FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

انار کلی

 

 

محمد اشفاق ایاز

 

مجموعے "چاند کی گود میں” سے ایک طویل مضمون کی علیحدہ ای بک

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

انار کلی

 

 

محمد اشفاق ایاز

کتاب ’چاند کی گود میں‘ سے

 

 

 

 

 

 

 

 

عالم پناہ شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنے آگرہ کے قلعہ میں محل کے پائیں باغ میں اداسی اور غم کی تصویر بنے، پشت پر ہاتھ باندھے، دھیرے دھیرے قدم اٹھا تے چہل قدمی کر رہے تھے۔ پھر وہ باغ کے وسط میں حوض کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ پاؤں کو جوتی اور شلوار سمیت حوض کے پانی میں لٹکا دیا اور ایک ہاتھ سے کنارے پر پڑے پتھر اٹھا اٹھا کر پانی ابلتے فوارے کو یوں مارنے لگے جیسے شیطان کو کنکریاں مار رہے ہوں۔ شہنشاہ صبح کی سیر کو محل سے نکلے تھے۔ ابھی تو منہ بھی نہیں دھویا تھا۔ اسی عالم میں دوپہر ہو گئی تھی۔

ادھر دربار میں نورتن اور وزیر اعظم بڑی بے چینی سے شہنشاہ کی آمد کا انتظار کر رہے تھے مگر ان کی آمد کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ملکہ عالیہ سے دریافت کیا گیا تو پتہ چلا کہ آج صبح سیر کو گئے تھے اس کے بعد کچھ پتہ نہیں۔ وزیر اعظم مان سنگھ اس لئے پریشان تھا کہ اگر بادشاہ سلامت کو کچھ ہو گیا تو اس کی وزارتِ عظمیٰ مٹی میں مل جائے گی۔ نورتن اس لئے متفکر تھے کہ شاید اس سے بڑا خوشامد پسند بادشاہ انہیں پھر کبھی میسر ہو بھی یا نہیں۔ ان کی نوکریوں کا کیا بنے گا۔ درباری اور دیگر اہل کار بھی اسی تشویش کا شکار تھے کہ آخر بات کیا ہوئی۔ کہیں بادشاہ سلامت ملکہ عالیہ سے لڑ کر تو نہیں گئے۔ کہیں انہیں تاوان کی خاطر اغوا تو نہیں کر لیا گیا۔ کہیں انہیں شہزادہ سلیم کی تخت پر قبضہ کرنے کی سازش کا پتہ تو نہیں چل گیا۔ یا پھر شاہی طبیب نے انہیں غلطی سے کوئی ایسا نسخہ تو نہیں دے دیا جس سے انہیں رانیوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

در اصل یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ گزشتہ سات روز سے بادشاہ سلامت کا دیر سے دربار میں آنا معمول بن چکا تھا۔ ان کی الجھن اور پریشانی چہرے سے صاف عیاں تھی جیسے ان پر مصیبت کا کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ دربار ایک تو دیر سے شروع ہونے لگا تھا۔ دوسرے چند لمحے بعد ہی برخاست کر دیا جاتا اور قصیدہ خواں اپنے قصیدے بغل میں ہی دبائے واپس گھروں کو چلے جاتے اور شہنشاہ پشت پر ہاتھ باندھے واپس حرم میں تشریف لے جاتے۔ آج تو حد ہی ہو گئی۔ درباری حاضر تھے۔ نورتن اپنے اپنے گاؤ تکیوں کے ساتھ ٹیک لگائے مجرائی انداز میں براجمان تھے۔ وزیر اعظم مان سنگھ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہ بجنے میں ایک سیکنڈ پہلے ہی عقلمندانہ فیصلہ کیا اور دربار بر خاست کر کے خود بادشاہ سلامت کی تلاش میں نکل پڑا۔

مان سنگھ نے چند خاص غلاموں کو بھی اعتماد میں لے کر بادشاہ کی تلاش میں روانہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی محل میں چہ میگوئیوں کا سیلاب آ گیا۔ غلاموں، نوکرانیوں اور حرم سراؤں کی حرکت میں تیزی آنے لگی اور وہ اِدھرسے اُدھر گردش کرنے لگے۔ مان سنگھ اس غیر معمولی اتھل پتھل سے گھبرا گیا۔ سمجھا کہیں محل میں بغاوت ہی نہ ہو گئی ہو۔ وہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے راہداری میں آ گیا۔ ایک نوکرانی قریب سے گزری مان سنگھ نے اسے روک کر اس افراتفری کا سبب پوچھنا چاہا تو وہ بے دھیانی میں ’’وے ٹٹ پینیاں چھڈ پراں ہو‘‘ کہہ کر آگے نکل گئی۔ نوکرانی محل کی ایک کھڑکی میں جا کر کھڑی ہو گئی جو پائیں باغ کی طرف کھلتی تھی۔۔۔۔۔

مان سنگھ نے دیکھا وہ تمام کھڑکیاں اور دروازے جو پائیں باغ کی طرف کھلتے تھے وہاں نوکرانیوں، غلاموں اور حرم سراؤں کی بھیڑ لگی ہے۔ ان سب کی نظریں ایک چیز پر مرکوز ہیں۔ مان سنگھ نے ایک نوکرانی کو پرے دھکیل کر خود نظارہ کیا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ شہنشاہ معظم جلال الدین اکبر فوارے کے حوض میں جوتی اور شلوار سمیت پاؤں لٹکائے حوض کے فوارے کواس طرح وٹے مار رہے ہیں۔ جیسے حج کے دنوں میں حاجی شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ وٹے حوض کی مرمت کے لئے کل ہی منگوائے گئے تھے۔ مان سنگھ نے جو یہ حالت دیکھی تو دوڑتا ہوا سیدھا بادشاہ سلامت کے پاس پہنچا اور کورنش بجا لایا۔ اسی عالم میں اگر وہ طبلِ جنگ بھی بجا لاتا تو بادشاہ سلامت کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑتا۔ کورنش بجا لانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ باد شاہ سلامت اپنی دھن میں مست بڑے درد ناک انداز میں تان سین کی موسیقی میں ترتیب دیا ہوا فلم ’’عشق نہ پچھے ذات‘‘ کا یہ نغمہ دلدوز انداز میں گا رہے تھے۔

ہم چلے اس جہاں سے

دل اٹھ گیا یہاں سے

مر چلے ہم ادھر

خوش رہیں وہ ادھر

اب اٹھے گا جنازہ یہاں سے

مان سنگھ نے سوچا شاید بادشاہ سلامت کی طبع نازک شدید گرمی کی وجہ سے اس حال کو پہنچی ہے مگر یہ موسم تو کہر اور دھندکا تھا۔ مان سنگھ نے یہ بھی سوچا کہیں جہاں پناہ کو منہ اندھیرے نکلنے کی وجہ سے سرسام نہ ہو گیا ہو مگر سر پر شاہی پگڑی کی موجودگی میں سرسام کیسے ہو سکتا تھا۔ اسی کشمکش میں اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے اشارے سے پائیں باغ میں کھلنے والی کھڑکیوں اور دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔

غلام اور نوکر دورہ ٹ گئے کھڑکیاں بند ہو گئیں تو مان سنگھ شہنشاہ سلامت عالم پناہ جلال الدین اکبر کے قریب گیا اور شانے پر ہاتھ رکھ کر مؤدبانہ کہا۔ ’’جہاں پناہ!‘‘

شہنشاہ نے وٹے والا ہاتھ روکا اور گردن کو موڑتے ہوئے کہا۔ ’’کون ہے بدتمیز؟‘‘

’’میں ہوں جہاں پناہ! آپ کا نمک خوارِ خاص، مان سنگھ‘‘۔ مان سنگھ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

’’جاؤ جا کر اپنا کام کرو مان سنگھ! آج سے تم تخت کے وارث ہو‘‘۔

مان سنگھ سنجیدہ ہو گیا۔ وہ سکھ تھا مگر عقلمند بھی تھا۔ وہ سمجھ گیا ضرور کچھ انہونی ہوئی ہے۔ کہیں ملکہ عالیہ نے مزید بچے کی خواہش تو نہیں کر دی یا ان کے حرم میں اتنی ڈھیر ساری لونڈیاں، نوکرانیاں تھیں۔ کسی نے ان کے متعلق ’’نازیبا الفاظ‘‘ تو استعمال نہیں کئے تھے۔ کہیں بادشاہ سلامت نے انگور کی بیٹی کو منہ تو نہیں لگایا۔ اگر ایسا تھا بھی تو پھر صبح سے اب تک نشہ اتر جانا چاہئے تھا۔ یہ گانا، یہ دنیا سے بیزاری اور بادشاہت تباہ کُن۔ آخر کس صبح روشن کی دلیل ہے۔ وزیر اعظم ابھی کڑیاں ملا ہی رہے تھے کہ بادشاہ سلامت کی آواز گونجی۔

’’مان سنگھ! ہم نے بہت جی لیا، بہت عیش کر لی، بس ہمارے جنازے اور ار تھی کا ایک ساتھ بندوبست کیا جائے۔‘‘

مان سنگھ ہاتھ باندھ کر جھکا اور اس عالم میں کہا۔ ’’شہنشاہ سلامت! آپ کا اقبال بلند ہو۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے اتنی دھن، دولت بلیک منی، محل، نوکرانیاں، ملکائیں ہوتے ہوئے بھی آپ کے دل سے غم اور دکھ کے بادل۔۔۔۔۔ یا حضرت ماجرا کیا ہے؟‘‘

’’مان سنگھ۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارا فیصلہ ہے۔۔۔۔ تخت کے اب تم وارث ہو‘‘ بادشاہ سلامت گرجے۔

’’مگر بادشاہ سلامت ہٹے کٹے شہزادہ سلیم کے ہوتے ہوئے آپ مجھ پر اتنی نوازش کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں مجھے اس کے ہاتھوں مروانے کا قصد تو نہیں کر لیا حضور نے۔‘‘

شہنشاہ عالم نے بھر پور قہقہہ لگایا۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا وٹہ زور سے حوض میں پھینکا۔ پانی کے چھینٹے اڑ کر مان سنگھ کے چہرے پر پڑے مگر وہ خاموش رہا۔ بادشاہ سلامت نے ایک ایک کر کے پاؤں حوض سے باہر نکالے اور کنارے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ بادشاہ سلامت نے مان سنگھ کو اپنے قریب بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔

’’بادشاہ سلامت! آپ کئی روز سے دربار کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ درباری تشویش میں مبتلا ہیں۔ قصیدہ خواں اپنے قصیدوں کو سنبھالے حیران ہیں۔ اگر آپ کے دکھ کی خبر عوام تک پہنچ گئی تو آپ کا ککھ کنڈا نہ رہے گا۔ عوام آپ کو کمزور سمجھ کر آپ کی تکا بوٹی کر کے کھا جائیں گے۔ پہلے ہی عوام آپ کے دین الٰہی سے سخت بے زار ہیں۔‘‘ مان سنگھ نے ذرا فاصلہ رکھ کر صورتحال سے مطلع کیا مبادا بادشاہ سلامت ایک وٹہ اس کے منہ پر نہ دے ماریں۔

مان سنگھ اب ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جلال الدین اکبر نے جواب دیا اور آسمان کی طرف منہ کر کے گنگنانے لگے۔

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے

’’بادشاہ سلامت! آخر اس درد کی وجہ کیا ہے۔ علاج کیا ہے؟

مان سنگھ نے پوچھا کیا کوئی ملکہ آپ سے باغی ہو گئی ہے یا کسی نوجوان نے خواجہ سرا کے بھیس میں زنان خانے میں جانے کی کوشش کی ہے‘‘۔

’’مان سنگھ۔۔۔ حدِ ادب۔۔ ! ایسی کوئی بات نہیں ہے‘‘۔ بادشاہ سلامت گرجے۔ ’’تم ہمارے قابل اعتماد ساتھی نہ ہوتے تو ہم ابھی تمہارا سر اس حوض میں ڈبو کر دیدۂ عبرت بنا دیتے۔۔۔۔ ہمیں دل کی چوٹ لگی ہے۔۔۔۔ ہمیں اپنے ہی خون نے زخم لگایا ہے۔۔۔ مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘‘۔

’’حضور! کیا کہا۔۔۔ ؟ اپنے ہی خون نے زخم لگایا ہے؟ میں سمجھا نہیں عالیجاہ مرتبت، اس سے پہلے کہ میں بھی حوض میں وٹے مارنا شروع کر دوں۔ مجھے بتائیے قصہ کیا ہے؟‘‘ مان سنگھ اپنی حیرت کو کھلا کرتے ہوئے بولا۔

’’حوصلہ نہیں رہا مان سنگھ۔۔۔ دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔۔۔۔ ایک طرف سلیم ہے اور دوسری طرف وہ۔۔۔۔‘‘

’’وہ کون ہے عالی مرتبت؟‘‘ مان سنگھ مزید قریب آتے ہوئے بولا۔

’’بات یہ ہے مان سنگھ۔۔۔۔ یہ بڑے راز کی بات ہے۔ دیکھو اگر اس کا ایک حرف بھی کسی دوسرے پر افشاء کیا تو تمہارے سینگ ہی نہیں سر بھی تلوار سے اڑا دوں گا‘‘۔

’’میں وعدہ کرتا ہوں عالم پناہ! آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔‘‘ مان سنگھ جھک کر بولا۔

’’تو سنو! گزشتہ ماہ ہم دہلی سے اپنے ساتھ مغنیاؤں کا ایک ثقافتی طائفہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس میں ایک خوبصورت حسین و جمیل دوشیزہ بھی تھی کیا نام تھا اس کا؟‘‘

’’انار کلی؟۔‘‘

’’ہاں بالکل وہی۔۔۔ ہم گزشتہ ایک ماہ سے محل میں ایک ڈرامہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

’’جہاں پناہ! کیا انار کلی نے گانے کے ساتھ ساتھ ڈراموں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا؟ آپ نے ہمیں کیوں مدعو نہیں کیا ڈرامے میں؟‘‘

’’ہم نے دیکھا کہ انار کلی راتوں کو چھپ چھپ کر محل کے سرونٹ کوارٹر سے نکل کر اسی باغ میں اسی حوض کے کنارے کسی سے ملنے چلی آتی ہے۔‘‘

’’وہ آپ سے ملنے آتی ہو گی حضور! کیوں کہ اس ثقافتی طائفہ کو آپ اسی کی خاطر تو یہاں لائے ہیں۔‘‘

’’اسی بات کا تو دکھ ہے مان سنگھ!‘‘ شہنشاہ سلامت کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ’’مان سنگھ۔۔۔ میں تباہ ہو گیا۔۔۔۔ میں لٹ گیا‘‘

’’بادشاہ سلامت حوصلہ کیجئے بات تو پوری کیجئے۔‘‘

’’ہونا کیا تھا۔۔۔۔ ہمیں خوش فہمی تھی کہ شاید ہمیں ملنے کے لئے باغ میں آتی ہے۔ ہم اس انتظار میں رہتے کہ ابھی کسی کنیز کے ذریعے ہمیں بلوا بھیجے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ ہم اس کے پیغام کے انتظار میں پوری رات جاگ کر گزار دیتے۔ جب کوئی پیغام نہ آیا تو ہمیں تشویش ہوئی۔ ایک دن ہم نے چھپ کر پیچھا کیا اور ارادہ کیا کہ جب وہ باغ میں پہنچے گی تو ہم پیچھے جا کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیں گے۔ وہ حیران ہو گی اور پھر ہمیں اپنے سامنے دیکھ کر خوش ہو جائے گی اور کہے گی ’’وے سوہنیا بڑی دیر کر دتی او۔‘‘

’’پھر؟‘‘ مان سنگھ کا تجسس بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اسے یہ دھیان ہی نہ رہا کہ غلام، درباری اور دیگر لوگ محل سے اتر کر پائیں باغ کی دیوار کے ساتھ ساتھ دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ وہ کسی انوکھی بات کے منتظر تھے۔

’’جب ہم نے محسوس کیا کہ انار کلی باغ میں پہنچ چکی ہے تو دبے پاؤں اسی طرف بڑھے۔ ہم نے ستون کی اوٹ سے دیکھنا چاہا کہ انار کلی کس بے چینی سے ہمارا انتظار کر رہی ہے مگر یہ دیکھ کر ہماری غیرت کا جنازہ نکل گیا کہ بس۔۔۔۔۔۔ ؟

شہنشاہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ مان سنگھ نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے شانوں پر یوں رکھے جیسے فلموں میں ہیروئن ہیرو سے محبت بھری بات کہنے کے لئے رکھتی ہے۔ شہنشاہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی تر آنکھوں سے لگایا۔ پھر بڑی مشکل سے قرار آیا تو مان سنگھ نے پوچھا۔

’’جہاں پناہ! کیا انار کلی یہاں رفع حاجت کے لئے آئی تھی؟

’’دفع ہو جاؤ۔‘‘ بادشاہ سلامت دھاڑے ’’تم بڑے الو کے پٹھے ہو۔‘‘

’’آپ کا نمک خوار ہوں جہاں پناہ! بات کی تہہ تک پہنچنا میرا فرض ہے۔‘‘

’’بھاڑ میں گیا تمہارا فرض۔۔۔۔ تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔‘‘

’’معاف کیجئے گا حضور پھر کیا ہوا؟‘‘

بادشاہ سلامت اپنا چہرہ پیٹنے لگے آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے۔ مان سنگھ نے آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگا لیا۔ آنسو رُکے تو مان سنگھ نے اٹھ کر حوض سے چلو میں پانی بھرا اور بادشاہ سلامت کے منہ سے لگا دیا۔ باد شاہ سلامت نے جھک کر یوں پانی پیا جیسے چلو بھر پانی میں ڈوبنے کا ارادہ ہو۔ وہ ایک ہی سانس میں غڑپ غڑپ پی گئے۔ مان سنگھ نے ہمت کر کے پھر پوچھا۔ ’’شہنشاہ سلامت! حوصلہ کیجئے۔ بتائیے آپ نے انار کلی کو کس کے ساتھ دیکھا تھا؟‘‘

’’وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے جن پر بیٹھ کر انار کلی اور شہزادہ سلیم راز و نیاز میں مصروف تھے۔ انار کلی اپنے ہاتھوں سے سلیم کے بالوں سے جوئیں نکال رہی تھی۔‘‘

’’شہزادہ سلیم اور انارکلی؟‘‘ مان سنگھ کو جیسے یقین نہ آیا۔

’’ہاں ہاں شہزادہ سلیم اور وہ‘‘ بادشاہ سلامت دھاڑے۔

’’اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں حضور۔‘‘ مان سنگھ جھکا اور آداب بجا لایا۔

’’دیکھو مان سنگھ آج تم سرکاری زبان میں بات نہ کرو جو کہنا ہے بغیر پروٹوکول کے کہو۔ آج تمہارے سارے گناہ معاف۔‘‘

’’حضور پناہ! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انار کلی، شہزادہ سلیم کو اپنا نیا بیٹا سمجھ کر اسے ذہنی طور پر تیار کر رہی ہو کہ وہ اس کی نئی ممی ہے اور آپ نے خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا لیا ہو۔‘‘ مان سنگھ نے جلال الدین اکبر کی توجہ عقلمندی سے ایک اہم نکتے کی طرف دلاتے ہوئے کہا۔

’’پہلے دن تو ہم بھی یہی سمجھے تھے لیکن دوسرے ہی دن ہمارا یہ وہم بھی دور ہو گیا سنگھ جی۔‘‘

’’وہ کیسے عالم پناہ؟‘‘

’’وہ ایسے کہ ہم صبح سیر کے بہانے انار کلی کے کوارٹر جا کر اس سے شہزادہ سلیم کے ساتھ راز و نیاز کے بارے میں وضاحت طلب کرنا چاہتے تھے۔ جونہی ہم محل سے نکل کر باغ میں داخل ہوئے دیکھا کہ شہزادہ سلیم وہاں ہمارا منتظر ہے۔ ہم نے اس انتظار کا سبب پوچھا تو چھٹتے ہی بولا۔ ’’ابا جان میں انار کلی سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘

یہ سننا تھا کہ ہمارے ہوش اڑ گئے۔ سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ یوں لگا جیسے صبح کی ہوا برف خانے کی نائٹروجن گیس بن کر ہمارے دماغ کی قلفی بنا دے گی۔ ہم چپ رہے۔ شہزادہ سلیم پھر کڑک کر بولا۔

’’ابا جان! آپ سنتے نہیں میں انار کلی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے میں بالغ ہوں۔ آپ کی اجازت نہ بھی لوں تو میرا نکاح ہو سکتا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں اگر آپ دربار میں اس کا با قاعدہ اعلان کر دیں تو آپ کے حق میں اچھا رہے گا۔‘‘

اگر چہ اس کی دیدہ دلیری سے ہمارے اوسان خطا ہو گئے تھے لیکن ہم نے اپنے ہوش و حواس پر کسی قدر قابو پا لیا اور کہا ’’بیٹے! کہیں تم مذاق تو نہیں کر رہے۔۔۔۔ میرا منا۔۔۔۔۔ میرا سوہنا۔۔۔۔۔ میرا چو چو۔۔۔ جاؤ جا کر کھیلو کہاں تم اور کہاں وہ نوکرانی مغنیہ۔۔۔۔‘‘ ہم نے اسے ٹالنا چاہا مگر وہ کم بخت ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ اس نے اپنا ہاتھ تلوار کے دستے پر رکھ لیا۔ قریب تھا کہ تلوار میان سے باہر آ جاتی اس کے ایک دوست نے جو پیچھے چھپ کر کھڑا تھا، نکل کر اسے تھپکی دی اور تلوار میان میں ہی رہی۔ شہزادہ ہمارے مقابلے پر اتر آیا اور دھمکی دینے لگا۔

’’ابا جی آپ سیدھی طرح شادی کی اجازت دے دیں ورنہ آپ ابھی سے تخت کی بجائے تختے پر ہوں گے یا شاید تختے سے پہلے ہی تین فٹ گہرائی میں چلے جائیں۔‘‘

ہم نے ہمت کر کے پوچھا ’’بیٹے! کیا تم واقعی سنجیدہ ہو؟‘‘ تو وہ گستاخ بولا۔

’’تو کیا میں ہیجڑوں کی نسل سے ہوں یا کسی ڈاکٹر نے سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے کہ میں شادی نہ کروں۔ میں سو فیصد سنجیدہ ہوں اور انار کلی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

ہم نے اس موقع پر مناسب سمجھا کہ دل کی بات زبان پر لے ہی آئیں مبادا سلیم مغالطے میں مارا جائے اور خواہ مخواہ پچھتاتا رہے۔ ہم نے حقیقت واضع کرنے کے لئے اپنے پدری اختیارات استعمال کرتے ہوئے کہا۔

’’بیٹے! شاید تمہیں علم نہیں کہ انار کلی کو ہم تمہاری ماں بنانے کے لئے لائے تھے۔ اسی لئے ہم نے پورے ثقافتی طائفے کے اخراجات برداشت کئے۔۔۔۔۔ تم کوئی اور تلاش کر لو بیٹا جی۔‘‘

یہ سننا تھا کہ وہ نا معقول گستاخی پر اتر آیا اور بولا۔ ’’ابا جی زبان سنبھال کر بات کریں، پہلے ہی آپ میرے حقوق پر کافی ڈاکے مار چکے ہیں۔ کان کھول کر سن لیں ابا جی! بہت ہو چکا۔۔۔۔۔ اب میری باری ہے۔ یہ ٹھیک ہے آپ اسے اپنے ساتھ لائے تھے مگر زن، زر اور زمین اس کی ہوتی ہے جس کے بازوؤں میں طاقت ہوتی ہے۔ اس نے مجھے پسند کیا میں نے اسے۔ اب وہ میری امانت ہے۔ اگر آپ نے اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو آنکھیں نکال دوں گا۔‘‘

قریب تھا کہ وہ ہم پر جھپٹ پڑتا، اس کے دوسرے دوست نے آ کر اسے دوسری طرف دھکیلا۔ سلیم نے اپنا بازو چھڑا تے ہوئے کہا۔ ’’کہئے شادی کی اجازت دیتے ہیں یا آنکھوں کے ساتھ آپ کی آنتیں بھی نکال دوں؟‘‘۔ شہزادہ سلیم تلوار سونت کر آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ اس کے ایک دوست نے اسے بازو سے پکڑا اور پرے لے گیا۔ پھر وہ دوست ہمارے پاس آیا اور کہا۔

’’بزرگو! کیوں ضد کرتے ہو۔ بہتر یہی ہے شہزادۂ عالم کی بات مان لیں، شادی کی اجازت دے دیں ورنہ آپ کا حشر اس سے بھی بد تر ہو گا جو حکومت کی تبدیلی کے لئے دوسرے بادشاہوں کا ہوتا آیا ہے۔‘‘

ہم نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا ’’اگلے ماہ چاند کی چودھویں رات ہم اس شادی کا اعلان فرما دیں گے۔‘‘

’’مان سنگھ! ہم وہاں سے بمشکل جان بچا کر بھاگے، وہ دن اور آج کا دن ہمیں کسی پل قرار نہیں، پورے پندرہ دن ہو گئے ہیں۔ ہم ہر رات ان کم بختوں کو پائیں باغ کے اسی حوض کے کنارے اٹھکیلیاں کرتے دیکھتے ہیں تو دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے رات اس حوض میں چھپ کر بیٹھ جاؤں اور جب وہ دونوں سنسر کی پابندیوں سے آزاد حرکتیں کریں تو درمیان میں ٹپک پڑوں اور شہزادہ سلیم کو ایک ہی وار میں اگلے جہاں پہنچا دوں مگر ہم کیا کریں مان سنگھ، سلیم ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔‘‘ شہنشاہ سلامت نے مان سنگھ کو حقائق سے پر دکھ بھری داستان سنائی اور دو ہتڑ مار کر رونے لگے، ’’ہائے میری انار کلی۔۔۔ بے حیا۔۔۔ بے وفا۔۔۔ کلموہی۔۔۔ جنموں جلی۔۔۔ ہمیں پتہ ہوتا تو اتنی بے وفا نکلے گی تو کبھی تجھے دہلی سے آگرہ نہ لاتے۔۔۔ ہائے میں کیا کروں‘‘۔ بادشاہ سلامت مسلسل انار کلی کی دہائی دے رہے تھے اور مان سنگھ برابر انہیں حوصلہ دے رہا تھا۔ خود اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے خوب غور کے بعد مان سنگھ بولا۔

’’بادشاہ سلامت! کیا آپ چاہتے ہیں کہ شہزادہ سلیم کو راستے سے ہٹا دیا جائے؟‘‘

’’ہاں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘ بادشاہ سلامت کے آنسو تھم گئے اور وہ سوجھی ہوئی آنکھوں سے وزیر اعظم کو دیکھنے لگے‘‘ ہاں مان سنگھ! ہم چاہتے تو یہی ہیں لیکن اگر اس کی بھنک بھی سلیم کو پڑ گئی تو پھر اسے ہٹاتے ہٹاتے نہ تم زندہ رہ سکو گے اور نہ ہم۔‘‘

’’کیا آپ مجھے تھوڑی سی مہلت دیں گے؟‘‘ مان سنگھ بولا۔

’’مہلت؟‘‘ جہاں پناہ کا چہرہ تمتمایا بھی اور لڑھکا بھی ’’اتنی مہلت کہ چاند کی چودھویں آ جائے اور وہ دونوں میرے سامنے شادی کر لیں اور میں منہ دیکھتا رہ جاؤں‘‘۔

’’نہیں حضور صرف ایک دن کی‘‘

’’کیا ایک دن میں انار کلی میری ہو جائے گی؟‘‘ شہنشاہ نے استفسار کیا۔

’’کوئی کارگر صورت ضرورت نکل آئے گی۔‘‘

’’تو پھر اجازت ہے‘‘۔

’’آئیے پھر اٹھیے۔ محل میں چلیئے نہا دھو کر کھانا کھائیں اور معمولات میں لگ جائیں۔ کسی کو شک نہ گزرے کہ کیا ہونے والا ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہے۔‘‘ مان سنگھ نے راز داری سے کہا۔

پھر وہ اٹھا، ہاتھ بڑھا کر جلال الدین اکبر کو اٹھایا۔ بادشاہ سلامت اٹھے۔ ایک ہاتھ گھٹنے پر تھا اور دوسرا کمر پر۔ انہوں نے اٹھ کر کپڑے جھاڑے اور یہ گنگناتے ہوئے محل کی طرف چل دیئے۔

میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا

مجھے اپنے رب سے آس کہ بچھڑا یار ملے گا

بادشاہ سلامت کو اپنی طرف آتا دیکھ کر باغ کی دیوار کے ساتھ لگے نوکروں اور غلاموں میں کھلبلی مچ گئی وہ فوراً دروازے سے اندر بھاگ گئے۔ محل میں پہنچ کر بادشاہ سلامت نے غسل کیا، کھانا تناول فرمایا اور شام کے وقت دربار میں ہنگامی اجلاس بلا لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

شام دربار اکبری کا ہنگامی اجلاس شروع ہوا۔ اس میں درباری بھی تھے، ہزاری بھی اور سوا لکھ واری بھی۔ قصیدہ گو بھی اور خوشامدی بھی، شہنشاہ عالم جہاں پناہ۔ جلال الدین اکبر اپنے عقلمند وزیر با تدبیر کی ہدایت پر دربار میں جلوہ افروز تھے جو مان سنگھ نے سمجھایا اور پڑھایا تھا۔ شہنشاہ عالم اسی کی روشنی میں دربار سے خطاب کرنے والے تھے۔ قصیدہ گو بے چین تھے کہ اشارہ ہو اور وہ اپنے دیوان شاہِ عالم کے حضور پیش کریں اور خلعت فاخرہ حاصل کریں۔ خوشامدی زبان کھلنے کے منتظر تھے۔ پھر اچانک جلال الدین اکبر اپنے تخت پر کھڑے ہو گئے اور ہنگامی دربار سے ہنگامی خطاب کرنے لگے۔

’’میرے درباریو، ہزاریو، سوا لکھ واریو! ہم گزشتہ چند روز سے دربار میں حاضر ہونے سے جو قاصر رہے وہ کوئی ایویں کا معاملہ نہ تھا بلکہ ہم نئے بجٹ میں عوام پر لگائے جانے والے ٹیکسوں سے پریشان ہو گئے تھے۔‘‘

’’واہ واہ۔ سبحان اللہ!‘‘ خوشامدیوں کی زبان کے تالے کھُل گئے۔

’’حضور والا کی جان تو پہلے ہی قوم کے غم میں چربی سے لبریز ہو چکی ہے‘‘ ایک قصیدہ گو اٹھ کر بولا۔ شہنشاہ نے ایک ہاتھ پھیلا کر انہیں خاموش کیا اور پھر اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔

’’آئندہ ماہ نیا بجٹ پیش ہونے والا ہے۔ وزیر خزانہ کی ضد ہے کہ اتنی ملکاؤں اور لونڈیوں اور پھر ان سے پیدا ہونے والے بچوں کا خرچ پورا کرنے کے لئے چند اضافی ٹیکس عائد کر دیئے جائیں لیکن ہم اس کے خلاف ہیں۔‘‘

’’ہُرّے‘‘ دربار سے نعرۂ مستانہ بلند ہوا۔

’’ہم اس فکر میں ہیں کہ عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لئے سوکھی روٹیوں کو دوبارہ پیسا جائے یا گیہوں کے ساتھ گھن بھی پیس دیا جائے۔‘‘

’’واہ سبحان اللہ کیا ترکیب ہے۔ کیا عقلمندی ہے۔‘‘ ایک خوشامدی جس کی عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری تھی اپنی داڑھی پر ہاتھ مار کر بولا۔

’ ہمارے ذہن میں یہ آئیڈیا بھی ہے کہ پائیں باغ کے دروازے عوام کے لئے کھول دیے جائیں اور وہاں سرچ لائٹس لگا کر ہر روز فٹ بال یا کرکٹ میچ منعقد کرائے جائیں۔‘‘

درباریوں نے ایک بار پھر ’’ہُرّے‘‘ کا نعرہ لگا یا۔ بادشاہ سلامت بھی عادت سے باز نہ آئے اور ہاتھ کے اشارے سے ان کا منہ بند کیا اور کہا۔

’’اسی عوامی غم کو بہلانے کے لئے ہم اکثر پائیں باغ میں چلے جایا کرتے ہیں۔ ہم بہت جلد ٹیکس فری بجٹ پیش کر کے عوام کو خوشحال بنا دیں گے۔‘‘

قصیدہ گو بڑھ چڑھ کر اور خوشامدی ان سے بھی بڑھ چڑھ کر کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کر رہے تھے مگر بادشاہ سلامت نے دربار بر خواست کرنے کی گھنٹی بجا دی اور جلدی سے خلوت خانے میں چلے گئے۔

دوسرے دن عالم پناہ صبح بیدار ہوئے تو قدم بے اختیار پائیں باغ کی طرف اٹھنے لگے مگر مان سنگھ کا خیال آتے ہی قدم رک گئے۔ شہنشاہ نے چمپی گر کو فوراً مان سنگھ کے پاس بھیجا۔ وہ حاضر ہوا تو شہنشاہ نے فرمایا۔ ’’بتاؤ کیا سوچا ہے ہمارے لئے۔ ؟‘‘

’’جناب عالی! آپ کا اقبال بلند اور عقل اس سے بھی بلند ہو۔ آپ نے پائیں باغ کو عوام کے لئے کھول کر اور وہاں سرچ لائٹس لگوانے کا اعلان کر کے بہت اچھا کیا ہے۔‘‘

’’ہاں مان سنگھ! اب ہم دیکھیں گے کہ وہ کیسے ہماری غفلت سے فائدہ اٹھا کر راز و نیاز کرتے ہیں۔ تم بتاؤ تمہارے ذمے جو کام تھا وہ کیا ہوا؟‘‘

’’حضور جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ میرے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ مان سنگھ کورنش بجا لاتے ہوئے بولا۔

’’سوالوں کو مارو گولی!‘‘ عالم پناہ طیش میں آ گئے۔ تمہیں انار کلی کا کنکشن سلیم سے کاٹ کر ہمارے ساتھ جوڑنے کا کہا تھا اور تم الٹا ہم سے سوال کرو گے؟۔ قریب تھا کہ شہنشاہ معظم اپنی طِلّے والی جوتی اتار کر مان سنگھ کے سر دو چار جڑ دیتے کہ یکدم انہیں خیال آیا کہ ابھی اس سے اور بہت سے کام لینے ہیں۔

’’جہاں پناہ! ان سوالات کا تعلق آپ کے بہتر مستقبل اور انار کلی کے ملاپ سے ہے۔‘‘

’’انار کلی سے ملاپ۔۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔۔ ہم خوش ہوئے۔۔۔۔ کہو، اگر ایک ہزار سوال بھی پوچھو تو ہم جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔‘‘ شہنشاہ عالم نے بچے کی طرح مچلتے ہوئے کہا۔ جلال الدین اکبر اپنے ڈبل بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے اور مان سنگھ موڑھا گھسیٹ کراس پر براجمان ہو گیا۔

’’حضور عالی مقام! آپ نے شہزادہ سلیم اور انار کلی کو ملتے ہوئے پہلے کب دیکھا تھا؟‘‘

’’میرے سامنے اس کمینی اولاد کا نام نہ لو۔‘‘ شہنشاہ ایک دفعہ پھر غصے میں آ گئے۔

’’لیکن حضور والا اس کا ذکر تو آپ کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ جہاں پھول وہاں کانٹے۔‘‘

’’بیس روز قبل۔‘‘

’’انار کلی کو محل میں آئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟‘‘

’’یہی کوئی ایک ڈیڑھ ماہ‘‘

’’تو کیا آپ نے اس ایک ڈیڑھ ماہ میں انار کلی سے مل کر اسے حال دل سنانے کی کوشش کی؟‘‘

شہنشاہ کی آنکھوں میں چمک آئی بھی اور چلی بھی گئی۔ پھر وہ مان سنگھ سے نظریں چراتے ہوئے بولے ’’اصل میں ہم امور سلطنت اور پہلی بیگمات کو چکر دینے میں اس قدر مصروف تھے کہ ملاقات کل تک اٹھائے رکھی۔ اور یہی کل کل ہمارے لئے کِل کلِ بن گئی۔ ہم نے اسے تحفے ضرور بھیجے اور دربار میں گانا بھی سنا۔

’’بس یہی تو آپ سے بھول ہو گئی شہنشاہِ معظم۔‘‘ مان سنگھ بڑے استادانہ لہجے میں بولا۔‘‘ اگر آپ بیگمات کا پیشگی بندوبست کر کے انار کلی سے مل لیتے اور حال دل سنا دیتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔‘‘ مان سنگھ نے توقف کیا پھر بولا۔ ’’ہاں یاد آیا جب آپ نے پہلی دفعہ انار کلی کو دیکھا اور اسے محل میں لانے کا فیصلہ کیا تو کیا اس وقت اسے یہ بتایا تھا کہ اسے محل میں لانے کا اصل مقصد کیا ہے؟‘‘

’’مان سنگھ تم سنگھ ہو یا عدالت کے قاضی؟‘‘ شہنشاہ معظم تلملا کر بولے۔‘‘ تم نے ہماری مت مار کر رکھ دی ہے۔ جب ہم نے پہلی دفعہ انار کلی کو دیکھا تو اسے اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ تاہم مدعا بیان کرنے سے پہلے اسے محل لانے کا پروگرام بنایا۔ ہم اتنے بے وقوف یا چھچھورے نہیں کہ چھوٹتے ہی کسی کو شادی کی درخواست کر دیں۔ شاہوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔‘‘

’’اور اسی اصول کے تحت آپ تعداد ازدواج میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں‘‘ مان سنگھ نے گرہ لگائی۔ کچھ لمحے سکوت کے بعد مان سنگھ بولا۔ ’’انار کلی کو بتانا تو چاہئے تھا ناں کہ اسے محل میں کیوں لایا جا رہا ہے۔‘‘

’’اگر ہم نے زبانی نہیں بتایا تو وہ تحفوں کی زبان سے سمجھ سکتی تھی‘‘ شہنشاہ بولے۔

’’ہو سکتا ہے وہ ان تحفوں کو شاہوں کی عام ادا سمجھتی ہو۔‘‘

’’مان سنگھ۔۔۔۔ مان سنگھ! خدا کے لئے الٹے سوال نہ کرو۔ تم مجھے بھی سنگھ بنا کر چھوڑو گے۔‘‘

حضور پہلے ہی آپ ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ اگر تیسری بڑی اقلیت بھی بن جائیں گے تو یہ آپ کی ذرہ نوازی ہو گی۔‘‘ مان سنگھ مسکراتے ہوئے بولا۔

’’جب ہم نے اس کو ایک دو دفعہ دربار میں بلایا تو ہمیشہ اس نے یہ گانا گایا۔

جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

ایک دفعہ تو وہ گاتے ہوئے ہمارے پاؤں بھی پڑی اور محبت کے واسطے دیئے۔ وہ انگلیوں سے ہماری طرف اشارے بھی کرتی۔ ہمارا خیال ہے اس کے دل میں ہمارے لیے محبت ہے مگر اسے کسی جبر کے تحت کھل کر اظہار محبت سے روک دیا گیا ہے۔‘‘ جہاں پناہ بولے۔

’’تو پھر کیوں نہ کسی طریقے سے اس سے مل لیا جائے اور بر ملا عقیدت کا اظہار کر کے اس کی آرزو پوچھی جائے۔‘‘ مان سنگھ نے صائب مشورہ دیا۔

’’مگر سنگھ جی! انار کلی کو بلاؤ گے کیسے اور کہاں؟‘‘ شہنشاہ معظم کسی چھوٹے بچے کی طرح چڑتے ہوئے بولے۔ ’’اگر سلیم کو پتہ چل گیا تو نہ تم کسی قابل رہو گے اور نہ ہم دنیا میں رہیں گے۔‘‘

’’حضور والا! یہ کام ممکن ہے لیکن تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ مان سنگھ نے کہا۔

’’انار کلی کے بطن سے سلیم کے بچے کی پیدائش کا۔‘‘ شہنشاہ گرجے۔

’’عالم پناہ! انتظار صرف ایک ہفتے کا۔۔۔ آپ کو یاد نہیں اگلے ہفتے شہزادہ سلیم سرکاری دورے پر دلی جا رہا ہے۔ جب وہ دلی جائے تو آپ انار کلی کو یہاں بلا کر کھلم کھلا پیار کا پیغام دے سکتے ہیں۔‘‘

’’اوئی میں مر جاواں!‘‘ عالم پناہ خوشی سے اچھل پڑے۔ ’’ہماری گفتگو کا کسی کو پتہ نہ چلے۔ آؤ اکٹھے ناشتہ کریں۔‘‘ شہنشاہ معظم بیڈ سے نیچے اترے، سیلپر پہنے اور غسل خانے میں چلے گئے۔ سیٹی کی دھن پر۔

میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا

مجھے اپنے رب سے آس کہ بچھڑا یار ملے گا

گانے لگے۔ پھر دونوں نے ناشتہ کیا۔ شہنشاہ بیتابی سے سلیم کے دلی جانے کی دعا کرنے لگے۔

شہنشاہِ معظم جلال الدین اکبر دربار سجائے بیٹھے تھے۔ کل سلیم نے دورہ پر دلی جانا تھا۔ دائیں طرف وزیر اعظم مان سنگھ بیٹھا تھا اور بائیں شہزادہ سلیم کی کرسی خالی تھی۔ سلیم آج بھی دربار سے غیر حاضر تھا۔ شہنشاہ اپنے معمول کے درباری کام بڑی چابکدستی سے نمٹا رہے تھے۔ اچانک دربار میں کھلبلی مچ گئی۔ شہزادہ سلیم بڑے زور دار انداز سے دربار میں داخل ہوا اور سیدھا شہنشاہ کے مقابل کھڑا ہو گیا۔ جیب سے ایک کاغذ نکال کر یوں پھرتی سے بادشاہ کو پیش کیا جیسے نیفے سے خنجر نکال کر پیٹ میں گھونپ دیا ہو۔ شہنشاہ گھبرا کر اچھلے مگر کاغذ دیکھ کر ٹھٹھکے اور بولے۔

’’کیا بات ہے بیٹے سلیم! یہ درخواست کیسی؟‘‘

’’ابا حضور! ہم اس دفعہ دلی نہیں جائیں گے۔‘‘ سلیم نے منہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا۔

بادشاہ سلامت اس ایٹمی حملے سے حواس باختہ ہو گئے۔ بے اختیاری میں تخت سے اٹھے، پائے دان پر قدم رکھا ہی تھا کہ پھسل گیا اور بادشاہ سلامت منہ کے بل فرش پر آ رہے۔ نورتنوں نے بڑ ھ کر بادشاہ کو اٹھایا۔ بادشاہ سلامت اپنے گھٹنے سہلاتے ہوئے اٹھے۔ ایک قصیدہ گو نے کپڑے جھاڑے، دوسرے خوشامدی نے کلاہ شاہ درست کیا۔ جلال الدین اکبر کھلے منہ اور پھٹی آنکھوں سے کانپتے ہاتھوں اور لرزتی ٹانگوں سمیت دوبارہ کرسی پر جلوہ افروز ہوئے۔ مان سنگھ، سنگھ ہوتے ہوئے بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے اپنا منہ بادشاہ کے قریب لے جا کر کان میں کچھ کہنا چاہا مگر بادشاہ نے منہ نزدیک کرتے ہی ایک تھپڑ مان سنگھ کے بڈھے گال پر جڑھ دیا۔

’’بدتمیز۔ تمہارے منہ سے کتنی بد بو آ رہی ہے۔ صبح و شام ٹوتھ پیسٹ کیوں نہیں کرتے۔ تاہم مان سنگھ نے برا نہیں مانا اور حواس پر قابو رکھتے ہوئے اپنا منہ بادشاہ کے کان کے انتہائی قریب لے گیا۔

’’جہاں پناہ! حوصلہ رکھیئے انار کلی سے ملاقات کرنی ہے۔ مان سنگھ کے یہ الفاظ شہنشاہ کے کانوں میں امرت گھول گئے۔ بادشاہ سلامت سنبھل گئے۔ سلیم پرے کھڑا ابا حضور کے چہرے پر آتی جاتی گھٹاؤں کو دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ جہاں پناہ نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔

’’سلیم اپنی کرسی پر تو بیٹھو! آداب شاہی کا لحاظ کرو۔‘‘

’’جی میں بیٹھنے نہیں آیا مجھے جلدی ہے۔‘‘ سلیم نے اکھڑ پن سے جواب دیا۔

’’کیا جلدی ہے بیٹے! جنگ چھڑ گئی ہے یا کہیں آگ لگ گئی ہے‘‘۔ جہاں پناہ نے مصنوعی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔

’’ابا حضور یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ آگ لگ چکی ہے اب جنگ چھڑنے والی ہے۔‘‘ سلیم نے پلٹ کر وار کیا۔ تاہم شہنشاہ نے اپنے غصے پر پورا کنٹرول رکھا اور ظاہر نہ ہونے دیا کہ دل میں کیا ہے۔ بولے: ’’یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ تمہارا دلی جانا بہت ضروری ہے اور سلطنت چلانے کے لئے تمہارا خود جانا بہت ہی ضروری ہے۔‘‘

میں نے کہہ دیا ناں میں نہیں جاؤں گا، سلیم نے رکھائی سے جواب دیا۔ ’’میں کشمیر جا رہا ہوں۔‘‘

’’کشمیر؟کیوں؟ وہاں تو ایسا کوئی معاملہ درپیش نہیں ہے؟‘‘ بادشاہ کا دل اچھل پڑا۔

مان سنگھ نے سرگوشی کی ’’دلی نہ سہی کشمیر سہی، بات ایک ہی ہے۔‘‘ شہنشاہ سلامت کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی رونق بحال ہو گئی۔

’’میں کشمیر جا رہا ہوں چھٹیاں منانے۔۔۔۔ انارکلی کے ساتھ۔‘‘

شہنشاہ معظم جو کرسی پر کہنی ٹکائے بیٹھے تھے ان کی کہنی پھسلی اور ان کا سر دھڑام سے مان سنگھ کے سر سے ٹکرایا۔ مان سنگھ نے پھر سہارا دے کر انہیں درست کیا۔ شہنشاہ معظم نے قہر آلود نگاہوں سے مان سنگھ کو دیکھا اور سر گوشی کی۔ ’’تین روز قبل گفتگو صرف میرے اور تمہارے درمیان ہوئی تھی کہیں سلیم اسی کے توڑ میں تو کشمیر نہیں جا رہا؟‘‘

مان سنگھ کو جان کے لالے پڑ گئے۔ اگر بادشاہ سلامت نے سلیم کے لئے مخبری کرنے کے شک میں اسے ہلاک کر دیا یا جیل میں ڈال دیا تو کیا بنے گا؟ مان سنگھ کی آنکھوں کے سامنے موت دھمال ڈالنے لگی۔ سلیم کی آواز پھر گونجی۔

’’ہم نے گزشتہ ہفتے بھی کشمیر جانے کا پروگرام بنایا تھا لیکن اس وقت بارشیں شروع ہو گئیں تھیں۔‘‘

مان سنگھ کی جان میں جان آئی۔ جہاں پناہ نے اپنا چہرہ مان سنگھ سے ہٹا کر سلیم کی طرف کر لیا۔ مان سنگھ نے اپنا ہاتھ بادشاہ سلامت کے ہاتھ پر رکھ کر دبایا۔ بادشاہ سلامت نے با دلِ نخواستہ سلیم کی درخواست منظور کی اور اسے کشمیر جانے کی اجازت دے دی۔

شام کے وقت بادشاہ سلامت جلال الدین اکبر اسی پائیں باغ کے کونے میں تلوار کا سہارا لئے کھڑے تھے اور بار بار یہ شعر گنگنا رہے تھے۔

دعائیں ہم نے مانگیں تھیں بہاریں غیر نے لوٹیں

ہمیں تو خار ہی گزرا صنم تیرا جواں ہونا

مان سنگھ کو کسی طرح خبر ہو گئی کہ بادشاہ سلامت پائیں باغ میں ہیں مان سنگھ دھیرے دھیرے چلتا ہوا جہاں پناہ کے قریب پہنچ کر ان کا ترّاہ کاڈنا چاہتا تھا کہ اس کا پاؤں پھسلا اور تلوار سے ٹکرایا۔ تلوار پرے کھسکی اور شہنشاہ معظم جو اس سے ٹیک لگائے کھڑے تھے دھڑام سے نیچے گرے۔ شکریہ ہوا کہ تلوار پر نہیں گرے ورنہ مان سنگھ کا نام تاریخ سے مغل اعظم کے قاتل کے طور پر لکھا ملتا۔ اس سے پہلے کہ شہنشاہ معظم سنبھلتے اور مان سنگھ کی ٹھکائی کرتے مان سنگھ پہلے اٹھ کھڑا ہوا اور بادشاہ سلامت کو اٹھاتے ہوئے مسکا لگایا۔

’’میں انار کلی سے آپ کی ملاقات کا بندوبست کر کے آیا ہوں عالی جاہ!‘‘

جلال الدین پر یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا اور وہ مان سنگھ کی گستاخی بھول گئے تاہم وہ بولے۔ ’’مان سنگھ اس وقت دوپہر کے بارہ نہیں بجے، یہ شام کا وقت ہے۔‘‘

’’جہاں پناہ! یقین کیجئے میں پورا بندوبست کر کے آیا ہوں۔‘‘ مان سنگھ زور دے کر بولا۔

’’وہ کیسے بھلا؟‘‘ جہاں پناہ نے بے یقینی کے عالم میں پوچھا۔

’’جب شہزادہ سلیم دربار سے چھٹی منظور کرا کے گیا تو خود اسے بھی یقین نہیں تھا کہ آپ اسے کشمیر جانے کی اجازت دے دیں گے۔ کیونکہ دربار سے باہر اس کے مشٹنڈے حواری کھڑے تھے اور وہ سریع الحرکتی فوج کی طرح پل بھر میں کچھ بھی کر سکتے تھے۔ آخر مستقبل کا بادشاہ تو سلیم ہی ہے۔ اس اجازت ملنے پروہ سلیم کے ساتھ چلے گئے۔ میں ان کا تعاقب کرتا ہوا انار کلی کے حجرے تک چلا گیا۔ جہاں سلیم نے انار کلی کو بتایا کہ وہ بسکٹ شیمپو، اور شیونگ کا سامان خریدنے شہر جا رہا ہے اور کل صبح تک واپس آ جائے گا۔ سلیم اپنے مشٹنڈوں کے ساتھ چلا گیا تو میں انار کلی سے ملا اور کہا کہ بادشاہ سلامت اس سے انتہائی ضروری کام کے سلسلے میں ملنے کے خواہشمند ہیں۔ انار کلی نے کہا کہ وہ رات دس بجے قلعے کی دیوار کے ساتھ باجرے کے کھیت میں مل سکتی ہے۔ کیوں کہ یہی اس کی فراغت کا وقت اور مقام ہے۔ اب آپ دل تھامیئے اور انار کلی سے ملاقات کے لئے تیار ہو جائیے۔‘‘ مان سنگھ بڑے رازدارانہ انداز میں بتا رہا تھا۔

’’وہ ہمارے محل میں ملاقات کیوں نہیں کر سکتی‘‘۔ جہاں پناہ نے پوچھا۔

’’اس لئے شہنشاہِ معظم کہ رات کے وقت سلیم کے دو مشٹنڈے اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ اگر ان مشٹنڈوں کو آپ کے ارادے کا علم ہو گیا تو خیر نہیں۔ یہ مشٹنڈے نہ ہوں تو انار کلی محل میں آ سکتی ہے‘‘۔

’’تو پھر ان کے ہٹانے کا بندوبست کرو۔‘‘ جہاں پناہ نے حکمیہ انداز میں کہا۔

’’میں یہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یہ مشٹنڈے سلیم کے خاص چمچے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ سلیم جب تخت پر بیٹھے گا تو وزیر اعظم اور قاضی القضاة یہی ہوں گے، محل کا کوئی بھی آدمی آپ کی خاطر رسک لینے کو تیار نہیں۔ ان کی نظریں سلیم کی نظر التفات پر لگی ہوئی ہیں۔‘‘

’’اگر باجرے کے کھیت میں ان مشٹنڈوں نے دیکھ لیا تو؟‘‘۔۔۔۔ جہاں پناہ خوفزدہ بھی تھے۔

’’یہی تو ڈر ہے۔ ا س کا حل یہ بھی ہے کہ آپ قلعے کی دیوار کے ساتھ ایک رسی باجرے کے کھیت میں لٹکا دیں اور اندھیرا ہوتے ہی اس کے ذریعے اتر جائیں کیونکہ انار کلی کے محافظ ذرا دور ہی کھڑے ہوتے ہیں‘‘

ہمیں تھوڑا سوچنے دو مان سنگھ! شہنشاہ معظم کچھ دیر غور کرتے رہے پھر اچانک چٹکی بجا کر بولے۔ ’’آئیڈیا‘‘۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک اور چہرے پر اطمینان کی بشاشت تھی۔

مان سنگھ نے منہ بادشاہ کے نزدیک کیا ’’کیا حضور عالی مقام؟‘‘

’’میرے ذہن میں یہ ترکیب آئی ہے کہ اگر ان مشٹنڈوں کو کسی طرح بے ہوشی کی دوا کھلا دی جائے تو انار کلی سے ملاقات میں کوئی چیز مانع نہیں رہے گی۔‘‘

’’لیکن جہاں پناہ! وہ آپ کا کھانا نہیں کھائیں گے۔‘‘

’’مان سنگھ خدا کا شکر ہے کہ سنگھ تم ہی ہو۔‘‘ باد شاہ سلامت بولے جیسے عالم کے کل مسائل کا حل ان کے ذہن میں آ گیا ہو۔ ہم کھانا مشٹنڈوں کے لئے نہیں انار کلی کے لئے بھیجیں گے۔ یہ کھانا وہ مشٹنڈے ضرور چیک کریں گے۔ جب ہمارا آدمی یہ کھانا لے کر انار کلی کے پاس جائے گا تو اس میں اتنی طاقتور دوا ہو گی کہ جس کے سونگھنے سے آدمی بے ہوش ہو جاتا ہے۔ جونہی وہ مشٹنڈے کھانا سونگھ کر چیک کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔ بس ہمارا کام ہو گیا۔‘‘

جب مشٹنڈوں کو ہوش آ گیا تو پھر؟ مان سنگھ منہ کھلا کئے بولا۔

مان سنگھ ہم دو ایک جیسے ٹرے تیار کریں گے۔ جب مشٹنڈے بے ہوش ہوں گے تو ہم دوائی والا ٹرے بدل کر دوسرا رکھ دیں گے۔ اس کے بعد خواہ کھانا کھا کر چیک کر یں اس سے کچھ نہ ہو گا‘‘۔

’’واہ بادشاہ سلامت واہ۔۔۔۔ آپ کی عقل کی داد دینی پڑتی ہے‘‘ ، مان سنگھ بولا۔

منصوبے پر عمل شروع ہوا۔ مان سنگھ نے ایک خاص الخاص وفا دار درباری کو انارکلی کے لئے کھانے کے ٹرے لے جانے پر مامور کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

سورج ذرا اوپر ہوا تو انار کلی بستر سے اٹھی۔ گندے کپڑے اکٹھے کر کے صحن میں ڈھیر لگا دیا اور قریب کھڑے ہو کر اس ڈھیر کو یوں دیکھنے لگی جیسے ابھی اس سے سانپ بر آمد ہو گایا سلیم کپڑے جھاڑتا اٹھ کھڑا ہو گا۔ ابھی اس نے ڈھیر سارے کام کرنا تھے۔ سلیم خود تو منہ اندھیرے پکنک کا سامان خریدنے شہر چلا گیا تھا۔ انار کلی نے بھینس کو چھپر سے نکال کر باہر کھرلی کے ساتھ باندھ دیا۔ رات کے بھگوئے ہوئے سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے خشک بھُس پر ڈال دیئے۔ بھینس ادھر مشغول ہو گئی تو انار کلی فوراً بالٹی لے آئی اور دودھ نکالنے لگی۔ جب تک بھینس کو ہوش آیا کہ اس کے سامنے سوکھی روٹیاں ڈال کر اس کے ساتھ کیا سازش کی گئی ہے۔ انار کلی دودھ نکال چکی تھی۔ بھینس نے غصے میں دولتی جھاڑ کر بالٹی کو اوندھا کرنے کی کوشش کی مگر انار کلی آخر انار کلی تھی۔ وہ پہلے ہی بھینس کی دسترس سے دور  جا چکی تھی۔ پھر وہ چولہے کے پاس گئی اور راکھ نکال کر ایک طرف ڈھیر کر دی اور تازہ تھاپیاں جوڑ کر آگ لگا دی۔ دودھ گرم ہونے لگا۔ اتنی دیر میں وہ بھینس والے چھپر کے پاس جا کر ادھر ادھر لگی گوبر کی ڈھیریوں کو ہاتھ سے یوں اکٹھا کرنے لگی جیسے دلہن کو لگانے کے لئے مہندی کو گوندھتے ہیں۔ فارغ ہو کر وہ اندر گئی اور رات بھر کے جھوٹے برتنوں کو رسوئی میں پانی سے بھرے حمام کی پیتل والی ٹوٹی کے نیچے رکھ کر راکھ سے مانجھنے لگی۔ انار کلی کا کام کرنے کو ذرا بھی جی نہیں چاہ رہا تھا مگر کیا کرتی، اگر اس طرح ڈھونگ نہ رچاتی تو سلیم کو لٹو کیوں کر کرتی۔ وہ سوچتی آخر اسے کل کو ملکہ بننا ہے بلکہ وہ تو پیدا ہی مہارانی بننے کے لئے ہوئی تھی۔ اس لئے اگر چند ماہ ہاتھوں سے کام کر کے شہزادے کو مزید بے وقوف بنا سکے تو کیا حرج ہے۔ آخر عشق کو با مراد کرنے کے لئے کچھ قربانیاں تو دینا پڑتی ہی ہیں ناں۔ وہ سوچنے لگی مہارانی بنتے ہی سب سے پہلے محل کے ارد گرد املی کے بوٹے لگوائے گی۔ انار کلی کو انار دانے سے رغبت ہونا چاہئے تھی مگر املی اور کھٹی چاٹ دیکھ کر اس کی جو حالت ہوتی تھی وہ سلیم سے پوشیدہ نہیں تھی۔ اس لئے اس نے اپنے ایک چمچے کو بطور خاص ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ روزانہ انارکلی کے لئے تازہ کھٹی میٹھی املی کے دو پیکٹ لا دیا کرے۔ انار کلی کی اس املی خور عادت نے سلیم کے بعض دوستوں کو خطر ناک شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ کھل کر اس کا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دو دفعہ انہوں نے سلیم سے مذاق ہی مذاق میں انار کلی کی طبیعت پوچھتے پوچھتے املی کا ذکر کیا مگر سلیم نے انہیں تسلی دی کہ ابھی ایسی کوئی حرکت نہیں ہوئی اور یہ کہ اگر آئندہ کسی نے املی اور کھٹی چاٹ کے متعلق سوال کیا تو اسے پورا مہینہ املی کا جوس پینے کی سزا دی جائے گی۔

انار کلی برتن مانجھتی جار ہی تھی اور سوچتی جا رہی تھی۔ مہارانی بننے کے تصور کے ساتھ اس کے ہونٹوں پر بے اختیار نغمہ گونجنے لگا۔

املی دے بوٹیاںنوں لگ گیا بور نی

رُت وے ملاپاں والی سلیم میرا دُور نی

اس کا خیال پھر املی کی طرف چلا گیا۔ اس نے پکا ارادہ کر لیا کہ املی کی عظمت اور کھٹی چاٹ سے عقیدت کے بھر پور اظہار کے لئے شہر کے دلی دروازہ، بھاٹی دروازہ، لوہاری دروازہ، اوردوسرے غیر ضروری دروازوں کے ساتھ املی دروازہ اور کھٹی چاٹ دروازہ بھی قائم کرے گی۔ املی دروازہ میں داخل ہوتے ہی صرف املی کے درخت اور املی کے سٹال نظر آئیں جبکہ کھٹی چاٹ دروازہ میں کھٹی چاٹ کی سینکڑوں دکانیں ہوں گی۔ یہاں صرف عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت ہو گی تاکہ ظالم سماج، خاندانی روایات اور دیگر رسموں میں جکڑی مظلوم خواتین یہاں آ کر چاٹ کھائیں اور دل کی بھڑاس نکالیں۔ انار کلی کے ہاتھ پانڈے مانجھ رہے تھی تو اس کا دماغ مستقبل کے منصوبے سوچ رہا تھا۔

سورج ذرا اوپر ہوا تو بادشاہ سلامت اپنے شاہی حجرے سے نکلے اور اوپر ہی نہیں نیچے بھی، دائیں ہی نہیں بائیں بھی چور نظروں سے دیکھتے ہولے ہولے لمبے لمبے ڈگ بھرتے یوں سرونٹ کوارٹر کی طرف جانے لگے جیسے نیند میں مارچ پاسٹ کر رہے ہوں۔ سرونٹ کوارٹر کے گیٹ کے باہر دونوں محافظ چمچے، بادشاہ سلامت کی دوائی کے زیر اثر مکمل بے ہوش ہو چکے تھے۔ بادشاہ سلامت کے لئے میدان خالی تھا۔ ایک طرف انار کلی بیرونی دنیا سے بے خبر اپنے کمرے میں مہارانی بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ تو دوسری طرف مہابلی سوچ رہے تھے ’’انار کلی نسوار والی ڈبیا کا شیشہ ہاتھ میں پکڑے مسی مل رہی ہو گی اور ہم اس کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ جب وہ شیشے میں ہماری شکل دیکھے گی تو کتنا خوش ہو گی۔ لیکن ہم اسے ہر گز اپنے سے لپٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم اس سے گن گن کر گلے شکوے کریں گے۔ ہمیں یقین ہے وہ ہم سے ہی محبت کرتی ہے۔ وہ تو صرف بعض مجبوریوں کی بنا پر شہزادہ سلیم کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ شاید وہ سلیم سے ڈرتی ہے اور سلیم نے اسے قید کر رکھا ہے۔ راتوں کے پچھلے پہر پائیں باغ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اصل رخ کوئی اور ہے‘‘۔ انہیں خیالوں میں گرفتار شہنشاہ ہندوستان نے سرونٹ کوارٹر کے اندر قدم رکھا۔ انار کلی رسوئی میں برتن مانجھ رہی تھی۔ وہ قریب گئے اور چپکے سے کہا ’’انار کلی‘‘۔۔۔۔۔ انار کلی شہنشاہ کی اس غیر متوقع آمد پر یوں اچھلی جیسے پائنچے میں چوہا چلا گیا ہو۔ وہ تیزی سے اٹھی اور کھونٹی پر لٹکے دوپٹے کو اتار کر چہرے کو یوں چھپا لیا جیسے نئی دلہن سسر جی سے گھونگھٹ نکالتی ہے۔

’’انارکلی! کیا کر رہی تھی؟‘‘ بادشاہ سلامت بولے۔

’’جی برتن مانجھ رہی تھی۔‘‘ انارکلی نرم آواز میں بولی جیسے کہہ رہی ہو اندھے ہو دیکھ نہیں رہے کیا کر رہی تھی۔

’’ارے تم تو راکھ سے برتن مانجھتی ہو۔ ہاتھ کالے ہو جائیں گے۔ برتن صاف کرنے والا پوؤڈر منگوالیا ہوتا لیموں کے ذائقے والا۔‘‘

’’جی نہیں! انہیں وہ پسند نہیں، کہتے ہیں اس سے جراثیم پوری طرح صاف نہیں ہوتے۔‘‘

’’کس کو پسند نہیں‘‘ اکبر انجان بنتے ہوئے بولے۔

’’جی آپ کے شیخو کو۔‘‘

’’اچھا اس شیخی خورے کو۔‘‘ بادشاہ سلامت برا سامنہ بناتے ہوئے بولے۔

’’جی نہیں شہزادہ سلیم کو‘‘ انار کلی نے ذرا اونچی آواز میں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

’’دیکھو انار کلی میں سلیم کا باپ ہوں۔‘‘

’’جی مجھے تو اس بارے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا ہے آپ کو شک ہو۔‘‘ انار کلی فوراً بات کاٹتے ہوئے بولی۔

’’لڑکی! میں جو بات کہنا چاہتا ہوں غور سے سنو۔ میں تمہیں اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتا۔‘‘ جلال الدین اکبر اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولے۔

’’بادشاہ سلامت یہاں تو کوئی اندھیرا نہیں۔ انہوں نے تو تین فانوس فالتو لگا دیئے ہیں۔‘‘ انار کلی نے دوبارہ بات کاٹتے ہوئے کہا۔

بادشاہ سلامت کو غصہ تو بہت آیا، اگر کوئی اور ہوتا تو اس گستاخی پر شاید اسے ہاتھی کے پاؤں تلے روندنے کا حکم دے دیا جاتا۔ مگر یہ تو انار کلی تھی جس نے مہابلی کو اپنے ناز و انداز اور حسن کے جلوؤں تلے روند ڈالا تھا۔ بادشاہ سلامت کچھ دیر بعد بولے۔ ’’ہم تمہیں سلیم کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں وہ تمہیں بھی مسکا لگا کر بہلا نہ دے۔ اس نے اسی طرح سینکڑوں لڑکیوں کی زندگی تباہ کی ہے۔‘‘ بادشاہ سلامت نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔

’’جی عالم پناہ! آخر آپ کا بیٹا آپ کے نقش قدم پر نہیں چلے گا تو کس کی پیروی کرے گا۔ آپ نے بھی تو اپنے حرم میں سینکڑوں رانیاں داخل کر رکھی ہیں۔‘‘ انار کلی کے اس جواب پر مہابلی تلملا کر رہ گئے۔

’’ہم نے تو انہیں رانیاں بنا کر رکھا ہوا ہے۔ انہیں سلیم کی طرح راستے میں ہی چھوڑ تو نہیں دیا۔ سلیم تو جس سے عشق کرتا ہے اسے جلد چھوڑ دیتا ہے۔‘‘

’’بادشاہ سلامت آپ فکر نہ کیجئے، سلیم میرے ساتھ ایسا نہیں کرے گا۔ میں اسے آٹھ سال سے جانتی ہوں۔‘‘

’’آٹھ سال سے؟‘‘ بادشاہ سلامت کو غش آنے لگے۔ وہ تو اپنا مدعائے دل بیان کرنے آئے تھے اور اس وہم میں تھے کہ شاید انار کلی کا وہم نکل جائے اور ان کے حرم کی رانیوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے۔ مگر یہاں تو عشق کی جڑیں ہی پرانی تھیں۔ تو گویا یہ انار کلی پکی پکی شہزادہ سلیم کی ہے۔ انہوں نے اس خیال سے کہ شاید کوئی ایسی بات نکل آئے جو سلیم کے خلاف جاتی ہو انہوں نے نار کلی کو کریدنا چاہا۔

’’تم سلیم کو کیسے جانتی ہو۔ تمہاری ملاقات کہاں اور کیسے ہوئی تھی۔‘‘ بادشاہ سلامت نڈھال ذہن کے ساتھ ست رنگی ادوائن والی منجھی پر بیٹھ گئے۔ انار کلی گھونگھٹ نکالے پیڑھی پر بیٹھ کر داستان عشق سنانے لگی۔

’’ظلِ الٰہی! ہماری پہلی ملاقات آج سے آٹھ سال قبل دلی سے شمال جنوب کی جانب ایک گاؤں میں پیر بھلے شاہ کے مزار پر ہوئی تھی۔ وہاں میلا لگا ہوا تھا۔ میں وہاں ’’گولڈن جنگلی تھیٹر‘‘ میں گانے کا پروگرام کرنے گئی تھی۔ اتفاق سے سلیم بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اسی میلے میں تھا۔ وہ دن بھر گول گپے، کھٹی چاٹ، مٹھی املی اور لوبیا چھولے کھاتا رہا اور اس کا گھوڑا ادھر ادھر بکھرے دوانوں (تربوز) کے چھلکے کھاتا رہا۔ کھاتے کھاتے گھوڑے کو دست لگ گئے۔ سلیم کا ایک مشٹنڈہ چمچہ سلوتری ڈاکٹر کو بلانے شہر چلا گیا اور سلیم وہیں رک گیا۔ شام کے وقت میں ماسی برکتے کے تنور سے روٹیاں لگوا رہی تھی کہ سلیم بھی وہیں روٹیاں لینے آ گیا۔ اس نے جب ماسی برکتے سے روٹی مانگی تو ماسی برکتے نے اسے پہچان لیا۔ در اصل ماسی برکتے کا نواسا یہاں محل میں باورچی ہے اور وہ اکثر یہاں اس سے ملنے آتی رہتی ہے۔ اس نے فوراً اٹھ کر آٹے سے لتھڑے ہوئے ہاتھوں سے سلیم کی بلائیں لیں۔ ’’وے پتر سنا کی حال ای۔۔۔۔ ایتھے کدھر آیاں ایں۔۔۔ ماں صدقے وے پیو اکبر دا کی حال ای۔۔‘‘ سلیم نے جب اسے بتایا کہ میلہ دیکھنے آیا تھا اور گھوڑے کو دست لگنے کی وجہ سے وہ یہیں رک گیا ہے تو ماسی برکتے بڑی خوش ہوئی اور کہا۔ ’’وے اللہ تینوں وی دست لاوے۔۔۔ تو ایتھے ای رہویں۔‘‘ ماسی برکتے کے پاس اپنا آٹا ختم ہو گیا تھا۔ اس نے میری منت کی اور میرے آٹے سے دو روٹیاں لگا کر سلیم کو دیں۔ ساتھ ہی پڑوس سے آلو گوبھی کا سالن منگوا کر دیا۔ وہیں میں نے سلیم کو ایک نظر دیکھا اور فریفتہ ہو گئی۔ اشاروں ہی اشاروں میں بات ہو گئی۔ میں چلی آئی۔ کہیں سلیم نے ماسی برکتے سے میرے بارے میں پوچھ لیا۔ اس نے صاف صاف بتا دیا کہ میں گولڈن جنگلی تھیٹر میں کام کرتی ہوں۔ اسی رات سلیم تھیٹر کا آخری شو دیکھنے چلا آیا۔ میں نے گانا شروع کیا تو حسب دستور کئی مشٹنڈوں نے نوٹوں کی بارش شروع کر دی۔ اتنے میں سلیم کے ساتھ بیٹھے اس کے ایک چمچے نے بھی ایک روپے کا نوٹ اس کے سر پر رکھ کر مجھے بلانے کی کوشش کی۔ میں گاتی، اٹھلاتی نوٹ اٹھانے جب چلی تو سلیم نے دس صفحے پر مشتمل محبت نامہ چپکے سے میرے ہاتھ میں دے دیا۔ پہلے تو میں گھبرائی پھر میں نے اس محبت نامہ کو بھی دوسرے نوٹوں کے ساتھ زنانہ بٹوے میں رکھ لیا۔ شو ختم ہوا، سب لوگ چلے گئے میں نے رات کو اٹھ کر اسے پڑھا۔ اس کی ایک ایک سطر سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا ’’انار کلی۔۔۔۔ بس ابا جان کے کوچ فرمانے کی دیر ہے، پھر ہندوستان کے تخت پر میں ہی براجمان ہوں گا۔ والد صاحب کے خاندانی منصوبہ بندی پر کچھ زیادہ ہی عمل کرنے سے میں اکلوتی اولاد ہوں۔ اس لئے تخت کے لئے روایتی مغل شہزادوں کی جنگ کا کوئی خطرہ نہیں۔ میں تمہیں مہارانی بنا کر رکھوں گا، وغیرہ وغیرہ۔‘‘ یوں مہابلی وارث ہندوستان، ان آٹھ سالوں میں ہماری محبت کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ وہ مجھ پر اس حد تک جان چھڑکتا ہے کہ تخت پر بیٹھتے ہی اس نے املی کے بوٹے لگانے اور کھٹی چاٹ کی وافر سپلائی کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

’’لیکن انار کلی یہاں تو تمہیں ہم لائے تھے۔‘‘ بادشاہ سلامت سر کھجاتے ہوئے پشیمان سے بولے۔

’’یہی تو وہ چال ہے۔۔۔ سلیم نے مجھے بتا دیا تھا کہ ابا جان جب بھی کسی خوبصورت عورت کو دیکھتے ہیں اسے رانی بنا کر ہی دم لیتے ہیں، اسے ڈر تھا کہ اگر وہ فوراً مجھے محل میں لے آتا تو اس کی بیوی کی بجائے ماں بن جاتی۔۔۔۔ ہمیں تو موقع کا انتظار تھا۔ پھر اتفاق سے ایک روز آپ دلی تشریف لائے اور گولڈن جنگلی تھیٹر میں گانا سنا۔۔۔ اور مجھے یہاں محل میں لے آئے۔‘‘

’’لیکن انار کلی ہم نے تو تمہیں دربار میں بلا کر گانا سنا اور تحفے دیئے، ہمارا خیال تھا کہ تم۔۔۔۔‘‘ بادشاہ سلامت نے اتنا ہی کہا تھا کہ انار کلی نے بات کاٹی۔

’’لیکن میرا خیال تھا کہ آپ وہ تحفے اپنی بہو کو دے رہے ہیں۔ ویسے ہمارا تو کام ہی گانا بجانا ہے۔ خواہ باپ کے سامنے گائیں یا بھائی کے سامنے۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے ایک بات پوچھوں حضور؟‘‘ انار کلی بڑی شوخ ادا سے بولی۔

’’اب کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟‘‘ بادشاہ سلامت یوں بولے جیسے کسی مجرم کو سزائے موت سنا کر اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی جا رہی ہو۔

’’ویسے آپ کب تک تخت سے دستبردار ہو رہے ہیں۔‘‘ انار کلی کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی بادشاہ سلامت کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا انہوں نے گرج دار آواز میں ’’گستاخ لڑکی‘‘ کہا اور سر پیٹتے ہوئے سرونٹ کوارٹر سے چلے گئے۔ وزیر اعظم مان سنگھ جو راستے میں دیوار کے ساتھ کھڑا کسی خوشخبری کا منتظر تھا، اس نے جب ظلِ الٰہی کا غصے سے لال چہرہ دیکھا تو گھبرا گیا۔ وہ بھی پیچھے پیچھے شاہی حجرے کی طرف گیا۔ بادشاہ سلامت نے اندر داخل ہوتے ہی دونوں کواڑوں کو پیچھے دیکھے بغیر زور سے بند کیا۔ مان سنگھ نے اس وقت قدم اندر رکھا ہی تھا۔ دونوں کو اڑاس زور سے مان سنگھ کے منہ پر پڑے کہ پشت کے بل گر پڑا۔ ہمت کر کے اٹھا اور پگڑ سنبھال کر بادشاہ کے بیڈ پر بیٹھ کر انہیں تسلیاں دینے لگا۔ ظلِ الٰہی نے جب سلیم اور انار کلی کے آٹھ سالہ عشق کا انکشاف دلخراش کیا تو مان سنگھ کو یوں لگا جیسے صدر مملکت نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کے اختیارات محدود کر دیئے ہیں۔ مان سنگھ کو اپنا اقتدار جاتا ہوا محسوس ہوا۔ مان سنگھ نیچے قالین پر آلتی بالتی مار کر بیٹھ گیا اور موڑھے سے تیلا نکال کر دانتوں میں خلال کرنے لگا۔ اچانک وہ اچھلا اور چٹکی بجانے لگا۔

’’تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ شرم نہیں آتی تمہیں چٹکیاں بجاتے ہوئے۔‘‘ بادشاہ سلامت روٹھے انداز میں بولے۔

’’بادشاہ سلامت کیا آئیڈیا آیا ہے۔‘‘

سلیم اور انار کلی کی شادی پر ودھائی دینے کا۔۔۔‘‘ وہ جل بھن کر بولے۔

’’حضور آپ کے اور انار کلی کے ملاپ کا۔‘‘

’’اب تو ہمارا ملاپ نا ممکن ہے مان سنگھ۔۔۔ خدا ایسی اولاد کو موت ہی دے دے جو باپ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتی ہے۔‘‘ اکبر روہانسو آواز میں بولے۔

’’حضور سنیں تو سہی پسند نہ آیا تو جو سزا سلیم کی وہ میری۔‘‘

’’اچھا تو یہ بات ہے۔۔۔ جلدی بتاؤ۔‘‘

’’بادشاہ سلامت آپ ہارس ٹریڈنگ کریں، پلی بارگیننگ کریں۔‘‘

’’میں اور گھوڑوں کی تجارت۔۔۔ نا لائق۔۔ ہندوستان کا بادشاہ ہوں میں کوئی سٹڈ فارم کا مالک نہیں۔‘‘ بادشاہ سلامت کو غصہ آ گیا۔

’’بادشاہ سلامت! ہارس ٹریڈنگ کا مطلب یہ ہے کہ شہزادہ سلیم اور اس کے چمچوں کے درمیان پھوٹ ڈال کر سلیم کو بے بس کر دیا جائے۔‘‘

’’ہائیں واقعی؟‘‘ ظلِ الٰہی کی خوشی سے آنکھیں کھل گئیں۔ ’’مان سنگھ تم واقعی عقلمند ہو۔۔۔۔ ذرا تفصیل سے بتاؤ۔‘‘

یوں مان سنگھ نے چپکے چپکے، دھیرے دھیرے مکمل راز داری سے بادشاہ سلامت کو تفصیل بتا دی۔

٭-٭

سرونٹ کوارٹر کے بیرونی گیٹ پر دونوں محافظوں کو بیک وقت ہوش آ گیا۔ انہوں نے سوچا شاید زلزلہ آ گیا تھا یا انہیں مرگی کا دورہ پڑا تھا۔ انہیں اس بات کی تشویش ہوئی کہ اگر ان کی بے ہوشی کے دوران کوئی انار کلی کو اٹھا کر لے جاتا تو وہ سلیم کو کیا جواب دیتے اور یوں وہ عہد سلیم میں وزارت کے منصب سے محروم ہو جاتے۔ بادشاہ سلامت کے جاتے ہی انار کلی نے برتن مانجھے، کپڑے ڈنڈا مار صابن سے دھوئے اور چھت پر دری بچھا کر بیٹھ گئی۔ دھوپ گرم تھی۔ اس لئے بال کھولے اور شیشہ سامنے رکھ کر پلاسٹک کی باریک کنگھی سے جوئیں نکالنے لگی۔ کہ اتنے میں سلیم کے اندر داخل ہونے کی آواز آئی۔ اس نے زور سے پکارا ’’انار کلی۔۔۔ وہ تمہارا جوئیں مار لوشن نہیں ملا۔۔۔۔۔‘‘

سلیم اور اتنی جلدی۔۔۔ انار کلی خوش بھی ہوئی اور حیران زدہ بھی۔

’’لیکن کیوں۔ میں تو پہلے ہی سر کھجا کھجا کر گنجی ہوتی جا رہی ہوں۔‘‘

’’کوئی بات نہیں انارکلی۔ ہم تمہارے لئے ولایت سے وگ منگوا دیں گے۔‘‘

’’چلو جاؤ۔ برتنوں کے لئے وِم پاؤڈر تو لا کر دیتے نہیں یہ وگ کیسے آئے گی۔‘‘ انار کلی روٹھ گئی۔

’’انار کلی! صرف چند یوم مزید صبر کرو۔ میں تمہارے لئے وِم پاؤڈر کا ذاتی کارخانہ لگوا دوں گا۔ تمہاری بھینس کے لئے آٹو میٹک دودھ دوہنے والی مشین خرید دوں گا۔ واشنگ مشین اور ڈش واشر بھی‘‘۔

’’کب‘‘ انار کلی نے چھیڑا۔

’’بس ذرا ابا حضور کو رحلت فرما لینے دو۔‘‘

’’یہ تو سب ٹھیک ہے۔ لیکن کیا جوئیں بھی ابا حضور کے چالیسویں پر ختم ہو جائیں گی۔ اس وقت تک تو وہ میرا سارا خون پی جائیں گی۔‘‘

انار کلی آج بازار میں ہڑتال تھی، پرسوں بازار کھلیں گے تو جوئیں مار لوشن ضرور لا دوں گا۔‘‘

٭-٭

دوہی روز میں جہاں پناہ شہنشاہ ہندوستان جلال الدین اکبر نے سلیم کے تمام اہم دوستوں کے بارے میں معلومات کی فائل تیار کر لی اور اسی روشنی میں روزانہ تین چار دوستوں سے خفیہ ملاقات کا بندوبست بھی فرما دیا گیا۔ تیسرے دن سلیم پھر شہر گیا تو اس دفعہ سارے مشٹنڈے یہیں رہے۔ بادشاہ سلامت کے لئے یہ سنہری موقع تھا۔ انہوں نے مان سنگھ کو بلا کر منصوبے پر عمل شروع کیا۔ پہلے بڑے چمچے کو بلایا گیا۔ وہ بادشاہ کے حضور بڑی اکڑ اور تنی گردن کے ساتھ پیش ہوا۔

’’ہاں تو فیقے کیا حال ہے۔‘‘

’’اوجی حال کو ماریں گولی۔ بتائیں مجھے کیوں بلایا ہے؟‘‘ فیقے نے گردن سیدھی کرتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو فیقے وقت آ گیا ہے کہ تمہیں حقیقت سے آگاہ کر ہی دوں۔۔۔ وہ تمہاری بہن ہے ناں شیداں۔‘‘

’’اوئے اکبرا‘‘ محل میں فیقے کی بڑھک گونجی۔۔۔ ’’ قسم خدا کی اگر تم نے پھر شیداں کا نام لیا تو اچھا نہ ہو گا۔‘‘ فیقے نے پھڑکتے ہوئے کہا۔ اس کا خیال تھا شاید مہابلی اس کی بہن شیداں کو رانی بنانے والے ہیں۔

’’فیقے اگر تم کن ٹٹے نہ ہوتے تو میری بات سمجھ جاتے۔ شیداں ہماری بیٹی ہے۔‘‘

’’تو پھر کیا بات ہے۔‘‘ فیقے نے قالین پر غصہ تھوکتے ہوئے کہا۔

’’آہ! آہ! آہ! بات در اصل یہ ہے کہ ہم شیداں کو اپنی بہو بنانا چاہتے تھے اور ہم نے تمہاری ماں سے وعدہ بھی کیا تھا۔‘‘ ظلِ الٰہی نے منہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا۔

’’بہو؟‘‘ فیقے کے ٹٹے کن سائیں سائیں کرنے لگے۔ ’’بادشاہ سلامت یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سلیم تو انار کلی کو املیاں اور کھٹی چاٹ کھلاتا ہے۔‘‘ فیقے کی آواز میں یک دم نرمی آ گئی۔

’’برخوردار ہم نے آج سے نو سال پہلے جب تمہاری بہن کو دیکھا تو اسی وقت اسے اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارا جیجا جی ایسا شخص ہو جو ہندوستان کا وارث ہو اور تم وزیر بننے کی بجائے برادر نسبتی بن کر ملک و قوم کی دولت کو جی بھر کو لوٹو۔‘‘ بادشاہ سلامت نے ایک اور پتہ پھینکا۔

’’جی وہ تو ہے۔۔۔۔ لیکن انار کلی۔۔۔۔‘‘ فیقہ بادشاہ کے پاؤں پڑ گیا۔

’’دیکھو اگر تم سلیم کے سالے بن کر ہماری آرزوؤں کو پورا کرنا چاہتے ہو تو تمہیں ایک کام کرنا ہو گا۔‘‘

’’جی میں اپنی بہن کی خاطر انار کلی کو شپک بھی کر سکتا ہوں۔‘‘

’’نہ نہ ایسا نہ کرنا۔ تم صرف سلیم کی حمایت سے دستبردار ہو جاؤ۔ باقی ہم کر لیں گے۔۔۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس ملاقات کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔‘‘

’’میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہ بھولوں گا جہاں پناہ۔‘‘ فیقے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جہاں پناہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ آنکھوں سے لگایا اور کورنش بجاتا ہوا نکل گیا۔ مان سنگھ نے دروازہ بند کیا اور پھر بادشاہ اور وزیر اعظم دونوں دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔ اگلے دن بادشاہ سلامت نے سلیم کے ایک ایک چمچے کو تنہائی میں بلا کر اسے یہ یقین دلایا کہ وہ اسی کی بہن کی شادی سلیم سے کرنا چاہتے تھے مگر انار کلی نے اسے ولی عہد کے برادر نسبتی بننے سے روک دیا ہے اور یہ کہ اگر وہ سلیم کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں تو اس کی بہن رانی بن سکتی ہے۔ یوں مان سنگھ کے بتائے ہوئے منصوبے کے ذریعے سلیم کے تقریباً تمام چمچے جلال الدین اکبر کی مٹھی میں تھے اور پھر عین اس دن جب کہ سلیم سارا سامان گدھوں پر لاد چکا تھا اور کشمیر جانے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ شاہی سپاہیوں نے سلیم اور انار کلی کو سرکار کی اجازت کے بغیر سرونٹ کوارٹر پر قبضہ کرنے، املی کی گٹھلیاں پھینک کر محل میں آلودگی پھیلانے اور بادشاہ کی طرف سے منعقد کی گئی ایک رقص پارٹی میں شرکت نہ کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ سلیم کو توقع تھی کہ اس کے چمچے سپاہیوں کے خلاف مزاحمت کریں گے مگر کوئی بھی آگے نہ بڑھا۔ سلیم اور انار کلی کو علیحدہ علیحدہ جیل خانوں میں بند کر دیا گیا۔ نصف شب کے قریب بادشاہ سلامت مان سنگھ کے ہمراہ اس کوٹھڑی کی جانب بڑھے جہاں انار کلی کو بند کیا گیا تھا۔ مان سنگھ موم بتی کی روشنی میں آگے آگے تھا اور بادشاہ سلامت پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ جب وہ انار کلی کی کوٹھڑی کے قریب پہنچے تو انار کلی اٹھ کر آئی اور سلاخوں کے پیچھے سے ہاتھ جوڑ کو بولی ’’ظل الٰہی، جہاں پناہ! ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘

’’انار کلی! قصور تو قصوریوں کا ہے۔ دیکھو ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں۔۔۔۔ لو۔۔۔۔ تم صبح سے بھوکی ہو، یہ لو گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئی۔۔۔۔ ہم نے اسے بطور خاص تمہارے لئے پکوایا ہے۔ پہلے کچھ کھا لو پھر بات کریں گے۔‘‘

’’پہلے مجھے یہ بتائیں مجھے جیل میں کیوں ڈالا گیا ہے۔‘‘ انار کلی روتے ہوئے بولی۔

’’دیکھو انار کلی۔۔ تم سمجھدار ہو۔۔ ہم اس دن بھی تم سے کھل کر بات کرنا چاہتے تھے لیکن تمہاری بے وقوفی سے بات دل کی دل میں ہی رہ گئی۔۔۔ سلیم کوئی اس تخت کا زیادہ حقدار تو نہیں ہے۔ ہم بھی تو تمہیں مہارانی بنا سکتے ہیں۔ تمہاری خاطر پورے ملک میں املی کے درخت اور کھٹی چاٹ کی ریڑھیاں لگوا سکتے ہیں۔۔۔ یہ سلیم کی ضد تم چھوڑ کیوں نہیں دیتیں۔‘‘

اب انار کلی بادشاہ سلامت کی نیت بھانپ گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر نعمت خان الٹا دیا۔

’’لڑکی‘‘ بادشاہ سلامت گرجے ’’یہ سرونٹ کوارٹر نہیں جیل ہے جانتی ہو اس جرم کی کیا سزا ہے۔ ہم تمہیں قتل کروا دیں گے‘‘۔

’’مجھے آپ کی اس حرکت کا پہلے ہی پتہ تھا۔ سلیم کو آزاد ہو لینے دو پھر دیکھنا تمہارا تخت رہتا ہے یا تختہ۔‘‘ انار کلی دھاڑی۔

’’دیکھو انار کلی ضد نہ کرو۔۔۔ ہم تم سے درخواست کرتے ہیں۔ آخری بار ہمارے دل کی لاج رکھ لو۔۔۔ ورنہ یاد رکھنا اگر محبت نفرت میں بدل جائے تو۔۔۔۔‘‘ اکبر نے سر کو جھکا تے ہوئے کہا۔

’’تم لاکھ بھیس بدل کر آؤ،۔ میں کل بھی سلیم کی تھی اور آج بھی سلیم کی ہوں اور آئندہ بھی سلیم کی ہی رہوں گی‘‘۔ انار کلی نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا۔

’’اگر تم میری نہیں ہو سکی تو سلیم کی بھی نہیں ہو سکو گی۔ ہم تمہیں کل ہی موت کی سزا سنا دیں گے‘‘۔ بادشاہ سلامت پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔

٭-٭

بادشاہ سلامت نے دربار لگانے سے پہلے سلیم کے ان تمام چمچوں کو ایک دفعہ پھر باری باری تنہائی میں بلایا اور انہیں یقین دلایا کہ وہ سلیم کے برادر نسبتی اسی وقت بن سکتے ہیں جب انار کلی کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ ہر ایک نے قسم کھائی کہ وہ اپنی بہن کی خوشی کی خاطر خود اپنے ہاتھوں سے انار کلی کو موت کے گھاٹ اتار دے گا لیکن جہاں پناہ نے انہیں کہا کہ یہ کام وہ خود کریں گے۔ بس وہ لوگ اپنی زبانیں بند رکھیں۔

٭-٭

بادشاہ سلامت شاہی تخت پر جلوہ افروز تھے۔ آج دربار میں انار کلی کے بارے میں ایک اہم فیصلہ کیا جانا تھا۔ جب تمام درباری، ہزاری، سوا لکھ واری، چمچے، چیلے، اور چیونٹے اکٹھے ہو گئے تو انار کلی کو دربار میں پیش کیا گیا۔ اور پھر اس کا بیان سنے بغیر اسے واپس جیل بھیج دیا گیا۔ سلیم کو عدالت میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ درباریوں نے بادشاہ کی طرف سے تیار کر دہ فرد جرم سنی۔ جس میں انار کلی کا سلیم کو بہکانا، سرونٹ کوارٹر پر نا جائز قبضہ کر کے تخت پر بیٹھنے کی سازش تیار کرنا، اور شاہی احکامات کی رو گردانی کر کے محل میں املی اور کھٹی چاٹ کے بوٹے اور ریڑھیاں لگانے کا منصوبہ بنانا وغیرہ شامل تھے۔ اس جرم میں تمام دربار نے متفقہ طور پر انار کلی کو سزائے موت سنا دی۔ اور یہ سزا بھی ایسی کہ انار کلی کو دیوار میں چن دیا جائے۔ اس دوران سلیم کو یہ بھنک بھی نہ پڑنے دی گئی کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ جس روز سزا پر عمل در آمد ہونا تھا۔ جہاں پناہ ایک دفعہ پھر انار کلی کے پاس گئے۔ اور آخری بار اسے ملکہ بنانے کی پیش کش قبول کرنے کی التجا کی۔ مگر وہ بھی اتنی ڈھیٹ نکلی کہ اپنی بات پر اڑی رہی۔ اسے وہم تھا کہ شاید سلیم کو اس ساری صورتحال کا علم ہی نہیں اور یہ کہ سلیم کے چمچے اسے اور سلیم کو ابھی چھڑا لیں گے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ بادشاہ سلامت کو کب گوارا تھا کہ اس کی محبوبہ اس کے بیٹے کے دل کی رانی بن کر اس کی چھاتی پر مونگ دلتی رہے۔ بادشاہ کے خاص اہلکار انار کلی کو اسی کی رنگلی منجھی کی رسیوں سے باندھ کر محل سے دور۔۔۔ بہت دور ایک خفیہ بیگار کیمپ میں لے گئے۔ جہاں اسے پہلے خوب بھنگ پلائی گئی تاکہ وہ بے سدھ ہو جائے۔ پھر ایک مینار بنا یا گیا۔ جس کے نچلے حصہ میں انارکلی کو کھڑا کر کے مینار کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ جب تک بھنگ کا نشہ اترا۔ اس وقت تک بادشاہ کے کارندے  جا چکے تھے۔ انارکلی آخر دم تک اس وہم میں مبتلا رہی کہ ابھی سلیم آیا، ابھی سلیم کے چمچے آئے اور اسے چھڑا کر لے جائیں گے۔ مگر وہ بے وقوف۔۔۔ اسے نہ پلی بارگیننگ کا پتہ تھا اور نہ وہ جانتی تھی کہ بیک وقت شہزادہ سلیم اور شہنشاہ معظم کو کیسے خوش رکھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ جہاں پناہ، وارث ہندوستان، ظل الٰہی، مہابلی جلال الدین اکبر کی درد مندانہ پیش کش کو قبول کر لیتی تو خود بھی زندہ رہتی اور سلیم کو بھی پا لیتی۔ آخر اس بڈھے شہنشاہ کی باقی عمر ہی کتنی رہ گئی تھی۔ مگر وہ ان باتوں کو سمجھ نہ سکی۔ پھر ہوا یہ کہ نہ اسے سلیم ملا اور نہ وہ ہندوستان کے بادشاہ کی مہارانی بن سکی۔ اور راز داری سے ہمیشہ کے لئے دنیا سے چلی گئی۔

(تیس روزہ چاند جنوری، فروری، مئی ۱۹۹۱ء، تین اقساط میں)

٭٭٭

ماخذ: کتاب ’چاند کی گود میں‘

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید