FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

انتظار کے پودے

 

انتخاب

 

 

 

               سید انور جاوید ہاشمی

 

 

 

 

کوائف نامہ سید انور جاوید ہاشمی

 

اٹھائیس 28 فروری 1953 کراچی میں پیدائش

1968 والد:  سید عبداللہ  ہاشمی  المعروف  سالک الہاشمی علیگ ایڈوکیٹ  شاعر ادیب  مجموعہ خاک  دل

اپوا اسکول نئی کراچی سے میٹرک

1972 اسلامیہ کالج کراچی سے انٹر

1974 کراچی یونی ورسٹی سے اختیاری اردو امتیازی نمبر کے ساتھ گریجویشن

1969 تا حال اردو صحافت،شاعری،تراجم،حروف بینی، آن لائن ایڈیٹنگ

اردو لغت بورڈ اور روزنامہ جنگ کراچی میں 2003ء تا 2008 خدمات بطور معاون رکن مجلس ادارت سر انجام دیں

رسائل نشاط،کشش،زیر لب،اخبارات اعلان، جسارت،انکشاف میں سب ایڈیٹر

ساکن کراچی پاکستان

حالیہ مصروفیات شریک مدیر اعزازی سہ ماہی تذکرہ کراچی فروری 2009 تا دسمبر 2012 7 شمارے شائع ہو چکے ہیں

معاون اردو لغت بورڈ ۲۰۰۴ تا ..۲۰۰۸…Daily Jang 2003-2005

کاپی رائٹر ایڈگروپ ایڈورٹائزنگ ۲۰۰۹

فری لانس،مترجم،شاعر، حروف بیں، آن لائن ایڈیٹنگ

کتب: نئے بت پرانے پجاری ، تکلف برطرف،مشاہدہ حق،کاغذ کا رزق،

شعری مجموعہ انتظار کے پودے

تحقیق: کراچی نامہ شہر کی منظوم تاریخ مع حواشی

رفتگاں کا تذکرہ خاک میں پنہاں

جاپانی شاعری سہ لسانی مطالعہ

نارتھ کراچی ٹاؤن شپ کی ادبی تنظیموں کی تقریبات میں باقاعدگی سے شرکت اور ان کی روداد کو اردو نیٹ فورمز پر مشتہر کرتے رہنا۔سہ ماہی تذکرہ کی ادارت،پروف خوانی،فری لانسر،مترجم،سماجی سرگرمیاں

 

 

 

 

۱

 

سحر اُس نے بھی مؤثر کیا بھر پور کیا

جس کو تخئیل سے الفاظ سے مسحور کیا

 

کیسی نظارا طلب آنکھ تھی جس نے کہ ہمیں

پہلے پُر نم رکھا پھر آئنہ پر نور کیا

 

وقت حائل تھا نگاہوں نے وہ بخشی قربت

فاصلہ پھر نہ رہا پل میں اسے دور کیا

 

ہم کو خلوت میں بھی جلوت کا مزا آنے لگا

بزم آرائی کو جس روز سے منشور کیا

 

جانتا کون تھا اس شہرِ کراچی میں ہمیں

مرحبا کارِ سخن تو نے جو مشہور کیا

٭٭٭

 

 

 

 

فیصلے کی گھڑیوں میں جس طرح کوئی مجرم مطمئن نہیں ہوتا

جاگتے ہیں شب میں ہم یوں بھی شعر لکھنا اب دن بہ دن نہیں ہوتا

 

اک طویل قصّے کو مختصر سے لفظوں میں کس طرح بیاں کرتے

ہم کہاں فغاں کرتے آسماں ہمارا گر ممتحن نہیں ہوتا

 

اب کڑی مشقّت ہی آدمی کو دنیا میں عیش کے وسائل دے

خواہشیں کرے پوری یا چراغ لا کے دے ایسا جِن نہیں ہوتا

 

عشق کے الاؤ پر رقص کرنے والے دل دھیمے دھیمے جلتے ہیں

اور یوں خموشی سے تال پر کہیں کوئی تاک دھِن نہیں ہوتا

 

اے گُمانِ آئندہ رکھ یقین وہ ساعت جلد آنے والی ہے

اس جہانِ فانی میں رفتگاں کے ماتم کا کوئی دِن نہیں ہوتا

 

۱۹۹۷ء۔ ۵۔ ۴

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل آنکھ کی حدّت سے جو آمیز نہ ہوتا

وہ شعلۂ جوّالہ بھی مہمیز نہ ہوتا

 

گل ہائے سخن نذر بھلا کرتا کہاں میں

یہ ذوقِ طلب آپ کا جو تیز نہ ہوتا

 

پھر چارہ گری کوئی کیا کرتا یہاں کیوں

پیمانۂ احساس جو لبریز نہ ہوتا

 

تقدیر کی میزان پہ اعمال نہ تُلتے

گر کوئی ہلاکوؔ کوئی چنگیزؔ نہ ہوتا

 

چپ چاپ گزرنا وہ ترا راہ گزر سے

گر دیکھتا نہ تجھ کو غم انگیز نہ ہوتا

 

۱۹۹۲۔ ۳۔ ۲

٭٭٭

 

 

 

 

کیا حد سے سوا جاگتا سویا جو نہیں تھا

آنکھوں نے کوئی خواب پرویا جو نہیں تھا

 

تھا لفظ و معانی کے طلسمات میں گم میںؔ

کل رات، ترے سامنے گویا جو نہیں تھا

 

کل رات سُنا اُس کو نظر ڈھونڈ رہی تھی

وہ عالمِ امکاں ابھی کھویا جو نہیں تھا

 

کل رات اُسے یاد کے پہلو میں بٹھا کر

میں ہنستا رہا سوچ کے رویا جو نہیں تھا

 

آ ہجر کے موسم کا ذرا بوجھ اُٹھا لیں

کل رات اسے آنکھوں نے ڈھویا جو نہیں تھا

۱۹۹۵ء۔ ۵۔ ۱۷

٭٭٭

 

 

 

 

میں ہاشمی ؔ محفل میں لے کر جو غزل جاتا

کچھ لوگ بپھر جاتے ، اک شخص بہل جاتا

 

اِک شغل محبت تھی سو کام تھے دُنیا کے

میزانِ عمل تھی سو، کیوں کر نہ سنبھل جاتا

 

ہاں اُس قدوقامت کی، آثارِ قیامت کی

تعریف نہ گر کرتا، اک آن میں جل جاتا

 

اس خواب سی دُنیا میں خوابوں کی حقیقت کیا

سو جاگتا ہوں شب میں، سوتا تو پگھل جاتا

 

میں دیکھ کر اُس کو جو رُخ پھیر نہیں لیتا

بچّے کی طرح پل میں کیا دل نہ مچل جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

فراق وہ ہے کہ پتھر بنی رہیں آنکھیں

وصال کیسا جو مستی میں انگ انگ نہ ہو

٭٭

 

 

 

کیا پیرَہن آلودۂ خوش بو نہیں ہوتا

کیوپڈؔ جو ترا تیر ترازو نہیں ہوتا!!

 

جذبات کو الفاظ سے بوجھل نہیں کرنا

ہم وہم تراشوں پہ یہ جادو نہیں ہوتا

 

تجھ لب کی طلب اور گریزاں ترا ہونا

پیاسا کوئی اتنا تو لبِ جُو نہیں ہوتا!!

 

تفریق کا کیا خوب جواز اُس نے رکھا ہے

عاشق کوئی افسر کوئی بابو نہیں ہوتا

 

ہاتھ آئے ہمارے سو ترے ساتھ گزاریں

وہ وقت کہ جس وقت من و تُو نہیں ہوتا

 

درپیش تجھے مسئلہ ہجر بتا کیا

اے غافلِ چشم و لب و ابرو نہیں ہوتا؟

 

پہچان مری عصر میں یوں عام نہ ہوتی

میں ہاشمیؔ گر شاعرِ اُردو نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

جب دل کی شاخ پر گل و لالہ نہ آئے گا

آنکھوں میں عکس کوئی نرالا نہ آئے گا

 

 

تھا اُس میں زہرِ آب یا تمثیل تھی فقط

سقراطؔ لے کے اب وہ پیالہ نہ آئے گا

 

دہقان کو زمین سے بے دخل کیوں کیا

تقدیر میں نہیں جو نوالہ نہ آئے گا

 

تعمیر کر کے قصرِ تعصب نہیں کہو

دل کے مکان میں کوئی جالا نہ آئے گا

 

جب تک رہے گا سایہ فگن سر پہ آسماں

اہلِ زمیں کے پاؤں میں چھالا نہ آئے گا

 

ہاں تم اگر کرو گے مرتب یہ داستاں

بھولے سے ہاشمیؔ کا حوالہ نہ آئے گا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کس نے کہہ دیا کارِ سخن سے کچھ نہیں ہو گا

سُخن اُس شوخ، اُس شیریں دہَن سے کچھ نہیں ہو گا

 

نہ ہو سرشار روحِ آدمی تو وصل کیوں کہہ دیں

ادا سے، ناز و نخرہ سے بدن سے کچھ نہیں ہو گا

 

یقینا کچھ نہیں ہو گا اگر ہم خواب دیکھیں گے

سُنو اے جاگتی آنکھو! تھکن سے کچھ نہیں ہو گا

 

ہوا حاصل نہ کچھ گوشہ نشینی ترک کرنے سے

ہمیں حاصل تمہاری انجمن سے کچھ نہیں ہو گا

 

پذیرائی کرے وہ ہاشمیؔ یا رد غزل کر دے

سرِ نقد و نظر نقادِ فن سے کچھ نہیں ہو گا

۱۹۹۷ء۔ ۶۔ ۱۱

٭٭٭

 

 

 

جُنوں کے بعد خرد مرحلہ لکھا جاتا

ہم اپنے آپ میں رہتے تو کیا لکھا جاتا

 

لکھا ہے اُس نے مقدر میں شاعری کرنا

تو اِس کے ساتھ ہی صبر آ ز ما لکھا جاتا

 

جو تم نے ہم کو کیا رَد تو کوئی بات نہیں

ہم ایسا کرتے تو یہ نا روا لکھا جاتا

 

علاوہ اپنے کسی کو نہ کچھ دکھائی دے

پھر اس کے بعد کسے آئینہ لکھا جاتا

 

تمہارے ساتھ اگر لکھنؤ میں ہم رہتے

ہمیں یقیں ہے ہمیں ایک سا لکھا جاتا ٭۱

 

جو لکھ دیا ہے نظر اُس پہ ٹھہرتی ہی نہیں

طلب وہی کہ نیا قا فیہ لکھا جاتا

٭٭٭

٭۱۔ کینوس، شبِ درمیاں، سات سماوات، عشق نامہ(کلّیات ’دریا‘) کے شاعر عرفان صدیقی لکھنؤ جن کو توصیف تبسم صاحب نے اسلام آبادسے آ کر متعارف کروایا، اُن کے ساتھ کراچی میں احباب نے خصوصی نشستوں میں شعر و ادب کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کے ساتھ ہی تبادلۂ سُخن بھی کیا۔ خواجہ رضی حیدر، لیاقت علی عاصم، صابر وسیم، مبین مرزا، آصف فرخی، میر حامد علی کانپوری، اجمل سراج، عزم بہزاد اور ہم نے ان سے غزلیں فرمائش کر کے سنیں اور اپنا اپنا کلام پیش کیا ’’دریا‘‘ صابر وسیم کا شعری مجموعہ رفیق نقش نے میرپور خاص سے شائع کیا تھا۔ توصیف تبسم صاحب نے عرفان صدیقی کے مذکورہ مجموعوں کی کلیات بھی ـ’’ دریا‘‘ کے نام سے ہی شائع کی جسے احتشام انور نے پی ڈی ایف کی صورت میں محفوظ کیا۔

نعمان پارس سندھی اردو شاعر شاگرد استادنصیرکوٹی سے ہم نے یہ کلیات مستعار لے کر ایک مرتبہ پھر تمام شاعری پڑھی، لطف لیا۔

 

 

 

 

کیا حد سے سِوا جاگتا سویا جو نہیں تھا

آنکھوں میں کوئی خواب پرویا جو نہیں تھا

 

ہر لفظ طلسماتِ معانی میں رہا گُم

کل رات ترے سامنے گویا جو نہیں تھا

 

کل رات سُنا ہے کہ نظر ڈھونڈ رہی تھی

وہ عالمِ امکان جو کھویا بھی نہیں تھا

 

کل رات اُسے یاد کے پہلو میں بٹھا کے

میں ہنستا رہا سوچ کے رویا جو نہیں تھا

 

اب موسمِ گریہ کا ذرا بوجھ اُٹھا لیں

کل رات جسے آنکھوں نے ڈھویا جو نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

جو بھی اوہام کے شر سے نکلا

گردشِ شمس و قمر سے نکلا

 

اُس میں موجود ہے امکانِ شجر

بیججوبیچ ثمر سے نکلا

 

وحشتیں بھی مرے ہمراہ چلیں

میں اکیلا کہاں گھر سے نکلا

 

شہرتیں ہوں تو سُخن ہوتا ہے

اب یہ سودا مرے سر سے نکلا

 

ہاشمی ؔ کر نے لگے میرؔ اسیر

میں جو غالبؔ کے اثر سے نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

رفتہ رفتہ بجھ گئے آخر ان آنکھوں کے جلتے خواب

میری مثال نہیں دیکھے ہوں شاید تم نے ایسے خواب

 

پیاسی دھرتی مانگ رہی تھی پانی ابر نہیں برسا

بنجر کھیتوں نے نگلے دہقان کے خون سے پورے خواب

 

اُس نے وصل کی حسرت میں جب ہجر شبوں کو کاٹ لیا

سج گئے پیار کی رُت میں دھیرے دھیرے سندر سپنے خواب

 

ہاشمیؔ بے داری میں غزل کی مانگ سچائی خوابوں سے

پھر تعبیر کی لذت نے آنکھوں میں اتارے سچے خواب

۳جولائی ۱۹۷۵ء

٭٭٭

 

 

 

ب

 

سخن کے بھاؤ خریدار دیکھئے صاحب

چلیں نا! گرمیِ بازار دیکھئے صاحب

 

گلی گلی میں دُکان ہنر کھلی تو ہے

ہنر فروشی ٔ فن کار دیکھئے صاحب

 

انہیں سمجھئے نہ کوتاہیاں مقدر کی

ہمیں جو رنج سے دوچار دیکھئے صاحب!

٭٭٭

 

 

 

 

کہا تھا میرؔ کی ہمسائگی ملے صاحب

اب اپنے بخت کو اتنا نہ کوسئیے صاحب

 

عجائباتِ زمانہ کا ذِکر کیا کہ ہم

غریبِ شہر بھی اب تک نہ بن سکے صاحب

 

جہانِ فردا اسی زندگی کا ہے پر تو

سنبھال رکھئے گا نازک سے آئنے صاحب

 

گلی گلی جو ہُنر بِک رہا ہے حیرت کیوں

دُکاں ہے آپ کی، بیچیں، خریدئیے صاحب

 

اگر بیاں نہ کریں کیفیت تو کیسے کھُلے

میانِ ہجر دیئے جل کے بجھ گئے صاحب

 

اک عمر رہ لئے دیوار و در کے اندر ہم

سو اب چلیں ذرا دیوار سے ورَے صاحب

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

پ

 

 

دَر دیوار دریچے چپ

چپکے رہنے والے چُپ

 

اندر شور صداؤں کا

باہر سے سنّاٹے چپ

 

دُور فلک اندھیارے میں

خاک سے ہر دم اُبھرے چپ

 

منزل اوجھل نظروں سے

دیکھ مسافر رستے چپ

 

دُکھ ان مول خزانے سے

آئے کوئی خریدے چُپ

 

اک بازار خیالوں کا

بیچ دُکان لگائے چپ

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود جلی اور ہمیں جلا کر دھوپ

سائے میں رک گئی تھی آ کر دھوپ

 

تم ہمیں چھوڑ آئے تھے تنہا

لے چلی راہ سے اُٹھا کر دھوپ

 

عشق پیچاں کی بیل تھی کہ زُلف

رقص میں تھی جسیُ سکھاکر دھوپ

 

ازروئے شاعری درست نہیں

ڈائری میں رکھیں سجاکر دھوپ

٭٭٭

 

 

 

 

ت

 

ساعتَ ہجر ہمیں یوں بھی بتانی ہے بہت

چشمِ پُر آب ٹھہر یوں بھی روانی ہے بہت

 

جھوٹ ارزاں ہے بہت حرف و حکایت کے لیے

سچ کے بازار میں لفظوں کی گرانی ہے بہت

 

جیتے جی کون بھلا چھوڑ کے گھر جاتا ہے

ساعتِ مرگ جو ہو نقلِ مکانی ہے بہت

 

میں نے یادوں کے دریچوں کو کھلا چھوڑ دیا

خو دفر ا مو شی مری طبع پر انی ہے بہت

 

سہو ہو جائے تو پھر جان پہ بن آتی ہے

بزمِ اربابِ ہنر میں نگَرانی ہے بہت

 

نیند سے خواب تلک ایک سفر آنکھ کا ہے

جاگنے والے تری اپنی کہانی ہے بہت

٭٭٭

 

 

 

 

 

تکا کرتے ہیں گو ہم آئینے میں حیرتی صورت

مگر اندر کی تلخی کم نہیں ہوتی کسی صورت

 

لکھا جاتا نہیں مضمون ہر اک سانحے کا پھر

زمانہ دیکھتا ہے روز کیوں اخبار کی صورت

 

سنا ہے رزم گاہِ عشق میں وہ آنے والے ہیں

چلو ہم پیش کر دیتے ہیں اپنا دل کسی صورت

 

چلے تھے ہم تو یکجائی کا بھی امکان تھا دل میں

میانِ ما و تو حائل ہوئی اِک اجنبی صورت

٭٭٭

 

 

 

تھ

 

 

کش مکش وہ بھی اس یقین کے ساتھ

آسماں زاد ہے زمین کے ساتھ

 

کھل گئے رنج کے معانی دل

آنکھ بھی نم ہے آستین کے ساتھ

 

عقل و دانائی آپ کی میراث

دن گزرتے ہیں کس ذہین کے ساتھ

 

پتلیاں عکس ریز رہتی ہیں

انگلیاں چمٹی ہیں مشین کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

گڑی ہوئی کسی منظر پہ تھی نظر ساکت

پھر اُس کے بعد دکھائی دیے نگر ساکت

 

ہماری چاند سے جس دم نگاہ ٹکرائی

ستارے شب کے نظر آئے تاسحر ساکت

 

پسِ غُبارکئی عکس یاد آنے لگے

قدم بڑھاتے ہوئے تھی جو رہ گزر ساکت

 

میں یہ کہوں گا ملا تُو، کہے گا تو ویسا

ملے نہ لفظ رہے ہونٹ سر بہ سر ساکت

 

پھر ان کے بعد تو مہلت کبھی ملے گی نہیں

صلیبِ وقت پہ لمحات ہیں اگر ساکت

٭٭٭

 

 

 

ٹ

 

سچ کو چھپا کر اکثر جھوٹ

بولے سارا لشکر جھوٹ

 

جان بچانے کی خاطر

بولیں شاہ و گداگر جھوٹ

 

بوتل سے نہ اوک سے پی

ہم اور بادہ سراسر جھوٹ

 

سچ ہم کو تعلیم ہوا

ہوا کبھی نہ مُیسر جھوٹ

 

ہاشمیؔ تم بنتے جھوٹے

بولتے قسمیں کھا کر جھوٹ

٭٭٭

 

 

 

ث

 

 

کارِ مشکل ہے یہاں اظہارِ غم یعنی عبَث

ہاں اگر بن جائیں پتھر کے صنم یعنی عبث

 

لمحۂ موجود میں کَیا کیا کریں آخر رقم

چار دن کی چاندنی یا اُس سے کم یعنی عبث

 

کس قدر پُر پیچ ہیں! ہاں لے سرِ تسلیم خم

گردشِ دوراں یہ تیرے پیچ و خم یعنی عبث

 

جب تک ان کی آب آنکھوں میں ہے سرمایہ کہیں

کیسے کہہ دیں حاصلِ رنج و الم یعنی عبث

 

ہاشمیؔ آہستگی ، آہستہ رو، آہستہ گو

ورنہ کھوسکتا ہے لفظوں کا بھرم یعنی عبث

٭٭٭

 

 

 

 

چ

 

اتنا بولو جھوٹ کہ دُنیا اُس کو مانے سچ

طنز کیا تھا لیکن بولا تھا بابا نے سچ

 

رَد کرنا آسان کہاں ہے اپنی ہر خواہش

جھوٹ زباں پر آنکھیں بولیں سولہ آنے سچ

 

مانا جبر کے ہاتھوں میں انسان کھلونا ہے

اِک دن قائم ہو گی دنیا میں میزانِ سچ

 

دُنیا والے ہنستے ہنستے اک دن روئیں گے

ہاشمیؔ تم جو بیٹھ گئے ہو اب دُہرانے سچ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی اپنی تنہائی ہے اپنی اپنی سوچ

دنیا چاہے جو بھی سوچے بھائی اپنی سوچ

 

کارِ سخن بھی سچ ہے یہاں ہر ایک نہیں کرتا

ڈھال نہیں سکتا اشعار میں کوئی اپنی سوچ

 

عمر گزر جاتی ہے سلیقہ مندی نہیں آتی

لوگ بدل گئے لیکن خود نہیں بدلی اپنی سوچ

 

بچ نہیں سکتا کوئی سزا سے بد اعمالی پر

نیکو کاروں کی ہوتی ہے اچھی اپنی سوچ

 

ڈھلتی رات کے سنّاٹے میں بیٹھے سوچئے اب

نیند لُٹا کر آئی کہاں پر ہاشمیؔ اپنی سوچ

٭٭٭

 

 

 

 

 

ح

 

 

یوں تو بجھنا تھا مجھے اک دن ستارے کی طرح

جگمگاتا ہی رہا روشن منارے کی طرح

 

آبلہ پائی میانِ عشق دکھلاؤں کسے

بے قراری کون دیکھے دل کے پارے کی طرح

 

چاندنی کے ساتھ رقصاں دل سرِ رقصِ وصال

خوب ڈالی چاند نے دل کش نظارے کی طرح

 

ہاشمی دنیا مری نسبت سے پہچانی اُسے

جو مری غزلوں میں آیا استعارے کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

خ

 

 

جب یہ خزاں سے ٹوٹی شاخ

سوکھے پتّے ٹوٹی شاخ

 

عجز کا دیتی ہے یہ سبق

پھل سے لدی ہوئی جھکتی شاخ

 

پنے زعم میں اکڑی رہے

سرو کی تارے چھوتی شاخ

 

فن کو مثالِ شجر کہئے

شعر سمجھئے اس کی شاخ

 

آلِ آدم ؑ کہلائیں

ہم جن کی ہیں ہاشمیؔ شاخ

٭٭٭

 

 

 

د

 

 

بچھا کے ہم نے بساطِ سُخن سمیٹے درد

یہ جانتے ہوئے بھرنا پڑیں گی آہیں سرد

 

ہر ایک بات کا اظہار آگہی ہے اگر

ہے حرف و لفظ میں پوشیدہ کیوں ملال کی گرد

 

خیال و خوب میں یک جا جسے میں دیکھتا ہوں

کبھی اِکائی میں کُل ہے کبھی ہجوم میں فَرد

 

مت اتنے غور سے دیکھو میاں مرا چہرہ

میانِ ہجر سرِ آسماں یہ چاند ہے زَرد

 

پھر اُس کے بعد سے دشتِ سخن ہے پاؤں تلے

بس ایک دن ہمیں اُس نے کہا تھا صحرا نورد

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُترے فلک سے جب کبھی اشعار خود بہ خود

ٹھہری وہیں پہ وقت کی رفتار خود بہ خود

 

ارزَاں ہوا ہے فن کہ طلب گار بڑھ گئے

افزوں ہوئی ہے رونقِ بازار خود بہ خود

 

ہونٹوں پہ لفظ آن کے کیا منجمد ہوئے

آنکھیں ہوئی ہیں مائلِ گفتار خود بہ خود

 

تائیدِ ایزدی ہوئی حاصل انھیں کہ اب

تائب ہوئے شراب سے مئے خوار خود بہ خود

 

پیدا دلوں میں ہاشمیؔ اُلفت کریں جو ہم

گر جائے نفرتوں کی یہ دیوار خود بہ خود

۳۱ اگست ۱۹۹۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

ذ

 

 

سجا کے بیٹھ گئے کیوں یہ میز پر کاغذ

نہیں پڑھے گا ہو بھیجو ہزار اگر کاغذ

 

تبادلہ جو نگاہیں کریں تو پیش اُن کے

لگا ہے ہم کو نہایت ہی بے اثر کاغذ

 

کہیں بدل نہ دیا ہو تمہارے خط سے اُسے

اُٹھا کے لایا ہے سادہ سا نامہ بر کاغذ

 

پھر اُس کے بعد ہی بڑھتی ہے قدر کاغذ کی

مکین کو جو کرے گھر سے دَر بہ در کاغذ

 

۴ مارچ ۱۹۸۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

ر

 

 

صحرا نشینو چونکو نہ میری ا ذ ا ن پر

آیا ہوں کھیلتا ہوا میں اپنی جان پر

 

رکھتا ہوں میں عزیز زمیں تیری خاک ابھی

قائم ہے اعتبار مر ا آ سمان پر

 

چلتا ر ہوں گا دھوپ میں سائے کے ہم قدم

جب تک نہیں بھروسہ مرا سائبان پر

 

رکھتا ہوں میں سنبھال کے سرمایہ علم کا

کیوں کر نہ ہو گا ناز مجھے خاندان پر

 

محفل میں آج مصرعہ اُٹھاتا نہیں کوئی

حیراں تھے لوگ پہلے ذرا سی اٹھان پر

 

اُن رفتگاں کے نام لکھو ہاشمی ؔ غزل

احسان کر گئے ہیں جو اُردو زبان پر

٭٭٭

 

 

 

 

 

تخلیق نمو پاتی ہے دُکھ درد اُٹھا کر

کیوں رائگاں و ارزاں رہو شعر سناکر

 

پوشیدہ نگاہوں سے کہاں ہو گی حقیقت

آئینے سے لے جاؤ گے کیا عکس چُرا کر

 

اب دیکھے کس وقت وہ مجرم ہمیں ٹھہرائیں

دربار میں لائے تو ہیں الزام لگا کر

 

اس بات کا اندازہ کریں ہاشمیؔ کیسے

رَم کون سی آنکھیں وہ کرے پھول کھلا کر

 

اپریل ۱۹۹۰ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں نکلا ذات کی تہہ سے اُبھر کر

بہت نیچے، بہت اندر اُتر کر

 

خود اپنے آپ سے کترانے والو

ملا کیا پیشِ آئینہ مُکر کر

 

رہیں گے ایک سے دن رات شاید!

گزاریں گے یونہی شام و سحر کر

 

دواؤں پر گزارا کر رہے ہیں

سُنا ہے لوگ جی اُٹھتے ہیں مر کر

 

شعورؔ و جونؔ کی حد تک گوارا

غزل میں تُو نہ تقلیدِ ظفرؔ کر

 

یہاں تک ہاشمیؔ یہ فکر پہنچی

رساچغتائی کی رہ سے گُزر کر

٭٭٭

 

 

 

ڑ

 

 

گزارتے رہے اُس وقت کو تذبذب میں

اگر کھلا بھی ہے قسمت کا ہم پہ بند کِواڑ

 

یہی ہے عاشق و محبوب کے لیے خطرہ

کہ لوگ ڈال نہ دیں ان کے درمیان دراڑ

 

عجیب فطرتِ لاثانی ہے یہ عقرب کی

لگائے ڈنک بنا دیکھے رات ہے کہ دیہاڑ

 

بنے ہیں پہلواں اس دور کے سبھی ناقد

قلم کی نوگ سے کرتے رہیں اُکھاڑ پچھاڑ

 

 

کہا تھا چودھویں شب کو اسے جو دیکھا تھا

’’تو چاند ہے تو کسی دن ذرا ہمیں بھی تاڑ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُس نے گر چھوڑ دیا ہم نے بھی رشتے دیئے توڑ

اب پریشان خیالی سے تعلق کو نہ جوڑ

 

ٹوٹ ہی جائے گی اک روز میاں سانس کی ڈور

بات یہ ہے کہ لگائے گا کہاں تک کوئی دوڑ

 

تازہ کاروں میں کئے جائیں شمار آپ ہمیں

کہنہ لفظوں سے دیئے ہم نے نئے معنیٰ جوڑ

 

ہاں میاں صورتِ آئینہ یہاں ہم تُم ہیں

ٹوٹ جائیں تو لگے اس میں نہ پیوند نہ جوڑ

 

ہاشمیؔ گوشۂ تنہائی میں لکھے ہوئے شعر

عین ممکن ہے کبھی لوگ پڑھیں ایک کروڑ

٭٭٭

 

 

 

 

ز

 

تو نہ مانے اگر نہ مان عزیز

ہے کوئی اپنا نگہ بان عزیز

 

مدعی تم ہی نہیں ہم کو بھی

رہتے ہیں زیست کے سامان عزیز

 

جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر لکھا

ہم کو بھی اپنا ہے ایمان عزیز

 

عشق کرتا ہے تقاضائے جنوں

کیا خطا کیجئے اوسان عزیز

 

طرزِ غالب میں لکھے کیا کوئی

لکھ رہے ہیں بہ ہر عنوان عزیز

 

خیر چلتے ہیں گلی میں اُس کی

’’واقعہ سخت ہے اور جان عزیز‘‘

 

۱۹۹۶۔ ۷۔ ۲۵

٭٭٭

 

 

 

 

روح کرتی ہے کیا بدن سے گُریز!

کیسے کر دوں میں اپنے فن سے گریز

 

خود کو حاضر کیے رکھا خود میں

بارہا کر کے انجمن سے گُریز

 

اچھی صورت پہ ہو رہا لہلوٹ

کیسے کرتا میں بانکپن سے گُریز

 

اپنا پندارِ عُمر بیچ گئے

جن کی تقدیر تھا وطن سے گُریز

 

دوستوں کی مثال سامنے ہے

کرتے رہتے ہیں جو اپَن سے گُریز

 

خیر کے ساتھ شر بھی لازم ہے

خار کرتے نہیں چمن سے گُریز

 

جب تصادم نہیں گریز سے پھر

ہاشمیؔ کیسے ہو سُخَن سے گُریز

٭٭٭

 

 

 

س

 

 

فرصتیں اتنی کہاں عام کوئی عشق کرے

اب کوئی رانجھاؔ نہیں جاتا کسی ہیرؔ کے پاس

 

ایک اِک کر کے نمایاں ہوئے سب خطّ و خال

میں نے آئینہ جو رکھا تری تصویر کے پاس

 

رشک سے آگے کبھی بس نہ چلا جب میرا

دو گھڑی بیٹھ گیا میر تقی میرؔ کے پاس

٭٭٭

 

 

 

 

ش

 

سناٹے کی گونج ، ہوا خاموش

جلتے جلتے ہوا دیا خاموش

لمحہ لمحہ نیند چراتی رات

 

باہر ساراشہرِ نوا خاموش

 

ہاتھ اٹھانے کی مہلت نہ ملی

مانگ رہے تھے ہونٹ دعا خاموش

 

ہاشمیؔ کل تک بزم سجاتا تھا

ہاشمیؔ آج ہوا کیسا خاموش!

٭٭٭

 

 

 

 

ص

 

ہم سے رکھا نہ گیا لہجہ سخن کا مخصوص

زاویہ جیسے نہیں زیست کا رہتا مخصوص

 

نسبتِ شعر و سُخن آپ رکھیں گر ، تو بجا

حُسنِ یوسفؔ کے لیے اسمِ زُلیخاؔ مخصوص

 

راست گو ، نرم سخن لوگ ہمیں بھاتے رہے

ہم نے بھی اپنا رکھا اُن سے رویّہ مخصوص

٭٭٭

 

 

 

 

ض

 

 

طلب کچھ اور کیا، کر لیا کچھ اور ہی فرض

چکاتے رہئے تمام عمر اک نفس کا قرض

 

مری کہانی چلو جھوٹی ہی سہی صاحب

صداقتوں کا بیاں تم پہ کیا نہیں تھا فرض

 

جو دورِ اولّیں کی رسم تھی بدل نہ سکی

بنی ہے آج تلک قتل گاہِ انساں ارض

 

کیا ہے زیر ہمیں اس نے جب زبردستی

تو اس کے پیش چلے گی بھلا ہماری غرض

۱۹۸۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

ط

 

ہم بھی کچھ اپنے تئیں کرتے ہیں ضبط

آپ جو مُہرِ وفا کرتے ہیں ثبت

 

پھر اُسی جنّت میں ہو گا آدمی

آسماں سے کر تو لے پیدا یہ ربط

 

ناخدا بننا تھا بن بیٹھا خدا

عظمتِ آدم نہ کہئے یہ ہے خبط

٭٭٭

 

 

 

 

ظ

 

 

جب کہ بخشے ہیں ہَوا نے الفاظ

ڈھونڈتے کیا ہو پرانے الفاظ

 

صنعتِ نغمہ کے باعث اب تو

بنتے جاتے ہیں خزانے الفاظ

 

تیری جاگیر نہیں ہیں کہ کہے

لوگ آتے ہیں چُرانے الفاظ

 

اُن میں تاثیر نہ کیوں کر ہوتی

جو اُتارے ہیں خدا نے الفاظ

 

ہاشمیؔ چھَپ گیا دیوان تو پھر

کتنے یاد آئیں نجانے الفاظ!

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری طرح سے اگر ہو ذہین پاؤ گے لفظ

چُراسکو تو چرا لو، نہ چھین پاؤ گے لفظ

 

اُمید و حسرت و ناکامی کے علاوہ نہیں

اگر ملیں گے، یہی صرف تین پاؤ گے لفظ

 

سلیقہ لفظ برتنے کا یوں ہی آتا نہیں

رہو گے تم جو مرے ہم نشین پاؤ گے لفظ

 

مری صدا میں ملاؤ گے گر صدا اپنی

تو جانِ حرف ونو َا، دل نشین پاؤ گے لفظ

 

غزل کے عشق میں تعمیر جو عمارت کی

اُسی میں دیکھنا جا کر مکین پاؤ گے لفظ

 

کسی کی یاد فروزاں رکھو گے آنکھوں میں

رہے گی نم یہ اگر آستین پاؤ گے لفظ

 

بساطِ حرف و معانی بچھاؤ تو پہلے

پھر اُس کے بعد ہی رکھو یقین پاؤ گے لفظ

٭٭٭

 

 

 

 

ع

 

جُز اُس کے نہیں ہستی کسی کی نفّاع

جو سینۂ تخلیق کرے مثلِ شعاع

 

کیوں ناز نہیں اپنے سخن پہ میں کروں

ہر اِک کو مُیسر بھی کہاں ایسی متاع

 

بہتر ہے یہی اُس سے تعلق نہ رہے

بے وجہ کرے پیدا اگر کوئی نزاع

 

یہ بات الگ قانع نہیں ہوتے ہم

ہر شئے ہی فراہم کرے سب کو صنّاع

٭٭٭

 

 

 

 

غ

 

 

وہ دن گئے کہ جلاتے تھے رہ گزر میں چراغ

محال ہو گیا ہم رکھیں اب سفر میں چراغ

 

ہوا چلے تو کئی گھر اُجاڑ دیتی ہے

گئے دنوں میں رکھا کرتی تھی نظر میں چراغ

 

بس ایک شہرِ خموشاں ہی تیرگی میں نہیں

دکھائی دیتا نہیں اب کسی نگر میں چراغ

 

عجیب سادہ مزاجی تھے پہلے لوگوں کی

مُنڈیر رکھتے تھے روشن نہ ہو جو گھر میں چراغ

٭٭٭

 

 

 

 

ف

 

 

دن کے مسائل ایک طرف ، ہر شب کی کہانی ایک طرف

ساحل پر طوفان سے لڑتا پیاسا پانی ایک طرف

 

کس کے مشامِ جاں سے یہ درماندہ سی روح معطرّ ہے

کیوں ہے گلاب کے ساتھ مہکتی رانی ایک طرف

 

دیکھ سنبھال کے رکھ لے جوبَن وقت کی گرد نہ بن جائے

سونے کے تاروں سے کَسی تری مست جوانی ایک طرف

 

خلوت میں رہنے والوں کو کاش کبھی معلوم نہ ہو

سُورج عمر کا رکتا نہیں ہے تن آسانی ایک طرف

 

کس نے کس کی نقل لکھی ہے، اصلی کون ہے نقلی کون؟

اک دن کھل جاتی ہے حقیقت، سحر بیانی ایک طرف

 

ہاشمیؔ شہرِ سُخن میں ہم بھی کارِ سخن کرتے رہے پَر

من کی سندرتا، تن کی کویتا، لکھتا بانیؔ ایک طرف

٭٭٭

 

 

 

ق

 

لندن تمہیں جانے کی ضرورت نہ موزمبیقؔ

ہوسکتی ہے احساس کی الفاظ سے توثیق

 

ہاں آدمی بے زار کہا جائے تو کہہ لو

تنہائی نے بخشی ہے غزل گوئی کی توفیق

 

اے شعبدہ گر لفظ کی تحقیر نہیں کر

حُرمت تجھے معلوم نہیں حرف کی زندیق!

 

رکھ اپنے پٹارے میں جہالت کا خزینہ

کیا چرب زبانی سے حقیقت کی ہو تصدیق

 

لنگوٹ نہ کس ایسے اکھاڑے نہ بنا تُو

گم راہ نہ کر دے یہ روش تیری، یہ تحقیق

 

کیوں چھیڑتا ہے معرکہ کُہنگی و نَو

بے فائدہ ہے رفتہ و آئندہ کی تفریق

 

نقّاد کو معلوم نہیں ہاشمی، شاید

تنقید جنم لیتی نہیں گر نہ ہو تخلیق

٭٭٭

 

 

 

 

ک

 

 

جیسے سماعتوں میں کیا ہے ابھی شریک

ایسے ہی میرے ساتھ رہے آگہی شریک

 

احسان کیا ہے آپ جتادیں جو دوستی

احساس کیسا گر نہ ہو چارہ گری شریک

 

گریہ کناں ہوے تو کھلے غم جہان پر

تنہائیوں میں دل کی رہی بے کلی شریک

 

سورج ڈھالا تو دھوپ درختوں میں سوگئی

بے داریوں میں میری رہا کب کوئی شریک

 

ساحل پہ اُڑ رہی تھیں پرندوں کی ٹولیاں

نغمات گونجتے تھے ہوا تھی مری شریک

 

اشعار میں کمال نہیں کرتا ہاشمیؔ

نیت میں اس کے ہوتی جو کوئی بدی شریک

٭٭٭

 

 

 

ک

 

سخن بڑھے گا علامت سے استعاروں تک

رسائی ہو گی نظر کی اگر ستاروں تک

 

حجابِ حرف و معانی کھلا نہیں آخر

یہ گفتگو رہی محدود بس اشاروں تک

 

سنا کے ہجر کا قصّہ ملال اُٹھاتے رہے

وہ تشنہ لب کہ جو پہنچے نہ آب شاروں تک

 

تر ا کرم کہ مرا دل بھی اس کی زَد پہ رہا

غبارِ غم کا تعلق تھا سو گواروں تک

 

نہ تاب لاسکے شہرت پسندوں کے ہاتوں

غزل جو میرؔ کے لہجے میں پہنچی یاروں تک

 

۴ دسمبر ۱۹۹۷ء

٭٭٭

 

 

 

ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک

پھر ہوا نے بھی دکھا ڈالی ہمیں اپنی چمک

 

ایک ہی ناؤ ، کنارے سے کنارے کا سفر

گھر پلٹ آئے کماتے ہوئے دن بھر کی چمک

 

چاندنی پھیلی ، دریچوں سے دھواں اٹھنے لگا

آسماں پر جو ہویدا ہوئی تاروں سے چمک

 

صبح سے ٹھنڈے پڑے چولھے میں پھر آگ لگی

بھوکے بچوں کی نگاہوں میں گئی روٹی چمک

 

آج کا رزق مُیسر چلو آیا تو سہی

چاند سے کہہ دو کوئی گھر میں مرے کل بھی چمک

٭٭٭

 

 

 

 

گ

 

شعر میں جب سے نظر آئے تگ و تاز کے رنگ

جگمگانے لگے قرطاس پہ آواز کے رنگ

 

اِسم سب اُس سے ہیں منسوب، صفت اُس کی ہے

طائرِ فکر کو دیتا ہے جو پرواز کے رنگ

 

چاند کے ناز اُٹھانا کوئی دشوار نہ تھا

دسترس میں نہیں آتے کسی مہ ناز کے رنگ

 

ہاشمیؔ سادہ بیانی میں یہ رنگا رنگی

ہیں بہت خوب سخن کے نئے انداز کے رنگ

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ نے منظر دکھائے ہیں یہاں سب سے الگ

دائیں، بائیں، آگے پیچھے، در میاں سب سے الگ

 

آدمی تو آدمی ہے قدر کیوں یک ساں نہیں

خامیاں سب کی جُدا ہیں، خوبیاں سب سے الگ

 

چاند سورج، رات دن، شام و سحر یا دھوپ چھاؤں

ہر سخن ور کی ہے خواہش، ہو بیاں سب سے الگ

 

مشرق و مغرب میں اس کی دھُوم دیکھا چاہیے

سب زبانوں میں ہے یہ اُردو زباں سب سے الگ

 

کاروانِ شعر و نغمہ میں نہ ہم شامل ہوئے

ہے ٹھیہ اپنا جُدا ہے داستاں سب سے الگ

 

باوجود اِس کے نہیں ہوتی کہیِں آبادی کم

بستے ہی جاتے ہیں شہرِ رفتَگاں سب سے الگ

 

سارِقَانِ حرَف و معنیٰ مال اُڑا کر لے گئے

شہر میں کھولی تھی حالیؔ نے دُکاں سب سے الگ

 

مشق سے حاصل مہارت، ہاشمیؔ کیا خوب کی

تُم نے صحرائے سُخن میں دی اذاں سب سے الگ

٭٭٭

 

 

 

 

نغمَگی کو ہے مُیسر پیرَہن سب سے الگ

آرزُو تھی ہو رہے اپنا سُخن سب سے الگ

 

آنکھ نظارے کی خوگر شب میں ہٹتی ہی نہیں

چاندنی ہم پر رہے سایہ فِگَن سب سے الگ

 

مشق کو ہم نے مشقت سے سِوا اپنا لیا

گوشہ گیروں کی طرح رکھا چلن سب سے الگ

 

ابتدا سے آج تک مصروفیت ہے بس یہی

ہو زمیں اپنی، کریں کشتِ سُخن سب سے الگ

 

نیٹ، چیٹنگ، شاعری، کَیا کچھ کِیا کرتے نہیں

ہاشمیؔ بھی خوب رہتے ہیں مگَن سب سے الگ

٭٭٭

 

 

 

 

ل

 

 

دی خرابے میں مقدر نے یہ فرصت اے دل

جانتا کون بھلا دشت کی وسعت اے دل

 

عشق فرہاد کی مزدوری نہیں پیشہ تھا

جان لے کوہ کنی کی ذرا وقعت اے دل

 

بسترِ مرگ بچھاتا ہے کوئی جیتے جی

جادۂ زیست پہ چلنا ہے حقیقت اے دل

 

کارِ دنیا سے گزرنا ہے جو آسانی سے

تجھ کو حاصل رہیں ادراک و مہارت اے دل

 

اور کب تک یہ پریشانیِ خاطر آخر

ہو گی کس روز بہم تجھ کو سہولت اے دل

 

باعثِ فتنہ گری ہوتے ہیں یکساں پیارے

خال و خد یار کے ہوں یا قد و قامت اے دل

٭٭٭

 

 

 

 

م

 

لگتا ہے زندگی میں رہی کوئی چیز کم

لکھنے کو پڑ گئی ہمیں عمرِ عزیز کم

 

عمرِ عزیز جس نے گُزاری گزر گئی

وافر ملی ہیں تلخیاں، پائی لذیذ کم

 

پیراہنِ پسر اُنھیں بینائی دے گیا

یعقوب ؑ کے لیے نہ تھی بوئے قمیض کم

 

کیا خوب ہے ہمارا دلِ درد مند بھی

اپنے پرائے کی رکھی جس نے تمیز کم

 

لاحق ہوا ہے عارضہ تم کو بھی عشق کا!

دیکھے ہیں اس مرض میں بھلا کیا مریض کم

٭٭٭

 

 

 

 

ں ؍ ن

 

بیٹھے تھے کل جہاں پہ ابھی تک ہیں ہم وہیں

بت خانہ آج بھی ہے وہی، ہے حرم وہیں

 

اِک زخمِ تازہ وقت نے بارِ دگر دیا

یاد آ گئے ہیں آپ کے سارے کرم وہیں

 

سن کر زبانِ غیر سے پایا نہ انبساط

اے کاش دیکھتے اُسے ہم کرتے رَم وہیں

 

اُس داستاں سرائے میں چُپکے نہ بیٹھئے

جا کر کے پیش کیجئے ہاں بیش و کم وہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جو دکھائی نہ دیا ڈھونڈنے والوں میں کہیں

اُس نے لکھّا تھا مرا نام حوالوں میں کہیں

 

آئِنہ پوچھ رہا ہے مجھے گُم صم پا کر

آپ کھوئے ہوئے رہتے ہیں خیالوں میں کہیں

 

ہم نے اظہار کی خاطر نہ کی عُجلت، سو ملا

شعر لکھنے کا سلیقہ کئی سالوں میں کہیں

 

ہاتھ خالی ہیں اگر دولتِ دُنیا سے تو کیا

ہم کو دیکھا نہ گیا مانگنے والوں میں کہیں

 

حاصلِ کارِ سُخن ہاشمیؔ ٹھہرے گا وہی

نام آ جائے گا جس روز مثالوں میں کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب ہجوم سا رہتا ہے کیوں خیالوں میں

شمار ہمارا رہے تنہا رہنے والوں میں

 

شجر اُداس ہے یا سائبان چپ چپ ہے

ہمیں تو دھوپ ہی سہنا ہے اپنے بالوں میں

 

تمام کھیتیاں جل تھل کیں اور اُس کے بعد

ہوائیں لے گئیں بارش کو ندّی نالوں میں

 

ہُنر لکھا گیا پہلے ہماری قسمت میں

پھر اُس کے بعد رکھا ہم کو با کمالوں میں

٭٭٭

 

 

 

آپ مشہور ہیں ہزاروں میں

ہم بھی رہتے ہیں چند یاروں میں

 

بندگی ہوتی ہے ، خبر ہے ہمیں

مسجدوں میں بھی گوردواروں میں

 

شاخ در شاخ پھول کھِلتے ہوئے

آ کے دیکھو کبھی بہاروں میں

 

خلقتِ شہر ڈھونڈتی کیا ہے

بیتی صدیوں کے اِن مزاروں میں

 

اس طرف بھی کبھی نظر صاحب

کھوئے رہتے ہیں کن نظاروں میں

 

ہم بھی رہتے تھے یاد آتا ہے

مہ جبینوں میں، گل عذاروں میں

 

مشترک قدر ہاشمیؔ دیکھی

جلتی آنکھوں میں بجھتے تاروں میں

٭٭٭

 

 

 

 

دروغ گوئی میں جس سے نکلتا کام نہیں

وہ حرفِ حق کم از شمشیرِ بے نیام نہیں

 

جو عافیت ہے اسے گوشہ گیر جانتے ہیں

تماش بینی میں تفریقِ صبح شام نہیں

 

درست ہے کہ میں عجلت میں شرم سار ہوا

ملال اُن کو سہی میں بھی شادکام نہیں

 

اگر ملی نہیں منزل تو کیا کِیا جائے

میانہ رو مجھے کہئیے میں سست گام نہیں

 

بڑا وہی جو یہاں فن پہ دسترس رکھے

یہ مال و رتبہ فقط وجہِ احترام نہیں

 

شمار تم مرا آئندگاں میں کر لینا

معاصرین میں فی الحال میرا نام نہیں

 

۱۹۹۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

اہلِ خانہ سو ر ہے ہیں اور گھر خاموش ہیں

بو لتا ہے کون! اگر د یو ا ر و دَ ر خاموش ہیں

 

رات جانے میری آنکھوں نے انہیں کیا کہہ دیا

جاگتے ہیں ا و ر وہ وقتِ سحر خاموش ہیں

 

میرے فن کی عُمر ہی کیا ہے جو ہو گا تبصرہ

اہلِ فن، اہلِ ہنر، اہلِ نظَر خاموش ہیں

 

اس سے ظاہر ہے تجسس آدمی کیا کیا کرے

پوچھتے تھے جان کر موسیٰؑ خضر خاموش ہیں

 

مصلحت کا ہے تقاضا ہاشمی سو اِن دنوں

وہ اُدھر لب بستہ ہیں اور ہم اِدھر خاموش ہیں

 

۱۹۹۸

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یقین کر پئے نغمہ سرائی بیٹھے ہیں

نہیں ہے کوئی بھی دشمن ، یہ بھائی بیٹھے ہیں

 

گئی صدی میں بھی بیٹھے تھے بر سرِ محفل

نئی صدی میں بھی کرنے کمائی بیٹھے ہیں

 

حساب اُس نے بھی باقی رکھا نہیں کوئی

چکا کے ہم بھی میاں پائی پائی بیٹھے ہیں

 

نہ کوئی بات نہیں ہے ، نہ کوئی ساز نیا

سبق لئے وہی ہم ابتدائی بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

خزاں دیدہ شجر سوکھے پڑے ہیں

کٹارے شاخ پر سوکھے پڑے ہیں

 

گُزر سائے کا واں ہوتا نہیں ہے

وہ سارے بام و در سوکھے پڑے ہیں

 

وہ چشمے ٹھنڈا پانی جن میں ملتا

قریبِ رہگزر سوکھے پڑے ہیں

 

بجھا دے پیاس ان تشنہ لباں کی

یہ کب سے بے خبر سوکھے پڑے ہیں

 

نگاہیں پھیر لیں دانستہ اُس نے

کہ رشتے سر بہ سر سوکھے پڑے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نم آنسوؤں سے بھلا آستین کیوں نہ کروں

یہ ہجر عشق کا ، ہے میں یقین کیوں نہ کروں

 

ملے تھے چودھویں شب میں گواہ چاند تھا ، سو

مدح سرائیِ ماہِ مُبین کیوں نہ کروں

 

یہ فاعلاتُ و فعولُن، مفاعلن، فعلن

سپرد آپ کے میں سامعین کیوں نہ کروں

 

تمام نعمتیں رکھتی ہیں خاصیت اپنی

شمارِ ذائقہ زیتون و تین کیوں نہ کروں

 

مکاں و لامکاں سب جس کی دست رس میں ہوں

میں اپنے قلب میں اُس کو مکین کیوں نہ کروں

٭٭٭

 

 

 

 

تاسماعت کو بھرم میرے ہنر کا ہو یقیں

مطلع ارشاد کروں بہرِ غزل پیشَ ازیں

 

خامۂ خام لکھے قلب پہ اُترے الفاظ

ذوقِ تسکین بڑھے شاد رہے گوشہ نشیں

 

لے چلے بزمِ سخن میں مجھے سرگرمی ء شوق

سن کے حیرت سے غزل تکنے لگیں نکتہ چیں

 

ہاں وہی جس نے خموشی کو تکلم بخشا

اُس کی توفیق سے حاصل رہے دادوتحسیں

 

مختصر بات سماعت پہ مفصّل ہو جائے

حال احوال بیاں کرنا ضروری بھی نہیں

 

عشق پر حُسن کا دروازۂ دل وا ہو جائے

دستکیں دیتے چلے آئیں یہاں ماہ جبیں

 

سیر ہو جائے طبعیت کسی نظارے سے

کوچ کر جاؤں اُسی آن سو میں اور کہیں

 

نغمگی ، سحرطرازی پہ کریں سب محمول

سادگی جس پہ تصدق ہو عبارت رنگیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس رہ گزر میں میرؔ کبھو خوار تھے میاں

کیا کیا نہ پیش ہجر کے آزار تھے میاں

 

دارومدار نانِ جویں ، آب پر نہ تھا

کیوں مبتلائے لذتِ آزار تھے میاں

 

یوسفؔ سا حُسن تھا جسے درکار دیکھنا

کتنے ہی یاں پہ مصر کے بازار تھے میاں

 

مسند نشین ہو کے کھلا اپنے باب میں

شاعر نہیں تھے ہم تو اداکار تھے میاں

 

نام و نشان نامیوں کے مٹ گئے ولے

جتنے بھی شہرتوں کے طلب گار تھے میاں

٭٭٭

 

 

 

 

ہر ایک فرد کو مت دست یاب و ارزاں ہو

اُس آدمی سے ملو واقعی جو انساں ہو

 

اُس آگہی کی تڑپ اپنے دل میں پیدا کرو

کہ جس سے فکر و عمل کا دیا فروزاں ہو

 

شُدہ و ناشدہ دونوں معاملات الگ

ادائے فرض ہے لازم کسی بھی عنواں ہو

 

سوالِ عزتِ سادات کرنا چاہو اگر

سُنو! کہ عرض و گذارش بہت نمایاں ہو

٭٭٭

 

 

 

دستک دینے تم دَر پر یا زخم لگانے آئے ہو

لفظوں کے گورکھ دھندے سے کیوں بہلانے آئے ہو

 

تم سے پہلے ناصح ، مشفق آئے بہت ناکام گئے

ہم نے تمہیں سمجھایا نہ مانے اب سمجھانے آئے ہو!

 

ہجر کاموسم بیتے شاخ پہ اُمیدوں کے پھول کھلیں

برکھا رُت میں پیار کے بادل تم برسانے آئے ہو؟

 

اچھا خیر چلو ملتے ہیں اپنے دل میں سوچ کے ہم

مل کے بچھڑ جانا ہے مقدر، اسی بہانے آئے ہو

 

بیٹھے ہوئے ہیں یاں اُستد فن، سرکونیہوڑائے ہوئے

فَعلُن فعلن کی گردان کہاں دہرانے آئے ہو!

 

بیت گیا جو وقت اپسے تم عہد رفتہ کہتے ہوئے

سازِ سُخن پر ہاشمی ؔ تازہ شعر سنانے آئے ہو!

٭٭٭

 

 

 

 

ہ

 

کب آئے گا دیکھیں ہُنر و فن کا قرینہ

رہتا ہے یونہی با رِ سُخن سے بھرا سینہ

 

ہو کر درِ محبوب سے آتی ہے ہوا کیا

چاہت بھری خوش بو سے معطّر ہے پسینہ

 

بے وجہ نہیں کرتا میں انگشت نمائی

تخلیق انگوٹھی ہے مرے حرف نگینہ

 

ملنے میں تعرّض نہیں انسان سے لیکن

کیا ملئے بھلا اُن سے رکھیں دل میں جو کینہ

 

دلّی سے چلی ہاشمیؔ آ پہنچی کراچی

اب دیکھیں کہاں غزل سینہ بہ سینہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیشہ دیکھا تر و تازہ، خوش نما چہرہ

تو کیوں یہ آج لگا ہے بجھا بجھا چہرہ

 

طبیعتوں میں ہے یک سانیت سو ملتے ہیں

نظر میں جچتا کہاں ہے ہر ایک کا چہرہ

 

نہیں ہے خلق سے ملنا بھی کم عبادت سے

خلوص دل کا دکھاتا ہے آئینہ چہرہ

 

یہ التفات و نوازش ، روا ہر اک سے نہیں

تلاش کرتی ہیں آنکھیں تو آشنا چہرہ

 

مری غزل کا محرّک اسی کا چہرہ رہا

ردیف آج بنا، کل کا قافیہ چہرہ

٭٭٭

 

 

 

جن کے دم سے ہے منور آئینہ

دیکھتے ہیں بن سنورکر آئینہ

 

آئینے میں عکس بنتے خال و خد

خال و خد کا ہے مقدر آئینہ

 

کیوں نہ ہو صورت کشا احوال کا

عکس ریزی پر مقرر آئینہ

 

دل میں نفرت گر نہ ہو زنگار سی

ہو نہیں سکتا مکدر آئینہ

 

چار جانب جلوہ گاہِ ناز ہے

آئینہ در آئینہ در آئینہ

٭٭٭

 

 

ی/ے

 

میرے تپاک پر کبھی دُنیا گریزاں تھی

میں کج ادا جو ہو گیا اُس پر بھی حیراں تھی

 

مانندِ موج بہہ گیا دریائے زیست میں

اس باب میں سہولتِ دو روزہ ارزاں تھی

 

سُنتا رہا کہانیاں شب ماہِ نیل گُوں

رقصِ وصال دیکھ کے تقدیر رقصاں تھی

 

خوش قامتی کے ساتھ رہی تھی جو خوش گلو

میں اُس کے رو بہ رو جب وہ غزل خواں تھی

 

اُترا تھا خواب وادیوں میں ایک ماہ رُو

آئینے میں خیال کے تصویر چسپاں تھی

 

۱۹۹۵ء

٭٭٭

 

 

 

مہک سے آتشِ گُل سے بدن سے بے خبری

غزل غزل ہے وہی پیرہن سے بے خبری

 

تو کیا یہ قافیہ پیمائی سہل ہے کوئی

تو کیا گوارا کریں اہل فن کی بے خبری

 

خدانخواستہ اک سانحہ شمار نہ ہو

سخن شعار سے یہ انجمن کی بے خبری

 

ہجوم کرتے ہوے حرف گُم ہوے کیسے!

گلہ نہ کیجیؤ شیریں دہن کی بے خبری

 

سمٹ گیا کسی آہٹ پہ سر دسنّاٹا

بچھی رہی سرِ بسترتھکن کی بے خبری

 

نشاطِ کار یہاں کارِ دل خراشی رہا

پسِ شعور ہے دیوانہ پن کی بے خبری

 

وہ کیا کریں گے بھلا باغ بانیِ  صحرا

رہے چمن سے جو اہلِ چمن کی بے خبری

٭٭٭

 

 

 

 

 

سکھاگئی ہے ہوا طائروں کو نغمہ گری

عطا ہوئی ہے غزالوں کو جیسے عشوہ گری

 

بہا کے آنسو بہانے سے کام اُن نے لیا

اک عمر بعد کھلی جا کے اُس کی حیلہ گری

 

بنا رکھے ہیں تخئیل سے دل میں شیش محل

ہمیں بھی بخشا ہے فطرت نے کارِ شیشہ گری

 

سوائے فطرتِ غیبی کسی کا ہاتھ نہیں

اُسی کی جلوہ طرازی اُسی کی جلوہ گری

٭٭٭

 

 

 

آدم زاد سے حوّا زادی پوچھے گی

کیوں ویران ہوئی آبادی پوچھے گی

 

کب تک شانوں پر زلفوں کی موج دھنک؟

کب تک جلووں کی آزادی! پوچھے گی

 

تُو نے کتنے موت کے گھاٹ اُتار دیے

تجھ سے بھی یہ موت فسادی پوچھے گی

 

کس نے کس کِس کو آخر گم راہ کِیا

کون بنا تھا کس کا ہادی پوچھے گی

 

ہم بھی سخن گوئی کی سند لے آئیں گے

ہم کو بھی اک روز یہ وادی پوچھے گی!

٭٭٭

 

 

 

 

جو لکھی ہے فیصلے کی گھڑی نہیں آ رہی

مرے درد میں سو ابھی کمی نہیں آ رہی

 

کبھی خاک پر کبھی آسمان کو دیکھنا

کہ سمجھ میں بات کوئی نئی نہیں آ رہی

 

مرا مسئلہ نہیں شاعری کی وضاحتیں

وہ جو بات کہنا تھی آج، ابھی نہیں آ رہی

 

جسے صبح شام گزارتے ہی چلے گئے

کہیں گفتگو میں وہ زندگی نہیں آ رہی

 

یہ عجیب موسمِ درد ہے کہیں دور تک

کسی غمگسار کی ہمسری نہیں آ رہی

 

مجھے آ رہا ہے جو یاد اُس کو بھلاؤں کیا

کوئی بات دل سے گھڑی ہوئی نہیں آ رہی

 

جسے قافیوں کے حصار سے میں نکال دوں

مری دسترس میں وہ شاعری نہیں آ رہی

 

مرے سامنے کوئی آن کر نہیں دیکھتا

سو نظر کسی کو یہ کج کلہی نہیں آ رہی

٭٭٭

 

 

 

 

ملکۂ شعر کے شایان بنایا جائے

خانۂ دل میں بھی ایوان بنایا جائے

 

کچھ گلِ تازہ کھِلیں کشتِ سُخن کے اندر

کُوزہ گر خاک سے گل دان بنایا جائے

 

روشنی بھرتے رہیں انجم و مہ سے شب بھر

پھر اِن آنکھوں کو نگہ بان بنایا جائے

 

لوگ جو کچھ بھی کہیں حالتِ درویشی پر

پا بہ گِل خود کو ہر اک آن بنایا جائے

 

درد بھی غم سے فزوں جمع کئے ہیں ہم نے

کم سے کم میرؔ سا دیوان بنایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

دم بہ خود آنکھ پہ ظاہر کوئی منظر جیسے

اس طرح آ گیا خلوت سے میں باہر جیسے

 

ایک اک کر کے سبھی واقعے یاد آنے لگے

شام کو لوٹ کے آ جائے کوئی گھر جیسے

 

چاندنی رقص کُناں دل مرا بہلائے یوں

ننھے بچوں کو، کوئی لوری سُنا کر جیسے

 

لب نہ کھُل پائیں مگر دل وہی آمین کہے

میں دُعا مانگ چکا ہاتھ اُٹھا کر جیسے

 

سب ادا ہو گئے بس قرضِ ہُنر باقی ہے

مطمئن دل ہوا یہ بات بتا کر جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ آئینے میں عکس ہمارا تھا سامنے

شیشہ مثال جب رُخِ زیبا تھا سامنے

 

آنکھوں نے کیا نہ تہمتِ گریہ اُٹھائی تھی

کیا کیا نہ پیش ان کے نظارا تھا سامنے

 

اس نے کہا کہ لکھو غزل میرے نام بھی

جس وقت ایک قافیہ پیما تھا سامنے

 

ہجرت کے بعد ہجر بھی تقدیر میں رہا

لمحہ پسِ وصال دو بارا تھا سامنے

 

لفظوں کے مول تول کی مہلت نہ مل سکی

ہر چند کہ لُغت کا حوالہ تھا سامنے

 

عہدِ گزشتگاں پسِ منظر میں تھا اگر

اک عصرِ نو بھی سارے کا سار ا تھا سامنے

 

پیشِ رقیب دل جو ہمارا تھا معترض

اُس نے بھی ہاتھ دل پہ ہی رکھا تھا سامنے

 

یادوں کے سائبان میں بیٹھے ہوئے تھے ہم

بجھتا ہوا ہر ایک ستارا تھا سامنے

٭٭٭

 

 

 

 

پرندے موسمِ گل کو جہاں پکارتے تھے

عجیب دھوپ تھی سائے تھکن اتارتے تھے

 

ہم اختیار کی حد سے گزرتے تھے نہ کبھی

بس اتنا تھا کہ جنوں میں ہی شب گزارتے تھے

 

اجالے چاندنی راتوں سے پھول سے شبنم

اُدھار مانگتے تھے ہم سُخن سنوارتے تھے

 

ہمارے پیش روؤں نے جو ہم کو سکھلایا

ہم آنے والوں کی خاطر اسے نکھارتے تھے

 

معاصرین میں اب نفرتیں زیادہ ہیں

پرانے لوگ محبت میں خود کو ہارتے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

آبلے پاؤں میں بتلاؤں کیا کتنے آئے!

گردشِ دوراں کو لانا ہے جہاں لے آئے

 

عُمر بڑھتی گئی افلاک کے سائے سائے

قافلے وقت کے خاموشی سے بڑھتے آئے

 

کیا نہ الغوزا خمیسوؔ کا سُنے گا کوئی!

سا ئیں مرناؔ ترا اِکتارا کہیں سے آئے

 

یا د پھر آ نے لگے بِن کھِلے مرجھائے ہوئے

جب نظر شاخ پہ کھِلتے ہوئے غنچے آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہماری شخصیت جو نوحہ خواں بنی ہوئی ہے

پسِ زمین صفِ رفتگاں بنی ہوئی ہے

 

بساہوا ہے مسائل کا اک جہان آباد

سو زندگی بھی بہت سرگراں بنی ہوئی ہے

 

بنے ہیں کیسے عجب خانے خانۂ دل میں

وہاں لکیر مٹی ہے یہاں بنی ہوئی ہے

 

اک عمر اپنے تصرف میں رکھا دنیا کو

قریبِ مرگ کھلا رائیگاں بنی ہوئی ہے

 

سجارہے یونہی ایوانِ شاعری کہ جہاں

وہ میری جانِ غزل ترجماں بنی ہوئی ہے

 

نہ پہلا ہجر ہمارا نہ وصل کا قصہ ّ

ازل سے عشق کی یہ داستاں بنی ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

نذرِ میر  بطرزِ میرؔ

 

دامن کو تر نہ کر دیں پل میں چھلک چھلک کے

روکے ہوئے ہیں اُن نے آنسو ابھی پلک کے

 

جو لوگ منتظَر تھے اُس یار کی جھلک کے

منہ تک رہے اپنا شاید ابھی تلک کے

 

کی آنکھ نے کمائی، تھی ایسی رُو نمائی

جوبن دکھا رہا تھا آنچل ڈھلک ڈھلک کے

 

کیسے رہِ محبت طے کرسکیں گے ہم دم

ہم نے بھلا دیے وہ سردادگاں تلک کے

 

سورج کی روشنی کا احسان رات پر ہے

مہتاب اور انجم مالک بنے فلک کے

 

لائے گا غیب سے کیا مضمون کوئی تازہ

قرطاس اور قلم ہیں کیا منتَظر ملَک کے

٭٭٭

 

 

 

 

جھوٹ یہ بھی نہیں ہر جھوٹ نبھایا میں نے

سچ وہی ہے کہ جسے خود نہ چھپایا میں نے

 

اُس کی باتیں بھی مرے فکر کا سامان بنیں

جس کو سمجھا تھا کبھی یار پرایا میں نے

 

کتنے آنسو تھے پسِ خنداں لبی کیا کہتا

غم گزیدہ تھا زمانے کو ہنسایا میں نے

 

میری تنہائی مجھے لے گئی محفل محفل

ریگ زاروں میں کبھی چین نہ پایا میں نے

 

ہم سفر کون ہوا، مجھ کو طلب کس کی تھی

کس خرابے میں کہاں زخم اُٹھایا میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

وقت بدلتا ہے کِرد ا ر بدل جاتا ہے

کبھی کبھی یہ سر دستار بدل جاتا ہے

 

شام کو چاند آمادہ رہے ہمسفری پر

صبح سے پہلے کیوں رفتار بدل جاتا ہے

 

وصل کے بعد بھی ہجر خرابے میں ہی رہیں تو

کہہ دیجے موسم بے کار بدل جا تا ہے

 

شیوۂ اہل ِ سُخن تو نہیں ہے ترکِ مراسم

شہرت پا کر کیوں فن کار بدل جاتا ہے

 

ہاشمیؔ تم بھی کچھ بدلے بدلے لگتے ہو

جیسے روزانہ اخبار بد ل جا تا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بنایا لفظوں سے مصحف جو یار کا میں نے

تو رنج کھینچا نہیں انتظار کا میں نے

 

اُگائی فصل خیالوں کی تختۂ دل پر

سُخن سے کام لیا کاشت کار کا میں نے

 

غزل کے بعد غزل بے ارادہ ہوتی گئی

کیا تھا قصد فقط تین چار کا میں نے

 

برائے نقد و نظر پیش کر چکا ہوں غزل

معاملہ کہاں رکھا اُدھار کا میں نے

 

عطا اسی نے کئے حرف معتبر سارے

سو رکھ لیا ہے بھرم اعتبار کا میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ کو دریا لکھو ، آنسو کو پانی لکھّو

شعر لکھتے رہو فرہنگ بدلنے کے لئے

 

خاکی پیکر میں شرار اور ابھی باقی رہیں

شعلگی ہو مرا آہنگ بدلنے کے لئے
پنی میزانِ ہنر ہاتھ میں رکھتا ہوں ابھی

کون آمادہ ہو پاسنگ بدلنے کے لئے

 

سایۂ ابر گُریزاں نہیں تم سے۔ یعنی

دھوپ نکلی ہے دھنک رنگ بدلنے کے لئے

 

سمَت معلوم نہیں پھر بھی چلے جاتے ہیں

یہ مسافت نہیں فرسنگ بدلنے کے لئے

 

جامہ الفاظ کا اُس قامتِ نغمہ پہ سجے

دے سلیقہ یہ سُخن ڈھنگ بدلنے کے لئے

 

وسعتِ فکر فقط کام نہیں آتی ہے

رکھنا پڑتی ہے نظر تنگ بدلنے کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جتنا بڑھتا گیا چلن آگے

ہم بھی کچھ کر گئے سُخن آگے

 

خیر سے ہم نے ابتدا تو کی

دیکھیں جاتا ہے کتنا فن آگے

 

اُن سے کیا ربط و ضبط رکھیں ہم

میرؔ سے ہیں جو مسلکاً آگے

 

خوبیِ یار لکھ چکے اگلے

گل و نسرین و نسترن آگے

 

خوشبوئیں آرہی ہیں سائے سے

چل رہا ہے وہ گل بدن آگے

 

دردِ دل کیا بیاں کرے کوئی

کم نہ تھی یوں بھی یہ دُکھن آگے

 

ہاشمیؔ ، فیضؔ کو نہ دہرانا

لکھ چکے زلف و پیرہن آگے

٭٭٭

 

 

 

 

گزشتگاں نے سب آئندگاں کو رَد کر کے

خود اپنے آپ کی تردید ردّ و کد کر کے

 

سُخن میں آئے یا ابہام فہم میں آئے

ہوئے ہیں خوش مجھے احباب مسترد کر کے

 

رہے گا سایا تمہارا، تمہارے قدموں میں

دراز جتنا بھی آ جاؤ اپنا قد کر کے

 

قبول اُس نے سُخن کر لیا تو کہنا کیا

گلے میں کیجئے تعویذ یہ سند کر کے

 

کہا ہے اپنا جنہیں اُن سے دور کیسے رہیں

اب ہم سے بیٹھا نہیں جاتا قطع ید کر کے

٭٭٭

 

 

 

سفر اندھا سہی، آنکھوں کو اپنی کھول کر چلئے

بھلے ہوں پیچ راہوں میں قدم کو تول کر چلئے

 

بہت ممکن ہے کل اس رائگانی پر ملال اُٹھے

یہ آنسو قیمتی موتی ہیں یوں مت رول کر چلئے

 

سنا ہے آپ جو وعدہ کریں اُس کو نبھاتے ہیں

ملیں گے ایک دن ہم سے یقیناً قول کر چلئے

 

دکھوں کا ذکر اچھا ہی سہی کم، کم کیا کیجے

دکھی لوگوں کو اپنا لیجئے، ہنس بول کر چلئے

 

ہمارے بعد آنے والے خود کو شادماں رکھیں

کچھ اس انداز کا صاحب یہاں ماحول کر چلئے

 

اگر ممکن ہو اس دشتِ تمنّا کو قلم کیجے

کسی کے سامنے کیوں یہ بھلا کشکول کر چلئے

٭٭٭

 

 

 

لے کر گلی میں دیدۂ تر ہم نہیں گئے

آ و ا ز دے رہی تھی نظر ہم نہیں گئے

 

ز خموں کے ا ندما ل کا مرہم نہ گر ملا

بے تاب کچھ دنوں رہے مر ہم نہیں گئے

 

صحرائے عشق دور زیادہ نہ تھا و َ لے

اُس سَمت کون جاتا جدھر ہم نہیں گئے

 

دشتِ سُخن کی تھاہ کوئی تھی نہ انتہا

بے خوف ہوکے چل پڑے ڈر ہم نہیں گئے

٭٭٭

 

 

 

 

ہم کو معلوم ہے کب جانِ وفا بولتی ہے

آنکھیں خاموش رہیں اُن میں حیا بولتی ہے

 

’’یہ لب و لہجہ نہیں میرا، غزل میری نہیں‘‘

جانے کیا کیا مجھے یہ خلقِ خُدا بولتی ہے

 

مہکا کرتی ہے ترے ہاتھ کی خوش بو دل میں

تو اگر مُہر بہ لب ہو تو حِنا بولتی ہے

 

سنتے رہتے تھے شبِ وصل صداچوڑی کی

اب دکھا کیسے کلائی سے جُدا بولتی ہے

 

خیر ہو شہرِ کراچی کی سرِ شہرِ غزل

چپّے چپے پہ یہاں مرگ فنا بولتی ہے

 

۱۹۹۸ء

٭٭٭

 

بکھری کلیاں

 

 

بہت ممکن ہے ایوانِ سُخن تعمیر ہو جائے

کہ جس اُمید پر تم نے یہ بنیادِ سُخن رکھ دی

٭٭

 

 

احباب سے نبھانا کوئی کھیل تو نہیں

دوچار غیر مطمئن، دو چار مطمئن

٭٭

 

 

 

اثر پذیر نہیں میرا فن تو کیا کیجیے

سکوت سا ہے سرِ انجمن تو کیا کیجیے

 

کچھ اور حرف اتر آئے بر سرِ قرطاس

کچھ اور بڑھ گئی دل کی دکھن تو کیا کیجیے

٭٭

 

 

جس سمت دیکھے جائیے جس جا نظر اُٹھائیے

اُس کا جمال ہر طرف، اُس کا کمال ہر طرف

 

تسخیرِ کائنات میں، انسان اپنی ذات میں

کہنے کو بڑھ گیا پہ ہے رُو بہ زوال ہر طرف

٭٭

 

 

سجدہ گزاری ء شب سے کب تک دور بھلا رہتا دامن

آخرِ شب جس پر تاروں نے حد دیکھی نم ناکی کی

٭٭

 

 

زباں پر لفظ رُک جاتے ہیں کیسے

ملے آنکھوں کو ارزانی کہاں کی

 

سنادی ہے غزل میں ہاشمی پھر

کہانی تم نے یہ جانی کی

٭٭

 

 

دیئے کی لو نے ابھی بدلا تھا ذرا سا رخ

بدلتا دیکھا گیا ایک دم ہوا کا رخ

 

اذانِ عشق سرِ شام ہو رہی تھی وہاں

تو کیا نہ کرتے سوئے صحرا آبلہ پا رخ!

٭٭

 

 

اس دل میں ابھی حسرت رکھتے ہیں کہ اے کاش

جب مل کے بچھڑتے ہیں کہتے ہیں کہ اے کاش

٭٭

 

آسماں پر ہیں ستارے یا شبِ ہجراں کے داغ

کس کو ہے فرصت گنے آ کر غمِ جاں کے داغ

٭٭

 

یہ اور بات کہ ان کا محاذ جنگ نہ ہو

کشادہ ذہنوں پہ لفظوں کا بوجھ تنگ نہ ہو

 

مرا خیال ہے لیکن یہ ہو بھی سکتا ہے

کہیں خلاؤں کے اندر کوئی سرنگ نہ ہو

٭٭

 

 

نظر اُٹھا کے نہ دیکھا خیال سے جو گئے

خیال بھی نہ رہا خدوخال سے بھی گئے

 

اب اُن کا ذکر فقط رفتگاں میں کر لیجے

سُپردِ خاک ہوئے ، اسپتال سے جو گئے

٭٭

 

 

ہونٹوں پر ذائقہ تلخیوں کا

آنکھوں میں دہکتی ریت بھی ہے

 

جو قتل گہہِ انساں ہیں جگہیں

اُن میں مرا لا لو کھیت بھی ہے

٭٭

 

گرتی ہیں جوانوں کی لاشیں

جلتے ہوئے اپنے نشیمن ہیں

 

یہ جنگ نہیں ہے غفلت ہے

ہم آ پ ہی اپنے دشمن ہیں

٭٭٭

شاعر کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس  کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید