فہرست مضامین
- انتخاب کلام نظامؔ رام پوری
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
- ترے آگے عدو کو نامہ بر مارا تو کیا مارا
- تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
- دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
- دیکھیے تو خیال خام مرا
- شب وصال میں کیوں درد دل دو چند ہوا
- کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
- کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
- کیوں کرتے ہو اعتبار میرا
- گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
- گر کہوں مطلب تمہارا کھل گیا
- مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
- ہم کو شب وصال بھی رنج و محن ہوا
- وہ تو یوں ہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
- یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا
- یہ عجب تم نے نکالا سونا
- تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
- جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
- جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
- حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
- دل پہ جو گزرے ہے میرے آہ میں کس سے کہوں
- دل میں کیا اس کو ملا جان سے ہم دیکھتے ہیں
- واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں
- وہ بگڑے ہیں رکے بیٹھے ہیں جھنجلاتے ہیں لڑتے ہیں
- انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
- چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ
- ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ
- دیکھ اپنے قرار کرنے کو
- اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
- اس قدر آپ کا عتاب رہے
- بگڑنے سے تمہارے کیا کہوں میں کیا بگڑتا ہے
- تمہیں ہاں کسی سے محبت کہاں ہے
- جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
- خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے
- خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی
- شب تو وہ یاں سے روٹھ کے گھر جا کے سو رہے
- صاف باتوں میں تو کدورت ہے
- صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
- ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
- عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے
- فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے
- کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
- کسی نے پکڑا دامن اور کسی نے آستیں پکڑی
- کہیے گر ربط مدعی سے ہے
- کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے
- گئے ہیں جب سے وہ اٹھ کے یاں سے ہے حال باہر مرا بیاں سے
- محفل میں آتے جاتے ہیں انساں نئے نئے
- مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے
- مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی
- نہیں سوجھتا کوئی چارا مجھے
- ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے
- وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کئی مہینے سے
- وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
انتخاب کلام نظامؔ رام پوری
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
آپ ہی اپنے مدعا ہیں ہم
اپنے عاشق ہیں اپنے وارفتہ
آپ ہی اپنے دل ربا ہیں ہم
آپ ہی خانہ آپ خانہ خدا
آپ ہی اپنی مرحبا ہیں ہم
عشق جو دل میں درد ہو کے رہا
خود اسی درد کی دوا ہیں ہم
راز دل کی طرح زمانے میں
تھے چھپے آج برملا ہیں ہم
کیوں نہ ہو عرش پر دماغ اپنا
کس کے کوچے کی خاک پا ہیں ہم
ہر کوئی آشنا سمجھتا ہے
اور یاں کس کے آشنا ہیں ہم
ابتدا کی بھی ابتدا ہم ہیں
انتہا کی بھی انتہا ہیں ہم
ہم تو بندے نظامؔ ان کے ہیں
وہ بجا کہتے ہیں ”خدا ہیں ہم”
٭٭٭
ترے آگے عدو کو نامہ بر مارا تو کیا مارا
نہ مارا جاں سے جس دم اس کو گر مارا تو کیا مارا
اگر دل مارتے اپنا تو کیوں یہ ذلتیں پاتے
تری خواہش میں ظالم ہم نے سر مارا تو کیا مارا
وہ ماریں قہقہہ سن کر مری سینہ زنی کا حال
ادھر مارا تو کیا مارا ادھر مارا تو کیا مارا
تمہارے ہاتھ تو لے لیتا اپنے ہاتھ میں ہیہات
دوپٹے سے جو پہونچے باندھ کر مارا تو کیا مارا
نہ دیکھو دور سے ہی مجھ کو ان ٹیڑھی نگاہوں سے
کسی کو تیر تم نے پھینک کر مارا تو کیا مارا
صبا یہ کب جلن ہوتی جو شام ہجر گل ہوتی
طمانچہ شمع کو وقت سحر مارا تو کیا مارا
ہوا ہے میری رسوائی سے تیرے حسن کا شہرہ
جو مجھ کو جاں سے اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
تری دوری میں بے تاثیر گر روئے تو کیا روئے
تری فرقت میں نعرہ بے اثر مارا تو کیا مارا
کہیں ہوتا ہے دل کا جوش سودا کم عبث رگ زن
رگوں میں میری تو نے نیشتر مارا تو کیا مارا
نظامؔ اس نفس امارہ کی گردن بھی کبھی توڑی
جواں مردی کا دم تم نے اگر مارا تو کیا مارا
٭٭٭
تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
ہائے کیا بات تھی کیا بھول گیا
بھولی بھولی جو وہ صورت دیکھی
شکوۂ جور و جفا بھول گیا
دل میں بیٹھا ہے یہ خوف اس بت کا
ہاتھ اٹھے کہ دعا بھول گیا
خوش ہوں اس وعدہ فراموشی سے
اس نے ہنس کر تو کہا بھول گیا
حال دل سنتے ہی کس لطف سے ہاے
کچھ کہا کچھ جو رہا بھول گیا
واں کس امید پہ پھر جاے کوئی
اے دل اس بات کو کیا بھول گیا
ہوش میں آ کے سنا کچھ قاصد
یاد کیا ہے تجھے کیا بھول گیا
عہد کیا تھا مجھے کچھ یاد نہیں
یہی گر بھول گیا بھول گیا
میں ادھر بھول گیا رنج فراق
وہ ادھر عذر جفا بھول گیا
یاد میں ایک صنم کی ناصح
میں تو سب کچھ بخدا بھول گیا
خیر مجھ پر تو جو گزری گزری
شکر وہ طرز وفا بھول گیا
یاد اس کی ہے مری زیست نظامؔ
موت آئی جو ذرا بھول گیا
٭٭٭
دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
دل ترا سا نہیں پتھر میرا
یوں تو روٹھے ہیں مگر لوگوں سے
پوچھتے حال ہیں اکثر میرا
راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی
تری دیوار ہے اور سر میرا
کہتے ہیں آہ کی دیکھیں تاثیر
نہ ہوا وصل میسر میرا
یہ تو کہہ کون سی تدبیر نہ کی
نہ ہوا تو ہی ستم گر میرا
کیا سنوں اے دل بد ظن تیری
دوست ہے تو وہ مقرر میرا
لطف رنجش کے دکھاتا تم کو
کیا کہوں بس نہیں دل پر میرا
انہیں ملنا نہیں مجھ سے منظور
کس کی تقصیر مقدر میرا
پوچھنا کیا ہے چلیں جائیں آپ
زور چلتا نہیں تم پر میرا
غیر کا حال ہے کہنا منظور
کہتے ہیں ذکر ملا کر میرا
رشک دشمن کا گلا کرتا ہوں
ہے قصور اس میں سراسر میرا
خواہش دل کہیں بر آئے نظامؔ
دل کئی دن سے ہے مضطر میرا
٭٭٭
دیکھیے تو خیال خام مرا
آپ سے اور برائی کام مرا
کہیں اس بزم تک رسائی ہو
پھر کوئی دیکھے اہتمام مرا
شب کی باتوں پر اب بگڑتے ہو
آنکھ اٹھا کر تو لو سلام مرا
نام اک بت کا لب پہ ہے واعظ
ہے یہی ورد صبح و شام مرا
غیر یوں نکلیں اس کی محفل سے
جس طرح اے نظامؔ نام مرا
٭٭٭
فراق میں تو ستاتی ہے آرزوئے وصال
شب وصال میں کیوں درد دل دو چند ہوا
خدا ہی جانے کہ کیا دل پہ چوٹ لگتی ہے
تمہارے پاس جو آیا وہ درد مند ہوا
نہ کیونکہ جان دیں اس رشک سے بھلا اپنی
ہمارا آج سے جانا وہاں پہ بند ہوا
٭٭٭
کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
تم سے کس روز ربط تھا میرا
نامہ بر اس نے تو کہا سب کچھ
تو نے بھی حال کچھ کہا میرا
اب تو خواہاں وصال کا بھی نہیں
کچھ عجب ہے معاملہ میرا
اور کس کو سناتے ہو مجھ کو
اور کس کا یہ ذکر تھا میرا
یہ بھی کیا بات آئی اس دن کی
یہ بھی کہیے قصور تھا میرا
مجھ سے پھر پوچھنے سے کیا حاصل
گر سمجھتے ہو مدعا میرا
کچھ کسی بات کا خیال بھی ہے
غیر کے سامنے گلا میرا
دیکھ کر اس کا پھیرا لینا منہ
اور حسرت سے دیکھنا میرا
کچھ تو باعث ہے میرے آنے کا
کچھ تو تم سے ہے واسطا میرا
بے وفا کہتے ہیں سبھی تم کو
کہیے اس میں قصور کیا میرا
ایسی باتیں تو غیر کی ہوں گی
آپ نے نام لے لیا میرا
حال سن کے مرا نہ یہ تو کہہ
ایک ہی حال ہے ترا میرا
بے قراری سے شب کٹی ہوگی
ایسا کس دن خیال تھا میرا
کس نے بے تاب کر دیا مجھ کو
کون آرام لے گیا میرا
دم مرگ آ کے پوچھتے ہیں نظامؔ
اب تو بخشا کہا سنا میرا
٭٭٭
کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
تو میری نہ سن مگر کہوں گا
تم آپ ہی آئے یوں ہی سچ ہے
نالے کو نہ بے اثر کہوں گا
گر کچھ بھی سنیں گے وہ شب وصل
کیا کیا نہ میں تا سحر کہوں گا
کہتے ہیں جو چاہتے ہیں دشمن
میں اور تمہیں فتنہ گر کہوں گا
کہتے تو یہ ہو کہ تو ہے اچھا
مانو گے برا اگر کہوں گا
یوں دیکھ کے مجھ کو مسکرانا
پھر تم کو میں بے خبر کہوں گا
اک بات لکھی ہے کیا ہی میں نے
تجھ سے تو نہ نامہ بر کہوں گا
کب تم تو کہو گے مجھ سے پوچھو
میں باعث درد سر کہوں گا
تجھ سے ہی چھپاؤں گا غم اپنا
تجھ سے ہی کہوں گا گر کہوں گا
معلوم ہے مجھ کو جو کہو گے
میں تم سے بھی پیشتر کہوں گا
حیرت سے کچھ ان سے کہہ سکوں گا
بھولوں گا کا ادھر ادھر کہوں گا
کچھ درد جگر کا ہوگا باعث
کیوں تجھ سے میں چارہ گر کہوں گا
اب حال نظامؔ کچھ نہ پوچھو
غم ہوگا تمہیں بھی گر کہوں گا
٭٭٭
کیوں کرتے ہو اعتبار میرا
معلوم ہے تم کو پیار میرا
یہ خیر ہے آج کچھ تو کہیے
کیوں ذکر ہے بار بار میرا
اک بات میں فیصلہ ہے تم سے
رنجیدہ ہے دل ہزار میرا
تیرا نہیں اعتبار مجھ کو
تو بھی نہ کر اعتبار میرا
شاید کہ نہ ہو تم اپنے بس کے
دل پر تو ہے اختیار میرا
مجھ کو نہ ہو رشک غیر ممکن
تو اور ہو دوست دار میرا
کچھ سمجھے ہوئے ہیں اپنے دل میں
سنتے نہیں حال زار میرا
وہ ہائے بگڑ کے اس کا جانا
رونا وہیں زار زار میرا
کل تک تو نظامؔ یہ نہ تھا حال
دل آج ہے بے قرار میرا
٭٭٭
گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
کہنے کا تمہارے مجھے شکوا نہیں ہوتا
گر کہیے کہ جی ملنے کو تیرا نہیں ہوتا
کہتا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوتا نہیں ہوتا
قاصد کے بھی گر آنے کی امید نہ ہوتی
اک دم بھی تو جینے کا بھروسا نہیں ہوتا
یوں ہی سہی ہم ہجر میں مر جاتے بلا سے
بس اور تو کچھ اس سے زیادہ نہیں ہوتا
کیوں کہتے ہو تم مجھ سے کہ آنا نہیں منظور
یہ کس لیے کہتے ہو کہ آنا نہیں ہوتا
گو غیر برائی سے کریں ذکر ہمارا
اتنا بھی تو واں ذکر ہمارا نہیں ہوتا
لب تک بھی کبھی حرف تمنا نہیں آیا
ایسا کوئی محروم تمنا نہیں ہوتا
بیماریِ ہجراں سے تو مرنا ہی بھلا تھا
اچھا جو میں ہوتا تو کچھ اچھا نہیں ہوتا
گر غیر سے کچھ تم کو محبت نہیں ہوتی
تو ہم کو یہ رشک قلق افزا نہیں ہوتا
یہ سچ ہے کہ تم آؤ گے پر دل کو کروں کیا
کہنے کا یقیں آپ کے اصلا نہیں ہوتا
ہوتا ہے وہ سب کچھ جو سنا ہو کبھی تم نے
اک تیرے نہ ہونے سے یہاں کیا نہیں ہوتا
اب سمجھے کہ یوں ہم کو بلاتے نہ کبھی تم
گر آپ کی محفل کا یہ نقشا نہیں ہوتا
گو جھوٹ ہو دھوکا ہو تسلی تو ہے دل کو
ہوتا ہے قلق اور جو وعدہ نہیں ہوتا
مقبول تمنا تو نظامؔ اپنی کہاں ہو
مقبول وہاں عذر تمنا نہیں ہوتا
٭٭٭
گر کہوں مطلب تمہارا کھل گیا
کہتے ہیں اچھا ہوا کیا کھل گیا
غیر کی قسمت کی کھانی ہے قسم
بند تھا دروازہ ان کا کھل گیا
تم کھلے بندوں ملو اغیار سے
شکر پاؤں اب تمہارا کھل گیا
آ گئی بے پردہ وہ صورت نظر
آنکھ کی جب بند پردا کھل گیا
غیر سے اب بند ہو کس بات پر
گالیوں پر منہ تمہارا کھل گیا
کھل گیا حال اس دل بے تاب کا
منہ دوپٹے سے جو ان کا کھل گیا
ہوں اشارے غیر سے اور دیکھوں میں
بیت ابرو کا بھی معنا کھل گیا
نامہ بر! تیرے چھپانے سے مجھے
اپنی قسمت کا نوشتہ کھل گیا
دل کی بے تابی نے رسوا کر دیا
ہائے سب پر راز اپنا کھل گیا
نامہ بر! گر غیر نے دیکھا نہیں
کیسے پھر خط کا لفافا کھل گیا
قدرت حق سے بڑھی عشرت کی شب
شب جو اس کافر کا جوڑا کھل گیا
دیکھیے کیا دل سے دل کو راہ ہے
راز جو تم نے چھپایا کھل گیا
جو نہ کہنا تھا کہا سب کچھ نظامؔ
راز باتوں میں وہ ایسا کھل گیا
٭٭٭
مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
جانتا ہوں مدعا میں آپ کی تقریر کا
ساتھ گر سونے نہ دو گے تم کو بھی نیند آ چکی
میں تو عادی ہو گیا ہوں نالۂ شب گیر کا
اپنے مطلب کی سمجھ کر ہو گئے تھے ہم تو خوش
کیوں مکرتے ہو یہی مطلب ہے اس تقریر کا
عہد کس کا، آپ جو کہتے اسے سچ جانتا
کیا کروں قائل ہوں میں تو غیر کی تدبیر کا
کچھ اثر ان پر ہوا تو کیا ہی دیتے ہیں فریب
کہتے ہیں قائل نہیں میں آہ بے تاثیر کا
یہ تو فرماؤ کہ کیا اس کو کروں گا میں معاف
میرے آگے ذکر کیوں ہے غیر کی تقصیر کا
ایک دن سن کر چلے آئے تھے وہ بے ساختہ
آسماں پر ہے دماغ اب آہ بے تاثیر کا
پنجۂ الفت سے پکڑا ہے اسے دل نے مرے
سہل ہے قاتل کوئی پہلو سے کھنچنا تیر کا
کوشش بے جا تھی یہ کچھ اعتماد عقل پر
اب یہ درجہ ہے کہ قائل ہی نہیں تدبیر کا
جتنے سر ہیں اتنے سودے کیا خطا ناصح مری
میں ہی اک قیدی نہیں اس زلف عالمگیر کا
کیا کہا تھا میں نے تم کیا سمجھے اس کا کیا علاج
تم ہی منصف ہو یہ مطلب تھا مری تقریر کا
یہ مرا لکھا کہ جو تدبیر کی الٹی پڑی
اور اس پر بھی مجھے شکوہ نہیں تقدیر کا
جذب الفت اس کو کہتے ہیں کہیں پڑ جائے ہاتھ
زخم دل پر ہی پہنچتا ہے تری شمشیر کا
مجھ کو اس کے پاس جانا اس میں جو کچھ ہو نظامؔ
ایک مطلب جانتا ہوں ذلت و توقیر کا
٭٭٭
ہم کو شب وصال بھی رنج و محن ہوا
قسمت خلاف طبع ہوا جو سخن ہوا
پھر آنے کی ہوس میں سحر کس خوشی کے ساتھ
ہم راہ نالہ درد جگر بھی معن ہوا
گردش بھی اس کے کوچے میں ہے اور قرار بھی
قسمت تو دیکھیے کہ سفر میں وطن ہوا
قاتل ادائے شکر کو یا شکوؤں کے لیے
جو زخم جسم پر ہوا گویا دہن ہوا
ثابت قدم ہوا نہ رہ عشق میں کوئی
مجنوں کوئی ہوا تو کوئی کوہ کن ہوا
کچھ مجھ سے شب کو غیر کے اظہار کے لیے
یہ عشق بازی کی تھی کہ اپنا یہ فن ہوا
دشمن سے اور ہوتیں بہت باتیں پیار کی
شکر خدا یہ ہے کہ وہ بت کم سخن ہوا
لب پر ہنسی وہ آئی وہ چین جبیں گئی
کہتا تو ہوں خطا ہوئی دیوانہ پن ہوا
آئینہ دیکھ دیکھ کے کیا دیکھتے ہو تم
چھونا بھی یاں نصیب تمہارا بدن ہوا
اب بوسہ دینے میں تمہیں کس بات کا ہے عذر
گالی کے دینے سے ہمیں ثابت دہن ہوا
حق بات تو یہ ہے کہ اسی بت کے واسطے
زاہد کوئی ہوا تو کوئی برہمن ہوا
تقدیر کی یہ بات ہے اب کیا کرے کوئی
راضی ہوئے وہ بوسے پہ تو گم دہن ہوا
پھر میرے اضطراب میں کیوں شک ہے آپ کو
الفت کا جب یقیں تمہیں اے جان من ہوا
لب تک نہ آیا حرف تمنا کبھی نظامؔ
گویا مرا سخن بھی تمہارا دہن ہوا
٭٭٭
وہ تو یوں ہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میرا یہ مقولہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہہ جاتا ہے وہ صاف ہزاروں مجھے باتیں
پھر اس پہ یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اے دوستو اس شوخ کا میں کیا کہوں عالم
کچھ آج وہ دیکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یوں غیر ستائیں مجھے اور کچھ نہ کہوں میں
منہ مجھ کو تمہارا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہر بات پہ کیا کیا ہمیں کہتا ہے وہ ظالم
گر کہیے تو کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
بس اور کیا چاہتے ہو مجھ پہ ستم کیا
سوچو تو یہ تھوڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیا حال بنایا ہے غم غیر میں اپنا
وہ آپ کا نقشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
جز میرے کسی اور کو تو آپ ستائیں
ہاں آپ نے سمجھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ایسا ہمیں کہتے ہو کہ بس جانتے ہیں ہم
یہ آپ کو دھوکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیا کیا مجھے تم کہتے ہو انصاف تو کیجے
یہ حوصلہ میرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
دعویٰ کریں گو اور نظامؔ اپنے سخن پر
پر مجھ کو یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
٭٭٭
یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا
ہم نے تو شغل ہی اے دیدۂ تر چھوڑ دیا
دل بیتاب کا کچھ دھیان نہ آیا اس دم
ہاے کیوں ہم نے اسے وقت سحر چھوڑ دیا
کیا ستائے نہیں جاتے ہیں ولیکن چپ ہیں
شکوہ کرنا ترا اے رشک قمر چھوڑ دیا
دم رخصت کبھی کچھ دل کی تمنا نہ کہی
دامن یار ادھر پکڑا ادھر چھوڑ دیا
دل کی الفت نہ سہی پیار کی باتیں نہ سہی
دیکھنا بھی تو ادھر ایک نظر چھوڑ دیا
غیر کے دھوکے میں خط لے کے مرا قاصد سے
پڑھنے کو پڑھ تو لیا نام مگر چھوڑ دیا
غیر سے وعدہ و اقرار ہوئے کیا کیا کچھ
میرے خوش کرنے کو اک فقرہ ادھر چھوڑ دیا
میں نہ کہتا تھا کہ بہکائیں گے تم کو دشمن
تم نے کس واسطے آنا مرے گھر چھوڑ دیا
منہ سے جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھا دیں گے تمہیں
بے قراری نے ہمیں چین پہ گر چھوڑ دا
حور بھی سامنے اب آئے تو کب دیکھیں نظامؔ
برسیں گزریں ہمیں وہ شوق نظر چھوڑ دیا
٭٭٭
یہ عجب تم نے نکالا سونا
رات کا جاگنا دن کا سونا
بخت خفتہ سے تو امید نہیں
ساتھ ہوگا کبھی اس کا سونا
کس قدر ہجر میں بے ہوشی ہے
جاگنا بھی ہے ہمارا سونا
مجھ سے تنگ آ کے یہ بولے شب وصل
یہ ہی تم ہو تو نہ ہوگا سونا
بس دم صبح ستاؤ نہ مجھے
یاد وہ ضد ہے وہ اپنا سونا
لے کے انگڑائی لپٹ جانا ہائے
ہائے وہ ساتھ کسی کا سونا
آپ کروٹ تو ادھر کو لیجیے
جانتا ہوں میں تمہارا سونا
سر کہیں ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
یہ نئی دھج ہے نرالا سونا
پھر شب وصل ہو پھر ہو یارب
جاگنا میرا اور ان کا سونا
آنکھیں پھوٹیں جو جھپکتی بھی ہوں
شب تنہائی میں کیسا سونا
وہ کھلی آنکھ وہ لب پر ہے ہنسی
ہم نہیں مانتے ایسا سونا
رات آنکھوں میں گزر جاتی ہے
ان دنوں ہے یہ ہمارا سونا
ہائے وہ وصل کی شب کا عالم
ہائے وہ پچھلے پہر کا سونا
کیا لگے آنکھ جو یاد آئے نظامؔ
رکھ کے زانو پہ سر اس کا سونا
٭٭٭
تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
یہی اب مشغلا ہے اور میں ہوں
مری ضد سے ملا پھر دشمنوں سے
بس اب وہ بے وفا ہے اور میں ہوں
وہ ہو اور میں ہوں اور کوئی نہ ہو غیر
یہی ہر دم دعا ہے اور میں ہوں
تصور میں ہیں پہروں ان سے باتیں
شکایت کا مزا ہے اور میں ہوں
تمہاری خو ہے رنجش ہر گھڑی کی
یہ جھگڑا روز کا ہے اور میں ہوں
الٰہی وصل ہے یا خواب ہے یہ
حصول مدعا ہے اور میں ہوں
ہزاروں غم تو دیکھے اس سے مل کر
وہی پھر حوصلا ہے اور میں ہوں
سہے کیا کیا ستم اور اب تلک بھی
تمنا ہے وفا ہے اور میں ہوں
گئے وہ تو جہاں جانا تھا ان کو
اب ان کا نقش پا ہے اور میں ہوں
ہر اک سے حال دل کہتا ہوں اپنا
یہ چرچا جا بہ جا ہے اور میں ہوں
دو عالم کی خوشی سے کچھ نہیں کام
فقط اک غم ترا ہے اور میں ہوں
وہ ہے اور عہد نامے ہیں عدو سے
نصیبوں کا لکھا ہے اور اور میں ہوں
غم دوری قیامت ہے کہ ہر دم
اجل کا سامنا ہے اور میں ہوں
خدا کی جنتیں ہیں اور ہے خلق
صنم کوچہ ترا ہے اور میں ہوں
سحر ہوتے ہی جاتے ہی کسی کے
وہی آہ و بکا ہے اور میں ہوں
نظامؔ اس بت کے غم میں ہو تسلی
بس اک ذات خدا ہے اور میں ہوں
٭٭٭
جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
اے ستم گر تیرے دل میں اپنا گھر پیدا کروں
یاں تو یہ عادت ہے کس کس کا کرے گا تو علاج
روز بیماری سے میں دو چار اگر پیدا کروں
یہ تغافل وصل کی شب پوچھتے ہیں میرا حال
اب دعائیں مانگ کر درد جگر پیدا کروں
آنکھ اٹھا کر جس طرف دیکھوں وہی آئے نظر
آنکھ وہ پیدا کروں اور وہ نظر پیدا کروں
فکر سے ایذاؤں کی الٹی سنا جائے ہیں غیر
ایسا دل پیدا کروں اور وہ جگر پیدا کروں
جو تمہیں منظور ہے وہ کہہ نہ دو کیوں چپ رہو
پھر خطا میری کوئی حجت اگر پیدا کروں
تیری فرقت میں گوارا کر سکوں گا کس طرح
کس کا دل لاؤں کہاں سے یہ جگر پیدا کروں
ہائے دل رنجش کا صدمہ ایک دم اٹھتا نہیں
خود منائیں وہ میں اتنی بات گر پیدا کروں
کچھ رکا دیکھا جو مجھ کو تو سنا کر یہ کہا
یہ تو اچھی ٹھہری اب لوگوں کا ڈر پیدا کروں
میں ہی ہوں مجھ سا اگر ڈھونڈو جہاں میں مبتلا
تو ہی ہو تجھ سا حسیں دنیا میں گر پیدا کروں
اچھا اچھا در کو کر لو بند مجھ کو دیکھ کر
سر کو ٹکراؤں ابھی دیوار و در پیدا کروں
سب کچھ آتا ہے مگر یاں عقل حیراں ہے مری
تیرے دل میں رہ کیوں کر فتنہ گر پیدا کروں
اب تری جھوٹی لگاوٹ میں نہ آؤں گا کبھی
مفت ایذا پاؤں نا حق درد سر پیدا کروں
کہتے ہیں کیا تجھ پہ گزری تھی مرے جانے کے بعد
کیا بتاؤں کیسے وہ وقت سحر پیدا کروں
کیوں نظامؔ اس وقت تو تم مان جاؤ گے مجھے
دوستی اس دشمن جاں سے اگر پیدا کروں
٭٭٭
جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
جو کچھ کہوں تو کہیں قینچی ہے زباں منہ میں
یہ ایک بات ہے قاصد جو بھیجتا ہوں تجھے
وگرنہ دل میں جو ان کے ہے وہ یہاں منہ میں
زمیں کا کر دیا پیوند ہم کو اے ظالم!
نہ اب بھی خاک پڑے تیرے آسماں منہ میں
نہ کان رکھ کے کسی نے سنی ہزار افسوس
تمام عمر رہی غم کی داستاں منہ میں
وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کہ دانت پیستے ہیں
ہم ایسے چپ ہیں کہ گویا نہیں زباں منہ میں
یہ بات کیا ہے جو ہونٹوں میں بڑبڑاتے ہو
کہو نہ شوق سے جو آئے میری جاں منہ میں
ڈرو اثر سے خدا جانے کیا ہو کیا کچھ ہو
گھٹا ہوا ہے ابھی آہ کا دھواں منہ میں
کبھی گرانے نہ دو آنسو حال پر میرے
لو آؤ پانی تو ٹپکاؤ میری جاں منہ میں
زبان پر ہے یہ کس کس کی تذکرہ اپنا
پڑی ہے بات نہ میری کہاں کہاں منہ میں
پھر ایسے وعدے سے تسکیں ہو کس طرح میری
”نہیں” ہے دل میں تمہارے اگر ہے ”ہاں” منہ میں
اسی کا دھیان ہے جب تک کہ تن میں جاں ہے نظامؔ
اسی کا ذکر ہے جب تک کہ ہے زباں منہ میں
٭٭٭
حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
میرے کہنے کو بھلا تم نے سنا کون سے دن
لذتیں وصل کی کچھ میں نے بیاں کیں تو کہا
آپ کے واسطے دن ایسا ہوا کون سے دن
جب کہا میں نے وہ کیا دن تھے جو ملتے تھے تم
ہو کے انجان عجب ڈھب سے کہا کون سے دن
وصل کی شب ہے ملو آج تو دل کھول کے خوب
اے مری جان یہ جائے گی حیا کون سے دن
رشک آمیز جو کچھ میں نے کہا تو بولے
غیر کے ساتھ مجھے دیکھ لیا کون سے دن
ہر گھڑی دل میں رہا خوف بگڑ جانے کا
تیرے ملنے میں مزا ہم کو ملا کون سے دن
کون سا دن ہے جو بے چین نہیں ہو کے نظامؔ
بے قراری سے نہ اس در پہ گیا کون سے دن
٭٭٭
دل پہ جو گزرے ہے میرے آہ میں کس سے کہوں
کیا کروں میں اے مرے اللہ میں کس سے کہوں
جب نہ تم ہی حال دل میرا کبھی آ کر سنو
تو یہ فرماؤ مجھے، اللہ میں کس سے کہوں
میرے صاحب کے ذرا سے ربط پر بگڑیں نہ غیر
غیر سے تم سے جو کچھ ہے راہ میں کس سے کہوں
دوستو اب کہنے سننے سے نہیں کچھ فائدہ
وہ تو میرے غم سے ہے آگاہ میں کس سے کہوں
یوں ہی ناحق سر پھراتے ہیں مرا آ آ کے لوگ
حال اپنا اے بت گمراہ میں کس سے کہوں
بے قراری کا سبب اپنی کہوں کس سے نظامؔ
دل پہ جو ہے صدمۂ جاں کاہ میں کس سے کہوں
٭٭٭
دل میں کیا اس کو ملا جان سے ہم دیکھتے ہیں
بلکہ جاں ہے وہی جب دھیان سے ہم دیکھتے ہیں
چپکے بیٹھے ہوئے حیران سے ہم دیکھتے ہیں
تم تو دیکھو تمہیں کس شان سے ہم دیکھتے ہیں
دل نکل جاتا ہے بے ساختہ اس دم اپنا
در میں جس دم تجھے دالان سے ہم دیکھتے ہیں
کہتے ہیں ایک تمہیں تو نہیں ہم پر مرتے
سیکڑوں جاتے ہوئے جان سے ہم دیکھتے ہیں
واں سے مایوس چلے تو ہیں نہ پوچھو پھر کچھ
پیچھے پھر پھر کے کس ارمان سے ہم دیکھتے ہیں
کیا گلہ آپ کا جو ہم کو دکھائے قسمت
آج کچھ اور ہی سامان سے ہم دیکھتے ہیں
کچھ رکا سا جو انہیں دیکھتے ہیں محفل میں
منہ کو ایک ایک کے حیران سے ہم دیکھتے ہیں
اللہ اللہ رے اے بت تری افزائش حسن
تجھ کو ہر لحظہ نئی آن سے ہم دیکھتے ہیں
ہائے قسمت کہ عدو کہنے کو اپنا مطلب
منہ لگاتے ہیں ترے کان سے، ہم دیکھتے ہیں
کبھی جانے کا ارادہ جو وہ کرتے ہیں نظامؔ
ہائے اس وقت کس ارمان سے ہم دیکھتے ہیں
٭٭٭
واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں
یاں وہ خواہش ہے کہ ہوتا ہی نہیں
یوں ستانے کے تو لائق تھے نہ ہم
آپ نے کچھ ہمیں سمجھا ہی نہیں
جس سے تسکیں ہو مری اے قاصد
ایسی تو بات تو کہتا ہی نہیں
اور بھی ایسی تو باتیں ہیں بہت
گلۂ رنجش بے جا ہی نہیں
لے گئیں نیچی نگاہیں دل کو
آنکھ اٹھا کر ابھی دیکھا ہی نہیں
رشک دشمن سے نصیحت ہوئی آپ
دل وہاں جانے کو ہوتا ہی نہیں
اور جو ظلم ہو منظور مجھے
غیر سے ربط گوارا ہی نہیں
یاں تو یہ منتظر وعدہ ہم
اور واں یاد وہ وعدا ہی نہیں
ربط دشمن سے ہے انکار عبث
ہمیں اس بات کا شکوا ہی نہیں
ہم خدا سے بھی نہیں مانگتے کچھ
یاں کوئی اپنی تمنا ہی نہیں
نہ سہی کوئی برائی نہ سہی
تم سے ملنا مجھے اچھا ہی نہیں
اس کی ہر بات کو سچ سمجھے نظامؔ
اس سا عیار تو پیدا ہی نہیں
٭٭٭
وہ بگڑے ہیں رکے بیٹھے ہیں جھنجلاتے ہیں لڑتے ہیں
کبھی ہم جوڑتے ہیں ہاتھ گاہے پاؤں پڑتے ہیں
گئے ہیں ہوش ایسے گر کہیں جانے کو اٹھتا ہوں
تو جاتا ہوں ادھر کو اور ادھر کو پاؤں پڑتے ہیں
ہمارا لے کے دل کیا ایک بوسہ بھی نہیں دیں گے
وہ یوں دل میں تو راضی ہیں مگر ظاہر جھگڑتے ہیں
جو تم کو اک شکایت ہے تو مجھ کو لاکھ شکوے ہیں
لو آؤ مل بھی جاؤ یہ کہیں قصے نبڑتے ہیں
ادھر وہ اور آئینہ ہے اور کاکل بنانا ہے
ادھر وہم اور خاموشی ہے اور دل میں بگڑتے ہیں
یہاں تو سب ہماری جاں کو ناصح بن کے آتے ہیں
وہاں جاتے ہوئے دل چھٹتے ہیں دم اکھڑتے ہیں
نہ دل میں گھر نہ جا محفل میں یاں بھی بیٹھنا مشکل
ترے کوچے میں اب ظالم کب اپنے پاؤں گڑتے ہیں
سحر کو روؤں یا ان کو مناؤں دل کو یا روکوں
یہ قسمت وعدے کی شب جھگڑے سو سو آن پڑتے ہیں
کبھی جھڑکی کبھی گالی کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
بنے کیوں کر کہ سو سو بار اک دم میں بگڑتے ہیں
نظامؔ ان کی خموشی میں بھی صد ہا لطف ہیں لیکن
جو باتیں کرتے ہیں تو منہ سے گویا پھول جھڑتے ہیں
٭٭٭
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں
کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ
یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر
اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ
بے اختیار ہو کے جو میں پاؤں پر گرا
ٹھوڑی کے نیچے اس نے دھرا مسکرا کے ہاتھ
گر دل کو بس میں پائیں تو ناصح تری سنیں
اپنی تو مرگ و زیست ہے اس بے وفا کے ہاتھ
وہ زانوؤں میں سینہ چھپانا سمٹ کے ہائے
اور پھر سنبھالنا وہ دوپٹہ چھڑا کے ہاتھ
قاصد ترے بیاں سے دل ایسا ٹھہر گیا
گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ
اے دل کچھ اور بات کی رغبت نہ دے مجھے
سننی پڑیں گی سیکڑوں اس کو لگا کے ہاتھ
وہ کچھ کسی کا کہہ کے ستانا سدا مجھے
وہ کھینچ لینا پردے سے اپنا دکھا کے ہاتھ
دیکھا جو کچھ رکا مجھے تو کس تپاک سے
گردن میں میری ڈال دیئے آپ آ کے ہاتھ
پھر کیوں نہ چاک ہو جو ہیں زور آزمائیاں
باندھوں گا پھر دوپٹہ سے اس بے خطا کے ہاتھ
کوچے سے تیرے اٹھیں تو پھر جائیں ہم کہاں
بیٹھے ہیں یاں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ
پہچانا پھر تو کیا ہی ندامت ہوئی انہیں
پنڈت سمجھ کے مجھ کو اور اپنا دکھا کے ہاتھ
دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظامؔ
منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ
٭٭٭
چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ
خط بھی آیا کبھی تو غیر کی تحریر کے ساتھ
گو کہ اقرار غلط تھا مگر اک تھی تسکین
اب تو انکار ہے کچھ اور ہی تقریر کے ساتھ
دور ایسے نہ کھیچو پاس بھی آؤ گے کبھی
وہ گئے دن جو یہ نالے نہ تھے تاثیر کے ساتھ
پیچ قسمت کا ہو تو کیا کرے اس میں کوئی
دل کو وابستگی ہے زلف گرہ گیر کے ساتھ
وہ بھی کہتے ہوئے کچھ دور تک آئے پیچھے
ہم جو اس بزم سے نکلے بھی تو توقیر کے ساتھ
یہ بھی اک وصل کی صورت تھی مگر رشک نصیب
اس کی تصویر کبھی غیر کی تصویر کے ساتھ
وعدۂ صبح پہ اب کس کو یقیں ہو قاصد
آج تو جان گئی نالۂ شب گیر کے ساتھ
کہو رنجش کا سبب کچھ نہیں میری ہی سنو
عذر تو چاہیئے کرنا مجھے تقصیر کے ساتھ
آپ دیتے ہیں اذیت ہی شکایت کی عوض
کچھ زباں سے بھی تو فرمائیے تعزیر کے ساتھ
دیکھیے مل ہی گیا آپ سے وہ شوخ نظامؔ
کام جو کچھ کرے انسان سو تدبیر کے ساتھ
٭٭٭
ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ
ناگن بھی ہے لگی ہوئی رہزن کے ساتھ ساتھ
کس کی کدورتوں سے یہ مٹی خراب ہے
کس کا غبار ہے ترے دامن کے ساتھ ساتھ
اٹھا تھا منہ چھپائے ہوئے میں ہی صبح کو
جاتا تھا میں ہی رات کو دشمن کے ساتھ ساتھ
کوچے میں اس صنم کے خدائی کا لطف ہے
ناحق پھرا میں شیخ و برہمن کے ساتھ ساتھ
دل کی تپش نے خاک اڑائی یہ بعد مرگ
لاشہ پھرا کیا مرا مدفن کے ساتھ ساتھ
اللہ اپنے رشک کا درجہ بھی اب نہیں
کس کس جگہ گیا بت پر فن کے ساتھ ساتھ
جھونکا قفس میں آیا جو باد بہار کا
پہلو سے دل نکل چلا سن سن کے ساتھ ساتھ
اشکوں کے ساتھ ساتھ تو موجیں غموں کی ہیں
آنکھوں کے شعلے ہیں مرے شیون کے ساتھ ساتھ
جس راہ سے گزرتے ہیں وہ، مجھ سے سیکڑوں
ہو لیتے ہیں جنوں زدہ بن بن کے ساتھ ساتھ
زنجیر میرے پاؤں کے پیچھے پڑی ہے یوں
پھرتا ہے رشتہ جس طرح سوزن کے ساتھ ساتھ
کب تک کسی کو کھولیں کسی کو کریں وہ بند
پھرتی ہے یاں نگاہ تو روزن کے ساتھ ساتھ
یوں ساتھ روح کے ہے تن زار اب نظامؔ
پھرتا ہے جیسے سایہ مرا تن کے ساتھ ساتھ
٭٭٭
دیکھ اپنے قرار کرنے کو
اور مرے انتظار کرنے کو
تمہیں دیکھے سے کیا تسلی ہو
جی تو ہوتا ہے پیار کرنے کو
میری تدبیر اک نہیں کرتا
ہیں نصیحت ہزار کرنے کو
وہ وہ صدمے سہے شب غم میں
چاہیئے دن شمار کرنے کو
وہ گر آئیں تو پاس کیا ہے اور
ایک جاں ہے نثار کرنے کو
جھوٹے وعدے کیا نہ کیجے آپ
مفت امیدوار کرنے کو
آپ ہیں روٹھنے ہی کو اور ہم
منتیں بار بار کرنے کو
اپنی عیاریوں کو دیکھیں آپ
اور مرے اعتبار کرنے کو
دل بھی تیرا سا چاہیئے ہے نظامؔ
عشق کے اختیار کرنے کو
٭٭٭
اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
جو کہے سن کے کیا کرے کوئی
ہم بھی کیا کیا کہیں خدا جانے
گر ہماری سنا کرے کوئی
ہائے وہ باتیں پیار کی شب وصل
بھولے کیا یاد کیا کرے کوئی
لوگ کیوں پوچھتے ہیں حال مرا
ذکر کس بات کا کرے کوئی
درد دل کا علاج ہو کس سے
یوں مسیحا ہوا کرے کوئی
بے وفا گر کہوں تو کہتے ہیں
کیا ہر اک سے وفا کرے کوئی
جائے گر جاں تو سو ہیں تدبیریں
جائے گر دل تو کیا کرے کوئی
کوئی اپنی خطا تو ہو معلوم
عذر کس بات کا کرے کوئی
دل کا کچھ حال ہی نہیں کھلتا
گر مرض ہو دوا کرے کوئی
کبھی میں نے بھی کچھ کہا تم سے
نہ سنو، کچھ کہا کرے کوئی
تم سے بے رحم پر نہ دل آئے
اور آئے تو کیا کرے کوئی
سیکڑوں باتیں کہہ کے کہتے ہیں
پھر ہمیں کیوں خفا کرے کوئی
کوئی کب تک نہ دے جواب تمہیں
چپکا کب تک سنا کرے کوئی
شکوہ اس بت کا ہر کسی سے نظامؔ
اس سے کہہ دے خدا کرے کوئی
٭٭٭
اس قدر آپ کا عتاب رہے
دل کو میرے نہ اضطراب رہے
نہ پٹی ان سے پیار کی میزان
ہاں مگر رنج بے حساب رہے
یوں شب وصل کا ہے عالم یاد
جیسے برسوں کی یاد خواب رہے
حال دل سن کے بول اٹھا قاصد
یاد کس کو یہ سب کتاب رہے
منتظر ہوں کسی کے آنے کا
کس کی آنکھوں میں آ کے خواب رہے
صبح کے اس حجاب نے مارا
رات بھر ایسے بے حجاب رہے
غیر کا منہ اور آپ سے باتیں
ایسی باتوں سے اجتناب رہے
ہم بھی مر کر عذاب سے چھوٹے
آپ بھی داخل ثواب رہے
ہائے وہ دن خدا نہ لائے یاد
ہم سے روٹھے جو کچھ جناب رہے
بحر ہستی سے کوچ ہے درپیش
یاد منصوبۂ حباب رہے
ایک دم کا یہاں توقف ہے
خیمہ بے چوب بے طناب رہے
کچھ نہ بن آئی اس کے آگے نظامؔ
دو ہی باتوں میں لا جواب رہے
٭٭٭
بگڑنے سے تمہارے کیا کہوں میں کیا بگڑتا ہے
کلیجا منہ کو آ جاتا ہے دل ایسا بگڑتا ہے
شب غم میں پڑے تنہا تسلی دل کی کرتے ہیں
یہی عالم کا نقشہ ہے سدا بنتا بگڑتا ہے
وہ یاد آتا ہے عالم وصل کی شب کا وہ آرائش
وہ کہنا چھو نہ اس دم زلف کا حلقا بگڑتا ہے
ہمارے اٹھ کے جانے میں تری کیا بات بنتی ہے
ہمارے یاں کے رہنے میں ترا کیا کیا بگڑتا ہے
وہ کچھ ہو جانا رنجش اس پری سے باتوں باتوں میں
وہ کہنا پھیر کر منہ یہ تو کچھ اچھا بگڑتا ہے
جو بعد از عمر خط لکھا تو یہ تقدیر کا لکھا
عبارت گر کہیں بنتی ہے تو معنا بگڑتا ہے
اگر خاموش رہتا ہوں تو جی پر میرے بنتی ہے
اگر کچھ منہ سے کہتا ہوں تو وہ کیسا بگڑتا ہے
سفارش پر بگڑ کر ہائے وہ اس شوخ کا کہنا
منا لیتا اسے میں پر مرا شیوہ بگڑتا ہے
نظامؔ اس کی عنایت ہے تو پھر کس بات کا غم ہے
بناتا ہے وہ جس کا کام کب اس کا بگڑتا ہے
٭٭٭
تمہیں ہاں کسی سے محبت کہاں ہے
ذرا دیکھیے تو وہ صورت کہاں ہے
بھلا اب کسی سے سنو بات کیا تم
تمہیں اپنی باتوں سے فرصت کہاں ہے
ہر اک بات پر روئے سے دیتے ہو اب
وہ شوخی کہاں وہ شرارت کہاں ہے
پڑے رہتے ہو پہروں ہی منہ لپیٹے
وہ جلسہ کہاں ہے وہ صحبت کہاں ہے
کوئی کچھ کہے اب تمہیں کچھ نہ بولو
وہ تیزی کہاں وہ ظرافت کہاں ہے
وہ لگ چلنا ہر اک سے آفت تمہارا
وہ تندی وہ شوخی وہ فرحت کہاں ہے
کوئی جانتا بھی نہیں اب تو تم کو
وہ پہلی سی خوشبو میں شہرت کہاں ہے
تمہیں دیکھو اور غیر کی باتیں سننا
وہ شان اب کہاں ہے وہ شوکت کہاں ہے
تمہیں ہو عدو ہی کا ملنا مبارک
عدو کی سی ہم میں لیاقت کہاں ہے
نظامؔ آپ ہی آپ آئے گا یاں پر
یہاں رشک سہنے کی طاقت کہاں ہے
٭٭٭
جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
جو یاد آئیں گی تیری باتیں تو چپ ہی پہروں رہا کریں گے
جو چاہو کہہ لو یہی خوشی ہے تو ہم بھی پھر کیوں گلا کریں گے
جو کچھ سنائے گی اپنی قسمت تمہارے منہ سے سنا کریں گے
کسے غرض ہے پھر آپ کو کیوں صنم کا بندا کہا کریں گے
جو یوں ہی ہم کو بھلائیں گے وہ تو ہم بھی یاد خدا کریں گے
عبث یہ ہر دم کا چونکنا ہے عبث یہ اٹھ اٹھ کے دیکھنا ہے
بھلا وہ ایسے ہوئے تھے کس دن وہی تو وعدہ وفا کریں گے
الٰہی قاصد ابھی نہ آئے کہ یہ توقع بھی ہے غنیمت
کیا گر انکار صاف اس نے تو دل کی تسکین کیا کریں گے
لو مل بھی جاؤ نہ کچھ تمہاری خطا تھی اس دم نہ کچھ ہماری
جو یہ ہی دل کے معاملے ہیں تو یوں ہی جھگڑے رہا کریں گے
ہمیں تو دیکھو یہ کیا ہوا ہے کہ ان کے کہنے کا پھر یقیں ہے
وہ جو جھوٹ یوں ہی کہا کریں گے عدو سے یوں ہی ملا کریں گے
ستم کی کیجے اگر شکایت تو کہتے ہیں بس تمہیں بھی دیکھا
یہاں کچھ ایسی غرض ہے کس کو کسی پہ ہم کیوں جفا کریں گے
یہ سچ ہے ناصح! نہ ہوگا ملنا نہیں ہے اچھا نہ ہوگا اچھا
پھر آپ کو کیا برا کہیں گے تو اپنے حق میں برا کریں گے
نظامؔ تقریر پھر عبث ہے جواب کچھ اس کا دے سکو گے
وہ اس کا ہر بات پر یہ کہنا کہ ہم تو اپنا کہا کریں گے
٭٭٭
خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے
خوشی تبھی ہو کہ جب سن لوں دل ربا خوش ہے
ذرا بھی بگڑے تو بگڑے زمانہ سب مجھ سے
خوشی ہے وہ تو ہر اک دوست آشنا خوش ہے
پڑا ہوں جب سے کہ بیمار ہو کے میں گھر میں
ہر ایک غیر عداوت سے پھرتا کیا خوش ہے
مگر ہے اس کی عنایت تو غم نہیں کچھ بھی
وہ مجھ سے خوش رہے بس پھر تو دل مرا خوش ہے
میں ایک غم نہیں سو جان پر اٹھا لوں گا
مرے ستانے سے کہہ دے کہ دل ترا خوش ہے
سبب تو کچھ نہیں معلوم ہائے کیا میں کروں
وہ آپ ہی آپ کئی دن سے مجھ سے ناخوش ہے
وہ بات کون سی ہے جو نہیں سمجھتے ہم
فریب دے کے ہمیں کیوں تو بے وفا خوش ہے
نظامؔ کون سا دن ہو جو واں پہ جاؤں میں
کہیں وہ ہنس کے مزاج اب تو آپ کا خوش ہے
٭٭٭
خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی
”ہاں” تو کہتے ہو مگر ساتھ ”نہیں” تھوڑی سی
حال دل سن کے مرا برسر رحمت تو ہیں کچھ
ابھی باقی ہے مگر چین جبیں تھوڑی سی
ہوئی جاتی ہے سحر ایسا بھی گھبرانا کیا
رات گر ہے بھی تو اے ماہ جبیں تھوڑی سی
جام مے دیکھ کے لبریز کس انداز کے ساتھ
اس کا کہنا کہ نہیں، اتنی نہیں، تھوڑی سی
بے خودی یہ دم رخصت تھی کہ سب کچھ بھولا
ان کی باتیں بھی مجھے یاد رہیں تھوڑی سی
اب یہ پیغام کسی کا کوئی لے کر جائے
ابھی لب پر ہے مرے جان حزیں تھوڑی سی
یوں تو تم روز ہی کہتے ہو سبھی کچھ مجھ سے
آج کی بات ہوئی ذہن نشیں تھوڑی سی
ان سے کچھ کہہ نہ سکا میں شب غم کی باتیں
گو کہ بھولا تھا مگر یاد بھی تھیں تھوڑی سی
بوسہ تو اس لب شیریں سے کہاں ملتا ہے
گالیاں بھی ملیں ہم کو تو ملیں تھوڑی سی
اب تو سب کا ترے کوچے ہی میں مسکن ٹھہرا
یہی آباد ہے دنیا میں زمیں تھوڑی سی
اٹھے جاتے ہیں ہمیں آپ نہ بیٹھیں خاموش
آپ کی بات سمجھتے ہیں ہمیں تھوڑی سی
یاد کچھ آ کے یہ حالت ہوئی میری کہ نہ پوچھ
پچھلی گھڑیاں شب غم کی جو رہیں تھوڑی سی
صبح تک شام سے وہ گو کہ رہے پاس مرے
حسرتیں دل کی مگر رہ ہی گئیں تھوڑی سی
کوستے کیا ہو ابھی ہوتے ہیں ہم شادیِ مرگ
گر ملے دفن کو کوچے میں زمیں تھوڑی سی
سب مرا حال وہاں کیسے کہے گا قاصد!
تو تو سنتا ہے مری بات نہیں تھوڑی سی
دولت فقر سے سب ہو گئی تسکین نظامؔ
اب کریں کیا طلب تاج و نگیں تھوڑی سی
٭٭٭
شب تو وہ یاں سے روٹھ کے گھر جا کے سو رہے
ہم تنگ آ کے جان سے کچھ کھا کے سو رہے
پہلے تو کچھ وہ آتے ہی شرما کے سو رہے
پھر لطف اٹھے جو ہم انہیں چونکا کے سو رہے
کیا میں شب وصال میں گھڑیاں گنا کروں
کروٹ بدل کے کیوں مجھے چونکا کے سو رہے
اپنی کہی نہ میری سنی شام ہی سے وہ
سینہ چھپا کے ہاتھوں سے شرما کے سو رہے
کچھ میری جاں کنی کا نہ آیا تمہیں خیال
مجھ کو نہ ساتھ سونے کو فرما کے سو رہے
ہم بیٹھے آنکھیں دیکھتے ہیں منہ کو تکتے ہیں
باتوں میں وہ تو ٹال کے بہلا کے سو رہے
مجھ کو اٹھا کے نیچی نگاہوں سے دیکھ کر
کچھ دل میں سوچ سوچ کے پچھتا کے سو رہے
ان سے شب وصال میں حجت جو بڑھ گئی
کچھ دل میں سوچ سوچ کے پچھتا کے سو رہے
ہم کیوں بتائیں ہم نے بھی کی صبح جس طرح
شب تم تو جاگنے کی قسم کھا کے سو رہے
اے بخت خفتہ! اتنی ہی تاثیر تو دکھا
اس کی گلی میں پاؤں مرا جا کے سو رہے
تا صبح مجھ کو مارے خوشی کے نہ آئی نیند
اک ایسی بات وہ مجھے سمجھا کے سو رہے
اے دل یہ کیا ہوا تری باتوں نے کیا کیا
منہ پھیر کے ادھر کو وہ تنگ آ کے سو رہے
سوتوں میں جان ڈال کے انگڑائیاں نہ لو
جاگے ہوئے ہو شب کے جو یاں آ کے سو رہے
اک دم کو چونکوں شوق سے پھر سوؤں صبح تک
اس بات کو زبان ہی پر لا کے سو رہے
یہ چھیڑ دیکھو میرے نہ سونے کے واسطے
انداز اک نیا مجھے دکھلا کے سو رہے
امید خواب میں بھی نہ یوں دیکھنے کی تھی
جس پیار سے وہ شب مجھے لپٹا کے سو رہے
چھوڑا ہے میں نے رات نہ گھر جانے کو انہیں
جب کچھ نہ بس چلا تو وہ جھنجھلا کے سو رہے
میں سونے دوں گا آپ کو کب چین سے بھلا
ہے یہ تو خوب تم مجھے پھسلا کے سو رہے
اچھا میں پاؤں دابوں پہ تم جاگتے رہو
یوں کون مانے ہے مجھے بہلا کے سو رہے
کیا سونے جاگنے کا نہیں ہم کو امتیاز
کروٹ بدل کے آپ جو مچلا کے سو رہے
ہے کون سی وہ شب جو سحر تک نہ جاگے ہم
کس دن نہ آپ غیر کے گھر جا کے سو رہے
ہے بخت خفتہ اور شب تنہائی اور ہم
جاگیں نصیب ساتھ جو وہ آ کے سو رہے
منظور تھا گھٹانا جو عشرت کی رات کا
چوٹی وہ اپنی مجھ سے ہی بندھوا کے سو رہے
فرقت کی شب میں جاگنے سے فائدہ نظامؔ
بہتر ہے اس سے گر کوئی کچھ کھا کے سو رہے
٭٭٭
صاف باتوں میں تو کدورت ہے
اور لگاوٹ سے ظاہر الفت ہے
غیر سے بھی کبھی تو بگڑے گی
روٹھنا تو تمہاری عادت ہے
آپ کے لطف میں تو شک ہی نہیں
دل کو کس بات کی شکایت ہے
اس ستم گر سے شکوہ کیسے ہو
اور الٹی مجھے ندامت ہے
بولے دکھلا کے آئینہ شب وصل
دیکھیے تو یہی وہ صورت ہے
موت کو بھی نظر نہیں آتا
ناتوانی نہیں قیامت ہے
کچھ کہا ہوگا اس نے بھی قاصد
کچھ نہ کچھ تیری بھی شرارت ہے
کہو سب کچھ نہ روٹھنے کی کہو
یہ ہی کہنا تمہارا آفت ہے
واہ کیا تیری شاعری ہے نظامؔ
کیا فصاحت ہے کیا بلاغت ہے
٭٭٭
صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
تمہیں جور اس قدر نہیں آتے
پھر تسلی کی کون سی صورت
خواب میں بھی نظر نہیں آتے
آتے ہیں جب کہ ناامید ہوں ہم
کبھی وہ وعدے پر نہیں آتے
روز کے انتظار نے مارا
صاف کہہ دو اگر نہیں آتے
نہیں معلوم اس کا کیا باعث
روز کہتے ہیں پر نہیں آتے
اور تم کس کے گھر نہیں جاتے
ایک میرے ہی گھر نہیں آتے
اب تو ہے قہر آپ کا جانا
نہیں آتے اگر نہیں آتے
سچ ہے حیلے مجھی کو آتے ہیں
اور تمہیں کس قدر نہیں آتے
ان کو میں اس طرح بھلاؤں نظامؔ
یاد کس بات پر نہیں آتے
٭٭٭
ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
میری سی خدایا نہ ہو تقدیر کسی کی
ناحق میں بگڑ جانے کی عادت یہ غضب ہے
ثابت تو کیا کیجیے تقصیر کسی کی
قاصد یہ زبانی تری باتیں تو سنی ہیں
تب جانوں کہ لا دے مجھے تحریر کسی کی
بے ساختہ پہروں ہی کہا کرتے ہیں کیا کیا
ہم ہوتے ہیں اور ہوتی ہے تصویر کسی کی
ایسی تو نظامؔ ان کی نہ عادت تھی وفا کی
وہ جانے نہ جانے یہ ہے تاثیر کسی کی
٭٭٭
عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے
یہ لطف ہے ستم بھی ہے عذر ستم بھی ہے
الفت مجھے جتاتے ہو دل میں بھی درد ہے
رونے کا منہ بناتے ہو آنکھوں میں نم بھی ہے
اس بت کا وصل تھا تو خدائی کا عیش تھا
یہ جانتے نہ تھے کہ زمانے میں غم بھی ہے
تسکین میرے دل کی اور اس بے وفا کا قول
دل میں فریب بھی ہے لبوں پر قسم بھی ہے
اب آؤ مل کے سو رہیں تکرار ہو چکی
آنکھوں میں نیند بھی ہے بہت رات کم بھی ہے
نومیدی بھی ہے وصل سے اس کے امید بھی
کچھ درد دل بڑھا بھی ہے کچھ رنج کم بھی ہے
یہ بات گر نہ ہو تو کرے کون حوصلہ
ملنا کسی کا سہل بھی ہے اور الم بھی ہے
جاتا ہے شک بھی کر گیا ہے وہم میں وہ شوخ
کوچے میں غیر ہی کے نشان قدم بھی ہے
باہم تپاک بھی ہیں کبھی رنجشیں بھی ہیں
لطف و کرم بھی ہے کبھی جور و ستم بھی ہے
آ جائیں وہ مگر مجھے آتا نہیں یقیں
قاصد کا جو ہے قول وہ خط میں رقم بھی ہے
بگڑے ہوئے ہیں آج خدا خیر ہی کرے
کچھ بل بھی ہے جبیں پہ کچھ ابرو پہ خم بھی ہے
مر جاتے ہم تو کب کے اجل دیکھتی ہے تو
فرصت کسی کے غم سے ہمیں کوئی دم بھی ہے
کہنے کو دو مکاں ہیں کیں تو ہے ایک ہی
بیت الصنم ہے جو وہی بیت الحرم بھی ہے
یوں کہہ کے بھول جانا یہ خو آپ ہی کی ہے
مجھ کو وہ یاد عہد بھی ہے وہ قسم بھی ہے
جب کچھ کہوں تو کہتے ہیں یہ پھر سنوں گا میں
پھر ایسا کوئی وقت بھی ہے کوئی دم بھی ہے
کیسا وصال و ہجر اگر فہم ہے نظامؔ
ہر حال میں جدا بھی ہے وہ اور بہم بھی ہے
٭٭٭
فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے
گر نہ ملا وہ کچھ دنوں کام یہاں تمام ہے
اب ہیں ہمارے نام پر سیکڑوں گالیاں یہ لطف
کہتے تھے تم میاں میاں وہ ہی تو یہ غلام ہے
خیر نہ ملیے روز روز یوں ہی سہی کبھی کبھی
اس سے بھی انحراف ہے اس میں بھی کچھ کلام ہے
اے دل بے قرار کچھ کر وہ رکے تو رکنے دے
فائدہ اضطراب سے صبر کا یہ مقام ہے
کوئی کہے برا بھلا کوئی عدو ہو یا ہو دوست
اور کسی سے کام کیا آپ سے مجھ کو کام ہے
ہائے ہر اک کی وہ سنے کچھ میں کہوں تو یہ کہے
آپ نہ مجھ سے کچھ کہیں آپ سے کب کلام ہے
آج ہیں ہم تو جاں بہ لب کل کو گر آئے بھی حصول
تم کو کسی سے کیا غرض اپنی خوشی سے کام ہے
یہ بھی غضب کا رشک ہے خط تو ہے نام غیر پر
اور لفافے پر لکھا سہو سے میرا نام ہے
کس کو کیا شہید ناز کس کی ہوئی وفا پسند
کہتے ہیں ان کے در پر آج خلق کا ازدحام ہے
اب ہیں فریب کس لیے ہوگا یقیں کسی کو اب
تم سے وفا کی آرزو یہ بھی خیال خام ہے
توبہ کا یاں کسے خیال مے کو سمجھتے ہیں حلال
جس کے لیے حرام ہے اس کے لیے حرام ہے
دن ہو تو آفتیں یہ کچھ رات ہو تو یہ کچھ ستم
کیسی ہماری صبح ہے کیسی ہماری شام ہے
ہجر کے وہ ستم سہے اب نہ رہی ہوائے وصل
حال یہی ہے نامہ بر یہ ہی مرا پیام ہے
سن کے مری فغاں کا شور پوچھا کسی نے کون ہے
بولے سنا نہ ہوگا کیا، یہ تو وہی نظامؔ ہے
٭٭٭
کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
بدل کر وضع چھپ کر شب کو آنا یاد آتا ہے
وہ باتیں بھولی بھولی اور وہ شوخی ناز و غمزہ کی
وہ ہنس ہنس کر ترا مجھ کو رلانا یاد آتا ہے
گلے میں ڈال کر بانہیں وہ لب سے لب ملا دینا
پھر اپنے ہاتھ سے ساغر پلانا یاد آتا ہے
بدلنا کروٹ اور تکیہ مرے پہلو میں رکھ دینا
وہ سونا آپ اور میرا جگانا یاد آتا ہے
وہ سیدھی الٹی اک اک منہ میں سو سو مجھ کو کہہ جانا
دم بوسہ وہ تیرا روٹھ جانا یاد آتا ہے
تسلی کو دل بیتاب کی میری دم رخصت
نئی قسمیں وہ جھوٹی جھوٹی کھانا یاد آتا ہے
وہ رشک غیر پر رو رو کے ہچکی میری بندھ جانا
فریبوں سے وہ تیرا شک مٹانا یاد آتا ہے
وہ میرا چونک چونک اٹھنا سحر کے غم سے اور تیرا
لگا کر اپنے سینہ سے سلانا یاد آتا ہے
کبھی کچھ کہہ کے وہ مجھ کو رلانا اس ستم گر کا
پھر آنکھیں نیچی کر کے مسکرانا یاد آتا ہے
٭٭٭
کسی نے پکڑا دامن اور کسی نے آستیں پکڑی
نہ اٹھا میں ہی اس کوچے سے یہ میں نے زمیں پکڑی
خدا شاہد ہے دل پر چوٹ سی اک لگ گئی میرے
بہانا درد سر کا کر کے جب اس نے جبیں پکڑی
سوا ان کے نہ کہنا اور سے آفت نہ کچھ آئے
نہ جانے بات میری قاصدا شاید کہیں پکڑی
بھلا اب مجھ سے چھٹتا ہے کہیں اس شوخ کا چسکا
یہ کیا ہے چھیڑ میری ہر گھڑی کی ہم نشیں پکڑی
غضب ہیں آپ بھی میں نے تو تم سے کان پکڑا ہے
ہوا جب کچھ میں کہنے کو زباں میری وہیں پکڑی
یہ قسمت وصل کی شب صبح تک تکرار میں گزری
ادھر کچھ میں نے ضد پکڑی ادھر اس نے ”نہیں” پکڑی
مجھے ڈسواؤ اک مار سیہ سے یہ سزا دیجے
جفا کی اپنے صاحب کی جو زلف عنبریں پکڑی
خدا کے فضل سے ایسی طبیعت ہے نظامؔ اپنی
غزل دم میں کہی فضل خدا سے جو زمیں پکڑی
٭٭٭
کہیے گر ربط مدعی سے ہے
کہتے ہیں دوستی تجھی سے ہے
دیکھیے آگے آگے کیا کچھ ہو
دل کی حرکت یہ کچھ ابھی سے ہے
اس کی الفت میں جیتے جی مرنا
فائدہ یہ بھی زندگی سے ہے
ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ
یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے
خوف سے تم سے کہہ نہیں سکتے
دل میں اک آرزو کبھی سے ہے
مجھ سے پوچھو ہو کس سے الفت ہے
تم سمجھتے نہیں کسی سے ہے
رنجش غیر سے نہیں مطلب
کام ہم کو تری خوشی سے ہے
اس قدر آپ ہم پہ ظلم کریں
اس کا انصاف آپ ہی سے ہے
رشک دشمن نہ سہہ سکے گا نظامؔ
یہ بھی ناچار اپنے جی سے ہے
٭٭٭
کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے
دل تو کہے ہے ساتھ ہی دل بر کے سوئیے
گھبرا کے اس کا کہنا وہ ہائے شب وصال
بس بس ذرا اب آپ تو ہٹ کر کے سوئیے
میں آپ سے خفا ہوں کہ تم روٹھے ہو پڑے
بہتان میرے سر پہ نہ یوں دھر کے سوئیے
سوتے میں بھی جو دیکھیے تو چونک ہی اٹھے
کس طرح ساتھ ایسے ستم گر کے سوئیے
تم لطف نشہ دیکھو ذرا تم کو دیکھیں ہم
کیا لطف ہے کہ لیتے ہی ساغر کے سوئیے
مشہور ہے کہ سولی پہ بھی نیند آتی ہے
یارب شب فراق میں کیوں کر کے سوئیے
تکیہ تو آپ سر کے تلے روز رکھتے ہیں
اب ہاتھ میرے رکھ کے تلے سر کے سوئیے
وہ مسکرا رہے ہو لو وہ آنکھ کھل گئی
یوں کون مانتا ہے کہ جگ کر کے سوئیے
پاس عدو تو دیکھو ہمیں حکم ہے نظامؔ
شب کو کہیں نہ پاس مرے گھر کے سوئیے
٭٭٭
گئے ہیں جب سے وہ اٹھ کے یاں سے ہے حال باہر مرا بیاں سے
کہے کوئی اتنا جان جاں سے ملو نہیں تو گیا میں جاں سے
جو کچھ گزرتا ہے میرے دل پر سناؤں کس کو وہ ہائے دل بر
خدا کرے پھر وہ دن میسر کہوں میں اپنی ہی سب زباں سے
کبھی خفا ہو کے بات کرنا کبھی وہ کہہ کہہ کے پھر مکرنا
پھر الٹا بہتان مجھ پہ دھرنا یہ طرز تم نے لیا کہاں سے
کبھی ترے غم میں مجھ کو رونا کبھی پھر آپھی ہے چپکے ہونا
جو یاد آتا ہے ساتھ سونا تو رات کٹتی ہے کس فغاں سے
گھڑی گھڑی ہجر کی ہے بھاری دکھائے صورت خدا تمہاری
سنوں وہ باتیں پیاری پیاری عجب ادا سے عجب بیاں سے
ترا خفا ہو کے روٹھ جانا وہ منتوں سے مرا منانا
وہ اپنی اپنی سی کچھ سنانا وہ باتیں بھی آپ دل ستاں سے
عجب ہی دشمن سے دوستی کی کہ شکل اب ہے یہ زندگی کی
لبوں پہ چکی ہے جاں کنی کی پڑے ہیں بے ہوش نیم جاں سے
کہا کچھ اس نے یہاں کسی سے یہ بات قاصد نہیں ہنسی سے
گمان ہوتا ہے اور ہی سے ترے الجھتے ہوئے بیاں سے
نظامؔ کیوں تو نے اس کو چاہا یہ دل میں کیا تھی جو دل لگایا
جو دیوے توفیق کچھ بھی مولا تو اب نہ ملنا کبھی بتاں سے
٭٭٭
محفل میں آتے جاتے ہیں انساں نئے نئے
اب تو چلن لیے ہیں مری جاں نئے نئے
اس زلف و رخ کے عشق کا چرچا ہوا یہ کچھ
حیراں نئے نئے ہیں پریشاں نئے نئے
آ آ کے اپنی اپنی سناتا ہے ہر کوئی
زخم جگر پہ ہیں نمک افشاں نئے نئے
مجھ کو سنا کے کہتے ہیں لوگوں کو اس سے کیا
انداز ہم نے سیکھے ہیں ہاں ہاں نئے نئے
آ جائیں ہم بھی یاد کسی بات پر کبھی
عاشق ہوئے ہیں اب تو مری جاں نئے نئے
ہر دم نئی نئی ہے خلش میری جان کو
لاتی ہے رنج و غم شب ہجراں نئے نئے
باتوں پر ان کی کیوں نہ یقین آئے پھر مجھے
قسمیں نئی نئی ہیں تو پیماں نئے نئے
گر اب کے وصل ہو تو نہ مانوں میں ایک بھی
دل کے نکالوں حسرت و ارماں نئے نئے
سو سو طرح ستاتی ہے اک اک کی یاد اب
شب آپ نے کیے تھے جو احساں نئے نئے
کس کس کی روز روز خوشامد کیا کریں
ہوتے ہیں ان کے در پہ تو درباں نئے نئے
امید بھی کبھی کبھی نومیدی ہے مجھے
دکھلاتی رنگ ہے شب ہجراں نئے نئے
کوئی تو آج آئے گا پھر کس لیے نظامؔ
تجویزیں ہیں نئی نئی ساماں نئے نئے
٭٭٭
مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے
کہیں جڑتی ہے پھر کہیں ٹوٹتی ہے
یہ خو ہے تمہاری تو کیوں کر بنے گی
ادھر بنتی ہے تو ادھر ٹوٹتی ہے
نہ ہم پر ہنسو حال ہوتا ہے یہ ہی
مصیبت جو انسان پر ٹوٹتی ہے
سمجھتا ہوں کچھ میں بھی باتیں تمہاری
یہ ہر طعن کیا غیر پر ٹوٹتی ہے
خدا کے لیے پھر تو ایسا نہ کہنا
مری آس اے نامہ بر ٹوٹتی ہے
یہاں جس کے بے دیکھے جی ٹوٹتا ہے
وہاں اس کی ہر دم نظر ٹوٹتی ہے
غضب ہاتھا پائی کا ہے لطف ہوتا
کوئی ان کی چوڑی اگر ٹوٹتی ہے
عدو کا بھی تو گھر ہے اے چرخ ظالم
جو آفت ہے میرے ہی گھر ٹوٹتی ہے
تری بات کا کیا ہے عنوان قاصد
توقع ہماری مگر ٹوٹتی ہے
یہ غم ہے تو رونا بھی اپنا یہی ہے
یہ رونا ہے تو چشم تر ٹوٹتی ہے
یہ کہنا نظامؔ اب تو سونے دے مجھ کو
کوئی بیٹھے کب تک کمر ٹوٹتی ہے
٭٭٭
مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی
نہیں بھی پہر دو پہر ہو گئی
ترے غم میں شب یوں بسر ہو گئی
غرض روتے روتے سحر ہو گئی
نہ آئینہ ہر وقت دیکھا کرو
کہو گے کسی کی نظر ہو گئی
جو باندھی کمر قتل عشاق پر
کمر تو نہ تھی پر کمر ہو گئی
سبب ان کی رنجش کا کہنا نہیں
کوئی پوچھے کس بات پر ہو گئی
لبوں پر ٹھہرنے سے اے جاں! حصول
ادھر آ گئی یا ادھر ہو گئی
کوئی بات الفت کی اب تو نہیں
جو کچھ ہو گئی پیشتر ہو گئی
ترا وعدہ گو جھوٹ ہی کیوں نہ ہو
تسلی ہماری مگر ہو گئی
تغافل ہے ہر بات پر کس لیے
مرے دل کی تجھ کو خبر ہو گئی
قیامت کے آثار بھی ہو گئے
شب غم دراز اس قدر ہو گئی
منانا رلانا ہی باہم رہا
شب وصل یوں ہی سحر ہو گئی
نہیں کیا کرو گے نہ ہم کو سناؤ
شکایت عدو کی مگر ہو گئی
خدا ہے جو اس بت سے پھر ہو ملاپ
غرض آج تو اس قدر ہو گئی
کہا بھی تو اس نے کچھ ایسا نہیں
ذرا بات میں چشم تر ہو گئی
نہ مانا نہ مانا اسی شوخ نے
کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو گئی
تمہیں ضد نہ ملنے کی ہے کس لیے
مری آہ کیا بے اثر ہو گئی
وہ وعدے سے کیوں پھر گئے کہہ تو کچھ
یہ کیا بات اے نامہ بر ہو گئی
یہ قسمت ہوا وصل بھی گر نصیب
تو رنجش بھی ہر بات پر ہو گئی
وہ آئے بھی یاں اس سے اے دل حصول
کوئی دم کو تسکیں اگر ہو گئی
ترے غم میں یہ حال تو ہو گیا
خوشی اب تری فتنہ گر ہو گئی
یہ جھوٹی محبت سے ان کی حصول
شکایت عدو کی اگر ہو گئی
انہیں صلح منظور ہے مجھ سے کب
کہوں کیا ہوئی کیونکہ پر ہو گئی
نظامؔ اس گھڑی کا کہوں حال کیا
جب اس نے کہا وہ سحر ہو گئی
٭٭٭
نہیں سوجھتا کوئی چارا مجھے
تمہاری جدائی نے مارا مجھے
ادھر آنکھ لڑتی ہے اغیار سے
ادھر کرتے جانا اشارا مجھے
تو اک بار سن لے مرا حال کچھ
نہ کچھ کہنے دینا دو بارا مجھے
یوں ہی روز آنے کو کہتے ہو تم
نہیں اعتبار اب تمہارا مجھے
کسی سے مجھے کچھ شکایت نہیں
نظامؔ اپنے ہی دل نے مارا مجھے
٭٭٭
ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے
کیا بن آئے اس گھڑی جب وہ بگڑ کر بیٹھ جائے
تو وہ آفت ہے کوئی تجھ سے اٹھا سکتا ہے دل
دیکھ لے کوئی جو تجھ کو دل پکڑ کر بیٹھ جائے
وصل میں بھی اس سے کہہ سکتا نہیں کچھ خوف سے
دور کھچ کر پاس سے میرے نہ مڑ کر بیٹھ جائے
دوستو میری نہیں تقصیر دل دینے میں کچھ
دل وہ لے کر ہی اٹھے جب پاس اڑ کر بیٹھ جائے
اس خوشامد سے مرا کچھ مدعا ہی اور ہے
چاہتے ہو تم یہ میرے پاؤں پڑ کر بیٹھ جائے
اس کا بل کھا کر وہ اٹھنا پاس سے میرے غضب
اور اک آفت ہے جو وہ کھچ کر اکڑ کر بیٹھ جائے
مفت لے لیتے ہیں دل عاشق سے اپنے وہ نظامؔ
لاکھ پھر مانگے کوئی تھک کر جھگڑ کر بیٹھ جائے
٭٭٭
وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کئی مہینے سے
کہ جاں پہ بن گئی تنگ آ گیا میں جینے سے
ہوئے نمود جو پستاں تو شرم کھا کے کہا
یہ کیا بلا ہے جو اٹھتی ہے میرے سینے سے
وہ دور کھنچ کے شب وصل اس کا یہ کہنا
کوئی ادھر ہی کو بیٹھا رہے قرینے سے
جو بوسہ دیتے ہیں تو لب بچاتے ہیں لب سے
لپٹتے بھی ہیں تو سینہ چرا کے سینے سے
وہ ساتھ سونا کسی کا وہ گرم جوشی ہائے
نمی وہ جسم کی چولی وہ تر پسینے سے
خوشی یہی ہے کہ اک دن تو غم سے چھوٹیں گے
نہ موت آئے تو کیا حاصل ایسے جینے سے
وہ نیچی نیچی نگاہوں سے دیکھنا مجھ کو
وہ پیار تکیے کو کرنا لگا کے سینے سے
یہی وہ راہ ہے جو دل سے دل کو ہوتی ہے
حصول کون سا چاک جگر کے سینے سے
میں اور کچھ نہیں کہتا مگر یہ سن رکھئے
عدو کا دل ہے لبالب حسد سے کینے سے
خدا کی شان ہے یہ بات اور منہ ان کا
نظامؔ پھر کروں توبہ شراب پینے سے
٭٭٭
وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
مرے پاس کیوں آپ آنے لگے
کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے
بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے
یہ کیا جذب دل کھینچ لایا انہیں
مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے
ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ
ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے
ہمارے ہی آگے گلے غیر کے
ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے
نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب
تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید