فہرست مضامین
- انتخابِ بیخودؔ دہلوی
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا
- حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا تیرا
- ساتھ ساتھ اہل تمنا کا وہ مضطر جانا
- شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
- کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
- کیوں میں اب قابل جفا نہ رہا
- گردش چشم یار نے مارا
- نالے میں کبھی اثر نہ آیا
- یوں ہی رہا جو بتوں پر نثار دل میرا
- ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں
- آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
- جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
- حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
- ہیں وصل میں شوخی سے پابند حیا آنکھیں
- کیوں مرا حال قصہ خواں سے سنو
- اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے
- درد دل میں کمی نہ ہو جائے
- رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے
- اٹّھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹّھے
انتخابِ بیخودؔ دہلوی
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا
حسد کو حیلہ ملا اشک کو بہانہ ہوا
وہ میری آہ جو شرمندۂ اثر نہ ہوئی
وہ میرا درد جو منت کش دوا نہ ہوا
خیال میں نہ رہیں صورتیں عزیزوں کی
وطن سے چھوٹے ہوئے اس قدر زمانہ ہوا
وہ داغ جس کو جگہ دل میں دی تھی جیتے جی
چراغ بھی تو ہمارے مزار کا نہ ہوا
پری وشوں کو سناتے ہیں قصہ خواں بیخودؔ
ہمارا حال نہ ٹھہرا کوئی فسانہ ہوا
٭٭٭
حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا تیرا
لاکھ انکار اک اقرار کس کا تیرا
نہ دوا سے اسے مطلب نہ شفا سے سروکار
ایسے آرام میں بیمار ہے کس کا تیرا
لاکھ پردے میں نہاں شکل ہے کس کی تیری
جلوہ ہر شے سے نمودار ہے کس کا تیرا
اور پامال ستم کون ہے تو ہے بیخودؔ
اس ستم گر سے سروکار ہے کس کا تیرا
٭٭٭
ساتھ ساتھ اہل تمنا کا وہ مضطر جانا
اللہ اللہ ترا بزم سے اٹھ کر جانا
رہبری کر کے مری خضر بھی چکر میں پڑے
اب انہیں جلوہ گہ یار میں اکثر جانا
داغ کم حوصلگی دل کو گوارا نہ ہوا
ورنہ کچھ ہجر میں دشوار نہ تھا مر جانا
سادگی سے یہ گماں ہے کہ بس اب رحم آیا
مطمئن ہوں کہ مجھے آپ نے مضطر جانا
نشہ میں بھی ترے بیخودؔ کی تعلی نہ گئی
بادۂ ہوش ربا کو مئے کوثر جانا
٭٭٭
شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا
کہئے تو کس کے پھنسانے کی یہ تدبیریں ہیں
آج کیوں چیں بہ جبیں سے خم گیسو بدلا
اک ترا ربط کہ دو دن کبھی یکساں نہ رہا
اک مرا حال کہ ہرگز نہ سر مو بدلا
ان حسینوں ہی کو زیبا ہے تلون اے دل
ہاں خبردار جو بھولے سے کبھی تو بدلا
دل مضطر کی تڑپ سے جو میں تڑپا بیخودؔ
چارہ گر خوش ہیں کہ بیمار نے پہلو بدلا
٭٭٭
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا
ہزار شکر وہ عاشق تو جانتے ہیں مجھے
جو کہتے ہیں کہ ترا دل کہیں ضرور آیا
جو با حواس تھا دیکھا اسی نے جلوۂ یار
جسے سرور نہ آیا اسے سرور آیا
خدا وہ دن بھی دکھائے کہ میں کہوں بیخودؔ
جناب داغؔ سے ملنے میں رام پور آیا
٭٭٭
کیوں میں اب قابل جفا نہ رہا
کیا ہوا کہیے مجھ میں کیا نہ رہا
ان کی محفل میں اس کے چرچے ہیں
مجھ سے اچھا مرا فسانہ رہا
واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے
میکدہ اب تو میکدہ نہ رہا
اف رے نا آشنائیاں اس کی
چار دن بھی تو آشنا نہ رہا
لاکھ پردے میں کوئی کیوں نہ چھپے
راز الفت تو اب چھپا نہ رہا
اتنی مایوسیاں بھی کیا بیخودؔ
کیا خدا کا بھی آسرا نہ رہا
٭٭٭
گردش چشم یار نے مارا
دور لیل و نہار نے مارا
مر رہا ہوں مگر نہیں مرتا
خلش انتظار نے مارا
سخت جانی مری جو سن پائی
دم نہ پھر تیغ یار نے مارا
وصل میں بھی یہ مضطرب ہی رہا
اس دل بے قرار نے مارا
ہم تو جیتے ابھی مگر بیخودؔ
ستم روزگار نے مارا
٭٭٭
نالے میں کبھی اثر نہ آیا
اس نخل میں کچھ ثمر نہ آیا
اللہ ری میری بے قراری
چین ان کو بھی رات بھر نہ آیا
کہتا ہوں کہ آ ہی جائے گا صبر
یہ فکر بھی ہے اگر نہ آیا
غفلت کے پڑے ہوئے تھے پردے
وہ پاس رہا نظر نہ آیا
آنکھوں سے ہوا جو کوئی اوجھل
بیخودؔ مجھے کچھ نظر نہ آیا
٭٭٭
یوں ہی رہا جو بتوں پر نثار دل میرا
کرے گا مجھ کو زمانے میں خوار دل میرا
چلی چلی مژہِ اشک بار آنکھ مری
جلا جلا نفس شعلہ بار دل میرا
عجیب مونس و ہمدرد و ذی مروت تھا
غریق رحمت پروردگار دل میرا
وفور شرم سے واں اجتناب مد نظر
ہجوم شوق سے یاں بے قرار دل میرا
بنا دیا اسے خود بین و خود نما بیخودؔ
ہوا ہے آئینۂ حسن یار دل میرا
٭٭٭
ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں
یہ بھی سہی تو ہم کو مجال سخن کہاں
اک بوند ہے لہو کی مگر بے قرار ہے
دل کو چھپائے زلف شکن در شکن کہاں
تمکین خامشی نے انہیں بت بنا دیا
سب اس گمان میں ہیں کہ ان کے دہن کہاں
وہ شام وعدہ محو ہیں آرائشوں میں اور
پہونچا ہے لے کے مجھ کو مرا سوء ظن کہاں
بیخودؔ نہ کیوں ہوں دوریِ استاد ہے ملول
سوچو تو مارواڑ کہاں ہے دکن کہاں
٭٭٭
آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
آگ لگ جائے گی کہیں نہ کہیں
مرے دل سے نکل کے دنیا میں
چین سے حسرتیں رہیں نہ کہیں
بے حجابی نگاہ الفت کی
دیکھے وہ شرمگیں کہیں نہ کہیں
آ گئے لب پہ دل نشیں نالے
جا ہی پہنچیں گے اب کہیں نہ کہیں
ہم سمجھتے ہیں حضرت بیخودؔ
چوٹ کھا آئے ہو کہیں نہ کہیں
٭٭٭
جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
درد جس میں نہیں جگر ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں وہ بھی ہیں بے چین
کچھ یہ بے تابیاں ادھر ہی نہیں
دل کہاں کا جو درد دل ہی نہ ہو
سر کہاں کا جو درد سر ہی نہیں
بے خبر جن کی یاد میں ہیں ہم
خیر سے ان کو کچھ خبر ہی نہیں
بیخودؔ محو و شکوہ ہائے عتاب
اس منش کا تو وہ بشر ہی نہیں
٭٭٭
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
چھیڑ دیکھو کہ خط تو لکھا ہے
میرے خط کی مگر رسید نہیں
جانتے ہوں امیدوار مجھے
ان سے یہ بھی مجھے امید نہیں
یوں ترستے ہیں مے کو گویا ہم
پیر مے خانہ کے مرید نہیں
خون ہو جائیں خاک میں مل جائیں
حضرت دل سے کچھ بعید نہیں
آؤ میرے مزار پر بھی کبھی
کشتۂ ناز کیا شہید نہیں
ہم تو مایوس ہیں مگر بیخودؔ
دل نا فہم ناامید نہیں
٭٭٭
ہیں وصل میں شوخی سے پابند حیا آنکھیں
اللہ رے ظالم کی مظلوم نما آنکھیں
آفت میں پھنسائیں گی دیوانہ بنائیں گی
وہ غالیہ سا زلفیں وہ ہوش ربا آنکھیں
کیا جانیے کیا کرتا کیا دیکھتا کیا کہتا
زاہد کو بھی میری سی دیتا جو خدا آنکھیں
رحم ان کو نہ آیا تھا تو شرم ہی آ جاتی
بیداد کے شکوے پر جھکتیں تو ذرا آنکھیں
تم جان کو کھو بیٹھو یا آنکھوں کو رو بیٹھو
بیخودؔ نہ ملائیں گے وہ تم سے ذرا آنکھیں
٭٭٭
کیوں مرا حال قصہ خواں سے سنو
یہ کہانی مری زباں سے سنو
غم ہی غم ہے مرے فسانے میں
دکھ ہی دکھ ہے اسے جہاں سے سنو
مجھ سے پوچھو تم اپنے جی کا حال
راز کی بات راز داں سے سنو
غم مرے دل میں تم ہو پردے میں
سچ تو ہے تم اسے کہاں سے سنو
چھپ گیا ہے فسانۂ بیخودؔ
کبھی تم بھی تو قصہ خواں سے سنو
٭٭٭
اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے
اے شوق ہرزہ تاز کہاں لے چلا مجھے
یہ درد دل ہی زیست کا باعث ہے چارہ گر
مر جاؤں گا جو آئی موافق دوا مجھے
اس ذوق ابتلا کا مزہ اس کے دم سے ہے
سب کچھ ملا ملا ہو دل مبتلا مجھے
دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں
بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے
یہ دل سے دور ہو نہ دکھائے خدا وہ دن
ظالم ترا خیال ہے دل سے سوا مجھے
رنج و ملال و حسرت و ارمان و آرزو
جانے سے ایک دل کے بہت کچھ ملا مجھے
میں جانتا ہوں آپ ہیں مست اپنے حال میں
بیخودؔ نہیں ہے آپ سے مطلق گلا مجھے
٭٭٭
درد دل میں کمی نہ ہو جائے
دوستی دشمنی نہ ہو جائے
تم مری دوستی کا دم نہ بھرو
آسماں مدعی نہ ہو جائے
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے
طالع ابد وہاں بھی ساتھ نہ دے
موت بھی زندگی نہ ہو جائے
اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں
عاشقی بندگی نہ ہو جائے
کہیں بیخودؔ تمہاری خود داری
دشمن بے خودی نہ ہو جائے
٭٭٭
رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے
یہ کیا کر رہے ہو یہ کیا ہو رہا ہے
دعا کو نہیں راہ ملتی فلک کی
کچھ ایسا ہجوم بلا ہو رہا ہے
]
وہ جو کر رہے ہیں بجا کر رہے ہیں
یہ جو ہو رہا ہے بجا ہو رہا ہے
وہ نا آشنا بے وفا میری ضد سے
زمانے کا اب آشنا ہو رہا ہے
چھپائے ہوئے دل کو پھرتے ہیں بیخودؔ
کہ خواہاں کوئی دل ربا ہوا ہے
٭٭٭
اٹّھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹّھے
دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اٹّھے
دم بھر مرے پہلو میں اُنہیں چین کہاں ہے
بیٹھے، کہ بہانے سے کسی کام کے اٹّھے
افسوس سے اغیار نے کیا کیا نہ ملے ہاتھ
وہ بزم سے جب ہاتھ مرا تھام کے اٹّھے
دنیا میں کسی نے بھی یہ دیکھی نہ نزاکت
اُن سے نہ کبھی حرف، مرے نام کے اٹّھے
جو ظلم و ستم تم نے کئے سب وہ اٹھائے
اک رنج و الم ہم سے نہ الزام کے اٹّھے
صدمے تو بہت قید میں جھیلے مرے دل نے
جھٹکے نہ مگر زلفِ سیہ فام کے اٹّھے
ہے رشک کہ یہ بھی کہیں شیدا نہ ہوں اُس کے
تربت سے بہت لوگ مرے نام کے اٹّھے
افسانۂ حسن اس کا ہے ہر ایک زباں پر
پردے نہ کبھی جس کے، در و بام کے اٹّھے
آغازِ محبت میں مزے دل نے اُٹھائے
پوچھے تو کوئی، رنج بھی انجام کے اٹّھے؟
دل نذر میں دے آئے ہم اُس شوخ کو بیخودؔ
بازار میں جب دام نہ اس جام کے اٹّھے
٭٭٭
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ، بزمِ سخن
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں