہات و جواب شبہات
- شبہ: خدا کی نافرمانی نہیں بلکہ شوہر کی نافرمانی موجب جہنم ہو گی۔
- شبہ پردہ
- شبہ ور غلانہ
- شبہ خلوت
- شبہ کم عقلی
- شبہ کم دینی
- شبہ مارنا
- شبہ کنیز
- کنیز کی تعریف اور اس کے حلال ہونے کی دلیل
- تعداد ازواج اور لونڈیاں
- شبہ: عدم ادائیگی مہر
- شبہ نوکرانی
- شبہ طلاق
- شبہ شرپسندی
- شبہ عورت کو مکمل ڈھانکنا
- شبہ کہ عورت، کتا اور گدھا
- شبہ مکرو فریب
- شبہ کہ عورت شیطان ہے
- شبہ شوہر کے لئے مکمل تابعداری
- جاہلیت میں عورت کا مقام
اِمرأۃُ القرآن کا تحقیقی جائزہ
عبد الوکیل ناصر
پیش لفظ
الحمد للہ و کفیٰ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
"ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اطاعت کریں، خوفِ الٰہی رکھیں اور اس (کے عذابوں ) سے ڈرتے رہیں وہی نجات پانے والے ہیں ” (النور:52-51)
یعنی نجات پانے والے خوش نصیبوں کا نمایاں وصف "جذبہ ٴ اطاعت ” ہے کہ جب وہ حکم الٰہی یا فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سنتے ہیں تو بلا تاخیر و غیر مشروط سمعنا سے متّصل اطعنا بھی کہتے ہیں، ایسا نہیں کہتے کہ ہم سن لیا اور اب اپنی عقل پر پیش کری گے۔ اس نے درست کہا تو مان لیں گے، ورنہ نہیں۔ ایسے لوگ دین اسلام کو عقل کے تابع اور اپنی خواہشات کے مطابق "ماڈرن” بنانا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے :
اَفَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہ ھَوَاہ وَ اَضَلَّہ اللہ عَلیٰ عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلیٰ سَمْعِہ وَ قَلْبِہ وَ جَعَلَ عَلیٰ بَصَرِہ غِشَاوَۃ فَمَنْ یّھَْدِیْہِ مِنْ بَّعْدِ اللہِ اَفَلَا تَذَکَّروْنَ (الجاثیۃ:۲۳)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود علم کے اللہ نے اس کو گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے ؟ کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے "؟
ایسے علماءِ سوء، علم و فہم اور سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود نہ صرف گمراہی اختیار کرتے ہیں، بلکہ اوروں کو بھی اپنا ناتمام علم اور ناقص عقلی دلائل سے گمراہ کرتے ہیں۔ ایسوں میں ایک نیا نام "ابوخالد ابراہیم المدنی” کا بھی شامل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ (اللہ کرے کہ وہ اللہ سے ڈر کر تائب ہو جائیں اور قرآن و حدیث کی طرف پلٹ آئیں ) جو سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ و محدثین رحمہم اللہ کے طریقے سے نہ صرف الگ، جداگانہ سوچ اور من مانی تفسیر قرآن کرتے پھر رہے ہیں، بلکہ سلف صالحین کے طرز پر عقیدہ و عمل اختیار کرنے والوں کو "سلف پرست” کہہ کر مشرک قرار دے رہے ہیں۔
ہمارے ایک مخلص ساتھی نے ان کی کتاب "امرأۃ القرآن” (خاتونِ قرآن) نامی کتاب دی جس کا موضوع "عورت کا قرآنی مقام اور اس کے متعلق شبہات کا ازالہ” ہے۔ مؤلف نے سورۃ التحریم کی آیات:11، 12 سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"رب العزت و الجلال نے آسیہ امرأۃ فرعون اور مریم بنت عمران کی مثال دی ہے … اور جس چیز کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس میں صفت کامل و اکمل ہوتی ہے … یعنی عورت کا ایمان قرآن کی نظر میں کامل و اکمل ہے "۔ (امرأۃ القرآن، ص:15, 16)۔
اس طرح بہت سی آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ کے احکامِ خاص کو تبدیل کر کے عام کرنے کی کوشش کی۔ اور مخصوص خواتین کی فضیلت کو تمام خواتین کے لئے عام قرار دے کر انہیں نہ صرف مردوں کے برابر بلکہ مردوں سے بھی بلند تر بنا دیا۔ ان کی پوری کتاب ایسے ہی مفروضے اور تضاد بیانی سے بھری پڑی ہے۔ قرآن و سنت کے دلائل تو کجا، اپنے کسی معقول مؤقف پر اپنے بنائے ہوئے اصول کو بھی دوہ نباہ نہ سکے۔ جیسا کہ باوجود تفسیر بالرائے کو گمراہی ماننے کے خود اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "میری امت ستر سے زائد فرقوں میں منقسم ہو جائے گی ان میں سب سے بڑا فتنہ وہ ہو گا جو دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے گا اور اللہ کے حلال کردہ امور کو حرام اور حرام کردہ امور کو حلال ٹھہرائے گا”۔ (جامع بیان العلم و فضلہ)۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
"اہل الرائے سنت کے دشمن ہیں ان کا احادیث سے کوئی تعلق نہیں ” (ایضاً)۔
امام ابوبکر بن ابی داؤد رحمہ اللہ نے فرمایا: "اہل الرائے ہی اہل بدعت ہیں ” (ایضاً)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:
"تم عنقریب ایسی قوم کو پاؤ گے جو تمہیں قرآن کی دعوت دے گی در حقیقت ان کا قرآن سے کوئی تعلق نہ ہو گا” (جامع بیان العلم و فضلہ)۔
بعض احباب کا خیال تھا کہ اس کتاب کو پڑھ کر ہر ذی شعور علمی و ادبی اعتبار سے خود ہی اسے مسترد کر دے گا اس لئے جوب دے کر ایسے گمراہ کن نظریات کو اہمیت نہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ
بقول شخصے : جوابِ جاہلاں باشد خموشی۔
اور بعض دردمند اربابِ علم و دانش مختصراً و مفصلاً جوابات دے رہے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اس فتنے کی تردید کر رہے ہیں۔ ان میں فاضل نوجوان مولانا عبدالوکیل ناصر ابن مولانا عبدالجلیل حفظہ اللہ نے بھی تفصیل کے ساتھ کتاب کا جواب اور موصوف کا بھرپور تعاقب کیا ہے۔
کتاب "امرأۃ القرآن” (خاتونِ قرآن) کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ دین کا درد رکھنے والا سابق امیر تبلیغی جماعت، اور مصلحِ قوم اب اسلام کا نہیں بلکہ ماڈرن خواتین کا دلدادہ و دردمند ہے اور نہ معلوم کس کے نظریات کا حامل و حمایتی ہے ؟ اور کیوں ؟؟؟۔ سچ فرمایا: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے :
"ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے اعمالِ خیر میں جلدی کرو جو شب تاریک کے مختلف ٹکڑوں کی طرح (پے در پے ) ظاہر ہوں گے، (پھر ایسا ہو گا) کہ صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر اور شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر۔ (کیونکہ) وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی سامان کے عوض بیچ دے گا” (صحیح مسلم: کتاب الایمان)۔
اس حدیث میں اطلاع دی گئی ہے کہ ایک شخص صبح تو مومن ہو گا اور شام تک دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے اپنے دین و ایمان کا سودا کر کے کافر ہو جائے گا۔ ایسے بہروپیوں کو دیکھ کر کوئی یہ ہرگز نہ سوچے کہ اتنے بڑے عالم، حافظ و قاری مدنی مکی صاحب نے جب یہ کہہ دیا، لکھ دیا اور (بہت سی صحیح احادیث کے خلاف) عمل کر کے روپ بدل کر دکھایا ہے تو اس مطلب ضرور ان کے پاس کوئی دلیل ہو گی؟
نہیں، ایسا نہیں ہے ! کیونکہ اب ان پر اللہ کی طرف سے کوئی نئی وحی تو آنے سے رہی۔ کسی اور (غامدی وغیرہ) کی طرف سے نیا پیغام موصول ہوا ہو تو یہ کوئی بعید نہیں۔ ایسے صبح و شام تبدیل ہونے والے اشخاص کو مذکورہ حدیث کی روشنی میں پہچاننا آسان ہو جاتا ہے۔
ویسے بھی موصوف تبدیلی کے بڑے ماہر ہیں، بقول ان کے کئی شاگردوں اور چاہنے والوں کے، کہ اب ابو خالد، عالم کم اور جینٹل مین زیادہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنا لباس، شکل و صورت، رہن سہن، تنظیم و جماعت، تحریر و خطابت اور عقائد و نظریات سب کچھ یکسر تبدیل کر ڈالا اور اب پرانی کوئی شے سوائے نام کے دکھائی نہیں دیتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنا نام بھی تبدیل کر لیتے اور "شیخ ابوخالد ابراہیم المدنی” کی جگہ "مسٹر ابو خواتین ابرہہ صاحب من مانی” رکھ لیتے تاکہ لوگوں کو انہیں اور ان کی تحریر و تقریر کو سمجھنے میں کوئی دِقت پیش نہ آتی، سادہ لوح عوام گمراہ نہ ہوتے۔ کیونکہ اس ماڈرن اس کالر کے نت نئے کارناموں کے ساتھ پرانا نام کچھ جچتا نہیں ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ان جوابات اور ازالہ ٴ شبہات کے ذریعے نہ صرف تمام مریضانِ "خاتونِ قرآن” صحت یاب ہوں بلکہ خود صاحب "خاتونِ قرآن” کو بھی اللہ شفائے کامل و عاجل اور دائم و مستقر عطا فرمائے۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ ولا حول و لا قوۃ الا باللہ و صلی اللہ علی نبینا محمد و الہ و صحبہ اجمعین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین
عبد الحنان
شیخ الحدیث جامعہ دارالحدیث رحمانیہ کراچی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
ان الحمد للہ نحمد و نستعینہ و نستغفرہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضلل فلا ھادی لہ و اشھد ان لآ الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
اما بعد!
عداوتوں میں بدترین عداوت وہ ہوتی ہے جو دوستی کے پیرائے میں اختیار کی جائے اور انسان کو پتہ ہی نہ چل پائے کہ اس لباس خلعت میں ملبوس شخصیت اس کی دوست نہیں بلکہ اس کی دشمن ہے۔ انسان اپنے کھلے دشمن سے نقصان اٹھا سکتا ہے مگر دھوکہ نہیں کھا سکتا، لیکن اس دشمن سے جو عداوت کا لباس پہن کر نہیں بلکہ دوستی کا لباس پہن کر آتا ہے اور باب عداوت سے نہیں بلکہ پر خلوص دوستی کے دروازے سے وارِد ہوتا ہے انسان دھوکہ بھی کھاتا ہے اور نقصان بھی اٹھاتا ہے۔
ہمارے دشمنوں کی ایک قسم وہ ہے جس کے افراد کھلے بندوں ہمیں ہمارے دین سے برگشتہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ہماری تہذیب کے ان اعداء نے ہمارے دین کے مقابلے میں ایک خودساختہ دین پیش کیا ہے کہ جو اللہ پرستی کے بجائے ہویٰ پرستی کی تعلیم دیتا ہے۔ جس کا پورا نقشہ حیات ہمارے اسلامی نقشہ حیات کی ضد واقع ہوا ہے۔ جس میں خیر و شر کی بنیاد، انبیائے معصومین کے مبنی بر وحی ٹھوس علم پر ہونے کے بجائے، آزاد فکر فلسفیوں کے ظنی قیاسات پر قائم ہے۔ بدقسمتی سے تقریباً سارا عالم اسلام، ہمارے دین و تہذیب کے ان کھلے دشمنوں کی سیاسی غلامی میں صدیوں مبتلا رہا ہے۔ عالم اسلام کا بیشتر حصہ اگرچہ اب سیاسی آزادی سے ہمکنار ہو چکا ہے لیکن ابھی تک وہ ذہنی غلامی سے چھٹکارا نہیں پا سکا۔
ان کھلے دشمنوں کے بعد اب ذرا ان نقاب پوش اعدائے اسلام کو بھی ملاحظہ فرمائیے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مصلحین کے روپ میں مسلم معاشرے میں نمودار ہوتے ہیں۔ ان کی فکر اسی سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے جو ہمارے لئے اعداء دین نے پیش کی ہے ان کے رَدّ و قبول اور اخذ و ترک کے بنیادی معیار وہی ہیں جو ہمارے کھلے دشمنوں نے ایجاد کئے ہیں اگر وہ لوگ اپنی لغت پرستانہ مدنیت فاسدہ کی بدولت حجاب نسواں کو جاہلانہ رسم قرار دیتے ہیں تو یہ لوگ قرآن ہاتھ میں لے کر امت مسلمہ کو یہ باور کرانے میں کوشاں ہیں کہ پردہ ملاؤں کی ایجاد کردہ رسم ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ لوگ اپنی شہوت پرستانہ تہذیب کی بدولت مرد و زن کی مخلوط سوسائٹی کے قائل ہیں تو یہ "فکر اسلامی” کے علمبردار مخلوط سوسائٹی کو قرآن سے کشید کر ڈالتے ہیں۔ فانا للہ و انا الیہ راجعون۔
اب ہمارے غلام فطرت مستغربین، مستشرقین کے خود ساختہ افکار و نظریات کو امت مسلمہ میں رواج دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں صرف فکر اور نظریئے ہی کی حد تک نہیں بلکہ عملاً مدنیت و معاشرت کا وہ پورا نقشہ، قرآن کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا جا رہا ہے جو تہذیب مغرب کا تشکیل کردہ ہے۔ مثلاً مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترک حجاب، مرد و زن کی مطلق اور کامل مساوات، اندرون خانہ فرائض نسواں کے بجائے اسے بیرونِ خانہ مردانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعدد ازواج کو معیوب قرار دینا عورت کو خانگی مستقر سے اکھاڑ کر مردانہ کارگاہوں میں لا کھڑا کرنا، خانگی زندگی میں اس کے فطری وظائف سے اسے منحرف کر کے قاضی و جج بلکہ سربراہِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ وغیرہ اور اب تو ماشاء اللہ صنف نازک کو "خلیفہ شرعی” قرار دیتے ہوئے انی جاعل فی الارض خلیفۃ سے استدلال کیا جا رہا ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
اس سرزمین پاکستان کو یہ "خوش نصیبی” حاصل ہے کہ یہاں اس قدر "فکری” زرخیزی ہے کہ گاہے بگاہے یہاں کوئی نہ کوئی نام نہاد مصلح، امت مسلمہ کا درد رکھنے والا، مفکر قرآن اور اس طرح کے دیگر گماشتہ یہود و ہنود سامنے آتے رہتے ہیں۔ جو کبھی یہ رونا روتے ہیں کہ اصل دستورِ عمل قران اور صرف قرآن مجید ہے جس سے ہمیشہ اعراض ہوتا رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہ روایات (احادیث) ہیں جو مسلمانوں میں ایرانی سازش کے تحت "سنت رسول” بنا کر رائج کر دی گئی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کا نعرہ بلند کر کے یہ لوگ جہاں احادیث سے عداوت کا اظہار کرتے ہیں وہاں یہ قرآن مجید کو بھی اپنے خود ساختہ مسموم نظریات کے لئے تختہ مشق بنانے سے گریز نہیں کرتے ایسے لوگوں میں جہاں سرسید احمد، عبداللہ چکڑالوی، غلام احمد پرویز، مرزا غلام احمد قادیانی قابل ذکر ہیں وہاں احوال واقعی اور گزرتے ایام میں جاوید احمد غامدی اور ان کے "المورد” اور "اشراق” کے رفقاء خصوصاً سامنے آ رہے ہیں جو کھلے لفظوں میں تو احادیث و سنت کا انکار نہیں کرتے مگر حقیقتاً اسے عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر فکر گمراہی کیا ہو گی کہ قرآن کی تفسیر و توضیح کی سب کو اجازت ہے اگر نہیں تو اس پیغمبر اسلام کو نہیں جس کے دل اطہر پر یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کا مصداق بننے والے مولانا حافظ ابوخالد ابراہیم المدنی ہیں جن کے بارے میں کافی دنوں سے دلوں کو پریشان کر دینے والی خبروں سے کراچی کی فضا مکدر ہو رہی تھی اور پھر یہ خبر بھی سانحہ بن کر اہل توحید پر گری کہ موصوف نام نہاد مدنی مصلح بنتے بنتے افکارِ اغیار و تہذیب غربی کے دلدادہ ہو گئے ہیں اور اپنے خود ساختہ شہوت پرستانہ نظریات کے لئے بہت سی احادیث کو تختہ ستم بنا بیٹھے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ قرآن مجید کو معیار اول قرار دیتے دیتے اسے اپنا ہتھیار بے بدل بھی بنا بیٹھے ہیں کہ جب چاہا جیسے چاہا اسے توڑ مروڑ کر مغربی تہذیب کا لبادہ اڑھا دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
موصوف کی تصنیف "امراۃ القرآن” کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح سمجھ آتی ہے کہ جناب بالکلیہ کھسک گئے ہیں یا پھر عورت فوبیا کا شکار ہو کر فکر آخرت و خوف الٰہی سے غافل ہو چکے ہیں اسی لئے اس تصنیف میں جا بجا محدثین عظام پر کیچڑ اچھالنے کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث کا بھی انکار کیا ہے جس کی جرأت سوائے شہوت کے دلدادہ اور گمراہ کن نظریات کے حامل شخص کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔
بہرحال موصوف کی تصنیف کے مخصوص ابواب پر مختصراً تحقیقی تبصرہ پیش خدمت ہے امید ہے احبابِ خرد و دانش دل کی کشادگی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں گے۔
اللہ تعالیٰ اس تحریر کو لوگوں کی رشد و ہدایت کا باعث بنائے آمین۔
کتبہ: عبدالوکیل ناصرؔ
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ
و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ و اھل طاعتہ اجمعین
وجہ تالیف
وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے موصوف سورۃ تحریم کی آیت ۱۱ اور ۱۲ ذکر کرتے ہیں جس کا ترجمہ موصوف کے قلم سے کچھ اس طرح ہے :
اور اللہ تعالیٰ نے مثال بیان فرمائی ایمان والوں کے لئے فرعون کی عورت کی، جب وہ بولی اے رب بنائیں میرے واسطے اپنے پاس ایک گھر بہشت میں اور بچائیں مجھ کو فرعون سے اور اس کے کام سے، اور بچائیں مجھ کو ظالم لوگوں سے اور مریم بیٹی عمران کی جس نے روکے رکھا اپنی شہوت کی جگہ کو، پھر پھونک دی ہم نے اس میں ایک اپنی طرف سے جان اور اس نے سچا جانا اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور تھیں عبادت کرنے والوں میں سے۔
تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں (یاد رہے یہ تفسیر بالرائے ہے جس کی موصوف بھی اپنی کتاب کے صفحہ ۱۰ پر مذمت کر چکے ہیں )۔ قرآن کریم کی سورۃ تحریم کی مذکورہ آیت ۱۲، ۱۱ پر غور کرنے سے یہ بات نمایاں ہوتی چلی گئی کہ رب العزت و الجلال نے عورت کے ایمان کی مثال دی ہے، تمام نوع انسانی کے لئے (مرد اور عورت)تا قیامت۔ (صفحہ:۱۵، صفحہ:۳۵)۔
مزید لکھتے ہیں یعنی عورت کا ایمان قرآن کی نظر میں کامل اور اکمل ہے، عورت کے خلاف بہت بڑا محاذ قائم کر رکھا ہے اور عورت کو انتہائی حقیر اور کم تر جانا جاتا ہے اور اسے کم عقل اور کم دین ہی نہیں قرار دیا بلکہ اسے شر پسند، ناپاک، اچھوت اور شیطان بھی قرار دیا اور یہ سب کچھ دین کی آڑ میں کیا۔ (صفحہ:۱۶)۔
پھر لکھتے ہیں مذکورہ قوموں کی تہذیب کا جائزہ لیا تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ عورت کے خلاف جو بھی کہا گیا، وہ انہی مذاہب باطلہ سے اثر انداز ہو کر کہا گیا۔ مثال کے طور پر عورت کو مارنا یہودی روایت ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ایوب علیہ السلام کے واقع میں اس بات کو ثابت کیا کہ انہوں نے اپنی گھر والی کو مارا تھا۔ اس جھوٹی روایت کو ہماری تفاسیر میں شامل کر دیا گیا۔ عورت ناپاک ہے یہ ہندو روایت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۱۶، صفحہ:۱۷)۔
تحقیقی نظر
موصوف کی تحریر کس قدر سطحی الفاظ پر مشتمل ہے یہ بات کسی بھی اہل ذوق، تعلیم یافتہ آدمی پر مخفی نہیں۔
موصوف کا اس آیت سے استدلال ہے کہ ہر عورت اپنے ایمان میں کامل مکمل ہے جناب کی سینہ زوری اور تحکم ہے اور تفسیر بالرائے ہے۔ جس کی شدید ترین مذمت کی گئی ہے ” جس نے قرآن میں کوئی بات اپنی طرف سے کہی وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ” ……۔ (مشکوٰۃ کتاب العلم)
موصوف بھی تفسیر بالرائے کی مذمت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:
اس میں کسی بھی حوالے سے میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی بات اخذ نہیں کی گئی، بلکہ اپنی عقل کے پیمانے کے ذریعے سے قرآن کے الفاظ کو پرکھا گیا اور سمجھا گیا۔ اس تفسیر کے ذریعے سے قرآنی الفاظ کو اپنے مطلب کا جامہ پہنا دیا گیا، اور اجماع امت ہو گیا کہ یہ تفسیر بھی قابل قبول ہے۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوا، اس لئے کہ قرآنی الفاظ کا وہ مفہوم لیا گیا جو مطلوب خدا نہ تھا۔ (صفحہ نمبر۱۰)
واقعی موصوف کا سیدہ آسیہ زوجہ فرعون اور مریم بنت عمران کے واقعے سے تمام عورتوں کو کامل و اکمل ایمان کی ڈگری و سند دینا مطلوب خدا نہیں۔ اور شاید موصوف کے بگڑنے کی یہی وجہ ہے۔ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کامل و اکمل صرف چار ہی عورتوں کو قرار دیا گیا ہے۔
۱…آسیہ امرأۃ فرعون۔ ۲…مریم بنت عمران۔ ۳…خدیجہ بنت خویلد۔
۴…سیدہ عائشہ کی فضیلت اس طرح جس طرح شدید کی تمام انواع کے طعاموں پر۔
نیزا س آیت میں کانت من القانتین وارد ہوا ہے کانت من القانتات نہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرد عورت پر فوقیت رکھتا ہے۔ (دیکھئے فتح القدیر از شوکانی)۔
موصوف کا بلا دلیل ہی قصہ ایوب علیہ السلام پر اعتراض کرنا اور روایت کا انکار کرنا بلکہ اسے جھوٹی روایت قرار دینا، انتہا درجہ کی جسارت، قرآن سے لاعلمی ہے۔ جبکہ سورۃ صٓ میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ:
وَخذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہ وَ لا اَا تَحْنَثاْاط یعنی تیلیوں کا ایک گٹھہ (جھاڑو) لے کر اسے مار لو اور قسم نہ توڑو۔ کیا اب بھی مذکورہ روایت بلا دلیل ہی جھوٹی قرار دی جائے گی؟
یاد رہے کہ اس روایت کا ذکر تقریباً ہر مفسر نے اپنی تفسیر میں کیا ہے مثلاً دیکھئے : زاد المسیر، فتح القدیر، اضواء البیان وغیرہ۔
شوہر کا اپنی بیوی کو تادیباً مارنا قرآن و سنت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ لہٰذا موصوف اگراسے قرآن کے منافی سمجھتے ہیں تو آیت پیش کر دیں بات ختم۔ باقی درمیان میں جو کچھ مدنی صاحب نے لکھا ہے وہ لفاظی ہے جو رطب ویابس کو سمیٹے ہوئے اگراس میں کوئی قابل ذکر بات ہوئی تو آگے مع الجوب ذکر ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
انسان کی تخلیق کا تکامل
اس عنوان کے تحت موصوف رقم طراز ہیں … یعنی انسان "مرد اور عورت” کی تخلیق میں بنیادی طور پر کوئی تفریق نہیں کی گئی، مرد و عورت کے حوالے سے اس لئے جہاں قرآن میں انسان کا ذکر آتا ہے تو اس سے مراد مرد اور عورت دونوں ہی ہوتے ہیں (صفحہ:۲۲)۔
مزید لکھتے ہیں اس حقیقت سے انکار یقیناً خدا کے تخلیقی منصوبے کی نفی ہے، بطور دلیل کے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر۳۰ لکھی ہے۔ جس کا ترجمہ موصوف کے قلم سے یہ ہے۔
اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ بے شک میں زمین کا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ پھر تفسیر بالرائے کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں جب ارشاد ہوا کہ ہم زمین میں زمین کا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو یقیناً یہ خلافت صرف مرد کے لئے تو نہیں تھی بلکہ عورت بھی مکمل طور پر ذمہ دار تھی۔ اس لئے کہ یہاں انسان کی بات ہو رہی ہے، جس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی خلافت میں عورت کو حصہ دار قرار دیا ہے (صفحہ۲۳)۔
دوسری دلیل کے طور پر سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۷۱ ذکر کرتے ہیں جس کا ترجمہ ابتداءً یوں لکھتے ہیں، "اور مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں "۔ الی آخرہ۔
تفسیر بالرائے کرتے ہیں کہ:
المیہ یہ ہوا کہ عورت کو دین کے نام پر گھر کی چاردیواری میں قید کر دیا گیا اور چادر کی آڑ میں اس منصبی ذمہ داری کو انجام دینے سے روکا گیا۔ جس کے نتیجے میں بگاڑ اور فساد بڑھتا گیا (صفحہ:۲۴، ۲۵)۔
تحقیقی نظر
موصوف کا مطلقاً مرد و عورت کو تخلیق میں بلا امتیاز مماثل قرار دینا صحیح نہیں ہے، بلکہ تخلیقی اور فطری طور پر بھی مردو عورت میں فرق ہوتا ہے اسی لئے زوجہ عمران نے جب لڑکی (مریم) کو جنم دیا تو اعتذار بھی پیش کیا "اِنِّیْ وَضَعْتھآ انْثیٰ” اور "وَلَیْسَ الذَّکَر کَالْانْثیٰ” یعنی میں نے لڑکی کو جنم دیا ہے اور مرد تو یقیناً لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔ (سورۃ آل عمران)
اسی طرح عورت کی خلقت کی کمزوری کو یہ کہہ کر بیان کیا گیا ہے کہ :
"اَوَ مَنْ یّنَشَّؤا فِی الْحِلْیَۃ وَ ھوَ فِی الْخِصَامِ غَیْر مبِیْنٍ”
کہ وہ زیب و زینت (زیورات) میں پروان چڑھتی ہے اور میدان حجت میں اپنا موقف بھی کھل کر بیان نہیں کر سکتی۔ (سورۃ زحزف)
سید نا قتادہ فرماتے ہیں کہ عورت کی خلقی کمزوری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی حجت بیان کرتے کرتے اپنے خلاف ہی حجت قائم کر بیٹھتی ہے۔ (فتح القدیر از شوکانی)
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی بناوٹ میں فرق ہے، اسی لئے ان کا میراث میں حصہ کم ہے، شہادت آدھی ہے اور انہیں حکم ہے کہ بیٹھی رہو اور انہیں خوالف (پیچھے رہ جانے والی) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (فتح القدیر)
تجربہ بھی اس پر شاہد ہے کہ مردو عورت فطری و جبلی اعتبار سے فرق رکھتے ہیں۔ لہٰذا موصوف بس اپنی خود ساختہ رائے میں اکیلے ہی ہیں اور بس میں نہ مانوں کی ڈگری پر گامزن ہیں۔ ویسے جناب سے ایک سوال ہے کہ کیا واقعی آپ میں اور آپ کی محترمہ میں کوئی فرق نہیں ؟ ( اس حقیقت سے انکار یقیناً خدا کے تخلیقی منصوبے کی نفی ہے )۔
جہاں تک تعلق ہے سورۃ بقرہ کی آیت ۳۰ سے خلافت المرأۃ کا تو یہ بھی جناب کی رائے پر مبنی اوہام ہیں، جس پر کوئی بھی دلیل قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین سے جناب کے پاس نہیں ہے۔ نیز موصوف نے افتراء علی اللہ کا بھی ارتکاب کیا ہے جو شرک سے بھی بڑا گناہ ہے۔ کسی بھی تفسیر مثلاً (تفسیر قرطبی، ابن کثیر، زادالمسیر، فتح القدیر وغیرہ) کو اٹھا کر دیکھ لیں، موصوف کا بیان کردہ مفہوم کسی نے بھی بیان نہیں کیا۔ بلکہ لکھا ہے کہ یہاں خلیفہ سے مراد سیدنا آدم علیہ السلام ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد آدم علیہ السلام کا ذکر بالصراحت ہے۔ البتہ چونکہ آپ علیہ السلام ابو البشر ہیں، لہٰذاسب آپ کے بعد ہی آئیں گے تو آپ کے بیٹے جو نبوت سے (آپ کی طرح) سرفراز ہوں گے وہ خلیفہ فی الارض قرار پائیں گے۔ اب ظاہر ہے نبوت و رسالت تو صرف اور صرف مردوں کے ساتھ ہی خاص ہے۔ مگر جو شخص عورتوں کی محبت میں اندھا ہو جائے اسے قرآنی آیات بھی نظر نہیں آتیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
” وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالا اًا نّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ ” (سورۃ یوسف)
سورۂ نمل کی آیت بھی دیکھیں۔
مزید ارشاد ہوتا ہے :
وَ مَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالا اًا نّوْحِیْ اِلَیْہِمْ (سورۃ انبیاء)
لہٰذا سیدنا آدم علیہ السلام کی نبوت سے آراستہ خلافت میں عورتوں کو شامل کرنا تحکم و سینہ زوری کے سوا اور کچھ نہیں۔
کیا موصوف بتائیں گے کہ دنیا کی اس اسلامی تاریخ میں کبھی عورت کو کسی قابلِ ذکر عہدہ و منصب یا خلافت کی مسند پر متمکن کیا گیا ہو؟
ولیس الذکر کالانثی (مرد عورت کی طرح نہیں ہوتا)
خلیفہ وقت نہ صرف امام سیادت و سیاست ہوتا ہے بلکہ وہ مصلیٰ کا امام بھی ہوتا ہے۔ تو کیا عورت بھی مردوں کی امامت کی حقدار ہو گی؟ (یاد رہے یہ نظریہ غامدی صاحب کا ہے جو بلا اصول و برہان ہے )۔
اگر یہی طرز عمل رائج ہو گیا تو پھر جناب کی جگہ جناب کی محترمہ ہی خطابت و امامت کے جوہر دکھاتی پھریں گی اور پھر نماز تو کیا ہو گی ایک تماشہ کا سماں ہو گا۔ واللہ المستعان۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ گھر کی چاردیواری میں تو عورت کو امامت و خلافت کا عہدہ نہ دیا جائے مگر پورے ملک و سلطنت کا بوجھ اس کے اوپر ڈالنے کے لئے قرآن سے خود ساختہ معانی کشید کئے جائیں آخر کیوں ؟
امام قرطبی رحمہ اللہ نے خلافت و امامت کے سلسلے میں اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس عہدہ کا حق دار صرف مرد ہی ہے۔ (دیکھئے تفسیر قرطبی)
آگے چل کر موصوف نے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں مرد و عورت کو باہم دوست قرار دیا ہے، تو بات وضاحت طلب ہے کہ موصوف کے ہاں اس سے کیا مراد ہے ؟ تفاسیر مستندہ میں اس سے مراد دعوت الی اللہ کے منہج پر ان کے دلوں کا باہم متحد ہونا مراد ہے نہ کہ خفیہ اور سری حیا باختہ دوستیاں۔ پھر موصوف نے دعوت کے پہلو پر آ کر چادر و چار دیواری کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
یہ بات بالکل سمجھ سے باہر ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ دعوت دین کے لیے پہلے عورت چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرے ؟ کیا چادر و چار دیواری سے مزین ہو کر یہ کام نہیں ہو سکتا؟ موصوف کا یہ انداز ان کی ذہنی سطحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ
عورت قرآن کی نظر میں
اس عنوان کے تحت موصوف چوتھی فضیلت کے تحت سورہ تحریم کی آیت ۱۱ اور ۱۲ تحریر کرتے ہیں۔ ترجمہ کرتے ہیں اور پھر تفسیر بالرائے کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں کہ:
عورت کے ایمان کو کامل و اکمل ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کے ایمان کو مثال قرار دیا گیا ہے تمام مرد اور عورتوں کے لئے تا قیامت… (صفحہ:۳۵)۔
تحقیقی نظر
موصوف نے یہ بات نشر مکر ر کی طرح مکر ر لکھ دی ہے جس کا جواب (کسی حد تک) پیچھے گذر چکا ہے۔ موصوف کا زور صرف اس بات پر ہے کہ عورت سب ہی کے لئے معیارِ ایمان و مثالِ ایمان ہے جبکہ یہاں خرابی بگاڑ اور فساد کی وجہ یہی ہے کہ خدا کا مطلوب کچھ اور ہے جناب مدنی صاحب کا مطلوب کچھ اور ہے اور یہ مطلوب بہرحال اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے۔ کیا ایک خاص قصے سے عام حکم پر دلیل لی جا سکتی ہے ؟ موصوف اس کی تائید کس طرح کریں گے ؟ نیز قرآن مجید میں معیار ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرار دیا گیا ہے۔
ان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ (اگر تم ان کی طرح ایمان لے آؤ تو کامیاب و ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے۔ )
اب کیا یہ واضح نہیں ہے کہ یہ صیغہ مذکر مردوں کو فوقیت دیتا ہے اور اگر اس میں عورتیں بھی شامل ہیں تو ازروئے مرد کی فرع ہونے کے اصلاً نہیں۔ فافھم۔
ساتویں فضیلت کے تحت موصوف سورۃ بقرہ کی آیت ۲۴۰ بمعہ ترجمہ کے لکھتے ہیں اور پھر تفسیر بالرائے اس طرح کرتے ہیں :
سورۃ بقرہ (آیت ۲۴۱۔ ۲۴۰) جس میں اللہ تعالیٰ نے بیوہ اور مطلقہ عورت کے لئے ایک سال کا خرچہ شوہر کے ذمہ لازم قرار دیا ہے جو کہ اس کے مال میں سے وراثت تقسیم کرنے سے پہلے دیا جائے گا اور جو کہ وراثت سے الگ ہو گا۔ قرآن کا یہ حکم عورت کی نصرت اور تائید کے لئے تھا تاکہ عورت کو ہر ممکنہ مشقت اور تکلیف سے بچایا جائے۔ لیکن بعد میں آنے والے مسلمانوں نے قرآن کے اس حکم کو کالعدم قرار دیا اور اس کی جگہ ظلم و استبداد کے احکامات جاری کر دیئے، جس کا مقصد عورت کو مجبور و بے بس و لاچار بنانا ہے۔
تحقیقی نظر
موصوف اگر تفسیر بالرائے کو واقعتاً ہی ناجائز سمجھتے، تو کبھی بھی اس کا ارتکاب نہ کرتے مگر "ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ” کی طرح مذبذ بین بین ذلک لا الی ھٰؤلاء ولا الی ھؤلاء کا مصداق دکھائی دیتے ہیں۔
جمہور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موصوف کی ذکر کردہ سورۃ بقرہ کی آیت ۲۴۰ منسوخ ہو چکی ہے اور اس کی ناسخ آیت میراث اور آیت عدت اربعۃ اشھر و عشرا ہیں۔ (فتح القدیر، زادالمسیر، احسن البیان)
لہٰذا موصوف کا اس منسوخ آیت سے استدلال کر کے با عمل مسلمانوں کو ظالم قرار دینا، از خود ہی ظلم ہے اور موصوف کے مبلغ علم کی نشاندہی ہے کہ موصوف ناسخ ومنسوخ کو بھی نہیں جانتے۔
اور اگر وہ ناسخ و منسوخ کے (پرویزیوں کی طرح) منکر ہی ہیں تو ہم عرض کریں گے کہ ذرا آیت میراث، آیت عدت اربعۃ اشھر و عشراً اور آیت وصیۃ لازواجھم متاعاً الی الحول غیر اخراج میں تطبیق و توفیق اس طرح دیں کہ ہر ایک آیت پر صحیح صحیح عمل ہو جائے۔ مگر موصوف کبھی بھی اسے حل نہ کر سکیں گے۔ ان شاء اللہ۔
شبہات و جواب شبہات
اس عنوان کے تحت جناب حافظ (ابوالخواتین) صاحب رقم طراز ہیں :
شبہ: دوزخ میں سب سے زیادہ تعداد عورتوں کی ہو گی۔ پھر لکھتے ہیں :
جواب شبہ: اس میں موصوف سورۃ بقرہ کی آیت ۸۲۔ ۸۱ بمعہ ترجمہ لکھتے ہیں اور پھر اس سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
قرآن کی یہ بنیادی تعلیمات میں سے ہے کہ جنت یا دوزخ میں جانا عمل پر منحصر ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ عورتوں کی تعداد دوزخ میں زیادہ ہو گی۔ محض عورت ہونے کی بنیاد پر سراسر بے بنیاد ہے جس سے ان لوگوں کی غیر فطری نفسیات کا اشارہ مل رہا ہے۔ جنہوں نے ہر موقع پر عورت کو حقیر و کمتر ثابت کرنا چاہا ہے (صفحہ:۵۰، ۵۱)۔
مزید لکھتے ہیں ! نافرمانی اور انکار کا جذبہ جتنا مرد میں ہے اتنا ہی عورت میں پایا جاتا ہے۔
پھر مزید لکھتے ہیں ! لہٰذا اللہ تعالیٰ جو عدل و انصاف کا مظہر حقیقی ہیں اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم جو سراپا عدل و انصاف کا نمونہ ہیں، کیا وہ ایسی کوئی بات کر سکتے ہیں ؟ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو؟ ہرگز نہیں ! یہ اللہ تعالیٰ اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر کھلا جھوٹ اور صریح بہتان ہے (صفحہ:۵۲، ۵۳)۔
تحقیقی نظر
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنت یا دوزخ میں جانا اعمال پر منحصر ہے اور اسی بنیاد پر احادیث میں بھی جنت کی بشارت و جہنم کی وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ مگر موصوف نے اپنی طرف سے ہی لکھ دیا کہ محض عورت ہونے کی بنیاد پر عورت کو دوزخ کی وعید ملنا بے بنیاد ہے۔ جی ہاں یہ بات سر تا پیر بے بنیاد ہے، (جیسے کہ موصوف کے تمام نظریات و عقائد) کسی بھی صحیح روایت میں محض عورت ہونے کی بنیاد پر عورتوں کے لئے وعید جہنم نہیں ہے۔ لہٰذا موصوف اس غلط بات کو حدیث کی طرف منسوب کر کے من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار کی زد میں آتے ہیں اور جہنم کی وعید کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں توبہ کریں اور اپنی آخرت خراب نہ کریں۔
اور یہ بھی بڑی ہی ناشائستہ اور غیر فطری نفسیاتی حرکت کا اشارہ ہے کہ زبردستی ایک معنی حدیث سے کشید کر کے حدیث ہی پر اعتراض جڑ دیا۔ سآء ما یحکمون
باقی رہا کہ عورتیں جہنم میں زیادہ جائیں گی۔ اس کا جواب دینے سے قبل یہ غور و فکر کر لیں کہ کیا عورتوں کی تعداد دنیا میں مردوں سے زیادہ نہیں ہے۔ تو اگر از روئے اعمال بد وہ جہنم میں زیادہ ہو گئیں تو اس میں اعتراض کیسا؟
موصوف نے ڈھکے چھپے انداز میں جس حدیث کو کھلا جھوٹ اور صریح بہتان قرار دیا ہے وہ حدیث صحیح بخاری میں کئی جگہ مختصراً و مطولاً وارد ہوئی ہے اور موصوف اپنی رائے سے ہی جو چاہتے ہیں فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔ حالانکہ جو معنی موصوف نے اس سے کشید کیا ہے وہ ہر گز ہرگز نہ تو حدیث میں ہے نہ اس سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں موصوف کے اعتراض کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے وہ قارئین سمجھ سکتے ہیں۔
صحیح بخاری میں اس کی وضاحت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو جہنم کی وعید سنائی تو عورتوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم لعنت ملامت زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوند کی نافرمانی بھی کرتی ہو۔ (دیکھئے صحیح بخاری کتاب الحیض و کتاب الزکوٰۃ وغیرہ)
اب ظاہر ہے جہنم میں کثرت کی وجہ یہ دو چیزیں ہیں جن کی مرتکب عورتیں ہیں اور یہ ان کی بد عملی ہے اور بد عملی کے سبب جہنم میں جانا تو موصوف کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے، اگرچہ بد عملی کا ارتکاب مرد ہی کیوں نہ کرے۔ لہٰذا موصوف کا اعتراض بالکل بے جا اور بودا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ من عمل سوء اً یجزیٰ بہ جو برائی کرے گا اس کی سزا بھی بھگتے گا۔
شبہ: خدا کی نافرمانی نہیں بلکہ شوہر کی نافرمانی موجب جہنم ہو گی۔
جواب شبہ: لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری ہی موجب جنت ہے اور ان کی نافرمانی دوزخ کی موجب ہے۔ بطور حوالہ سورۃ نساء کی آیت ۱۴۔ ۱۳ معہ ترجمہ تحریر کرتے ہیں پھرتفسیربالرائے کرتے ہوئے کہتے ہیں ! اب یہ کہنا کہ عورتوں کی تعداد دوزخ میں زیادہ ہو گی اس لئے نہیں کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ شوہر کی نافرمانی کرتی ہیں۔ جس سے یقیناً شوہر کا مرتبہ خدا سے بڑھا دیا گیا جو کہ اللہ کی بہت بڑی توہین ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو کوئی بھی سلیم الطبع قبول نہیں کر سکتا۔ لیکن بعض نے اتنی بڑی ناحق بات میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے منسوب کر دی (صفحہ:۵۴، ۵۵)۔
مسلم خاتون کو جب پتہ چلے گا کہ دوزخ میں زیادہ تعداد ان کی ہے، تو نیک عمل کا جذبہ کمزور ہوتا چلا جائے گا اور نتیجہ یہ ہو گا کہ عورتیں اللہ سے بد ظن ہو کر اللہ تعالیٰ سے دور ہوتی چلی جائیں گی…وغیرہ وغیرہ (صفحہ:۵۶)۔
تحقیقی نظر
موصوف نے گذشتہ حدیث ہی کے ٹکڑے کو لے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ گویا یہ دوسری کوئی حدیث ہے اور اس طرح وہ جہاں اپنی علمیت کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں وہاں یہ بھی ہو گا کہ ان کی بے وزن کتاب کے صفحات بڑھ جائیں گے اور کتاب کچھ وزن دار ہو جائے گی۔ اور اس طرح جناب ایک طفل کی طرح خوشی سے قلقاریاں ماریں گے۔ موصوف نے تفسیر بالرائے کے دوران حدیث سے پھر خود ساختہ معنی لے کر اس پر اعتراض جڑ دیا ہے، جو کہ انتہائی مذموم و مسموم حرکت ہے۔ ظاہر ہے جب معنی ہی بدل کر کشید کیا ہے تو اب وہ حدیث کہاں رہی وہ تو جناب کے اضغاث احلام بن گئی۔ حدیث میں ایسی کوئی بھی بات نہیں کہ عورت اللہ کی نافرمانی کرے اور شوہر کی نافرمانی نہ کرے یا نعوذ باللہ شوہر اللہ سے بھی بڑھ کر ہے یہ سراسر جناب کا اتہام و بہتان ہے۔
فَوَیْلٌ لَّہمْ مِّمَّا کَتَبتْاَا اَیْدِیْہِمْ وَ وَیْلٌ لَّہمْ مِّمَّا یَکْسِبوْن (البقرہ)
موصوف کو یہ تسلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی موجب جہنم ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے شوہر کی اطاعت (معروف کاموں میں ) کا حکم نہیں دیا اور اگر اب عورت شوہر کی اطاعت نہ کرے تو کیا یہ شوہر کی نافرمانی سے قبل اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی نہیں ہو گی؟ اگر ہے تو پھر عورت کو دوزخ کی وعید سے کون بچا سکتا ہے ؟
اللہ تعالیٰ نے عورت کو شوہر کی اطاعت کا پابند کیا ہے :
"فَاِنْ اَطَعْنَکمْ فَلا اَا تَبْغوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلا اًاط اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا” (النساء)
اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے شوہر کی اطاعت کا عورت کو پابند کیا ہے فرمایا ! جو عورت پانچ نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے، اپنے شوہر کی اطاعت کرے، وہ جس دروازے سے چاہے گی جنت میں داخل ہو جائے گی۔ (مسند احمد)
فرمایا بہترین عورت تو وہی ہے "جو خاوند کو خوش کر دے، اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس و مال میں اس کی خلاف ورزی نہ کرے جسے وہ ناپسند کرے۔ ” (نسائی)
فرمایا کہ شوہر کی نافرمان عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (الترغیب و الترہیب)
لہٰذا شوہر کی اطاعت سے اعراض در حقیقت احکام الٰہی سے اعراض ہے اور یہ بد عملی موجب جہنم ہے۔ باقی رہا کہ اس طرح وہ نیکی کم کریں گی۔ اللہ سے دور ہوں گی… وغیرہ وغیرہ۔
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ جناب دینی علوم سے بالکل ہی بے بہرہ ہیں اور امام الضلالۃ بنے ہوئے ہیں۔ کیا انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ دعوت دین کے دو ہی پہلو ہیں انذار و تبشیر یا دوسرے لفظوں میں ترغیب و ترہیب۔ اور عورتوں کے معاملے میں بھی قرآن و سنت کے دلائل ہر دو طریقوں سے وارد ہوئے ہیں۔ زیرِ نظر حدیث میں انذار و ترہیب ہے اور یہ اصلاح کا ایک انداز ہے اس طرح عورتوں کی اصلاح بدرجہ اولیٰ ہوتی دیکھی جا سکتی ہے۔
لہٰذا جناب کی ساری تاویل اور تفسیر بالرائے سراسر جھوٹ و دجل و فریب ہے اور علمی انداز کی موت کے مترادف ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
شبہ:شوہر کو سجدہ
لکھتے ہیں !
اس شبہ میں جھوٹی اور من گھڑت روایات کے سہارے اس غیر فطری عمل کو ثابت کیا جاتا ہے جس کا مقصد عورت کی شخصیت کی مکمل نفی اور اس کو محض کنیز اور تابعداری کا مرتبہ دینا ہے۔
جواب شبہ کے تحت رقم طراز ہوتے ہیں کہ سجدہ صرف اللہ کے لئے حق اور زیبا ہے اور ان کے علاوہ کسی کو بھی سجدہ کرنا شرک ہے …بطور حوالہ سورۃ رعد کی آیت ۱۵ اور سورۃ نحل کی آیت ۴۹ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں (صفحہ:۵۷)۔
تفسیر بالرائے کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے محنتیں اور کاوشیں کر کے باطل عمل کو مسلمانوں میں رائج کر دیا۔ ان لوگوں کو عورت کی شکل میں اپنا شکار مل گیا…اس کو حکم دیا گیا کہ وہ سجدہ کرے اپنے خاوند کے لئے اور اس کو اسلام کا لبادہ پہنایا گیا۔ میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے جھوٹی بات منسوب کر کے …، اور ایک عورت کے الگ الگ وقت میں الگ الگ خاوند ہو سکتے ہیں تو وہ ان میں سے کس کس شوہر کو سجدہ کرے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۵۸، ۵۹)۔
تحقیقی نظر
یہاں بھی حافظ صاحب بلا دلیل ہی ایک حدیث کو جھوٹی اور من گھڑت قرار دے بیٹھے ہیں اورسجدے کو غیر فطری عمل بھی قرار دے دیا۔ استغفراللہ کیا موصوف سجدہ نہیں کرتے ؟
موصوف سورۃ رعد اور سورۃ نحل سے استدلال کر کے غیر اللہ کے لئے سجدہ کو شرک قرار دیتے ہیں بالکل صحیح بات ہے، مگر موصوف اپنے قاعدے کے تحت ایسا کرنے سے پھنس جائیں گے کیونکہ ان کے ہاں تو سب سے پہلے قرآن ہی پیمانہ و کسوٹی تفسیر ہے اور قرآن میں سورۃ یوسف سے غیر اللہ کے لئے سجدہ ثابت ہوتا ہے۔ وَخَرّوْا لَہ سجَّدًاج
اسی طرح سورہ بقرہ اور دیگر کئی سورتوں میں فرشتوں کا سید نا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا وارد ہوا ہے۔ موصوف کے ہاں صرف قرآن ہی اگر حجت ہے تو انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ غیر اللہ کے لئے سجدہ کو شرک قرار دیں۔ فافھم۔
جس حدیث کو موصوف اپنی رائے رذیلہ سے جھوٹی قرار دیتے ہیں وہ حدیث ہمیں فی الوقت صحیح الترغیب و الترہیب میں ملی ہے، جس میں الفاظ ہیں۔ لوکنت آمراً احداً ان یسجد لاحد۔ . (۱۹۴۰ الترغیب و الترہیب)۔
یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی (غیراللہ) کے لئے سجدہ کا حکم دیتا، تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کوسجدہ کرے۔
اب بتائیں اس میں سجدہ کرنے کا حکم کہاں ہے ؟ کیونکہ امت محمدیہ میں صرف اللہ کو ہی سجدہ روا ہے۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو بھی خاوند کے لئے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اگر دیتے تو اور بات تھی۔ اسی مفہوم کی تمام احادیث صحیح الترغیب و الترہیب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا حافظ صاحب کی بات سراسرغلط فہمی پر مبنی اور حدیث دشمنی کی وجہ سے حدیث نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
باقی رہا الگ الگ شوہر کو الگ الگ سجدہ۔ استغفراللہ موصوف کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کیا ان کے ہاں ایک عورت ایک وقت میں ایک سے زیادہ شوہر بھی رکھتی ہے، تو پھر موصوف کا اپنی محترمہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ (یاد رہے کہ طلاق بتہ دینے کے بعد شوہر کا تعلق عورت سے ختم ہو جاتا ہے وہ شوہر ہی نہیں رہتا)۔
شبہ پردہ
لکھتے ہیں ! اس شبہ میں خود ساختہ پردے کے مفاہیم بنائے گئے اور ان کو عورت پر چسپاں کیا گیاجس کے نتیجے میں پورا انسانی معاشرہ، ہیجانی کیفیت کا شکار ہو گیا۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں ! اس حقیقت ظاہرہ کو مان لیا جائے کہ کتاب و سنت میں جو پردہ کے احکامات ہیں، وہ بالکل مختلف ہیں۔ ان پردے کے احکامات سے جو ہمارے مروجہ دین میں نمایاں ہیں۔ بہرکیف یہ مسئلہ ازل سے اختلافی رہا ہے۔ (صفحہ:۶۱)۔
چہرے کے پردے سے متعلق لکھتے ہیں : گھر میں عورت کے پردے کے احکامات "سورۃ نور” میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور گھر سے باہر جاتے وقت پردے کے احکامات "سورۃ احزاب” میں بیان کر دیئے گئے ہیں جس میں کہیں بھی چہرے کے پردے کا ذکر صریح الفاظ میں نہیں ملتا۔ آگے سورہ احزاب کی آیت ۵۹ بمع ترجمہ نقل کی ہے (صفحہ:۶۲)۔
چہرے کے عدم پردے پر بطور دلیل قصہ سیدہ مریم علیہا السلام سے استدلال کرتے ہوئے سورہ مریم کی آیت ۲۷ لکھتے ہیں۔ پھر تفسیر بالرائے سے کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے تمام عورتوں میں سے مریم کو کیسے پہچانا؟ یقینی طور پر ان کے چہرے سے …وہ اپنا چہرہ کھول کر رکھتی تھیں۔
پھر سورۃ نور کی آیت ۳۱ بمع ترجمہ نقل کرتے ہیں اور حافظ ابن کثیر کی تفسیر سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول لکھتے ہیں کہ زینت سے مراد چہرہ ہے (صفحہ:۶۳ تا ۶۶)۔
دلیل چہارم کے تحت (حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنا حکم ہے ) اس سے استدلال کرتے ہیں کہ چہرہ ہر وقت ہی کھلا رہے گا۔ (مفہوماً) (صفحہ:۶۶)۔
دلیل ششم کے تحت صحیح بخاری کتاب النکاح کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں شادی کرنے کے ارادے سے عورت کو دیکھنے کا جواز موجود ہے … ثابت ہوا کہ عورت کا چہرہ کھلا رہتا تھا۔ (ملخصاً) (صفحہ:۶۷)۔
مزید سورۃ نور کی آیت ۳۰ سے استدلال کرتے ہیں کہ اپنی نگاہوں میں سے کچھ نگاہیں نیچے رکھے تواس حکم کی ضرورت نہیں ہوتی اگر عورت مکمل چھپی ہوتی۔ جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ آخر میں پردے کے حامیوں کو عورت دشمن قرار دیا ہے اور ان کے مسئلے کو دھوکہ سے تعبیر کیا ہے۔ (صفحہ:۶۷)۔
تحقیقی نظر
موصوف (ابو الخواتین صاحب) کی ہم نے چیدہ چیدہ عبارتیں مفہوم سے متعلق جمع کی ہیں اب تحقیقی نظر سے ان نکات و عبارات کا جائزہ پیش خدمت ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ موصوف کی اردو کیونکہ کمزور ہے اور لکھنے لکھانے کا انھیں ملکہ بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لئے بسا اوقات بڑی عجیب کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
مو صوف نے پردے کے صحیح مفہوم سے ہیجانی کیفیت کے پیدا ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے ہیجانی کیفیت تو عدم پردہ کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ موصوف عورت کی محبت کی بیماری میں اس طرح مبتلا ہیں کہ اس مصرعہ کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔
بک رہا ہوں جنون میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
موصوف (۱۵سو سال کے عرصے میں ) واحد شخص ہیں، جنہوں نے ماڈرن ازم کی فحاشی کو سپورٹ کرنے کے لیے یہ انکشاف کیا ہے کہ مروجہ دین میں پردہ کا تصور اس تصور سے مختلف ہے، جو قرآن وسنت کی شکل میں ہے۔ یہ انکشاف کس اشارے پر کیا گیا ہے، یہ راز صرف موصوف ہی جانتے ہیں۔ یہ بھی خوب لکھا ہے کہ یہ مسئلہ ازل سے اختلافی ہے۔ سبحان اللہ کیا مبلغ علم ہے جناب کا ‘اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ازلی اختلاف کو جناب کی ذات والا صفات غیر ازلیہ ختم کر سکتی ہے ؟اگر نہیں تو پھر انتشار کیوں برپا کیا؟ کیا لفظ ازل کی حقیقت موصوف جانتے ہیں ؟
موصوف نے چہرے کے پردے سے متعلق لکھا ہے کہ قرآن میں صریح الفاظ میں نہیں ملتا۔ تو کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جناب کیا غیر صریح الفاظ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ آپ وہ غیر صریح آیت بتا دیں ہم اس سے استدلال کر کے آپ سے چہرے کا پردہ کروا لیں گے۔ ان شاء اللہ
قصہ مریم سے استدلال بھی جناب کو مفید نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ (شرع من قبلنا) ہم سے قبل کی شریعت ہے اور ہم اپنی ہی شریعت کے تابع ہیں۔ "لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجاً”د وسری بات یہ ہے کہ جناب نے تمام عورتوں کی قید کے ساتھ اس قصہ کو لکھا ہے
تو کیا بتانا گوارہ کریں گے یہ قید کس آیت قرآنی میں وارد ہوئی ہے ؟
تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ جان پہچان والوں کو انسان بنا چہرہ دیکھے ہی پہچان و جان لیتا ہے۔ خواہ وہ پردے ہی میں کیوں نہ ہو، اس کی پہچان کے قرائن ہوتے ہیں جو اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ یہ فلان ہے۔
لہٰذا اس صورت میں جناب کا سیدہ مریم کو یہ کہنا کہ وہ چہرہ کھلا رکھتی تھیں فقط رجما بالغیب ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زینت کا ترجمہ جناب نے چہرہ نقل کیا ہے۔ تو اس کا معنی یہی ہو گا کہ ولایبدین زینتھن الا… اور وہ اپنے چہروں کو ظاہر نہ کریں۔ فافھم۔
تو گویا چہرے کا پردہ ثابت ہو گیا۔
"لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا”
جہاں تک حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنے کا تعلق ہے تو یہ از خود دلیل ہے کہ اس حالت سے قبل چہرہ ڈھکا ہوتا تھا۔ ورنہ کھول رکھنے کا حکم کس لیے تھا، اگر پہلے ہی کھلا تھا؟ فافھم۔
نکاح کے لیے دیکھنے کی گنجائش از خود دلیل ہے کہ ہر شخص نہ دیکھے اور اس حکم میں کسی حد تک عورت کے لیے چہرہ دکھانے کی بھی اجازت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ یہاں تو مسئلہ ہی نکاح کا ہے۔ فلیتدبر
اب رہا یہ کہ پھر مردوں کو غض بصر کا حکم کیوں دیا ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ مولانا مودودی لکھتے ہیں۔ (جو جناب کے کسی حد تک ہم مشرب ہیں )۔
اس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی۔ تبھی تو غض بصر کا حکم دیا گیا … یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعے کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع اچانک پیش آ سکتے ہیں، جبکہ اچانک کسی مرد اور عورت کا آمنا سامنا ہو جائے اور ایک با پردہ عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ پھر مسلمان عورتوں میں پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔
لہٰذا محض غض بصر کا حکم، اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مستلزم ہے اور واقع کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورۃ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا۔ (تفہیم القرآن)
احادیث کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بعض جگہ ذکر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ قبل نزول حجاب کا ہے اور یہ بعد نزول حجاب کا ہے۔ اب ایمانداری سے غور کریں اور بتائیں اس حجاب سے کیا مراد ہے ؟ جسم کے کپڑے …ہر گز نہیں بالکل نہیں، کپڑے تو پہنے ہی جاتے ہیں پھر کیا مراد لیں گے اس حکم حجاب سے ؟ یقیناً صرف اور صرف چہرے کا پردہ۔ فافھم۔
آخر میں عرض ہے کہ حقیقی معنوں میں وہی لوگ عورتوں کے دشمن ہیں، جو انھیں بے پردہ وبے حیابناکر اور مصنوعی مرد کا درجہ دے کر، باہر لانا چاہتے ہیں اور اپنی شہوت پر ستانہ انا وھویٰ کو تسکین دینا چاہتے ہیں۔
جبکہ پردے کے حامی یدنین علیھن من جلا بیبھن، فاسئلوھن من وراء حجاب اور وقرن فی بیو تکن ولا تبر جن تبرج الجا ھلیۃ الاولی کے قرآنی احکام کے عامل وداعی ہیں۔ والحمد للہ علی ذللک۔
شبہ ور غلانہ
لکھتے ہیں ! اس شبہ میں عورت کو برائی کی طرف دھکیلنے والی قرار دیا جاتا ہے اور اس کے لیے بخاری شریف کتاب "بدء الخلق” سے حوالہ دیا جاتا ہے۔ کہ شیطان نے پہلے ہماری ماں حوا کو ورغلایا اور پھر انہوں نے آدم علیہ السلام کو اکسایا جو کہ مسیحی روایت ہے (صفحہ:۷۰)۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں کہ کتاب وسنت کی روشنی میں بالکل اس بات کی نفی ہو رہی ہے۔
پھر سورہ طہٰ کی آیت ۱۲۱، ۱۲۰ بمع ترجمہ تحریر کرتے ہیں اور پھر تفسیر با لرائے کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں !
اس آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ شیطان نے جناب آدم علیہ السلام کو ہی ورغلایا تھا اور انھوں نے ہماری ماں حوا کو اکسایا تھا… غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن میں ہماری ماں حوا کے قصور کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ جناب آدم علیہ السلام کو قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے … (صفحہ:۷۱)۔
ایک مسیحی روایت کو کس طریقے سے صحیح بخاری میں درج کر دیا گیا… اگر ایک روایت درج کی ہے، تو یقیناً اور بھی کئی ہوں گی۔ با لخصوص عورت کی تذلیل کے حوالے سے، اس لیے ہمیں قرآن کریم کو پیمانہ حق اور دین کا بنیادی ماخذ قرار دینا چاہیے اور احادیث کو قرآن کے پیمانے میں جانچنا چاہیے۔ رہا ورغلانے کا مسئلہ تو یہ ایک شیطانی دباؤ کے تحت ہوتا ہے جو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں طور پر قابل امکان ہے (صفحہ:۷۲)۔
تحقیقی نظر
جناب نے آخر کھل کر صحیح بخاری سے دشمنی کا اظہار کر ہی دیا جس کی دلیل اس کی روایتوں کو مسیحی قرار دینا ہے۔ مگر یاد رہے انہوں نے یہ بات اپنی رائے سے ہی کہی ہے دلیل کی بنیاد پر نہیں۔ نیز جس حدیث پر جناب نے اعتراض کیا ہے وہ حدیث "بدء الخلق” میں ہمیں نہیں ملی لہٰذا اس کا حوالہ بھی مو صوف ہی کے ذمے ہے۔
سورہ طہٰ کی روشنی میں جناب نے سیدنا آدم علیہ السلام کو قصور وار ٹھہرایا ہے۔ اب اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ موصوف عورت کی محبت میں کس قدر اندھے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس ضمن میں سیدنا آدم علیہ السلام کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید اسی لیے انہوں نے اماں حوا تو لکھا ہے مگر بابائے آدم علیہ السلام یا ہمارے باپ آدم نہیں لکھا۔ نعوذ باللہ من ذلک الھفوات حالانکہ آخر میں خود ہی لکھا ہے کہ ورغلانہ شیطانی دباؤ کے تحت ہوتا ہے، جو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں طور پر قابل امکان ہے۔ اب یہ کیا تضاد بیانیاں ہیں ؟
کیا واقعی قرآن مجید میں صرف آدم علیہ السلام کے قصور اور ورغلائے جانے کا ذکر ہے ؟
جی نہیں، بالکل نہیں بلکہ قرآن مجید میں دونوں (یعنی آدم و حوا) کے پھسل جانے اور ورغلائے جانے کا ذکر ہے۔
…شیطان نے دونوں کو پھسلا دیا:… (سورۃ البقرۃ آیت ۳۶)
…شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا… ان دونوں کے رو برو قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (سورۃ اعراف ۲۰تا۲۱)
…ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا۔ (سورۃ اعراف۲۲)
…دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیا۔ (سورۂ اعراف)
یہ وہ حقیقت جس کو موصوف نے قصداً بیان نہیں کیا جبکہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ قرآن کو ہی پیما نہ حق اور دین کا ماخذ اول قرار دینا چاہیے ؟
مو صوف کا یہ شبہ ابھارنا کہ اور نہ جانے کتنی روایتیں ایسی ہوں گی؟ حقیقتاً احادیث دشمنی کا عندیہ اور لوگوں کو احادیث سے برگشتہ کر نے کی کوشش ہے۔
موصوف ایسی احادیث (جوان کے نزدیک مسیحی اور عورت کی تذلیل پر مبنی ہیں ) تلاش کر کے جمع کیوں نہیں کر دیتے کہ ان کے ہمنوا اور حواریوں کا کام آسان ہو جائے ؟
موصوف نے احادیث کو جانچنے کا پیمانہ قرآن کریم کو قرار دیا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ قاعدہ اور اصول قرآن کی کس آیت سے ماخوذ ہے ؟
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ! لوگو! تم عنقریب ایسے انسانوں کو دیکھو گے جو قرآن کی طرف بلائیں گے، حالانکہ وہ خود قرآن کو پس پشت ڈال چکے ہوں گے۔ (دارمی)
موصوف کا انداز بھی کچھ ایسے ہی لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔
شبہ خلوت
لکھتے ہیں اس شبہ میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ عورت و مرد کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا سوائے حرام تعلق کے، اور اس کے لیے یقیناً من گھڑت روایات کا سہارا لیا گیا ہے (وغیرہ وغیرہ) جواب شبہ کے تحت سورۃ بقرہ کی آیت ۲۳۵ بمع ترجمہ نقل کرتے ہیں اور پھر تفسیر بالرائے کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں۔
مذکورہ آیت میں وضاحت کی جا رہی ہے کہ مرد و عورت چھپ کر خلوت میں مل سکتے ہیں، اگر بھلائی یا خیر کی بات کرنا چاہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس عورت کا تذکرہ اس آیت میں ہو رہا ہے وہ بیوہ عورت ہے جو عدت گزار رہی ہے۔ اب یقیناً اگر اس نوعیت کی عورت کے لیے چپکے اور خلوت میں بات کرنا جائز ہے۔ تو یقیناً عام عورتوں کے لیے بھی جائز ہو گا۔
مگر میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے جھوٹی بات منسوب کی جو اس آیت کے بالکل خلاف ہے کہ "کبھی بھی مرد و عورت خلوت میں نہیں بیٹھ سکتے، اس لیے کہ شیطان بیچ میں ہوتا ہے ” آگے چل کر سورۃ نور کی برأت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی آیات سے خود ساختہ استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ مرد و عورت کی خلوت میں گناہ کا ہو جانا واجب نہیں (صفحہ۷۳ تا ۷۵)۔
مزید آگے چل کر سورۃ توبہ کی آیت ۷۱ سے تفسیر بالرائے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن مرد و عورت کو ایک رشتہ دیا ہے اور وہ ہے دوستی۔
سورۃ مجادلہ کی آیت ۷کا ترجمہ لکھتے ہیں کہ جب بھی تین سرگوشی کرتے ہیں تو ان کے چوتھے خدا ہوتے ہیں … الی آخرہ
پھر اسی آیت کی تفسیر بالرائے کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں ! قرآن کی تعلیم مثبت تعلیم ہے یعنی اس تصور کو اجاگر کرنا کہ اگر خلوت میں مرد اور عورت ہوتے ہیں تو ان کے تیسرے خدا ہوتے ہیں جبکہ باطل روایت سے ثابت کیا گیا ہے کہ تیسرا شیطان ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۷۶، ۷۷)۔
تحقیقی نظر
موصوف کے قلمی گوہرو موشگافی کے طویل و اکتا دینے والے لیکچروتفسیر بالرائے کے یہ چیدہ چیدہ اقتباسات ہیں۔
موصوف کا عورت فوبیا کا شکار ہو کر اندھا دھند احادیث پر تنقید کرنا اور انہیں من گھڑت قرار دینا، اس بات کی نشاندہی ہے کہ موصوف عذاب الٰہی سے بے خوف ہو کر آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں اور اب وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بس انہوں نے عورت کا دفاع بے جا کرنا ہی مقصد حیات بنا لیا ہے۔
اگر موصوف کو کچھ حیا و ایمان کا پاس ہو تو ذرا بتائیں کہ کس روایت میں لکھا ہے کہ "مرد و عورت کا آپس میں سوائے حرام کے اور کوئی تعلق نہیں ہو سکتا”۔ ایسی روایت کہیں بھی نہیں ہے۔
موصوف نے جس روایت کو بلا دلیل ہی من گھڑت قرار دیا ہے وہ فی الحال ہمیں صحیح ترغیب و ترہیب میں ملی ہے اور صحیح ہے۔
واللہ اعلم موصوف کس طرح بے پیندے کے لوٹے ہیں کہ کبھی تو حدیث کو حجت بنا کر اپنے خودساختہ موقف کے لیے پیش کر دیتے ہیں اور کبھی بلا دلیل ہی کسی روایت حدیث کو جھوٹی، من گھڑت اورمسیحی قرار دے دیتے ہیں۔ گویا حدیث نہ ہوئی گھر کی لونڈی ہو گئی۔ (نعوذ باللہ)
موصوف کا اندازِ تحریر بتاتا ہے کہ جناب گھر میں محترمہ کے سامنے لباس مرداں میں کردار لونڈی ادا کرتے ہوں گے۔ (واھل البیت ادریٰ بما فیہ) موصوف کا ستم دیکھیں کہ اپنے گمراہ کن نظریات کے لیے قرآن کی آیات کو تختہ مشق بنا لیا ہے، کہ قرآن کہتا ہے مرد و عورت چھپ کر مل سکتے ہیں اگر بھلائی یا خیر کی بات کرنا چاہیں۔ نعوذ باللہ من ھذا الفھم، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قرآن کو کیا سے کیا بنا دیا؟
"خود نہیں بدلتے قرآن کو بدل دیتے ہیں ”
چھپ کر خلوت میں مرد و عورت خیر و بھلائی کی کیا بات کریں گے، یہ تو اب موصوف ہی بتلا سکیں گے۔ کہ شاید وہ ایسے تجربے کرتے رہتے ہوں گے۔ وہ کیسی خیر ہو گی جسے غیر محرم مرد کے ساتھ عورت خلوت میں سر انجام دے گی۔ موصوف ذرا اپنے گھر کی خبر لے لیں ایسا نہ ہو "خلوتی بھلائیوں ” کے انبار لگے ہوں۔
موصوف کا سورہ مجادلہ کی آیت سے خودساختہ استنباط بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے یہود و منافقین کو بطور زجر و توبیخ کے متنبہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری (اسلام دشمنی پر مبنی) سرگوشیوں سے غافل نہیں ہے اور بس۔ اس میں مرد و عورت کے خلوت کا ذکر ہی کہاں ہوا ہے ؟
موصوف نے اس آیت کی تفسیر بالرائے سے جو شکل بگاڑی ہے وہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح کفار مکہ کہا کرتے تھے، لو شاء اللہ ما اشرکناولا آباؤنا۔ (سورۃانعام)
یعنی جو کچھ ہم کرتے ہیں اس میں اللہ کی مشیت شامل ہے۔ بالکل یہی انداز جناب "محب زن” کا ہے کہ اپنی ہر حرکت پر وہ قرآن سے دلیل دینا چاہتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔
شبہ کم عقلی
لکھتے ہیں ! اس شبہ میں ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت کم عقل ہے اس لیے اس سے کوئی مشورہ نہ لیا جائے اور نہ اس کی بات کو اہمیت دی جائے، بلکہ اس کو بے عقل ثابت کر کے اس کو جانور کی طرح ہانکا جاتا ہے۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں صاحب عقل ان کو قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اعمال صالحہ اختیار کرتے ہیں۔ جن کو قرآنی اصطلاح میں "اولوالالباب” کہا گیا ہے۔ پھر سورۃ آل عمران کی آیت۱۹۱، ۱۹۰ اور سورۃ رعد کی آیات ۱۹تا ۲۴ بمع ترجمہ نقل کی ہیں۔ اور آگے چل کر لکھا ہے کہ بخاری شریف کے حوالے سے ثابت ہے کہ ہماری ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم و فہم کا سر چشمہ اور مرجع صحابہ تھیں …کیا وہ (معاذاللہ) کم عقل ہو سکتیں تھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۷۸ تا ۸۴)۔
تحقیقی نظر
موصوف بات کو سمجھتے ہی نہیں ہیں، اس لیے بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ کسی بھی صحیح حدیث میں عورت کو (مطلقاً) کم عقل قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی اس سے مشورہ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے جانور کی طرح ہانکنے کا حکم ہے۔ موصوف فقط اپنی چرب زبانی ہی سے جو چاہتے ہیں حدیث پر الزام دھر دیتے ہیں۔ اللہ انھیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔
موصوف نے جس حدیث پر ڈھکے چھپے لفظوں میں اعتراض کیا ہے وہ حدیث صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ وارد ہوئی ہے اور حدیث میں عورتوں کو ناقص العقل کہا گیا ہے نہ کہ بیوقوف وغیرہ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ بھی مردوں کے مقابلے میں کہا گیا ہے اور اس کی وضاحت بھی صحیح بخاری ہی میں اس طرح ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کی شہادت کے برابر قرار دیا گیا ہے اور یہی دلیل ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں ناقص العقل ہے۔ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے اس بات کا ذکر سورۃ بقرہ۲۸۲ میں بھی کیا گیا ہے۔
موصوف کی پیش کردہ آیات کسی بھی طرح اس حدیث کی مخالفت نہیں کرتیں۔ لہٰذا اس حدیث کوکسی بھی طرح من گھڑت اور جھوٹی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فافھم۔
جہاں تک موصوف کا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عاقلہ و فاہمہ لکھنا ہے، تو اس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ مگر یاد رہے یہ فضیلت صحیح بخاری کی حدیث میں ہی وارد ہوئی ہے اور موصوف صحیح بخاری پر بھی معترض رہتے ہیں اس صورت میں جناب کا یہ حدیث بطور حجت پیش کرنا کیسا ہو گا؟۔
ایک خاص عورت کی ثابت شدہ فضیلت سے دیگر عورتوں کو بلا علم و فہم عقل کی ڈگری کا ملہ عطا کرنا جناب کی عقل "سلیم” کا تفرد ہی ہے اور بس۔
شبہ کم دینی
لکھتے ہیں ! اس شبہ میں ثابت کیا گیا ہے کہ عورت کم دین ہی نہیں بلکہ لادین ہے اس لیے کہ وہ "حیض کے ایام” میں نماز و روزہ اور جملہ عبادات کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں (سورۃ شمس کی آیت ۱۰، ۹، ۸، ۷بمع ترجمہ لکھنے کے بعد)۔
غور طلب بات یہ ہے کہ حدیث کا حوالہ دے کر میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو ناقص الدین قرار دیا۔ اس بنیاد پر کہ وہ حیض کے ایام میں نماز و روزہ ادا نہیں کرتی ہیں۔ اس حدیث کے بارے میں محدثین کا اختلاف رہا ہے کہ یہ ضعیف روایت ہے ان میں سے ایک "علامہ جزیری” بھی ہیں۔
آگے چل کر لکھتے ہیں ! غور طلب بات یہ ہے کہ جس چیز میں عورت کا اختیار نہیں بلکہ وہ پیدائشی حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اب یہ کیسے ممکن ہے ؟ اس کو اللہ تعالیٰ اس کی کمی قرار دے دیں۔ اوراس کو اس بنیاد پر ناقص الدین قرار دے دیں یہ شان کریمی اور عدل الٰہی کے منافی ہے۔
لہٰذا اس حدیث کی نفی ہو رہی ہے، اس لیے کہ وہ قرآن کی تعلیمات کے برعکس ہے۔ ویسے بھی ان ایام میں نماز اور روزے سے منع کرنا کتاب وسنت کی واضح دلیل کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ "اجماعِ امت” کی بنیاد پر ہوا ہے۔ (صفحہ:۸۵ تا ۸۷)۔
آخر میں بخاری شریف کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز کھڑے ہو کر پڑھو پھر اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر اشاروں سے پڑھو۔ یعنی کسی بھی حال میں نماز معاف نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۸۹)۔
تحقیقی نظر
جناب نے پھر بلاوجہ خود ساختہ مفہوم حدیث سے کشید کرنے کی مذموم کوشش کی ہے اور لکھا ہے کہ عورت لادین ہے۔ حالانکہ یہ صرف اور صرف جناب کا حدیث پر الزام ہے۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا "جو مجھ پر جھوٹ گھڑے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ ” (صحیح بخاری)
اب موصوف اپنا فیصلہ خود ہی فر ما لیں۔
صحیح بخاری شریف میں اس مسئلہ میں صرف اس قدر ذکر ہوا ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کا دین ناقص ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایام حیض میں نماز و روزہ کی عبادت سر انجام نہیں دیتی۔
(دیکھئے صحیح بخاری: کتاب الحیض)
جناب کا بلا دلیل ہی اس حدیث کو اور حدیثوں کی طرح ضعیف قرار دینا بھی عجیب منطق ہے کیونکہ کسی بھی محدث نے اسے ضعیف قرار نہیں دیا اور دیتے بھی کیسے کہ یہ تو صحیح بخاری کی حدیث ہے جس کی صحت پر اجماع ہو چکا ہے۔
"علامہ جزیری” کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟ یہ بھی جناب کے ذمے ہے کہ وہ ان کی مجہول الحالی کو ختم کریں اور پھر ان کی کتاب سے صحیح بخاری کی اس حدیث کا ضعف ثابت کریں۔
جہاں تک موصوف کا یہ لکھنا ہے کہ! ایام حیض میں نماز روزے سے منع کرنا کتاب وسنت کی واضح دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اجماع امت کی بنیاد پر ہے۔
ہمارے خیال میں شاید یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ اور فریب ہے جو جناب کی نوک قلم سے تحریر ہوا ہے اور پندرہ سو سال میں جناب ہی ایسے شخص ہیں جنہیں اس جھوٹ کی توفیق ہوئی۔ احادیث دشمنی میں اتنی جسارت تو کبھی منکرین حدیث نے بھی نہیں دکھلائی۔ فیاللعجب
موصوف تو شاید حیا نہ کریں مگر ان کے حواریوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم ان کے دام فریب میں آ کر اپنی دنیاو آخرت خراب نہ کریں۔ جناب دیدہ دانستہ ہی احادیث دشمنی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ورنہ تو جس صحیح بخاری شریف کے وہ دوسروں کو حوالے دیتے رہتے ہیں اسی میں حائضہ کے منع صیام و صلاۃ کے دلائل موجود ہیں۔ اگر موصوف پیش کریں تو حوالہ صحیح، اور حجت ہم پیش کریں تو غیر صحیح اور عدم حجت۔ آخر کس دلیل سے ؟
صحیح بخاری میں باب ہے "ترک الحائض الصوم”(حائضہ کا روزہ ترک کرنا) اس باب کے تحت مرفوع حدیث موجود ہے کہ حائضہ اپنے مخصوص ایام میں نماز و روزہ چھوڑ دیتی ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری کتاب الحیض)
اسی طرح صحیح بخاری ہی میں باب ہے "لاتقضی الحائض الصلاۃ” (حائضہ (چھوڑی ہوئی) نماز کی قضا نہیں دے گی۔ ) اور اس کے تحت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک عورت (معاذہ) سے مناقشہ ذکر ہوا ہے۔ جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے (چھوڑی ہوئی ) نماز کی قضا کا حکم ہی نہیں دیا۔
صحیح بخاری ہی میں یہ حدیث "کتاب الحیض "میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ آنے کا حکم دیا اور انہیں نماز کی (مخصوص)جگہ سے علیحدہ رہنے کا حکم بھی دیا۔ یہ بھی دلیل ہے کہ ان ایام میں عورتیں نماز ادا نہیں کریں گی۔
نیز معلوم ہونا چاہیے کہ نماز سے قبل طہارت (وضو اور ضرورت ہو تو غسل کرنا) فرض ہے بلا طہارت نماز نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے جنبی (مرد و عورت) کو نماز سے قبل غسل (طہارت) کا حکم دیا ہے۔ (دیکھئے سورہ مائدہ آیت نمبر۶)
اسی طرح حیض کے ایام کے اختتام پر بھی عورتوں کو غسل (طہارت) کا حکم دیا ہے۔
(دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲۲۲)
ان دونوں آیتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حالت جنابت دور کرنے کے لئے طہارت اختیار کرنا حکم الٰہی ہے اور اسی طرح ایام حیض کے اختتام پر عورتوں کا غسل کرنا حکم الٰہی کی تعمیل ہے۔ جنابت کا لفظ وسیع معنی و مفہوم کا حامل ہے۔ ایام حیض سے گذرنے والی عورت بھی جنابت کی حالت ہی میں ہوتی ہے۔ کیا اس صورت میں قبل از غسل نماز ہو جائے گی؟ نہیں کیونکہ سورہ مائدہ میں نماز کے لیے یہ شرط بیان ہوئی ہے کہ جنابت کو دور کرو۔ فافھم۔
یہ بھی یاد رہے کہ ماہانہ ایام کی تکمیل پر ہی عورت کا غسل کرنا باعث طہارت ہو گا اس سے قبل وہ سارادن غسل کرتی رہے تو پھر بھی معنوی طور پر پاک نہیں ہو گی۔ لہٰذا یہ مانے بغیر چارہ ہی نہیں کہ قرآن و سنت ہی کی منشاء ہے کہ نماز حالت طہارت میں ہو اور حالت جنابت و حیض طہارت کی حالت نہیں۔ لہٰذا یہ حکم کہ عورتیں ہر حال میں نماز پڑھیں، قرآن و سنت کے منافی ہے اور اس حکم کے قائل پر”کفر” تک فتویٰ لگایا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
اس تفصیلی بحث سے یہ معلوم ہو گیا کہ ماہانہ ایام میں عورتوں کا نماز و روزہ سے اجتناب کرنا عین منشاء قرآن اور سنت صحیحہ ہے اور اسی پر امام نووی و ابن المنذر وغیرہ نے اجماع نقل کیا ہے۔ کما فی نیل الاوطار۔
موصوف اسی حرکت سے دشمن سنت کے ساتھ ساتھ محرف قرآن بھی قرار پاتے ہیں۔ کیا موصوف کے ہاں ایام حیض میں ہم بستری بھی جائز ہے ؟ نعوذ باللہ من ذلک۔
اگر ہاں تو دلیل کیا ہے ؟ اور اگر نہیں تو کیوں ؟ یاد رہے اگر قرآن کا حوالہ دیں گے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ ان ایام میں عورت معنوی طور پر ناپاک ہوتی ہے اور جب یہ ثابت ہو جائے گا تو حکم نماز خود قرآن کی روشنی میں اس سے منتفی ہو جائے گا۔
ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ جناب چونکہ آج کل کٹر "حنفی دیوبندی” بنے ہوئے ہیں اسی لئے وہ نادانستہ طور پر اپنے اکابر جناب اشرف علی تھانوی کے نقش قدم پر چل گئے ہیں۔ جنہوں نے لکھا تھا کہ اگر دوران پیدائش بچہ، عورت ہوش میں ہو تو اس پر اس حالت میں بھی نماز فرض ہے۔ (بہشتی زیور)۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس قسم کے فتنوں کے ظہور کا پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا۔ (دیکھئے ارواء الغلیل جلد نمبر۱)
موصوف عورتوں کی (خود اپنے زعم میں ) توہین برداشت نہیں کر سکتے مگر افسوس کہ انہیں بیسیوں حدیثوں کا انکار کر کے جہنم و کفر کی دلدل میں جانا منظور ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آخر میں جناب نے بلاوجہ بخاری شریف کا حوالہ دے کر (کہ نماز ہر حالت میں پڑھنی ہے ) اپنی کتاب کا وزن بڑھایا ہے۔ کیونکہ سیدھی سی بات ہے کہ اگر صحیح بخاری کی احادیث حجت ہیں تو ساری ہی حجت ہیں اور ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جنہیں حائضہ کے منع صیام و صلاۃ کا ذکر ہے۔ اور اگر حجت نہیں ہیں تو پھر ان کا حوالہ لکھنا فضول ہے۔ یا پھر جناب پہلے ان حدیثوں میں چھانٹی کر کے (اپنے خود ساختہ اصول پر) حجت و قابل عمل حدیثوں کو نا قابل حجت و عمل حدیثوں سے علیحدہ کر لیں اور ایک کتاب ترتیب دلوا لیں۔ (کیونکہ خود جس طرح سرقہ سے کام لیتے ہیں وہ ہمیں معلوم ہے )۔ اور پھر ذرا انکار حدیث کے میدان میں اتریں۔ ہم منتظر رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔
شبہ مارنا
لکھتے ہیں ! اس شبہ میں عورت کو مارنے کا جواز نکالا گیا ہے۔ یہ کہہ کر کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اس لئے اب اس کو مار کر صحیح کیا جا سکتا ہے۔ (یعنی جانوروں جیسا برتاؤ)۔
پھر سورۃ نساء کی آیت نمبر ۳۴ بمع ترجمہ کے نقل کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے مارنے کاجواز لیا جاتا ہے۔ (صفحہ:۹۰)۔
آگے چل کر تفسیر بالرائے اور الفاظ قرآن کی معنوی تحریف کرتے ہوئے آیات قرآنی میں محکم اور متشابہ کی بحث کی ہے اور سورۃ آل عمران کی آیت نمبر۷ اس ضمن میں بمع ترجمہ پیش کی ہے۔
پھر لکھتے ہیں "متشابہہ” یعنی ایک سے زیادہ مفہوم والی آیتیں ہیں اب ہم پر چھوڑا گیا ہے کہ ہم کس آیت کو کس انداز سے لیتے ہیں۔ مگر پیمانہ حق یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں کی تشریح کرتے وقت تین بنیادی باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔
۱…اللہ تعالیٰ کی ذات عالیہ پر کوئی آنچ نہ آئے۔
۲…میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ پر کوئی آنچ نہ آئے اور تمام انبیاء کی تقدس اور عصمت پر کوئی حرف نہ آئے۔
۳…دین اسلام جو خدائی دین ہے اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔
پھر سورہ نساء میں وارد لفظ "واضربو ھن” کے صیغہ ماضی "ضرب” کے تین معانی بیان کرتے ہیں۔
۱…”ضرب” مطلب (مارنا)۔ دلیل۔ (سورۃ طہٰ آیت ۷۷)
۲……”ضرب” مطلب (مثال بیان کرنا)۔ دلیل ۔ (سورۃ کہف آیت ۳۲)
۳……”ضرب” مطلب (زمین میں دور نکل جانا)۔ دلیل۔ (سورۃ النساء آیت ۱۰۱، ۹۴) (صفحہ:۹۲ تا ۹۵)
اس تفصیل کے بعد سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۴ کی طرف واپس آتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:
اور جن عورتوں کے بارے میں تمہیں خدشہ ہو کہ وہ تمہارے حقوق ادا نہیں کر رہی تو ان کو پہلے وعظ و نصیحت سے سمجھاؤ اگر نہ سمجھے تو دوسرے مرحلے پہ ان کے ساتھ سونا چھوڑ دو۔ پھر اگر نہ سمجھے تو تیسرے مرحلے پر ان سے مکمل دوری اختیار کر لو۔ یعنی گھر چھوڑ کے چلے جاؤ یا ان کو اپنے گھر بھجوا دو۔ (صفحہ:۹۷)
بخاری شریف کی روایت "کتاب الادب” میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” اللہ کی بندیوں کومت مارو”! آخر میں رقم طراز ہیں۔ مارنا کتنا افسوس ناک غیرانسانی عمل ہے جس کو دین کا لبادہ دے دیا گیا ہے۔ (صفحہ:۹۸۔ ۱۰۰ دیکھئے )۔
تحقیقی نظر
عورت کا پسلی سے پیدا ہونا تو حدیث سے ثابت ہے۔ (صحیح بخاری دیکھئے کتاب النکاح)
اسی حدیث میں ذکر ہے کہ اس (ٹیڑھی پسلی) کو سیدھا کرنا چاہو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اسی حالت میں فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا لو گے۔ اب موصوف کا اس حدیث پر غصہ دشمنی حدیث کی غمازی ہے اور پھر جناب معنی مفہوم بدل کر حدیث کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ جناب نے مارنا اور جانوروں جیسا برتاؤ بھی (نعوذ باللہ) حدیث کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ معاذ اللہ۔
جناب کی حرکت (انکار حدیث) سے قرآن بھی محفوظ نہیں رہ سکتا جس کی مثال موصوف کی زیر نظر تحریر میں نظر آ رہی ہے۔ پہلے حدیث کا انکار کیا کہ اس میں عورتوں کو (تادیباً) مارنے کا ذکر ہوا ہے اور پھر جب یہی (تادیبی ضرب) قرآن سے ملی تو جناب نے اس کی معنوی تحریف کر کے مفہوم ہی بدل ڈالا۔ اگر عربی الفاظ کی وسعت ہی کا ہر جگہ فائدہ اٹھایا جائے تو پھر قرآن کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہر لفظ کے کئی کئی معانی لئے جا سکتے ہیں پھر نہ نماز رہے گی اور نہ روزہ۔
پندرہ سو سال کے عرصے میں یہ تفسیر فقط موصوف ہی کو سوجھی ہے کسی بھی معتبر تفسیر میں "واضربوھن” کی یہ تأویل نہیں ملے گی۔ اور جو معنی آج تک لیا گیا ہے اس میں نہ تو اللہ تعالیٰ پر کوئی حرف آتا ہے نہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم و دیگر انبیاء پر اور نہ ہی دین اسلام پر، نہ جانے جناب کیوں اس معنی کے دشمن ہو رہے ہیں۔ جو مثالیں جناب نے بیان کی ہیں ان سب میں "ضرب” کا اصل معنی "مارنا” ہی ہے تفصیل امہات التفاسیر کی کتب میں دیکھیں۔
جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ضرب سے مراد ایسی ضرب ہے جو سخت تکلیف پر مبنی نہ ہو۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ سیدنا ایوب علیہ السلام کے قصہ میں بھی "خذ بیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث” وارد ہوا ہے جس کا معنی ضرب کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔ (دیکھئے سورۃص بمع تفسیر)
احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ فقط تأدیبی ضرب ہے اور بس۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے "صحیح بخاری” میں باب قائم کیا ہے کہ "عورتوں کو مارنا مکروہ ہے ” اور پھر سورۃ نساء کی آیت "واضربو ھن” کی تفسیر ضرباً غیر مبرح سے کی ہے اور پھر اس باب کے تحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ "کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے "۔ (کتاب النکاح)
اس سے بھی تادیبی ضرب ہی ثابت ہوتی ہے اور یہی شریعت کا منشاء ہے۔ جناب نے جو کچھ لکھا ہے وہ قرآن و سنت کے منافی ہے۔ اگر موصوف حدیث ہی سے استدلال کر کے تادیبی ضرب کے خلاف لکھ سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ قرآن و سنت اور اجماع امت سے تادیبی ضرب کیوں ثابت نہیں ہوتی۔ فافھم۔
شبہ کنیز
لکھتے ہیں ! اس شبہ میں عورت کو باندی اور لونڈی ثابت کیا گیا ہے جو کہ تذلیل و تحقیر کی سنگین ترین شکل ہے۔ مگر کاش بات یہاں تک رک جاتی لیکن شریعت کی تمام حدیں پارکر کے دین اسلام پر ناقابل معافی عظیم بہتان لگایا کہ لونڈی، باندی یا کنیز کے ساتھ جنسی تعلق بغیر نکاح کے جائز ہے۔ یعنی زناکوجائز قرار دے دینا۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں : کتاب و سنت کی روشنی میں مرد و عورت کا جنسی تعلق صرف نکاح کے بعد ہی جائز ہے اس کے علاوہ کسی حال میں بھی جائز نہیں، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس ناجائز عمل کو جائز قرار دے دیا۔ (صفحہ:۱۰۱)۔
پھر سورۃ نساء کی آیت نمبر۴ اور ۲۵ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں۔
آگے چل کر جناب نے خلط مبحث کرتے ہوئے تفسیر بالرائے سے لکھا ہے کہ سورۃ مومنون میں "والذین ھم لفرو جھم حافظون” سے مراد کشادگیاں ہے اور لہٰذا اس آیت کا ترجمہ یوں ہو گا ” اور جو اپنی کشادگیوں کی حفاظت کرتے ہیں "… یعنی جو ” رزق کشادہ” اللہ نے انہیں دیا ہے وہ اپنی بیویوں اور ماتحتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہی وہ عظیم کردار ہے جو انسانی معاشرے کو مطلوب ہے کیا ضروری ہے کہ ہم ہر چیز کو جنس پر لے جا کر ختم کریں ؟
پھر مزید لکھتے ہیں !
اگر کنیز یا باندی رکھنا اور اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا جائز تھا تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے کیوں نہ اپنایا؟ (صفحہ:۱۰۶۔ ۱۰۷)۔
چھٹی دلیل کا عنوان قائم کر کے رقم طراز ہوتے ہیں :
"ملک یمین” سے مراد اگر کنیز یا لونڈی لیا جائے تب بھی ان سے کوئی جنسی تعلق قائم کرنے کے لئے قرآن کے حکم کے مطابق "نکاح” کرنا ضروری ہے۔ (سورۃ النساء آیت ۲۵)۔
تحقیقی نظر
موصوف جناب حافظ مدنی صاحب نے اس شبہ میں کھل کر اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرح کھل کر ہی آیات کی تحریف معنوی کی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ ساتھ ہی بازاری زبان استعمال کر کے اپنے خاندانی مقام و مرتبہ کو بھی بیان کیا ہے۔ جناب کی موشگافیوں پر تحقیقی نظر حسب ترتیب ملاحظہ کیجئے۔
کیا واقعی لونڈی و کنیز ہونا تذلیل و تحقیر پر مبنی ہے ؟ دلیل کیا ہو گی؟
جناب غیر محرم مردو عورتوں کی "چھپی خلوتوں ” کے دلدادہ ہیں۔ انہیں جنسی تعلق کے زنا ہونے کا یقین کیسے آ گیا؟ لونڈی سے جنسی تعلق کو کس آیت میں یا کس سنت کی روایت میں زنا سے تعبیر کیا گیا ہے ؟ کیا جناب نے بے غیرتی و بے حیائی کی انتہاء کرتے ہوئے قرآنی آیات اور فرامین نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کو خیر باد کہہ کر "زنا” کا حکم لگایا ہے۔ ماضی بعید میں یہ حکم کس کس پر لگے گا؟ شاید جناب نے اپنے تمام روحانی آباء و اجداد اور امہات کو زانی قرار دے دیا ہے۔ اب جناب خود کس طرح ان کے روحانی فرزند ہونے کا دعویٰ کریں گے ؟ نعوذ باللہ من ھذہ الھفوات۔ استغفراللہ۔
کسی گھٹیا ترین پرویزی نے بھی آج تک اتنی بڑی جسارت نہیں کی، موصوف عورت کی محبت میں اندھے ہو کر کیا کیا ہذیان بک رہے ہیں، انہیں کچھ خبر نہیں یا پھر جہنم میں کودنے کو تیار ہو چکے ہیں۔ جناب پندرہ سو سال پیچھے جا کر اس مسئلہ کو کیسے سلجھا سکتے ہیں ؟ یقیناً نہیں سلجھا سکتے تو پھر یہی معنی ہوا کہ جناب آج موجودہ دور میں لوگوں کو قرآن کی غلط سلط تاویل دکھا کر منکر حدیث بنانا چاہتے ہیں آخر کیوں ؟ جبکہ وہ خود احادیث بھی پیش کرتے ہیں ؟ اس تضاد بیانی سے وہ کیا کارنامہ سرانجام دینا چاہتے ہیں ؟اور یہ بھی جناب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج مسئلہ لونڈی و غلام عملی طور پر مفقود ہو چکا ہے فقط کتابوں تک ہی محدود ہے۔ پھر یہ شور شرابہ کیا معنی رکھتا ہے ؟
جناب کسی آیت یا اپنی خود ساختہ سنت سے ثابت کریں کہ مالک اور لونڈی کا باہم متمتع ہونا جائز نہیں ہے فقط ہوائی فائرنگ نہ کریں۔
باقی رہا سورۃ النساء سے لونڈی کے نکاح اور حق مہر پر استدلال تو یہ سراسر تجاہل عارفانہ ہے کیونکہ اس میں اپنی لونڈی کی بات نہیں ہو رہی۔ بلکہ دوسرے کی لونڈی کی بات ہو رہی ہے۔ فافھم۔
اسی طرح موصوف کا "فروج” کو "کشادگیاں ” قرار دے کر "رزق کی کشادگی” ثابت کرنا بھی بلا دلیل و برہان ہے اور استہزاء بالقرآن بھی ہے جس کی سزا کفر کی صورت میں ملتی ہے۔ قد کفر تم بعد ایمانکم۔
عجیب الٹی گنگا بہانے کی کوشش ہے۔ قرآن حفاظت کا کہتا ہے جس کا معنی ہے سنبھال کر رکھنا اور جناب اسے خرچ کروا رہے ہیں ؟ نہ جانے جناب نے ایسی کتنی "کشادگیاں ” خرچ کرائی ہوں گی کہ جناب کے بقول یہی معاشرے کو مطلوب ہے۔
یہ بھی عجیب تماشہ ہے کہ کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا اور جب کہیں سے جواب ملا تو لکھ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے "ماریہ قبطیہ” سے بھی نکاح ہی کیا تھا۔ مگر حوالہ "صحیح حدیث ” کا نہیں دیا۔ کیوں ؟
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے "ملک یمین” لونڈی کا ذکر تو سورۃ احزاب وغیرہ میں موجود ہے۔ مگر حدیث کے دشمنوں کو یہ کیوں اور کیسے نظر آئے ؟
آخر میں پھر سورہ النساء کی آیت ۲۵ کا ذکر کے لکھا ہے کہ "لونڈی” سے بھی نکاح مع مہر ہی ضروری ہے، متمتع ہونے کے لئے (مفہوماً)۔
اس پر تفصیلی جواب ملاحظہ کیجئے۔
لونڈیوں سے تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
۱…جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کر دے چاہے ان سے فدیہ لے چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے، جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے تو انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔
۲…جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے، اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو لے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔
۳…جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو۔ بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔
۴…جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو، اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دیدے تو پھر مالک کو اس سے دوسری خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے، لیکن جنسی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔
۵…جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پرچار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پرنہیں لگائی۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقر ر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنالیں۔ بلکہ در حقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔
۶…حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا، وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔ (تفہیم القرآن ملخصاً)۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لونڈیوں کا مسئلہ بھی در اصل تعدد ازواج کا تتمہ ہے۔ چنانچہ وہی سورہ نساء کی آیت ۳ جو تعدد ازواج کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ لونڈیوں کی اباحت پر بھی دلالت کرتی ہے۔ اس آیت کا آخری ٹکڑا یوں ہے : فَاِنْ خِفْتمْ اَلآَ تَعْدِلوْا فَوَاحِدَۃ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانکمْ ط
اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان بیویوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی کافی ہے یا پھر جو تمہاری لونڈیاں ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام سے پیشتر عرب کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی غلام اور لونڈیوں کی عام تجارت ہوتی تھی اور اسلام نے اسے بتدریج کم کرنے کے اقدامات کئے ہیں اور احادیث میں آزاد آدمی کو غلام بنانے اور اس کی خریدو فروخت پر سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ "جو شخص کسی آزاد آدمی کو غلام بنائے اس کے خلاف قیامت کو میں خود استغاثہ کروں گا” (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ)
مگر جہاں تک جنگی قیدیوں کے غلام یا لونڈی بنانے کا تعلق ہے۔ اس کے جرم یا حرام ہونے کے متعلق ہمیں کوئی نص قطعی نہیں مل سکی۔ بلکہ اس کی تائید میں کئی آیات مل جاتی ہیں۔
یٰٓاَیّھا النَّبِیّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ ٰاتَیْتَ اجوْرھَنَّ وَ مَا مَلَکَتْ یَمِیْنکَ مِمَّآ اَفَآءَ اللہ عَلَیْکَ (احزاب)
اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! ہم نے تمہارے لئے تمہاری وہ بیویاں بھی حلال کر دی ہیں جن کے حق مہر آپ ادا کر چکے ہیں اور تمہاری وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے تمہیں کفار سے مال غنیمت کے طور پر دلوائی ہیں۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگی قیدیوں میں سے حاصل ہونے والی لونڈیاں جو حکومت کی وساطت سے ملتی ہیں۔ ان کا حق مہر کچھ نہیں ہوتا اور وہ حلال ہوتی ہیں۔ اب اگر یہ لونڈیوں کا جواز اسلام کے چہرہ پر اتنا ہی بدنما داغ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی اجازت کیوں دی جو ساری امت کے لئے اسوہ حسنہٴ ہیں؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر اسلام کی نگاہ میں لونڈی غلاموں کا وجود ایک مذموم فعل ہے تو اسے حکماً بند کیوں نہ کیا گیا۔ تو میرے خیال میں اس کی درج ذیل وجوہ ہو سکتی ہیں۔
۱…رخصت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ اور رحمت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رحمۃ للعالمین تھے اور وہ اس طرح لونڈی اور غلام بنانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود جنگ خیبرمیں ایسا موقع بن ہی گیا۔ تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ تا قیامت مسلمانوں کو اب کوئی واقعہ پیش آہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اللہ کی طرف سے اس رخصت کو مطعون کرنے کے بجائے اس کا انعام ہی سمجھنا چاہیے۔ اب اگر اس رخصت سے مسلمان ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یا کوئی اسلام دشمن اس رخصت کو غلط جامہ پہنا کر لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا چاہتا ہے تو اس میں اسلام کاکیا قصورہے۔
۲…غلام اور لونڈیوں سے فائدہ حاصل کرنا بھی ایک رخصت ہے۔ حکم نہیں اب اگر آج کے دور میں اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تو اس رخصت سے زندگی بھر فائدہ نہ اٹھانے سے دین میں کون سی کمی آ جائے گی۔
۳…ان دنوں محکمہ جیل یا جیل کے لئے بڑے احاطے اور اس کا انتظام تو تھا نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے بغیر کوئی دوسرا چارہ بھی نہ تھا۔ اور جب مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا تو پھر فحاشی کا ایک نیا باب کھلنے کا امکان تھا۔ اس امکان سے روکنے کے لئے ان سے تمتع کی بھی اجازت دی گئی۔ پھر اس تمتع پر بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
مگر آج کے دور میں اس طرح تقسیم کی ضرورت نہیں رہی۔ آج حکومتوں کے پاس ایسے کیمپوں کے انتظامات موجود ہیں، جن میں ہزاروں قیدیوں کی رہائش کا بندوبست ہوتا ہے۔ ایسے کیمپوں میں اگر مرد و زن کی آزادانہ اختلاط کی روک تھام کا بندوبست کر دیا جائے، تو پھر مسلمانوں میں تقسیم کی ضرورت ہی پیش نہیں آ سکتی۔ اور ایسے قیدیوں کو اس وقت تک ان کیمپوں میں رکھا جائے گا جب تک باہمی تبادلہ کی شکل یا کوئی اور با عزت حل نہ نکل آئے۔
جہاد قیامت تک کے لئے فرض ہے اور جنگ میں ہر طرح کے حالات متوقع ہوتے ہیں۔ اور صاف بات تو یہ ہے کہ اسلام فحاشی کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتا۔ اس فحاشی کے سدباب کے لئے لونڈیوں سے تمتع کی رخصت دی گئی ہے اور اس پر کلیتاً پابندی عائد کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہی نہ تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (آئینہ پرویزیت)
مگر! یاد رہے کہ: اسلام فاتح فوجیوں کو قیدی عورتوں کی عصمت دری کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ جیسا کہ عام دنیا کا دستور ہے کہ فاتح فوجیوں کو مقبوضہ علاقوں کی عورتوں یا قیدی عورتوں سے تمتع کی کھلی چھٹی دی جاتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے فاتح فوج کا ایسا فعل بھی بلاشبہ زنا میں شامل ہے۔ ہاں اگر اسلامی حکومت کی وساطت سے قیدی عورتیں فاتح فوج میں تقسیم کی جائیں تو اسی کا نام مِلک یمین ہے اور یہی نکاح کی دوسری شکل بن جاتی ہے۔ اس میں حق مہر بھی نہیں ہوتا اور مالک اپنی ملک یمین سے تمتع بھی کر سکتا ہے۔ ہاں اگر حاملہ ہو تو جب تک وضع حمل نہ ہو اس سے صحبت نہیں کر سکتا۔ پھر اگر وہ لونڈی مالک سے صاحب اولاد ہو جائے تو مالک کی وفات کے بعد از خود آزاد ہو جاتی ہے۔ اور اگر کوئی اسے فوراً آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو یہ باعثِ اجرو ثواب ہے۔ (آئینہ پرویزیت)۔
کنیز کی تعریف اور اس کے حلال ہونے کی دلیل
سوال: قرآن مجید نے کنیز کی کیا تعریف بیان کی ہے ؟ اور کنیز کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل کیا ہے ؟
جواب: قرآن میں کنیز کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ "وہ عورت جو زورِ بازو سے حاصل ہو” اور چونکہ قرآن مجید زور بازو کے استعمال کو صرف قتال فی سبیل اللہ تک محدود رکھتا ہے اس لئے قرآن مجید کی تعریف کی رو سے کنیز صرف وہ عورت ہے، جو راہ خدا کی جنگ میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
یہ تعریف اور ایسی عورت کے حلال ہونے کی دلیل اس آیت میں ہم کو ملتی ہے :
حرِّمَتْ عَلَیْکمْ امّھَٰتکمْ وَبَنَاتکمْ وَ اَخَوَاتکمْ وَعَمّٰتکمْ وَ خَاٰلتکمْ وَ بَنٰت الْاَخِ وَبَنٰت الْاخْتِ وَ امّھَٰتکم الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکمْ وَ اَخَوَاتکمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃ وَ امّھَٰت نِسَآئِکمْ وَ رَبَآئِبکم الّٰتِیْ فِیْ حجوْرِکمْ مِّنْ نِّسَآئِکم الّٰتِیْ دَخَلْتمْ بھِِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکوْنوْا دَخَلْتمْ بھِِنَّ فَلَا جنَاحَ عَلَیْکمْ وَ حَلَآئِل اَبْنَائِکم الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکمْ وَ اَنْ تَجْمَعوْا بَیْنَ الْاخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللہَ کَانَ غَفوْرًا رَّحِیْمًا وَّ الْمحْصَنٰت مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانکمْ (سورۃ النساء آیت نمبر ۲۲۔ ۲۳)
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں۔ اور تمہاری بیبیوں کی مائیں اور تمہاری بیبیوں کی بیٹیاں جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں، ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں۔ اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں، اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایکساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہو چکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑا رحمت والا ہے۔ اور وہ عورتیں جو کہ شادی شدہ ہوں ما سوا ان عورتوں کے جن کے مالک ہوئے تمہارے سیدھے ہاتھ۔
سیدھا ہاتھ عربی میں قدرت، غلبہ و قہر اور زورِ بازو کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ یہ بجائے خود کنیز کی مذکورہ بالا تعریف کے حق میں کافی دلیل ہے۔ اس پر مزید یہ دلیل ہے کہ وہ شادی شدہ عورت جس کو اس آیت میں حرمت کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، بہرحال وہ عورت تو نہیں ہو سکتی جس کا نکاح دارالاسلام میں ہوا ہو، کیوں کہ آیت کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ وہ ان محصنات میں شامل ہے جو حرِّمَتْ عَلَیْکم کے تحت آتی ہیں۔ اس لئے لا محالہ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانکمْج سے مراد وہی شادی شدہ عورتیں ہوں گی جن کے نکاح دار الحرب میں ہوئے ہوں اور پھر وہ جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔
رہی ان کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل، تو وہ یہ ہے کہ اول تو مذکورہ بالا آیت میں جن شادی شدہ عورتوں کو حرام کیا گیا ہے، ان سے وہ عورتیں مستثنیٰ کر دی گئی ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ پھرا س کے بعد فرمایا:
﴿ وَ احِلَّ لَکمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکمْ اَنْ تَبْتَغوْا بِاَمْوَالِکمْ مّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مسَافِحِیْنَط ﴾
"اور حلال کیا گیا تمہارے لیے ان کے سوا دوسری عورتوں کو اس طور پر کہ تم ان کو اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو، قید نکاح میں لانے والے بن کر، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرتے ہوئے "۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملک یمین میں آئی ہوئی عورتوں کو مہر دے کر نکاح میں لانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس کے بغیر ہی حلال ہیں۔
اس معنی پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے :
قَدْاَفْلَحَ الْمؤْمِنوْنَ الَّذِیْنَ ھمْ فِیْ صَلَا تھِِمْ خٰشِعوْنَ … وَالَّذِیْنَ ھمْ لِفروْجھِِمْ حٰفِظوْنَ اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجھِِمْ اوْ مَا مَلَکَت اَیْمَانھمْ فَاِنّھَمْ غَیْر مَلوْمِیْنَ
فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں … اور جو اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے، کیونکہ بیویوں اور لونڈیوں سے محفوظ نہ رکھنے پر وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ (سورہ المومنون آیات نمبر ۱۔ ۶)
اس آیت میں اہل ایمان کے لئے دو قسم کی عورتوں سے تعلق شہوانی کو جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک ان کی ازواج۔ دوسرے مَا مَلَکَت اَیْمَانھمْ ازواج سے مراد تو ظاہر ہے کہ منکوحہ بیویاں ہیں۔ اب اگر مَا مَلَکَت اَیْمَانھمْ بھی منکوحہ بیویاں ہی ہوں تو ان کا ازواج سے الگ ذکر سراسرفضول ٹھہرتا ہے۔ لا محالہ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سے محض ملک یمین کی بنا پر تمتع جائز ہے۔
(بحوالہ رسائل و مسائل: ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ء)
تعداد ازواج اور لونڈیاں
سوال: حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لئے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں :
وَ اِنْ خِفْتمْ اَلآَ تقْسِطوْا فِی الْیَتٰمیٰ فَانْکِحوْا مَا طَابَ لَکمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنیٰ وَثلٰثَ وَ ربٰعَ فَاِنْ خِفْتمْ اَلآَ تَعْدِلوْا فَوَاحِدَۃ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانکمْ
(سورہ النساء آیت نمبر۳)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو، اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بیویوں کے متعلق تو تعداد کی قید ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار بیویاں کی جا سکتی ہیں، لیکن لونڈیوں کے ساتھ تعلقات زن و شوئی قائم کرنے کے بارے میں ان کی تعداد کے متعلق کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ جنگ کے زمانہ میں جو عورتیں پکڑی ہوئی آئیں گی، ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا، اس لئے لونڈیوں سے تمتع حاصل کرنے کے متعلق بھی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا۔
تو میں یہ عرض کروں گا کہ بے شک یہ صحیح ہے اور اس لحاظ سے یہ تعین بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ایک مسلمان کے حصے میں کتنی لونڈیاں آئیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے حصہ میں دس آئیں اور دوسرے کے حصہ میں بیس۔ لیکن جہاں تک ان لونڈیوں سے تمتع کا تعلق ہے، اس کا تعین تو بہرحال ہو سکتا تھا، کہ ایک شخص کے پاس لونڈیاں چاہے کتنی ہی ہوں، وہ ان میں سے صرف ایک یا دو سے تمتع کر سکتا ہے، جیسا کہ بیویوں کی صورت میں تحدید ہے۔
اس آزادی کے ہوتے ہوئے ایک شخص نہ صرف یہ کہ مال غنیمت میں حصہ کے طور پر بہت سی لونڈیاں حاصل کر سکتا ہے، بلکہ وہ ان کی جتنی تعداد چاہے خرید بھی سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک نفس پرست سرمایہ دار کے لئے کھلا ہوا موقع ہے کہ وہ جتنی لونڈیاں چاہے خریدے اور ہوس رانی کرتا رہے۔ لونڈیوں سے بلا تعین تعداد، تمتع کرنے کی کھلی ہوئی اور عام اجازت دینے کی وجہ سے معاشرہ کے اندر وہی خرابی داخل ہو جاتی ہے، جس کو اسلام نے زنا کہہ کر سخت سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہی سبب تھا کہ جوں جوں مسلمانوں کی سلطنتیں وسیع ہوئیں اور ان کی دولت میں اضافہ ہوا، مسلم سوسائٹی میں رجم کی سزا کے جاری ہونے کے باوجود ہوس رانی بڑھتی گئی۔ کوئی قانون ایسا نہ تھا، جو اس خرابی کا انسداد کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم خلفائے بنو امیہ اور بنو عباسیہ کے حرم میں لونڈیوں کے غول کے غول پھرتے دیکھتے ہیں اور پھر تاریخوں میں ان ذلیل سازشوں کا حال پڑھتے ہیں، جو لونڈی غلاموں کے ذریعے پروان چڑھتی تھیں۔
پس میری رائے یہ ہے کہ اگر لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت بھی بہ تعین تعداد ہوتی تو مسلم معاشرہ میں وہ مفاسد اور نفس پرستیاں نہ پیدا ہوتیں، جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ بہرحال ارشاد فرمایا جائے کہ شارع نے کن وجوہ و مصالح کی بنا پر لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دیتے ہوئے تعداد کا تعین نہیں کیا؟
اسی ضمن میں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر لونڈی مشترکہ ہو تو کیا اس کے ساتھ تمتع جائز ہے ؟
جواب[i]: آیت وَاِنْ خِفْتمْ اَلَّا تقْسِطوْا فِی الْیَتَامیٰ پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن میں نوٹ لکھ چکا ہوں۔ اس کے اعادے کی حاجت نہیں۔ آپ اسے ملاحظہ فرمائیں۔ جہاں تک خود اس آیت کی تفسیر کا تعلق ہے، اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور صحابہ و تابعین سے منقول ہیں۔ مثلاً ایک معنی یہ بھی ہیں، کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ یوں انصاف نہیں کر سکتے تو ایسی عورتوں سے نکاح کر لو جن کے شوہر مر چکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یہ معنی اس لحاظ سے زیادہ دل کو لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ یہ سورۃ جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھی، اور اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ لیکن یہ بات کہ اسلام میں چار بیویوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے، اور یہ کہ بیک وقت چار سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے، اور یہ کہ اس فرمان کا کوئی تعلق یتامیٰ کے معاملہ سے نہیں ہے، محض اس آیت سے نہیں نکلتی بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قولی و عملی تشریح سے معلوم ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو جن کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں تھیں، حکم دے دیا کہ وہ صرف چار رکھ لیں اور اس سے زائد جس قدر بھی ہوں، انہیں چھوڑ دیں۔
حالانکہ ان کے ہاں یتامیٰ کا کوئی معاملہ درپیش نہ تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں بکثرت صحابہ نے چار کی حد کے اندر متعدد نکاح کئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی سے یہ نہ فرمایا کہ تمہارے لئے یتیم بچوں کی پرورش کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لئے تم اس اجازت سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رکھتے۔ اسی بنا پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر بعد کے ادوار تک امت کے تمام فقہا نے یہ سمجھا کہ یہ آیت نکاح کے لئے بیک وقت چار کی حد مقر ر کرتی ہے، جس سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ چار کی اجازت عام ہے، اس کے ساتھ کوئی قید نہیں کہ یتامیٰ کا کوئی معاملہ بھی درمیان میں ہو۔ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد نکاح کیے اورکسی میں یتیموں کے مسئلے کا دخل نہ تھا۔
لونڈیوں کے بارے میں آپ یہ جو تجویز پیش کرتے ہیں کہ ایک شخص کو لونڈیاں تو بلا قید تعداد رکھنے کی اجازت ہوتی، مگر تمتع کے لئے ایک یا دو کی حد مقر ر کر دی جاتی، اس میں آپ نے صرف ایک ہی پہلو پر نگاہ رکھی ہے، دوسرے پہلوؤں پر غور نہیں فرمایا۔ تمتع کے لئے جو حد بھی مقر ر کی جاتی، اس سے زائد بچی ہوئی عورتوں کے مسئلہ کا کیا حل تھا؟ کیا یہ کہ وہ مرد کی صحبت سے مستقل طور پر محروم کر دی جاتیں ؟ یا یہ کہ انہیں گھر کے اندر اور اس کے باہر اپنی خواہشات نفس کی تسکین کے لئے ناجائز وسائل تلاش کرنے کی آزادی دے دی جاتی؟ یا یہ کہ ان کے نکاح لازماً دوسرے لوگوں سے کرنے پر مالکوں کو ازروئے قانون مجبور کیا جاتا اور قیدی عورتوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈالنے کے علاوہ ایک اور ذمہ داری ان پر یہ بھی ڈال دی جاتی کہ وہ ان کے لئے ایسے شوہر تلاش کرتے پھریں، جو لونڈیوں کو نکاح میں لینے پر راضی ہوں ؟
آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ لونڈی سے تمتع کے لیے شریعت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہو۔ اور یہ قید عقل کی رو سے بھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ مصلحتیں آدھی سے زیادہ فوت ہو جاتیں جن کی بنا پر اسیران جنگ کو (تبادلہ نہ ہو سکنے کی صورت میں ) افراد کی ملکیت میں دینے کا طریقہ پسند کیا گیا تھا اور قیدی عورتوں سے ان کے مالکوں کو تمتع کی اجازت دی گئی تھی۔ کیوں کہ اس صورت میں صرف وہ عورتیں مسلم سوسائٹی کے اندر جذب ہو سکتی تھیں، جو کسی اہل کتاب قوم میں سے گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ غیر اہل کتاب سے جنگ پیش آنے کی صورت میں مسلمانوں کے لئے پھر یہ مسئلہ حل طلب رہ جاتا کہ ان میں سے جو عورتیں قید ہوں، ان کو دارالاسلام کے لئے فتنہ بننے سے کیسے بچایا جائے ؟ واللہ الھادی۔ (رسائل و مسائل)۔
شبہ: عدم ادائیگی مہر
لکھتے ہیں اس شبہ میں بیوی کو مہ رادا نہیں کیا جاتا اسلام کی آڑ لے کر، یعنی کسی بھی طریقے سے عورت کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور وہ ہمیشہ مرد کی محتاج بن کر رہے۔ (صفحہ:۱۱۰)۔
جواب شبہ کے تحت سورہ نساء کی آیت نمبر۲۴ اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر۲۳۶ بمع ترجمہ تحریر کرتے ہیں۔ پھر تفسیر بالرائے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورتوں کو نکاح کے وقت مہر فوراً ادا کیا کرو۔
آگے چل کر لکھتے ہیں (اہل سنت پر اعتراض کرتے ہوئے ) ذرا ان سے پوچھا جائے کہ مہر "کل مؤجل” یعنی کل مہر بعد میں ادا کی جائے گی، یہ کہاں سے ثابت ہے اور یہ کونسی سنت ہے میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی؟ آپ غور فرمائیں "کل مہر” بعد میں ادا کرنا کتاب و سنت کے خلاف ہی نہیں بلکہ قرآن سے حکم عدولی ہے۔ (صفحہ:۱۱۱ تا ۱۱۳)۔
پھر آگے چلتے ہوئے لکھتے ہیں : (اس شوہر پر اعتراض کرتے ہوئے جو مہر کی ادائیگی سے قبل فوت ہو گیا)
اب سوال یہ ہے ؟ کہ زندگی بھر جو رشتہ قائم تھا نکاح کا اس کی ایک لازمی شرط مہر ادا کرنا تھا جو نہیں ادا کیا گیا، نتیجے کے طور پر یہ رشتہ حرام کا رشتہ ٹھہرا۔ دشمنان اسلام وزن نے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، جس سے انہوں نے عورت کی تذلیل و تحقیر نہ کی ہو۔ تاریخ کا مطالعہ اس بات کو باور کراتا ہے کہ مہر نہ دینا قدیم اہل عراق کا دستور رہا ہے۔ (صفحہ:۱۱۳ تا ۱۱۴)۔
تحقیقی نظر
اس شبہ خود کشیدہ میں جناب نے بغیر ذکر کئے، کئی ایک احادیث سے عداوت کا اظہار کیا ہے (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے )۔ باقی رہا موصوف کا اس پر ناراض ہونا کہ مہر ادا نہیں کیا جاتا تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسے لوگوں کو آپ جانتے ہوں گے۔ جائیے ان پر حجت قائم کیجئے، تمام مرد حضرات کو بلاوجہ مطعون نہ کیجئے کہ یہ بہتان ہے۔
اور جہاں تک سورہ نساء اور سورہ بقرہ کی آیات سے استدلال، کہ مہر فوراً (نکاح کے وقت) ادا کرنا تو یہ پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے۔ جناب کی فقط خود ساختہ ترجمانی ہے جیسا کہ اور جگہ یہی دھاندلی کی ہے کہ پہلے مسئلہ بناتے ہیں پھر قرآن سے دلیل ڈھونڈتے ہیں۔ جناب کی پیش کردہ آیت بقرہ تو جناب کے نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ جناب ترجمہ میں لکھتے ہیں "اور اگر تم عورتوں کو اس صورت میں طلاق دو کہ نہ ان کو چھوا ہو اور نہ ان کے لئے مہر مقر ر کیا ہو تو ان کے مہر کے بارے میں تم پر کوئی حرج نہیں اور خرچ دو ان کو شرع کے مطابق "۔
اب بتائیں اس میں نکاح کے وقت فوراً مہر ادا کرنے کا ذکر کہاں ہے ؟بلکہ یہاں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے بعد زندگی گزارتے ہوئے طلاق کی نوبت آ گئی اور ابھی حق مہر طے بھی نہیں ہوا۔ نیز متعہ دینا (خرچ دینا) خود اس بات کا متقاضی ہے کہ مہر نہیں دیا جائے گا۔ فافھم
امام شوکانی رحمہ اللہ فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ مطلقہ چار قسم کی ہوتی ہیں :
۱…مطلقہ مدخول بہا جس کا مہر مقر ر کیا جا چکا ہو۔
۲…مطلقہ غیر مدخول بہا جس کا مہر بھی مقر ر نہ کیا گیا ہواور اس آیت (یعنی سورۃ بقرہ) میں اسی کا ذکر ہے۔ اسے مہر نہیں بلکہ متعہ (خرچہ) دیا جائے گا۔
۳…مطلقہ غیر مدخول بہا جس کا حق مہر مقر ر ہو چکا ہو۔
۴…مطلقہ مدخول بہا جس کا مہر بھی مقر ر نہ کیا گیا ہو اور اس کا ذکر سورۃ نساء آیت ۲۴ میں ہے۔
اس بیان کی روشنی میں موصوف کا تصور مہر کا خود ساختہ نظریہ پاش پاش ہو جاتا ہے اور از خود خلاف قرآن و سنت ثابت ہو جاتا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ نکاح کے بعد قبل از دخول اور قبل از تقرر مہر طلاق پر صرف متعہ (خرچ) ہی دینا ہے نہ کہ مہر۔ (فتح القدیر)
فاعتبروا یا اولی الابصار
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جناب کا "کل مہر” بعد میں ادا کرنے کو قرآن و سنت کی حکم عدولی قرار دینا بلا دلیل و بے بنیاد ہے۔
ویسے کیا ہم سوال کر سکتے ہیں کہ کیا "کل مہر” کی جگہ "بعض مہر” بعد میں کبھی ادا کیا جائے تو کیا یہ آپ کو منظور ہو گا؟ کس دلیل کی بنیاد پر؟
موصوف کی پیش کردہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر۲۳۶ میں وارد لفظ "ومتعوھن” کی تفسیر میں حبرالامۃ جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ "یہ حکم اس مرد کو ہے، جس نے ایک عورت سے نکاح کیا اور حق مہر (ابھی) مقر ر نہ کیا تھا کہ قبل الدخول ہی طلاق دے بیٹھا (گویا "ومتعوھن” (خرچ دو) مہر کی نفی ہے )۔ (دیکھئے فتح القدیر از شوکانی)
اس تفسیر کی روشنی میں جناب کی فہم ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فہم کے بالکل مخالف و متضاد ہے۔ صحیح ابو داؤد شریف میں باب قائم کیا گیا ہے "اگر کوئی نکاح کے وقت مہر مقر ر نہ کرے اور پھر اس کی وفات ہو جائے تو”؟
اور اس باب کے تحت یہ واقعہ موجود ہے، کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کی پھر وفات پا گیا، جبکہ ان کا ملاپ نہ ہوا تھا اور نہ حق مہر ہی مقر ر کیا تھا(تواس صورت میں کیا حکم ہے ) انہوں نے فرمایا اس عورت کے لئے پورا مہر ہے، اس پر عدت لازم ہے اور یہ وراثت کی بھی حق دار ہے۔ (تب) معقل بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے (ایسے ہی) سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا۔ (ابو داؤد حدیث رقم ۲۱۱۴ تا ۲۱۱۷ طبع دارالسلام)۔
معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے وقت فوراً حق مہر ادا کیا جائے بلکہ قرآن و سنت سے اس کے بالکل برعکس ہی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا جناب کا بعد میں مہر کی ادائیگی کو قرآن و سنت کے حکم کی عدولی قرار دینا، از خود قرآن و سنت کی حکم عدولی ہے اور اہل السنہ پر اتہام و بہتان ہے کہ (نعوذ باللہ) اس طرح کے رشتہ حرام و ناجائز ہیں۔ اعاذنا اللہ من ھذہ الھفوات ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
"سب سے بڑھ گئی ہے بے حیائی آپ کی”
(مسئلہ بالا کی مکمل تفصیل فتح القدیر، صحیح ابوداؤد اور فتاویٰ اہلحدیث میں دیکھی جا سکتی ہے )
تنبیہ: شبہ: مہر انتہائی کم اور شبہ: ولدیت سے لاتعلقی کے ضمن میں کوئی خاطر خواہ بات نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اسے فی الحال موقوف کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ واللہ ولی التوفیق
شبہ نوکرانی
لکھتے ہیں اس شبہ میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت نوکرانی ہے، تبھی جب شادی کر کے لاتے ہیں تو در حقیقت مقصد ایک نوکرانی لانا ہوتا ہے۔ جو نہ صرف شوہر کی خدمت کرے بلکہ شوہر کے ماں باپ بہن بھائی بلکہ پورے خاندان کی خادمہ ہو، اور یہ سب کچھ دین کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔ (صفحہ:۱۲۰)
جواب شبہ میں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۲۴، ۲۳ سورۃ لقمان کی آیت نمبر۱۴ اور سورۃ احقاف کی آیت نمبر۱۵ بمع ترجمہ تحریر کرتے ہیں۔ پھر تفسیر بالرائے فرماتے ہیں :
لہٰذا شوہر اپنے ماں باپ کی خدمت کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے اور بیوی اپنے ماں باپ کی خدمت کی ذمہ دار اور جواب دہ ہے نہ کہ شوہر کے ماں باپ کی، جو کہ در حقیقت مذاہب باطلہ کا رواج ہے (صفحہ:۱۲۰)
آگے چل کر تیسری دلیل کے تحت لکھتے ہیں : شرعی لحاظ سے بیوی کی ذمہ داری صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے حق زوجیت ادا کرنا۔ اس کے علاوہ کھانا پکانا، کپڑے دھونا، اولاد کی رضاعت کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا یہ تمام ذمہ داریوں میں شامل نہیں بلکہ یہ احسان ہے شوہر پر۔
پھر سورۃ نساء کی آیت ۲۴ پیش کر کے اس سے زبردستی اپنا مطلب کشید کرتے ہوئے تفسیر بالرائے میں فرماتے ہیں : یہ بات سنت مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیوی کا حق شوہر کے لئے سوائے حق زوجیت کے کچھ اور نہیں قرار دیا۔ پھر کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں ! غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کتاب و سنت کے حوالے سے شوہر کی خدمت گزاری کرنا ثابت نہیں تو پھر شوہر کے ماں باپ کی خدمت کہاں سے واجب ہو گئی؟ (صفحہ:۱۲۶ سے ۱۲۸تک دیکھئے )۔
تحقیقی نظر
موصوف کو اس قدر عورت فوبیا ہو گیا ہے کہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہذیان بک رہے ہیں ؟کیا قرآن، کیا سنت، سب کو یکلخت اپنی رائے سے بدل ڈالتے ہیں۔
جناب کا عورت کو نوکرانی کہے جانا کھل رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس نظریہ کا کون حامل ہے ؟ جا کراسی سے شکوہ کیجئے تمام مسلمانوں کو ہدف تنقید کیوں بنا رہے ہیں ؟ باقی رہا خاندان بھر کی خدمت، تو جناب نے یہ بھی غلط فرمایا کوئی بھی خاندان بھر کی خدمت نہیں کرواتا۔ کیا جناب کے ہاں سارا خاندان ایک ساتھ ہی رہتا ہے ؟ جب ایک ساتھ رہنا ہی ممکن نہیں تو پھر خدمت کیسے ممکن ہے ؟
اہل السنۃ کے ہاں تو کوئی اس عمل کا قائل و فاعل نہیں ہے، البتہ موصوف کے نظرئیے (چہرہ کا پردہ نہیں ہے ) سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جناب عورت کو خاندان بھر کی خادمہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ بھی بے پردہ۔ آیت سے استدلال کر کے یہ کہنا کہ عورت فقط اپنے ہی والدین کی خدمت کرے گی وغیرہ وغیرہ تو یہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ عورت تو شوہر کے گھر میں ہوتی ہے نہ کہ والدین کے گھر میں۔ شاید موصوف بالکل ہی عقل کھو بیٹھے ہیں جو اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ موصوف نے نہ جانے کس آیت اور کس سنت سے عورت کو فقط حق زوجیت کی ادائیگی کی ذمہ داری دی ہے (اور شکر ہے کہ یہ ذمہ داری دی ہے اگر یہ بھی نہ دیتے تو ہم کیا کر لیتے )۔
قرآن مجید میں تو شوہر کی کامل مکمل اطاعت کا بھی ذکر ہے فرمایا:
فَاِنْ اَطَعْنَکمْ فَلا اَا تَبْغوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ط (سورۃ النساء آیت نمبر۳۴)
دیگر حقوق بھی ہیں ؛ فرمایا: "وَ لھَنَّ مِثْل الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْروْفِ” (سورہ البقرہ :۲۲۸)
اسی طرح حدیث شریف میں ہے عورت شوہر کی مکمل اطاعت کرے، شوہر کی بلا اجازت کسی کو گھر میں نہ آنے دے، نفلی عبادت بھی شوہر کے اذن سے کرے، گھر کے کام کاج کرنا جس طرح سیدہ فاطمہ کیا کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔ (دیکھئے صحیح بخاری شریف)۔
جناب نے خاندان بھر کی خدمت سے روکتے روکتے شوہر کی اطاعت و خدمت سے بھی روک دیا آخر کس دلیل سے ؟ اگر جناب کی خدمت "محترمہ” نہیں کرتیں تو ہم کیا کریں۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا گھر کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی تھیں اور روٹی نہ پکا سکنے پر پڑوسنیں آ کر روٹی پکا جاتیں۔ (بخاری و مسلم)
یہ واقعہ خود اسماء بنت ابی بکر اپنی شادی کے بعد بیان فرماتی ہیں۔
عورت پر شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کرے۔ (مسند احمد و ترمذی)
مزید دلائل بھی پیش کیے جا سکتے ہیں، مگر ماننے والوں کے لئے تو ایک ہی دلیل کافی ہے۔ واللہ الھادی۔
قرآن و سنت میں ہر وہ چیز عورت پر واجب کی گئی ہے، جو شوہر کی اطاعت کے زمرے میں آتی ہے۔ اب موصوف اس کے منکر ہیں تو ہوتے رہیں، انہیں آنکھ بند ہوتے ہی سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
ویسے جناب کا عورت کے لئے "حق زوجیت” کو باقی رکھنا یا واجب قرار دینا، کیا جناب کی ذہنی شہوت پرستی کی غمازی نہیں ہے ؟ اگر یہ حق قرآن و سنت میں ہے تو اور بھی حقوق قرآن و سنت میں ہیں، جن میں سے چند ایک ہم نے بیان کر دیئے ہیں۔ والحمد للہ۔
شبہ طلاق
لکھتے ہیں ! اس شبہ میں شوہر کو مکمل اختیار دیا جاتا ہے، حاکم و جابر سرغنہ کی طرح اور اس کو طلاق کا حق دے دیا جاتا ہے۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں : طلاق کے حوالے سے بہت ساری باتیں کتاب و سنت کے خلاف رائج ہیں …آگے چل کر لکھتے ہیں : دشمنان اسلام نے طلاق کو ایک مضحکہ خیز عمل بنا دیا ہے۔ اس حد تک کہ اگر کوئی شوہر خواب میں بھی طلاق دے دے تو وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ (صفحہ:۱۲۹)۔
پھر مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ! ایک مجلس میں تین دفعہ طلاق دینے کا تصور غیر شرعی ہے اور بطور حوالہ سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر ۲۲۹ بمع ترجمہ تحریر کی ہے۔
تفسیر بالرائے فرماتے ہیں ! طلاق الگ الگ وقت میں دو مرتبہ دی جائے لہٰذا ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا بدعت ہے۔ (صفحہ:۱۳۰۔ ۱۳۱)۔
صحیح بخاری شریف سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی گھر والی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ پھر جب یہ خبر میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا "کیا وہ حالت حیض میں تھی”؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں ! تو پھر میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ جاؤ رجوع کر لویہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ (صفحہ:۱۳۳)۔
پھر تیسری دلیل کے ضمن میں سورۃ طلاق کی آیت نمبر۲ بمع ترجمہ پیش کر کے تفسیر بالرائے فرماتے ہیں : جس طرح نکاح دو گواہوں کے بغیر نا مکمل ہے، اسی طریقے سے طلاق کے لئے دو گواہوں کی شرط لازم ہے، جو اللہ کی طرف سے مقر ر ہے مگر اس کی حکم عدولی کی گئی اور شوہر کو یہ کھلا اختیار دے دیا گیا کہ جب چاہے رات کی تنہائی کے کسی پہر میں عورت کو طلاق دے دے تو وہ قبول ہو جائے گی۔
پھر سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۷۔ ۲۲۶ بمع ترجمہ پیش کر کے مسئلہ "ایلاء” کی بات کرتے ہیں کہ شوہر کو لٹکانے کا حق نہیں، بلکہ صرف چار مہینے تک مہلت دی جائے گی۔ اس کے بعد یقینی طور پر طلاق دینی ہو گی۔ (صفحہ:۱۳۴ سے ۱۳۶ تک دیکھئے )۔ اور آخر میں احادیث کی روشنی میں عورت کی فضیلت و مرتبہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ (صفحہ:۱۳۸ تا ۱۴۰)۔
تحقیقی نظر
نہ جانے موصوف کو مردوں سے اس قدر عداوت کیوں ہے، کہ وہ قرآن و سنت کے نصوص بھی اس دشمنی میں پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ نہ جانے موصوف جنسی طور پر خود کیا ہیں ؟
کیا قرآن و سنت میں یہ مسئلہ واضح نہیں کہ مرد کو ہی طلاق دینے کا اختیار ہے ؟ قرآن مجید میں کئی ایک مقام پر یہ بات بیان کی گئی ہے۔ مثلاً
وَ اِذَا طَلَّقْتم النِّسَآءَ۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دو (البقرہ۔ ۲۳۱)
لا اَا جنَاحَ عَلَیْکمْ اِنْ طَلَّقْتم النِّسَآءَ تم پر عورتوں کو طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں (البقرہ۔ ۲۳۶)
فَاِنْ طَلَّقھَا… پس اگر وہ (مرد) اسے طلاق دیدے (البقرہ۔ ۲۳۰)
مزید دیکھئے سورہ بقرہ میں آیت ۲۳۲، ۲۳۶، ۲۳۷، سورہ احزاب میں آیت نمبر۴۹ اور سورۃ طلاق میں آیت نمبر۱ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح احادیث و سنن کا مطالعہ کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ طلاق دینے کا اختیار تو صرف شوہر کو ہی ہے اور بس۔ (صحاح ستہ میں سے کسی بھی کتاب میں ابواب طلاق کا مطالعہ کیجئے )امت مسلمہ کا اس پر اجماع بھی ہے۔ اب جناب مدنی محض صاحب نہ جانے کیوں ان نصوص کو ٹھکرا کر خود کو اعداء قرآن و سنت میں شمار کروانا چاہتے ہیں ؟جہاں تک خواب میں طلاق دینے اور اس کے مقبول واقع ہونے کی بات ہے تو یہ نہ قرآن و سنت میں ہے اوار نہ ہی اجماع امت مسلمہ میں۔ ہو سکتا ہے کہ جس فقہ کو فی کے جناب آج کل علمبردار ہیں اس میں ایسا کوئی حیلہ ان کی نگاہ عقابی سے گزرا ہو اور انہیں یاد رہ گیا ہو۔
موصوف نے آگے چل کر ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کے عمل کو بدعت قرار دیا ہے اور یہ بالکل منہج سلفی کی ترجمانی ہے اور صحیح ہے۔ مگر جناب نے آگے چل کر اس کے واقع ہونے کی جو تردید کی ہے، وہ سراسر مخالفت حدیث پر مبنی ہے۔ جس میں ذکر ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں، عہد صدیقی میں اور عہد فاروقی کے صدر اول میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ (یعنی ایک تو یقیناً واقع ہوتی ہے )۔ (صحیح مسلم)۔
پھر جو موصوف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ منسوب کیا ہے (قصہ ابن عمر میں ) کہ جاؤ رجوع کر لو یہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ تو اس سلسلے میں جناب تقول علی الرسول صلی اللہ علیہ و سلم اور الکذب علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے جہنم کی وعید کے مستحق ہو گئے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔
موصوف قیامت تک صحیح بخاری سے یہ الفاظ نہیں دکھا سکتے کہ "یہ طلاق واقع نہیں ہوئی”۔ بلکہ صحیح بخاری میں تو اس مسئلہ پر باب قائم کیا گیا ہے کہ "حائضہ بعد از طلاق عدت طلاق گزارے گی” یا دوسرے لفظوں میں "وہ اس طلاق کو شمار کرے گی”۔ اور پھر اس کے تحت جو قصہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہوا ہے، اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رجوع کرنے کا حکم دیا جو، از خود اس کے واقع ہونے کی دلیل ہے۔
نوٹ: (ہم نے یہاں اس بات سے صرف نظر کیا ہے کہ ہمارا نقطہ نظر اس سلسلے میں کیا ہے ) نیز اس سلسلے میں (تفہیم کے لیے ) صحیح بخاری میں باب "مراجعۃ الحائض ” کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
نکاح اور طلاق پر جناب نے جو دو گواہوں کو لازمی شرط قرار دے دیا ہے یہ بھی تقول علی اللہ ہے نعوذ باللہ من ذلک۔ کیونکہ نہ یہ شرط ہے نہ فرض و واجب، یہ اسی طرح مستحب و مندوب ہی کہلائے گا جس طرح کہ بیع کے وقت حکم ہے "واشھدوا اذا تبایعتم”۔ اب ظاہر ہے یہ واجبی حکم نہیں ہے اور اس کی تائید جناب کی عملی زندگی بھی کرتی ہے۔
نکاح میں گواہوں کا ہونا موقوف روایتوں سے ثابت ہے مرفوع نہیں۔ ( دیکھئے ارواء الغلیل و سنن ابی داؤد وغیرہ)۔ جناب کی پیش کردہ آیت میں "گواہوں ” کی گواہی کے موقع و محل میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ (دیکھئے فتح القدیر اور زاد المسیر)۔
اس لئے جناب نہ تو تفسیر بالرائے سے گواہوں کا شرط ہونا اور واجب ہونا ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی گواہی کا موقعہ و محل۔ ہاں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی قول ہے اور یہ بھی۔ نیز صحیح ابوداؤد طبع دارالسلام میں حدیث رقم ۲۱۸۶ میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ سید نا عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور پھر اس سے مباشرت کر لیتا ہے مگر طلاق دینے یا اس سے رجوع کرنے پر گواہ نہیں بناتا۔ تو انہوں نے فرمایا کہا س نے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت ہی رجوع کیا۔ بیوی کو طلاق دیتے وقت گواہ بناؤ اور رجوع کے وقت بھی اور پھر آئندہ ایسا نہ کرنا۔
اس موقوف روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق اور رجوع میں گواہ بنا لینا مستحب ہے اور افضل ہے۔ بالخصوص جب رجوع زبانی ہو۔ کیونکہ رجوع بالفعل میں گواہ کے کوئی معنی نہیں الایہ کہ اذالم تستحی فاصنع ماشئت کا مصداق بن جائے۔ فافھم و تدبر۔
لہٰذا شوہر کا اکیلے میں تنہائی میں طلاق دے دینا کوئی حکم عدولی نہیں، بلکہ اس کا اپنے حق کو استعمال کرنا ہے جس کا وہ خود ہی حق دار ہے۔ ہم جناب کو مشورہ دیں گے کہ کچھ اپنا بھی خیال کریں کہ ہماری نگاہ میں تو آپ بھی ایک "مرد” ہی ہیں۔ واللہ اعلم۔
آخر میں جو مسئلہ "ایلاء” پر جناب نے لب کشائی کی ہے، تو اس سلسلے میں تو یہ بات واضح ہو گئی کہ کم از کم چار ماہ تک شوہر کو مہلت مل سکتی ہے۔ جس کے جناب بھی قائل ہیں مگر کیا اس سے مرد کی فوقیت ثابت نہیں ہوتی؟ اختیار ثابت نہیں ہوتا؟ جسے ختم کرنے کے لیے جناب نے خود کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ مگر یاد رہے حافظ صاحب نے یہ جو لکھا ہے (اور قرآن سے ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے ) کہ "اس کے بعد یقینی طور پر طلاق دینی ہو گی” یہ اللہ کے پاک کلام میں کہیں بھی نہیں بلکہ پہلے "فاء وا ” کا ذکر ہے یعنی وہ رجوع کا اختیار رکھتے ہیں چاہیں تو رجوع کر لیں۔
اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے تمام اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے کہ "فاء وا”سے مراد اپنی عورت سے جماع و ہم بستری کرنا مراد ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔ (فتح القدیر از شوکانی)۔
لہٰذا جناب کا خود ساختہ قرآن بنا کر یہ کہنا کہ چار ماہ بعد یقینی طور پر طلاق دینی ہو گی۔ صراحۃ تحریف قرآن ہے۔ اور اس طرح جناب نے اپنے موجودہ اکابر و اصاغر کے منہج کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ وہ تحریف کے عادی ہیں۔ (دیکھئے قرآن و حدیث میں تحریف از ابو جابر)۔
باقی رہی عورتوں کی فضیلت کی بات تو ہر مسلمان ہی قرآن و سنت میں وارد فضیلت کو تسلیم کرتا ہے۔ البتہ جناب کی حرکت یہ ہے کہ وہ عورتوں کی حمایت میں احادیث لکھ دیتے ہیں مگر اپنی (یعنی مرد کی) حمایت میں آنے والی احادیث کو مسیحی اور ہندو روایت کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ نے "مفتاح الجنہ” میں لکھا ہے کہ جس نے بھی محدثین کے ثابت شدہ اصولوں پر ثابت شدہ ایک حدیث کو بھی رد کیا، وہ کفر میں داخل ہو گیا اور اس کا حشرو نشر یہود و نصاریٰ یادیگر ملت کافرہ کے ساتھ ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
شبہ شرپسندی
لکھتے ہیں : اس شبہ میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت بد زبان، بد اخلاق، بد تہذیب، الغرض تمام برائیوں کا مجموعہ ہوتی ہے اور یقیناً اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اسلام کا سہارا لیا جاتا ہے جھوٹی روایت کو بنیاد بنا کر۔ جواب شبہ میں لکھتے ہیں : قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان (مرد یا عورت) دونوں میں ہی اچھائی اور برائی کا امکان ہوتا ہے۔ پھر بطور مثال سورہ ابراہیم کی آیت نمبر۳۴ سورہ معارج کی آیت نمبر۱۹ اور سورۃ عادیات کی آیت نمبر۶ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں۔ (صفحہ:۱۴۱ سے ۱۴۲)۔
آگے چل کر موضوع اور من گھڑت احادیث کی بعض مثالیں دی ہیں جو کچھ اس طرح ہیں :
۱…عورتوں کو لکھنا پڑھنا نہ سکھاؤ اور نہ ان کو اچھے گھروں میں رکھو۔
۲…سب سے بدترین دشمن آپ کی بیوی ہے جس کے ساتھ آپ سوتے ہیں۔
۳…تین چیزیں قابل اعتماد نہیں ہیں۔ دنیا، حاکم وقت اور عورت۔
۴…تین چیزیں ہیں، اگر آپ ان کو عزت دو گے تو وہ جواب میں آپ کی توہین کریں گی ان میں سے سب سے پہلے عورت ہے۔
۵…عورت کی فرمانبرداری میں حسرت و ندامت ہے۔
۶…اگر عورتیں نہ ہوتی تو مرد جنت میں جاتے۔
۷…اگر عورتیں نہ ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کی کماحقہ عبادت ہوتی۔
۸…تین چیزوں میں نحوست ہے۔ عورت، گھوڑا اور گھر۔
…وغیرہ وغیرہ… (صفحہ:۱۴۳۔ ۱۴۴)۔
تحقیقی نظر
جناب کا عورتوں کو ایسا اور ویسا کہنے پر برہمی بجا ہے، ہم جناب کے ساتھ ایسے لوگوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں جو کہ خود ساختہ جھوٹی روایتوں کو دلیل بنا کر عورتوں کی توہین کرتے ہیں۔ فعلیھم ما علیھم۔
صحیح بات یہی ہے کہ مردو عورت دونوں سے ہی برائی کا امکان ہوتا ہے جیسا کہ موصوف نے بھی اقرار کیا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں فرعون، ہامان وغیرہ کی طرح زوجہ نوح علیہ السلام اور زوجہ لوط علیہ السلام کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ نیز ابولہب کی زوجہ ملعونہ کا بھی ذکر ہوا ہے۔
جناب نے جو ۱۴ حدیثوں کی فہرست بیان کی ہے، اسے خود ہی موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے توسوال یہ ہے، کہ جب وہ ہیں ہی جھوٹی تو ان کا جھوٹا ہونا بیان کر کے بات ختم ہو جانی چاہیے ادھر ادھر جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ جناب ان روایتوں کے ماخذ اور ان کا موضوع ہونا مستند کتابوں سے پہلے ثابت کریں۔ کیونکہ اگر یہ صحیح ثابت ہو گئیں تو جناب پر امام سیوطی رحمہ اللہ کا فتویٰ عائد ہو جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی جو شرح عقیدہ طحاویہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جناب نے حدیث نمبر۱۴ میں جو عبارت دی ہے، وہ موضوع اور من گھڑت نہیں بلکہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ مگر جناب اسے سمجھے ہی نہیں اور نہ ہی اس کے دیگر طرق کو دیکھا کہ بات واضح ہو جاتی کہ اس حدیث کے اجمال کو دوسری حدیث کے الفاظ دور کرتے ہیں کہ اگر نحوست ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی۔ (لفظ "اگر” انتہائی قابل غور ہے )۔
اس سے مقصود یہ تھا کہ (مطلقاً) نظریہ جہالت کی تردید کر دی جائے کہ اس میں نحوست اور یہ نامبارک۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی بیان کیا کہ اہل جاہلیت نحوست کے قائل تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات بیان کر کے تردید کر دی۔ (گویا نحوست کسی بھی چیز میں نہیں ہوتی) (دیکھئے مشکل الآثار از طحاوی)
شبہ عورت کو مکمل ڈھانکنا
لکھتے ہیں : اس شبہ میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت کو مکمل طور پر چھپانا چاہیے۔ جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں : اس کو ثابت کرنے کے لئے میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک جھوٹ منسوب کیا گیا اور وہ تھا "المرأۃ عورۃ” یعنی عورت مکمل ڈھکی ہونی چاہیے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عورت کے خلاف ایک ایسی موضوع روایت کو ہوا دی گئی جو بے بنیاد ہے۔
کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں ! جبکہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق مرد، عورت دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں دین کو فروغ دینا ثابت ہے۔ (صفحہ:۱۴۵۔ ۱۴۶)۔
تحقیقی نظر
جناب شاید کسی بے پردہ اور بازاری گھر کے چشم و چراغ ہیں جو اس قدر چادر و چار دیواری اور عورت کے پردہ پر چراغ پا ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ہر سلیم العقل خصوصاً متدین شخص اس مسئلہ کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ نہ جانے جناب عورتوں کے پردے کھلوا کر کیا گل کھلانا چاہتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے یدنین علیھن من جلابیبھن اور وَ لْیَضْرِبْنَ بِخمرِہِنَّ عَلیٰ جیوْبِہِنَّ کہہ کر عورت کو اپنے تحفظ کے لئے خود کو ڈھانپنے اور چھپانے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ زینت کے مخفی رکھنے کے لئے حکم دے دیا کہ ولا یضربن بارجلھن یعنی پیر بھی زور سے مار کر نہ چلیں۔ البتہ بوقت ضرورت عورت باپردہ ہو کر باہر جا سکتی ہے، شریعت نے اس سے نہیں روکا۔ اب اس میں کیا اعتراض والی بات ہے جو موصوف حدیث دشمنی پر اتر آئے ہیں۔
اس شبہ میں جناب نے جس روایت کو جھوٹی اور موضوع قرار دیا ہے وہ روایت صحیح ابن حبان میں حدیث رقم ۵۵۹۹، ۵۵۹۸ کے تحت موجود ہے اور بالکل صحیح ہے۔ اگر صرف زبانی جمع خرچ سے ہی حدیث موضوع اور جھوٹی ہو جاتی ہے، تو پھر قرآن کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ وہ بالکل صحیح ہے۔ بلکہ کوئی بھی من چلا اسے جھوٹا قرار دے سکتا ہے۔ اعاذ نا اللہ من ھذہ الھفوات۔
آخر میں جو جناب نے مرد و عورت کے اپنے اپنے دائرے کی بات کی ہے، یہ بالکل صحیح ہے اور یہ دائرے ہی دلیل ہیں کہ عورت مرد سے خود کو علیحدہ اور چھپا کر رکھے گی۔ فامنھم
دین اسلام میں مخلوط مجالس کا کوئی تصور نہیں ہے اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کو دوسرے مردوں کے ساتھ تمسخر سے روکا ہے، اور عورتوں کو علیحدہ کہا کہ عورتیں دوسری عورتوں کا تمسخر نہ اڑائیں (ذرا گہری نظر سے سورۂ حجرات کا مطالعہ کیجئے )۔
شبہ کہ عورت، کتا اور گدھا
لکھتے ہیں : اس شبہ میں بخاری شریف "کتاب الصلاۃ” سے حوالہ دیا جاتا ہے کہ نماز کے آگے سے اگر کتا، گدھا، عورت، یہودی گزر جائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں : قرآن کریم سورۃ اعراف آیت نمبر۱۷۹ میں اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کی مثال چوپایوں سے دی ہے نہ کہ جانوروں سے۔ اس لئے کہ چوپائے انسان کے لئے بہت ہی مفید ہوتے ہیں۔ جس میں اشارہ مل رہا ہے کہ خدا نے نافرمانوں کی چوپایوں سے مثال دے کران کی تذلیل و تحقیر نہیں کرنی چاہی، بلکہ انہیں نا سمجھ قرار دیا ہے۔ (صفحہ:۱۴۷)۔
مذکورہ روایت پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ روایتیں بخاری شریف میں کیسے درج کر دی گئیں۔ یقیناً یہ کچھ لوگوں کا کارنامہ ہے۔ کہ انہوں نے ایسی بہت سی نازیبا، قرآن و سنت کے بالکل برعکس روایتیں درج کر دیں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے۔
دوسری دلیل کے تحت لکھتے ہیں : بخاری شریف کی بالا روایات سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے فوراً بعد ہی عورتوں کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا تھا…تو جب معاذ اللہ عورت کو اتنی بڑی گالی دی جائے گی، تو پھر وہ کہاں معتبر رہے گی۔
تیسری دلیل کے تحت لکھتے ہیں : میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے جھوٹی باتیں منسوب کرنا جیسا کہ مذکورہ مسئلے میں ہوا اس کے باوجود ان دونوں حدیثوں کو بخاری شریف سے الگ نہیں کیا جا سکا، جو کہ بہت بڑا المیہ ہے۔ لہٰذا ہر مسئلے کو کتاب و سنت کے پیمانے سے دیکھنا چاہیے نہ کہ روایات سے۔ (صفحہ:۱۴۹، ۱۵۰)۔
تحقیقی نظر
جناب نے یہاں اعتراض کے ساتھ ساتھ حدیث کی طرف لفظ یہودی بھی منسوب کیا ہے جو کہ صحیح بخاری میں نہیں ہے اس سے اندازہ کر لیں کہ جناب عورت کی محبت میں کس قدر اندھے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسلام دشمنی کا عالم یہ ہے کہ جن لوگوں کی "کالانعام” کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے، جناب انہیں بہت "مفید” قرار دے رہے ہیں اور اپنے رشتہ دار چوپایوں سے مودت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا واقعی چوپائے جانور نہیں ہوتے ؟ دنیا کی کس لغت میں لکھا ہے ؟ اور کیا اگر ہم جناب کو ناسمجھ چوپایہ قرار دیں تو جناب خوش ہوں گے اس لقب کو قبول کریں گے ؟
جناب حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں "بخاری شریف میں (یہ روایتیں ) کیسے درج ہو گئیں "۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کے ہاں بھی صحیح بخاری کا کچھ نہ کچھ مقام ضرور ہے چاہے کسی خاص مقصد کے تحت ہی ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جناب نے پہلی حدیث کو دوسری حدیث سے ہی رد کرنے کی کوشش کی ہے، اب اگر یہ جھوٹی ہیں تو پھر صحیح بخاری سے استدلال کے کیا معنی؟جناب کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مکرو فریب انہیں "منافق علیم اللسان” قرار دینے کے لئے کافی ہے اور ایسے ہی شخص کے مسلط ہو جانے کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خوف تھا۔ (دیکھئے جامع بیان العلم و فضلہ)۔
یہاں جناب نے ایک اور عندیہ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ (عندہ) سنت، حدیث سے الگ کوئی چیز ہے۔ یہی کہنا مولانا امین احسن کا تھا اور یہی ان کے شاگرد جاوید احمد غامدی کا دعویٰ ہے۔ حالانکہ اس فرق کی ان سب کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ فہم سلف صالحین سے انحراف کی سبیل ہے جس پر "نولہ ما تولی و نصلہ جھنم ” کی وعید وارد ہوئی ہے۔ جناب ذرا ہمت کر کے سنت کی تعریف ہی کر دیں کہ ان کے ہاں بعد از قرآن وہی پیمانہ حق ہے۔
عورت گذر جانے سے نماز کا ٹوٹ جانا حدیث میں وارد ہوا ہے یہ کوئی اس کے خلاف محاذ قائم کرنے والی بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی گالی، اور اسے (نعوذ باللہ) گالی قرار دینا جناب کی انتہائی جسارت بے مہار ہے اور از خود ایک گالی ہے۔ جہاں تک ان دونوں روایتوں کو بخاری شریف سے الگ کرنے کی بات ہے تو کیا جناب ان دو روایتوں کے اخراج کے بعد باقی تمام حدیثوں کو صحیح مان لیں گے ؟
نیز دونوں کو علیحدہ کرنے سے تو جناب کی خود ہی تردید ہو جائے گی کیونکہ ایک سے تو جناب بھی استدلال کر رہے ہیں۔ عجیب تضاد ہے فکر کا، نظر کا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کی توضیح (جو جناب نے پیش کیا ہے ) یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے جب اس حدیث کو بالکل ہی ظاہر پر محمول کرنا چاہا تو آپ نے اپنے عمل سے (جو کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں کیا تھا)وضاحت کی کہ اگر سامنے عورت لیٹی ہو تو نماز میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ چہ جائیکہ اسے کلب و حمار پر محمول کرتے ہوئے نماز ہی کو باطل قرار دے دیا جائے۔ اس میں یہ لطیف سا نکتہ بھی ہے کہ حالت کی تبدیلی سے حکم بھی بدل جاتا ہے آگے سے گزرنا اور ہے اور آگے لیٹے ہوئے ہونا اور ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کلب و حمار اور عورت کی آپس میں کلی مشابہت و مماثلت کی نفی بھی کرنا چاہ رہی تھیں۔ اس میں کیا اشکال ہے واقعی عورت کلب و حمارسے جدا ہے۔ (مسئلہ کو سمجھنے کے لئے تمام کتب احادیث سے روایات کو جمع کیجئے نیز فتح الباری جلد اول بھی دیکھئے )۔
آگے جناب نے "شبہ حیض اور نجاست” ذکر کیا ہے، جس کا تفصیلی جواب ہم "شبہ کم دینی” کے تحت دے چکے ہیں۔ (والحمد للہ) وہاں دیکھ لیا جائے۔ شکریہ۔
شبہ مکرو فریب
لکھتے ہیں : بعض نے قصداً عورت کو تمام مکرو فریب کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کے لئے انہوں نے من گھڑت جھوٹی احادیث کا سہارا لیا، جبکہ یہ مرد بھول گئے کہ ان کی ماں بھی ایک عورت تھی۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں : کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق عورت مکرو فریب اور تمام برائیوں کا سرچشمہ نہیں ہے۔ یہ تو مذاہب باطلہ کا تصور ہے …لہٰذا مکرو فریب قرآن نے مردوں کے حوالے سے بیان کیا ہے نہ کہ عورتوں کے حوالے سے۔ بطور حوالہ کے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر۵۴ اور سورۃ انفال کی آیت نمبر۳۰ بمع ترجمہ کے بیان کی ہیں۔ (دیکھئے صفحہ:۱۵۵ تا ۱۵۶)۔
تحقیقی نظر
جناب اپنے خیالات کا تانہ بانہ بنتے رہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ان دیکھے لوگوں پر کوئی نہ کوئی الزام دھر دیتے ہیں۔ جیسے یہاں کیا ہے یہ لکھا ہی نہیں کہ "بعض” سے مراد کون لوگ ہیں اور کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ بعض کا مسئلہ "کل” کے سر تھوپ دیا جائے ؟ ہمیں امید ہے وہ "بعض” بھی جناب کی طرح (پی۔ ایچ۔ ڈی) پھرے ہوئے دماغ رکھتے ہوں گے، ورنہ تو عورت کا مقام و مرتبہ واضح ہی ہے۔ جناب کا ان دیکھی روایتوں کو جھوٹی اور من گھڑت قرار دینا بھی غلط ہے اور بلا دلیل، پہلے روایات پیش کرنا چاہیے پھر اس پر اصول محدثین سے پرکھ کر حکم لگانا چاہیے۔ جو انداز جناب کا ہے اس سے تو صرف دشمن حدیث ہونا ہی ثابت ہوتا ہے اور بس۔
جہاں تک مکرو فریب کی بات ہے تو یہ صفت مردو عورت دونوں میں پائی جا سکتی ہے فقط مردوں کوہی مورد الزام ٹھہرانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا باپ بھی ایک مرد ہی تھا۔ قرآن مجید میں صرف مردوں کے مکر کا ہی ذکر نہیں بلکہ عورتوں کے مکرو فریب کا بھی ذکر ہوا ہے دیکھئے سورہ یوسف میں عزیز مصر کی بیوی اور اس کی رفقاء عورتوں کے مکرو فریب کی صراحت موجود ہے۔
وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ ھَیْتَ لَکَ ط (سورہ یوسف آیت نمبر۲۳)
دروازے بند کر کے دعوت گناہ دینے والی مکر کرتی ہے۔
قَالَتْ مَا جَزَآء مَنْ اَرَادَ بِاھَْلِکَ سوْٓئًا (سورہ یوسف آیت نمبر۲۵)
کیا بدلہ ہو گا اس کا جو مجھ سے (تیری اہل سے ) برائی کا ارادہ کرے۔
یہ مکر ہے یا نہیں کس کا ایک عورت کا، ماڈرن اور روشن خیال، جناب بھی روشن خیال ہیں، ذرا اپنے گھر کی خبر بھی لے لیں۔
اتنا بڑا مکرو فریب کہ شوہر بھی کہہ اٹھا
اِنَّہ مِنْ کَیْدِکنَّط اِنَّ کَیْدَکنَّ عَظِیْمٌ (سورہ یوسف آیت نمبر۲۸)
یہ تمہارا ہی مکر ہے اور تمہارا مکر تو بہت ہی خطرناک ہے۔
اور عورتوں نے بھی مکر کیا۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرھِنَّ (سورہ یوسف آیت نمبر۳۱)
جب اس نے ان کا مکر سنا۔
یوسف علیہ السلام کے الفاظ کو اللہ تعالیٰ نے کلام پاک بنا دیا۔
اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدھِِنَّ عَلِیْمٌ (سورہ یوسف آیت نمبر۵۰)
مگر ہائے، وائے افسوس عورت فوبیا کا شکار ابو خالد ان آیات کو کیوں دیکھے ؟
شبہ کہ عورت شیطان ہے
لکھتے ہیں : بعض نے تمام انسانی حدوں کو تجاوز کرتے ہوئے عورت سے بغض اور نفرت کی انتہا کو پہنچے، یہ بہتان لگا کر کہ عورت شیطان ہے اور یقیناً اس کے لئے جھوٹی روایات کا سہارا لیا جاتا ہے۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں : کتاب وسنت کی تعلیمات کے مطابق شیطان مرد اور عورت دونوں کو قرار دیا گیا، اگر وہ دونوں اللہ کے راستے سے روکیں۔ پھر” سورۃ الناس” کی آیت ۳، ۴، ۵ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں۔ اس کے بعد تفسیر بالرائے فرماتے ہیں …پورے قرآن میں کسی سرکش عورت کا ذکر نہیں ملتا، جیسے کہ فرعون، قارون یا ہامان ہیں۔ آگے پھر سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر۳۵ بمع ترجمہ عورت کی حمایت میں پیش کی ہے۔ (صفحہ:۱۵۸ سے ۱۶۰ تک)۔
تحقیقی نظر
اس مذکورہ شبہ میں نہ تو جناب نے عورت سے نفرت کرنے والے "بعض” لوگوں کی نشاندہی کی ہے اور نہ ہی اس روایت کا ذکر کیا ہے جس پر جناب نے جھوٹی ہونے کا فتویٰ صادر کیا ہے اور جس میں بقول جناب کے عورت کو شیطان کہا گیا ہے۔ موصوف سے التماس کیا جاتا ہے کہ پہلے یہ روایت، اس کا ماخذ و مصدر، اس کی سند پیش کریں اور پھر اصول محدثین کی روشنی میں پرکھ کر اس پر حکم لگائیں آپ کو کوئی نہیں روکتا۔ مگر بلا دلیل فقط زبانی جمع خرچ سے دشنام طرازی نشان شرافت نہیں ہے۔
آگے کی دونوں باتیں باہم متصادم و متضاد ہیں۔ پہلی میں عورت کو قرآن سے شیطان (سرکش) ثابت کر رہے ہیں اور دوسری بات میں کہتے ہیں کہ قرآن میں کسی سرکش عورت کا ذکر نہیں ملتا۔ اب خودہی بتائیں یہ انداز بیان کیا ہے ؟اور یہ دوسری بات بھی سراسر تجاہل عارفانہ اور قرآنی تحریف کی دلیل ہے جناب یہود و نصاریٰ کی طرح شاید افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔
قرآن میں کیا ابو لہب کی بیوی کا ذکر نہیں جسے حمالۃ الحطب سے موسوم کر کے فی جید ھاحبل من مسد کی وعید سنائی گئی ہے۔ کیا وہ سرکش نہیں تھی؟کیا نوح اور لوط علیہم السلام کی بیویوں کا ذکر وعید جہنم کے ساتھ نہیں ہے کہ قیل ادخلا النار مع الداخلین کیا وہ اللہ کی فرمانبردار تھیں ؟
کیا قرآن مجید میں زنا جیسے فحش اور شیطانی عمل کے بیان میں الزانیۃ والزانی… یہ کہہ کر اس عمل بد کا پیش خیمہ عورت کو نہیں قرار دیا گیا؟
کیا حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں شیطانی صفت کی حامل عورت "عزیٰ” کا ذکر نہیں ملتا؟بہرحال جناب نے اس شبہ کی بحث میں یہ قبول کر لیا ہے کہ جناب میں شیطانی صفت اور سرکشی محترمہ کی نسبت زیادہ ہی ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ بشرطیکہ موصوف مرد بننے پر تیار ہوں۔
شبہ شوہر کے لئے مکمل تابعداری
لکھتے ہیں : بعض نے عورت کی شخصیت کو مکمل مسخ کر دیا اور اس کے ہر ہر ارادہ خواہش اور مرضی کی نفی کی، یعنی صرف ایک کنیز ہے۔ جسے صرف فرمانبرداری کرنی ہے۔ اعتراض، وضاحت، سوال اس کی اس کو قطعاً اجازت نہیں …اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے جھوٹی باتیں منسوب کی گئی ہیں۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں : سورۃ بقرہ آیت نمبر۲۵۶ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں۔ (صفحہ:۱۶۲)۔
تحقیقی نظر
جناب اس شبہ میں (ایک شوہر ہو کر بھی) شوہر کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور وہ یہ کہ بیوی اپنے شوہر کی مکمل فرمانبرداری نہ کرے، ورنہ وہ کنیز اور جانور کی مانند ہو جائے گی۔ اب ظاہر ہے یہ تمام باتیں (جو بھی جناب نے لکھی ہیں ) ان کی اپنی خود ساختہ ہیں اور برہمی جناب کی احادیث رسول پرکیوں ؟
ڈگیاں کھوتے توں تے غصہ کمہار تے
شریعت مطہرہ میں تو ایک عورت کو اپنے شوہر کی کامل مکمل اطاعت و فرمانبرداری کا پابند کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں "فان اطعنکم” اور حدیث نبوی میں "طاعت بعلھا” اسی امر کی نشاندہی ہے۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ عورت کو اعتراض و سوال وغیرہ کی قطعاً اجازت نہیں تو یہ بھی جناب کی ابلیسی تلبیس ہے۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی بھی بات وارد نہیں ہوئی، اگر بعض الناس یہ کہتے ہیں تو ان سے دلیل مانگی جائے اور پھر اس دلیل کو محدثین کے قائم کردہ اصول پر پرکھ کر حکم لگا دیا جائے نہ کہ اپنی طرف سے کسی روایت کو جھوٹی کہہ کر عداوت و دشمنی رسول کا اظہار کیا جائے۔ قرآن و سنت اور تفاسیر و تواریخ میں ایسے بہت سے آثار موجود ہیں جن میں عورتوں کا کسی مسئلہ پر اعتراض کرنا، اس کی وضاحت طلب کرنا، کسی سلسلے میں مشورہ دینا وارد ہوا ہے۔ کما لا یخفی علی اھل العلم و المعرفۃ۔
کم از کم اگر جناب کی پچھلے شبہ میں پیش کردہ سورۃ احزاب کی آیت نمبر۳۵ کا شان نزول ہی دیکھ لیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی کہ عورتیں اعتراض کا حق رکھتی ہیں یا نہیں۔ باقی رہا کہ دین میں زبردستی و جبر نہیں ہے تو بات تو صحیح ہے مگر یہاں جس پیرائے میں جناب نے اسے پیش کر کے آیت سے استدلال کیا ہے، وہ کلم حق ارید بہ الباطل کا مصداق ہے۔ خارجیوں کی طرح جناب نے حرکت کی ہے کہ جو آیت اہل کفر و حرب کے بارے میں تھی وہ مسلمانوں پر فٹ کر دی۔
شاید جناب چوری پر ہاتھ کاٹنے کو، زنا پر رجم کرنے کو، شرب خمر پر کوڑے مارے جانے کو اور دیگراسلامی تعزیرات کو جبر سے تعبیر کرتے ہوں جس طرح کہ آج نام نہاد اتحاد امت اور روشن خیالی (بے حیائی) کے داعی کہتے ہیں، کہ یہ سزائیں زبردستی، جبرو اکراہ اور تشدد و انتہاء پسندی ہے معاذ اللہ
جاہلیت میں عورت کا مقام
جناب کے شبہات غالباً ختم ہو چکے ہیں، لہٰذا اب نئے عنوانات سے بات آگے چلا کر کتاب کا حجم بڑھا رہے ہیں۔
اس عنوان کے تحت کچھ رطب ویابس بیان کرتے کرتے ایک جگہ لکھتے ہیں ! میرے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک جھوٹی بات منسوب کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسلام کا حکم ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ لڑکی کا عقیقہ ایک بکرا ہو گا اور لڑکے کے دو۔ غور کیجئے اس طریقے سے ہم قرآن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
مزید یہ کہ اگر میری بیٹی مجھ سے پوچھے کہ میری ولادت پر ایک اور بھائی کی ولادت پر دو بکرے کیوں کئے گئے ؟تواس کو میں کیا جواب دوں گا؟ (دیکھئے صفحہ:۱۶۴ سے ۱۶۶ تک)۔
تحقیقی نظر
ہمارا جناب سے سوال ہے کہ لڑکی کے عقیقہ پر ایک بکرا ذبح کرنا اور لڑکے کے عقیقہ پر دو بکرے ذبح کرنا قرآن کی کس آیت کی خلاف ورزی ہے ؟ وہ آیت ذرا بتا دیجئے۔ لگتا ہے جناب نے اپنا قرآن بھی کسی اور ہی چیز کو قرار دیا ہوا ہے۔ واللہ اعلم۔
جناب کو شاید اتنا بھی معلوم نہیں کہ عقیقہ فقط خوشی کا اظہار ہی نہیں بلکہ اس سے قبل وہ شریعت مطہرہ کا ایک حکم اور عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے کسی کی رائے پر قائم نہیں ہوتی۔ ویسے اگر ہم یہ کہہ دیں کہ جناب کو اس مسئلہ پر اعتراض کا کوئی حق ہی نہیں تو بھی ہماری بات صحیح ہے کیونکہ آج کل جناب جس فقہ کو فی کی گود میں بیٹھ کر عداوت رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ و سلم کا اظہار کر رہے ہیں، اس فقہ میں عقیقہ مسنون عمل ہی نہیں ہے۔ اگر ہے تو جناب ذرا کسی مستند کتاب فقہ سے دکھا دیں۔ باقی رہا جناب کی بیٹی کا اعتراض کہ ایک اور دو بکرے کیوں ؟ تو ہم عرض کریں گے کہ کیا جناب بمع اہل بیت ہی پٹری سے اتر گئے ہیں کہ بڑے میاں تو بڑے میاں "چھوٹی صاحبہ” سبحان اللہ۔
ہاں البتہ پابند شرع خاتون کی خدمت میں عرض کریں گے کہ آپ موصوف ابو خالد کے گمراہ نظریہ سے متاثر نہ ہوں، بلکہ قرآن و سنت کا براہ راست مطالعہ کریں۔ اگر جناب کی بیٹی کو جناب جواب نہیں دے سکے، اس لئے منکر حدیث بن بیٹھے تو ہم عرض کریں گے، جناب آپ منکر قرآن بھی بن جائیں، کیونکہ آپ کی بیٹی قرآن پر بھی اعتراض کر سکتی ہے کہ ابا حضور قرآن مجید میں ” اَلرِّجَال قَوّٰموْنَ عَلَی النِّسَآءِ” (سورۃ النساء آیت ۳۴)
وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃط (سورۃ البقرہ آیت ۲۲۸)
لِلذَّکَرِ مِثْل حَظِّ الْانْثَیَیْنِ ج (سورۃ النساء آیت ۱۱)
وَلَیْسَ الذَّکَر کَالْانْثیٰ ج (سورۃ آل عمران آیت ۳۶)
کہہ کر مردوں کی فوقیت عورتوں پر کیوں بیان کی گئی ہے ؟
اور ظاہر ہے کہ ابو خالد صاحب کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکیں گے۔ لہٰذا انکار قرآن بھی کریں گے۔ اور اگر کوئی توجیہ کی صورت نکالیں گے تو احادیث کی توجیہ بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ جناب اپنی زوجہ کے "فوق” ہو نہ ہوں، مسلمانوں کی عورتیں بہرحال ان کے "تحت” ہی ہوتی ہیں۔ سورۃ تحریم آیت نمبر ۱۰ دیکھئے۔ اور "تحت” کا معنی تو جناب کو معلوم ہی ہو گا ہم مشورہ دیں گے کہ جناب سیدھی طرح "اپنی فوقیت” کو مان لیجئے ورنہ تو پھر "تحت” بننے کے لیے تیار ہو جائیے۔
آخر میں جناب نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی روشنی میں ” سات فضیلتوں ” کا ذکر کیا ہے اور یہ سب فضیلتیں عورتوں کی ہیں اور احادیث سے ثابت ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جناب کا احادیث پر بے جا اور بلا دلیل اعتراض لغو اور باطل ہے۔ یا تو جناب کھل کر احادیث کا کلی طور سے انکار کریں اور یا پھر ان کا اقرار کر کے "نام نہاد مسلمانوں ” کی اصلاح کی کوشش کریں۔
اگر صحیح احادیث سے ثابت شدہ عورتوں کی فضیلت سے کوئی منکر ہے تو اس کو اپنی اصلاح کرنا چاہیے اور حقیقی مسلمان بننا چاہیے۔ یہی جناب کا مدعا ہے اور ہماری کوشش بھی۔ اس لئے جناب کا تمام مسلمانوں کو "نام نہاد مسلمان” کہنا انتہائی غلط جسارت و ہٹ دھرمی ہے، جس سے جناب کو توبہ کرنا چاہیے۔
وآخر دعوانا انِ الحمد للہ رب العالمین
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلی آلہ و صحبہ اجمعین۔
٭٭٭
تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبہ جبرئیل۔ جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
[i] اس طرح کے سوالات اور ان کے جوابات سے لوگ بسا اوقات یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید یہ مسائل حال یا مستقبل کے لئے زیر بحث آ رہے ہیں۔ حالانکہ در اصل ان سوالات کا تعلق اس دور کے حالات سے ہے جبکہ دنیا میں اسیران جنگ کے تبادلہ کا طریقہ رائج نہ ہوا تھا اور فدیے پر سمجھوتا کرنا بھی دشمن سلطنتوں کے لئے مشکل ہوتا تھا۔ آج کل ان مسائل پر بحث کرنے کی غرض یہ نہیں ہے کہ ہم اب لونڈیوں کی تجارت کا بازار کھولنا چاہتے ہیں بلکہ اس کی غرض یہ بتانا ہے کہ جس دور میں اسیران جنگ کا تبادلہ اور فدیے کا معاملہ نہیں ہو سکتا تھا، اس زمانہ میں اسلام نے اس پیچیدہ مسئلہ کو کس طرح حل کیا تھا۔ نیز اس کی غرض ان اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نا واقف لوگوں کی طرف سے اسلام کے اس حل پر کئے جاتے ہیں۔ ہم نے جب کبھی اس مسئلے (گذشتہ سے پیوستہ) سے بحث کی ہے، اسی غرض سے کی ہے مگر افسوس ہے کہ فتنہ پرداز لوگ جان بوجھ کر اسے یہ معنی پہناتے ہیں کہ ہم آج اس زمانہ میں بھی غلامی ہی کے طریقے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، خواہ اسیران جنگ کا تبادلہ اور فدیہ ممکن ہو یا نہ ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کسی غلط فہمی کی بناء پر نہیں کہتے ہیں اور ہم ان سے اتنی حیا داری کی توقع بھی نہیں رکھتے کہ وہ ہماری اس تصریح کے بعد اپنی الزام تراشیوں سے باز آ جائیں گے۔ تاہم یہ تصریح صرف اسی لئے کی جا رہی ہے کہ جو لوگ ان کی باتوں سے کسی غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں، ان کی غلط فہمی دور ہو سکے۔