فہرست مضامین
- انتخاب کلام زین العابدین عارفؔ
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
- اس پہ کرنا مرے نالوں نے اثر چھوڑ دیا
- رات یادِ نگہِ یار نے سونے نہ دیا
- کیوں آئینے میں دیکھا تو نے جمال اپنا
- ناتوانی میں پلک کو بھی ہلایا نہ گیا
- نہ آئے سامنے میرے اگر نہیں آتا
- نہ پردہ کھولیو اے عشق غم میں تو میرا
- ہم کو اس شوخ نے کل در تلک آنے نہ دیا
- وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر
- قائل بھلا ہوں نامہ بری میں صبا کے خاک
- ہر گھڑی چلتی ہے تلوار ترے کوچے میں
- اس در پہ مجھے یار مچلنے نہیں دیتے
- جہاں سے دوش عزیزاں پہ بار ہو کے چلے
- کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے
- Related
انتخاب کلام زین العابدین عارفؔ
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
اچھا ہوا کہ دم شب ہجراں نکل گیا
دشوار تھا یہ کام پر آساں نکل گیا
بک بک سے ناصحوں کی ہوا یہ تو فائدہ
میں گھر سے چاک کر کے گریباں نکل گیا
پھر دیکھنا کہ خضر پھرے گا بہا بہا
گر سوئے دشت میں کبھی گریاں نکل گیا
خوبی صفائے دل کی ہماری یہ جانیے
سینے کے پار صاف جو پیکاں نکل گیا
ہنگامے کیسے رہتے ہیں اپنے سبب سے واں
ہم سے ہی نام کوچۂ جاناں نکل گیا
فرقت میں کار وصل لیا واہ واہ سے
ہر آہ دل کے ساتھ اک ارماں نکل گیا
بہتر ہوا کہ آئے وہ محفل میں بے نقاب
عارفؔ غرور ماہ جبیناں نکل گیا
٭٭٭
اس پہ کرنا مرے نالوں نے اثر چھوڑ دیا
مجھ کو ایک لطف کی کر کے جو نظر چھوڑ دیا
سونپ کر خانۂ دل غم کو کدھر جاتے ہو
پھر نہ پاؤ گے اگر اس نے یہ گھر چھوڑ دیا
اشک سوزاں نے جلائے مرے لاکھوں دامن
پونچھنا میں نے تو اب دیدۂ تر چھوڑ دیا
بخیہ گر جل گیا کیا ہاتھ ترا سوزش سے
کرتے کرتے جو رفو چاک جگر چھوڑ دیا
گلشن دہر میں خامی نے بچایا ہم کو
دیکھ کر خام کدورت نے ثمر چھوڑ دیا
لے گئے سامنے حاکم کے مرے قاتل کو
اس کو اس نے بھی سمجھ خون پدر چھوڑ دیا
نیک و بد کچھ نظر آتا نہیں وہ وحشت ہے
پردہ غفلت کا مرے پیش نظر چھوڑ دیا
کوچۂ زلف کو کترا کے گیا دل رخ پر
اس نے وہ رستۂ پر خوف و خطر چھوڑ دیا
اے فلک خانہ خرابی کی ہے پروا کس کو
دشت میں رہتے ہیں مدت ہوئی گھر چھوڑ دیا
مجھ پہ احسان صبا کا ہے کہ کوچہ میں ترے
خاک کو میری سر راہ گزر چھوڑ دیا
مجھ کو اے آہ تعجب ہے کہ کاشانۂ غیر
کل شب ہجر نے برسا کے شرر چھوڑ دیا
بھر گیا دل مرا ایک چیز کو کھاتے کھاتے
خون دل کھائیں گے اب خون جگر چھوڑ دیا
بوجھ سے آپ ہی مر جائے گا کیوں ہو بد نام
یہ سمجھ کر بت سفاک نے سر چھوڑ دیا
نہیں تیرِ نگہِ یار سے بچنا ممکن
کل ہے موجود وہ دن آج اگر چھوڑ دیا
آ گیا دل میں جو عالم کا مسخر کرنا
زلف کو چہرے پہ ہنگام سحر چھوڑ دیا
یہ نہیں ہے رہ بت خانہ کدھر جانا ہے
آج سے ہم نے ترا ساتھ خضر چھوڑ دیا
کر دیا تیروں سے چھلنی مجھے سارا لیکن
خون ہونے کے لیے اس نے جگر چھوڑ دیا
ساتھ دیکھا تھا اسے کل تو تیرے اے مجنوں
آج اس عارفؔ وحشی کو کدھر چھوڑ دیا
٭٭٭
رات یادِ نگہِ یار نے سونے نہ دیا
شادیِ وعدۂ دل دار نے سونے نہ دیا
ہو گئی صبح در خانہ پہ بیٹھے بیٹھے
فتنۂ چشم فسوں کار نے سونے نہ دیا
شب وہ بے کل رہے کاکل میں پھنسا کر اس کو
شور و فریاد دل زار نے سونے نہ دیا
تھا شب ہجر میں اک خون کا دریا جاری
ایک پل دیدۂ خوں بار نے سونے نہ دیا
اس تن زار پہ ایک بار گراں ہے یہ بھی
یار کے سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
اب تو کر دیویں رہا وہ مجھے شاید کہ انہیں
میری زنجیر کی جھنکار نے سونے نہ دیا
رات بھر خون جگر ہم نے کیا ہے عارفؔ
فکر رنگینیِ اشعار نے سونے نہ دیا
٭٭٭
کیوں آئینے میں دیکھا تو نے جمال اپنا
دیکھا تو خیر دیکھا پر دل سنبھال اپنا
اس کا ہو جب تصور کب ہو خیال اپنا
کیسی مصیبت اپنی کیسا خیال اپنا
کھویا غم رفاقت دیکھو کمال اپنا
بہکا دیا ہے سب کو دکھلا کے حال اپنا
بن دیکھے تیری صورت جینا وبال اپنا
بن آئے تیرے ظالم مرنا محال اپنا
خرمن تو دیکھ لیتے بجلی بلا سے گرتی
ہوتا تھا کھیت عارفؔ یوں پائمال اپنا
٭٭٭
ناتوانی میں پلک کو بھی ہلایا نہ گیا
دیکھ کے ان کو اشارے سے بلایا نہ گیا
سخت تر سنگ سے بھی دل ہے انہوں کا شاید
نقش جس پر کسی عنوان بٹھایا نہ گیا
گلشن خلد میں ہر چند کہ دل بہلایا
کوچۂ یار مگر دل سے بھلایا نہ گیا
شکن زلف سے دل صاف نظر آتا ہے
اس اندھیرے میں تعجب ہے چھپایا نہ گائے
دیکھ کر کل وہ مرا حال پریشاں عارفؔ
ایسا گھبرائے کہ آنکھوں کو چرایا نہ گیا
٭٭٭
نہ آئے سامنے میرے اگر نہیں آتا
مجھے تو اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا
بلا اسے بھی تو کہتے ہیں لوگ عالم میں
عجب ہے کس لیے وہ میرے گھر نہیں آتا
وہ میرے سامنے طوبیٰ کو قد سے ماپ چکے
انہوں کے نام خدا تا کمر نہیں آتا
نہ بے خطر رہو مجھ سے کہ درد مندوں کے
لبوں پہ نالہ کوئی بے خطر نہیں آتا
ڈرا دیا ہے کسی نے اسے مگر عارفؔ
مرے خرابے کی جانب خضر نہیں آتا
٭٭٭
نہ پردہ کھولیو اے عشق غم میں تو میرا
کہیں نہ سامنے ان کے ہو زرد رو میرا
تم اپنی زلف سے پوچھو مری پریشانی
کہ حال اس کو ہے معلوم ہو بہو میرا
اگرچہ لاکھ رفو گر نے دل کیا بہتر
یہ جب بھی ہو نہ سکا زخم دل رفو میرا
فقط وہ اس لیے آتے ہیں جانب زنداں
کہ پھنس کے گھٹنے لگے طوق میں گلو میرا
نشانہ تیر نگہ کا بہ دل کروں عارفؔ
لڑائے آنکھ اگر مجھ سے جنگجو میرا
٭٭٭
ہم کو اس شوخ نے کل در تلک آنے نہ دیا
در و دیوار کو بھی حال سنانے نہ دیا
پردۂ چشم میں ہر دم تو چھپائے آنسو
بے قراری نے مجھے راز چھپانے نہ دیا
مجھ کو آلودہ رکھا اس مری گمراہی نے
عرق شرم گنہ بھی تو بہانے نہ دیا
تیرے کہنے سے میں اب لاؤں کہاں سے ناصح
صبر جب اس دل مضطر کو خدا نے نہ دیا
منع ہے بس کہ خور و خواب ہمیں غم میں تیرے
مر کے سونے نہ دیا زہر بھی کھانے نہ دیا
ہوں ستم گر میں جفاؤں سے تری شرمندہ
ناتوانی نے مجھے سر بھی اٹھانے نہ دیا
دم کا آنا تو بڑی بات ہے لب پر عارفؔ
ضعف نے حرف شکایت کبھی آنے نہ دیا
٭٭٭
وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر
ہم بھاگتے تھے زلف گرہ گیر دیکھ کر
جب تک نہ خاک ہو جیے حاصل نہیں کمال
یہ بات کھل گئی ہمیں اکسیر دیکھ کر
عذر گناہ داور محشر سے کیوں کروں
غم مٹ گیا ہے نامۂ تقدیر دیکھ کر
ہوں تشنہ کام دشت شہادت زبس کہ میں
گرتا ہوں آب خنجر و شمشیر دیکھ کر
عارفؔ چھپا تو ہم سے ولے ہم تو پا گئے
جو بات ہے یہ رنگ کی تغییر دیکھ کر
٭٭٭
قائل بھلا ہوں نامہ بری میں صبا کے خاک
پھرتی ہے وہ بھی گلیوں میں اکثر اڑا کے خاک
کہتا ہوں سوز دل سے کہ کر چک جلا کے خاک
ایک بات پر جو یار نے جانی اٹھا کے خاک
کیا کانپتا ہے نالۂ سوزاں سے اے فلک
جب بات تھی کہ مجھ کو کیا ہو جلا کے خاک
پانی نکل کے دشت میں جاری ہے جا بجا
یارب گیا ہے کون یہ سر پر اڑا کے خاک
دامن اٹھا اٹھا کے جو بچتا ہوا چلا
کیوں ہوویں مر کے کوچے میں اس بے وفا کے خاک
رضواں عبیر خلد سے بدلوں نہ زینہار
خوشبو ہے کوچہ میں وہ مرے مہ لقا کے خاک
عارفؔ کو یارو ہم تو سمجھتے تھے اہل دیں
دریا میں لوگ آئے ہیں اس کی بہا کے خاک
٭٭٭
ہر گھڑی چلتی ہے تلوار ترے کوچے میں
روز مر رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
حال سر کا مرے ظاہر ہے ترے کیا کیجے
کوئی ثابت بھی ہے دیوار ترے کوچے میں
شکل کو کیونکہ نہ ہر دفعہ بدل کر آؤں
ہیں مری تاک میں اغیار ترے کوچے میں
غم سے بدلی ہے مری شکل تو بے خوف و خطر
دن کو بھی آتے ہیں سو بار ترے کوچے میں
نہ کرے سوئے چمن بھول کے بھی رخ ہرگز
آن کر بلبل گل زار ترے کوچے میں
نرگستاں نہ سمجھ کھولی ہوئی آنکھوں کو
ہیں ترے طالب دیدار ترے کوچے میں
لائے جب گھر سے تو بے ہوش پڑا تھا عارفؔ
ہو گیا آن کے ہشیار ترے کوچے میں
٭٭٭
سب سے بہتر ہے کہ مجھ پر مہرباں کوئی نہ ہو
ہم نشیں کوئی نہ ہو اور راز داں کوئی نہ ہو
مریے اس حسرت میں گر قاتل نہ ہاتھ آوے کہیں
روئیے اپنے پہ خود گر نوحہ خواں کوئی نہ وہ
بیچ میں ہے میرے اس کے تو ہی اے آہ حزیں
صلح کیونکر ہووے جب تک درمیاں کوئی نہ ہو
شکوہ کس سے کیجیے خالق کی مرضی ہے یہی
نکتہ چیں پیدا ہوں لاکھوں نکتہ داں کوئی نہ ہو
مجھ تلک قاتل تو قاتل موت بھی آتی نہیں
کس کو دیجے جان جب خواہان جاں کوئی نہ ہو
مانے گر کوئی نصیحت عارفؔ دل خستہ کی
بھول کر بھی والۂ آتش بجاں کوئی نہ ہو
٭٭٭
اس در پہ مجھے یار مچلنے نہیں دیتے
ارمان مرے جی کے نکلنے نہیں دیتے
دم دم میں خبر پہنچے ہے جو آنے کی اپنی
ہے جان لبوں پر وہ نکلنے نہیں دیتے
آشوب قیامت سے زبس خوف ہے سب کو
دو چار قدم بھی انہیں چلنے نہیں دیتے
جاتا ہے صفائے رخ دل دار پہ جب دل
مقدور تک اپنے تو پھسلنے نہیں دیتے
عادت میں کرو فرق نہ تم اپنی نگہ سے
کیوں زہر اسے آج اگلنے نہیں دیتے
وہ پردہ نشینی کی رعایت ہے تمہاری
ہم بات بھی خلوت سے نکلنے نہیں دیتے
یہ دست بسر رہنے کا عارفؔ وہ محل ہے
اس جا کف افسوس بھی ملنے نہیں دیتے
٭٭٭
جہاں سے دوش عزیزاں پہ بار ہو کے چلے
یہ سوئے ملک عدم شرمسار ہو کے چلے
ہمارے دیکھنے کو خوش ابھی سے ہیں اعدا
ذرا نہ دیکھ سکے اشک بار ہو کے چلے
پہنچ ہی جاؤ گے مے خانہ میں خضر تم بھی
ہمارے ساتھ جو یاروں کے یار ہو کے چلے
تمہاری رہ کا رہا ہم کو ہر طرف دھوکا
چلے جدھر کو سو بے اختیار ہو کے چلے
ثنا نگار یہ ہے کس کے خلق کا عارفؔ
قلم ورق پہ نہ کیوں اشک بار ہو کے چلے
٭٭٭
کیا کہیں ہم تھے کہ یا دیدۂ تر بیٹھ گئے
قلزم اشک میں جوں لخت جگر بیٹھ گئے
ناتواں ہم یوں تری بزم سے نکلے کیونکر
کسے معلوم ہے ہم آ کے کدھر بیٹھ گئے
آپ کو خون کے آنسو ہی رلانا ہو گا
حال دل کہنے کو ہم اپنا اگر بیٹھ گئے
کس کو اک دم کا بھروسہ ہے کہ مانند حباب
بحر ہستی میں ادھر آئے ادھر بیٹھ گئے
دور سمجھا ہے رقیبوں کو یہاں سے عارفؔ
یار کے پاس جو بے خوف و خطر بیٹھ گئے
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں