فہرست مضامین
انور سجاد کے چار افسانے
ترتیب و انتخاب: عامر صدیقی
ڈاؤن لوڈ کریں
رات کا سفر نامہ
تخت کی چوتھی ٹانگ اینٹیں رکھ کر بنائی گئی ہے
یوں لگتا ہے جیسے تین ٹانگ کے تخت پر بیٹھی عورت سانس نہیں لے رہی۔ وہ باہر کی طرف کھلتی اس ٹوٹی پھوٹی کھڑکی کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی ہے، جہاں کھڑے، باہر دیکھتے مرد کا سینہ کچھ یوں پھیل سکڑ رہا ہے، جیسے روشنی، تاریکی، روشنی تاریکی میں پھیلتی سکڑتی، پھیلتی سکڑتی آنکھوں کی پتلیاں۔
کھڑکی سے باہر شہر
شہر پر تنے گدلے آسمان میں چاند، جس کی سڑاند ساری کائنات میں پھیلی ہے۔ چاند اتنا بُسا ہوا دکھائی دیتا ہے، اتنا مدقوق کہ یقین سا ہونے لگتا ہے یہ تعفن اسی کے سانس سے ہے۔ در اصل یہ تعفن شہر میں پھیلی بد رووں کے جال میں پھڑپھڑاتی، مکانوں سے رہائی کی امید میں بند کواڑوں پر دستک دیتی خواہشوں سے اٹھتا ہے۔ کاروں، بسوں، رکشوں کے ایگزاسٹ پائپوں سے نکلتا دھواں، گٹروں کے کھلے دہانوں سے اٹھتا بھپارہ، ڈرائنگ روموں میں شوں شوں سپرے، معلق خوشبو، تنگ و تاریک گلیوں کی سیلن، پیلے سبز پتوں، گلی سڑی سبزی، پھلوں کی سڑاند، تازہ پھولوں کی مہک، صابن سے نا آشنا بغلوں، چڈوں، جسم کی سلوٹوں سے اڑتے خشک ہوتے پسینے کی باس، یوڈی کلون، ایمونیا، ڈر، خوف، محبت، نفرت، وفا، بے وفائی۔ شہر پر پھیلی رات کی کچی کچی بو ان ہی سے ترتیب پاتی ہے۔
عورت، جو تین ٹانگوں والے تخت پر، کہ چوتھی ٹانگ جس کی اینٹوں سے بنائی گئی ہے، بیٹھی، مرد کی اور ٹکٹکی لگائے دیکھتی ہے۔ اس کی آنکھیں خشک ہیں، پلک جھپکائے بغیر مسلسل دیکھنے کے باوجود آنکھوں میں پانی کا ایک قطرہ نہیں، اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ سانس نہیں لے رہی ہے۔ اس کے دوپٹے میں اتنے چھید ہیں کہ دوپٹہ خواہشوں کا جال معلوم ہوتا ہے جس میں لپٹی لپٹائی، پھنسی پھنسائی، مرد کے وجود کے پار، کھڑکی سے باہر اُگے مکانوں کے جنگل کو دیکھتی ہے۔ روشنی، تاریکی، روشنی، تاریکی میں مرد کی آنکھوں کی پتلیاں، پھیپھڑون کی طرح پھیلتی سکڑتی ہیں۔ وہ دونوں ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کے شہر کو اس کے بُسے ہوئے چاند اور متعفن رات سمیت مٹھی میں بند کر لیتا ہے۔ اس کی آواز سکوت کو آری کی طرح کاٹتی ہے۔
ہم شہر میں۔۔۔۔۔ میری جان! موٹروں سایئکلوں، رکشوں کے ٹائر، سبزیوں پھلوں کے چھلکے، ردی کاغذ، مٹی، پتھر، گلیاں، بازار، گھر، گھروندے، بجلی کے کھمبے، روشنی والے، روشنی سے عاری بلب، ہم شہر میں ہیں۔ ضیق النفس، جلتے ہوئے، ٹھٹھرتے ہوئے ہم تنہا، یہ شہر ہیں، ہم شہر میں ہیں، شہر سے باہر ہیں، شہر ہمارے اندر ہے اور ہم نے پیٹ سے اترتے ہوئے خصیوں والے دجالوں سمیت سب کچھ برداشت کر رکھا ہے۔ ہم تصور میں نہ آنے والی ان پرچھائیوں کو بھی برداشت کرتے ہیں جو صرف رات میں زندہ ہوتی ہیں جو موت کی تاریکی کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ویران اندھیری سڑکوں پر پھرتی ہیں اور جنہیں ایک سو سات، ایک سو نو میں گرفتار کرنے والے تاریک پلوں کے نیچے بیٹھے خود اپنی رانوں میں ہاتھ دینے، تار تار ریشم لباسوں اور لشکتی چھاتیوں کو مسلتے ہیں، ہم ان تاریک راتوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پہاڑی چڑھتے ہیں، چوٹی پر پہنچ کر پتھر رات لڑھکتی ہے، ہم اس کے پیچھے بھاگتے ہیں، پہاڑی سے اترتے ہیں، پھر اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر لاد کے پہاڑی چڑھنے لگتے ہیں۔ اترتے نشے ایسی رات، خون آلود ذہنوں کے چھاپے خانے سے نکلتے اخبار کے کاغذوں پر پھیلی ہوئی اعصاب پر سوار رات کو ہم برداشت کرتے ہیں اور زندہ رہ کر آج کے زمانے میں معجزے کا مظہر بن جاتے ہیں۔ محبت، راتوں میں روتی محبت، اذیت ناک، ہم ہر اس شئے سے محبت کرتے ہیں جو ہمارے پاس ہے۔ ڈر، خوف، کپکپی، یاس جس سے کوئی فرار نہیں، رات کے خلاؤں کو پر کرتی ہے۔ ہمارے بستروں کے آس پاس، گیتوں میں گُچ گلیوں میں، لیکن ہم ہنستے ہیں۔ ہم فریب خوردہ، تلخ علوم کے وارث اور محبتوں کے ترک کئے ہوئے، ہم ہر رات سورج کو اڈیکتے ہیں، ”صبح کب ہو گی، اے میرے۔۔۔۔” ہر جھوٹ کے ساتھ ہم سچ کے منتظر، رات کو کھائی ہوئی ہر قسم پر ایمان لاتے ہین، ہم کہ جو موت کے منجدھار میں زندگی پر یقین رکھتے ہیں، بن چیزوں کے، بن آنکھوں، کانوں، ناکوں کے سیلاب میں کھڑے ہیں، فرار کا کوئی راستہ نہیں، ہمارے ہونٹوں سے ہنسی ابلتی ہے، سحر میں ہمارا ایمان ہے، ہمارے اعتماد کی بنیادوں میں سحر کی روشنی ہے، ہم چیختے ہیں، کل کو پکارتے ہیں۔۔۔۔۔۔ سناٹا، سحر کی شناخت کیا ہے؟ وہ، وہ، وہ شہر، روشنی، عورتیں، بلیاں، کتے، رات۔ میری جان! بند کواڑ اکھاڑ پھینکو، چیخو، قسم کھاؤ، گالی دو، سسکیاں بھرو لیکن نکلو، باہر نکلو اپنے آپ سے، ہر اس شئے سے جو تمہیں جلاتی ہے، اذیت دیتی ہے، اپنی اذیت کو چیخ کے ساتھ باندھ کر کھڑکی سے باہر پھینک دو، جواب ملے نہ ملے، شناخت ہو نہ ہو۔
کھڑکی سے باہر شہر
کھڑکی سے باہر گلیوں میں رات، اپنے دامن میں کنواری لڑکیون، عصمت باختہ عورتوں کی مہک لئے۔
شہر کی گلیوں میں یہ گھر، جس کے ایک کمرے میں کہ جس کی دیواروں کو مکڑی کے جالوں نے ایک دوسرے سے نتھی کیا ہے، مرد کھڑکی میں سے بازو باہر نکالے، شہر، اس کے بُسے ہوئے چاند اور متعفن رات کو مٹھیوں میں لیے کھڑا ہے۔ وہ رات اور شہر کی بھول بھلیوں میں اس قدر کھو گیا ہے کہ اس عورت کی نظروں کے تاگے بھی اس کے لیے راستہ نہیں بن پا رہے جو تین ٹانگوں والے تخت پر بیٹھی ٹکٹکی لگائے اس کی طرف، اس سے پار مکانوں کے جنگل کو دیکھ رہی ہے اور جس کے گرد لپٹے دوپٹے میں اتنے چھید ہیں کہ خواہشوں کا جال معلوم ہوتا ہے۔ مرد کی آواز پھر سکوت کو چچوڑتی ہے۔
تو پھر ہم زندہ کیوں ہیں نفرتوں کے حوالے؟ یہ نفرت ہی ہے کہ میں ہنستا ہوں۔ کھاتا ہوں، سوتا ہوں پھر جاگ اٹھتا ہوں۔ نفرتوں کے حوالے سے بچوں کی تخلیق میں لڑکیون کے بطن میں جھوٹی محبت پھونکتا ہوں اور انہیں حقیقت کی پہچان کرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ حقیقت وہ بے خون، لٹکتی سوکھی چھاتیوں، چپٹی رانوں والی کریہہ المنظر بے حد استعمال شدہ فاحشہ۔
وہ عورت جسے دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ سانس لے رہی ہے اور تین پایوں والے تخت پر کہ چوتھی ٹانگ جس کی اینٹون سے بنائی گئی ہے، بیٹھی ٹکر ٹکر مرد کو دیکھے جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اٹھتی ہے جیسے خواب میں۔ وہ چھوٹے چھوٹے، دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی مرد کی طرف بڑھتی ہے، چھیدوں سے بنا دوپٹہ اس کے وجود سے پھسل کر زمین پر یوں پھیل جاتا ہے جیسے خواہشوں کا جال۔ وہ مرد کے بالکل پیچھے جا کر کھڑی ہو جاتی ہے اور اس کے نازک ہونٹ ہلتے ہیں۔
مرد مٹھیاں کھول کر کھڑکی کو دونوں طرف سے ہاتھوں میں تھام لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ ہوں۔۔۔۔۔؟ پتہ نہیں صبح کب ہو گی؟ ہم ہڈیاں چچوڑتے اور غاروں میں رہتے ہیں لیکن کسی روز کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے، صبح اگلے موڑ پر ہو سکتا ہے۔ اس وقت کسی بستر میں صبح جنم لے رہی ہو، ہو سکتا ہے جنم ہو گیا ہو کہیں جس کی ہم شناخت نہیں کر پا رہے۔ آج، کل، پرسوں کبھی راز پا لیں۔ اس کی شناخت کر لیں۔ جب ہم جاں بلب ہوں۔ کہیں ہم بے حس تو نہیں؟ کہ ہم نے اپنے آپ کو قہقہوں کے حوالے کر رکھا ہے۔ یاس، آنسووں اور رات کے ہراس کے حوالے کر رکھا ہے؟ کیا ہم خود ہی تو اپنا جواب نہیں؟ کیا سوال کا جواب حاصل کرنا بھی ہمارے اختیار میں نہیں کہ جواب ہم نے خود ہی دینا ہے۔ بولو، بتاؤ، تم ہی کہو۔
وہ پلٹ کر قریب کھڑی عورت کی طرف دیکھتا ہے تب اس عورت کی آنکھیں جھپکے بغیر مسلسل دیکھنے کے باوجود خشک تھیں۔ یک دم بھر آتی ہیں۔ لیکن اس کے معصوم چہرے پر کوئی تاثرات نہیں۔ مرد کے تیز تیز بھاری سانسوں میں اس کے چھوٹے چھوٹے سانس یوں گھل مل جاتے ہیں جیسے روشنی، تاریکی، روشنی تاریکی میں پھیلتی سکڑتی پھیلتی سکڑتی آنکھوں کی پتلیوں میں سامنے نظر آنے والی چیزیں۔
دونوں لمحہ بھر کے لیے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔
دیواروں کو آپس میں نتھی کرنے والی مکڑی کے جالے، تار بہ تار روشن ہونے لگتے ہیں۔ باہر چاند، ستارے، روشنی کے بلب اور بھی زرد اور پھیکے پڑ جاتے ہیں۔
باہر شہر ہے، دھندلایا ہوا، تاریک تاریک، خوفزدہ کرنے والا، تا حد نگاہ پھیلا ہوا، ظالم، مہربان شہر، گونگا، پر وقار، نہ مرنے والا۔۔۔
مرد، عورت کی کمر میں بازو حمائل کر کے ٹوٹی پھوٹی میز تک آتا ہے جس پر کاغذ اور قلم پڑے ہیں اور جس پر پڑے لیمپ کی روشنی اور بھی زرد، اور بھی پھیکی پڑ چکی ہے۔ وہ میز پر پڑی چیزوں کو دیکھتا عورت سے کہتا ہے
۔۔۔۔ چائے
میز سے کاغذ قلم اٹھا کر وہ اس تخت پر بیٹھ جاتا ہے جس کی چوتھی ٹانگ اینٹیں رکھ کر بنائی گئی ہے۔ وہ لمحہ بھر کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھتا ہے پھر سفید کاغذ پر قلم کی روشنائی سے رات کا سفر نامہ لکھنے لگتا ہے۔
تا حد نگاہ آنے والے موسموں کے کھیتوں سے اگتے، لہراتے، اٹھتے، کڑکتے، لشکتے طوفانوں کے جلو میں آئی سحر، باہر شہر کی دہلیزوں پر کھڑی، شہر کے بند دروازوں پر دستک دیتی ہے۔
٭٭٭
جنم روپ
دن ہے یا رات. اسے گنبد کے اندر پتہ نہیں چلتا
غاروں سے نکل کر جنگلوں میں گھومتے کٹار دانتوں والے بھیڑیئے، گدیلے پنجوں میں بلیڈ چھپائے گیلی زمین پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑتے، اندھیرے میں راستہ بناتے ہیں۔
آبشار بن کر گہری سبزی مائل نیلی دھند میں بکھرتی ندی طلسماتی منتر گنگناتی پیروں سے لپٹتی ہے جو اندھیرے پہنے روشن جگہ کی تلاش میں سرگرداں ان فاصلوں کو عبور کرتے ہیں جہان دور ہوتی جھاڑیاں، درخت چھدرے ہو کر افق میں گھل جاتے ہیں۔ .
نازک انگلیاں ہوا پر اپنی گرفت چھوڑ دیتی ہیں اور مسلسل آہنگ میں بہتے پر عزم دریا اس سرد ہوا کی تیز دھار سے کٹ جاتے ہیں صرف اتنا پتہ ہے کہ سیاہ چھت میں موتی جڑا غار اس کے گرد اور بھی تنگ ہو گیا ہے اور وہ غار کے فرش پر لیٹی چھت سے بچ نکلنے کی راہ ڈھونڈتی ہے۔ لیکن وہ انگلیاں جنہوں نے مدتوں ہوا کو مٹھی میں باندھ رکھا تھا اب دکھتے جسموں والے سنپولئے ہیں جو کائی میں پھنسے موتیوں کو نکل کر راہ بنانے کی کوشش میں تھک چکے ہیں۔
شبنم کا پہلا قطرہ، راستوں پر کملائی، ساکت گھاس کی نیم جان پتی پر زندگی لیے تھرکتا ہے۔
وہ چھت کے نیچے فرش پر سُوت سُوت رینگتی ہے
سحر زدہ، رینگتی پھولوں کی بیل۔
اسے معلوم ہے ایک بار پھر آگ کے کنوارے شعلے کو سجدہ کرنا ہے تاکہ اس کے سانس میں مد و جزر لوٹ آئے۔ اور جب وہ شعلہ بدن بازو پھیلائے تو کائنات ایک بار پھر صاف و شفاف ہو جائے۔
وہ اپنے خواب سے چھلانگ لگاتی ہے لیکن آسمان پیچھے سرک جاتا ہے اور وہ گر جاتی ہے، گرتی چلی جاتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کٹار دانتوں والے بھیڑئے منہ کھولے نیچے کھڑے ہیں۔
نیچے دن ہے یا رات، اسے غار کے اندر پتا نہیں چلتا۔
میں خدا کا شاہکار میرے ہر مسام میں تیرا سانس ہے میرے مستقبل میں میری زندگی میں ماضی کے صیغے میں اس لیے بات کرتی ہوں کہ یہ سکولوں میں پڑھی گرامر کا جبر ہے۔ میرے وجود میں ازل بھی ہے اور ابد بھی آغاز میں انجام میری ثمر آور کوکھ کے وطن کے دریاؤں کی مٹی سے تشکیل پائی ہے جس میں ماضی اور حال ہم بستر ہوتے ہیں اور وقت آنے پر چشمے کی صورت بہ نکلتے ہیں۔ مستقبل کی جانب رواں دواں میرے جسم کی لہریں تیرے لئے مضطرب ہیں۔ تو آتا کیوں نہیں۔ گالی نہ دو۔ گہرائیوں کا دوست سناٹا، لوگ آسمان تلے گلیوں بازاروں میں گھروں دفتروں کھیتوں کارخانوں میں اپنے کام میں مگن رہتے ہیں اور میں پہلی پکار پر پیغمبروں کی ہڈیوں سے نکلتا گیت، میں اپنے ہونٹون سے لگی بانسری کو موت کے حوالے نہیں کروں گی کہ ان کی کمانوں سے نکلے تیروں اور زنجیروں سے چھوڑے گئے کتوں سے خوف زدہ نہیں ہوں ماں باپ، بہن بھائی، دوست سہیلیاں سب مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں لیکن میرے پیروں سے لپٹی جنگلی بیل میں کھلا پھول ہی میری بات سمجھتا ہے جس کی آنکھیں طلوع ہوتے شعور کی لالی جذب کرنے کے لئے کھلی رہتی ہیں، جان لو کہ تم ہو۔
کھچا کھچ بھرے یونیورسٹی لیکچر تھیٹر میں اپنے لیکچرون کے دوران وہ اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی سنگت سے بہت محظوظ ہوتی ہے تیز، زیرک، متجسس، شرارتی آنکھوں سے متوجہ طلبا طالبات اپنے دانتوں میں بال پوائنٹ دبائے غلط فیصلوں پر جھپٹنے کو تیار۔.
جب وہی وہ گزرے زمانوں مقبروں مزاروں کا پوسٹ مارٹم کرتی ہے تو اسے ٹیلی ویژن میں مسکراتے نیم برہنہ جسم یاد آ جاتے ہیں جو مدھم ہوا میں پھلوں سے لدی شاخ کی طرح ہولے ہولے جھومتے، ملوں کارخانوں کی پیداوار کے ساتھ آرام اور سکون کی پیکنگ میں اضطراب اور ہیجان بھی بیچتے ہیں۔
جب اس کے سامنے تشویش سے دہن لٹک جاتے ہیں اور آنکھیں حیرت میں کھل جاتی ہیں تو وہ ایک لحظہ توقف کے بعد مسکرا کے کہتی ہے۔
— اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ میں خود تاریخ سے گزر کے آئی ہوں تاکہ دھوکا نہ کھا سکوں۔ میں نے ہر واقعہ کو بارہا مرتبہ پرکھا ہے۔ میرے ہاتھوں میں دیکھو۔ ان میں وہ تمام شخصیات واقعات سردی سے ٹھٹھرتے چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرح کپکپاتے ہیں۔ لگتا ہے نا جیسے میں ان کی ماں ہوں۔ میں نے تمہاری خاطر ان کی قوت ان کے اسرار کو چھین لیا ہے۔ میں نے انہیں معجزوں سے عاق کر دیا ہے اب یہ تمہاری طرح نہ ختم ہونے والی کہانیاں سنا سنا کر محظوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ یہ ہے ہمارے لئے تمہاری تاریخ۔
لیکچر جاری رہتا ہے
لیکچرر جاری رہتا ہے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہونٹون پر مضطرب مسکراہٹ لیے یونیورسٹی سے نکل کر اس ہجوم میں تحلیل ہو جاتی ہے جو خوبصورت اشیاء سے لدے شو کیسوں کو ایک نظر حسرت سے دیکھ کر سلوموشن میں چلتا رہتا ہے۔
عورتیں، مرد، بچے، طلبا طالبات گھرہستنیں، دفتروں کی سیکریٹریاں، کلرک، ٹیلیفون آپریٹر، سکول ٹیچر، پروفیسر، عالم، شاعر، ملنگ، جابر حاکموں کا عذاب اپنی پشت پر لیے زندگی سے پھاڑے گئے بے یار و مددگار گرد آلود فٹ پاتھوں پر بیٹھے نجومیوں کے ماتھوں پر کھچی سیلن ماری بھول بھلیاں میں ایک دوسرے کو تلاش کرتی اندھیروں کو کھٹکھٹاتی انگلیاں۔
یکدم اس کی آنکھوں میں پھیلتا اندھیرا اس کے حلق میں دھڑکنے لگتا ہے۔
وہ ایک ایک کر کے تیز، زیرک، متجسس، شرارتی آنکھوں کو ٹٹولتی ہے۔ بال پوائنٹ ان کے دانتوں میں اسی طرح دبے ہیں، غلط فیصلوں پر جھپٹنے کے لیے تیار۔ اس سے پہلے پیشتر کہ چپ کا لمحہ سب کی گردن کا پھندہ بن جائے وہ بوجھل، کھردری، مدھم آواز میں، ایک ایک لفظ کو ناپتی تولتی ان سے پوچھتی ہے۔۔۔ تمہیں ایک دوسرے کے ماتھے پر کندہ روشنی نظر نہیں آتی؟ روشنی نظر نہیں آتی؟
میں یہاں گندھی مٹی کی ڈھیری پر نظریں جمائے کھڑی ہوں، افق کی شناخت اس کے حصول کی جد و جہد ریتلی ہوا کی طرح مجھ سے لپٹ کر مجھے خشک کئے دیتی ہے میں پازیب کے حلق میں پسینہ ٹپکاتی ہوں اور سانس لیتی ہوں، صحن میں لگے انار کے پودے کی جڑوں میں دفن خواب بھرے خطوں کو ایک بار پڑھ لینے کی خواہش کو مٹھی میں بند کر لینے کی تمنا میرے تلووں میں پھوٹ پھوٹ بہتی ہے۔ قطبین کے درمیان منجمد کر دینے والے طوفان اور جھلسا دینے والی ہواؤں میں تنہا میرا وجود زمین کا محور ہے۔ جتھوں میں منظوم لوگ جگہ جگہ الاؤ میں روشن اور پھر سورج کا ایک اور طلوع اور ساری شفق پرچم کی طرح لہرا کے الاؤ کی روشنی کو جذب کر لیتی ہے۔ لیکن میں نے لمحے کو طویل سے طویل تر ہوتے دیکھا اور وادیوں، میدانوں، سمندروں صحراؤں پر محیط چپ اسی لیے مجھے چولہے سے بھی محروم کر دیا گیا کہ میں ان ڈھالتے شعلوں کے بجائے ان داتاؤں کی حمد و ثنا کروں لیکن میں تو کھیتوں میں ماؤں کی زمین سے جلائی گئی مٹھی بھر خاک ہوں جس کی واپسی جنت کے قبرستانوں سے کبھی خواب تھی۔
بستیوں سے برہنہ کنواریاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر نظریں جمائے اپنی پناہ گاہوں سے نکلتی ہیں شہروں کے دھوئیں سے اٹی پیامبر فاختائیں بارش میں اپنی سیاہی کو دھوتی ہیں ان کنواریوں کے پیچھے برہنہ مرد وادیوں کے سورج ایک مرتبہ پھر خون اور گوشت پوست کے موسموں کی زبان سیکھتے ہیں۔ میں اپنے گھر کے دروازے پر تالا لگا دیتی ہوں تاکہ میناروں کی آخری منزل میں گڑے لاؤڈ سپیکروں سے ہیجان چھین لوں اور دور سے آنے والے ہرنوں کے لئے راستہ صاف کر سکوں جو میرے راکھ خوابوں میں اگی گھاس کو چرنے آئین گے۔ بڑی بڑی رحمدل آنکھوں کے سواگت کے لئے میں اپنی مردہ کھال اتار کے پھینک دینا چاہتی ہوں جیسے وقت اپنی چھال کو رد کر دیتا ہے جسے صاحب فہم و ادراک تاریخ جانتے ہیں اور سینوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کی مٹی زہر ہے کہ اس میں ابن آدم کی نفرتیں رینگتی ہیں تو میں مٹی کی اس کینچلی کو اتار پھینکتی ہوں تاکہ میرے بدن کی شراب متی میں مٹی نہ ہو اور کہیں ابن آدم کے شر کا نطفہ نہ ٹھہر جائے اسی طرح دور زمین کی خاکی سطح کے نیچے دبی شفاف دمکتی سچایئاں، نیکیاں، خواہش اور محبتیں میرے بدن سے سیراب ہوتی ہیں۔ میں پوچھتی ہوں کیا چناؤ کا ہر راستہ داستانوں سے نہیں آتا۔ اساطیر سے جو مستقبل کے خزینے ہیں اب میں آگ کے پھول کو چوم کر کہہ سکتی ہوں کہ میرے ہونٹ میرے بدن پر پھیلا دو تاکہ میں اپنے ثمر سے بے خوف ہو کر صحرائی ہواؤں کے نشے میں جھوم سکوں۔
محلے کے چھوٹے چھوٹے شگفتہ اور معصوم بچوں کے درمیان اسے یہ اذیت ناک نا قابل برداشت اذیت اکثر محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنی بے قرار انگلیوں کے ساتھ بندھے بچوں سے پتلی گر کی طرح بات منوائے اور انہیں اپنے اتنا قریب لے آئے کہ ان کی مرضی اس کے بس میں ہو جائے۔ جب بھی وہ ان میں سے ایک کو جھولا باغ کی سیر کرانے کے لئے لے جاتی ہے تو سڑک پار کرتے ہوئے وہ اس کے ننھے منے ہاتھ پر اپنے سرد ہاتھ کی گرفت اور بھی مضبوط کر لیتی ہے پر اتنی نہیں کے منی انگلیاں پچک کر رہ جائیں۔ سڑک کو پار کرتے ہوئے بہت احتیاط سے پہلے دائیں دیکھتی ہے پھر بائیں دیکھتی ہے کہ کوئی کار، سکوٹر ریہڑا، ٹرک یا ویگن تو نہیں آ رہی جو اس کے ہاتھ میں پکڑی کومل پر اعتماد سی چیز کو روند کر نکل جائے۔
دیکھو بچہ سڑک پار کرتے ذرا رک احتیاط سے، بہت ہی احتیاط سے دیکھ لینا چاہیے کیونکہ زندگی اور موت کے درمیان بے احتیاطی کے لمحے کی صرف باریک سی جھلی ہوتی ہے۔
بچہ اس کے ساتھ چلتا ایک نظر اس کی طرف دیکھتا ہے جیسے بات اس کی سمجھ میں آ گئی ہے۔ لیکن وہ اپنے ہی دھیان میں سڑک کے پار مکانوں سے پرے دیکھتے ہوئے چلی جاتی ہے۔
— جب تمہاری نانی نہیں ہوں گی تو تم کیا کہو گی؟ وہ بہت بوڑھی ہیں نا!۔ وہ کسی وقت بھی اللہ میاں کے پاس جا سکتی ہیں۔ پتہ نہیں مرنے کے بعد لوگ کیا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر تمہاری نانی کی بھی امی ہوتی تھی۔ اب وہ کہاں ہیں؟ ہوں؟
اور خاوند؟ وہ سوچتی ہے، اگر مرد بچہ جن سکتے تو ایک سے زیادہ کبھی نہ جنتے۔ کم از کم اس کی ماں تو اپنے ہر بچے کے جنم پر یہی کہا کرتی تھی۔ ہیں ابھی اس کے قل نہیں ہوئے۔۔ ابھی سے اٹھنا مناسب نہیں۔ ماں باپ بھائی بہن محبوب کتنے مزے کے رشتے ہوتے ہیں، نہیں، ابھی وہ ان کے پاس رہے گی محفل میلاد کے اختتام پر جائے گی۔
اختتام، اختتام کب ہو گا؟ اگر بتیوں کے دھوئیں اور خوشبو میں پھیلی یہ چھینک کبھی ختم نہیں ہو گی۔ اس سے پیشتر کہ دھواں اور خوشبو تمہاری سانس چھین لیں سب کے درمیان خلا چھوڑ دو، فرار ہو جاؤ، بھاگو دوڑو، بوسیدہ زخمی دیواروں سے ٹکراتی ہوئی ایک دوسرے کی طرف جھکے مکانوں کے درمیان پھڑپھڑاتی ہوئی، بھاگو، تازہ سانس کی کھوج میں چیختی رہو، سانس کی خواہش میں مسخ چہرہ لئے اس وقت تک بھاگتی رہو جب تک میونسپل کمیٹی کے نلکے پر کپڑے دھوتی عورتیں صابن کے بلبلوں سے تمہارے عکس کو نوچ نہ پھینکیں اور لنگوٹی باندھ کر نہاتے مرد اپنی آنکھوں کی مرچوں میں تمہیں چھینٹے مار کے بہا نہ دیں۔
وہ تیز قدموں سے گلی کا موڑ کاٹتی ہے
ہوا کا اب کوئی رنگ۔ کوئی بو نہیں۔ گلی کے دونوں طرف ایستادہ مکان، نئے پرانے، خلط ملط، ایک دوسرے کے سامنے جھکے جھکے، اکثر گھروں کے دروازے بند، ہولناک سڑک پر پہنچ کر بچے کو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس کے سینے کو دبا کر اس کے سارے جسم کو سن کرنا چاہتا ہے۔ جیسے کوئی اس کے منہ میں آٹے کا پیڑا آہستہ آہستہ ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔
سڑک پار کرنے سے پہلے دونوں کے ہاتھوں کی گرفت ایک دوسرے پر اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے اور موت سے بے خبر لفظ زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک باریک سی جھلی ہوتی ہے۔
٭٭٭
محبت کی داستان
آسمان کی طرف جاتی سیڑھیاں، لاتعداد سیڑھیاں جن کے آخر میں عالیشان محل چمکتے سورج میں کلچرڈ موتی ہے
وہ کہ جس کے پھیپھڑے بانجھ، شہر کے دھوئیں، سرطانی کھیتوں کی دھول سے ضیق النفس، جس کی زبان اور آنکھوں میں کتابوں کے چاٹے ہوئے کانٹے، وہ کہ جس کے جسم کی کھال اس کا لباس ہے، سیڑھی پر پیر رکھ کر لمحہ بھر کے لئے موتی محل سے منعکس کرنوں کو دیکھتا ہے۔ کرنوں کے پردے وا ہو تے ہیں، ایک مرمریں ہاتھا سے بلاتا ہے، وہ سیڑھیوں کو دو دوچار کر کے پھلانگتا چڑھتا چلا جاتا ہے۔ لیکن وہ محل کی طرف بڑھتا جتنا فاصلہ طے کرتا ہے محل، موتی کی طرح، وقت کی گرفت سے پھسل کر اتنا ہی دور ہو جاتا ہے۔
وہ پسینے میں گُچ ہانپتا لرزتا لڑکھڑاتا گرنے ہی لگتا ہے کہ ساری کائنات اس کی نظروں میں جامد ہو جاتی ہے۔ وہ تیسری سیڑھی پر کھڑی ہے۔ مسکرا کے کہتی ہے
کیا ہوا خیر تو ہے؟
وہ چونک کر دیکھتا ہے
اس نے موتی کے چھلکے کا کفتان پہنا ہے۔ اس کا جسم چمکتے سورج میں یوں لشکتا ہے جیسے کلچرڈ موتی۔ زمین سے برآمدے کی سطح تیسری سیڑھی ہے جہاں وہ کھڑی ہے۔
وہ اپنی گردن میں اٹھتے درد کی لہر کو دانت بھیچ کر کچل دیتا ہے۔
کچھ نہیں۔
تو آؤ سوچ کیا رہے ہو؟
پیٹ کا سارا تیزاب اس کے حلق میں آکے اٹک جاتا ہے۔ وہ اس کا ہاتھ تھامنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ لڑکی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس کی گردن کی ہڈی میں درد کی لہر پھر اٹھتی، اس مرتبہ اس کے سر پر محیط ہو جاتی ہے جسے وہ کوشش کے باوجود دانتوں میں کچل نہیں پاتا۔
دونوں اس کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں سورج کی سترنگی کرنیں یکجا ہو کر کلچرڈ موتی کا روپ دھارتی ہیں۔
کمرے کی ہر چیز موتیوں سے بنی ہے، سفید ٹھٹھری ہوئی، اس بلی کے سوا جس کا رنگ سیاہ ہے، جس کی گردن میں موتیوں کے ہار ہیں۔
کمرے کی ہر چیز موتیوں سے بنی ہے۔ سفید ٹھٹھری ہوئی۔
بلی سفید مخملیں صوفے پر بڑی تمکنت سے بیٹھی انہیں کمرے میں داخل ہوتا دیکھتی ہے
اور مینٹل پیس پر پڑا عورت کا وہ بت جس کا کوئی رنگ نہیں، کہ اس کے جسم پر کوئی پردہ نہیں، ساتوں پردے اس کے پیروں پر پڑے ہیں، ایک ہاتھ رقص کے انداز میں لہراتا فضا میں جامد ہو گیا ہے اور دوسرے ہاتھ نے مرد کے کٹے سر کو الجھے الجھے لمبے لمبے بالوں سے پکڑ رکھا ہے اور بڑی نخوت سے تمسخر بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر لیے سر کو دیکھتی ہے۔
اس کی گردن کا درد جو ابھی چند لمحے پہلے اس کے سر کے گرد کلبوت بن گیا تھا۔ مینٹل پیس پر اس جگہ نظریں پڑتے ہی غائب ہو جاتا ہے جہاں وہ بت بڑا ہے جو اسے نظر نہیں آتا کہ اس بت کا کوئی رنگ نہیں۔
وہ لڑکی کو بے حد محبت بھری نظروں سے دیکھتا ہے لڑکی آنکھوں میں اتھاہ پیار لئے مسکراتی ہے۔ وہ وارفتگی سے اس کو سینے سے لگانے کے لئے اسے بازوؤں میں لینے کے لئے بڑھتا ہے۔ وہ اس کی باہوں میں آتی آتی یوں پھسل جاتی ہے جیسے وقت کی گرفت سے کلچرڈ موتی۔
صوفے پر بیٹھی سیاہ بلی بڑی تمکنت سے ایک ہلکی غررر کر کے پہلو بدل لیتی ہے۔
وہ ایک بار پھر پیٹ سے ابلتے تیزاب کو حلق میں دبا کے اپنی گردن سے ابھرتے درد کو دانتوں میں کچکچا دیتا ہے۔ اور ہانپتا، لرزتا لڑکھڑا تا کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ لکھنے والی میز پر کہنیاں ٹکا کے سر ہاتھوں میں تھام لیتا ہے۔ لڑکی ہستی ہوئی اس کے سامنے بیٹھ جاتی ہے۔
میز پر انتہائی خوبصورت کلچرڈ موتیوں کے چھلکے سے بنے کاغذ کا رائٹنگ پیڈ ہے کلچرڈ موتیوں سے بنے کاغذ کاٹنے کا چاقو، قلم دان جس کی دوا توں میں سرخ اور سیاہ روشنائی ہے۔ لڑکی اس کو یوں ہاتھوں میں سر تھامے میں دیکھ کر کاغذ کاٹنے والا چاقو اٹھا کر اس سے کھیلنے لگتی ہے۔
سیاہ بلی آنکھیں موند لیتی ہے۔
تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے؟
وہ اسی طرح سر تھامے اس سے پوچھتا ہے۔
ہے ہی۔ بہت ہے۔
تو۔۔۔ تو پھر تم۔۔۔ تم کیوں؟
وہ اپنے ہاتھوں کے پیالے سے سر اٹھاتا ہے۔ اس کی نظریں مرمریں ہاتھوں میں تیز دھار چاقو پر پڑتی ہیں۔ وہ ایکدم ہاتھ بڑھا کر چاقو چھین لیتا ہے۔ انگوٹھے سے چاقو کی دھار کو پرکھتا ہے اور پھر ماہر سرجن کی طرح اپنے سینے پر اس جگہ چاک دیتا ہے جہاں اس کا دل ہے۔
اسی لمحے سیاہ بلی بہت احتیاط سے جیسے موتیوں کے ہاروں کو سنبھالتی صوفے سے اترتی ہے اور ان کی میز کے گرد ایک بار چکر لگا کر لڑکی کے پاس فرش پر بیٹھ جاتی ہے۔
وہ سینے کے چاک کو واکر کے خلا میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اپنا دل نکال کر کلچرڈ موتی سے بنی میز کی سطح پر رکھ دیتا ہے۔
یہ لو۔
لڑکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ جاتا ہے۔
سیہ بلی وہیں لڑکی کے قدموں میں بیٹھی جیسے کسی خواب سے چونکتی ہے۔
وہ موتی کے چھلکوں سے بنے کاغذوں کے پیڈ کو لڑکی کے سامنے سرکا دیتا ہے قلمدان سے قلم اٹھاتا ہے اور لڑکی کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔
یہ تمہارے موتیوں سے بنے قلمدان کا قلم ہے اور یہ ہے میرا دل۔ موتی کے چھلکے پر اس کی شبیہ بناؤ۔ رنگ کا انتخاب تم پر چھوڑتا ہوں۔
لڑکی حیران پریشان میز پر پڑے سرخ سرخ دھڑکتے دل کو غور سے دیکھتی ہے پھر کانپتے ہاتھوں سے قلم تھام کر سیاہی میں ڈبو کر موتی کے چھلکے کاغذ پر اس کے دل کی شبیہ بنانے لگتی ہے۔
چند لمحوں بعد کاغذ پر لڑکی کا قلم بڑی تیزی سے چلنے لگتا ہے اور اس کی زبان پیاسے جانور کی طرح لٹکنے لگتی ہے۔ وہ اس لڑکی کے پیروں میں بیٹھی سیاہ بلی کو دیکھتا ہے، بڑے محبت بھرے لہجے میں لڑکی سے کہتا ہے۔
اتنی جلدی کی ضرورت نہیں۔ اطمینان سے بناؤ۔ میں جاؤں گا نہیں۔
جانے کتنے لمحے، کتنی صدیاں بیت جاتی ہیں۔
بالآخر لڑکی دل کی شبیہ مکمل کر لیتی ہے، ہو بہو اس کا دل لیکن سرخ کی بجائے سیاہ۔
وہ کلچرڈ موتی کے چھلکے پر بنا سیاہ دل اٹھا لیتا ہے اور اسے دل ہی کی شکل دے کر سینے کے اندر خلا میں اس جگہ رکھ لیتا ہے جہاں سے اس نے اپنا دل نکالا تھا۔
لڑکی میز کے دراز سے سٹیپلر نکالتی ہے۔ بڑی محبت سے اس کے سینے کے چاک کے کناروں کو جوڑتی ہے اور اتنی مہارت سے سٹیپلر کی پنیں لگاتی ہے کہ زخم مندمل ہونے پر کوئی نہیں جان سکتا کہ یہاں چاک تھا۔
اسٹیپلر واپس دراز میں رکھتے ہوئے اس لڑکی کی نظریں میز پر پڑے دل پر پڑتی ہیں جو جانے کتنے لمحے کتنی صدیاں اس کا ماڈل بنا رہا ہے۔ دل سے نگاہیں اٹھا کر وہ اسے سوالیہ نظروں سے پوچھتی ہے، اسے کیا کرنا ہے؟
اسے بلی کے لئے رہنے دو۔
تب وہ لڑکی اٹھ کر بے حد محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ وہ اس کی نگاہوں سے مسحوراٹھتا ہے۔ وہ اس کی گردن میں بازو حمائل کر دیتی ہے جہاں یوں لگتا ہے جیسے کبھی درد نہ تھا۔
وہ اسی طرح، جیسے نیند میں ہو، اس کے ساتھ چل دیتا ہے وہ اسے اپنی خوابگاہ میں لے جاتی ہے جہان نرم نرم جھاگ کا بستر حجلہ عروسی بنا ہے۔
خواب گاہ کو جاتے ہوئے اس کی مسحور نظریں سیاہ بلی کو نہیں دیکھتیں جس نے اب تمکنت کا چولا اتار پھینکا ہے اور میز پر چڑھی خونخوار درندے کی طرح میز پر پڑے دل کو اپنے پنجوں میں لیے بہت بے دردی کے ساتھ اپنے تیز دانتوں سے نوچتی ہے اور نہ ہی اس کی مسحور آنکھیں اس عورت کے بت کو دیکھتی ہیں جس کے جسم کے ساتوں پردے اس کے پیروں میں پڑے ہیں۔ جس کا ایک ہاتھ رقص کے انداز میں لہراتا فضا میں جامد ہو گیا ہے اورجس کے دوسرے ہاتھ نے مرد کے کٹے ہوئے سر کو الجھے ہوئے لمبے لمبے بالوں سے تھام رکھا ہے۔
چمکتے سورج میں کلچرڈ موتی کی طرح لشکتے عالیشان محل سے زمین کی طرف اترتی سیڑھیوں، لا تعداد سیڑھیوں کے آخر میں کروڑ ہا لوگوں کا ہجوم، جن کے پھیپھڑے بانجھ شہر کے دھوئیں، سرطانی کھیتوں کی دھول سے ضیق النفس، جن کی زبانوں، آنکھوں اور کانوں میں کتابوں سے چاٹے گئے لفظوں کے کانٹے، جن کی کھالیں، جن کا لباس ہیں، اپنے اپنے سروں کو اپنے اپنے ہاتھوں کی طشتریوں میں اٹھائے اس کے حوالے سے اپنے نئے جسم کے منتظر ہیں کہ جس کے دھڑکتے دل کو کلچرڈ موتی محل میں سیاہ بلی کھا چکی ہے۔
٭٭٭
گائے
ایک روز انہوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ اب گائے کو بوچڑ خانے میں دے ہی دیا جائے۔
اب اس کا دھیلا نہیں ملنا۔
ان میں سے ایک نے کہا تھا۔
ان مٹھی بھر ہڈیوں کو کون خریدے گا۔
لیکن بابا مجھے اب بھی یقین ہے۔ اگر اس کا علاج باقاعدگی سے۔
چپ رہو جی۔ بڑے آئے عقل والے۔
نکا چپ کر کے ایک طرف ہو گیا تھا اور بابا اپنی داڑھی میں عقل کو کریدتا ہوا اس کے بڑوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ گیا تھا۔
میں جب زبان ہلاتا ہوں تو یہ بوچڑ بن جاتے ہیں۔ جس روز سے میں نے انہی کو پہچانا ہے، اسی روز سے چتکبری کو بھی جانا ہے اور جس دن سے یہ لوگ اسے بوچڑ خانے لے جانے کی سوچ رہے ہیں اس دن سے میں ہر لمحہ یتیم ہوتا ہوں۔ میں، کیا کروں یہ سب مجھ پرہنستے ہیں کہ میں اس کی اتنی خدمت کیوں کرتا ہوں۔ ان ہڈیوں سے اتنا پیار کیوں کرتا ہوں، کیوں کرتا ہوں۔
’’آپ اسے بوچڑ خانے کے بجائے ہسپتال کیوں نہیں بھیج دیتے‘‘۔ نکے سے رہا نہیں جاتا۔
’’تم نہیں سمجھتے، یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاج پر پیسہ خواہ مخواہ کیوں برباد کیا جائے‘‘۔
میں ناسمجھ ہوں۔ ابھی تو کل ہی ماں نے دھاگے میں پندرھویں گرہ لگائی ہے۔
آپ علاج کرا کے دیکھیں تو سہی۔
بڑوں کی باتوں میں دخل نہ دیا کرو۔
میرا جی چاہتا ہے کہ میں آپ سب کو بوچڑ خانے دے آؤں گا۔
پھر سب نے مل کر گائے کی زنجیر پکڑی تھی۔ لیکن جیسے گائے کو بھی سب کچھ معلوم تھا، وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلی تھی۔ انہوں نے مار مار کے اس کا بھرکس نکال دیا تھا۔ نکا ایک طرف کھڑا پتھرائی ہوئی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
شاباش چتکبری، میری گائے میری گؤ ماتا، ہلنا نہیں، تم نہیں جانتیں یہ لوگ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والے ہیں۔ جانا نہیں ہلنا نہیں ورنہ، ورنہ نہیں تو۔
گائے اپنی جگہ پر اڑی، مڑ مڑ کے اس کی طرف دیکھتی رہی تھی۔ ذرا ہٹ کر گائے کا بچھڑا کھونٹے کے ساتھ رسی سے بندھا بے تعلق بیٹھا تھا۔ ہڈیوں پر لاٹھیوں کی بوچھاڑ اسے نہیں سنائی دیتی تھی۔ نکے کے کان بھی بند ہو رہے تھے رفتہ رفتہ۔
سارے بزرگ ہانپتے ہوئے پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ پھر فیصلہ ہوا تھا کہ اگر یہ اب چل بھی پڑے تو ممکن ہے راستے میں کھمبا ہو جائے۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ اسے ٹرک میں ڈال کر لے جایا جائے۔ ٹرک میں تو اسے اٹھا کر بھی لادا جا سکتا ہے۔
اگلے روز ٹرک بھی آ گیا تھا۔
ٹرک کی آواز پر گائے نے مڑ کے دیکھا تھا۔ آنکھیں جھپکی تھیں اور کھولی میں منہ ڈال دیا تھا، جہاں ان کا چارہ ڈال کے ابھی ابھی ٹرک کو دیکھنے گیا تھا۔
آپ لوگ اسے واقعی۔
اسے یقین نہیں آتا تھا۔
نہیں تو ہم مذاق کر رہے ہیں کیا؟
ایک نے کہا تھا۔
بابا، یہ گائے مجھے دے دو، میں اسے۔
حکیم کی اولاد۔
دوسرے نے کہا تھا۔
بابا اس کے بغیر میں۔
مجنوں کا بچہ۔
تیسرے نے کہا تھا۔
چوتھا، پانچواں سارے بزرگ، سارے بزرگ سالے ایک سے ہیں اور بابا جو اپنی داڑھی کو عقل کا گڑھ سمجھتا ہے، جانے اسے کیا ہو گیا ہے۔
بیٹے ٹرک والے کودس روپے دے کر بھی ہم بہت فائدے میں رہیں گے۔
او کمبخت سوداگر مجھ سے لو روپے، مجھ سے یہ لو لیکن میری مٹھی میں اس وقت تو ہوا ہے جب، جب میں بڑا ہو جاؤں گا۔
ہاہاہاہا۔
جب، میں کمانے لگوں گا۔
ہاہاہاہا۔
تب، تب تک چتکبری کی ہڈیوں کا سرمہ بن گیا ہو گا۔ میں، میں کیا کروں۔
ان میں سے ایک، گائے کو لانے کے لیے کھرلی کی طرف گیا تھا۔ نکا بھی اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ یونہی دیکھنے کے لیے۔ بڑے نے اس کی زنجیر کھولی تھی۔ گائے نے کھرلی میں منہ مار کے دانتوں میں پٹھے دبائے تھے۔ مڑ کے نکے کو دیکھا تھا اور جانے کے لیے کھر اٹھایا تھا۔
نہ، نہ، نہ۔
نکا چیخا تھا۔
بہکو مت۔
گائے کھڑی ہو گئی تھی۔
ہے۔ ہے۔ ہے۔
بڑے نے زور لگایا تھا۔
نہ چتکبری ہے۔ نہ، نہ۔
چپ بھی کرو گے یا کھینچوں تمہاری زبان۔
نکے نے زبان کو قید کر دیا تھا۔ بڑے نے پھر زنجیر کو جھٹکا دیا تھا۔
چلو میم صاحب! ٹرک والا تمہارے باپ کا نوکر تو نہیں جو سارا دن کھڑا رہے۔
گائے کی آنکھیں باہر کو نکل آئی تھیں۔ زبان، قید میں پھڑپھڑا کے رہ گئی تھی۔ لیکن وہ مشت استخواں وہیں کی وہیں تھی۔ نکا مسکرایا، پھر فوراً اداس ہو گیا تھا۔
یہ تو بک بھی چکی ہے، اسے جانا ہی ہو گا۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ اگر تھوڑی سی رقم لگا کے اس کا علاج باقاعدگی سے کیا جائے توتو لیکن میں ان بزرگوں کا کیا کروں کاش میں حکیم ہی ہوتا۔ اس بچھڑے کو شرم نہیں آتی ماں کے جسم پر نیل پڑ رہے ہیں اور یہ باہر کھڑا الو کے پٹھوں کی طرح دیکھے جا رہا ہے۔
زبان پھڑ پھڑا کے رہ گئی تھی۔
پھر ان میں سے ایک کو بڑی اچھی سوجھی تھی۔ اس نے گائے کی دم پکڑ کر اسے تین چار بل دئیے تھے۔ وہ پیٹھ کے درد سے دور بھاگی تھی۔ اس نے نکے کی طرف دیکھ کر قہقہہ لگایا تھا۔ پیٹھ کا درد گائے کو ہانکتا ہوا بالکل ٹرک کے پاس لے آیا تھا۔ نکے کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا۔
در فٹے منہ، لعنت لکھ لعنت۔
ٹرک والے نے گائے کے چڑھنے کے لیے ٹرک سے زمین پر تختہ لگا دیا تھا۔ گائے نے تختے پر کھر رکھا۔
نہ چڑھنا۔
اس کی زبان کاٹ لو یہ گائے کو ورغلاتا ہے۔
ڈراتا ہے۔
نکا پھر منہ بند کر کے پیچھے ہٹ گیا تھا۔ گائے نے تختے کو دیکھا، پھر نکے کی طرف۔
در فٹے منہ، لعنت لکھ لعنت۔
نکے کا سرشرم سے جھک گیا تھا۔
اس کے علاوہ میں اور کیا کر سکتا ہوں، کیا کر سکتا ہوں۔
وہ ابھی تک نہیں ڈری تھی۔ پھر اس نے مشکوک نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ کر بڑے زور سے پھنکار ماری تھی۔
میری چتکبری جانتی ہے، جانتی ہے کہ وہ تختے پہ قدم رکھ کر ٹرک میں چلی جائے گی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی کیوں، کیوں وہ چڑھنا نہیں چاہتی۔
ان سب نے مل کر اس کی پیٹھ پر لاٹھیاں برسائی تھیں، گائے کی ٹانگیں تھرکی تھیں لیکن وہ اپنی جگہ سے قطعی نہیں ہلی تھی۔ جب انہوں نے مل کر دوسرا وار کیا تو وہ تکلیف سے دور بھاگنے کو تھی کہ بابا کی داڑھی میں عقل نے جوش مارا تھا اور اس نے جما کر اس کے منہ پر لاٹھی ماری تھی۔ گائے پھر تختے کی طرف منہ کر کے سیدھے ہو گئی تھی۔ بابا نے ہانپتے ہوئے کہا تھا۔
آؤ، پیٹو۔
اور ان سب نے مل کر پھر لاٹھیوں کا مینہ برسا دیا تھا۔
نکا دور کھڑا تھا۔ بالکل بے تعلق، بے حس۔
یوں بات نہیں بنے گی۔
ایک نے اپنے سانس پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔
تو پھر؟
وہ ٹرک کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے سوچ ہی رہے تھے کہ جانے گائے کو کیا سوجھی تھی، پلٹ کر یکدم بھاگ اٹھی تھی اور دھول اڑاتی نکے کے قریب سے بالکل اجنبیوں کی طرح گزر گئی تھی۔
نکا، جسم کا مفلوج حصہ۔
دیکھو، دیکھو، وہ تو بائیں طرف۔
ایک چونکا تھا۔
قدرتی بات ہے۔
بابا نے اپنی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
گائے اپنے بچھڑے کو چاٹ رہی تھی۔ بابا کی آنکھیں مکار سی مسکراہٹ سے چمک اٹھیں۔
اس بچھڑے کو یہاں لے آؤ۔۔۔۔ یہ چال تو ہمیں کل ہی چل جانی چاہیے تھی۔ ٹرک کے پیسے بھی بچ جاتے۔
نکا۔۔۔ مفلوج وجود۔
ان میں سے ایک نے بچھڑے کی رسی پکڑی تھی۔ نکے کی زبان لرزی تھی۔ گائے کچھ سوچتی، قدم اٹھاتی، رکتی چلتی، بچھڑے کے پیچھے پیچھے اس کے قریب سے گزری تھی تو آہستہ آہستہ سے نکے کی زبان سے گالی پھسلی تھی۔ بچھڑا تختے پر چڑھ کے پٹوسیاں مارتا ہوا ٹرک میں چلا گیا تھا۔ گائے تختے کے پاس جا کے پھر رکی تھی۔ بڑی حیرانی سے بچھڑے کو دیکھ کر آہستہ آہستہ گردن موڑ کے نکے کو دیکھا تھا۔ ایک نے فوراً بغل سے پٹھوں کا گٹھا نکال کر گائے کے آگے کر دیا تھا۔ اس نے چند ڈنٹھل دانتوں میں لے لیے اور پھر کچھ سوچ کر زمین پر گرا دئیے تھے اور اگلا کھر تختے پر رکھ دیا تھا، پھر دوسرا کھر۔
خدا معلوم نکے کو کیا ہوا تھا۔ یک دم اس کے سارے جسم میں تازہ تازہ گرم گرم لہو کا سیلاب آ گیا تھا۔ اس کے کان سرخ ہو گئے اور دماغ بے طرح بجنے لگا تھا۔ وہ بھاگا بھاگا گھر میں گیا تھا اور بابا کی دو نالی بندوق اتار کر اس میں کارتوس بھرے تھے۔ اسی جنون میں بھاگتا ہوا باہر آ گیا تھا اور کاندھے پر بندوق رکھ کر نشانہ باندھا تھا۔
اس نے کھلی آنکھ سے دیکھا۔ بچھڑا ٹرک سے باہر گائے کے گرائے ہوئے پٹھوں میں منہ مار رہا تھا۔ ٹرک میں بندھی گائے، باہر منہ نکال کر بچھڑے کو دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے ایک گائے کو لے جانے کے لیے ٹرک میں بیٹھا تھا اور بابا ایک ہاتھ سے اپنی داڑھی میں عقل کو سہلاتا ہوا باہر کھڑے ڈرائیور سے ہاتھ ملا رہا تھا۔
پھر مجھے نہیں پتہ کیا ہوا۔ نکے نے کسے نشانہ بنایا۔ گائے کو بچھڑے کو، ڈرائیور کو، بابا کو، اپنے آپ کو، وہ ابھی تک نشانہ باندھے کھڑا ہے۔
کوئی وہاں جا کر دیکھے اور آ کے مجھے بتائے کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ ایک روز انہوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی
ڈاؤن لوڈ کریں
ڈاؤن لوڈ کریں