فہرست مضامین
نظرِ ثانی شدہ اور اضافہ شدہ نیا ایڈیشن
املا نامہ
(سفارشات املا کمیٹی، ترقّی اردو بورڈ)
مرتب: گوپی چند نارنگ
پروفیسر اردو، دہلی یونی ورسٹی
نیشنل فیلو، یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن
اراکین املا کمیٹی
ڈاکٹر سید عابد حسین (صدر)
رشید حسن خان
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (مرتّب)
(اس کمیٹی نے 1973 سے 1974 تک کام کیا اور اس کے جلسوں میں شہباز حسین نے بحیثیت پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر شرکت کی)
نظرِ ثانی کمیٹی (توسیع شدہ املا کمیٹی)
ڈاکٹر عبد العلیم (صدر)
پروفیسر گیان چند جین
ڈاکٹر سید عابد حسین
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی
رشید حسن خان
پروفیسر محمّد حسن
حیات اللہ انصاری
ڈاکٹر خلیق انجم
مالک رام
سیّد بدر الحسن
پروفیسر مسعود حسین خان
پروفیسر گوپی چند نارنگ (مرتّب)
(1976 اور 1977 میں اس کمیٹی کے تین اجلاس ہوئے۔ ڈاکٹر شارب ردولوی نے بحیثیت پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر اور ابو الفیض سحر نے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر شرکت کی)
ورکشاپ اردو املا
شمس الرّحمان فاروقی (صدر)
رشید حسن خان
ڈاکٹر نثار احمد فاروقی
پروفیسر گوپی چند نارنگ (مرتّب)
(ستمبر 1980 میں اس کے تین اجلاس ہوئے۔ ابو الفیض سحر اور شمیم احمد نے بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر شرکت کی)
مقدّمہ طبعِ ثانی
املا نامہ کا پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں 1974 میں شائع ہوا تھا، اور ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ املا نامہ کا جو پُر جوش خیر مقدم کیا گیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے پر توجہ کی کتنی شدید ضرورت تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور پاکستان میں یہ مسئلہ سب کی نگاہوں کا مرکز بن گیا، اور رسائل و جرائد میں بحثوں اور تبصروں کا تانتا بندھ گیا۔ املا نامہ کے سلسلے میں بالعموم املا کمیٹی کو مبارک باد دی گئی اور ترقّی اردو بورڈ کے اس اقدام کی ستائش کی گئی، لیکن جہاں املا نامہ کے سائنسی انداز، اختصار اور جامعیت کی داد دی گئی اور کہا گیا کہ "یہ ایک وقیع کمیٹی کی سفارشات ہیں جن کی حیثیت سنگِ میل کی ہے۔ اور قدم قدم پر رہنمائی کا حق ادا کیا گیا ہے” وہاں سخت سے سخت تنقید بھی کی گئی اور بعض سفارشات سے اختلاف کرتے ہوئے ان پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا گیا، بالخصوص مولانا عبد الماجد دریا بادی، ڈاکٹر صفدر آہ، پروفیسر ہارون خان شیروانی، مولانا شہاب مالیر کوٹلوی، سیّد بدر الحسن، حیات اللہ انصاری، پروفیسر گیان چند جین، علی جواد زیدی، سید شہاب الدین دسنوی، ڈاکٹر خلیق انجم، حسن الدین احمد، ڈاکٹر شکیل الرّحمان، ڈاکٹر عبد السّتار دلوی، راج نرائن راز، کرشن موہن، ڈاکٹر عابد پشاوری، ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ، ڈاکٹر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر سیفی پریمی، رشید نعمانی اور وقار خلیل نے کئی کئی قسطوں میں نہایت بے لاگ تحقیقی تبصرے لکھے اور علمی تجزیے کا حق ادا کیا۔ ان میں سے بعض تبصرے پاکستان کے رسائل نے بھی نقل کیے۔ املا نامہ کے آخر میں چونتیس اہم تبصروں کا گوشوارہ درج ہے اور عمومی آرا کی تلخیص بھی دے دی گئی ہے تا کہ اس ردِّ عمل کا اندازہ کیا جا سکے جو املا نامہ کی اشاعت سے ہوا۔ تمام مبصرین کا شکریہ واجب ہے کہ انھوں نے انتہائی محنت اور دلسوزی سے اس مسئلے پر توجہ صرف کی۔ یہ حقیقت ہے کہ اتنے کسی چھوٹی کتاب پر تبصرے نہیں لکھے گئے جتنے املا نامہ پر لکھے گئے۔
ڈاکٹر عبد العلیم مرحوم جنھوں نے اپنے شوقِ خاص سے اور شہباز حسین سابق پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر کے توجہ دلانے سے اس کام کا آغاز کیا تھا۔ املا نامہ پر تبصروں کی فائل مجھ کو بھجوا کر فرمائش کی کہ ان تبصروں کی مدد سے ہر سفارش کے بارے میں نام بنام اختلافی نکات کی رپورٹ تیار کر دوں تا کہ املا نامہ پر نظرِ ثانی کا کام شروع کرایا جا سکے۔ یہ اختلافی رپورٹ املا نامہ کے کُل صفحات سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ اب کے علیم صاحب نے کمیٹی کی توسیع کی اور پہلی کمیٹی کے تین اراکین کے علاوہ پروفیسر مسعود حسین خاں، حیات اللہ انصاری، مالک رام، پروفیسر گیان چند جین، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، پروفیسر محمّد حسن، ڈاکٹر خلیق انجم اور سیّد بدر الحسن کو بھی دعوت دی۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین مرحوم بوجہ علالت شرکت نہ فرما سکے اور پروفیسر گیان چند جین صرف ایک جلسے میں شریک ہو سکے، لیکن جین صاحب کا مفصّل تبصرہ کمیٹی کے پیشِ نظر رہا۔ اگرچہ اُس زمانے میں ڈاکٹر عبد العلیم کی صحّت خراب رہنے لگی تھی، اس کے باوجود انھوں نے ہر اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری کو پوری دلجمعی سے انجام دیا، اور گھنٹوں بحثوں میں حصّہ لیا۔ اس توسیع شدہ کمیٹی کے تین پُر جوش اجلاس رام کرشنا پور میں علیم صاحب کے دفتر میں منعقد ہوئے، تھوڑا سا کام باقی تھا کہ اچانک بلاوا آ گیا اور علیم صاحب نے داعی اجل کو لبّیک کہا۔ چنانچہ یہ کام جوں کا توں دھرا رہا۔ کئی برس کی خاموشی کے بعد جب ترقی اردو بیورو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے شمس الرّحمان فاروقی کا تقرّر ہوا تو علاوہ دوسرے کاموں کے، املا کی معیار بندی پر بھی توجہ ہوئی، اور اس بارے میں انھوں نے ورکشاپ کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ چونکہ عربی سے متعلق کچھ امور تصفیہ طلب تھے، اس لیے ڈاکٹر نثار احمد فاروقی سے بھی مشورہ کیا گیا۔ اس ورکشاپ کے تین بھرپور اور طویل اجلاس ترقی اردو بیورو کے دفتر میں منعقد ہوئے جو صبح سے شام تک جاری رہے۔ ہر ہر سفارش کو بار بار دیکھا اور پرکھا گیا۔ املا نامہ طبع اوّل کی سفارشات، انجمن ترقی اردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی اصل تجاویز، ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے بنیادی کام، رشید حسن خان کی تصنیف، حفیظ الرّحمان واصف کی تنقیدی کتاب، اور املا سے متعلق ڈاکٹر ابو محمد سحر اور دیگر حضرات کے مضامین، تبصروں اور بحثوں کو سامنے رکھا گیا۔ چلن، استعمالِ عام اور مروّجہ طریقوں کو پوری اہمیت دی گئی، اور خاصے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد انتہائی معروضی طور پر فیصلے کیے گئے، اور جہاں ضروری تھا لسانی و صوتی توجیہ کو انتہائی مختصر طور پر لیکن واضح الفاظ میں درج کر دیا گیا۔ کئی جگہ اصولوں اور قاعدوں میں ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ بعض توجیہات بدلی گئیں۔ بعض مقامات پر از روئے اصل حک و اصلاح کی گئی تو بعض اور رواج کو بنیادی حیثیت دینے کی وجہ سے تبدیلی کرنی پڑی، کئی شقیں حذف کر دی گئیں، چند ایک کا اضافہ بھی ہوا اور کچھ گوشواروں کو یکسر بدل دینا پڑا۔ غرض املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن میں ترمیم و تنسیخ اور اصلاح و اضافے کا عمل جگہ جگہ دکھائی دے گا اور یہ ضروری بھی تھا۔
ورکشاپ کے جلسوں کی صدارت شمس الرّحمان فاروقی نے کی۔ اگر وہ دلچسپی نہ لیتے تو یہ کام خدا جانے کب تک سرد خانے کی زینت بنا رہتا۔ انھوں نے اور ڈاکٹر نثار احمد فاروقی نے اہم مشورے دیے۔ رشید حسن خان تمام بحثوں میں شریک ہوئے۔ اُنھیں بعض نکات پر اصرار تھا لیکن کمیٹی نے اُن سے اختلاف کیا۔
اس وضاحت کی بہرحال ضرورت ہے کہ املا نامہ طبع اوّل ہو یا زیرِ نظر ترمیم شدہ ایڈیشن، سفارشات کی اصل وہی ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی اور مولوی عبد الحق کا کام اور انجمن ترقی اردو کی ‘اصلاحِ رسمِ خط کمیٹی’ کی رپورٹ ہے۔ (مقدمہ طبع اوّل میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ "زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اردو کی کمیٹی ‘اصلاحِ رسمِ خط’ (1943 تا 1944) نے پیش کی تھیں۔”)
1. اعلیٰ، ادنیٰ، اولیٰ، معلیٰ، مصلیٰ، معریٰ، مقویٰ، تقویٰ، مصطفیٰ، مطلیٰ، منقیٰ، مدعیٰ علیہ وغیرہ کو الف مقصورہ کے بجائے معمولی الف سے لکھنا چاہیے۔ (عبد السّتار صدّیقی، ص 60) (انجمن ص 115، 119)
2. وہ عربی لفظ (یا نام) جو خود عربی میں دو طرح لکھے جاتے ہیں، ان کو اردو میں الف سے لکھنا چاہیے: رحمان، سلیمان، ابراہیم، اسماعیل، لقمان، (ص 114، 119) عیسا، موسا، مصطفا، مرتضا، صغرا، کبرا (انجمن ص 115)
3. شوربا، ناشتا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 58) تمغا، حلوا، سقّا، (عبد السّتار صدّیقی، ص 59) کو الف سے لکھنا چاہیے، اسی طرح تماشا، تقاضا، ماجرا، مدّعا، معماّ، تبرّا، تولّا، مربّا، بقایا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 60) (انجمن ص 115)
4. علحدہ / علاحدہ کی بحث (انجمن 115)
5. وصل کا الف لام باقی رہنا چاہیے (انجمن ص 113)
6. عربی کی ۃ (تائے مُدوّرہ) کو اردو میں ہمیشہ ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 55، 56)
7. ت / ط کی بحث: طپش، طپیدن، طشت، طشتری، طوطا، طوطیا، طمانچہ، طلاطم، طیّاری کو ط سے نہیں، ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 68)
8. ذ یا ز کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)
9. گذشتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)
10. پذیرفتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)
11. پذیرا (ایضاً ص 65)
12. آذر (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66) آزر (ایضاً ص 66)
13. زخار (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66)
14. آزوقہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66)
15. ذات (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66) زات کی سفارش نہیں مانی گئی (ایضاً 66)
16. ذرہ، زرہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 67)
17. ازدحام، اژدحام کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 68)
18. ہائے مختفی: تمام دیسی لفظوں کو جو عربی فارسی کی نقل میں خواہ مخواہ مختفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے: آنولا، بھروسا، باجا، بٹوا، بلبلا، دھوکا، باڑا، پٹاخا، پٹارا، چبوترا، راجا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)
19. یورپی الفاظ بھی الف کے ساتھ: ڈراما، فرما، کمرا، مارکا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)
20. عربی فارسی لفظوں کی تصریفی شکلیں: ان سب لفظوں کے آخر میں الف لکھنا چاہیے جو ایک اردو اور ایک فارسی یا عربی جز سے بنے ہیں: بدلا، بے فکرا، نو دولتیا، کبابیا، مسالا، ملیدا، دسپنا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57) تماہا، چھماہا، پچرنگا، سترنگا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 58) دو ماہا (ایضاً 61)
21. پٹنہ، آگرہ، کلکتہ شہروں کے ناموں کو جوں کا توں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 56)
22. مسالا کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)
23. گنبد، زنبور، شنبہ، تنبورہ جیسے عربی فارسی لفظوں میں ن ساکن کے بعد ب آئے تو اصل کی پیروی کرنی چاہیے، نہیں تو میم لکھا جائے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 64)
24. نون غنّہ کے لیے اُلٹے قوس کا استعمال مولوی عبد الحق نے انجمن ترقی اردو کی مطبوعات کے ذریعے رائج کیا تھا۔
25. گانو، پانو، چھانو، دانو میں نون غنّہ کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 62)
26. پردے، جلوے: محروف شکلوں میں ے لکھنی چاہیے، وہ چھٹے درجے میں پڑھتا ہے، میں مدرسے جاتا ہوں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 61)
27. ہمزہ: ابتدا، انتہا، ارتقا، استدعا، استغنا میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 59)
28. بنا و سنگار، دیو، بھاو، تاو، نبھاو، گھماو میں ہمزہ کا کچھ کام نہیں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)
29. گاے، چاے، راے، ہاے میں بھی ہمزہ نہ چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)
30. ہمزہ اسی وقت آئے گا جب اس سے پہلے زبر ہو، اگر زیر ہو تو یائے لکھی جائے گی۔ دیے، لیے، کیے، چاہیے، دیجیے، لیجیے میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63، 64)
31. گنتیاں: دونو غلط دونوں صحیح (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)
32. چھے کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 61)
33. گیارہ سے اٹھارہ تک آخر کا حرف ہ ہے۔ ان کو ہ سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 62، 63)
34. لفظوں میں فاصلے اور لفظوں کو ملا کر یا الگ الگ لکھنے کی بحث۔ مرکّب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں، آپس میں ملا کر نہ لکھے جاویں (انجمن 111، 118)
35. مفرد لفظوں کے تکراری اجزا کو الگ الگ لکھنا چاہیے۔ بی بی، دُل دُل، جھُن جھُنا، کن کنا، گل گلا، کھٹ کھٹاہٹ (انجمن 111، 118)
36. فارسی لاحقے اردو عبارت میں الگ لکھنے چاہییں: بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ دولت، نہ گفت، بہ قول، تا وقتے کہ (انجمن 112)
37. انگریزی کے صوتی ٹکڑوں کو الگ الگ کر کے لکھنا چاہیے، اِن فارمل، ان سٹی ٹیوٹ، کان فرنس، یو نی ورسٹی (انجمن 115، 119)
38. اعراب (حرکات و سکنات) کی بحث (قواعدِ اردو، مولوی عبد الحق، ص 43، 50)
39. رموزِ اوقاف کی بحث (مولوی عبد الحق، ص 338، 354)
40. اعراب میں واؤ معروف کے لیے اُلٹا پیش اور یائے معروف کے لیے کھڑا زیر مولوی عبد الحق نے رائج کیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ وہ اصول ہیں، جو املا نامہ کی زیادہ تر سفارشات کی بنیاد ہیں، ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے اور بھی بہت سے اصول پیش کیے جن کو مندرجہ بالا فہرست میں عمداً شامل نہیں کیا گیا، اس لیے کہ وہ اصول و تجاویز ان کی زندگی میں ہی رد ہو گئیں، مثلاً بالکل کو بلکل یا خوش خُش لکھنا، یا نون غنّہ کو منفصل لکھنا جیسے پھان س، بان س، یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھنا، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو اس کو جدا لکھنا، جیسے لا ء ی، جا ءی، یا ‘ڑھ’ کو ‘ڑ ھ’، ‘ڈھ’ کو ‘ڈ ھ’ لکھنا وغیرہ۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی فاضلِ اجل تھے۔ نیز مولوی عبد الحق جو انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کے روحِ رواں تھے، اور برج موہن و تاریہ کیفی جو اس کمیٹی کے رکن تھے، دونوں عالمِ بے بدل تھے۔ ان اور دوسرے حضرات نے جو اصول بنائے ہوں گے اور تجویزیں پیش کی ہوں گی، پوری ذمہ داری اور پورے غور و فکر کے بعد کی ہوں گی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے متعدد اصول زمانے نے رد کر دیے۔ ہر زبان کا ایک لسانی مزاج ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لسانی مزاج نے ان اصولوں کو رد کر دیا جو اس سے لگّا نہیں کھاتے تھے، اور صرف ان اصولوں کو قبول کیا جو اس سے ہم آہنگ تھے۔ ان اصلاحات کو پیش ہوئے تقریباً نصف صدی گزرنے کو آئی ہے۔ علم کا افق روز بروز وسیع ہو رہا ہے۔ چنانچہ ترقی اردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں جب املا کمیٹی تشکیل کی، اور راقم الحروف کو اس کا رکن نامزد کیا، تو خاکسار نے اس کام کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا، کیونکہ مجھے احساس تھا کہ وہ زبان جس کی صوتیات، صرفیات اور نحویات یعنی ہر ہر سطح پر تین تین لسانی خاندانوں کے اثرات یعنی ہند آریائی، ایرانی اور سامی اثرات بیک وقت کار فرما ہوں، اور اختلاط و امتزاج کی قوس قزح پیش کرتے ہوں، اس کے رسمِ خط کے ان گنت اجزا میں مطابقتیں تلاش کرنا اور انھیں کُلّیوں کے تحت لا کر سیدھے سادے اصولوں میں بیان کرنا خاصا دقت طلب کام ہے۔ اس راہ کے مسافر کو ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے کام سے تقویت ضرور پہنچتی ہے لیکن یہ بھی معلوم تھا کہ انتہائی نیک نیّتی اور گہرے لسانی شعور پر مبنی اُن کی کئی اصلاحات کو اردو نے گوشۂ چشم سے دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ بہرحال ان پیچیدگیوں اور مشکلات کے گہرے احساس کے ساتھ راقم الحروف نے اس کام کو ہاتھ میں لیا۔ ڈاکٹر عبد العلیم اور ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی کرم گستری تھی کہ اُنھوں نے یہ ذمہ داری خاکسار کو سونپی۔ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے، کمیٹی نے نہ صرف ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کے کام کو سامنے رکھا، بلکہ اس وقت تک مختلف حضرات نے متعلقہ مسائل پر جو کچھ بھی لکھا تھا، اس کا بغور مطالعہ کیا گیا، نیز رشید حسن خان جو کمیٹی کے رکن بھی تھے، ان کے کام اور مشوروں سے بھی استفادہ کیا گیا، تا ہم جس طرح ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کی اصلاحات کو مِن و عَن قبول نہیں کیا گیا، رشید حسن خان کی کئی باتوں سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکا۔ ہر ہر سفارش پر کھُل کر گفتگو ہوئی اور پوری بحث و تمحیص کے بعد تجاویز کو یا تو رد کیا گیا، یا از سرِ نو لکھا گیا، یا قبول کیا گیا۔ خاکسار کی کوشش رہی ہے کہ سفارشات پیش کرتے ہوئے اختصار ملحوظ رہے، زبان زیادہ سے زیادہ سادہ ہو، اور جہاں ضرورت ہو لسانی سائنٹفک توجیہ کو آسان سے آسان لفظوں میں پیش کر دیا جائے۔ اردو میں غُنیت، ہکاریت اور ہمزہ کے مسائل نہایت پیچیدہ ہیں۔ ان کے بارے میں مختصر لسانی وضاحتیں ضروری خیال کی گئیں۔ مصوتی اعراب کے تحت اردو کے دس مصوتوں کے لیے جو مکمل اعرابی نظام پیش کیا گیا ہے، وہ اب تک کے پیش کردہ طریقوں میں سب سے زیادہ سہل اور سائنٹفک ہے۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین (مرحوم) اور ڈاکٹر عبد العلیم (مرحوم) نے ان لسانی وضاحتوں کو نہ صرف پسند کیا بلکہ ان پر صاد کیا۔
املا نامہ کا دوسرا ایڈیشن پہلے ایڈیشن سے کئی باتوں میں مختلف ہے۔ صاحب الرّائے اور صاحبِ علم مبصرین کی اکثریت نے جن تجاویز سے اختلاف کیا تھا، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق الف مقصورہ، نون اور نون غنّہ، ہائے خفی، ت، ط اور ہمزہ اور اضافت کے مسائل سے تھا، اس لیے ان شقوں میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔ یوں تو ہر ہر سفارش پر نظرِ ثانی کی گئی ہے، کہیں وضاحتوں میں ترمیم و اضافہ ہوا ہے تو کہیں مثالوں میں الفاظ کو بدلا گیا ہے۔ لیکن جن بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے املا نامہ کا یہ ایڈیشن پہلے سے مختلف ہو گیا ہے، ان میں خاص خاص یہ ہیں:
* الف مقصورہ کو زیادہ تر برقرار رکھا گیا ہے۔
* طشت، طشتری، طمانچہ، طوطی، غلطاں وغیرہ جیسے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔
* گانو، پانو، چھانو کے بجائے گاؤں، پاؤں، چھاؤں کی تائید کی گئی ہے۔
* اسی طرح حاصل مصدر بچاؤ، بناؤ، بہاؤ اور امر بچاؤ، بناؤ، بہاؤ سب میں ہمزہ کے استعمال کو مناسب قرار دیا گیا ہے۔
* نیز اسما گائے، پائے، چائے، رائے، جائے میں بھی ہمزہ لکھنا مناسب خیال کیا گیا ہے۔
* ایک اہم مسئلہ اضافت کے لیے ہمزہ کا تھا، یعنی بوئے گُل، صدائے دل، اردوئے معلیٰ میں یائے پر ہمزہ لکھا جائے یا نہیں۔ مبصرین میں تقریباً سب نے ہمزہ کے استعمال کی تائید کی، نیز چونکہ ان میں دوہرے مصوتے کی آواز ثابت ہے، اس لیے ہمزہ کے استعمال کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔
* آزمائش، نمائش اگرچہ از روئے اصل یائے سے ہیں، لیکن اردو میں چونکہ ہمزہ سے بولے جاتے ہیں، ایسے تمام الفاظ کو ہمزہ ہی سے لکھنا ٹھیک سمجھا گیا۔
* سابقوں، لاحقوں میں بل کہ، کیوں کہ، چوں کہ، حالاں کہ، چناں چہ، بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ خدا کو الگ الگ لکھنے کو کہا گیا تھا، لیکن چونکہ ان کی ملی ہوئی شکلیں پوری طرح چلن میں آ چکی ہیں، ایسے تمام لفظوں کو ملا کر لکھنے ہی کو مناسب قرار دیا گیا۔
* اس طرح املا نامہ طبع دوم میں عملی دقّتوں کا پہلے سے زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔ یوں اب یہ اردو زبان کے مزاج اور چلن کی پہلے سے کہیں بہتر نمائندگی کرتا ہے۔
اُدھر پاکستان میں بھی اردو املا کی معیار بندی کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے، ڈاکٹر وحید قریشی کے زیرِ سرکردگی مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ایک سہ روزہ سیمینار "املا اور رموزِ اوقاف کے مسائل” 23 تا 25 جون 1985 منعقد ہوا۔ اس سیمینار کی روداد مقتدرہ کے "اخبارِ اردو” کے جنوری 1986 کے شمارے میں شائع ہوئی۔ نیز ان تمام مقالات اور مباحث کو مقتدرہ نے کتابی طور پر بھی شائع کر دیا ہے (املا و رموزِ اوقاف کے مسائل، مرتبہ اعجاز راہی، اسلام آباد، 1985) اس سیمینار میں املا سے متعلق چودہ سفارشات پیش کی گئیں، یہ چونکہ مفصّل نہیں تھیں، ان کی تفصیلات مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں ذیل کے اراکین تھے:
1. ڈاکٹر فرمان فتح پوری
2. پروفیسر شریف کنجاہی
3. مظفر علی سیّد
4. ڈاکٹر خواجہ محمّد ذکریّا
5. ڈاکٹر ممتاز منگلوری
6. ڈاکٹر محمّد صدیق شبلی (سیکریٹری)
اس کمیٹی کے اجلاس 22، 23 اور 24 اکتوبر 1985 کو راولپنڈی میں منعقد ہوئے۔ سیمینار کی سفارشات پر غور کیا گیا، اور ہر سفارش کے بعد مثالیں درج کی گئیں۔ اور بعض مسائل جو پہلے سفارشات میں شامل نہیں تھے، انھیں بھی زیرِ بحث لا کر کُل 24 سفارشات منظور کی گئیں۔ یہ سفارشات "اخبارِ اردو” جنوری 1986 میں صفحہ 15 سے 22 پر شائع ہوئی ہیں۔
پاکستانی سفارشاتِ املا میں زیادہ تر املا نامہ طبعِ اوّل کی سفارشات پیشِ نظر رہی ہیں۔ البتہ بعض جگہ الگ ترجیحات بھی قائم کی گئی ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ املا نامہ کی نظرِ ثانی کمیٹی نے جن تبدیلیوں پر اصرار کیا تھا، مثلاً گاؤں، پاؤں (اسما)، مہندی، مہنگی میں نون غنّہ کو چلن کے مطابق لکھنا، یا بچاؤ، پتھراؤ، نیز گائے، چائے، رائے، جائے (اسما) کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا اردوئے معلیٰ، بوئے گُل میں اضافت کی یائے پر ہمزہ کو برقرار رکھنا، یا آزمائش، نمائش کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا بلکہ، چونکہ، چنانچہ کو توڑ کر نہ لکھنا، پاکستانی سفارشوں میں بھی چلن کے ان تمام مقامات کی تائید کی گئی ہے، البتہ کچھ سفارشات میں چلن کو نظر انداز بھی کیا گیا ہے، مثلاً الف مقصورہ کو زیادہ سے زیادہ برقرار رکھا ہے، یا کلیۃً، ارادۃً میں تنوین کو تائے مدوّرہ پر لکھنے کی سفارش کی ہے، یا گزارش، گزرنا، گزارنا، باج گزار، خدمت گزار، جیسے لفظوں کو بھی ذال سے لکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اردو مصوتوں کے اعراب کی نشان دہی ضروری تھی، اس پر توجہ نہیں کی گئی۔ سوائے ان امور کے باقی سفارشات تقریباً وہی ہیں، اور اُسی ڈھانچے کو برقرار رکھا گیا ہے۔
املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن کے لیے ڈاکٹر فہمیدہ بیگم، ترقی اردو بیورو کی موجودہ ڈائریکٹر کا شکریہ بھی واجب ہے کہ جب سے اُنھوں نے چارج سنبھالا ہے، املا نامہ کے نئے ایڈیشن کے لیے تقاضا کرتی رہی ہیں۔ میری دوسری مصروفیات نے ادھر توجہ کا موقع ہی نہ دیا۔ ادھر سٹینڈنگ کمیٹی اور ترقی اردو بورڈ نے ریزولیوشن کر دیا تو اُن کی طرف سے تقاضا شدید ہو گیا۔ اُن کا میں ممنون ہوں کہ اس طرح یہ کام جو کئی برس سے ادھورا رکھا ہوا تھا، پورا کرنا پڑا۔ ادھر ستمبر میں کشمیر یونی ورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں کی پُر سکون فضا میں کچھ وقت نکال کر میں مسوّدے کو آخری شکل دے سکا۔ پروفیسر حامدی کاشمیری کی دوست داری اور کرم فرمائی کا ایک مدت سے قائل ہوں۔ ان کا اور شعبۂ اردو کشمیر یونی ورسٹی کے رفقا کا ممنون ہوں کہ ان کی عنایت اور تعاون سے یہ ادھورا کام سری نگر میں تکمیل کو پہنچا۔
آخر میں یہ اعادہ ضروری ہے کہ املا نامہ کی سفارشات اس احساس کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں کہ زبان اور اس کے تمام طواہر کسی فرد واحد، ادارے یا انجمن کے تابع نہیں۔ زبان ایک وسیع تر عمرانیاتی نظام کا حصہ ہے جو عوامی ضرورتوں اور رواج چلن سے وجود میں آتا ہے اور جس کی پُشت پر صدیوں کے تاریخی اور لسانیاتی ارتقا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ زبان اور رسم الخط میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کوئی فردِ واحد، کمیٹی یا انجمن یا ادارہ جبراً مسلط نہیں کر سکتا۔ تبدیلیاں تو ہوتی ہیں لیکن یہ زبان کے خاموش عمرانیاتی عمل کے تحت از خود رونما ہوتی ہیں۔ کمیٹیاں اور ادارے صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کسی مسئلے کے بارے میں احساس و شعور کو بیدار کر دیں اور آگہی کی فضا پیدا کر دیں تا کہ انتشار دور ہو۔ چنانچہ یہ سفارشات بھی تجاویز ہیں، سرکاری حکم نامہ نہیں، اور اس توقع کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں کہ ان سے املا کی معیار بندی کے لیے احساس و شعور کی بیداری کا عمل تیز تر ہو گا اور آگہی کی فضا پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ زبان ایک زندہ حقیقت ہے جس میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، چنانچہ اصولوں میں اتنی لچک بہرحال ہونی چاہیے کہ زبان کے وسیع تر چلن اور آئندہ ضرورتوں کا ساتھ دے سکیں۔ ہمارا جو فرض تھا، وہ ہم نے ادا کیا، فیصلہ بہرحال زمانہ اور وقت کرے گا۔ و ما توفیقی الّا باللہ
گوپی چند نارنگ
16 ستمبر، 1988
نسیم باغ، سری نگر
٭٭٭
مقدّمہ طبعِ اوّل
اُردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔ عربی سے اس رسم الخط کو فارسی نے لیا اور فارسی سے یہ اُردو میں آیا۔ صدیوں کے اس تہذیبی اور تاریخی سفر میں اس رسم الخط میں بہت سی تبدیلیاں ہو گئیں۔ اُردو دنیا کی ان چند انتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذ و استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے اس کے ذخیرہ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت، پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے، تو ایک چوتھائی حصہ جو دراصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز و افتخار کا ضامن ہے’ سامی اور ایرانی مآخذ یعنی عربی، فارسی زبانوں سے لیا گیا ہے اُردو کے ذخیرہ الفاظ میں جو بے مثل تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے، وہ اُردو صوتیات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اُردو صوتیات میں ایک پرت تو ہند آریائی آوازوں کی اور اس کے ساتھ ساتھ دراوڑی آوازوں کی ہے۔ اور دوسری اتنی ہی اہم پرت مشرق وسطی کی زبانوں سے ماخوذ آوازوں کی ہے اُردو دنیا کی ان چند "تہ دار” زبانوں میں سے ہے جس میں متعدد منفرد اور ممتاز صوتیاتی نظام ایک وسیع تر لسانی پیکر میں ڈھل کر بہ یک وقت کام کرتے ہیں۔ یہ ” کثیر لسانیت” جہاں اُردو میں ایسی وسعت، لوچ اور لطافت پیدا کر دیتی ہے جو دوسری ہند آریائی زبانوں کے لیے لائق رشک ہے وہاں رسم الخط سے ایسے تقاضے بھی کرتی ہے جن کو پورا کرنا آسان نہیں۔ اُردو جیسی مخلوط و ممزوج زبان کے لیے کسی بھی ایک خاندان کا رسم الخط اپنایا جاتا، دوسرے خاندان کی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں نئی گنجائشیں نکالنی ہی پڑتیں۔ چنانچہ زمانہ قدیم میں جب اُردو عربی فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی تو کئی علامتیں ایسی تھیں جن کے لیے آوازیں نہیں تھیں، اور کئی آوازیں ایسی تھیں، جن کے لیے علامتیں نہیں تھیں۔ وقتاً فوقتا نئی علامتوں کا اضافہ ہوتا رہا، اور تبدیلیوں کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ زبان کے ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں از خود ہوتی رہیں، اور لکھنے والے اپنے اپنے طور پر لکھاوٹ کی صحت کا التزام کرتے ہے۔ اس وقت کسی معیاری بندی یا ضابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ رسم الخط ایک نئی وضع پر آ رہا تھا، اور اُردو کے "کثیر صوتیاتی” مزاج سے ہم آہنگ ہونے کا عمل جاری تھا۔
برطانوی اقتدار کے قائم ہو جانے کے بعد مستشرقین اُردو کی طرف متوجہ ہونے شروع ہوئے، اور خصوصاً فورٹ ولیم کالج کے قیام سے کچھ پہلے اور بعد میں بھی جب اُردو لغات اور قواعد کی کتابیں لکھی جانت لگیں تو اُردو رسم الخط کے مطابق صحت سے لکھنے کے مسائل یعنی املا پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ جان جوشوا کٹلر، مُل، جان گل کرسٹ، جوزف ٹیلر، ٹامس روبک، جان شکسپئر، ڈنکن فاربس، ایس ڈبلیو فیلن اور جان پلیٹس ان چند مستشرقین میں ہیں جن کے لغات اور صرف و نحو کی کتابوں میں اُردو املا سے باخبری کا گہرا احساس پایا جاتا ہے مستشرقین کی تصانیف میں اکثر اُردو الفاظ یا جملوں کو رومن حروف میں لکھنا پڑتا تھا جس کے لیے اُردو تہجّی اور رومن حروف تہجّی میں مطابقت کا کوئی نہ کوئی نظام قائم کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ غیر اہلِ زبان کو اُردو پڑ جانے ک لیے ان قاعدوں اور ضابطوں کو بھی سمجھنے سمجھانے کی ضرورت تھی جن کے مطابق حروف کے جوڑنے سے الفاظ اور عبارت لکھی جاتی ہے مستشرقین کی یہ کوشش تقریباً ایک صدی جاری رہیں لیکن خود اُردو والوں نے ان امور کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی یوں تو انّیسویں صدی میں جب لکھنو کو ادبی مرکزیت حاصل ہو گئی تو دہلی اور لکھنو کی ادبی و لسانی چشمک میں جی کھول کر ہندی کی چندی کی گئی، لیکن زبان کے جن پہلوؤں پر زیادہ توجہ صرف ہوئی، وہ شعر کی زبان سے متعلق تھے ؛ بول چال کی زبان اور نثر کی زبان برابر بے توجہی اور غفلت کا شکار رہی۔ متروکات، تذکیر و تانیث اور صحتِ استعمال ہی کو زبان کی کل کائنات سمجھا جاتا تھا۔
بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے جب اُردو ادب کے قدیم سرمائے کی تلاش و تحقیق کا کام شروع ہوا، اور جن مولوی عبدالحق کے زیرِ نگرانی انجمن ترقی اُردو سے قدیم تذکرے، دواوین اور کلیات مرتب ہو کر شائع ہونے لگے، تو ترتیب و تدوین کے مسائل کے ساتھ ساتھ صحتِ املا کا خیال بھی ذہنوں میں آیا۔ مولوی عبدالحق نے قواعدِ اُردو لکھی اور اسٹنڈرڈ انگریزی اُردو لغت کا کام بھی مکمل کرایا۔ اس دوران میں اُردو کی بے قاعدگیوں کا احساس اور بھی شدید ہوا ہو گا۔ بیسویں صدی میں تین خاص لغات بھی منظرِ عام پر آئے: فرہنگ آصفیہ، سیّد احمد دہلوی؛ نور اللغات، نور الحسن نیّر کاکوروی؛ اور جامع اللغات، فیروز الدّین لیکن سائنسی نظر کے فقدان کی وجہ سے ان میں املا کے مسائل پر وہ توجہ نہ ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔
اس صدی کی تیسرے اور چوتھی دہائیوں میں تحریک آزادی کی رفتار کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی قومی زبان کا مسئلہ سامنے آیا، اور "ہندوستانی” کی تحریک خاصی اہمیت اختیار کر گئی۔ مہاتما گاندھی چونکہ اعلان کر چکے تھے کہ "ہندوستانی” کے لیے دیو ناگری اور اُردو دونوں "لپیوں” کو اپنایا جائے گا، اس لیے دونوں کو اپنا اپنا گھر سنبھالنے کی فکر ہوئی۔ اُردو میں اس کا اظہار دو طرح سے ہوا۔ اوّل تو یہ کہ اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر سادہ اور سہل بنایا جائے (ڈاکٹر جافرہسن، آسان رسمِ خط، حیدر آباد، 1940) دوسرے یہ کہ اُردو رسم الخط کی جیسا وہ ہے، مدافعت کی جائے۔ (سیّد مسعود حسن رضوی ادیب، اُردو زبان اور اس کا رسم الخط، لکھنو، 1948ء عبد القدوس ہاشمی، ہمارا رسم الخط، انجمن، دلّی (قبل 1947ء) : محمد الیاس برنی، اُردو ہندی رسم الخط، حیدر آباد، 1948ء (؟))
اُردو رسم الخط کی ان بحثوں میں شریک ہونے والی ایک شخصیت ایسی بھی تھی جس نے اپنی صلاحیتوں کا بڑا حصّہ اُردو املا کے لیے وقف کر دیا۔ اُردو والوں کو ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اُردو املا کے مسائل پر نہ صرف خود لکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے اپنی متعدد تحریروں، خطوں، تبصروں اور مضامین کے ذریعے اُردو املا کے بارے میں برتی جانے والی عام بے توجہی اور بے حسی کو بے نقاب کیا۔ اور املا کے مسائل پر عالمانہ نظر ڈال کر وقتاً فوقتاً اصلاحی تجویزیں پیش کیں۔ 1943 میں جب انجمن ترقی اُردو نے کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط مقرر کی تو مولوی عبدالحق کی دعوت پر اس کا اجلاس 22 مارچ 1943 کو سید ہاشمی فرید آبادی کی ابتدائی تجاویز پر غور کرنے کے لیے انجمن کے دفتر واقع دریا گنج دہلی میں منعقد ہوا جس میں مولوی عبدالحق اور سیّد ہاشمی فرید آبادی کے علاوہ ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے مرتب کیا تھا، 16 ستمبر 1943 کو اخبار ہماری زبان میں شائع کی گئیں، اور 21 جنوری 1944ء کو کل ہند اُردو کانفرنس کے ناگ پور اجلاس میں رسمِ خط کی ذیلی مجلس میں پیش ہوئیں یہ تجاویز خاصے غور و مباحثے کے بعد ترمیم و اضافے کے ساتھ منظور کی گئیں اور جنوری 1944ء کے رسالہ اُردو میں شائع کی گئیں۔ (ص 103 – 120)
کمیٹی اصلاح رسمِ خط کی ان سفارشات پر انجمن ترقی اُردو سے شائع ہونے والی کتابوں اور رسالوں میں عمل ہونا شروع ہی ہوا تھا کہ برِ صغیر کی تقسیم سے اُردو کو ہندوستان میں اپنی زندگی کی نئی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا اور املا کی معیار بندی کی کوششوں پر اوس پڑ گئی۔ تا ہم سرکردہ محقّقین اور مصنّفین کے ہاں جن میں ڈاکٹر سیّد عابد حسین، سیّد مسعود حسن رضوی، امتیاز علی عرشی، قاضی عبد الودود، مالک رام، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر گیان چند جین کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں، صحتِ املا لا التزام رہا، لیکن بہ حیثیت مجموعی اُردو املا طرح طرح کی بے قاعدگیوں اور بے اعتدالیوں کا شکار رہا۔
اُردو میں املا کے مسائل کئی طرح کے ہیں۔ ان میں سے بعض بنیادی مسائل وہ ہیں جو مستعار الفاظ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اُردو لفظیات کا امتیازی حصّہ عربی، فارسی سے ماخوذ ہے۔ ان زبانوں سے آنے والے ہزاروں لفظ اُردو میں رچ بس گئے ہیں، اور اُردو کے اپنے ہو چکے ہیں۔ اُردو ایک آزاد اور خود مختار زبان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں مستعار لفظوں کا طریقِ املا سے مختلف ہے، وہاں اصل کی پیروی کرنی چاہیے یا انھیں اُردو کے قاعدے سے لکھنا چاہیے؟ ایسی ایک مثال ان عربی لفظوں کی ہے جن کے آخر میں ی کے اوپر الف لکھا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، موسیٰ، دعویٰ، اس قبیل کے کئی الفاظ اُردو میں پورے الف سے رائج ہو چکے ہیں۔ مولا، تقاضا، تماشا، تمنا۔ ان کے بارے میں قاعدہ کیا ہونا چاہیے؟
ایسے کئی الفاظ جن میں الف مقصورہ آتا ہے، پہلے ہی عام الف سے لکھے جاتے ہیں، جیسے رحمٰن اور رحمان۔ اسمٰعیل اور اسماعیل، سلیمٰن اور سلیمان، ابرٰہیم اور ابراہیم، مولیٰنا اور مولانا۔ اس املائی دو عملی سے کس طرح بچا جائے، اور اس سلسلے میں کیا اصول اپنایا جائے؟
عربی، فارسی کے کئی الفاظ میں لکھنے میں نون آتا ہے لیکن پڑھا میم جاتا ہے، جیسے گنبد، انبساط، انبوہ۔ ان کی تقلید میں کئی دیسی الفاظ بھی جو میم سے بولے جاتے ہیں، خواہ مخواہ نون سے لکھے جاتے ہیں : اچنبھا، تنبولی، چنپا، چنبیلی۔
اُردو میں سینکڑوں دیسی لفظ مستعار الفاظ کی نقل میں خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ غنچہ، کشتہ، زردہ، پردہ میں تو اصلاً ہ ہے، لیکن بھروسہ، ٹھیکہ، بھوسہ، دھبہ، اکھاڑہ، انڈہ، اڈّہ، راجہ، باجہ، گینڈہ، سہرہ، دسہرہ میں اس کا کیا جواز ہے؟ آنکھ کو آنکھہ، ہاتھ کو ہاتھہ، بیٹھ کو بیٹھہ، مجھ کو مجہہ، اور کچھ کو کچہہ عام طور پر لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ بات بھی عام طور پر معلوم نہیں کہ خفی ہ کی آواز ہ کی نہیں، خفیف مُصوّتہ (مثلاً زبر) کی ہے۔
ذ اور ز کے بارے میں بھی اُردو میں خاصا خلط مبحث ہے۔ قاضی عبد الودود نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ مرزا غالب فارسی میں ذال کے وجود کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے گزشتن اور پزیرفتن کو صحیح سمجھتے تھے۔ حالانکہ صحیح صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ یہ غلط روش یہاں تک عام ہوئی کہ کئی لوگ گزارش کو گذارش، شکر گزار کو شکر گذار اور گذشتہ کو گزشتہ لکھنے لگے۔
ہمزہ اُردو میں عربی سے آیا۔ عربی میں ہمزہ جس آواز کے لیے استعمال ہوتا ہے، اُردو میں اس کا وجود نہیں کے برابر ہے۔ عربی میں ہمزہ کی حیثیت مُضمتے کی ہے، اُردو میں ہمزہ مصوّتوں کے ساتھ آتا ہے۔ باوجود اس قلب ماہیت کے ہمزہ اُردو املا میں ایسا ناگزیر جزو ہے جس کے بغیر اُردو املا کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اُردو میں ہمزہ کی کیا ضرورت ہے اور ہم ہمزہ کو استعمال کرنے پر کیوں مجبور ہیں، اس کا کوئی واضح شعور ذہنوں میں نہیں۔ ہمزہ کےاستعمال کے سلسلے میں اُردو میں بڑی بے اعتدالیاں برتی جاتی ہیں، مثلاً عربی کے کئی الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے ابتداء، انتہاء، علماء، فضلاء، قدماء، ادباء، حکماء۔ اُردو میں یہ الفاظ چونکہ ہمزہ کے خاص تلفّظ کے ساتھ رائج نہیں، ان ہمزہ کا استعمال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح چاہیے، لیے، کیے، پیے، جیے، کو چاہیئے، لئیے، کئے، دئے، پئے، جئے بھی لکھا جاتا ہے۔ نیز دیجئے، کیجئے، لیجئے وغیرہ افعال کی تصریفی صورتوں میں بھی ہمزہ کے معاملے میں خاصا انتشار ہے۔ بعض لوگ انھیں ی سے لکھتے ہیں، بعض ہمزہ سے، اور بعض دونوں سے۔ اضافت کے لیے بھی ہمزہ کی غلط نگاری عام ہے۔ اس بات کا شعور عام نہیں کہ نغمہ شب، جلوہ مجاز اور کشتہ ناز میں ہمزہ کیوں لکھنا چاہیے اور ماہِ نو، تہِ دریا اور نگاہ دل نواز میں اضافت کیسے ظاہر کی جائے گی۔
املا کے کئی مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق اُردو کی صوتیات سے ہے۔ ایک ہمہ گیر زبان میں جو ملک بھر کے دور دراز خطّوں، علاقوں اور شہروں میں بولی جاتی ہو، مقامی اثرات کا لہجے اور تلفّظ کے اختلاف میں ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ املا کا کام معیاری تلفّظ کا اظہار ہے۔ لیکن بعض مثالیں ایسی بھی مل جاتی ہیں، جہاں ایک سے زیادہ معیاری شکلیں موجود ہیں۔ اور دونوں طرح کے تلفّظ کی سند مل جاتی ہے۔ ایسی صورتوں میں فیصلہ کیا ہونا چاہیے؟
اُردو صوتیات میں ہکار آوازوں کی خاص اہمیت ہے۔ اُردو میں ان کے لیے الگ سے حروف نہیں، لیکن ان کے اظہار کا اطمینان بخش طریقہ موجود ہے۔ (پھ بھ، تھ د ھ، ٹھ ڈ ھ، چھ جھ، کھ گھ، ڑ ھ)۔ پھر بھی یہ صوتی تصوّر ابھی تک پوری طرح ذہن نشین نہیں ہو سکا کہ ہائے مخلوط کو ہکار آوازوں کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے ہے کو ھے، چاہیے کو چاھیے، ہی کو ھی یا مجھ کو مجہہ۔ بیٹھ کو بیٹہہ اور آٹھ کو آٹہہ لکھنے کی روش قدیم زمانے سے چلی آتی ہے۔ اور تو اور، گھر اور گہر، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھاری اور بہاری، بھن اور بہن یا دھلی اور دہلی میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔
نون غُنہ خالص اُردو کی چیز ہے۔ عربی میں نون غُنہ نہیں، قدیم و جدید فارسی میں اس کا وجود کہیں ہیں، کہیں نہیں ہے۔ اُردو میں ہم نون کا نقطہ اُڑا کر اس کو غُنیت کے لیے کام میں لاتے ہیں، جبکہ لفظ کے بیچ میں نقطہ ضروری ہے۔ حرف و صوت کی اس عدم مطابقت سے کہیں کہیں دقّت پیدا ہوتی ہے، اُردو میں کئی لفظ ایسے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر یہ معلوم نہیں کہ ان میں نون غُنہ کا صحیح مقام کیا ہے۔ لفظ گا نو بہ معنی بستی تین چار طرح لکھا جاتا ہے، گانو، گاؤں، گانوں اور گانئوں۔ یہی حال پانْو، چھانْو اور اس قبیل کے دوسرے الفاظ کا ہے۔ اس انتشار کو ختم کرنے کے لیے معیار بندی بیحد ضروری ہے۔
حروفِ علت کی کمی کے فائدے اپنی جگہ ہیں، لیکن اس سے بعض املائی دقّتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تیر، تَیر ؛ پیر، پیَر؛ بین، بَین ؛ میرا، میرا ؛ اور میل، مَیل میں جو فرق ہے ؛ یا دور، دَور ؛ طور، طور، چور، چور ؛ مَول، مول ل میں فرق ہے، اسے ہم اعراب کی عدم موجودگی میں سیاق و سباق کی مدد سے سمجھ لیتے ہیں، لیکن واؤ کی تین آوازوں (واؤ معروف واؤ مجہول اور واؤ ماقبل مفتوح) اور ی کی تین آوازوں (یائے معروف، یائے مجہول، یائے ماقبل مفتوح) کے صوتی اور املائی امتیازات عام طور سے نہ پڑھانے والوں کے ذہن میں واضح ہوتے ہیں، نہ پڑھنے والوں کے۔ زیر، زبر، پیش، اور الف مد ملا کر اُردو کے کل دس مصوّتے ہوئے۔ ان دس مصوّتوں کا اعرابی نظام ابھی تک مُسلّم نہیں، اور قاعدوں اور ابتدائی کتابوں میں عجیب و گریب انتشار ملتا ہے۔
املا نامہ میں تمام مسائل پر توجہ کی گئی ہے، اور پورے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد، سادہ اور صاف زبان میں سفارشیں پیش کی گئی ہیں، نیز پہلی بار اُردو کے دس مصوّتوں کے لیے اِعرابی نظام پیش کیا گیا ہے جو سہل بھی ہے اور سائنٹِفک بھی۔
آزادی کے بعد املا کی اصلاح و تنظیم کی طرف پھر سے توجہ ہوئی۔ کئی ذہنوں نے ان مسائل کو وہیں سے لیا جہاں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے انھیں چھوڑا تھا۔ نیز یہ احساس بھی عام ہوا کہ املا کے بارے میں سوچتے ہوئے محض صوتیات ہی سے نہیں، سماجی لسانیات سے بھی مدد لینی چاہیے، زبان کی صوتیات اس کی سماجیات سے ہٹ کر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بعض حضرات نے اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر ڈھالنے میں یہی غلطی کی تھی۔ ڈاکٹر جافر ہسن کا صوتی املا (جس کی سیّد ہاشمی فرید آبادی اور سیّد اختر حسین رائے پوری نے بھی کسی حد تک تائید کی تھی) چونکہ اُردو کے تاریخی ارتقا اور سماجی ضرورتوں کا اتنا احساس نہیں رکھتا تھا جتنا ضروری ہے۔ نیز اس میں رواج اور چلن سے بھی صرفِ نظر کیا گیا تھا، اس لیے جزوی طور پر بھی قبول نہ ہو سکا زبان کے معاملے میں صدیوں کے چلن اور سماجی ضرورتوں اور عام استعمال سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ سجّاد مرزا اور ہارون خان شروانی نے اُردو ٹائپ اور طباعت کے لیے جو کوششیں کیں (اُردو رسمِ خط اور طباعت، حیدر آباد، 1957ء) ان میں بالواسطہ طور ہی پر سہی، املا کے نکات بھی زیرِ بحث آئے۔ اُردو کے نام سے غلام رسول نے ایک کتابچہ 1960 میں حیدر آباد سے شائع کیا۔ عبد الغفار مدہولی نے اپنے تدریسی تجربوں کی بنا پر اُردو املا کا آسان طریقہ رائج کرنے لیے متعدد تحریریں لکھیں، اور اسی نام سے 1963ء میں دہلی سے ان کا ایک کتابچہ بھی شائع ہوا۔ اس زمانے میں سیّد احتشام حسین اور آل احمد سرور نے بھی بعض اصلاحات کے لیے ذہنی فضا تیار کرنے میں مدد دی۔ ڈاکٹر گیان چند جین اور راقم الحروف نے اپنے مضامیں میں صحتِ املا کے لیے جامع سائنسی اصولوں کو اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ رشید حسین خاں بھی املا کے مسائل پر برابر غور و فکر کرتے رہے اور لکھتے رہے۔ 1973ء میں ترقی اُردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں املا کمیٹی مقرر کی۔ راقم الحروف اور رشید حسن خان اس کے رکن مقرر کیے گئے۔ رشید حسن خاں اُردو املا پر اپنی کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔ کمیٹی کی متعدد نشستوں میں ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی مجوزہ اصلاحات اور دوسرے مسائل پر غور و خوض ہوا، بنیادی اصول طے کیے گئے اور سفارشات مرتب کرنے کا کام راقم الحروف کو سونپا گیا۔ رشید حسن خاں نے اُردو املا پر عالمانہ اور مبسوط کتاب لکھی جس میں بنیادی اُصولوں کی وضاحت کی گئی، مختلف عنوانات کے تحت ضروری الفاظ کی فہرستیں شامل کی گئیں۔ اور لغات میں پائے جانے والے انتشار اور غلط نگاری کا تفصیلی جائزہ لے کر ترجیحی صورتوں کا تعیّن کی گیا۔ لیکن واضح رہے کہ کتاب ایک فردِ واحد کا کام ہے۔ کمیٹی نے اُن کے کام اور اُن کے مشوروں سے استفادہ کیا، لیکن جس طرح کمیٹی نے ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی کئی اصلاحات کو رد کر دیا، رشید حسن خاں کی بعض باتوں سے بھی کمیٹی باوجود کوشش کے متفق نہ ہو سکی، اور املا نامہ میں متعدد سفارشیں اُن سے ہٹا دی گئیں۔
املا نامہ طبعِ اول (1974ء) میں زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اُردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط (1943 -44ء) نے پیش کی تھیں یا جن کی وضاحت ڈاکٹر عبد الستّار صدیقی نے اپنے مضامین اور تحریروں میں کرتے رہے تھے۔ ترقی اُردو بورڈ کی املا کمیٹی کو بعض مقامات پر بنیادی نوعیت کا اختلاف تھا۔ جس کی نشان دہی کر دی گئی تھی مثلاً وہ اصلاحات جو انقلابی تبدیلیوں پر مبنی تھیں۔ جیسے مصدر یا کسی صیغے کے آخر میں جو نا، تا وغیرہ آتے ہیں، وہ مادّے سے جدا کر کے لکھے جائیں، جیسے لکھ نا، لکھ تی، لکھ تے، لے نا، اٹھ تیں، بھج وانا، سے تا، یا بالکل کو بلکل یا خوش کو خُش لکھا جائے، یا نون غُنہ کو منفصل لکھا جائے، جیسے پھان س، بان س، سن گھاڑے۔ یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھا جائے، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، پھ ر۔ یا یہ کہ عربی کے ہم آواز حروف جن کی تین یا چار شکلیں آتی ہیں، ان کو گھٹا کر صرف دو شکلوں پر اکتفا کیا جائے یعنی ث، ص، س میں سے ص کو اور ز، ذ ض اور ظ میں سے ذ اور ض کو حذف کر دیا جائے۔ یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے لا، ی، جا، ی، داءِ رہ، کو، ی، سو، یاں، زاءِ ل، قاءِ ل۔ طائرِ، زائدِ، سناءِ ی، آء ی، یا مصیبت کو مصی بت، گھر کنا کو گُھر ک نا، اور قرینہ کو قری نہ لکھا جائے ؛ یا ڑھ کو ڑھ، ڈھ کو ڈھ یعنی ملا کر دھ رتی بجائے دھرتی، ادھ ورا بجائے ادھورا لکھا جائے، ایسی تبدیلیاں چونکہ رواج اور چلن میں نہیں آ سکتی تھیں، اور ناقابلِ عمل تھیں، اس لیے ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔
سفارشات پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل رہنما اصول سامنے رہے:
1۔ صحتِ املا کے جو اصول اب تک سامنے آ چکے ہیں، اور محتاط اہلِ قلم کے ہاں جن پر عمل بھی ہو رہا ہے، ان کو علمی، صوتی اور لسانیاتی نظر سے پرکھا جائے اور سائنٹفک طور پر منضبط و منظّم کر کے پیش کیا جائے۔
2۔ اُردو کے صدیوں کے چلن اور رواج کو پوری اہمیت دی جائے اور استعمالِ عام کی روشنی میں ترجیحی صورتوں کا تعیّن کیا جائے۔
3۔ املا میں کوئی تبدیلی ایسی تجویز نہ کی جائے جو اُردو کی علمی میراث، اس کی تاریخ، مزاج اور سماجی ضرورتوں کے نقطہ نظر سے نا قابلِ عمل ہو۔
4۔ عربی فارسی سے ماخوذ اُردو ہماری لسانی میراث کا جزو بن چکے ہیں۔ انھیں کی بدولت ہزاروں الفاظ کی بیش بہا دولت ہمیں ودیعت ہوئی جو زبان کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سرمائے کا تحفّظ ہمارا فرض ہے۔
5۔ عربی کے جو مرکبات، عبارتیں یا مکمل اجزا، اُردو میں مستعمل ہیں، انھیں اصل کی طرح لکھنا چاہیے۔
6۔ املا کے اصولوں کا تعیّن کرتے ہوئے وسیع تر عام زبان پر نظر رکھی گئی ہے۔ محض شعری زبان پر نہیں (شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت لفظوں کو کبھی اشباع اور کبھی تخفیف کے ساتھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، عام زبان میں لفظ کی متعیّنہ شکل ہی استعمال ہوتی ہے۔
7۔ جہاں مروّجہ قاعدوں سے کوئی مدد نہیں ملی یا املائی انتشار حد سے بڑھا ہوا ہے، وہاں معیاری تلفّظ کی پیروی پر اصرار کیا گیا معیاری تلفّظ کو بنیاد بنانے سے ایسے بہت سے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔
8۔ سفارشات کو پیش کرنے میں قدیم علمِ ہجا سے بھی مدد لی گئی، اور جدید صوتیات و سماجی لسانیات سے بھی۔ اُردو ایسی پیچیدہ اور متنوع زبان ہے۔ کہ کسی ایک نقطہ نظر کو اپنا کر اس کے املا سے پورا پورا انصاف کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وسیع تر طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جہاں سے بھی جو روشنی مل سکتی تھی، لی گئی۔
زیرِ نظر صفحات میں قدیم روایت کا تسلسل بھی ملے گا اور جدید فکر کی سائِنٹِفک توجیہ بھی۔ صوتیات کے کئی تصورات ایسے کہ انھیں قدیم اصطلاحوں میں پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ دقّت بعض امور سے بحث کرتے ہوئے بار بات محسوس ہوئی، جس کی وجہ سے ایک طرح کا مفاہمتی رویّہ اختیار کرنا پڑا۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ زیرِ نظر سفارشات صرف ماہرین اور محقّقین کے لیے نہیں، بلکہ اُردو کے عام لکھنے پڑھنے والوں کے لیے بھی ہیں۔ جن میں طالب علم، ادیب، شاعر، صحافی، خوش نویس، ٹائپسٹ، نقل نویس، پروف پڑھنے والے، سبھی شامل ہیں۔ ان مباحث کے لیے زبان جتنی زیادہ سے زیادہ آسان اور عام فہم اختیار کی جا سکتی تھی، کی گئی ہے۔ مثالیں ہر جگہ دی گئی ہیں۔
دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ہو جس کا املا پوری طرح صوتی ہو۔ حروف کی صوتی اقدار سے عدم مطابقت کئی زبانوں میں ملتی ہے۔ اُردو میں حروفِ صحیح آوازوں سے زیادہ ہیں، اور حروفِ علّت آوازوں سے کم۔ اس سے کچھ پیچیدگیاں تو پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان سے مفر بھی نہیں۔ اس کمیٹی کا کام اُردو املا میں تبدیلیاں کرنا نہیں تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ املا میں جو بے اعتدالیاں اور بے قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں، ان کو دور کیا جائے اور صحت اور اصول کی راہ دکھائی جائے۔ راقم الحروف اُن سب حضرات کا ممنون ہے جنھوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔
نئی دہلی
مارچ 1974ء
گوپی چند نارنگ
سفارشات
الف
(1) اعلیٰ، ادنیٰ، عیسیٰ، موسیٰ
عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، دعویٰ، فتویٰ۔ اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً تماشا، تمنا، تقاضا، مدعا، مولا، لیکن کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ انھیں پورے الف سے لکھنا چاہیے یا چھوٹے الف سے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے املا کے اس انتشار کو دور کرنے کے لیے تجویز کیا تھا کہ اردو میں ایسے تمام الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے، لیکن یہ چلن میں نہیں آ سکا۔ چنانچہ سرِ دست یہ اصول ہونا چاہیے کہ اس قبیل کے جو الفاظ اردو میں پورے الف سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا یہ املا رائج ہو چکا ہے، ایسے الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے۔ باقی تمام الفاظ کے قدیم املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اور یہ بدستور چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں۔
پورے الف سے لکھے جانے والے الفاظ:
مولا مُصفّا تَوَلّا مُدّعا تقاضا مُتفا تماشا
مُدّعا علیہ تمنّا ہیولا نصارا مقتدا مقتضا ماوا
باقی تمام الفاظ چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں:
ادنیٰ اعلیٰ عیسیٰ موسیٰ یحییٰ مجتبیٰ مصطفیٰ مرتضیٰ
دعویٰ فتویٰ لیلیٰ تعالیٰ معلیٰ صغریٰ کبریٰ کسریٰ
اولیٰ منادیٰ مثنیٰ مقفیٰ طوبیٰ ہدیٰ معریٰ عقبیٰ
تقویٰ متبنّیٰ حسنیٰ قویٰ مستثنیٰ حتیٰ کہ عہدِ وسطیٰ مجلسِ شوریٰ
یدِ طولیٰ اردوئے معلّیٰ من و سلویٰ عید الضّحیٰ مسجد اقصیٰ سدرۃ المنتہیٰ شمس الہدیٰ
ذیل کے الفاظ کے رائج املا میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں:
اللہ الہ الٰہی
(2) دعوائے پارسائی، لیلائے شب
اضافت کی صورت میں ایسے تمام الفاظ الف سے لکھے جاتے ہیں اور یہی صحیح ہے، جیسے:
لیلائے شب دعوائے پارسائی فتوائے جہاں داری
(3) عربی مرکبات
یہ بات اصول کے طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربی کے مرکّبات، جملے، عبارتیں یا اجزا جب اردو میں منقول ہوں تو ان کو عربی طریقے کے مطابق لکھا جائے، مثلاً
عَلَی الصّباح عَلَی الرَّغم عَلَی العُموم عَلَی الحساب عَلَی الخُصوص حتّی الاِمکان حتّی الوَسع حتّی المقدور
بالخُصوص عَلیٰ ہٰذا لقَیاس
(4) رحمٰن، اسمٰعیل
بعض عربی الفاظ میں چھوٹا الف درمیانی حالت میں لکھا جاتا ہے، جیسے رحمٰن، اسمٰعیل، ان میں سے کئی لفظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اردو میں ایسے سب الفاظ کو الف کے ساتھ لکھا جائے۔
رحمان ابراہیم سلیمان مولانا یاسین اسحاق لقمان اسماعیل
البتہ جب ایسا کوئی لفظ قرآن پاک کی سورتوں کے نام یا اللہ کے اسمائے صفات کے طور پر استعمال ہو گا تو اس کا اصلی املا برقرار رہے گا۔ عربی ترکیب میں بھی اصلی املا برقرار رہنا چاہیے۔
(5) علٰحدہ
علٰحدہ یا علیحدہ کو علاحدہ لکھنا چاہیے، اسی طرح علاحدگی (ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی)
(6) لہٰذا
لفظ لہٰذا کی بھی رائج صورت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی املا کے ساتھ پوری چلن میں آ چکا ہے۔
(7) معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا
عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں الف ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ہ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا ہ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ہ سے صحیح ہیں:
شوربہ چغہ سقہ عاشورہ قورمہ ناشتہ ملغوبہ الغوزہ
ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہییں:
معمّا تماشا تقاضا حلوا مربّا مچلکا بقایا تمغا
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے بھی ان میں سے بیشتر الفاظ کو الف سے لکھنے کی سفارش کی ہے۔
(8) بالکل، بالتّرتیب
ایسے مرکب لفظ اردو میں اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو عربی قاعدے کے مطابق الف لام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ ایسے مرکّبات کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جہاں الف لام حروفِ شمسی (ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن) سے پہلے آیا ہے اور بعد کا حرف مشدّد بولا جاتا ہے تو الف لام آواز نہیں دیتا، جیسے عبد السّتار یا بالتّرتیب میں۔ دوسرے وہ جن میں الف لام حروفِ قمری (باقی تمام حروف) سے پہلے آیا ہے تو لام تلفظ میں شامل رہتا ہے، جیسے بالکل یا ملک الموت میں۔ ہمیں سیّد ہاشمی فرید آبادی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ حروفِ شمسی و قمری کا فرق اردو میں اٹھا دینا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ طریقہ اردو املا کا جز ہو چکا ہے، اِس کو بدلنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کا وہی قدیم املا برقرار رکھنا چاہیے:
فی الحال بالکل انا الحق بالفعل ملک الموت
البتہ یہ ضروری ہے کہ جہاں الف لام آواز نہ دے وہاں لام کے بعد والے حرف پر تشدید لگائی جائے، اور ان الفاظ میں الف لام کو اردو کے خاموش حروف تسلیم کر لیا جائے۔ پڑھنے والوں کو تشدید سے معلوم ہو جائے گا کہ الف لام تلفظ میں نہ آئے گا:
عبدُ السّتّار شجاعُ الدّولہ عبدُ الرّزّاق لغاتُ النّساء بالتّرتیب فخرُ الدّین
الف ممدودہ
الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔
بغیر مد کے:
برفاب تیزاب سیلاب غرقاب سیماب زہراب گلافتاب تلخاب
سردابہ گرمابہ مرغابی خوشامد دستاویز
مع مد کے:
گرد آلود دل آویز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود
خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آمیز درد آمیز جہاں آرا
حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد
تنوین
اردو میں عربی کے ایسے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن پر دو زبر آتے ہیں، جیسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً۔ تنوین اردو املا کا حصّہ بن چکی ہے۔ اس لیے اسے بدلنا مناسب نہیں۔ چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ اس کو فوراً لکھنا ہی صحیح ہے۔ البتہ وہ لفظ تصفیہ طلب ہیں جن کے آخر میں ت آتی ہے۔ ایسے لفظوں کے بارے عربی املا کا اصول یہ ہے کہ اگر ت کسی لفظ کے مادے میں شامل ہے تو تنوین کی صورت میں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوین لگائی جاتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً۔ لیکن اگر ت مادے میں شامل نہیں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کی صورت میں لکھی جاتی ہے اور اس پر دو زبر لگا دیے جاتے ہیں، جیسے عادۃً۔ اس صورت میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور تنوین تائے مُدَوَّرہ پر لگائی جاتی ہے۔ اردو املا میں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، اور تنوین ایسے تمام الفاظ میں الف کا اضافہ کر کے لگائی جاتی ہے۔
اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس اصول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "عربی کی ۃ کو اردو میں ہمیشہ ت لکھنا چاہیے”۔ چنانچہ اردو میں تنوین کے لیے ت والے لفظوں کے بارے میں قاعدہ یہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر میں الف کا اضافہ کر کے تنوین لکھی جائے، مثلاً
نسبتاً مروَّتاً کنایتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکایتاً کلیتاً
قدرتاً حقیقتاً حکایتاً طبیعتاً وقتاً فوقتاً شریعتاً طاقتاً
اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقیدتاً وضاحتاً شرارتاً
ت، ۃ
اوپر ہم تنوین کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اصول کو اپنا چکے ہیں کہ اردو کے حروفِ تہجی میں تائے مُدَوَّرہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن اردو میں گنتی کے چند عربی الفاظ ۃ سے لکھے جاتے ہیں۔ جب تک یہ اسی طرح چلن میں ہیں، ان کو عربی طریقے سے لکھنا مناسب ہے:
صلوٰۃ زکوٰۃ مشکوٰۃ
البتہ اس قبیل کے دیگر عربی الفاظ کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی رائے صحیح ہے کہ یہ اردو میں ت سے لکھے جاتے ہیں، اور اسی طرح چلن میں آ چکے ہیں۔ چنانچہ ان کو ت سے ہی لکھنا چاہیے:
حیات نجات بابت منات مسمات توریت
ت، ط
اردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ت اور ط دونوں سے لکھے جاتے ہیں، ان کے املا میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذیل کے الفاظ ت سے صحیح ہیں:
تپش تہران تپاں تیار تیاری توتا ناتا (رشتہ)
ذیل کے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح ہے:
غلطاں طشت طشتری طمانچہ طہماسپ طوطی
ذ، ز، ژ
(1) گذشتہ، گزارش
فارسی مصادر گذشتن، گذاشتن اور پذیرفتن کے جملہ مشتقات بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی ذال سے لکھنے صحیح ہیں۔ جیسے:
گذشتہ گذشتگان گذر گاہ در گذر رہ گذر راہ گذار پذیرفتہ پذیرائی
سر گذشت وا گذاشت اثر پذیر دل پذیر
گزاردن (بہ معنی ادا کرنا، پیش کرنا) کے مشتّقات کو زے سے لکھنا صحیح ہے، جیسے:
گزارش باج گزار خدمت گزار شکر گزار نماز گزار عرضی گزار مال گزاری
گزرنا اور گزارنا اگرچہ گذشتن سے ہیں لیکن تہنید اور تارید کے عمل سے گزر کر اردو کے مصدر بن چکے ہیں، اس لیے ان کی تمام تصریفی شکلیں ز سے لکھی جانی چاہییں، اسی طرح گزارا اور گزرانا بھی ز سے لکھنے مناسب ہیں۔
اس سلسلے کے بعض مُتنازعہ فیہ الفاظ جن سے ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے اور دوسروں نے بحث کی ہے، یہ ہیں:
آزر: حضرت ابراہیم کے والد یا چچا کا نام ز سے ہے، جیسے آزرِ بت تراش
آذر: آگ کے معنی میں یہ لفظ ذال سے ہے، جیسے آذر کدہ بہ معنی آتش کدہ اور آذر فشاں بہ معنی آتش فشاں۔ نیز ذال سے ہی ایک رومی مہینے کا نام بھی ہے۔
ذرّہ: (کسی چیز کا بہت چھوٹا ٹکڑا)
ذرا: (تھوڑا، قلیل) اگرچہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے ز سے لکھنے پر زور دیا ہے لیکن کمیٹی اس کی تائید نہیں کرتی۔
ذات: (نفس، شخص، قوم، نژاد، ہندی جات)
زخّار: (بحرِ زخّار)
آزوقہ: (غذائے قلیل)
ازدحام: (اژدہام، اژدحام، ازدہام غلط ہیں۔)
(2) ژ
ذیل کے لفظوں کا صحیح املا ژ سے ہے:
مژدہ مژہ ارژنگ واژوں مژگاں پژ مردہ پژمردگی
اژدر ژالہ ژاژ نژاد ژولیدہ اژدہا ٹیلی ویژن
ث، س، ص
(1) قصائی: اس کا رائج املا ص سے ہے، اور یہی صحیح ہے۔
(2) مسالا: دہلی میں مصالح تھا۔ لکھنؤ میں مسالا ہو گیا۔ اسی صورت کو اختیار کرنا چاہیے۔
(3) مسل: رودادِ مقدمہ کے معنی میں اس کا املا س سے رائج ہے، اسی کو اپنانا چاہیے۔
نون اور نون غُنّہ
(1) گنبد، انبار، کھمبا، چمپا
کسی لفظ میں نون کے بعد ب ہو تو نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو نون ہی آتا ہے، لیکن پڑھا م جاتا ہے، جیسے
گنبد انبار جنبش دنبہ شنبہ تنبورہ سنبل عنبر
اس ضمن میں دقت دیسی الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جن میں کچھ تو نون سے لکھے جاتے ہیں اور کچھ کو م سے لکھنے کا رواج ہے۔ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے دیسی الفاظ (علاوہ ناموں کے۔ انبار، کنبوہ) میم سے مرجح ہیں:
تمباکو تمبولی کھمبا اچمبھا چمپا امبر (بمعنی آسمان)
(لیکن جہاں نون ساکن غیر وصلی ہو، وہ نون کی آواز دے گا، اور نون ہی لکھا جائے گا، مثلاً کنبہ)
(2) گِننا، سُننا
اردو میں کئی مصدر ہیں جن میں دو نون ہیں، جیسے بُننا، گِننا، سُننا۔ ان میں ایک نون تو مادہ فعل کا ہے، دوسرا علامتِ مصدر کا (بُن + نا، سُن + نا)۔ اکثر غلطی سے ایسے مصدروں کو مشدّد نون سے لکھا جاتا ہے (بُنّا، گِنّا، سُنّا)۔ اصول یہ ہے کہ ایسے تمام مصدروں میں دو نون لکھنے چاہییں۔ اس سے ذیل کے جوڑوں میں املا کا امتیاز بھی ملحوظ رہے گا:
بَننے (فعل) بنّے (لقب)
چُننی (فعل) چُنّی (دوپٹہ)
سُننی (فعل) سُنّی (فرقہ)
(3) نون غُنّہ
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ "نون غنّہ ہمیشہ منفصل لکھا جائے” (بان س، پھان س، ہن سے گا)۔ عام قاعدہ ہے کہ لفظ کے آخر میں نون غُنّہ بغیر نقطے کے لکھا جاتا ہے۔ البتہ (ابتدائی کتابوں میں یا جب ضرورت ہو) لفظ کے بیچ میں نون غنہ کو اُلٹے قوس کی علامت سے ظاہر کرنا چاہیے:
بیچ میں:
ہونٹ پھاند اینٹ چونچ چاند
آخر میں:
ماں جاؤں بولیں نظروں کتابیں
(4) سنِچائی، بٹائی
لفظ کے مادّے یا مصدر میں جہاں نون غنّہ ہے، ماخوذ شکلوں میں کہِیں تو نون غنّہ لکھا جاتا ہے، اور کہِیں نہیں، زیادہ تر یہ صورت متعدی (causative) شکلوں میں پیدا ہوتی ہے، جیسے باندھنا، بندھوانا اور ڈھونڈوانا یا پھینکنا سے پھنکوانا اور پھنسنا سے پھنسوانا، اس بارے میں صوتی حقیقت یہ ہے کہ اگر نون غنّہ کے بعد مسموع (voiced) آواز ہے تو نون غنّہ پورا ادا ہو گا جیسے بندھوانا، ڈھونڈوانا، اور اگر نون غنہ کے بعد غیر مسموع (unvoiced) آواز ہے تو غُنّیت کمزور پڑ جائے گی جیسے پھنکوانا، پھنسوانا میں، تا ہم چونکہ ان لفظوں میں غنّیت ہے، خواہ ضعیف کیوں نہ ہو، ایسے تمام لفظوں میں نون غنّہ لکھنا چاہیے:
سینچنا سے: سنچوانا، سِنچائی
ہنسنا سے: ہنسوانا، ہنسائی
کھینچنا سے: کھنچوانا، کھِنچائی
البتہ ذیل کے ماخوذ لفظوں میں غیر مسموع آواز سے پہلے کی ضعیف غنّیت بھی اردو کے ارتقائی سفر میں زائل ہو چکی ہے، نتیجتاً یہ لفظ نون غنّہ کے بغیر رائج ہو گئے اور یہی صحیح ہے:
بانٹنا سے: بٹنا، بٹوانا، بٹانا، بٹوائی، بٹوارا
پونچھنا سے: پچھوانا، پچھنا
جانچنا سے: جچنا
چھانٹنا سے: چھٹوانا، چھٹنا، چھٹنی، چھٹائی
(5) گانو، پانو، گاؤں، پاؤں
اردو میں یہ الفاظ کئی طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے گانو، گاؤں، گانوں، گانئوں، اس انتشار کو دور کرنے کے لیے ان کا ایک املا اختیار کرنا ضروری ہے، دیکھا جائے تو اردو میں گاؤں (اسم) اور گاؤں (مضارع گانا سے) دونوں نون غنّہ سے بولے جاتے ہیں، گانو، پانو، ان لفظوں کا قدیم املا ہے جس کو اردو ترک کر چکی ہے، اس پر اصرار کرنا ایک طرح سے رجعتِ قہقری ہے، چنانچہ جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رائے کو ماننے میں ہمیں تامّل ہے، ایسے تمام لفظوں کو آخری نون غنّہ سے ہی لکھنا مناسب ہے:
گاؤں پاؤں چھاؤں
(6) مہندی، مہنگی
ان الفاظ کے رائج املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ان کا املا وہی صحیح ہے جو رواج عام میں ہے:
مہندی مہنگی مہنگائی لہنگا بہنگی
(7) چانول، گھاس
ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ متروک ہیں، ان کو نون غنّہ کے بغیر لکھنا چاہیے:
چانول گھانس پھونس سونچنا کونچہ
چاول گھاس پھوس سوچنا کوچہ
ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ صحیح ہیں:
کینچلی جھونپڑا کنواں
واؤ
(1) اوس، اودھر
قدیم اردو میں اعراب بالحروف کا عام رواج تھا، خاص طور سے پیش کو ظااہر کرنے کے لیے واؤ لکھتے تھے، مثلاً:
اوس اودھر اوٹھانا مونہہ
ایسے تمام الفاظ کو اب بغیر واؤ لکھنا چاہیے، دوکان نہیں، بلکہ دُکان یعنی بغیر واؤ مرجح صورت ہے۔
(2) لوہار، لُہار
اردو میں کچھ لفظ ایسے ہیں جن کی اصل میں تو واؤ موجود ہے، جیسے لوہا، مونچھ، سونا، لیکن ان سے نکلنے والے لفظوں کا تلفظ چونکہ ہمیشہ پیش سے ہوتا ہے، اس لیے انہیں بغیر واؤ کے لکھنا چاہیے، جیسے :
لُہار سُنار
بعض دوسرے الفاظ جن میں واؤ لکھنے کی ضرورت نہیں، نیچے درج ہیں:
پُہنچنا پُہنچانا پُہنچ بُڑھاپا اُدھار دُلارا دُلاری دُلار
دُلہن / دولہن، دُہرا / دوہرا، مُٹاپا / موٹاپا، نُکیلا / نوکیلا دونوں طرح رائج ہیں، البتہ دوہا کے معنی میں صرف دوہرا رائج ہے، اور دوگانہ بمعنی نماز اور دُگانہ (دُگانا) بمعنی سہیلی ہے۔
(3) ہندوستان، ہندُستان
دونوں صحیح ہیں، البتہ لفظ ہندُستانی بغیر واؤ مرجح ہے۔
(4) جز، جزو
جز، جزو بمعنی ٹکڑا، دونوں صحیح ہیں، اور اردو میں مستعمل ہیں، جیسے:
جُز رس جُز دان جُزوِ بدن
جز بمعنی "سوا” الگ لفظ بھی ہے، انھیں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے:
ع۔ قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
ع۔ جُز قیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار
(5) روپیے، روپیہ
ان لفظوں کو کئی طرح لکھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ رائج املا روپیہ، روپے ہے، اور اسی کی سفارش کی جاتی ہے۔
(6) دُگنا، دو گنا
یہ دو الگ الگ لفظ ہیں، ان کو اسی طرح لکھنا چاہیے۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ مرکب الفاظ جن کا پہلا جز ‘دو’ ہے، مع واؤ لکھے جاتے ہیں، جیسے:
دوگنا دوآبہ دوآتشہ دوراہا دوچار دوپہر دورنگا دوسخنا
البتّہ کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن میں واؤ نہیں بولا جاتا، ان کا املا بغیر واؤ کے رائج ہے اور انہیں پیش ہی سے لکھنا صحیح ہے، مثلاً:
دُگنا دُلائی
(7) واؤ معدولہ
اردو میں واؤ معدولہ دو طرح سے آتا ہے، اوّل ایسے الفاظ میں جہاں واؤ کے بعد الف ہے، ان لفظوں میں یہ دُہرا مصوّتہ (diphthong) ہے، اور واؤ کا تلفظ پیش کا سا ہوتا ہے، جو بعد میں آنے والے الف کے ساتھ ملا کر بولا جاتا ہے، جیسے:
خواب خواجہ خواہش خوار خواہ
خدا نخواستہ استخواں افسانہ خواں درخواست
الف والے الفاظ میں واؤ معدولہ کا صوتی ماحول طے ہے، اور تلفّظ میں کسی مغالطے کا امکان نہیں، البتّہ خود، خوش جیسے الفاظ میں (جو تعداد میں بہت کم ہیں) ابتدائی کتابوں کے لیے چھوٹی لکیر کی علامت کو اپنایا جا سکتا ہے، جیسے:
خود خوش خودی خورشید خورد
ہائے خفی
(1) بھروسہ، بھروسا
ہائے خفی کئی مستعار الفاظ کے آخر میں آتی ہے (غنچہ، کشتہ، درجہ، پردہ، زردہ، دیوانہ، شگفتہ، جلسہ)، دیسی لفظوں کے آخر میں الف ہوتا ہے (بھروسا، گملا، اکھاڑا، اڈّا، دھبّا، انڈا)۔ ہائے خفی حرف نہیں، ایک طرح کی علامت ہے جس کا کام لفظ کے آخر میں حرفِ ما قبل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ "اردو میں مختفی ہ کا وجود نہیں اور یہ دیسی الفاظ کے آخر میں نہیں آ سکتی”۔ واقعہ یہ ہے کہ چند دیسی الفاظ میں آخری مُصوّتے (حرفِ صحیح) کی حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے اردو املا میں سوائے خفی ہ کے کسی اور علامت سے مدد لی ہی نہیں جا سکتی۔ جیسے روپیہ، پیسہ، نہ، پہ، البتّہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کا یہ قول صحیح ہے کہ اردو والوں نے مختفی ہ کی اصلیت کو بھُلا دیا اور ٹھیٹھ اردو لفظوں میں مختفی ہ لکھنے لگے۔ چنانچہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام دیسی لفظوں کو جو دوسرے الفاظ کی نقل میں خواہ مخواہ خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے:
بھروسا اڈّا سندیسا ٹھیکا بھُوسا آرا راجا آنولا
دھوکا ڈاکیا بتاشا بٹوا بیڑا باجا بلبلا بنجارا
پانسا پٹاخا پٹارا پٹرا پھاوڑا پھیپھڑا نگوڑا توبڑا
جالا ٹھپّا ٹڈّا پھندا ہنڈولا کٹورا چبوترا چٹخارا
دھندا رجواڑا چٹکلا موگرا دسہرا ڈبیا خراٹا سانچا
سہرا کھاجا کیوڑا گھونسلا
تکیہ عربی اور دربیہ فارسی لفظ ہے اور یہ ہائے مختفی سے صحیح ہیں۔ آریہ اور چاولہ دیسی الفاظ ہیں، لیکن ان کا املا ہائے خفی سے اس حد تک رائج ہو چکا ہے کہ انھیں مستثنیٰ سمجھنا چاہیے۔
(2) تصریفی الفاظ
وہ تمام تصریفی شکلیں جن میں عربی، فارسی کا کوئی جز ہو لیکن اس کی تہنید ہو چکی ہو، الف سے لکھنی چاہییں:
چوراہا بال خورا چھماہا بے فکرا نو دولتا کبابیا بسترا دسپنا
سترنگا نصیبا دو رُخا خون خرابا تھکا ماندا شیخی خورا خوجا
البتہ ذیل کے الفاظ ہ سے مرجح ہیں:
نقشہ خاکہ بدلہ مالیدہ امام باڑہ ہرجہ خرچہ غنڈہ غبّارہ
آب خورہ یک منزلہ تولہ ماشہ زردہ سموسہ زنانہ
(3) یورپی الفاظ
یورپی زبانوں سے آیا ہوا جو لفظ جس طرح مستعمل ہو، اس کے رائج املا کو صحیح ماننا چاہیے، البتّہ جو لفظ رواج میں نہیں، انھیں الف سے لکھنا مناسب ہو گا:
کمرہ ڈراما فرما سوڈا
(4) پٹنہ، آگرہ
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس قول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "شہروں (ملکوں، جگہوں) کے ناموں کو اس طرح لکھا جانا چاہیے جس طرح وہ رائج ہیں”:
آگرہ کلکتہ پٹنہ باندہ ٹانڈہ امروہہ انبالہ
ہمالہ، ہمالیہ، افریقہ، امریکہ اور مرہٹہ کو بھی ناموں کی فہرست میں شامل سمجھنا چاہیے۔
(5) دانا، دانہ
ذیل کے جوڑوں میں سب حروف مشترک ہیں، سوائے آخری حرف کے، یعنی پہلے لفظ میں آخری حرف الف ہے اور دوسرے میں ہائے خفی۔ یہ الگ الگ لفظ ہیں اور ان کے الگ الگ معنی ہیں۔ چنانچہ ان کے املا کا تعیّن ان کے معنی سے ہو گا:
دانا (جاننے والا، عقل مند) : دانہ (بیج، مال، دانۂ گندم)
چارا (مویشیوں کی خوراک) : چارہ (علاج، مدد)
خاصا (اضافے کے معنی میں، جیسے: اچھا خاصا) : خاصّہ (طبیعت، عادت) / خاصہ (عام کی ضد، امیروں کا کھانا)
پارا (سیماب) : پارہ (ٹکڑا، حصّہ)
لالا (لقب) : لالہ (گُلِ لالہ)
نالا (بڑی نالی) : نالہ (نالہ و فریاد)
پتّا (درخت کا پتّا) : پتہ (نشان، مقام)
نا (کلمۂ نفی) : نہ (مخّفف کلمۂ نفی)
آنا (مصدر) : آنہ (پُرانے روپے کا سولھواں حصّہ)
(6) پردے، جلوے (مُحرّف شکلیں)
جب ہائے خفی والے الفاظ (پردہ، عرصہ، جلوہ، قصّہ) محرّف ہوتے ہیں تو تلفّظ میں آخری آواز ‘ے’ ادا ہوتی ہے۔ املا میں بھی تلفّظ کی پیروی ضروری ہے۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کی مُحرّف شکلوں میں ‘ے’ لکھنی چاہیے:
بندے (کا) پردے (پر) عرصے (سے) لوے (کی) مے خانے (تک)
افسانے (میں) غصّے (میں) مدرسے (سے) مرثیے (کے)
(7) موقعہ، معہ
مندرجہ ذیل لفظوں میں ہائے خفی کا اضافہ اب غلط ہے، ان کا صحیح املا یوں ہے:
موقع مع مصرع بابت آیت
(8) سنہ، سِن
سنہ بمعنی ‘سال’ کو اکثر بغیر ہ کے سن لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔ سنہ بمعنی سال ہائے خفی سے ہے، جیسے سنہ 1857 یا سنہ ہجری یا سنہ عیسوی
سِن کے معنی ‘عمر’ کے ہیں۔ یہ لفظ بغیر ہ کے ہے۔
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دِن
(9) جگہ، توجّہ، بہ، تہ
ایسے الفاظ میں اگر ہائے ملفوظ یعنی جو ہائے آواز دیتی ہو، اور ہائے خفی یعنی جو ہائے آواز نہ دیتی ہو، اُن کا فرق ظاہر کرنا مقصود ہو تو اس کے نیچے شوشہ لگایا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر اس کی ضرورت نہیں، جیسے:
‘بہنا’ مصدر سے ‘بہہ’
‘سہنا’ مصدر سے ‘سہہ’
‘کہنا’ مصدر سے ‘کہہ’
(10) کہ، یہ
کہ (کافِ بیانیہ) اور یہ میں ہ کی آواز عموماً ادا نہیں ہوتی یا بہت کمزور ادا ہوتی ہے۔ یہ کہ یہہ لکھنے پر اصرار کرنا خواہ مخواہ کا تکلّف ہے کہ اور یہ کو ہ کی لٹکن کے بغیر لکھنا ہی مناسب ہے۔
ہائے مخلوط
(1) کچھ، کچہہ ؛ مجھ ،مجہہ
ایک زمانے میں اردو میں ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ کے لیے کسی صورت کا تعیّن نہیں تھا۔ عربی اور فارسی میں تو ہکار آوازیں ہیں ہی نہیں؛ اس لیے کسی خلطِ مبحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اردو کا معاملہ دوسرا ہے۔ ہند آریائی زبان ہونے کے ناتے بخلاف عربی اور فارسی کے اردو میں ہکار آوازوں کا پورا سیٹ موجود ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگرچہ الگ سے حروف نہیں، لیکن یہ مواقعہ ہے کہ پھ، بھ، تھ، ٹھ، ڈھ، ڑھ، جھ، چھ، کھ اور گھ اردو کی بنیادی آوازیں ہیں۔ نیز رھ، لھ، مھ، نھ، وھ اور یھ میں بھی ہکاریت کا شائبہ ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگر ہائے مخلوط کو مخصوص نہ کر دیا جائے تو ایک طرح کی بے راہ روی پھیلتی ہے مثلاً ہے اور ھے، چاہیے اور چاھیے دونوں املا رائج ہیں۔ یہاں تک کہ گھر اور گہر، مجھ کو اور مجہکو، ساتھ اور ساتہہ، کچھ اور کچہہ، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھین اور بہن، دھلی اور دہلی، بھاری اور بہاری میں بھی ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اگرچہ دھ، ڈھ، ڑھ، لکھنے میں دو حروف ہیں لیکن ایک ہی آواز ادا کرتے ہیں، اس لیے ان کو ملا کر لکھنا چاہیے: دھ، ڈھ، ڑھ (لفظوں کی شکلیں یہ ہوں گی: دھ ن، دھ ر تی، پڑھ نا) ان حروف کا ایک آواز کو ادا کرنا تسلیم، لیکن اردو میں متعدّد مصوّتے ایسے ہیں جنھیں (لفظ کے شروع میں) ایک سے زائد حروف سے لکھنا پڑتا ہے: ایک، اور، ایکھ، اون، اوج، وغیرہ۔ چنانچہ ہماری رائے ہے کہ د، ڈ، ڑ کے ساتھ ہائے مخلوط کو ملا کر لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ چلن میں بھی نہیں آئی۔ البتہ یہ اصول واضح طور پر اپنا لینا چاہیے کہ ہائے مخلوط کو ہکار آوازوں کے ساتھ مخصوص کر دیا جائے، اور ان تمام لفظوں میں جہاں یہ آوازیں آئیں، تلفظ کی پیروی میں ان کو ہائے مخلوط یعنی ہائے دو چشمی سے لکھنا چاہیے:
پھول، بھول، بھاری، جھاڑ، پھاڑ، پتھر، بھر، پھر، دکھ، سکھ، دودھ، گھوڑا، چھتری،
گھونٹ، جھوم، بھانڈ، پھونک، تھوڑا، پڑھ، بڑھ، مجھ، تجھ، کچھ، پھلجڑی
(2) گیارھواں، تمھارا
اردو میں رھ، لھ، مھ، نھ، وھ، یھ میں بھی ہائے مخلوط کا اثر ملتا ہے اس لیے ذیل کے الفاظ کو ہائے مخلوط ہی سے لکھنا چاہیے:
گیارھواں، بارھواں، کولھو، کلھڑ، تمھارا، کمھار، ننھا، ننھیال
کب، جب، سب، نیز ان، جن، تم وغیرہ کے ساتھ جب ‘ہی’ ملا کر بولا جاتا ہے تو ہائے مخلوط کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایسے تمام لفظوں کو بھی ہائے مخلوط سے لکھنا مناسب ہے:
ابھی، کبھی، جبھی، سبھی، تمہاری، انھیں، تمھیں، جنھیں
(3) بھابھی، بھابی
اردو میں وہ الفاظ جن میں دو ہائے مخلوط آتی ہیں، دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی نہ کسی طرح کی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے بھن بھناہٹ، چھن چھناہٹ، تھر تھراہٹ، جھل جھلاہٹ، یہ صوتی الفاظ ہیں۔ ان میں اجزا کی تکراری نوعیت چونکہ کسی نہ کسی حسّی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے ایسے الفاظ میں دونوں ہائے مخلوط (ہکاریت) جزو اصلی ہی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کو جوں کا توں لکھنا چاہیے:
جھن جھناہٹ، جھن جھنانا، تھر تھراہٹ، تھر تھرانا، کھڑ کھڑاہٹ، کھڑ کھڑانا، بھن بھناہٹ، بھن بھنانا، چھن چھناہٹ، چھن چھنانا، کھٹ کھٹاہٹ، کھٹ کھٹانا
لیکن بعض مفرد الفاظ میں دوسری ہائے مخلوط زائل ہو جاتی ہے، جیسے بھابھی، بھابی۔
ایسے الفاظ کو ایک ھ سے لکھنا مرجح ہے:
بھابی، پھوپی، بھبوکا، ڈھیٹ، بھبکی، بھبک، بھنبوڑنا، گھونگا، گھنگرو
(4) ھے، ہے
بعض لوگ فارسی کی نقل میں، یا محض اپنی پسند کے طور پر لفظ کے وسط یا شروع میں آنے والی ہائے ہوّز کو لٹکن والی ہ کے بجائے دو چشمی ھ سے لکھتے ہیں۔ یہ اصول کے خلاف اور غلط ہے:
غلط: ھے، ھوا، ھندوستان، دھلی، ھمیشہ
صحیح: ہے، ہوا، ہندوستان، دہلی، ہمیشہ
ہمزہ
عربی میں ہمزہ ایک مستقل آواز ہے۔ اردو میں اس کی وہ صوتی حیثیت نہیں تا ہم اردو میں ہمزہ عربی سے ماخوذ لفظوں کے علاوہ بہت سے دیسی لفظوں کے املا میں بھی استعمال ہوتا ہے (جیسے آؤں، جاؤں، کھائے، پائے، لکھنؤ، کیکئی)، چنانچہ اردو املا کا تصور ہمزہ کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ انجمن ترقی اردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط نے ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی تجویز پر سفارش کی تھی۔ ہمزہ جب کسی منفصل حرف کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے آءو، آءی، جاءو، آءیں، آءِیں، بھاءی، سوءیں، سناءیں، ماءِل، گھاءِل، داءِر، تاءید، داءِرے، جاءِزہ، رعناءی۔ لیکن یہ رائج نہیں ہو سکا۔ ہمزہ حرف یا شوشے کے اوپر ہی لکھا جاتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں، چنانچہ اسی طریقے کو قبول کر لینا چاہیے۔ البتی اردو میں ہمزہ کے استعمال میں جو بے قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں، اُن کو ذیل کے اصول اپنا لینے سے دور کیا جا سکتا ہے۔
(1) ہمزہ کا استعمال
اردو میں ہمزہ کے استعمال کے بارے میں یہ آسان سا اصول نظر میں رہنا چاہیے:
جس لفظ میں بھی دو مُصوّتے (حرفِ علّت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی آوازیں (پوری یا جزوی) دیں، وہاں ہمزہ لکھا جائے، جیسے:
کو+ئی، جا+ئے، کھا+ؤ، دکھا+ئیں، نا+ئی، لکھن+ؤ، غا+ئب، فا+ئدہ، جا+ؤں، جا+ئز
اس بات کو بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اردو میں ہمزہ لفظ کے درمیان الف متحرک کا قائم مقام ہے۔ (مثلاً عزرا+ئیل، سا+ئیس، جا+ئز، جا+ؤں، وغیرہ)
(2) ہمزہ اور الف
عربی کے متعدد مصادر، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے:
ابتداء، انتہاء، املاء، انشاء، شعراء، حکماء، ادباء، علماء، فقراء، وزراء
اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں۔ اس لیے انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا چاہیے:
ابتدا، انتہا، املا، انشا، شعرا، حکما، ادبا، علما، فقرا، وزرا
البتہ اگر ایسا لفظ کسی ترکیب کا حصہ ہو تو ہمزہ کے ساتھ جوں کا توں لکھنا چاہیے:
انشاء اللہ، ضیاءُ الرحمٰن، ذکاءُ اللہ، ثناءُ الحق، ثناءُ اللہ، بہاءُ اللہ، ضیاءُ الدین، علاءُ الدین
(3) جُرات، تَاثُّر، مورِّخ، موثّر
عربی میں ان الفاظ پر ہمزہ لکھا جاتا ہے۔ اگر عربی کی تقلید کرتے ہوئے ایسے الفاظ پر ہمزہ لکھا جائے (جیسے جُرأت، تَأثُّر، تأسُّف، مؤرِّخ، تأمُّل) تو اسے اردو میں غلط نہ سمجھا جائے۔ لیکن ہماری سفارش یہ ہے کہ یہ لفظ اردو میں چونکہ بیشتر ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں، انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا بھی صحیح سمجھا جائے:
جرات، تاثّر، تاسّف، مورّخ، تامّل، متاثّر، موثّر، متاہّل، موذّن، مودّب، مونّث
(4) ہمزہ اور واؤ
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے افعال آؤ، جاؤ اور حاصل مصدر بناو (سنگھار) اور (رکھ) رکھاو کے تلفظ میں فرق کیا ہے اور حاصل مصدر بناو، رکھاو وغیرہ کو ہمزہ کے بغیر لکھنے کی سفارش کی ہے، ہماری رائے ہے کہ ہندی میں تو بے شک ایسے لفظ آخری واؤ سے بولے جاتے ہیں، لیکن اردو بول چال میں افعال آؤ، جاؤ، پاؤ، کھاؤ اور حاصل مصدر بناؤ، پاؤ (سیر)، رکھاؤ، بچاؤ ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں، یعنی ان سب میں دوہرے مصوّتے کی آواز آتی ہے۔ اس لیے ان کا فرق غیر ضروری ہے اور یہی چلن بھی ہے۔ چنانچہ ایسے تمام لفظوں میں ہمزہ لکھنا چاہیے:
اسما: الاؤ، اود بلاؤ، پلاؤ، تاؤ، چاؤ، راؤ، گاؤ، باؤ گولا، گھماؤ
حاصل مصدر: بچاؤ، بہاؤ، پتھراؤ، بہاؤ، دباؤ، گھماؤ، پھراؤ، الجھاؤ، چھڑکاؤ، چناؤ، جھکاؤ، سمجھاؤ، بناؤ سنگار، بھاؤ، تاؤ، گھاؤ، جماؤ (جماؤ امر اور جماؤ حاصل مصدر کی آواز میں کوئی فرق نہیں)
امر: (امر کی سب شکلیں ہمزہ کے ساتھ صحیح ہیں) آؤ، جاؤ، لاؤ، کھاؤ، اڑاؤ
(5) پانو، چھانو؛ پاؤں، چھاؤں
ان الفاظ کی بحث کے لیے ملاحظہ ہو "نون اور نون غُنّہ” کی ذیلی سرخی نمبر 5
(6) ہمزہ یا ی
ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دقّت یہ ہے کہ چاہیے میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور جائیے میں کیوں لکھنا چاہیے، یا کئی، گئے اور گئی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے، لیکن کیے، لیے، اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ کسرہ اور اعلان کی ی (نیم مصوّتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے۔ چنانچہ چاہِ+یے، لِ+یے، دِ+یے میں بالتّرتیب ہ، ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مصوّتے تک جانے سے پہلے زبان ی کے مخرج سے گزرتی ہے، جس سے ی کا شائبہ پیدا ہو جانا لازمی ہے۔ اس کے بر عکس کَ+ئی، گَ+ئے، گَ+ئی میں کسرہ نہیں بلکہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شائبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئے ہیں، اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئیں، وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔ اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا:
اگر حرفِ ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آئے گا، ی لکھی جائے گی، جیسے کِیے، دِیے، لِیے، جِیے، سنیے، چاہِیے
فعل کی تعظیمی صورتیں دیجِیے و لیجِیے اسی اصول کے تحت ی سے لکھی جائیں گی:
دیجِیے، لیجِیے، کیجِیے، اُٹھیے، بولِیے، بیٹھِیے، کھولِیے، تولِیے
باقی تمام حالتوں میں ہمزہ لکھا جائے گا۔
وہ تمام فعل جن کے مادّے کے آخر میں الف یا واؤ آتا ہے، اس اصول کے تحت ہمزہ سے لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک حرفِ علّت تو مادّے کا، دوسرا تعظیمی لاحقے اِیے کا، (فرما اِیے، جا اِیے) مل کر اپنی اپنی آواز دیتے ہیں، اس لیے ہمزہ کے استعمال کا جواز پیدا ہو جاتا ہے:
فرمائیے، جائیے، آئیے، کھوئیے، سوئیے
اسی طرح گئے، گئی، نئے میں یائے سے پہلا حرف مفتوح ہے۔ چنانچہ ان لفظوں کو بھی ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔
(7) ہمزہ اور ے
ذیل کے الفاظ میں الف اور یائے دوہرے مصوّتے کے طور پر بولے جاتے ہیں، اس لیے ان میں ہمزہ لکھنا صحیح ہے:
گائے (اسم)، گائے (گانا سے)، پائے (اسم)، پائے (پانا سے)، رائے (بہادر)، رائے (صاحب)، چائے
(اردو بول چال میں گائے (اسم) اور گائے (مضارع گانا سے) کے تلفظ میں کوئی فرق نہیں)
ذیل کے لفظ بھی بالعموم دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں، اس لیے ان کو بھی ہمزہ سے لکھنا مناسب ہے:
جائے، بجائے، سوائے، نائے، سرائے، رائے (عامّہ)، واؤ، یائے
(8) آزمائش، نمائش
فارسی کے وہ حاصل مصدر جن کے آخر میں ش ہوتا ہے، اردو میں دوہرے مصوّتے کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کو ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔ فارسی میں البتہ آزمایش، نمایش لکھنا مناسب ہے، لیکن اردو میں ان کے تلفظ میں ی کی آواز کا شائبہ تک نہیں۔ اردو میں ان کو ی سے لکھنے پر اصرار کرنا محض فارسی کی نقّالی ہے۔ اردو میں ان الفاظ کو ہمزہ سے لکھنا ہی صحیح ہے، اور چلن بھی یہی ہے:
آزمائش، نمائش، آسائش، ستائش
اسی طرح ذیل کے الفاظ کو ی سے لکھا جاتا ہے۔ ان کا صحیح املا ہمزہ ہی سے ہے:
آئندہ، نمائندہ، پائندہ، نمائندگی، سائل، شائع، شائق، قائم، دائم، مائل
(9) ہمزہ اور اضافت
ہمزہ اور اضافت کے تین نہایت آسان اصول درج کیے جاتے ہیں جو لفظوں کی تمام صورتوں کو کافی ہیں:
1۔اگر مضاف کے آخر میں ہائے خفی ہے تو اضافت ہمزہ سے ظاہر کرنی چاہیے:
خانۂ خدا، جذبۂ دل، نغمۂ فردوس، نالۂ شب، نشۂ دولت، جلوۂ مجاز، تشنۂ کربلا، نذرانۂ عقیدت
2۔ اگر مضاف کے آخر میں الف، واؤ یا یائے ہے تو اضافت ئے سے ظاہر کرنی چاہیے:
اردوئے معلیٰ، صدائے دل، نوائے ادب، کوئے یار، بوئے گل، دعائے سحری، دنیائے فانی، گفتگوئے خاص
بعض حضرات ایسی ترکیبوں میں ہمزہ استعمال نہیں کرتے لیکن در حقیقت مضاف اور مضاف الیہ یا موصوف اور صفت کی درمیانی آواز جو مختصر مصوّتہ ہے، وہ ما قبل کے طویل مصوّتے (الف یا واؤ) سے مل کر دوہرا مصوّتہ بن جاتا ہے۔ اصول ہے کہ جہاں دوہرا مصوّتہ ہو گا وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔ چنانچہ ایسی ترکیبوں میں ہمزہ لکھا جائے گا جو چلن ہے، اسے جائز سمجھنا چاہیے۔ البتہ فارسی کا معاملہ الگ ہے۔
(فارسی میں نوای ادب یا بوی گل لکھنا صحیح ہے۔)
ی یا ے پر ختم ہونے والے الفاظ بھی اسی طرح ہمزہ ہی سے مضاف ہوں گے کیونکہ یہ بھی دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں:
شوخئ تحریر، زندگئ جاوید، رنگینئ مضمون، مئے رنگین، رائے عامّہ، سرائے فانی، تنگ نائے غزل، والئ ریاست، گیسوئے شب
3۔ باقی تمام حالتوں میں اضافت کسرہ سے ظاہر کی جائے گی، جیسے:
(الف) مصمتوں یعنی حرف صحیح پر ختم ہونے والے الفاظ:
دلِ درد مند، دامِ موج، گلِ نغمہ، آہِ نیم شبی، ماہِ نو، لذتِ تقریر، نقشِ فریادی، دستِ صبا، دودِ چراغِ محفل، حسنِ توبہ شکن، شمعِ روشن، طبعِ رسا، شعاعِ زریں، نفعِ بے بہا
(ب) نیم مصوّتہ واؤ پر ختم ہونے والے الفاظ:
ذیل کے الفاظ جب مضاف ہوتے ہیں تو آخری واؤ چونکہ نیم مصوّتے کے طور پر ادا ہوتی ہے، اس لیے ایسے الفاظ میں اضافت کو کسرہ سے ظاہر کرنا چاہیے:
پرتوِ خیال، جزوِ بدن، ہجوِ ملیح، عفوِ بندہ نواز
(ج) ہمزہ جزوِ آخر
درج ذیل الفاظ جن میں ہمزہ لفظ کے آخر میں آتا ہے، ان میں اضافت کو ہمزہ کے بعد کسرہ لگا کر ظاہر کرنا مناسب ہے:
سوءِ ظن، مبدءِ اوّل، سوءِ ہضم، سوءِ ادب
لیکن سوئے ظن، سوئے ہضم، سوئے ادب وغیرہ کو غلط نہ سمجھا جائے۔
(10) ہمزہ اور واؤ عطف
عطف کے واؤ پر کسی بھی صورت ہمزہ نہیں لکھا جاتا:
وفا و جفا، ہوا و ہوس، زندگی و موت، مے و جام، سادہ و پرکار، شمع و پروانہ
(11) ہُوا (ہونا کا ماضی)
اس میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ ہیں (و+ا)۔ قدیم املا میں ہمزہ ملتا ہے لیکن اب رائج نہیں، اس لیے اس لفظ کا صحیح املا بغیر ہمزہ مان لینا چاہیے۔
اعداد
1. لفظ دونوں یا دونو نون غنّہ کے ساتھ اور اس کے بغیر دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کا صحیح املا نون غنہ کے ساتھ ہے، یعنی دونوں، تینوں، چاروں وغیرہ
2. لفظ چھ کا املا کئی طرح کیا جاتا ہے، چھ، چھہ، چھے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے چھے کی سفارش کی تھی لیکن چھے رائج نہیں ہو سکا۔ چلن میں اس لفظ کا املا چھ ہے، اور اسی کو صحیح مان لینا چاہیے۔
3. گیارہ سے اٹھارہ تک گنتیوں کے آخر میں ہائے خفی ہے۔ اس لیے ان کے آخر میں ہمیشہ ہ لکھنی چاہیے۔ بعض لوگ ان کا تلفظ نون غنہ سے کرتے ہیں (جیسے گیاراں) یہ لہجہ معیاری نہیں۔ صحیح املا گیارہ، بارہ، تیرہ۔۔۔ ہے۔
4. جب یہ گنتیاں اعدادِ صفی میں تبدیل ہوتی ہیں تو ہائے خفی ہائے مخلوط میں بدل جاتی ہے، یعنی:
گیارھواں، بارھواں، تیرھواں۔۔۔
5. اسی طرح اعدادِ تاکیدی بھی ہائے مخلوط سے لکھنے چاہییں:
گیارھواں، بارھواں، تیرھواں۔۔۔
6. انتیس اور اکتیس ی سے صحیح ہیں۔
7. اکتالیس سے اڑتالیس تک کی گنتیوں میں لام کے بعد کی ی ضرور لکھنی چاہیے:
اکتالیس، بیالیس، پینتالیس۔۔۔
8. ذیل کے اعداد کبھی نون غنہ کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر بولے جاتے ہیں۔ ان کو نون غنّہ کے ساتھ لکھنا صحیح ہے:
تینتیس، چونتیس، پینتیس، سینتیس، پینتالیس، سینتالیس، پینسٹھ
9. اسی طرح 51، 81، 91 کو کبھی بہ اضافہ ی اور کبھی اس کے بغیر لکھتے ہیں۔ انھیں ی سے لکھنا ہی صحیح ہے:
اکیاون، اکیاسی، اکیانوے
10. لفظ سیکڑا نون غنّہ کے ساتھ بھی مروّج ہے۔ لیکن اسے بیشتر نون غنّہ کے بغیر لکھتے ہیں، اور یہی مرجح ہے۔
11. 85، 95، 99 میں بعض لوگ الف سے پہلے ی بولتے ہیں، لیکن ان گنتیوں کا ترجیحی املا پچّاسی، پچّانوے اور ننّانوے ہے۔
12. اعداد وصفی بناتے ہوئے اگر عدد مصمتے پر ختم ہو رہا ہے تو اسے ملفوظی طور پر لکھنے میں کوئی دقّت نہیں، مثلاً چوبیسواں، اڑتیسواں، باسٹھواں، اٹھتّرواں، لیکن جو عدد مصوّتے پر ختم ہوتے ہیں، بالخصوص 97 سے 99 تک کی گنتیاں۔ ان کے اعداد وصفی بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہندسہ لکھ کر ‘واں’ یا ‘ویں’ بڑھا دیا جائے۔ گویا 97 واں یا 97 ویں، 98 واں یا 98 ویں، 99 واں یا 99 ویں۔
13. سو سے آگے (یا سو کے دیگر تمام یونٹوں) کی وصفی گنتیوں کو بھی ہندسہ لکھ کر ‘واں’ یا ‘ویں’ کے اضافے سے لکھنا مناسب ہے۔
14. ہزاروں،لاکھوں، کروڑوں، اربوں تو ملفوظی طور پر ہی لکھنا مناسب ہیں، لیکن بڑے اعداد مثلاً 1،720،615 کو وصفی صورت میں ہندسے کے بعد واں یا ویں کے اضافے سے لکھنا ہی مناسب ہو گا۔ (یعنی "1،720،615 واں”)
لفظوں میں فاصلہ اور لفظوں کو ملا کر لکھنا
(1) ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی تجویزات
لفظوں میں فاصلے اور لفظوں کو ملا کر لکھنے کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی ان تجویزوں کو مان لینا چاہیے:
(الف) لفظوں کے درمیان فاصلہ رکھا جائے اور یہ فاصلہ یکساں ہو۔ نیز یہ فاصلہ اس فاصلے سے زیادہ ہو جو ایک ہی لفظ کے دو ٹکڑوں کے بیچ میں رکھا جائے۔
(ب) ایک لفظ کے اوپر دوسرا لفظ یا ایک حر کے اوپر دوسرا حرف کسی حالت میں نہ لکھا جائے۔
البتہ مرکبات کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی تجویز کہ "مرکب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں، آپس میں ملا کر نہ لکھے جاویں، بل کہ ہمیشہ الگ الگ لکھے جائیں” قابلِ قبول نہیں، کیونکہ دو یا دو لفظوں سے مل کر بننے والے لفظ کئی طرح کے ہیں۔ اس بارے میں مرکبات اور مشتقات میں فرق کرنا ضروری ہے، مرکبات میں استعمال ہونے والے الفاظ صرفیے (free morphemes) ہوتے ہیں، مثلاً خوب صورت، خوش مذاق، گل بدن، دل لگی، ان میں سے ہر لفظ آزادانہ استعمال ہو سکتا ہے، اور الگ سے اپنے معنی رکھتا ہے۔ چنانچہ اصولی طور پر مرکبات میں لفظوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، لیکن مشتقات کا معاملہ دوسرا ہے۔
مشتقات سابقوں یا لاحقوں کے ملانے سے بنتے ہیں۔ بہ، بے، سار، گار، وار، زار، گر، گسار، بان، آن، رساں، ساں، گیں، پن، لا، وغیرہ آزاد صرفیے نہیں، پابند صرفیے (bound morphemes) ہیں۔ یہ تنہا استعمال نہیں ہو سکتے، اور تنہا طور پر اردو میں کوئی معنی نہیں رکھتے، جب الگ سے ان کے کوئی معنی نہیں تو ان کو الگ لکھنے کی سفارش کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اصولی بات یہی ہے کہ تمام مشتقات کو ملا کر لکھنا چاہیے، لیکن دشواری یہ ہے کہ اردو میں مشتقات کی بعض شکلوں کو ملا کر لکھنے کا چلن نہیں۔ مثلاً شاندار، جہاندار، زمیندار، خریدار، دلدار، تھانیدار تو ملا کر لکھے جاتے ہیں، لیکن ایمان دار، مہمان دار، دکان دار، چمک دار، کانٹے دار، لچھے دار میں دار الگ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگرچہ دستگیر، دلگیر، جہانگیر، عالمگیر ملا کر لکھے جاتے ہیں، لیکن آفاق گیر، ملک گیر، دامن گیر، کف گیر میں گیر الگ لکھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں چلن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس بارے میں اصول یوں ہو سکتے ہیں:
(2) مرکبات
مرکبات میں جہاں تک ہو سکے، الفاظ کو الگ الگ لکھنا چاہیے:
خوب صورت، خوش رنگ، نیک بخت، گل بدن، آج کل، دل لگی، گل دستہ، ہم رنگ، جفا شعار، توپ خانہ، بت خانہ، فن کار، گل کاری، قلم کار، دست کار، عدم آباد
لیکن کچھ مرکب الفاظ کو ملا کر لکھنے کا چلن راسخ ہو چکا ہے، مثلاً شبنم، دستخط۔ ان کو اسی طرح لکھنا مناسب ہے۔ "پیچیدہ” ایک لفظ ہے، اس کو آج کل بعض لوگ "پے چیدہ” لکھتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔
(3) مشتقات
مشتقات کو اصولی طور پر جہاں تک ممکن ہو، ملا کر لکھنا چاہیے، البتہ جن لفظوں کو الگ سے لکھنے کا چلن ہے، انھیں الگ ہی لکھا جائے:
کمتر، بیشتر، ستمگر، پیشتر، پاسبان، جانور، تاجور، کرخندار، زمیندار، شاندار، دلدار، خریدار، دستگیر، جہانگیر، عالمگیر، دلگیر، خاکسار، دلکش، باغیچہ، غالیچہ، بچپن، لڑکپن، غمگین، سرمگیں
(4) سابقہ "اَن”
سابقہ "ان” کو اردو میں الگ سے لکھنے کا چلن ہے:
ان پڑھ ان گھڑ ان جان * ان گنت
*(پاکستان میں اس لفظ کا املا "انجان” مروج ہے۔)
(5) سابقہ "بے”
سابقہ "بے” کو زیادہ تر الگ ہی لکھا جاتا ہے:
بے ریا، بے خوف، بے مزا، بے تحاشا، بے حساب، بے بس، بے رخی، بے ثبات، بے خواب، بے جان، بے رحم، بے ایمان، بے گناہ، بے دھڑک، بے گھر، بے آسرا، بے ڈھنگا، بے کیف
البتہ کئی الفاظ کو ملا کر لکھنے کا چلن ہے جو صحیح ہے:
بیکار، بیشک، بیگانہ، بیباک، بیتاب، بیوقوف، بیدخل، بیخود، بیدل، بیدم، بیہوش، بیکل
(6) لاحقے "بہ”، "چہ”، "کہ”
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی سفارش کہ "فارسی لفظ بہ، چہ، کہ وغیرہ جو کبھی ملا کر اور کبھی الگ لکھے جاتے ہیں، اردو عبارت میں الگ لکھے جائیں” قابلِ قبول نہیں۔ اس لیے کہ اول تو یہ تمام پابند صرفیے ہیں، دوسرے ان میں سے بعض لاحقے ایسے الفاظ میں آتے ہیں جو جملوں کو ملانے کے لیے کثرت سے استعمال ہوتے ہیں، اور جن کی ملی ہوئی شکلیں اس حد تک چلن میں آ چکی ہیں کہ ان کو بدلنا آسان نہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ انھیں ملا کر ہی لکھا جائے۔ چنانچہ اس بارے میں اصول یہ ہوا: بہ، چہ، کہ لاحقے ہیں اور مشتقات میں البتہ کئی الفاظ میں بے کو ملا کر لکھنے کا چلن ہے جو صحیح ہے:
بلکہ، کیونکہ، چونکہ، چنانچہ، جبکہ، بخوبی، بہرحال، بدستور، بخدا، بدقّت، بدولت، باندازِ خاص، غرضیکہ، حالانکہ، بشرطیکہ
(7) مجھکو، مجھ کو
بعض اوقات ضمائر کو کلماتِ جار کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے، مثلاً مجھکو، تجھکو، اسنے، اسلیے۔ انھیں غلط تو نہیں کہا جا سکتا البتہ انھیں الگ سے لکھنا مرجح ہے یعنی مجھ کو، تجھ کو، اس نے، اس لیے، مجھ سے، ہم پر، جس کا، وغیرہ۔ اسی طرح کے لیے، کے واسطے، جب تک، کیوں کر، جان کر، وغیرہ کو بھی ملا کر نہیں لکھنا چاہیے۔
(8) گا، گے، گی
گا، گے، گی کو افعال کے ساتھ ملا کر نہیں، بلکہ الگ الگ لکھنا چاہیے:
جائے گا، آئیں گے، پڑھے گا، کھائیں گے، چاہیں گے، لکھے گی
(9) انگریزی اور یورپی الفاظ
انگریزی اور یورپی الفاظ جس طرح اردو میں رائج ہیں، ویسے ہی لکھنے چاہییں، البتہ کوئی نیا لفظ ہو تو اس کے لیے صوتی اجزا کو الگ الگ لکھنا مناسب ہو گا:
یونیورسٹی، گلکرسٹ، کانفرنس، پارلیمنٹ، انسٹی ٹیوٹ، ٹیلیفون، ریڈیو، انسپکٹر، ڈاکٹر، مسٹر، مسز، اسٹیشن، میونسپلٹی، ٹیلیگراف، ٹیلیگرام
سیمینار کو سے می نار لکھنا درست نہیں۔ ہاں مندرجہ ذیل الفاظ کے اجزا کو الگ الگ کر کے لکھنا مناسب ہے:
ہائی وے، ہائی جیکنگ، ٹیلی ویژن، ٹیلی کاسٹ، کاپی رائٹ، انڈی پنڈنٹ
پولیس کو آج کل بعض لوگ ہندی کی نقل میں پولس لکھتے ہیں جو غلط ہے۔
٭٭٭
٭٭٭
ٹائپنگ: اردو محفل کے رکن فاتح الدین محمود بشیر اور مقدس حیات
http://goo.gl/zXRtU0
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
حیرت ہوتی ہے اردو کے علمأ پر کہ انھوں نے خواہ مخواہ اردو املا پر اتنی متھا پیچی کی ہے یہ کام طلبائےمبتدی کے اساتذہ کے لیے چھوڑ دیتے تو بہتر تھا۔اردو ایسی زبان نہیں ہے کہ اس کے کسی لفط کے املا کے لیے کوئی ایسا قاعدہ بنایا جائےجو لوگوں کے لیے آسان ہو۔ سبھی جانتےہیں کہ اردو زبان کئی زبان کے سنگم سے وجود میں آئی ہے۔ ظاہر ہے ہر زبان کی ایک پہچان ہوتی ہے اور املا کا تعلق بھی اس زبان سے ہے جس سے اردو نے مستعار لیا ہے۔ اب انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان الفاظ کو اسی طرح سے لکھیں اور استعمال کریں جس طرح اس زبان میں استعمال ہوتےہیں۔ سبھی کو معلوم ہے کہ اردو کارسم الخط عربی وفارسی رسم الخط ہےیہ الگ بات ہےکہ کچھ حروف جو عربی یا فارسی میں مستعمل نہیں ہیں وہ اردو والوں نے اسی رسم الخط میں ڈھونڈ لیا ہے جیسے پ، چ، ڑ، ڈ ، ں وغیرہ ان حرفوں کے لیے محض نقطے لگا کر ،نقطے ہٹا کر یا پھر نقطے کی جگہ ایک چھوٹا سا ’ط‘ لگا کر استاد کے ذریعے اس کا تلفظ بتا دیا گیا ہے۔باقی اعراب اور دیگر قواعد وہی ہیں جو عربی و فارسی کےہیں۔ جب رسم الخط کے سبھی قواعد عربی و فارسی کے ہیں تو پھراملا میں تبدیلی چہ معنی دارد کیا اسے’ ہندیانا‘ لازمی ہے؟۔ میں اس بات کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ ہندی الفاط کے املا میں ہندی تلفظ کو دھیان میں رکھتےہوئے املا لکھے جائیں تو یہ صحیح ہے اور اردو والوں نے شروع سے ہی اس کا خیال رکھا ہے لیکن اردو و فارسی الفاط کو ہندیانے کی کیا تُک ہے۔ اردو والوں کے لیے یہ لائحہ فکریہ ہے۔
نئی سائٹ بہت جاذبِ نظر ہے، تاہم اس سے کتاب ڈاؤن لوڈ ہوسکتی تو بہت بہتر تھا تاکہ آف لائن بھی استفادہ ہو سکتا۔
معذرت۔ یہ کتاب واقعی نارنگ صاحب کی مرتب کی ہوئی ہے۔ مجھے ہی یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ یہ طبعِ ثانی ہی نارنگ صاحب نے مرتب کی ہے۔ ویسے یہ بات غلط ہے کہ اس میں خاں صاحب کا عمل دخل نہیں تھا۔ اصل میں کمیٹی میں ایک اہم رکن رشید حسن خاں بھی تھے۔ یہاں تو ابھی درست کر دیتا ہوں۔ سیف قاضی سے درخواست ہے کہ ٹائٹل پیج میں بھی تصحیح کر دیں۔
صاحب یہ رشید حسن خان کی نہیں بلکہ گوپی چند نارنگ کی مرتبہ کتاب ہے۔۔اس میں رشید صاحب کا کوئی عمل دخل نہ ہے۔۔
السلام علیکم
بلاشبہ یہ بہت اہم اور عمدہ کام ہے۔
ایک آدھ مقام پر رائے کا کسی قدر منعطف ہونا اور بات ہے، من حیث المجوع اکثر مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سفارشات کو عملاً نافذ کرنے میں سرکار اور اہلِ قلم دونوں مل کر کام کریں۔
اہلِ قلم کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اپنے اپنے حلقۂ احباب میں ان قواعد کا مؤثر تعارف بھی کرائیں، اور اپنی تحریروں میں بھی اس پر عمل پیرا ہوں۔
علمی معاملات و مباحث میں اختلافِ رائے بہت بڑی بات نہیں، تاہم ایسے اختلاف کو دلائل کے ساتھ مناسب پلیٹ فارم پر پیش کرنا ضروری بات ہے۔
بہت آداب