FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ام الکتاب

 

حصہ دوم

 

 

                   مولانا ابو الکلام آزاد

 

ٹائپنگ: اردو محفل کے اراکین۔ شمشاد خان،  نبیل نقوی،  مقدس،  محمد امین،  ذیشان حیدر،  میر انیس،  فرحت کیانی

 

 

 

 

 

 

 

                   اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ (۷)

 

ہدایت

 

"ہدایت” کے معنی رہنمائی کرنے،  راہ دکھانے،  راہ پر لگا دینے کے ہیں۔ اجمالاً اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ یہاں ہم چاہتے ہیں ہدایت کے مختلف مراتب و اقسام پر نظر ڈالیں جن کا قرآن حکیم نے ذکر کیا ہے اور جن میں سے ایک خاص مرتبہ وحی و نبوت کی ہدایت کا ہے۔

 

تکوین وجود کے مراتب اربعہ

 

تم ابھی پڑھ چکے ہو کہ خدا کی ربوبیت نے جس طرح مخلوقات کو ان کے مناسب حال جسم و قویٰ دیے ہیں،  اسی طرح ان کی ہدایت کا فطری سامان بھی مہیا کر دیا ہے۔ فطرت کی یہی ہدایت ہے جو ہر وجود کو زندگی و معیشت کی راہ پر لگاتی اور ضروریات زندگی کی جستجو میں رہنما ہوتی ہے۔ اگر فطرت کی یہ ہدایت موجود نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ کوئی مخلوق بھی زندگی کو بقا کا سامان بہم پہنچا سکتی۔ چنانچہ قرآن نے جا بجا اس حقیقت پر توجہ دلائی ہے۔ وہ کہتا ہے : ہر وجود کے بننے اور درجہ تکمیل تک پہنچنے کے مختلف مراتب ہیں اور ان میں آخری مرتبہ ہدایت کا مرتبہ ہے۔ سورۃ الاعلیٰ میں بالترتیب چار مرتبوں کا ذکر کیا گیا ہے :

الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّىٰ (۲)وَالَّذِی قَدَّرَ فَهَدَىٰ (۳) – سورۃ نمبر ۸۷

وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی،  پھر اسے درست کیا،  پھر ایک اندازہ ٹھہرا دیا،  پھر اس پر راہ (عمل) کھول دی۔

یعنی تکوین وجود کے چار مرتبے ہوئے،  تخلیق،  تسویۃ،  تقدیر،  ہدایت

"تخلیق” کے معنی پیدا کرنے کے ہیں۔ یہ بات کہ کائنات خلقت اور اس کے ہر وجود کا مواد عدم سے وجود میں آ گیا ہے،  تخلیق ہے۔

"تسویۃ” کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز کو جس طرح ہونا چاہیے،  ٹھیک اسی طرح درست اور آراستہ کر دینا۔

"تقدیر” کے معنی اندازہ ٹھہر دینے کے ہیں اور اس کی تشریح اوپر گزر چکی ہے۔

"ہدایت” سے مقصود یہ ہے کہ ہر وجود پر اس کی زندگی و معیشت کی راہ کھول دی جائے اور اس کی تشریح بھی ربوبیت کے مبحث میں گزر چکی ہے۔

مثلاً مخلوقات میں ایک خاص قسم پرند کی ہے :

۱) یہ بات کہ ان کا مادہ خلقت ظہور میں آ گیا تخلیق ہے۔

۲) یہ بات کہ ان کے تمام ظاہری و باطنی قویٰ اس طرح بنا دیئے گئے کہ ٹھیک ٹھیک قوام و اعتدال کی حالت پیدا ہو گئی،  تسویۃ ہے۔

۳) یہ بات کہ ان کے ظاہری و باطنی قویٰ کے اعمال کے لیے ایک خاص طرح کا اندازہ ٹھہر دیا گیا ہے جس سے وہ باہر نہیں جا سکتے،  تقدیر ہے۔ مثلاً یہ کہ ہوا میں اڑیں گے،  مچھلیوں کی طرح پانی میں تیریں گے نہیں۔

۴) یہ بات کہ ان کے اندر وجدان و حواس کی روشنی پیدا ہو گئی جو انہیں زندگی و بقا کی راہیں دکھاتی اور سامان حیات کے طلب و حصول میں رہنمائی کرتی ہے،  ہدایت ہے۔

قرآن کہتا ہے خدا کی ربوبیت کا مقتضی یہی تھا کہ جس طرح اس نے ہر وجود کو اس کا جامہ ہستی عطا فرمایا اور اس کے ظاہری و باطنی قوی درست کر دیے اور اس کے اعمال کے لیے ایک مناسب حال اندازہ ٹھہر دیا،  اسی طرح اس کی ہدایت کا بھی سامان کر دیا :

قَالَ رَبُّنَا الَّذِی أَعْطَىٰ كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ (۲۰:۵۰)

(موسیٰ نے ) کہا : ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔

قرآن نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا جو مکالمہ جا بجا نقل کیا ہے،  اس میں حضرت ابراہیم اپنے عقیدے کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ لِأَبِیهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِی بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ (۴۳:۲۷)إِلَّا الَّذِی فَطَرَنِی فَإِنَّهُ سَیَهْدِینِ (۴۳:۲۷)

اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور قوم سے کہا تھا: تم جن (دیوتاؤں ) کی پرستش کرتے ہو،  مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں،  میرا اگر رشتہ ہے تو اس ذات سے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہنمائی گی۔

الَّذِی فَطَرَنِی فَإِنَّهُ سَیَهْدِینِ (۴۳:۲۷)

یعنی جس خالق نے مجھے جسم و وجود عطا فرمایا ہے،  ضروری ہے کہ اس نے میری ہدایت کا بھی سامان کر دیا ہو۔

سورۃ شعراء میں یہی بات زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے :

الَّذِی خَلَقَنِی فَهُوَ یَهْدِینِ (۲۷:۷۸)وَالَّذِی هُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ (۲۷:۷۹)وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِینِ (۲۷:۸۰)

جس پروردگار نے مجھے پیدا کیا ہے،  وہی میری ہدایت کریگا،  اور پھر وہی ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے،  اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو شفا بخشتا ہے۔

یعنی جس پروردگار کی پروردگاری نے میری تمام ضروریات زندگی کا سامان کر دیا ہے،  جو مجھے بھوک کے لیے غذا،  پیاس کے لیے پانی اور بیماری میں شفا عطا فرماتا ہے،  کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے مجھے پیدا تو کر دیا ہو،  لیکن میری ہدایت کا سامان نہ کیا ہو؟ اگر اس نے مجھے پیدا کیا ہے تو یقیناً وہی ہے جو طلب و سعی میں میری رہنمائی بھی کرے۔

سورۃ صفّٰت میں یہی مطلب ان لفظوں میں ادا کیا گیا ہے :

وَقَالَ إِنِّی ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّی سَیَهْدِینِ (۳۷:۹۹)

اور (ابراہیم نے ) کہا : میں (ہر طرف سے کٹ کر) اپنے پروردگار کا رخ کرتا ہوں،  وہ میری ہدایت کرے گا۔

"ربی” کے لفظ پر غور کرو! وہ میرا "رب” ہے اور جب وہ "رب” ہے تو ضروری ہے کہ وہی مجھ پر راہ عمل بھی کھول دے۔

 

ہدایت کے ابتدائی تین مرتبے

 

پھر ہدایت کے بھی مختلف مراتب ہیں جو ہم حیوانات میں محسوس کرتے ہیں :

سب سے پہلا مرتبہ وجدان کی ہدایت کا ہے۔ وجدان طبیعت حیوانی کا فطری اور اندرونی الہام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی غذا کے لیے رونے لگتا ہے اور پھر بغیر اس کے کہ خارج کی کوئی رہنمائی اسے ملی،  ماں کی چھاتی منہ میں لیتے ہی اسے چوستا اور اپنی غذا حاصل کر لیتا ہے۔

وجدان کے بعد حواس کی ہدایت کا مرتبہ ہے اور وہ اس سے بلند تر ہے۔ یہ ہمیں دیکھنے،  سننے،  چکھنے،  چھونے اور سونگھنے کی قوتیں بخشتی ہے اور انہیں کے ذریعے ہم خارج کا علم حاصل کرتے ہیں۔

ہدایت فطرت کے یہ دونوں مرتبے انسان اور حیوان سب کے لیے ہیں،  لیکن جہاں تک انسان کا تعلق ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک تیسرا مرتبہ ہدایت بھی موجود ہے اور وہ عقل کی ہدایت ہے۔ فطرت کی یہی ہدایت ہے جس نے انسان کے آگے غیر محدود ترقیات کا دروازہ کھول دیا ہے اور اسے کائنات ارضی کی تمام مخلوقات کا حاصل و خلاصہ بنا دیا ہے۔

وجدان کی ہدایت اس میں سعی و طلب کا ولولہ پیدا کرتی ہے،  حواس اس کے لیے معلومات بہم پہنچاتے ہیں اور عقل نتائج و احکام مرتب کرتی ہے۔ حیوانات کو اس آخری مرتبے کی ضرورت نہ تھی،  اس لیے ان کا قدم وجدان اور حواس سے آگے نہیں بڑھا،  لیکن انسان میں یہ تینوں مرتبے جمع ہو گئے۔

جوہر عقل کیا ہے ؟ دراصل اسی قوت کی ایک ترقی یافتہ حالت ہے جس نے حیوانات میں وجدان اور حواس کی روشنی پیدا کر دی ہے۔ جس طرح انسان کا جسم اجسام ارضی کی سب سے اعلیٰ کڑی ہے۔ اسی طرح اس کی معنوی قوت بھی تمام معنوی قوتوں کا بدترین جوہر ہے۔ روح حیوانی کا وہ جوہر ادراک جو نباتات میں مخفی اور حیوانات کے وجدان و مشاعر میں نمایاں تھا،  انسان کے مرتبے میں پہنچ کر درجہ کمال تک پہنچ گیا اور جوہر عقل کے نام سے پکارا گیا۔ ہر مرتبہ ہدایت ایک خاص حد سے آگے رہنمائی نہیں کر سکتا۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہدایت فطرت کے ان تینوں مرتبوں میں ہر مرتبہ اپنی قوت و عمل کا ایک خاص دائرہ رکھتا ہے،  اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا،  اور اگر اس مرتبے سے ایک دوسرا بلند تر مرتبہ موجود نہ ہوتا تو ہماری معنوی قوتیں اس حد تک ترقی نہ کر سکتیں جس حد تک فطرت کی رہنمائی سے ترقی کر رہی ہیں۔

وجدان کی ہدایت ہم میں طلب و سعی کا جوش پیدا کرتی ہے اور مطلوبات زندگی کی راہ پر لگاتی ہے،  لیکن ہمارے وجود سے باہر جو کچھ موجود ہے اس کا ادراک حاصل نہیں کر سکتی،  یہ کام مرتبہ حواس کی ہدایت کا ہے۔ وجدان کی رہنمائی جب درماندہ ہو جاتی ہے تو حواس کی دستگیری نمایاں ہوتی ہے،  آنکھ دیکھتی ہے،  کان سنتا ہے،  زبان چکھتی ہے،  ہاتھ چھوتا ہے،  ناک سونگھتی ہے،  اور اس طرح ہم اپنے وجود سے باہر کی تمام محسوس اشیاء کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں۔

لیکن حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد تک ہی کام دے سکتی ہے،  اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ آنکھ دیکھتی ہے،  مگر صرف اسی حالت میں جب کہ دیکھنے کی تمام شرطیں موجود ہوں۔ اگر کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے مثلاً روشنی نہ ہو یا فاصلہ زیادہ ہو تو ہم آنکھ رکھتے ہوئے بھی ایک موجود چیز کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ علاوہ بریں حواس کی ہدایت صرف اتنا ہی کر سکتی ہے کہ اشیاء کی احساس پیدا کر دے۔ لیکن مجرد احساس کافی نہیں ہے۔ ہمیں استنباط و استثناج کی ضرورت ہے،  احکام کی ضرورت ہے،  کلیات کی ضرورت ہے اور یہ کام عقل کی ہدایت کا ہے۔ وہ ان تمام مدرکات کو جو حواس کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں،  ترتیب دیتی ہے اور ان سے احکام و کلیات کا استنباط کرتی ہے۔

ہر مرتبہ ہدایت اپنی تصحیح و نگرانی میں بالاتر مرتبہ ہدایت کا محتاج ہے۔

علاوہ بریں جس طرح وجدان کی نگرانی کے لیے حواس و مشاعر کا ضرورت تھی،  اسی طرح حواس کی تصحیح و نگرانی کے لیے عقل کی ضرورت ہوئی۔ حواس کا ذریعہ ادراک نہ صرف محدود ہی ہے،  بلکہ بسا اوقات غلطی و گمراہی سے بھی محطوظ نہیں۔ ہم دور سے ایک چیز دیکھتے  ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ایک سیاہ نقطے سے زیادہ حجم نہیں رکھتی،  حالانکہ وہ ایک عظیم الشان گنبد ہوتا ہے۔ ہم بیماری حالت میں شہد جیسی میٹھی چیز چکھتے ہیں،  لیکن ہمارا حاسۂ  ذوق یقین دلاتا ہے کہ مزہ کڑوا ہے۔ ہم تالاب میں ایک لکڑی کا عکس دیکھتے ہیں،  لکڑی مستقیم ہوتی ہے،  لیکن عکس میں ٹیڑھی دکھائی دیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کسی عارضے کی وجہ سے کان بجنے لگتے ہیں اور ہمیں ایسی صدائیں سنائی دیتی ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں۔ اگر مرتبۂ  حواس سے ایک بلند مرتبہ ہدایت کا وجود نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ ہم حواس کی ان درماندگیوں میں حقیقت کا سراغ پا سکتے۔ لیکن ان تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت نمودار ہوتی ہے،  وہ حواس کی درماندگیوں میں ہماری رہنمائی کرتی ہے،  وہ ہمیں بتاتی ہے کہ سورج ایک عظیم الشان کرہ ہے،  اگرچہ ہماری آنکھ اسے ایک سنہری تھال سے زیادہ محسوس نہیں کرتی۔ وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ شہد کا مزہ ہر حال میں میٹھا ہے اور اگر ہمیں کڑوا محسوس ہوا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ ہمارے منہ کا مزہ بگڑ گیا ہے۔ اسی طرح وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ بعض اوقات خشکی بڑھ جانے سے کان بجنے لگتے ہیں اور اس حالت میں جو صدائیں سنائی دیتی ہیں وہ خارج کی صدائیں نہیں ہوتیں،  خود ہمارے ہی دماغ کی گونج ہوتی ہے۔

 

ہدایت فطرت کا چوتھا مرتبہ

 

لیکن جس طرح وجدان کے بعد حواس کی ہدایت نمودار ہوئی،  کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی،  اور جس طرح حواس کے بعد عقل کی ہدایت نمودار ہوئی،  کیونکہ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی،  ٹھیک اسی طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ عقل کی ہدایت کے بعد بھی ہدایت کا کوئی مزید مرتبہ ہونا چاہیے،  کیونکہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور اس کے دائرہ عمل کے بعد بھی ایک دائرہ باقی رہ جاتا ہے۔ عقل کی کارفرمائی جیسی کچھ اور جتنی کچھ بھی ہے محسوسات کے دائرے میں محدود ہے،  یعنی وہ صرف اسی حد تک کام دے سکتی ہے جس حد تک ہمارے حواس خمسہ معلومات بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ لیکن محسوسات کی سرحد سے آگے کیا ہے ؟ اس پردے کے پیچھے کیا ہے جس سے آگے ہماری چشم حواس نہیں بڑھ سکتی؟ یہاں  پہنچ کر عقل یک قلم درماندہ ہو جاتی ہے،  اس کی ہدایت ہمیں کوئی روشنی نہیں دے سکتی۔

علاوہ بریں جہاں تک انسان کی عملی زندگی کا تعلق ہے،  عقل کی ہدایت نہ تو ہر حال میں کافی ہے،  نہ ہر حال میں مؤثر۔ نفس انسانی طرح طرح کی خواہشوں اور جذبوں سے کچھ اس طرح مقہور واقع ہوا ہے کہ جب کبھی عقل اور جذبات میں کش مکش ہوتی ہے تو اکثر حالتوں میں فتح جذبات ہی کے لیے ہوتی ہے۔ بسا اوقات عقل ہمیں یقین دلاتی ہے کہ فلاں فعل مضر اور مہلک ہے۔ لیکن جذبات ہمیں ترغیب دیتے ہیں اور ہم اس کے ارتکاب سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے۔ عقل کی بڑی سے بڑی دلیل بھی ہمیں ایسا نہیں بنا دے سکتی کہ غصے کی حالت میں بے قابو نہ ہو جائیں اور بھوک کی حالت میں مضر غذا کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں۔

اچھا! اگر خدا کی ربوبیت کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہمیں وجدان کے ساتھ حواس بھی دے،  کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی،  اور اگر ضروری تھا کہ حواس کے ساتھ عقل بھی دے،  کیوں کہ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تو کیا ضروری نہ تھا کہ عقل کے ساتھ کچھ اور بھی دے ؟ کیوں کہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور اعمال کی درستگی و انضباط کے لیے کانی نہیں اگر اس نے وجدان کے ساتھ حواس بھی دیے تاکہ وجدان کی لغزشوں میں نگرانی کریں،  اور حواس کے ساتھ عقل بھی دی تاکہ حواس کی غلطیوں میں قاضی و حاکم ہو تو کیا ضروری نہ تھا کہ عقل کے ساتھ کچھ اور بھی دیتا؟ تاکہ عقل کی درماندگیوں میں رہنما ہوتا اور فیصلہ کن ہوتا۔

قرآن کہتا ہے کہ ضروری تھا،  اور اسی لیے اللہ کی ربوبیت نے انسان کے لیے ایک چوتھے مرتبہ ہدایت کا بھی سامان کر دیا۔ یہی مرتبہ ہدایت ہے جسے وہ وحی و نبوت کی ہدایت سے تعبیر کرتا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اس نے جا بجا ان مراتب ہدایت کا ذکر کیا ہے اور انہیں ربوبیت الٰہی کی سب سے بڑی بخشش و مرحمت قرار دیا ہے :

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِیعًا بَصِیرًا   ۔    إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (۷۷: ۲،  ۳)

ہم نے انسانوں کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا جسے (ایک کے بعد ایک) مختلف حالتوں میں پلٹتے ہیں،  پھر اسے ایسا بنا دیا کہ سننے والا اور دیکھنے والا وجود ہو گیا۔ ہم نے اس پر راہ عمل کھول دی۔ اب یہ اس کا کام ہے کہ یا تو شکر کرنے والا ہو یا ناشکرا (یعنی یا تو خدا کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک ٹھیک کام میں لائے اور فلاح و سعادت کی راہ اختیار کرے یا ان سے کام نہ لے اور گمراہ ہو جائے )۔

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَیْنَیْنِ   ۔۔ وَلِسَانًا وَشَفَتَیْنِ  ۔  وَهَدَیْنَاهُ النَّجْدَیْنِ  (۹۰: ۸-۱۰)

کیا ہم نے اسے ایک چھوڑ دو دو آنکھیں نہیں دے دی ہیں (جن سے وہ دیکھتا ہے )۔ اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے ہیں (جو گویائی کا ذریعہ ہیں ) اور کیا اس کو ہم نے (سعادت و شقاوت کی) دونوں راہیں نہیں دکھا دیں ؟

وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (۱۷:۷۸)

اور اللہ نے تمہارے لیے سننے اور دیکھنے کے حواس پیدا کر دیے اور سوچنے کے لیے دل (یعنی عقل) تاکہ تم شکر گزار ہو (یعنی خدا کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک طریقے پر کام میں لاؤ)۔

ان آیات اور ان کی ہم معنی آیات میں حواس اور مشاعر اور عقل و فکر کی ہدایت کی اشارات کیے گئے ہیں،  لیکن وہ تمام مقامات جہاں انسان کی روحانی سعادت کا ذکر کیا گیا ہے،  وحی و نبوت کی ہدایت سے متعلق ہیں،  مثلاً :

إِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدَىٰ ۔   وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ (۹۲: ۱۲-۱۳)

بلا شبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رہنمائی کریں اور یقیناً آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی لیے ہیں۔

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَیْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ (۴۱:۱۷)

اور باقی رہی قوم ثمود تو اسے بھی ہم نے راہ (حق) دکھلا دی تھی،  لیکن اس نے ہدایت کی راہ چھوڑ کر اندھے پن کا شیوہ پسند کیا۔

وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِینَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ (۲۹:۷۹)

اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جاں فشانی کی تو ضروری ہے کہ ہم بھی ان پر اپنی راہیں کھول دیں۔ اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو نیک عمل ہیں۔

 

الھُدیٰ

 

چنانچہ اس سلسلے میں وہ اللہ کی ایک خاص ہدایت کا ذکر کرتا ہے اور اسے "الھدی” کے نام سے پکارتا ہے،  یعنی الف لام تعریف کے ساتھ :

قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (۷:۷۱)

(اے پیغمبر ان سے ) کہہ دو! یقیناً اللہ کی ہدایت تو "الھدی” ہے۔ اور ہم سب کو (اسی بات کا) حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کے آگے سر عبودیت جھکا دیں۔

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْیَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ(۲:۱۲۰)

اور (یاد رکھو!) یہودی تم سے خوش ہونے والے نہیں جب تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہ کرو اور یہی حال نصاریٰ کا ہے۔ (اے پیغمبر! تم ان سے ) کہہ دو اللہ کی ہدایت کی راہ تو وہی ہے جو "الھدی” ہے (یعنی ہدایت کی حقیقی اور عالم گیر راہ) یہ "الھدی” یعنی ہدایت کی ایک ہی اور حقیقی راہ کون سی ہے ؟

قرآن کہتا ہے : وحی الٰہی کی عالم گیر ہدایت ہے جو اول دن سے دنیا میں موجود ہے اور بلا تفریق و امتیاز تمام نوع انسان کے لیے ہے۔ وہ کہتا ہے : جس طرح خدا نے وجدان،  حواس اور عقل کی ہدایت میں نہ تو نسل و قوم کا امتیاز رکھا نہ زمان و مکان کا،  اسی طرح اس کی ہدایت وحی بھی ہر طرح کے تفرقے و امتیاز سے پاک ہے۔ وہ سب کے لیے ہے اور سب کو دی گئی ہے۔ اور اس ایک ہدایت کے سوا اور جتنی ہدایتیں بھی انسانوں نے سمجھ رکھی ہیں،  سب انسانی بناوٹ کی راہیں ہیں۔ خدا کی ٹھہرائی ہوئی راہ صرف یہی ایک راہ ہے۔

اسی لیے وہ ہدایت کی ان تمام صورتوں سے یک قلم انکار کرتا ہے جو اس اصل سے منحرف ہو کر طرح طرح کی مذہبی گروہ بندیوں اور مخالف ٹولیوں میں بٹ گئی ہیں اور سعادت و نجات کی عالم گیر حقیقت خاص خاص گروہوں اور حلقوں کی میراث بنا لی گئی ہے۔ وہ کہتا ہے : انسانی بناوٹ کی یہ الگ الگ راہیں ہدایت کی راہ نہیں ہو سکتیں۔ ہدایت کی راہ تو وہی عالم گیر ہدایت کی راہ ہے۔ اسی عالم گیر ہدایت وحی کو وہ "الدین” کے نام سے پکارتا ہے،  یعنی نوع انسانی کے لیے حقیقی دین،  اور اسی کا نام اس کی زبان میں "الاسلام” ہے۔

 

وحدت دین کی اصل عظیم اور قرآن حکیم

 

یہ اصل عظیم قرآن کی دعوت کی سب سے پہلی بنیاد ہے۔ وہ جو کچھ بھی بتانا چاہتا ہے تمام تر اسی اصل پر مبنی ہے۔ اگر اس اصل سے قطع نظر کر لی جائے تو اس کا تمام کارخانہ دعوت درہم برہم ہو جائے۔ لیکن تاریخ عالم کی عجائب تصرفات میں سے یہ واقعہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جس درجہ قرآن نے اس اصل پر زور دیا تھا،  اتنا ہی زیادہ دنیا کی نگاہوں نے اس سے اعراض کیا حتی کہ کہا جا سکتا ہے : آج قرآن کی کوئی بات بھی دنیا کی نظروں سر سے اس درجہ پوشیدہ نہیں ہے جس قدر کہ یہ اصل عظیم۔ اگر ایک شخص ہر طرح کے خارجی اثرات سے خالی الذہن ہو کر قرآن کا مطالعہ کرے اور اس کے صفحات میں جا بجا اس اصل عظیم کے قطعی اور واضح اعلانات پڑھے اور پھر دنیا کی طرف نظر اٹھائے جو قرآن کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں سمجھتی کہ بہت سی مذہبی گروہ بندیوں کی طرح وہ بھی ایک مذہبی گروہ بندی ہے تو یقیناً وہ حیران ہو کر پکار اٹھے گا : یا تو اس کی نگاہیں اسے دھوکا دے رہی ہیں یا دنیا ہمیشہ آنکھیں کھولے بغیر ہی اپنے فیصلے صادر کیا کرتی ہے۔

 

دین کی حقیقت اور قرآن کی تصریحات

 

اس حقیقت کی توضیح کے لیے ضروری ہے کہ ایک مرتبہ تفصیل کے ساتھ یہ بات واضح کر دی جائے کہ جہاں تک وحی و نبوت کا یعنی دین کا تعلق ہے،  قرآن کی دعوت کیا ہے اور کس راہ کی طرف نوع انسانی کو لے جانا چاہتی ہے ؟

 

جمعیت بشری کی ابتدائی وحدت،  پھر اختلاف اور ہدایت وحی کا ظہور

 

اس باب میں قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔

وہ کہتا ہے : ابتدا میں انسانی جمعیت کا یہ حال تھا کہ لوگ قدرتی زندگی بسر کرتے تھے اور ان میں نہ تو کسی طرح کا باہمی اختلاف تھا نہ کسی طرح کی مخاصمت۔ سب کی زندگی ایک ہی طرح کی تھی اور سب اپنی قدرتی یگانگت پر قانع تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ نسل انسانی کی کثرت اور ضروریات معیشت کی وسعت سے طرح طرح کی اختلافات پیدا ہو گئے اور اختلافات نے تفرقہ و انقطاع اور ظلم و فساد کی صورت اختیار کر لی۔ ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرنے لگا اور ہر زبردست زیردست کے حقوق پامال کرنے لگا۔ جب یہ صورت حال پیدا ہوئی تو ضروری ہوا کہ نوع انسانی کی ہدایت اور عدل و صداقت کے قیام کے لیے وحی الٰہی کی روشنی نمودار ہو۔ چنانچہ یہ روشنی نمودار ہوئی اور خدا کی رسولوں کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم ہو گیا۔ وہ ان تمام رہنماؤں کو جن کے ذریعے اس ہدایت کا سلسلہ قائم ہوا "رسول” سے تعبیر کرتا ہے،  کیونکہ وہ خدا کی سچائی کا پیغام پہنچانے والے تھے اور "رسول” کے معنی پیغام پہنچانے والے ہیں :

وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیمَا فِیهِ یَخْتَلِفُونَ (۱۰:۱۹)

اور ابتدا میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا (الگ الگ گروہوں میں متفرق نہ تھے ) پھر ایسا ہوا کہ وہ باہم دگر مختلف ہو گئے۔ اور اگر اس بارے میں تمہارے پروردگار نے پہلے سے ایک فیصلہ نہ کر دیا ہوتا (یعنی یہ کہ انسانوں میں اختلاف ہو گا اور مختلف راہیں لوگ اختیار کریں گے ) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرتے ہیں،  ان کا (یہیں دنیا میں ) فیصلہ صادر کر دیا جاتا۔

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ ۚ(۲:۲۱۳)

ابتدا میں تمام انسان ایک ہی گروہ تھے (پھر ان میں اختلاف پیدا ہوا) پس اللہ نے (یکے بعد دیگرے ) نبیوں کو مبعوث کیا۔ وہ (نیک عملی کے نتائج) بشارت دیتے اور (بد عملی کے نتائج سے ) متنبہ کرتے۔ میزان کے ساتھ "الکتاب” (یعنی وحی الٰہی سے لکھی جانے والی تعلیم) نازل کی،  تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے،  ان میں وہ فیصلہ کر دینے والی ہو۔

 

عموم ہدایت

 

یہ ہدایت کسی خاص ملک و قوم یا عہد کے لئے مخصوص نہ تھی،  بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے تھی۔ چنانچہ ہر زمانے اور ہر ملک میں یکساں طور پر اس کا ظہور ہوا۔ قرآن کہتا ہے : دنیا کا کوئی گوشہ نہیں جہاں نسل انسانی آباد ہوئی ہو اور خدا کا کوئی رسول مبعوث نہ ہوا ہو :

وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِیهَا نَذِیرٌ (۳۵:۲۴)

اور کوئی قوم دنیا کی ایسی نہیں جس میں (بد عملیوں کے نتائج سے ) متنبہ کرنے والا (خدا کا کوئی رسول) نہ گزرا ہو۔

إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (۱۳:۷)

(اے پیغمبر!) بلا شبہ تم اس کے سوا اور کیا ہو کہ (بد عملیوں کے نتائج سے ) متنبہ کرنے والے ہو اور دنیا میں ہر قوم کے لیے ایک ہدایت کرنے والا ہوا ہے۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ (۴۷)

اور ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پس جب رسول ظاہر ہوتا ہے تو تمام باتوں کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔

نسل انسانی کے ابتدائی عہد اور خدا کے رسول

وہ کہتا ہے : نسل انسانی کے ابتدائی عہدوں میں کتنے ہی پیغمبر گزرے ہیں جو یکے بعد دیگرے مبعوث ہوئے اور قوموں کو پیغام حق پہنچایا :

وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِن نَّبِیٍّ فِی الْأَوَّلِینَ (۷)

اور کتنے ہی نبی ہیں جو ہم نے پہلوں میں (یعنی ابتدائی عہد کی قوموں میں ) مبعوث کیے۔

 

عدل الٰہی اور بعثت رسول

 

وہ کہتا ہے : یہ بات عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ ایک گروہ اپنے اعمال بد کے لیے  جواب دہ ٹھہرایا جائے،  حالانکہ اس کی ہدایت کے لیے کوئی رسول نہ بھیجا گیا ہو :

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا (۱۵)

اور (ہمارا قانون یہ ہے کہ ) جب تک ہم ایک پیغمبر مبعوث کر کے راہ ہدایت دکھا نہ دیں،  اس وقت تک (پاداش عمل میں ) عذاب دینے والے نہیں۔

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ یَبْعَثَ فِی أُمِّهَا رَسُولًا یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ (۵۹)

اور (یاد رکھو!) تمہارے پروردگار کا قانون یہ ہے کہ وہ کبھی انسان کی بستیوں کو (پاداش عمل میں ) ہلاک نہیں کرتا،  جب تک کہ ان میں ایک پیغمبر مبعوث نہ کر دے اور وہ خدا کی آیتیں پڑھ کر نہ سنا دے،  اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں،  مگر صرف اسی حالت میں کہ ان کے باشندوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کر لیا ہو۔

 

بعض رسولوں کا ذکر کیا گیا،  بعض کا نہیں کیا گیا

خدا کے ان رسولوں اور دین الٰہی کے داعیوں میں سے بعض کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے،  بعض کا نہیں کیا گیا :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَیْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْكَ ۗ(۴۰:۷۸)

اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی پیغمبر مبعوث کیے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تمہیں سنائے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات نہیں سنائے (یعنی قرآن میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا)

 

بے شمار قومیں اور بے شمار رسول

قوم نوح اور عاد و ثمود کے بعد کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں جن کا ٹھیک ٹھیک حال اللہ کو معلوم ہے :

أَلَمْ یَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِینَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا یَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَرَدُّوا أَیْدِیَهُمْ فِی أَفْوَاهِهِمْ (۱۴:۹)

تم سے پہلے جو قومیں گزر چکی ہیں،  کیا تم تک ان کی خبر نہیں پہنچی؟ قوم نوح،  قوم عاد،  قوم ثمود اور وہ قومیں جو ان کے بعد ہوئیں۔ جن کی ٹھیک ٹھیک تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ ان سب میں ان کے پیغمبر سچائی کی روشنیوں کے ساتھ مبعوث ہوئے،  مگر انہوں نے جہل اور سرکشی سے ان کی تعلم انہیں پر لوٹا دی اور کان دھرنے سے انکار کر دیا۔

 

ہدایت ہمیشہ ایک ہی رہی اور وہ ایمان اور عمل صالح کی دعوت کے سوا کچھ نہ تھی

فطرت الٰہی کی راہ کائنات ہستی کے ہر گوشے میں ایک ہی ہے۔ وہ نہ تو ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے نہ باہم دگر مختلف۔ پس ضروری تھا کہ یہ ہدایت بھی اول دن سے ایک ہی ہوتی اور ایک ہی طرح پر تمام انسانوں کو مخاطب کرتی۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے : خدا کے جتنے پیغامبر پیدا ہوئے،  خواہ کسی زمانے اور کسی گوشے میں ہوئے ہوں،  سب کی راہ ایک ہی تھی اور سب خدا کے ایک ہی عالم گیر قانون سعادت کی تعلیم دینے والے تھے۔ یہ عالم گیر قانون سعادت کیا ہے ؟ ایمان اور عمل صالح کا قانون ہے۔ یعنی ایک پروردگار عالم کی پرستش کرنی اور نیک عملی کی زندگی بسر کرنی۔ اس کے علاوہ اور اس کے خلاف جو کچھ بھی دین کے نام سے کہا جاتا ہے،  دین حقیقی کی تعلیم نہیں ہے :

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ(۱۷:۳۷)

اور بلا شبہ ہم نے دنیا کی ہر قوم میں ایک پیغمبر مبعوث کیا (جس کی تعلیم یہ تھی) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے (یعنی سرکش اور شریر قوتوں کے اغوا سے ) اجتناب کرو۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (۲۱:۲۵)

اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول دنیا میں نہیں بھیجا مگر اس وحی کے ساتھ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں،  پس میری ہی عبادت کرو۔

 

سب نے ایک ہی دین پر اکٹھے رہنے اور تفرقہ و اختلاف سے بچنے کی تعلیم دی

وہ کہتا ہے : دنیا میں کوئی بانی مذہب بھی ایسا نہیں ہوا ہے جس نے ایک ہی دین پر اکٹھے رہنے اور تفرقہ و اختلاف سے بچنے کی تعلیم نہ دی ہو۔ سب کی تعلیم یہی تھی کہ خدا کا دین بچھڑے ہوئے انسانوں کو جمع کر دینے کے لیے ہے۔ الگ الگ کر دینے کے لیے نہیں ہے۔ پس ایک پروردگار عالم کی بندگی و نیاز میں سب متحد ہو جاؤ اور تفرقہ و مخاصمت کی جگہ باہمی محبت و یک جہتی کی راہ اختیار کرو۔

وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ (۲۳:۵۲)

اور (دیکھو!)یہ تمہاری امت فی الحقیقت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں،  پس (میری عبودیت و نیاز کی راہ میں تم سب ایک ہو جاؤ اور) نافرمانی سے بچو۔

وہ کہتا ہے : خدا نے تمہیں ایک ہی جامہ انسانیت دیا تھا،  لیکن تم نے طرح طرح کے بھیس اور نام اختیار کر لیے اور رشتہ انسانیت کی وحدت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ تمہاری نسلیں بہت سی ہیں،  اس لیے تم نسل کے نام پر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہو۔ تمہارے وطن بہت سے بن گئے ہیں۔ اس لیے اختلاف وطن کے نام پر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہو۔ تمہاری قومیتیں بیشمار ہیں،  اس لیے ہر قوم دوسری قوم سے دست و گریباں ہو رہی ہے۔ تمہارے رنگ یکساں نہیں اور یہ بھی باہمی نفرت و عناد کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ تمہاری بولیاں مختلف ہیں اور یہ بھی ایک دوسرے سے جدر رہنے کی بہت بڑی حجت بن گئی ہے۔ پھر ان کے علاوہ امیر و فقیر،  نوکر و آقا،  وضیع و شریف،  ضعیف و قوی،  ادنیٰ و اعلیٰ بے شمار اختلاف پیدا کر لیے گئے ہیں اور سب کا منشا یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہو جاؤ اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہو۔ ایسی حالت میں بتلاؤ وہ رشتہ کون سا رشتہ ہے جو اتنے اختلافات رکھنے پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے اور انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانا پھر از سر نو آباد ہو جائے ؟ وہ کہتا ہے : صرف ایک رشتہ ہے۔ تم کتنے ہی الگ الگ ہو گئے ہو،  لیکن تمہارے خدا الگ الگ نہیں ہو جا سکتے۔ تم سب ایک ہی پروردگار کے بندے ہو۔ تم بیشمار اختلافات رکھنے پر بھی ایک ہی رشتہ عبودیت میں جکڑے ہوئے ہو۔ تمہاری کوئی نسل ہو،  تمہارا کوئی وطن ہو،  تمہاری کوئی قومیت ہو،  تم کسی درجے میں اور کسی حلقے کے انسان ہو،  لیکن جب ایک ہی پروردگار کے آگے سر نیاز جھکا دو گے تو یہ آسمانی رشتہ تمہارے تمام ارضی اختلافات مٹا دے گا۔ تم سب کے بچھڑے ہوئے دل ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے۔ تم محسوس کرو گے کہ تمام دنیا تمہارا وطن ہے،  تمام نسل انسانی تمہارا گھرانا ہے اور تم سب ایک ہی "رب العٰلمین” کی عیال ہو۔

چنانچہ وہ کہتا ہے : خدا کے جتنے رسول بھی پیدا ہوئے،  سب کی تعلیم یہی تھی کہ "الدین” پر یعنی بنی نوع انسانی کے ایک ہی عالم گیر دین پر قائم رہو اور اس راہ میں ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جاؤ :

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَىٰ وَعِیسَىٰ ۖ أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ ۚ(۴۲:۱۳)

اور (دیکھو!) اس نے تمہارے لیے دین کی وہی راہ قرار دی ہے جس کی وصیت نوح کو کی گئی تھی اور جس پر چلنے کا حکم ابراہیم،  موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا۔ (ان سب کی تعلیم یہی تھی) کہ الدین (یعنی خدا کا ایک ہی دین) قائم رکھو اور اس راہ میں الگ الگ نہ ہو جاؤ۔

 

قرآن کی تحدی،  کہ اس حقیقت کے خلاف کوئی مذہبی تعلیم اور روایت نہیں پیش کی جا سکتی ہے۔

اسی بنا پر وہ بطور ایک دلیل کے اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر تمہیں میری تعلیم کی سچائی سے انکار ہے تو کسی مذہب کی الہامی کتاب سے بھی ثابت کر دکھاؤ کہ دین حقیقی کی راہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ تم جس مذہب کی بھی حقیقی تعلیم دیکھو گے،  اصل و بنیاد یہی ملے گی،

قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِیَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِی ۗ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ الْحَقَّ ۖ فَهُم مُّعْرِضُونَ   ۔  وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (۲۱: ۲۴-۲۵)

(اے پیغمبر! ان سے ) کہہ دو: (اگر تمہیں میری تعلیم سے انکار ہے تو) اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ تعلیم موجود ہے جس پر میرے ساتھ یقین رکھتے ہیں اور اسی طرح وہ تمام تعلیمیں بھی موجود ہیں جو مجھ سے پہلے قوموں کو دی گئیں (تم ثابت کر دکھاؤ کسی نے بھی میری تعلیم کے خلاف تعلیم دی ہو)۔ اصل یہ ہے کہ ان (منکرین حق) میں اکثر آدمی ایسے ہیں جنہیں سرے سے امر حق کی خبر ہی نہیں اور اس لیے حقیقت کی طرف منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (اے پیغمبر! یقین کر) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر بھی ایسا نہیں بھیجا جسے اس بات کے سوا کوئی دوسری بات بتلائی گئی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں،  پس میری ہی عبادت کرو۔

اتنا ہی نہیں،  بلکہ وہ کہتا ہے : علم و بصیرت کے کسی قول اور روایت سے تم ثابت کر دکھاؤ کہ جو کچھ میں بتلا رہا ہوں،  یہی تمام پچھلی دعوتوں کی تعلیم نہیں رہی ہے۔

ائْتُونِی بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ (۴۷:۴)

اگر تم (اپنے انکار میں ) سچے ہو تو (ثبوت میں ) کوئی کتاب پیش کرو جو اب سے پہلے نازل ہوئی ہو یا (کم از کم) علم و بصیرت کی کوئی پچھلی روایت ہی لا دکھاؤ جو تمہارے پاس موجود ہو۔

 

تمام مقدس کتابوں کی باہم دگر تصدیق اور اس سے قرآن کا استدلال

اسی بناء پر وہ تمام مذاہب عالم کی باہم دگر تصدیق کو بھی بطور ایک دلیل کے پیش کرتا ہے۔ یعنی وہ کہتا ہے : ان میں سے ہر تعلیم دوسری تعلیم کی تصدیق کرتی ہے،  جھٹلاتی نہیں۔ اور جب ہر تعلیم دوسری تعلیم کی تصدیق کرتی ہے تو اس سے معلوم ہوا ان تمام تعلیمات کے اندر کوئی ایک ہی ثابت و قائم حقیقت ضرور کام کر رہی ہے،  کیونکہ اگر مختلف وقتوں،  مختلف گوشوں،  مختلف قوموں،  مختلف ناموں،  مختلف پیرایوں اور مختلف زبانوں سے کوئی بات کہی گئی ہو اور باوجود ان تمام اختلافات کے بات ہمیشہ ایک ہی ہو اور ایک ہی مقصد پر زور دیتی ہو قدرتی طور پر تمہیں ماننا پڑے گا کہ ایسی بات اصلیت سے خالی نہیں ہو سکتی :

نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ  ۔  مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ (۳: ۳-۴)

(اے پیغمبر!) اللہ نے تم پر یہ کتاب سچائی کے ساتھ نازل کی ہے جو ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے نازل ہو چکی ہیں۔ اور اسی طرح لوگوں کی ہدایت کے لیے اس نے تورات اور انجیل نازل کی تھی۔

وَآتَیْنَاهُ الْإِنجِیلَ فِیهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ  (۵:۴۷)

اور ہم نے عیسیٰ کو انجیل عطا کی،  اس میں انسان کے لیے ہدایت اور روشنی ہے،  اور اس سے پہلے جو تورات نازل ہو چکی تھی وہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس کے بیان و موعظت کا ایک بڑا موضوع پچھلے عہدوں کی ہدایتوں اور رسالتوں کا تذکرہ ہے۔ وہ ان کی یکسانی،  ہم آہنگی اور وحدت تعلیم سے مذہبی صداقت کے تمام مقاصد پر استشہاد کرتا ہے۔

 

                   "الدین” اور "الشرع”

 

ادیان کا اختلاف

 

اچھا! اگر تمام نوع انسانی کے لیے دین ایک ہی ہے اور تمام بانیان مذاہب نے ایک ہی اصل و قانون کی تعلیم دی ہے تو پھر مذاہب کا اختلاف کیوں ہوا؟ کیوں تمام مذہبوں میں ایک ہی طرح کے احکام،  ایک ہی طرح کے اعمال،  ایک ہی طرح کے رسوم و ظواہر نہ ہوئے ؟ کسی مذہب میں عبادت کی ایک خاص شکل اختیار کی گئی ہے۔ کسی میں دوسری،  کسی مذہب کے ماننے والے دوسری طرف۔ کسی کے ہاں احکام و قوانین ایک خاص طرح کی نوعیت کے ہیں،  کسی کے ہاں دوسری طرح کے۔

 

اختلاف دین میں نہیں ہوا،  شرع و منہاج میں ہوا اور یہ ناگزیر تھا

 

قرآن کہتا ہے : مذاہب کا اختلاف دو طرح کا ہے۔ ایک اختلاف تو وہ ہے جو پیروان مذاہب نے مذہب کی حقیقی تعلیم سے منحرف ہو کر پیدا کر لیا ہے۔ یہ اختلاف مذاہب کا اختلاف نہیں ہے،  پیروان مذہب کی گم راہی کا نتیجہ ہے۔ دوسرا اختلاف وہ ہے جو فی الحقیقت مذاہب کے احکام و اعمال میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مذہب میں عبادت کی کوئی خاص شکل اختیار کی گئی ہے،  دوسرے میں کوئی دوسری شکل تو یہ اختلاف اصل و حقیقت کا اختلاف نہیں ہے،  محض فروع و ظواہر کا اختلاف ہے اور ضروری تھا کہ ظہور میں آتا۔

وہ کہتا ہے : مذاہب کی تعلیم دو قسم کی باتوں سے مرکب ہے۔ ایک قسم تو وہ ہے جو ان کی روح و حقیقت ہے،  دوسری وہ ہے جن سے ان کی ظاہری شکل و صورت آراستہ کی گئی ہے۔ پہلی چیز اصل ہے،  دوسری فرع ہے۔ پہلی چیز کو وہ "دین” سے تعبیر کرتا ہے،  دوسری کو "شرع” اور "نسک” سے اور اس کے لیے "منہاج” کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ "شرع” اور "منہاج” کے معنے راہ کے ہیں اور "نسک” سے مقصود عبادت کا طور طریقہ ہے۔ پھر اصطلاح میں "شرع” قانون مذہب کو کہنے لگے اور "نسک” عبادت کو،  وہ کہتا ہے : مذاہب میں جس قدر بھی اختلاف ان کا اصلی اختلاف ہے،  وہ "دین” کا اختلاف نہیں،  محض شرع و منہاج کا اختلاف ہے،  یعنی اصل کا نہیں فرع کا ہے،  حقیقت کا نہیں ہے ظواہر کا ہے،  روح کا نہیں ہے صورت کا ہے اور ضروری تھا کہ یہ اختلاف ظہور میں آتا۔ مذہب کا مقصود انسانی جمعیت کی سعادت و اصلاح ہے،  لیکن انسانی جمعیت کے احوال و ظروف ہر عہد اور ہر ملک میں یکساں نہیں رہے ہیں اور نہ یکساں رہ سکتے تھے۔ کسی زمانے کی معاشرتی اور ذہنی استعداد ایک خاص طرح کی نوعیت رکھتی تھی،  کسی زمانے میں ایک خاص طرح کی۔ کسی ملک کے حالات ایک خاص طرح کی معیشت چاہتے تھے،  کسی دوسرے ملک کے حالات دوسری طرح کی۔ پس جب مذہب کا ظہور جیسے زمانے میں اور جیسی استعداد و طبیعت کے لوگوں میں ہوا،  اسی کے مطابق شرع و منہاج کی صورت بھی اختیار کی گئی۔ جس عہد اور جس ملک میں جو صورت اختیار کی گئی وہی اس کے لیے موزوں تھی۔ اس لیے ہر صورت اپنی جگہ بہتر اور حق ہے۔ اور یہ اختلاف اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت نوع بشری کے تمام معاشرتی اور طبعی اختلافات کو دی جا سکتی ہے :

لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِیمٍ (۲۲:۷۷)

(اے پیغمبر!) ہم نے ہر گروہ کے لیے عبادت کا ایک خاص طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے جس پر وہ چلتا ہے۔ پس لوگوں کو چاہیے اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ تم لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف دعوت دو،  یقیناً تم ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہو۔

 

تحویل قبلہ کا معاملہ اور قرآن کا اعلان حقیقت

 

جب تحویل قبلہ کا معاملہ پیش آیا،  یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کر طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تو یہ بات یہودیوں اور عیسائیوں پر بہت شاق گزری،  ان کے نزدیک مذہب کا تمام دار و مدار اسی طرح کی ظاہری اور فروعی باتوں پر تھا اور انہیں کو وہ حق و باطل کا معیار سمجھتے تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں قرآن نے اس معاملے کو بالکل دوسری ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے : تم اس طرح کی باتوں کو اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہو؟ یہ نہ تو حق و باطل کا معیار ہیں نہ مذہب کی اصل حقیقت میں انہیں کوئی دخل ہے،  ہر مذہب نے اپنے اپنے حالات و مقتضیات کے مطابق کوئی ایک طریقہ عبادت کا اختیار کر لیا تھا اور اس پر لوگ کاربند ہو گئے۔ مقصود اصلی سب کا ایک ہی ہے اور وہ خدا پرستی اور نیک عملی ہے۔ پس جو شخص سچائی کا طلب گار ہے،  اسے چاہیے کہ اصل مقصود پر نظر رکھے اور اسی کے لحاظ سے ہر بات کو جانچے پرکھے،  ان باتوں کو حق و باطل کا معیار نہ بنا لے :

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ ۚ أَیْنَ مَا تَكُونُوا یَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِیعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ (۲:۱۴۸)

اور (دیکھو!) ہر گروہ کے لیے کوئی نہ کوئی سمت ہے جس کی طرف عبادت کرتے ہوئے وہ اپنا منہ کر لیتا ہے،  پس (اس معاملے کو اس قدر طول نہ دو) نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کرو (کہ اصلی کام یہی ہے )۔ تم کسی جگہ بھی ہو اللہ تم سب کو پا لے گا،  یقیناً اللہ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔

 

قرآن کے نزدیک دین کے اعتقاد و عمل کی اصلی باتیں کیا کیا ہیں ؟

 

پھر اسی  سورت میں آگے چل کر صاف صاف لفظوں میں واضح کر دیا ہے کہ اصل دین کیا ہے اور کن باتوں سے ایک انسان دین کی سعادت و فلاح حاصل کر سکتا ہے ؟ وہ کہتا ہے : دین محض اس طرح کی باتوں میں نہیں دھرا ہے کہ ایک شخص نے عبادت کے وقت پچھم کی طرف منہ کر لیا یا پورب کی طرف۔ اصل دین تو یہ ہے کہ دیکھا جائے خدا پرستی اور نیک عملی کے لحاظ سے ایک انسان کا کیا حال ہے۔ پھر تفصیل کے ساتھ بتلایا ہے کہ خدا پرستی اور نیک عملی کی باتیں کیا کیا ہیں :

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ۱ۚ وَ آتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ۱ۙ وَ السَّآىِٕلِیْنَ۠ وَ فِی الرِّقَابِ۱ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ آتَى الزَّكٰوةَ۱ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا۱ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ۱ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا۱ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ  (۱۷۷:۲)

اور (دیکھو!) نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف اور پچھم کی طرف کر لیا (یا اسی طرح کی کوئی دوسری بات ظاہری رسم اور ڈھنگ کی کر لی)،  نیکی کی راہ تو اس کی راہ ہے جو اللہ پر،  آخرت کے دن پر،  ملائکہ پر،  تمام کتابوں پر اور تمام نبیوں پر ایمان لاتا ہے،  اور اپنا مال خدا کی محبت کی راہ میں رشتے داروں،  یتیموں،  مسکینوں،  مسافروں اور سائلوں کو دیتا ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں خرچ کرتا ہے،  نماز قائم کرتا ہے،  زکوٰۃ ادا کرتا ہے،  قول و قرار کا پکا ہوتا ہے،  تنگی اور مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت۔ ہر حال میں ثابت قدم رہتا ہے۔ (سو یاد رکھو!) ایسے ہی لوگ ہیں ( جو اپنی دینداری میں ) سچے ہیں اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے ہیں۔

جس کتاب میں تیرہ سو برس سے یہ آیت موجود ہے،  اگر دنیا اس کی دعوت کا مقصد اصلی نہیں سمجھ سکتی تو پھر کون سی بات ہے جسے دنیا سمجھ سکتی ہے ؟

 

خدا کی حکمت اسی کی مقتضی ہوئی کہ اختلاف شرائع ظہور میں آئے

 

سورۃ مائدہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خاص ترتیب کے مختلف دعوتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذکر حضرت موسیٰ اور تورات سے شروع ہوتا ہے :

اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِیْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ۱ۚ  (۴۴:۵)

پھر حضرت مسیح کے ظہور کا ذکر کیا جاتا ہے :

وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى آثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ (۴۶:۵)

حضرت مسیح کے بعد پیغمبر اسلام کا ظہور ہوا:

وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ  (۴۸:۵)

پھر ان مختلف دعوتوں کے ذکر کے بعد وہ لوگوں کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے :

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا۱ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ آتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ۱ؕ  (۴۸:۵)

ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے (یعنی مرد و عورت کے پیرووں کے لیے ) ایک خاص شریعت اور راہ ٹھہرا دی۔ اگرچہ اللہ چاہتا تو (شریعتوں کا کوئی اختلاف نہ ہوتا) تم سب کو ایک امت بنا دیتا،  لیکن یہ اختلاف اس لیے ہوا کہ (ہر وقت و حالت کے مطابق) تمہیں جو احکام دیے گئے ہیں،  ان میں تمہاری آزمائش کرے۔ پس (اس اختلاف کے پیچھے نہ پڑو) نیکی کی راہوں میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرو۔

 

پیروان مذہب نے دین کی وحدت بھلا دی اور شرع کے اختلاف کو بناء نزاع بنا لیا

 

اس آیت پر سرسری نظر ڈال کر آگے نہ بڑھ جاؤ،  بلکہ ا س کے ایک ایک لفظ پر غور کرو۔ قرآن کا جب ظہور ہوا تو دنیا کا یہ حال تھا کہ تمام پیروان مذاہب،  مذہب کو صرف اس کے ظواہر و رسوم ہی میں دیکھتے تھے اور مذہبی اعتقاد کا تمام جوش و خروش اسی طرح کی باتوں میں سمٹ آیا تھا،  ہر گروہ یقین کرتا تھا کہ دوسرا گروہ نجات سے محروم ہے،  کیونکہ وہ دیکھتا تھا  دوسرے کے اعمال و رسوم ویسے نہیں ہیں جیسے خود اس نے اختیار کر رکھے ہیں۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ نہیں،  یہ اعمال و رسوم نہ تو دین کی اصل و حقیقت ہیں نہ ان کا اختلاف حق و باطل کا اختلاف ہے۔ یہ محض مذہب کی عملی زندگی کا ظاہری ڈھانچا ہے مگر روح و حقیقت ان سے بالاتر ہے اور وہی اصل دین ہے۔ یہ اصل دین کیا ہے ؟ ایک خدا کی پرستش اور نیک عملی کی زندگی،  یہ کسی ایک گروہ ہی کی میراث نہیں ہے کہ اس کے سوا کسی انسان کو نہ ملی ہو،  یہ تمام مذاہب میں یکساں طور پر موجود ہے۔ اور چونکہ یہ اصل دین ہے،  اس لیے نہ تو اس میں تغیر ہوا نہ کسی سے اختلاف رونما ہوا۔ اعمال و رسوم فرع ہیں،  اس لیے ہر زمانے اور ہر ملک کی حالت کے مطابق بدلتے رہے اور جس قدر بھی اختلاف ہوا انہیں میں ہوا۔

پھر وہ کہتا ہے : اعمال و رسوم کے اس اختلاف کو تم اس قدر اہمیت کیوں دے رہے ہو؟ خدا نے ہر زمانے اور ہر ملک کے لیے ایک خاص طرح کا طور طریقہ ٹھہرا دیا تھا،  جو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق مناسب تھا اور وہ اس پر کار بند ہو گیا،  اگر خدا چاہتا تو تمام نوع انسانی کو ایک ہی قوم و جماعت بنا دیتا اور فکرو عمل کا کوئی اختلاف وجود میں ہی نہ آتا،  لیکن معلوم ہے کہ خدا نے ایسا نہیں چاہا،  اس کی حکمت کا مقتضیٰ یہی ہوا کہ فکر و عمل کی مختلف حالتیں پیدا ہوں،  پس اس اختلاف کو حق و باطل کا اختلاف کیوں بنا لیا جائے ؟ کیوں اس اختلاف کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت سے بر سر پیکار رہے ؟ اصلی چیز جس پر تمام تر توجہ مبذول کرنی چاہیے "خیرات” ہے،  یعنی نیکی کے کام ہیں اور تمام اعمال و رسوم بھی انہیں کے لیے ہیں۔

غور کرو اس آیت میں  "لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا"کہا،  یعنی تم میں سے ہر جماعت کے لیے ہم نے ایک”شرع” اور”منہاج” ٹھہرا دی۔ یہ نہیں کہا کہ ایک”دین” ٹھہرا دیا،  کیونکہ دین تو سب کے لیے ایک ہی ہے،  اس میں تعدد اور تنوع نہیں ہو سکتا،  البتہ شرع و منہاج سب کے لیے یکساں نہیں ہو سکتے،  ضروری تھا کہ ہر عہد اور ہر ملک کے احوال و ظروف کے مطابق مختلف ہوں۔ پس مذاہب کا اختلاف اصل کا اختلاف نہیں ہوا،  محض فرع کا اختلاف ہوا۔

اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ جہاں کہیں قرآن نے اس بات پر زور دیا ہے  کہ”اگر خدا چاہتا تو تمام انسان ایک ہی راہ پر جمع ہو جاتے ” یا”ایک ہی قوم بن جاتے ” جیسا کہ آیت مندرجہ صدر میں ہے تو ان سب سے مقصود اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ وہ چاہتا ہے یہ بات لوگوں کے دلوں میں اتار دے کہ فکر و عمل کا اختلاف طبیعت بشری کا قدرتی خاصہ ہے اور جس طرح ہر گوشے میں موجود ہے،  اسی طرح مذہب کے معاملے میں بھی موجود ہے،  پس اس اختلاف کو حق و باطل کا معیار نہیں سمجھنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے : جب خدا نے انسان کی طبیعت ہی ایسی بنائی ہے کہ ہر انسان،  ہر قوم،  ہر عہد اپنی سمجھ،  اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا طور طریقہ رکھتا ہے اور ممکن نہیں کہ کسی ایک چھوٹی سی چھوٹی بات میں بھی تمام انسانوں کی طبیعت ایک طرح کی ہو جائے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ مذہبی اعمال و رسوم کی راہیں مختلف نہ ہوتیں اور سب ایک ہی طر ح کی وضع و حالت اختیار کر لیتے ؟ یہاں بھی اختلاف ہونا تھا اور اختلاف ہوا۔ کسی نے ایک طریقے سے اصل مقصود حاصل کرنا چاہا،  کسی نے دوسرے طریقے سے،  لیکن اصل مقصود یعنی خدا پرستی اور نیک عملی کی تعلیم تو اس میں سب  متفق رہے۔ پس جب اصل مقصود سب کا ایک ہے تو محض ظواہر و اعمال  کے اختلاف سے کیوں ایک دوسرے کے مخالف و معاند ہو جائیں ؟ کیوں ہر گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلائے ؟ کیوں مذہبی سچائی کسی ایک ہی نسل و گروہ کی میراث سمجھ لی جائے ؟

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شریعتوں کے اس اختلاف ہی کے لیے نہیں،  بلکہ فکر و عمل کے ہر اختلاف کے لیے رواداری اور وسعت نظر کی تعلیم دیتا ہے،  یہاں تک کہ جو لوگ اس کی دعوت کے خلاف جبر و تشدد کام میں لا رہے ہیں،  ان کی طرف سے بھی اسے معذرت کرنے میں تامل نہیں۔ ایک موقع پر خود پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : تم جوش دعوت میں چاہتے ہو کہ ہر انسان کو راہ حقیقت دکھا دو،  لیکن تمہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اختلاف فکر و عمل طبیعت انسانی کا قدرتی خاصہ ہے۔ تم بہ جبر کسی کے اندر ایک بات نہیں اتار دے سکتے :

وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا۱ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (۹۹:۱۰)

اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو زمین میں جتنے انسان ہیں سب ایمان لے آتے (لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ ہر انسان اپنی اپنی سمجھ اور اپنی اپنی راہ رکھے )۔ پھر کیا تم چاہتے ہو لوگوں کو مجبور کر دو کہ مؤمن ہو جائیں ؟

وہ کہتا ہے :انسان کی طبیعت ایسی  واقع ہوئی ہے کہ ہر جماعت کو اپنا ہی طور طریقہ اچھا دکھائی دیتا ہے،  وہ اپنی باتوں کو دوسروں کی مخالفانہ نگاہ سے نہیں  دیکھ سکتا۔ جس طرح تمہاری نظر میں سب سے بہتر راہ تمہاری ہے،  ٹھیک اسی طرح دوسروں کی نظر میں سب سے بہتر راہ ان کی ہے۔ پس اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس بارے میں تحمل اور رواداری اپنے اندر پیدا کرو:

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ۱ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ۱۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۱۰۸:۶)

اور (دیکھو!) جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دوسروں معبودوں کو پکارتے ہیں،  تم ان پر سب و شتم نہ کرو،  کیونکہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ لوگ بھی از راہ جہل و نادانی خدا کو برا بھلا کہنے لگیں گے (یاد رکھو!) ہم نے انسان کی طبیعت ہی ایسی بنائی ہے کہ ہر گروہ کو اپنا ہی عمل اچھا دکھائی دیتا ہے۔ پھر بالآخر سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے اور وہیں ہر گروہ پر اس کے اعمال کی حقیقت کھلنے والی ہے۔

 

"تشیع" اور"تحزاب" کی گمراہی اور  تجدید دعوت کی ضرورت

 

اچھا!جب تمام مذاہب کا اصل مقصد ایک ہی ہے اور سب کی بنیاد سچائی پر ہے تو پھر قرآن کے ظہور کی ضرورت کیا تھی؟ وہ کہتا ہے : اس لیے کہ اگرچہ تمام مذاہب سچے ہیں،  لیکن تمام مذاہب کے پیرو سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں،  اس لیے ضروری ہے کہ سب کو ان کی گمشدہ سچائی پر از سر نو جمع کیا جائے۔

اس سلسلے میں اس نے پیروان مذاہب کی تمام گمراہیاں ایک ایک کر کے گنائی ہیں۔وہ اعتقادی اور عملی دونو طرح کی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک سب سے بڑی گمراہی جس پر جا بجا زور دیتا ہے،  وہ ہے جسے اس نے "تشیع” اور”تحزب” کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے،  عربی میں "تشیع” اور”تحزب” کے معنی یہ ہیں کہ الگ لاگ جتھے بنا لینا اور ان میں ایسی روح کا پیدا ہو جانا جسے اردو میں گروہ پرستی کی روح سے تعبیر کیا جا سکتا ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ۱ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ (۱۵۹:۶)

جن لوگوں نے اپنے ایک ہی دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور الگ الگ گروہ بندوں میں بٹ گئے،  تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں،  ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے،  جیسے کچھ ان کے عمل رہے ہیں اس کا نتیجہ خدا انہیں بتا دے گا۔

فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًا۱ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ

پھر لوگوں نے ایک دوسرے سے کٹ کر جدا جدا دین بنا لیے،  ہر ٹولی کے پلے جو کچھ پڑ گیا ہے اسی میں مگن ہے۔

 

تشیع اور تحزیب کی حقیقت

 

"تشیع” اور”تحزیب” کی گمراہی سے کیا مقصود ہے،  اسے پوری وضاحت کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔ وہ کہتا ہے : خدا کے ٹھہرائے ہوئے دین کی حقیقت تو یہ تھی کہ نوع انسانی پر خدا پرستی اور نیک عملی کی راہ کھولتا ہے،  یعنی خدا کے اس قانون کا اعلان کرنا تھا کہ دنیا کی ہر چیز کی طرح انسانی افکار و اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں۔ اچھے فکر و عمل کا بدلا اچھا ہے،  برے فکرو عمل کا بدل برا ہے،  لیکن لوگوں نے یہ حقیقت فراموش کر دی اور دین و مذہب کو نسلوں،  قوموں،  ملکوں اور طرح طرح کی رسموں اور رواجوں کا ایک جتھا بنا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان کی نجات و سعادت کی راہ پہ نہیں سمجھی جاتی کہ کس کا اعتقاد اور عمل کیسا ہے،  بلکہ سارا دارومدار اس پر آ کے ٹھہر گیا ہے کہ کون کس جتھے اور گروہ بندی میں داخل ہے۔ اگر ایک آدمی کسی خاص مذہبی گروہ بندی میں داخل ہو جاتا ہے تو یقین کیا جاتا ہے وہ نجات یافتہ ہے اور دین کی سچائی اسے مل گئی۔ اگر داخل نہیں ہے تو یقین کیا جاتا ہے کہ نجات کا دروازہ اس پر بند ہو گیا اور دین کی سچائی میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ گویا دین کی سچائی،  آخرت کی نجات اور حق و باطل کا معیار تمام تر گروہ بندی اور گروہ پرستی ہو گئی،  اعتقاد اور عمل کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر باوجودیکہ تمام مذاہب کا مقصود اصلی ایک ہی ہے اور سب ایک ہی پروردگار عالم کی پرستش  کرنے کے مدعی ہیں،  لیکن ہر گروہ یقین کرتا ہے کہ دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے،  باقی تمام نوع انسانی اس سے محروم ہے۔ چنانچہ ہر مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کے خلاف نفرت و تعصب کی تعلیم دیتا ہے اور دنیا میں خدا پرستی اور دین داری کی راہ سرتا سر بغض و عداوت،  نفرت و توحش اور قتل و خون ریزی کی راہ بن گئی ہے۔

 

اس بارے میں دعوت قرآنی کی تین مہمات

 

اس سلسلے میں قرآن نے جن مہمات پر زور دیا ہے،  ان میں تین باتیں سب سے نمایاں ہیں :

۱۔ انسان کی نجات و سعادت کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے،  نہ کہ کسی خاص گروہ بندی پر۔

۲۔ نوع انسانی کے لیے دین الٰہی ایک ہی ہے اور یکساں طور پر سب کو اسی کی تعلیم دی گئی ہے،  پس یہ جو پیروان مذہب نے دین کی وحدت اور عالم گیر حقیقت ضائع کر کے بہت سے متخالف اور متخاصم بنا لیے ہیں،  یہ صریح گمراہی ہے۔

۳۔ اصل دین توحید ہے،  یعنی ایک پروردگار عالم کی براہ راست پرستش کرتی،  اور تمام بانیان مذاہب نے اسی کی تعلیم دی ہے۔ اس کے خلاف جس قدر عقائد اور اعمال اختیار کر لیے گئے ہیں،  اصلیت سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔

 

یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندی اور اس کا رد

 

چنانچہ آیات مندرجہ صدر کے علاوہ حسب ذیل آیات میں بھی اسی حقیقت پر زور دیا گیا ہے :

وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۱ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ۱ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۰۰۱۱۱ بَلٰى ۱ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ۱۪ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ  (۱۱۱:۲۔۱۱۲)

اور یہود اور نصاریٰ نے کہا: جنت میں کوئی انسان داخل نہیں ہو سکتا جب تک یہود اور نصاریٰ نہ ہو (یعنی جب تک یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندیوں میں داخل  نہ  ہو) یہ ان لوگوں کی (جاہلانہ) امنگیں ہیں۔ (اے پیغمبر!) ان سے کہہ دو: اگر تم (اس زعم باطل میں ) سچے ہو تو بتاؤ تمہاری دلیل کیا ہے ؟ ہاں ! (بلاشبہ نجات کی راہ کھلی ہوئی ہے،  مگر وہ کسی خاص گروہ بندی کی راہ نہیں ہو سکتی،  وہ تو ایمان و عمل کی راہ ہے )۔ جس کسی نے بھی خدا کے آگے سر جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہو تو(خواہ وہ یہودی اور نصرانی ہو،  خواہ کوئی ہو) وہ اپنے پروردگار سے اپنا اجر پائے گا،  اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہے،  نہ کسی طرح کی غمگینی۔

دوسری جگہ یہی حقیقت زیادہ واضح لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِِٕیْنَ مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۱۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۶۲:۲)

جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لائے ہیں،  وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی کہلاتے ہیں یا نصاریٰ اور صابی ہوں (کوئی بھی ہو) لیکن جو کوئی بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے کام بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا،  اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہے،  نہ کسی طرح کی غمگینی۔

یعنی دین سے مقصود تو خدا پرستی اور نیک عملی کی راہ تھی،  وہ کسی خاص حلقہ بندی کا نام نہ تھا،  کوئی انسان ہو،  کسی نسل سے ہو،  کسی نام سے پکارا جاتا ہو،  لیکن اگر خدا پر اپنا ایمان رکھتا ہے اور اس کے اعمال بھی نیک ہیں تو دین الٰہی پر چلنے والا ہے اور اس کے لیے نجات ہے،  لیکن یہودیوں،  عیسائیوں نے ایک خاص طرح کی نسلی اور جماعتی گروہ بندی کا قانون بنا دیا،  یہودیوں نے گروہ بندی کا ایک دائرہ کھینچا اور اس کا نام”یہودیت” رکھ دیا۔ جو اس دائرے کے اندر ہیں وہ سچائی پر ہے اور اس کے لیے نجات ہے،  جو ا کے باہر ہے وہ باطل پر ہے اور اس کی نجات نہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے بھی ایک دائرہ کھینچ لیا اور اس کا نام”مسیحیت” یا کلیسا رکھ دیا۔ جو اس میں داخل ہے صرف وہی سچائی پر ہے اور صرف اسی کے لیے نجات ہے۔ جو اس سے باہر ہے اس کا سچائی میں کو حصہ نہیں اور نجات سے قطعاً  محروم۔ باقی رہا عمل و اعتقاد تو اس کا قانون یک قلم غیر مؤثر ہو گیا۔ ایک شخص کتنا ہی خدا پرست اور نیک عمل ہو۔ لیکن اگر”یہودیت” کی نسلی گروہ بندی یا”مسیحیت” کی جماعتی گروہ بندی میں داخل نہیں تو اسے کوئی یہودی اور عیسائی،  ہدایت یافتہ انسان تسلیم نہیں کر سکتا۔ لیکن ایک سخت سے سخت بد عمل اور بد  اعتقاد انسان بھی نجات یافتہ سمجھ لیا جائے گا،  اگر ان گروہ بندیوں میں داخل ہو گا۔ قرآن ان کے اسی اعتقاد کو ان لفظوں میں نقل کرتا ہے : كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا۱ؕ (۱۳۵:۲) یعنی، ہدایت کی راہ اعتقاد اور عمل کی راہ نہیں ہے بلکہ یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندی کی راہ ہے،  جب تک کوئی یہودی یا نصرانی نہ ہو جائے،  ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے :خدا کی ہدایت جو دنیا کا عالم گیر قانون ہے،  وہ بھلا ان خود ساختہ گروہ بندیوں میں کیونکہ محدود ہو جا سکتی ہے ؟ بَلٰى ۱ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ (۱۱۲:۲) کے زور اور عموم پر غور کرو! کوئی انسان ہو،  کسی نسل و قوم اور گروہ بندی کا ہو،  لیکن جس کسی نے بھی  اللہ کے آگے عبودیت کا سر جھکا دیا اور نیک عملی کی زندگی اختیار کی،  اس نے دین کی نجات اور وسعت پالی اور اس کے لیے کوئی غم اور کھٹکا نہیں۔ غور کرو،  مذہبی صداقت کی عالم گیر وسعت کا اس سے زیادہ واضح اور ہمہ گیر اعلان اور کیا ہو سکتا ہے :

وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ۱۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍ۱ۙ وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۱ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ۱ۚ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ (۱۱۳:۲)

اور یہودیوں نے کہا: عیسائیوں کا دین کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے کہا: یہودیوں کے پاس کیا دھرا ہے ؟ حالانکہ دونوں (اللہ کی) کتاب پڑھتے ہیں (اور دونوں کا سرچشمہ دین ایک ہی ہے )۔ ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب نے کہ وہ بھی صرف اپنے ہی کو نجات کا وارث سمجھتے ہیں )،  اچھا! جس بات میں باہم دگر جھگڑ رہے ہیں،  قیامت کے دن اللہ اس کا فیصلہ کر دیگا (اور اس وقت حقیقت حال سب پر کھل جائے گی)۔

یعنی باوجویکہ خدا کا دین ایک ہی ہے اور کتاب الٰہی یعنی تورات،  دونوں کے سامنے ہے،  بایں ہمہ مذہبی گروہ بندی کا نتیجہ یہ ہے کہ باہم دگر مخالفت اور مکذب جتھے قائم ہو گئے ہیں،  ہر جتھا دوسرے جتھے کو جھٹلاتا اور ہر جتھا صرف اپنے ہی کو نجات و سعادت کا مالک سمجھتا ہے۔

 

سچائی اصلاً سب کے پاس ہے مگر عملاً سب نے کھودی ہے

 

سوال یہ ہے کہ جب دین کی راہ ایک ہونے کی جگہ بے شمار جتھوں اور ٹولیوں میں بٹ گئی اور ہر جتھا ایک ہی طریقے پر اپنی سچائی کا مدعی ہے اور ایک ہی طریقے پر دوسروں کو جھٹلا رہا ہے تو اب اس بات کا فیصلہ کیونکہ ہو کہ فی الحقیقت سچائی ہے کہاں ؟ قرآن کہتا ہے : سچائی اصلاً سب کے پاس ہے،  مگر عملاً سب نے کھودی ہے۔ سب کو ایک ہی دین کی تعلیم دی گئی تھی اور سب کے لیے ایک ہی عالم گیر قانون ہدایت تھا،  لیکن سب نے اصل حقیقت ضائع کر دی اور”الدین” پر قائم رہتے کی جگہ الگ الگ گروہ بندیاں کر لیں،  اب ہر گروہ دوسرے گروہ سے لڑ رہا ہے اور سمجھتا ہے دین کی سعادت اور نجات صرف اسی کے ورثے میں آئی ہے،  دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔

 

عبادت گاہوں میں تفرقہ

 

سورۃ بقرۃ میں مندرجہ صدر آیت کے بعد ہی حسب ذیل بیان شروع ہو جاتا ہے :

 وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا۱ؕ اُولٰٓىِٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىِٕفِیْنَ۱ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۱۱۴:۲)

اور غور کرو! اس سے بڑھ کر ظلم کرنے والا انسان کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی عبادت گاہوں میں اس کے نام کی یاد سے مانع آئے اور ان کی ویرانی میں کوشاں ہو؟ جن لوگوں کے ظلم و شرارت کا یہ حال ہے،  یقیناً وہ اس لائق نہیں کہ خدا کی عبادت گاہ  میں قدم رکھیں بجز اس حالت کے کہ (دوسروں کو اپنی طاقت سے ڈرانے کی جگہ خود دوسروں کی طاقت سے ) ڈرے سہمے ہوئے ہوں۔ یاد رکھو! ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی سخت ترین عذاب۔

یعنی مذہبی گروہ بندی کی گمراہی کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی عبادت گاہیں تک الگ الگ ہو گئی ہیں اور باوجودیکہ تمام پیروانِ مذہب ایک ہی خدا کے نام لیوا ہیں،  لیکن ممکن نہیں ایک مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کی بنائی ہوئی عبادت گاہ میں جا کر خدا کا نام لے سکے،  اتنا ہی نہیں،  بلکہ ہر گروہ صرف اپنی عبادت گاہ کو خدا کی عبادت گاہ سمجھتا ہے،  دوسرے گروہ کی عبادت گاہ اس کی نظروں میں کوئی احترام نہیں رکھتی حتیٰ کہ بسا اوقات وہ مذہب کے نام پر اٹھتا ہے اور دوسروں کی عبادت گاہیں منہدم کر ڈالتا ہے،  قرآن کہتا ہے : اس سے بڑھ کر انسان کا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا کے بندوں کو خدا کی یاد سے روکا جائے اور صرف اس لیے روکا جائے کہ وہ ایک دوسرے مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں یا ایک عبادت گاہ ڈھا دی جائے کہ وہ ہماری بنائی ہوئی نہیں ہے،  دوسرے گروہ کی بنائی ہوئی ہے۔ کیا تمہارے بنائے ہوئے مذہبی جتھوں کے اختلاف سے خدا بھی مختلف ہو گئے ؟ اور اس لیے ایک جتھے کی بنائی ہوئی عبادت گاہ تو خدا کی عبادت گاہ ہوئی،  مگر دوسرے کی بنائی ہوئی عبادت گاہ خدا کی عبادت گاہ نہیں :

وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِینَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن یُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِیتُمْ أَوْ یُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ (آل عمران: ۷۳)

اور (یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں ) یہ بات کبھی نہ مانو کہ دین کی جو سعادت تمہیں دی گئی ہے (یعنی یہودیوں کو دی گئی ہے ) ویسی اب کسی دوسرے انسان کو مل سکے،  یا اللہ کے حضور تمہارے خلاف کسی کی کوئی حجت چل سکے۔ (اے پیغمبر!) اب لوگوں سے کہہ دو: ہدایت تو وہی ہے جو اللہ کی ہدایت ہے (اور اس کی راہ سب کے لیے کھلی ہوئی ہے )۔ اور فضل اور بخشش کا سر رشتہ تمہارے ہاتھ نہیں ہے،  اللہ کے ہاتھ ہے،  جسے چاہے دے دے،  وہ (اپنے فضل میں ) بڑی وسعت رکھنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

یعنی یہودیوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وحیِ نبوت کی ہدایت جو انہیں دی گئی ہے،  وہ صرف انہیں کے لیے ہے،  ممکن نہیں کسی دوسرے انسان یا قوم کو یہ بات حاصل ہو سکے۔ چنانچہ اسی بناء پر وہ کہتے ہیں : اپنے مذہب کے آدمیوں کے علاوہ اور کسی آدمی کی سچائی اور بزرگی تسلیم نہ کرو اور یہ بات مانو کہ تمہارے خلاف (یعنی یہودیوں کے خلاف) کسی آدمی کی کوئی دلیل خدا کے حضور مقبول ہو سکتی ہے۔ قرآن اسی زعمِ باطل کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے "ان الھدیٰ ھدی اللہ” ہدایت کی راہ تو رہی ہے جو اللہ کی ہدایت ہے اور اللہ کا فضل کسی ایک انسان یا گروہ کے لیے نہیں ہے،  سب کے لیے ہے،  پس جو انسان بھی ہدایت کی راہ چلے گا،  ہدایت یافتہ ہو گا،  خواہ یہودی ہو یا کوئی ہو۔

 

یہودی اپنے آپ کو نجات یافتہ امت سمجھتے تھے اور کہتے تھے دوزخ کی آگ ان پر حرام کر دی گئی ہے

 

یہودیوں کی گروہ بندی کا غرور یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ وہ کہتے تھے : "خدا نے دوزخ کی آگ ہم پر حرام کر دی ہے،  اگر ہم میں سے کوئی آدمی جہنم میں ڈالا بھی جائے گا تو اس لیے نہیں کہ اسے عذاب میں ڈالا جائے،  بلکہ اس لیے کہ  گناہ کے داغ دھبوں سے پاک و صاف کر دیا جائے اور پھر جنت میں جا داخل ہو، ” قرآن ان کا یہ زعمِ باطل جا بجا نقل کرتا ہے اور پھر اس کا رد کرتے ہوئے پوچھتا ہے : یہ بات تمہیں کہاں سے معلوم ہو گئی کہ یہودی گروہ بندی کا ہر فرد نجات یافتہ ہے اور عذابِ اخری سے اسے چھٹکارا مل چکا ہے ؟ کیا تمہیں خدا نے غیر مشروط نجات کا کوئی پٹا لکھ کر دے دیا ہے کہ جہاں ایک انسان یہودی ہوا اور آتشِ دوزخ اس پر حرام ہو گئی؟ اگر نہیں دیا ہے تو پھر بتاؤ ایسا اعتقاد رکھنا خدا پر افترا نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ اس کے بعد صاف لفظوں میں خدا کے قانونِ عمل کا اعلان کرتا ہے : "جس کسی نے بھی اپنے عمل سے برائی کمائی،  اس کے لیے برائی ہے ” یرنی جس طرح سنکھیا کھانے سے ہر کھانے والا ہلاک ہو جاتا ہے،  خواہ یہودی ہو یا غیر یہودی،  اور دودھ پینے سے صحت و توانائی ملتی ہے،  خواہ پینے والا کسی نسل و قوم اور گروہ سے تعلق رکھتا ہو،  اسی طرح عالمِ معنویات میں بھی ہر عمل کا ایک خاصہ ہے اور وہ اس لیے بدلا نہیں جا سکتا کہ عمل کرنے والے کی نسل یا گروہ بندی کیا ہے ؟ چنانچہ سورۃ بقرۃ میں ہے :

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن یُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ  ۔   بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَیِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِیئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ   ۔  وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ  (البقرۃ: ۸۰-۸۲)

اور ان لوگوں نے (یعنی یہودیوں نے ) کہا: ہمیں جہنم کی آگ کبھی چھونے والی نہیں،  اور اگر چھوئے بھی تو اس سے زیادہ نہیں کہ چند دنوں کے لیے چھوئے۔ (اے پیغمبر!) ان سے کہو: یہ جو تم کہتے ہو تو کیا تم نے خدا سے کوئی قول و قرار کرا لیا ہے اور اب وہ اپنے قول و قرار سے نہیں پھر سکتا،  یا پھر تم خدا کے نام سے ایک ایسی (جھوٹی) بات کہہ رہے ہو جس کا تمہیں کوئی عمل نہیں۔ نہیں ! (خدا کا قانون تو یہ ہے کہ کسی نسل اور کسی گروہ کا انسان ہو،  لیکن) جس کسی نے بھی برائی کمائی اور اپنے گناہوں میں گھر کیا تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہی،  ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا اور جس کسی نے بھی ایمان کی راہ اختیار کی اور نیک عمل ہوا تو وہ بہشتی گروہ میں سے ہے،  ہمیشہ بہشت میں رہنے والا۔

 

قانونِ نجات کا اعلانِ عام

 

سورۃ نساء میں نہ صرف یہودیوں اور عیسائیوں کو بلکہ سب کو مخاطب کر کے صاف صاف اعلان کر دیا ہے،  ایسا اعلان جس کے بعد کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی:

لَّیْسَ بِأَمَانِیِّكُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗمَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِهِ وَلَا یَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا (النساء: ۱۲۳)

(مسلمانو! یاد رکھو نجات اور سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ (خدا کا قانون تو یہ ہے کہ) جو کوئی برائی کرے گا اس کا نتیجہ اس کے سامنے آئے گا اور پھر نہ تو کسی کی دوستی بچا سکے گی نہ کسی طاقت کی مددگاری۔

 

یہودی سمجھتے تھے غیر مذہب والوں کے ساتھ معاملت میں دیانت داری ضروری نہیں،  قرآن کا اس پر انکار

 

اسی مذہبی گروپ بندی کا نتیجہ تھا کہ یہودی سمجھتے تھے سچائی اور دیانت داری کے جس قدر بھی احکام نہیں وہ اس لیے نہیں ہیں کہ تمام انسانوں کے ساتھ عمل میں لائے جائیں،  بلکہ محض اس لیے ہیں کہ ایک یہودی دوسرے یہودی کے ساتھ بد دیانتی نہ کرے۔ وہ کہتے تھے : اگر ایک آدمی ہمارا مذہب نہیں ہے تو ہمارے لیے جائز ہے کہ جس طرح بھی چاہیں اس لا مال کھا لیں،  کچھ ضروری نہیں کہ راست بازی و دیانت کے اصول ملحوظ رکھے جائیں۔ چنانچہ لین دین میں سود کی ممانعت کو انہوں نے صرف اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ مخصوص کر دیا تھا اور آج تک ان کا  طرزِ عمل یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی کو دوسرے یہودی سے ظالمانہ سود نہیں لینا چاہیے۔ لیکن ایک یہودی غیر یہودی سے لے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ قرآن ان کے اس عقیدے کا ذکر کرتا اور اسے ان کی بہت بڑی گمراہی قرار دیتا ہے :

أَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا (النساء: ۱۶۱)

اور ان کا سود کھانا،  حالانکہ وہ اس سے روک دیے گئے تھے،  اور ان کی یہ بات کہ لوگوں کا مال ناجائز طریقے پر کھا لیتے تھے۔

اسی طرح جو یہودی عرب میں آباد تھے وہ کہتے تھے : عرب کے ان پڑھ  باشندوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں راست بازی و دیانت داری کچھ ضروری نہیں،  یہ لوگ بت پرست ہیں،  ہم ان لوگوں کا مال جس طرح کھا لیں،  ہمارے لیے جائز ہے :

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ یَعْلَمُونَ   ۔  بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ (آل عمران: ۷۵-۷۶)

(یہودیوں کی) یہ (بد معاملگی) اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں (عرب کے اِن) اَن پڑھ لوگوں سے (بد معاملگی کرنے میں ) ہم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی،  (جس طرح بھی ہم چاہیں ان کا مال کھا  سکتے ہیں،  حالانکہ) ایسا کہتے ہوئے وہ صریح اللہ پر افتراء کرتے ہیں۔ ہاں ! (ان سے باز پرسی ہو اور ضرور ہو،  کیونکہ اللہ کا قانون تو یہ ہے کہ) جو کوئی اپنا قول و قرار سچائی کے ساتھ پورا کرتا ہے اور برائی سے بچتا ہے تو وہی اللہ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے،  اور اللہ برائی سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

یعنی ایسا عقیدہ رکھنا خدا کے دین پر صریح افتراء ہے،  خدا کا دین تو یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے اور ہر حال میں راست بازی و دیانت داری کی راہ چلنی چاہیے،  خواہ کوئی انسان ہو اور کسی عقیدے اور گروہ کا ہو،  کیونکہ سفید ہر حال میں سفید ہے اور سیاہ ہر حال میں سیاہ۔ سفید چیز اس لیے کالی نہیں ہو جاتی کہ کس آدمی کو دی گئی ہے،  اور کالی چیز اس لیے سفید نہیں ہو جا تی کہ کس نسل اور کس گروہ کے ہاتھوں نکلی ہے۔ پس دیانت داری ہر حال میں دیانت داری ہے اور بد دیانتی ہر حال میں بد دیانتی۔

 

حضرت ابراہیم کی شخصیت سے استشہاد

 

نزولِ قرآن کے وقت بڑے مذہبی گروہ عرب میں تین تھے : یہودی،  عیسائی اور مشرکینِ عرب۔ اور یہ تینوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت تو یکساں طور پر عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے،  کیونکہ تینوں گروہوں کے مورثِ اعلیٰ وہی تھے۔ پس قرآن مذہبی گروہ بندی کی گم راہی واضح کرنے کے لیے ایک نہایت سیدھا سادہ سوال ان تینوں کے آگے پیش کرتا ہے۔ اگر دین کی سچائی گروہ بندیوں کے ساتھ وابستہ ہے تو بتاؤ حضرت ابراہیم کس گروہ بندی کے آدمی تھے ؟ یہ ظاہر ہے کہ اس وقت تک نہ تو یہودیت کا ظہور ہوا تھا،  نہ مسیحیت کا اور نہ کوئی دوسری گروہ بندی ہی موجود تھی۔ پھر اگر ابراہیم کسی گروہ بندی میں داخل نہ ہونے پر بھی دینِ حق کی راہ پر تھے تو بتاؤ وہ راہ کون سی تھی؟ قرآن کہتا ہے : وہ اسی دینِ حقیقی کی راہ تھی جو تمہارے تمام بنائی ہوئی گروہ بندیوں سے بالاتر اور نوعِ انسانی کے لیے عالم گیر قانونِ نجات ہے،  یعنی خدا کی موحدانہ پرستش اور نیک عملی کی زندگی:

قَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِینَ  (البقرۃ: ۱۳۵)

اور یہودی کہتے ہیں :  یہودی ہو جاؤ،  ہدایت پاؤ گے۔ نصاریٰ کہتے ہیں : نصرانی ہو جاؤ،  ہدایت پا ؤ گے۔ (اے پیغمبر!) تم کہو: نہیں (اللہ کی عالم گیر ہدایت تمہاری ان گروہ بندیوں کی پابند نہیں ہو سکتی)۔ ہدایت کی راہ تو وہی حنیفی راہ ہے جو ابراہیم کا طریقہ تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔

سورۃ آل عمران میں یہی مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا  ہے :

یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إِبْرَاهِیمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِیلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ  (آل عمران: ۶۵)

اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں حجت کرتے ہو؟ حالانکہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ تورات اور انجیل نازل نہیں ہوئیں مگر اس کے بعد۔ پھر کیا اتنی صاف بات بھی سمجھ نہیں سکتے ؟

یعنی وہ یہودیوں اور عیسائیوں سے سوال کرتا ہے : تمہارے ان گروہ بندیوں کی تاریخ زیادہ سے زیادہ تورات اور انجیل کے ظہور تک جا سکتی ہے،  کیونکہ انہیں کی نسبت سے گروہ بندیوں کے حلقے کھینچے گئے ہیں۔ اچھا! بتاؤ تورات سے پہلے بھی ہدایت یافتہ انسان موجود تھے یا نہیں ؟ اگر تھے تو ان کی راہ کیا تھی؟ خود تمہارے اسرائیلی گھرانے کے تمام نبیوں کی راہ کیا تھی؟ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو جس دین کی تلقین کی کی وہ دین کون سا تھا؟ حضرت یعقوب جب بسترِ مرگ پر تھے اور اپنے بیٹوں کو دینِ الٰہی پر قائم رہنے کی وصیت کر رہے تھے تو اس دین سے مقصود کون سا دین تھا؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ یہودیت یا مسیحیت کی گروہ بندی نہیں ہو سکتی،  کیونکہ یہ دونوں گروہ بندیاں حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح ہوئے۔ پس معلوم ہوا تمہارے ان خود ساختہ حلقہ ہائے نجات سے بھی کوئی بالا تر راہِ نجات موجود ہے جو اس وقت بھی نوعِ انسانی کے سامنے موجود تھی جب ان حلقہ بندیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قرآن کہتا ہے : یہی راہِ نجات ہے،  دین کی اصلی راہ  ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے کسی گروہ بندی کی  نہیں،  بلکہ اعتقاد اور عمل کی ضرورت ہے :

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرۃ: ۱۳۳)

پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کے سرہانے موت آ کھڑی ہوئی تھی اور اس نے اپنی اولاد سے پوچھا تھا: بتاؤ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انہوں نے جواب میں کہا تھا: اس ایک خدا کی عبادت کریں گے جس کی تو نے عبادت کی ہے اور تیرے بزرگوں ابراہیم،  اسماعیل اور اسحاق نے کی ہے،  اور ہم خدا کے حکموں کے فرماں بردار ہیں۔

 

اصلِ دین وحدت و اخوت ہے نہ کہ تفرقہ و منافرت

 

وہ کہتا ہے : دینِ الٰہی کی اصل نوعِ انسانی کی وحدت و اخوت ہے نہ کہ تفرقہ و منافرت۔ خدا کے جتنے بھی رسول دنیا میں آئے،  سب نے یہی تعلیم دی تھی کہ تم سب اصلاً ایک ہی امت ہو اور تم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے۔ پس چاہیے کہ سب اسی ایک پروردگار کی بندگی کریں اور ایک گھرانے کے بھائیوں کی طرح مل جل کر رہیں۔ اگرچہ ہر مذہب کے داعی نے اسی راہ کی تعلیم دی،  لیکن ہر مذہب کے  پیروؤں نے اس سے انحراف کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ملک،  ہر قوم،  ہر نسل نے اپنے اپنے جتھے الگ الگ بنا لیے اور ہر جتھا اپنے طریقے میں مگن ہو گیا۔

قرآن نے پچھلے رسولوں اور مذہب کے بانیوں میں سے جن جن رہنماؤں کے مواعظ نقل کیے ہیں ان سب میں بھی اصلِ اصول یہی حقیقت ہے اور عموماً اکثر مواعظ کا خاتمہ دین کی وحدت اور انسان کی عالمگیر اخوت کی تعلیم پر ہی ہوتا ہے۔ مثلاً سورۃ مؤمنون میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کا ذکر کیا ہے :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ (المؤمنون: ۲۳)

اس کے بعد ان دعوتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو حضرت نوح کے بعد ہوتی رہیں :

ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِینَ  ۔  فَأَرْسَلْنَا فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَیْرُهُ ۖ  (المؤمنون:۳۱-۳۲)

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے :

 ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَارُونَ (المؤمنون:۴۵)

پھر ان تمام دعوتوں کے بعد یہ صدائے حق بلند ہوتی ہے :

یَا أَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖإِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ   ۔  وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ   ۔  فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَیْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُونَ  (المؤمنون: ۵۱-۵۳)

(اور) ہم نے تمام رسولوں کو یہی حکم دیا تھا کہ پاک و صاف چیزیں کھاؤ اور نیک عملی کی زندگی بسر کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے میں بے خبر نہیں ہوں۔ اور (دیکھو!) یہ تمہارے قوم دراصل ایک ہی قوم ہے اور میں تم سب کا پروردگار  ہوں،  پس نا فرمانی سے بچو۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ لوگوں نے ایک دوسرے سے  کٹ کر جدا جدا دین بنا لیے،  ہر ٹولی کے پلے جو کچھ پڑ گیا ہے اسی میں مگن ہے۔

یعنی تمام رسولوں نے یکے بعد دیگرے یہی تعلیم دی تھی کہ خدا کی بندگی کرو اور نیک عملی کی زندگی اختیار کرو۔ تم سب خدا کے نزدیک ایک ہی امت ہو اور تم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے۔ ہم میں سے کوئی گروہ دوسرے گروہ کو اپنے سے الگ نہ سمجھے،  نہ کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مخالف ہو جائے۔ "فتقطعوا امرھم بینھم زبرا” لیکن لوگوں نے یہ تعلیم فراموش کر دی اور اپنی الگ الگ ٹولیاں بنا لیں۔ "کل حزب بما لدیھم فرحون” اب ہر ٹولی اسی میں مگن ہے جو اس کے پلے پڑ گیا ہے۔

 

رسمِ اصطباغ

 

مذہبی گروہ بندی کی رسموں میں سے ایک رسم وہ ہے جو عیسائی کلیسا نے اختیار کر رکھی ہے اور جسے وہ اصطباغ (بپتسمہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ در اصل ایک یہودی رسم تھی جو اس وقت ادا کی جاتی تھی جب لوگ گناہوں سے توبہ کیا کرتے تھے اور اس لیے فی نفسہٖ ایک مقررہ رسم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن عیسائیوں نے اسے انسانی نجات و سعادت کی بنیاد سمجھ لیا ہے۔ جب تک ایک شخص مسیح علیہ السلام کے نام پر اصطباغ نہ لے وہ نجات یافتہ انسان نہیں سمجھا جاتا۔ قرآن کہتا ہے : یہ کیسی گمراہی ہے کہ انسانی نجات و سعادت،  جس کا دار و مدار عمل و اعتقاد پر ہے،  محض ایک مقررہ رسم کے ساتھ وابستہ کر دی جائے ! انسانوں  کا یہ ٹھہرایا ہوا اصطباغ اللہ کا اصطباغ نہیں ہے۔ اللہ کا اصطباغ تو یہ ہے کہ تمہارے دل خدا پرستی کے رنگ میں رنگ جائیں :

صِبْغَةَ اللَّهِ ۖوَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ  (البقرۃ: ۱۳۸)

یہ اللہ کا رنگ ہے (یعنی دینِ الٰہی کا قدرتی اصطباغ ہے ) اور اللہ سے بہتر رنگ دینے میں اور کون ہو سکتا ہے ؟ ہم تو اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔

 

قانونِ عمل

 

اسی طرح سورۃ بقرۃ میں بار بار کہتا ہے : دینِ الٰہی عمل کا قانون ہے اور ہر انسان کے لیے وہی ہونا جو اس کے عمل کی کمائی ہے۔ یہ بات کہ ایک گروہ میں بہت سے نبی اور برگزیدہ انسان ہو چکے ہیں یا نیک انسانوں کی نسل میں سے ہے یا کسی پچھلی قوم سے رشتۂ  قدامت رکھتا ہے،  نجات و سعادت کے لیے کچھ سود مند نہیں :

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖوَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا یَعْمَلُونَ  (البقرۃ: ۱۳۴)

یہ ایک امت تھی جو گزر چکی اور اس کے لیے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا اور تمہارے لیے وہ ہے جو اپنے عمل سے کماؤ،  تم سے اس کی باز پرس نہیں ہو گی کہ اس کے عمل کیسے تھے۔

 

قرآن کی دعوت

 

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کوئی بات بھی قرآن کے صفحوں پر اس درجہ نمایاں نہیں ہے جس قدر یہ بات ہے۔ اس نے بار بار صاف اور قطعی لفظوں میں اس حقیقت کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ کسی نئی مذہبی گروہ بندی کی دعوت لے کر نہیں آیا ہے،  بلکہ چاہتا ہے تمام مذہبی گروہ بندیوں کی جنگ و نزاع سے دنیا کو نجات دلا دے اور سن کو اسی ایک راہ پر جمع کر دے جو سب کی مشترک اور متفقہ راہ ہے۔

وہ بار بار کہتا ہے : جس راہ کی میں دعوت دے رہا ہوں وہ کوئی نئی راہ نہیں ہے اور نہ ہی سچائی کی راہ نئی ہو سکتی ہے۔ یہ وہی راہ ہے جو اول روز سے موجود ہے اور تمام مذاہب کے داعیوں نے اسی کی طرف بلایا ہے :

 شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَىٰ وَعِیسَىٰ ۖ أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ ۚ (الشوریٰ: ۴۳)

اور (دیکھو!) اس نے تمہارے لیے دین کی وہی راہ ٹھہرائی ہے جس کی وصیت نوح کو کی گئی تھی اور جس پر چلنے کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھ۔(ان سب کی تعلیم یہی تھی) کہ الدین (یعنی خدا کا ایک ہی دین) قائم رکھو اور اس راہ میں الگ الگ نہ ہو جاؤ۔

سورۃ نساء میں ہے :

إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْكَ كَمَا أَوْحَیْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِن بَعْدِهِ ۚوَأَوْحَیْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِیسَىٰ وَأَیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ ۚ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ۔  وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَیْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِیمًا  (النساء: ۱۶۳-۱۶۴)

(اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں اسی طرح اپنی وحی سے مخاطب کیا ہے جس طرح نوح کو کیا تھا اور اُن تمام نبیوں کو کیا تھا جو نوح کے بعد ہوئے۔ نیز جس طرح ابراہیم،  اسماعیل،  اسحاق،  اولادِ یعقوب،  اور عیسیٰ،  ایوب،  یونس،  ہارون،  سلیمان (وغیرہم) کو مخاطب کیا اور داوٗد کو زبور عطا کی۔ علاوہ بریں وہ رسول جن میں سے بعض کا حال ہم تمہیں پہلے سنا چکے ہیں اور بعض ایسے ہیں جن کا حال تمہیں نہیں سنایا۔

سورۃ انعام میں پچھلے رسولوں کا ذکر کر کے پیغمبرِ اسلام کو مخاطب کیا ہے اور کہا ہے :

أُولَٰئِكَ الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ  (الأنعام : ۹۰)

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے راہِ حق دکھائی،  پس (اے پیغمبر!) تم بھی انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔

 

سب کی یکساں تصدیق اور سب کے متفقہ دین کی پیروی اس کی دعوت کا اصلِ اصول ہے

 

اسی لیے اس کی دعوت کی پہلی بنیاد ہی یہ ہے کہ تمام بانیانِ مذاہب کی یکساں طور پر تصدیق کی جائے،  یعنی یقین کیا جائے کہ سب حق پر تھے،  سب خدا کی سچائی کے پیغام بر تھے،  سب کے ایک ہی اصل و قانون کی تعلیم دی اور سب کا اس متفقہ تعلیم پر کاربند ہونا ہی ہدایت و سعادت کی تنہا راہ ہے :

قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَىٰ وَعِیسَىٰ وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ  (آل عمران : ۸۴)

(اے پیغمبر!) کہہ دو: ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ اس نے ہم پر نازل کیا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح جو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ کو اور دنیا کے تمام نبیوں کو ان کے پروردگار سے دیا گیا ہے،  سب پر ہمارا ایمان ہے۔ ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے سے جدا نہیں کرتے (کہ اسے نہ مانیں،  دوسروں کو مانیں،  ہم سب کی یکساں تصدیق کرتے ہیں ہیں ) اور ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں (اس کی سچائی جہاں کہیں بھی اور جس کسی کی زبانی بھی آئی ہو،  اس پر ہمارا ایمان ہے )

 

تفریق بین الرسل

 

قرآن نے اس آیت میں اور نیز متعدد موقعوں پر "تفریق بین الرسل” کو ایک بہت بڑی گمراہی قرار دیا ہے اور سچائی کی راہ یہ بتلائی ہے کہ "تفریق بین الرسل” سے انکار کیا جائے۔ "تفریق بین الرسل” کے معنیٰ یہ ہیں کہ خدا کے رسولوں میں باعتبارِ تصدیق تفرقہ امتیاز کرنا،  یعنی ایسا سمجھنا کہ ان میں سے فلاں سچا تھا،  فلاں سنا نہ تھا یا کسی ایک کی تصدیق کرنا،  باقی سب سے انکار کر دینا،  سب کی تصدیق کرنی،  کسی ایک کا انکار کر دینا۔ قرآن کہتا ہے : ہر راست باز انسان کا کو خدا کے سچے دین پر چلنا چاہتا ہے،  فرض ہے کہ بلا کسی امتیاز کے تمام رسولوں،  تمام کتابوں،  تمام مذہبی دعوتوں پر ایمان لائے اور کسی ایک کا بھی انکار نہ کرے۔ اس کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ کہے : سچائی جہاں کہیں بھی ظاہر ہوئی ہے اور جس کسی کی زبان پر بھی ظاہر ہوئی ہے،  سچائی ہے اور میرا اس پر ایمان ہے :

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚوَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَیْكَ الْمَصِیرُ  (البقرۃ : ۲۸۵)

اللہ کا رسول اس (کلامِ حق) پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر نازل ہوا ہے اور وہ لوگ بھی جو ایمان لائے ہیں۔ یہ سب اللہ پر،  اس کے ملائکہ پر،  اس کی کتابوں پر،  اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں،  (ان کے ایمان کا دستورالعمل یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی کو دوسرے سے جدا نہیں کرتے (کہ کسی کو مانیں،  کسی کو نہ مانیں )۔ انہوں نے کہا: خدایا!  ہم نے تیرا پیام سنا اور تیری فرماں برداری کی۔ ہمیں تیری مغفرت نصیب ہو۔ خدایا! ہم سب کو بالآخر تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔

وہ کہتا ہے : خدا ایک ہے،  اس کی سچائی ایک ہے،  لیکن سچائی کا پیغام بہت سی زبانوں نے پہنچایا ہے۔ پھر اگر تم کسی ایک پیغام بر کی تصدیق کرتے ہو،  دوسروں کا انکار کر دیتے ہو تو اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ ایک ہی حقیقت کو ایک جگی مان لیتے ہو،  دوسری جگہ ٹھکرا دیتے ہو یا ایک ہی بات کو مانتے بھی ہو،  رد بھی کرتے ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسا ماننا،  ماننا نہیں ہے،  بلکہ ایک زیادہ بری قسم کا انکار ہے۔

 

خدا کی سچائی اس کی عالم گیر بخشش ہے

 

وہ کہتا ہے : خدا کی سچائی،  اس کی ساری باتوں کی طرح،  اس کی عالم گیر بخشش ہے۔ وہ نہ تو کسی خاص زمانے سے وابستہ کی جا سکتی ہے،  نہ کسی خاص نسل و قوم سے اور نہ کسی خاص مذہبی گروہ بندی ہے۔ تم نے اپنے لیے طرح طرح کی قومیتیں اور جغرافیائی اور نسلی حد بندیاں بنا لی ہیں،  لیکن تم خدا کی سچائی کے لیے کوئی ایسا امتیاز نہیں گھڑ سکتے۔ اس کی نہ تو کوئی قومیت ہے،  نہ نسل ہے،  نہ جغرافیائی حد بندی  ہے،  نہ جماعتی حلقہ بندی۔ وہ خدا کے سورج کی طرح ہر جگہ چمکتی اور نوعِ انسانی کے ہر فرد کو روشنی بخشتی ہے۔ اگر تم خدا کی سچائی کی تلاش میں ہو تو اسے کسی ایک ہی گوشے میں نہ ڈھونڈو۔ وہ ہر جگہ نمودار ہوئی ہے اور ہر عہد میں اپنا ظہور رکھتی ہے۔ تمہیں زمانوں کا،  قوموں کا،  وطنوں کا،  زبانوں کا اور طرح طرح کی گروہ بندیوں کا پرستار نہیں ہونا چاہیے۔ صرف خدا کا اور اس کی عالم گیر سچائی کا پرستار ہونا چاہیے۔ اس کی سچائی جہاں کہیں بھی آئی ہو اور جس بھیس میں آئی ہو،  تمہاری متاع ہے اور تم اس کے وارث ہو۔

 

راہیں صرف دو ہیں : ایمان کی یہ ہے کہ سب کو مانو،  انکار کی یہ ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا انکار کر دو

 

چنانچہ اس نے جا بجا "تفریق بین الرسل” کی راہ کو انکار کی راہ قرار دیا ہے اور ایمان کی راہ یہ بتائی ہے کہ بلا تفریق سب کی تصدیق کی جائے۔ وہ کہتا ہے : یہاں راہیں صرف دو ہی ہیں۔ تیسری نہیں ہو سکتی۔ ایمان کی راہ یہ ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا انکار کر دو۔ یہاں کسی ایک کا انکار بھی وہی حکم رکھتا ہے جو سب کے انکار کا ہے :

إِنَّ الَّذِینَ یَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَیُرِیدُونَ أَن یُفَرِّقُوا بَیْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَیَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیدُونَ أَن یَتَّخِذُوا بَیْنَ ذَٰلِكَ سَبِیلًا  ۔  أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ عَذَابًا مُّهِینًا ۔ وَالَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَٰئِكَ سَوْفَ یُؤْتِیهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِیمًا    (النساء : ۱۵۰-۱۵۲)

جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبروں سے بر گشتہ ہیں اور چاہتے ہیں اللہ اور اس کے رسولوں میں تفرقہ کریں (یعنی کسی کو خدا کا رسول مانیں،  کسی کو نہ مانیں ) اور کہتے ہیں : ان میں سے بعض کو ہم مانتے ہیں،  بعض کا انکار کرتے ہیں،  اور پھر اس طرح چاہتے ہیں کہ کفر اور ایمان کے درمیاں کوئی تیسرا راستہ اختیار کر لیں تو یقین کرو یہی لوگ ہیں کہ ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں،  اور جن لوگوں کی راہ کفر کی راہ ہے تو ان کے لیے رسوا کن عذاب تیار ہے۔ لیکن ہاں ! جو لوگ اللہ اور ا س کے تمام پیغمبروں پر ایمان لائے اور کسی ایک پیغمبر کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کیا (یعنی کسی ایک کی سچائی سے بھی انکار نہیں کیا) تو بلاشبہ یہی لوگ ہیں جنہیں عن قریب اللہ ان  کے اجر عطا فرمائے گا،  اور وہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔

سورۃ بقرۃ میں جو سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کی پہلی سورۃ ہے،  سچے مؤمنوں کی راہ یہ بتلائی ہے :

وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ یُوقِنُونَ  ۔  أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  (البقرۃ : ۴-۵)

اور وہ لوگ جو اس سچائی پر ایمان لائے جو پیغمبرِ اسلام پر نازل ہوئی ہے اور ان سے پہلے نازل ہو چکی ہیں اور نیز آخرت کی زندگی پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی ٹھہرائی ہوئی ہدایت پر ہیں اور یہی ہیں جنہوں نے فلاح پائی۔

جب سب ایک ہی خدا کے پرستار ہیں اور سب کو اپنے اپنے عمل کے مطابق نتیجہ ملنا ہے تو پھر دین کے نام پر نزاع کیوں ہو

وہ کہتا ہے : اگر تمہیں اس بات سے انکار نہیں کہ تمام کارخانۂ  ہستی کا خالق ایک ہی  خالق ہے اور اسی کی پروردگار یکساں طور پر ہر مخلوق کی پرورش کر رہی ہے تو پھر تمہیں اس بات سے کیوں انکار ہو کہ اس کی روحانی سچائی کا قانون بھی ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح پر تمام نوعِ انسانی کو دیا گیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : تم سب کا پروردگار ایک ہے،  تم سب  ایک ہی خدا کے نام لیوا ہو،  تم سب کے رہنماؤں نے تمہیں ایک ہی راہ دکھلائی ہے۔ پھر یہ کیسی گم راہی کی انتہاء اور عقل کی موت ہے کہ رشتہ ایک ہے،  مقصد ایک ہے،  راہ ایک ہے،  لیکن ہر گروہ دوسرے کا دشمن ہے اور ہر انسان دوسرے انسان سے متنفر۔ اور پھر یہ تمام جنگ و نزاع کس کے نام پر کی جا رہی ہے ؟ اسی خدا کے نام پر اور اسی خدا کے دین کے نام پر جس نے سب کو ایک ہی رشتۂ  اخوت میں جکڑ دیا تھا:

قُلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ (المائدہ : ۵۹)

ان لوگوں سے کہو کہ اے اہلِ کتاب! تم  جو ہماری مخالفت میں کمر بستہ ہو گئے تو تو بتلاؤ اس کے سوا ہمارا جرم کیا ہے کہ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ہم سے پہلے نازل ہو چکا ہے،  سب پر ایمان رکھتے ہیں ! (پھر کیا خدا پرستی اور خدا کے تمام رسولوں کی تصدیق تمہارے نزدیک جرم اور عیب ہے ؟ افسوس تم پر!) تم میں اکثر ایسے ہی ہیں جو راہِ حق سے یکسر بر گشتہ ہیں۔

وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیمٌ  (مریم : ۳۶)

(دیکھو!) خدا تو میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے،  پس اسی کی بندگی کرو،  یہی دین کی سیدھی راہ ہے۔

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِی اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ  (مریم : ۳۶)

(اے پیغمبر! ان سے ) کہو: کہا تم خدا کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو؟ حالانکہ ہمارا اور تمہارا دونوں کا پروردگار وہی ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں،  تمہارے لیے تمہارے اعمال (یعنی ہر انسان کو اس کے عمل کے مطابق نتیجہ ملنا ہے،  پھر اس بارے میں جھگڑا کیوں ہو؟)

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن میں جہاں کہیں اس طرح کے مخاطبات ہیں۔ جیسا کہ آیات مندرجہ صدر میں ہے :”ان اللہ ربی و ربکم”، اللہ ہمارا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے” یا”وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ  (۴۶:۲۹) ہمارا اور تمہارا دونوں کا خدا ایک ہی ہے ” یا”اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ۱ۚ وَ لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۱ۚ (۲۔۱۳۹) کیا تم خدا کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو؟ حالانکہ وہ ہمارا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے اور ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں،  تمہارے لیے تمہارے۔ تو ان تمام مخاطبات سے مقصود اسی حقیقت پر زور دینا ہے،  یعنی جب سب کا پروردگار ایک ہے اور ہر انسان کے لیے ایسا ہی نتیجہ ہے جیسا اس کا عمل ہے تو پھر خدا اور مذہب کے نام پر یہ عالم گیر جنگ و جدال کیوں برپا ہے ؟ وہ بار بار کہتا ہے : میری تعلیم اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ خدا پرستی اور نیک عملی کی طرف بلاتا ہوں،  میں کسی مذہب کو نہیں جھٹلاتا،  میں کسی رہ نما سے انکار نہیں کرتا۔” سب کی یکساں تصدیق” اور سب کی مشترکہ اور متفقہ تعلیم” میرا دستور العمل ہے۔ پھر میرے خلاف تمام پیروان مذہب نے کیوں اعلان جنگ کر دیا ہے ؟

 

قرآن کا پیروان مذاہب سے مطالبہ

 

اور یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس نے کسی مذہب کے پیرو سے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ کوئی نیا دین قبول کر لے،  بلکہ ہر گروہ سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اپنے مذاہب کی حقیقی تعلیم پر جسے تم نے طرح طرح کی تحریفوں اور اضافوں سے مسخ کر دیا ہے،  سچائی کے ساتھ کار بند ہو جاؤ۔ وہ کہتا ہے : اگر تم نے ایسا کر لیاتو میرا کام پورا ہو گیا،  کیونکہ جوں ہی تم اپنے مذہب کی تعلیم کی طرف لوٹوگے،  تمہارے سامنے وہی حقیقت آموجود ہو گی جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں۔ میرا پیام کوئی نیا پیام نہیں ہے،  وہی قدیم اور عالم گیر پیام ہے جو تمام بانیان مذہب دے چکے ہیں :

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۱ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا۱ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ  ۔  اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبُِٔوْنَ وَ النَّصٰرٰى مَنْ آمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۲۸:۵۔۶۹)

” (اسے پیغمبر! ان لوگوں سے ) کہہ دو،  اے اہل کتاب! جب تک تم تورات اورانجیل کی اور ان تمام صحیفوں کی جو تم پر نازل ہوئے ہیں،  حقیقت قائم نہ کرو،  اس وقت تک تمہارے پاس دین میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ اور (اے پیغمبر!) تمہارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے (بجائے اس کے کہ یہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں،  تم دیکھو گے کہ) ان میں سے بہتوں کا کفر و طغیان اس کی  وجہ سے اور زیادہ بڑھ جائے گا،  تو جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کر لی ہے،  تم ان کی حالت پر بے کار کو غم نہ کھاؤ۔ جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں،  جو یہودی ہیں،  جو صابی ہیں،  جو نصاریٰ ہیں (یہ ہوں یا کوئی ہو) جو کوئی بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے عمل بھی نیک ہوئے تو اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہے،  نہ کسی طرح کی غمگینی۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ان راست باز انسانوں کے ایمان وعمل کا پوری فراخ دلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت مختلف مذاہب میں موجود تھے اور جنہوں نے اپنے مذہبوں کی حقیقی روح ضائع نہیں کی تھی۔ البتہ وہ کہتا ہے : ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ غالب تعداد انہیں لوگوں کی ہے جنہوں نے دین الٰہی کی اعتقادی اور عملی حقیقت یک قلم ضائع کر دی ہے :

لَیْسُوْا سَوَآءً۱ؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآىِٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ آیٰتِ اللّٰهِ آنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ ۔ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ۱ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ وَ مَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ۱ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ (۱۱۳:۳۔۱۱۵)

یہ بات نہیں ہے کہ سب ایک ہی طرح کے ہوں۔ انہیں اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اصل دین پر قائم ہیں،  وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کے سراس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں،  اور وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں،  نیکی کا حکم دیتے ہیں،  برائی سے روکتے ہیں،  نیکی کی راہوں میں تیز گام ہیں۔ اور بلاشبہ یہی لوگ ہیں جو نیک انسانوں میں سے ہیں۔ اور (یاد رکھو!) یہ لوگ جو کچھ بھی نیکی کرتے ہیں تو ہرگز ایسا نہیں ہو گا کہ اس کی قدر نہ کی جائے۔ وہ جانتا ہے کہ (کس گروہ میں ) کون پرہیزگار ہے۔

مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ۱ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ (۶۶:۵)

ان میں سے ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو میانہ رو ہیں،  لیکن بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے کہ جو کچھ کرتے ہیں،  برا ہی کرتے ہیں۔

یہ جو قرآن جا بجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ پچھلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے،  جھٹلانے والا نہیں،  اور اہل کتاب سے بار بار کہتا ہے : وَ آمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ  (۴۱:۲) اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرتی ہوئی نمایاں ہوئی ہے ” تو اس سے مقصود بھی اسی حقیقت پر زور دینا ہے،  یعنی جب میری تعلیم تمہارے مقدس نوشتوں کے خلاف کوئی نیا دین نہیں پیش کرتی اور نہ ان سے تمہیں منحرف کرنا چاہتی ہے،  بلکہ سر تا سر مصدق اور مؤید ہے تو پھر تم میں اور مجھ میں نزاع کیوں ہے ؟کیوں تم میرے خلاف اعلان جنگ کر دو؟

 

اصطلاح قرآنی میں "المعروف” اور”المنکر”

 

اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس نے نیکی کے لیے "معروف” کا اور برائی کے لیے "منکر” کا لفظ اختیار کیا ہے : وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ (۱۷:۳۱) معروف”عرف” سے ہے جس کے معنی پہچاننے کے ہیں،  پس”معروف” وہ بات ہوئی جو جانی پہچانی بات ہو”، منکر” کے معنی انکار کرنے کے ہیں،  یعنی ایسی بات جس سے عام طور سے انکار کیا گیا ہو،  پس قرآن نے نیکی اور برائی کے لیے یہ الفاظ اس لیے اختیار کیے کہ وہ کہتا ہے : دنیا میں عقائد و افکار کا کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو،  لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے اچھے ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے برے ہونے پر سب متفق ہیں،  مثلاً اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ دیانت داری اچھی بات ہے،  بد دیانتی برائی ہے۔اس سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ماں باپ کی خدمت،  ہمسایہ سے سلوک،  مسکینوں کی خبرگیری،  مظلوم کی داد رسی انسان کے اچھے اعمال ہیں اور ظلم اور بد سلوکی برے اعمال ہیں،  گویا یہ وہ باتیں ہیں جن کی اچھائی عام طور پر جانی بوجھی ہوئی ہے اور جن کے خلاف جانا عام طور پر قابل انکار و اعتراض ہے۔ دنیا کی تمام جماعتیں دوسری باتوں میں کتنا ہی اختلاف رکھتی ہیں،  لیکن جہاں تک ان اعمال کا تعلق ہے سب ہم آہنگ و ہم رائے ہیں۔

قرآن کہتا ہے : یہ اعمال،  جب کہ اچھائی عام طور پر نوع انسانی کی جانی بوجھی ہوئی ہے،  دین الٰہی کے مطلوبہ اعمال ہیں۔ اسی طرح وہ اعمال جن سے عام طور پر انکار کیا گیا ہے اور جن کی برائی پر تمام مذاہب متفق ہیں،  دین الٰہی کے ممنوعہ اعمال ہیں۔ یہ بات چونکہ دین کی اصل حقیقت تھی،  اس لیے اس میں اختلاف نہ ہو سکا اور مذہبی گروہوں کی بے شمار گمراہیوں اور حقیقت فراموشیوں پر بھی ہمیشہ معلوم و مسلم رہی۔ ان اعمال کی اچھائی اور برائی پر نوع انسانی کے تمام عہدوں،  تمام مذہبوں اور تمام قوموں کا عالم گیر اتفاق ان کی فطری اصلیت پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس جہاں تک اعمال کا تعلق ہے،  میں انہیں باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہوں جن کی اچھائی عام طور پر جانی بوجھی ہوئی ہے اور انہیں باتوں سے روکتا ہوں جن سے عام طور پر نوع انسانی نے انکار کیا ہے،  یعنی میں معروف کا حکم دیتا ہوں،  منکر سے روکتا ہوں۔ پس جب میری دعوت کا یہ حال ہے تو پھر کسی انسان کو بھی جسے راست بازی سے اختلاف نہیں،  کیوں مجھ سے اختلاف ہو؟

 

"الدین القیم” اور”فطرۃ اللہ”

 

وہ کہتا ہے : یہی راہ عمل نوع انسانی کے لیے خدا کا ٹھہرایا ہوا فطری دین ہے اور فطرت کے قوانین میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی”الدین القیم” ہے،  یعنی سیدھا اور درست دین جس میں کسی طرح کی کجی اور خامی نہیں۔ یہی” دین حنیف” ہے جس جی دعوت حضرت ابراہیم نے دی تھی۔ اسی کا نام میری اصطلاح میں "الاسلام” ہے،  یعنی خدا کے ٹھہرائے ہو قوانین کی فرماں برداری:

فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا۱ؕ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا۱ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ۱ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۱ۙۗ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔۔  مُنِیْبِیْنَ اِلَیْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ  ۔   مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا۱ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ (۳۰:۳۰۔۳۲)

تم ہر طرف سے منہ پھیر کر”الدین” کی طرف رخ کرو،  یہی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے اللہ کی بناوٹ میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی”الدین القیم” (یعنی سیدھا اور سچا دین) ہے،  لیکن اکثر انسان ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ (دیکھو!) اسی (ایک خدا) کی طرف متوجہ رہو،  اس کی نا فرمانی سے بچو،  نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور گروہ بندیوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے۔

 

"الاسلام”

 

وہ کہتا ہے :،   خدا کا ٹھہرایا ہوا دین جو کچھ ہے یہی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ بنا لیا گیا ہے وہ انسانی گروہ بندیوں کی گمراہیاں ہیں۔ پس اگر تم خدا پرستی اور عمل صالح کی اصل پر جو تم سب کے یہاں اصل دین ہے،  جمع ہو جاؤ اور خود ساختہ گمراہیوں سے باز آ جاؤ تو میرا مقصد پورا ہو گیا۔ میں اس سے زیادہ اور کیا چاہتا ہوں ؟

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۱۫ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ۱ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِآیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ۱ؕ وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ۱ؕ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا۱ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ۱ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ (۱۹:۳۔۲۰)

اللہ کے نزدیک دین ایک ہی ہے اور وہ”الاسلام” ہے۔ اور یہ جو اہل کتاب نے اختلاف کیا (اور ایک دین پر مجتمع رہنے کی جگہ یہودیت اور نصرانیت کی گروہ  بندیوں میں بٹ گئے ) تو یہ اس لیے ہوا کہ اگرچہ علم و حقیقت کی راہ ان پر کھل چکی تھی،  لیکن آپس کی ضد اور سر کشی سے اختلاف میں پڑ گئے۔ اور (یاد رکھو!) جو کوئی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتا ہے تو اللہ (کا قانون مکافات بھی) حساب لینے  میں سست رفتار نہیں۔ پھر اگر یہ لوگ تم سے اس بارے میں جھگڑا کریں تو تم کہو: میری اور میرے پیرووں کی راہ تو یہ ہے کہ اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینا،  اور ہم نے سر جھکا دیا ہے۔ پھر اہل کتاب سے اور ان پڑھ لوگوں سے (یعنی مشرکین عرب سے ) پوچھو: تم بھی اللہ کے آگے جھکتے ہو یا نہیں ؟ (یعنی ساری باتیں جھگڑے کی چھوڑو،  یہ بتاؤ تمہیں خدا پرستی منظور ہے یا نہیں ؟) اگر وہ جھک گئے تو (سارا جھگڑا ختم ہو گیا اور ) انہوں نے راہ پالی۔ اگر رو گردانی کریں تو تمہارے ذمے جو کچھ ہے وہ پیام حق پہنچا دینا ہے۔ اور اللہ کی نظروں سے بندوں کا حال پوشیدہ نہیں۔

اس نے دین کے لیے "الاسلام” کا لفظ اسی لیے اختیار کیا ہے کہ”اسلام” کے معنی کسی بات کے مان لینے اور فرماں برداری کرنے کے ہیں۔ وہ کہتا ہے : یہ کچھ انسان ہی کے لیے نہیں ہے،  بلکہ تمام کائنات ہستی اسی اصل پر قائم ہے۔ سب کے بقاء و قیام کے لیے خدا نے کوئی نہ کوئی قانون عمل ٹھہرا دیا ہے اور سب اس کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی رو گردانی کریں تو کارخانہ ہستی درہم برہم ہو جائے :

اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ (۸۳:۳)

پھر کیا یہ لوگ چاہتے ہیں اللہ کا ٹھہرایا ہوا دین چھوڑ کر کوئی دوسرا دین ڈھونڈ نکالیں،  حالانکہ آسمان اور زمین میں جو کوئی بھی ہے سب چار و ناچار اسی کے (ٹھہرائے ہوئے قانون عمل کے ) آگے جھکے ہوئے ہیں،  اور (بالآخر) سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

وہ جب کہتا ہے "الاسلام کے سوا کوئی دین اللہ کے نزدیک مقبول نہیں ” تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ دین حقیقی کے سوا جو ایک ہی ہے اور تمام رسولوں کی مشترکہ تعلیم ہے،  انسانی ساخت کی کوئی گروہ بندی مقبول نہیں۔سورۃ آل عمران میں جہاں یہ بات بیان کی ہے کہ دین حقیقی کی راہ تمام مذہبی رہ نماؤں کی تصدیق اور پیرو کی راہ ہے،  وہیں متصلاً یہ بھی کہہ دیا ہے :

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ۱ۚ وَ هُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۸۵:۳)

اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہے گا تو یاد رکھو! اس کی راہ کبھی قبول نہ کی جائے گی اور وہ آخرت کے دن (دیکھے گا کہ) تباہ ہونے والوں میں سے ہے۔

اور اسی لیے وہ تمام باتیں پیروان دعوت کو بار بار متنبہ کرتا ہے کہ دین میں تفرقہ اور گروہ بندی سے بچیں اور اسی گم راہی میں مبتلا نہ  ہوئیں جس سے قرآن نے نجات دلائی ہے۔ وہ کہتا ہے : میری دعوت نے تمام انسانوں کو جو مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے،  خدا پرستی کی راہ میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ایک دوسرے کے جاں نثار بھائی بن گئے،  ایک یہودی جو پہلے حضرت مسیح کا نام سنتے ہی نفرت سے بھر جاتا تھا،  ایک عیسائی جو ہر یہودی کے خون کا پیاسا تھا،  ایک مجوسی جس  کے نزدیک تمام غیر مجوسی ناپاک تھے،  ایک عرب جو اپنے سوا سب کو انسانی شرف و محاسن سے تہی دست سمجھتا تھا،  ایک صابی جو یقین کرتا تھا کہ دنیا کی قدیم سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے،  ان سب کو دعوت قرآنی نے ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے اور اب یہ سب ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی جگہ ایک دوسرے کے مذہبی رہ نماؤں کی تصدیق کرتے اور سب کی بتائی ہوئی متفقہ راہ ہدایت پر گام زن ہیں :

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۱۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا۱ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا۱ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ آیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (۱۰۳:۳)

اور (دیکھو!) سب مل جل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو،  اللہ نے تم پر جو فضل و کرم کیا ہے اسے یاد کرو۔ تمہارا حال یہ تھا کہ ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے،  پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں باہم دگر الفت پیدا کر دی،  پھر ایسا ہوا کہ انعام الٰہی سے بھائی بھائی ہو گئے۔ اور (دیکھو!) تمہارا حال یہ تھا گویا آگ سے بھرا ہوا   گڑھا ہے اور اس کے کنارے کھڑے ہو،  لیکن اللہ نے تمہیں بچا لیا۔ اللی اسی طرح اپنی کار فرمائیوں کی نشانیاں تم پر واضح کرتا ہے،  تاکہ ہدایت پاؤ۔

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ۱ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۱۰۵:۳)

اور (دیکھو!) ان لوگوں کی سی چال اختیار نہ کر لینا جو( ایک دن پر قائم رہنے کی جگہ) جدا جدا ہو گئے اور اختلاف میں پڑ گئے،  باوجودیکہ روشن دلیلیں ان کے سامنے آ چکی تھیں۔ (یاد رکھو!) یہی لوگ ہیں جن کے لیے (کامیابی و فلاح کی جگہ) بڑا (بھاری) عذاب ہے۔

وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ۱ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ۱ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (۱۵۳:۲)

اور (دیکھو!) یہ میری راہ ہے،  بالکل سیدھی راہ،  پس اسی ایک راہ پر چلو،  طرح طرح کی راہوں کے پیچھے نہ پڑ جاؤ کہ وہ تمہیں خدا کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گی۔ یہی بات ہے جس کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم (نافرمانی سے ) بچو۔

 

قرآن اور اس کے مخالفوں میں بناء نزاع

 

اب چند لمحوں کے لیے اس نزاع پر غور کرو جو قرآن اور اس کے مخالفوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ یہ مخالف کون تھے ؟ پچھلے مذاہب کے پیرو تھے جن میں بعض کے پاس کتاب تھی،  بعض کے پاس نہ تھی۔

اچھا! وہ بناء نزاع کیا تھی؟

کیا یہ تھی کہ قرآن نے ان کے بانیوں اور رہ نماؤں کو جھٹلایا تھا یا ان کی مقدس کتابوں سے انکار کیا تھا؟ اور اس لیے وہ اس کی مخالفت میں کمر بستہ ہو گئے تھے۔

کیا یہ تھی کہ اس نے  دعویٰ کیا تھا خدا کی سچائی صرف میرے ہی حصے میں آئی ہے اور تمام پیروان مذاہب کو چاہیے اپنے اپنے نبیوں سے برگشتہ ہو جائیں ؟

یا پھر اس نے دین کے نام سے کوئی ایسی بات کر دی تھی جو پیروان مذہب کے لیے    بالکل نئی تھی اور اس لیے قدرتی طور پر انہیں ماننے میں تأمل تھا؟

قرآن کے صفحے کھلے ہوئے ہیں اور اس کے نزول کی تاریخ بھی دنیا کے سامنے ہے۔یہ دونوں ہمیں بتلاتے ہیں کہ ان تمام باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی۔ اس نے صرف ان تمام رہنماؤں کی تصدیق کی جن کے نام لیوا اس کے سامنے تھے،  بلکہ صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا: مجھ سے پہلے جتنے پیغمبر آ چکے ہیں،  میں سب کی تصدیق کرتا ہوں اور ان میں سے کسی ایک کے انکار کو بھی خدا کی سچائی کا انکار سمجھتا ہوں۔ اس نے کسی مذہب کے ماننے والے سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے مذہب کی دعوت سے انکار کردے،  بلکہ جب کبھی مطالبہ کیا تو یہی کیا کہ اپنے اپنے مذہبوں کی حقیقی تعلیم پر کر بند ہو جاؤ،  کیونکہ تمام مذہبوں کی اصل تعلیم ایک ہی ہے۔ اس نے نہ تو کوئی نیا اصول پیش کیا،  نہ کوئی نیا عمل بتایا،  اس نے ہمیشہ انہیں باتوں پر زور دیا جو دنیا کے تمام مذاہب کی سب سے زیادہ جانی بوجھی ہوئی باتیں رہی ہیں،  یعنی ایمان اور عمل صالح۔ اس نے جب کبھی لوگوں کو اپنی طرف بلایا ہے تو یہی کہا ہے : اپنے اپنے مذہبوں کی حقیقت از سر نو تازہ کر لو،  تمہارا ایسا کرنا ہی مجھے قبول کر لینا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب قرآن کی دعوت کا یہ حال تھا تو پھر آخر اس میں اس کے مخالفوں میں وجہ نزاع کیا تھی؟ ایک شخص جو کسی کو برا نہیں کہتا،  سب کو مانتا اور سب کی تعظیم کرتا ہے اور ہمیں انہیں باتوں کی تلقین کرتا ہے جو سب کے یہاں مانی ہوئی ہیں،  کوئی اس سے لڑے تو کیوں لڑے ؟ اور کیوں لوگوں کو اس کا ساتھ دینے سے انکار ہو؟

کہا جاتا ہے کہ قریش مکہ کی مخالفت اس بناء پر تھی  کہ قرآن نے بت پرستی سے انکار کر دیا تھا اور وہ بت پرستی کے طریقوں سے مالوف ہو چکے تھے،  بلاشبہ ایک وجہ نزاع یہ بھی ہے،  لیکن صرف یہی وجہ نزاع نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کہ یہودیوں نے کیوں مخالفت کی جو بت پرستی سے قطعاً کنارہ کش تھے ؟ عیسائی کیوں بر سر پیکار ہو گئے جنہوں نے کبھی بت پرستی کی حمایت کا دعویٰ نہیں کیا؟

 

پیروان مذہب کی مخالفت اس لیے نہ تھی کہ جھٹلاتا کیوں ہے،  بلکہ اس لیے کہ جھٹلاتا کیوں نہیں ؟

 

اصل یہ ہے کہ پیروان مذاہب کی مخالفت اس لیے نہ تھی کہ وہ انہیں جھٹلاتا کیوں ہے،  بلکہ اس لیے تھی جھٹلاتا کیوں نہیں ؟ ہر مذہب کا پیرو چاہتا تھا کہ وہ صرف اسی کو سچا کہے،  باقی سب کو جھٹلائے،  اور چونکہ وہ یکساں طور پر سب کی تصدیق کرتا تھا،  اس لیے کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہو سکتا تھا۔ یہودی اس بات سے تو بہت خوش تھے کہ قرآن حضرت موسیٰ کی تصدیق کرتا ہے لیکن وہ صرف اتنا ہی نہیں کرتا تھا،  وہ حضرت مسیح کی بھی تصدیق کرتا تھا اور یہیں آ کر اس میں اور یہودیوں میں نزاع شروع ہو جاتی تھی۔ عیسائیوں کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیح اور حضرت مریم کی پاکی و صداقت کا اعلان کیا جائے ؟ لیکن قرآن صرف اتنا ہی نہیں کرتا تھا،  وہ یہ بھی کہتا تھا کہ نجات کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے،  نہ کہ کفارہ اور اصطباغ پر۔ اور قانون نجات کی یہ عالم گیر بحث کی وسعت عیسائی کلیسا کے لیے ناقابل برداشت تھی۔

اسی طرح قریش مکہ کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دل خوش صدا نہیں ہو سکتی تھی کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی بزرگی کا اعتراف کیا جائے،  لیکن جب وہ دیکھتے کہ قرآن جس طرح ان دونوں کی بزرگی کا اعتراف کرتا ہے،  اسی طرح یہودیوں کے پیغمبروں اور عیسائیوں کے داعی کا بھی معترف ہے تو ان کے نسلی اور جماعتی غرور کو ٹھیس لگتی تھی۔ وہ کہتے تھے : ایسے لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے پیرو کیونکر ہو سکتے ہیں جو ان کی بزرگی اور صداقت کی صف میں دوسروں کو بھی لا کھڑا کرتے ہیں۔

 

تین اصول جو قرآن میں اور اس کے مخالفوں میں بناء نزاع ہوئے

 

مختصراً  یوں سمجھنا چاہیے کہ قرآن کے تین اصول ایسے تھے جو اس میں اور تمام پیروان مذہب میں وجہ نزاع ہو گئے :

۱۔ وہ مذہبی گروہ بندی کی روح کا مخالف تھا اور دین کی وحدت یعنی ایک ہونے کا اعلان کرتا تھا۔ اگر پیروان مذاہب یہ مان لیتے تو انہیں تسلیم کرنا پڑتا کہ دین کی سچائی کسی ایک ہی گروہ کے حصے میں نہیں آئی  ہے،  سب کو یکساں طور پر ملی ہے،  لیکن یہی ماننا ان کی گروہ پرستی پر شاق گذرتا تھا۔

۲۔ قرآن کہتا تھا: نجات اور سعادت کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے،  نسل،  قوم،  گروہ بندی اور ظاہری رسم ریت پر نہیں ہے۔ اگر یہ اصل وہ تسلیم کر لیتے تو پھر نجات کا دروازہ بلا امتیاز تمام نوع انسانی پر کھل جاتا اور کسی ایک مذہبی حلقے کی ٹھیکے داری باقی نہ رہتی۔ لیکن اس بات کے لیے ان میں سے کوئی بھی تیار نہ تھا۔

۳۔ وہ کہتا تھا: اصل دین خدا پرستی ہے اور خدا پرستی یہ کہ ایک خدا کی براہ راست پرستش کی جائے،   لیکن پیروان مذہب نے کسی نہ کسی شکل میں شرک و بت پرستی کے طریقے اختیار کر لیے تھے اور گو انہیں اس بات سے انکار نہ تھا کہ اصل دین خدا پرستی ہی ہے،  لیکن یہ بات شاق گزرتی تھی کہ اپنے مالوف معتاد طریقوں سے دست بردار ہو جائیں۔

 

خلاصہ بحث

 

متذکرہ صدر تفصیلات کا ما حصل حسبِ ذیل دفعات میں بیان کیا جا سکتا ہے :

۱۔ نزول قرآن کے وقت دنیا کا مذہبی تخیل اس سے زیادہ وسعت نہیں رکھتا تھا کہ نسلوں،  خاندانوں اور قبیلوں کی معاشرتی حد بندیوں کی طرح مذہب کی بھی ایک خاص گروہ بندی کر لی گئی تھی۔ ہر گرہ بندی کا آدمی سمجھتا تھا دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے۔ جو انسان اس مذہبی حد بندی میں داخل ہے نجات یافتہ ہے،  جو داخل نہیں ہے نجات سے محروم ہے۔

۲۔ ہر گروہ کے نزدیک مذہب کی اصل و حقیقت محض اس کے ظاہری اعمال ورسوم تھے۔ جوں ہی ایک انسان انہیں اختیار کر لیتا،  یقین کیا جاتا کہ نجات و سعادت اسے حاصل ہو گئی،  مثلاً عبادت کی شکل،  قربانیوں کی رسوم،  کسی خاص طعام کا کھانا یا نہ کھانا،  کسی خاص وضع و قطع کا اختیار کرنا یا نہ کرنا۔

۳۔ چونکہ یہ اعمال و رسوم ہر مذہب میں الگ الگ تھے اور ہر گروہ کے اجتماعی مقتضیات یکسان نہیں ہو سکتے تھے،  اس لیے ہر مذہب کا پیرو یقین کرتا تھا کہ دوسرا مذہب مذہبی صداقت سے خالی ہے،  کیونکہ اس کے اعمال و رسوم ویسے نہیں ہیں جیسے خود اس نے اختیار کر رکھے ہیں۔

۴۔ ہر مذہبی گروہ کا دعویٰ صرف یہی نہ تھا کہ وہ سچا ہے،  بلکہ یہ بھی تھا کہ دوسرا جھوٹا ہے۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہر گروہ صرف اتنے ہی پر قانع نہیں رہتا  کہ اپنے ی سچائی کا اعلان کر دے،  بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا کہ دوسروں کے خلاف تعصب و نفرت پھیلائے۔ اس صورت حال نے نوع انسانی کو ایک دائمی جنگ و جدال کی حالت میں مبتلا کر دیا تھا۔ مذہب اور خدا کے نام پر ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرتا اور اس کا خون بہانا جائز سمجھتا۔

۵۔ لیکن قرآن نے نوع انسانی کے سامنے مذہب کی عالم گیر سچائی کا اصول پیش کیا:

(ا)۔ اس نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ہر مذہب میں سچائی ہے،  بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ تمام مذاہب سچے ہیں۔ اس نے کہا: دین خدا کی عام بخشش ہے،  اس لیے ممکن نہیں کہ کسی ایک جماعت ہی کو دیا گیا ہو،  دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو۔

(ب)۔ اس نے کہا: خدا کے تمام قوانین فطرت کی طرح،  انسان کی روحانی سعادت کا قانون بھی ایک ہی ہے اور سب کے لیے ہے۔ پس پیروان مذہب کی سب سے بڑی گم راہی یہ ہے کہ انہوں نے دین الٰہی کی وحدت فراموش کر کے الگ الگ گروہ بندیاں کر لی ہیں اور ہر گروہ دوسری گروہ بندی سے لڑ رہی ہے۔

(ج)۔ اس نے بتایا کہ خدا کا دین اس لیے تھا کہ نوع انسانی کا تفرقہ اور اختلاف دور ہو،  اس لیے نہ تھا کہ تفرقہ و نزاع کی علت بن جائے۔ پس اس سے بڑھ کر گم راہی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو چیز دور کرنے کے لیے آئی تھی،  اسی کو تفرقہ کی بنیاد بنا لیا ہے۔

(د)۔ اس نے بتایا کہ ایک چیز دن ہے،  ایک شرع و منہاج ہے۔ دین ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح سب کو  دیا گیا ہے،  البتہ شرع و منہاج میں اختلاف ہوا اور یہ اختلاف ناگزیر تھا،  کیونکہ ہر عہد اور ہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی اور ضروری تھی کہ جیسی جس کی حالت ہو ویسے ہی احکام و اعمال بھی اس کے لیے اختیار کیے جائیں۔ پس شرح و منہاج کے اختلاف سے اصل دین مختلف نہیں ہو جا سکتے۔ تم نے دین کی حقیقت تو فراموش کر دی ہے،  محض شرع و منہاج کے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھٹلا رہے ہو۔

(ہ)۔ اس نے بتلایا کہ تمہاری مذہبی گروہ بندیوں اور ان کے ظواہر و رسوم کو انسانی نجات و سعادت میں کوئی دخل نہیں۔ یہ گروہ بندیاں تمہاری بنائی ہوئی ہیں ورنہ خدا کا ٹھہرایا ہوا دین تو ایک ہی ہے۔ وہ دین حقیقی کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : ایمان اور عمل صالح کا قانون۔

(و)۔ اس نے صاف صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ اس کی دعوت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمام مذاہب سچے ہیں،  لیکن پیروان مذہب سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں۔ اگر وہ اپنی فراموش کردہ سچائی از سر نو اختیار کر لیں تو میرا کام پورا ہو گیا اور انہوں نے مجھے قبول کر لیا۔ تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ سچائی ہے جسے وہ”الدین” اور”الاسلام” کے نام سے پکارتا ہے۔

(ز)۔ وہ کہتا ہے : خدا کا دین اس لیے نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت کرے،  بلکہ اس لیے ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے محبت کرے اور سب ایک ہی پروردگار کے رشتہ عبودیت میں بندھ کر ایک ہو جائیں۔ وہ کہتا ہے : جب سب کا پروردگار ایک ہے،  جب سب کا مقصود اسی کی بندگی ہے،  جب ہر انسان کے لیے وہی ہونا ہے جیسا کچھ اس کا عمل ہے تو پھر خدا اور مذہب کے  نام پر یہ تمام جنگ و نزاع کیوں ہے ؟

۶۔ مذاہب عالم کا اختلاف صرف اختلاف ہی کی حد تک نہیں رہا ہے،  بلکہ باہمی نفرت و مخاصمت کا ذریعہ بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مخاصمت کیونکر دور ہو؟ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام پیروان مذاہب اپنے دعوے میں سچے مان لیے جائیں،  کیونکہ ہر مذہب کا پیرو صرف اسی بات کا مدعی نہیں کہ وہ سچا ہے،  بلکہ اس کا بھی مدعی ہے  کہ دوسرے جھوٹے ہیں،  پس اگر ان کے دعاوی مان لیے جائیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر مذہب بہ یک وقت سچا بھی ہے اور جھوٹا بھی ہے۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ سب جھوٹا قرار دیا جائے،  کیونکہ اگر تمام مذاہب جھوٹے ہیں تو پھر مذہب کی سچائی ہے کہاں ؟پس! اگر کوئی صورت نزاع کی ہو سکتی ہے تو وہی ہے جس کی دعوت لے کر قرآن نمودار ہوا ہے۔ تمام مذاہب سچے ہیں،  کیونکہ اصل دین ایک ہی ہے اور سب کو دیا گیا ہے۔ لیکن تمام پیروان مذاہب سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں،  کیونکہ انہوں نے دین کی حقیقت اور وحدت ضائع کر دی ہے اور اپنی گمراہیوں کی الگ الگ ٹولیاں بنالی ہیں۔ اگر ان گمراہیوں سے لوگ باز آ جائیں اور اپنے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیم پر کار بند ہو جائیں تو مذاہب کی تمام نزاعات ختم ہو جائیں گی۔ ہر گروہ دیکھ لے گا کہ اس کی راہ بھی اصلاً وہی ہے جو اور تمام گروہوں کی راہ ہے۔ قرآن کہتا ہے : تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ حقیقت”الدین” یعنی نوع انسانی کے لیے حقیقی دن اور اسی کو ہو”الاسلام” کے نام سے پکارتا ہے۔

۷۔ نوع انسانی کی باہمی یگانگت اور اتحاد کے جتنے رشتے بھی ہو سکتے تھے سب انسان کے ہاتھوں ٹوٹ چکے۔ سب کی نسل ایک تھی،  مگر ہزاروں نسلیں ہو گئیں۔ سب کی قو میت ایک تھی،  مگر بے شمار قومیتیں بن گئیں۔ سب کی وطنیت ایک تھی۔ لیکن سینکڑوں وطنیتوں میں بٹ گئے۔ سب کا درجہ ایک تھا،  لیکن امیرو فقیر،  شریف و وضع اور ادنیٰ و اعلیٰ کے بہت سے درجے ٹھہرا لیے گئے۔ ایسی حالت میں کون سا رشتہ ہے جو ان تمام تفرقوں پر غالب آسکتا ہے اور تمام انسان ایک ہی صف میں کھڑے ہو جا سکتے ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ خدا پرستی کا رشتہ۔ یہی ایک رشتہ ہے جو انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانا پھر آباد کردے سکتا ہے۔ یہ اعتقاد کہ ہم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے اور ہم سب کے سراسی ایک جوکھٹ پر جھکے ہوئے ہیں،  یک جہتی اور یگانگت کا ایسا جذبہ پیدا کر دیتا ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان کے بنائے ہوئے تفرقے پر غالب آ سکیں۔

 

صراط مستقیم

 

اسی بناء پر سورۃ فاتحہ میں جس دعا کی تلقین کی گئی ہے وہ”صراط مستقیم” پر چلنے کی طلب گاری ہے۔”صراط ” کے معنی راہ کے ہیں اور”مستقیم” کے معنی سیدھا ہونے کے۔ پس”صراط مستقیم” ایسی راہ ہوئی جو سیدھی ہو،  کسی طرح کا پیچ و خم نہ ہو۔ پھر اس راہ کی پہچان یہ بتلائی کہ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین یعنی اُن لوگوں کی راہ جن پر خدا کا انعام ہوا۔ ان کی راہ نہیں جومغضوب ہوئے۔ نہ کہ ان کی جو گم راہ ہیں۔

یہ انعام یافتہ انسان کون ہیں جن کی راہ سیدھی راہ ہوئی؟ قرآن نے جا بجا واضح کیا ہے کہ خدا کے تمام رسول اور راست باز انسان جو دنیا کے مختلف عہدوں اور گوشوں میں گزر چکے ہیں،  انعام یافتہ انسان ہیں اور انہیں کی راہ صراط مستقیم ہے :

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ۱ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًاؕ (۶۹:۴)

اور جس کسی نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی تو بلاشبہ وہ ان لوگوں کا ساتھی ہوا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔ یہ انعام یافتہ جماعت نبیوں کی ہے،  صدیقوں کی ہے،  شہداء کی ہے،  نیک عمل انسانوں کی ہے،  اور جس (کے ساتھی ایسے لوگ ہوں تو) کیا ہی اچھی اس کی رفاقت ہے !

اس آیت میں بالترتیب چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور انہیں انعام یافتہ قرار دیا ہے : انبیاء،  صدیقین،  شہداء،  صالحین۔

"انبیاء” سے مقصود خدا کی سچائی کے تمام پیغام بر ہیں جو نوع انسانی کی ہدایت کے لیے پیدا  ہوئے۔

"صدیق” سے مقصود ایسے انسان ہیں جو کامل معنوں میں سچے ہوں،  یعنی سچائی کے سانچے میں کچھ اس طرح ڈھلے ہوئے ہوں کہ سچائی کے خلاف کوئی بات ان کے دماغ میں اتر ہی نہ سکے۔

"شہید” کے معنی گواہ کے ہیں،  یعنی ایسے انسان جو اپنے قول و فعل سے حق و صداقت کی شہادت بلند کرنے والے ہوں۔

"صالحین” سے مقصود وہ تمام انسان ہیں جو نیک عملی کی راہ میں استقامت رکھیں اور برائی کی راہوں سے کنارہ کش ہوں۔

پس معلوم ہوا انعام یافتہ انسانوں سے مراد دنیا کے تمام رسول اور داعیان حق ہیں جو قرآن کے نزول سے پہلی دنیا میں پیدا ہو چکے تھے اور تمام راست باز انسان ہیں جو نوع انسانی میں گزر چکے تھے۔ اس میں تو نہ کسی خاص نسل و قوم کی خصوصیت رکھی گئی ہے،  نہ کسی خاص مذہب اور اس کے پیرووں کی۔ دنیا کے تمام نبی،  تمام صدیق،  تمام شہداء حق،  تمام صالح انسان،  خواہ کسی ملک و قوم میں ہوئے ہوں،  قرآن کے نزدیک "انعام یافتہ” انسان ہیں اور انہیں کی راہ "صراط امستقیم” ہے۔

خدا کے ان تمام رسولوں اور نوع انسانی کے راست باز افراد کی راہ کون سی تھی؟ وہی راہ جسے قرآن دین حقیقی کی راہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : دنیا میں جس قدر بھی سچائی کے داعی آئے،  سب نے یہی تعلیم دی کہ "أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ ۚ (۴۲:۱۳)” خدا کا ایک ہی دین قائم رکھو اور اس راہ میں جدا جدا نہ ہو جاؤ (یہی سچائی کی سیدھی راہ ہے )۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جا بجا "الدین” کو صراط مستقیم سے بھی تعبیر کیا ہے۔ سورۃ شوریٰ میں پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : "تم صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والے ہو اور صراط مستقیم ہی صراط اللہ ہے ” یعنی اللہ کی ٹھیرائی ہوئی راہ سعادت ”

وَإِنَّكَ لَتَهْدِی إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ  ۔ صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِی لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِیرُ الْأُمُورُ (۴۲:۵۳)

اور (اے پیغمبر!) بلا شبہ تم صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والے ہو،  صراط اللہ،  یعنی اللہ کی راہ کی طرف،  وہ اللہ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ ہاں یاد رکھو،  (کائنات خلقت کے ) تمام کاموں کا مرجع اسی کی ذات ہے۔

اسی طرح وہ جا بجا کہتا ہے کہ خدا کے تمام رسولوں کی دعوت صراط مستقیم کی دعوت تھی۔ سورۃ نحل میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت ہے :

وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ (۱۶:۱۲۱)

"خدا نے اسے صراط مستقیم دکھا دی”۔ سورۃ زخرف میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبانی سنتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیمٌ (۴۳:۷۴)

"اللہ میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے،  پس اسی کی بندگی کرو،  یہی صراط مستقیم ہے ” سورۃ انعام میں پہلے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کا ذکر کیا ہے،  پھر سلسلہ ابراہیمی کے متعدد نبیوں کا جو تورات کی مشہور شخصیتیں ہیں،  اس کے بعد کہا ہے :

وَاجْتَبَیْنَاهُمْ وَهَدَیْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ (۶:۸۷)

"ان سب کو ہم نے صراط مستقیم دکھا دی۔”

اصل یہ ہے کہ خدا کے عالم گیر دین کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے صراط مستقیم سے  بہتر تعبیر نہیں ہو سکتی تھی۔ تم کسی خاص مقام تک پہنچنے کے لیے کتنی ہی راہیں نکالو،  لیکن سیدھی راہ ہمیشہ ایک ہی ہو گی اور اسی پر چل کر ہر مسافر منزل مقصود تک بحفاظت و امن پہنچ سکے گا۔ علاوہ بریں سیدھی راہ ہی ہمیشہ شاہ راہ عام کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ تمام مسافر،  خواہ کسی گوشے کے رہنے والے ہوں،  لیکن سب مل جل کر وہی راہ اختیار کریں گے اور کبھی یہ نہ کریں گے کہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر ٹیڑھی ترچھی راہوں میں متفرق ہو جائیں۔ قرآن کہتا ہے : ٹھیک اسی طرح دین کی سیدھی راہ بھی ایک ہی ہے۔ ہر عہد،  ہر قوم،  ہر ملک اسی پر چل کر منزل مقصود تک پہنچا ہے،  بعد کو پیروان مذہب نے ایسا کیا کہ بہت سی ٹیڑھی ترچھی راہیں نکالیں اور ایک راہ پر متفق رہنے کی جگہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر متفرق ہو گئے۔ وہ کہتا ہے : اب اگر تم چاہتے ہو کہ منزل مقصود کا سراغ پاؤ تو چاہیے کہ اسی سیدھی راہ پر اکٹھے ہو جاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رحمۃ اللہ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں : فھو سبیلُ اللہ طریقا مستقیما،  سھلا،  مسلوکا،  واسعا،  موصلا الی المقصود : وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِیلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (۶:۱۵۳)

اور (دیکھو!) یہ میری راہ ہے،  بالکل سیدھی راہ! پس اسی ایک راہ پر چلو اور طرح طرح کے راستوں کے پیچھے نہ پڑو وہ تمہیں خدا کی سیدھی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گے۔ یہی بات ہے جس کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تا کہ (اس کی نافرمانی سے ) بچو۔

چنانچہ یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے جب "صراط مستقیم” کی تفسیر پر نظر ڈالی جائے جو خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمائی ہے :

عن ابن مسعود قال خط لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا بیدہ ثم قال ھذا سبیل اللہ مستقیما ثم خط خطوطا عن یمین ذلک الخط و عن شمالہ ثم قال و ھذہ السبل لیس منھا سبیل الا علیہ شیطان یدعو الیہ ثم قر اھذہ الآیۃ۔ (اخرجہ النسائی و احمد و البزرا و ابن المنذر و ابو الشیخ والحاکم و صححہ)۔

"عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی انگلی سے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یوں سمجھو کہ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا راستہ ہے۔ بالکل سیدھا۔ اس کے بعد اس لکیر کے دونوں طرف بہت سے ترچھی لکیریں کھینچ دیں اور فرمایا یہ طرح طرح کے راستے ہیں جو بنا لیے گئے ہیں اور ان میں کوئی راستہ نہیں جس کی طرف بلانے کے لیے ایک شیطان موجود نہ ہو،  پھر یہ آیت پڑھی "وان ھذا صراطی مستقیما"۔۔۔۔۔

اس سے معلوم ہوا تمام ادھر ادھر کے ٹیڑھے ترچھے راستے "سُبل متفرقہ” ہیں جو جمعیت بشری کو متحد کرنے کی جگہ متفرق کر دیتے ہیں اور درمیان کی ایک ہی سیدھی راہ "صراط مستقیم” ہے۔ یہ متفرق کرنے کی بجائے،  تمام رہ روان منزل کو ایک ہی شاہ راہ پر جمع کر دیتی ہے۔

یہ سبل متفرقہ کیا ہیں ؟ اسی گمراہی کا نتیجہ ہیں جسے قرآن نے "تشیع” اور "تخرب” کی گم راہی سے تعبیر کیا ہے اور تشریح اس کی اوپر گزر چکی۔

دین حقیقی کی راہ کا سیدھا ہونا اور "سبل متفرقہ” یعنی کود ساختہ گروہ بندیوں کا پر پیچ و خم ہونا،  ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر انسان بغیر کسی عقلی کاوش کے سمجھ لے سکتا ہے۔ خدا کا دین اگر انسان کی ہدایت کے لیے ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے تمام قوانین کی طرح یہ بھی صاف اور واضح ہو،  اس میں کوئی راز نہ ہو،  کوئی پیچیدگی نہ ہو،  ناقابل حل معمہ نہ ہو،  اعتقاد میں سہل ہو اور عمل میں ہلکا،  ہر عقل اسے بوجھ لے،  ہر طبیعت اس پر مطمئن ہو جائے۔ اچھا اب غور کرو! یہ تعریف کس راہ پر صادق آتی ہے ؟ ان مختلف راہوں پر جو پیروان مذہب نے الگ الگ گروہ بندیاں کر کے نکال لی ہیں یا اس ایک ہی راہ پر جسے قرآن اصل دین کی راہ بتلاتا ہے ؟

ان گروہ بندیوں میں سے کوئی گروہ بندی بھی ایسی نہیں ہے جو اپنے بوجھل عقیدوں،  ناقابل فہم عقدوں اور ناقابل برداشت عملوں کی ایک طول طویل فہرست نہ ہو۔ ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کے تمام پیروان مذہب کے مزعومہ عقائد و اعمال کا کیا حال ہے اور ان کی نوعیت کیسی ہے۔ مذہب کا عقل کے لیے معمہ اور طبیعت کے لیے بوجھ ہونا ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر مذاہب کا خاصہ تسلیم کر لی گئی ہے۔ لیکن قرآن جس راہ کو دین حقیقی کی راہ کہتا ہے،  اس کا کیا حال ہے ؟ اس کی راہ تو اتنی واضح،  اتنی سہل،  اتنی مختصر ہے کہ عقائد و اعمال کی پوری فہرست دو لفظوں میں ختم کر دی جا سکتی ہے "ایمان اور عمل صالح” (۱۱۲) اس کے عقائد میں عقل کے لیے کوئی بوجھ نہیں،  اس کے اعمال میں طبیعت کے لیے کوئی سختی نہیں،  ہر طرح کے پیچ و خم سے پاک،  ہر معنی میں اعتقاد و عمل کی سیدھی سیدھی بات "الحنیفیۃ السمحۃ لیلھا کنھارھا،  اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے ":

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ(۱۸:۱)

ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی بھی کمی نہیں رکھی۔

بہرحال قرآن کا پیرو وہ ہے جو دین کی سیدھی راہ پر چلنے والا ہے۔ وہ راہ نہیں جو کسی خاص گروہ،  کسی خاص نسل،  کسی خاص قوم،  کسی خاص عہد کی راہ ہے،  بلکہ خدا کی عالم گیر سچائی کی راہ وہ ہے جو ہر جگہ اور ہر عہد میں نمایاں ہوئی ہے اور ہر طرح کی جغرافیائی اور جماعتی حد بندیوں کے امتیازات سے پاک ہے :

إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّی وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیمٌ (۴۳:۷۴)

اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے،  پس اسی کی بندگی کرو،  یہی صراط مستقیم ہے۔

علاوہ بریں بحث و نظر کے بعض دوسرے پہلو بھی ہیں جو اس موقع پر پیش نظر رہنے چاہییں :

اول – فلاح و سعادت کی راہ کو "سیدھی راہ” سے تعبیر کیا گیا اور سیدھی راہ پر چلنا ایک ایسی بات ہے جس کی سمجھ اور طلب،  بالطبع ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ پھر اس کی پہچان بتلاتے ہوئے کوئی اس طرح کی تعریف نہیں کی جس کے سمجھنے اور منطبق کرنے میں ذہنی کاوشوں کی ضرورت ہو،  بلکہ ایک خاص طرح کے انسانوں کی طرف انگلی اٹھا دی کہ "صراط مستقیم” ان لوگوں کی راہ ہے۔

اس اسلوب بیان نے ہر انسان کے سامنے "صراط مستقیم” کو ایک محسوس و مشہود صورت میں نمایاں کر دیا۔ ہر انسان خواہ کسی عہد اور کسی ملک و قوم سے تعلق رکھتا ہو،  لیکن اس بات سے بے خبر نہیں ہو سکتا کہ یہاں دو طرح کے انسان موجود ہیں : ایک وہ ہیں جن کی راہ سعادت و کامیابی کی راہ ہے،  ایک وہ ہیں جن کے حصے میں محرومی و شقاوت آئی ہے۔ پس کامیابی کی راہ کی پہچان اس سے زیادہ بہتر اور مؤثر طریقے سے بیان نہیں کی جا سکتی کہ وہ کامیاب انسان کی راہ ہے۔ اگر اس کی پہچان منطقی تعریفوں کی طرح بیان کی جاتی تو ظاہر ہے نہ تو ہر انسان بغیر کاوش و فکر کے سمجھ سکتا،  نہ قطعی طور پر کسی ایک ہی راہ پر منطبق کی جا سکتی۔

ثانیاً – جہاں تک انسانی فلاح و سعادت کا تعلق ہے،  صراط مستقیم کی تعبیر ہی ہر لحاظ سے حقیقی اور قدرتی تعبیر ہو سکتی تھی۔ انسان کے فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو لیکن صحت و درستگی کی راہ ہمیشہ وہی ہو گی جو سیدھی راہ ہو،  جہاں انحراف اور کجی پیدا ہوئی،  نقص و فساد و ظہور میں آ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں سیدھا ہونا اور سیدھی چال چلنا فلاح و سعادت کے معنوں میں عام طور پر بولا جاتا ہے گویا اچھائی کے معنوں میں یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو تمام نوع انسانی کی عالم گیر تعبیر کہی جا سکتی ہے۔

حضرت مسیح سے چار سو برس پہلے دارایوش اول نے جو فرامین کندہ کرائے تھے،  ان میں سے بے ستون کا کتبہ آج تک موجود ہے اور اس کا خاتمہ ان جملوں پر ہوتا ہے "اے انسان! اہورامزد کا (یعنی خدا کا) تیرے لیے حکم یہ ہے کہ برائی کا دھیان نہ کر،  سیدھا راستہ نہ چھوڑ،  گناہ سے بچتا رہ” (۱۳)

پس صراط مستقیم پر چلنے کی طلب زندگی کی تمام راہوں میں درستگی و صحت کی راہ چلنے کی طلب ہوئی اور اسی لیے سعی و عمل کے ہر گوشے میں انعام یافتہ گروہ وہی ہو سکتا ہے جس کی راہ صراط مستقیم ہو۔

 

 

 

                   "الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ” اور "الضَّالِّینَ”

 

پھر "صراط مستقیم” کی پہچان صرف اس کے مثبت پہلو ہی سے واضح نہیں کی گئی،  بلکہ اس کا ضد مخالف پہلو بھی واضح کر دیا گیا : "غیر المغضوب علیھم ولا الضالین” "ان کی راہ نہیں جو مغضوب ہوئے،  نہ ان کی جو گم راہ ہو کر بھٹک گئے۔”

"مغضوب علیھم” گرو "منعم علیھم” کی بالکل ضد ہے،  کیونکہ انعام کی ضد غضب ہے،  اور فطرت کائنات کا قانون یہ ہے کہ راست باز انسانوں کے حصے میں انعام آتا ہے،  نافرمانوں کے حصے میں غضب۔ "گمراہ” وہ ہیں جو راہ حق نہ پا سکے اور اس کی جستجو میں بھٹک گئے۔ پس مغضوب وہ ہوئے جنہوں نے راہ پائی اور اس کی نعمتیں بھی پائیں،  لیکن پھر اس سے منحرف ہو گئے اور نعمت کی راہ چھوڑ کر محرومی و شقاوت کی راہ اختیار کر لی۔ "گمراہ” وہ ہوئے جو راہ ہی نہ پا سکے،  اس لیے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور صراط مستقیم کی سعادتوں سے محروم ہیں۔

"مغضوب علیہ” کی محرومی حصول معرفت کے بعد انکار کا نتیجہ ہے اور "گم راہ” کی محرومی جہل کا نتیجہ۔ پہلے نے پا کر،  روگردانی کی اس لیے محروم ہوا،  دوسرا پا ہی نہ سکا اس لیے محروم ہے۔ محروم دونوں ہوئے،  مگر یہ ظاہر ہے کہ پہلے کی محرومی زیادہ مجرمانہ ہے،  کیونکہ ان نے نعمت حاصل کر کے پھر اس سے روگردانی کی،  اسی لیے اسے مغضوب کہا گیا اور دوسرے کی حالت صرف گم راہی کے لفظ سے تعبیر کی گئی۔

ہم دیکھتے ہیں دنیا میں فلاح و سعادت سے محروم آدمی ہمیشہ دو طرح کے ہوتے ہیں : جاحد اور جاہل۔ جاحد وہ ہوتا ہے جو حقیقت پا لیتا ہے،  بایں ہمہ اس سے روگردانی کرتا ہے،  جاہل وہ ہوتا ہے جو حقیقت سے ناآشنا ہوتا ہے،  اور اپنے جہل پر قانع ہو جاتا ہے۔ پس صراط مستقیم پر چلنے کی طلب گاری کے ساتھ محرومی و شقاوت کی ان دونوں صورتوں سے بچنے کی طلب بھی سکھلا دی،  تاکہ فلاح و سعادت کی راہ کا تصور ہر طرح کامل اور لغزشوں سے محفوظ ہو جائے۔

جہاں تک مذہبی صداقت کا تعلق ہے،  دونوں طرح کی محرومیوں کی مثالیں قوموں کی تاریخ میں موجود ہیں۔ کتنی ہی قومیں ہیں جن کے قدم صراط مستقیم پر استوار ہو گئے تھے اور فلاح و سعادت کی تمام نعمتیں ان کے لیے مہیا تھیں،  بایں ہمہ انہوں نے روگردانی کی اور راہ حق کی معرفت حاصل کر کے پھر اس سے منحرف ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہی قوم جو کل تک دنیا کی انعام یافتہ جماعت تھی،  سب سے زیادہ محروم و نامراد جماعت ہو گئی۔ اسی طرح کتنی ہی جماعتیں ہیں جن کے سامنے فلاح و سعادت کی راہ کھول دی گئی،  لیکن انہوں نے معرفت کی جگہ جہل اور روشنی کی جگہ تاریکی پسند کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ راہ حق نہ پا سکے اور نامرادی و محرومی کی وادیوں میں گم ہو گئے۔

احادیث و آثار میں اس کی جو تفسیر بیان کی گئی ہے اس سے یہ حقیقت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ ترمذی اور احمد و ابن حبان وغیرہم کی مشہور حدیث ہے کہ: "آنحضرت (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا "المغضوب” یہودی ہیں اور "الضالین” نصاریٰ ہیں "۔ یقیناً اس تفسیر کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ مغضوب سے مقصود صرف یہودی اور گمراہ سے مقصود صرف نصاریٰ ہیں،  بلکہ مقصود یہ ہے کہ مغضوبیت اور گم راہی کی حالت واضح کرنے کے لیے دو جماعتوں کا ذکر بطور مثال کے کر دیا جائے۔ چنانچہ ان دونوں جماعتوں کی تاریخ میں ہم محرومی کی دونوں حالتوں کا کامل نمونہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی قومی تاریخ مغضوبیت کے لیے اور عیسائیوں کی تاریخ گمراہی کے لیے عبر و تذکیر کا بہترین سرمایہ ہے۔

 

قرآن کے قصص اور استقراء تاریخی

 

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے ہدایت و تذکیر امم کے لیے جن جن اصولوں پر زور دیا ہے ان میں سب سے زیادہ نمایاں اصل پچھلی قوموں کے ایام و وقائع اور ان کے  نتائج ہیں وہ کہتا ہے : کائنات ہستی کے ہر گوشے کی طرح قوموں اور جماعتوں کے لیے بھی خدا کا قانون سعادت و شقاوت ایک ہی ہے اور ہر عہد اور ہر ملک میں ایک ہی طرح کے احکام و نتائج رکھتا ہے۔ اس کے احکام میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کے نتائج ہمیشہ اور ہر حال میں اٹل ہیں۔ جس طرح سنکھیا کی تاثیر اس لیے بدل نہیں جا سکتی کہ وہ کس عہد اور کس سنہ میں استعمال کی گئی،  اسی طرح قوموں اور جماعتوں کے اعمال کے نتائج بھی اس لیے متغیر نہیں ہو جا سکتے کہ کس ملک میں پیش آئے۔ اگر ماضی میں ہمیشہ شہد،  شہد کا خاصہ رکھتا آیا ہے اور سنکھیا کی تاثیر سنکھیا ہی کی ہو گی۔ پس جو کچھ ماضی میں پیش آ چکا ہے ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی پیش آئے :

سُنَّةَ اللَّهِ فِی الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِیلًا (۳۳:۷۲)

جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے اللہ کی سنت یہی رہی ہے (یعنی اللہ کے قوانین و احکام کا دستور یہی رہا ہے ) اور اللہ کی سنت میں تم کبھی رد و بدل نہیں پاؤ گے۔

فَهَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِینَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِیلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِیلًا (۳۵:۴۳)

پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ہیں ؟ کیا اس سنت کی جو اگلے لوگوں کے لیے رہ چکی ہے ؟ تو یاد رکھو! تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا ہوا نہین پاؤ گے اور نہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی سنت کے احکام پھیر دیئے جائیں۔

سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا (۱۷:۷۷)

(اے پیغمبر!) تم سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے،  ان کے لیے ہماری سنت یہی رہی ہے اور ہماری سنت کبھی ٹلنے والی نہیں۔

چنانچہ وہ ایک طرف تو انعام یافتہ جماعتوں کی کام رانیوں کا بار بار ذکر کرتا ہے،  دوسری طرف مغضوب اور گمراہ جماعتوں کی محرومیوں کی سرگزشتیں بار بار سناتا ہے،  پھر جا بجا ان سے عبرت و بصیرت کے نتائج اخذ کرتا ہے جن پر اقوام و جماعات کا عروج و زوال موقوف ہے۔ وہ کھول کھول کر بتلاتا ہے کہ انعام یافتہ جماعتوں کی سعادت و کامرانی ان اعمال کا انعام تھی اور مغضوب و گمراہ جماعتوں کی شقاوت و محرومی ان بداعمالیوں کی پاداش تھی۔ اچھے نتائج کو "انعام” کہتا ہے،  کیونکہ یہ فطرت الٰہی کی قبولیت ہے،  برے نتائج کو "غضب” کہتا ہے،  کیونکہ یہ قانون الٰہی کی پاداش ہے،  وہ کہتا ہے :جن اسباب و علل سے دس مرتبہ ایک خاص طرح کا معلول پیدا ہو چکا ہے،  تم کیونکر انکار کر سکتے ہو کی گیارہویں مرتبہ بھی ویسا ہی معلول پیدا نہ ہو گا :

قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِینَ (۳:۱۳۷)

تم سے پہلے بھی دنیا میں (خدا کے ) احکام و قوانین کے نتائج گزر چکے ہیں،  پس ملکوں کی سیر کرو اور دیکھو ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے (اللہ کے قوانین کو) جھٹلایا تھا!

قرآن کی سورتوں میں ایک بڑی تعداد ایسی سورتوں کی ہے جو تمام تر اسی مطلب پر مشتمل ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن میں جس قدر بیان بھی پچھلے عہدوں کے وقائع و قصص کا ہے وہ تمام تر سورۃ فاتحہ کی اسی آیت کی تفصیل ہے۔

 

سورۃ فاتحہ کی تعلیمی روح

 

اچھا!اب چند لمحوں کے لیے سورۃ فاتحہ کے مطالب پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالو اور دیکھو اس کی ساتھ آیتوں کے اندر مذہبی عقائد و تصور کی جو روح مضمر ہے وہ کس طرح کی ذہنیت پیدا کرتا ہے ؟ سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے۔ فرض کرو ایک انسان کے دل و زبان سے شب و روز یہی دعا نکلتی رہتی ہے،  اس صورت میں اس کے فکر و اعتقاد کا کیا حال ہو گا؟

وہ خدا کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج ہے،  لیکن اس خدا کی حمد میں نہیں جو نسلوں،  قوموں اور مذہبی گرو بندیوں کا خدا ہے،  بلکہ "رب العٰلمین” کی حمد میں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے اور اس لیے تمام نوع انسانی کے لیے یکساں طور پر پروردگاری و رحمت رکھتا ہے۔ پھر وہ اسے اس کی صفتوں کے ساتھ پکارنا چاہتا ہے،  لیکن اس کی تمام صفتوں میں سے صرف رحمت اور عدالت ہی کی صفتیں اسے یاد آتی ہیں۔ گویا خدا کی ہستی کی نمود اس کے لیے سر تا سر رحمت و عدالت کی نمود ہے اور جو کچھ بھی اس کی نسبت جانتا ہے وہ رحمت و عدالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر وہ اپنا سر نیاز جھکاتا اور اس کی عبودیت کا اقرار کرتا ہے،  وہ کہتا ہے : "صرف تیری ہی ایک ذات ہے جس کے آگے بندگی و نیاز کا سر جھک سکتا ہے اور صرف تو ہی ہے جو ہمارے ساری درماندگیوں اور احتیاجوں میں مددگاری کا سہارا ہے "۔ وہ اپنی عبادت اور استعانت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے ساتھ وابستہ کر دیات ہے اور اس طرح دنیا کی دوسری قوتوں اور ہر طرح کی انسانی فرمان روائیوں سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ اب کسی چوکھٹ پر اس کا سر جھک نہیں سکتا،  اب کسی قوت سے وہ ہراساں نہیں ہو سکتا،  اب کسی کے آگے اس کا دست طلب دراز نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ خدا سے سیدھی راہ چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے۔ یہی ایک مدعا ہے جس سے زبان احتیاج آشنا ہوتی ہے،  لیکن کون سی سیدھی راہ؟ کسی خاص مذہبی حلقے کی سیدھی راہ؟ نہیں۔ وہ راہ جو دنیا کے تمام مذہبی رہنماؤں اور تمام راست باز انسانوں کی متفقہ راہ ہے،  خواہ کسی عہد اور کسی قوم میں ہوئے ہوں۔ اسی طرح وہ محرومی اور گمراہی کی راہوں سے پناہ مانگتا ہے،  لیکن یہاں بھی کسی خاص نسل و قوم یا کسی خاص مذہبی گروہ کا ذکر نہیں کرتا،  بلکہ ان راہوں سے بچنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمام محروم اور گم راہ انسانوں می راہیں رہ چکی ہیں۔ گویا جس بات کا طلب گار ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالم گیر اچھائی ہے اور جس بات سے پناہ مانگتا ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالم گیر برائی ہے۔ نسل،  قوم،  ملک یا مذہبی گروہ بندی کے تفرقہ و امتیاز کی کوئی پرچھائیں اس کے دل و دماغ پر نظر نہیں آتی۔

غور کرو! مذہبی تصور کی یہ نوعیت انسان کے ذہن و عواطف کے لیے کس طرح کا سانچا مہیا کرتی ہے ؟ جس انسان کا دل و دماغ ایسے سانچے میں ڈھل کر نکلے گا وہ کس قسم کا انسان ہو گا؟ کم از کم دو باتوں سے تم انکار نہیں کر سکتے،  ایک یہ کہ اس کی خدا پرستی،  خدا کی عالم گیر رحمت و جمال کے تصور کی خدا پرستی ہو گی،  دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی نسل و قوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہیں ہو گا،  عالم گیر انسانیت کا انسان ہو گا اور دعوت قرآنی کی اصلی روح یہی ہے۔

 

 

 

حواشی

 

۱) پہلے ایڈیشن کے ص ۱۷۶ پر یہ عبارت زیادہ ہے۔ (یعنی حسن و جمال کے اعتراف اور کبریائی اور کمال کے اعتقاد کے ساتھ جو کچھ بھی اور جیسا کچھ بھی کہا جائے ) مصحح۔

۲) پہلے ایڈیشن کے ص ۱۷۶ پر یہ عبارت زیادہ ہے۔ )جس کی پروردگاری کائنات خلقت کے ہر وجود کو زندگی اور بقاء کا سر و سامان بخشتی اور پرورش کی ساری ضرورتیں مہیا کرتی رہتی ہے )۔م

۳) پہلے ایڈیشن میں آیت ۳ کا ترجمہ اس طرح ہے : جو جزا اور سزا کے دن کا مالک ہے (اور جس کی عدالت نے ہر کام کیلئے بدلا اور ہر بات کے لئے نتیجہ ٹھہرا دیا ہے )۔م

۴) پہلے ایڈیشن میں یہ عبارت زیادہ ہے۔ (تیرے سوا کوئی معبود نہیں جس کی بندگی کی جائے اور طاقت و بخشش کا کوئی سہارا نہیں جس سے مدد مانگی جائے۔م

۵) پہلے ایڈیشن میں یہ عبارت زیادہ ہے : اور منزل کا سراغ ان پر گم ہو گیا۔ م

۶) امام بخاری اور اصحاب سنن نے ابو سعید بن المعلی سے روایت کی ہے "الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَھی السبع المثانی والقرآن العطیم الذی اوتیتہ۔ اور امام مالک،  ترمذی اور حاکم نے ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی بن کعب کو سورۃ فاتحہ تلقین کی اور یہی الفاظ فرمائے۔ اسی طرح طبری نے حضرت عمر،  حضرت علی،  حضرت ابن عباس اور ابن مسعود وغیرہم سے روایت کی ہے کہ املبع المثانی فاتحہ الکتاب۔ ابن مسعود کی اسناد منقطع ہے،  لیکن ابن عباس کی حسن ہے،  ابو العالیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ اس کے علاوہ ائمہ تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی طرف گئی ہے۔ حفاظ ابن حجر نے فتح الباری میں تمام روایت جمع کر دی ہیں۔ (شرح کتاب التفسیر جلد ۸ ص ۱۲۰ طبع اول)

۷) صحیح بخاری،  موطا،  ابو داؤد،  ابن ماجہ اور مسند میں بہ اختلاف الفاظ اس مضمون کی روایت موجود ہیں۔

۸ ) ابو سعید بن المعلی کی روایت میں جس کی تخریج پچھلے حاشیے میں گزر چکی ہے اس "اعظم سورۃ فی القرآن” فرمایا ہے اور مسند کی روایت ابن جابر میں "خیر” کا لفظ ہے (دونوں ایڈیشن میں لفظ "اخیر” طبع ہوا ہے جو غلط ہے،  مسند ابن حنبل میں عبد اللہ بن جابر کی روایت اس طرح ہے۔۔۔ ثم قال الا اخیرک یا عبد اللہ بن جابر بخیر سورۃ فی القرآن ج۴۔ ص ۱۷۷۔ مصر۔ م)

۱) پہلے ایڈیشن میں یہ حدیث نہیں ہے۔ م

۲) پہلے ایڈیشن میں یہ عنوان نہیں ہے۔ م

۳) پہلے ایڈیشن میں یہ عنوان نہیں ہے۔ م

۴) پہلے ایڈیشن میں فقرہ ذیل زیادہ ہے :

خدا پرستی فطرت کا خمیر ہے،  اس لئے خدا پرستی کی کوئی سچی بات انسان کے لئے انوکھی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کی فطرت کے لئے سب سے زیادہ جانی بوجھی ہوئی بات یہی ہے کہ خالق کائنات کا اقرار کرے۔ پس سورہ فاتحہ کی ندرت محض اس کے معانی میں نہیں بلکہ معانی کی تعبیر میں ڈھونڈنی چاہیے۔ خدا پرستی کا جوش انسان میں پہلے سے موجود تھا،  اس کی ربوبیت اور رحمت کے جلوے کبھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئے۔ جزا و سزا کا اعتقاد سمندروں اور پہاڑوں سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ ٹیڑھے راستے سے بچنے سیدھی راہ چلنے کی طلب نہ صرف انسان میں بلکہ کیڑے مکوڑوں تک میں موجود ہے۔ انسان اپنی معیشت کے کسی عہد میں بھی اس درجہ مسخ نہیں ہوا کہ ان وجدانی تصورات سے اس کا ذہن خالی ہو گیا ہو لیکن اس کی محرومی یہ تھی کہ اپنے وجدان کی ٹھیک تھیک تعبیر نہیں کر سکتا تھا۔ وہ خدا کی ربوبیت محسوس کر رہا تھا،  لیکن اسے "رب” کہہ کر پکارنا نہیں جانتا تھا اس کی رحمت کے جلوے ہر آن اس کے سامنے تھے لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اپنے دل کا احساس کیونکر لفظوں اور ناموں میں ادا کر دے۔ جرا اور سزا اس کے دل کے ایک ایک ریشے کا اعتقاد تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اس کی صحیح تعبیر کیا ہے۔ ہدایت کی طلب اور گمراہی سے گریز تو عقل حیوانی کا فطری خاصہ ہے،  لیکن انسان کی ساری درماندگی یہ تھی کہ اس بات کی زیادہ سے زیادہ طلب رکھنے پر بھی طلب گاری کی راہ سے آشنا نہ تھا (ص ۴-۵)م۔

۵) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ اس طرح ہے :

پھر حمد کے بعد صفات الٰہی میں سے ربوبیت اور رحمت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح نوع انسانی کی اس عالم گیر غلطی کا ازالہ کر دیا ہے۔ کہ خدا کو صرف  اس کی صفات قہر و جلال ہی میں دیکھتی تھی اس کی رحمت و جمال کی تماشائی نہ تھی۔ اس اسلوب بیان نے واضح کر دیا کہ خدا کا صحیح تصور وہی ہو سکتا ہے جو سر تا سر حسن و جمال اور رحمت و محبت کا تصور ہو (ص ۶)م۔

۷) یعنی "خدایا! ایسا کر کہ تیری ہستی میں ہمارا تحیر بڑھتا رہے ” کیونکہ یہاں تحیر جہل کا نہیں بلکہ معرفت کا نتیجہ ہے (پہلے ایڈیشن میں یہ عربی شعر بھی ہے :

زدنی بفرط الحب فیک تحیرا

وارجم حشا بلظی ھو اک تسعرام

۱) "الہ کی طرح۔۔۔۔ خبر دیتا ہے ” یہ فقرہ پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔م

۲) مفردات راغب اصفہانی

۳) (Naked eye) غیر مسلح آنکھ،  یعنی ایسی آنکھ جو قدرتی نگاہ سے دیکھ رہی ہو،  زیادہ قوت کے ساتھ دیکھنے کا کوئی آلہ مثلاً خوردبین اس کے ساتھ نہ ہو۔

۴) انسان میں ماں کی محبت بلوغ کے بعد بھی بدستور باقی رہتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کے انفعالات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ عہد طفہلیت کی محبت میں اور اس محبت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا،  لیکن یہ صورت حال غالباً انسان کی مدنی و عقلی زندگی کے نشو و نما کا نتیجہ ہے،  نہ کہ فطرت حیوانی کا۔ ابتدائی انسان میں بھی یہ علاقہ فطرتاً اس حد تک ہو گا کہ بچہ سن تمیز تک پہنچ جائے،  لیکن بعد کو نسل و خاندان کی تشکیل اور اجتماعی احساسات کی ترقی سے مادری رشتہ ایک دائمی رشتہ بن گیا۔

۵) یہ حاشیہ پہلے ایڈیشن میں ہے ص ۲۴ لیکن دوسرے میں نہیں ہے۔ م

یہی حقیقت ہے جسے آج علمی مصطلحات میں یوں ادا کیا جاتا ہے۔

From the motion of the electrons round the positively charged nucleus of an atom to the motion for the planets round the sun, and so forty, every thing points only to the one conclusion, viz. predetermined law. Sir Oliver Lodge.

اس کی مزید تشریح اپنے مقام پر آئے گی۔ جس حقیقت کو یہاں "Predetermined law ” سے تعبیر کیا گیا ہے اسی کو قرآن "تخلیق بالحق” سے تعبیر کرتا ہے۔

۷) یہ حاشیہ پہلے ایڈیشن میں سے ص ۲۴ لیکن دوسرے میں نہیں ہے۔ م

یہ تعبیر اس لئے اختیار کی گئی کہ نزول قرآن سے پہلے تمام پیروان مذاہب نے دنیا کی پیدائش کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ حکمت و مصالح کے تصور سے یک قلم خالی تھا۔ لوگ خیال کرتے تھے کہ طاقت و اختیار کے ساتھ حکم و مصالح کی رعایت جمع نہیں ہو سکتی۔ حکم مصالح کی پابندی وہی کرے گا جو کسی کے آگے جواب دہ ہو۔ خدا جو سب سے بڑا اور سب پر حکمراں ہے اس کے کم حکم و مصالح سے کیوں وابستہ ہوں۔ وہ مطلق العنان بادشاہوں کو دیکھتے تھے جو جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں اور ان کے کاموں میں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پس سمجھتے  تھے کہ خدا کے کاموں کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ ہندوستان،  مصر،  بابل اور یونان کی تمام علم الاصنامی روایت اسی تخیل کا نتیجہ ہیں۔ دیوتاؤں نے عشق بازی میں رنگ رلیاں منائیں اور ستارے پیدا ہو گئے۔ کسی دیوتا نے شکار کھیلتے ہوئے تیر مارا پہاڑ پیدا ہو گیا۔ ایک دیوتا نے جٹا کھول دی دریا وجود میں آ گیا۔ اصنام پرست اقوام کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کے خیالات بھی اس بارے میں عقلی تصورات سے خالی تھے۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ ایک مطلق العنان اور مستبد بادشاہ کی طرح خدا کے افعال بھی حکم و مصالح کی جگہ محض جوش و ہیجان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ غصے میں آ کر قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے اور جوش محبت میں آ کر کسی خاص قوم کو اپنی چہیتی قوم بنا لیتا ہے۔

بلا شبہ عیسائی تصور کا مایہ خمیر رحم و محبت ہے لیکن حکم و مصالح کے لئے اس میں بھی جگہ نہ تھی۔ کفارہ کے اعتقاد کے ساتھ حکم و مصالح کا اعتقاد نشو و نما نہیں پا سکتا تھا۔ قرآن تاریخ مذاہب میں پہلی کتاب ہے جس نے خدا کی صفات و افعال کیلئے عقلی تصور قائم کیا اور یہ حقیقت واضح کی کہ حکم و مصالح کی رعایت منافی نہیں ہے،  بلکہ محاسن قدرت میں ہے بلا شبہ خدا جو کچھ چاہے کر سکتا ہے،  لیکن اس کی حکم تو عدالت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ جو کچھ کرتا ہے،  حکمت و مصلحت کے ساتھ کرتا ہے۔

اسی اصلی کی نتیجہ ہے اس نے تخلیق کائنات کا بھی جو نقشہ کھینچا،  وہ سر تا سر عقلی نقشہ ہے۔ اسی لئے اس نے جا بجا "تخلیق بالباطل” کے خیال کو کفر کی طرف نسبت دی ہے۔ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ(۳۸:۲۷) ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے،  بغیر حکمت و مصلحت کے نہیں بنایا ہے یہ خیال کہ ہم نے بغیر حکمت و مصلحت کے پیدا کیا،  ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا۔

۱) آیت کے آخری حصے کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔م

۲) "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۳) اس موقع پر یہ اصل پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز نظر و اعتبار کے مختلف پہلو رکھتی ہے اسی طرح قرآن کا استشہاد بھی بیک وقت مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے،  البتہ خصوصیت کے ساتھ زور کسی ایک ہی پہلو کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً،  شہید کی پیدائش اور شہد کی مکھی کی اعمال کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ بات کہ ایک نہایت مفید اور لذیذ غذا پیدا ہو جاتی ہے،  ربوبیت  ہے۔ یہ بات کہ ایک حقیر سا جانور اس دانش مندی و دقت کے ساتھ یہ کام انجام دیتا ہے،  ذہن و ادراک کی بخشش کا عجیب و غریب منظر ہے اور اس لئے حکمت و قدرت کا پہلو رکھتا ہے۔ ان آیات کا سیاق و سباق بتلاتا ہے کہ یہاں زیادہ تر توجہ ربوبیت پر دلائی گئی ہے،  لیکن ساتھ ہی حکمت و قدرت کے مشترک مظاہر بیان کیے گئے ہیں،  لیکن خصوصیت کے ساتھ زور کسی ایک ہی پہلو پر ہے۔

۱) "فانی تُوفکون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۲) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ زیادہ ہے : فعلی ظہور ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا (ص ۳۹) م

۳) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ زیادہ ہے : اور اپنا فعلی ظہور بھی رکھتے ہیں (ص ۳۹) م۔

۴) "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۵) اس آیت میں اور اس کی تمام ہم معنی آیات میں "سخر” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،  یعنی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ہیں "تسخیر” ٹھیک ٹھیک اسی معنی میں بولا جاتا ہے جس معنی میں ہم اردو میں بولا کرتے ہیں،  یعنی کسی چیز کا قہراً و حکماً اس طرح مطیع ہو جانا کہ جس طرح چاہیں اس سے کام لیں۔ غور کرو! انسانی قوی کی عظمت و سروری کے اظہار کے لئے اس سے زیادہ موزوں تعبیر اور کیا ہو سکتی تھی؟ قرآن کے نزول سے پہلے اقوام عالم کی چینی ذہنیت انسان کے عقلی امنگوں کے قطعاً خلاف تھی۔ لیکن قرآن نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس کی عقلی امنگوں کی جرات افزائی کر دی،  بلکہ اس کی ہمت اور اولوالعزمی علم کیلئے ایک ایسی بلند نظری کا نقشہ کھینچ دیا جس سے بہتر نقشہ آج بھی نہیں کھینچا جا سکتا۔ آسمان اور زمن میں جو کچھ ہے سب اس لئے ہے کہ انسان کے آگے مسخر ہو کر رہے اور انسان ان میں تصرف کرے۔ انسانی عقل و فکر کے لئے اس سے زیادہ بلند نصب العین اور کیا ہو سکتا ہے ؟ پھر غور کرو "تسخیر” کا لفظ انسانی کی حکمرانیوں کے لئے کس درجہ موزوں لفظ ہے ؟ اس تسخیر کا قدیم منظر یہ تھا کہ انسان کا چھوٹا سا بچہ لکڑی کے دو گرز تختے جوڑ کر سمندر کے سینے پر سوار ہو جاتا تھا اور نیا منظر یہ ہے کہ آگ،  پانی،  ہوا،  بجلی تمام عناصر پر حکمرانی کر رہا ہے۔

البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن نے جہاں کہیں اس تسخیر کی ذکر کیا ہے اس کا تعلق صرف کرہ ارضی کی کائنات سے ہے یا آسمان کے ان موثرات سے ہے جنہیں ہم یہاں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا ہے تمام موجودات ہستی اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں۔یا تمام موجودات ہستی میں وہ اشرف و اعلیٰ مخلوق ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ہماری دنیا کائنات ہستی کے بے کنار سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں وما یعلم جنود ربک الاھو (۳۱:۴۷) اور انسان کو جو کچھ بھی برتری حاصل ہے وہ صرف اس دنیا کی مخلوقات میں ہے۔

۷) "لللکُم تھتدون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۷) "اِنہ کان حلیماً تشکرون” کر ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۱) "ولعلکم تشکرون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۲) قرآن حکیم نے آخرت کے وجود کا جن جن دلائل سے اذعان پیدا کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے : دنیا میں ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی متقابل وجود یا مثنی ضرور رکھتی ہے،  پس ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے لئے بھی کوئی متقابل اور مثنی زندگی ہو۔ دنیوی زندگی کی متقابل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ چنانچہ بعض سورتوں میں انہیں متقابل مظاہرات سے استشہاد کیا ہے۔ مثلاً سورۃ الشمس مین فرمایا :

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا (۱)وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا (۲)وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا (۳)وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاهَا (۴)وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا (۵)وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا (۷) (سورۃ ۹۱)

۳) "لعلکُم تذکرون” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۴) یعنی حواء۔ مصحح (طبع دوم۔م)

۵) یعنی آدمی اور حواء کی نسل ہے،  مصحح (طبع دوم۔م)

۶) ولعلکم تعقلون کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۷) پہلے ایڈیشن میں حسب ذیل فقرات زیادہ ہیں۔

چنانچہ سورۃ بقرہ میں جہاں تحویل قبلہ کے معاملے کا ذکر کیا ہے وہاں اہل کتاب کی متعصبانہ مخالفتوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ (۲:۱۴۷)

یہ (یعنی تحویل قبلہ کا معاملہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے۔ پس دیکھو! ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔ چنانچہ عام مفسرین کی نظر اس اصل پر نہ تھی،  اس لئے اس خطاب کا صحیح محل متعین نہ کر سکے اور "فلا تکونن من الممترین” کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ اس معاملے کے خدا کی طرف سے ہونے شک نہ کرو،  حالانکہ داعی اسلام کا قلب جو خود محل وحی تھا اس بارے میں شک کا محل کیونکر ہو سکتا تھا دراصل اس خطاب کا مقصد ہی دوسرا ہے۔ تحویل قبلہ کے معاملے میں کمزور اور بے سر و سامان مسلمانوں کے ایمان کے لئے بہت بڑی آزمائش تھی۔ مٹھی بھر مظلوم و مقہور انسانوں کی جماعت نے دنیا کی دو سب سے بڑی مذہبی قوتوں کے قبلوں کے خلاف اپنا ایک نیا قبلہ مقرر کیا تھا اور یروشلم کا عظیم الشان اور صدیوں مسلمہ کا ہیکل چھوڑ کر ریگستان عرب کے ایک گمنام اور بے شان و شوکت معبد کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ ایسی حالت میں کون امید کر سکتا تھا کہ یہ بے باکانہ جرات کامیاب ہو سکے گی اور دنیا کی قوموں کا رخ اچانک پھر جائے گا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا گیا ہے کہ "وَإِن كَانَتْ لَكَبِیرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِینَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیُضِیعَ إِیمَانَكُمْ ۚ(۲:۱۴۳)

پس ضرورت تھی کہ کمزور دلوں کی تقویت کے لئے واضح کر دیا جائے کہ یہ معاملہ کتنی ہی بے سر و سامانیوں کے ساتھ ظہور میں آیا ہو اور نا کامیابی کے اسباب بظاہر کتنے ہی قوی نظر آتے ہوں۔ تاہم کامیابی و فتح مندی اسی کیلئے ہے اور اس کا نتیجہ ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہے،  کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرایا ہوا "امر حق” ہے اور جو حق ہو وہ قائم و باقی رہنے کے لئے ہوتا ہے،  مٹنے کے لئے نہیں ہوتا۔ ہر چیز جو اس سے مقابل ہو گی اور اس کی راہ روکے گی محو اور فنا ہو جائے گی۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں جہاں الوہیت مسیح کے اعتقاد کا رد کیا ہے فرمایا : الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ (۲:۱۴۷) یہ تمہارے پروردگار کی طرف امر حق ہے۔ پس دیکھو! ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔

الوہیت مسیح کا اعتقاد مسیحی کلیسا کا بنیادی اعتقاد بن گیا تھا اور اس قوت وسعت کے ساتھ دنیا میں اس کی منادی کی گئی تھی کہ اب اس کے خلاف کسی دعوت کا کامیاب ہونا تقریباً محال معلوم ہوتا تھا۔ خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس دعوت کے پیچھے نوزائیدہ اور بے سر و سامان جماعت کے سوا کوئی طاقت و شوکت نظر نہ آتی ہو۔ فرمایا : "الحقُ من ربک” الوہیت مسیح کے باطل اعتقاد نے کتنی ہی عظمت و سعت حاصل کر لی ہو،  لیکن عبدیت مسیح کی دعوت ایک امر حق ہے اور اس لئے جب کبھی "حق” اور "باطل” میں مقابلہ ہو گا،  تو بقاء ثبات حق ہی کے لئے ہو گا،  باطل کے لئے نہیں ہو گا۔ باطل کا تو خاصہ ہی یہی ہے کہ وہ مٹ جانے والی چیز ہوتی ہے۔ سر دست یہ دعوت کتنی ہی کمزور معلوم ہوتی ہو،  لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہ اپنی فتح مندی کا علم بلند کر دے گی۔

اسی طرح "الحق” کے تمام مقامات استعمال پر غور کرنا چاہیے (ص ۷۲، ۷۱) م

۱) یہ فقرہ "مثلاً فطرت۔۔۔ انتظار کیا جائے ” پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

۲) "ولینصرن اللہ۔۔۔۔۔۔ لقوی عزیز” اس حصہ کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۳) "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۴) (کتاب البر و الصلۃ،  باب فضل عیادۃ المریض۔م)

۵) طبرانی و ابن جریر،  سند صحیح۔

۷) امام احمد نے مسند میں،  ترمذی اور ابو داؤد نے صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں ابن عمر سے روایت کی ہے۔ وروینا مسلسلا من طریق الشیخ محمود شکری الا لوسی العراقی و ایضا عن والدی المرحوم عن الشیخ صدر الدین الدھلوی من طریق الشیخ احمد ولی اللہ رحمھم اللہ (ترمذی،  ابواب البر و الصلۃ باب ماجاء تی رحمۃ المسلمین،  میں یہ حدیث اس طرح ہے۔ الراحمون یرحمھم الرحمن،  ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء الرحم شجنۃ من الرحمن فنمن س صلھا و صلہ اللہ ومن قطعھا قطعہ اللہ۔ م)

۱) رواہ البخاری فی الادب المفرد [(باب رحمۃ البھائم (۱۷۶) حدیث (۳۸۱) والطبرانی عن ابی امامۃ و صححہ السیوطی فی الجامع الصغیر (المجلد الثانی (من رحم)]

۲) "یعنی خدا نے آدم میں۔۔۔۔۔ عالم زد” یہ عبارت پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

۳) پہلے ایڈیشن سے اضافہ کیا گیا ہے،  دوسرے ایڈیشن میں کاتب سے چھوٹ گیا تھا۔ م

۴) شاید انسانی گمراہی کی بوالعجبیوں کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی کہ جس انجیل کی تعلیم کا یہ مطلب سمجھ لیا گیا تھا کہ وہ کسی حال میں بدلا لینے اور سزا دینے کی اجازت نہیں دیتی،  اسی انجیل کے پیروؤں نے نوع انسانی کی تعذیب و ہلاکت کا عمل ایسی وحشت و بے رحمی کے ساتھ صدیوں تک جاری رکھا کہ آج ہم اس کا تصور بھی بغیر وحشت و ہراس کے نہیں کر سکتے اور پھر یہ جو کچھ کیا گیا انجیل اور اس کے مقدس معلم کے نام پر کیا گیا۔

۵) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ زیادہ ہے : سب کو جواب میں کہنا پڑا "وہ جسے زیادہ رقم معاف کر دی گئی” ص ۹۰۔ م

۷) پہلے ایڈیشن (ص ۹۰) میں یہ آیت بھی ہے۔

وَقَلِیلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُورُ (۳۴:۱۳) م

۷) و ایضا عنانس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم والذی نفسی بیدہ لو اخطائم حتی تملا خطایاکم بین السماء والارض ثم استغرتم اللہ یغفرلکم۔ والذی نفسی بیدہ لو لم تخطوء الجاء اللہ بقوم یخطوءن ثم یستغفرون فیغفر لھم۔ اخرجہ احمد و ابو یعلی باسنادر جالہ ثقات۔ و عن ابن عمر مرفوعا : لو لم تذنبوا الخلق اللہ خلقا یذنبون ثم یغفر لھم۔ اخرجہ احمد و البزار و رجالہ ثقات۔ و اخرج البزار من حدیث ابی سعید نحو حدیث ابی ہریرۃ فی الصحیح،  و فی اسنادہ یحیی بن بکیر و ھو ضعیف۔

۸ ) پہلے ایڈیشن ص ۹۲ میں یہ فقرہ نہیں ہے۔

"پھر اس پہلو پر بھی نظر رکھے۔۔۔۔۔ عفو و درگزر کی راہ اختیار کرتے ہیں "۔ م

۹) پہلے ایڈیشن ص ۹۴ میں یہ جملہ بھی ہے :

"سورہ انفال کے مقدمے میں ہم قرآن کے احکام جنگ پر نظر ڈالیں گے اور اس سلسلے میں مبحث کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑ جائے گی۔” م

۱) "سامی زبانوں کا۔۔۔ مرتب کی تھی” یہ فقرہ پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

۲) اسی طرح لکھا ہے،  لیکن ہونا یوں چاہیے : اصحاب دوزخ اور اصحاب جنت لاخ۔ م

۳) (صحیح مسلم،  کتاب البر والصلۃ و الاداب،  باب تحریم الظلم۔ م)

۴) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ بھی ہے :

اگر یوں "مالک یوم الدین” کی جگہ کوئی ایسی صفت نمودار ہوتی جو صفات سلب و قہر پر دلالت کرتی تو ظاہر ہے کہ یہ حقیقت واضح نہ ہوتی اور خدا کا تصور قہر و غضب سے آلودہ ہو جاتا (ص ۹۹)۔ م

۵) اَلا تطغوا فی الیمزان کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

۷) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ بھی ہے :

یہی وجہ ہے کہ علم الاجتماع کے مفکرین خصوصیت کے ساتھ اس پہلو پر زور دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کسی جماعت کی ذہنی اخلاقی رفتار ترقی معلوم کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کا سراغ لگاؤ کہ اس نے اپنے خدا کو کس شکل و شباہت میں دیکھا تھا۔ اسی شکل و شباہت میں تمہیں کود اس جماعت کے ذہن و اخلاق کی صورت نظر آ جائے گی (ص ۱۰۳)۔ م

۷) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ اس طرح ہے :

ایسا معلوم ہوتا ہے گویا انسان کے مادی تصورات کی طرح اس کے خدا پرستانہ تصور میں بھی ایک طرح کے تدریجی ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا اور بتدریج ادنی سے اعلیٰ اور پستی سے بلندی کی طرف ترقی ہوتی رہی۔ بلا شبہ یہ مشکل ہے کہ ہم اس سلسلے کی سب سے ابتدائی کڑیاں متعین کر سکیں،  کیونکہ جس قدر ماضی کی طرف بڑھتے ہیں تاریخ کی روشنی دھندلی پڑ جاتی ہے اور وحی و نبوت کی زبانیں بھی تفصیلات سے خاموش ہیں۔ تاہم اقوام و جماعت کے مختلف عہد ہمارے سامنے ہیں اور ان سے اس سلسلے کی مختلف کڑیاں بہم پہنچائی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ تمام کڑیاں تاریخی ترتیب کے ساتھ یک جا کر دی جائیں تو صاف نظر آ جائے کہ اس سلسلے کی سب سے آخری اور اس لئے سب سے زیادہ یافتہ کڑی وہی ہے جو قرآن نے نوع انسانی کے سامنے پیش کی ہے۔

لیکن یاد رہے یہاں خدا کے تصور سے مقصود اس کی صفات کا تصور ہے،  اس کی ہستی کا اعتقاد نہیں۔ (ص ۱۰۳،  ۱۰۴)۔ م

۶۰) دی اوریجن اینڈ گروتھ آف فیلیجن – ص ۸ – (The origin and growth of religion)

۶۱) ایضاً – ص ۲۶۲

۶۲) "مردہ کی کتاب” قدیم مصری تصورات کا سب سے زیادہ مرتب اور منضبط نوشتہ ہے۔ مصریات کے مشہور محقق ڈاکٹر بیج (Budge) کی رائے میں یہ سب سے زیادہ قدیم فکری مواد ہے جو مصری آثار نے ہمارے حوالے کیا ہے۔ یہ قوم اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا مصری تمدن ہے۔ لیکن جو تصورات اس میں جمع کئے گئے ہیں وہ مصری تمدن سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔ وہ اتنے قدیم ہیں کہ ہم ان کی قدامت کی کوئی تاریخ معین نہیں کر سکتے۔ اس نوشتے میں اوسریز کے دو صفات ہمیں ملتے ہیں۔ معبود اعظم،  الخیر،  ازلی بادشاہ،  آخرت کا مال۔

۶۳) پہلے ایڈیشن میں اس جملے کی جگہ حسب ذیل جملہ ہے :

بہرحال انسان کے تمام تصورات کی طرح صفات الٰہی کا تصور بھی اس کی ذہنی و معنوی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا رہا ہے۔ (ص ۱۰۵) – م

۶۴) "تجسم” سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی نسبت ایسا تصور قائم کرنا کہ وہ مخلوق کی طرح جسم و صورت رکھتا ہے۔ "شبہ” سے مقصود یہ ہے کہ ایسی صفات تجویز کرنی جو مخلوقات کی صفات سے مشابہ ہوں۔ "تنزیہ” سے مقصود یہ ہے کہ ان تمام باتوں سے جو اسے مخلوقات سے مشابہ کرتی ہوں،  اسے مبرا یقین کرنا۔ انگریزی میں تجسم کیلئے انتھروپومارفزم (Anthropomorphism) اور شبہ کے لئے ان تھروپوفیوازم (Anthropophuism) کی مصطلحات استعمال کرتے ہیں۔

۶۵) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ بھی ہے :

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بچے ہوں یا حیوان کے ڈرتے زیادہ ہیں اور انس دیر میں پکڑتے ہیں۔ پہلا اثر جو وہ قبول کریں گے خوف کا ہو گا۔ انس و محبت کا نہ ہو گا۔ (ص ۱۰۶) – م

۶۶) پہلے ایڈیشن میں اسلام سے پہلے کے صرف چار دینی تصورات کا ذکر ہے۔ یعنی اس میں چینی تصور مذکور نہیں ہے۔

اس کے علاوہ چار دینی تصورات کا ذکر بھی مختصر ہے اور اس کا انداز بیان کچھ بدلا ہوا ہے جو ص ۱۰۷ سے ۱۲۱ تک پھیلا ہوا ہے اور درج ذیل ہے۔

ہندوستان تصور میں سب پہلے اپنشدوں کا فلسفہ الٰہی نمایاں ہوتا ہے۔ اپ نشدوں کے مطالب کی نوعیت کے بارے میں زمانہ حال کے شارحوں اور نقادوں کی آراء متفق نہیں ہیں۔ (اپنشدوں کے متعلق ہماری جس قدر بھی معلومات ہیں تمام مستشرقین یورپ کی تحقیقات سے ماخوذ ہیں۔ مسٹر گف (Gough) کی رائے میں اپنشند روحانیت سے خالی ہیں لیکن پال ڈیوسن (Paul Deussen) میکس ملر (Max-Muller) اور نائٹ (Knight) انہیں روحانیت کی سرچشمہ کہتے ہیں۔ مشہور جرمن حکیم شوپن ہار (Schopenhauer) تو اس درجہ معترف ہوا کہ اس کا یہ جملہ مشہور ہو گیا ہے : "اپنشد زندگی بھر میری تشفی کرتے رہے اور دم آخر بھی مجھے انہیں سے تشفی ملے گی۔”

تمام ایک بات بالکل واضح ہے یعنی اپنشد مسئلہ وحدۃ الوجود کا سب سے قدیم سرچشمہ ہیں۔ اور گیتا کا زمانہ تصنیف کچھ ہی کیوں نہ ہو،  لیکن وہ بھی اپنشد ہی کی صداؤں کی بازگشت ہے۔ مسئلہ وحدۃ الوجود خدا کی ہستی و صفات کا جو تصور پیدا کرتا ہے اس کی نوعیت کچھ عجیب طرح کی واقع ہوئی ہے۔ ایک طرف تو وہ ہر وجود کو خدا قرار دیتا ہے،  کیونکہ وجود حقیقی کے علاوہ اور کوئی وجود موجود ہی نہیں۔ دوسری طرف خدا کے لئے کوئی محدود اور مقید تخیل بھی قائم نہیں کرتا۔ بحر حال جو کچھ بھی ہو یہ تصور اپنی نوعیت میں اس درجہ فلسفیانہ قسم کا تھا کہ کسی عہد اور ملک میں بھی عامۃ الناس کا عقیدہ نہ بن سکا۔ کود ہندوستان میں بھی اس کی حیثیت فلسفہ الہیات کے ایک مذہب (اسکول) سے زیادہ نہیں رہی۔ بہترین تعبیر جو اس صورت حال کی کی گئی ہے یہ کہ عوام کے لئے اصنام پرستی قرار دی گئی تھی اور خواص کے لئے وحدۃ الوجود کا اعتقاد تھا۔ اپنشدوں کے بعد بدھ مذہب کی تعلیم نمایاں ہوتی ہے اور ظہور قرآن کے وقت ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔ بدھ مذہب کی بھی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ مستشرقین کا ایک گروہ اسے اپنشدوں کی تعلیم ہی کی ایک عملی شکل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے "نروان” میں جذب و انفصال کا عقیدہ پوشیدہ ہے،  یعنی سرچشمہ الوہیت سے ہستی انسانی نکلی ہے پھر اسی میں داخل ہو جانا "نروان” ہے۔ لیکن دوسرا گروہ اس سے انکار کرتا ہے۔ اس گروہ کی رائے میں بدھ مذہب خدا کی ہستی کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتا۔ وہ دنیا کا تنہا مذہب ہے۔ جس نے فلسفیانہ عقائد کو مذہب کا جامہ پہنا دیا۔ وہ صرف "پراکرتی” یعنی مادہ ازلی کا ذکر کرتا ہے جسے طبیعت اور نفس حرکت میں لاتے ہیں۔ "نروان” سے مقصود یہ ہے کہ ہستی کی انانیت فنا ہو جائے اور زندگی کے عذاب سے چھٹکارا مل جائے۔ ہم جب ان تصریحات کا مطالبہ کرتے ہیں جو براہ راست گوتم بدھ کی طرف منسوب ہیں تو ہمیں دوسری تفسیر ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔

جہاں تک فطرت کائنات کی صفات کا تعلق ہے،  گوتم بدھ دنیا میں دردو اذیت کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ زندگی اس کے نزدیک سر تا سر عذاب ہے۔ وہ کہتا ہے زندگی کی بڑی اذیتیں چار ہیں۔ پیدائش،  بڑھاپا،  بیماری،  موت۔ اور نجات کی راہ "اشٹانگ مارگ” ہے یعنی آٹھ راہوں کا سفر۔ ان آٹھ عملوں سے مقصود علم صحیح،  رحم و شفقت،  قربانی،  ہوا و ہوس سے آزادی اور انانیت فنا کر دینا ہے۔ (ڈیوؤش ارلی بدھ ازم (David’s Early Buddhism)۔

یہودیوں کا تصور تجسیم اور تنزہ کے بین بین تھا اور صفات الٰہی میں غالب عنصر قہر و غضب کا تھا۔ خدا کا گاہ گاہ متشکل ہو کر نمودار ہونا،  مخاطبات الٰہیہ کا سر تا سر انسانی صفات و جذبات پر مبنی ہونا،  قہر و انتقام کی شدت اور ادنی درجے کا تمثیلی اسلوب تورات کے صفحات کا عام تصور ہے۔ مسیحی تصور رحم و محبت کا پیام تھا اور خدا کے لئے باپ کی محبت و شفقت اک تصور پیدا کرنا چاہتا تھا تجسیم و تنزہ کے لحاظ سے اس نے کوئی قدم آگے نہیں بڑھایا۔ گویا اس کی سطح وہیں تک رہی جہاں تک تورات کا تصور پہنچ چکا تھا۔ لیکن حضرت مسیح کے بعد جب مسیحی عقائد کا رومی اصنام پرستی کے تخیلات سے امتزاج ہوا تو اقالیم ثلاثہ،  کفارہ اور مریم پرستی کے عقائد پیدا ہو گئے۔ نزول قرآن کے وقت بحیثیت مجموعی مسیحی تصور ترحم و محبت کے ساتھ کفارہ،  تجسیم اور مریم پرستی کا مخلوط تصور تھا۔

ان تصورات کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان کا بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصورات کی طرح قوموں کا تصور نہ ہو سکا تاہم اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید و تنزیہ کا اعتقاد نشو پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط کی حکمت میں نمایاں ہوئی۔ سقراط کے تصور الٰہی کا جب ہم سراغ لگاتے ہیں تو افلاطون کی شہرہ آفاق کتاب جمہوریت (Republic) میں حسب ذیل مکالمہ ملتا ہے۔

افلاطون کی جمہوریت مکالمہ کے پیرایہ میں ہے۔ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہا یک عید کے موقع پر سقراط اور گلوکن (Glaucon) سیفالس (Cephalus) کے مکان میں جمع ہوئے۔ سیفالس کا لڑکا پولی مارکس (Polemarchus) اڈمنٹن (Adeimantus) اورنسیر (Niceratus) بھی موجود تھے۔ اثنائے گفتگو میں سوال پیدا ہو گیا کہ عدالت کی حقیقت کیا ہے۔ اس پر پولی مارکس اور بعض حاضرین نے یکے بعد دیگرے عدالت کی تعریف بیان کی لیکن سقراط انہیں رد کرتا رہا۔ پھر عدالت میں سے بات نکلتے ہوئے حکومت و قوانین کی نوعیت تک پہنچ گئی اور یہی کتاب کا اصلی موضوع ہے۔ پوری کتاب دس ابواب میں منقسم ہے۔

اشخاص مکالمے میں گلوکن اور اڈمنٹس افلاطون کے بھائی ہیں۔ گلوکن کا ذکر خود افلاطون نے اپنے مقالات میں کیا ہے۔ خلفائے عباسیہ کے عہد کہ "میں نے ارسطو کی کتاب السیاستہ کی شرح لکھنی چاہی تھی،  لیکن اندس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا،  مجبوراً افلاطون کی کتاب شرح کے لیے منتخب کرتا ہوں ” ابو نصر فارابی نے گو تصریح نہیں کی ہے،  لیکن یہ ظاہر ہے کہ "المدینۃ الفاصلۃ” کا تخیل اسے افلاطون کی جمہوریت ہی سے ہوا تھا۔ ابن رشد کی رح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں،  لیکن اصل عربی ناپید ہے یورپ کی زبانوں کے موجودہ تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں ہمارے پیش نظر اے۔ ای۔ ٹیلر (A. E. Taylor) کا انگریزی ترجمہ ہے۔

یاد رہے کہ "ری پبلک” کے لیے "جمہوریہ” کا لفظ موجودہ عہد کی اصطلاح نہیں ہے،  بلکہ اسی عہد کے مترجمین کے اختیارات میں سے ہیں۔

اڈمنٹس نے سوال کیا کہ شعراء کو الوہیت کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرایہ بیان اختیار کرنا چاہیے۔

سقراط : ہر حال میں خدا کی ایسی توصیف کرنی چاہیے جیسی کہ وہ اپنی ذات میں ہے،  خواہ قصصی شعر ہو،  خواہ غنائی۔ علاوہ بریں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے،  پس ضروری ہے اس کی صفات بھی صلاح و حق پر مبنی ہوں۔

اڈمنٹس : یہ درست ہے۔

سقراط : اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وجود صالح ہو گا،  اس سے کوئی بات مضر صادر نہیں ہو سکتی اور جو ہست غیر مضر ہو گی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو ذات صالح ہو گی ضروری ہے کہ نافع بھی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے،  شکر کی علت نہیں ہو سکتا۔

اڈمنٹس : درست ہے۔

سقراط : اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدا کا تمام حوادث و افعال کی علت ہونا ممکن نہیں جیا کہ عام طور پر مشہور ہے۔ بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصے کی علت ہے،  کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلائیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور برائیوں کی علت خدا کی صالح و نافع ہستی نہیں ہو سکتی پس چاہیے کہ صرف اچھائی ہی کو اس طرف نسبت دیں اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈیں۔

اڈمنٹس : میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ امر بالکل واضح ہے۔

سقراط : تو اب ضروری ہوا کہ ہم شعراء کے ایسے خیالات سے متفق نہ ہوں جیسے خیالات ہومر (Homer) کے حسب ذیل اشعار ظاہر کئے گئے ہیں۔ "مشتری (Jupiter) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الارباب یعنی سب سے بڑا دیوتا تھا۔ ہومر نے ایلیڈ میں دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔ اس کی بیوی (Juno) ہوا می ممثلہ اور ازدواج کی دیبی تھی۔ اپالو (Apollo) روشنی کا دیوتا تھا۔ ایتھنا یا منروا (Minerva) حکمت کی دیبی تھی۔ مریخ (Mars) جنگ کا دیوتا تھا۔ زہرہ (Venus) حسن و گرام کی دیبی تھی۔ ہیڈس (Hades) تاریخی اور موت کا دیوتا تھا اور جہنم کا پاسبان یقین کیا جاتا تھا۔ عطارد یا ہرمیس (Hermes) کی نسبت ان کا خیال تھا کہ دیوتاؤں کا پیغام بر ہے۔)

؟؟؟کی ڈیوڑھی میں دو پیالے رکھے ہیں ایک خیر کا ہے ایک شر کا۔ اور وہی انسان کی بھلائی اور برائی کی تمام تر علت ہیں۔ جس انسان کے حصے میں پیالہ خیر کی شراب آ گئی اس کیلئے تمام تر خیر ہے،  جس کے حصے میں شرکا گھونٹ آ گیا،  اس کے لئے تمام تر شر ہے۔ اور پھر جس کسی کو دونوں  پیالوں کا ملا جلا گھونٹ مل گیا اس کے حصے میں اچھائی بھی آ گئی برائی بھی آ گئی۔ (۵)

پھر آگے چل کر تجسیم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور اس سے انکار کیا ہے کہ خدا ایک بازی گر اور بہروپیے کی طرح کبھی ایک بھیس میں نمودار ہوتا ہے،  کبھی دوسرے بھیس میں۔ (۶)

حکماء یونان کے تصور الٰہی کی یہ سب سے بہتر شبیہ ہے جو افلاطون کے قلم سے نکلی ہے۔ یہ خدا کے تشکل سے انکار کرتی ہے اور صفات ردیہ و خسیسیہ سے بھی ایک منزہ تخیل پیش کرتی ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی صفات حسنہ کا کوئی ارفع و اعلیٰ تصور نہیں رکھی۔ اور خیر و شر کی گتھی سلجھانے سے یک قلم عاجز ہے۔ اسے مجبوراً یہ اعتقاد پیدا کرنا پڑا کہ حوادث عالم اور افعال انسانی کا غالب حصہ خدا کے دائرہ تصرف سے باہر ہے،  کیونکہ دنیا میں غلبہ شر کو ہے نہ کہ خیر کو اور خدا کو شر کا صانع نہیں ہونا چاہیے۔

بہرحال چھٹی صدی مسیحی میں دنیا کی خدا پرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک پہنچے تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔

اب غور کرو کہ قرآن کے تصور الٰہی کا کیا حال ہے۔ جب ہم ان تصورات کے مطالعے کے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آ جاتا ہے کہ تصور الٰہی کے تمام عناصر میں اس کی جگہ سب سے الگ اور سب سے بلند ہے۔ اس سلسلے میں حسبِ ذیل امور قابل غور ہیں۔

اولاً،  تجسیم اور تنزیہ کے لحاظ سے قرآن کا تصور تنزیہ کی ایسی تکمیل ہے جس کی کوئی نمود اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔ قرآن سے پہلے تنزیہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا ذہن انسانی متحمل ہو سکا تھا،  یہ تھا کہ اصنام پرستی کی جگہ ایک ان دیکھے خدا کی پرستش کی جائے،  لیکن

(۵) (یہ اشعار ایلیڈ (Illiad) کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے عدیم النظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل کیا ہے :

فباعناب زفی قارودتان

دی لخیر و ذی لثر الھوان

فیھما کل قسمۃ الانسان

فالذی معھما مزیجا الالا

زفس یلقی،  خیر او یلقی و بالا

والذی لا ینال من الثر

فنعابہ الخطوب التیابا

بطواہ یطوی البالد کلیلا

تائھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا

من بنی الخل و الوری مخذولا

(الیاذہ نشید ۲۴ ص ۱۳۱)

(ان اشعار میں "زفس” سے مقصود مشتری ہے۔)

(۶) دی ری پبلک،  ترجمہ ٹیلر،  باب دوم

جہاں تک صفات الٰہی کا تعلق ہے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہیئت کے تمثل سے کوئی تصور بھی خالی نہ تھا۔ یہودی تصور جس نے اصنام پرستی کی کوئی شکل بھی جائز نہیں رکھی تھی،  اس کے شبہ و تمثیل سے یک سر آلودہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا کر ممرے کے بلوطوں میں دیکھنا،  خدا کا حضرت یعقوب سے کشتی لڑنا،  مصر سے خروج کے وقت بدلی اور آگ کا ستون بن کر رہنمائی کرنا،  کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا،  حضرت موسیٰ کا خدا کو پیچھے سے دیکھا،  خدا کا جوش غضب میں آ کر کوئی کام کر بیٹھنا اور پھر پچھتانا،  بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بد چلنی پر ماتم کرنا،  ہیکل کی تباہی پر اس کا نوحہ،  اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑ جانا تورات کا عام اسلوب بیان ہے۔

اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے فکر انسانی اس درجہ بلند نہیں ہوا تھا کہ تمثیل کا پردہ ہٹا کر صفات الٰہی کا جلوہ دیکھ لیتا۔ اس لئے ہر تصور کی بنیاد تمام تر تمثیلی و تشبیہ ہی پر رکھنی پڑی۔

مثلاً تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبور کے ترانوں اور امثال سلیمان میں خدا کے لئے شائستہ صفات کا تخیل موجود ہے،  لیکن دوسری طرف خدا کا کوئی مخاطبہ ایسا نہیں جو سر تا سر انسانی اوصاف و جذبہ کی شبیہ سے مملو نہ ہو۔ حضرت مسیح نے جب چاہا کہ رحمت الٰہی کا عالم گیر تصور پیدا کریں تو وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لئے باپ کی تشبیہ سے کام لیں اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور ابنیت مسیح کا عقیدہ پیدا کر لیا۔

لیکن ان تمام تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف طرف رخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اچانک فکر و تصور کی ایک بالک نئی دنیا سامنے آ گئی۔ یہاں تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے بیک دفعہ اٹھ جاتے ہیں،  انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت مفقود ہو جاتی ہے۔ ہر گوشے میں مجاز کی جگہ حقیقت کا جلوہ نمایاں ہو جاتا ہے اور تجسیم کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔ تنزیہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے کہ :

ۚ لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ ۖ(۴۲:۱۱) اس کے مثل کوئی شے نہیں،  کسی چیز سے بھی تم اسے مشابہ نہیں ٹھہرا سکے۔

لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ (۶:۱۰۳)

انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں،  لیکن وہ انسان کو دیکھ رہا ہے،  وہ بڑا ہی باریک بین اور آگاہ ہے۔

اللہ کی ذات یگانہ ہے،  بے نیاز ہے،  اسے کسی کی احتیاج نہیں،  نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا،  نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا اسلوب بیان اس تمثیلی اسلوب سے بالکل مختلف ہے۔ جو تورات و انجیل وغیرہا میں پایا جاتا ہے۔ وہ ہر موقع پر تمثیل و مجاز کی جگہ حقیقت کا تصور پیدا کرنا چاہتا ہے اور تشبیہ کی جگہ تنزیہ کے اعتقاد پر زور دیتا ہے وہ نہ تو خدا کی ہستی کو مادے کی طرح اجسام و اشکال کی اصل قرار دیتا ہے،  نہ تو رات کی طرح شوہر کی تشبیہ اختیار کرتا ہے،  نہ انجیل کی طرح باپ کے رشتے سے مشابہت پیدا کرتا ہے۔ بلکہ براہ راست ایک خالق اور مالک ہستی کا نور پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی ربوبیت و رحمت و صفات کاملہ و حسنہ کا ایک مکمل نقشہ کھینچ دیتا ہے۔ یہ گویا اس تعلیم کا سب سے اعلیٰ سبق تھا۔ پچھلے دوروں میں نوع انسانی کی ذہنی استعداد اس درجہ شائستہ نہیں ہوئی تھی کہ تمثیلوں کے بغیر حقیقت کا تصور پیدا کر سکتی،  لامحالہ پیرایہ تعلیم بھی تمام تر تشبیہ و مجاز پر مبنی ہوتا تھا۔ لیکن جب تعلیم اپنے درجہ کمال تک پہنچ گئی تو تمثیلوں کی ضرورت باقی نہ رہی۔ ضروری ہو گیا کہ اب حقیقت براہ راست اپنا جلوہ دکھلا دے ! تورات اور قرآن کے جو مقامات مشترک ہیں وقت نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو،  تورات میں جہاں کہیں خدا کی براہ راست نمود کا ذکر کیا گیا ہے قرآن وہاں خدا کی تجلی کا ذکر کرتا ہے۔ تورات میں جہاں یہ پاؤ گے کہ خدا متشکل ہو کر اترا،  قرآن اس موقع کی یوں تعبیر کرے گا کہ خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر نمودار ہوا۔ بطور مثال کے صرف اک مقام پر نظر ڈالی جائے۔ تورات میں ہے :

خداوند نے کہا : اے موسیٰ! دیکھ یہ جگہ میرے پاس ہے،  تو اس چٹان پر کھڑا رہ اور یوں ہو گا کہ جب میرے جلال کا گزر ہو گا تو میں تجھے اس چٹان کی دراڑ میں رکھوں گا اور جب تک نہ گزر لوں گا،  تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپے رہوں گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میں ہتھیلی اٹھا لوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا،  لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ (خروج ۲۰:۳۳)

تب خداوند بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمے کے دروازے پر کھڑا رہا۔۔۔ اس نے کہا : "میرا بندہ موسیٰ اپنے خداوند کی شبیہ دیکھے گا” (گنتی ۵:۱۲) اس معاملے کی تعلیم قرآن نے یوں کی ہے۔

قَالَ رَبِّ أَرِنِی أَنظُرْ إِلَیْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِی وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ (۷:۱۴۳)

موسیٰ نے کہا: اے پروردگار! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیری طرف نگاہ کر سکوں فرمایا: نہیں،  تو کبھی نہیں دیکھے گا۔ لیکن ہاں ! اس پہاڑ کی طرف دیکھ۔

البتہ یاد رہے کہ تنزیہ اور التعطیل میں فرق ہے۔ تنزیہ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پینچ ہے صفات الٰہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے۔ تعطیل کے معنی یہ ہیں کہ تنزیہ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لئے کوئی بات باقی ہی نہ رہے۔ قرآن کا تصور تنزیہ کی تکمیل ہے،  تعطیل کی ابتدا نہیں ہیں۔ اگر خدا کے تصور کے لیے صفات و اعمال کی کوئی ایسی صورت باقی ہی نہ رہے جس کا فکر انسانی ادراک کر سکتی ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تنزیہ کے معنی نفی وجود کے ہو جائیں گے۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ خدا کے لئے کوئی صفت نہیں قرار دی جا سکتی،  اس لئے کہ جو صفت بھی قرار دی جائے گی۔ اس میں مخلوقات کے اوصاف سے مشابہت پیدا ہو جائے گی تو ظاہر ہے کہ عقل انسانی کسی ایسی ذات کا تصور ہی نہیں کر سکتی،  یا مثلاً اگر نفی مماثلت میں اس درجہ غلو کیا جائے کہ خدا کی ہستی اثبات کی جگہ سر تا سر نفی ہو جائے تو عقل انسانی کے لئے بجز اس کے کیا رہ جائے گا کہ وجود کی جگہ عدم کا تصور کرے۔ پس قرآن نے تنزیہ کا جو مرتبہ قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے،  مگر ساتھ ہی اصلاً مماثلت کی نفی بھی کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : خدا خوبی و جمال کی تمام صفتوں سے متصف ہے۔ وہ زندہ ہے،  قادر ہے،  پرورش کندہ ہے،  رحیم ہے،  سننے والا ہے،  دیکھنے والا ہے،  سب کچھ جاننے والا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اختیار اور ارادہ و فعل کی جتنی شائستہ تعبیرات ہیں انہیں بھی بلا تامل استعمال کرتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے : خدا کے ہاتھ کشادہ ہیں ” بَلْ یَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ (۵:۷۴) اس کے تخت حکومت کے تصرف سے کوئی گوشہ باہر نہیں "وسع كرسیه السماوات والارض” (۲:۲۵۵) وہ اپنے عرش جلال پر متمکن ہے۔

الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ (۲۰:۵)

لیکن ساتھ ہی یہ واضح کر دیتا ہے کہ جتنی چیزیں کائنات ہستی میں موجود ہیں یا جتنی چیزوں کا بھی تم تصور کر سکتے ہو ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کے مثل ہو "لَیْسَ كَمِثْلِهِ شَیْءٌ ۖ( ۴۲:۱۱)

تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی "لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ” (۶:۱۰۳)

پس ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں ہو سکتا،  اس کی ربوبیت ہماری ربوبیت کی سی نہیں ہو سکتی،  اس کا جاننا،  دیکھنا سننا ویسا نہیں ہو سکتا جیسا ہمارا جاننا،  دیکھنا اور سننا ہے۔ اس کی قدرت و بخشش کا ہاتھ اور کبریائی و جلال کا عرش ضرور ہے،  لیکن یقیناً ان کا مطلب وہ نہیں ہو سکتا جو ان الفاظ سے ہمارے ذہن میں متشکل ہو جاتا ہے۔

اسلام فرقوں میں سے جہمیہ اور باطنیہ نے جو صفات کی نفی کی تھی تو وہ اسی غلطی کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ تنزیہ اور تعطیل میں فرق نہ کر سکے۔ (۷)

(۷)مسئلہ صفات میں محدثین و سلفیہ کا متکلمین سے اختلاف بھی دراصل اسی اصل پر مبنی تھا یہ بات نہ تھی کہ وہ تجسیم کی طرف مائل تھے جیسا کہ ان کے متعصب مخالفوں نے مشہور کیا۔ متاخرین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلے پر نہایت دقت نظر کے ساتھ بحث کی ہے۔ ان کے شاگرد امام اب قیم کی "اجتماع جیوش اسلامیہ” بھی اسی موضوع پر ہے اور اس باب میں کفایت کرتی ہے۔)

ثانیاً،  تنزیہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ سے بھی قرآن کے تصور پر نظر ڈالی جائے تو اس کی شان تکمیل نمایاں ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔ مجوسی تصور نے نور و ظلمت کی دو مساویانہ قوتیں الگ الگ بنا لی تھیں۔ مسیحی تصور نے رحم و محبت پر زور دیا،  عدالت پر اس کی نظر نہیں پڑی۔ گویا جہاں تک رحمت و جمال کا تعلق ہے یا قہر و غصب کا عنصر غالب تھا یا مساوی تھا،  یا پھر رحمت و محبت آئی تھی تو اس طرح آئی تھی کہ عدالت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔

لیکن قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایسا کامل تصور پیدا کر دیا کہ قہر و غضب کے لیے کوئی جگہ نہ رہی،  دوسری طرف جزا اور سزا کا سرشتہ بھی ہاتھ سے نہیں دیا۔ کیونکہ جزا اور سزا کا اعتقاد قہر و غضب کی بنا پر نہیں،  بلکہ عدالت کی بنا پر قائم کر دیا۔ چنانچہ صفات الٰہی کے بارے میں اس کا عام اعلان یہ ہے :

قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَیًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ(۱۷:۱۱۰)

اے پیغمبر! ان سے کہہ دو تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو،  جس صفت سے بھی پکارو اس کی ساری صفتیں حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔

یعنی خدا کی تمام صفتوں کا "اسماء حسنی” قرار دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی کوئی صفت نہیں جو حسن و خوبی کی صفت نہ ہو۔ یہ صفتیں کیا کیا ہیں ؟ قرآن نے پوری وسعت کے ساتھ انہیں جا بجا بیان کیا ہے۔ ان میں ایسی صفتیں بھی ہیں جو قہر و جلال کی صفتیں ہیں،  مثلاً جبار،  قہار،  لیکن قرآن کہتا ہے وہ بھی "اسماء حسنی” ہیں۔ کیونکہ ان میں عدالت الٰہی کا ظہرو ہے اور عدالت حسن و خوب ہے،  خاں خواری و خوفناکی نہیں ہے۔ چنانچہ سورۃ حشر میں صفات رحمت و جلال کے ساتھ قہر و جلال کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر متصلاً سب کو "اسماء حسنی” قرار دیا ہے :

هُوَ اللَّهُ الَّذِی لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا یُشْرِكُونَ (۵۹:۲۳) هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ یُسَبِّحُ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ (۵۹:۲۴)

ترجمہ : وہ اللہ ہے،  اس کے سوا کوئی معبود نہیں،  وہ الملک ہے،  القدوس ہے،  السلام ہے،  المومن ہے،  المہیمن ہے،  العزیز ہے،  الجبار ہے،   المتکبر ہے اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اس کی معبودیت میں بنا رکھے ہیں وہ الخالق ہے،  الباری ہے،  المصور ہے (غرض کہ) اس کے لئے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ آسمان و زمین میں جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اس کی پاکی اور عظمت کی شہادت دے رہی ہیں اور بلاشبہ وہی ہے جو حکمت ساتھ غلبہ و توانائی بھی رکھنے والا ہے۔

اسی طرح سورہ اعراف میں ہے :

*وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَائِهِ ۚ(۷:۱۸۰)

اور اللہ کے لئے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں سو چاہیے کہ ان صفتوں سے اسے پکارو۔ اور جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ اس کی صفتوں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں سو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ چنانچہ اسی لئے سورہ فاتحہ میں صرف تین نمایاں ہوئیں : ربوبیت،  رحمت اور عدالت،  اور قہر و غضب کی کسی صفت کو یہاں جگہ نہیں دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا تصور الٰہی سر تا سر رحمت و جمال کا تصور ہے۔ قہر و خوف ناکی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔

ثالثاً،  جہاں تک توحید و اشراک کا تعلق ہے قرآن کا تصور اس درجہ کامل اور بے لچک ہے کہ اس کی کوئی نظیر پچھلے تصورات میں نہیں مل سکتی۔

اگر خدا اپنی ذات میں یگانہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی صفات میں بھی یگانہ ہو،  کیونکہ اس کی یگانگت کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی اگر دوسری ہستی اس کے صفات میں شریک و سہیم مان لی جائے۔ قرآن سے پہلے توحید کے ایجابی پہلو پر تو تمام مذاہب نے زور دیا تھا،  لیکن سلبی پہلو نمایاں نہ ہو سکا تھا۔ ایجابی پہلو یہ ہے خدا ایک ہے،  سلبی یہ ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں اور جب اس کی طرح کوئی نہیں تو ضروری ہے کہ جو صفتیں اس کے لئے ٹھہرا دی گئی ہیں ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہ ہو۔ پہلی بات توحید فی الذات سے دوسری توحید فی الصفات سے تعبیر کی گئی ہے۔ قرآن سے پہلے فکر انسانی کی استعداد اس درجہ بلند نہیں ہوئی تھی کہ توحید فی الصفات کی نزاکتوں اور بندشوں کی متحمل ہو سکتی  اس لئے مذاہب نے تمام تر زور توحید فی الذات ہی پر دیا،  توحید فی الصفات اپنی ابتدائی اور سادہ حالت میں چھوڑ دی گئی۔

* اس آیت میں "الحاد فی الاسماء” سے مقصود کیا ہے ؟؟ "الحاد” لحد سے ہے،  "لحد” کے معنی "میلان عن الوسط” کے ہیں یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔ ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے لحد کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ "وسط” حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان ای مال عن الحق پس یہاں الحاد فی الاسماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرف ہو جانا۔ امام راغب اصفحانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں کی ہے : "ان یوصف بما لا یصح و صفہ بہ او ان یتاول او صافہ عل مالا یلیق بہ” (مفردات۔ ص ۶۴۶)

یعنی خدا کے لیے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہیں ہونا چاہیے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔)

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں باوجودیکہ تمام مذاہب قبل از قرآن میں عقیدہ توحید کی تعلیم موجود تھی،  لیکن کسی نہ کسی صورت میں شخصیت پرستی عظمت پرستی اور اصنام پرستی نمودار ہوتی رہی اور رہنمایانِ مذاہب اس کا دروازہ بند نہ کر سکے۔ ہندوستان میں تو غالباً اول دن ہی سے یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ عوام کی تشفی کے لئے دیوتاؤں اور انسانی عظمتوں کی پرستاری ناگزیر ہے۔ اور اس لئے توحید کا مقام صرف خواص کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ فلاسفہ یونان کا بھی یہی خیال تھا۔ یقیناً وہ اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ کوہ اولیمپس کے دیوتاؤں کی کوئی اصلیت نہیں۔ تاہم سقراط کے علاوہ کسی نے بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ عوام کے اصنامی عقائد میں خلل انداز ہو۔ وہ کہتے تھے : اگر دیوتاؤں کی پرستش کا نظام قائم نہ رہا تو عوام کی مذہبی زندگی درہم برہم ہو جائے گی۔” فیثا غورث کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے اپنا مشہور حسابی قاعدہ معلوم کیا تھا تو اس کے شکرانے میں سو بچھڑوں کی قربانی دیوتاؤں کے نذر کی تھی۔ اس بارے میں سب سے زیادہ نازک معاملہ معلم و رہنما کی شخصیت کا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی تعلیم عظمت و رفعت حاصل نہیں کر سکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہو جائے۔ لیکن شخصیت کے حدود کیا ہیں ؟ یہیں آ کر سب کے قدموں نے ٹھوکر کھائی۔ وہ اس کی ٹھیک ٹھیک حد بندی نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی شخصیت کو خدا کا اوتار بنا لیا،  کبھی ابن اللہ سمجھ لیا،  کبھی شریک و سہیم ٹھہرا دیا۔ اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم اس کی تعظیم میں بندگی و نیاز کی سی شان پیدا کر دی۔ یہودیوں نے اپنے ابتدائی عہد کی گمراہیوں کے بعد کبھی ایسا نہیں کیا کہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کی ہو۔ لیکن اس بات سے وہ بھی نہ بچ سکے کہ اپنے نبیوں کی قبروں پر ہیکل تعمیر کر کے انہیں عبادت گاہوں کی سی شان و تقدیس دے دیتے تھے۔ گوتم بدھ کی نسبت معلوم ہے کہ اس کی تعلیم میں اصنام پرستی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی آخری وصیت جو ہم تھ پہنچی ہے یہ ہے : "ایسا نہ کرنا کہ میری نعش کی راکھ کی پوجا شروع کر دو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقین کرو نجات کی راہ تم پر بند ہو جائے گی” (۹)۔ لیکن اس وصیت پر جیسا کچھ عمل کیا گیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ نہ صرف بدھ کی خاک اور یادگاروں پر معبد تعمیر کئے گئے،  بلکہ مذہب کی اشاعت کا ذریعہ ہی یہ سمجھا گیا کہ اس کے مجسموں سے زمین کا کائی گوشہ خال نہ رہے۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں کسی معبود کے اتنے مجسمے نہیں بنائے گئے جتنے گوتم بدھ کے بنائے گئے ہیں۔ حد ہو گئی کہ فارسی زبان میں بدھ (بت) کا لفظ ہی صنم میں بولا جانے لگا۔ اسی طرح ہمیں معلوم ہے کہ مسیحیت کی حقیقی تعلیم سر تا سر توحید کی تعلیم تھی،  لیکن ابھی اس کے ظہور پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۹)  فوٹ نوٹ : ارلی بدھ ازم (Early Buddhism)

پورے سو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ نشو و نما پا چکا تھا۔

لیکن قرآن نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ اس نے توحید ہی پر زور نہیں دیا،  بلکہ شرک کی بھی راہیں مسدود کر دیں اور یہی اب باب میں اس کی خصوصیت ہے۔

وہ کہتا : ہر طرح کی عبادت اور نیاز کی مستحق صرف خدا کی ذات ہے۔ پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو توحید الٰہی کا اعتقاد باقی نہ رہا۔

وہ کہتا ہے :

یہ اسی کی ذات ہے جو انسانوں کی پکار سنتی ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتی ہے۔ پس اگر تم نے اپنی دعاؤں اور طلب گاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو گویا تم نے اسے خدا کی خدائی میں شریک کر لیا۔ وہ کہتا ہے :

دعا و استعانت،  رکوع و سجود،  عجز و نیاز،  اعتماد و توکل اور اس طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ پس اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو خدا کے رشتہ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔ اسی طرح عظمتوں،  کبریاؤں،  کارسازیوں اور بے نیایوں کا جو اعتقاد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے وہی صرف خدا ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لیے بھی پیدا کر لیا تو تم نے اسے خدا کا شریک ٹھہرا لیا اور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہو گیا۔

یہی وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ میں "إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ (۱:۵)” کی تلقین کی گئی۔ اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا۔ پھر دونوں جگہ مفعول کو مقدم کیا جو مفید اختصاص ہے،  یعنی صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام قرآن میں اس کثرت کے ساتھ توحید فی الصفات اور رد اشراک پر زور دیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔

سب سے زیادہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حدبندی کا تھا،  یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصلی جگہ میں محدود کر دیان،  تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لئے سد باب ہو جائے۔ اس بارے میں قرآن نے صاف اور قطعی لفظوں میں جا بجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندگی پر زور دیا ہے محتاج بیان نہیں۔ ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے۔ اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے وہ سب کو معلوم ہے : " اَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنْ مُحَمَّدُ عَبدُہ وَ رَّسُوْ لُہ” یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کے بندے اور رسول ہیں۔ اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا بھی اعتراف ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ صرف اس لیے کہ پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل و اساس بن جائے اور اس کا کوئی موقع باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملے کا تحفظ کیا کیا جا سکتا تھا۔ کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہو سکتا جب کہ وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی کا بھی اقرار نہ کر لے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی ان کی وفات پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے برسر منبر اعلان کر دیا تھا : من کان منکم یعبد محمد افان محمد اقدمات،  ومن کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت (بخاری) جو کوئی تم میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی پرستش کرتا تھا سو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد نے وفات پائی۔ اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی پرستش کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے،  اس کے لئے موت نہیں۔

رابعاً – قرآن سے پہلے علوم و فنون کی طرح مذہبی عقائد میں خاص و عام کا امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ خدا کا تصور تو حقیقی ہے اور خواص کے لئے ہے۔ ایک تصور عملی ہے اور عوام کے لئے ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تن درجہ قرار دیئے گئے تھے۔ عوام کے لئے دیوتاؤں کی پرستش،  خواص کے لئے براہ راست خدا کی پرستش،  اخص الخواص کے لئے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔ یہی حال فلاسفہ یونان کا تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم و حکمت ہی کر سکتے ہیں۔ عوام کے لئے اسی میں امن ہے کہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔

لیکن قرآن نے حقیقت و عمل یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رکھا۔ اس نے سب کو خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لئے صفات الٰہی کا ایک ہی تصور پیدا کیا۔ وہ حکماء و عرفاء سے لے کر جہاں و اعوام تک سب کو حقیقت کا ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ہی دروازہ کھولتا ہے۔ اس کا تصور جس طرح ایک حکیم و عارف کے لئے سرمایہ تفکر ہے،  اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لئے بھی سرمایہ تسکین۔

خامساً – قرآن نے تصور الٰہی کی بنیاد و نوع انسانی کے عالم گیر وجدانی احساس پر رکھی ہے۔ یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و فکر کی کاوشوں کا ایک معمہ بنا دیا ہو جسے کسی خاص گروہ اور طبقے کا  ذہن ہی حل کر سکے۔ انسان کا عالمگیر وجدانی احساس کیا ہے ؟ یہ ہے کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہو گئی،  پیدا کی گئی ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔ پس قرآن بھی اس بارے میں جو کچھ بتلاتا ہے صرف اتنا ہی ہے۔ وہ نہ تو توحید وجودی کا ذکر کرتا ہے نہ توحید شہودی کا۔ (۱۰) وہ صرف ایک خالق کائنات ہوتی کا ذکر کرتا ہے جو خوبی و کمال کی تمام صفتوں سے متصف اور نقص و زوال کی تمام باتوں سے منزہ ہے اور اس سے زیادہ فکر انسانی پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔

سادساً – جس ترتیب کے ساتھ سورہ فاتحہ میں یہ تینوں صفتیں بیان کی گئی ہیں دراصل فکر انسانی کی طلب و معرفت کی قدرتی منزلیں ہیں،  اور اگر غور کیا جائے تو اسی ترتیب سے پیش آتی ہیں۔ سب سے پہلے ربوبیت کا ذکر کیا گیا،  کیوں کہ کائنات ہستی میں سب سے زیادہ ظاہر نمود اسی صفت کی ہے اور ہر وجود کو سب سے زیادہ اسی کی احتیاج ہے۔ ربوبیت کے بعد رحمت کا ذکر کیا گیا،  کیونکہ اس کی حقیقت بمقابلہ ربوبیت کے مطالعہ و تفکر کی محتاج ہے اور ربوبیت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تب رحمت کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ رحمت کے بعد عدالت کی صفت بیان کی گئی ہے،  کیونکہ یہ اس سفر کی آخری منزل ہے۔ رحمت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عدالت کی بھی نمود ہر جگہ موجود ہے اور اس لئے موجود ہے کہ ربوبیت اور رحمت کا مقتضی یہی ہے۔

۶۷)  "کنگ فوزی” فارسی تلفظ ہے،  صحیح چینی تلفظ "کونگ-فو-سع” ہے۔ ایرانیوں نے اسے زیادہ صحت کے ساتھ نقل کیا ہے،  یعنی صرف اتنی تبدیلی کی کہ "فوسی” کو "فوزی” کر دیا۔ لیکن یورپ کی زبانوں نے اسے یک قلم مسخ کر کے کنفوشس  (Confucius) بنا دیا اور اس کی آواز اصل آواز دے اس درجہ مختلف ہو گئی کہ ایک چینی سن کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس چیز کا نام ہے اور کس ملک کی بولی ہے۔

۱۰)  توحیدی وجود سے مقصود "وحدۃ الوجود” کا عقیدہ ہے،  یعنی خدا کی ہستی کے سوا کوئی ہستی وجود نہیں رکھتی۔ وجود ایک ہی ہے،  باقی جو کچھ ہے تعینات کا فریب ہے۔

مگو کہ کثرت اشیا نقیض وحدت ہست

تو در حقیقت اشیا نظر فگن ہمہ اوست

توحید شہودی یہ ہے کہ موجودات خلقت کو بحیثیت موجودات تسلیم کرتے ہیں،  لیکن کہتے ہیں جب انہیں وجود الٰہی کی نمود میں دیکھا جاتا ہے تو ان کی ہستی یک قلم ناپید ہو جاتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ غیر موجود ہیں،  اس لیے کہ سورج نکل آیا  اور اس کی سلطان تجلی میں ستارے ناپید ہو گئے

فلما استبان الصبح ادرج ضوؤہ

باسفارہ لضواء نور الکواکب

۶۸)    سنسکرت میں "دشمن” زاہد اور تارک الدنیا کو کہتے ہیں۔ بدھ مذہب کے تارک الدنیا بھی اسی لقب سے پکارے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ پیروان بدھ کو "شمنی” کہنے لگے اس شمنی کو عربوں نے "سمنی” بنا لیا اور وسط ایشیا کے باشندوں نے "شامانی” چنانچہ ذکریا رازی،  البیرونی اور ابن الندیم وغیرہم نے بدھ مذہب کا ذکر سمنیہ ہی کے نام سے کیا۔ البیرونی بدھ مذہب کی عالم گیر اشاعت کی تاریخ کی خبر رکھتا تھا۔ چنانچہ کتاب الہند کی پہلی فصل میں اس طرف اشارات کیے ہیں۔

چنگیر خان کی نسبت یہ تصریح ملتی ہے کہ وہ شامانی مذہب کا پیرو تھا۔ یعنی بدھ مذہب کا۔ چونکہ شامانی اور بدھ مذہب کا ترادف واضح نہیں ہوا تھا اس لئے انیسویں صدی کے بعض یورپی مؤرخوں کو طرح طرح کی غلط فہمیاں ہوئی اور اس کا صحیح مفہوم متعین نہ کر سکے۔ یہ غلط فہمی یورپ کے اہل قلم میں آج بھی موجود ہے۔ شمالی سائبیریا اور چینی ترکستان کے ہمسایہ علاقوں کے تورانی قبائل اپنے مذہبی پیشواؤں کو ( جو تبت کے لاماؤں کی طرح ملکی پیشوائی بھی رکھتے ہیں ) "شامان” کہتے ہیں۔ سوویت روس کی حکومت آج کل ان تعلیم و تربیت کا سر و سامان کر رہی ہے۔ یہ لوگ بھی بلاشبہ بدھ مذہب کے پیرو ہیں،  لیکن ان کا بدھ مذہب منگولیوں کے منحرف مذہب کی بھی مسخ شدہ صورت ہے،  اس لئے اصلیت کی بہت کم جھلک باقی رہ گئی ہے اور اسی لئے ان کی مذہبی اصلیت کے بارے میں آج کل کے مصنف حیرانی ظاہر کر رہے ہیں۔ انگریزی میں انہیں تورانی قبائل کے مذہب کی نسبت شے منزم (Shamanism) کی ترکیب رائج ہو گئی ہے اور جادوگری کے اعمال و اثرات کو (Shamanism) اور (Shamanistic) وغیرہ سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ یہ "شیمن” بھی وہی "شامانی اور "شمنی” ہی کی ایک منحرف صورت ہے۔ چونکہ ان قبائل میں جادوگری کا اعتقاد عام ہے اور وہ اپنے شامانوں سے بیماری  میں جادو کے ٹوٹکے کراتے ہیں،  اس لئے جادوگری کے لئے یہ لفظ مستعمل ہو گیا ہے۔

۶۹)   رگ وید – حصہ سوم،  ص ۹۰۹

۷۰)    رب الا ربابی تصور سے مقصود تصور کی وہ نوعیت ہے جب خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے خداؤں میں ایک خدا سب سے بڑا ہے اور چھوٹے خداؤں کو اس کے ماتحت رہنا پڑتا ہے،  جیسا کہ یونانیوں کا عقیدہ مشتری کی نسبت تھا۔

۷۱)     رگ وید اور اپنشد کے مطالب کے لئے ہم نے حسب ذیل مصادر سے مدد لی ہے :

Max-Muller : دی ویدک ھیمز The Vedic Hymns

Bloomfield : دی ریلیجن آف دی وید The Religion of the Ved

Kaegi : دی رگ وید The Rig Ved

Ghate : لیکچرز آن دی رگ وید Lectures on the Rigved

Deussen : دی فلاسفی آف دی اپنشدس The Philosophy of the Upnishads

Hume : دی تھرٹین پرنسپل اپنشدس The Thirteen Principal Upnishads

۷۲)     ہمارے صوفیائے کرام نے اسی صورت حال کو یوں تعبیر کیا ہے کہ "احدیت” نے مرتبہ "واحدیت” کی تجلی میں نزول کیا۔ "احدیت” یونی یگانہ ہونا،  "واحدیت” یعنی اول ہونا۔یگانہ ہستی کو ہم اول نہیں کہہ سکتے،  کیونکہ اول جبھی ہو گا جب دوسرا،  تیسرا اور چوتھا بھی ہو،  اور یگانگی بحث کے مرتبے میں دوسرے اور تیسرے کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن جب "احدیت” نے "واحدیت” کے مرتبے میں نزول کیا تو اب "ھوالاول” کا مرتبہ ظہور میں آ گیا۔ اور جب اول ہو تو دوسرے،  تیسرے اور چوتھے کے تعینات بھی ظہور میں آنے لگے۔ وما املح قول الشاعر العارف

دریای کہن چو برزند موجہ تو

موجش کونند وفی الحقیقت دریاست

۷۳)       پروفیسر اس- رادھا کرشنن،  انڈین فلاسفی (Indian Philosophy) جلد اول صفحہ ۱۴۴۔ طبع ثانی۔

۷۴)         اگر اپنشد کی اشراکی کی لچک کے دوسرے صریح شواہد موجود نہ ہوتے تو اس طرح کی تصریحات بہ آسانی مجازات پر محمول کی جا سکتی تھیں،  چنانچہ داراشکوہ نے انہیں استعارات ہی پر محمول کیا ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اپنشد ایک سو ساٹھ ہیں اور مختلف عہدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ ہر اپنشد اپنے عہد کے تدریجی تصورات و مباحث کے اثرات پیش کرتا ہے اور یہاں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ان نتائج پر مبنی ہے جو مجموعی حیثیت سے نکالے گئے ہیں۔

۷۵)           ویدانت پاری جات – سوربھ،  جلد سوم صفحہ ۲۵۔ اس کا انگریزی ترجمہ مترجمہ ڈاکٹر رومابوس (Dr. Roma Bose) رائل ایشیا سوسائٹی بنگال نے حال میں شائع کیا ہے۔

۷۶)           البیرونی نے کتاب الہند میں بعض سنسکرت کتابوں سے بتوں کے بنانے کے احکام و قواعد نقل کیے ہیں۔ اس کے بعد لکھتا ہے :

"وکان الغرض فی حکایۃ ھذا الھذیان ان تعرف الصورۃ میں صنمھا اذا  شوھد۔ ولیتحقق ماقلنا من ان ھذہ الاصنام منصوبۃ العوام الذین سفلت مراتبھ،  و قصرت معارفھم۔ فما عمل صنم قط باسم من علا المادۃ فضلا عن اللہ تعالی۔ ولیعرف کیف یعبد السفل بالتمویھات،  ولذلک قیل فی کتاب "گیتا” ان کثیرا من الناس یتقربون فی مباغیھم الی بغیری و یتوسلون بالصدقات والتسبیح و لا صلاۃ لسوای فاقویھم علیھا و او فقھم لھا و او صلھم الی ارادتھم لا ستغنائی عنھم” (صفحہ ۹۳،  ۹۴)

آج کل کے تمام ہندو اہل نظر جو ہندو  عقائد و تصورات کی فلسفیانہ تعبیر کرنی چاہتے ہیں عموماً یہی توجیہ پیش کرتے ہیں جو البیرونی نے پیش کی تھی۔ ابو الفضل اور دارا شکوہ نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے۔

۷۷)      پروفیسر اس۔ رادھا کرشنن : انڈین فلاسفی،  جلد اول ۴۵۳۔ طبع ثانی

۷۸)     یہ قدیم کتاب جس کا صرف تبتی نسخہ دنیا کے علم میں آیا تھا،  اب اصل سنسکرت میں نکل آئی ہے اور گائیکواڑ اورینٹل سیریز کے ادارے نے حال میں شائع کر دی ہے۔ میسور کا مشرقی کتب خانہ بھی اس کا ایک دوسرا نسخہ اشاعت کے لیے مرتب کر رہا ہے۔

۷۹)  "نیائے ” یعنی منطق۔ "ویشیسیک” طریق نظر سے مقصود منطقی نقد و تحلیل کا ایک خاص مسلک ہے۔

۸۰)   گوتم بدھ کی تعلیم میں "اشٹانگ مارگ” یعنی آٹھ باتوں کا طریقہ ایک بنیادی اصل ہے۔ آٹھ باتوں سے مقصود علم اور عمل کا تزکیہ و طہارت ہے۔ علم حق،  رحم و شفقت،  قربانی،  ہوا و ہوس سے آزادی،  خودی کو مٹانا وغیرہ۔

۸۱)      میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرا ذاتی استنباط ہے اور مجھے حق نہیں کہ اپنی رائے کو وثوق کے ساتھ ان محققوں کے مقابلے میں پیش کروں جنہوں نے اس موضوع کے مطالعے میں زندگیاں بسر کر دی ہیں۔ تاہم میں مجبور ہوں کہ اپنی محدود معلومات کی روشنی میں جن نتائج تک پہنچا ہوں،  ان سے دستبردار نہ ہوں۔ یورپ کے محققوں نے بدھ مذہب کے مصادر کی جستجو و فراہمی میں بڑی کد و کاوش کی ہے اور پالی زبان کے تمام اہم مصادر فرنچ یا انگریزی میں منتقل کر لئے ہیں۔ میں حتی الامکان اس تمام مواد کے مطالعے کی کوشش کی اور بالآخر اسی نتیجہ تک پہنچا۔

۸۲)     "ایران” وہی لفظ ہے جو ہندوستان میں "آریا ” ہو گیا ہے۔

اوستا میں چوبیس ملکوں کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سب سے پہلا اور سب سے بہتر "ایریاناویج” (Airyana Vej) ہے اور غالباً اس سے شمالی ایران مقصود ہے (وند یداد،  فرگرہ اول،  فقرہ۔ ۲) ہرمز ویشت کے فقرہ۔ ۲۱ میں بھی ایریاناویج کا ذکر کیا ہے اور اس درود بھیجا ہے۔ "ویج” جرمن مشتشرق اشپیگل Spiegel کی قراءت ہے،  آنک تیل (Anquetil) نے اسے ویگو پڑھا تھا۔ "ویج” یا "ویگو” کے معنی پہلوی میں مبارک کے ہیں،  یعنی مبارک ایریانا کی سرزین۔

۸۳)     عہد عتیق میں یشعیا نبی کی طرف جو کتاب منسوب ہے اس کی زبان اور مطالب کا آیت ۵۱ تک ایک خاص انداز ہے اور پھر اس کے بعد بالکل دوسرا ہو جاتا ہے۔ ابتدائی حصہ ایک ایسے شخص کا کلام معلوم ہوتا ہے جو قید بابل سے پہلے تھا،  لیکن بعد کے حصے میں قید بابل کے زمانے کے اثرات صاف صاف نمایاں ہیں۔ اس لئے انیسویں صدی کے نقادوں نے اسے دو شخصوں کے کلام میں تقسیم کر دیا۔ ایک کو یشعیا اولا اور دوسرے کو دوم سے تعبیر کرتے ہیں۔

۸۴)    اسی لئے ہندو تصور نے ماں کی تشبیہ سے کام لیا،  کیونکہ ماں کی تشبیہ میں اگرچہ انسانیت آ جاتی ہے،  لیکن تشبیہ باپ سے بھی زیادہ پراثر ہو جاتی ہے۔ باپ کی شفقت کبھی کبھی جواب دے دے گی،  لیکن ماں کی محبت کی گہرائیوں کے لئے کوئی تھاہ نہیں۔

۸۵)  "ناؤس” جس کا تلفظ "ناؤز” کیا جاتا ہے عرب کے "نس” سے اس درجہ صوتی مشابہت رکھتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے "ناوز” تعریب کا جامہ پہن کر "نفس” ہو گیا۔اس طرح نوئٹک (Noetic) اور "ناطق” اس درجہ قریب ہیں کہ دوسرے کو پہلے کی تعریف سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ رینان اور ڈوزی نے نفس ناطقہ کو "نوٗٹک ناوز” کا معرب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہ "ناطق” نطق سے نہیں ہے بلکہ "نوئٹک” کی تعریف ہے جس کے معنی ادراک کے ہیں۔ بعض عربی مصادر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اصل یونانی الفاظ پیش نظر رکھے گئے تھے۔ "نفس” عربی لغت میں ذات اور خود کے معنی میں بولا جاتا تھا اور ارسطو نے عاقلانہ نطق کو انسان کی فصل قرار دیا تھا۔ اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب مترجموں نے یونانی تعبیر سامنے رکھ کر نفس ناطقہ کی ترکیب کر لی اور یہ تعریف خود عربی الفاظ کے مدلول سے بھی ملتی جلتی ہوئی بن گئی۔

۸۶)    جمہوریت کے اشخاص مکالمہ مین اڈمنٹس (Adeimantus) اور گلوکن (Glaucon) افلاطون کے بھائی ہیں۔ چنانچہ افلاطون نے خود ایک جگہ اس کی تصریح کی ہے۔

افلاطون کی دوسری مسفات کے ساتھ جمہوریت کا ترجمہ بھی عربی میں ہو گیا تھا۔ چنانچہ چھٹی صدی ہجری میں ابن رشد نے اس کی شرح لکھی۔ شرح کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ میں نے ارسطو کی "کتاب السیاسۃ” کی شرح لکھنی چاہی تھی مگر اندلس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا۔ مجبوراً افلاطون کی کتاب اختیار کرنی پڑی۔ ابن رشد کی شرح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ میں موجود ہیں مگر اصل عربی ناپید ہے،  یورپ کے موجودہ تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں ہمارے پیس نظر اے۔ ٹیلر (Taylor) اور بی۔ جوویٹ (Jowett) کے انگریزی تراجم ہیں۔

۸۷)    مشتری یعنی زیوس (Zeus) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الا رباب یعنی دیوتاؤں میں سب سے بڑا حکمران دیوتا تھا۔ ھومر (Homer) نے ایلیڈ (Iliad) دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔

۸۸)     یہ اشعار ایلیڈ کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے بے نظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل شعروں میں کیا ہے :

فباعتاب زفس قارورتان

ذی لخیر و ذی لشر الھوان

فیھما کل قسمۃ الانسان

فالذی متھما مزیجا انالا

زفس یلقی،  خیر او یلقی و بالا

والذی لاینال من الشر

فتنتابہ الخطوب انتیابا

بطواہ یطوی البلاد کلیلا

تانھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا

من بنی الخلد و الوری مخذولا

الیادۃ نید ۲۴ ص ۱۱۳۱،  مطبوعہ الہلال،  مصر ۱۹۰۴ء

ان اشعار میں "زفس” یونانی "زیوس” کی تعریب ہے۔

۸۹)    دی ری پبلک،  ترجمہ ٹیلر،  باب ۲

۹۰)    Stephen Mackenna جلد ۲ صفحہ ۱۳۴

۹۱)    ایضاً

۹۲)    ایضاً

۹۳)    ایضاً جلد اول صفحہ ۱۱۸ مذہب افلاطون جدید افلاطون کی طرف اس لئے منسوب ہوا کہ اس  کی بنیاد بعض افلاطونی مبادیات پر رکھی گئی تھی،  مگر پھر اپنی بحث و نظر میں اس نے جو راہ اختیار کی اور جن نتائج تک پہنچا انہیں افلاطون سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن عرب فلاسفہ کا ایک بڑا طبقہ اس غلط فہمی میں پڑ گیا کہ فی الحقیقت یہ افلاطون ہہی کا مذہب ہے۔ اس مذہب کے بعض فلسفیوں مثلاً فوریوش نے ارسطو کی شرح کرتے ہوئے اس کے مذہب میں جو اضافے کئے تھے،  اس بھی عرب حکماء اصل سے ممتاز نہ کر سکے۔ چنانچہ ابو نصر فارابی نے "الجمع بین الرایین” میں ارسطو کا جو مذہب ظاہر کیا ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ابن رشد پہلا عرب فلسفی ہے جس نے غلط فہمی مھسوس کی اور ارسطو کے مذہب کو شارحوں کے اضافے سے خالص کے دیکھا چہا۔

سنہ ۵۲۹م جب شہنشاہ جسٹینین (Justinian) کے حکم سے اسکندریہ کے فلاسفہ جلاوطن کیے گئے تو ان میں سے بعض نے ایران میں پناہ لی۔ چنانچہ سمپلیسیس (Simplicius) اور ڈیماسیس (Damasess) خسرو کے دربار میں معزز جگہ رکھتے تھے۔ ان فلاسفہ کی وجہ سے پہلوی زبان بھی مذہب افلاطون جدید سے آشنا ہو گئی اور ایرانی حکماء نے اسے قومی رنگ دینے کے لئے زرتشت اور جاماسپ کی طرف منسوب کر دیا۔ عربی میں جب پہلوی ادبیات منتقل ہوئیں تو یہ فلسفیانہ مقالات بھی ترجمہ ہوئے اور عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ زردشت اور جاماسپ کی ایک پراسرار فلسفہ ہے۔ چنانچہ شیخ شہاب الدین نے "حکمۃ الاشراق” میں اور شیرازی نے اس کی شرح میں دونوں غلطیاں جمع کر دی ہیں۔ وہ مذہب افلاطون جدید کو افلاطون کا مذہب سمجھتے ہیں اور زردشت اور جاماسپ کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔

۹۴)    "ھو اللطیف الخبیر” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا۔ م

۹۵)    "نیتی” یعنی کلمہ نفی۔ وہ ایسا بھی نہیں ہے،  ایسا بھی نہیں ہے۔ برھد رنیاک اپنشد میں یہ نفی دور تک چلی گئی ہے۔ وہ کثیف ہے ؟ نہیں۔ وہ لطیف ہے ؟ نہیں۔ وہ کوتاہ ہے ؟ نہیں۔ وہ دراز ہے ؟ نہیں۔ غرضیکہ ہر مشابہت کے جواب میں "نہیں ” دہرایا جاتا ہے۔ نہ وہ ایسا ہے،  نہ وہ ویسا ہے،  نہ یہ ہے نہ وہ ہے۔

اے برون ازدھم و قال و قیل من

خاک بر فرق و تمثیل من

۹۶)    یقیناً تمہارا پروردگار تمہیں گھات لگائے تاک رہا ہے۔

۹۷)  اور جب میرا بندہ تجھ سے میری نسبت سوال کرتا ہے تو اس سے کہہ دے کہ میں اس سے دور کب ہوں ؟ میں تو بالکل اس کے پاس ہوں۔  [اور جب وہ پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں۔] (۱۱)

۹۸)    تفویض کے مسلک سے مقصود یہ ہے کہ جو حقائق ہمارے دائرہ علم و ادراک سے باہر ہیں ان میں رد و کد اور باریک بینی نہ کرنا اور اپنے عجز و نارسائی کا اعتراف کر لینا۔

۹۹)  شنکر بھاشیا ۱۲:۱ اور چتھدوگیہ اپنشدقسم۔ ۸۔

۱۰۰)    اس  آیت میں "الحاد فی الاسماء” سے مقصود کیا ہے ؟ الحاد "لحد” سے ہے،  لحد کے معنی "میلان عن الوسط” کے ہیں،  یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔  اسی لیے ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے "لحد” کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لئے ہو بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وسط حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان،  ای مال عن الحق۔ پس یہاں الحاد الا سماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرک ہو جانا۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں ادا کی ہے۔ ان یوصف بما لا یصح وصفہ بہ،  او ان یتاول اوصافہ علی مالا یلیق بہ” (مفردات ۴۲۴) یعنی خا کے لئے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہین ہونا چاہیے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔

۱۰۱)    ارلی بدھ ازم (Early Buddhism)

۱۰۲)    باب مرض النبی وفاتہ۔ م

۱۰۳)    گرشیم کے قانون سے مقصود اقتصادیات کی یہ اصل ہے کہ اگر کھرے سکوں کے ساتھ کھوٹے سکے ملا دیے جائیں گے تو کھرے سکوں کی قیمت باقی نہین رہے گی۔

۱۰۴)  پروفیسر ایس۔ رادھا کرشنن،  انڈیا فلاسفی،  جلد اول صفحہ ۱۱۹،  طبع ثانی۔

۱۰۵)    پہلے ایڈیشن مص ۱۲۶ میں یہ عبارت "اگر اس نے۔۔۔۔۔ اور فیصلہ کن ہوتا” موجود نہیں ہے۔

۱۰۶)    یاد رہے کہ عربی میں قلب اور فواد کے معنی محض اس عضو ہی کے نہیں ہیں جسے اردو میں دل کہتے ہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق عقل و فکر پر بھی ہوتا ہے۔ قرآن میں جہاں کہیں سمع و بصر وغیرہ کے ساتھ قلب اور فواد کہا گیا ہے اس سے مقصود جوہر عقل ہے۔

۱۰۷)    پہلے ایڈیشن میں قوسین میں یہ جملے زیادہ ہیں (پس جو کوئی سیدھی راہ چلے گا،  اس کے لئے دونوں جگہ کامیابی ہے اور جو منحرف ہو گا اس کے لئے دونوں جگہ نامرادی)

———————————————– (۱۱)    ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔

۱۰۸)    پہلے ایڈیشن میں ص ۱۲۷ پر قوسین میں یہ عبارت زیادہ ہے (پس تمہاری مذہبی گروہ بندیوں کی ملتوی کی میں کیوں پیروی کر سکتا ہوں ! میں راہ تمہاری خود ساختہ ملتوں کی راہ نہیں ہے اللہ کی عالمگیر ہدایت کی راہ ہے (م)۔

۱۰۹)    پہلے ایڈیشن میں ص ۱۳۰ پر قوسین میں یہ عبارت زیادہ ہے (یعنی ہمارے قوانین کی رو سے وہی آبادی ہلاک ہوتی ہے جو ظلم و فساد میں غرق ہو جاتی ہے اور ہدایت الٰہی سے انکار کرتی ہے ) (م)۔

۱۱۰)    پہلے ایڈیشن میں "قل” کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے (م)

۱۱۱)    سابقہ دونوں ایڈیشنوں میں یہ لفظ چھوٹ گیا تھا۔ حدیث ابن مسعود جو اسی صفحے میں درج ہے،  اس سے اضافہ کیا گیا ہے (م)

۱۱۲)    پہلے ایڈیشن میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ یعنی خدا پرستی اور نیک عملی (م)

۱۱۳)    پہلے ایڈیشن ص ۱۶۹ میں یہ فقرہ نہیں ہے۔ (م)

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید