فہرست مضامین
امرت کور
امجد جاوید
اِس کہانی کی کہانی
اس کہانی کی بھی ایک کہانی ہے۔ہوا یوں کہ ۔۔۔! بلال حسن سے میری ملاقات ان دنوں میں ہوئی تھی ، جب میں روزنامہ پاکستان کے زیرِ انتظام ہفت روزہ جریدہ ’’اخبارِ خواتین‘‘ کراچی کے لاہور آفس کا انچارج تھا۔ان دورانئے میں ہی ایک صنعت کار خاندان کی ایک سوشل ورکر خاتون نے لاہور جم خانہ میں خواتین کی انسانی حقوق کی نمائندہ تنظیموں کو مدعو کیا۔’’پریس‘‘ سے تعلق اور اخبار بھی خواتین کا ہونے کے ناطے مجھے بھی وہاں بلوایا گیا۔ وہاں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو کبھی خود اخبار خواتین کی انچارج رہی تھیں۔ ان سے خوب گپ شپ رہی ۔ چند دن بعد انہی نمائندہ تنظیموں نے لاہور ویمن کلب باغ جناح میں میلے کا سماں بنا دیا۔ ان کے کچھ مطالبات تھے جن کے اظہار کے لئے انہوں نے یہ طریقہ اپنایا تھا۔ وہیں پر ان صحافی خاتون سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ہم ایک کھانے پینے کے سٹال پر جا بیٹھے۔اس کے ساتھ ہی ایک ایسے مصور کا سٹال تھا جو فقط لاہور اور اس کے کلچر کی تصویریں بناتا تھا۔ وہیں بلال اور زویا سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس صحافی خاتون کے تعلق داروں میں سے تھے۔
بات لاہوری کھانوں سے نکلی تو ثقافت تک جا پہنچی۔ پاکستان کے قیام ، نظریاتِ پاکستان اور مقصد پاکستان کے بارے میں ایک زور دار گفتگو ہوئی۔ سیاسی تناظر میں ان دِنوں کے حالات بھی زیر بحث آئے۔جس میں خصوصاًسکھ سیاست پر بہت بات ہوئی۔ بلال نے اس پر خوب گفتگو کی تھی۔ اس دن کا خاصا حصہ اس ملاقات میں گذر گیا۔ٹیلی فون نمبرز کے تبادلے کے بعد ہماری باتیں ختم ہوئیں۔ پھر گاہے بگاہے ملاقات رہنے لگی۔ ایک دوسرے کے پاس آنا جانا بھی ہوا۔ کچھ عرصے بعد یہ تعلق فون تک سمٹ گیا۔یہاں تک کہ ایک طویل دورانیہ آ گیا۔
پچھلے دنوں اچانک ہی ایک ہوٹل کی لابی میں بلال حسن سے ملاقات ہو گئی۔ اتنے برس کے بعد کی ملاقات میں خاصی گرم جوشی تھی۔وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے جانا چاہتا تھا، تاہم ڈنر کے بعد ہم جدا ہو گئے۔ دو دن بعد میری اس سے انہی کے گھر میں ملاقات ہوئی۔یہ کہانی اس نے مجھے اس ملاقات میں سنائی۔ کیونکہ وہ موجودہ سیاسی حالات میں بہت الجھا ہوا تھا۔ پہلی بار نور محمد کے کردار سے شناسائی ملی۔ میری حسرت ہی رہی کہ میں نور محمد سے خود ملتا۔ مگر وہ اس وقت اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ۔
اس کہانی کے بیان میں بہت سارے غیر متعلقہ واقعات میں نے چھوڑ دئیے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ بیان کر دئیے جاتے تو پاک بھارت تعلقات کی بہت ساری تصویریں سامنے آ جاتیں۔ چونکہ وہ سیاسی بحث کے متقاضی تھے۔ اس لئے میں نے ان سے گریز کیا۔ پھر اس کے علاوہ طوالت کا خوف بھی دامن گیر تھا۔
اس کہانی میں بہت سارے ایسے اشارے بھی ہیں جن سے انسانی نفسیات ہی کا نہیں بلکہ اس کی روحانی رسائی کا بھی پتہ ملتا ہے۔ جہاں ایک طرف محبتوں میں قربانیوں کی اعلی رسائیاں ہیں تو دوسری طرف نفرت سے لہو کی ارزانی بھی دکھائی دیتی ہے۔ ایک اشارہ ان منافقین کا بھی ہے، جو اس فساد کی جڑ ہیں۔ اصل میں اس زمین پر اگر فساد ہے تو وہ انہی منافقین کی وجہ سے ہے۔انہی کے لئے بابا جی بلّھے شاہ سرکار نے فرمایا ہے ’’ کتّے تیتھوں اُتّے‘‘۔
امجد جاوید
amjadhsp@yahoo.com
امرت کور
’’کاش تم میرے گاؤں کی اس پاگل عورت سے مل سکتے۔ یقین کرو یار، تجھے تیری محبت یوں مل جائے کہ خود تجھے احساس نہ ہو۔یہ جو درمیان میں رکاوٹیں ہیں نا، ان کے دور ہو جانے کا تجھے پتہ ہی نہ چلے اور زویا تیرے ہو جائے‘‘۔ بھان سنگھ نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے بے ساختہ کہا تو میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اگرچہ اس نے کھوئے ہوئے انداز میں بڑے خلوص کے ساتھ یقین بھرے لہجے میں کہا تھا، لیکن میں خود کچھ دیر کے لیے سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ مجھ پر طنز کر رہا ہے، ترس کھاتے ہوئے مجھے حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا ہے یا پھر اس کی بات میں کوئی سچائی بھی ہے سوچند لمحوں بعد میں نے اس کا اصل مدعا جاننے کے لیے بڑے سکون سے پوچھا۔
’’تم اس عورت کو پاگل بھی کہہ رہے ہو اور میرے اتنے بڑے گھمبیر مسئلے کا حل بھی بتا رہے ہو۔ اپنے لفظوں پر غور کرو، کہیں تم نے بے وقوفی والی بات تو نہیں کر دی ہے‘‘۔
’’نہیں یار۔۔۔! میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘۔ اس کے لہجے میں یقین پہلے سے بھی پختہ ہو گیا تھا۔
’’کیسے؟ کیا تم مجھے سمجھا سکتے ہو؟‘‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر کہا جو خود کہیں کھویا ہوا تھا۔ میری بات سن کر اس نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔
’’بس ایک بار وہ تیرے سر پر ہاتھ پھیر دے نا تو تیری محبت تجھے مل جائے گی۔ یہ بات میں پورے یقین ہی سے نہیں دعویٰ سے بھی کہہ سکتا ہوں‘‘۔ اس نے جوش بھرے انداز میں کہا تو چند لمحوں پہلے والی کیفیت مجھ پر پھر سے طاری ہو گئی۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ مذاق کے موڈ میں ہے یا پھر حقیقت میں وہ میرے دوا کی دوا بارے آگاہ کر رہا ہے۔
’’یار تجھے پتہ ہے کہ میری اور زویا کی کہانی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اس کے والدین نے صاف انکار کر دیا ہے اور جن وجوہات کی بنا پر انہوں نے انکار کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہیں۔ انہیں میں بھی سمجھتا ہوں اور تم بھی جانتے ہو۔ زویا جو آج بھی میری محبت میں تڑپ رہی ہے اس نے بھی اپنے دل پر بھاری پتھر رکھ لیا ہے۔ چند دن بعد وہ بھی ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جائے گی۔ ایسے وقت میں تمہارا یہ مذاق، کچھ سجتا نہیں ہے یار۔ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہے‘‘۔ میں نے شکوہ بھرے لہجے میں اس سے کہا تو وہ پھر اسی یقین بھرے انداز میں بولا۔
’’چاہے کچھ ہو جائے یارا، بھی زویا کی شادی تو نہیں ہوئی نا۔ میں پھر تجھے یقین دلاتا ہوں کہ ایک بار امرت کور سے مل لو، تجھے پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تیری راہ کی رکاوٹیں کس طرح دور ہو گئیں ہیں اور تیری محبت زویا تجھے کتنی آسانی سے مل جائے گی‘‘۔
میں اس کی بات پر کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا، لیکن بھان سنگھ کے چہرے پر پھیلی ہوئی امید کی روشنی مجھے بتا رہی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ کیونکہ بھان سنگھ نے کم از کم زویا کے معاملے میں کبھی مجھ سے مذاق نہیں کیا تھا۔ بلکہ سب کچھ ختم ہو جانے باوجود بھی وہ ہمیشہ خوش گمان رہا تھا۔ وہ میرا کلاس فیلو تھا اور اس کا شمار میرے قریب ترین دوستوں میں سے ہوتا تھا۔ وہ امرتسر کے قریب ایک گاؤں جھتیوال سے تعلق رکھتا تھا۔ میں لاہور سے بریڈ فورڈ آیا تھا۔ ہم دونوں کامرس کی تعلیم کے لیے وہاں تھے۔ پنجابی زبان بولنے اور پنجاب سے تعلق ہونے کی بناء پر ہم دونوں کے درمیان دوستی ہوئی تھی۔ جو بہر حال بہت خوشگوار تھی۔ ہمارے مزید مشترکہ دوست بھی تھے، لیکن بھان سنگھ اپنی فطری معصومیت، خلوص اور کشادہ دلی کے باعث میرے پسندیدہ دوستوں میں سے ایک تھا۔ دوسرے دوستوں کی طرح اسے بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ میں اور زویا ایک دوسرے کو کس حد تک چاہتے ہیں۔ مگر شاید قسمت میں ہم دونوں کا سنجوگ نہیں تھا۔ باوجود شدید خواہش کے ہمارے ملن کے درمیان ایسی رکاوٹیں تھیں جنہیں کم از کم میں ختم نہیں کر سکتا تھا۔ بریڈ فورڈ میں ہماری تعلیم ختم ہو گئی تھی اور چند دنوں بعد ہم وہاں سے جانے والے تھے۔ زویا کے لاہور جاتے ہی اس کے والدین نے اس کی شادی کر دینا تھی۔ کیونکہ وہ ساری تیاریاں مکمل کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ شاید وہ اس قدر جلدی میں نہ ہوتے، لیکن ہماری جو کوشش تھی، انہی کے باعث وہ سخت ہو گئے تھے۔زویا نے اپنے والدین کو منانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ مگر بری طرح ناکام رہی۔ ہم ناامید ہو کر اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر ایک دوسرے سے بچھڑ جانے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے۔ درمیان میں کیا رکاوٹیں تھیں، ان کے بارے بھان سنگھ بخوبی واقف تھا۔ وہ میری بے بسی کے دن تھے۔ زویا دو دن پہلے لاہور کے لیے روانہ ہو گئی ہوئی تھی۔ مجھ سے بچھڑتے ہوئے وہ کس قدر روئی تھی، یہ میں ہی جانتا تھا اور بھان سنگھ ان لمحات کا چشم دید گواہ تھا۔ زویا کے چھن جانے پر میں اس قدر دل گرفتہ تھا کہ مجھے اپنا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔ اس دن بھان سنگھ میرے فلیٹ پر آیا اور میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ پھر اصرار کر کے وہ مجھے یونیورسٹی لے آیا میں جانتا تھا کہ ایسا وہ صرف میرا ذہن ہٹانے کے لیے کر رہا ہے۔ ہم دونوں ایک لان میں لکڑی کی بینچ پر آ بیٹھے تھے۔ گپ شپ کے دوران جب ہم زویا کی باتیں کر کے تھک گئے تو اس کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے اس انکشاف نے مجھے اس خاتون امرت کور کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ نہ جانے کیوں میرے اندر تجسس ابھر آیا تھا۔ تب میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’بھان۔۔۔! کیا تم مجھے اس خاتون امرت کور کے بارے میں مزید کچھ بتا سکتے ہو‘‘۔
میرے یوں پوچھنے پر وہ چند لمحے خاموش رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ الجھ رہا ہو وہ کھوسا گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ خود سے کچھ گھڑنے کے لیے سوچ رہا ہے۔ حقیقت ہوتی تو وہ فوراً بتاتا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔
’’کیوں نہیں بلال، میں کیوں نہیں اس کے بارے میں بتا سکتا، پر مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے بارے میں کیا بتاؤں؟‘‘
’’وہی جو تمہیں پتہ ہے؟‘‘ میں نے تیزی سے کہا۔
’’دراصل میری معلومات وہی ہیں جو میں نے اپنے والدین سے سنی ہیں یا پھر اِدھر اُدھر سے گاؤں والوں کی زبانی۔ میں تمہیں وہی بتا سکتا ہوں۔ اصل حقیقت کیا ہے، وہ میرے سمیت کوئی بھی نہیں جانتا‘‘۔ اس نے پھر اسی الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’جو بھی معلومات ہیں وہی بتا دو‘‘۔ میں نے کرید کی۔
’’وہ خاتون امرت کور۔۔۔! اس وقت ستریا اسّی سال کے دورانئے میں ہو گی۔ مگر اس کی صحت اس قدر قابل رشک ہے کہ پچاس سے زیادہ کی نہیں لگتی۔ تقسیم ہند کے وقت اس کی عمر یہی کوئی پندرہ سولہ سال کی رہی ہو گی۔ اس وقت وہ بڑی شوخ و شنگ، خوبصورت اور بڑی جرأت والی لڑکی مانی جاتی تھی۔ انہی دنوں جب تقسیم ہند کے بعد فسادات پھوٹے، اس کے ساتھ کوئی ایسی ٹریجڈی ہو ئی کہ وہ نہ صرف بولنا چھوڑ گئی، بلکہ اس کی حالت پاگلوں جیسی ہو گئی۔ یوں سمجھ لو کہ اس کا دماغی توازن خراب ہوا تو ایک دم سے خاموش ہو گئی۔ وہ اپنے والد بلوندا سنگھ کی ایک بیٹی تھی۔ دو بھائی تھے اس کے۔ بلوندا سنگھ اپنی بیٹی کی حالت پر بہت پریشان تھا۔ بہت علاج کروایا، مگر کچھ بھی نہ ہوا‘‘۔
’’کیسی حالت تھی اس کی ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہی بتاتے ہیں کہ وہ بالکل گم صم ہو گئی۔ کئی کئی دن تک نہ کھاتی تھی اور نہ پیتی تھی۔ ایک کمرے میں بند رہتی۔ خوف زدہ ہو گئی تھی۔ کئی برس بعد جب اس کا باپ نہ رہا۔ بھائیوں کی شادی ہو گئی۔ ان کے بچے ہو گئے۔ ان کے درمیان جائیداد بھی تقسیم ہو گئی۔ تب اس کی حالت کچھ سدھرنے لگی۔ وہ جو ہر وقت غلاظت میں رہتی تھی۔ خود کو صاف ستھرارکھنے لگی۔ مگر وہ کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ کھایا پیا اور اپنے کمرے تک محدود رہتی تھی۔ بہت عرصے تک گاؤں والوں نے اسے دیکھا تک نہیں‘‘۔بھان نے بتایا اور خاموش ہو گیا۔
’’اس کے ساتھ کیا ہوا، یہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’وہ کچھ بولتی تب نا ایسے کسی کو کیا معلوم ہوتا۔ خیر۔۔۔! تقریباً دس پندرہ سال پہلے اس کے معمولات ہی بدل گئے۔وہ صبح سویرے اٹھتی ہے، نہاتی ہے، خود کو سجاتی سنوارتی ہے اور گاؤں کے مغرب کی طرف چلی جاتی ہے۔ وہاں کافی دیر گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ ایک جگہ کھڑی ہو کر نہ جانے کیا بڑبڑاتی ہے مگر اس کی آواز نہیں آتی۔ بہت سوں نے سننے کی کوشش کی لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آسکا۔ دن چڑھے وہ واپس ہوتی ہے اور سیدھی گرو دوارے جاتی ہے۔ وہاں جا کر ما تھا ٹیکتی ہے۔ پھر گروجی کی بانیوں میں سے کچھ پڑھتی ہے۔ وہ وہاں صرف گرو دوارے میں بولتی ہے۔ اگر کسی نے اس کی آواز سننی ہو تو وہیں سن سکتا ہے‘‘۔ بھان نے خاصے جوش میں کہا تو میں نے اضطرابی انداز میں پوچھنا چاہا۔
’’یہ کوئی پاگل پن‘‘۔ اس نے میری بات ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’او یار تم سنو گے بھی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش رہا تو وہ کہتا چلا گیا۔ ’’کسی طرح کا بھی موسم ہو، اس کے معمول میں کبھی فرق نہیں آیا۔ گرو دوارے کے باہر اسے کبھی کسی نے بولتے ہوئے نہیں سنا۔ وہ کسی کے معاملے میں کبھی دخل نہیں دیتی۔ اپنے آپ میں مست رہتی ہے۔ اس کی کوئی معاشرتی زندگی نہیں۔ مگر پورا گاؤں اس کی عزت کرتا ہے اور اسے احترام دیتا ہے۔ میں نہیں جانتا یہ کب سے ہے لیکن اس کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ وہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دے دے اس کے بگڑے ہوئے کام سنور جاتے ہیں‘‘۔ وہ بڑے سکون سے کہہ کر خاموش ہو گیا۔
’’پاگل تو وہ پھر بھی نہ ہوئی، تم اسے سادھو، سنت، بھگت یا درویش قسم کی خاتون کہہ سکتے ہو‘‘۔ میں نے اس کی طویل بات سن کر اپنے طور پر تجزیہ کیا۔
’’چلو۔۔۔! تم یہ کہہ لو، مگر کوئی نارمل بندہ یہ سب نہیں کر سکتا۔ گاؤں میں بھی اس کے بارے میں ایسی ہی ملی جلی رائے ہے کوئی اسے پاگل کہتا ہے اور کوئی تمہاری طرح سنت بھگت قسم کی کوئی چیز۔ میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی نے اسے ایب نارمل کر دیا ہے اور تمہیں معلوم ہے ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو بڑی پہنچی ہوئی مخلوق سمجھ کر اس سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ۔ پھر بس مشہوری ہونے کی دیر ہے‘‘۔ اس نے اپنی ہی رو میں کہا تو میں نے اسے جتایا۔
’’ہاں۔۔۔! یہ آخری بات تم نے ٹھیک کہی۔ میں مانتا ہوں اسے لیکن سردار بھان سنگھ جی، کچھ دیر قبل جو تم نے اتنے یقین سے امرت کور کے بارے میں کہا ہے، تم خود ہی اپنی اس بات کی تردید کر رہے ہو‘‘۔
’’یہ سچ ہے کہ میرا ذہن نہیں مانتا۔ میری اپنی رائے جو ہے وہ میں نے تمہیں بالکل سچ بتا دی ہے، لیکن۔۔۔! بلال تم یقین کرو، اس کے بارے میں یہی مشہور ہے۔ میں نے اپنے طور پر اس کی توجیہ یہ گھڑی ہوئی ہے کہ جو اندر سے صاف دل ہوں۔ ان کے کام ہو جاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ جس جوڑے کی شادی ہو جاتی ہے، وہ پُر خلوص اور پاکیزہ محبت کرنے والے ہوں گے اور جو نہیں پاتے ان کے من میں کہیں نہ کہیں کھوٹ ہوتا ہو گا۔ مطلب، پاکیزہ اور سچی محبت والے ہی اس سے مراد پا سکتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ تیری اور زویا کی محبت پوتر ہے، سچی ہے۔ اس خیال سے میں نے تمہیں امرت کور کے بارے میں بتایا‘‘۔ آخر کار بھان سنگھ نے اپنی بات کی وضاحت کر دی تو میں نے یونہی مزاح میں کہا۔
’’اب دو باتیں ہیں بھان۔۔۔! ایک تو یہ کہ فرض کرو، میں اس کے پاس چلا جاتا ہوں، وہ میرے سر پر ہاتھ پھیر دیتی ہے اور ہم مل نہ پائے تو کیا ہماری محبت جھوٹی ہوئی اور دوسری بات، میں یہ رسک لے لیتا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ تمہارے گاؤں جاتا ہوں ممکن ہے ا س خاتون کی پرارتھنا میرے کام آ جائے۔اس سے کم از کم مجھے یہ حوصلہ تو رہے گا کہ میں نے زویا کو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی‘‘۔
’’تیرے من میں کیا ہے تُو بہتر سمجھتا ہے۔ زویا تیری قسمت میں ہے یا نہیں، میں اس بارے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن یہ جو دوسری بات کی ہے نا تم نے۔۔۔ میرے دل کو لگتی ہے۔ تُو اگر میرے ساتھ چلنے کو تیار ہے تو چل میں تجھے لے چلتا ہوں‘‘۔ وہ ایک دم سے تیار ہو گیا۔
’’اوکے۔۔۔! میری طرف سے پکا سمجھ، اب تیرے گاؤں تک پہنچنے میں جو سرکاری ریاستی اجازت نامے کی ضرورت ہے، وہ کس طرح ہو گا۔ یہ میں نہیں جانتا‘‘۔ میں نے ایک بڑی رکاوٹ بارے اس کی توجہ دلائی تو وہ چند لمحے سوچتا رہا، پھر بولا۔
’’کچھ کر لیتے ہیں یار۔ تم ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ تو مجھے بتا دینا‘‘۔
’’میں ذہنی طور پر تیار ہوں۔ میری طر ف سے تو ابھی یہاں سے اٹھ اور چل گاؤں، میں تیرے ساتھ ہوں‘‘۔
میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
’’چل ٹھیک ہے، میں کرتا ہوں کچھ‘‘۔ بھان سنگھ نے پورے خلوص سے کہا تو میں بھی اندر سے اس کے ساتھ گاؤں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم وہاں کچھ دیر تک بیٹھے رہے۔ وہ مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں بتانے لگا۔ میں خیالوں ہی خیالوں میں امرت کور کو اس گاؤں میں پھرتے ہوئے محسوس کرنے لگا۔ اس وقت میرا حال اس پروانے کے جیسا تھا، جسے امید کی ہلکی سی روشنی دکھائی دے جائے تو وہ اس کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کے لان میں بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ شام کے سائے ڈھل کر رات ہونے کا عندیہ دینے لگے تھے۔ سو ہم دونوں دوسرے دوستوں سے گپ شپ لگانے اور ہوٹلنگ کا ارادہ کر کے اٹھ گئے۔
اس شام میں امرت کور کو اپنے قریب تر محسوس کرنے لگا۔ ایک ہیولاسا میرے دماغ میں بن گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ میرے اردگرد ہی کہیں موجود ہے۔ میں ایک خاص طرح کی کشش اس میں محسوس کرنے لگا تھا۔ جس کے بارے میں بھان سنگھ سے میں نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ رات گئے تک ہم اکٹھے رہے تھے، اس نے بھی دوبارہ امرت کور کا ذکر نہیں کیا۔ میں اس کے گاؤں جا سکوں گا یا نہیں، یہی سوال لیے میں اپنے فلیٹ چلا گیا۔
زویا سے میری پہلی ملاقات بریڈ فورڈ ہی میں ہوئی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے وہاں گئے چند دن ہوئے تھے۔ میرا ابھی وہاں کوئی دوست نہیں بنا تھا۔ بس چند پاکستانی شناسا تھے یا پھر یہ بھان سنگھ تھا اس دن ہم کھانے پینے کے لیے کینٹین پر گئے تھے جو کہنے کو کینٹین ہے لیکن اچھا خاصا ریستوران ہے۔ وہاں انڈین فوڈ کے نام پر کچھ پاکستانی کھانے بھی مل جاتے تھے۔ ہم اس دن چار یا پانچ شناسا وہاں گئے تھے۔ ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی بھی نہیں تھی۔ جیسے ہی ہم وہاں بیٹھے تو میری نگاہ لڑکیوں کے ایک گروپ پر پڑی۔ وہ بھی چند ایک ہی تھیں لیکن ان میں زویا بالکل ہی منفرد دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت میں زویا کا نام تک نہیں جانتا تھا۔ اس کی انفرادیت یہ تھی کہ اس نے اپنے سر پر سیاہ رنگ کااسکارف لیا ہوا تھا اور عبایا طرز کے لبادے میں اپنا بدن ڈھکا ہوا تھا۔ سیاہ اسکارف میں اس کا گورے رنگ کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اس کے پتلے پتلے ہونٹوں پر دھیمی دھیمی مسکراہٹ تھی۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے وہ سامنے والی لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی بات بڑے غور سے سن رہی تھی۔ تیکھا ناک اور بھرے بھرے گال والی زویا، انہی لمحوں میں سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ وہ میرے دل میں کس قدر گھر کر چکی ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب وہ اٹھ کر چلی گئی۔ تب سارا ریستوران ہی سُونا ہو گیا۔ میں چونکا اس وقت جب ایک پاکستانی شناسا کلاس فیلو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
’’میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اسکارف والی لڑکی پاکستان سے ہے، چند دن ایسے ہی رہے گی اور پھر چند مہینوں یہ یہاں کی انگریز لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی‘‘۔
’’تم یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہو؟‘‘ میں نے یوں کہا جیسے مجھے اس کی بات بہت بری لگی ہو۔
’’او یار ایسے ہی ہوتا ہے پہلے پہل یہ بڑی نیک پروین بنتی ہیں اور پھر جو اپنا رنگ دکھاتی ہیں، تب دیکھنے والی ہوتی ہیں‘‘۔ اس نے اپنے طور پر تبصرہ کیا۔ میں اس پر کچھ کہہ نہیں سکتا تھا، ممکن ہے اس کے تجربے میں ایسی کوئی بات ہو، لیکن زویا کے بارے میں اس کا یہ تبصرہ مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ پھر کھانے اور دوسری باتوں کے دوران یہ بات آ گئی ہو گی۔
اگلے دن یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ میری کلاس فیلو ہے۔ اگرچہ اس سے بات کرنے، اس سے ملنے یا تعارف کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن ایک فطری جھجک نے مجھے روکے رکھا۔ اس طرح کئی ہفتے گزر گئے اور ہم دونوں میں ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ صرف لڑکیوں ہی میں زیادہ تر رہنا پسند کرتی ہے۔ کلاس اور کینٹین ہی دوایسی جگہیں ہوا کرتی تھیں جہاں ہمارا آمنا سامنا ہوتا۔ ان دونوں جگہوں پر وہ لڑکیوں ہی میں گھری دکھائی دیتی تھی۔ چند لڑکیوں میں اچھی خاصی تبدیلی آ گئی تھی۔ وہ شلوار قمیص کی جگہ پتلون یا جینز پہننے لگی تھیں۔ مگر زویا نے نہ اسکارف اتارا اور نہ ہی عبایا۔ جس طرح میں نے اسے پہلے دن دیکھا تھا، وہ وہی تھی۔ نہ جانے کیوں میں دل ہی دل میں یہی چاہتا تھا کہ زویا ویسی کی وہی ہی رہے۔ وہ خود کو نہ بدلے ۔ میں نے اسے کبھی تنہا نہیں دیکھا تھا۔ شاید اس کے اندر مشرقی لڑکی بہت مضبوط تھی۔
وہ خزاں کے آخری دن تھے۔ یخ ہوا نے خوشگواریت میں بدلنا شروع کر دیا تھا۔ میں ان دنوں ہاسٹل میں رہتا تھا۔ اس دن میری کلاس کو دیر ہو گئی تھی اور میں تیزی سے اپنے کلاس روم جانے کے لیے جا رہا تھا اچانک دائیں طرف کی راہ سے مجھے زویا آتی ہوئی دکھائی دی۔ پہلی بار میں نے اسے تنہا دیکھا تھا۔دن کے پہلے پہر میں ہاسٹل سے نکلتے ہی اس سے سامنا ہو جانے پر میں انتہائی خوشگواریت محسوس کرنے لگا۔ ہم دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی کلاس روم جانے والے راستے پر آ گئے۔ تبھی اس نے بڑے اعتماد سے مجھے السلام علیکم کہا، تب میں نے اسے پُر شوق انداز میں جواب دیا تو اس نے پوچھا۔
’’آپ لاہور سے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ اور آپ۔۔۔؟‘‘ میں نے پُرتجسس انداز میں پوچھا۔
’’میں بھی وہیں کی ہوں، آپ کے بارے میں چند دن پہلے پتہ چلا ہے‘‘۔اس نے یوں کہا جیسے بڑی اہم معلومات مجھے دے رہی ہو۔ تب تک ہمارا وہ چند قدم کا فاصلہ طے ہو گیا تھا۔ تب میں نے کہا۔
’’کلاس کے بعد اگر آپ فری ہوں تو؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں، میں یہیں آپ کا انتظار کروں گی‘‘۔ اس نے خوشگواریت سے کہا اور ہم کلاس میں داخل ہو گئے۔ اس دن مجھ سے اچھی طرح نہیں پڑھا گیا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ اس سے کیا باتیں کروں گا۔ اس دن کلاس بھی مجھے طویل لگی۔ یوں خود سے الجھتے ، سوچتے اور خود کلامی کرتے کلاس ختم ہو گئی۔ میں نے جان بوجھ کرکلاس روم سے نکلتے ہوئے دیر کی۔ تب میں نے دیکھا، وہ راستے کے کنارے کھڑی ہوئی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچا اور کہا ۔ ’’آئیں کینٹین میں چل کر بیٹھتے ہیں‘‘۔
’’سوری بلال۔۔۔! میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ میں نے آج ہی لندن کے لیے نکلنا ہے۔ تھوڑا سا وقت ہے، چونکہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا، سو یہاں منتظر تھی‘‘۔ اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
’’آپ نے تنہا جانا ہے یا ساتھ میں کوئی دوسرے بھی ہیں‘‘۔ میں نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، میں نے تنہا جانا ہے۔ دراصل وہاں ہمارے کچھ رشتے دار رہتے ہیں۔ میں ایک ویک اینڈ ان کے ساتھ گزارتی ہوں۔ اس لیے معذرت۔ ویک اینڈ کے بعد ہم بہت ساری باتیں کریں گے‘‘۔ اس نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔
’’اوکے۔۔۔ ! تم جاؤ‘‘۔ میں نے خوش دلی سے کہا تو سلام کر کے اس راہ پر مڑ گئی۔ جدھر ان کا ہوسٹل تھا۔ بلاشبہ اسے ہاسٹل پہنچے کے لیے بھی وقت چاہئے تھا۔
ویک اینڈ کے بعد میری اور اس کی طویل ملاقات ہوئی۔ زویا، ایک پیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ پنجاب کے ایک دورافتادہ علاقے میں درگاہ تھی۔ جہاں ان کا خاندان متولی تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ اتنے کشادہ ذہن نہیں تھے کہ اپنے بچوں کو اور خصوصاً بچیوں کو اتنی دور تعلیم کے لیے بھیج سکیں۔ چونکہ یہ اکلوتی تھی اور اس کے والد یہاں سے پڑھ کر جا چکے تھے۔ اس لیے اسے بھی اجازت مل گئی۔ و ہ سیّد تھے۔ ان کے خاندان کا سیاسی پس منظر بھی تھا۔ اس کے کزن بھی دنیا کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے۔ زویا کو پوری امید تھی کہ وہ اپنے خاندان کی سیاسی وارث ضرور ثابت ہو گی۔ میں اس کا تعارف سن کر ہی بہت متاثر ہوا۔ دولت کی ان کے پاس کمی نہیں تھی اور حکومتی ایوانوں تک ان کی رسائی تھی۔ میں اس کے تعارف سے اس لیے متاثر ہوا تھا کہ ایسے گھرانوں کی لڑکیاں اس طرح دیار غیر میں تعلیم حاصل کرنے نہیں آتیں، لیکن ایک طرف جہاں زویا کی ضد تھی کہ وہ بریڈ فورڈ پڑھنے جائے گی تو دوسری طرف ان کی کچھ خاندانی کی مجبوریاں بھی تھیں۔ اس کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ زویا کسی طرح بھی اپنے خاندان کے لڑکوں سے پیچھے رہے اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ یہاں ان کی اپنی سیاسی ساکھ کا بھی سوال تھا۔
’’تم نے اپنے بارے میں نہیں بتایا بلال؟‘‘ زویا نے اپنے بارے تفصیل سے بتا کر مجھ سے پوچھا تو میں نے بڑے انکسار سے کہا۔
’’میرے پاس بتانے کے لیے کیا ہے؟ دادا جی زمینداری کرتے رہے اور والد صاحب بزنس میں آ گئے بھلے وقتوں میں انہوں نے ایک فوڈ پراڈکٹ کی فیکٹری لگائی تھی جو اب پورے پاکستان میں مشہور ہے‘‘۔
’’تو سیدھا کہو نا تم لوگ صنعت کار ہو‘‘۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’میں تو نہیں ہوں نا ابھی‘‘۔ میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ پھر ہمارے درمیان دیگر موضوعات پر باتیں ہوتی چلی گئیں۔
اس پہلی طویل ملاقات کے بعد ہمارے درمیان اکثر لمبی لمبی باتیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ اچھا خاصا مضبوط تعلق بن گیا۔ اس کے اور میرے ہاسٹل کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ پہلے پہل وہ اپنا ویک اینڈ لندن میں گزارتی تھی۔ پھر میرے ساتھ گزارنے لگی۔ زندگی کا کون سا ایسا موضوع تھا جو ہمارے زیر بحث نہیں آیا۔ کچھ دوست مجھے چھوڑ گئے اور کئی دوستوں کو میں چھوڑ گیا، لیکن ایک یہی بھان سنگھ اور دوسرا اسد جعفری، یہ دونوں میرے دوست رہے۔ زویا کی اپنی چند سہیلیوں سے کمپنی تھی یا پھر وہ فقط میرے ساتھ ملتی۔ بریڈ فورڈ کی ہر جگہ ہم نے گھوم پھر لی۔ ایک دو بار لندن سے بھی ہو آئے۔ یوں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔
ایک دن ایسے ہی میں، بھان سنگھ اور اسد جعفری ہم یونیورسٹی کے لان میں سبز گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اسد نے اچانک کہا۔
’’اوئے بلال۔۔۔!یہ زویا سے تیرے تعلق کی گاڑی محبت کے اسٹیشن پر پہنچی ہے کہ نہیں یا ابھی نان اسٹاپ چلتے ہی چلے جا رہے ہو‘‘۔
’’میں سمجھا نہیں، محبت مطلب ۔۔۔ وہ ایک اچھی دوست ہے اور بس۔۔۔‘‘ میں نے واقعتاً اس کی بات نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’اوئے تُو اتنا معصوم بھی نہیں ہے۔ میں ہوتا نا تو اس وقت تک اس سے شادی بھی کر چکا ہوتا، جتنا تُو نے اس کے ساتھ وقت گزار دیا ہے۔ آخر اس تعلق کی کوئی منزل تو ہو گی نا یار؟‘‘ اسد جعفری نے طنزیہ انداز میں کہا تو بھان سنگھ نے بھی اپنے خیال کا اظہار فرما دیا۔
’’ہاں یار۔۔۔! اسد ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اتنی دیر میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے، تم ابھی دوستی ہی لیے پھرتے ہو‘‘۔
’’مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہونا چاہئے مزید، بس چلتا ہے تو چلتا رہے، تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ ہمارے تعلق میں زویا کی وجہ سے کوئی۔۔۔‘‘ میں نے کہنا چاہا تو اسد جعفری نے تیزی سے کہا۔
’’او نہیں۔۔۔! تم ہمارے اچھے دوست ہو، ہمیں زویا سے بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو یہ سننے کو بے تاب ہیں کہ حضور کو اس سے محبت ہو گی ہے۔ اس نے یا تم نے اظہار محبت کر دیا ہے اور ایک نئی لّو اسٹوری کے ہم گواہ بن جائیں؟‘‘
’’نہیں یار۔۔۔! میں اس سے کبھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کروں گا۔ وہ کسی اور ہی دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور میں کسی اور دنیا سے، میں اسے کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ بس یہاں جو اچھا وقت گزر جائے، میں اسے ہی اپنا حاصلِ زندگی سمجھ لوں گا‘‘۔ میں نے پوری دیانت داری سے اپنے دل کا حال اس سے کہہ دیا۔
’’لیکن اگر اس نے تم سے اظہارِ محبت کر دیا تو۔۔۔؟‘‘ بھان سنگھ نے پورے خلوص سے اور سنجیدگی سے پوچھا۔
’’تب دیکھ لوں گا۔ کم از کم میں اسے کسی امتحان میں نہیں ڈالنے والا‘‘۔ میں نے جواب میں کہا۔
’’چلو اچھا ہے یار۔۔۔! تمہارا پتہ تو چلا، میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم یونہی فلرٹ کئے جا رہے ہو۔ پر یہ دیکھ لو، اگر تم دونوں میں محبت ہو گئی نا، تو پھر واقعی بہت مشکل وہ جائے گا‘‘۔ اسد نے کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں اس لیے محتاط ہوں‘‘۔ میں نے اس کی بات سمجھ کر ہی جواب دیا۔ بھان سنگھ بھی سمجھتا تھا کہ آنے والے وقت میں ہمارے درمیان کیا رکاوٹیں آنے والی ہیں۔ سو بات وہیں پر ختم ہو گئی۔
دو برس گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ زویا میرے اس قدر قریب آ گئی تھی کہ میں اس کے سوا کسی دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بریڈ فورڈ جیسے ماحول میں کیا کچھ ایسا نہیں تھا، جسے میں اپنے تصرف میں نہ لے آتا۔ یہاں دوستی اور تعلق کے معنی ہی کچھ اور تھے اور تھوڑے عرصے کا تعلق چلتا اور ایک خاص منزل تک پہنچ کر ختم ہو جاتا، نئی ترجیحات سامنے آ جاتیں۔ رستے بدل جاتے۔ زندگی کا لطف کئی ایسی دلچسپیوں میں دیکھا جاتا جو کم از کم مشرقی ماحول میں انتہائی ناپسندیدہ تھیں۔ ایسے ماحول میں میرا اور زویا کا تعلق عجیب سی نگاہوں سے دیکھا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے تعلق نبھاتے چلے جا رہے تھے۔ سوچے بغیر کہ کون ہمیں کس انداز میں دیکھتا ہے۔
وہ ایک انتہائی خوشگوار شام تھی۔ جب میں اور زویا لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے بینچ پر بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ تب اچانک میں نے اس سے پوچھا۔
’’زویا۔۔۔!تم نے کامرس کی تعلیم ہی کیوں پسند کی۔ ایسا کیا تھا جس نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ تم کوئی دوسری تعلیم بھی تو حاصل کر سکتی تھی جو آگے چل کر تیرے کام آئے‘‘۔
’’دنیا بدل رہی ہے بلال۔۔۔! اگر میں سیاست میں آئی تو وہ میری مجبوری ہو گی۔ زمینداری مجھے بالکل پسند نہیں کیونکہ میں نے ہمیشہ خود کو صنعت کار سوچا ہے۔ میں اس شعبہ میں آؤں گی ضرور‘‘۔ اس نے اپنے خیالوں میں نہ جانے کیا سوچتے ہوئے کہا۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’اور کیا میں ادب پڑھتی اور یہاں بیٹھ کر محسوس کرتی کہ دریائے ٹیمز کا پانی بہہ رہا ہے اور اس پر کیا رومانوی ماحول ہے۔ کتنے انگریز شاعروں نے کیا کیا جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مجھے بتاؤ، اس کا آج کی زندگی پر کیا اثر ہے‘‘۔
’’زویا۔۔۔! تم اپنے من سے رومانوی جذبوں کو الگ نہیں کر سکتی ہو، یہ بھی اسی طرح ضروری ہیں، جیسے کہ سانس لینا‘‘۔ نہ جانے کیوں میں نے اپنی رو میں کہہ دیا۔ تب وہ انتہائی کی جذباتی انداز میں بولی۔
’’میں مانتی ہوں بلال کہ محبت بھی انسان کے لیے اتنی ضروری ہے جتنی ہوا اس کے لیے اہم ہے۔ یہ جو ہمارے اردگرد رنگینیاں ہیں یہ ساری اسی وجہ سے ہیں، لیکن ۔۔۔! اس کا حصول بھی کمتر درجے میں نہیں ہونا چاہئے۔ نہ جانے کیوں محبت کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اس میں ملنا ضروری ہے اور اس کے لیے اپنے ان پیاروں کو نظر انداز کر دینا جوان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم جس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں ہمیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ جینا ہے۔ ان کی نگاہوں میں گر کر اپنی محبت کا حصول۔۔۔ میں اسے محبت کی توہین سمجھتی ہوں‘‘۔
’’تم ایسا کیوں سوچتی ہو، اس کے برعکس بھی تو ہو سکتا ہے‘‘۔ میں نے یونہی بات بڑھا دی۔
’’ہونے کو تو کیا نہیں ہو سکتا، ہم ابھی اور اسی وقت ساری حدیں پار کر سکتے ہیں، لیکن اتنا وقت گزار دینے کے باوجود ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ہمارے جسم ایک دوسرے کے لیے ابھی تک انجان جزیرے کیوں ہیں؟ یہ صرف اس لیے بلال کہ ہم ایک دوسرے کی عزت انتہائی درجے تک کرنا چاہتے ہیں اور یہ عزت اس طرح سے ممکن ہے کہ ہم پورے مان اور وقار کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چلیں۔ ورنہ بدن بھنبھوڑنے کی خواہش چند ٹکوں میں بھی پوری کی جا سکتی ہے‘‘۔ اس نے انتہائی کی جذباتی انداز میں میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو زویا۔۔۔! ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی بہت دور ہیں۔ اچھا ہے جب ہم یہاں سے چلے جائیں گے تو ہمیں ایک دوسرے کو بھولنے میں مشکل نہیں ہو گی‘‘۔ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے سکون سے کہا تو وہ تڑپ اٹھی۔ اس نے شدت جذبات میں میرا ہاتھ پکڑ لیا اور تقریباً بھینچتے ہوئے کہا۔
’’تم غلط کہہ رہے ہو بلال۔۔۔! ہم ایک دوسرے کو بھول ہی نہیں سکتے، شاید تم بھول جاؤ، مگر میں نہیں، کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ شدید محبت اور اپنی محبت کو کبھی کوئی نہیں بھلا سکتا‘‘۔
میں اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ دھواں دھواں ہوتا ہوا چہرہ، لرزتے لب، بند آنکھوں کی تھرکتی ہوئی پلکیں جو دھیرے دھیرے آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں۔ وہ ہولے ہولے کانپنے لگی تھی۔ نہ جانے وہ اپنے اندر جذبات کا کس قدر جوار بھاٹا محسوس کر رہی تھی۔ تبھی میں نے ا س کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔
’’زویا۔۔۔! کیا تم مجھ سے اتنی شدید محبت کرتی ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! شاید اس سے بھی کہیں زیادہ، میں چاہتی ہوں کہ اپنی باقی زندگی تمہارے ساتھ گزاروں، میری محبت نہ جانے مجھے کیسے کیسے خواب دکھاتی ہے، لیکن میں کسی کی اور اپنی نگاہوں میں گر کے تجھے نہیں پانا چاہتی۔ میں پورے عزت و وقار کے ساتھ تمہاری ہو جانا چاہتی ہوں۔ میں مانتی ہوں کہ ہمارے اس ملن میں بہت ساری رکاوٹیں آئیں گی۔ ان رکاوٹوں کو میں خود پار کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ مل گئے۔ تو ٹھیک ، ورنہ ہماری محبت کا سفررائیگاں تو نہیں جائے گا۔ میں تم سے اپنی آخری سانس تک محبت کرتی رہوں گی‘‘۔ وہ لرزتے ہوئے لہجے میں کہتی چلی گئی تھی۔
دریائے ٹیمز کے کنارے اس بینچ پر بیٹھنے سے قبل میرے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ زویا اپنی محبت کا اظہار اس شدت سے کرے گی کہ مجھے بولنے کا موقع تک نہیں ملے گا۔ میں اس سے اختلاف کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا۔
’’میں اس سفر میں تمہارے ساتھ ہوں زویا‘‘۔
’’میں اپنے والدین کو تمہارے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گی۔ انہیں مناؤں گی، وہ مان گئے تو ٹھیک ، وہ اپنے ہاتھوں سے مجھے تمہارے حوالے کر دیں گے تو ٹھیک، ورنہ میں اپنا آپ نہیں گراؤں گی۔ اس کے لیے تم مجھے معاف کر دینا‘‘۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سر میرے کاندھے سے ٹکا دیا۔ میرے پا کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس لیے خاموشی ہمارے درمیان میں آئی۔ پھر کافی دیر یونہی خاموش بیٹھے رہنے کے بعد ہم وہاں سے اٹھ گئے۔
زندگی میں ایک عجیب ٹھہراؤ آ گیا ہوا تھا۔ زویا میری ہو گی یا نہیں؟ یہی سوال میری زندگی پرچھا گیا جس کا جواب ابھی وقت کی پنہائیوں میں تھا۔ میں اس بارے حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔ اب سارا کچھ زویا ہی نے کرنا تھا۔ اسے ہی اپنے والدین کو بتانا تھا، انہیں قائل کر کے راضی کرنا تھا۔ جبکہ ہماری تعلیم کا آخری سال شروع ہوئے ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ زویا نے اپنے طور پر اپنی والدہ کو اعتماد میں لینا شروع کر دیا تھا۔ میرے سامنے فون پر اس نے میرے بارے تمام تر اپنی والدہ کو بتا دیا تھا۔ پھر اس وعدے پر بات ختم ہوئی تھی کہ وہ اس کے والد سے بات کرے گی۔ تقریباً دو ہفتے اس گفتگو میں گزر گئے۔ جواب کیا ملتا ہے، اس کا کچھ احساس تو تھا لیکن وہ پُر امید بھی تھی ۔ تب جو جواب آیا وہ ہی تھا کہ میرا اور اس کا ملن ناممکن ہے۔ ہمارے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ذات پات کی تھی۔ وہ سیّد زادی تھی اور میں ارائیں ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ دوسرا وہ خاندان کے لڑکوں کو چھوڑ کر باہر کیوں اس کی شادی کریں۔ اس کے ساتھ یہ پیغام آ گیا کہ اس خناس کو دماغ سے نکال دے۔ اگر نہیں نکلتا تو فوراً واپس آ جائے۔ اگر والدین سے ہٹ کر اپنی مرضی کرے گی تو پھر وہ ان میں سے نہیں ہے۔ پلٹ کر اپنا منہ نہ دکھائے۔ یہ سب بتاتے ہوئے زویا بہت روئی تھی۔ تب میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں اپنی محبت پر مان ہونا چاہئے زویا۔ نہیں مل سکتے، کوئی بات نہیں‘‘۔
’’مگر میں کوشش کرتی رہوں گی۔ یہاں تک کہ وہ عزت و وقار کے ساتھ مجھے تمہارے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ دیں‘‘۔ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
زویا اپنے طور پر بھرپور کوشش کرتی رہی۔ اس نے اپنے والدین کو یہ باور کرا دیا تھا کہ میں ایسا ویسا کچھ نہیں کروں گی، لیکن آپ سے بہتر فیصلے کی امیدوار ہوں۔ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ وہ جس قدر کہتی اسی قدر کوئی سخت حکم مل جاتا۔ یہاں تک کہ اسے یہ تک بتا دیا گیا کہ اس کی شادی اس کے کس کزن سے ہو گی۔اس کے واپس جاتے ہی اس کی شادی کر دینے کے پورے انتظامات تھے۔ زویا سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس چلی آئے۔ تقریباً آٹھ ماہ تک یہی چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے والد نے اسے یہاں سے لے جانے کے لیے خود لندن آنے کی دھمکی دے دی۔ تب زویا نے اپنی تعلیم مکمل کی اور واپس جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
تین دن پہلے میں، بھان سنگھ اور اسد جعفری اسے ائیر پورٹ تک چھوڑنے گئے تھے۔ تمام راستے وہ روتی رہی تھی اور جس وقت وہ جانے کے لیے تیار تھی۔ اس وقت مجھے پہلی ملاقات میں کسی کا تبصرہ یاد آیا تھا۔ وہ اپنے تعلیمی دورانئے میں ذرا نہیں بدلی تھی۔ وہی اسکارف وہی عبایہ۔۔۔ وہ میری طرف بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ جہاز تیار ہونے کا اعلان ہوا تو نہ جانے اسے کیا ہوا۔ وہ میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ میں نے اسے خود سے الگ کہا۔ اس کی آنکھوں میں دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یہ سوچ کر خود پر مان کرو کہ ہمارے محبت کتنی پاکیزہ ہے۔ جاؤ، میں تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں‘‘۔
اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ اس نے اپنے آنسو صاف کئے، دھیرے سے مسکرائی۔ ہم سب کی طرف دیکھا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔
وہ اپریل کے آخری دن کی ایک صبح تھی ۔ جب میں اور بھان سنگھ امرتسر ائیر پورٹ سے ضروری کاغذی کارروائی کے بعد باہر آئے۔ ہم ائیر پورٹ عمارت میں کھڑے تھے اور سامان کا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں ہر طرف مختلف رنگوں کی پگڑیوں والے سنگھ حضرات دیکھ کر ایک دم سے مجھے لاہور اسٹیشن یاد آ گیا۔ اکثر سکھ یاتریوں کو وہاں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ویسا ہی ماحول مجھے یہاں بھی لگا۔گورمکھی اور انگریزی میں لکھے ہوئے سائن بورڈ کے علاوہ مجھے وہاں قطعاً اجنبیت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ شاید یہ پنجاب کی ہواؤں کا اثر تھا۔ میں اردگرد کے ماحول سے اپنے اندر اٹھنے والے تاثرات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک ہمارے سامنے ایک جواں سال لڑکی آن کھڑی ہوئی۔ سرمئی رنگ کی شلوار قمیص پہنے، جس کے ہاف سلیو میں سے گوری بانہیں اور زرد چوڑیاں اپنی جانب متوجہ کر رہی تھیں۔ تیکھے نقوش والی اس لڑکی کے چہرے پر خوشی پھوٹ رہی تھی۔ اس کا آنچل گلے میں تھا اور وہ پُر شوق نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بھان سنگھ خوشی سے بولا۔
’’اوئے بلے بلے۔۔۔ آ گئی پرتیو‘‘۔ پھر میری طرف دیکھ کر تعارف کراتے ہوئے بولا۔ ’’اس سے ملو، یہ ہے میری منگیتر پریت کور‘‘۔
’’اچھا تو یہ ہے اپنی پریتو۔۔۔!‘‘ میں نے خوشگوار انداز میں کہا تو وہ کافی حد تک شرماتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی۔
’’ست سری اکال۔۔۔ اور خوش آمدید، بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔ ورنہ صرف بھان ہی سے آپ کے بارے میں سنتی تھی‘‘۔
’’میں نے بھی اس سے تمہاری بڑی باتیں سنی ہیں، بہت پیار کرتا ہے تمہیں‘‘۔ میں نے اس کے چہرے پر بکھرتے ہوئے رنگوں کو دیکھ کر کہا تو وہ ایک دم سے شرما گئی۔ پھر بھان کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’اب کھڑے کیوں ہو، چلتے کیوں نہیں‘‘۔
’’اوئے سو ہنیو۔۔۔! سامان لے لیں۔ یا انہیں ہی دے جانا ہے‘‘۔ بھان نے اندر کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا پھر اس سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’پر تو اکیلی کیوں آ گئی۔ تیرے ساتھ کوئی اور نہیں آیا‘‘۔
’’بتا، کس نے آنا تھا، تیری بے بے باپو نے یا میری بے بے باپو نے۔۔۔ وہ وہاں تیرے گھر میں اکٹھے ہو کر تیرا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔
بھان سنگھ اسے کوئی جواب نہ دے سکا۔ بلکہ اس پورٹر کی طرف متوجہ ہو گیا جو ہمارا سامان لے آیا تھا۔ ہم نے سامان لیا اور عمارت سے باہر آ گئے۔ پریت کور ہمارے آگے آگے جا رہی تھی۔ پھر ایک فور وہیل جیپ کے پاس رک گئی۔ اسے کھولا تو ہم نے سامان رکھا۔ تبھی وہ پچھلی نشست پر بیٹھنے لگی۔
’’نا پریت۔۔۔! تو ادھر بھان کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ، اتنے عرصے بعد وہ واپس آیا ہے۔ گپ شپ لگا اس کے ساتھ میں ادھر۔۔۔‘‘
’’میں روز گپ لگاتی ہوں اس کے ساتھ ، آپ بیٹھو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے چابی بھان سنگھ کی طرف اچھال دی۔ اس نے پکڑی اور ڈرائیونگ پر جا بیٹھا۔ ائیرپورٹ سے نکل کر جب ہم کشمیر روڈ پر آ گئے تو بھان سنگھ نے پوچھا۔
’’اوئے پرتیو۔۔۔! سنا امرت کور کیسی ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے وہ، اسے کیا ہونا ہے، آج کل اس نے نیا ڈرامہ شروع کیا ہوا ہے‘‘۔ وہ یوں بولی جیسے یہ اس کے لیے غیر دلچسپ سی بات ہو۔
’’وہ کیا ہے؟‘‘ بھان سنگھ نے تجسس سے پوچھا۔
’’کوئی دو ہفتے ہوئے ہیں، اپنے گھر سے کوئی نہ کوئی میٹھی شے لے کر نکلتی ہے۔ اسے اپنے ساتھ رکھتی ہے، پھر گرو دوارے کے باہر بچوں میں بانٹ دیتی ہے۔ خوشی خوشی گھر چلی جاتی ہے‘‘۔ وہ اپنی رو میں کہتی چلی گئی مگر میں اپنے طور پر چونک گیا۔ کوئی دو ہفتے پہلے ہی تو ہم میں بات ہوئی تھی۔ کیا یہ ہماری وجہ سے ہوا؟ اگر ایسا ہے تو یہ کیسے ہوا؟ میں اس نہج پر سوچنے لگا۔ مجھے اس کی کوئی منطق سمجھ میں نہ آئی تو خود پر ہنس دیا۔ میں نے یونہی خواہ مخواہ امرت کور کو اپنے ذہن پر سوار کر لیا تھا۔ یہ ایسے اتفاق ہی ہو گا جو میں اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں خاموش تھا اور وہ دونوں باتیں کرتے جا رہے تھے۔ بھان سنگھ اور پریت کور دونوں کزن تھے۔ چاچے تائے کی اولاد، دونوں ہی اکلوتے تھے۔ ان دونوں کے والدین میں یہ طے ہو چکا تھا کہ ان کی شادی کر دی جائے گی۔ اس لیے وہ ایک دوسرے سے خاصے بے تکلف تھے۔ تبھی ایک خیال میرے ذہن میں آ گیا کہ بھان سنگھ نے پریت کور کو میرے بارے میں ضرور بتا دیا ہو گا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔ یا ممکن ہے نہ بتایا ہو۔ سو خاموشی ہی ٹھیک تھی۔
تقریباً پچیس منٹ کے سفر کے بعد وہ بڑی سڑک پر سے ایک ذیلی سڑک پر مڑ گیا اور اس کے ساتھ ہی خوشی سے لبریز لہجے میں بولا۔
’’لے بھئی بلال۔۔۔! آ گئے اپنے گاؤں وہ دیکھ سامنے‘‘۔
میں نے دیکھا سامنے کچھ فاصلے پر گاؤں نظر آ رہا تھا۔ وہ خاصا بڑا گاؤں تھا۔ ان میں ایک بھی گھر مجھے کچا دیکھنے کو نہیں ملا۔ ممکن ہے کوئی ہو۔ تاہم اردگرد کی زرخیز فصلوں سے میں ہی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس گاؤں کے لوگ خوشحال ہوں گے۔ اس گاؤں میں سب سے اونچا ایک مینار نما برج تھا جو دور ہی سے دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں پوچھا۔
’’وہ گرو دوارہ ہے۔۔۔ سنت ہردوار جی کی یاد میں بنایا ہے۔ امرت کور یہیں روزانہ آتی ہے۔ ابھی ہم اس کے قریب ہی سے گزر کر جائیں گے‘‘۔ بھان سنگھ نے عام سے انداز میں کہا تو پریت کور تیزی سے بولی۔
’’ویسے بلال۔۔۔! آپ کا آنا سر آنکھوں پر، ہمیں خوشی ہے کہ آ پ آئے، گرو کی مہر ہوتی ہے کو ئی مہمان گھر میں آئے، لیکن یہ جس وجہ سے آپ کو یہاں لے کر آیا ہے نا۔۔۔ مجھے کوئی یقین نہیں ہے اس پر‘‘۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، وہ تیزی سے بولا۔
یار پریت بات سن۔۔۔! تمہیں یقین نہیں ہے تو نہ سہی۔ پر یہ یاد رکھ، یقین کامل ہوتا ہے ، پیر کامل نہیں ہوتا‘‘۔
’’پر وہ کون سی سادھو سنت ہے پاگل عورت ہے‘‘۔ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’اچھا ایک بات سن ، یہ بات میں نے تمہیں بتائی ہے۔ تم نے گھر والوں سے تو نہیں کی‘‘۔ بھان سنگھ نے تشویش سے پوچھا۔
’’نہیں، میں ایسی فضول بات نہیں کرتی، بلال کا سارا تاثر ہی ختم ہوتا، میں بھی تم سے یہ کہنے والی تھی، تم بھی ایسی کوئی بات نہ کرنا‘‘۔پریت نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ میں ان دنوں کی باتوں سے بہت کچھ اخذ کر چکا تھا اور اس وقت میرے ذہن میں یہی خیال آ رہا تھا کہ بھان سنگھ نے محض میرا دھیان زویا سے ہٹانے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے۔مجھے بھان سنگھ پر غصے کی بجائے پیار آنے لگا تھا۔ میں مسکرا دیا۔ اس وقت ہم گاؤں میں داخل ہو چکے تھے۔ پھر چند گلیاں پار کرنے کے بعد وہ ایک بڑی ساری حویلی نما گھر کے پھاٹک کے اندر گاڑی لے گیا اور پھر بڑے صحن میں ایک طرف گاڑ ی روک دی۔
برآمدے میں گھر کے افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں آگے بڑھے، ہمارے پیچھے پریتو تھی۔ وہاں پانچ افراد تھے۔ جیسے ہی ہم ان کے قریب پہنچے ، بھان سنگھ ایک درمیان سے بدن والے لمبے قد کے ادھیڑ عمر شخص کے قدموں میں جھکا، اس نے جلدی سے بھان کو سینے سے لگا لیا۔ پھر وہ قریب کھڑے ایک موٹے سے شخص کے قدموں جھکا اس نے بھی بھان کو گلے لگا لیا۔ وہیں اور پتلی سی خواتین تھیں، وہ ان کے قدموں میں لگا، پھر قریب ہی چوکی پر بوڑھی خاتون کے پاس گیا اور اسے پیار سے ملا۔ ان سب سے ملنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوا۔ جس ترتیب سے وہ ان کے ساتھ ملا تھا ویسے ہی تعارف کراتا گیا۔
’’یہ میرے باپو جی ہیں، سردار پردیپ سنگھ جی‘‘۔ اس نے کہا تو میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ مجھے گلے لگا لیا۔ تبھی وہ بولا۔ ’’اور یہ میرے چا چا جی سردار امریک سنگھ جی‘‘۔ میں نے مصافحہ کیا تو انہوں نے بھی ایسے ہی گلے لگا لیا۔ ’’یہ میری ماں جی اور یہ میر ی چاچی‘‘۔ ان خواتین نے بھی باری باری میرے سر پر ہاتھ پھیر اور بڑے پیار سے اپنے ساتھ لگا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ’’اور یہ ہے میری دادی پرونت کور۔۔۔ ہمارے گھر کی سب سے بڑی۔۔۔‘‘
میں ان کے پاس گیا وہ میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ شاید ان کی نگاہ کمزور تھی، لیکن نہیں ، بات یہ نہیں تھی، وہ میری طرف یوں دیکھ رہی تھیں جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر ہی ہوں، ان کے چہرے پر تعجب، حقیقت اور تجسس کے ملے جلے آثار تھے، جنہیں دیکھ کر میں چند لمحوں کے لیے الجھا تو سہی، لیکن پھر یہی سوچ کر اس الجھن کو خود سے دور کر دیا کہ ممکن ہے انہوں نے میری تصویر دیکھی ہو، بھان سنگھ نے لاتعداد تصویریں اپنے گھر میں بھجوا ئی تھیں۔ پرونت کور کی نگاہ مجھ میں ہی تھی۔ میں ان سب کے ساتھ وہیں کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ جبکہ دونوں خواتین اندر چلی گئیں۔
’’یہ میرا دوست ہے بلال، ہم اکٹھے ہی بریڈ فورڈ میں پڑھے ہیں۔ اب یہ پاکستان جا رہا تھا تو میں اسے اپنا گاؤں دکھانے کے لیے اپنے ساتھ لے آیا۔ دو چار دن کے بعد۔۔۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا کہ پردیپ سنگھ نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’او نہ پتر اوئے۔۔۔! دو چار دن نہیں، دو چار ہفتوں کی بات کر۔۔۔ اب قسمت سے ہمارا مہمان بنا ہے، پھر پتہ نہیں یہاں آ بھی سکے گا یا نہیں‘‘۔
’’وہ کچھ ویزے کا مسئلہ بھی ہو گا ۔ ابھی تو یہاں چوکی میں اس کے آنے کی اطلاع کرنی ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا۔
’’ وہ میں تھانے دار کو بلوا کر کہہ دوں گا۔ بہر حال جب تک پتر بلال کا دل کرے یہاں رہے۔ مہمان تو رب کی مہربانی ہوتے ہیں‘‘۔ ان باتوں کے بعد وہ ہماری پڑھائی، لندن کا ماحول، گاؤں کی باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔ اس دوران وہ دونوں خواتین ہمارے سامنے چائے کے ساتھ بسکٹ، حلوے اور نہ جانے کیا کیا رکھ دیا۔ سب کچھ بہت مزے کا تھا۔ تبھی انیت کور بولیں۔
’’اچھا پتر۔۔۔! اب تم دونوں آرام کرو، اتنا سفر کر کے آئے ہو۔ میں تم لوگوں کے لیے کھانا بتاتی ہوں‘‘۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولیں۔ ’’پتر بلال ۔۔۔! آج تو تمہیں یہاں گوشت نہیں مل سکے گا۔ یہاں کوئی مسلمان گھرانہ تو ہے نہیں جو وہ تم لوگوں کے طریقے کے مطابق گوشت بنائیں۔ تم بنا لینا۔ میں تمہیں پکا دوں گی۔ باقی گاؤں کی جو چیز کہو گے وہ مل جائے گی۔ اپنی پسند بنا دینا‘‘۔
’’ماں۔۔۔! آپ جو بھی بنا کر کھلائیں گی، میں وہ شوق سے کھالوں گا۔ بہت عرصہ ہو گیا ماں کے ہاتھ کا بنا کھانا نہیں کھایا‘‘۔
میں نے یونہی جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ ان کا گھر دیکھ کر مجھے اپنے شدت سے یاد آنے لگے تھے۔
’’ماں صدقے جائے، جو کہے گا میں اپنے پتر کو کھلاؤں گی۔ جاؤ اب آرام کرو، جا بھان لے جااسے اپنے کمرے میں‘‘۔ انیت کور نے صدقے واری جاتے ہوئے کہا۔
ہم دونوں وہاں سے اٹھے اور کمرے کی جانب چل دیئے۔ وہاں بیٹھے ہوئے ایک بات میں نے خاص طور پر نوٹ کی تھی۔ پرونت کور مسلسل میری طرف دیکھتی رہی تھی۔ وہ جو حیرت، تعجب اور تجسس میں نے ان کے چہرے پر دیکھا، وہ ذرا بھی کم نہیں ہوا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جب تک میں وہاں سے ہٹ نہیں گیا۔ ان کی نگاہ مجھ میں ہی رہی تھی۔ اب پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہی تھیں۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل پر موجود ایک کشادہ کمرے میں آ گئے تھے۔ جہاں ایک طرف کھڑکی سے گاؤں کے گھر اور پھر اس سے آگے کھیت کھلیان دکھائی دے رہے تھے۔
’’اس طرف کی زمینیں ہماری ہیں، شام کو ادھر چلیں گے‘‘۔
’’وہ تو ٹھیک ہے یار، امرت کور سے کب ملیں گے‘‘۔ میں اپنے اندر کے تجسس پر قابو نہ رکھ سکا۔
’’لو یار اس سے بھی مل لیں گے۔ فی الحال تو ایزی ہو اور سو جا۔ اس وقت وہ گرودوارے میں ہو گی، یا چلی گئی ہو گی۔ کل صبح صبح اس کے لیے نکلیں گے‘‘۔ بھان سنگھ نے گاؤں میں آ کر بھی ایک دن انتظار کا اعلان سنا دیا۔ اس پر میں خاموش رہا۔ پھر ایزی ہو کر بستر جا لیٹا۔ کچھ دیر بعد مجھے ہوش نہ رہا کہ میں کہاں ہوں۔
دوپہر کے بعد ایک بڑا سارا دستر خوان زمین پر بچھا دیا گیا ۔ اس پر گھر کے سبھی افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں کھانا رکھا ہوا تھا۔ ہمارے بیٹھتے ہی چاچی جسمیت کور نے کھاناسرو کیا۔ پرتیو بالکل ہمارے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ پرونت کور کے چہرے پر اب بھی تجسس، تعجب اور حیرت تھی لیکن بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ جس پر میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔ نہ جانے وہ اپنے دماغ میں کیا لے بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ یہ بوڑھی پرونت کور تقسیم ہند کے وقت بلاشبہ جوان ہوں گی اور اس وقت کے لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بے انتہا نفرت تھی۔ یہ نفرت کیوں تھی اور کس نے پیدا کی، مجھے اس سے سروکار تو نہیں تھا، لیکن یہ حقیقت کہ اس نفرت کے شاخسا نے میں مہاجرین کے لیے پاکستان پہنچ جانا آگ کا دریا عبور کرنے کے مترادف ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے دادا جی سے بہت ساری باتیں سنی تھیں۔ وہ بھی ہجرت کر کے ہی پاکستان پہنچے تھے۔ انہوں نے جو بتایا تھا، اگر میرے ذہن میں بھی ویسا ہی کچھ تازہ ہو جاتا تو میں اس سکھ گھرانے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تو کیا، ان کے ساتھ بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھتا، ممکن ہے پرونت کور کے دماغ میں وہی نفرت کلبلا رہی ہو۔ اسے میرا وجود اس گھر میں بہت برا لگ رہا ہو۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کے مذہبی عقائد ایسے کٹر قسم کے ہوں کہ وہ ایک مسلم کو اپنے گھر میں برداشت نہ کر پار ہی تھی۔ ایسے ہی کئی خیال میرے دماغ میں آتے چلے گئے۔ کھانا بہت اچھا اور لذیذ تھا۔ گوشت کے علاوہ وہاں دال اور سبزیوں سے بنائی گئی ڈشیں، حلوے اور کھیر نہ جانے کیا کچھ تھا۔ تاہم اس کھانے کی لذت کو پرونت کور کی نگاہیں کرکرا کر رہی تھیں۔ بھان اپنے گھر والوں سے گپ شپ کرنے لگا تو میں وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔ تاکہ وہ اپنے گھر کی باتیں کھل کرسکیں۔ میں بیڈ پر لیٹا تو مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب نیند نے غلبہ پا لیا۔ سہ پہر کے بعد جب مجھے بھان نے جگایا تو دیکھا پریت کور سامنے کھڑی ہے۔ مجھے جاگتا ہوا پا کر بولی۔
’’فریش ہو کر جلدی سے نیچے آ جائیں۔ بڑے باپو جی کے پاس تھانے دار آیا بیٹھا ہے ۔ آتے ہوئے اپنے کاغذات لیتے آئیے گا‘‘۔
’’اوکے۔۔۔!‘‘ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو وہ پلٹ گئی۔
وہ ایک روایتی سکھ تھانے دار تھا۔ چائے پینے کے دوران ہی ضروری کاغذی کارروائی مکمل ہو گئی۔ چائے پی کر وہ چلا گیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ بھان کے باپو کی گاؤں میں خاص عزت اور احترام ہے۔ ورنہ مجھے گاؤں کی چوکی میں جا کر حاضری دینا پڑتی۔ ہم تینوں صحن ہی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انیت کور وہیں آ گئی۔ وہ بھان سنگھ کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’پتر۔۔۔! میں نے تیرے خیر سے گھر آنے پر گوردوارے میں ارداس رکھی ہے۔ اب جدھر جانا ہے ہو آؤ ، لیکن کل صبح جلدی اٹھنا ہے اور گرودوارے جانا ہے‘‘۔
ان کے یوں کہنے پر مجھے احساس ہوا کہ جیسے وہ بھان سنگھ کو نہیں اپنے خاوند کو سنا رہی ہیں کہ اِدھر اُدھر کہیں نہ جانا، صبح گرودوارے میں ارداس ہے۔ کیونکہ اس پر پردیپ سنگھ نے اپنی بیوی کو بڑے غور سے دیکھا تھا۔
’’اچھا ماں جی‘‘۔ بھان سنگھ نے احترام سے جواب دیا تو پردیپ سنگھ وہاں سے اٹھ گیا۔ انیت کور بھی اندر کی طرف چلی گئی۔ تب میں نے کہا۔
’’اوئے بھان۔۔۔! صبح سے تُو نے پریت کور کو ذرا بھی وقت نہیں دیا۔ میں چلتا ہوں کمرے میں اور تو۔۔۔‘‘
’’پرتیو کا یہ مسئلہ نہیں ہے، میں گھر میں ہوں۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ تو چل آ کھیتوں کی طرف چلتے ہیں۔ بہت عرصہ ہوا ہے ادھر نہیں گیا۔ چل اٹھ‘‘۔
’’کیا تیرے ادھر گاؤں میں دوست نہیں ہیں‘‘۔ میں نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہیں۔۔۔! مگر وہ شاید ہی ہوں اس وقت گاؤں میں ہر کوئی اپنے کام میں الجھا ہوا ہے۔ اتوار کو شاید ملیں۔ اگر کوئی ہوا بھی تو کل شام ہی کو ملیں گے‘‘۔ اس نے یوں بے پروائی سے کہا جیسے اب گاؤں کے دوستوں کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرح سے وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ اس مشینی دور میں ہر کوئی اپنے اپنے کام کاج میں الجھا ہوا تھا۔ ہم دونوں حویلی سے نکلے تو پیدل ہی چلتے چلے گئے۔ اس وقت سورج مغرب میں چھپ گیا تھا۔ جب ہم واپس پلٹے۔
اگلی صبح میں جلد ہی جگا لیا گیا۔ ہم جب تیار ہو کر نیچے آئے تو سبھی نے صاف ستھرے اجلے لباس پہنے ہوئے تھے۔ پریت کور کی سج دھج دیدنی تھی۔ اس نے انڈوں کا حلوہ اور چائے ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ’’جلدی سے چائے پی لو اور، آ جانا گرو دوارے ہم جا رہے ہیں‘‘۔
’’سوہنیو، آپ چلو، ہم آپ کے پیچھے پیچھے ہی آ رہے ہیں‘‘۔ بھان سنگھ نے خوشگوار لہجے میں کہا اور حلوے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میں ان دونوں کے چہرے پر پھیلی بھینی بھینی مسکراہٹ سے لطف انداز ہو رہا تھا۔ تبھی میں نے دیکھا دائیں طرف کے ایک کمرے سے پرونت کور بر آمد ہوئی۔ اس نے بھی صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں بڑی ساری لاٹھی جس کے سہارے وہ چل رہی تھی۔ حالانکہ اسے چاچی جسمیت کور نے سہارا دیا ہوا تھا۔ ایک لمحے کو اس نے میری طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ گئی۔ وہ سب پہلے صحن میں اکٹھے ہوئے، پھر باہر نکلتے چلے گئے۔
’’یار۔۔۔! سب گھر والے چل دیئے یہاں گھر کی نگرانی کے لیے کون ہے۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ملازم ہیں نا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے چائے کا بڑا سپ لیا۔ پھر ہم بھی چائے پی کر چل دیے۔حویلی سے نکلتے ہی مجھے خیال آیا۔
’’یار یہ تم لوگوں کی کوئی مذہبی محفل ہو گی، میں اس میں کہیں۔۔۔‘‘
’’او نہیں یار۔۔۔! چلو تم‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحے رکا پھر چل پڑا‘‘۔ یہ ارادس جو ہوتی ہے، ایک قسم کی تم اسے دعائیہ محفل کہہ لو، اس میں گرو گرنتھ صاحب پڑھی جاتی، جسے ہم پاٹھ کہتے ہیں۔ پھر کھڑے ہو کر گروجی کی فتح کی دعا ہوتی ہے۔ پھر اپنے لیے رب سے مانگتے ہیں۔ یہ ہر خوشی یا غمی کے موقع پر بنا لی جاتی ہے‘‘۔
’’یار میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو، میں تو اپنے بارے میں پوچھ رہا ہوں کہ تم مجھے وہاں لے جا تو رہے ہو کہیں وہ۔۔۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ میرے سامنے پرونت کور کا چہرہ آ گیا تھا۔
’’او نہیں۔۔۔! تو میرے ساتھ وہاں ارداس میں میں بیٹھنا‘‘۔ اس نے تیزی سے کہا تو میرے ڈھیلے پڑتے ہوئے قدم تیز ہو گئے۔ دراصل مجھے اندر سے یہ افسوس ہو رہا تھا کہ میں آج امرت کور سے نہیں مل پاؤں گا۔ آج کی صبح تو اس ارداس کی نذر ہو جائے گی۔ میں نے بھان سے نہیں کہا، کیونکہ بہر حال یہ اس کا مذہبی معاملہ تھا اور خصوصاً اس کی والدہ نے اس کا اہتمام کیا تھا۔ راستے میں وہ مجھے گرودوارے کے آداب بتاتا چلا گیا۔جسے میں نے بڑے غور سے سنا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہم زرد چونے والی ایک بڑی ساری عمارت کے سامنے جا رکے۔ ہم نے جوتے اتار کے ایک طرف رکھے پاؤں دھوئے اور اندر چلے گئے وہ ایک کھلی سی عمارت تھی چاروں طرف کمرے تھے۔ صرف داخلی دروازہ کھلا تھا، کمروں کے آگے بر آمدہ اور بالکل سامنے ایک ہال نما بڑا سارا کمرہ تھا۔ کافی سارے لوگ اس ہال کی طرف بڑھ رہے تھے۔
’’یہاں عبادت کے لیے روزانہ اتنے ہی لوگ آتے ہیں؟‘‘ میں نے انہیں دیکھ کر پوچھا۔
’’نہیں ، آج ارداس ہے نا، یہ سب ماں جی کی دعوت پر آئے ہیں، گاؤں کے لوگ ہیں نا۔۔۔‘‘ بھان سنگھ نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ تبھی سامنے سے پرتیو آتی دکھائی دی جس کے ہاتھ میں بسنتی رنگ کا رومال پکڑا ہوا تھا۔ وہ میری طرف بڑھا کر بولی۔
’’یہ سر پر باندھ لو، گرودوارے میں ننگے سر نہیں آتے‘‘۔
میں نے وہ رومال اس کے ہاتھ سے لے کر سر پر باندھ لیا اور پھر ہم تینوں اس ہال میں جا پہنچے۔ مرد حضرات ایک طرف اور خواتین ایک طرف بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہمارے اندر داخل ہوتے ہی کچھ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوئے، پھر وہ اس طرف متوجہ ہو گئے جہاں سیوا دار موجود تھا۔ اس کے آگے گرو گرنتھ صاحب پڑی تھی اور وہ چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک مذہبی آدمی جسے وہ لوگ گیانی کہتے تھے آ گیا۔ وہ دھیمے لہجے میں تقریر کرنے لگا۔ ہم مردوں کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے اس کی کچھ سمجھ آئی، کچھ نہ آئی اور پھر مجھے سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ کچھ دیر بعد اس کی تقریر ختم ہو گئی تو لوگ دعائیہ انداز میں کھڑے ہو گئے، انہوں اپنے ہاتھ جوڑے اور جذب کے عالم میں اپنی اپنی دعا پڑھنے لگے۔ میں ان سب کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک سپرطاقت کو ہر کوئی مانتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے انداز سے مانتا ہے۔ہر مذہبی آدمی یہی خیال کرتا ہے کہ وہ سچ کی راہ پر ہے۔ اب سچ کیا ہے۔ اس کی تحقیق بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ دعائیہ دورانیہ بھی ختم ہو گیا تو لوگ آرام دہ حالت میں آ گئے۔
’’اب کیا ہو گا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اب لنگر تقسیم ہو گا۔ ایک دوسرا کمرہ ہے۔ لوگ ادھر زمین پر بیٹھ جائیں گے اور لنگر۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے خاموش ہو گیا۔ پھر سرسراتے ہوئے انداز میں بولا۔’’وہ ۔۔۔ امرت کور۔۔۔ وہ سامنے۔۔۔ جو ابھی ہال میں داخل ہوئی ہے۔ وہ جس نے سفید لباس پہنا ہوا ہے‘‘۔
ایک دم سے میرا خون کا دورانیہ تیز ہو گیا۔ میں نے داخلی دروازے کی طرف دیکھا۔ قابل رشک صحت کی مالک، ایک لمبے قد کی خاتون سب سے بے نیاز دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی اس جانب بڑھ رہی تھی، جہاں منجی صاحب کے اوپر گرو گرنتھ صاحب دھری ہوئی تھی اور سیوا دار چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ کسی نے بھی اس کی آمد کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ یوں جیسے وہ اس سارے ماحول میں فالتو شے ہے۔ جیسے اس کا ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہے۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ بلاشبہ اپنے دور میں وہ بہت خوبصورت خاتون رہی ہو گی۔ اچھا خاصہ قد کاٹھ، پتلی سی، گورے رنگ کی، سفید لباس میں مزید دمک رہی تھی، اس کے سارے بال چھپے ہوئے تھے۔ چہرے کے نقوش تیکھے، آنکھیں بڑی بڑی اور تیکھی چتون، گہری نیلی آنکھیں، جن میں سے تجسس اور ماورائیت جھلک رہی تھی۔ تیکھا ناک، پتلے پتلے لب، گول چہرہ، لمبی گردن اور جسم کی ساخت ڈھیلے ڈھالے لباس میں چھپی ہوئی تھی۔ کسی نے اگر اس کی آمد کا نوٹس نہیں لیا تھا تو وہ بھی سب سے بے نیاز تھی۔ وہ سیدھی وہاں گئی ہاتھ میں پکڑ ہوا کٹورہ ایک طرف زمین پر رکھا اور اونچی آواز میں بولی۔
’’آد ہ سچ، جگادسچ۔۔۔ ہے بھی سچ۔۔۔ نانک ہوسی بھی سچ۔۔۔‘‘
(وہ ازل سے سچا ہے ا ور ابد میں بھی سچا ہے۔ اصل میں و ہ ہے ہی سچا۔ نانک وہ ہمیشہ سچ ہی ثابت ہو گا۔)
یہ کہہ کر ا س نے گرو گرنتھ صاحب کے آگے سجدے کی سی حالت میں ما تھا ٹیک دیا۔ چند لمحے وہ اسی حالت میں رہی، پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سینے کے برابر کر لیے تھے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور نہ جانے کیا سوچے چلی جاری تھی، دعا مانگ رہی تھی، من ت پڑھ رہی تھی، یا حمد کہہ رہی تھی، اس کے لب دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔ وہ جو بھی پڑھ رہی تھی مگر اس کا جذب متاثر کن تھا۔ اتنے لوگوں کے درمیان بھی وہ تنہا تھی، اس کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ سب اس کی نگاہ میں کچھ بھی نہیں ہے اور وہ ویرانے میں کھڑی اپنے رب کی حمد و ثناء کر رہی ہے۔ اس کا جذب دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو فنا کر چکی ہے۔ یہ فنائیت کیسی تھی؟ اس کے بارے میں بھلا کیا کہا جا سکتا تھا۔ تب اچانک وہ اونچی آواز میں بڑے نرم لہجے میں بولی۔
’’سنجوگُ و جوگُ دوءِ کار چلاوہِ
لیکھے آوہِ بھاگ
آدیسُ تِسَے آدیسُ ۔۔۔‘‘
(وصل اور ہجر دونوں ہی اس دنیا کے کام چلاتے ہیں ہماری قسمت میں جو مقدر لکھ دیا گیا ہے، وہی ہمیں ملنا ہے۔)
اس نے جو کہا تھا، وہ فوری طور پر میری سمجھ نہیں آیا تھا۔ میں نے تجسس آمیز نگاہوں سے بھان سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔
’’یہ اس نے گرو گرنتھ صاحب کے ابتدائی حصے میں سے گرو نانک جی مہاراج کا کلام پڑھا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بولا۔ ’’اب ایسے کرو آہستہ سے باہر نکلو، تاکہ ہم امرت کور کے باہر نکلنے سے پہلے نکل جائیں‘‘۔
وہاں موجود لوگ آہستہ آہستہ باہر نکل رہے تھے۔ چند منٹوں میں بڑے سکون سے ہال کے باہر آ گئے۔ وہاں اردگرد کافی لوگ موجود تھے۔ بھان سنگھ ان سے مل رہا تھا۔ وہ گاؤں والے ہی تھے اور اس کی خیر و عافیت سے واپس آ جانے پر خوش تھے۔ ظاہر ہے میں ان کے لیے اجنبی تھا، وہ میرے بارے میں بھی متجسس تھے۔ مصافحہ کرنے کی حد تک میں ان سے ہاتھ ملاتا رہا۔ ہر مرد یا خاتون اپنے اپنے انداز میں باتیں کر رہی تھیں، لیکن ان کی طرف میرا دھیان نہیں تھا۔ میں تو امرت کور کے باہر نکلنے کا منتظر تھا۔ وہ کب باہر آتی ہے اور میں اس کے سامنے جا کر اپنے سر پر پیار لیتا ہوں۔ ایسا ہی کچھ حال بھان سنگھ کا بھی تھا۔ وہ تھوڑی بہت بات کر کے انہیں لنگر خانے کی طرف جانے کی راہ دکھا رہا تھا۔ اس وقت بھی ہمارے پاس کچھ لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے، جب امرت کور ہال سے باہر نکلی، وہ مست الست حالت میں ننگے پاؤں باہر آئی۔ وہ صحن بھی گرودوارے کا ایک حصہ ہی تھا۔ بھان سنگھ نے مجھے ٹہوکا کا دیا تو میں فوراً اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی گہری نیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے ان آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ پھر اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر خوشی کا سورج طلوع ہو گیا۔ ساکت و سامت ، جذبات سے بے نیاز چہرے پر جیسے خوشیاں پوری طرح آ کر رقص کناں ہو گئی تھیں۔ سفید چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا۔ پلکوں سے لے کر گالوں تک سے خوشی پھوٹنے لگی تھی۔ وہ اس قدر خوشی سے بھرپور تھی کہ دھیرے دھیرے لرزنے لگی۔ وہ بنا پلکیں جھپا کے ایک ٹک میری طرف دیکھتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے ہونٹ ہولے ہولے لرزنے لگے تھے۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پا رہی ہے۔ اس کے پاؤں جیسے زمین نے باندھ لیے تھے۔ وہ بت بنی میری جانب دیکھے چلی جا رہی تھی۔ کتنے ہی لمحے اسی حالت میں گزر گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت میں امرت کور کی حالت دیکھ کر اندر سے خوف زدہ ہو گیا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے اسے؟ ممکن ہے میری طرح کچھ اور لوگوں نے بھی یہ محسوس کیا ہو۔ مگر میں اس وقت امرت کور کے ٹرانس میں تھا۔ یوں جیسے اس کی تیز چمکتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں نے مجھے باندھ لیا ہو۔ اس حالت میں چند منٹ گزر گئے۔ تبھی اس نے اپنا ہاتھ دھیرے دھیرے اٹھایا اور میرے سر پر رکھ دیا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’واہ گرو دی جے۔ اتے واہ گروہ دی فتح‘‘۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔ ’’تجھے آنا ہی تھا آ گیا ہے نا تو میرے بچے رب نے میری سن لی۔۔۔ اور سب سچ کر دیا جو میں چاہتی تھی۔ تُو آ گیا۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے پھر سے اپنا ہاتھ میرے سر پر سے اٹھایا۔ پھر دونوں ہاتھ یوں بڑھائے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو گود میں لینا چاہتی ہے۔ میں ایک لمحے کو جھکا پھر میں آگے بڑھ گیا۔ اس نے زور سے پیار بھری شدت کے ساتھ مجھے بھینچ لیا۔ میں اس کے سینے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اس میں سے ایک الگ خوشبو کا احساس میرے اندر سرائیت کر گیا۔ وہ بالکل ایک انوکھی مہک تھی، جسے میں کوئی نام نہیں دے پاتا ہوں اور نہ ہی اس کی کوئی مثال میرے سامنے تھی۔ اس کا دل اس قدر تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی سینے سے نکل کر باہر آ جائے گا۔ چند لمحوں تک وہ مجھے اپنے ساتھ بھینچے رہی، پھر آہستگی کے ساتھ چھوڑتے ہوئے میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر مسکراتے ہوئے زور سے بولی۔
رائیں سائیں سبھیں تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں۔۔۔
سوہنیاں پرے ہٹایاں نیں تے کوجھیاں لے گل لائیاں۔۔۔
جیہڑا سانوں سیّد سدے، دوزخ ملن سزائیاں۔۔۔
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتیں پینگھاں پائیاں۔۔۔
جے تو لوڑیں باغ بہاراں چاکر ہو جا رائیاں۔
حضرت بلھے شاہ سرکار کے کلام میں سے آگے پیچھے کر کے اس نے بڑے رسان سے پڑھا اور پھر میرے چہرے کو اس نے چھوڑ دیا۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا۔
وہ تیزی سے واپس ہال کی طرف پلٹی اور تیز تیز قدموں سے اندر چلی گئی۔ میں نے ساتھ کھڑے بھان سنگھ کی طرف حیرت سے دیکھا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ حیرت میں ڈوبا ہوا کھڑا تھا ۔ اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں اور چہرے پر انتہائی تجسس پھیلا ہوا تھا۔ ایسی ہی حالت وہاں پر کھڑے چند خواتین و حضرات کی بھی تھی وہ سب تجسس حیرت اور تعجب سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر بھان سنگھ سے بھی زیادہ سولات پڑھے جا سکتے تھے۔ میں کافی حد تک پریشان ہو گیا۔ کیونکہ سب کی نگاہیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں اور کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہہ پا رہا تھا۔ میرے پاس کوئی لفظ نہیں تھے کہ میں کچھ کہتا۔ وہاں جو بھی تھے سب ٹرانس کی حالت میں تھے۔ جیسے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ وہ حیرت سے تکے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی بات کرتے امرت کوراسی تیزی سے واپس پلٹ آئی۔ اس کے ہاتھ میں وہی کٹوری تھی جو وہ اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔اس میں زرد رنگ کا حلوہ تھا۔ اس نے اپنی دو انگلیوں اور انگوٹھے سے ذرا سا حلوہ لیا اور میری طرف بڑھایا تاکہ میں کھا لوں۔ میں ایک لمحے کو جھجکا پھر وہ حلوہ کھا لیا۔ بہت لذیذ حلوہ تھا۔ وہ سوجی، آٹے کا حلوہ تھا۔
اس نے مجھے دو چار لقمے کھلائے، پھر کٹوری بھان سنگھ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
’’لے پتر کھا۔۔۔! میٹھی مراد دی ہے تو میٹھی مراد پا۔۔۔ جب تک میں نہ کہوں۔۔۔ اسے یہاں سے جانے نہ دینا۔ واہ گرو کی مہر ہو تم پر۔۔۔‘‘۔
اس نے کہا چند لمحے میری طرف دیکھا اور پھر بے نیازی سے گرو دوارے سے باہر نکلتی چلی گئی۔ میرے سمیت سب اسے حیرت سے دیکھتے رہے جب تک وہ باہر نہیں چلی گئی۔ تبھی ایک بوڑھی سی خاتون شدت جذبات میں بولی ۔
’’واہ پتر واہ۔۔۔! تجھ میں ایسی کیا بات ہے جو اتنے برس کی خاموشی توڑ دی امرت کی۔ آج پہلی بار اسے یوں بولتے ہوئے سنا ہے‘‘۔
اس کے یوں کہنے پر میں بری طرح چونک گیا۔ مجھ میں ایسی کون سی بات ہو سکتی ہے کہ وہ مجھے دیکھ کر اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہو گئی ہے؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا، لیکن میرے اردگرد کھڑے لوگ اپنے اپنے طور پر تبصرہ آرائی کرنے لگے تھے۔ میں ان سب کی نگاہوں میں تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ میرے لیے سب کی نگاہوں میں مثبت انداز ہی ہو۔ وہ اپنے طور پر پتہ نہیں کیا سوچ رہے تھے۔ تبھی بھان سنگھ نے میرے بازو سے مجھے مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور گرو دوارے کے باہر چلنے کا اشارہ کیا۔ میں تیزی کے ساتھ چل پڑا۔ اپنے جوتے اٹھا کر پہنے اور گرودوارے کے باہر آ کر میں نے ایک طویل سانس لیا۔
’’ یہ کیا ہو گیا یار۔۔۔؟‘‘ بھان سنگھ نے یوں پوچھا جیسے یہ سب کچھ اس کی سمجھ میں نہ آیا ہو۔ تب میں نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے کہا۔
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں یار۔۔۔! جب تُو کچھ نہیں سمجھ سکا تو مجھے کیا سمجھ آئی ہو گی‘‘۔
’’یہ تو انہونی ہو گئی یار، وہ اتنے برس صرف اس ہال میں شری گرنتھ صاحب کے سامنے ہی بولی ہے۔ کبھی کسی نے باہر اسے بولتے ہوئے نہیں سنا، اور پھر ان شبدوں پر غور کرو، جو اس سے تم سے کہے۔۔۔ ضرور اس میں کوئی بات ہے۔ ان شبدوں میں، تم میں۔۔۔ اور میں اس کی خاموشی ٹوٹنے میں کوئی تعلق کوئی رشتہ ضرور ہے‘‘۔ اس کی حیرت ابھی تک کم نہیں ہوتی تھی۔
’’دیکھ بھان۔۔۔! اب اگر تمہاری اس مذہبی محفل میں مطلب ارداس میں تمہاری ضرورت ہے تو تم جاؤ اندر، میں حویلی تک چلا جاؤں گا۔ واپس آؤ گے نا تو اس پر بات کرتے ہیں‘‘۔ میں نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے کیا۔ کیونکہ مجھے بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا تو میں اس کے ساتھ کیا بحث کرتا۔ اس وقت میں خود تنہائی کی شدت سے طلب محسوس کر رہا تھا۔بھان نے میرے چہرے پر دیکھا۔ پھر نفی میں سرہلاتے ہوئے بولا۔
’’نہیں۔۔۔! دونوں چلتے ہیں حویلی۔۔۔ وہیں بات کرتے ہیں‘‘۔ اس نے کہا تو ہم دونوں حویلی کی جانے چل دیئے۔ہمارے ساتھ ایک انجانی خاموشی بھی چل دی۔
’’بھان۔۔۔! وہ سنت ہے، سادھو ہے، گیانی ہے یا درویش ۔۔۔ جو کچھ بھی تم اسے کہہ لو، وہ کچھ ہے ایسی ہی چیز‘‘۔ میں نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے امرت کور پر تبصرہ کیا۔ ہم دونوں حویلی کے درمیان میں آ بیٹھے تھے اور ملازم سے چائے لانے کا کہہ کر وہیں باتیں کرنے لگے تھے۔
’’میں بھی یہ بات سمجھ رہا ہوں۔ کیونکہ اس نے پنجابی شاعر بلھے شاہ کا جو کلام پڑھا ہے نا، اس میں وہی تمہارا مسئلہ ہے۔ کلام سنا کر اس نے یہ باور کرا دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ تمہارے مسئلہ سمجھ گئی ہے، لیکن۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ خاموش ہو گیا پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔ ’’لیکن جو اس نے دوسرا کہا ہے وہ کیا ہے؟ اس کی سمجھ تو آنی چاہیے نا؟‘‘
’’بالکل۔۔۔! میں خود اس تجسس میں ہوں۔ باقی میں بھی تو تیری طرح ہی ہوں‘‘۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اصل میں ان کا سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ شام ہونے سے پہلے پہلے پورے گاؤں میں یہ خبر پھیل جائے گی کہ امرت کور کی خاموشی ٹوٹ گئی ہے۔ کیسے ٹوٹی، کیوں ٹوٹی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی تُو اور میں زیر بحث آئیں گے۔ لوگ ہم سے پوچھیں گے ، تو ہم کیا جواب دیں گے‘‘۔
’’یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے بھان سنگھ جی، جن سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں۔ ان پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ خاموشی ہم نے نہیں امرت کور نے توڑی ہے۔ سوال اس سے ہونا چاہئے‘‘۔ میں نے اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی۔
’’ہاں۔۔۔! بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو، ہم کیوں پریشان ہوں۔ چلو لوگوں سے تو کسی طرح کہہ سن لیں گے، لیکن کیا ہم خود بھی یہ جاننا نہیں چاہیں گے۔ اس نے خاموشی نہ صرف توڑی، بلکہ تمہیں دیکھ کر جو لفظ کہے، پھر اس کا تم سے والہانہ ملنے کا انداز اسے بھی نظر انداز کر دیں گے۔ یہ کیا گورکھ دھندا ہے یار‘‘ اس نے اکتاتے ہوئے انداز میں کہا تو میں ہنس دیا۔ اس وقت ملازمہ ٹرے میں چائے لے کر آتی دکھائی دی۔ اس نے ٹرے رکھی اور واپس پلٹ گئی۔ تو میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’یار جس طرح یہ سوال ہمارے سامنے آ گئے ہیں نا یار۔۔۔ اسی طرح ان کے جواب بھی مل جائیں گے۔ تو فکر نہ کر، اور اپنے اس دماغ پر زور نہ دے جو پہلے ہی تمہاری کھوپڑی میں نہیں ہے۔ چائے پی اور سکون کر۔۔۔‘‘
’’بات تو تیری ٹھیک ہے یار، میں ایسے ہی پریشان ہو رہا ہوں‘‘۔ اس نے اپنا سر جھٹکتے ہوئے کہا اور چائے کے پیالے کو اٹھا لیا۔ اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان یہ موضوع باتوں کی حد تک ختم ہی گیا، لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتا تھا کہ جس طرح مختلف سوال میرے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے، بھان سنگھ بھی کچھ ایسی ہی حالت میں تھا۔ کیونکہ باتیں کرتے کرتے اچانک وہ بھی کہیں کھو جاتا تھا۔ ہم چائے پی چکے تو وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ ’’چل آ یار، کھیتوں کی طرف چلیں، لیکن اگر تُو آرام کرنا چاہتا ہے تو اوپر کمرے میں جا کر سوجا‘‘۔
’’نہیں چلتے ہیں۔ کھیتوں کی طرف ، اس ماحول کا اپنا ہی سرور ہے‘‘۔ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔ بھان سنگھ نے ہانک لگا کر ملازمہ کو بتایا اور ہم حویلی سے نکلتے چلے گئے۔
ہم گاؤں سے نکل کر کافی دور تک کھیتوں میں چلے گئے تھے۔ بھان سنگھ اپنے بچپن کی باتیں بتاتا جا رہا تھا۔ یونہی چلتے ہوئے ہم ان کی زمینوں پر موجود کنویں پر چلے گئے۔ وہ اب بھی اسے کنواں ہی پکارتے تھے، حالانکہ اب وہاں اس کا وجود نہیں رہا تھا۔ بجلی سے چلنے والا ٹیوب ویل تھا۔ مہال والا کنواں تو کب کا ختم ہو چکا تھا۔ جیسے بیل چلاتے تھے۔ ان کا ایک نوجوان سا ملازم وہاں تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس نے وہاں بنے ہوئے ایک کمرے سے دو کرسیاں نکالیں اور ہمارے قریب رکھ دیں۔ ہم وہاں پیپل کے گھنے درخت کے تلے بیٹھ گئے۔ گندم کی فصل پکنے کے لیے اپنا رنگ بدل رہی تھی۔ کسی کسان کے لیے یہ دورانیہ بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ اپنے بچپن اور لڑکپن کی باتیں سناتے ہوئے اچانک بھان سنگھ نے کہا۔
’’یار وہ امرت کور نے تیرے جانے پر بھی پابندی لگا دی ہے، اب وہ یہ کہے دو مہینے، لیکن تیرا ویزہ۔۔۔‘‘
میں سمجھ گیا کہ وہ اب تک وہیں کہیں گرو دوارے میں امرت کور کے کہے ہوئے لفظوں میں ہی اٹکا ہوا ہے۔ وہ اس وقت نہیں نکلے گا جب تک کوئی سمجھ میں آنے والی بات اس کی عقل میں نہ پڑ جائے۔ میں مجبور اس لیے تھا کہ مجھے بھی تو کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی اور میں کسی بھی اٹکل پچو سے یا خواہ مخواہ کی بحث سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا۔
’’او کچھ نہیں ہوتا، میں بس دو دن مزید ہوں تیرے پاس، پھر میں نے چلے جانا ہے۔ کیونکہ تیرے کہنے کے مطابق امرت کور نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ میرا کام تو ہو گیا، اب تُو جانے اور تیری امرت کور‘‘۔ میں نے صاف لفظوں میں اپنے آئندہ پروگرام کے بارے میں بتا دیا۔ تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا، پھر ہنستے ہوئے بولا۔
’’نہ پتر۔۔۔! اب تُو اس وقت تک نہیں جا سکتا، جب تک وہ اجازت نہ دے‘‘۔
’’میں خود اس سے اجازت لے لوں گا‘‘۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’یار۔۔۔! اس کے لفظوں سے لگتا تھا کہ جیسے وہ تیرے انتظار میں ہے اور ۔۔۔‘‘
’’خدا کے لیے بس کر دے یار‘‘۔ اس بار میں نے واقعتاً اکتاتے ہوئے کہا۔ ’’چھوڑ دے یار اب‘‘۔
’’اوکے۔۔۔! اب کوئی بات نہیں کروں گا، تُو ناراض نہ ہو‘‘۔ اس نے بھی ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے بات بدل دی۔ ہم کافی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ پھر جب دل بھر گیا تو اٹھ کر واپسی کے لیے چل دیئے۔
حویلی میں سب آ گئے ہوئے تھے۔ میری توقع کے مطابق ان لوگوں نے بھی مجھے حیرت اور تجسس سے دیکھا تو میں گھبرا گیا کہ یا خدا یہ میں کس چکر میں آ گیا۔ یہ لوگ بھی مجھ سے وہی سوال کریں گے، میں جن کے بارے میں جانتا ہی نہیں ہوں۔ پھر غنیمت یہ ہو ا کہ بھان سنگھ کے باپو اور چا چا دونوں نہیں تھے۔ انیت کور ہی سے سامنا ہوا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی بولی۔
’’بیٹھو پتر۔۔۔! میں لنگر لاتی ہوں‘‘۔
ہم دونوں وہیں دالان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد انیت کور برتنوں کی ٹرے اٹھائے آ گئی اور کھانا ہمارے سامنے رکھ دیا۔ وہ دال اور سبزی ملا کر کوئی سالن بنایا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ پتلی پتلی بڑی بڑی گندم کی روٹیاں تھیں۔ جنہیں منڈے کہا جاتا ہے ۔ پانی وغیرہ قریب رکھ کر وہ بولی۔
’’تم لوگوں نے گرو دوارے میں لنگر کیوں نہیں کھایا، کہاں چلے گئے تھے‘‘۔
’’بس ماں جی، ہم ادھر حویلی آ گئے تھا‘‘۔ میں نے جلدی سے کہا۔
’’تم کہیں اس امرت کور کی اوٹ پٹانگ باتوں سے تو نہیں گھبرا گئے ہو۔ پتر۔۔۔! اس کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دینا۔ وہ ایسے کرتی رہتی ہے پاگل جو ہوئی‘‘۔ انیت کور نے عام سے لہجے میں کہا تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور لنگر کھانے کی طرف متوجہ رہا۔ یہ اچھا ہوا تھا کہ اس وقت میرے ذہن میں ابلتے ہوئے سوالوں کے آگے انہوں نے بند باندھ دیا تھا۔ ہم لنگر کھا چکے تو وہ برتن سمٹتے ہوئے بولیں۔ ’’چلو جاؤ اوپر جا کر آرام کرو۔ شام کو باتیں ہوں گی‘‘۔
میں اس وقت چاہتا بھی یہ تھا۔ میں نے کوئی مزید بات نہیں کی اور اوپر کمرے کی طرف چلا گیا۔ میرے پیچھے ہی بھان سنگھ آ گیا۔ پھر ہم جو سوئے تو شام ہی کی خبر لائے۔
شام ہوتے ہی میں ملحقہ غسل خانے میں خوب نہایا۔ پھر ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر باہر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ بھان سنگھ مجھ سے پہلے ہی باہر چلا گیا ہوا تھا۔ میں ابھی باہر جانے کا سوچ رہا تھا کہ ان کی ملازمہ مجھے بلانے کے لیے آ گئی۔ صحن میں کافی ساری کرسیاں بچھی ہوئیں تھیں اور سارا خاندان وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں تین مزید افراد تھے۔ جنہیں پہلے میں نے اس گھر میں نہیں دیکھا تھا۔ میرے بیٹھے ہی پردیپ سنگھ نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔
’’یہ سردار سریندر سنگھ جی ہیں، یہ ساتھ میں ان کی استری ست نام کور جی اور ان کے ساتھ ان کی بیٹی گینیت کور ہیں۔ یہ خاص پر تم سے ملنے کے لیے آئے ہیں‘‘۔
’’جی بہت مہر بانی ان کی، میں شکر گزار ہوں ان کا‘‘۔میں نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا تو چاچی جسمیت کور بولی۔
’’پتہ ہے پتر، یہ کون ہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ فوری بولیں۔ ’’خیر تمہیں کیا پتہ ہو گا وہ جو دن کے وقت تمہیں امرت کور ملی تھی نا، یہ اس کے بھائی اور بھابی ہیں یہ بہت خوش ہیں کہ تمہاری وجہ سے نہ صرف اس کی خاموشی ٹوٹی بلکہ وہ اپنے حواسوں میں بھی آ گئی ہے‘‘۔
’’کیسے؟‘‘ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا تو سریندر سنگھ بولا۔
’’وہ گرو دوارے سے گئی ہے تو بہت خوش تھی۔ ان سب کے ساتھ ہنس ہنس کے باتیں کیں۔ ان کے بارے میں پوچھتی رہی۔ ان سے باتیں کرتی رہی۔ ان کے ساتھ کھاتی پیتی رہی۔ پہلے تو وہ شام کے وقت ایک چکر گاؤں لگا کر آ جاتی تھی لیکن آج وہ گھر سے نہیں نکلی‘‘۔
’’اور پتر پہلے اس نے ہمیشہ سفید لباس پہنا تھا۔ مگر آج جاتے ہی اس نے گہرے سبز رنگ کا لباس پہنا۔ باتیں بھی ساری اس نے ہوش مندوں والی کیں ہیں۔ جیسے پہلے کبھی پاگل تھی ہی نہیں‘‘۔ ست نام کور نے اپنے طور پر مجھے معلومات دیں۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھا۔ سبھی میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے۔ بس ایک تبدیلی تھی۔ دادی پرونت کور کے چہرے پر اب وہ تجسس ، حیرت اور تعجب نہیں تھا، اس کی جگہ دھیمی دھیمی مسکان تھیں اور اس مسکان میں تو پیار جھلک رہا تھا۔ میں اس تبدیل پر حیران تھا۔ چند لمحوں کے لیے خاموشی کے بعد چا چا امریک سنگھ بولا۔
’’چلو اچھا ہے، ہمارے مہمان کی وجہ سے تمہارے پریوار کا ایک جی عقل مند ہو گیا‘‘۔
’’کوئی جی ہوتے ہیں نا رب کے پیارے، خوش قسمت، جن کی وجہ سے کسی کے دن پھر جاتے ہیں۔ ہم بس اس بچے کو دیکھنے آئے تھے۔ جس کی وجہ سے ہمیں یہ خوشی ملی‘‘۔ سریندر پال سنگھ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بہن جسمیت۔۔۔! تجھے تو معلوم ہے کہ کتنی منت مراد مانگی تھی کہ یہ ٹھیک ہو جائے۔ پر گورو جی جانے کیا بات تھی‘‘۔ ست نام کور بولی تو پردیپ سنگھ نے جذب میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہر کام قسمت سے اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ جس کام کا جو وقت رب نے مقرر کیا ہو ا ہے، وہ تبھی ہوتا ہے، بس جی وسیلے بنتے ہیں۔ بہن امرت کور نے اس بچے بلال کے وسیلے سے ٹھیک ہونا تھا، رب کی مرضی اس میں تھی‘‘۔
’’مانتے ہیں بھائی جی‘‘۔ ست نام کور نے خوشی بھرے لہجے میں کہا۔ پھر وہ فہرست سنانے لگی کہ کس کس جگہ کیا کیا منت اس نے مانی تھی۔ مجھے یہ سب مذاق لگ رہا تھا، بلکہ مجھے تو بھان سنگھ کے ساتھ آنا ہی مذاق لگ رہا تھا۔ مگر ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ یہ کوئی مذاق ہے بلکہ مجھے یہ حقیقت لگ رہی تھی، اس میں کیا ڈرائی پہلو پنہاں ہے۔ میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کیونکہ جس وقت میں دوپہر کے وقت سونے کے لیے لیٹا تھا تو امرت کور کے ساتھ جو وقت گزرا تھا وہ مجھے دوبارہ سے یاد آنے لگا تھا، خاص طور پر جب اس نے بلھے شاہ جی سرکار کے حوالے سے کلام پڑھا تو اس کا جذب بتا رہا تھا کہ وہ میری آمد کے بارے میں جان گئی ہے، اس کے علاوہ جس شدت سے اس نے مجھے گلے لگایا، مجھے پیار کیا اور خاص طور پر وہ لفظ جو اس نے کہے کہ میں آ گیا ہو، مطلب وہ میری منتظر تھی؟
’’کہاں کھو گیا ہے پتر تو۔۔۔بھائی سریندر جی تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں‘‘۔ چاچی جسمیت کور نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو میں چونک گیا۔
’’جی فرمائیں۔۔۔!‘‘ میں نے تیزی سے کہا تو سریندر سنگھ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے پوچھا۔
’’میں پوچھ رہا ہوں پتر کہ کچھ ہمیں سیوا کا موقع دو۔ ہمارے ساتھ ایک دو دن رہو مہمان بن کر‘‘۔
’’سردار جی، میں تو اپنے آپ کو پورے گاؤں کا مہمان سمجھ رہا ہوں۔ باقی جیسے آپ کی مرضی، میرا میزبان تو بھان سنگھ ہے۔ جیسے کہے گا میں تو ویسا ہی کروں گا‘‘۔ میں نے بڑے اطمینان سے سارا بوجھ بھان سنگھ پر ڈال دیا کہ وہی اس مصیبت کی جڑ ہے۔ اس لیے خود ہی بھگتے۔
’’کیوں نہیں بھائی جی، واہ گرو نے آپ کو خوشی دی ہے تو آپ کا حق بنتا ہے۔ یہ دونوں ہی آپ کے مہمان بنیں گے۔ میں بتا دوں گی آپ کو‘‘۔ انیت کور نے اس موقع کو سنبھال لیا۔ تب کچھ دیر وہ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اٹھ گئے۔ میں اس دوران خصوصی طور پر دادی پرونت کور کے چہرے تاثرات ضرور نوٹ کرتا رہا تھا کہ وہاں کیسے جذبات ہیں لیکن۔۔۔! وہاں کچھ نہیں تھا، سوائے ہلکی ہلکی خوشی کے جو ان کے چہرے پر سے عیاں تھی۔ تبھی پردیپ سنگھ نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ویسے بلال پتر۔۔۔! بھان سنگھ نے مجھے تمہارے بارے میں تھوڑا بہت بتایا تو تھا، لیکن اگر تم اپنے بارے میں خود بتاؤ تو مجھے اچھا لگے گا‘‘۔
’’آپ کس پہلو سے پوچھنا چاہیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہی کہ لاہور میں کہاں رہتے ہیں، باپو جی کیا کرتے ہیں، اپنے پریوار کے بارے میں بتاؤ‘‘۔ انہوں نے خوش دلی سے کہا ۔
’’میں اپنے خاندان کے ساتھ کبھی سمن آباد کے علاقے میں رہتا تھا۔ بہت چھوٹا تھا اس وقت جب میرے والد ایک جدید علاقے ماڈل ٹاؤن میں شفٹ ہو گئے تھے۔ ہم دو ہی بہن بھائی ہیں۔ بہن فرحانہ مجھ سے چھوٹی ہے۔ میری والدہ ہیں اور میرے دادا جی، یہی ہمارا مختصر سا خاندان ہے۔ والد صاحب کا نام علی اکبر ہے۔ انہوں نے کچھ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن لڑکپن ہی میں انڈسٹری کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ پھر وہ دنوں میں ترقی کرتے گئے اور آج ہمارا بہت اچھا بزنس ہے۔ چونکہ میرے والد خود نہیں پڑھ سکے تھے، مگر ان کے دل میں یہ حسرت تھی کہ مجھے خوب پڑھائیں لکھائیں۔ پھر اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے بھی خوب توجہ دی مجھ پر اور اب یہاں سے جاتے ہی ان کے ساتھ بزنس دیکھوں گا‘‘۔ میں نے تفصیل سے بتایا تو پرونت کور نے بڑے معنی خیز انداز میں پر تجسس لہجے میں پوچھا۔
’’تمہارے دادا ابھی زندہ ہیں۔۔۔‘‘
’’جی ، اﷲ کے کرم سے ان کا سایہ ہم پر ہے۔ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں‘‘۔ میں نے بہت رسان سے بتایا۔
’’کیسی صحت ہے ان کی‘‘۔ انہوں نے پھر پوچھا۔
’’جب میں بریڈ فورڈ گیا تھا، تب تو بہت اچھے تھے۔ چلتے پھرتے ہیں۔ مسجد جاتے ہیں، صبح کی واک کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو بہت کچھ خرید کر لاتے ہیں بازار سے۔ میری ان سے بات ہوتی رہتی ہے۔ وہ شدت سے میرے منتظر ہیں۔ اب آپ نے یاد دلایا تو دل کرتا ہے ابھی اُڑ کر ان کے پاس پہنچ جاؤں‘‘۔ میں نے دادا جی کے ذکر پر جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ تو ہولے سے مسکرا دیں۔ تبھی پریتو نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’دیکھا بڑے باپو جی، ہر بندہ اپنی عمر کے بندے کے بارے میں ہی پوچھے گا، آپ نے ان کے والد کے بارے میں پوچھا، دادی جی نے ان کے دادا کے بارے میں اور میں اب فرحانہ کے بارے پوچھ لیتی ہوں اور تائی جی آپ ان کی امی کے بارے پوچھ لیں‘‘۔
اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ ایک قہقہہ لگ گیا۔
’’دیکھ امریک تیری بیٹی ۔۔۔!‘‘ انیت کور نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ، تو وہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’بیٹی میری ہے پر ساری تربیت تیری ہے، اب بھگتو‘‘۔
’’اچھا ویسے مذاق اپنی جگہ رہا، میں ایک صلاح دیتی ہوں، آپ سب سوچ لو‘‘۔ وہ پُرتجسس انداز میں بولی۔
’’وہ کیا‘‘۔ امریک بولا۔
’’کیوں نا بلال کے ہوتے ہوئے ہی بھان اور پریتو کی شادی کر دی جائے؟‘‘ اس نے پیار سے پریت کی طرف دیکھا تو وہ تیزی سے اٹھ کر اندر چلی گئی۔
’’ویسے خیال تو ٹھیک ہے‘‘۔ پردیپ سنگھ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’آپ جو مرضی کرو جی، جب بیٹی دے دی تو دے دی، آج نہیں تو کل۔۔۔ کل نہیں تو آج‘‘۔ جسمیت کور نے کہا تو میں جلدی سے بولا۔
’’دیکھیں۔۔۔! میں ایک دو دن میں چلا جاؤ گا۔۔۔ آپ اطمینان سے، ان کے بارے میں جو فیصلہ کریں، میں رابطہ میں رہوں گا، ممکن ہے میں خصوصی طور پر دونوں کی شادی پر دوبارہ آ جاؤں۔ آپ اپنی خوشیوں کو بہت اچھے انداز میں منائیں‘‘۔
’’یار تو دو ہفتے تو کم از کم رہو‘‘۔ امریک نے کہا۔
’’نہیں چا چا جی، میں اب جاؤں گا۔ کل یا پرسوں نکل جاؤں گا۔ میرے گھر والے میرے منتظر ہوں گے۔ اب تک ان کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہیں ہوا۔ وہ پریشان ہوں گے‘‘۔ میں نے اپنی مجبوری بتائی تو وہ سرہلانے لگے۔
’’رابطے کی کیا پریشانی ہے، تم فون کر لو، انہیں تفصیل سے ہمارے میں بارے میں بتا دو۔ ہم بھی ان سے بات کر لیں گے‘‘۔ امریک سنگھ نے کہا۔
’’چلیں میں ان سے رابطہ کر لیتا ہوں، لیکن میں بہت معذرت کروں گا کہ میں نے جانا ہے، پھر میں آ جاؤں گا۔مجھے معلوم ہے کہ میری آواز جیسے ہی میرے والدین کے کانوں میں پڑی انہوں نے فوراً لاہور پہنچنے کا حکم دے دینا ہے اور پھر مجھ سے بھی نہیں رہا جانا‘‘۔
’’اوکے۔۔۔! جیسے تیری مرضی، پھر بھان کی شادی پر تو آ جانا‘‘۔ پردیپ سنگھ نے میری بات سمجھتے ہوئے کہا۔
’’اور دوسری بات ۔۔۔! یہ مجھے کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ بہت جلد لاہور آئیں گے‘‘۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’کیوں نہیں ضرور۔۔۔! بلکہ تجھے دیکھ کر تو میں نے اس دفعہ بیساکھی پر جنم استھان جانے کا فیصلہ کر لیا ہوا ہے۔ میں تو یہ بھان اور پریتو کی شادی دیکھ رہا ہوں‘‘۔ پردیپ سنگھ نے کہا تو پھر اس موضوع پر باتیں ہونے لگیں۔ کچھ دیر مزید باتوں کے بعد ہم وہاں سے اٹھ گئے۔
میرا ارادہ تھا کہ میں فون کی بجائے کمپیوٹر سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رابطہ کروں؟ کیونکہ میں نے انہیں نہیں بتایا تھا کہ میں بھارت کے سفر پر جا رہا ہوں۔ سیاسی حالات اور خصوصاً بھارت سے روایتی دشمنی کے باعث وہ مجھے کبھی اجازت نہ دیتے کہ میں مشرقی پنجاب جاؤں۔ کمپیوٹر کے ذریعے انہیں معلوم ہی نہیں ہونا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میرا دل ہمک گیا تھا، اس لیے میں نے بھان سنگھ سے پوچھا۔
’’اوئے ادھر تیرا کوئی کمپیوٹر ہے۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ بک کروا دیا تھا اپنے سامان میں‘‘۔
’’پریتو کے پاس ہے اس کا لیپ ٹاپ ، اس سے لے لیتے ہیں آؤ‘‘۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ہم دالان میں آئے تو دادی پرونت کور نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بلال۔۔۔! تیرے دادا کی کوئی تصویر ہے تیرے پاس‘‘۔
’’میرے پاس تو نہیں، مگر میں دکھا سکتا ہوں، ابھی پریتو سے کمپیوٹر لاتا ہوں تو اس میں سے۔۔۔‘‘
’’تو دادی کے پاس بیٹھ میں لاتا ہوں لیپ ٹاپ‘‘۔ بھان نے جلدی سے کہا اور پریتو کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اسے بس موقع چاہئے تھا۔ میں اور دادی وہیں تنہا رہ گئے۔ تب اس نے مجھ سے کہا۔
’’تُو الجھن میں ہے نا کہ امرت کور کی خاموشی تجھے دیکھ کر کیوں ٹوٹی؟ تو جاننا چاہتا ہے؟‘‘
’’جی دادی۔۔۔!‘‘ان کے اچانک اس سوال پر میں چونک گیا۔
’’تجھے دیکھ کر اس کی خاموشی ٹوٹنا ہی تھی۔ خود میں تجھے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی ‘‘۔ پرونت کور نے گہرے لہجے میں کہا تو میں حیرت سے ششدر رہ گیا تھا۔
’’نہ پتُر، تُو اتنا پریشان نہ ہو، تو ایسا کر چل میرے کمرے میں، میں تیری ساری الجھن دور کر دیتی ہوں‘‘۔ دادی پرونت کور نے کہا تو میں اپنے آپ میں آیا۔ وہ جو میرے دل و دماغ میں کھٹک رہا تھا کہ اس میں کوئی راز ہے ضرور ممکن ہے وہ سامنے آ جانے کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے دادی پرونت کور کو سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے ساتھ آہستہ قدموں سے ان کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بڑا سادہ سا کمرہ تھا۔ دیواروں پر سفید پینٹ تھا اور دائیں طرف کی دیوار پر ایک بڑی سی تصویر بابا جی گرو نانک کی لگی ہوتی تھی۔ ایک آبنوس انداز کا بیڈ تھا۔ ایک صوفہ اور دو کرسیاں تھیں۔ صاف ستھرا، ہوا دار روشن کمرے میں وہ جاتے ہی اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں اور میں ایک کرسی گھسیٹ کر بالکل ان کے پاس جا بیٹھا۔میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ خیالوں میں کھوئی ہوئیں تھیں۔ پھر اچانک سر اٹھا کر بولی:
’’تیرے دادا کا نام نور محمد ہے نا۔۔۔؟‘‘
پرونت کور کے منہ سے اپنے دادا جی کا نام سن کر میں پھر حیرت زدہ رہ گیا۔ یہاں آ کر میں نے ایک بار بھی ان کا نام نہیں لیا تھا۔
’’جی ، یہی ہے۔۔۔‘‘
’’اونچا لمبا، گورے رنگ کا، بڑی گہری آنکھیں، لمبا ناک اور خاص بات یہ ہے کہ اس کی دائیں آنکھ کے ساتھ ایک تل ہے‘‘۔ وہ خیالو ں میں ڈوبی کہتی چلی گئی۔
’’جی ہاں۔۔۔! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں‘‘۔ میں نے انتہائی تجسس سے کہا۔
’’تو سن پتر۔۔۔! وہ تیرا دادا یہیں اس گاؤں کا رہنے والا تھا‘‘۔
’’میرے دادا جی کا تعلق اس گاؤں سے ہے‘‘۔
’’ہاں۔۔۔! اور پتر، میں جو کچھ تجھ بتانے جا رہی ہوں، وہ بالکل سچ ہے، اور سچ بڑا کڑوا ہوتا ہے۔ اپنے دل کو بڑا مضبوط کر کے ساری باتیں سننا، رب کی جو مرضی تھی، وہ ہوتی ہے، کوئی بندہ اس میں کچھ نہیں کر سکتا تھا‘‘۔
’’دادی آپ بتاؤ میں سننے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ میں اس وقت ایسی حالت میں تھا کہ میرا پورا بدن سن ہو چکا تھا میرا دورانِ خون میری کنپٹیوں میں ٹھوکریں مار رہا تھا۔ میں یہ سوچ کر ہی حیرت زدہ تھا کہ میرے آباء کا تعلق اس گاؤں میں ہے جہاں میں اب اتفاق سے موجود ہوں۔ انتہائی تجسس سے میرا دماغ سلگ رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہیں، بھان سنگھ لیپ ٹاپ لیے آ گیا۔ مجھے اس وقت اس کی آمد بہت بری لگی تھی۔
’’یہ لے ۔۔۔ نیٹ چل رہا ہے‘‘۔ اس نے یہ کہتے ہوئے لیپ ٹاپ مجھے ہاتھ میں تھما دیا۔ میں نے وہ لیا اور بیڈ پر رکھ دیا۔ وہ باہر چلا گیا۔ اسکرین روشن تھی۔ دادی خاموش ہو گئی تھی۔ اس لیے میں لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ میں دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ فرحانہ آن لائن ہو۔ وہ آن لائن ہی تھی۔ وہ معمول کے مطابق میری خیر خیریت دریافت کرنے لگی، میں نے سب کا پوچھا۔ اس نے سب کی خیریت بتائی، میں نے دادا جی کا پوچھا، تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ میں نے ان سے گپ شپ لگانے کے لیے کہا۔کچھ دیر بعد وہ کیمرے کے سامنے تھے۔ میں نے ان کا حال احوال پوچھا اور پھر ان کی تصویریں محفوظ کر لیں۔ حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے رابطہ منقطع کر دیا۔
’’دادی یہ ہے میرے دادا جی‘‘۔
میں نے ان کی تصویریں دادی کو دکھائیں وہ نہایت تجسس اور حیرت سے دیکھتی رہی، پھر سراسرتے ہوئے لہجے میں بولیں۔ مجھے لگا جسے وہ خود کلامی کر رہی ہیں۔
’’بالکل وہی۔۔۔ بوڑھا ہو گیا ہے۔۔۔ وہ دیکھو تل۔۔۔ اب تو داڑھی بھی رکھ لی ہے‘‘۔ پھر وہ سر اٹھا کر بولیں۔ ’’تجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ تُو بہو ہو اپنے دادا کی تصویر ہے۔ تیرا دادا جب تیری عمر میں تھا تو بالکل تم جیسا تھا‘‘۔
’’ہاں یہ تو ہے، میری شبیہ، میرے باپ سے زیادہ میرے دادا جی پر ہے‘‘۔
’’بس یہی دیکھ کر امرت کور کی خاموشی ٹوٹی ہے پتر۔۔۔! وہ جب اس سے بچھڑا تھا، تب وہ تیری عمر ہی کا تھا، اسے یہی لگا ہے کہ نور محمد واپس آ گیا ہے‘‘۔
’’دادی یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔ مجھے بتاؤ نا‘‘۔ میں نے انتہائی تجسس سے کہا تو وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر بڑے جذب سے کہتی چلی گئی۔
’’میں اور امرت کور دونوں گہری سہیلیاں تھیں۔ سارے راز نیاز ایک دوسرے سے کر لیتی تھیں۔ ان دنوں ملک تقسیم ہونے کی باتیں چل رہی تھیں۔ جب میری اور امرت کور کی عمریں سولہ سترہ سال کے قریب ہوں گی‘‘۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔ پھر چند لمحے ٹھہر کر کہتی چلی گئی۔
’نی پرونتے۔۔۔! وہ دیکھ نور محمد آ رہا ہے۔ آج اس سے بات کر کے ہی چھوڑنی ہے۔ بڑی اکڑ ہے اس میں میری بات ہی نہیں سنتا‘‘۔ امرت کور نے گلے میں پڑا ہوا دوپٹہ درست کرتے ہوئے کہا۔ تب پرونت نے اس طرف دیکھا، جدھر سے نور محمد بیل گاڑی پر بیٹھا آ رہا تھا۔ شام ہونے کو تھی۔ مغربی افق رنگین ہو گیا ہوا تھا۔ یوں جیسے بسنتی چادر اوڑھ کر اندھیرے میں سورج گم ہو جانا چاہتا ہو۔ نور محمد بیل گاڑی پر سوار تھا اور جو آہستہ آہستہ چلتی چلی آ رہی تھی۔ کچے راستے پر وہ دونوں درخت کے پاس کھڑی تھیں۔ کچے راستے کے دونوں اطراف ایسے بے شمار درخت تھے جو دور تک چلے گئے ہوئے تھے۔ کھیتوں سے گاؤں کی طرف آنے والا وہ واحد راستہ تھا۔ دوسرا راستہ گاؤں کی پرلی طرف تھا جو شہر کی جانب جاتا تھا۔ پرونت کور کو نہیں معلوم تھا کہ آج امرت کور کے دل میں کیا ہے، مگر اسے اتنا معلوم تھا کہ وہ اسے چاہتی بہت ہے۔ نہ جانے کب سے نور محمد کی چاہت اس کے من میں آبسی تھی۔ نور محمد تھا بھی بڑا گھبرو جوان، گورا چٹا، تیکھے نین نقش والا، لمبے قد کا ۔ وہ تھا بڑا معصوم، بس اسے اپنے کام سے غرض ہوتی تھی۔ صبح وہ کھیتوں کی طرف جا نکلتا اور شام ڈھلے لوٹتا۔ ایسے ہی کسی وقت نور محمد کو ایک نگاہ دیکھنے کے لیے امرت کو ر گھر سے نکل آئی تھی۔ اس دن امرت کور کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ پرونت کور گھبرا گئی۔ اس نے جلدی سے کہا۔
’’کیا بات کرنی ہے تُو نے اس سے، ایویں کوئی غلط بات نہ کہہ دینا‘‘۔
’’غلط بات کیسی، میں نے تو آج اسے اپنے دل کا حال کہہ دینا ہے، پھر آگے رب جانے کیا ہوتا ہے‘‘۔ اس نے پاگلوں کی طرح نور محمد کو آتے دیکھ کر کہا۔
’’میں نے تمہیں کتنی بارسمجھایا کہ تو جو اس سے پاگلوں کی طرح محبت کر رہی ہے نا اس کا انجام بہت بھیانک ہونے والا ہے، تیرے باپو بلوندر سنگھ کو اگر بھنک بھی پڑ گئی نا، تو پھر تم دونوں میں سے کوئی ایک نہیں ہے۔ تجھے پتہ ہے وہ کتنا ظالم ہے‘‘۔ پرونت کور نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’جو تو کہہ رہی ہے، میں جانتی ہوں پرونت۔۔۔! پر میں اس دل کا کیا کروں جو کسی کی مانتا ہی نہیں، ہر وقت اس نور محمد کا خیال رہتا ہے، سا را دن اور ساری رات۔۔۔ مجھے بھی کوئی علاج بتانا۔۔۔‘‘امرت کور الجھے ہوئے انداز میں بولی۔
’’تیرا علاج بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ پر تُو نے نور محمد سے کچھ نہیں کہنا، ایویں کیوں اس کی جان کی دشمن بن رہی ہے‘‘۔ اس نے سمجھایا۔
’’پر میں کیا کروں۔ وہ تو میری طرف دیکھتا بھی نہیں ہے‘‘۔ وہ بیل گاڑی کو قریب آتے ہوئے دیکھ کر تیزی سے بولی۔
’’میں مانتی ہوں کہ محبت میں انسان اپنے آپ سے بے بس ہو جاتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں موت کے منہ میں جا پڑے‘‘۔ اس نے سمجھایا۔
’’اسے پتہ تو ہو کہ میں اس کے لیے کتنا تڑپتی ہوں۔ راتیں آنکھوں میں کاٹتی ہوں۔۔۔‘‘ امرت کور نے نور محمد کی طرف دیکھ کر کہا جو بالکل اس کے قریب آ چکا تھا۔ پھر ہاتھ کے اشارے سے اسے بیل گاڑی روکنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ’’روک۔۔۔ روک۔۔۔ ہمیں بھی گاؤں تک لے چل‘‘۔
نور محمد نے بیل گاڑی روک دی۔ وہ دونوں اچھل کر بیل گاڑی میں لدے ہوئے چارے پر بیٹھ گئیں تو اس نے بیلوں کو ہانک دیا۔ پھر ان دونوں سے مخاطب ہو کر بولا۔
’’یہ تم دونوں ایسے کیوں پھرتی رہتی ہو۔ شام ہونے سے پہلے گھر چلے جاتے ہیں۔ دیکھتی نہیں ہو دن ڈوب چلا ہے‘‘۔
’’کیا کریں گھر میں بیٹھ کر، جب دل میں کسی کے لیے آگ لگی ہو‘‘۔ امرت کور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہذیانی انداز میں کہا ۔ تو وہ چونک گیا۔ پھر بولا۔
’’امرت کورے۔۔۔! اب تُو بچی نہیں رہی بڑی ہو گئی ہے۔ گھر میں رہا کر اور ایسی فضول باتیں نہ کیا کر۔ گھر کے سو کام ہوتے ہیں۔ وہ کیا کر‘‘۔
’’نوکر چاکر تھوڑے ہیں گھر کے کام کرنے کے لیے۔ میں کیوں کروں‘‘۔ وہ تنک کر بولی۔
’’تو پھر گھر میں بیٹھ کر رب رب کیا کر۔ سکول میں جو تُو نے چار جماعتیں پڑھی ہیں، وہ بھی ضائع کر رہی ہے‘‘۔ نور محمد نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’نور محمد۔۔۔! مجھے یہ تو بتا، جب کوئی کسی کو پیارا لگنے لگے تو بندے کو کیا کرنا چاہئے؟‘‘ امرت کور نے یوں کہا جیسے وہ دور کہیں سے بات کر رہی ہو۔
’’اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے کسی وید یا حکیم سے۔ یہ جوانی ہر کسی پر آتی ہے، پر اسے سنبھالتا کوئی کوئی ہے۔ سچا صرف رب کا نام ہے‘‘۔ وہ جذب سے کہتے ہوئے خاموش ہو گیا۔ پھر بولا۔ ’’امرت کورے، اپنی عزت اور اپنے ماں باپ کی عزت سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہے۔ ہوش کی دوا کر‘‘۔
’’جب من ہی قابو میں نہ رہے تو پھر بھلا بندہ کیا کرے‘‘۔ امرت کور نے اس کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’کہانا رب رب کرے۔۔۔ اسی سے اپنی لَو لگائے‘‘۔ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’نور محمد۔۔۔! تُو مجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔ ہر وقت تُو ہی میری نگاہوں کے سامنے رہتا ہے، میں کیا کروں‘‘۔ امرت کور نے اتنی بڑی بات یوں کہہ دی جیسے اسے ہوش ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ نور محمد ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت پھیل کر جم گئی۔ کتنی دیر تک وہ کچھ بول ہی نہیں پایا۔ جب اس کے حواس قابو میں آئے تو وہ دھیرے سے بولا۔
’’امرت کورے۔۔۔! آج تُو نے یہ بات اپنے منہ سے نکال دی، پھر کبھی ایسی بات سوچنا بھی مت، تجھے معلوم ہے کہ تیری اس بات سے کتنا خون بہہ سکتا ہے۔ کتنے گھر اجڑ سکتے ہیں۔ تجھے ذرا خوف نہیں آیا، اتنی بڑی بات کہتے ہوئے‘‘۔
’’جو سچ ہے وہ میں نے تم سے کہہ دیا، میرے دل میں جو محبت ہے وہ کوئی دوسرا نہیں نکال سکتا‘‘۔ امرت کور پھر سے ہذیانی انداز میں بولی۔
’’تُو پاگل ہے۔ تجھے پتہ ہی نہیں تُو کیا کہہ رہی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر بولا۔ ’’چل میں یہ مان لیتا ہوں کہ تجھے مجھ سے بڑی محبت ہے، تو پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’میں نہیں جانتی کہ کیا ہو گا یا کیا ہونا چاہئے۔ بس دل یہ کرتا ہے کہ تجھے خود میں سمالوں یا میں تم میں سمٹ جاؤں۔ کوئی تو راہ ہو گی ایسی۔۔۔‘‘ وہ پاگلوں کی مانند بولی۔
’’امرت کورے۔۔۔! تُو جس راہ پر چل پڑی ہے، اس میں تُو خود بھی مرے گی اور دوسروں کو بھی مروائے گی۔ یہ تیری کیسی محبت ہے جو ہنستے بستے گھروں کو ڑ کر رکھ دے گی، تُو پاگل نہ بن، ہوش کر ہوش ، میری مان، تو گھر میں رہا کر اور گرنتھ صاحب کا پاٹھ کر کے، اپنی آتما کو شانتی دے۔ ایویں نہ خود لوگوں کی نگاہ میں آ اور نہ مجھے بدنام کر۔۔۔ سمجھا اسے پرونت کور۔۔۔ سمجھا اسے‘‘۔
’’اس کی تو مت ہی ماری گئی ہے۔ تیرے آنے سے پہلے بھی میں اسے یہی سمجھا رہی تھی‘‘۔ پرونت کور نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔
’’تو اسے بٹھا کر سمجھا کہ جس راہ کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی، اس راہ پر چلنا انتہائی فضول ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو تباہ کر لینا اور دوسروں کو ڑ لینا محبت نہیں، نری دیوانگی ہے، محبت تو نام ہے دوسروں کو احترام دینے کا، محبت تو زندگی دیتی ہے، موت کو گلے نہیں لگاتی‘‘۔ نور محمد نے بڑے پُرسکون انداز میں سمجھایا۔اس دوران امرت کور اس کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر ان دونوں کے درمیان یوں خاموشی چھا گئی جیسے کہ ان میں کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔ بیل گاڑی دھیرے دھیرے چلتی رہی اور وہ تینوں اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے خاموش تھے۔بیلوں کے گلے میں بجتی ہوئی گھنٹیاں یہی احساس دلا رہی تھیں کہ ان کے اردگرد زندگی ہے۔ پھر جیسے ہی گاؤں آیا وہ دونوں اتر گئیں اور نور محمد اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
امرت کور دو دن تک گھر سے ہی نہ نکلی۔ تیسرے دن کی صبح تھی جب وہ پرونت کور کے پاس خود ہی آ گئی۔ وہ بڑی خاموش تھی۔ اس کی آنکھیں ہی ویران نہیں تھیں بلکہ اس کے چہرے پر زردی پھیلی ہوئی تھی۔ یوں جیسے اس نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ وہ چپ چاپ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی۔ پرونت کور نے جو تھوڑا بہت گھر کا کام کرنا تھا وہ کر لیا ہوا تھا۔ پھر اپنے گھر کے صحن میں لگے درخت کے نیچے آ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس کا باپو کھیتوں پر صبح ہی صبح چلا گیا تھا اور ماں اس کا کھانا لے کر چلی گئی تھی۔ وہ گھر میں اکیلی ہی تھی۔ پرونت کور نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کروشیے اور دھاگے کو ایک طرف رکھا اور امرت کور سے بولی۔
’’دو دن کہاں رہی تُو؟‘‘
’’میں سوچتی رہی ہوں۔۔۔! نور محمد کو میری محبت سے زیادہ اپنی موت کا فکر ہے۔ وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ میری محبت میرے بس میں نہیں‘‘۔ وہ یوں بولی جیسے اس کی آواز کنویں میں سے آ رہی ہو۔
’’امرت ۔۔۔! میری بہن، وہ جو کہتا ہے وہ ٹھیک کہتا ہے، تجھے سمجھ کیوں نہیں آ رہی ہے، چل مجھے یہ بتا، وہ بھی تجھ سے یہ کہہ دے کہ مجھے تم سے محبت ہے تو پھر کیا ہو جائے گا‘‘۔
’’میں اسے پانے کا ہر جتن کر لوں گی‘‘۔ امرت نے مضبوط لہجے میں کہا۔
’’کیا کرے گی تُو۔۔۔؟‘‘ وہ حیرت سے بولی۔
’’میں اسے لے کر یہاں سے کہیں دور چلی جاؤں گی، اتنی دور کہ ہم تک کوئی پہنچ ہی نہ سکے‘‘۔ وہ اعتماد سے بولی تو پرونت کور کانپ کر رہ گئی۔ وہ لرزتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’یہ تُو بڑا ظلم کرے گی امرت۔۔۔! تیرا اور اس کا پریوار، کیا وہ خون میں نہیں نہا جائیں گے‘‘۔
’’دیکھ۔۔۔! اگر کچھ کرنا ہو نا تو وہ کچھ ہو جاتا ہے جو کبھی سوچا بھی نہ ہو، وہ میری محبت قبول تو کرے، پھر دیکھ میں اسے کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتی ہوں‘‘۔
’’تُو کچھ نہیں کر سکتی۔ اس نے اگر تیری بات نہیں مانی تو ٹھیک کیا ہے اس نے؟ اپنے ماں باپ اور بہن کو بچا رہا ہے، تیرا باپ تو ایک دن میں انہیں مار دے گا‘‘۔
’’تُو یہ مرنے مارنے ہی کی باتیں کیوں کر رہی ہے، ذرا سوچ، اس کی یہاں کتنی زمین ہے، تھوڑی سی تو ہے، وہ اپنے پریوار کو لے کر یہاں سے کسی ایسی جگہ چلا جائے، جہاں میرے پریوار کو پتہ ہی نہ چلے۔ میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں اسے اس سے بھی دوگنی زمین خرید دوں گی۔ اس کا ذرا سا بھی نقصان نہیں ہونے دوں گی۔ بس وہ ایک بار میری بات مان لے؟‘‘
’’ کہاں جائے گا وہ۔۔۔ کہاں لے جائے گی تُو اسے۔۔۔‘‘ وہ بولی۔
’’کہیں بھی، جہاں ہم سکون سے اپنی زندگی گزاریں‘‘۔ امرت کور خوابوں میں ڈوبتی ہوئی بولی۔
’’تُو بس خواب ہی دیکھ، اس سے زیادہ کچھ مت سوچ ، نہ کر اپنی زندگی اجیرن اور اسے بھی دکھوں میں مت ڈال، تیرے باپو جی کی گاؤں میں کتنی عزت ہے، ا س کا خیال کر۔۔۔ اور پھر وہ تیری محبت کا جواب محبت ہی سے کیوں دے، یہ تو من چاہا سودا ہوتا ہے۔ تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دے اور اپنے آپ کو سنبھال‘‘۔
’’چل میں اپنے آپ کو سنبھال لوں گی، مان لیتی ہوں بات تیری، لیکن یہ بتا میں اس قابل بھی نہیں ہوں کہ وہ مجھ سے محبت کر سکے‘‘۔ اس نے حسرت سے کہا۔
’’دیکھ امرت۔۔۔! یہ دلوں کے معاملے ہیں، اس کی شادی، اس کی پھوپی کے گھر ہو جانی ہے، اسے چاہتا ہو گا، نہ بھی چاہے تو وہ اس کی منگیتر ہے۔ پھر سب سے بڑی بات اس کا دھرم کچھ اور ہے، ہمارا دھرم اور۔۔۔‘‘
’’میری محبت اس دھرم کے جھنجھٹ کو نہیں مانتی، میں بس اپنے دل کی بات مانتی ہوں۔ اگر وہ میرا نہ ہو سکا نا تو میں اسے کسی دوسرے کا بھی نہیں ہونے دوں گی‘‘۔ امرت نے اس لہجے میں کہا کہ پرونت کور خود ڈر گئی۔ اس لیے خوف زدہ لہجے میں بولی۔
’’کیا کرے گی تو۔۔۔ اسے بدنام کرے گی، اس پر الزام لگائے گی، کیا یہی تیری محبت ہے؟‘‘
’’او نہیں۔۔۔! میں کیوں اسے بدنام کروں گی یا اس پر الزام لگاؤں گی۔ میں سیدھے سیدھے اسے مار دوں گی، وہ کس کا دولہا بنے میں کیا برداشت کروں گی، اسے یہاں سے جانا ہو گا، اکیلے ہی مجھے اپنے ساتھ لے کر۔ میں اسے مجبور کر دوں گی‘‘۔ امرت کور نے دبے دبے غصے میں کہا تو پرونت کور خاموش ہو گئی۔اسے امرت کور کے پاگل پن سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ کافی دیر تک یہی سوچتی ہوئی خاموش رہی، پھر بولی۔
’’امرت۔۔۔! تیرا یہ پاگل پن تجھے نہ صرف بدنام کر دے گا، بلکہ بہت سارے دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبے گا۔ میں تیری سہیلی ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تُو مجھے بھی اپنے ساتھ ڈبو دے، تُو مہربانی کر، یہ اپنی محبت تُو اپنے پاس ہی رکھ۔ اب مجھ سے ملنے کی کبھی کوشش نہ کرنا، مجھے اپنے ماں باپ اور اپنی عزت زیادہ پیاری ہے۔ تجھے نہ سہی‘‘۔
’’میں جانتی تھی کہ بجائے میرا ساتھ دینے کے تُو یہی کہے گی، جب عشق ہوتا ہے نا تو رب بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے، تم تو صرف میری سہیلی ہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور باہر نکلتی چلی گئی۔ پرونت کور کے دل میں اس کے لیے دکھ کے ساتھ ساتھ نفرت بھی اسی طرح موجود تھی۔
دونوں سہیلیاں بہت عرصہ تک آپ میں نہ مل سکیں، لیکن پرونت کور کو امرت کور کے بارے میں تھوڑا بہت معلوم ہو جاتا رہا۔ دوسری کئی لڑکیاں اس کے بارے میں بتاتی رہتی تھیں۔ امرت کور کی جنونی محبت کا راز، راز رہ ہی نہیں سکتا تھا اور پھر نور محمد بھی تو ایسا گبھرو نوجوان تھا کہ پورے گاؤں کی لڑکیوں کے دل میں بستا تھا۔ کیا مسلمان اور کیا سکھ لڑکی، اسے جب بھی دیکھتی میٹھی نگاہ ہی سے دیکھتی اور وہ مٹی جیسا انسان کسی کو نگاہ بھر کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ بات یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی بزدل تھا، یا دوسرے نوجوانوں کی طرح اس میں جوانی کی ترنگ نہیں تھی۔ وہ نہ صرف جی دار تھا بلکہ بہادر بھی تھا۔ بس مٹی کا مادھو تھا اور اسے گاؤں کی عزت کا خیال تھا۔ یہ امرت کور ہی تھی جو اسے دل تو دے بیٹھی لیکن اسے دل میں نہ رکھ سکی۔ ممکن ہے وہ کسی اور کے دل میں بھی بس رہا ہو لیکن ایسا کسی طرف سے اظہار ہوا نہیں تھا۔ یہی امرت تھی جو اپنی محبت کو اپنے اندر سما ہی نہ سکی تھی۔ پرونت کور کے دل میں تجسس تھا کہ جو باتیں وہ امرت کور کے بارے میں سن رہی ہے کیا وہ درست ہیں۔ وہ چاہتی تو سیدھا اس کے گھر چلی جاتی اور اسے منا کر ساری باتیں پوچھ لیتی مگر اس طرح پھر سے وہی نور محمد کے معاملے میں اس کا ساتھ دینا پڑتا جس کی وجہ سے ان کے درمیان بول چال بند ہوئی تھی۔ وہ دل سے یہ چاہتی تھی کہ وہ نور محمد کا پیچھا چھوڑ دے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ غریب نور محمد خواہ مخواہ مارا جاتا۔ اصل میں وہ اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ ایک ہی بہن تھی۔ وہ اپنے مختصر سے خاندان کا واحد سہارا تھا۔ اسے اگر کچھ ہو جاتا تو وہ بے چارے کہاں جاتے۔ پرونت کور کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ جس دن اس کے باپو بلوندر سنگھ کو معلوم ہو گیا اس دن گاؤں میں قیامت آ جانا تھی۔ کیونکہ اس نے اپنی بیٹی کو تو بدنام نہیں کرنا تھا، سارا الزام نور محمد پر آ جانا تھا اور ایسا ہونا کوئی بعید بھی نہیں تھا۔ جس طرح امرت کور اپنے آپ سے باہر ہو رہی تھی، پتہ لگ جانا کوئی انوکھی بات نہیں تھی، وہ لاشعوری طور پر ایسے ہی کسی حادثے کے بارے میں منتظر تھی۔
انہی دنوں گاؤں میں ایک شادی تھی۔ لڑکی نے رخصت ہونا تھا اور انہیں وہاں جانا تھا۔ اس دن پرونت کور کو پوری امید تھی کہ امرت کور اسے وہاں مل جائے گی۔ بارات رات کی آئی ہوئی تھی اور اسے دوپہر کے بعد چلے جانا تھا۔ وہ دن چڑھے گئی تو توقع کے مطابق امرت کور وہیں تھی۔ شاید وہ بھی اس کی راہ تک رہی تھی۔ کوئی بات کئے بغیر وہ رکی اور اسے گلے لگا لیا۔ پھر ایک دم سے رو دی۔ پرونت گھبرا گئی۔ اس نے جلدی سے اسے الگ کیا اور پوچھا۔
’’کیا بات ہے امرت۔۔۔ ایسے کیوں رو رہی ہے؟‘‘
’’بس ایویں ہی دل بھر آیا تھا۔ اب تُو ہی بتا، میں اور کس کے گلے لگ کر روؤں‘‘۔ اس نے شکوہ بھرے لہجے میں کہا۔ تو پرونت کور کا بھی دل بھر آیا۔ دونوں سہیلیاں کچھ عرصہ بعد ملیں تو گلے شکوے نہ جانے کدھر چلے گئے۔ انہیں تو شادی کی تقریب کا بھی ہوش نہیں رہا۔ وہ ایک کونے میں سمٹ کر، سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر بیٹھ گئیں۔ تو امرت کور بولی۔
’’میں اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ تم نے مجھ سے ملنا جلنا کیوں بند کر دیا۔ میں ہی پاگل ہو گئی تھی۔ تُو سچ کہتی ہے، میں چاہے اپنا آپ بھی ختم کر لوں نور محمد تو میرا نہیں ہونے والا، اس کے دل میں میرے لیے پیار ہی نہیں ہے‘‘۔
’’ تُو واقعی پاگل ہے امرت کورے۔۔۔! اس کے دل میں تیرے لیے پیار جاگ سکتا ہے، مگر تُو نے تو اپنے بدن کی خواہش کو اہمیت دی۔ تو نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ نور محمد کی آتما کیسی ہے۔ جسم کی پکار پر اپنا آپ وار دینا محبت نہیں ہوتی، یہ تو نری ہوس ہے، وہ جو سچی محبت ہوتی ہے نا، وہ اپنا آپ منوا لیتی ہے، جیسے گرو جی مہاراج کی رب سے سچی محبت کو رب نے بھی مان لیا‘‘۔
’’ہاں پرونتے۔۔۔! وہ سکھ نہیں ہو سکتا، بھلے میں مسلمان ہو جاؤں اور تُو جانتی ہے میرے مسلمان ہو جانے سے اس گاؤں میں کیا ہو جانے والا ہو گا۔ میں تو اس کو اتنا کچھ دے سکتی ہوں کہ وہ رب کی زمین پر جہاں بھی جا کر رہتا اسے یہاں کی کسی چیز کا افسوس تک نہ ہوتا‘‘۔
’’تجھے عقل کیوں نہیں آتی امرت، دیکھ۔۔۔! یہ جو محبت ہوتی ہے نا، یہ بے غرض ہوتی ہے، اگر نور محمد کو تیرے ساتھ محبت ہوتی نا تو وہ مال و دولت کی پروا کیے بغیر اب تک تجھے یہاں سے لے جا چکا ہوتا۔ تُو اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کر لیتی ہو کہ وہ تمہارے بارے میں ایسی کوئی سوچ نہیں رکھتا۔ یہ آگ تیرے دل میں لگی ہے، تُو اپنی آگ کو خود سنبھال، اس سے دوسروں کے گھر نہ جلا۔ ایسا کام نہ کر جس سے کسی کو فائدہ نہ ہو، بس نقصان ہی نقصان ہو‘‘۔
’’ہاں۔۔۔! محبت تو میرے دل میں ہے، اور اتنی ہے کہ میں خود بھی اسے سنبھال نہیں پا رہی ہوں۔ میں پھر کیا کروں، میں نور محمد سے کئی بار ملی ہوں۔ اسے یہ سب سمجھانے کی کوشش بھی ہے، مگر میری کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی‘‘۔
’’ہاں مجھے معلوم ہے، مجھے کئی لڑکیوں نے بتایا ہے۔ اب دیکھ، اگر ان لڑکیوں کو معلوم ہو سکتا ہے تو کسی مرد کو معلوم کیوں نہیں ہو سکتا جو سارا دن باہر رہتے ہیں، یہ تو نور محمد کی اچھائی ہے ناکہ اس نے تیرا راز اپنی زبان سے نہیں نکالا، اگر تیرے باپو کو پتہ چل جائے تو کیا ہو گا؟‘‘
’’میں سب سمجھتی ہوں، میں تو اس کے گھر بھی جاتی ہوں، اس کی بہن کو میں نے سہیلی بنا لیا ہوا ہے ۔ ہاں تیری یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کی آتما ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ کسی کی عزت کے لیے جان تو دے سکتا ہے لیکن کسی کی عزت کو خراب نہیں کر سکتا۔ میں بے بس ہوں ۔۔۔ میرے درد کی کوئی دوا ہی نہیں ہے؟‘‘
’’ہے، کیوں نہیں ہے، تُو اپنا دھیان سچے بادشاہ گرو مہاراج کی طرف لگا۔ اس سے اپنے من کی شانتی مانگ، تجھے اگر نور محمد سے محبت ہے تو اس کی بھلائی سوچ، اس کی جان کی دشمن نہ بن، بدن کی آگ تو ٹھنڈی ہو جائے گی، لیکن اگر روح پر زخم لگ گیا تو اس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ موت تک وہی زخم رستا رہتا ہے‘‘۔
’’ تُو ٹھیک کہتی ہے، بے چینی میرے دل میں ہے تو بے بس بھی میں ہی ہوں‘‘۔
’’چل تو مجھے یہ بتا، کیا نور محمد تیرے ساتھ نفرت کرتا ہے؟‘‘
’’نہیں، وہ نفرت بھی تو نہیں کرتا، میری سن لیتا ہے مگر کوئی جواب نہیں، سوائے اس کے کہ میں اپنی عزت سنبھال رکھوں۔ میں مانتی ہوں کہ میں غلط ہوں، لیکن۔۔۔‘‘
’’تو پھر تُو یہ بھی مان لے کر تیرے دل میں جو محبت ہے وہ سچی نہیں ہے، دیکھ، سچا بادشاہ سچ ہی کو پسند کرتا ہے، سچائی اپنا آپ منوا لیتی ہے۔ تُو سچے گرو کی طرف دھیان لگا تو نور محمد کا خیال خود بخود ختم ہو جائے گا‘‘۔
’’پرونتے۔۔۔! نہ جانے کیوں مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں صرف بنی ہی اس کے لیے ہوں، ہ مجھے نہ ملا تو میں کسی کی بھی نہیں ہو سکوں گی‘‘۔
’’ایسی سوچیں سوچتی رہے گی تو پاگل ہو جائے گی، خیر سے تیرے باپو نے تیری منگنی کر دی ہے۔ تیرے خاندان کا ہم پلہ خاندان ہے، پھر یہ بڑی بات ہے کہ وہ بھی پال ہے اور تم لوگ بھی پال ہو۔ میں نے سنا ہے، بڑا گبھرو اور سوہنا نوجوان نکلا ہے وہ پڑھا لکھا ہے، خالصہ کالج میں پڑھتا ہے تو نوکری بھی شہر میں کرے گا، وہاں تو عیش کرے گی، اپنی زندگی خوبصورت بنا‘‘۔
’’ہاں، رگھبیر سنگھ ، تُو نے دیکھا تو ہے اسے، لیکن اب میں نے تیری طرف صرف سنا ہے کہ وہ گبھرو بھی ہے اور سوہنا بھی ہے، پر تُو اپنے سچے دل سے بتا، نور محمد جیسا کوئی اس دنیا میں ہے؟‘‘
’’جب رگھبیر سنگھ تیرا ہو جائے گا نا، تو نور محمد تجھے بھول جائے گا۔ اسے اپنی دنیا میں آزاد چھوڑ دے اور تو اپنی دنیا بنا، بعض اوقات زبردستی خواہش پوری کرنے سے بڑی ٹوٹ پھوٹ ہو جایا کرتی ہے‘‘۔
’’چل اگر تُو کہتی ہے تو میں ایسا ہی کر لیتی ہوں جیسا تُو کہتی ہے، پر اب مجھ سے ملنا جلنا بند نہ کرنا، مجھے سہارا دو تاکہ میں اس مشکل راستے سے گزر جاؤں‘‘۔
امرت کور کے لہجے میں اس قدر حسرت تھی کہ پرونت کور کا دل بھر آیا۔ کیا نور محمد کے لیے وہ اتنی ہی چاہت رکھتی ہے۔ اصل میں اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ محبت کہتے کسے ہیں، وہ تو بس بدن کی پکار پر اپنی خواہش کی تکمیل ہی کو پیار سمجھتی تھی۔ اپنا آپ کسی کے سپرد کر دینے کو وہ محبت کہتی تھی۔ اس میں امرت کور کا قصور بھی نہیں تھا، اس کا ماحول ہی ایسا تھا، جس سے محبت کے حقیقی معنی کسی کو معلوم ہی نہیں تھے۔ پرونت کور چونکہ اس کے ساتھ ہی پڑھی تھی، اسے کچھ عقل شعور مل گیا ہوا تھا، اس لیے اس نے امرت کور کو بتایا کہ بدن اور آتما کیا ہوتی ہے۔ ان کی ملاقاتیں پھر سے ہونے لگیں۔ اب امرت کور کی دلچسپی یہی ہوتی تھی کہ وہ سارے دن میں ایک چکر نور محمد کے گھر کا ضرور لگاتی اور پھر وہ کچھ دیر پرونت کور کے پاس گزارتی۔ کبھی کبھی پرونت کور اس کے پاس چلی جایا کرتی تھی۔ کچھ دنوں بعد اس نے امرت کور میں چند تبدیلیاں دیکھیں۔ وہ نور محمد کی بات کم کرتی لیکن کسی نہ کسی طرح اس کی یا اس کے خاندان کی خدمت کرنے کی فکر میں رہتی۔ اس کی سہیلی حاجراں کی شادی کی تیاری ہو رہی تھی۔ وہ کسی نہ کی بہانے اس کو تحفے تحائف دیتی رہتی۔ کبھی کوئی گہنا، کبھی کوئی کپڑا، دوسری تبدیلی اس میں یہ دیکھی کہ وہ گاؤں کے ماسٹر روشن لعل سے کتابیں منگوانے لگی، پورے گاؤں کے بچے اس کے شاگرد تھے۔ وہ جب بھی شہر جاتااس کے لیے کچھ لے آتا، تیسری تبدیلی اس میں یہ دیکھی کہ وہ گرو گرنتھ صاحب جی کا پاٹھ روز کرنے لگی۔ اس نے سچے بادشاہ سے اپنا من لگانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ پرونت کور نے جب یہ دیکھا تو اسے خوشی ہوئی۔ وہ مانتی تھی کہ اس تبدیلی کی وجہ نور محمد کی سرد مہری ہی تھی۔ ورنہ آگ اگر برابر کی لگی ہوتی، یا وہ اس کے بدن کی پکار کو قبول کر کے گناہ کی زندگی میں ڈوب جاتا تو یہ آگ نہ جانے کتنوں کو بھسم کر سکتی تھی۔ نور محمد اگر ذرا سا بھی التفات کر جاتا تو امرت کور میں ایسی تبدیلی آ ہی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ وہ تو خود اس کے ساتھ بھاگ جانے کو تلی بیٹھی تھی۔
دن بڑے اچھے گزرتے چلے جا رہے تھے کہ رگھبیرسنگھ شہر سے گاؤں لوٹ آیا۔ گرمیاں اپنے زوروں پر تھیں، بارشوں کا موسم ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ رگھبیر سنگھ کے آنے کی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ شہر میں فسادات کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔ گاؤں میں ایک ہی ریڈیو تھا جس پر ملک میں ہونے والی گڑبڑ کی خبریں سننے کو ملتی تھیں۔ یہ خبریں جب ایک دوسرے کو سنائی جاتی تو اس میں اپنی مرضی بھی شامل ہو جاتی تھی۔ پھر جس خبر کا دائرہ جتنا وسیع ہوتا، اس کی شکل اتنی ہی بگڑ جاتی۔ اِدھر اُدھر سے ہندو مسلم فسادات کی اکا دکا خبریں آنا شروع ہو گئی۔ پرونت کور کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے گاؤں کے لوگ اچانک سہم کیوں گے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھنے لگا ہے۔ امرت کور نے نور محمد کے گھر جانا چھوڑ دیا تھا۔ اب تو اس کے ساتھ بھی کبھی کبھار ملتی تھی۔ ان مختصر ترین ملاقاتوں میں اسے ہی گلہ رہتا تھا کہ رگھبیر سنگھ اس کی نگرانی کرتا ہے۔ ہر وقت اس پر سائے کی طرح چھایا رہتا ہے۔ اس کی وجہ کیا تھی اسے معلوم نہیں تھا۔ پرونت کے گھر میں جو بڑے باتیں کرتے، اس سے پتہ چلنے لگا کہ ہندوستان کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنا الگ وطن حاصل کر لیا ہے اور یہ فسادات صرف اس وجہ سے ہو رہے ہیں۔ ایک دن اس کا باپو کہہ رہا تھا۔
’’تیرہ اپریل انیس سوانیس جلیا نوالہ باغ میں جو قتل عام ہوا۔ اس کی یاد ابھی تک نہیں بھولی ، پتہ نہیں کتنے لوگ شہید ہوئے تھے۔ کتنے گھر لٹ گئے۔ وہ تو ایک تاریخ بنا گئے، لیکن اب میں اس سے بھی بڑا قتل عام دیکھ رہا ہوں، جس طرح خبریں آ رہی ہیں۔گرو مہاراج اپنی خیر کرے، ان ہواؤں میں خون کی بو رچ بس گئی ہے‘‘۔
’’باپو جی۔۔۔! کیوں ماریں گے لوگ ایک دوسرے کو۔۔۔ اب ہمارے گاؤں کی ہی بات لے لیں۔ ہم نے کسی مسلمان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ انہوں نے ہمارا کوئی قصور نہیں کیا، تو ہم کیوں لڑیں گے ان کے ساتھ۔۔۔؟‘‘ پرونت نے اپنے باپو سے پوچھا۔
’’یہی تو سمجھ نہیں آ رہی بیٹی۔۔۔! پُرکھوں سے ہم یہاں پر آباد ہیں۔ بڑے سکھ شانتی سے رہ رہے ہیں۔ کسی نے کسی کا قصور بھی نہیں کیا، لیکن جو خبریں آ رہی ہیں، ان میں بڑی ہولناک باتیں ہیں، دل کانپ جاتا ہے‘‘۔ اس کے باپو نے کہا تو پرونت کور کو احساس ہوا ہے کہ کوئی اَن دیکھا خطرہ ان پر منڈلا رہا ہے۔ جو کسی کو بھی، کسی بھی وقت صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ اس دن وہ واقعی ڈر گئی تھی۔
دن حبس زدہ ماحول میں گزرتے جا رہے تھے۔ خوف زیادہ ہو گیا تھا۔ سکھ نوجوان کرپانیں اور تلواریں گلے میں ڈالے جتھوں کی صورت گاؤں میں پھرتے رہتے تھے۔ اس جتھے کا بڑا رگھبیر سنگھ ہی تھا جو نہ صرف لفظوں کی صورت میں ان کے دماغوں میں آگ بھرتا رہتا بلکہ سکھ نوجوانوں کو تربیت بھی دیتا کہ کسی بھی وقت لڑنے مرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پھر اچانک ایک دن اعلان ہو گیا کہ بھارت اور پاکستان دو الگ الگ ملک بن گئے ہیں۔ اب مسلمان اپنے ملک کو چلے جائیں گے۔
یہ سنتے ہی، پرونت کور کو سب سے پہلا خیال یہی آیا کہ نور محمد اپنے پریوار کے ساتھ مسلمانوں کے دیس چلا جائے گا۔ امرت کور جو اب پُر سکون ہو گئی تھی اور اسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ یہاں تک کہ اسے دیکھنا ہی اپنی عبادت خیال کیا کرتی تھی، اب کیا کرے گی، کیا رگھبیر سنگھ نے جس طرح نوجوان لڑکوں کا دماغ آگ سے بھر دیا ہے، امرت کور کو بھی بدل دیا ہے، کیا اب اسے نور محمد کی چاہ نہیں رہی۔ کیا وہ اسے جانے دے گی؟ ایسے ہی کئی سوال اس کے ذہن میں آتے چلے گئے۔ وہ چاہتی تھی کہ امرت کور سے ملے اور اس کے بارے میں جانے کہ اب وہ کیا چاہتی ہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
وہ بڑ ی بھیانک رات تھی۔ بڑا حبس تھا۔ بادل چھائے ہوئے تھے۔ پچھلی رات کا چاند طلوع نہیں ہوا تھا یا اگر ہو چکا تھا تو بادلوں نے اس کی چاندنی کو روک رکھا تھا۔ وہ ہلکے ہلکے پسینے میں بھیگی اپنے صحن میں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک شور سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باہر گلی میں لوگوں کا شور تھا، چیخ و پکار تھی، لوگ بھاگ دوڑ رہے تھے۔ اسے لگا جیسے باہر کہیں لڑائی ہو گئی ہے۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اٹھی تو اس کا باپو اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ گھبرائے ہوئے انداز میں صحن کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ فق تھا اور وہ رو رہا تھا۔ اچانک چیخ و پکار تیز ہو گئی۔ دور کہیں سے رونے پیٹے کی آوازیں آنے لگیں۔ شاید ایک آدھ فائر بھی ہوا تھا۔ تب اسے لگا کہ ایک طرف روشنی ہونے لگی ہے۔ وہ گھبرا گئی۔ اس کا باپ زار و قطار رونے لگا۔ وہ تجسس سے مجبور سیڑھیاں چڑھتی ہوئے پھولے سانس کے ساتھ چھت پر آ گئی۔ ذہن میں لاشعوری طور پر نور محمد کا خیال تھا۔ وہ آگ بھی اُدھر ہی لگی ہوئی تھی۔ تو کیا سکھ اور مسلمان آپس میں لڑ پڑے ہیں؟ کیا نور محمد کے گھر کو جلا دیا گیا ہے، کیا نور محمد مر گیا۔ ان سکھوں نے انہیں مار کر جلا دیا۔ اس کے تصور میں بھیانک تصویریں آنا شروع ہو گئیں۔ پروین کی تو شادی ہونے والی تھی، چند دن بعد اس نے اپنے سسرال چلے جانا تھا۔ اس کا امن پسند باپ، اس کی محبت کرنے والی ماں اور خود گھبرو نور محمد، کیا اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے؟ ان کی لاشیں۔۔۔ وہ اس سے زیادہ نہ سوچ سکی، چکرا کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔ پھر اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ کب تک یونہی رہی ، اسے جب ہوش آیا تو صحن میں چارپائی پر پڑی ہوئی تھی۔ اس کی ماں، باپو اور بھائی اس کے اردگرد تھے۔ وہ سب رو رہے تھے۔ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں پوچھا۔
’’باپو۔۔۔!مار دیا سب کو ۔۔۔؟‘‘
’’پتر مجھے نہیں پتہ۔۔۔ میں تو باہر ہی نہیں گیا۔ پر بڑا ظلم ہوا ہے۔ کہا بھی تھا کہ ایسا نہیں کرنا۔۔۔ پر یہ رگھبیر۔۔۔‘‘
وہ اتنا ہی کہہ سکا اور بے دم سا ہو کر دوسری چار پائی پر جا بیٹھا۔ ساری رات یونہی آنکھوں میں کٹ گئی۔ کوئی بھی کسی کو پوچھنے تک نہ آیا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ اگلے دن کی کالی صبح طلوع ہوئی تو سنا کہ ملٹری والے گاؤں میں آ گئے ہوئے ہیں۔ پر وہاں مسلمانوں کا بچا ہی کیا تھا۔ چند گھر تو تھے ان کے اور دوسری طرف سکھوں کا پورا گاؤں۔ دن چڑھے تک پتہ چلتا رہا کہ گاؤں میں کیا قیامت گزر گئی ہے۔ مسلمانوں کے جو چند گھر تھے، وہ سارے جلا دیئے گئے تھے۔کسی کا کچھ نہیں بچا تھا۔ جتنے بھی مسلمان اس گاؤں میں تھے، ان سب کو مار دیا گیا تھا۔ کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا جوان اور کیا لڑکیاں، صرف ایک اچھی خبر تھی کہ نور محمد بچ گیا ہے، وہ کیسے بچا، کسی کو اس کی خبر نہیں تھی، وہ ملٹری والوں کے ساتھ کچھ دیر گاؤں میں رہا۔ جو بچی کھچی ، جلی سڑی لاشیں انہیں ملیں، ان سب کو اکٹھا کر کے ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا تھا، پھر نور محمد خالی ہاتھ ان ملٹری والوں کے ساتھ چلا گیا۔ دوسری خبر یہ تھی کہ کئی سکھ نوجوان بھی مارے گئے تھے۔ ان میں رگھبیر سنگھ بھی مر گیا تھا، لیکن یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ جہاں دوسرے سکھ نوجوان قتل ہوئے۔ ان سے کہیں دور رگھبیر سنگھ کی لاش ملی تھی اور اسے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ تھوڑا بہت یہ شک کیا جاتا رہا کہ اسے نور محمد نے قتل کیا تھا، لیکن اس کی تصدیق کوئی نہیں کر سکتا۔
اس صبح یہ پتہ چلا کہ امرت کور اپنے آپ میں نہیں رہی ہے۔ وہ پاگل ہو چکی ہے۔ اس وقت سب کا یہی خیال تھا اور بعد میں بھی لوگ یہی سمجھتے رہے کہ وہ رگھبیر سنگھ کے مر جانے کے غم میں پاگل ہو ئی ہے۔ مگر پرونت کور یہ مان ہی نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ امرت کور اس سے آخر وقت تک نفرت کرتی رہی تھی بعد میں ممکن ہے کوئی ایسی بات ہو گئی ہو تو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن امرت کور جو گرودوارے جانے سے پہلے جس جگہ جا کر ایک خاص سمت کی طرف دیکھتی رہتی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے رگھبیر سنگھ کی بے دردی سے قتل کئی ہوئی کٹی پھٹی لاش ملی تھی۔ سکھوں نے مسلمانوں کو مارنے کو تو مار دیا مگر ان کے ہاتھ کیا آیا؟ جلے ہوئے گھر، اپنے نوجوانوں کی لاشیں، اور ایک پاگل ہو گئی ہوئی امرت کور۔۔۔!
دادی پرونت کور نے اپنی بات ختم کی تو میرے دل میں امرت کور کے لیے نفرت ابل پڑی۔ مگر میں ایک لفظ بھی اپنی زبان پر نہ لایا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں جس پاگل عورت سے ملنے کے لیے یہاں جتھوال میں آیا تھا، اس کے دل میں اٹھنے والی ہوس کی آگ نے میرے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میرے ذہن میں نہ جانے کتنے سوال کانٹوں کی مانند اُگ آئے تھے جو اپنی چبھن کا احساس دیتے رہے تھے۔ میرے دل پر بھاری بوجھ آن پڑا۔ شاید میرے چہرے پر ایسا سب کچھ دکھائی دے رہا تھا کہ دادی پرونت کور بولی۔
’’پتر۔۔۔! ایسا قسمت میں تھا۔ جو ہونا تھا، وہ ہو گیا، اب تو نئی نسل کو سوچنا چاہئے کہ انہیں کس طرح امن، محبت اور دوستی کے ساتھ رہنا ہے، اسی میں بھلائی ہے‘‘۔
وہ پتہ نہیں کس رو میں یہ کہہ گئیں تھیں لیکن میں اپنی ہی ذات میں شرمندہ ہو رہا تھا۔ کاش مجھے یہ سب معلوم نہ ہوتا اب مجھے پتہ چل گیا تھا تو میں اپنے جذبات کو کس طرح قابو میں رکھ سکتا تھا۔ یہ ایک فطری امر تھا۔ دکھ اور غم کی اپنی تکلیف تو ہوتی ہے جو اس وقت میں محسوس کر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس وقت ان کے پاس سے اٹھ جاؤں، اس لیے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ کی شادی پھر اس گاؤں میں ہو گئی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! میری منگنی تو بہت پہلے کی ہو گئی ہوئی تھی۔ بس پھر گاؤں سے خوف کی فضا جیسے ہی دور ہوئی میری شادی ہو گئی، بچے ہو گئے، ان کی مصروفیت میں لگ گئی۔ کبھی کبھی جب میں امرت کور کو دیکھتی ہوں تو مجھے نور محمد یاد آ جاتا ہے۔ وہ بالکل تیرے جیسا ہی تھا، جب میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا۔ تجھے دیکھ کر میں اس لیے ایک دم سے پاگل ہو گئی کہ یہ نور محمد کدھر سے آ گیا۔ تُو ہو بہو اس کے جیسا ہے۔ بس یہ تیرے چہرے پر تل نہیں ہے‘‘۔ وہ گھوم پھر کر وہیں آ گئیں تو مجھے الجھن ہونے لگی۔ تب میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’دادی۔۔۔! میرے خیال میں رات بہت گہری ہو گئی ہے۔ باقی باتیں کل کریں گے، آپ آرام کریں‘‘۔
’’اب کہاں آرام میرا پتر۔۔۔! ساری رات انہی یادوں میں گزر جائے گی۔ خیر تُو جا اور آرام کر۔۔۔‘‘ انہوں نے خود کو بیڈ پر سیدھے کرتے ہوئے کہا تو میں ان کے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
میں کمرے میں آیا تو بھان سنگھ سو چکا تھا۔ میں ایزی ہو کر لیٹ گیا لیکن میری آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ میرے دماغ میں سوالوں کی چبھن بڑھ چکی تھی اور اس کے ساتھ ایک شرمندگی کا احساس میرے ساتھ لپٹ گیا تھا کہ میں کس مقصد کے لیے یہاں آیا ہوں۔ یہی وہ لمحات تھے جب امرت کور کے لفظ مجھے سمجھ آنے لگے۔ وہی لفظ جو بے ساختہ اس کے منہ سے مجھے دیکھتے ہی نکلے تھے۔ گرنتھ صاحب سے جو اس نے گرودوارے میں پڑھا تھا وہ بھی مجھے سمجھ آنے لگا تھا۔ دادی پرونت کور نے مجھے وہ ساری باتیں بتا دی تھیں جو اسے معلوم تھیں اور اس کے سامنے ہوئیں تھیں، لیکن کیا امرت کور بھی مجھے ایسا ہی کچھ بتائے گی؟ بلاشبہ وہ ضرور بتائے گی، لیکن وہ پورا سچ نہیں ہو گا۔ وہ بہت ساری باتیں چھپا لے گی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ بالکل آخری دنوں میں رگھبیر سنگھ اس کے خیالوں پر چھا گیا تھا۔ بدن کی پکار پر لبیک کہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ ہوس کے مارے جب ایک جگہ سے مایوس ہو جاتے ہیں تو پھر جہاں سے ان کی ہوس پوری ہو ان کی توجہ ادھر ہو جاتی ہے۔ دادا نور محمد نے اگر رگھبیر سنگھ کو قتل کیا تھا تو بہت اچھا کیا تھا۔ وہی ایک شیطان تھا جس نے گاؤں کی پُر امن فضا میں آ کر مذہبی تعصب کا زہر گھول دیا تھا۔ بعض ایسے پڑھے لکھے جاہل ہو تے ہیں جو صرف اپنی انا کی خاطر کشت و خون کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ یہی شدت پسندی ہے کہ اپنے خیالات کو دلائل سے نہیں، زور بازو سے منوانے کی گھٹیا ترین کوشش کرنا، رگھبیر سنگھ تو ویسے بھی اس سیاسی دھوکے میں آ گیا تھا جو ہندوؤں نے ماسٹر تارا سنگھ کو دکھایا تھا۔ اس نے جو پنجاب اسمبلی کے سامنے تلوار لہرائی تھی، اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ پنجاب کی دھرتی لہو رنگ ہو کر کر دو لخت ہو گئی۔ دلائل کی میز پر بیٹھ کر اگر سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کے سیاسی عزائم اور سیاسی بالغ نظری کا تجزیہ کیا جائے تو سکھوں کو پچھتاووں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ پنجاب کی دھرتی پر رہنے والے ہر مذہب کے انسان کو یہ سوچنا فرض جیسی حیثیت رکھتا ہے کہ کون کس کے دھوکے میں آیا؟ پچھتاوے کس کا مقدر ہیں۔ جن کی شہ پر ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے باہر تلوار لہرائی تھی، انہوں نے ہی آپریشن بلیو سٹار کے ذریعے امرتسر میں گرودوارے کی بے حرمتی کی۔ دہلی میں مٹی کا تیل چھڑک کر زندہ سکھ کو جلا دیا گیا۔ کیا یہی تھی ماسٹر تارا سنگھ کی بالغ نظر ی جس کا خمیازہ آج تک سکھ قوم بھگت رہی ہے اور پھر مجھے ہوش ہی نہ رہا کہ میں کب نیند کی وادی میں کھو گیا۔
اگلی صبح جب میں فریش ہوا تو دن خاصا چڑھ گیا تھا۔ بھان سنگھ کمرے میں نہیں تھا، ممکن ہے میں رات بہت دیر سے سویا تھا، اس لیے آنکھ دیر سے کھلی تھی۔ اس وقت بھی آئینے کے سامنے اپنے بال سنوار رہا تھا جب پریت کور کمرے میں آ گئی۔ میرے طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔
’’بلال تمہاری کنگھی پٹی ختم نہیں ہوئی ابھی تک‘‘۔
’’ہو گئی بابا، بولو تمہارا نزول کیسے ہوا اس کمرے میں اور بھان سنگھ کہاں ہے؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’تمہیں بلانے آئی ہوں۔ سب تمہارا نیچے انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ اس نے کہا اور فوراً ہی پلٹ گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
میں نے سیڑھیوں ہی میں دیکھ لیا کہ سبھی دالان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان سریندر پال سنگھ بھی موجود تھا۔ وہ سب ہنستے مسکراتے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے قریب جا کر دادی پرونت کور کی طرف دیکھا جو بڑی محبت اور یاسیت کی ملی جلی کیفیت میں مجھے دیکھ رہی تھی۔ تبھی امریک سنگھ نے کہا۔
’’اوئے آ بھئی آ بلال۔۔۔! دیکھ سریندر جی آئے ہیں تجھے اپنا مہمان بنانے کے لیے ۔۔۔‘‘
’’جی مہربانی ہے ان کی ‘‘۔ میں نے کہا اور ایک خالی کرسی دیکھ کر اس پر بیٹھنے لگا تو سریندر سنگھ اٹھتے ہوئے بولا۔
’’او نہ بھئی نہ ۔۔۔ بیٹھنا نہیں، بس چلیں، پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے‘‘۔
یہ سنتے ہی میں جہاں تھا وہیں رک گیا، بھان سنگھ اٹھا تو پریت کور بھی اٹھ گئی۔ میں نے دادی پرونت کور کی طرف دیکھ تو انہوں نے اشارے سے جانے کی اجازت دے دی۔ پھر جب ہم حویلی سے نکلے تو سریندر سنگھ ہمارے آگے آگے تھا اور ہم اس کے پیچھے پیدل ہی چلتے چلے گئے تھے۔
ان کی حویلی بھی خاصی پرانی، پڑی اور شاندار تھی۔ گرو دوارے کی مانند اس پر بھی پیلی مٹی کی سفیدی تھی۔ بڑے سے لکڑی کے پھاٹک پر محراب بنی ہوئی تھی۔ جیسے ہی ہم پھاٹک پا ر کر کے اندر آئے تو درمیان میں بڑا سارا صحن تھا اور اس کے آگے دالان پھر آگے کمرے بنے ہوئے تھے۔ اس دالان میں، امرت کور، ست نام کور گنت کور تینوں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ کچھ دو چار دوسری خواتین بھی تھیں، جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ سب اٹھ گئیں۔ امرت کور پر نگاہ پڑتے ہی میرے اندر متضاد طرح کے جذبات ابھرنے لگے۔ دادی پرونت کور کی سنائی ہوئی کہانی اور پھر میری اپنی سوچیں یوں گڈمڈ ہوئیں کہ اچانک ہی میرا دل ڈوب گیا۔ مجھے وہاں کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ میں وہاں سے واپس پلٹ جاؤں۔ امرت کو اپنی گہری نیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ساری دنیا کی نگاہوں کا مرکز میں ہی ہوں۔ اس کا سفید سیندور ملا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اگرچہ میرے جذبات اس وقت کچھ اور تھے لیکن اس وقت وہ ہلکے کاسنی رنگ کے شلوار قمیص میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اتنی عمر کی ہے۔ جیسے ہی ہم دالان تک پہنچے وہ آگے بڑھ چکی تھیں۔ سبھی کے ہاتھ میں برتن تھے، جن میں مختلف چیزیں تھیں۔ ست نام کور نے ہمارے دائیں بائیں ستونوں کی جڑ میں تیل گرایا، گنت کور نے ہمارے اوپر پھول کی پتیاں، چاول اور پھر پتہ نہیں اور کیا تھا، وہ وارے، امرت کور ان سے ایک قدم پیچھے تھی، سب نے میرے سر پر ہاتھ پھر کر پیار دیا ، لیکن امرت کور نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر کے میرا ما تھا چوم لیا۔ اس کی گرم جوشی، شدت اور اندازِ محبت میں کچھ ایسا تھا کہ میرے دل میں اس کے بارے میں نفرت کے جذبات یوں بیٹھ گئے جیسے آگ پر پانی ڈال دیا گیا ہو۔ میں خود اپنے اندر پر حیران تھا جو پل پل بدل رہا تھا۔ ایک لمحے کو تو مجھے خیال آیا کہ کہیں میں دنیا کی ذلیل ترین مخلوق تو نہیں ہوں، جنہیں منافق کہا جاتا ہے۔ میں اپنے آپ ہی میں کھویا ہوا تھا کہ ست نام کور نے کہا۔
’’تم لوگوں نے بڑی دیر کر دی ہے ؟ چلو سیدھے کھانے کی میز پر چلو، ناشتہ کر کے ہی باتیں کریں گے‘‘۔
ہم سب اُدھر چل دیئے۔ ہمارے بیٹھتے ہی تازہ پراٹھے آنا شروع ہو گئے۔ گوشت کے علاوہ میز پر ہر شے موجود تھی۔ ناشتے کے دوران باتیں چلتی رہیں۔ پورا پریوار خوش تھا۔ اس دوران امرت کور بڑے سکون سے بیٹھی رہی، اس نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔ بس مختلف چیزیں اٹھا اٹھا کر میرے سامنے رکھتی رہی اور میں چکھتا رہا۔ ناشتے کے بعد ایک سجے ہوئے ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے جہاں ایک دیوار گیر تصویر امرتسر گرودوارے کی لگی ہوئی تھی۔ وہاں بیٹھتے ہی مختلف باتیں چھڑ گئیں۔ میرے اور میرے خاندان کے بارے سوال ہوتے رہے، مستقبل کی باتیں، برطانیہ کی باتیں، پھر موجود عالمی سیاست کی باتیں، تھوڑا بہت بھارت اور پاکستان کی معاشی حالت کا تجزیہ، اس دوران بھی امرت کور بالکل خاموش رہی۔ اس نے ایک سوال بھی نہیں کیا۔ بس وہ میرے چہرے ہی کی طرف دیکھتی رہی۔ یوں کافی وقت گزر گیا۔ تبھی بھان سنگھ نے مجھے ہلکے سے ٹہوکا دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اب وہ بور ہو رہا ہے۔ میرے ذہن میں بھی کافی کچھ تھا، اس لیے میں نے اجازت طلب انداز میں سریندر پال سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سردار جی۔۔۔! اجازت، ہم چلتے ہیں‘‘۔
’’ہائیں۔۔۔! یہ کیا بات ہوئی بھئی۔۔۔؟ ابھی تو دوپہر کا کھانا کھائیں گے، پھر رات کو، تب کہیں تمہیں اجازت ملے گی‘‘۔
انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تو بھان سنگھ جلدی سے بولا۔
’’اصل میں ہم تینوں کا پروگرام تھا کہ امرتسر جا کر تھوڑی شاپنگ کر آئیں‘‘۔
’’تو وہ کل ہو جائے گی، کون سا دکانیں بند ہو جانی ہیں‘‘۔ وہ خوشگوار حیرت سے بولا تو پریت کور بولی۔
’’بلال نے کل چلے جانا ہے نا۔ اس لیے‘‘۔
’’اوہ۔۔۔! اتنی جلدی پتر، ابھی کچھ دن رہو ہمارے ساتھ، ابھی تو ہمارا چاؤ ہی پورا نہیں ہوا تھا‘‘۔ ست نام کور بولی۔
’’بھان۔۔۔! میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ جب تک میں نہ کہوں، تم اسے یہاں سے جانے نہیں دو گے‘‘۔ اچانک امرت کور نے کہا تو مجھے اس کا لہجہ عجیب پُراسرار لگا۔ جیسے اگر اس کا حکم نہ مانا گیا تو اس کی ناراضی سے کچھ بھی غضب ہو سکتا ہے۔ میرے دل میں خوف کی ایک لہر در آئی تھی کہ نہ جانے اس کے دل و دماغ میں کیا ہے، اگر میں نے دادی پرونت کور سے باتیں نہ سنی ہوتیں تو شاید میں اسے دیوانے کی بڑ ہی قرار دیتا اور اسے اہمیت نہ دیتا، لیکن اس کہانی کے تناظر میں اس کا یہ لہجہ اور انداز بتا رہا تھا کہ نفرت کہیں اب بھی موجود ہے۔ وہ نور محمد سے اگر رگھبیر سنگھ کا انتقام نہیں لے سکی ہے تو اب میں ہی اس کا نشانہ ہوں گا۔ اچانک ہی مجھے اپنے ارد گرد خطرہ منڈلاتا ہوا محسوس ہوا۔ میں بے چین ہو گیا۔ مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ میں نے زویا کو حاصل کرنے کے چکر میں اپنے آپ کو کس مصیبت میں پھنسا لیا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بھان نے دبے ہوئے انداز میں کہا۔
’’میرا دل بھی چاہتا ہے کہ یہ یہاں بہت دن رہے، کیونکہ پھر قسمت ہی سے ملاقات کا امکان ہے، مجبوری یہ ہے کہ اس کا ویزہ نہیں ہے اتنے دن کا۔۔۔ اسے آج کل ہی میں جانا ہے‘‘۔
’’اچھا۔۔۔ !تو یہ بات ہے‘‘۔ امرت کور نے یوں کہا جیسے وہ اس کی بات سمجھ گئی ہو۔ پھر اچانک بولی۔ ’’امرتسر آج جانا ہے؟‘‘
’’جی، ابھی گھر جاتے ہی۔۔۔‘‘ بھان نے جواب دیا۔
’’اور پھر اس نے کل چلے جانا ہے؟‘‘ اس نے یوں کھوئے ہوئے انداز میں کہا جیسے اس کا دھیان کہیں اور ہو۔
’’جی۔۔۔‘‘ بھان نے تیزی سے کہا۔
’’تو چلو۔۔۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ اچانک اٹھ گئی۔
’’آپ۔۔۔؟‘‘ پریت کور کے منہ سے ہذیانی انداز میں نکلا تو وہ گھور کر بولی۔
’’کیوں میں نہیں جا سکتی تم لوگوں کے ساتھ؟‘‘
’’کیوں نہیں۔۔۔ کیوں نہیں‘‘۔ بھان سنگھ نے تیزی سے کہا اور اٹھ گیا۔ تبھی سریندر پال سنگھ نے کہا۔
’’آپ لوگ گاڑی لے آئیں۔ پھر جاتے ہوئے امرت کور کو لے جائیں۔ آؤ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔
ہم وہاں سے اٹھ کر دالان میں آ گئے اور پھر وہاں سے چلتے ہوئے حویلی میں آگے۔ ہم سب تیار ہی تھے۔ بھان سنگھ فور وہیل جیپ لے آیا۔ اس وقت تک سریندر سنگھ تذبذب کا شکار تھا کہ امرت کور کو ساتھ جانے دے یا نہ جانے دے۔
’’اگر اس نے جانے کی خواہش کی ہے تو جانے دیں‘‘۔ چاچی جسیمت کور نے عام سے لہجے میں کہا۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ وہ ابھی تک پوری طرح ٹھیک ہوئی ہے۔ انہوں نے تو شاپنگ کرنی ہے، وہ وہاں کیا کرے گی۔ ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ بن جائے‘‘۔ وہ اسی تذبذب بھرے لہجے میں بولا۔
’’اگر ایسی بات ہے تو پھر رہنے دیں۔یہ چپ چاپ یہاں سے چلے جاتے ہیں‘‘۔ امنیت کور نے پریشانی میں کہا۔
’’ہاں، ایسا ہی ٹھیک ہے‘‘۔ سریندر سنگھ نے کہا تو بھان سنگھ ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا اور سریندر سنگھ کو اشارہ کیا ۔
’’اوہ نہیں پتر۔۔۔! میں چلا جاؤں گا، تم لوگ جاؤ‘‘۔
پریت کور پچھلی نشست پر بیٹھی گئی تو میں پسنجر سیٹ پر آ گیا اور پھر جیسے ہی گاڑی بڑھانے کے لیے بھان سنگھ نے گیئر لگایا۔ حویلی کے صدر دروازے پر امرت کور آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے یکدم بریک لگا دیئے۔ میں نے سب کی طرف دیکھا۔ ہر ایک چہرے پر تشویش تھی۔ وہ قدم بہ قدم بڑھتی چلی آ رہی تھی اور پھر آ کر جیپ کے پاس رک گئی، اس نے کسی کی طرف بھی نہیں دیکھا، ایسے میں پریت کور نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ وہ چپ چاپ اس میں آن بیٹھی۔ بھان نے جیپ بڑھا دی۔ اب جو قسمت میں تھا، وہ ہو جاتا۔
سرسبز و شاداب کھیتوں میں سے ہلکی تارکول کی سڑک پر ہم آ گئے۔ گاؤں پیچھے رہ گیا تھا۔ سبز رنگ کے مختلف شیڈز کی فصلیں اور سرمئی بادلوں سے ڈھکا ہوا آسمان، چھپے ہوئے سورج کے باعث روشنی تیز نہیں تھی۔ جیپ کے اندر سناٹا تھا۔ اس سناٹے کو امرت کو کی آواز نے توڑ دیا۔
’’پریت کورے۔۔۔! یہ لے پکڑ روپے، جو جو شے میں تمہیں بتاؤں، وہ خرید لینا، پیسے کی پروانہ کرنا، شے اچھی ہونی چاہئے‘‘۔
’’جی، بے جی‘‘۔ اس نے روپے پکڑتے ہوئے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی۔ امرتسر شہر پہنچنے تک گاہے گاہے امرت کور بولتی اور کوئی شے پریت کور کو بتا دیتی۔ ہمارے کئی پروگرام تھے۔ شاپنگ کے بعد ہوٹلنگ کرنا تھی۔ پھر میرا خیال تھا کہ میں ایک نگاہ جلیانوالہ باغ پر بھی ڈال لیتا، لیکن شاید اب ایسا ممکن نہیں تھا، امرت کور کے باعث صرف شاپنگ کر کے واپس آ جانا تھا۔ جیسے ہی ہم شہر پہنچے، امرت کور نے کہا۔
’’بھانے۔۔۔! مجھے اور بلال کو ہرمندر صاحب لے چل، پھر تُو اور پریت جب تک چاہو، شاپنگ کرتے رہنا، واپس جاتے ہوئے ہمیں لے لینا‘‘۔
’’ہرمندر۔۔۔! وہاں کیوں؟‘‘ بھان سنگھ نے دبے دبے غصے اور اکتاہٹ سے کہا۔
’’وہاں جانا ضروری ہے‘‘۔ امرت کور نے کہا اور پھر خاموش ہو گئی۔ میں بے چین ہو گیا کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک خوف بھی بندھا ہوا تھا۔ نہ جانے یہ میرے ساتھ کیا کرے۔ پریت کور تو بولی ہی نہیں، بھان سنگھ نے تھوڑی بہت مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی مگر امرت کور کی خاموشی نے اس کی مزاحمت کو بے کار کر دیا۔ ہم مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ہرمندر صاحب کے سامنے آ پہنچے۔ وہ کافی وسیع و عریض عمارت تھی۔ بھان سنگھ نے میرے ساتھ ٹائم طے کر لیا کہ وہ اتنے بجے واپس آ جائے گا۔ تب تک میں باہر آ جاؤں۔ ہم طے کر چکے تو اس نے ہرمندر صاحب کی طرف دیکھ کرسیس نوایا اور گاڑی بڑھا دی۔ تب میں اور امرت کور ہرمندر صاحب کے باہر تھے۔
صدر دروازے پر میں نے جوتے اتارے، جرابیں بھی اتار دیں تو امرت کور نے ایک بسنتی رنگ کا رومال مجھے دیا کہ یہ سر پر باندھ لوں۔ میں نے وہ رومال باندھ لیا۔ ہم دروازہ پارکر کے آگے گئے تو ایک وسیع عمارت میرے سامنے تھی۔ پانی کے بڑے سارے تالاب کے درمیان ایک چوکور سنہری عمارت تھی ، ایک راستہ جیٹی کی مانند وہاں تک جاتا تھا۔ نیلگوں پانی لہرا رہا تھا۔ تالاب کے چاروں جانب کافی ساری جگہ چھوڑ کر برآمدہ تھا اور پھر دو منزلہ کمرے۔ وہاں بہت سارے لوگ تھے۔ کوئی ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ آنکھیں بند کیے رب سے رابطہ جوڑے ہوئے تھا۔ کوئی بیٹھا تھا۔ بہت سارے آ جا رہے تھے۔ کوئی پانی کے تالاب میں تھے۔ ان کا جو عقیدہ تھا، اس کے مطابق وہ اپنی پرستش میں مصروف تھے۔ امرت کور نے دونوں ہاتھ جوڑے، اس عمارت کی طرف رخ کیا اور آنکھیں بند کر کے کتنی ہی دیر تک ساکت و صامت کھڑی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے اونچی آواز میں بولی۔
’’اپجی پریت پریم رس چاؤ۔۔۔ من تن انتر ایھی سو آؤ۔۔۔ نیتر ہہ پیکہتہ درس سکھ ہووئے۔۔۔ من بگسے سادھ چرن دھوئے۔۔۔ بھگت جنا کے من تنِ رنگ ۔۔۔ ورلا کوؤ پاوے سنگ۔۔۔ ایک بسنت دیجئے کر مئیا۔۔۔ گُر پر سادِ نام جپ لئیا۔۔۔‘‘
(محبت کا رس پی کر میں اپنے دل میں یہی شوق رکھوں۔ میرے تن من میں یہی ذوق اور شوق ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیدار کروں اور اس دیدار کا سکھ پاؤں۔ سادھو کے پیر دھوکر میں سکھ چین پاؤں۔ وہ من جو رب کی پاک محبت میں رنگین ہو جاتے ہیں۔ کوئی قسمت والا ہی اس قرب کو پاتا ہے۔ مجھ پر ایک بخشش کر، کیونکہ میں ایک ہی شے کی طالب ہوں۔ میں اپنے گرو کی رحمت سے، بس حق نام ہی جپتا رہوں۔)
وہ کہہ چکی تو خاموش ہو گئی۔ کتنا ہی وقت یونہی گزر گیا۔ پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر مڑ گئی۔ اس کا رخ جنوب کی جانب کے کمروں کی طرف تھا۔ پھر جیسے ہی برآمدے میں پہنچے، وہ وہاں رک گئی اور بڑے سکون سے بولی۔
’’بیٹھ جاؤ‘‘۔
یہ کہتے ہوئے وہ خود ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ جبکہ میں اس کے سامنے فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ ایک ٹک میری طرف دیکھے چلے جا رہی تھی۔ بلاشبہ وہ مجھ میں نور محمد دیکھ رہی تھی۔ میں بھی خاموش مگر بے چین اس کے سامنے بیٹھا رہا۔ بہت حد تک میرے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ وہ کچھ بولے، اس کے ذہن میں کیا ہے۔ اس کا اظہار کرے، میں بھی سنوں وہ اپنے من میں کیا لیے پھرتی ہے۔ انہی لمحات میں یہ فیصلہ میں نے کر لیا تھا کہ اگر وہ کچھ نہیں کہے گی تو میں اسے بولنے پر مجبور کر دوں گا۔ حالانکہ اس کا انداز ہی بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے باتیں کرنے کے لیے ہی یہاں آ کر بیٹھی ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ بولی۔
’’بلال۔۔۔! میں جانتی ہوں کہ پرونت کور نے تجھ سے بڑی باتیں کی ہوں گی اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ پورا گاؤں میری خاموشی ٹوٹ جانے پر حیران ہو گا۔ اسی وجہ سے اس نے تیرے ساتھ باتیں کی ہوں گی۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میں اگر حیرت سے چونک سکتی ہوں تو وہ بے چاری تو پاگل ہو گئی کہ نور محمد کہاں سے آ گیا۔ پورے گھر کے ہر بندے کو، میرے گھر والوں سمیت سب کو یہ بھی حیرت ہوئی ہو گی کہ میرا پاگل پن ختم ہو گیا۔ حالانکہ کوئی یہ جانتا ہی نہیں کہ میں کبھی بھی پاگل نہیں تھی، میں تو ان لو بھی لالچ اور تعصب کے مارے لوگوں سے خود بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور پھر میرے سامنے تو ایک ہی مقصد تھا۔ اپنے گرو سچے بادشاہ کو منانا کہ وہ کسی طرح نور محمد کو واپس لے آئے۔ شاید قسمت میں یہی نہیں کہ نور محمد واپس آئے لیکن گرو نے اپنا رنگ دکھایا ہے اور تیری صورت میں اسے مجھ تک بھیج دیا۔ جس مقصد کے لیے میرا دھیان تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ اب جو رب کرے وہ سب ٹھیک۔۔۔‘‘
’’دادی پرونت کور نے بہت ساری باتیں بتائی ہیں۔ وہ ساری باتیں سن کر میرے دل میں آ پ کے لیے نفرت کے سوا کچھ اور نہیں آسکتا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ نفرت کرنے کو بھی من نہیں مانتا‘‘۔
’’اپنے اندر کے سچ کو مانو، یہی انسان کو سچی راہ دکھاتا ہے۔ اس بے چاری کو بہت ساری باتوں کا پتہ ہی نہیں وہ کیا بتائے گی۔۔۔ خیر۔۔۔! میرے رب کی کرپا ہے مجھ پر کہ اس نے اپنے در پر مجھے بلایا اور تیرے ساتھ بات کرنے کا موقعہ دیا۔ سن پتر، یہاں پاک دوارے بیٹھ کر میں تجھ سے جھوٹ نہیں بولوں گی‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہی، پھر کہتی چلی گئی۔
سردار بلوندر سنگھ کی بیٹی امرت کور پر جوانی ٹوٹ کر آئی تھی۔ اگرچہ گاؤں میں بہتری حسین لڑکیاں تھیں۔ جوانی ان پر بھی آئی تھی لیکن اس کی بات ہی الگ تھی۔ اس کا باپ اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ یہی محبت اسے جہاں اعتماد دے گئی تھی، وہاں وہ اپنی ہی جوانی کے نشے میں مخمور ہو گئی تھی۔ وہ لاڈلی تھی اور بہت ضدی بھی ہو گئی تھی۔ گھر میں کسی شے کی کمی نہیں تھی، پورا گاؤں اس کے باپ کی نہ صرف عزت کرتا تھا بلکہ اس سے کافی حد تک خوف زدہ تھا۔ اس لیے وہ جہاں جاتی اور جو مرضی کرتی، کوئی اسے کچھ کہتا نہیں تھا، سبھی اس کا الہڑ پن نظر انداز کر جاتے تھے۔ پھر ان دنوں ماحول ہی کچھ ایسا تھا کہ لوگ سادہ اور تحمل والے تھے۔
پرونت کور ہی اس کی ایک سہیلی تھی۔ سوچ مل جانے کے علاوہ بھی کچھ باتیں ایسی تھیں جن سے ان کے درمیان تعلق مضبوط ہو تا گیا۔ پرونت کور بھی گاؤں کے امیر اور معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ گو اس کی طرح خوبصورت اورحسین نہیں تھی لیکن دولت میں اور رکھ رکھاؤ میں کسی طور کم نہیں تھی۔ وہ الہڑ نہیں تھی بڑی سنجیدہ قسم کی لڑکی تھی، اس لیے امرت کور کی بہت ساری شرارتیں اور بے وقوفیاں چھپا جایا کرتی تھی۔ دونوں ہی گاؤں کے واحد پرائمری سکول میں پڑھی تھیں۔پھر بچپن گزرتے ہوئے انہیں پتہ ہی نہ چلا سکول کی دوستی پروان چڑھتی رہی اور دونوں ہی عمر کے اس حصے میں آ گئیں، جہاں خواب رنگین ہو جاتے ہیں۔ ان میں پرندے چہچہانے لگتے ہیں، منظر بدل جاتے ہیں اور ان منظروں میں سوائے انتظار کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے گھر کے سامنے رہا کرتی تھیں امرت کور کے باپو کی بڑی ساری حویلی تھی، مگر ان کا مکان بھی کچھ کم نہیں تھا۔ وہ پہروں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی رہتیں، کھیتوں میں نکل جاتیں اور وہاں موجود کنویں پر دن گزار دیتیں، دل کرتا تو گاؤں کی کسی گلی میں نکل پڑتیں، یونہی کسی کے گھر جا کر کھا پی آتیں۔ کبھی ڈیوڑھی میں چرخہ کاتتی بوڑھی عورت کے پاس جا کر بیٹھ جاتیں۔ اسی ہنسی خوشی میں ان کے دن گزر رہے تھے۔
گاؤں کے جنوب میں بڑا میدان بیساکھی کے میلے سے بھر چکا تھا۔ قریب و جوار کے گاؤں سے آئے ہوئے لوگوں سے بہت رش تھا۔ امرت کو ابھی بلوندر سنگھ کے ساتھ وہ میلہ دیکھنے گئی تھی۔ بڑی منت سماجت سے اس نے پرونت کور کی ماں سے اجازت لی تھی۔ ان کا اپنا تانگہ تھا جس پر سوار ہو کر وہ میلہ دیکھنے گئی تھیں۔ ان دونوں کے دوپٹے کے پلو سے بڑی رقم بندھ ہوئی تھی کہ وہاں میلے میں سے بہت کچھ خریدنا ہے۔ بلوندر سنگھ کی لاڈلی جب اپنی سہیلی کے ساتھ میلے کے میدان میں داخل ہو ئی تو اسے جو پہلا منظر نظر آیا، وہ اسی میں کھو گئی۔ بلوندر سنگھ نے بھی اپنے کوچوان سے کہہ دیا کہ رک جائے۔ وہاں سامنے بڑا سارا مجمع لگا ہوا تھا اور اس میں آس پاس کے گاؤں سے شہ زور کھڑے تھے۔ ان کے درمیان پتھر اٹھانے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ مختلف وزن کے بھاری بھاری پتھر ان کے سامنے تھے۔ اس وقت جو پتھر اٹھا رہا تھا، وہ انہی کے گاؤں کا نوجوان نور محمد تھا۔ اس نے پہلا پتھر بڑی آسانی سے اٹھا لیا، پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا پتھر جو خاصا بھاری تھا، اسے اٹھاتے ہوئے طاقت صرف کرنا پڑ رہی تھی۔ اس نے پورے جوش سے وہ پتھر اٹھایا، اپنے گھٹنے کا سہارا دیا اور سینے کے قریب لے کر پوری قوت سے اٹھا کر کاندھے پر رکھ لیا۔ پھر چند لمحے اسے گھماتا رہا اور پھر پھینک دیا۔ اس کے ساتھ ہی پورا مجمع واہ واہ اور شور سے گونج اٹھا۔ تنو مند نور محمد کے بدن پر فقط لنگوٹ تھا۔ اس کا سنہری بدن دھوپ میں چمک رہا تھا اور وہ فتح مندی کے احساس سے معمور سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ فطری طور پر اپنے گاؤں کے نوجوان کو جیت سے ہمکنار ہوتا ہوا دیکھ کر بلوندر سنگھ بھی عش عش کر اٹھا۔ پھر اس کی تعریف کرتا ہوا کوچوان کو تانگہ آگے بڑھانے کو کہا۔ تانگہ تو آگے بڑھ گیا مگر امرت کور کا دل وہیں کہیں رہ گیا تھا۔ وہ سو جان سے نور محمد پر مر مٹی تھی۔ اسے میلہ اچھا ہی نہ لگا۔ پلو سے بندھی ہوئی ساری رقم یونہی پلو ہی سے بندھی رہ گئی۔ اس نے کچھ بھی نہ لیا۔ باپو نے جو لے کر دے دیا، سو لے لیا۔ اس کا سارا دھیان بس نور محمد ہی میں تھا۔ جسے معلوم بھی نہیں تھا کہ ایک الہڑ مٹیار، اس پر عاشق ہو چکی ہے۔
عشق بھی بڑی عجیب شے ہے، جسے ہو جائے اسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لذت کیا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جو اپنے اندر اس قدر قوت رکھتا ہے کہ چنگے بھلے بندے کو بدل کر رکھ دے۔ عشق جب ہوتا ہے تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہو گیا ہے، لیکن یہ بدن ہی سے ہو کر روح تک پہنچتا ہے۔ بدن سے روح تک پہنچنے کے بڑے مراحل ہیں۔ آشنائی سے بات پیار تک بڑھتی ہے، پھر کہیں جا کر محبت ہوتی ہے اور محبت بھی تو صرف خوبیوں سے کی جاتی ہے، لیکن عشق خوبیوں خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اسی ذات میں سما جانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ جس سے وہ عشق کرتا ہے۔ بات جب روح تک پہنچی ہے۔ تب تک یہاں عشق اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ جنوں کی باری تو پھر کہیں بعد میں جا کر آتی ہے۔
امرت کور بھی اپنے ہوش و حواس گم کر بیٹھی تھی۔ اس کے خوابوں میں انتظار ختم ہو گیا تھا، وہ بس اب تو آمد ہی آمد تھی۔ نور محمد اس کے خوابوں میں بس گیا۔ اسے یہ ہوش ہی نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے دھرم سے تعلق رکھتا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک نہیں کئی خلیج حائل تھیں۔ وہ کسی بھی رکاوٹ سے بے نیاز محض اس کے بارے میں سوچتی، بلکہ وہ خود کیا سوچتی، وہ اس کے ذہن اور دل پر چھایا ہوا تھا۔ ذہن کی کیا اوقات، بدن کا حکمران تو دل ہوتا ہے۔ جب نور محمد اس کے دل میں سما گیا تو ذہن نے تو اس کی تابعداری کرنا ہی تھی۔ لاکھ خدشات راہ میں حائل ہوتے لیکن اسے کسی کی پروا نہیں تھی۔
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں امرت کورے۔۔۔! ہر وقت سوچوں ہی میں کیوں کھوئی رہتی ہے، کہیں کوئی جن بھوت تو نہیں چمٹ گیا تم سے؟‘‘ ایک دن پرونت کور نے یونہی مذاق میں پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ہاں کچھ ایسا ہی ہو گیا ہے، مگر اس جن کو قابو کرنا بڑا ہی مشکل لگتا ہے‘‘۔
’’ارے واہ۔۔۔! ایسا ہے کیا؟ کون ہے وہ ۔۔۔؟‘‘ پرونت کور نے انتہائی تجسس سے پوچھا۔ جس پر امرت کور چند لمحوں تک سوچتی رہی کہ اس راز کو اپنے تک ہی رکھے یا اپنی عزیز ترین سہیلی کو بتا دے۔ پھر اس نے کہہ ہی دیا۔
’’وہ نور محمد ہے‘‘۔
’’ہائے امرت، وہ ۔۔۔ وہ تیرے خیال میں کیسے آیا، وہ تو ۔۔۔ ’’پرونت کور نے شدتِ حیرت سے پوچھا تو امرت کور نے میلے کی ساری بات بتا دی۔
’’میں بھی تو تیرے ساتھ تھی، مجھے تو ایسا کچھ نہیں ہوا، وہ تو مسلمان ہے، تُو اس کے خیالوں میں کیوں؟‘‘ پرونت کور نے کہا تو امرت کور بولی۔
’’شاید یہ اپنی اپنی نگاہ کا فرق ہے۔ تیری نگاہ کہیں اور ہے اور میری نگاہ میں وہ۔۔۔ آیا ہے۔ آتے ہی دل میں اتر گیا ہے۔ میرے دل نے پوچھا ہی نہیں کہ وہ مسلمان ہے یا سکھ۔۔۔ بس وہ تو میرے دل میں سما گیا ہے‘‘۔
بس وہی دن تھا جب پرونت کور ایک سہیلی سے زیادہ ناصح بن گئی ۔ امرت کور کے تو حواسوں پر نور محمد چھا گیا تھا اس نے تو اسی کی بات کرنا تھی جبکہ وہ اسے سمجھاتی رہتی تھی کہ ان راہوں پرمت چلو۔ امرت کور اپنی آگ میں خود ہی جل رہی تھی۔اس جلنے کے دوران تیل کا کام پرونت کی نصیحتوں نے کیا۔ وہ ہر وقت یہی سمجھاتی رہتی تھی کہ وہ مسلمان ہے، اسے نہیں مل سکتا۔ تب وہ صرف اس نہج پر سوچنے لگی کہ نور محمد کا حصول کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کی تمام تر سوچوں کا مرکز یہی گتھی سلجھانا تھا۔ حالانکہ بے چارے نور محمد کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کوئی اس کے بارے میں اتنی شدت سے سوچ رہا ہے۔
امرت کور کے ذہن میں ایک طریقہ ایسا آ ہی گیا۔ اس نے یہی سوچا کہ نور محمد اگر اس کی بات مان لے تو پھر وہ اسے بھگا کر یہاں سے کہیں دور لے جائے گی۔ اتنی دور کہ ان پر کسی کا سایہ تک نہ پڑے۔اسے اس سے غرض نہیں تھی کہ نور محمد سکھ ہو جاتا ہے یا اسے مسلمان ہونا پڑتا، اسے تو بس نور محمد چاہئے تھا۔ جسے وہ ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے یہ اندازہ لگانا شروع کر دیا تھا کہ جتنی اس کی زمین یہاں اس گاؤں میں ہے اس سے دو گنی زمین وہ اسے لے کر دے گی۔ ظاہر ہے وہ یہاں رہ تو نہیں سکتی تھی۔ اس کا باپو چاہے جتنی مرضی اس سے محبت کرتا ہے لیکن عزت اور غیرت کے نام پر وہ اسے ختم کرنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگاتا۔ یہ اسے بھی اچھی طرح معلوم تھا۔ پھر اس نے ایک مرتبہ نور محمد سے اپنے دل کا حال کہنے کا بھرپور ارادہ کر لیا اور بیل گاڑی کے تھوڑے سے سفر میں اس نے اپنا حالِ دل کہہ دیا۔ جس کا جواب نور محمد نے بہت مایوس کن دیا۔ جس وقت وہ بیل گاڑی سے اُتر کر اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی۔ اس وقت جہاں وہ اپنے ہی عشق کی آگ میں جل رہی تھی۔ وہاں اپنی ہتک ہونے پر بھی وہ شعلہ جوالا بن گئی تھی۔ وہ گاؤں کی الہڑ مٹیار جس پر فدا ہونے کے لیے کئی راہوں میں بیٹھے رہتے تھے۔ نور محمد نے کس سرد مہری کے ساتھ اسے احساس دلا دیا کہ وہ کوئی شے ہی نہیں ہے۔ اس کاسراپا، حسن اور جوانی کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ ورنہ گاؤں کے کئی گبھرو نوجوان اس کے طلب گار تھے، جنہیں اس نے کبھی اس اہمیت کے قابل ہی نہیں سمجھا تھا۔ اس دفعہ جب وہ اپنی حویلی پہنچی، اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے جس طرح بھی ہو وہ نور محمد کو حاصل کر کے رہے گی۔ روحانی طور پر نہ سہی جسمانی طور پر ہی سہی۔ شاید یہ عورت کی فطرت ہے کہ جب اسے اہمیت نہ دی جائے تو وہ اپنے تمام ہتھیار آزمانا شروع کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ترکش کا آخر تیر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ تب بھی وہ اپنی ہزیمت کا بدلہ اسی انداز میں لیتی ہے کہ اگلے کو جلا کر خاکستر کر دے، وہ چاہے محبت میں ہو یا نفرت میں۔
امرت کور کا عشق جنونی کیفیت اختیار کرتا چلا جا رہا تھا۔ گاؤں کی لڑکیوں کو تو اس کے بارے میں معلوم ہوتا ہی چلا جا رہا تھا، لیکن انہی دنوں اس کی عزیز ترین سہیلی پرونت کور اسی وجہ سے ناراض ہو گئی کہ وہ اس راہ پر جا رہی ہے جہاں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک دم سے وہ تنہا ہو گئی۔ اسے کچھ بھی سجھاتی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پہلے تو پرونت کور لڑتی تھی جھگڑتی تھی، پیار سے سمجھاتی تھی، جو بھی کہتی تھی لیکن اس کے اپنے دل کا غبار ہلکا ہو جایا کرتا تھا۔ اس وحشت میں وہ بے کل ہو گئی جس نے اسے کوچۂ یار کی راہ دکھائی ۔ وہ جس دن نور محمد کو نہ دیکھتی بے چین رہتی اور جب اسے دیکھ لیتی تو پُرسکون ہو جاتی ۔ کوچۂ یار میں دیدار ہی نہیں، اس سے باتیں کرنے کا بھی موقعہ مل گیا۔ ا س نے نور محمد کی بہن حاجراں سے دوستی کر لی۔ اسے اپنی سہیلی بنا لیا۔
نور محمد گھرانہ ایسا نہیں تھا کہ انہیں کسی مدد کی ضرورت ہوتی۔ قدرت نے انہیں ہر شے سے نوازا ہوا تھا۔ وہ اپنی سادہ اور پُرسکون زندگی میں بہت خوش تھے۔ حاجراں کو تھوڑا بہت شک تو تھا کہ وہ بلا مقصد اس کی سہیلی نہیں بنی۔ پھر اس کی نواز شات اس قدر ہونے لگیں کہ وہ شک یقین میں بد لتا گیا اور ایک مرتبہ حاجراں نے پوچھ ہی لیا کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے۔
’’سچ پوچھو نا حاجراں، مجھے تیرے بھائی سے شدید محبت ہے اور میں جب تک اسے دیکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ تیری سہیلی بھی میں اس لیے ہی بنی ہوں‘‘۔
’’لیکن تیرے من میں جو کچھ ہے، وہ رائیگاں جائے گا امرت کور، پہلی تو بات ہے کہ وہ ایسا ہے ہی نہیں کہ گاؤں کی دھی بہن پر نگاہ رکھے۔ اسے اپنے کام سے غرض ہے اور اگر اس کے دل میں کسی کے لیے محبت ہے تو وہ پروین ہے۔ جس کے ساتھ اس کی شادی ہو جانے والی ہے۔ گاؤں کے کس بندے کو نہیں معلوم‘‘۔ حاجراں نے اسے حالات سے آگاہی دی۔
’’میں مانتی ہوں کہ اسے پروین سے پیار ہے، میں یہ بھی مانتی ہوں کہ وہ سچا اور سُچا بندہ ہے۔ پر میں اپنے دل کا کیا کروں۔ کیسے سمجھاؤں اسے ؟‘‘
’’یہ تو تجھے کرنا ہی ہو گا۔ ورنہ خواہ مخواہ کی دشمنی بن جائے گی۔ کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ہاں اگر نور محمد تم میں دلچسپی لے رہا ہوتا۔ اسے بھی تم سے اتنی ہی محبت ہوتی نا تو میں اپنا آپ وار کر بھی تم دونوں کو ملا دیتی۔ میں خود اپنے والدین کو مجبور کر دیتی کہ یہاں سے چلے جائیں۔ پر کیا کریں، وہی نور محمد۔۔۔‘‘
’’وہی پتھر تو موم کرنا چاہتی ہوں۔۔۔جبکہ وہ ہو ہی نہیں رہا‘‘۔
’’وہ ہو گا بھی نہیں، وہ پورے دل سے پروین کو چاہتا ہے اور ایسے کسی معاملے میں نہیں پڑے گا، جس میں سوائے نقصان کے اور کھ بھی حاصل نہ ہو‘‘۔ اس نے سمجھایا لیکن حضورِ عشق میں کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اسی طرح ان دنوں حاجراں سے دوستی چلتی رہی۔ کسی نہ کسی بہانے نور محمد سے آمنا سامنا ہوتا رہتا لیکن کوئی بات نہ ہو پائی ، بس ایک بار بات ہوئی تھی، پھر وہ ہمیشہ طرح دے جاتا رہا، موقعہ ملتا بھی تو وہ ٹال جاتا۔ امرت کور کو اپنی کم مائیگی اور ہتک کا شدید احساس ہوا۔ وہ راتوں کو رو رو کر رب سے فریاد کرتی لیکن رب اس کی سنتا ہی نہیں تھا۔ محبوب سامنے ہے اور وہ ہجر میں جل رہی ہے۔
آخر ایک دن اسے موقع مل ہی گیا۔ اس نے نور محمد کے پیچھے کھیتوں میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ بے نیاز ہو گئی کہ کوئی اسے دیکھ بھی سکتا ہے۔ لڑکیوں کی ٹولی ہوتی نا تو الگ بات تھی۔ اس نے دور ہی سے دیکھا، وہ اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا۔ وہ منڈیر پر جا کھڑی ہوئی۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ نور محمد کو اس کی آمد کا احساس نہ ہوا ہو مگر پھر بھی وہ اپنے سکون سے کام کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خود اسے پکارنا پڑا۔
’’نور محمد۔۔۔ اوئے نور محمد۔۔۔!‘‘
اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور وہیں کام روک کر بولا۔
’’بول امرت کور۔۔۔! کیا بات ہے؟ خیر تو ہے نا، اکیلی کیوں آئی ہو؟‘‘
’’میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے‘‘۔ اس نے اونچی آواز میں کہا۔
’’جو بات بھی کرنی ہے ، اُدھر گھر پر کرنا، اب تُو فوراً یہاں سے چلی جا، کسی نے دیکھ لیا تو غضب ہو جائے گا‘‘۔ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے کسی کی پروا نہیں ہے، تجھے میری بات سننا ہی ہو گی‘‘۔ اس نے انتہائی ضدی لہجے میں کہا۔
’’بول کیا کہتی ہے تُو؟‘‘ وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہوتا ہوا بولا، اس کے لہجے میں اکتاہٹ تھی۔
’’نور محمد۔۔۔ !تیرے بغیر میں نہیں رہ سکتی۔ میری بات مان لے، ہم یہاں سے نکل چلیں‘‘۔ اس نے وہی پرانی بات دھرا دی۔ تو اس نے بڑے تحمل سے کہا۔
’’امرت کور۔۔۔! میں تیرے باپو کی بہت عزت کرتا ہوں، وہ ایک بہادر انسان ہے اور بہا دوں، شہ زوروں کی قدر کرتا ہے۔ تجھے یاد ہے نا، پتھر اٹھانے کا مقابلہ جیتنے پر اس نے مجھے تحفے میں ایک بھینس دی تھی‘‘۔
’’ تُو نے میرے باپو کو مشکی گھوڑی تحفے میں دے کر حساب برابر کر دیا‘‘۔ وہ تنک کر بولی۔
’’یہ بات میں حساب کتاب کرنے کے لیے نہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے کہہ رہا ہوں کہ جب تک ہم ایک جگہ رہنے والے ایک دوسرے کی قدر نہیں کریں گے، اس کے مال ، دولت اور عزت کی حفاظت نہیں کریں گے تو باہر سے آ کر کوئی ہماری عزت اور مال لوٹ کر لے جائے گا۔ یاد رکھ امرت کورے۔۔۔! زندگی انسان کو فقط ایک بار ملتی ہے، اسے عزت و وقار کے ساتھ گزارنا چاہئے۔ ناکہ منافق انسانوں کی طرح۔ میرے دل میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس عزت کے کہ تُو سردار بلوندر سنگھ کی بیٹی ہے جو نہ صرف میرا احترام کرتا ہے بلکہ میں بھی اس کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ آج کان کھول کر سن لے، اپنے دماغ سے یہ خناس نکال دے اور اپنی زندگی سکھ سے جی، دوسروں کو تنگ نہ کر‘‘۔
اس نے کہا تو امرت کور چند لمحے اس کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی کہ کس طرح واشگاف الفاظ میں اس نے پھر سے اس کی ہتک کر دی ہے۔ اس کی جوانی اور حسن مٹی میں رول کر رکھ دیا ہے۔ وہ ایک دم سے تنک گئی پھر بولی۔
’’چل نور محمد، میں تیری بات مان لیتی ہوں، میں تیرے ساتھ ہیر رانجھے والا پیار نہیں کرتی، میں ہیر نہیں جسے کھیڑے لے جائیں، جبکہ اس کے دل میں پیار رانجھے کے لیے ہو، نہ میں سوہنی ہوں کہ کچے گھڑے کی ناؤ بنا کر اپنی جان دے دوں۔ میں امرت کور ہوں‘‘۔ اس نے غضب ناک لہجے میں کہا۔
’’تو پھر میں کیا کروں‘‘۔
’’ تُو میری روح کو نہیں چھو سکا تو نہ سہی، میرا بدن تو حاضر ہے، تُو ایک بار میرے بدن کو چھولے، میرے جسم کی پیاس بجھا دے، میں سمجھ جاؤں گی کہ میں تمہاری ہوئی، کبھی پلٹ کر تیرا نام تک نہیں لوں گی یہاں تک کہ سوچوں گی بھی نہیں۔ میں شانت ہو جاؤں گی۔ وہ والا پیار نہ سہی یہ والا سہی، میں تجھ پر اپنا آپ وار کر ہی سکون پا سکتی ہوں‘‘۔
’’یہ تم نے اس سے بھی گھٹیا بات کی ہے۔ تمہارا بدن ہو سکتا ہے گندی مٹی کا بنا ہو، لیکن میرا نہیں، ہر انسان اپنی مٹی بارے خود اپنے عمل سے بتا دیتا ہے اور اس کا عمل اس کی سوچ ہوتی ہے۔ جا دفعہ ہو جاؤ، پھر کبھی میری نظروں کے سامنے نہیں آنا‘‘۔ نور محمد کے غضب میں کہیں اضافہ ہو گیا تھا۔
’’دیکھ نور محمد، میں مر جاؤں گی اور میری موت کا ذمے دار فقط تُو ہو گا‘‘۔ اس نے دھمکی دے دی۔
’’اور اگر تُو کچھ دیر اور بک بک کرتی رہی تو میں اسی کسّی سے تیرے ٹوٹے کر دوں گا، میں ایسا الزام قبول کرتے وقت شرمندگی محسوس نہیں کروں گا‘‘۔ اس نے صاف لفظوں میں کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس نے ہتک تو کیا اسے ذلیل کر کے رکھ دیا تھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی اور پھر پاؤں پٹختی ہوئی واپس چلی گئی۔
دو دن نہیں گزرے تھے کہ سردار بلوندر سنگھ انتہائی جوش اور غصے میں اپنی حویلی کے دالان میں آن رُکا۔ اس نے بڑی اونچی آواز میں امرت کور کو آواز دی۔ اس وقت وہ اپنے کمرے میں تھی۔ ایسی آواز سن کر لرز گئی۔ اسے لگا جیسے خطرہ اس کے سر پر آ گیا ہو۔ ضرور نور محمد نے اس کے باپو سے بات کر دی ہو گی، وہ اسی خیال کے تحت اندرونی کمرے میں اپنے باپو کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
’’ تُو گئی تھی نور محمد کے کھیتوں میں یا اس کنجر نے تمہیں بلایا تھا‘‘۔
’’میں خود گئی تھی باپو‘‘۔ ا س نے ساری احتیاط بالائے طاق رکھتے ہوئے صاف انداز میں اقرار کر لیا۔
’’کیوں؟‘‘ اس کے باپو نے حیرت اور غصے میں پوچھا۔
’’باپو جی۔۔۔! یہ میری غلطی ہے کہ میں وہاں گئی۔ نہ جاتی تو شاید سلگتی رہتی۔ آج اگر آپ مجھے جان سے بھی مار دیں تو مجھے کوئی پروا نہیں ہو گی‘‘۔ اس نے اپنے فطری انداز میں کہا۔
’’یہ تُو کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ باپو نے غصہ بھول کرتجسس سے پوچھا۔
’’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں باپو جی، میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گی، وہ مجھے اچھا لگتا ہے لیکن اس دن اس نے مجھے اتنا ذلیل کیا ہے کہ میں خود پر حیران ہوں کہ میں زندہ کیوں ہوں۔ اس جیسا سُچا اور سچا بندہ نہ ہوتا تو آج میں یہاں آپ کی حویلی میں نہ ہوتی، یہاں سے کہیں اور چلی گئی ہوتی، باپو جی، میری بنتی ہے کہ مجھے مار دیا جائے، میں اپنی ذلت مزید برداشت نہیں کر سکتی‘‘۔ اس نے روتے ہوئے زمین پر گر کر کہا۔ اس نے اپنی گردن اپنے باپ کے سامنے جھکا دی۔
’’پتر۔۔۔! میں نے زندگی میں تیری ہر خواہش پوری کی ہے۔ مگر ایک مُسلے سے دل لگا کر تُو نے اچھا نہیں کیا‘‘۔
’’ہاں واقعی باپو۔۔۔! میں نے اچھا نہیں کیا، مگر وہ بہت اچھا ہے۔ اس نے اپنی نگاہ میں ایک ذرہ بھی میل لا کر مجھے نہیں دیکھا۔ قصور وار میں ہوں باپو جی، مجھے مار دیں، اس نے آپ کے احترام میں میری بڑی توہین کی ہے۔ میں برداشت نہیں کر سکتی۔ میں نے سچ بتا دیا آپ کو، اب آپ جو چاہیں سو کریں‘‘۔ اس نے روتے ہوئے اپنا سر پھر سے جھکا دیا۔
سردار بلوندر سنگھ بہت سمجھ دار بندہ تھا۔ وہ فوراً بھانپ گیا کہ کھوٹ اپنی ہی مٹی میں ہے۔ کسی سے کیا کہنا۔ وہ اگر طیش میں آ کر غیض و غضب کے ساتھ نور محمد کو نقصان پہنچانے چڑھ دوڑتا تو بدنامی آخرکار اس کی اپنی بیٹی کی ہونی تھی۔ امرت کور نے سچ بتا کر اور اپنا جرم تسلیم کر کے ، نور محمد کی سچائی بیان کر دی تھی، جس کی تصدیق اس کی ماں نے بھی کر دی کہ مجھے صرف شک تھا، اِدھر اُدھر سے میں باتیں سکتی رہی تھی، لیکن مجھے یقین نہیں تھا، آج یہ اپنے منہ سے کہہ رہی ہے، تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ اگر نور محمد سچا نہ ہوتا تو ہمیں ایسی کوئی بات معلوم ہی نہ ہوتی اور امرت کور یہاں نہ ہوئی۔
اس نے بروقت فیصلہ کر لیا۔ اس نے جو سوچنا تھا، وہ سوچ لیا، اس وقت امرت کور پر حویلی سے نکلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس نے بھی کیا نکلنا تھا جو خود اپنی ہی نگاہوں میں ذلیل ہو چکی ہو۔ بلوندر سنگھ نے وقت سنبھال لیا۔ اپنی مٹی کے کھوٹ کو چھپا گیا۔
چند دن نہیں گزرے تھے کہ انہی کی پال برداری میں اس کی منگنی کی باتیں چلنے لگیں۔ لڑکے کا نام رگھبیر سنگھ تھا۔ وہ اسی گاؤں میں پلا بڑھا، لیکن جوان امرتسر شہر میں ہوا۔ وہاں اس کے تایا رہتے تھے جو بے اولاد تھے۔ انہوں نے اسے وہاں لے جا کر پڑھایا لکھایا اب وہ گھبرو جوان ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے تایا کا دیہانت ہو گیا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ وہ خالصہ کالج میں اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہے، اس لیے گاؤں واپس نہیں آئے گا، وہیں اپنی تائی کے ساتھ رہے گا۔ پھر گاؤں سے جو بہو بیاہ کر لے جائی جائے گی، وہ بھی شہر ہی میں رہے گی، ان دنوں ایسا رشتہ کہاں ملنا تھا۔ یہ بلوندر سنگھ کی شرافت اور امارت ہی تھی، جس کے باعث ایسا رشتہ نصیب ہو گیا تھا۔ امرت کور کی اس کے ساتھ منگنی ہو گئی۔ جبکہ اسے ذرا برابر بھی خوشی نہیں تھی۔ اس کی لو اب بھی نور محمد کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔
امرت کور کی زندگی بدل گئی۔ اب وہ پہلے جیسی الہڑ مٹیار نہیں رہی تھی۔ بلکہ حویلی میں اپنے ہی کمرے تک محدود رہنے والی بن گئی تھی۔ ذلت کا احساس اسے ہر وقت اپنے ساتھ لپٹا ہوا محسوس ہوتا رہتا۔ جسے وہ کبھی بالکل ہی برداشت نہیں کر پاتی تھی۔ ایسے ہی ایک مرتبہ اسے اپنے پرائمری کے استاد روشن لعل مل گئے۔ وہ کسی کام سے حویلی آئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں کچھ کتابیں دیکھ کر اس نے ایسی کتابیں لا کر دینے کو کہا۔ ایک کتاب تو اسے اسی وقت مل گئی۔ وہ حضرت بلھے شاہ جی کا کلام تھا۔ وہ اس نے لے لیا، پھر وہ ہوتا یا پھر گرنتھ صاحب کا پاٹھ، اس نے اپنے ذلت کے خیال کو خود سے الگ کرنے کے لیے اپنے رب سے لو لگانے کے جتن شروع کر دیئے۔ اسے پڑھنے کا شوق لگ گیا۔ ایک تو وہی وجہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح ذلت کے خیال سے چھٹکارا مل جائے اور دوسرا رگھبیر سنگھ کا خیال، وہ کالج میں پڑھنے والا لڑکا اور یہ محض پرائمری پاس لڑکی، وہ بھی دیہات کی، کس طرح اس کے ساتھ گزارا کرے گی۔ یہ مجبوری بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پڑھنے کی تو شوقین ہو گئی لیکن نور محمد کے خیال سے اسے چھٹکارا نہیں ملا، وہ اسے جتنا بھولنے کی کوشش کرتی، اتنا ہی وہ اسے یاد آتا۔ اس نے ایک دن سنا کہ حاجراں کی شادی ہونے والی ہے، وہ کسی نہ کسی بہانے اس کی خدمت کرنے پر تل گئی۔ کبھی کسی کے ہاتھ کوئی کپڑا بھیج دیا اور کبھی کوئی گہنا، لیکن وہ اس نے کبھی قبول نہیں کیا تھا۔ ہمیشہ شکریہ کے ساتھ واپس لوٹا دیتی رہی کہ ان کے ہاں سب کچھ ہے ظاہر ہے یہ سوچ فقط حاجراں کی نہیں ہو سکتی تھی، اس کے پیچھے نور محمد کی ہی سوچ تھی۔ جب بھی کوئی تحفہ شکریے کے ساتھ واپس آتا تو اسے مزید ذلت محسوس ہوتی۔ یوں دن گزرتے چلے گئے۔
اچانک ایک دن رگھبیر سنگھ گاؤں آ گیا۔ وہ اپنی تائی کو بھی ساتھ لے آیا تھا، اس کی آمد کی وجہ بڑی خوفناک تھی۔ اس نے جو بتایا تھا وہ بے حد خطرناک صورتِ حال کے بارے میں بتا رہا تھا، اس نے ملک دو ٹکڑے ہو جانے کی بات کی تھی۔ اس وقت تو اسے کوئی سمجھ نہیں آئی جب وہ اس کے باپو کے پاس بیٹھا ایسی باتیں کر رہا تھا، لیکن بعد میں جب اسے سمجھ آئی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کے اندر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ اٹھی۔ اسے اپنی ذلت مٹانے کا موقعہ مل سکتا تھا، وہ جوں جوں سوچتی چلی جا رہی تھی، اس کے ساتھ ہی اس کے اندر جوش و جذبہ بڑھتا جا رہا تھا، اس کی تمام تر سوچوں کا مرکز نور محمد بن چکا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔
رگھبیرسنگھ نے گاؤں میں آتے ہی سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے گاؤں کے چند غنڈہ نما سکھ لڑکوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں سوائے لڑائی بھڑائی، آوارہ گردی اور تاک جھانک کے اور کوئی کام نہیں تھا۔ ان لوگوں کی منڈلی وہ اپنے باپو کے کھیتوں میں کنویں پر لگاتا۔ وہاں سارا دن جوا، تاش اور شراب چلتی رہتی۔ ان آوارہ گردوں کو ایک بہت اچھا ٹھکانہ مل گیا تھا۔ پھر اس نے ان سکھ نوجوانوں کو اپنے قریب کرنا شروع کر دیا جو تھوڑا بہت یا کچھ پڑھے لکھے تھے۔ وہ انہیں سکھوں پر ہونے والے مظالم کی من گھڑت داستانیں سناتا اور جس قدر نفرت وہ ان کے ذہنوں میں بھر سکتا تھا، بھر رہا تھا۔ وہ خود پڑھا لکھا تھا، اس لیے بڑے دلائل سے بات کرتا جو دوسروں کو قائل کر لیا کرتی تھیں۔ اس طرح وہ گاؤں میں اپنی ایک خاص قسم کی ساکھ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر ایک دن اس کے اصل خیالات کا پتہ چلا ۔ وہ بلوندر سنگھ کے پاس دالان میں بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں میں باتیں چل رہی تھیں اور امرت کور اندر والے کمرے میں بیٹھی ان کی آوازیں صاف سن رہی تھی۔ انہی باتوں کے دوران بلوندر سنگھ نے پوچھا۔
’’اوئے رگھبیرے۔۔۔! یہ جو تُو نے آتے ہی کام شروع کر دیا ہے، یہ کیا ہے، ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
’’سردار جی۔۔۔! یہ اب ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا ہے، اس کا اعلان بھی ہو گیا ہے۔ اس ملک کے ٹکڑے ہونے ہی ہونے ہیں۔ اس تقسیم کے بعد حالات وہ نہیں رہنے جواب تک ہیں۔ اس ملک کا مستقبل کچھ اور ہی ہو گا۔ اس مستقبل میں ہمارا کیا حصہ ہے؟ بس یہ سارا کچھ اس کوشش کے لیے ہے‘‘۔
’’میں اب بھی نہیں سمجھا کہ تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟‘‘ بلوندر سنگھ نے واقعتاًاس کی بات نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’او باپو جی، ذرا سمجھو آپ، انگریزوں کے چلے جانے کے بعد طاقت اور حکومت کن لوگوں کے پاس آئے گی، کیا ہم اس طاقت اور حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آئندہ الیکشن ہونے ہیں۔ ہمیں ووٹ چاہئے ہو گا۔ گاؤں کے پنچ سے لے کر اسمبلی کے رکن تک، یہ سب کیسے ممکن ہو گا۔ اپنا آپ منوانے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ہی طاقت میں اکٹھی کر رہا ہوں۔ آپ دیکھنا، کل یہ طاقت بھی ہماری ہے اور حکومت میں بھی ہم ہی ہوں گے‘‘۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ تم نے شہر کے کالج میں پڑھ کر کیا کیا سیکھا ہے، لیکن میرا تو سیدھا سادہ سوال یہ ہے کہ یہ جو تم گاؤں کے مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکا رہے ہو۔ ان بے چاروں کا کیا قصور؟ ان کا اس تقسیم سے کیا تعلق؟‘‘
’’سردار جی۔۔۔! میں نے تو یہ سیکھا ہے کہ لوگوں کے ذہن قابو کرنا کے لیے ان کے دل میں کسی کی محبت بھر دو یا پھر نفرت بھر دو۔ کوئی مقصد تو چاہئے نا ان کو اکٹھا رکھنے کے لیے۔ محبت سے زیادہ نفرت بھرنا آسان ہے۔ وہ میں بڑی آسانی سے کر رہا ہوں۔ آپ دیکھ نہیں رہے میرے ایک اشارے پر کتنے لوگ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں جب چاہوں، ان مُسلوں کے گھر پھکوا دوں‘‘۔
’’نہ پتر، تیر ی یہ سوچ اچھی نہیں ہے۔ انہوں نے تیرا کیا بگاڑا ہے۔ ہم پُرکھوں سے ایک ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم میں کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ ہماری کوئی دشمنی نہیں۔ پھر ایسی فضول سوچ کیوں ہے تمہاری؟ بلوندر سنگھ نے انتہائی افسوس ناک انداز میں اسے سرزنش کی۔
’’آج آپ ایسا کہہ رہے ہیں لیکن کل آپ کی سوچ بھی میری طرح ہو گی، کیا ہمارے دھرم کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے؟ کیا اس دھرتی کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے۔ آپ تو گاؤں میں سیدھی سادی زندگی گزارنے والے بندے ہیں۔ گروؤں کے حکم کیا ہیں، ابدالی نے ہرمندر صاحب کی تذلیل کی، کیا ایک سکھ اس کو بھول سکتا ہے۔ کتنے سکھ شہید کیے اس نے۔ کیا ان کا بدلہ ہماری گردن پر نہیں ہے؟‘‘ وہ انتہائی جذباتی انداز میں بولا۔
’’وہ جو ہونا تھا ہو گیا، مجھے بتا اس گاؤں کے مسلمانوں میں سے کوئی ابدالی کے ساتھ تھا، ان کے آبا و اجداد میں کوئی تھا تو چل میں تیرے ساتھ چلتا ہوں اور اپنی کرپان سے ان کی گردن اڑا دیتا ہوں۔ بول کون ہے ان میں؟‘‘ بلوندر سنگھ نے طیش میں کہا تو وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہا، پھر بولا۔ ’’شری ہرمندر صاحب کی بنیاد بھی تو ایک سکھ کی بجائے ایک مسلمان نے رکھی تھی۔ اس کے بارے میں کیا کہتا ہے تُو۔۔۔ دیکھ، جپ جی صاحب میں گرو مہاراج سچے بادشاہ نے سکھوں کے بارے میں بھی بتا دیا، وہ پڑھی ہے تُو نے۔ پوڑی سترہ اور اٹھارہ۔۔۔اسی طرح ہر قوم میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ اب تُو بتا، تُو کس طرف کا ہے، لکیر کے کس پار کھڑا ہے؟‘‘
’’یہ سیاست ہے باپو جی، اور میں جس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں، اس کا یہی حکم ہے۔ آپ کے خیالات مسلمانوں کے لیے اچھے ہوں گے، میرے نہیں اور پھر جب انہوں نے اپنا الگ ملک بنا لیا ہے تو یہ وہاں جائیں، اب یہاں ان کے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ اس نے بات ہی گھما کر کسی اور طرف ڈال دی۔
’’دیکھ پتر۔۔۔! کوئی کیا کرتا ہے، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ ہاں جو ظلم کرتا ہے، اس سے لڑنا اور اسے سزا دینا ہمارا حق ہے، ہم مظلوم کے ساتھ ہیں۔ سن، میں تجھے ایک بات سناتا ہوں۔ ایک دفعہ سچے بادشاہ نے ایک سکھ سے کہا، حسینؓ کا غم منایا کرو، اس نے فوراً پلٹ کر جواب دیا، وہ تو مسلمانوں کا گرو ہے، ہم اس کا غم کیوں منائیں، اس پر سچے بادشاہ گرو جی مہاراج نے کہا۔ چل جا اپنے گھر اور اپنی بہن سے شادی کر لے۔ وہ چونک گیا اور تذبذب میں بولا، آپ کا حکم مہاراج۔۔۔ سر آنکھوں پر پر میرا ضمیر نہیں مانتا، تب گرو مہاراج مسکرائے اور کہا، اسی ضمیر کا نام حسینؓ ہے۔ کیا تُو نے یہ کہیں نہیں پڑھا‘‘۔
’’باپو جی چھوڑیں ان باتوں کو، آج کی ضرورت کیا ہے، ہمیں تو اسے دیکھنا ہے۔ وقت بدل رہا ہے، اب ہمیں بھی بدل جانا چاہئے‘‘۔ اس نے کافی حد تک نرم لہجے میں کہا۔
’’تُو جو مرضی کر، تیری زندگی ہے، ہم تو اپنی گزار بیٹھے ہیں۔ بس اتنا دھیان رکھنا، کسی پر ظلم نہیں کرنا‘‘۔ بلوندر سنگھ نے کہا اور خاموش ہو گیا۔
اس دن امرت کور کو رگھبیر سنگھ کے اصل خیالات کا پتہ چلا۔ اسے یہ سب اچھا نہیں لگا۔ مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ اسے روک سکتی تھی۔ وہ تو خود یہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ رگھبیر سنگھ اس کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ کہاں جاتی ہے، کس سے تعلق رکھتی ہے، اس کی کون سہیلیاں ہیں۔ یہ سب وہ اپنی نگاہ میں رکھنا چاہتا تھا اور رکھ رہا تھا۔ اس سے وہ بڑی گھٹن محسوس کیا کرتی تھی۔ کہاں آزاد فضاؤں میں چہکتی ہوئی چڑیا اور کہاں تعفن میں بند کر دینے کا احساس، رگھبیر سنگھ کے لیے اس کے دل میں کبھی بھی کوئی جذبہ نہیں رہا تھا، اب اس کے رویے نے تو بالکل ہی اس کے دل کے دروازے بند کر دیئے تھے۔ اس نے تو بس نور محمد کا کہا ہوا ایک ایک لفظ اپنی سماعتوں میں محفوظ کر کے رکھا ہوا تھا۔ جو دن بدن اس کی زندگی کو کسی اور ہی رنگ میں رنگتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے دل پر جبر کیا اور رگھبیر سنگھ کے نزدیک ہوتی چلی گئی۔
دن گزرتے چلے جا رہے تھے۔ مگر ہر آنے والا دن خوفناک ہوتا چلا جا رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرف سے کوئی نہ کوئی ایسی خبر آ جاتی جس سے گاؤں پر خوف کے سائے مزید بڑھ جاتے۔ ہر کوئی سہم گیا تھا۔ صرف رگھبیر سنگھ اور اس کی ٹولی گاؤں بھر میں اپنا آپ منوانے کے لیے اور دہشت ڈالنے کے لیے اکثر پھرتے رہتے۔ دیکھا دیکھی اور بہت سارے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ پھر ایک سیاہ رات آ گئی۔ بلوندر سنگھ اور رگھبیر سنگھ کے درمیان بڑی تلخ کلامی ہوئی۔ امرت کور جانتی تھی کہ ان کے درمیان تلخی کیا ہے۔ وہ اچھی طرح سن رہی تھی۔
’’میں تجھے کبھی بھی اجازت نہیں دوں گا کہ تم کسی بھی مسلمان گھرانے کو تباہ کرو۔ وہ یہاں سے جانا چاہتے ہیں، انہیں سکون سے جانے دو۔ کوئی مداخلت نہ کرو‘‘۔ بلوندر سنگھ نے انتہائی غصے میں کہا۔
’’اب میں کچھ نہیں کر سکتا، میں نے انہیں مارنا ہی مارنا ہے۔ اب میں اگر رک بھی جاؤں تو میرے ساتھی نہیں رکیں گے ، وہ انہیں مار دیں گے‘‘۔ نشے میں دھت رگھبیر سنگھ نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
’’تُو رک جا، باقی کو میں خود سنبھال لوں گا‘‘۔ وہ زور سے بولا۔
’’میں انہیں جانے بھی دوں تو وہ آگے کہیں قتل ہو جائیں گے۔ وہ زندہ سلامت تو اپنے ملک نہیں پہنچتے۔ پھر کیوں نہ ہم ہی ان سے فائدہ اٹھا لیں‘‘۔
’’فائدہ۔۔۔! کیسا فائدہ؟‘‘
’’او باپو جی، ان کا مال اپنے قبضے میں کروں گا۔ پھر انہیں مارکر اپنی پارٹی والوں کو بتاؤں گا کہ میں نے اتنے مسلمانوں کو مارا ہے۔ وہاں بھی تو جگہ بنانی ہے‘‘۔ اس نے جھومتے ہوئے کہا۔
’’اوئے رگھبیرے۔۔۔! مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں انہیں صحیح سلامت امرتسر اسٹیشن تک چھوڑ آؤں۔ اب تُو بھی میرے راستے میں آیا نا تو میں تجھے بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ بندہ بن اور اپنے ساتھیوں کو سمجھا، وہ یہ ظلم نہ کریں‘‘۔
’’باپو جی۔۔۔! میرا یہ خیال ہے کہ آپ گھر میں رہیں۔ باہر نہ نکلیں تو اچھا ہے۔ اب یہ طوفان روکیں گے تو بھی نہیں رکے گا۔ میں جا رہا ہوں‘‘۔ وہ نشے میں دھت تھا، اس لیے مست الست سا اٹھا اور حویلی کے باہر نکلتا چلا گیا۔ امرت کور ایسے ہی کسی موقعے کی تلاش میں تھی۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور رگھبیر سنگھ کی راہ میں آ گئی جو گھوڑی پر سوار ہونے والا تھا۔
’’وے رگھبیرے۔۔۔! تُو کیا سچ مچ ان مُسلوں کو مار دے گا آج کی رات ۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! جیسے ہی پچھلی رات کا چاند چڑھے گا، وہی ان کی موت کا وقت ہو گا۔ جاگ کر انتظار کر، سورج طلوع ہونے سے پہلے یہاں کوئی بھی نہیں بچے گا‘‘۔ اس نے تیزی سے کہا اور ایک ہی جست میں گھوڑی پر سوار ہو گیا۔ وہ تیر کی مانند حویلی سے نکل گیا۔ اب جو کچھ کرنا تھا، وہ امرت کور ہی نے کرنا تھا۔
رات کے اندھیرے میں حویلی سے ایک تیز رفتار گھوڑی نکلی جو ہواؤں کو چیرتی ہوئی گلیوں میں سے گزرتی چلی گئی۔ اس کا رخ مسلمان گھرانوں کی طرف تھا، وہ سوار وہاں کچھ دیر ٹہلتا رہا، پھر اتنی ہی تیزی سے گاؤں سے باہر چلا گیا۔ گاؤں سے ذرا فاصلے پر درختوں کے جھنڈ میں ایک کنواں تھا۔ جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کچا کمرہ بنا ہوا تھا۔ وہ سوار ادھر ہی جا رہا تھا۔ وہاں اردگرد کہیں بھی ذی روح موجود نہیں تھا۔ تھی اچانک اس کے سامنے ایک ہیولا لہرایا، اس نے گھوڑی کی لگام پکڑ لی، تبھی سوار نے اپنے منہ پر بندھا ہوا ڈھاٹا اتار دیا۔
’’امرت کور تُو۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! میں ہوں نور محمد‘‘۔
’’مگر مجھے تو یہ کہا گیا ہے کہ رگھبیر سنگھ ادھر آ رہا ہے۔ میں تو اس کی تاک میں تھا۔ پیغام غلط۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’میں نے ہی تجھے یہ پیغام بھیجا ہے کہ رگھبیر سنگھ ادھر آ رہا ہے‘‘۔ امرت کور نے سکون سے کہا۔
’’اور تم کیوں آ گئی‘‘۔ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’دیکھ نور محمد۔۔۔! نہ میں تمہیں بھولی ہوں اور نہ ہی بھول سکتی ہوں۔ رب نے بڑی مہر کی ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیئے۔ جب کسی کو کسی کا ہوش ہی نہیں ہے۔ آ۔۔۔ یہاں سے بھاگ جائیں، میں گھر کے پورے گہنے اور دولت اٹھا لائی ہوں۔ چل اپنی نئی دنیا بساتے ہیں‘‘۔ امرت کور نے سارے جہاں کا پیار اپنے لہجے میں سموتے ہوئے کہا۔
’’امرت کورے۔۔۔! تُو واقعی پاگل ہے۔ ادھر رگھبیر اور اس کا جتھا ہمیں قتل کرنے کو پھر رہا ہے اور تُو مجھے یہاں سے بھاگ جانے کا کہہ رہی ہے۔ میں اپنے گھر والوں کو موت کے منہ میں چھوڑ دوں۔۔۔‘‘ نور محمد نے انتہائی غصے میں کہا۔
’’وہ تو ویسے ہی مر جائیں گے۔۔۔ اب انہیں کوئی نہیں بچا سکتا، تو بھی اب اگر وہاں ہوا نا تو وہ تجھے بھی قتل کر دیں گے اور میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ تجھے کوئی قتل کر دے‘‘۔ وہ انتہائی گہرے لہجے میں بولی۔
’’کیا مطلب ۔۔۔!‘‘ وہ ہذیانی انداز میں بولا۔
’’مطلب یہ ہے نور محمد۔۔۔! تُو نے تو اب تک ان کے بارے میں سنا ہی ہے ناکہ وہ ایسا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں، لیکن انہیں پتہ چل گیا ہے کہ صبح تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ گے۔ اس لیے انہوں نے آج رات ہی ۔۔۔‘‘ امرت کور نے کہا اور کہتے کہتے رک گئی۔
’’او ناہنجار عورت ۔۔۔!تُو نے اس لیے مجھے یہاں بلا لیا کہ وہ میرے گھر والوں کو مار دیں۔۔۔ میں ان کی حفاظت بھی نہ کر سکوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ جانے لگا تو امرت کور نے اپنا بازو اس کے آگے کر دیا۔
’’نور محمد تُو بھی نہیں بچ سکے گا۔ وہ مارد یں گے تجھے سیانا بن، ابھی وقت ہے ہمارے پاس، ہم یہاں سے بہت دور نکل سکتے ہیں۔ میں اپنی بہترین گھوڑی بھی لے آئی ہوں۔ چل نکل چلیں‘‘۔ امرت کور نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ غضب میں بولا۔
’’میرے راستے سے ہٹ جا امرت۔۔۔ میں بھی اگر زندہ نہ رہا تو کیا ہوا، مارنے والوں کو تو مار کر مروں گانا؟ یہاں میں رگھبیر کو ہی مارنے آیا تھا۔ جو سارے فساد کی جڑ ہے۔ میں ان سے نپٹ لوں، پھر تجھے بھی بتاتا ہوں کہ عشق کیسے کرتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ وہ جانے لگا تو امرت کور پھر راستے میں آ گئی۔
’’میں کہتی ہوں میری بات مان لے۔۔۔ اچھا رہ جائے گا‘‘۔ امرت کور نے بھی غصے میں کہا۔
’’کیا کرے گی تُو مجھے روک لے گی؟‘‘ نور محمد نے زور سے کہا۔
’’ہاں، میں تجھے روک لوں گی، تُو جا کے دکھا، اب تیرے پاس صرف دو راستے ہیں، ان میں سے ایک چن لے ورنہ جو تُو نے میری ہتک کی ہے، میں نے آج اس کا بدلہ لے لینا ہے‘‘۔
’’کیا۔۔۔ کرے گی تُو۔۔۔کیا چاہتی ہے‘‘۔ وہ اکتاتے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’یا تُو مجھے اپنے ساتھ لے چل، اپنی زندگی بھی بچا اور مجھے ایک نئی زندگی دے دے، ہم ایک خوشحال زندگی گزاری گے۔ یا پھر میرے بدن کی آگ بجھا یہیں اس جگہ اور چلا جا اپنے خاندان کی حفاظت کرنے۔ میں سمجھوں گی میں نے تمہیں پا لیا۔۔۔‘‘۔ امرت کور ، انتہائی اجنبیت والے لہجے میں غصے سے کہا تو نور محمد کا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ وہ یونہی ماننے والی نہیں تھی۔ اگر اس کا کہنا سچ ہے اور جس تیاری سے وہ یہاں تک آئی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رگھبیر ان کے گھروں پر حملہ کرنے والا ہے۔ اسے اپنے گھر والوں کا بچانا تھا، انہیں ابھی لے کر نکلنا تھا۔ اب سوائے زبردستی وہاں سے جانے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے امرت کور کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر پوری نفرت سے اس پر تھوک دیا۔
’’میں تھوکتا ہوں تیرے بدن پر اور تیرے بدن کی آگ پر‘‘۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا۔ امرت کور غضب سے اس کی طرف دیکھتی رہی، وہ چند قدم ہی آگے چلا تھا کہ ایک بھاری لکڑی سے اس کے سر پر وار کیا گیا۔ اس کے حواس گم ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا، دوسرا وار کر دیا گیا۔ پھر تیسرا۔ اس نے گھوم کر دیکھا، امرت کور شعلہ جوالا بنی ہاتھ میں ڈانڈا پکڑے ہوئے تھی۔ جس قوت سے اس نے ضربیں لگائی تھیں اس میں اس کے اندر کے جذبوں کی کار فرمائیاں بھی تھیں۔ نور محمد چند لمحوں تک خود کو سنبھالتا رہا، لیکن تیسری ضرب کے بعد وہ اپنے حواسوں میں نہ رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا چلا گیا۔۔۔
اسے جب ہوش آیا تو بندھا ہوا تھا۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر امرت کور کھڑی تھی۔ جس کی آنکھوں سے نفرت اُبل رہی تھی۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر وہ بولی۔
’’اب تیرے پاس فقط ایک ہی راستہ رہ گیا ہے، میرے ساتھ بھاگ جانے گا۔ وہ دیکھ گاؤں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اب تک تیرے سارے گھر والے مار کر جلا دیئے گئے ہوں گے۔ کچھ نہیں بچا ہو گا وہاں پر۔۔۔‘‘
نور محمد نے زمین پر پڑے پڑے ہی گھوم کر دیکھا۔ ملگجی سی چاندنی میں گاؤں کی طرف سے شعلے اٹھ رہے ۔ چیخ و پکار کی ہلکی ہلکی آوازیں وہاں تک آ رہی تھیں۔ نور محمد تڑپ اٹھا۔ اس نے اپنا پورا زور لگانا شروع کر دیا کہ کسی طرح ان رسیوں سے آزاد ہو جائے۔
’’مجھے کھول دے امرت، مجھے جانے دے۔۔۔‘‘
’’نہیں، میں تجھے موت کے منہ میں کیسے دھکیل سکتی ہوں۔ تُو اگر مجھے لے کر جانا چاہتا ہے تو میں تجھے ایسے ہی گھوڑی پر سوار کر دیتی ہوں، میں تجھے یہاں سے لے کر دور چلی جاؤں گی، بول، کیا فیصلہ ہے ۔ تیرا۔۔۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح ہذیانی انداز میں اس سے یوں پوچھ رہی تھی جیسے وہ اس کی بے بسی سے مزہ لے رہی ہو۔
’’تُو مجھے ایک بار کھول دے۔۔۔ پھر دیکھ، رگھبیر کیا پورا گاؤں پلٹ دوں گا‘‘۔ اس کے یوں کہنے پر وہ پاگلوں کی طرح ہنسی۔
’’میرے سامنے بے بس پڑا ہے۔۔۔ اور گاؤں پلٹ دے گا۔۔۔‘‘
’’میں تیرے عورت ہونے کے دھوکے میں آ گیا۔۔۔ مگر تُو اپنی ہوس میں اندھی ہو گئی ہے۔ چل تُو نہ کھول، میں خود ہی کوشش کرتا ہوں۔۔۔‘‘
’’کر۔۔۔ کر۔۔۔ کوشش کر۔۔۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ کر پاگلوں کی طرح ہنس دی۔ انہی لمحات میں گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ کوئی اس طرف آ رہا تھا ۔ چند لمحوں میں میں ہیولا واضح ہو گیا۔ وہ رگھبیر سنگھ تھا۔ شاید اس نے دور ہی سے کھڑی امرت کور کو پہچان لیا تھا۔ مگر اس کی نگاہ زمین پر بندھے ہوئے نور محمد پر نہیں پڑی تھی۔ اس نے گھوڑی سے اترتے ہوئے تیز انداز میں پوچھا۔
’’نی امرت کورے۔۔۔! تُو یہاں کیا کر رہی ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی، اس کی نگاہ زمین پر بندے ہوئے نور محمد پر پڑی تو وہ کھل اٹھا اور پھر جھومتے ہوئے بولا۔
’’اوئے رب جسے شکار دے۔۔۔ میں تو کب کا اسے ڈھونڈ رہا تھا اور یہ یہاں چوہے کی طرح پڑا ہے، پر اسے باندھا کس نے ہے؟‘‘
’’میں نے ۔۔۔؟‘‘ امرت کور نے نفرت سے کہا۔ تب رگھبیر نے خوشی جھومتے ہوئے کہا۔
’’اوئے اش کے بھئی اش کے امرت کورے، تُو نے ثابت کر دیا ہے کہ تُو شیرنی ہے اور میری بیوی بننے کے قابل ہے، میں تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا پر تُو نے دل خوش کر دیا۔۔۔‘‘
’’تُو کیا سوچ رہا تھا؟‘‘ امرت کو نے تجسس سے پوچھا۔
’’سچو سچ پوچھتی ہے نا تو پھر سن، یہ جب نور محمد مجھے اپنے گھر نظر نہیں آیا تو میں نے یہی سمجھ لیا کہ تُو اس کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ میں نے فوراً حویلی میں آ کر پتہ کیا تُو وہاں نہیں تھی۔ تیرا باپ بھی گھر میں نہیں ہے۔ میں سمجھ گیا۔ میں نے فوراً اِدھر اُدھر بندے بھیج دیئے ہیں۔ گاؤں سے نکلتے ہی ایک بندے نے مجھے بتایا کہ کوئی سوار ادھر گیا ہے اور میں ادھر آ گیا۔ تجھے تلاش کرنے، مجھے یقین تو نہیں تھا کہ ابھی تم لوگ ادھر ہو گے، پھر دیکھ لینے میں کیا حرج تھا، اسی رستے سے تجھے آگے تلاش کر لیتا‘‘۔
’’تجھے ایسا شک کیوں ہوا رگھبیرے؟‘‘ امرت نے اس کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے پوچھا۔
’’لے۔۔۔! میں جانتا نہیں ہوں۔ پورا گاؤں جانتا ہے کہ تُو اس سے عشق کرتی ہے۔ پر لگتا ہے کہ اب تُو اس سے انتقام لے رہی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی تلوار نما کرپان نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’لے، پکڑ، اتار دے اس کی گردن، بس یہی بچا ہے، باقی سارے مار دیئے ہیں‘‘۔
اس کا اتنا کہنا ہی تھا کہ زمین پر پڑا ہوا نور محمد تڑپ اٹھا۔ اس نے پورا زور لگایا مگر رسیاں نہ ٹوٹیں۔ اسے اپنی موت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ افسوس اسے اس بات کا تھا کہ وہ اپنے پیاروں کی حفاظت نہیں کر سکا۔ امرت کور نے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر رگھبیر کی بڑھائی ہوئی کرپان اپنے ہاتھ میں لے لی اور اگلے ہی لمحے پوری قوت سے کرپان گھمائی اور رگھبیر سنگھ کی گردن اڑا دی۔ وہ تڑپ کر زمین پر گر پڑا۔ اس کا جسم ماہی بے آب کی مانند زمین پر تڑپ رہا تھا۔ اس کے خون کے چھینٹے امرت کور کے چہرے پر آن پڑے تھے۔ اس نے کرپان ایک طرف پھینکی اور بندھے ہوئے نور محمد سے لپٹ گئی۔ کوئی لفظ کہے بغیر یوں رونے لگی جیسے اس کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔ پھر پاگلوں کی طرح اس کا سر ، منہ اور جسم چومنے لگی۔ اسے یہ خیال ہی نہیں تھا کہ اس کے قریب رگھبیر کی لاش تڑپ رہی ہے۔ اس کے بدن سے ابھی تک تازہ خون بہہ رہا ہے۔ کافی دیر تک ہچکیوں کے ساتھ روتی رہی پھر بھیگتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’نور محمد۔۔۔! اب تو کچھ بھی نہیں رہا، نہ تیرا نہ میرا۔۔۔ چل کسی دوسرے دیس چلتے ہیں‘‘۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ وہ تو غم کی شدت سے پتھر بن گیا تھا۔ وہ وہیں اس کے پاس بیٹھی روتی رہی مگر نور محمد نے اسے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ دو تین گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ ایک طرف نفرت کی آگ میں جلتا ہوا نور محمد کا وجود، جو اس کے لیے سرد تھا۔ اس کے جذبات برف کی مانند ٹھنڈے تھے اور دوسری طرف موت نے رگھبیر کی لاش کو ٹھنڈا کر دیا تھا، اس کے تن سے جدا سر کی آنکھیں اب تک کھلی ہوئی تھیں، اور شاید ان میں حیرت اب بھی جمی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے درمیان امرت کور، بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔ اچانک گاؤں کے داخلی راستوں پر گڑگڑاہٹ ہونا شروع ہو گئی۔ وہ کئی موٹریں تھیں وہ سمجھ گئی یہ ملٹری کی گاڑیاں ہیں۔ اس نے نور محمد کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
’’اٹھ نور محمد، نکل چلیں، گاؤں سے اب کوئی بھی ہمارے پیچھے نہیں آئے گا‘‘۔
نور محمد چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر پہلے سے زیادہ گہری نفرت سے اس پر تھوک دیا۔ اس نے آنکھیں یوں بند کر لیں کہ چاہے تو وہ اب اسے قتل کر سکتی ہے۔ امرت کور اس کی طرف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ آنکھوں سے جاری آنسو خشک ہو گئے۔ وہ اٹھی اور اس نے اس کی رسیوں کو کھول دیا۔ نور محمد تیزی سے آزاد ہو گیا۔ تب امرت کور نے ہاتھ میں کرپان پکڑی اور اس کی طرف بڑھا دی۔
’’میرا وجود صرف تیرے نام کا ہے، تُو نہیں تو کسی کام کا نہیں، اپنے ہاتھوں سے مار ہی دے مجھے۔ میرے دل میں یہ حسرت تو نہیں رہے گی کہ تُو نے مجھے کچھ بھی نہیں دیا، محبت نہیں دی، تو موت ہی دے دے‘‘۔ تبھی نور محمد نے اس کی طرف گہری نگاہوں سے دیکھا اور پھر اس سے بھی گہری نفرت سے زمین پر تھوک دیا۔ جس کا مطلب یہی تھا کہ تیرا جسم اس قابل بھی نہیں ہے کہ میں تم پر اب تھوک بھی سکوں۔ میرا تھوک قیمتی ہے۔ پھر اس نے امرت کور کی طرف دیکھا بھی نہیں، ہوا کی مانند رگھبیر سنگھ کی گھوڑی پر ایک جست میں بیٹھا اور وہاں سے چل دیا۔
امرت کور اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی۔ وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح اس وقت حویلی میں داخل ہوئی جب سورج طلوع ہو رہا تھا۔ دالان میں پورا خاندان افسوس ناک حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی بلوندر سنگھ نے اونچی آواز میں پوچھا۔
’’کہاں سے آئی ہے تو؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے پاس کوئی جواب تھا ہی نہیں۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی خون آلود کرپان اپنے باپ کے قدموں میں رکھ دی۔ پھر اس کے ساتھ اپنی گردن اس کے سامنے جھکا کر کھڑی ہو گئی۔ بلوندر سنگھ کچھ بھی نہ سمجھ پایا۔ وہ امرت کور سے پوچھتا ہی رہا کہ کیا ہوا، مگر اس کے پاس تو فقط خاموشی تھی۔ وہیں اسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ اس فساد کو روکنے کے لیے ملٹری کے پاس گیا تھا۔ جو بہت دیر سے پہنچی۔ سب کچھ اجڑ گیا تھا، زبان پر کوئی بھی لفظ لانے کا فائدہ ہی نہیں تھا۔
’’میں تیرے دادا نور محمد کی نگاہیں آج تک نہیں بھول سکی۔پچاس سال ہونے کو آ گئے ہیں مگر وہ نگاہیں آج بھی میرے سامنے ویسی ہی ہیں۔ آج صبح میں نے اس نفرت کی جھلک تیری آنکھوں میں دیکھی تو لگا کہ نور محمد دوبارہ آ گیا ہے۔ اتنے برس بعد میں نے محسوس کیا کہ میں اس کنویں پر اب بھی کھڑی ہوں۔ میں نے اگر تم سے بات نہ کی تو ویسا ہی محسوس کروں گی جیسا جاتے ہوئے نور محمد نے میری طرف دیکھا تھا۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی میرے بچے۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ زار و قطار رونے لگی۔ میں نے اسے رونے دیا۔ کچھ دیر بعد اس کا جی ہلکا ہو گیا۔
’’پھر آپ پرونت کورسے نہیں ملیں‘‘۔
’’میں کسی سے بھی نہیں ملی، مجھے اپنا ہی ہوش نہیں تھا۔ میں نے ساری دنیا تیاگ دی تھی‘‘۔ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ پھر ذرا سنبھل کر بولی۔’’میں پتہ نہیں کیا ہوں۔ سکھ ہوں یا مسلمان ہوں۔ بس خود کو عالم برزخ میں سمجھ رہی ہوں۔ نہ زندگی سے چھٹکارا ملتا ہے اور نہ موت گلے لگتی ہے۔ میرا جو کوئی بھی اب ہے، اس سے یہی بینتی کر رہی ہوں کہ ایک بار نور محمد ملا دے۔ وہ تو شاید میری قسمت میں نہیں پر رب نے اس کی تصویر تیرے روپ میں بھیج دی، شاید اب موت آسان ہو جائے ‘‘۔
اب میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسا سوال جیسے میں پوچھتا اور اگر کوئی سوال تھا بھی تو اس کے جواب میں کوئی نہ کوئی دکھ دینے والی کہانی ہی مجھے ملتی۔ میں نے روتے ہوئے دل سے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو مقررہ وقت سے تقریباً آدھا گھنٹہ اوپر ہو گیا تھا۔ میں ایک دم سے پریشان ہو گیا۔
’’اب ہمیں چلنا چاہئے‘‘۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ تو میں نے اسے سمجھایا کہ بھان سنگھ اور پریت کور باہر آ گئے ہوں گے۔ میرے سمجھاتے ہی وہ اٹھ گئی۔ اس نے کھڑے ہو کے الوداعی انداز میں ہاتھ جوڑے اور میرے ساتھ باہر کی جانب چل دی۔ صدر دروازے کے بالکل سامنے انہوں نے جیپ روکی ہوئی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے سکون کا سانس لیا۔
’’بہت مشکل سے رکے ہیں ہم یہاں، اجازت نہیں ہے۔۔۔‘‘ ہمارے بیٹھتے ہی گیئر لگاتے ہوئے بھان سنگھ نے کہا۔ پریت کور کا چہرہ خاصا خوشگوار تھا۔ میں خاموش رہا تو وہ بولا ۔ ’’شاپنگ تقریباً کر لی ہے، اب کچھ کھانا ہے تو کسی ریستوران میں چلیں۔ پھر جو تمہارے ذہن میں۔۔۔‘‘
’’واپس گاؤں چلو‘۔ میں نے بجھے ہوئے دل سے کہا تو اس نے میری طرف نظر بھر کے دیکھا، پھر گاڑی شہر سے باہر جانے والے راستے پر ڈال دی۔
جس وقت ہم حویلی میں واپس آئے، اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ جیپ سے اترتے ہی میں نے دیکھ لیا تھا کہ پریشان سے سریندرپال سنگھ اور ست نام کور سارے پریوار کے ساتھ دالان ہی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے۔ امرت کور گاڑی سے اترتے ہی واپس صدر دروازے کی طرف چل دی۔ اس نے کسی کی طرف توجہ ہی نہیں دی تھی۔ ہمارے قریب پہنچتے ہی ست نام کور نے پوچھا۔
’’پتر خیر خیریت تو رہی ہے نا۔۔۔‘‘۔
’’جی ۔۔۔! بس بلال کو لے کر شری ہرمندر صاحب کے اندر رہی ہے اور ہمیں شاپنگ کے لیے بھیج دیا۔ اب اپنی منگوائی ہوئی چیزیں بھی یہیں بھول کر واپس چلی گئی ہیں‘‘۔ بھان سنگھ نے خوشگوار انداز میں کہا۔
’’اس کا مطلب ہے بلال پتر نے امرتسر تو نہ دیکھا‘‘۔ پردیپ سنگھ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’امرتسر کیا دیکھنا باپو جی! ہم نے تو کھانا بھی نہیں کھایا‘‘۔ پریت کور نے کہا تو سبھی ہنس دیتے۔
’’پھر خیر خیریت تو نہ رہی نہ۔۔۔‘‘ سریندر سنگھ نے کہا۔
’’اچھا بھئی۔۔۔! جو تھوڑ! بہت کھانا ہے کھالو، ابھی کچھ دیر پہلے سر پنچ جی تم دونوں کی دعوت کہہ گئے ہیں۔ اب انہیں تو ہم نہیں ٹال سکتے‘‘۔ امریک سنگھ نے کہا۔ جو اس گھرانے کا سوشل بندہ تھا۔
’’تم لوگ بیٹھو۔۔۔! میں ان کے لیے دودھ لے کر آتی ہوں، پھر سوچتے ہیں کیا کرنا ہے‘‘۔ جسمیت کور چاچی نے کہا اور کچن کی طرف چلی گئی تو ہم بیٹھ گئے۔ خلاف توقع دادی پرونت کور وہاں نہیں تھی۔ میرے استفسارپر بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ میں پُرسکون سا ہو گیا۔ پھر ایک خیال آتے ہی امریک سنگھ سے پوچھا۔
’’چا چا جی۔۔۔! ہم کھانے سے کب تک واپس آ جائیں گے‘‘۔
’’او کا کا۔۔۔! پہلے چلے تو جائیں، پھر واپس آنے کا بھی سوچ لیں گے‘‘۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر انہی باتوں میں احساس ہوا کہ تقریباً دس بجے تک واپسی ہو گی۔ میں نے پریت کور سے لیپ ٹاپ کمرے میں رکھ دینے کو کہا اور پھر دودھ پی کر فریش ہونے کے لیے کمرے میں چلا گیا۔ وہ اس گاؤں میں میری آخری رات تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں یہاں آ کر اس قدر دکھ پاؤں گا۔ کاش میں اس گاؤں جھتوال میں کبھی نہ آتا۔
اگلی صبح میں نے اپنی تیاری کی۔ اپنے کاغذات وغیرہ سنبھالے اور نیچے دالان میں آ گیا۔ چاچی جسمیت کور کچن میں تھی۔ باقی سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ میرے بیٹھتے ہی وہ حیران سی میرے پاس آ گئی۔
’’پتر تجھے اتنی جلدی ہے جانے کی، ابھی تو ناشتہ۔۔۔‘‘
’’چاچی، بھان کہاں ہے؟‘‘
’’وہ ابھی مجھ سے چائے لے کر اپنی دادی کے کمرے میں گیا ہے، خیر تو ہے نا پتر‘‘۔ اس نے تشویش سے پوچھا۔
’’ہاں خیر ہی ہے‘‘۔ میں نے کہا اور دادی کے کمرے میں چلا گیا۔ دادی ابھی تک بستر میں تھی اور بھان اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ دونوں کوئی بات کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بولیں۔
’’آ پتر۔۔۔! بیٹھ‘‘۔
’’دادی، میں نے بیٹھنا نہیں ہے۔ بلکہ آپ کو تھوڑی دیر کے لیے میرے ساتھ باہر جانا ہو گا‘‘۔ میں نے جس لہجے میں کہا وہ چند لمحے میری طرف دیکھتی رہیں، پھر چائے کی پیالی سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولیں۔
’’چل پتر، کہاں جانا ہے‘‘۔
’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم، اسی لیے تو آپ کو لے کر جا رہا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے بھان سنگھ کی طرف رخ کر کے کہا۔
’’بھان، جو کچھ بھی ہوتا رہے یا جو بھی باتیں ہوں، تم اس پر سوال نہیں کرو گے، بس سنتے رہو گے، میں تیرے ہر سوال کا جواب دوں گا۔ جاؤ گاڑی نکالو‘‘۔
’’بلا ل خیر تو ہے، تُو بہت اپ سیٹ دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ بھان سنگھ تشویش سے پوچھا۔
’’میں نے کہانا، کوئی سوال نہیں، میں تجھے ہر بات بتا دوں گا‘‘۔ میں نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا تو اس نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا، پھر اپنی دادی کی طرف اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔ میں نے دادی کو سہارا دیا اور باہر تک لے آیا۔ بھان گاڑی لے آیا تھا، میں نے انہیں بٹھایا ہی تھا کہ چا جی جسمیت آ گئی۔
’’کدھر جا رہے ہو‘‘۔ اس نے تجسس سے پوچھا تو دادی نے جواب دیا۔
’’کہیں نہیں، بس آتے ہیں ہم۔ہمارے آنے تک تُو ناشتہ تیار کر لینا۔ آج بلال نے واپس جانا ہے‘‘۔
وہ کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی اور واپس پلٹ گئی۔ حویلی سے نکلتے ہی میں نے بھان سنگھ سے کہا۔
’’امرت کور کی حویلی کی طرف چلو‘‘۔
تب دادی پرونت کور نے میرے چہرے پر دیکھا مگر خاموش رہی۔ ذرا سی دیر میں گاڑی ان کی حویلی کے سامنے جا رکی۔ میں اترا اور اندر چلا گیا۔ یوں اچانک اپنے گھر میں دیکھ کر وہ تھوڑا الجھے پھر خوشگوار حیرت سے خیر خیریت پوچھنے لگے۔ ہماری آوازیں سن کر امرت کور بھی باہر آ گئی۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔
’’میں ان کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے باہر جا رہا ہوں‘‘۔
وہ میرے ساتھ چل دیں تو کسی نے کوئی بات نہ کی۔ میں انہیں لے کر باہر آیا تو وہ گاڑی میں بیٹھی پرونت کور کو دیکھ کر ٹھٹکی ، پھر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ ایک دوسری کوست سری اکال کر چکیں تو میں نے کہا۔
’’میں نے وہ جگہ دیکھنی ہے جہاں کبھی نور محمد کا گھر ہوتا تھا‘‘۔
’’اوہ۔۔۔ ! تو یہ بات ہے‘‘۔ پرونت کور نے کہا اور بھان کو سمجھانے لگی کہ کدھر جانا ہے۔ میں ان راستوں کو بڑے غور سے دیکھتا جا رہا تھا جہاں میرے دادا رہتے تھے۔ ان گلیوں کو دیکھ رہا تھا جن راہوں پر وہ چلتے پھرتے تھے۔ آخر ایک جگہ گاڑی رکوا دی گئی۔ پھر ایک طرف پکے مکان کی طرف اشارہ کر کے بولیں ۔
’’یہ ہے پتر۔۔۔! یہاں ان کا کچا گھر ہوتا تھا، اب یہ پکا بن گیا ہے‘‘۔
میں گاڑی سے اتر کر کچھ دیر گلی میں ٹہلتا رہا۔ اتنی دیر میں گھر کے مکین باہر گاڑی رکنے کی آوازسن کر باہر آ گئے۔ بھان نے ان سے بات کی تو ہم اندر چلے گئے۔ میں صحن میں کھڑا ہو گیا۔ یک لخت مجھے وہاں سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ مجھے یوں لگا جیسے وہاں موجود میرے پر دادا، میری پر دادی، میرے دادا کی بہن حاجراں مجھے مدد کے لیے بلا رہی ہیں۔ ان کی روحیں جیسے آج بھی بے چین ہیں۔ میں وہاں کھڑا اپنے آپ کو سنبھالتا رہا۔پھر تیزی سے باہر آ گیا۔ میرے لیے وہاں کھڑا رہنا بہت بھاری ہو گیا تھا۔ میں گاڑی میں آ کر چند لمحوں تک خاموش بیٹھا رہا۔ تب امرت کور نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر عین دل کے مقام پر رکھ دیا۔ مجھے قرار آنے لگا۔
’’اب وہاں جانا ہے، اس گھر کے مکینوں کی جلی ہوئی لاشوں کو دفن کیا گیا تھا‘‘۔
بھان سنگھ نے گاڑی بڑھا دی۔ ہم گاؤں سے باہر نکلتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ گاؤں سے ملحقہ سر سبز و شاداب فصلوں کے ایک قطعہ کے پاس جا پہنچے۔ ہم گاڑی سے اتر آئے۔
’’یہاں ان سب کو لا کر دفن کر دیا گیا تھا‘‘۔ پرونت کور نے کہا تو میں چند لمحے وہاں کھڑا رہا۔ میں جب گھر سے نکلا تھا تو وضو کر کے ہی نکلا تھا۔ میں نے کچھ کہے سنے بغیر اجتماعی نماز جنازہ کی نیت کی، جوتے اتارے اور پورے خشوع و خضوع سے نمازِ جنازہ کی نیت باندھ لی۔ مجھے یقین تھا کہ میں وہ واحد شخص ہوں جس نے اکیاون سال بعد ان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ شاید میرے آباء و اجداد خوش قسمت تھے کہ ان کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے کوئی آ گیا تھا، ورنہ وہ لوگ بھی تقسیم ہند کی عظیم ہجرت میں شہید ہوئے جن کا نماز جنازہ تو کیا، دفن ہونا بھی نصیب نہیں ہوا تھا۔ کوئی دریاؤں، نہروں میں بہہ گئے، کئی نیزوں کی انیوں کے بعد جانوروں کے معدے میں جا پہنچے اور ان کی ہڈیاں رُل گئیں۔ کئی اندھے کنووں میں گل سڑ گئیں۔ ریل کی پٹریوں، کچے راستوں میں مارے گئے۔
نمازِ جنازہ ادا کرتے ہوئے میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا تھا۔ کیا میں نے کبھی ان کی نمازِ جنازہ پڑھی؟ میں جتنا بھی پاکستانی ہونے کا دعویدار ہوں، کیا کبھی آگ کا یہ دریا پار کرتے ڈوب جانے والوں کی نمازِ جنازہ ادا کی ، جن کی بے گور و کفن لاشیں زمین نگل گئی یا جانوروں اور پرندوں کے کام آئی۔ شہیدوں کی فیکٹری ساز طبقے کے منہ سے میں نے کبھی نہیں سنا کہ بے گناہ پاکستانی، جو ہجرت کرتے ہوئے شہید ہوئے ان کے ایصال ثواب کا کوئی اہتمام کیا جائے، بڑے بڑے جغادری مسلم لیگی کرسی کے لیے جھپٹ رہے ہیں، ان شہیدوں کے لاشے بھول گئے، انہیں یاد رکھنے اور نئی نسل تک اس جذبے کو پہنچانے کا کتنا اہتمام کیا گیا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں رو رہا ہوں۔ میں نے ٹھہر ٹھہر کر پورے خلوص سے نمازِ جنازہ ادا کی۔ بڑے اہتمام سے دعا مانگی اور پھر پلٹ کر ان تینوں کو دیکھا جو مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
’’آپ لوگ مجھے حیرت سے نہ دیکھیں، یہ اﷲ نے ان بے گناہوں کے لیے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ میں تو حیران ہوں۔ امرت کور جی کہ آپ کی یہ محبت کیسی ہے؟ کتنی خود غرض محبت ہے آپ کی، میں مان لیتا ہوں کہ نور محمد تو زندہ ہے، لیکن حاجراں تو آپ کی سہیلی تھی، آپ نے اس کی لاش کا بھی احترام نہ کیا۔ یہ کیسی محبت کا دعویٰ ہے اور دادی پرونت کور، کہاں ہے انسانیت کہ اکیاون برس گزر گئے او ر آپ کو ان بے کفن لاشوں کے احترام کا بھی خیال نہیں آیا۔ بے حرمتی کرتے رہے ہو آپ۔۔۔!‘‘ میرے لفظوں سے وہاں میرے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ پرونت کے ساتھ امرت کور بھی چونک کر میری طرف دیکھنے لگی۔
’’پتر کیا ہو گیا ہم سے۔۔۔‘‘ دادی پرونت کور نے حیرت سے کہا۔
’’جو زندہ لوگ ہوتے ہیں، ان کے ساتھ دشمنی کی جائے تو اچھا لگتا ہے۔ جو بے چارے اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ ان کے ساتھ اس قدر زیادتی، اتنی بے حرمتی، کہ اکیاون برس کے بعد بھی انہیں قبر جتنی جگہ دے دی جائے، آپ لوگ تو رگھبیر سنگھ سے بھی آگے نکل گئے۔ ان کی قبروں پر یہ فصل اُگا دی۔ میں امرت کور جی سے سوال کرتا ہوں۔ کیا یہی ہے ان کی محبت، پیار اور عشق۔ جس سے عشق ہوتا ہے نا، اس کی چیزیں بھی بڑی محترم ہوتی ہیں۔ مجنوں کو تو لیلیٰ کا کتا بڑا پیارا تھا، یہاں تو حاجراں آپ کی سہیلی تھی، آپ اسے ایک قبر کی جگہ بھی نہ دے سکے‘‘۔
میں بہت ہی جذباتی انداز میں کہتے ہوئے ان کی طرف دیکھتا رہا اور وہ میری طرف دیکھ کر آنسو بہائے جا رہی تھیں۔
’’ہم سے غلطی ہو گئی پتر۔۔۔!‘‘ دادی پرونت کور نے بھیگتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’آج جس طرح بابری مسجد کو یہاں بھارت میں گرا دیا گیا ہوا ہے۔ آپریشن بلیو سٹار میں ہرمندر کی بے حرمتی ہندوؤں نے کر دی ہے۔ ان کا تو پاکستان میں کچھ نہیں، کل اگر پاکستان میں یہ تحریک اٹھ کھڑی ہوئی کہ سکھوں کے مظالم کا ان سے حساب لیا جائے، ایک جنم استھان ہی کو گرا دیا جاتا ہے تو پھر۔۔۔؟
میرے یوں کہنے پر وہ لرزتے ہوئے کانپ گئیں۔ بھان سنگھ نے منہ کھول کر کچھ کہنا چاہا تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’سکھ قوم کب تک ہندوؤں کے چنگل سے آزاد نہیں ہو گی، رگھبیر ابدالی کی بات کر سکتا ہے تو کوئی پاکستان میں بلال اٹھ کر یہ اذان دے دے کہ نہ جانے کتنی حاجراں کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ ان کا حساب لینے کا وقت آ گیا ہے، تو کوئی بھی سکھ یاتری لاہور اسٹیشن پر اترتے ہوئے ست سری اکال کا نعرہ لگا کر کرپان نہیں لہرا سکتا۔ ان لوگوں کے دل کتنے بڑے ہیں کہ تم لوگوں کی نشانیاں تک سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں اور آپ دونوں نے حاجراں کو کیا دیا۔ اس کی قبر پر فصل بو دی۔ بس میرا اتنا ہی سوال تھا آپ لوگوں سے ، آؤ چلیں‘‘۔ میں اپنے آنسو پونچھتا ہوا تیزی سے گاڑی کی جانب بڑھا اور پسنجر سیٹ پر جا بیٹھا۔ میں نے دیکھا دادی پرونت کور اور امرت کور ایک دوسرے کے گلے لگ کر اس طرح و رہی تھیں کہ جیسے نور محمد آج ہی بچھڑا ہو اور حاجراں آج ہی شہید ہوئی ہو۔ بھان سنگھ حیرت سے بت بنا کھڑا انہیں دیکھتا جا رہا تھا۔ پھر جیسے اسے ہوش آ گیا۔ اس نے دونوں کو الگ کیا اور سہارا دے کر گاڑی تک لے آیا۔ وہ میری طرف انتہائی تجسس اور حیران نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے اس کے سامنے کوئی ماورائی منظر ہو یا پھر وہ کوئی ڈراونا خواب دیکھ رہا ہو۔ اسی حیرت میں اس نے گاڑی بڑھا دی۔ وہ دونوں پچھلی نشست پر بیٹھی ہچکیوں میں روتی رہیں۔پھر دھیرے دھیرے بڑبڑاتے ہوئے گرنتھ صاحب سے پڑھنے لگی۔
برکہتہ کی چھائیا سیؤ رنگ لادے۔۔۔ اوہ بنسئے اوہ من پچھتاوے۔۔۔ جو دلیتے سو چالن ہار۔۔۔ لپٹ رہئیو تہتہ اندھ اندھار۔۔۔ بٹاؤ، سیؤ جو لاوے نیہہ۔۔۔ تاکو ہاتھ نہ آؤے کیہہ۔۔۔‘
(درخت کے سائے سے محبت کرنے والا ہمیشہ پچھتاتا ہے، جب درخت کا سایہ چلا جاتا ہے تو پچھتانا ہی پڑتا ہے۔ اس طرح جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ وہ سب جانے والا ہے۔ یہ عمل تو ایسا ہے جیسا من کا اندھا اپنے ہی من سے لپٹ جائے۔ راہ چلتے راہی سے جو محبت کرے وہ آخر میں روتا ہی ہے۔ وہ دل بھی دے بیٹھتا ہے اور ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہتا ۔ سب کچھ گم ہو جاتا ہے۔ )
یہاں تک کہ امرت کور کی حویلی آ گئی۔ وہ کوئی بات کہے بغیر اتر کر چلی گئی۔ ہم حویلی آ گئے۔ جہاں سبھی ہمارے منتظر تھے۔
’’او کدھر گئے تھے تم لوگ‘‘۔ پردیپ سنگھ نے پریشانی میں کہا۔
’’او کہیں نہیں پتر۔۔۔! بس ایویں میں تھوڑی دیر کے لیے بلا ل کے ساتھ باہر گئی تھی۔ چلو ناشتہ لگاؤ‘‘۔
’’وہ تو کب کا میز پر لگا دیا ہے بے جی، آپ آؤ‘‘۔ انیت کور نے ہمارے چہروں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر ہم سب ناشتے کی میز پر بیٹھ گئے۔ میں نے بے دلی سے ناشتہ کیا۔ مگر ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے اپنا سامان اٹھا یا اور کہا۔ ’’اب مجھے اجازت دیں‘‘۔
’’لے پتر۔۔۔! ہماری طرف سے کچھ تحفے ہیں، تمہارے لیے تمہارے پریوار کے لیے یہ ساتھ لے جا‘‘۔ انیت کور نے ایک سیاہ چرمی بیگ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ما ں جی۔۔۔! میں یہ تحفے ضرور لے جاتا، لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ لاہور نہیں پہنچیں گے، رستے ہی میں غائب ہو جائیں گے۔ کیوں ضائع کروں انہیں‘‘۔ میں نے کہا تو انہوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ بات ان کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ کسٹم حکام خصوصاً پاک بھارت سرحد پر اتنی سختی کرتے ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے اور وہیں سب کچھ چھوڑ جاتا ہے۔
’’چل پتُر۔۔۔! تو ہماری طرف سے لے جا، آگے غائب ہو جائیں تو کوئی بات نہیں، ہمیں حسرت تو نہ رہے گی نا۔۔۔‘‘ جسمیت چاچی نے کہا تو سبھی اصرار کرنے لگے۔ میں نے دادی پرونت کور کی طرف دیکھا اس نے چھلکی آنکھوں سے وہ تحفے قبول کرنے کا اشارہ دے دیا۔ میں نے وہ تحفے کا بیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھا۔ سب وہیں صحن میں آ گئے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی جیب سے اپنی جمع پونجی نکالی، جو تقریباً ہزار پونڈ کے لگ بھگ تھی۔ اس میں سے سو پونڈ نکالے اور پریت کور کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔’’پریت، اگر بھائی سمجھو تو میری طرف سے ایک گہنا بنوا لینا اور اگر بھابی کہنے کا حق دو تو ابھی سے منہ دکھائی لے لو‘‘۔
میرے یوں کہنے پر سبھی ہنس دیئے۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ میرے گلے لگ کر رو دی۔ میں نے اس کے سر پر تھپکی دی اور الگ کر دیا۔ اس نے اپنا جواب دے دیا تھا۔ باقی نوٹ جو میرے ہاتھ میں تھے۔وہ میں نے دادی پرونت کور کے قدموں میں رکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
’’یہ قرض نبھا دیں۔۔۔ میری طرف سے۔۔۔‘‘
’’اسے جیب میں ڈال لو پتر۔۔۔ سمجھو وہ قرض آج ہی ادا ہو جائے گا‘‘۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اور رقم میری جیب میں ڈال دی۔ میں پلٹا، سب سے ملا اور گاڑی میں جا بیٹھا۔ بھان اور پریت گاڑی میں آن بیٹھے اور گاڑی چل دی۔
’’امرت کور کی طرف جانا ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘۔ میں نے دھیرے سے کہا تو وہ اس طرف مڑ گیا۔
گاڑی حویلی کے صدر دروازے پر جا رکی۔ تبھی میں نے دیکھا، وہ گھر سے نکل رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی سریندرپال سنگھ نے اونچی آواز میں کہا۔
’’او تم چل بھی پڑے، ہم ادھر آ رہے تھے‘‘۔
’’بس میں خود ہی آ گیا۔ اب اجازت دیں‘‘۔ میں نے گاڑی سے اتر کر کہا۔ ان میں امرت کور نہیں تھی۔ اس کی بیوی اور بیٹی تھی، یا پھر ہمیں دیکھ کر ان کے ملازم آ گئے تھے۔ میری نگاہوں کو بھانپ کر سریندر سنگھ نے ایک ملازمہ کو امرت کور کو بلانے کے لیے کہا۔ وہ جلدی سے پلٹ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ تیزی سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ چند لمحے مجھے دیکھتی رہی۔ پھر اپنے سینے سے لگا کر دھاڑیں ما کر رونے لگی۔ کسی نے بھی اسے رونے سے نہیں روکا۔ میں بھی اس کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ اس کے آنسووؤں سے میری شرٹ گیلی ہو گئی۔ میں نے اسے خود سے الگ کیا اور کہا۔ ’’اب مجھے اجازت دیں‘‘۔
’’جا رب راکھا۔۔۔! پر ایک وعدہ کرو۔ ایک بار پلٹ کر ضرور آؤ گے۔۔۔ میں نے تیرا قرض ادا کرنا ہے‘‘۔
’’میں پوری کوشش کروں گا کہ بھان کی شادی پر آؤں اور ممکن ہوا تو اپنے ساتھ کسی کو لے کر ہی آؤں‘‘۔ میں نے کہا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ میں نے آنکھوں کے اشارے سے انہیں یقین دلایا۔ وہ ششدر سی رہ گئی۔ پھر اسے حیرت زدہ چھوڑ کر میں گاڑی میں آ بیٹھا۔ بھان سنگھ نے گاڑی بڑھا دی۔ ہمیں کچھ دیر وہاں کی پولیس چوکی میں ہو گئی۔ وہ تھانیدار حیران تھا کہ میں اتنی جلدی واپس کیوں جا رہا ہوں۔ خیر ۔۔۔ گاؤں سے نکلتے ہی بھان سنگھ نے میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’چل اب شروع ہو جا، یہ کیا ڈرامہ تھا؟‘‘
’’کاش میں تیرے گاؤں نہ آیا ہوتا بھان سنگھ تو ماضی کے کئی انکشافات پر پردہ پڑا رہتا۔ اس کہانی میں تیرے لیے ہی نہیں میرے لیے بھی اتنے حیران کن انکشاف ہیں کہ میں چکرا کر رہ گیا ہوں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اس میں اگر نفرت انگیز باتیں ہیں تو صدقِ دل سے مانگی ہوئی دعاؤں کا بھی اثر ہے۔ وہ رب ہے نا بڑا کار ساز ہے‘‘۔ میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ اکتاتے ہوئے انداز میں بولا۔
’’اچھا ۔۔۔ اب زیادہ سسپنس مت پھیلا، کچھ منہ سے پھوٹے گا بھی‘‘۔
’’بھان۔۔۔! میری طرح تمہیں بھی کہانی ابھی ادھوری لگے گی، اس کا ایک کردار ابھی پاکستان میں ہے، میں تمہیں وہ بھی سناؤں گا۔ بس تُو چپ چاپ سنتا چلا جا‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے دھیرے دھیرے ساری روداد اسے سنانا شروع کر دی۔ درمیان میں اس کے اور پریت کے سوال چلتے رہے۔ جس وقت ہم امرتسر میں دوستی بس کے ٹرمینل پر پہنچے تو میں وہ روداد ختم کر چکا تھا، بہت ساری باتیں میں نے انہیں بتائیں تھیں۔
میں نے واہگہ بارڈر کراس کیا اور پاکستان کی سر زمین پر آ گیا۔ ضروری کارروائی کے بعد جب میں سامان لے کر نکلا تو زویا میرے انتظار میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی والہانہ انداز میں میری طرف بڑھی اور اپنے جذبات کی شدت میرے ہاتھ بھینچ کر کی۔میں نے رات کمپیوٹر پر اس سے رابطہ کر کے بتا دیا تھا کہ وہ مجھے یہاں سے لے لے۔
’’کیسی ہو؟‘‘ میں نے اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی سرخی کو دیکھ کر پوچھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ تم نے رات بتایا ہی نہیں کہ یہ تم انڈیا کیسے پہنچ گئے؟‘‘
’’ساری باتیں یہیں بتا دوں یا پھر گاڑی میں جا کے، کر لیں‘‘۔ میں نے کہا تو وہ خجل سی ہو گئی۔ وہ میرے ساتھ بیگ گھسیٹتی ہوئی پارکنگ کی طرف بڑھی۔ وہ اپنی ہنڈا اکارڈ لائی تھی۔ سامان رکھنے کے بعد جب ہم وہاں سے چلے تو میں نے بھان سنگھ کے مشورے والی ساری بات اسے بتا دی۔ وہ سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ سنتی رہی۔ میں نے امرت کور کے بارے باقی ساری بات چھپا لی تھی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے سنتی رہی اور اس کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ تجسس بھی ابھرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہم مغل پورہ پار کر آئے اور پھر وہیں آگے سے اس نے ماڈل ٹاؤن کی طرف ٹرن لے لیا۔ وہ بھی بھان سنگھ کو جانتی تھی، اس لیے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھتی رہی۔ پھر بولی۔
’’ویسے میں بہت حیران ہو ئی تھی جب تم نے مجھے بتایا کہ تم انڈیا میں ہو۔ اب پتہ چلا ہے کہ تم مجھے پانے کے لیے اس کے گاؤں میں چلے گئے‘‘۔
’’دیکھو۔۔۔! میں تو آخری کوشش کروں گا تمہیں پانے کے لیے، باقی رب کو منظور کہ ہمارا ملن ہو گا یا نہیں‘‘۔ میں نے کاندھے اچکاتے ہوئے کاہ۔
’’ویسے میں تمہیں ایک بات بتاؤں۔ اگر تم مجھے رات ہی یہ بات بتا دیتے تو میں کم از کم امرت کور کو دیکھ لیتی اسے کمپیوٹر کے سامنے لا کر۔۔۔‘‘
’’نہیں ایسا ممکن نہیں تھا‘‘۔
’’اچھا یاد آیا، تم نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا کہ تم انڈیا گئے ہوئے ہو۔ اگر خدانخواستہ۔۔۔‘‘ اس نے کافی حد تک خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، یہ رسک تو میں نے لے لیا، میں نے چاہا تھا کہ یہاں پہنچ کر، ماحول دیکھ کر رہنے کے بارے میں فیصلہ کروں گا اور تب فون پر بتا دوں گا، لیکن بس وہاں میرا دل ہی نہیں لگا۔ اس لیے بتایا ہی نہیں، تجھے بلا لیا، تاکہ تھوڑی دیر تمہارے ساتھ گزار سکوں، پھر پتہ نہیں‘‘۔
’’ہاں، یہاں آ کر میں نے دیکھا، کوئی بھی نہیں تھا، چلو کھانا کھاتے ہیں‘‘۔ اس نے اچانک کہا اور ایک مہنگے ریستوران کے سامنے لے جا کر گاڑی کھڑی کر دی۔
آرام سے بیٹھ جانے کے بعد اس نے ویٹر کو آرڈر دیا۔ پھر میری آنکھوں میں براہِ راست دیکھتے ہوئے وہ مسکرائی اور بولی۔
’’تو پھر سنو۔۔۔! تمہارا انڈیا جانا نیک کام ثابت ہو ہے یا کچھ اور میں نہیں جانتی، لیکن یہ ہو گیا ہے کہ کم از کم پاپا پچاس فیصد مان گئے ہیں‘‘۔
’’سچ؟‘‘ میں نے حیرت سے ششدر ہوتے ہوئے کہا۔
’’جی، سچ‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیسے ممکن ہو گیا یہ ۔۔۔؟‘‘ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’اصل میں میرے گھر والے اس وقت بہت زیادہ پریشان ہو گئے جب میں نے بریڈ فورڈ ہی سے انہیں مشورے کے لیے بات بتائی، ان کا خیال یہ تھا کہ میں نے شادی کر لی ہے اور اب ویسے ہی مصلحت کے طور پر بتا رہی ہوں۔پھر ذات پات کی بات تو آڑے تھی ہی یہاں آ کر میں نے انہیں باور کرا دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے والدین کے حکم کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ ان کی جو مرضی ہے، وہ وہی کریں۔ بہر حال میری پسند یہی ہے کہ میں بلال سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے تمہارے پاپا اور فیملی کے بارے میں انہیں بتا دیا اور خود خاموش ہو گئی‘‘۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں تجسس سے پوچھا۔
’’پھر ماما ہی ان سے بات کرتی رہی۔ ان کا مؤقف تھا کہ اگر بیٹی سعادت مند ہے اور وہ اپنے والدین کا خیال کر رہی ہے تو ہمیں بھی اس کی خوشیوں کا خیال کرنا چاہئے۔ باقی رہی ذات پات تو اسلام میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ ان کے شادی نہ ہو سکے اور پھر ایک ذرا سا لالچ بھی ان کے سامنے ہے‘‘۔
’’و ہ کیا ؟‘‘میں نے کہا۔
’’اچھا بزنس، فیملی، میں بھی تمہارے ساتھ بزنس میں آسکتی ہوں۔ اپنی فیملی کے سرمایے کو بھی تحفظ دے سکتی ہوں۔ اب جیسے ہی انہیں تمہارے آنے کی اطلاع ملتی ہے، دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، آر یا پار۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے سے ہنس دی۔ تب میں نے قہقہہ لگا دیا۔ اس وقت مجھے لگا جیسے میں نے برسوں بعد کوئی قہقہہ لگایا ہو۔
’’لگتا ہے وہ تیری امرت کور کی دعا یا پرارتھنا یا جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں، قبول ہو گئی ہے‘‘۔
’’میں نہیں مانتا اور اس کی ڈھیر ساری دلیلیں ہیں، ممکن ہے تم اس کے حق میں ڈھیر ساری دلیلیں دے دو۔ اس لیے چھوڑو اس بحث کو، تم نے تو ایک نئی زندگی دے دی ہے مجھے ‘‘۔ میں نے فرطِ مسرت سے کہا۔
’’ایسا تو ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ یونہی تفصیلات بتاتی رہی۔ بریڈ فورڈ سے آنے کے بعد سے لے کر اب تک جو ہوا وہ بتاتی رہی۔ اس دوران کھانا آ گیا۔ ہم نے کھایا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو اس نے پوچھا۔
’’اچھا اب بتاؤ، کیا پروگرام ہے، تمہیں گھر چھوڑ آؤں یا ٹیکسی وغیرہ میں جاؤ گے؟‘‘
’’او چل، گھر ہی چھوڑ دو۔ میرے خیال میں تم پہلے تو کبھی نہیں گئی ہو اس طرف‘‘۔ میں نے پوچھا تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’ایک بار گئی تھی یونہی۔۔۔ وہ جو شاعر کہتے ہیں۔ کوچہ یار میں دشت نور دی کرنے۔۔۔ کہ دیکھو تو سہی کہ محبوب کے دیار کو راستہ کیسا جاتا ہے‘‘۔
’’واہ۔۔۔ واہ۔۔۔ مطلب، میرا گھر دیکھنے کے چکر میں۔ خیر، چلو چلتے ہیں‘‘۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور ہم دونوں ریستوران سے نکلتے چلے گئے۔
زویا نے گھر کے مین گیٹ پر ہی گاڑی روک دی۔ پھر وہیں بیٹھے ڈگی کھولتے ہوئے کہا۔
’’سامان اتارو اور چلو، میں نے پورچ تک نہیں جانا‘‘۔
’’یار آؤ، اندر سے بھی ایک نظر جھانک لو‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ایک ہی بار آؤں گی اور پھر ہمیشہ رہوں گی۔ چل اب اتر۔۔۔‘‘ اس نے بھی ہنستے ہوئے کہا تو میں نے اتر کر ڈگی سے سامان باہر نکالا، ڈگی کو بند کیا۔میرا ارادہ تھا کہ زویا کے پاس جا کر اسے الوداع کہوں، تبھی میرے کاندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو دادا نور محمد کھڑے مسکرا رہے تھے۔
’’اوئے پتیندرا۔۔۔! ایک دم آ گئے ہو ۔ بتایا ہی نہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں نے زویا کی طرف دیکھا وہ چہرہ چھپاتے ہوئے نکلنے کی تیاری میں تھی۔
’’او یار دادا۔۔۔! مجھے بعد میں مل لینا، پہلے اس لڑکی کو مل لیں۔۔۔ سر پر پیار دیں۔۔۔‘‘ میں نے زویا کی طرف اشارہ کیا تو وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اتر آئی۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے ان کے قریب آ گئی۔ وہ بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پورے بدن پر عبایا اور سکارف، ان کی نگاہوں میں ستائش تھی۔ اس نے سلام کیا تو جواب دے کر مجھ سے پوچھا۔
’’شادی کر لی ہے یا۔۔۔‘‘
’’ابھی کرنی ہے۔۔۔ بس آپ اسے پیار دیں تو یہ جائے۔۔۔‘‘
دادا نور محمد نے بڑے خلوص سے اسے پیار دیا۔ پھر اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑا نوٹ نکالا اور اسے دیتے ہوئے بولے۔
’’بیٹی۔۔۔! پہلی بار جب گھر آتے ہیں نا، تو بیٹی کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، فی الحال تو اتنا ہی قبول کر، میں سمجھ گیا کہ پتیندرا تجھے ابھی جانے کو کیوں کہہ رہا ہے‘‘۔
زویا نے شرماتے ہوئے وہ نوٹ پکڑا، پھر سلام کیا اور اس قدر تیزی سے گاڑی میں جا بیٹھی کہ مجھے بھی پتہ نہ چلا، اگلے چند لمحوں میں وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ تبھی وہ ہنستے ہوئے بولے۔
’’اگر میں نماز پڑھ کر واپس نہ آ رہا ہوتا تو یہ منظر میں دیکھ ہی نہ سکتا‘‘۔ پھر چونک کر میری طرف دیکھا اور بولے۔ ’’تُو اچانک۔۔۔ آ گیا۔ اپنے آنے کے بارے میں بتایا ہی نہیں‘‘۔
’’داداجی، آپ اندر چلو، میں نے آپ سے بہت باتیں کرنی ہیں۔ ساراکچھ بتاؤں گا، وہ کچھ بھی جو آپ بھی نہیں جانتے‘‘۔
’’ایسا کیا ہے بلا لے۔۔۔‘‘ انہوں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
’’سب کچھ بتاؤں گا، فی الحال آپ آئیں‘‘۔
ہماری باتوں کے دوران چوکیدار باہر آ گیا تھا۔ اس نے سلام کرتے ہوئے سامان اٹھایا۔ تو ہم دونوں دادا پوتا اندر کی جانب بڑھ گئے۔
میں نے پورا ایک دن اور ایک رات یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ دادا جی سے کس انداز میں بات کروں گا۔ جھتوال کی ساری باتوں میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جو انہیں دکھ نہ دیتی۔ ساری روداد ہی غم سے بھری ہوئی تھی۔ گھر والوں کا خیال یہ تھا کہ میں تھکن اتارنے کی غرض سے آرام کر رہا ہوں۔ مگر میری آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔ مجھے پہلے تو یہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ دادا جی کو یہ سب کچھ بتاؤں یا نہیں۔ پُرسکون جھیل میں پتھر پھینکنا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ پھر اچانک سہ پہر کے وقت مجھے خیال آیا، ممکن ہے دادا کے ذہن میں ابھی تک تشنہ سوال ہوں، میں کوئی ان کا جواب دے سکوں یا نہیں۔ یہ کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے، تشنگی اگر ہو گی بھی تو وہ جھیل کی تہوں میں ہو گی۔ یہی سوچتے ہوئے اچانک مجھے امرت کور کی تشنگی یاد آ گئی، وہ آج بھی نور محمد کی راہ تک رہی ہے۔ وہ آج بھی اس کے پیار میں سلگ رہی ہے۔ کیوں نا اس کا انتظار ختم کیا جائے؟ مگر یہ بھی کوئی اتنی مضبوط دلیل نہیں تھی۔ اس کا انتظار تو موت کے ساتھ ہی ختم ہو گا۔ کیا میں دادا کو مجبور کر سکتا ہوں کہ وہ امرت کو رکو اپنا لے؟ نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا، ہاں البتہ اس کی موت کو آسان ضرور کر سکتا ہوں، وہ جو معافی کی طلب گار تھی، میں اسے معافی دلا سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں جو میرے دادا کے بارے میں تصور بن چکا تھا وہ اس سے نفرت کرتا ہے، میں اس نفرت کے احساس کو ختم کر سکتا تھا۔ دراصل میں ایسی کسی وجہ کی تلاش میں تھا، جس کی بنیاد پر میں دادا سے بات کر سکتا۔ ورنہ میں انہیں ماضی میں جھانکنے کی اذیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ چند دن اسی کشمکش میں گزر گئے۔ مجھے کوئی ایسی وجہ نہ ملی اور پھر آخر ایک دن مجھے وہ وجہ مل گئی۔
اس رات میں نے سب گھر والوں کے ساتھ ڈنر کیا اور خوب باتیں کرتا رہا۔ پاپا کا خیال تھا کہ میں نے بہت آرا م کر لیا۔ اب مجھے ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا چاہئے۔ میں نے بھی ان سے وعدہ کر لیا کہ ایک دو دن میں آفس آنے لگوں گا۔ ماما تو مجھے ابھی ایک ماہ مزید آرام کے لیے دینا چاہتی تھی۔ میں خوشگوار طبیعت کے ساتھ اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر نیم دراز ہو گیا۔ یہی وہ وقت تھا، جب دادا جی نماز پڑھنے چلے جاتے اور میں اپنے لیپ ٹاپ پر زویا کے ساتھ آن لائن ہو جاتا۔ وہ مجھے اس دن کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کرتی کہ ہم دونوں کے معاملے میں بات کہاں تک پہنچی ہے۔ پھر ہم خوب تبصرہ کرتے۔ اس دن میں آن لائن ہوا تو جہاں زویا آن لائن تھی، وہاں بھان سنگھ کے ساتھ پریت کور بھی آن لائن تھے۔ ان کے ساتھ کچھ دیر حال احوال ہوا پھر بھان سنگھ نے مجھے ایک تصویر بھیج دی۔ میں نے وہ تصویر کھولی تو چونک گیا۔ وہ اسی مقام کی تصویر تھی جہاں میں نے نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔ اب اس جگہ کا منظر تبدیل ہو چکا تھا۔ گندم کی فصل صاف تھی اور اس کھیت کے اردگرد چھوٹی چھوٹی چار دیواری تھی۔ اس کے اندر جگہ بالکل صاف تھی جیسے کسی گھرکا کچا صحن لیپ پوت کر بنایا ہوا ہو۔ اس کے ساتھ ہی بھان سنگھ نے ایک دوسری تصویر بھیج دی۔ وہ چار دیواری کے باہر کی تصویر تھی۔ چھوٹا سا گیٹ لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس پر سیاہ پینٹ کیا گیا تھا سفید رنگ میں گورو مکھی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے بھان سے اس کا ترجمہ پوچھا تو اس نے بتایا۔ ’’اس گاؤں کے مظلوم بے گناہ مسلمان، شہید پاکستان‘‘ اس تصویر نے میرے دل پر اتنا اثر کیا کہ میرے آنسو نکل پڑے۔ میں کافی دیر تک کوئی بات نہیں کر سکا۔ سبھی کی طرف سے سوالیہ نشان تھے میرے میسنجر پر۔ میں نے زویا سے معروف ہو جانے کا بہانہ کر کے معذرت کی اور پوری توجہ سے بھان سنگھ کے ساتھ بات کرنے لگا۔
’’یہ سب کیسے ہوا؟‘‘
’’دادی نے اس دن اس زمین کے مالک کو بلوایا اور اس سے کھیت کی قیمت پوچھی۔ وہ قیمت لینے پر نہیں مانا ایک جٹ کے لیے زمین بیچنا سب سے بری بات ہے۔اس نے زمین کے عوض زمین دینے کا وعدہ کر لیا، وہ بھی ایک کھیت کے بدلے میں تین کھیت لینے پر راضی ہوا‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ وہ کھیت گاؤں کے ساتھ لگتا ہے۔ اس کے عوض اس کو تین کھیت جو دینے ہیں وہ گاؤں سے بہت دور ہیں۔ اس کے ساتھ شرط یہ کہ اس کی زمین کے ساتھ لگتے ہوئے کھیت ہوں‘‘۔
’’تو پھر معاملہ کیسے طے ہوا؟‘‘
’’اس کی زمین کے ساتھ سریندرپال سنگھ کی زمین لگتی تھی۔ اس لیے زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ انہوں نے فوراً امرت کور سے کہا اور اگلے ہی دن کچہری جا کر اس ایک کھیت کے بدلے میں اسی کی پسند کے تین کھیت دے دیئے۔ میں ان کے ساتھ کچہری گیا تھا۔ پٹواری کو بھی ساتھ ہی لے گئے تھے۔ اگلے دن میں نے اس کی چار دیواری شروع کر وا دی۔ کھیت کی فصل کٹوا کر اس پر صفائی کی پھر پورے کھیت کو لیپ پوت دیا۔ اس دوران چاردیواری بھی مکمل ہو گئی۔ تین دن لگے سارے اس کام میں او ر یہ تین دن دادی اور امرت کور وہیں میرے ساتھ رہیں‘‘۔
’’واہ۔۔۔! دادی بے چاری تو تھک جاتی ہو گی‘‘۔
’’ہاں۔۔۔ مگر وہ کام ہونے تک وہیں کرسی پر بیٹھی رہتی۔ ہاں البتہ امرت کور سارا دن مزدوروں کے لیے کھانے پینے کے بندوبست میں رہتی۔ ان تین دنوں میں مزدوروں نے عیاشی کی ہے‘‘۔
’’اور گیٹ پر یہ کس نے لکھوایا؟‘‘
’’میں نے اور پریت کور نے ۔۔۔ خیال پریت کور کا تھا‘‘۔
’’اچھا، دونوں گھروں کے لوگوں نے کوئی سوال نہیں کیا کہ یہ سب کیوں؟‘‘
’’کیا، اور اس وجہ سے ساری رام کہانی دونوں گھروں کو معلوم ہو گئی، انہیں یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ تم یہاں کیوں آئے ۔ تم کون ہو اور تم اچانک واپس کیوں چلے گئے‘‘۔
’’چلو، جیسے رب کی مرضی، پر تیرا بہت شکریہ یار‘‘۔
’’اس میں شکریے والی کیا بات ہے، یہ تو ہم پر قرض تھا، جو ہم نے دیر سے ادا کیا۔ تم سناؤ، تم نے اپنے ٹور کے بارے میں دادا جی کو بتایا‘‘۔
’’نہیں یار ، ہمت نہیں پڑ رہی، لیکن آج ضرور بات کروں گا‘‘۔
’’چلو، تمہارے ٹور کا یہ فائدہ تو ہوا کہ جہاں اتنا بڑا کام ہوا، وہاں تمہیں زویا کی طرف سے بھی خوشخبری مل گئی۔رب کرے تم لوگوں کی جلدی شادی ہو جائے۔ تب میں بھی پاکستان آؤں‘‘۔
’’تو کوشش کر اور آ جا، تم تو آسکتے ہو، سکھ یاتری بن کر‘‘۔
’’اچھا یار، کچھ کرتا ہوں، ویسے بیساکھی بھی نزدیک ہے۔ ممکن ہے ہم آ جائیں‘‘۔
’’بس آ ہی جاؤ۔ بنا لو پروگرام۔ میں تجھے اپنے خاندان سے ملواؤ‘‘۔
’’میں کرتا ہوں بات سب سے اور سناؤ‘‘۔
بات کرنے کے دوران یہ جب ’’اور سناؤ‘‘ والی بات آتی ہے تو مزید بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہے۔ اب اگر بات مزید جاری رکھنا ہے توں یونہی گپ شپ ہو گی، کام کی بات نہیں ہو گی۔ مجھے چونکہ دادا اسے بات کو نا بھی اس سے جلدی جلدی بھان اور پریت کے ساتھ اپنی گفتگو سمیٹی اور پھر لیپ ٹاپ بند کر دیا۔
میں جس وقت دادا جی کے کمرے میں گیا۔ وہ بیڈ پر آلتی پالتی مارے ، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، کوئی وظیفہ پڑھ رہے تھے۔ میں خاموشی سے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اپنا لیپ ٹاپ بیڈ پر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد ملازمہ دو کپ چائے لا کر بیڈ پر رکھ گئی۔ اتنے میں انہوں نے اپنا وظیفہ ختم کر لیا۔ تسبیح سمیٹتے ہوئے مسکرائے اور کہا۔
’’باپ نے آج کام پر جانے کا کہہ دیا ہے تو تجھے دادا کا کمرہ دکھائی دے گیا۔ چل بتا ، کیا سفارش کرنی ہے۔ تیرے باپ سے‘‘۔
’’دادا جی، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کام تو مرد کی شان ہوتی ہے۔ وہ تو میں نے کرنا ہی کرنا ہے۔ آج تو آپ سے ڈھیر ساری باتیں کرنے آیا ہوں۔ آپ چائے پئیں‘‘۔ میں نے اپنا پیالہ اٹھاتے ہوئے انہیں اشارے سے کہا۔
’’نہیں، میں نے نہیں پینی چائے، پھر رات نیند نہیں آتی‘‘۔
’’میری باتیں سن کر آپ سوئیں گے بھی نہیں، یہ لیں‘‘۔ میں دوسرا پیالہ اٹھایا اور ان کی طرف بڑھا دیا۔ وہ پکڑتے ہوئے پُرتجسس انداز میں بولے۔
’’اوئے سیدھی بات کرا وئے۔۔۔بات کیا ہے؟‘‘
میں چند لمحے خاموش رہا، پھر بولا۔
’’میں آپ کا گاؤں جھتوال دیکھ کر آیا ہوں‘‘۔ میں نے کہا تو وہ اس قدر چونکے کہ چائے چھلک پڑی۔ بہت مشکل سے ہاتھ جلتا ہوا بچا۔ انہوں نے پیالہ پھر ٹرے میں رکھ دیا اور غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
’’اوئے تُو سچ کہہ رہا ہے؟‘‘
’’جی دادا جی۔۔۔ میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا۔۔۔ اور میں۔۔۔ امرت کور سے بھی ملا ہوں‘‘۔ میں نے کہا تو پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگ گئے کتنی ہی دیر تک وہ ساکت و صامت یوں ایک ٹک میری طرف دیکھتے رہے جیسے انہیں اپنا ہوش بھی نہ رہا ہو۔ تقریباً چار سے پانچ منٹ ان کی یہی حالت رہی۔ پھر اپنے آپ میں آتے ہوئے بولے۔
’’وہ زندہ ہے ابھی؟‘‘
’’وہ نہ صرف زندہ ہے، بلکہ آج بھی آپ کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ میں نے کہا تو ان کی آنکھوں میں یک بارگی شعلے نکلنے لگے۔ پھر بڑبڑاتے ہوئے بولے۔
’’کاش میں اسے اپنے ہاتھوں مار سکتا۔۔۔‘‘
’’دادا جی۔۔۔! میں پہلے نہیں جانتا تھا کہ آپ کا ماضی کرب ناک ہے۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا، لیکن جب سے میں جھتوال سے ہو کر آیا ہوں مجھے پورا احساس ہو گیا ہے۔ آپ کے ماضی کا ایک ایک لمحہ میں نے اپنے دل پر محسوس کیا ہے، لیکن میں آپ سے ایک درخواست ضرور کروں گا۔۔۔ امرت کور نے اب جو ایک کام کیا ہے، اس کے عوض آپ اسے معاف کر دیں۔۔۔‘‘
’’کیا کام کیا ہے اس نے ۔۔۔ اور تُو وہاں چلا کیسے گیا‘‘۔
’’اب آپ نے دو سوال مجھ سے کر دیئے، بتائیں پہلے کس کا جواب دوں۔ سوچ لیں، مگر یہ پہلے چائے ختم کریں‘‘۔
میں نے دوبارہ پیالہ اٹھا کر انہیں دے دیا۔ وہ خاموش رہے اور چائے پیتے رہے۔ ان کی طرف سے جواب نہ پا کر میں نے اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا۔ سیل فون سے بنائیں بے شمار تصویریں میں اس میں محفوظ کر چکا تھا۔ میں اچک کر دادا کے پہلو میں جا بیٹھا۔ ان کے ساتھ لپٹ کر میں نے تصویر دکھانا شروع کر دیں۔ جھتوال میں داخل ہونے سے لے کر واہگہ آ جانے تک کی پوری روداد میں نے انہیں سنانا شروع کر دی۔ ساتھ میں انہیں تصویریں دکھاتا گیا۔ میں جب روداد ختم کر چکا تھا تو دادا کی طرف دیکھا۔ ان کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی۔
’’تُو دو چار دن وہاں اور رہ لیتا۔ کم از کم اس کھیت کو خرید کر۔۔۔‘‘
’’وہی تو۔۔۔ وہی تو کام کیا ہے امرت کور اور پرونت کور نے ۔۔۔ یہ دیکھیں‘‘۔ میں نے بھان سنگھ کی بھیجی ہوئیں تصویریں ان کے سامنے کر دیں۔ اس نے وہاں کام کرتے مزدوروں امرت کور کی خدمت اور پرونت کے وہاں بیٹھنے کی تصویریں بھی بھیج دیں تھیں۔
’’یہ تُو نے بہت اچھا کام کیا کہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھ لی، میں بد نصیب تو ایسا بھی نہیں کر سکتا تھا، بہر حال پریت کور کو میری طرف سے بہت سارا پیار کہہ دینا۔ اس نے جو پھاٹک پر تحریر لکھوائی، وہ مجھے اچھی لگی‘‘۔
’’آپ گر مکھی پڑھ لیتے ہیں کیا؟‘‘ میں نے یہ سوال یونہی کیا تھا ان کا دھیان بٹانے کے لیے۔
’’ہاں، میں پانچ جماعتیں پڑھا ہوں۔ یہ امرت اور پرونت مجھ سے تین جماعتیں پیچھے تھیں اور بہت سارے لوگ تھے۔ تم مجھے بتاتے نا تو میں تجھے وہاں کے بارے میں اور بہت کچھ بتاتا‘‘۔
’’ایسی کون سی بات ہے ہم دونوں وہاں چلے جائیں گے۔ بلکہ وہ ہمیں بھان اور پریت کی شادی پر بلائیں گے‘‘۔ میں نے اپنے اصل مقصد کی بنیاد رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔! اگر انہوں نے بلایا تو ضرور جائیں گے‘‘۔ انہوں نے خواب آگیں انداز میں کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
’’اچھا دادا۔۔۔! امرت کور اپنی جوانی میں تو قیامت ہو گی نا۔۔۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ گہری سنجیدگی سے بولے۔
’’ہاں ، وہ قیامت ہی تھی۔ مگر میں اس کا پاگل پن سمجھ ہی نہ سکا۔ اگر وہ رگھبیر سنگھ کو قتل نہ کرتی تو میں اسے کچھ اور ہی سمجھتا رہتا۔ مگر وہ وقت ایسا تھا بلال، ایک حسرت تھی کہ اگر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتا تو شاید انہیں بچا لیتا‘‘۔ وہ پھر ماضی میں کھو گئے تھے۔
’’مگر قدرت کو آپ کی زندگی عزیز تھی، آپ فقط آپ ہی اس گاؤں کے مسلمانوں میں سے بچ گئے۔ آپ اس راز کو سمجھیں۔ قدرت کے کھیل تو نیارے ہوتے ہیں نا‘‘۔ میں نے انہیں ماضی سے واپس لانے کی ایک کوشش کی۔
’’ہاں، میں نے اس پر بہت سوچا، مگر یہ سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں ہیں‘‘۔ انہوں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا دادا، چھوڑیں ماضی کی باتیں، وہ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ میں آپ سے ۔۔۔‘‘ میں نے کہنا چاہا تو انہوں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پتر۔۔۔! میں اکیلا فرد اگر اپنے ماضی کو بھول جاتا ہوں تو ممکن ہے اتنا نقصان نہ ہو، لیکن اگر بحیثیت قوم اپنے ماضی کو بھول گئے تو بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ یاد رکھو، پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، مگر بدقسمتی سے یہ قائد اعظم کے کھوٹے سکوں کے قبضے میں آ گیا ہے۔ آزادی کی جو اصل روح تھی، ان لوگوں نے اس کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ آزادی سے قبل جویونینسٹ پارٹی کا یا کانگرنس سے تعلق رکھنے والا مسلمان، آزادی کے بعد مسلم لیگ میں آ جائے تو کیا وہ پرلے درجے کی منافقت نہیں ہے۔وہ فتویٰ فروش مولوی جو پاکستان مخالف تھے۔ آج اگر پاکستان کے دعویدار بنیں تو وہ بھی انتہائی منافق ہیں۔ غور کرو، اگر پاکستان کو در پیش مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کو بھی اٹھا کر دیکھ لو، اس میں وہی لوگ سامنے آئیں گے جو کل پاکستان مخالف تھے۔ اگر ہم اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھیں گے تو ان منافقوں کو کیسے پہچان پائیں گے۔ آگ اور خون کا دریا کن لوگوں نے پار کیا؟ یہ سروے اور تحقیق کرنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کون سے مہاجرین تھے جو لٹ پٹ کر آئے اور انہیں یہاں آ کر ذلیل ہونا پڑا اور وہ کون بے غیرت ہیں جنہوں نے جعلی کلیموں پر زمینیں اور جائیدادیں بنا لیں۔ وہ کون سے بے ضمیر تھے جنہوں مہاجرین کو دبا کر رکھا اور ان کا حق ان تک نہیں پہنچنے دیا۔ جب تک ہم اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھیں گے تو اپنی آئندہ نسل کو کیا بتائیں گے کہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اس خطے میں ہوئی اور اس پیمانے پر قتل عام ہوا۔ اس طرح تو ہمارا نظریہ ہی ختم ہو جائے گا‘‘۔ انہوں نے پورے جوش و جذبے سے کہا کہ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’دادا جی۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘‘۔ میں انہیں کول ڈاؤن کرنے کے لیے کہا۔
’’کاش۔۔۔! کوئی ایسا مجاہد پیدا ہو جو قائد اعظم کا حقیقی سپاہی ہو۔ وہ ایسی تحقیق کروائے۔ تم نے اکیاون برس بعد اپنے اجداد کی قبروں کو نشان دے دیا، کاش کوئی قائد اعظم کے نظریات پر سے مٹی جھاڑ کر اس ملک پر لاگو کر دے۔ مہاجرین کی نشاندہی کر کے انہیں ان کا حق دلا دے۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنی قربانیاں بھی خود ہی ضائع کر دیتے ہیں‘‘۔
’’دادا جی آپ جذباتی ہو گئے اور میں اس جذباتی پن سے آپ کو بچا رہا تھا‘‘۔ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’دکھ ہوتا ہے نا بیٹا جب قربانیاں ضائع جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ خیر، تم بتاؤ، کیا کہنا چاہ رہے ہو؟‘‘ انہوں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’میں یہ کہہ رہا تھا دادا جی کہ اگر امرت کور یہاں آ جاتی ہیں اور آپ سے معافی مانگ لیتی ہیں تو کیا آپ اسے معاف کر دیں گے؟‘‘
’’اس تصویر کے دکھانے سے پہلے میں اسے کبھی معاف نہ کرتا، لیکن یہ جو اس نے کام کیا ہے، میں نے اس تصویر کو دیکھتے ہی اسے معاف کر دیا تھا۔ اﷲ اس کے حال پر رحم کرے‘‘۔ انہوں نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا اور پھر کافی دیر تک خاموش رہے۔ تب میں نے پوچھا۔
’’آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ ایک بار جھتوال جائیں!‘‘
’’پتر۔۔۔ کس کا جی نہیں کرتا کہ اپنی جنم بھومی دیکھے۔ میں نے تو زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزارا ہے اور پھر سب سے بڑی بات، میں حاجراں کی، اپنے والدین کی قبروں پر ایک بار فاتحہ پڑھنے کا ضرور خواہش مند ہوں‘‘۔ انہوں نے حسرت سے کہا تو میں نے دادا کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’میں بناتا ہوں ایسا کوئی معاملہ۔۔۔ چلتے ہیں وہاں۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا، جیسے تیر ی مرضی۔۔۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کلاک کی طرف دیکھ کر بولے۔ ’’اوئے پتہ ہی نہیں چلا فجر کا وقت ہونے والا ہے۔ ابھی اذانیں ہو جائیں گی۔ چل اٹھ جا، ایک بار مزید چائے بنا کر لا‘‘۔
میں مسکراتے ہوئے اٹھ گیا۔ میں نے سوچا اب جھتوال سے لائے تحائف کھولنے کا وقت ہے۔
دوسرے دن میری اور بھان سنگھ کی کمپیوٹر کے ذریعے گفتگو ہو گئی۔ اپنے کمپیوٹر پر پریت کور بھی آن لائن تھی۔ حال احوال پوچھنے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ وہ اپنے اپنے کمروں میں ہیں۔ اس وقت میرا دل چاہا کہ زویا بھی آن لائن ہوتی تو بہت اچھا ہوتا۔ یونہی باتوں کے دوران میں نے دادا نور محمد سے بات ہو جانے کے بارے میں بتایا۔
’’کیا رویہ تھا ان کا ؟‘‘ بھان سنگھ نے پوچھا۔
’’بہت جذباتی ہو گئے تھے اور اپنے گاؤں کو بہت یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے بہت سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا، جن کے بارے میں شاید تُو بھی نہیں جانتا ہو گا۔ میں تو خیر گنتی کے ایک دو بندوں سے ملا تھا‘‘۔ میں نے اسے جواب دیا۔ تبھی پریت کور نے پوچھا۔
’’کیا وہ جھتوال آنا نہیں چاہتے؟ یا پھر یہاں آنے کی خواہش کی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! بتایا نا وہ بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ خاص طور پر تمہارا وہ گیٹ پر لکھنے والا خیال انہوں نے بہت پسند کیا ہے۔ وہ بھی وہاں نمازِ جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’کیا امرت کور سے نہیں ملنا چاہتے؟‘‘ بھان سنگھ نے پوچھا۔
’’میں نے ذکر تو کیا مگر ان کے تاثرات کے بارے میں نہیں جا ن سکا‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر جھوٹ بول دیا۔
’’ہو سکتا ہے وہ عمر کے تقاضے کی وجہ سے اپنی خواہش کا اظہار نہ کر پائے ہوں؟‘‘ پریت کور نے پوچھا تو میں نے جواباً کہا۔
’’ممکن ہے۔ مگر میں کوئی بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ امرت کور کے بارے میں اب ان کے دل میں کیا ہے۔ کچھ کہا ہوتا تو شاید میں اندازہ لگا لیتا‘‘۔
’’تو پھر کب آ رہے ہو جھتوال؟‘‘ بھان سنگھ نے پوچھا تو میں نے جواب دیا۔
’’یار یہ تو طے شدہ بات ہے ناکہ جب تمہاری شادی ہو گی، میں ضرور آؤں گا۔ ویزے وغیرہ میں بھی آسانی ہو گی‘‘۔
’’تمہارا برٹش پاسپورٹ کب کام آئے گا۔ تمہارے باپو نے کچھ اور اچھا کیا ہو یا نہ کیا ہو تمہارے بارے میں، یہ کام بہر حال بہت اچھا کیا ہے‘‘۔ پریت کور نے مزاح کے طور پر کیا۔
’’خیر۔۔۔! میں تو تبھی آؤں گا۔ جب تم دونوں کی شادی ہو گی اور اس وقت پوری کوش کروں گا کہ دادا جی کو بھی لے کر تمہارے ہاں آ جاؤں۔ یہ میری بھی زبردست خواہش ہے اور امرت کور سے وعدہ بھی ہے‘‘۔
’’چلو، میں کوشش کروں گا کہ میری شادی جلدی ہو جائے‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا تو میں نے وہی لفظ پریت کور کو بھجوا دیئے۔ یہ ذراسی شرارت تھی، پھر کافی دیر تک یونہی باتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔
میری اور بھان سنگھ کی اکثر گفتگو رہتی۔ کبھی کمپیوٹر کے ذریعے اور کبھی فون سے۔ پھر چند دنوں کے بعد یہ بھی کم ہوتا چلا گیا۔ میں پاپا کے ساتھ بزنس میں آ گیا تو معروفیت کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ ایسے ہی کسی وقت بھان سنگھ، زویا، پھر پریت کور سے گفتگو ہو جاتی۔ جب میں آفس میں ہوتا یا پھر اس دوران ان میں سے کوئی آن لائن ہوتا ۔ پاپا نے بزنس کو ازسر نو دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایک تو انہیں اپ ٹوڈیٹ معلومات مل جاتیں دوسرا مجھے ہر شے کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو جاتا۔ میں نے بھی چاہا تھا کہ دیکھوں اس وقت بزنس کی صورتِ حال کیا ہے۔ دن رات اس طرح گزرتے چلے گئے۔ میں بہت ہی مصروف ہو گیا۔
زویا کا معاملہ بھی مجھے کچھ سرے چڑھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے کافی حد تک اپنی والدہ کو منا لیا تھا، لیکن ابھی تک اسے اپنے باپ کے بارے میں کچھ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ مگر میں کسی طرح بھی مایوس نہیں تھا۔ میں نے دادا جی کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے مجھے فکر نہ کرنے کے لیے کہا، لیکن اطمینان نہیں تھا۔ مجھے دادا جی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کس بنیاد پر مجھے مطمئن ہو جانے کے لیے کہا تھا۔ زویا سے بہر حال میرا رابطہ رہتا۔ وہ ایک اچھی دوست تو تھی۔ وہ بھی گو مگو کی کیفیت میں تھی۔ میں نے اور اس نے خود کو حالات پر چھوڑ دیا۔ ہم انتظار کرنے لگے کہ وقت ہمارے لیے اپنے دامن میں کیا لے کر آتا ہے۔
اس دن میں آفس میں مصروف تھا۔ اسی دن پاپا سے یہ ڈسکس ہوا تھا کہ نہ صرف بزنس کو مزید پھیلا جائے بلکہ اس پر بھی بات ہوئی کہ کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جائے اس وقت میں سینئر لوگوں سے میٹنگ میں تھا کہ بھان سنگھ کا فون آ گیا، اس نے ہیلو کی بجائے سیدھے پوچھا۔
’’اوئے کہاں ہے تُو؟‘‘
’’میں آفس میں، خیر تو ہے نا، یوں کیسے پوچھ رہا ہے؟‘‘ میں نے اس کے لہجے پر دھیان دیتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
’’ہم اس وقت اٹاری پر ہیں۔ ہمارا امیگریشن ہو گیا ہے، اب دیکھو، لاہور کس وقت پہنچتے ہیں‘‘۔ اس نے بڑے جوش سے کہا تو میں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
’’مجھے پہلے نہیں بتایا‘‘۔
’’اب بھی تو لاہور آنے سے پہلے بتا رہا ہوں۔ بہر حال باقی باتیں وہیں ہوں گی، آ جانا اسٹیشن پر‘‘۔ اس نے تیز تیز انداز میں کہا اور فون بند کر دیا۔ مجھے اس پر شدید غصہ آیا۔ ظاہر ہے وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھ مزید لوگ بھی ہوں گے، آیا اس کے گھر والے ہیں یا کوئی دوسرے ہیں۔ اب اس مناسبت سے میں نے بندوبست کرنا تھا۔ پھر نہ جانے کیوں ایک سوچ یہ بھی ابھری کہ ممکن ہے اس کے ساتھ امرت کور ہو؟ میرا دل نہیں مان رہا تھا۔ اگر وہ ہوتی تو ضرور مجھے بتاتا۔ ظاہر ہے مجھے دادا جی کو اس کے آنے کے بارے میں ذہنی طور پر تیار کرنا تھا۔ میں واپس اسے فون نہیں کر سکتا تھا۔ نمبروں سے دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کوئی پی سی او وغیرہ ہی سے کال تھی۔
’’بلال صاحب۔۔۔! خیریت ہے آپ بڑی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہیں‘‘۔ ایک سینئر اہلکار نے پوچھا تو میں چونک گیا پھر موجودہ صورتِ حال کے بارے میں جلدی جلدی میٹنگ نمٹائی۔ میرا اندازہ یہی تھا، اب کم از کم ایک ہفتہ مجھے آفس سے دور رہنا ہو گا۔ میں نے چند لمحے سوچا اور پاپا کو اس بارے بتایا۔ انہوں نے مجھے ایک ہفتے کی ’’چھٹی‘‘ دے دی۔
اس وقت شام کے سائے پھیل رہے تھے جب میں اور دادا جی نور محمد لاہور اسٹیشن کے ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آفس ہی سے فون کر کے دادا جی کو بھان سنگھ کے آنے کے بارے میں بتایا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے آفس ہی میں رکنے کو کہا اور تھوڑی دیر بعد خود آ گئے میں ان کی جذباتی کیفیت کو بہت حد تک سمجھ سکتا تھا۔ اس لیے کسی قسم کا بھی کوئی سوال نہیں کیا۔ گھر کا ڈرائیور انہیں لے کر آیا تھا۔ مگر وہ میرے ساتھ بیٹھ کر اسٹیشن چلے آئے تھے۔ ڈرائیور کو بھی کار ساتھ میں لے آنے کے لیے کہا۔ انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا۔
’’اب پتہ نہیں کتنے لوگ ہوں گے، ایک گاڑی میں آ بھی سکیں گے یا نہیں‘‘۔
اس پر میں خاموش رہا تھا۔ پھر بہت سارے سوال ذہن میں آنے کے باوجود میں نے ان سے کچھ نہیں پوچھا۔ وہ چپ چاپ آنے والی گاڑیوں کو تکتے رہے۔ یہاں تک کہ اچانک وہ بول پڑے۔
’’بلال۔۔۔! ذرا تصور کر، جس طرح یہ گاڑی یہاں آ کر رکی ہے، اسی طرح ہجرت کے دنوں میں گاڑی آ کر رکی تھی اور اس میں سے انسانی کٹی پھٹی لاشیں، کسی کا سر نہیں، کس کا دھڑ نہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے۔۔۔ لہو میں لت پت۔۔۔مرے ہوئے کھلی آنکھوں سے اس جہاں کو تکتے ہوئے۔ ’’یہ کہتے ہوئے وہ اچانک ہچکی لے کر رو دیئے۔ میں نے انہیں ذرا بھی ڈھارس نہیں دی، میں نے انہیں رونے دیا۔ ان کے موٹے موٹے آنسو ان کی سفید ریش میں جذب ہونے لگے۔ چند لمحوں بعد وہ سنبھلے اور پھر بولے۔۔۔’’میں نے خود اپنی آنکھوں سے ریل کی پٹری کے درمیان ایک عورت کی لاش دیکھی تھی، جسے کتے بھنبھوڑ رہے تھے ۔۔۔ یار قیامت اور کیسی ہوتی ہے‘‘۔
’’دادا جی خود کو سنبھا لیں۔۔۔‘‘ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’اس کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں ہے، ہمیں ہی خود کو سنبھالنا پڑے گا‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’مگر کہاں سنبھال پائے ہیں خود کو، شاید ہم سارے دکھ بھول جاتے اگر ہمیں وہ منزل مل جاتی جس کے لیے اتنی بڑی قربانی دی گئی تھی۔ کل تک جو کام متحدہ ہندوستان میں پنڈت کرتا تھا، وہی کام یہاں کا مولوی کرنے لگ گیا۔فرق کیا رہا۔ وہ بھاشن دیتا رہا اور یہاں بیان ہونے لگے، پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ نہیں فرقہ ساز فیکٹری بن گئی۔ کیا کریں ہم‘‘۔ آخری لفظ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں بے بسی تھی۔
’’داداجی۔۔۔! آپ اتنے مایوس کیوں ہیں، وقت لگے گانا، دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ میں نے ان کا دھیان بٹاتے ہوئے کہا۔ حالانکہ مجھے اپنا لہجہ میں کھوکھلا لگ رہا تھا۔
’’یہی تو المیہ ہوا ہے ہمارے ساتھ، ہم نے اپنی آئندہ نسل کو بھی وہ ولولہ نہیں دیا، وہ تحریک نہیں دی جو پاکستان بناتے وقت ہمارے اندر تھی۔ میں اپنی الجھی ہوئی ڈپریشن زدہ نوجوان نسل کو الزام نہیں دیتا یہ نسل بے چاری بے قصور ہے۔ انہیں مقصد ہی نہیں دیا ، کوئی منزل ہی نہیں دی، وہ بے چارے کیا کریں۔ منزل کے بارے میں کیا بتانا، کوئی بتانے والا ہی نہیں۔ خود رو پودا جس طرح چاہے بڑھ جائے۔ کسی کے ساتھ انصاف ہی نہیں، جو جتنا کرپٹ بندہ ہے وہ اتنی بڑی گاڑی میں عزت دار بن کر گھوم رہا ہے‘‘۔ ان کے لیے میں غصہ در آیا تھا تو میں نے پھر سے ان کا دھیان دوسری طرف لگانے کی خاطر کہا۔
’’دادا جی۔۔۔ مجھے یہ بتائیں، مہمانوں کے بارے میں معلوم نہیں، ایک ہے یا زیادہ ، ان کے ٹھہرانے کا بندوابست ، ان کے لیے ۔۔۔‘‘
’’اوئے۔۔۔! جتنے بھی ہوں گے، میں سنبھال لوں گا۔ تُو فکر نہ کر، تُو انکوائری تک جا اور پتہ کر کے آ کر گاڑی واہگہ سے نکلی ہے یا نہیں؟‘‘
’’جی، میں ابھی پتہ کر کے آتا ہوں‘‘۔ میں یہ کہہ کر اٹھنے ہی والا تھا کہ اسٹیشن پر ہلچل ہونے لگی۔
’’میرا خیال ہے گاڑی آ گئی ہے‘‘۔ دادا جی نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا اور اُدھر دیکھنے لگے جہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس نے آنا تھا۔
گاڑی پلٹ فارم پر رک گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مخصوص قسم کی آوازوں کا شور ہونے لگا تھا۔ سکھ یاتریوں میں کئی جذباتی قسم کے سکھ بھی تھے۔ عمومی طور پر عام سکھوں نے مختلف رنگوں کی شلوار قمیص یا دھوتی کرتہ پہنا ہوا تھا، ان کی مخصوص پگڑیاں تھیں۔ مگر وہ جذباتی سکھ نیلے رنگ کے لباس میں اور اسی رنگ کی پگڑی پہنے ہوئے تھے۔ وہ زور زور سے نعرے لگا رہے تھے۔ ’’جو بولے سونہال۔۔۔ ست سری اکال‘‘۔ ان کے ساتھ وہ اپنی چھوٹی بڑی کرپانیں لہرا رہے تھے۔ ان کے اس انداز کو دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے میرے دل میں بھی آئی کہ یہ ایک طرح سے کمینہ پن ہے، یہ ایسا کسے دکھا رہے ہیں۔ پھر دوسرے ہی لمحے ان کی مذہبی کیفیت کا خیال دل میں آیا کہ ممکن ہے۔ یہ وہ خالصانی سکھ ہوں جنہیں شاید ہندو ستان میں ایشیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایسا کوئی نعرہ لگانے کی اجازت نہ ہو۔ ’’واہگرو دا خالصہ۔۔۔ واہگرو دی جے۔۔۔ واہگرو دی فتح۔۔۔‘‘ وہ ایسا نہ کہہ پاتے ہوں اور اپنی یہ بھڑاس یہاں آ کر نکال رہے ہوں۔ اس لمحے میں نے سوچا، دادا جی کی کیفیت کیا ہو گی؟ ان کے سامنے تو وہ سارے منظر پھر آ گئے ہوں گے، وہ تاریک ترین رات بھی یاد آ گئی ہو گی۔ جب رگھبیر سنگھ کو امرت کور نے مارا تھا۔ اپنے ہی گھر سے اٹھتے ہوئے شعلے دیکھے ہوں گے۔۔۔ میں نے آہستگی سے دادا جی کا ہاتھ تھام لیا، جو اس وقت گردشِ لہو کے باعث گرم تھا۔ وہ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔
میری نگاہیں ٹرین سے اترنے والے مسافروں پر تھیں۔ مگر بھان سنگھ ان میں دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ کافی رش تھا۔ اچانک میری نگاہ ایک بوگی پر پڑی جہاں وہ میری ہی تلاش نگاہ دوڑا رہا تھا۔ میں نے ایڑیاں اٹھا کر زور زور سے ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی اور بے ساختہ زور سے پکارا بھی۔ وہ آواز کی سمت تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا اور پھر اس نے مجھے دیکھ لیا۔ مطمئن انداز میں ہاتھ ہلا کر مجھے وہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ رش کے باعث میں نے دادا جی کو وہیں کھڑے رہنے کا کہا۔ انہوں نے بھی بھان سنگھ کو دیکھ لیا تھا۔ میں نے جب اسے دوبارہ دیکھا تو وہ بوگی میں واپس جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد رش کم ہونا شروع ہو گیا۔ تبھی بھان سنگھ کے ساتھ اس کے پریوار کے لوگ باہر آنا شروع ہو گئے۔ پردیپ سنگھ، پریت کور، چاچی جسیمت کور، اور آخر میں امرت کور کا چہرہ دکھائی دیا تو میرے منہ سے بے ساتہ نکل گیا۔
’’امرت کور۔۔۔‘‘۔
یہ کہتے ہوئے میں نے دادا جی کے چہرے پر دیکھا۔ وہ سرخ تھا۔ اس وقت میں قطعاً یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا ، ان کے چہرے پر یہ سرخی کس طرح کے جذبات کی وجہ سے ہے، محبت کا کوئی اثر تھا یا نفرت کے باعث، وہ اپنے سامان سمیت ہماری طرف بڑھ آئے تھے۔ سب کی نگاہیں دادا جی نور محمد پر تھیں۔ میں نے خاص طور پر امرت کور کے چہرے پر دیکھا۔ وہ کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری دکھائی دے رہی تھی۔ لٹھے کی مانند سفید چہرہ، کھلی آنکھیں، وہ پلک تک نہیں جھپک رہی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے وہ ٹرانس کی حالت میں آ گئی ہو۔ لوہا ہو اور مقناطیس کی جانب کھنچا چلا آ رہا ہو۔ شاید اسٹیشن پر ہونے والے شور سے بھی زیادہ ان کے اندر طوفان اٹھا ہو۔ اس کی شدت کیا ہے۔ میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا۔ صرف بھان سنگھ مجھ سے ملا مگر باقی سب پہلے دادا جی ہی سے ملے۔ ایک تو وہ میرے ساتھ تھے دوسرا وہ سب ان کی تصویر کمپیوٹر پر دیکھ چکے تھے۔ وہ سب گلے لگ کر ملے لیکن امرت کور اسی ٹرانس کی حالت میں دادا جی کو تکے چلی جا رہی تھی۔ وہ سب مل چکے تو دادا جی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ امرت کور ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔
’’مجھے معاف کر دے نور محمد۔۔۔ میں تیری طلب گار تھی، شاید اس لیے گناہ گار ہوں‘‘۔
’’یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں امرت، آؤ چلیں۔۔۔‘‘ دادا جی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نور محمد ۔۔۔ جب تک تُو مجھے معاف نہیں کرے گا، میں تیرے ساتھ کیسے جا سکتی ہوں۔ یہ واہگرو کی مہر ہے کہ مجھے یہ موقع مل گیا کہ تجھ سے معافی مانگ لوں، آگے تیری مرضی، تُو جو چاہے‘‘۔ وہ ہاتھ جوڑے یوں کھڑی رہی تھی جیسے وہ نہیں، اس کے اندر سے کچھ اور ہی بول رہا ہو۔ اس کا جسم جیسے مٹی کا بت ہو اور آواز کسی دوسرے کی ہو۔ دادا جی چند لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر اس کے دونوں ہاتھ الگ کرتے ہوئے بولے۔
’’میں نے تجھے اسی دن معاف کر دیا تھا، جب تُو نے حاجراں کی قبر بنا دی تھی۔ اس کا نشان پھر سے زندہ کر دیا‘‘۔
شاید دادا جی کے لفظوں میں کوئی جادو تھا یا کوئی جیون منتر، وہ پہلے ایک دم ساکت ہوئی، پھر اس کے چہرے پر خوشی بھری لہر ابھری، آنکھیں حیرت سے جھپکیں اور پھر وہ دادا جی کے سینے سے لگ گئی۔ اس کا بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی، یوں لگا جیسے برسوں کے رکے ہوئے آنسو آج ہی بہا دے گی۔ سبھی ان کے اردگرد کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے۔ دادا جی خاموش تھے مگر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ امرت کور ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ تقریباً پانچ منٹ تک یہی جذباتی کیفیت چلتی رہی۔ تبھی میں نے بھان سنگھ کے ساتھ کھڑی پریت کور کو اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گئی اور آگے بڑھ کر امرت کور کو دادا جی سے الگ کیا۔
’’میرا خیال ہے چلیں اب‘‘۔ میں نے کہا تو وہ کافی حد تک نارمل ہو گئے۔ میں نے امرت کور کا سامان اٹھایا اور اسٹیشن سے باہر کی طرف چل دیا۔ بھان، پریت اور امرت کور میرے ساتھ آن بیٹھے۔ جبکہ پردیپ سنگھ اور جسیمت کور دادا جی کے ساتھ چل دیئے۔ ہم آگے پیچھے چلتے ہوئے نکلے۔ لاہورااسٹیشن ایشیا کا دوسرا بڑا اسٹیشن ہے اور اس کی عمارت بہت پرانی ہے۔ ہم باتیں کرتے ہوئے گھر کی طرف چلتے چلے گئے۔
پاپا اور ماما نے ان کا استقبال خالص پنجابی انداز میں کیا۔ وہی دروازے پر تیل گرانا، مہانوں کو خوش آمدید کہنا، آنچل کی چھاؤں کرنا اور ایسی ہی رسمیں۔ چونکہ پاپا اور ما ما کو امرت کور کے بارے میں معلوم تھا۔ اس لیے اسے خصوصی مہمان کی حیثیت حاصل تھی۔ اوپری منزل پر سبھی کمرے ان کے لیے مخصوص کر دیئے گئے تھے۔ رات کے کھانے پر خاصا اہتمام تھا، انہوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔ اس لیے زیادہ باتیں نہ ہو سکیں اور وہ جا کر سو گئے۔
ناشتے سے فراغت کے بعد سبھی ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔ سب مہمان فریش تھے اور خوشگوار باتیں چل رہی تھیں۔ تبھی میں نے بھان سے پوچھا۔
’’اٹاری میں تم لوگوں کو بہت دیر لگ گئی؟‘‘
’’ہاں امیگریشن میں بہت وقت لگتا ہے نا، وہاں سے میں نے فون بھی اسی لیے کیا تھا کہ پاکستان میں واہگہ پر وقت ہی نہیں ملنا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ انڈیا سے آنے والے پاکستانی تو وہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس کو چھوڑ سکتے ہیں، مگر بھارتی نہیں اور پھر یاتریوں کا رش بھی تو بہت تھا‘‘۔
’’ہاں یہ تو ہے‘‘۔ میں نے بات سمجھتے ہوئے سر ہلا کر کہا تو پردیپ سنگھ بولے۔
’’ہمارے پاس صرف ایک ہفتہ ہے، اس میں سے تین دن ہم نے جنم استھان پر گزارنے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف یاترائیں ہیں۔ اس کے بعد آ کر ہم آپ کے مہمان ہوں گے‘‘۔ ان کے یوں کہنے پر دادا نے کہا۔
’’پردیپ ۔۔۔! تم تو یہ تکلف والی بات کر رہے ہو، پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی تم ہمارے مہمان ہو، کیسے اجنبیوں کی طرح باتیں کر رہے ہو۔ تجھے ساری یاترائیں میرا یہ شیر پوتا کروائے گا، تم فکر کیوں کرتے ہو‘‘۔
’’نہیں۔۔۔! وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ تین دن بے چارہ کہاں پھنسا رہے گا، ہمارا وہاں انتظام ہے۔ ہاں پھر باقی یاترائیں اس کے ساتھ ہوں گی۔ ویسے میں آپ کو اپنا پروگرام بتا رہا ہوں‘‘۔ انہوں نے عام سے انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے جیسے تم چاہو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ جھتوال گاؤں میں موجود مختلف لوگوں کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جسیمت چاچی اور پریت کور گاہے گاہے کسی بات میں حصہ لے رہی تھیں مگر امرت کور بالکل خاموش تھی۔ کسی گہری پُرسکون اور ساکت جھیل کی مانند۔ وہ دادا جی کی طرف ہی دیکھے چلی جا رہی تھی۔ شاید وہ دیکھ دادا جی کی طرف رہی تھی اور ذہن میں نہ جانے کون کون سے تصور اور خواب زندہ ہو گئے تھے۔
دوپہرسے قبل تک نہ جانے کتنی باتیں ہو گئیں۔ یاد نہیں کون کون سے موضوع چھڑے تقسیم ہندوستان، تقسیم کے بعد کے حالات، سکھوں کی سیاسی و معاشرتی زندگی، خالصتانی تحریک، بھارتی سیاسی فضا، اندرا گاندھی کی سیاست، آپریشن بلیوسٹار، دہلی میں سکھوں کا ہولوکاسٹ، پاک بھارت تعلقات، جھتوال میں پرانے لوگوں کے احوال اور نہ جانے کیا کیا۔ میں نے پوری طرح محسوس کیا کہ دادا بہت سکون سے بات کرتے کرتے اچانک جذباتی ہو جاتے اور خود بخود فوراً خود پہ قابو بھی پا لیتے۔ میں حیران اس بات پر تھا کہ اس ساری گفتگو میں سبھی پر بڑے جوش سے اور اپنی معلومات کے مطابق بات کرتے رہے، لیکن امرت کور نے ایک لفظ بھی نہیں کہا، وہ بالکل خاموش رہی تھی۔ اس کی ساری توجہ کا مرکز بس دادا جی کی ذات تھی۔ میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی تھی کہ وہ ایک ٹک دادا جی کے چہرے کی طرف دیکھے چلی گئی تھی کہ جیسے دادا جی کا وجود ہی اس کے لیے سب کچھ تھا۔ تبھی مجھے خیال آیا کہ امرت کور اور دادا جی کو تنہائی میں کچھ وقت دینا چاہئے تاکہ ان کے دلوں میں جو بھڑاس ہے وہ نکال لیں۔ وہ اگر ایک دوسرے سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ لیں۔ میں اپنے طور پر اس ہونے والی ملاقات بارے تعین کر رہا تھا۔ جبکہ پردیپ سنگھ ننکانہ صاحب جانے کے لیے نہ صرف پر تول چکا تھا بلکہ وہ جلدی جانے پر اصرار بھی کر رہا تھا۔ پھر یہ طے پا ہی گیا کہ وہ اپنا وزٹ پورا کر لیں، بعد میں وہ ہمارے پاس رہیں گے۔ دوپہر کے بعد میں نے ایک بہترین اور آرام دہ کوسٹر سے انہیں ننکانہ صاحب روانہ کر دیا۔ بھان سنگھ سے رابطے کے لیے میں نے ایک سیل فون بھی اسے دے دیا۔
شام کے وقت میں اور دادا جی لان میں تھے۔ وہ خاموشی سے چائے پی رہے تھے۔ حالانکہ ایسا ہوتا نہیں تھا، وہ میرے ساتھ یا کسی کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہوئے چائے پیتے تھے۔وہ نہ جانے کیا سوچ رہے تھے اور مجھے پورا یقین تھا کہ ان کی سوچ امرت کور اور اس سے جڑے واقعات کے گرد گھوم رہی ہو گی۔ تبھی میں نے ماحول کی اداسی ختم کرنے کے لیے ان سے پوچھا۔
’’دادا جی جب تک آپ امرت کور سے نہیں ملے تھے تب، اور اب جبکہ آپ اس سے مل چکے ہیں، کیا فرق محسوس کیا ہے آپ نے ۔۔۔؟‘‘
’’فرق۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سوچتے رہے، پھر سنجیدہ لہجے میں بولے۔ ’’یار، میں اصل میں اس سے بہت نفرت کرتا تھا۔ جب تک تم نے جھتوال جانے کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں تھیں، تب تک میں امرت کور ہی کو قصور وار سمجھتا رہا تھا۔ میرے دھیان میں یہی تھا کہ اس نے رگھبیر سنگھ کو بھڑکایا اور وہ جھتوال کے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے پر تل گیا۔ میں اسے امرت کور کا انتقام ہی سمجھتا رہا، لیکن ایک بات ذہن میں کھٹکتی رہی اور وہ تھی رگھبیر سنگھ کا قتل، جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ وہ رات اور وہ قتل میں آج تک نہیں بھول سکا۔ اس رات کا ایک ایک لمحہ مجھے یاد ہے۔ جب اس کے بارے میں سوچتا تو وہ مجھے اتنی قصور وار دکھائی نہیں دیتی تھی۔ کیونکہ اس رات میں نے جتنی نفرت کا اظہار امرت کور سے کیا تھا، وہ چاہتی تو مجھے قتل کر سکتی تھی۔ میں تو بندھا ہوا بے بس تھا اور پھر جب تمہارے احساس دلانے پر اس نے حاجراں کی قبر بنا دی، تب سے میرے دل میں اس کے لیے نفرت نہیں رہی، بلکہ احترام آ گیا ہے‘‘۔
’’اور۔۔۔ یہی محبت کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔‘‘ میں نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے امید تھی کہ وہ مسکرائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ وہ مزید سنجیدہ ہو گئے اور بہت گہرے لہجے میں بولے۔
’’او نہیں پتر۔۔۔! محبت ہو جانے میں اور محبت کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تقسیم ہندوستان کے دور کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن اس سے پہلے جب امن کا دور تھا، اس کے بارے میں تم یوں سوچ سکتے ہو کہ رشتوں ناتوں اور تعلق میں احترام اور عزت ایک ایسا حصار تھا، جس میں غلاظت کو راہ نہیں ملتی تھی۔ بہت سادہ دور تھا۔ ہر رشتہ، ہر تعلق شیشے کی مانند واضح ہوتا تھا ۔ اس وقت تو مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ محبت ہوتی کیا شے ہے‘‘۔
’’اب تو سمجھتے ہیں آپ۔۔۔؟‘‘ میں نے بھی سنجیدگی سے پوچھا۔
’’وقت نے بہت کچھ سمجھا دیا ہے پتر، محبت اور روحانیت کوئی الگ الگ شے نہیں ہیں۔ محبت کا تعلق براہ راست روح سے ہوتا ہے ، جسم سے نہیں، امرت کور کے نزدیک محض جسم کی پیاس بجھانے کا نام ہی محبت تھا۔ اس وقت مجھے یہ بہت بُرا لگا تھا، لیکن اب میں سوچتا ہوں تو وہ مجھے قصور وار دکھائی نہیں دیتی‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے تیزی سے پوچھا۔
’’اسے خود محبت کے مفہوم سے آشنائی نہیں تھی۔ کچی عمر میں جو تصورات اس کے ذہن میں تھے۔ وہ اسی کا اظہار کرتی رہی۔ ظاہر ہے اس کے ذہن میں جو تھا، وہ اسی کے ماحول سے ہی اخذ شدہ تھا۔ جو اس کے ماحول نے دیا اور جیسا اس کے ذہن میں محبت کا تصور بنایا، اس نے اظہار بھی ویسا ہی کرنا تھا۔ وہ جو کشش میرے بارے میں محسوس کرتی تھی۔ وہ اس کشش کا ٹھیک سے اظہار نہیں کر پائی۔ اس کے بدن کی زبان اس پر حاوی ہو گئی‘‘۔
’’بدن کی پکار رگھبیر سنگھ بھی سن سکتا تھا، اس کے ساتھ امرت کو کا وہ تعلق نہیں بنا۔۔۔‘‘
’’وہی تو۔۔۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود میں ہی اسے یاد کیوں رہا؟ اس نے شادی کیوں نہیں کی؟ اس کے جسم کی پکارنے اسے نہیں ستایا، اس نے اپنے واہ گرو سے ناطہ کیوں جوڑا۔۔۔؟ ایسے بہت سارے سوال ہیں میری جان، مجھے اب اس کی حالت اور تڑپ کا اندازہ ہو رہا ہے‘‘۔ انہوں نے دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا۔
’’ایسا کیوں ہوا؟ یہی تو میں سمجھنا چاہ رہا ہوں؟‘‘
’’جب جسم الگ الگ ہوتے ہیں نا تو روح سے ناطہ جڑنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ یہی تو جسم سے روح تک کا سفر ہے اور یہ سفر اسی وقت طے ہوتا ہے جب کشش میں خلوص اور پاکیزگی ہو‘‘۔ انہوں نے سکون سے کہا ۔
’’دادا۔۔۔! کیا آپ کو اس رات احساس نہیں ہوا امرت کور کی محبت کا؟‘‘ میں نے ایک نئے رخ سے پوچھا۔
’’نہیں وہ لمحے تھے ہی ایسے، اﷲ نہ کرے تمہیں زندگی میں ایسا کوئی منظر دیکھنے کو ملے۔ تم اس قدر شدت سے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میرے سامنے میرا گھر جل رہا تھا، میرے اپنے قتل ہو گئے تھے۔ میں بے بس پڑا تھا اور موت میرے سر پر کھڑی تھی۔ اس وقت انسان کی ذہنی حالت کیا ہو سکتی ہے؟ ان لمحات میں امرت کور ہی سارے معاملات میں قصور وار دکھائی دے رہی تھی۔ ایسے میں محبت نہیں، میرے اندر سے نفرت ابل رہی تھی۔ تب اس سے محبت نہیں نفرت ہی کی جا سکتی تھی، جس کا میں نے اظہار کیا اور یہی نفرت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ رہی‘‘۔
’’اب آپ نے کیا محسوس کیا، امرت کور کے اندر کی حالت کیا ہو سکتی ہے‘‘۔ میں نے یونہی تجسس سے پوچھا۔
’’لگتا ہے اب وہ محبت کے اصل مفہوم تک جا پہنچی ہے۔ وہ کس مقام پر ہے، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا، اور اس سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ اصل میں سوچ اور من کی پاکیزگی ہی محبت کے اصل مفہوم تک رسائی دیتی ہے۔ میں اب اس کے بارے میں نہیں جانتا‘‘۔ دادا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہوں۔۔۔!‘‘ میں نے سوچتے ہوئے ہنکارا بھرا۔ پھر میں نے ان سے کوئی مزید سوال نہیں کیا۔ اگرچہ میں ان سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا اور کئی سوال میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے مگر یہاں وہ حد آن پہنچی تھی، جہاں ادب مانع تھا۔ مجھے یہ سوچ کر سنسنی محسوس ہونے لگی کہ ایسے ہی سوال اگر میں امرت کور سے پوچھوں تو اس کے پاس کیا جواب ہوں گے؟
تیسرے دن میں جنم استھان کے مین گیٹ پر تھا۔ سہ پہر ہو چکی تھی۔ بھان سنگھ سے میری بات ہو گئی تھی۔وہ میرا منتظر تھا اور اس کے پاس سامان دھرا ہوا تھا۔ میں نے ڈرائیور سے سامان رکھنے اور گاڑی عارضی پارکنگ میں لگانے کا کہا۔ ڈرائیور سامان سنبھالنے لگا ۔ میں اور بھان اندر چلے گئے۔ سفید اور پیلی عمارت جس میں بسنتی رنگ نمایاں تھا اس کے اطراف میں جدید عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع تھا۔ فوارے کے پاس سے ہم شمال کی جانب ایک راہداری کے اندر چلے گئے ۔ جہاں یاتریوں کے ٹھہرنے کی جگہ تھی۔ وہیں انہیں کاٹیج نما کمرے ملے ہوئے تھے۔ وہ خصوصی یاتریوں کے لیے تھے ۔ورنہ عام یاتریوں کو اِدھر اُدھر ٹھہرایا جاتا ہے۔ یا پھر وہ خود اپنا بندوبست کرتے ہیں۔ وہاں اتنا زیادہ رش نہیں تھا۔ یاتری اردگرد کے گردواروں کی یاترا کے لیے نکل گئے ہوئے تھے۔ میں نے وہاں یہ محسوس کیا کہ ہرمندر صاحب اور جنم استھان میں شاید یہ فرق ہے کہ ہرمندر صاحب بھارت میں ہے اور وہاں سکھوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے وہاں پر زیادہ رش ہوتا ہے۔ یا پھر اسے اہمیت زیادہ دی جاتی ہے۔ بہر حال وہ سب تیار تھے۔ ان کے چہروں پر ہلکی ہلکی تھکن تھی۔ ان کے پاس سامان تو تھا نہیں، اس لیے آخری بار ما تھا ٹیکنے کے لیے گرودوارے کے اندر چلے گئے۔ ڈیوڑھی سے گزر کر کنویں کے پاس آئے تو اندر صحن کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ سامنے ہی شیشے کے پار گرنتھ صاحب پڑی ہوئی تھی۔ قریب ہی ایک سیوک چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ ان سب نے باری باری گرنتھ صاحب کو ما تھا ٹیکا اور پھر اس درخت کے پاس چلے آئے جو کسی نہنگ سنگھ پر ہونے والے ظلم کی داستان سنا رہا تھا۔ وہیں پر معلوم ہوا اس سنگھ کو وہاں پر زندہ جلا دیا گیا تھا ، یہ وہی درخت تھا جہاں اس سنگھ کو باندھ کر جلایا گیا۔ وہیں کھڑے کھڑے پردیپ سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ گوردوارہ بھی ملکیت کی وجہ سے اور کچھ دوسری وجوہات کے باعث لہو لہو ہوا ہے۔ جس فرش پر ہم کھڑے تھے۔ اس فرش نے بھی انسانی خون کا ذائقہ چکھا ہوا ہے، مجھے جھرجھری آ گئی۔ مذہب کے نام پر انسان کیا کچھ کرتا رہا ہے۔
ہم وہاں سے واپس ہوئے اور یہی باتیں کرتے ہم جنم استھان سے باہر گاڑی میں آ بیٹھے۔ وہ بہت آرام دہ کوسڑتھی۔ ڈرائیور مستعد تھا ۔ تبھی میں نے ان سے پوچھا۔
’’اب بتائیں کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’یہاں کی تو سب یاترا ہو گئی ہے۔ اب پنجہ صاحب جانا ہے‘‘۔ پردیپ سنگھ نے کہا تو میں نے انہیں سفر کی ترتیب بتائی کہ واپس لاہور سے جا کر حسن ابدال جانا ہے، یا پھر وہیں سے چلیں تو انہوں نے کہا۔ ’’نہیں پنجہ صاحب ہی چلیں۔ رات کہیں ٹھہر جائیں گے‘‘۔
’’کہیں کہاں ٹھہرنا ہے، پنڈی اپنا گھر ہے نا۔۔۔ حسن ابدال ہم صبح چلیں جائیں گے‘‘۔ میں نے کہا اور ڈرائیور کو پنڈی چلنے کا کہا۔ وہاں بہت پہلے ہی سے ہم نے گھر خریدا ہوا تھا۔ وہ ہمارے منیجر کے زیر استعمال تھا۔ جسے میں نے مطلع کر دیا۔ یونہی گپ شپ کرتے ہم پنڈی کی طرف روانہ ہو گئے۔
رات کے سائے پھیل چکے تھے ۔ جب ہم پنڈی میں اپنے گھر پہنچ گئے۔ راستے میں خوب باتیں ہوئیں۔ منیجر اعجاز لودھی ہمارا منتظر تھا۔ جلد ہی فریش ہو کر کھانا کھایا۔ باقی سب تو تھکن کے باعث سو گئے مگر میں اور بھان باہر لان میں آ بیٹھے۔ وہ مجھ سے زویا کے بارے میں پوچھتا رہا۔ زویا کو ان کی آمد بارے خبر تھی۔ پریت نے تو بہت پہلے اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کر دیا تھا۔ ہم دونوں رات گئے تک بریڈ ورڈ، جھتوال پھر ننکانہ صاحب کی باتیں کرتے رہے۔
صبح ہم تقریباً گیارہ بجے کے قریب حسن ابدال پہنچ گئے۔ ہمیں سے کافی پہلے ہی کوسٹر پارک کرنا پڑی۔ وہاں سے ہم پیدل ہی تنگ سی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے گرودوارہ کی جنوبی دیوار کے ساتھ ساتھ صدر دروازے تک آئے۔ دروازہ پار کر کے ہم اندر گئے تو کافی رش تھا۔ باہر سے اندر کی وسعت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ گرودوارہ کی ایک خاص طرز تعمیر ہے۔ تالاب کی جنوبی طرف میں ایک پتھر پر گرو نانک جی کا پنجہ بنا ہوا تھا۔ ایک بات مجھے وہاں پر کچھ عجیب سی لگی۔ وہیں تالاب کنارے اور پنجہ والے پتھر کے نزدیک فرش پر جو ٹائلیں لگی ہوئی تھیں۔ ان پر ان لوگوں کے نام کندہ تھے جنہوں نے کچھ نہ کچھ رقم دان کی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ کچھ بھی رہی ہو، لیکن یوں پاؤں کے نیچے لوگوں کا نام آنا کم از کم مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں ان کے ساتھ وہاں تک گیا، جہاں کیرتن ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی رسمیں وغیرہ کیں اور تقریباً ایک بجے وہاں سے فارغ ہو گئے۔ چونکہ وہیں گردوارے میں لنگر کا انتظام تھا اس لیے وہیں سے جی بھر کے لنگر کھایا۔
واپسی پر ہم کہیں بھی نہیں رکے۔ ہمارا رخ لاہور کی طرف تھا۔ راستے میں پردیپ سنگھ نے مجھے پنجہ صاحب کی تاریخ کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے جو کہانی مجھے سنائی، وہ بہر حال حلق سے نیچے نہیں اتری۔ میں چونکہ محقق نہیں تھا اور نہ ہی پوری طرح جانتا تھا۔ اس لیے خاموش رہا۔ کیونکہ یہ منسوب کہانیاں عوامی ہوتی ہیں۔ ان میں بہت کچھ ایسا شامل ہوتا ہے ، جس کی سند کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکتی اور بابا گرو نانک کی سوانح میں ایسی بہت سی باتیں ہیں، جو بہر حال ایسا ہی رنگ رکھتی ہیں۔ چونکہ ان باتوں میں ان کی عقیدت اور مذہبی رنگ شامل تھا، اس لیے میں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جس وقت ہم لاہور کے قریب شاہدرہ کے پاس پہنچے تو عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت ہو رہا تھا۔ تب میں نے کہا۔
’’پردیپ انکل۔۔۔! اگر آپ چاہیں تو ابھی راجہ رنجیت سنگھ کی مڑھی گھوم لیں، اس طرح آپ کا پورا ایک دن بچ جائے گا‘‘۔
’’نہیں یار۔۔۔! ابھی ہمارے پاس دو دن باقی ہیں۔ کل آ جائیں گے یہاں۔ خوب گھومیں پھریں گے‘‘۔ انہوں نے سکون سے کہا تو پہلی بار امرت کور نے اپنی رائے دی۔
’’نہیں پردیپ ویر نہیں۔۔۔! کل میں نے یہاں نہیں آنا، آپ چاہو تو آ جائیں۔ میں نے کل کچھ زیارتوں کے لیے جانا ہے، بلال کو میں نے پہلے دن ہی بتا دیا تھا‘‘۔
’’کہاں کی زیارتیں؟‘‘ پردیپ سنگھ نے پوچھا تو امرت کور نے خاصے جذباتی لہجے میں کہا۔
’’میں نے بابا فرید گنج شکرؒ کے مزار پر جانا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بانیاں شری گرنتھ صاحب میں ہیں جسے ہم ما تھا ٹیکتے ہیں، تو پھر ان کے مزار پر ما تھا ٹیکنے کیوں نہ جاؤں‘‘۔
’’ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے تایا جی، اگر ہم شری گرو گرنتھ صاحب کو ماتھا ٹیکتے ہیں تو ظاہر ہے بابا فرید کے کلام کو بھی ما تھا ٹیکتے ہیں‘‘۔ پریت کور نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا تو امرت کور نے رسان سے کہا۔
’’مجھے حضرت میاں میرؒ کے مزار پر بھی جانا ہے، آپ کو پتہ ہے کہ ہر مندر صاحب کی پہلی اینٹ انہوں نے رکھی تھی‘‘۔
’’ہاں میں جانتا ہوں‘‘۔ پردیپ سنگھ نے کہا۔
’’اور پھر مجھے بابا بلھے شاہ جی کے مزار پر بھی حاضری دینا ہے، جن کا کلام میں پڑھتی آئی ہوں‘‘۔ امرت کور نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تو پردیپ سنگھ بولا۔
’’چلو ٹھیک ہے، ہم بھی چلیں گے۔۔۔ لیکن یہ سب ایک دن میں ہو جائے گا، ہم تینوں جگہوں سے ہولیں گے۔۔۔؟‘‘ انہوں نے میری طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’امید تو ہے لیکن اگر ہم کل صبح سورج نکلنے سے پہلے گھر سے نکل پڑیں تو۔۔۔‘‘ میں نے کہا تو چاچی جسیمت کور بولی۔
’’ٹھیک ہے، اگر رات دیر بھی ہو گئی تو کیا ہوا۔ چل اب راجہ صاحب کی مڑھی چلیں۔۔۔ کتنی دور ہے یہاں سے؟‘‘
’’بس قریب ہی ہے‘‘۔ میں نے کہا۔ کیونکہ انہی باتوں کے دوران ہم آزادی چوک پہنچنے ہی والے تھے۔ شام کے سائے رات میں ڈھل گئے۔ جب ہم شاہی مسجد، شاہی قلعہ اور رنجیت سنگھ کی مڑھی دیکھ کر لوٹے۔ واپس گھر پہنچتے تک میں تھک کر چور ہو چکا تھا۔ اس لیے کھانا کھاتے ہی جو سویا تو صبح مجھے جگایا گیا۔ اس وقت سورج نہیں نکلا تھا۔
ہمارا پہلا پڑاؤ، حضرت میاں میر بالا پیرؒ کے مزار پر تھا۔ وہ سب اپنے طور پر نہ جانے کیا پڑھتے رہے۔ میں نے فاتحہ پڑھی اور صحن میں آ گیا۔ اس وقت تک دھوپ اچھی خاصی نکل آئی تھی۔ اس کے بعد ہمارا رخ قصور کی جانب ہو گیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہم حضرت بابا بلھے شاہ جی سرکار کے مزار پر تھے۔بہت پہلے میں ایک بار اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں گیا تھا تو مزار پرانی طرز کا تھا، لیکن اب جدید انداز میں تکمیل کے مراحل میں تھا۔ لگ رہا تھا کہ نقشے کے مطابق بہت زیادہ کام ہونے والا ہے۔ وہیں صحن میں قوال حضرات قوالی گا رہے تھے۔ جب میں فاتحہ پڑھ کر پلٹا تو امرت کور ان کے قریب جا کر بیٹھ گئی ہوئی تھی اور انہیں کچھ کہہ رہی تھی۔ قوال نے بڑے غور سے اس کی بات سنی اور پھر تان بدل کر یہ قوالی گانے لگا۔
دِل لُوچے ماہی یارنُوں
اک ہس ہس گلاں کر دیاں
اک روندیاں دھوندیاں مردیاں
کہو پھلی بسنت بہارنوں
دل لُوچے ماہی یارنوں
قوال جس طرح اس کافی کے بول اٹھا رہے تھے۔ امرت کور اسی طرح جذب میں آتی چلی جا رہی تھی۔
(محبت کے کھلے راستوں میں جو ہجر و وصال کا راستہ ہے۔ میں اپنے قدموں کے ہمراہ من چاہے یار کے قدموں کی آہٹ چاہتی ہوں۔ راہِ وصل پر چلنے والیاں جب بات کرتی ہیں تو لبوں سے ہنسی پھوٹتی ہے۔ ایک وہ ہیں جو ہجر کے راستوں پر روتے ہوئے چلتی ہیں اور اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ بسنت بہار آ گئی ہے۔ جس کی خوشبو میں مست ہو کر میں تم سے مخاطب ہوں۔ مجھ سے ٹکرا کر میرے بدن کا پیغام میرے محبوب تک لے جاؤ۔)
میں نہاتی دھوتی رہ گئی
اک گنڈھ ماہی دل بہہ گئی
پھاہ لائیے ہار سنگھار نوں
دل لوچے ماہی یارنوں
(ہائے۔۔۔! میں خواہش وصل کی برسات میں بدن نہلا کر رہ گئی۔ من چاہے محبوب کے دل میں پڑی گرہ ڈھیلی نہ ہو سکی۔ تو پھر مجھے بار سنگھار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔کیونکہ میرا دل تو ماہی کی تلاش میں ہے)
میں کملی کیتی دوتیاں
دکھ گھیر چوپھیروں لتی آ
گھر آماہی دیدار نوں
دل لوچے ماہی یارنوں
(میں تو دو نینوں کے ہاتھوں پاگل ہو گئی ہوں۔ ایسی پاگل کہ جو دیدار نہ ہونے کے باعث چاروں سمت سے دکھوں میں گھر جاتی ہے۔ میرے دل کے ویران آنگن میں آ جاؤ۔ کہ میرا دل ماہی کی تلاش میں ہے)
بلھا شوہ میرے گھر آیا
میں گھٹ رانجھن گل لایا
دکھ گئے سمندر پارنوں
دل لوچے ماہی یارنوں
(آخر کار مبارک دن آ گیا۔ بلھے شاہ کے آنگن میں رانجھن نے پاؤں دھرا۔ عشق کے سائے کو میں نے اپنے سینے کے ساتھ پوری شدت سے لگا لیا۔ تب مجھے یوں لگا جیسے میرے سارے دکھ سمندر کے نیلے پانیوں میں کسی سیال کی مانند ہو کر بہہ گئے ہیں کہ میں ماہی کی تلاش میں ہوں۔)
قوال حضرات اپنے راگ راگنیوں، سُر اورسُرتیوں میں کلام بلھے شاہؒ پڑھ رہے تھے۔ ان کی آواز میرے کانوں میں بھی پڑ رہی تھی، لیکن میری نگاہ میں امرت کور کا چہرہ تھا۔ وہاں کئی رنگ آ اور جا رہے تھے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑے کہیں دور پہنچی ہوئی تھی۔ وہ جذب کے کس مقام پر تھی، میں نہیں جانتا تھا، لیکن اس کے جذب کا احساس ضرور تھا۔ جیسے ہی قوالی ختم ہوئی، اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ وہ خوش ہو کر قوالوں کو انعام وغیرہ سے نوازنے لگی بالکل انہی لمحات میں، ایک خیال خوشبو کی مانند میرے ذہن میں آیا تو میں حیران رہ گیا۔ یہ بات پہلے میری سمجھ میں کیوں نہیں آئی تھی۔ اس خوشبو بھرے خیال کو میں جس قدر سوچتا چلا جا رہا تھا۔ میرے اندر خوشگواریت کے ساتھ خوشی پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ اس خوش کن خیال نے مجھے امربیل کی مانند اپنے حصار میں لے لیا۔ میں اس خیال کی رنگینی میں کھویا ہوا تھا کہ بھان سنگھ نے مجھے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا۔
’’او چلو، کہاں گم ہو‘‘۔
’’اوئے۔۔۔! ایک بڑا خوبصورت خیال میرے ذہن میں آیا ہے، لیکن تجھے ابھی نہیں بتاؤں گا۔ کل اس پر بات کریں گے‘‘۔ میں نے مسکراتے ہوئے رسان سے کہا تو وہ میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے حیرت سے بولا۔
’’خیر تو ہے نا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! خیر ہی ہے۔۔۔ آؤ چلیں‘‘۔ میں نے بہت مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور پھر مزار کے احاطہ سے باہر نکلتا چلا گیا۔
پاک پتن میں میرے پاپا کے ایک دوست منشی محمد علی نرالا رہتے تھے۔ پاپا نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ان کے ہاں سے ضرور ہو کر آنا، میں نے انہیں فون کر دیا ہے اور وہ انتظار کریں گے۔ راستے میں نرالا صاحب سے رابطہ بھی ہو گیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ لنچ انہی کے ہاں کرنا ہے تو میری مجال کیا تھی۔ دوپہر کے بعد ہم ان کے ہاں پہنچے۔ انہوں نے ہماری بہت عزت کی۔ ہم انہیں زیادہ وقت نہیں دے پائے۔ لنچ لینے اور پھر قدرے فریش ہونے کے بعد ہم دربار شریف چلے گئے۔
عام سطح سے کافی اونچائی پر بابا جی کا مزار ہے۔ سہ پہر ہو چلی تھی۔ اس وقت لوگوں کی آمدورفت اتنی نہیں تھی۔ اس لیے اتنا زیادہ رش دیکھنے کو نہیں ملا۔ مرد حضرات تو مزار کے اندر چلے گئے۔ خواتین باہر ہی رہیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ وہاں گزرنے کے بعد ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا ۔ جتنی دیر ہم وہاں پر رہے، امرت کور اتنی دیر جذب کی حالت میں رہی۔ ایک لمحے کو تو مجھے لگا جیسے وہ شو آف کر رہی ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا، میں نے اگر جھتوال میں اس کا جذب نہ دیکھا ہوتا تو یہی سمجھتا۔ واپسی پر وہاں سے شکر کی کافی ساری تھیلیاں لیں، جو تبرک کے طور پر وہ اپنے ساتھ جھتوال لے جانا چاہتے تھے۔ سہ پہر ڈھل رہی تھی جب ہم وہاں سے نکلے۔ ہمارا رخ لاہور کی جانب تھا۔
اگلے دن میں ، بھان اور پریت لاہور کے سب سے مہنگے ریستوران میں زویا کا انتظار کرتے ہوئے اپنی گپ شپ کر رہے تھے۔ زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ زویا بھی آ گئی۔ پریت اور زویا پہلی بار ملی تھیں، لیکن زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ وہ آپس میں بے تکلف ہو گئیں۔ پھر فضا اس وقت نارمل ہو ئی جب زویا نے بھان کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے نہیں لگتا تھا کہ تم وہی بریڈ فورڈ والے گٹ اپ میں ہو گے‘‘۔
’’کیوں، کیسے گٹ اپ کی توقع کر رہی تھی؟‘‘ اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
’’یہی کہ وہاں تو تم اسی حالت میں تھے، مطلب کلین شیو، میں اب یہ تصور کر رہی تھی کہ تم نے اپنے سر پر وہی سکھوں والی مخصوص پگڑی رکھی ہو گی، یہ داڑھی بڑھائی ہو گی اور پورے روایتی سکھ دکھائی دے رہے ہو گے‘‘۔
’’اور ۔۔۔تم۔۔۔تم۔۔۔ بھی تو روایتی مسلم دکھائی دے رہی ہو۔یہ ۔۔۔ یہ حجاب۔۔۔‘‘ وہ تیزی سے بولا۔
’’میں تو وہاں بھی ایسے ہی رہتی تھی۔ میں تو روایتی مسلمان دکھائی دے رہی ہوں۔ تم روایتی سکھ کیوں نہیں؟‘‘ زویا نے اپنی بات کی وضاحت کی تو پریت کور نے آہستگی سے کہا۔
’’میرے خیال میں زویا، یہ تم نے لفظ ’’گٹ اپ‘‘ استعمال کیا ہے نا، یہ بالکل درست کیا، اب دیکھو، ایک جھوٹاانسان جتنا بھی روپ بدل لے، وہ جھوٹا ہی ہو گا۔ ایک سچا انسان چاہے جیسا بھی رہے، وہ سچا ہی رہے گا، جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے‘‘۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو پریت ۔۔۔! لیکن ان کے درمیان ایک اور صورت بھی ہے اور وہ ہے منافق، دنیا کا ذلیل ترین اور کمینہ انسان ہوتا ہے وہ اس سے بھی کریہہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر محض کاروبار کریں۔میں کئی ایسے مذہبی لوگوں کو جانتی ہوں، وہ چاہے پوپ ہوں، پادری ہوں، مولوی ہوں، پنڈت ہوں، سکھ گیانی ہوں، پروہت، سادھو سنت۔۔۔ جو جیسا ہے، اسے ویسا ہی دکھائی دینا چاہئے‘‘۔ زویا نے رسان سے کہا تو بھان سنگھ بولا۔
’’تمہاری ایک غلط فہمی دور کر دوں۔ یہ جو تم روایتی سکھ کا ایک نقشہ اپنے دماغ میں لیے بیٹھی ہونا ، ضروری نہیں کہ وہ ایساہی گٹ اپ رکھے، مثلاً کیس، کڑا، کرپان وغیرہ۔ بابا جی شری گرو نانک کی یہ تعلیم نہیں تھی۔ یہ تو بعد کے گروؤں نے اضافے کیے ہیں‘‘۔
’’قدرتی طور پر سکھ مت، اسلام کے قریب تر ہے۔ واحدانیت ہے اس میں، آپ جپ جی دیکھ لیں، نرمی واحدانیت ہے۔ جس طرح ہندو مت میں بت پوجا اور۔۔۔‘‘ پریت کور نے کہنا چاہا مگر میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا، پھر ملائمت سے بولا۔
’’یار یہ تم کن باتوں میں پڑ گئے ہو، میرے خیال میں ہم چاروں اتنے عالم نہیں ہیں کہ مذاہب جیسے نازک مسئلے پر بات کر سکیں۔ ہمیں اپنی باتیں کرنی چاہئیں‘‘۔
’’جیسے تمہاری مرضی‘‘۔ پریت کور نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا، پھر لمحہ بھر بعد نرم سے لہجے میں بولی۔ ’’چلو یہ باتیں کرتے ہیں کہ تمہاری اور زویا کی شادی کب تک ہو رہی ہے؟‘‘
’’میری طرف سے تو ڈن ہے، لیکن زویا کوئی گرین سگنل نہیں دے رہی ہے۔ بس اسی کے انتظار میں ہیں‘‘۔ میں نے زویا کی طرف دیکھتے ہوئے بات موڑنے کی کوشش کی۔ ’’ویسے تمہاری اور بھان کی شادی اب تک کیوں نہیں ہوئی، تمہاری طرف تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے؟‘‘
میرے یوں کہنے پر بھان سنگھ نے مسکراتے ہوئے عام سے انداز میں کہا۔
’’ہماری تو گھر کی بات ہے۔ بس میں نے ہی روکا ہے اس شادی کو، تھوڑی مستقبل کی پلاننگ کر لوں، پھر کر لوں گا۔ کچھ فیصلوں میں اپنا حق بھی جتایا جاتا ہے۔۔۔ کیوں زویا۔۔۔‘‘
شاید بھان سنگھ نے اشارے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی، ممکن ہے ، وہ کوئی جواب دیتی مگر انہی لمحات میں اس کا فون بج اٹھا۔ وہ دوسری طرف سے سنتی رہی اور ہاں ناں میں جواب دیتی رہی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس وقت کن کے ساتھ ہے اور کہاں پر ہے۔ پھر خوشگوار موڈ کے ساتھ فون بند کر دیا۔ پھرسب کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’پاپا کا فون تھا، انہوں نے بلال کے پاپا کو فون کیا اور ۔۔۔‘‘ وہ کہنا چاہ رہی تھی کہ بھان سنگھ نے انتہائی مسرت سے کہا۔
’’مطب وہ مان گئے، تمہارا اور بلال کا رشتہ پکا۔۔۔‘‘
’’رہے نا سکھ کے سکھ۔۔۔ پوری بات تو سن لو، ایویں شور مچا دیا ہے‘‘۔ زویا نے تیزی سے کہا۔ پھر پریت کور کا خیال کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر معذرت خواہانہ لہجے میں بولی۔ ’’سوری پریت۔۔۔ ہم میں چلتا ہے‘‘۔
’’کوئی بات نہیں، میں جانتی ہوں کہ آپ لوگ آپس میں بے تکلف ہیں، خیر بتاؤ، بات کیا ہے؟‘‘ پریت نے رسان سے پوچھا ۔ تو زویا بولی۔
’’میرے پاپا نے بلال کے پاپا کو فون کر دیا ہے کہ جھتوال سے آئے مہمانوں کے ساتھ ڈنر پر آئیں۔ یہ دعوت قبول کر لی گئی ہے اور اب آج رات سب ڈنر میرے گھر پر کریں گے‘‘۔
’’اوہ۔۔۔! تو یہ بات تھی ‘‘۔ بھان سنگھ نے جان بوجھ کر منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’کیوں تمہیں خوشی نہیں ہوتی میرے گھر آنے پر‘‘۔ زویا نے تنگ کر پوچھا تو وہ مسکراتا ہوا بولا۔
’’مجھے حقیقی خوشی اس دن ہو گی جب بلال دولہا اور میں شہ بالا بنا تمہارے گھرے آؤں گا۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا، اس تقریب میں تمہاری اور بلال کی منگنی ہو جاتی۔ یا کم از کم ہاں ہی ہو جاتی، یقین جانو، بالکل وہی فلموں والا سین ہوتا۔ ویسے خیر۔۔۔! یہ بریک تھرو تو ہے۔۔۔ اب یہ خیال ویسے کیوں آ گیا؟‘‘
’’میں نے پاپا کو بتایا تھا کہ میرا ایک کلاس فیلو آیا ہے اپنی فیملی کے ساتھ، میں انہیں کھانے پر بلانا چاہتی ہوں میری خواہش پر انہوں نے خود سے یہ سارا اہتمام کر لیا۔ ویری سمپل ۔۔۔‘‘ زویا نے خوشی سے لبریز لہجے میں کہا۔ تبھی میں نے سب کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے بڑے ڈرامائی انداز میں کہا۔
’’سنو۔۔۔! میں تم لوگوں سے ایک خیال شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مگر ایک شرط ہے، نہ تو میرا مذاق اڑایا جائے، اور نہ ہی کوئی اس سے ناراض ہو گا، میرے خیال کے ردِ عمل میں جو بھی کسی کو خیال آئے، وہ پوری دیانت داری سے مجھے اس کے بارے میں بتائے گا۔ تاکہ میں کسی فیصلے تک با آسانی پہنچ سکوں‘‘۔
’’بولو۔۔۔!‘‘ بھان سنگھ نے کہا، پھر ایک دم سے چونکتے ہوئے بولا۔ ’’اوئے ۔۔۔! یہ وہ والا خیال تو نہیں ہے جو بابا جی بلھے شاہ سرکار کے مزار پر تم نے مجھ سے ذکر کیا تھا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! بالکل وہی ہے، اگر اجازت ہو تو کہوں؟‘‘ میں نے خواہ مخواہ سنسنی پیدا کرنے کے لیے اجازت چاہی۔ اس پر کوئی نہیں بولا۔ اس پر میں نے خاموشی کو رضا مندی خیال کرتے ہوئے مزار پر امرت کور کے کافی سننے اور جذب کے بارے میں پوری تفصیل بتا کر کہا۔ ’’اس دوران مجھے جو خیال آیا وہ یہ ہے کہ امرت کور اور دادا نور محمد کی شادی کروا دی جائے؟‘‘
میرے یوں کہنے پر وہ تینوں ایکدم سے بھونچکا رہ گئے۔ وہ میری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے میں نے دنیا کی انہونی اور ناقابلِ یقین بات کہہ دی ہو۔ کافی دیر تک ہم میں خاموشی چھائی رہی۔ جیسے وہ اس حیرت سے نہ نکل پائے ہوں۔ کافی دیر بعد پریت کور نے کہا۔
’’جہاں تک خیال کی بات ہے، وہ تو جیسا چاہے سوچا جا سکتا ہے جیسے تم اور زویا خیالوں ہی خیالوں میں نہ جانے کتنی بار شادی کر چکے ہو گے یا پھر سچی بات ہے میں پتہ نہیں خیالوں ہی خیالوں میں بھان کی کتنی بار دلہن بن چکی ہوں، نہ جانے کتنی بار اپنی پسند کا عروسی جوڑا پہنا ہے، لیکن ۔۔۔! خیال محض خیال ہوتے ہیں۔ حقیقی زندگی کی دنیا کچھ اور طرح کی ہے۔ جہاں سارے ہی خیال حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے۔۔۔‘‘
’’پر ایک بات ہے پریت۔۔۔‘‘ بھان سنگھ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’جب میاں بیوی راضی ہوں تو پھر قاضی کیا کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں اصل مسئلہ ان دونوں کی شادی ہونے یا نہ ہونے کا نہیں۔ بلکہ ان دونوں کے مان جانے کا ہے۔ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ دونوں اس شادی کے لیے مان جائیں گے‘‘۔
’’یہ بھی ممکن نہیں ہے بلال، وہ اگر مان بھی جائیں تو وہ دونوں عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں انہیں خود سے زیادہ اپنے خاندان کا خیال ہو گا‘‘۔ زویا نے اپنی رائے دی تو میں نے تحمل سے کہا۔
’’تم سب اس رشتے کو دو اور دو چار کر کے دیکھ رہے ہو، جبکہ یہ نارمل کیس نہیں ہے ۔ بلکہ معمول سے ہٹ کر ہے اور ہمیں ویسے ہی پہلو سے دیکھنا چاہئے۔ بالفرضِ محال، دونوں خاندان راضی ہو جائیں تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’مذہب سب سے بڑی رکاوٹ ہو گی‘‘۔ پریت نے آہستگی سے کہا، تب زویا بولی۔
’’مطلب، نہ دادا نور محمد سکھ ہو سکیں گے اور نہ امرت کور مسلمان ہو گی‘‘۔
’’نہیں، یہاں ایک راہ نکل سکتی ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا اور پھر میری طرف دیکھا۔
’’میں نے تیزی سے پوچھا‘‘۔
’’وہ کیا ۔۔۔؟‘‘
’’دیکھنا یہ ہے کہ شدت کس طرف ہے؟ یہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ شدت بے شک امرت کور کی طرف سے ہے۔ اس کے خیالات اور ارادے میں یہ تک تھا کہ اسے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ نور محمد ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آیا نور محمد کے دل میں امرت کور کی کوئی جگہ ہے؟‘‘
مگر سوال یہ ہے بھان، کہ کیا امرت کور کے دل میں اب بھی وہی پرانے خیالات موجود ہیں یا وہ اب اپنے مذہب پر پختہ ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے وہ جوانی کا دور تھا۔ اس میں نہ تو اس کے خیالات پختہ تھے اور دوسرا اس کے من میں جو محبت تھی، اس میں بلا کی ہلچل تھی۔ اب وہ پختہ عمر کی ایک سمجھ دار عورت ہے‘‘۔ پریت کور نے اپنا خیال بتایا تو بھان سنگھ بولا۔
’’پریت، تم اپنی ہی بات کی تردید کر رہی ہو، کچھ عرصہ قبل تم اسی عورت کو پاگل گردان چکی ہو۔ بلکہ اسے اب تک پاگل کہتی رہی ہو۔ تمہارے نزدیک وہ ایک بے عقل عورت تھی۔ اس کا اظہار تم نے بلال کے سامنے بھی کیا تھا۔ اب تم اسے سمجھ دار کہہ رہی ہو‘‘۔
’’تم ثابت کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ پریت نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ کہتا چلا گیا۔
’’انسانی نفسیات جس قدر آسان دکھائی دیتی ہے۔ یہ دراصل اسی قدر پیچیدہ ہے۔ یہاں ہم اپنے ہی خیالوں کے بنائے دلائل دیتے چلے جا رہے ہیں۔ ان دونوں کے اندر کیا ہے؟ وہ کس طرح سوچتے ہیں؟ اس کی وضاحت ہم کر ہی نہیں سکتے، تم کہہ سکتی ہو کہ ہم اندازہ تو لگا سکتے ہیں، لیکن نہیں، ہم ایسا بھی نہیں کر سکتے، خیر۔۔۔! یہ جو پیار، محبت اور عشق کے معاملات ہوتے ہیں نا، ان کے سامنے نہ مذہب آڑے آتا ہے اور نہ اونچ نیچ، مثال تمہارے سامنے ہے، یہ زویا تمہارے سامنے ہے۔ یہ اونچی ذات سے تعلق رکھتی ہے اور یہ بلال اس سے قدرے، بلکہ اس سے مقابلتاً کم درجے ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ ان دونوں کا ملن صرف ذات پات کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے۔ حالانکہ ان کے مذہب میں تو مساوات ہے۔ ذات پات کا تصور تک نہیں۔ یہاں مذہب نہیں، یہاں برصغیر کی تہذیب اور تمدن بول رہا ہے۔ ذات پات تو سکھ از م میں بھی نہیں ہے، پھر ہم رندھا دے، گل اور گریوال کیوں دیکھتے ہیں۔ امرت کور نے تو مذہب نہیں دیکھا، میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی اس کے دل میں نور محمد کے لیے وہی چنگاری موجود ہے، جو اس وقت جوانی میں تھی۔ سرحدیں اور مذہب ان کے درمیان رکاوٹ نہیں ہیں‘‘۔
’’بھان سنگھ۔۔۔! اوئے تم تو تقریر بھی اچھی خاصی کر لیتے ہو‘‘۔ زویا نے خوشگواریت سے کہا تو پریت کور نے اپنی بات منوانے کی خاطر کہا۔
’’چلیں۔۔۔! ہم یہ تجربہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں‘‘۔
’’پریت، میری جند، میری جان، اس میں جذباتی ہونے یا غصہ کرنے والی بات نہیں ہے۔ ہم ہونی کو نہیں ٹال سکتے۔ زندگی جس دھارے پر بہہ رہی ہے۔ اسے بہنے دیا جائے۔ بابا جی شری گرو نانک مہاراج نے بھی اسے ویسا ہی چلنے کے لیے کہا ہے۔ کیونکہ ہم ان دھاروں کو موڑنے کی سکت نہیں رکھتے۔ بلکہ اس کے ساتھ بہنے میں ہم قدرت کے معاملات میں اس کا حصہ بن جاتے ہیں‘‘۔ اس بار بھان نے واقعتاً بڑے تحمل سے کہا۔ تب پریت کور میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’بھان خود جذباتی ہو رہا ہے۔ مگر میری بات سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ میں اسے یہ سمجھانا چاہتی ہوں کہ جب تک ہم ان دونوں کو ٹریک پر نہیں لائیں گے۔ ان کے اندر سے انہیں، نہیں ابھاریں گے تو یہ کیسے ممکن ہو گا۔ ورنہ وہ تو اپنی اپنی جگہ پر جمے رہیں گے پتھر کی طرح۔۔۔‘‘
’’یہ ایک الگ بات ہے۔۔۔ بلکہ اب تم خود سمجھنے کے ٹریک پر آئی ہو‘‘۔ میں نے پریت سے کہا۔
’’بالکل۔۔۔!‘‘ بھان نے کہا تو لمحہ بھر بعد زویا نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
’’بات یہ بھی نہیں۔۔۔! دیکھو، میں اس الجھن کو حل کرتی ہوں، ہمارا سوچنا، یا پھر ہمارا ایک فیصلے پر متفق ہو جانا ایک الگ بات ہے، مگر امرت کور اور دادا نور محمد کا سوچنا ایک الگ بات۔۔۔ ہم صرف اپنے ماحول کے ان عوامل کی بات کر ر ہے ہیں جو رکاوٹ بن سکتے ہیں، مثلاً مذہب، خاندان، ماحول، عمر وغیرہ وغیرہ۔ میرے نزدیک ان پر با ت کرنا، وقت کا ضیاع ہے۔ اصل شے یہ ہے کہ وہ دونوں کیا سوچتے ہیں؟‘‘
’’اس کا پتہ کیسے چلے۔۔۔؟‘‘ پریت کور نے تیزی سے پوچھا۔
’’میں تمہیں سمجھاتی ہوں، دیکھو۔۔۔! ہم انہیں فورس نہیں کریں گے۔ اگر ہم انہیں فورس کر کے مجبور کریں گے تو یہ الگ بات ہو گی، ان کے اندر کا حال معلوم کر نے کے لیے انہیں ماحول دیا جائے۔ مطلب ان کے اندرونی جذبات کھل کر کے باہر آ جائیں۔ وہاں سے ہمیں جو اشارے ملیں، ان کی بنیاد پر ہم کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں‘‘۔
’’تمہارا خیال ٹھیک ہے، میں اس سے پوری طرح اتفاق کرتی ہوں‘‘۔ پریت نے اس کی بات کو مانتے ہوئے کہا۔ تبھی میں نے بحث کو ایک نیا رخ دیتے اور سمیٹ لینے کے لیے کہا۔
’’کیا ماحول دینا، ایک طرح سے ان دیکھی فورس نہیں ہو گی؟ لیکن خیر، ہم اس بحث کوسمیٹتے ہیں اور ایک نئے پہلو پر بات کرتے ہیں‘‘۔
’’کیا ہے وہ پہلو؟‘‘ زویا نے دھیرے سے پوچھا۔
’’وہ یہ کہ ان کے ملن میں کیا کیا رکاوٹیں آسکتی ہیں اور کون سے ایسے پہلو میں جن کی وجہ سے ان کے ملن میں آسانیاں ہو سکتی ہیں‘‘۔
’’بلال۔۔۔! یہ بحث فضول ہو گی، کیونکہ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں اور پھر آنے والے وقت کو کس نے دیکھا ہے۔ اگر ہم سنجیدہ ہیں تو ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنے پر توجہ دینی چاہئے کہ ان دونوں کی شادی ہو جانی چاہئے یا نہیں۔ یا پھر تمہارا خیال یہیں پر ناقابل عمل قرار دے کہ ختم کر دیا جائے‘‘۔ پریت کور نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’تو چلو، پھر تمہی کہو کیا کہتی ہو؟ ‘‘ میں نے بال اس کورٹ میں پھینک دی ۔ تو وہ کاندھے اچکا کر بولی۔
’’میں تو کہہ چکی ہوں، اپنا خیال ظاہر کر چکی ہوں۔ آپ اپنا بتائیں، تب فیصلہ ہو جائے گا‘‘۔
’’میرا خیال ہے، انہیں بھر پور موقعہ دیا جائے۔ اب ان کے اندر سے کیا کچھ اٹھتا ہے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں کہ ان کا ملن ہو سکتا ہے یا نہیں‘‘۔ زویا نے اپنا اظہار کر دیا تو بھان بولا۔
’’ڈن۔۔۔! جو پریت نے کہا، وہی میرا خیال ہے‘‘۔ اس نے منہ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر فیصلہ یہ ہوا کہ ہم انہیں ماحول دیں گے۔ انہیں فورس نہیں کریں گے۔ ان کے ساتھ گپ شپ کر کے اس طرف توجہ دلائیں گے۔ آگے ان کے جذبات کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا تو ان تینوں نے تائید کر دی۔ میرے سر سے ایک بوجھ اتر گیا۔
کچھ دیر بعد ہم اپنی باتوں میں یوں کھو گئے۔ جیسے کہ کچھ دیر پہلے ہم نے کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا، یونہی گپ شپ کی ہے۔ ایک پُرتکلف کھانے کے بعد ہم وہاں سے اٹھ گئے۔ دراصل یہ کھانا پریت اور زویا کی ملاقات کے لیے تھا اور ان دونوں کی ملاقات بہت خوب رہی تھی۔ جس کا اظہار واپسی پر پریت نے بہت اچھے انداز میں کیا۔
میں اس دن پہلی بار زویا کے ہاں جانے کے لیے تیار ہوا تھا۔ ماما پاپا کو بھی احساس تھا کہ میرے زویا کے بارے میں کیا جذبات ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں جانے کے لیے خوب اہتمام کیا گیا۔ پانچ گاڑیاں آگے پیچھے ان کے گیٹ پر جا رکیں۔ ماما اور پاپا الگ الگ گاڑی میں، ماما نے امرت کور اور جسیمت کور اور پاپا نے صرف پردیپ سنگھ کو اپنے ساتھ لیا۔ فرحانہ نے پریت کور کو، میں اور بھان سنگھ الگ گاڑی میں تھے۔ جبکہ دادا جی اپنے ڈرائیور کے ساتھ سب سے آگے تھے۔ ان کے ساتھ مٹھائیوں کے ٹوکرے تھے جو نہ جانے انہوں نے کیا سوچ کر منگوائے تھے۔ اگر ہم نے اس قدر اہتمام کیا تھا تو انہوں نے بھی مہمانوں کے استقبال کے لیے خاصا انتظام کیا ہوا تھا۔ با وردی دربان گیٹ پر موجود تھے۔ جنہوں نے پورچ تک ہماری راہنمائی کی۔ وہیں زویا، اس کی ماما اور پاپا مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ وہ بہت پیار سے ملے۔ خاص طور پر جب میرے اور زویا کے پاپا آمنے سامنے ہوئے تو ان میں خاصی گرم جوشی دکھائی دی۔ جس پر بھان سنگھ نے واضح طور پر محسوس کرتے ہوئے مجھے ٹہوکا دیا۔ میں نے زویا کی طرف دیکھا، وہ پریت اور فرحانہ کے ساتھ مصروف تھی۔ خلافِ معمولی وہ عبایہ میں نہیں تھی۔ اسکارف کی جگہ اس نے بڑا سارا آنچل لیا ہوا تھا، جو عبایہ اور اسکارف دونوں کا کام دے رہا تھا۔
’’آئیں پلیز۔۔۔!‘‘ زویا کے پاپا نے دادا جی سے نہایت احترام سے کہا۔ پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائنگ روم کی جانب بڑھے۔ ہم ان کے سجے ہوئے اور امارت کو بھر پور انداز میں ظاہر کرنے والے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔ تبھی ہمارا ڈرائیور، ان کے دو ملازمین کے ساتھ وہ سارے تحائف اٹھائے اندر آیا جو ہم اپنے ساتھ خاص طور پر لے کر آئے تھے۔
’’ان کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ شاہ صاحب نے کافی حد تک حیرت سے کہا۔
’’آپ نے تو اس قدر تکلف کیا‘‘۔ مسز شاہ کہاں پیچھے رہنے والی تھیں۔ تب ماما نے بڑے رسان سے کہا۔
’’نہیں مسز شاہ ، یہ تکلف نہیں، یہ ہماری روایت ہے اور پھر یہ مہمان بھی آپ کے لیے تحائف لائے ہیں۔ اب میں انہیں منع تو نہیں کر سکتی‘‘۔
’’ہماری بیٹی ہے زویا۔۔۔! اگر ہم اپنی بیٹی کے لیے کچھ لائے ہیں تو یہ ہماری بیٹی کا حق ہے‘‘۔
پردیپ سنگھ نے کہا تو شاہ صاحب نے وہ تحائف ایک طرف رکھ دینے کا اشارہ کیا۔ جس میں کم از کم میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کچھ دیر باتیں کرنے اور سوفٹ ڈرنک سے تواضع کرنے کے بعد شاہ صاحب نے کہا۔
’’آئیں۔۔۔! باہر لان میں تشریف لے چلیں آپ سب، وہیں ڈنر پر باتیں ہوں گی‘‘۔
ہم سب اٹھ کر باہر کی جانب چل پڑے۔
کچھ روشنی، کچھ ملگجا اندھیرا، سرخ قالین اور با وردی بیرے، انہوں نے ڈنر پر خاصا اہتمام کیا ہوا تھا۔
ایک میز پر شاہ صاحب، داداجی، پاپا اور پردیپ سنگھ بیٹھ گئے، دوسری پر مسز شاہ، ماما، امرت کور، چاچی جسیمت کور ، ظاہر ہے تیسری میز نوجوان پارٹی کے لیے لگائی گئی تھی۔ پہلے تو فرحانہ ہماری طرف بڑھی، پھر نہ جانے اس کے من میں کیا آئی، وہ ماما کے پاس ہی جا کر بیٹھ گئی۔
’’یہ الگ الگ میز لگانے کا آئیڈیا کس کا تھا؟‘‘ میں نے اپنے سامنے بیٹھی زویا سے پوچھا۔ تب تک دائیں بائیں بھان سنگھ اور پریت کور بیٹھ چکے تھے۔
’’میرا۔۔۔‘‘ اس نے اختصار سے کہا اور پھر بیروں کو اشارہ کر دیا۔ وہ سب حرکت میں آ گئے۔ تبھی پریت نے زویا سے کہا۔
’’زویا۔۔۔! یہ جو تم نے بڑا سا آنچل لیا ہوا ہے، بہت پیاری لگ رہی ہو اس میں ، کیوں بلال؟‘‘
’’اوئے۔۔۔! یہ تو ہمیں ہر حال میں قبول ہے، بس درمیان میں وہ سامنے بیٹھی ہوئی ’’دنیا‘‘ حائل ہے۔ وہ مان جائے تو چاہے یہ اسکارف لے، یا ٹوپی مارکہ برقع، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا تو بھان سنگھ ہنستے ہوئے بولا۔
’’یہ دنیا، تم نے خوب کہا، ورنہ وہ فلموں والا ولن، یا پھر ظالم سماج نہیں کہہ دیا‘‘۔
’’اچھا فضول نہ بولو۔۔۔! تم مہمان ہو تو مہمان ہی بن کر رہو۔ میں پریت کی وجہ سے تمہاری عزت کر رہی ہوں۔ ورنہ۔۔۔ ‘‘ زویا نے بمشکل ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
’’ورنہ۔۔۔ اب تک یہ گلاس کھینچ کر تمہاری ماتھے پر مار چکی ہوتی۔۔۔‘‘ میں نے کہا تو بھان سمیت وہ بھی کھل کر ہنس دی۔ تبھی بھان نے اچانک پوچھا۔
’’ہاں یاد آیا یار۔۔۔! یہ زویا نے اس انگریز کے گلاس مارا یا پلیٹ۔۔۔‘‘
’’نہ گلاس نہ پلیٹ۔۔۔! کافی کا خالی مگ تھا۔۔۔‘‘
’’مجھے بتاؤ، کیا بات ہوئی تھی‘‘۔ پریت کور نے تجسس سے پوچھا تو بھان سنگھ نے بتایا۔
’’ہم سب کینٹین میں تھے، یونہی باتیں کر رہے تھے، ایک برٹش لڑکا آیا اور اس نے اسکارف کے حوالے سے کوئی بات کی۔۔۔ یا اس نے اسکارف بھی کھینچا تھا۔ اس پر زویا نے اپنے سامنے پڑا ہوا کافی کا خالی مگ اٹھایا اور اس کے دے مارا وہ بھاگ گیا۔۔۔‘‘
’’ارے واہ۔۔۔! یہ بات تم نے پہلے بتائی نہیں‘‘۔ پریت نے متاثر ہوتے ہوئے کہا۔
’’خیر۔۔۔! چھوڑو۔۔۔! ایک بات کہوں۔۔۔‘‘ زویا نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔
’’بولو۔۔۔!‘‘ میں نے ذرا آگے جھک کر کہا تو وہ بھان کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’میں چوتھی میز بھی لگوانے والی تھی‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘ وہ بولا۔
’’دادا نور محمد اور امرت کور جی کے لیے۔ دونوں سکون سے بیٹھ کر باتیں کرتے۔ تم لوگ تو خود ظالم سماج، ولن، دنیا اور نہ جانے کیا کیا بنے ہوئے ہو ان دونوں کے لیے میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ تم سب نے انہیں تنہائی میں بیٹھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا ہو گا۔ بولو۔۔۔؟‘‘زویا نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو پریت نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات ہے تمہاری۔ خوب پکڑا انہیں۔ بالکل بھی نہیں، ایک بار بھی تنہائی میں بیٹھنے کا موقعہ نہیں ملا انہیں، میں نے فرحانہ سے پوری معلومات لے لی ہیں۔ پھر میں بھی تو یہیں ہوں‘‘۔
’’مطلب ، یہاں بھی جاسوسی سے باز نہیں آئی ہو‘‘۔ بھان سنگھ نے خوشگواریت سے کہا۔ تبھی بیرے کھانا لگانے لگے۔ تب میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر کیا کریں یار۔۔۔! یہ تو کل دوپہر سے پہلے چلے جائیں گے‘‘۔
’’میں نے سوچ لیا ہوا ہے‘‘۔ زویا نے لبوں سے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ ’’بھان اور پریت، دونوں مل کر امرت کور کو گھر سے باہر لائیں گے۔ یہی سیر وغیرہ کے بہانے۔ تب تم دادا کو مسجد سے نکلتے ہی اغوا کر لو، دونوں کو گاڑی میں بٹھاؤ اور پارک میں لے جاؤ۔ دو تین گھنٹے بہت ہیں ان کے لیے، یہ جو آج تم نے فیصلہ کیا ہے، اس کی شروعات ہیں یہ ۔۔۔‘‘
’’ڈن ہو گیا‘‘۔ میں نے پُر جوش انداز میں کہا اور پھر ہم سب کھانے میں مصروف ہو گئے۔ ہماری باتوں کا موضوع بدل گیا تھا۔
تقریباً تین گھنٹے گزرنے کے بعد ہم لان سے اٹھ کر واپس ڈرائنگ روم میں آ گئے۔ وہاں بیٹھ کر چائے پی گئی۔ جس کے دوران پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بات ہوتی رہی۔
شاہ صاحب کی باتوں کا زیادہ رجحان تجارت کی طرف تھا۔ جس پر پاپا مؤثر انداز میں ان کی راہنمائی کر رہے تھے۔
’’بھان سنگھ جی، آپ نے کیا سوچا ہے اب، یہ بلال تو اپنے پاپا کے ساتھ کام کر رہے ہیں‘‘۔ اچانک شاہ صاحب نے پوچھا۔
’’فی الحال تو کچھ نہیں۔ مگر دو آپشن ہیں میرے پاس ، امرتسر میں اپنا بزنس یا پھر لندن‘‘۔
’’شاہ جی، میں نے سوچا ہے اب تک تو یہ پڑھتا رہا ہے، پھر کام پر لگ گیا تو کہاں فرصت ملنی ہے اس کو، سوچا چار دن موج کرے‘‘۔ پردیپ سنگھ کے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اور بلال، تم ٹھیک ایڈجسٹ ہو گئے ہو‘‘۔
ان کے سوال کرنے کا مطلب میں سمجھ گیا تھا۔ دادا نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھا دیا کہ مجھے کیا کہنا ہے، بس پھر میں نے ’’چھوڑنا‘‘ شروع کر دیں۔
’’بس انکل۔۔۔! میں پاپا کے ساتھ بزنس میں آ تو گیا ہوں، لیکن میرا الگ سے ایک سیٹ اپ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ جس کا پیپر ورک میں نے کر لیا ہے‘‘۔
’’ یہ کس لیے‘‘۔ انہوں نے پوچھا۔
’’میں اپنے آپ کو تو آزماؤں۔ اتنا پڑھنا کس کام کا۔۔۔ ممکن ہے، یہ سیٹ اپ امرتسر اور لاہور کے درمیان ہو، یا پھر لندن، یا پھر ان کے مضافات میں بہت جگہ ہے جیسے رچڈل وغیرہ۔ بھان پیپر ورک کر رہا ہے اور میں بھی جلد ہی کچھ نہ کچھ شروع کر دیں گے‘‘۔
’’جو کچھ تم سوچ رہے ہو بلال، اس کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘‘۔ شاہ صاحب نے الجھتے ہوئے کہا تو دادا بولے۔
’’شاہ صاحب۔۔۔! میرا ایک ہی پوتا ہے اور میں نے اس کے باپ کو کہہ دیا ہوا ہے اس کے پاپا نے اتنا سرمایہ اس کے لیے الگ کر لیا ہوا ہے کہ یہ کل ہی اپنا شمار صنعت کاروں میں کر سکتا ہے‘‘۔
’’اصل میں شاہ صاحب۔۔۔! جب یہ بلال پڑھنے کے لیے گیا، میں نے تبھی سے اس کے لیے پلاننگ کر لی تھی، اور الحمد ﷲ، سب کچھ ہے اس کے پاس‘‘۔ پاپا نے رہی سہی کسر پوری کر دی تو امرت کور بولی ۔
’’یہ جب دونوں وہاں جھتوال میں تھے نا تو میرے بھائی سریندر پال سنگھ نے پورے یقین سے کہا تھا کہ اگر یہ دونوں مل کر کام کریں تو بہت ترقی کریں گے۔ اس کا بیٹا نہیں ہے کوئی۔ وہ چاہتا ہے کہ ان کا داماد بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائے ۔میرے دوسرے بھائی کا بیٹا ہے، وہی اس کا داماد بنے گا‘‘۔
’’مطلب، آپ لوگوں کی دوستی تو آگے تک چلے گی‘‘۔ شاہ صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’ارادہ تو یہی ہے‘‘۔ میں نے زویا کی طرف دیکھ کر کہا۔ مقصد میرا یہی تھا کہ وہ میرے اشارے کو سمجھ لے۔ اب پتہ نہیں وہ سمجھے تھے کہ نہیں، بہر حال کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد ہم وہاں سے واپس چل دیئے۔ یوں رات گئے ہم وہاں سے لوٹ آئے۔
صبح جب میں نے بھان سنگھ کو جگایا تو دن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے دادا کے کمرے میں جا کر دیکھا، وہ نہیں تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ ابھی تک مسجد سے واپس نہیں ہوئے۔ میں نے بھان کو بتایا۔ اپنی گاڑی نکالی اور مسجد سے آنے والے راستے پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے بھان کو سمجھا دیا تھا کہ وہ امرت کور کے لے کر کدھر جائے۔ دوسرے نمازیوں کے ساتھ جب دادا مسجد سے باہر نکلے تو مجھے یوں کھڑا دیکھ کر ایک دم سے پریشان ہو گئے۔ جلدی سے میرے پاس آ کر تشویش سے پوچھا۔
’’اوئے، خیر تو ہے، یوں کیسے کھڑا ہے؟‘‘
’’آپ بیٹھیں‘‘۔ میں نے اختصار سے کہا اور پسنجرسیٹ والا دروازہ کھول دیا۔ وہ ہاتھ میں تسبیح لئے دوسری طرف سے آ کر بیٹھ گئے۔
’’ اوئے تو بولتا کیوں نہیں ہے، بات کیا ہے؟‘‘
’’میں نے آپ کو اغوا کر لیا ہے‘‘۔ میں نے گاڑی بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ سکون کا سانس لیتے ہوئے بولے ۔ ’’اوئے پتیندرا۔۔۔! وہ کیوں؟‘‘
’’ابھی پتہ چل جائے گا‘‘۔ میں نے کہا اور تیزی سے اس راستے پر آ گیا، جہاں بھان اور امرت کے ساتھ پریت سے ملاقات ہونے والی تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر وہ تینوں مجھے دکھائی دیئے۔ انہیں دیکھ کر دادا کچھ نہیں بولے۔ میں نے گاڑی پارک طرف چلا دی۔
گاڑی پارکنگ میں لگانے کے بعد ہم اکٹھے ہی پارک میں داخل ہوئے۔ کچھ دیر پیدل چلتے رہنے کے بعد ایک بینچ پر جا کر بیٹھ گئے۔ پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق فوراً ہی ہم اٹھ گئے۔
’’ہم ناشتے کا کہہ دیں، ابھی آتے ہیں‘‘۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، ہم آگے بڑھ گئے۔ بلاشبہ وہ پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ان سے کافی فاصلے پر جا کر ہم واپس پارکنگ میں آئے۔
’’اب کہاں جانا ہے؟‘‘ بھانے پوچھا۔
’’یہاں مارکیٹ میں بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں اور پھر اس جوڑے کے لیے ناشتہ لے جائیں گے، بھوکے پیٹ باتیں تو نہیں ہوتی نا‘‘۔
’’چل پھر۔۔۔!‘‘ بھان نے کہا تو پریت نے یاد دلایا۔
’’گھر والوں کو فون کر کے بتا دو، وہ کہیں پولیس اسٹیشن ہی پہنچے ہوں ہماری گمشدگی کے لیے‘‘۔
’’ہاں، یہ ٹھیک یاد دلایا تم نے ۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے سیل فون نکالا اور پاپا کو بتا دیا کہ ہم کچھ دیر بعد آئیں گے۔ دادا اور امرت کور ہمارے ساتھ ہیں۔
تقریباً دو گھنٹے بعد ہم واپس ان کے پاس چلے گئے۔ ہم نے دور ہی سے انہیں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے۔ مجھے تھوڑا سکون ہوا کہ دادا ناراض نہیں ہوں گے۔ میں نے جاتے ہی زبردست انداز میں جھوٹ بولا۔
’’دادا جی۔۔۔! یہاں آس پاس میں کہیں بھی اچھا ناشتہ نہیں مل رہا ہے۔ اگر آپ کہو تو پھر اندرون شہر کی طرف چلیں وہاں سے ناشتہ کرتے ہیں‘‘۔
’’وہاں جاتے ہوئے دو گھنٹے لگ جانے ہیں۔ تم ایسا کرو واپس گھر چلو، ہم گھر جا کر ناشتہ کر لیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا اور اٹھ گئے۔ اس کے ساتھ ہی امرت کور بھی اٹھ گئیں۔ ہم سب پارکنگ کی طرف بڑھ گئے۔
ہم دس بجے کے قریب گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ گاڑیوں کا ایک قافلہ تھا جو ہمارے گھر کے سامنے سے نکلا۔ زویا اور اس کے والدین بھی آ گئے ہوئے تھے۔ اسٹیشن پر پہنچے تو گاڑی پلیٹ فارم پر لگی ہوئی تھی۔ کئی دوسرے سکھ یاتری بھی اس میں بیٹھ رہے تھے۔ بھان اور میں نے سارا سامان رکھا۔ کچھ ہمارے ڈرائیور نے مدد کی۔ پھر کچھ دیر بعد ہی الوداع ہونے کا وقت آ گیا۔ یہ خاصے جذباتی لمحات تھے۔ سب سے پہلے چاچی جسیمت کور کے آنسو نکلے۔ وہ سب سے مل کر جب مجھے گلے لگا کر زور زور سے رونے لگی۔
’’دیکھ اگر تُو بھان کی شادی پر نہ آیا نا تو میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گی۔ میں تیرا انتظار کروں گی۔ واہ گرو تیری ساری خوشیاں پور ی کرے‘‘۔
پھر ایک ایک کر کے سارے بیٹھتے چلے گئے۔ بالکل آخر میں امرت کور رہ گئی۔ وہ ایک ٹک دادا جی کو دیکھے چلے جا رہی تھی۔ میں ان کے قریب چلا گیا اور بڑے نرم لہجے میں کہا۔
’’گاڑی کا وقت ہو گیا ہے‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے پتر۔۔۔! پر میں نور محمد کو جی بھر کے دیکھ تو لوں، پھر نہ جانے میں اس سے مل بھی سکوں گی یا نہیں‘‘۔ اس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے دادا جی کی طرف دیکھ کر کیا۔
’’ہم جلد ہی جھتوال آئیں گے، آپ ہمارا انتظار کرنا‘‘۔
’’انتظار۔۔۔! ‘‘اس نے درد بھری مسکراہٹ سے کہا، پھر بولی۔ ’’ساری زندگی اسی میں ہی تو گزر گئی ہے‘‘۔ اس نے حسرت بھرے انداز میں کہا تو دادا ملائمت سے بولے۔
’’چل امرت۔۔۔! اب تُو جا قسمت، میں ہوا تو دوبارہ مل لیں گے‘‘۔
تبھی امرت کور نے دادا کے دونوں ہاتھ پکڑے ، اپنے ماتھے سے لگائے اور پلٹ کر گاڑی کی جانب یوں بڑھ گئی جیسے اب پیچھے مڑ کر دیکھے گی تو پتھر کی ہو جائے گی۔ وہ اپنی سیٹ پر جا بیٹھی۔ مجھے اس نے بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ وہ مجھ سے ویسے ملی ہی نہیں جیسے چاچی جسیمت کور ملی تھی۔ میں بھان کے ساتھ بوگی کے اندر چلا گیا۔ امرت کور آنکھیں بند کیے سیٹ سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی۔ یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے اسے اردگرد کی خبر ہی نہ ہو۔ اس کے گالوں پر آنسو رواں تھے۔ میں نے بڑے پیار سے ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ میرا لمس پا کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
’’میں سمجھتا ہوں، اس وقت آپ کی جذباتی کیفیت کیا ہے۔ میں جلد آؤں گا‘‘۔
تب اس نے اپنی آنکھیں میرے چہرے پر جماتے ہوئے بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔
مندا سنتو کھ سرم پت جھولی
دھیان کی کرہِ بھبھوت
کھنتھا کال کاری کائیا
جگت ڈنڈا پرتیت
آئی پنھتی سگل جمائی
من جیتے، جگ جیت
(قناعت کرنا ہی تیر ی دریافت ہو اور اس کے باعث تیرا دامن صبر سے بھر جائے۔ اپنے بدن پر راکھ اور بھبھوت کی بجائے دھیان کا لباس پہن لے۔ پاک کنواری کی مانند تیرا بدن ہو۔ جب تو موت کا کفن پہن لے گا۔ صدق اور یقین کا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑ اور شک کو مار دے۔ جس طرح جو گیوں کا ایک خاص گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ سب انسان ایک ہیں، سارے فرقے ایک ہیں۔ اسی طرح جب تو اپنے من کو پاک کر لے گا تو پھر سمجھ لے تُو نے سارا جہان جیت لیا)
پھر جیسے وہ ایک دم ہوش میں آ گئی، وہ اٹھی اور مجھے گلے لگا کر چند لمحوں تک یونہی کھڑی رہی جیسے اپنا سکون مجھے دان کر رہی ہو۔ میرا ما تھا چوما، سر پر پیار دیا اور الگ ہو کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
’’پتر۔۔۔! میں تمہارا انتظار کروں گی، لیکن وعدوں سے پہلے آ جانا‘‘۔
’’میں جلد از جلد آنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ میں نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے تیزی سے کہا۔ پھر فضا میں ٹرین کی وسل کا شور پھیل گیا۔ اس نے مجھے چھوڑا اور اپنی سیٹ پر ڈھے سی گئی۔ میں نے سب کی طرف دیکھا، ہاتھ ہلایا اور اس وقت گاڑی رینگنے لگی تھی، جب میں بوگی سے نیچے اتر آیا۔ تھوڑی دیر بعد جیسے لمحے گزرے، ویسے ہی سمجھوتہ ایکسپریس نگاہوں سے اوجھل ہوتی چلی گئی۔
اگلے دو دن میرے شدید قسم کی مصروفیت میں گزرے۔ بھان سنگھ نے جھتوال پہنچ جانے کی اطلاع دے دی تھی۔ میں نے سوچا کہ فری ہو کر ہی ان سے تفصیل کے ساتھ گپ شپ کروں گا۔ پھر تیسرے دن کی شام مجھے موقع مل گیا۔ میں سرِ شام ہی دادا جی کے کمرے میں جا گھسا۔ وہاں سکون تھا۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا۔ اس وقت زویا آن لائن تھی۔ کچھ دیر پہلے میں نے اسے بتایا تھا، اس نے فوراً ہی پریت کور کو فون کر دیا۔ پھر اس کے ساتھ بھان سنگھ بھی آن لائن ہو گیا۔ پاکستان ٹور اور اس کے بارے میں جوان کے احساس اور جذبات تھے، وہ مجھے بتاتے رہے۔ پریت نے جو خاص بات مجھے بتائی، وہ یہ تھی کہ امرت کور تمام راستے روتی ہوئی آئی تھی، اس کے آنسو نہیں تھمے تھے۔ جھتوال آ جانے تک اس کا یہی حال رہا تھا۔ یہی بتاتے ہوئے اچانک اس نے سوال کر دیا۔
’’کیا تم نے امرت کور بارے دادا جی نور محمد سے بات کی ؟‘‘
اب اس نے یہ بات مزاح میں کہی تھی یا پھر وہ پوری طرح سنجیدہ تھی، میں بارے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا، تاہم میں نے اسے جواباً لکھ دیا۔
’’نہیں پریت ابھی نہیں، لیکن ممکن ہے کہ میں آج ہی بات کر لوں، کیا تم نے امرت کور سے اس بارے بات کر لی ہے؟‘‘ میرے اس سوال کا اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر کچھ دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں چلتی رہیں۔ یہاں تک کہ دادا عشاء پڑھ کر کمرے میں آ گئے۔
’’اوئے۔۔۔! تُو ادھر بیٹھا ہوا ہے، ادھر تیر ی ماں تجھے کھانے کے لیے پوچھ رہی ہے‘‘۔
’’میں آپ کا انتظار کر رہا تھا، میں آج آپ کے ساتھ کھانا کھاؤں گا‘‘۔ میں نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا۔
’’اوئے خیر تو ہے نا پتندرا‘‘۔ انہوں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
’’خیر ہی ہے، صبح چھٹی ہے، کئی دن ہو گئے آپ سے گپ شپ نہیں ہوئی۔ اس لیے آج آپ کے ساتھ کافی وقت گزرنے کا موڈ ہے‘‘۔ میں نے بیڈ پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ہوں۔۔۔! ‘‘ انہوں نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا، پھر میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ’’ادھر گھر ہی میں کھائے گا یا کہیں باہر چلیں‘‘۔
’’جیسے آپ کی مرضی، جو کہنا ہے آپ خود ہی ماما سے کہہ دیں‘‘۔ میں نے باہر جانے کے لیے پر تولتے ہوئے کہا۔
’’چل باہر ہی چلتے ہیں، نکال گاڑی‘‘۔ انہوں نے حتمی انداز میں کہا اور باہر کی جانب چل پڑے۔ ہمیں یوں آتا دیکھ کر ماما نے پوچھا۔
’’خیریت تو ہے نا۔۔۔ یوں دادا پوتا ساتھ ساتھ میں ہیں۔۔۔ کہیں جا رہے ہیں؟‘‘
’’کھانا کھانے ، آج تھوڑا عیاشی کا موڈ ہے‘‘۔ میں نے سکون سے کہا تو ماما ایک دم سے بولیں۔
’’کہیں بھی نہیں جانا، آج ویک اینڈ ہے، میں نے کافی سارا اور بہت اچھا کھانا بنایا ہے ۔ ادھر بیٹھیں اور کھائیں۔ کوئی ضرورت نہیں باہر جانے کی‘‘۔
’’پاپا آ گئے ہیں؟‘‘ میں نے ان کی بات نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’جی بالکل۔۔۔! صاحبزادے، اور وہ اباجی کا انتظار کر رہے ہیں۔ کھانا لگ رہا ہے میز پر آ جائیں‘‘۔ ماما نے حکم صادر کیا اور ڈائننگ روم کی طرف چل دیں۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ماما کے پیچھے چل دینے۔ اب گھر میں کھانا کھانے کے سوا چارہ نہیں تھا۔
خوشگوار ماحول میں کھانا شروع ہوا۔ اسی دوران پاپا نے زویا کے پاپا کے بارے میں دادا کو بتاتے ہوئے کہا۔
’’ابا جی، وہ آج شاہ صاحب آئے تھے آفس، کافی دیر بیٹھے گپ شپ کرتے رہے‘‘۔
’’جہاں تک میرا اندازہ ہے، وہ یہی معلوم کرنے آیا تھا کہ تمہارا کاروبار کیسا ہے، دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تفتیش پر نکلا تھا‘‘۔دادا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تو پاپا اس سے اتفاق کرتے ہوئے بولے۔
’’بالکل، مجھے بھی ایسا ہی لگا، ان کی گفتگو کا محور یہی کاروبار تھا۔ میں نے بھی سب سچ بتا دیا۔ میں نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ روپے پیسے کے معاملے میں ہماری حیثیت کیا ہے‘‘۔
’’یہ بات تو ہے پتر۔۔۔!ان کے مقابلے میں ہم اتنی حیثیت نہیں رکھتے۔ مگر مجھے اپنے پوتے پر مان ہے‘‘۔
دادا نے انتہائی پیار سے لبریز لہجے میں کہا۔ تب ماما نے سوچتے ہوئے لہجے میں پایا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرا تو یہ خیال ہے کہ انہیں پوری تسلی کر لینے دیں۔ جب وہ اپنے اطمینان کا اشارہ دے دیں گے تو ہی ہم مزید بات کریں گے‘‘۔
’’ہو گا تو ایسے ہی اور میرے خیال میں ایسے ہی ہونا چاہئے۔ وہ اپنی پوری تسلی کر لیں۔ پھر ہم بھی پورے اعتماد سے بات کر پائیں گے‘‘۔ پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مگر آپ ان سے رابطہ ضرور رکھنا، گاہے بگاہے ان کے بارے میں معلومات لیتے رہنا۔ تاکہ پتہ تو چلے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں‘‘۔ ماما نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ میں نہیں کر سکتا، یہ جاب آپ اپنے پتر بلال کو دیں تاکہ وہ زویا سے معلومات لیتا رہے۔ اصل میں ان دونوں کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کرنے کی بجائے والدین کی مرضی کو ترجیح دی۔ میرا دل کہتا ہے کہ بات بن جائے گی۔ باقی اﷲ کی مرضی‘‘۔ انہوں نے مطمئن انداز میں کہا اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’اوکے بن جائے گی بات، فکر نہ کرو ، روٹی کھاؤ‘‘۔ دادا نے لاپروایانہ انداز میں کہا اور سب کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
کھانے کے بعد میں دادا جی کی چائے لے کر ان کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ لیٹے ہوئے تھے اور میرا لیپ ٹاپ ان کے بیڈ کے ایک طرف پڑا تھا۔ میں نے وہ اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔ پھر چائے انہیں تھمائی اور ان کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموشی سے چائے پیتے رہے، پھر میں نے آہستگی سے کہا۔
’’پھر کیا باتیں ہوئیں امرت کور سے۔۔۔‘‘
میری یہ بات سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر گہری سنجیدگی سے بولے۔
’’بس پرانی یادیں تھیں۔ وہ اپنا پاگل پن دہراتی رہی اور میں سنتا رہا۔ میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ تجھے اپنے پاگل پن سے کیا ملا، ایک طویل انتظار، بس اس جمع تفریق میں لگے رہے‘‘۔
’’مطلب ، اس کے پاگل پن نے سے کچھ نہیں دیا۔ اس نے جو محبت کی، وہ رائیگاں گئی‘‘۔ میں نے باقاعدہ بحث کرنے والے انداز میں کہا تو وہ دھیرے سے بولے۔
’’اب میں اس پر کیا کہہ سکتا ہوں۔ وہ اس کا کرم تھا، جس کا پھل اسے مل گیا‘‘۔
’’یہی تو مصیبت ہے دادا، آپ اس کی محبت سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ مانا کہ یہ اس کا پاگل پن تھا، لیکن وہ اپنی محبت میں حق بجانب ہے۔ آپ کسی کی محبت کا انکار تو کر سکتے ہیں۔ مگر کسی کو محبت کرنے سے روک تو نہیں سکتے‘‘۔ میں نے اپنی طرف سے دلیل دی۔
’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ اب میں اور تم، دونوں میں جو محبت ہے ان میں سے کوئی ایک، دوسرے کی محبت کا انکار کر دے تو کیا ہو سکتا ہے‘‘۔ دادا نے انتہائی تحمل سے پوچھا۔
’’نہیں دادا، ہم میں یہ تعلق اور محبت فطری ہے، اس میں خون کی کشش بھی شامل ہے، لیکن میں بات کر رہا ہوں آپ کی اور امرت کور کی محبت کی۔۔۔‘‘ میں نے تصحیح کرتے ہوئے جان بوجھ کر الٹ بات کی۔
’’نہیں پتر، میری نہیں، صرف امرت کور کی محبت، اگر تمہیں پاگل پن کا لفظ اچھا نہیں لگتا، تو میں اسے مجبوراً محبت کہہ دیتا ہوں‘‘۔ انہوں نے میری تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
’’چلیں، یونہی سہی، آپ ایک طرف مانتے ہیں کہ اس کی محبت ہے اور دوسری طرف اے رائیگاں بھی کہہ رہے ہیں۔ کیا واقعتاً اس کی محبت رائیگاں گئی، میں تو یہ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے جذباتی انداز میں پوچھا۔
’’نہیں پتر۔۔۔! محبت ہو، تو محبت رائیگاں نہیں جاتی۔ سچی محبت کا پھل ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے، لیکن اس کی تاثیر اچھی ہوتی ہے ۔ اب سنو۔۔۔! اس کی محبت میں خالص پن نہیں تھا۔ ایسا اگر نہ ہو تو پھر پاگل پن ہی ہوتا ہے نا، اب ہوا یوں ہے پتر، کہ اس کی محبت یا پاگل پن، جو کچھ بھی تھا۔ فقط ایک کے لیے تھا، اس نے کسی دوسرے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ غور کرنا بلال، یہاں ایک نکتے کی بات ہے جب بندہ ایک سے زیادہ کے بارے میں سوچے گا نا تو منفی جذبے خواہ مخواہ در آتے ہیں ۔ سوچوں میں۔ لالچ، خود غرضی، فریب، دھوکا اور نہ جانے کیا کیا، یہ سب آ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ بھی ایسے کرنے لگتا ہے۔ ایک خدا کو دوسرے خدا پر ترجیح دیتا ہے۔ سبھی خداؤں کو خوش کرنے کے چکر میں رہتا ہے اور انسان اس قدر خود غرض ہو جاتا ہے کہ جہاں سے اسے نفع کی توقع ہو گی، اس کو مانتا ہے، لیکن جو ایک ہی کو ماننے والا ہے، وہ بھٹکتا نہیں۔ خیر ہو یا شر ہو۔ مصیبت ہو یا خوشی، نفع ہو یا نقصان، اسے ایک ہی در سے امید ہوتی ہے۔ وہاں لالچ نہیں ، خلوص ہوتا ہے، وفاداری ہوتی ہے، جب ایک ہی در سے امید لگتی ہے تو وہیں سے شروعات ہوتی ہیں۔ اسے یاد رکھنا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ذرا سانس لینے کے لیے رکے اور پھر کہتے چلے گئے‘‘۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اس سے محبت تھی اور اب بھی ہے، لیکن اب اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ مجھے مانگتے مانگتے وہ اس کی ہو گئی ہے۔ جس سے وہ مجھے مانگ رہی تھی۔ میں اس کے لیے کبھی گم نہیں ہوا تھا۔ نگاہوں سے اوجھل تھا لیکن خیالوں میں سامنے تھا۔ وہ ایک کی ہو کر رہی۔ اس لیے آج اس کے چہرے پر نور ہے۔ اس کی محبت رائیگاں اس طرح نہیں گئی کہ اس نے وہ گیان پا لیا جو کسی عام بندے کو نہیں ملتا، جس نے محبت نہ کی ہو‘‘۔ انہوں نے کہا تو میں نے ان کا مؤقف سمجھنے کے لیے پوچھا۔
’’اب آپ اعتراف کر رہے ہیں کہ آپ کو امرت کور سے محبت تھی اور ہے پہلے تو مجھے اس محبت کے بارے میں بتائیں کہ وہ ہے بھی اور نہیں بھی، یہ معمہ میری سمجھ میں نہیں آیا، دوسری بات میں آپ سے بعد میں پوچھوں گا؟‘‘
’’میری محبت میں احترام شامل تھا اور اب بھی ہے۔ وہ میری دشمن نہیں تھی، پھر مجھے لگا کہ وہ میری دشمن ہے اور اس نے انتقام میں میرا نقصان کیا۔ یہ غلط فہمی تھی دور ہو گئی۔ اس نے اتنے لوگوں میں مجھے چاہا۔ اس نے مجھے اہمیت دی، یہ الگ بات ہے کہ اس کی محبت کا رخ کوئی دوسرا تھا۔ پھر اس نے اچھا کام کیا۔ یہ احترام بڑھ گیا۔ اب میری محبت ویسی نہیں تھی، جیسا وہ چاہی رہی تھی‘‘۔
’’یہ محبت ، محبت میں فرق ہوتا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’یار۔۔۔! جیسا بیج ڈالو گے، پھل تو ویسا ہی آئے گا، پھر ضروری نہیں ہر پھل کا ذائقہ ایک جیسا ہو۔ اب دیکھو ، آم ہے، ایک درخت پر لگا ہوا ہے، اس کا ذائقہ دوسرے سے مختلف ہو گا ، آم کے جتنے بھی دانے ہوں، وہ سب آم ہیں، لیکن اپنے ذائقے میں مختلف ہیں۔ محبت تو محبت ہی ہوتی ہے، اس میں بندے کی سوچ اسے ایک الگ قسم کی بنا دیتی ہے‘‘۔ دادا جی نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا تو میں نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
’’دادا جی۔۔۔! یہ کیسا گیان ہے جو بندے کو سارے زندگی کے لیے تنہائی کا شکار بنا دے‘‘۔ اگرچہ یہ سوال ایسا تھا، جو اس گفتگو میں کوئی مقصد نہیں رکھتا تھا، لیکن میں گفتگو میں دادا جی کو اس سطح پر لے آنا چاہتا تھا، جہاں سے میں اپنی بات منوانے کے لیے کوئی دلیل دے سکوں اور میں نے یہ سوال سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ تب انہوں نے بڑے سکون سے کہا۔
’’تجھے کس نے کہا کہ وہ تنہائی کا شکار تھی۔ اس کے اندر تو ایک ہجوم بہتا رہا ہے۔ اسے تو اپنے آپ سے فرصت نہیں تھی جو وہ کسی دوسرے کو دیکھ سکے۔ اسی کو تو گیان کہتے ہیں کہ بندہ اپنے من میں ڈوب جاتا ہے۔ کیا تُو نے یہ نہیں تھا کہ وہ کسی سے بات تک نہیں کرتی تھی۔ گیان اسے اب بھی ہے یہ تو وہاں جا کر تُو نے اس کا دھیان توڑا، ورنہ تو وہ اپنے وجدان میں ڈوبی ہوئی تھی‘‘۔ دادا نے کہا تو مجھے یوں لگا اب میرے پاس باتوں کے لیے لفظ ختم ہو گئے ہیں۔ میں اب سوچنے لگا کہ ان سے کیا کہوں، پھر وہی ہٹ دھرمی سے بولا۔
’’گیان، دھیان اور وجدان، ضرور اہم ہوں گے، میں انہیں سرے سے فضول نہیں کہنا، مگر دادا، ان کی اپنی معاشرتی زندگی تو نہ رہی۔ اس کا اپنا خاندان، اس کے بچے، وہ تو عورت ہونے کے ناطے اپنی تکمیل بھی نہیں کر سکی۔ کیا یہ شرط ہے کہ گیان، دھیان اور وجدان فقط انہی لوگوں کو ملتا ہے جو محبت میں ناکام ہوں گے، ان کی کوئی معاشرتی زندگی نہیں ہوتی، کیا یہ سب کچھ انہیں نہیں ملتا، جو ازدواجی زندگی گزارتے ہیں؟
’’تم نے ایک ہی سانس میں کئی سارے سوال کر دیئے ہیں پتر۔۔۔ خیر۔۔۔! میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا انسان کی ازدواجی زندگی ہی سے اس کی تکمیل ہو جاتی ہے؟ پیدا ہوئے، جوان ہوئے، شادی کی، بچے پیدا کئے اور مر گئے‘‘۔ انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں، فقط یہی زندگی کی تکمیل نہیں ہے‘‘۔ میں نے تیزی سے کہا تو وہ میری تصحیح کرتے ہوئے بولے۔
’’نہ پتر۔۔۔ بھٹکو نہیں، میں زندگی کی نہیں انسان کی بات کر رہا ہوں‘‘۔
’’ہاں، وہی انسان۔۔۔!‘‘ میں نے خود کو درست کر لیا۔
’’حیوان بھی یہ سب کرتے ہیں اور زندگی وہ بھی جی رہے ہیں۔ تم نے مجھے خود بتایا کہ لوگ اس کی راہ میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اس سے اپنی مراد میں مدد چاہتے ہیں اور تم بذات خود بریڈ فورڈ سے جھتوال صرف اس مقصد کے لیے گئے تھے۔ لوگ اسے عزت، احترام اور مان دیتے ہیں اور کیا ہوتی ہے معاشرتی زندگی؟‘‘ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ میں خاموش رہا تو وہ بولے۔’’ اور جہاں تک عورت کی تکمیل والی بات ہے نا پتر، رانجھا، رانجھا کرتے ہوئے جب کوئی خود رانجھا ہو جاتی ہے نا تو وہاں پر صنف نہیں رہتی۔ نہ کوئی مرد، نہ کوئی عورت، وہاں فقط انسان ہوتا ہے اور صرف انسان اور رب کا تعلق ہوتا ہے۔ جسم کے نچلے دھڑ، جیسے پیٹ کو ساری عمر بھرتے رہیں تو وہ نہیں بھرتا، بالکل ایسے ہی انسان کی جنسی ضرورت بھی ہے۔ ساری زندگی پوری کرتے رہو، نہیں پوری ہوتی، مگر یہ نرمی حیوانیت ہے۔ اسی حیوانیت سے نکلنے کا نام ہی تو انسانیت ہے۔ بدن کی پکار عورت اور مرد کی صنف کو الگ الگ خانوں میں بانٹتی ہے، لیکن جب انسان، انسانیت کی معراج تک جانے کے لیے خود کو تیار کر لیتا ہے تو انسان اور رب کا تعلق جڑ تا ہے۔ تب وہاں صنف نہیں، بندہ اور خدا ہوتا ہے اور تعلق ہو جاتا ہے‘‘۔ دادا نے سنجیدگی سے سمجھایا۔ میں بہت کچھ سمجھ تو گیا لیکن مجھے تو یہی ظاہر کرنا تھا کہ میں نہیں سمجھا۔ اس لیے بولا۔
’’دوسرے لفظوں میں آپ مجھے یہ سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ کسی بھی صنف کو اپنی ازدواجی زندگی نہیں گزارنی چاہئے۔ بس اپنی صنف کو بھول جانے کے لیے رب رب کرتا رہے، یوں انسانیت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ کیا بات کرتے ہیں دادا آپ۔۔۔ کیا عورتوں کو اور مردوں کو ہندو برہمچاریوں کی طرح ہو جانا چاہئے۔ پھر چل چکا قدرت کا نظام۔۔۔‘‘
’’یہی تو میں تجھے سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ رب کی ذات سے غافل ہونے کا نام حیوانیت ہے۔ اس کے ساتھ ہر حالت میں لو لگانے کا نام ہی انسانیت ہے۔ ازدواجی زندگی بھی رب کے حکم سے نبھائی جائے۔ کھانا پینا تک۔۔۔ اپنا عورت ہونا بھی اسی کے تابع کر دے، اپنے عورت پن پر غرور نہ کرے۔ اپنی ہوس، اپنی بدن کی پکار لذت کے لیے نہ ہو، رب کی منشاء کے مطابق ہو۔ بالکل ایسے ہی مرد کے لیے ہو، اب اس میں برہمچاری پن کہاں سے آ گیا؟ پیدا ہونے سے لے کر موت کے سفر تک میں رب ہی کے تابعداری کی جائے۔ یہی انسانیت ہے‘‘۔ دادا نے بڑے تحمل سے مجھے سمجھایا۔
’’تو بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے کہ امرت کو رکو کیا ملا‘‘۔ میں نے پھر سے بات چھیڑ دی۔
’’چل تُو بتا، تُو کہنا کیا چاہتا ہے۔ جس کے لیے تم نے اتنی بحث چھیڑی ہوئی ہے‘‘۔ دادا نے میرا اصل مقصد بھانپتے ہوئے کہا تو میں چند لمحے خود میں ہمت جمع کرتا رہا۔ پھر اعتماد سے کہا۔
ا۔ ’’نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ ابھی ہاں یا نہیں میں جواب نہیں دینا دلوا جی۔۔۔ پہلے میری پوری بات سننی ہے‘‘۔
’’چلو سناؤ۔۔۔! ‘‘ دادا نے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے سکون سے کہا۔
’’دیکھیں۔۔۔! اب نہ تو وہ ماحول رہا اور نہ ہی حالات۔۔۔ وقت بیت گیا۔ مگر آپ دونوں موجود ہیں اور اﷲ کرے آپ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔ وہ آپ کو نہ ملتی۔ یہ الگ بات تھی۔ وہ آپ کو ملی، اس کے سارے حالات آپ پر واضح ہو گئے۔ اب تک جو آپ نے گفتگو کی ہے۔ اس کے مطابق، آپ بھی مانتے ہیں کہ اس کی توجہ آپ ہی کی طرف لگی ہوئی ہے اور وہ آپ ہی کی ہو کر رہی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اب بھی آپ کو ویسے ہی چاہتی ہے۔ جیسے ان دنوں چاہتی تھی۔ میں آپ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ممکن ہے ماضی میں اسے محبت کا شعور ہی نہ ہو۔ وہ بدن کی پکار ہی کو محبت سمجھ رہی تھی، لیکن اب تو ایسا نہیں ہے۔ بدن کی پکار بھی تھی تو وہ آپ کے لیے تھی، ورنہ وہ کسی کو بھی شریک زندگی بنا سکتی تھی۔ میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ اب اسے اپنی محبت کا، اتنی زندگی کی ریاضت کا تپسیا کا پھل ملنا چاہئے۔ اسے سرخرو کر دیں، اس کی تکمیل کر دیں، وہ ناکام محبت کی حسرت لے کر اس دنیا سے نہ جائے‘‘۔
جس قدر میں نے جذبات میں کیا، دادا جی نے اس قدر غیر جذباتی انداز میں پوچھا۔
’’یہی کہنا ہے یا ابھی کچھ اور باقی ہے؟‘‘
ان کے اس طرح کہنے سے مجھے یوں لگا، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ یہ ہی بکواس تھی یا ابھی کچھ اور جھک مارنا چاہتے ہو۔ اس لیے میں تلملا کر بولا۔
’’دادا۔۔۔! آپ کے نزدیک میری ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟‘
‘’’دادا جی، میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ امرت کور سے شادی کر لیں‘‘۔ یہ کہہ میں نے تیزی سے کہا
’’نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ ابھی ہاں یا نہیں میں جواب نہیں دینا دلوا جی۔۔۔ پہلے میری پوری بات سننی ہے‘‘۔
’’چلو سناؤ۔۔۔! ‘‘ دادا نے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے سکون سے کہا۔
’’دیکھیں۔۔۔! اب نہ تو وہ ماحول رہا اور نہ ہی حالات۔۔۔ وقت بیت گیا۔ مگر آپ دونوں موجود ہیں اور اﷲ کرے آپ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔ وہ آپ کو نہ ملتی۔ یہ الگ بات تھی۔ وہ آپ کو ملی، اس کے سارے حالات آپ پر واضح ہو گئے۔ اب تک جو آپ نے گفتگو کی ہے۔ اس کے مطابق، آپ بھی مانتے ہیں کہ اس کی توجہ آپ ہی کی طرف لگی ہوئی ہے اور وہ آپ ہی کی ہو کر رہی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اب بھی آپ کو ویسے ہی چاہتی ہے۔ جیسے ان دنوں چاہتی تھی۔ میں آپ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ممکن ہے ماضی میں اسے محبت کا شعور ہی نہ ہو۔ وہ بدن کی پکار ہی کو محبت سمجھ رہی تھی، لیکن اب تو ایسا نہیں ہے۔ بدن کی پکار بھی تھی تو وہ آپ کے لیے تھی، ورنہ وہ کسی کو بھی شریک زندگی بنا سکتی تھی۔ میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ اب اسے اپنی محبت کا، اتنی زندگی کی ریاضت کا تپسیا کا پھل ملنا چاہئے۔ اسے سرخرو کر دیں، اس کی تکمیل کر دیں، وہ ناکام محبت کی حسرت لے کر اس دنیا سے نہ جائے‘‘۔
جس قدر میں نے جذبات میں کیا، دادا جی نے اس قدر غیر جذباتی انداز میں پوچھا۔
’’یہی کہنا ہے یا ابھی کچھ اور باقی ہے؟‘‘
ان کے اس طرح کہنے سے مجھے یوں لگا، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ یہ ہی بکواس تھی یا ابھی کچھ اور جھک مارنا چاہتے ہو۔ اس لیے میں تلملا کر بولا۔دادا۔۔۔! آپ کے نزدیک میری ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟
’’ہاں، کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ تم نے مجھے اپنی بات سنانے کے لیے کہا ہے اور وہ میں سن رہا ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے دادا جی، جب میری کسی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے تو پھر کوئی بات سنانے کا فائدہ، جا رہا ہوں میں۔۔۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو وہ بولے۔
’’مگر اپنی بات مکمل تو کر لو، اگر تمہاری کوئی دلیل رہتی ہے تو وہ بھی کہہ دو‘‘۔
’’نہیں، میری کوئی دلیل نہیں ہے‘‘۔ میں نے غصے اور ناراضی میں کہا۔ اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ میں نے پوری طرح انہیں غصہ دکھایا۔ میرا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ فوراً کوئی جواب نہ دیں۔ بلکہ میری بات پر پوری توجہ ۔۔۔ اور دھیان سے سوچیں۔ تبھی وہ کسی فیصلے تک پہنچ پائیں گے۔ اس لیے میں اپنے کمرے میں آ کر سکون سے سو گیا۔ کیونکہ اب جو کرنا تھا، وہ دادا کے اسی کے فیصلے کی بنا پر ہونا تھا۔
تقریباً تین چار دن میں دادا جی کے قریب نہیں گیا۔ انہیں موڈ دکھایا۔ ان سے کسی بھی قسم کی بات نہیں کی۔ اگر ان سے آمنا سامنا بھی ہو جاتا تو میں انہیں طرح دے جاتا۔میرا مقصد ان پر دباؤ ڈالنا نہیں تھا۔ بلکہ میں یہ چاہتا تھا کہ وہ جذباتی ہو کر بھلے سوچیں، مگر سوچیں ضرور۔ میں نے اپنے طور پر بہت کچھ سوچ لیا تھا۔ ان دنوں میری پریت کور اور بھان سنگھ سے طویل باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے دادا سے ہونے والی گفتگو انہیں بتا دی۔ اس کے ساتھ میں نے ان کے لیے بھی سوالیہ نشان چھوڑ دیا کہ انہوں نے امرت کور سے بات کی؟ اس کا عندیہ کیا ہے؟ اس وقت میری پوزیشن یہ تھی کہ اگر داداجی مان جاتے اور وہ مجھے ہاں کہہ دیتے ہیں، تب امرت کور انکار کر دیتی ہے تو کیا ہو گا؟ امرت کور مان جاتی ہے اور دادا نہیں مانتے یہ صورت حال تو پہلے ہی تھی، اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پریت کور نے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ ایک دو دن میں امرت کور سے بات کرے گی۔ ان دنوں میں اسی کی طرف سے کسی اطلاع کا منتظر تھا۔
اس دن میں اپنے آفس میں تھا۔ میں نیٹ پر آن لائن تھا۔ زویا تو ہمیشہ ہی آن لائن رہتی تھی۔ میں گاہے بگاہے اس سے بات کرتا رہتا تھا۔ کبھی کبھار تو لنچ کا پروگرام یونہی آن لائن ہی بن جاتا۔ عین وقت پر میں دفتر سے نکل جاتا اور وہاں پہنچ جاتا، جہاں زویا میرا انتظار کر رہی ہوتی۔ ایسے ہی پریت کور آن لائن ہو گئی۔ اس وقت میں اتنا مصروف بھی نہیں تھا، سو حال احوال کے بعد اس نے بتایا۔
’’میری آج صبح صبح امرت کور سے بات ہوئی تھی۔ میں نے براہِ راست شادی کی بات تو نہیں کی، لیکن ایسے ہی باتوں ہی باتوں میں اس سے پوچھا تھا‘‘۔
’’کیا پوچھا تھا؟‘‘
’’میں نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان ٹور میں انہیں نور محمد کو ملنے کا موقعہ ملا۔ ظاہر ہے وہ آپ کی محبت ہے۔ آپ کا جذباتی پن ہم سب نے دیکھا، کیا آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ آپ وہیں نور محمد کے پاس رہ جاتیں‘‘۔
’’پھر کیا جواب ملا؟‘‘
’’اس نے کہا کہ میرا تو دل کرتا تھا، مگر مجھے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ اگر کوئی روک لیتا تو میں کیوں نہ رکتی‘‘۔
’’مطلب ، وہ خواہش مند ہے کہ دادا اُسے روک لیتے‘‘۔
’’بالکل۔۔۔! میں نے اسی بات کی بنیاد پر مزید پوچھا کہ بالفرض محال وہ آپ کو روک لیتے تو پھر آپ وہاں کس حیثیت سے رہتیں‘‘۔
’’ہاں۔۔۔! یہ سوال ٹھیک تھا‘‘۔
’’تب اس نے کہا کہ یہ تو نور محمد نے مجھے حیثیت دینی ہے، وہ چاہے نوکرانی بنا دے یا مہارانی ، دلہن وہی جو پیا من چاہے۔۔۔‘‘
’’گڈ۔۔۔! اب تم نے اتنا پوچھا لیا تو شادی کے بارے میں بھی پوچھ لیتی‘‘۔
’’نہیں اگر میں ایسی بات کرتی تو یہ بالکل واضح ہو جاتا کہ میں اسی مقصد کے پوچھ رہی ہوں۔ کوئی بات نہیں میں ایک دو دن میں یہ بھی پوچھ لوں گی، اب وہ ہمارے ہاں آ جاتی ہے اور دادی کے ساتھ بہت دیر تک باتیں کرتی رہتی ہے‘‘۔
’’بالکل۔۔۔! ایسے ہی کرنا، کسی دن دادی کے سامنے ہی یہ بات کرنا، پھر میں خود دادی سے بات کر لوں گا۔ یا پھر بھان کرے گا‘‘۔
’’نا تو میں اب تک یونہی جھک مار رہی ہوں۔ اگر تم لوگوں ہی نے بات کرنا تھی تو مجھے کیوں کہا، کیا میں نہیں کر سکتی بات‘‘۔
’’اوہ۔۔۔! تم تو ناراض ہو گئی۔۔۔ سوری۔۔۔ سوری۔۔۔ تم بات کر سکتی ہو۔ بلکہ تم بہترین سفیر ہو‘‘۔
’’اچھا اب آپ خواہ مخواہ کی تعریف نہ کریں۔ میں ایک ہفتے میں ساری بات کلیئر کر لوں گی‘‘۔
’’اوکے۔۔۔ ! گڈ لک۔۔۔ مجھے انتظار رہے گا‘‘۔
’’پر تم نے بات کی مزید کوئی؟‘‘
’’ابھی نہیں، اب کر لوں گا‘‘۔
’’چلیں ٹھیک ہے‘‘۔ اس نے کہا اور پھر کچھ دیر اِدھر اُدھر کی گپ لگانے کے بعد وہ آف لائن ہو گئی۔ تب میں نے چند لمحے سوچ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ دادا جی سے بات کر ہی لی جائے۔ مگر اس سے پہلے میں زویا سے گپ شپ کر لینا چاہتا تھا، وہ مجھے کوئی بہتر مشورہ دے سکتی تھی۔ تبھی میں نے اس سے ایک ریستوران میں ملنے کا پروگرام طے کر لیا۔
اسی شام جب دادا جی عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے گئے تو میں ان کے کمرے میں جا کر ان کے بیڈ پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ میرا دھیان اسکرین پر کم اور زویا کی باتوں کی طرف زیادہ تھا۔ اس نے چند باتیں بہت خوب کہیں تھیں۔ تاہم ایک بات مجھے حوصلہ دے رہی تھی اور وہ یہ کہ جس طرح عورت گریز پا ہوتی ہے، اسی طرح مرد بھی ہوتا ہے ۔ جس عمر اور مقام پر وہ ہیں، وہ اپنے منہ سے یہ کیسے کہہ دیں کہ ہاں، میں امرت کور کو چاہتا ہوں اور میری اس سے شادی کر دی جائے۔ انہیں تو مجبور ہی کیا جائے گا، ہاں، وہ اپنی گفتگو میں کچھ اشارے دے دیں، انہی اشاروں کو سمجھ کر آگے بات کی جا سکتی ہے۔ میں انہی سوچوں میں کھویا ہوا لیپ ٹاپ میں مصروف تھا کہ داد ا جی آ گئے مجھے یوں دیکھ کر وہ ایک دم خوش ہو گئے۔ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’اوئے پتندرا۔۔۔! آ گیا ہے تو آج‘‘۔
’’آنا تو تھا میں نے۔۔۔ آپ سے بات نہیں کرتی تھی کہ پھر کیا سوچا آپ نے ‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر تمہید نہیں باندھی، بات ہی وہیں سے شروع کی۔ تب انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اوئے میں نے کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں سوچنا، تو خواہ مخواہ فضول کاموں میں پڑ گیا ہے۔ تم اگر کوشش بھی کر لو تو بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی، کیوں وقت ضائع کرتا ہے‘‘۔
’’آپ ہاں کریں، باقی کام میرا ہے‘‘۔
’’میں ہاں بھی کر دوں۔ پھر بھی یہ نہیں ہو گا جو تم چاہتے ہو، دیکھو پتر۔۔۔! وقت کی قید ہمیشہ لگی رہتی ہے، جو ایک بار وقت کا قیدی ہو جائے، پھر اسے رہائی نہیں ملتی، اچھا، اس بات کو چھوڑ، اپنے اس پراجیکٹ کے بارے میں سوچ، جو تجھے الگ سے لگانا ہے، کیونکہ ممکن ہے، اسی مہینے میں تمہاری زویا کے ساتھ منگنی ہو جائے‘‘۔
دادا جی نے کچھ اس طرح کیا کہ میں سب کچھ بھول گیا۔ سچ کہوں تو اس وقت میری حالت ہونقوں کی مانند تھی جسے اچانک اندھیرے میں پڑا ہوا خزانہ مل جائے۔ میں ساکت سا ہو کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔
چند لمحوں بعد جب مجھے ان کے لفظوں کا یقین ہوا تو میں نے پوچھا۔
’’دادا جی۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، تم سے مذاق تھوڑی کروں گا۔ تمہاری ماما نے کھانا لگا دیا ہو گا، وہ مل کر کھاتے ہیں۔ وہیں تیرے پاپا کو بھی یہ بتانا ہے، ایک ہی بار سب سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئے اور میں حیران سا ان کے پیچھے لپکا۔
اگرچہ کھانا معمول ہی کے مطابق کھانے لگے تھے لیکن میں بہت الجھا ہوا تھا، مجھے دادا جی کی بات پر سو فیصدی یقین تھا۔ مگر سوچنے والی بات یہ تھی کہ اچانک یہ کیسے ہو گیا۔ میں شدت سے ان کی طرف سے کچھ کہنے کا انتظار کر رہا تھا۔ بے چینی تھی کہ حد سے بڑھی جا رہی تھی۔ انہوں نے اطمینان سے کھانا کھایا اور ماما سے بولے۔
’’ملازمہ سے کہو کہ وہ چائے بنا کر یہیں لے آئے اور برتن اٹھا لے، تم دونوں آؤ، میری بات سنو‘‘۔
’’جی ، ابا جی‘‘۔ ماما نے کہا تو ہم سب ڈرائنگ روم میں آ گئے۔ کچھ دیر بعد ماما آ گئیں۔ اطمینان سے بیٹھنے کے بعد انہوں نے کہا۔
’’میرا ایک دوست ہے فضل دین رضوی، بہت اچھا بندہ ہے۔ مجھے اپنے بلال اور زویا کے بارے میں جب معلوم ہوا تو فطری طور پر میں نے زویا کے والدین بارے پتہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ کون ہیں کیسے ہیں، کس طرح کے لوگ ہیں؟ میں نے رضوی سے اس معاملے بارے بات کی۔ وہ شاہ صاحب کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہے اور کافی حد تک ان کے دوستانہ مراسم ہیں‘‘۔
’’کیا کہا انہوں نے شاہ صاحب کے بارے میں؟‘‘ پاپا نے تیزی سے پوچھا۔
’’وہی جیسے عام جاگیردار قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی ایک ہی بیٹی ہے زویا۔ شاہ صاحب کا خیال ہے کہ اس کی شادی خاندان ہی میں ہو۔ ایسے لوگوں میں بچے کی پسندناپسند، جوڑ بنتا ہے یا نہیں، ان پڑھ ہے یا پڑھ لکھا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا، بنیادی چیز جو ہوتی ہے، وہ زمین ہوتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ زمین خاندان سے باہر جائے ۔ خیر۔۔۔! میں نے اس کے ذریعے سے بات چلانے کا فیصلہ کیا‘‘۔
’’مطلب، آپ نے بیک ڈور چینل استعمال کیا‘‘۔ اس بار پاپا نے کافی حد تک اطمینان سے کہا۔
’’اُو بس یہی سمجھ لو، بات چلتی رہی۔ مسز شاہ کا مؤقف یہ تھا کہ ہم نے بچی کی مرضی دیکھنی ہے۔ کیونکہ کے زویا اس سے اپنی دل کی بات کہہ چکی تھی۔ زویا بذات خود اپنے خاندان والوں سے متنفر ہے۔ سو ہماری بات چیت سے زیادہ، ان کے گھر میں بحث چلتی رہی، یہاں تک کہ امرت کور اور دوسرے یہاں آئے، ان کے ہاں جو ڈنر تھا، اس نے کافی حد تک تیزی سے بات کو آگے بڑھایا۔ شاہ اور مسز شاہ کو بھی بلال پسند ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ بلال سے زویا کی شادی ہو جائے لیکن‘‘۔
’’لیکن کیا۔۔۔‘‘۔ ماما نے یوں پوچھا جیسے ان کا دل دھک سے رہ گیا ہو ۔
’’وہ یہ کہ انہوں دو طرح سے خدشات ہیں۔ ایک تو انہیں اپنے خاندان کی بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، ظاہر ہے جائیداد باہر جاتی ہوئی دیکھ کر خاندان نے مخالفت تو کرنی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ان کے لیے غیر ہیں، ظاہر ہے رشتے ناطے کے لیے اور خصوصاً بیٹی دیتے ہوئے بندہ بہت محتاط ہوتا ہے‘‘۔ دادا جی نے کہا تو پاپا نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔
’’تو پھر اس کا حل کیا ہے، خاندان کی مخالفت بارے ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ وہ تو ہمارے بس کی بات نہیں، یہ تو شاہ صاحب کو خود سوچنا ہو گا، جبکہ دوسری بات بارے سوچا جا سکتا ہے، انہیں اطمینان دلانے کی ہم ہر ممکن کوشش کر سکتے ہیں، جیسا وہ چاہیں‘‘۔
’’نہیں، اصل میں دونوں کام ہی ہو سکتے ہیں اور وہ ایک کام کرنے سے ہو جائیں گے‘‘۔ دادا جی نے سکون سے کہا۔
’’وہ کیا ابا جی‘‘۔ ماما نے پوچھا۔ ان کے لہجے میں حد درجہ تجسس تھا۔
’’انہیں صرف یہ اطمینان ہو جائے کہ زویا کی پسند کوئی عام سی چیز نہیں ہے۔ وہ ایک با اعتماد اور ذمہ دار شخصیت رکھتا ہے۔ اسے زویا کی جائیداد سے کوئی غرض نہیں، وہ خود زورِ بازو رکھتا ہے۔ اس معاملے میں غیرت مند ہے اور اس قابل ہے کہ وہ بہت زیادہ ترقی کر سکتا ہے‘‘۔ دادا نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ ساری باتیں اپنے بلال میں ہے‘‘۔ ماما نے تیزی سے کہا۔
’’بس اس کا احساس دینا ہے انہیں، یہ اپنا بزنس شروع کرے، اپنے باپ کی دولت پر نہیں، اپنی دنیا آپ پیدا کرے، شاہ صاحب خود بزنس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ دلچسپی انہیں زویا کی وجہ سے ملی ہے‘‘۔
’’وہ تو ہو جائے گا ابا جی، لیکن میں یہ بات نہیں سمجھا کہ بلال الگ سے بزنس کیوں کرے، ایک چلتا ہوا بزنس ہے۔ اس کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔ شادی سے پہلے ہی الگ ہو جانے کی بات مجھے سمجھ میں نہیں آئی؟‘‘
’’میں سمجھاتا ہوں، جس وسعت کی بات تو کر رہا ہے، وہ بلال کرے، اس کے پراجیکٹ دکھائی دیں، وہ کہاں سے الگ ہو رہا ہے۔ تمہاری زیر سایہ ہی وہ اپنے کاروبار کو بڑھائے۔ میری اور رضوی کی روزانہ بات ہوتی ہے۔ قریب ترین ہے کہ زویا اور بلال کی منگنی ہو جائے‘‘۔ دادا نے سکون سے بات کی تو پاپا سمجھ گئے۔
’’میں سمجھ گیا اباجی، ایسا ہی ہو گا، بلال پہلے ہی سب کر رہا ہے‘‘۔ پاپا نے خوشدلی سے کہا۔
’’تو بس پھر ٹھیک ہے‘‘۔ داداجی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تومیں نے سکون کی سانس لی، زویا جو کبھی بہت دور کی منزل دکھائی دیتی تھی اب بہت قریب دکھائی دے رہی تھی۔ وہ رات میں بہت مسرور رہا۔
میں تقریباً ایک ہفتہ بہت زیادہ مصروفیت میں رہا۔ میں جو پراجیکٹ بنا چکا تھا۔ پاپا نے وہی میرے ذمے لگا دیا اور میں دن رات اس میں لگا رہا۔ اس دوران میرا بھان سنگھ سے مسلسل رابطہ رہا تھا۔ یہ رابطہ صرف اور صرف کاروباری تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد وہ پوری سنجیدگی سے اپنے کاروبار کے بارے میں سوچنے لگا۔ میرا اور بھان سنگھ کا مشترکہ دوست اسد جعفری تھا۔ اس نے لندن کے نواح ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میرا اس سے مسلسل رابطہ نہیں تھا، لیکن بھان نے رکھا۔ ہماری تکون بن گئی۔ فوڈ پراڈکٹ اور اس کے ساتھ ایسی ہی بہت ساری چیزوں کی امپورٹ ایکسپورٹ کے لیے ہم تینوں کی بات ہو گئی۔ کانفرنس کال روز ہی رہنے لگی۔ ہم نے سب کچھ طے کر لیا۔ یوں بھان امرتسر میں ہی اپنا سیٹ اپ بنانے لگا۔ میرا تو پہلے تھا ہی۔ اتنی مصروفیت اور الجھن والے دنوں میں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ میرے ذہن میں تھا کہ میں نے دادا سے بات کرنی ہے مگر وقت تھا کہ مل ہی نہیں رہا تھا۔ پھر ایک دن مجھے وقت مل ہی گیا۔
اس دن میں صبح جاگا تو دن اچھا خاصا نکل آیا تھا۔ رات دیر سے سونے کی وجہ سے آنکھ وقت پر کھل ہی نہیں سکی تھی۔ میں جلدی جلدی آفس جانے کے لیے تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آیا تو دادا جی وہیں موجود تھے۔ مجھے دیکھتے ہی پیار، خلوص اور محبت سے اونچی آواز میں بولے۔
’’او کیا حال ہے تیرا پتندرا!‘‘
’’بس دادا، نئے پراجیکٹ میں پھنسا دیا ہے نا، تو دن رات ایک ہو گیا ہے‘‘۔
’’اُو، پتندرا میں نے تجھے نہیں پھنسایا، تو خود پھنسا پھنسایا بریڈ فورڈ سے آیا ہے۔ رانجھے نے تو ہیر کی بھینسیں چرائی تھیں۔ تو اپنے اجڑ (ریوڑ) کو بھی نہیں چرا سکتا‘‘۔
’’چل ٹھیک ہے دادا جی، بس دو تین دن اور ہیں، پھر میں نے آپ سے حتمی بات کرنی ہے‘‘۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔ اتنے میں ملازمہ کے ساتھ ماما ناشتہ لے کر آ گئیں تو ہم میں خاموشی چھا گئی۔
میں نے جلدی میں ناشتہ کیا اور باہر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
’’اوئے بلال ! ابھی بیٹھ میرے پاس، کچھ دیر ٹھہر کر آفس چلے جانا‘‘۔ ان کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ میں وہیں بیٹھ گیا۔تب انہوں نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔’’یہ تو کیا فضول ضد کر رہا ہے‘‘۔
’’کون سی ضد۔۔۔‘‘ ایک لمحے کو مجھے خیال ہی نہیں آیا تھا کہ وہ کس ضد کی بات کر رہے ہیں۔
’’وہی امرت کور والی۔۔۔‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے کہا تو میں ایک دم سے خوش ہوتے ہوئے بولا۔
’’ویسے دادا جی۔۔۔!دل میں لڈو تو پھوٹ رہے ہوں گے۔۔۔ ایک ایسی خاتون سے شادی، جو آپ سے شدید محبت کرتی ہے۔ بس ایک بار بیاہ کر آ گئی تو پھر واپس میکے نہیں جائے گی۔ ایک بار زندگی میں بہار آ۔۔۔
’’بکواس بند کر۔۔۔‘‘ دادا جی نے کافی حد تک سختی سے کہا تو میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، میں کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے خاموش رہا تو وہ کہنے لگے۔ ’’دیکھ کاکا۔۔۔ تو جو کچھ سوچ رہا ہے نا، وہ انتہائی فضول ہے، میری جو تھوڑی بہت عزت ہے نا۔۔۔ تم اسے بھی خاک میں ملا دو گے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ اس عمر میں مجھے شادی کروانے کی آخر کیا ضرورت ہے، لوگ نہ صرف باتیں بنائیں گے۔ بلکہ ہنسیں گے بھی ہم پر۔۔۔‘‘
’’تو جائیں بھاڑ میں دادا جی، یہاں کوئی مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھنے بھی عین وقت پر آتے ہیں کہ سوئی پر سوئی چڑھی ہو، ایک منٹ آگے پیچھے ہو جائے تو باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں لوگوں سے کیا لینا دینا اور پھر امرت کور کا واقعہ کوئی عام سا اور معمولی سا واقعہ نہیں ہے۔ ایک زندگی کا سوال ہے۔۔۔‘‘ میں نے دلیل دی۔
’’اگر شادی نہ ہوتی تو کیا وہ مر جائے گی، ہاں میں یہ تمہاری بات مانتا ہوں کہ یہ کوئی عام سا اور معمولی واقعہ نہیں ہو گا، کیونکہ میرے اور امرت کور کے درمیان بہت ساری رکاوٹیں ہیں‘‘۔ انہوں نے کافی حد تک گہری سنجیدگی سے کہا۔
’’مثلاً۔۔۔! کسی رکاوٹیں؟‘‘ میں نے بھی صوفے پر پہلو بدلتے ہوئے حتمی انداز میں کہا۔
’’دیکھ، میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں ایسی باتیں عزت و وقار پر دھبہ بن جاتی ہیں۔ لوگوں کی زبانیں نہیں پکڑی جا سکتی۔ ہم نے اس سوسائٹی میں رہنا ہے۔ یہ فضول بات ہے کہ ہمیں لوگوں کی پروا نہیں‘‘۔
’’چلیں مان لیتے ہیں، یہی ایک رکاوٹ ہے، اگر صرف یہی رکاوٹ ہے تو میں باقاعدہ طور پر آپ کے دوستوں کو اپنے اردگرد لوگوں کو مطمئن کر لیتا ہوں۔ اگر ان کی رائے ہوئی تو۔۔۔ پھر آپ کو یہ فیصلہ قبول کرنا ہو گا‘‘۔
’’اور مجھے یقین ہے کہ تم اس میں کامیاب نہیں ہو پاؤ گے‘‘۔ انہوں نے سکون سے کہا۔
’’تو آپ کا مطلب ہے، پہلے میں اس شادی کے لیے راہ ہموار کروں اور ۔۔۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہنا چاہا تو انہوں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بیٹے ۔۔۔!یہ تو ایسی بات ہو گی کہ گناہ بھی نہیں کیا اور سزا بھی مل گئی، بنا شادی کئے ہی میں لوگوں میں زیر بحث آ جاؤں گا۔کیونکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے‘‘۔ انہوں نے اس اطمینان سے کہا کہ میں نے تحمل سے پوچھا۔
’’وہی تو میں پوچھ رہا ہوں دادا جی۔۔۔! آپ وہ بات کیوں نہیں بتا دیتے، جو آپ کے دل میں ہے‘‘۔
’’دیکھو۔۔۔! وہ ایک سکھ عورت ہے اور میں مسلمان، ہم دونوں کا مذہب الگ ہے، وہ کوئی عام مسلمان خاتون ہوتی تو شاید اتنی باتیں نہ بنتی ، لیکن سکھ عورت اور وہ بھی دوسرے ملک سے یہ ایک ایسی بات ہو گی، جس کا کم از کم میں جواب نہیں پاؤں گا‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے سکون کا سانس لیا ۔
’’تو بات یہ ہے کہ وہ ایک سکھ خاتون ہے، اس کا سکھ ہونا ہی اس کی ایسی خامی ہے کہ آپ کے تمام تر معیارات سے گر گئی۔ اس کی محبت اور اس کا آپ سے لگاؤ اور آپ کے لیے اس کی تپسیا، کسی کام کی نہیں، وہ سب فضول تھا اور آپ کی نظر میں بھی فضول ہے۔ آپ اسے ایک انسان کی حیثیت سے کیوں نہیں دیکھتے دادا جی، اس نے آپ کی یاد میں ساری زندگی گزار دی، اسے کوئی مجبوری تھی نا تو آپ سے محبت کی، ورنہ وہ اپنی زندگی میں خوش رہتی، ایک معافی کی خواہش پر قائم رہی وہ تمام عمر، اسے یہ معلوم بھی تھا کہ آپ اسے نہیں مل سکتے؟ لیکن وہ ساری عمر اپنے رب سے آپ ہی کو مانگتی رہی اور آپ اسے صرف یہ کہہ کر کہ وہ ایک سکھ خاتون ہے اس کی ساری تپسیا پر لکیر پھیر رہے ہیں اور ۔۔۔ اگر وہ مسلمان ہو جاتی ہے تو پھر قبول کر لیں گے‘‘۔
’’ٹھیک ہے بلال۔۔۔! میں ایک سکھ خاتون کو قبول نہیں کر سکتا، لیکن اگر وہ مسلمان ہو جاتی ہے۔ تو پھر بہت کچھ سوچا جا سکتا ہے‘‘۔ داداجی نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’بات تو پھر وہی رہی نا، اس کا مسلمان ہونا آپ کے لیے اہم ہے، ایک ایسی عورت کا نہیں جو آپ سے محبت کرتی ہے، محبت آپ کے نزدیک اہم نہیں‘‘۔ میں نے انتہائی افسردگی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے، تو پھر مجھے سکھ ہو جانے کی اجازت دو۔۔۔ کر لو بات سب سے، میں اس کی محبت کا، اس کی تپسیا کا عوضانہ دے دیتا ہوں۔ میں سکھ مذہب اختیار کر لیتا ہوں اور ہجرت کر کے آنے والے ان معصوم اور بے گناہ لوگوں کے خون سے غداری کر لیتا ہوں جو اس راہ میں مارے گئے، جن کا کوئی قصور نہیں تھا، ہاں ، ہاں وہ میرے لیے شہید نہیں رہے، مارے جانے والے لوگ ہو جائیں گے، پھر نیزے کی اَنّیوں پر ٹنگے بچے مجھ سے سوال نہیں کریں گے‘‘۔ وہ انتہائی جذباتی انداز میں بولے۔
’’تو کیا وہ سب امرت کور نے کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں اسے جب بھی دیکھوں گا، مجھے سکھ قوم یاد آئے گی، وہ لوگ ساری دنیا میں پھرتے رہیں مجھے اس سے غرض نہیں، میں اس سے شادی کر لوں گا تو اسے اپنا لوں گا۔۔۔ نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا، ہاں، مجھے سکھ ہو جانے دو، میں اس کا عوضانہ دے دوں گا‘‘۔ انہوں نے حتمی انداز میں کہا اور میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے ایک طویل سرد آہ بھری اور بے بسی سے کہا۔
’’آپ نے یہ جو مذہب کا دریا درمیان میں لا کر رکھ دیا ہے نا، میں اسے کیسے عبور کروں، ٹھیک ہے۔ داداجی یہاں پر میں ہار گیا، میں اپنی ساری دلیلیں واپس لیتا ہوں، آپ سے اس موضوع پر کبھی بات نہیں کروں گا‘‘۔ میں نے کہا اور اٹھ کر اندر کی جانب جانے لگا۔
’’یہ کیا، تم تو آفس جانے والے تھے، اندر کیا کرنے جا رہے ہو، جاؤ آفس اور بھول جاؤ، اس سارے معاملے کو‘‘۔ دادا جی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں دادا جی، میں شاید اب ایک دو دن آفس نہ جا سکوں، مجھے اس شرمندگی سے نکلنے کے لیے کچھ تو وقت لگے گا کہ میں نے آپ سے غلط بات کی، آپ کو تنگ کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے مذہبی خیالات پر ضرب لگا دی، مجھے معاف کر دیں دادا جی‘‘۔ میں نے کہا اور اندر کی جانب چلا گیا۔ داداجی مجھے پکارتے رہے مگر میں نے ان کی بات ہی نہیں سنی۔
میں نے کپڑے اور جوتے اتارے اور اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ دادا میرے کمرے میں نہیں آئیں گے، لیکن ماما ضرور آئے گی۔ وہ مجھ سے آفس نہ جانے کی وجہ ضرور پوچھیں گی اور میرے پاس بہانہ تھا کہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے، لیکن دوپہر گزر گئی کوئی بھی میرے کمرے میں نہیں آیا اور میری نہ جانے کب آنکھ لگ گئی تھی۔ میں جو بیدار ہوا تو دوپہر گزر چکی تھی۔ میں نے کپڑے تبدیل کیے اور یونہی آوارگی کے لیے باہر نکل گیا۔
رات گئے میں واپس پلٹا تو ڈرائنگ روم میں ماما کے ساتھ پاپا بیٹھے ہوئے تھے۔ خلاف معمول ان کے چہروں پر سختی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے ضرور ناراض ہوں گے۔ میں پُرسکون سے انداز میں انہیں سلام کر کے ان کے قریب سے گزرنے لگا تو پاپا بولے۔
’’کدھر گئے تھے؟‘‘
’’ایویں یونہی باہر گھومنے پھیرنے گیا تھا‘‘۔
’’تم آفس کیوں نہیں گے، تمہیں معلوم نہیں تھا کہ آج تمہارا آفس جانا کتنا ضروری تھا اور تم نے اپنا سیل فون بھی بند کر دیا ہوا تھا‘‘۔ انہوں نے دبے دبے غصے میں کہا۔
’’پاپا، میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی‘‘۔ میں نے بہانہ بنا دیا۔
’’کیا ہوا طبیعت کو، ڈاکٹر کو دکھایا؟‘‘ پاپا نے جلدی سے پوچھا۔
’’ٹھیک ہوں۔۔۔ اور معذرت چاہوں گا پاپا، آپ کو بتایا نہیں، میں نے سوچا آپ خواہ مخواہ پریشان ہوں گے، میں تھوڑا مزید آرام کروں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا‘‘۔ میں نے کہا اور اندر جانے لگا تو ماما نے حیرت سے کہا۔
’’بلال۔۔۔! تم نے کتنی دیر آرام کرنا ہے، سارا دن سوئے رہے ہو، میں دو بار تمہیں دیکھ کر آئی ہوں، کھایا پیا کچھ نہیں، اب پھر آرام، بات کیا ہے کیوں پریشان ہو؟‘‘ انہوں نے پوچھا تو میں دھیرے سے بولا۔
’’کچھ نہیں، میں ٹھیک ہوں، آپ پریشان نہ ہوں، میرا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں چاہ رہا‘‘۔
’’او کے ۔۔۔! جاؤ آرام کرو‘‘۔ پاپا نے اچانک کہا تو میں اندر چلا گیا۔ جاتے ہی میں نے لیپ ٹاپ آن کیا، امید تھی کہ بھان، پریت یا زویا میں سے کوئی آن لائن ہو گا تو اس سے گپ شپ کروں گا۔ مجھے تینوں ہی آن لائن مل گئے اور چند لمحوں ہی میں ان کے پیغام بھی آ گئے کہ میں سارا دن کدھر تھا؟ میں نے تینوں ہی کو بتایا کہ میری دادا جی سے کیا بات ہوئی ہے۔ میں نے ساری لگی لپٹی ان سے کہہ دی، کچھ بھی ان سے نہیں چھپایا۔
’’تو پھر تم ہار گئے؟‘‘ زویا نے فقرہ پھینکا۔
’’یہی کہہ سکتی ہو، جو دریا دادا جی نے درمیان میں لا رکھا ہے، میں نے خود تو عبور نہیں کرنا، کیسے کروں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔ تبھی پریت کور کا پیغام آ گیا۔
’’چلو شکر ہے ، ابھی میں نے امرت کور سے کوئی حتمی بات نہیں کی تھی۔ ورنہ وہ مجھ پر کبھی راضی نہ ہوتی‘‘۔
’’لیکن بات سوچنے کی ہے کہ دادا کے دماغ میں اب تک سکھ قوم کے بارے میں نفرت ہے یا وہ یونہی بہانہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ مجھے نہیں لگتا۔ اگر نفرت والی کوئی بات ہوتی تو وہ ہمیں لاہور میں خوش آمدید نہ کہتے، اپنے ہاں مہمان نہ رکھتے، اگر مجبوری میں رکھنا ہی پڑ جاتا تو وہ ہمیں پذیرائی نہ دیتے۔ میں نہیں مانتا، ان کا صرف بہانہ ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا۔
’’ممکن ہے ایسا ہی ہو، بہر حال انہوں نے مجھے دیوار سے لگا دیا ہے، اب میں ان سے بات نہیں کرسکتا‘‘۔ میں نے پیغام بھیج دیا۔
’’چلو، اس کہانی کو یہاں ختم کرتے ہیں‘‘۔ پریت کور نے کہا۔
’’ہاں۔۔۔! کون سی ایسی بات ہے کہ یہ رشتہ نہیں ہوا تو دو ملکوں کے تعلقات پر کوئی حرف آ جائے گا۔ کسی حد تک ان کی بات بھی ٹھیک ہے‘‘۔ زویا نے دلیل دی۔
’’ویسے اگر یہ ہو جاتا تو ہماری دوستی مزید مضبوط ہو جاتی ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے افسردہ سا جملہ بھیجا۔
’’اب کون سا ٹوٹ رہی ہے، واہ گرو مہر کرے، خیر ہو سب کی، کاروبار کا آغاز کر رہے ہو، اپنی توجہ اس پر لگاؤ، دنوں میں ترقی کر کے دکھاؤ‘‘۔ پریت کور نے کہا۔
’’وہ تو سب ٹھیک ہے، تم لوگ شادی کب کر رہے ہو؟‘‘ زویا نے جان بوجھ کر بات کو پلٹتے ہوئے موضوع بدل دیا۔
’’جب بھی بلال یہ محسوس کرے کہ وہ جھتوال آسکتا ہے، گھر کی بات ہے، شادی رکھ لیں گے‘‘۔ بھان سنگھنے جلدی سے کہا۔
’’ویسے میرا خیال کچھ اور کہتا ہے؟‘‘ پریت کور نے پیغام بھیجا۔
’’وہ کیا!‘‘ آگے پیچھے ہم تینوں ہی کا سوال تھا۔
’’میری اور بھان کی شادی تب ہو، جب زویا بھی جھتوال آسکے تو سمجھو ہماری خوشی دوبالا ہو گئی‘‘۔
’’تمہارا یہ خیال تو بہت خوبصورت ہے‘‘۔ زویا نے کہا۔
’’پریتوچَسّ آ جائے یار‘‘۔ بھان نے کہا تو میں نے لکھا۔
’’پھر شاید میرے ساتھ دادا نہ آسکیں۔۔۔ جبکہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ انہیں جھتوال ضرور لے کر جانا ہے۔ خیر۔۔۔! دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‘‘۔
’’تم اس وقت سو جاؤ اور کل مجھ سے ملنا۔ مجھے اس وقت لگ رہا ہے کہ تم شاید ڈپریشن میں ہو‘‘۔ زویا نے کہا تو ان دونوں نے بھی تائید کر دی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد آف لائن ہو گئے اور میں سو نے کی کوشش کرنے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مجھے شدید ڈپریشن ہو گیا تھا۔
وہ دوسرے دن کی شام تھی۔ میں گھر واپس آیا تو دادا جی کے ساتھ ماما اور پاپا لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دنوں فرحانہ اپنے کالج ٹور پر گئی ہوئی تھی میں فیکٹری سائیٹ سے آیا تھا اور کافی تھکا ہوا تھا۔ تاہم انہیں سلام کرنے تو جانا تھا ۔میں نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور ان کے پاس چلا گیا۔ انہیں سلام کیا اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو؟‘‘ ماما نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ماما، سائیٹ پر کام ہو رہا ہے نا، سارا دن ان کے ساتھ لگا رہا‘‘۔ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’تیری حالت سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے تم ان کے ساتھ اینٹیں ڈھوتے رہے ہو‘‘۔ دادا جی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’نہیں دادا جی، میں نے اینٹیں کیا ڈھونی ہیں، فیکٹری کی بنیادیں ہیں، اس پر توجہ دینا پڑتی ہے، آپ کو تو معلوم ہے‘‘۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’اچھا، وہ ٹھیک ہے، تم جاؤ، جا کر تیار ہو جاؤ، شاہ صاحب اور مسز شاہ آج یہاں آ رہے ہیں‘‘۔
دادا جی نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو ماما بھی خوشی سے لبریز لہجے میں بولیں۔
’’اور تمہارے لیے خوشخبری یہ ہے کہ وہ آج تمہاری اور زویا کی بات کرنے آ رہے ہیں۔ میں تو اسی ہفتے منگنی کر دوں گی۔ پھر شادی میں تو دیر ہی نہیں لگانی‘‘۔
ایک دم سے خوشی کی لہر میرے اندر سرایت کر گئی۔ کس قدر آسان ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ سلسلہ جسے میں بہت مشکل تصور کر رہا تھا۔ انہی لمحوں میں اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح چمکا۔ میں نے اس پر چند لمحے سوچا اور پھر رسک لے لیا۔
’’ماما۔۔۔! شاہ صاحب آئیں، مسز شاہ آئیں، آپ انہیں بہت اچھے طریقے سے خوش آمدید کہیں، انہیں بہت عزت اور مان دیں، لیکن میری شادی کی بات مت کیجئے گا‘‘۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔‘‘ پاپا نے حیرت بھرے انداز میں یوں میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، جیسے انہیں میری دماغی حالت پر شک ہو گیا۔ ماما اور داداجی بھی کچھ ایسی ہی نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔
’’میں نے وہی کہا ہے، جو آپ سن رہے ہیں۔ مجھے زویا سے شادی نہیں کرنی، پلیز‘‘۔ میں نے سکون سے کہا اور اٹھ گیا۔ تبھی دادا نے تڑپ کر کہا۔
’’اوئے ادھر بیٹھ۔۔۔! بیٹھ ادھر۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں کافی حد تک سختی تھی۔ میں بیٹھ گیا تو انہوں نے سختی ہی سے پوچھا۔ ’’اوئے تیرے لیے، نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیل کر شاہ صاحب کو منایا اور انہیں اس سطح پر لے آئیں ہیں کہ وہ زویا بیٹی کو ہمارے گھر کی بہو بنا دیں، اب جبکہ وہ راضی ہو گئے ہیں تو تم یہ کیا احمق پن دکھا رہے ہو؟ ہوا کیا ہے تمہیں؟‘‘
’’دادا جی۔۔۔! مجھے سمجھ آ گئی ہے، میں غیر ذات کی لڑکی سے شادی نہیں کروں گا۔ اپنی ذات برادری میں ہی کروں گا۔ اس لیے میں انکار کر رہا ہوں‘‘۔ میں نے پھر اسی سکون ہی سے جواب دیا تو وہ تینوں یوں خاموش ہو گئے جیسے چند لمحوں کے لیے وہ لاجواب ہو گئے ہوں۔ کچھ دیر بعد پاپا نے پوچھا۔
’’یہ ٹھیک نہیں بیٹا۔۔۔! اب جبکہ معاملہ طے ہو جانا ہے، ایسے لمحات میں تمہارا انکار۔۔۔ جو بات ہے وہ مجھے کھل کر بتاؤ، مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’پاپا، آپ پریشان نہ ہوں، میں زویا کو سمجھا لوں گا، وہ خود انکار کر دے گی تو شاہ صاحب اتنا محسوس نہیں کریں گے۔۔۔ آپ بھی آج ان سے کوئی بات مت کیجئے گا‘‘۔ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔ مجھے یہ اچھی طرح علم تھا کہ دادا جی مجھ سے پوچھنے ضرور میرے پاس آئیں گے۔
میں اس وقت فریش ہو کر اپنے بیڈ پر تھا کہ دادا میرے کمرے میں آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، بلکہ خاموشی سے آ کر صوفے پر بیٹھ گئے اور میری طرف غور سے دیکھنے لگے۔ میں ان کی آمد پر اٹھ کر بیٹھ گیا مگر خاموش رہا۔ کچھ دیر یونہی گزر گئی تو دادا نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’بلال ۔۔۔! تم خواہ مخواہ کی ضد کر کے میرا دل دکھا رہے ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ تم اپنی بے جا ضد منوانے کے لیے اس حد تک چلے جاؤ گے‘‘۔
’’دیکھیں دادا جی، یہ میرا اور میری زندگی کا فیصلہ ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ میں نے غیر برادری میں شادی کر لی‘‘۔ میں نے بڑے سکون سے کہا تو دادا تلملا کر بولے۔
’’لو۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اچانک وہ سوچ میں پڑ گئے، انہیں میری دلیل یاد آ گئی۔ انہوں نے تو ہی کہنا تھا کہ لوگ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں دخل دینے والے۔۔۔ اور یہی بات میں انہیں سمجھاناچاہ رہا تھا۔ وہ چند لمحے میری طرف دیکھتے رہے اور بولے۔ ’’اب اگر میں یہ کہوں گا کہ زویا تمہاری محبت ہے تو پھر وہی بات مجھ پر لوٹا دو گے۔ نہیں پتر۔۔۔! ایسے مت کرو، اب جبکہ ہر بات طے ہو چکی ہے تو کم از کم زویا کو اپنی بے جا ضد کی بھینٹ مت چڑھاؤ‘‘۔
’’وہ تو میں نے فیصلہ کر لیا ہے دادا جی، میں اب غیر برادری میں، غیر ذات میں شادی نہیں کروں گا۔ظاہر ہے وہ سید ہے، وہ ارائیں نہیں ہو سکتی اور میں آ رائیں ہوں، میں سید نہیں ہو سکتا‘‘۔ میں نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’اسلام میں یہ ذات برادری، کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سب برابر ہیں، صرف فوقیت اس کو حاصل ہے۔ جو متقی ہے۔ کسی کالے کو گورے اور کسی گورے کو کالے پر یا عربی عجمی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے پیار سے کہا۔
’’دادا جی، یہ متقی ہونا کیا ہوتا ہے، یہ صرف سوچنے کی حد تک بات ہے یا اس کا کوئی عملی پہلو بھی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا تو وہ چند لمحے سوچ کر بولے۔
’’ظاہر ہے پتر، با کردار اور با عمل انسان بھی متقی ہوتا ہے بعض اس کا تقوی اس کے کردار سے ظاہر ہو‘‘۔
’’یعنی یہ انسان کا کردار ہی ہے، جس کی وجہ سے وہ دوسروں پر مثبت یا منفی اثر ڈال سکتا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’تم جو کہنا چاہتے ہو، وہ کہو‘‘۔ دادا نے میری طرف دیکھتے ہوئے صاف لہجے میں کہا۔
’’دادا جی ۔۔۔! متقی میرے خیال میں وہ ہوتا ہے ، جو اپنا ویسا کردار بنا لے جو اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ ویسا کردار بن گیا تو یہی کردار خود دوسروں کو متاثر کرتا ہے اور دوسرے ویسا ہی کردار بنانے کی فکر میں ہو جاتے ہیں۔ اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ ہم متقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن منافقت کی انتہا پر ہوتے ہیں ۔ نماز پڑھ کر آتے ہیں اور آ کر ملاوٹ والی چیزیں بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر ہم سے کسی نے متاثر کیا ہونا، ہم اپنے مقصد کے لیے اسلام کے ان اصولوں کو اپنا لیتے ہیں جن سے ہم کو فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ لہٰذا۔۔۔! ان باتوں کو چھوڑیں اور وہی کریں جو ہمارا ماحول اور ہمارا یہ معاشرہ بتا رہا ہے‘‘۔ میں نے تلخی سے کہا تو دادا جی اچانک بولے۔
’’اچھا، اب تم یہ بتاؤ، کہ تمہارا فیصلہ حتمی ہے؟‘‘
’’جی‘‘۔ میں نے دل کڑا کرتے ہوے کہا تو وہ اٹھ گئے۔ پھر بغیر کچھ کہے باہر نکل گئے۔
ایک لمحے کے لیے میرے دل میں آیا کہ میں زویا کو اعتماد میں لے لوں۔ اسے بتا دوں کہ میں یہ کس لیے کر رہا ہوں۔ کہیں وہ کچھ اور ہی نہ سوچنے لگ جائے۔ میں نے فون اٹھایا اور اسے کال کرنے لگا، پھر ایک دم سے خیال آیا کہ نہیں، میں نہیں کروں گا اسے کال، اسے میری ذات پر اعتماد ہونا چاہئے کہ میں اس کے بغیر کسی اور کو نہیں سوچ سکتا، میں اس کا رد عمل دیکھوں، وہ کیا چاہتی ہے اور کیا کرتی ہے۔ جو بھی حالات ہوں گے، میں انہیں دیکھوں گا۔ ان کا سامنا کروں گا۔
میں نے فون ایک طرف رکھ دیا اور کافی دیر تک اپنے بیڈ پر پڑا آنے والے حالات کے بارے میں سوچتا رہا۔ پھر اٹھ کر تیار ہونے لگا۔ جیسے تیسے اب شاہ اور مسز شاہ سے ملنا تو تھا۔ تیار ہوتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ماما اور پاپا میری اس بات پر اتنا پریشان کیوں نہیں ہوئے۔ انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کہیں دادا جی نے انہیں جا کر یہ نہ کہہ دیا ہو کہ میں یونہی مذاق کر رہا تھا۔ کوئی ایسی بات نہیں ۔۔۔ہو سکتا ہے انہوں اپنا مان آزما لیا ہو۔
میں تیار ہو کر ڈرائنگ روم کی طرف جانے کی تیاریوں میں تھا کہ میرے سیل فون پر زویا کی کال آ گئی۔ اس نے چند لمحے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد تحمل سے پوچھا۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ میرے ماما پاپا آج تمہارے گھر آ رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں، اور میں تیار ہو گیا ہوں ان کے استقبال کے لیے‘‘۔
’’وہ کیوں؟ جبکہ تم میرے ساتھ شادی ہی نہیں کرنا چاہتے۔ جس مقصد کے لیے وہ آ رہے ہیں، اگر تمہیں وہی نہیں پسند تو پھر تم کیوں ملو گے؟‘‘
’’تمہیں یہ کس نے بتایا؟‘‘ میں نے ایک خیال کے تحت پوچھا۔
’’تمہاری ماما نے ۔۔۔! وہ بہت پریشان تھیں، وہ مجھ سے تصدیق کر رہی تھیں کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا مسئلہ تو نہیں ہو گیا، جس کی وجہ سے تم انکار کر رہے ہو‘‘۔
’’تو پھر اب تم کیا چاہتی ہو‘‘۔ میں نے اپنا لہجہ سخت کرتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی جو تم چاہو گے، مجھے نہیں معلوم کہ تم ایسا کیوں چاہ رہے ہو اور نہ ہی میں تم سے کوئی وجہ پوچھوں گی، ممکن ہے تمہارا فیصلہ بہتر ہو۔ میں بہر حال تمہارا انتظار کروں گی‘‘۔ یہ کہہ کر میری کوئی بات سنے بغیر اس نے فون آف کر دیا۔ اسے بلاشبہ دکھ ہوا تھا اور اس کے دکھ پر میں تڑپ کر رہ گیا تھا۔ یہ ایسے لمحات تھے، جن میں خود پر جبر کرنا بہت ضروری تھا۔ میں جذباتی کیفیت میں تھا، اس لیے تھوڑی دیر اپنے کمرے میں رہا اور پھر ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔ جہاں شاہ اور مسز شاہ آ چکے ہوئے تھے۔ خوشگوار ماحول میں گپ شپ ہو رہی تھی۔ میں ان کے ساتھ بہت تپاک سے ملا اور پھر دادا جی کے ساتھ ہی صوفے پر آ بیٹھا۔ تبھی شاہ صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا، مجھے بلال کے بارے میں یہ بات جب پتہ چلی تو بہت اچھی لگا کہ اپنے دادا جی سے بہت پیار کرتا ہے اور دادا جی بھی ، اس سے ۔۔۔‘‘
’’جی شاہ صاحب۔۔۔!‘‘ دادا نے تحمل سے کہا۔ ’’تاجر کو اپنے اصل مول سے کہیں زیادہ اپنے منافع سے پیار ہوتا ہے۔ بس مجھے تو ایک ڈر رہتا ہے‘‘۔
’’و ہ کیا۔۔۔‘‘ شاہ صاحب نے دلچسپی سے پوچھا تو دادا جی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’جب میں نہیں رہوں گا تو پھر اس کا کیا حال ہو گا، اتنا پیار اسے کرنا نہیں چاہئے‘‘۔
میں نے ان کی بات سن کر تڑپ کے ان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک فقرے میں بہت کچھ کہہ گئے تھے۔ اتنا کچھ کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے میری سوچوں پر بندھ باندھ کر رکھ دیا۔ ممکن ہے، ہمارے درمیان کوئی مزید بات چلتی ، ہمارے ملازم نے آ کر کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔ تب ہم سب میز پر آ گئے۔ میں اس سارے دورانیے میں خاموش رہا۔ پاپا اور شاہ صاحب باتیں کرتے رہے۔ گاہے بگاہے خواتین بھی بات کر لتیں۔ میرا دل بجھ گیا تھا۔ نہ جانے کیوں اس وقت مجھے یہ خیال آ رہا تھا کہ میں نے بے جا ضد کر کے اچھا نہیں کیا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
ڈنر کے بعد دوبارہ جب ڈرائنگ روم میں چلے گئے تو شاہ صاحب نے خود ہی ہمارے بارے میں بات چھیڑ دی۔ تبھی ماما نے میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں یاسیت بھری ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کوئی رنسپاس نہیں دیا اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگا تو مسز شاہ بولیں۔
’’بلال بیٹا۔۔۔ کدھر جا رہے ہو۔ بیٹھو‘‘۔
’’وہ میں۔۔۔‘‘ میں نے کہنا چاہا تو شاہ صاحب بولے۔
’’ارے بیٹھو یار۔۔۔! تمہارے متعلق بات ہے اور تم ہی نہ ہو۔ میں مانتا ہوں کہ ہماری مشرقیت میں ایسا لحاظ ہونا چاہئے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر بچے ہمارا لحاظ کرتے ہیں تو ہمیں بھی ان پر اعتماد کرن چاہئے‘‘۔
’’بالکل ۔۔۔! آپ نے درست کہا۔شاہ جی ، زندگی انہوں نے گزارنی ہے‘‘۔ پاپا نے بہت محتاط انداز میں کہا۔
’’دیکھیں جی، اب آپ سے کیا پردہ، فیصلہ تو یہ خود کر چکے ہیں۔ اب یہ ان کی سعادت مندی ہے کہ انہوں نے ہمارا احترام کیا۔ ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا، میرا خیال کہ زویا نے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا۔ میں راضی ہوں‘‘۔
’’شاہ جی ، آپ کے منہ میں گھی شکر، ہم آپ کی طرف سے ہی ہاں سننے کے منتظر تھے‘‘۔ دادا نے انتہائی خوشدلی سے کہا اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے یوں پکڑ لیا کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ادا نہ کروں۔ میں خاموش رہا۔ تب پاپا نے کافی خوشی دلی سے کہا۔
’’شاہ صاحب۔۔۔! یہ آپ کی بہت مہربانی کہ آپ نے ان بچوں کا ہمارا اور اپنا مان رکھا۔ جیسا آپ کہیں گے ہم ویسے ہی آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں۔ کیونکہ ہماری خوشیاں ان بچوں کے ساتھ ہی ہیں‘‘۔
’’آپ کو یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ میں خاندان سے باہر یہ رشتہ کر رہا ہوں۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ اپنی خاندانی روایات کی خاطر میں اپنی بیٹی کی خوشیوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتا، اس نے میرا مان رکھا ہے تو میں بھی اسے خوشیاں دینے سے دریغ نہیں کروں گا۔ بس میں ہی چاہتا ہوں کہ کبھی بھی مجھے اپنے خاندان کی طرف سے یہ طعنہ سننے کو نہ ملے کہ میں نے کوئی غلط فیصلہ کیا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں دکھ تر آیا تھا۔
’’نہیں شاہ جی، مجھے اپنے پوتے پر فخر ہے۔ یہ بات بلا ل اچھی طرح سمجھتا ہے، میری اس سے بہت بات ہو چکی ہے اس موضوع پر، آپ بے فکر رہیں۔ بس اب تو میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ بچے جلد از جلد اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں‘‘۔ دادا نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو مسز شاہ بولیں۔
’’ہاں جی! بیٹی والے ہمیشہ جلدی میں ہوتے ہیں‘‘۔ آپ جب چاہیں۔ شگون لے کر ہمارے ہاں آ جائیں۔ ہم آپ کے منتظر ہوں گے‘‘۔
’’ہم تو کل ہی آنے کو تیار ہیں‘‘۔ ماما نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر جلدی سے اٹھتے ہوئے بولیں‘‘۔ اس خوشی کے موقعہ پر منہ میٹھا تو ہونا چاہئے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اندر کی طرف چلی گئیں۔
’’بلال، تم نہیں بولے کچھ، تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ مسز شاہ نے یونہی پوچھا تو دادا نے میرا ہاتھ مزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جب بڑے بات کر رہے ہیں تو پھر مجھے بات کرنے کی کیا ضرورت اور آپ میں سے کسی نے بھی مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا، جس کا میں جواب دوں‘‘۔
’’چلو اب کر لیتے ہیں سوال، منگنی کی تقریب گھر میں ہونی چاہئے یا کسی ہوٹل وغیرہ میں۔ تم دونوں اپنے دوستوں کو دعوت دو گے، یا ہم صرف فیملی والے ہوں گے اور پھر سب سے بڑی بات کہ منگنی ہونی بھی چاہئے یا۔۔۔‘‘ انہوں نے خوشدلی سے کہا تو میں بولا۔
’’آنٹی۔۔۔! آپ بڑے ہیں، آپ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، لیکن پہلے مجھے اور دادا جی کو جھتوال جانا ہے، وہیں بھان سنگھ کی شادی ہے۔ وہاں دو ہفتے تو لگ جائیں گے، شادی بھی ہو گی اور کوئی کاروباری باتیں بھی ہو جائیں گی، بعد میں سیدھے سبھاؤ نکاح ہی ہو جائے گا۔ میری بہر حال یہ رائے ہے‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر یہ کہا تاکہ دادا جی کا رد عمل دیکھ سکوں تبھی مسز شاہ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، اگر آپ لوگ جلدی جانا چاہتے ہیں تو ۔۔۔جو فیصلہ کر لیں، اگر کچھ دیر بعد جانا ہے تو۔۔۔ اب یہ آپ دونوں پر ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
وہ انجانے میں وہ بات کہہ گئیں جو میں دادا جی سے کرنا چاہ رہا تھا۔ تبھی پاپا نے کہا۔
’’یہ تو ابھی پلان ہیں، ایک دو دن میں یہ سب طے کر کے آپ کو بتا دوں گا۔ بہر حال اب یہ طے ہے کہ ہم نے ان بچوں کی شادی کرنی ہے اور بہت اچھے انداز میں کرنی ہے، دونوں ہی اکلوتے ہیں‘‘۔
’’بالکل۔۔۔! آپ نے ٹھیک کہا‘‘۔ شاہ صاحب نے کہا۔ اتنے میں ماما کافی ساری مٹھائی لے آ گئیں۔ یوں باتوں کا رخ کسی دوسری طرف ہو گیا۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شاہ صاحب اور مسز شاہ خوشی خوشی رخصت ہو گئے۔
میں اپنے کمرے میں آیا اور آتے ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔ دادا جی نے عین وقت پر میرا ہاتھ ہی نہیں ، مجھے بھی دبا کر اپنی بات منوا لی تھی۔ مجھے رہ رہ کر زویا کی بات یاد آ رہی تھی۔ میں نے اسے ہرٹ کیا تھا۔ وہ خوشی جو اس موقعہ پر ہونی چاہئے تھی، وہ نہیں ہو رہی تھی۔ ایک افسوس تھا جس نے میرے پورے وجود کو بہت بھاری بھاری کر دیا تھا۔ میں اوندھے منہ پڑا تھا کہ دادا کے بیڈ پر بیٹھنے کا احساس کر کے میں سیدھا ہو گیا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اوئے پتندرا۔۔۔! یوں کیسے پڑا ہے۔ چل تو جو چاہتا ہے۔ویسا ہی کر لے۔ میں تیری بات مان لیتا ہوں‘‘۔
’’لیکن دادا جی، و ہ خوشی تو نہ ہوئی نا، جو آرام سے بات مان لینے میں تھی۔ ہم دونوں ہی نے ایک دوسرے کو بلیک میل کیا ہے، کیا فائدہ ایسی خوشی کا‘‘۔ میں نے افسوس بھرے انداز میں کہا تو وہ سنجیدگی سے بولے۔
’’پتر۔۔۔! جب تو میری عمر میں آئے گا نا تو تجھے پتہ چلے گا، عزت کیا شے ہوتی ہے۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ تو نے جھتوال جانے کا کیوں کہا۔ بس ایک بات کی فکر ہے مجھے‘‘۔
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دیکھو۔۔۔! ایسا تو نہیں ہے کہ ہم جائیں اور جاتے ہی کہہ دیں کہ آؤ امرت کور ہم تمہیں لینے کے لیے آئے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ چل پڑے گی۔ ایسا نہیں ہے میرے بچے، اس کا ایک خاندان ہے، ان کی وہاں عزت ہے، ان کی بھی کوئی رائے ہو گی، اور زویا سے بھی میری بات ہوئی تھی۔ اس کے مطابق ، ابھی تک تم لوگوں نے اس کے ساتھ بھی کوئی سنجیدہ بات نہیں کی۔ فرض کر لو، میں مان گیا ہوں، امرت کور مان گئی، لیکن اس کے خاندان والے آڑے آ گئے۔ یہ صورتِ حال ایسی نہیں ہے کہ جیسے تم دو نوجوانوں کی ہے‘‘۔
’’میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ سب راضی ہوں تو پھر آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہو گانا۔۔۔‘‘ میں نے تیزی سے پوچھا۔
’’نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘۔ انہوں نے حتمی انداز میں کہا تو میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’تو پھر میں پاپا اور ماما سے بات کر لوں۔۔۔ انہیں۔۔۔‘‘
’’ساری بات معلوم ہے، تمہاری بے جا ضد کی وجہ سے میں نے انہیں، ساری بات بتا دی تھی۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور زویا کو بھی میں نے ابھی فون کر کے بتا دیا ہے کہ پریشان نہیں ہونا، بلال ایویں خواہ مخواہ کی بونگیاں مار رہا ہے‘‘۔ آخر لفظ کہتے ہوئے دادا ہنس دیئے۔ میں ان سے لپٹ گیا۔ وہ دیر تک مجھے پیار کرتے رہے۔ پھر ان سے الگ ہو کر بولا۔
’’آئیں۔۔۔! آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ آؤں۔ پھر میں بھان اور پریت کے ساتھ گپ شپ لگا کر انہیں ساری صورت حال بتاتا ہوں‘‘۔
’’تو نے جو کرنا ہے کر، میں چلا جاؤں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔ میں نے جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور اسے آن کیا۔ میری توقع کے مطابق ، زویا، بھان اور پریت آن لائن تھے۔ میرے آن لائن ہوتے ہی مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ زویا نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ میں نے آہستہ آہستہ انہیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔
’’اب جو کچھ کرنا ہے تم لوگوں نے کرنا ہے‘‘۔ میں نے بھان اور پریت سے کہا۔
’’مگر تم نے جو زویا کو ہرٹ کیا، یہ غلط کیا‘‘۔ بھان نے فوراً کہا۔
’’یہ پارٹ آن گیم تھا یار، زویا کو بھی معلوم ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر دیکھ لو، وہ اب بھی نخرے دکھا رہی ہے‘‘۔ میں نے لکھا۔
’’میں کوئی نخرے نہیں دکھا رہی‘‘۔ زویا نے کہا۔
’’اچھا چلو ٹھیک ہے، میں اسے منالوں گا، اب تم لوگ ماحول کو بہتر کرو تو میں دادا کو لے کر جھتوال آ جاؤں‘‘۔ میں نے کہا۔
’’تم آ جاؤ، میری دادی ہرمنیت سے بات ہو گی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ سریندر پال سنگھ انکل ، کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ یہ سارا معاملہ کیا ہے۔ تمہارے آنے تک مزید بات کر لیں گے۔ فکر نہ کرو‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا تو میں مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد ہم کافی دیر تک اِدھر اُدھر کی اور مستقبل کی باتیں کرتے رہے۔ رات گئے تک ہماری باتیں جاری رہیں۔
میں اور دادا جی دوستی بس میں بیٹھ گئے تو میرے جذبات میں خواہ مخواہ کی طغیانی آ گئی۔ میں اس وقت پُر جوش تھا۔ دادا کے من کی حالت کیا ہو گی، میں اس کے بارے میں سوچ ہی سکتا تھا، اس بارے اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ دادا جی سے بات ہونے اور امرتسر کی طرف روانگی میں محض دو ہفتے ہی گزرے تھے۔ میری اور دادا جی کی تیاری میں فرحانہ نے بہت دلچسپی لی۔ اسے ان دنوں میں معلوم ہوا تھا کہ میرے اور دادا جی کے درمیان کیا کھچڑی پکتی رہی تھی۔ جھتوال سے میرا فون اور کمپیوٹر کے ذریعے رابطہ تھا ۔ وہاں پر ماحول بالکل درست ہو گیا تھا۔ ہمیں بس تک چھوڑنے کے لیے جہاں سب آئے، وہاں زویا بھی ٹھیک وقت پر پہنچ گئی۔ اس نے تحائف کا ایک بیگ مجھے تھما دیا۔ بس چل پڑی تو لاہور پیچھے رہ گیا۔ واہگہ پر ہمیں کافی وقت لگ گیا۔ اس وقت شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ جب ہم امرتسر میں پہنچے۔ ہمارے استقبال کے لیے بھان سنگھ تو تھا ہی، اس کے ساتھ امریک سنگھ کو دیکھ کر میں خوش ہو گیا، وہ بڑے غور سے دادا نور محمد کو دیکھ رہا تھا، ممکن ہے ماضی کا کوئی حوالہ یاد کر رہا ہو، وہ دونوں بڑے تپاک سے ملے پھر بھان سنگھ سے بولا۔
’’چل بھئی کا کا۔۔۔! سورج غروب ہونے سے پہلے گاؤں پہنچا دے‘‘۔
بھان سنگھ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، دادا جی اس کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جبکہ میں اور امریک سنگھ پچھلی نشست پر آ گئے گاڑی چلتے ہی باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ دادا گاؤں کے پرانے لوگوں کے بارے میں امریک سنگھ سے پوچھتا رہا اور وہ بتاتا رہا۔ جس وقت ہم گاؤں جانے والی ذیلی سڑک پر مڑے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ میں دادا کی طرف دیکھ رہا تھا، ان کی حالت دیدنی تھی۔ بھیگی ہو ئی پلکیں، ستا ہوا چہرہ اور تنا ہوا وجود، حتی کہ جب وہ بولے تو ان کا لہجہ بھی بھیگا ہوا تھا۔
’’یار بھان۔۔۔! سب سے پہلے قبرستان کا طرف چلو۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے دادا جی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ کچھ دیر بعد ہم وہاں پہنچ گئے جو کھیت اب قبرستان کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ دادا جی نے پانی کی بوتل اٹھائی اور مجھ سے وضو کرانے کے لیے کہا۔ میں نے انہیں وضو کرایا تو انہوں نے نمازِ جنازہ کی نیت باندھ لی۔ پھر کافی دیر تک دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے رہے۔ جب انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ان کے چہرے پر کافی حد تک بشاشت اتر آئی تھی۔اس دوران میں نے فاتحہ پڑھ لی۔
’’چل بھئی بھان۔۔۔! اب تو جدھر چاہے لے چل‘‘۔ دادا نے اس کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد ہم حویلی جا پہنچے۔
سارا گھر باہر والے پھاٹک پر جمع تھا۔ ان کے ساتھ امرت کور کا سارا پریوار تھا، نہیں تھی تو فقط امرت کور نہیں تھی۔ میں پریشان ہو گیا۔ پریت کور اپنے ہاتھ میں بڑا سارا تھال لیے کھڑی تھی۔ اس میں پھول تھے اور درمیان میں تیل کی پیالی۔ پھاٹک پر ہی ہمیں اتار لیا گیا۔ اس وقت وہ کوئی گیت گا رہی تھیں، جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔ میں تو دادی پرونت کور کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جو بھیگی آنکھوں سے ایک ٹک نور محمد کو دیکھے چلی جا رہی تھی۔ دادا بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پریت کور نے دروازے کے دونوں اطراف تیل ڈالا پھر دادا نور محمد پر پھول نچھاور کیے۔ دادا نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا سر چوم لیا۔ پھر جیسے ہی آگے بڑھے تو دادی پرونت کور نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ دادا اس کے گلے لگ گئے اور وہ دونوں اس قدر دھاڑیں مار مار کر روئے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ جب ان کے رونے کے جوش میں ذرا کمی ہوئی تو پردیپ سنگھ سے ملے۔
پھر وہاں پر موجود ہر مرد اور عورت سے ان کی حیثیت کے مطابق ملے۔ کسی سے ہاتھ ملایا، کسی کے سر پر پیار دیا۔ کسی کے گلے ملے۔ تبھی دادی پرونت کور نے کہا۔
’’آوے نور محمد۔۔۔! تجھے میں سردار بلوندر سنگھ کے سپتر سے ملواؤں‘‘۔
قریب ہی سریندرپال سنگھ، ست نام کور، گینت کور کھڑے تھے۔ دادا انہیں چند لمحے دیکھتا رہا، پھر سریندر کے گلے لگا، باری باری ملا اور بولا۔
’’سردار بلوندر سنگھ کا مجھ سے بڑا پیار تھا‘‘۔
’’میں جانتا ہوں نور محمد، ایک ایک بات جانتا ہوں، خیر، کیسا رہا سفر ‘‘، ان باتوں کے بعد کچھ دیر میں وہ سب حویلی کے اندر چل دیئے تو میں نے بھان سنگھ کو ایک طرف لے جا کر کہا۔
’’اوئے امرت کور۔۔۔! وہ کدھر ہے؟‘‘
’’پریت سے پوچھتا ہوں، آؤ‘‘۔ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں اندر کی طرف چل دیئے۔ پریت اور گینت دونوں کاریڈور کے آخری سرے پر کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔ ہم ان کے پاس چلے گئے اور جاتے ہی امرت کور کے بارے میں پوچھا۔ تب گینت کور بولی۔
’’ویرے۔۔۔! ہم نے یہاں ساتھ آنے کے لیے کہا تھا، مگر وہ ہمارے ساتھ آنے کی بجائے گرودوارے چلی گئیں۔ ہو سکتا ہے، کچھ دیر بعد آ جائیں یا پھر صبح۔۔۔‘‘
’’چل ہم اسے لے آتے ہیں‘‘۔ بھان سنگھ کے کہا تو میں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم دونوں ہی پیدل گرودوارے تک گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ واپس چلی گئی۔ ہم ان کی حویلی کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچے تو وہ ہمیں دالان ہی میں بیٹھی مل گئی۔ اس کے پاس گھرا یک ملازمہ بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے دور ہی سے دیکھ کر اٹھی گئی اور پھر اسی پیار بھری شدت سے ملی۔
’’میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ نور محمد کو لے آیا ہوں جھتوال‘‘۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں پتر۔۔۔!اچھا کیا، میرے وعدوں سے پہلے ہی تو نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ آؤ بیٹھو‘‘۔ امرت کور نے ایک رنگین پیڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔ دوسرے پر بھان سنگھ بیٹھ گیا تو میں نے کہا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ اب آپ کی زندگی سلامت رکھے، ابھی آپ نے میری اور زویا کی شادی دیکھنی ہے اور ابھی بڑا کچھ۔۔۔‘‘
امرت کور نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے ملازمہ سے دودھ لانے کو کہا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’بات وعدوں کی ہے نا پتر۔۔۔! تو دودھ پی لے۔۔۔ پھر میں کھانا لگواتی ہوں تیرے لیے‘‘۔
’’ادھر حویلی میں سب کے ساتھ کھاتے ہیں۔ بے بے اور چاچی نے بڑا اچھا انتظام کیا ہوا ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے جلدی سے کہا۔
’’چلو ابھی دودھ تو پیو‘‘۔ امرت کور نے کہا۔
اس وقت ہم دودھ پی رہے تھے۔ جب دونوں خاندانوں کے سارے افراد حویلی میں داخل ہوئے۔ ان میں دادی پرونت کور بھی تھی اور دادا نور محمد بھی۔ امرت کور انہیں دیکھتے ہی کھڑی ہو گئی۔ وہ ایک ٹک دادا نور محمد کو دیکھے چلی جاری تھی۔ جیسے پہلی بار انہیں دیکھ رہی ہو، اس کا گلابی رنگ سرخ ہو گیا تھا۔ تبھی دادی پرونت کور نے کہا۔
’’میں جانتی تھی کہ امرت کور ایسے نہیں آئے گی، اسے جا کر لانا پڑے گا۔ دیکھ نور محمد تجھے لینے کے لیے آیا ہے۔ اب چل ہمارے ساتھ۔۔۔
‘‘
’’جانا تو پڑے گا پرونت کورے۔۔۔ وعدے جو پورے ہو گئے ہیں‘‘۔
اس وقت تک دادا نور محمد اس کے قریب جا کھڑا ہوا تھا، سب اس کی طرف دیکھا رہے تھے، اس نے اپنا ایک بازو بڑھایا اور پہلو سے لگ کر دادا جی سے ملی، تبھی دادا نے ہولے سے پوچھا۔
’’کیسی ہوا امرت کور۔۔۔؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں‘‘۔ امرت کور یوں بولی، جیسے کسی گہرے کنویں سے بول رہی ہو۔
’’میں تمہارا اور پرونت کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم دونوں نے حاجراں کی قبر بنا دی۔ میں پہلے ادھر ہی۔۔۔‘‘
لفظ دادا کے منہ ہی میں رہ گئے۔ امرت کور نے اوپر کی جانب دیکھا ، دونوں ہاتھ جوڑے اور زور زور سے واہِ گرو۔۔۔ واہِ گرو۔۔۔ کہنے لگی، یوں جیسے اس پر وجد طاری ہو گیا ہو۔پھر ایک دم سے خاموش ہوئی اور کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح گری، دادا ہی اس کے نزدیک کھڑے تھے۔ انہوں نے اسے اپنی بانہوں میں سنبھال لیا۔ ایک دم ہی سے وہاں افراتفری مچل گئی۔ دادا اور سریندر پال سنگھ اسے ہوش میں لانے لگے، مگر وہ وہاں تھی ہی نہیں۔ اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔
گاؤں کے ایک کونے سے رستہ اس اجڑے ہوئے میدان میں جاتا تھا، جہاں امرت کور کا جسد خاکی لکڑیوں کے ایک ڈھیر کے اوپر لا کر رکھ دیا گیا تھا۔ گاؤں بھر کے لوگ وہاں موجود تھے۔ میں اور دادا نور محمد بھی سوگوار سے وہیں کھڑے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد امرت کور کے جسد خاکی کو آگ دکھا دی جانے والی تھی۔ آخری رسومات ادا کر دی گئیں تھیں اور جب لاشے کو آگ دکھانے کا وقت آیا تو اس لمحے گرودوارے کا گیانی آگے بڑھا اور اس ے بھڑکتا ہوا شعلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، پھر سب کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔
’’امرت کور جی، روزانہ گرودوارے آتی تھیں۔ وہ سچے بادشاہ گرو مہاراج جی کی سچی سیوک تھی۔ کل وہ آئی تو اس نے مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ بلکہ اپنے ہاتھ سے ایک چھٹی بھی لکھ کر مجھے دی ۔وہ خواہش اس چھٹی میں بھی درج ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے وہ چھٹی سریندر پال سنگھ کی طرف بڑھا دی۔ اس نے پڑھی تو گیانی نے سر اٹھا کر اونچی آواز میں کہا۔ ’’امرت کور جی کو خواہش تھی کہ اس کی چتا کو آگ نور محمد لگائے‘‘۔
ایک دم سے وہاں پراسراسمیگی پھیل گئی۔ تبھی گیانی نے اونچی آواز میں کہا۔
’’اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سچے بادشاہ گرو مہاراج کے نزدیک نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان، ان کے نزدیک ہر وہ بندہ سکھ ہے جو سچا ہے، وہ چاہے ہندو ہے، عیسائی ہے، یا مسلمان، اسی لئے شری گرو گرنتھ صاب میں سب کی بانیاں ہیں۔ وہ چاہے فرید جی ہوں یا کبیر جی، بابا بھگت ہو یا دھا نے جٹ کی، جس وقت سچا سکھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے شریر کو کوئی بھی سچاپرکھ، اس کے گرو کو مان کر، اس شریر کو اگنی کی سیک دے سکتا ہے۔ سچے سکھ کی آتما تو پہلے ہی سچے گرو کے پاس پہنچ جاتی ہے‘‘۔
اس کے خاموش ہوتے ہی ہر طرف خاموش چھا گئی۔ سریندر سنگھ نے اس شعلے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر دادا نور محمد کی طرف بڑھا دیا۔ وہ چند لمحے کھڑے سوچتے رہے۔ پھر آگے بڑھ کر چتا کو آگ دکھا دی۔ تب میں نے دیکھا دادا نور محمد کے آنسونکل پڑے تھے۔ وہ ضبط نہ کر سکے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔ سریندر پال سنگھ نے انہیں گلے لگا لیا۔ ان لمحات میں میری ادا سی بڑھ گئی تھی۔ امرت کور نے مجھے اور دادا نور محمد کو بہت بڑے امتحان سے بچا لیا تھا۔ میں جیسے غور کر رہا تھا۔ مجھ پر بہت سارے راز افشا ہونے لگے تھے۔
وہ دوسرے دن کی شام تھی۔ میں گھر واپس آیا تو دادا جی کے ساتھ ماما اور پاپا لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دنوں فرحانہ اپنے کالج ٹور پر گئی ہوئی تھی میں فیکٹری سائیٹ سے آیا تھا اور کافی تھکا ہوا تھا۔ تاہم انہیں سلام کرنے تو جانا تھا ۔میں نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور ان کے پاس چلا گیا۔ انہیں سلام کیا اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو؟‘‘ ماما نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ماما، سائیٹ پر کام ہو رہا ہے نا، سارا دن ان کے ساتھ لگا رہا‘‘۔ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’تیری حالت سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے تم ان کے ساتھ اینٹیں ڈھوتے رہے ہو‘‘۔ دادا جی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’نہیں دادا جی، میں نے اینٹیں کیا ڈھونی ہیں، فیکٹری کی بنیادیں ہیں، اس پر توجہ دینا پڑتی ہے، آپ کو تو معلوم ہے‘‘۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’اچھا، وہ ٹھیک ہے، تم جاؤ، جا کر تیار ہو جاؤ، شاہ صاحب اور مسز شاہ آج یہاں آ رہے ہیں‘‘۔
دادا جی نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو ماما بھی خوشی سے لبریز لہجے میں بولیں۔
’’اور تمہارے لیے خوشخبری یہ ہے کہ وہ آج تمہاری اور زویا کی بات کرنے آ رہے ہیں۔ میں تو اسی ہفتے منگنی کر دوں گی۔ پھر شادی میں تو دیر ہی نہیں لگانی‘‘۔
ایک دم سے خوشی کی لہر میرے اندر سرایت کر گئی۔ کس قدر آسان ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ سلسلہ جسے میں بہت مشکل تصور کر رہا تھا۔ انہی لمحوں میں اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح چمکا۔ میں نے اس پر چند لمحے سوچا اور پھر رسک لے لیا۔
’’ماما۔۔۔! شاہ صاحب آئیں، مسز شاہ آئیں، آپ انہیں بہت اچھے طریقے سے خوش آمدید کہیں، انہیں بہت عزت اور مان دیں، لیکن میری شادی کی بات مت کیجئے گا‘‘۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔‘‘ پاپا نے حیرت بھرے انداز میں یوں میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، جیسے انہیں میری دماغی حالت پر شک ہو گیا۔ ماما اور داداجی بھی کچھ ایسی ہی نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔
’’میں نے وہی کہا ہے، جو آپ سن رہے ہیں۔ مجھے زویا سے شادی نہیں کرنی، پلیز‘‘۔ میں نے سکون سے کہا اور اٹھ گیا۔ تبھی دادا نے تڑپ کر کہا۔
’’اوئے ادھر بیٹھ۔۔۔! بیٹھ ادھر۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں کافی حد تک سختی تھی۔ میں بیٹھ گیا تو انہوں نے سختی ہی سے پوچھا۔ ’’اوئے تیرے لیے، نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیل کر شاہ صاحب کو منایا اور انہیں اس سطح پر لے آئیں ہیں کہ وہ زویا بیٹی کو ہمارے گھر کی بہو بنا دیں، اب جبکہ وہ راضی ہو گئے ہیں تو تم یہ کیا احمق پن دکھا رہے ہو؟ ہوا کیا ہے تمہیں؟‘‘
’’دادا جی۔۔۔! مجھے سمجھ آ گئی ہے، میں غیر ذات کی لڑکی سے شادی نہیں کروں گا۔ اپنی ذات برادری میں ہی کروں گا۔ اس لیے میں انکار کر رہا ہوں‘‘۔ میں نے پھر اسی سکون ہی سے جواب دیا تو وہ تینوں یوں خاموش ہو گئے جیسے چند لمحوں کے لیے وہ لاجواب ہو گئے ہوں۔ کچھ دیر بعد پاپا نے پوچھا۔
’’یہ ٹھیک نہیں بیٹا۔۔۔! اب جبکہ معاملہ طے ہو جانا ہے، ایسے لمحات میں تمہارا انکار۔۔۔ جو بات ہے وہ مجھے کھل کر بتاؤ، مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’پاپا، آپ پریشان نہ ہوں، میں زویا کو سمجھا لوں گا، وہ خود انکار کر دے گی تو شاہ صاحب اتنا محسوس نہیں کریں گے۔۔۔ آپ بھی آج ان سے کوئی بات مت کیجئے گا‘‘۔ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔ مجھے یہ اچھی طرح علم تھا کہ دادا جی مجھ سے پوچھنے ضرور میرے پاس آئیں گے۔
میں اس وقت فریش ہو کر اپنے بیڈ پر تھا کہ دادا میرے کمرے میں آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، بلکہ خاموشی سے آ کر صوفے پر بیٹھ گئے اور میری طرف غور سے دیکھنے لگے۔ میں ان کی آمد پر اٹھ کر بیٹھ گیا مگر خاموش رہا۔ کچھ دیر یونہی گزر گئی تو دادا نے میری طرف دیکھ کر کہا۔
’’بلال ۔۔۔! تم خواہ مخواہ کی ضد کر کے میرا دل دکھا رہے ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ تم اپنی بے جا ضد منوانے کے لیے اس حد تک چلے جاؤ گے‘‘۔
’’دیکھیں دادا جی، یہ میرا اور میری زندگی کا فیصلہ ہے، لوگ کیا کہیں گے کہ میں نے غیر برادری میں شادی کر لی‘‘۔ میں نے بڑے سکون سے کہا تو دادا تلملا کر بولے۔
’’لو۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اچانک وہ سوچ میں پڑ گئے، انہیں میری دلیل یاد آ گئی۔ انہوں نے تو ہی کہنا تھا کہ لوگ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملات میں دخل دینے والے۔۔۔ اور یہی بات میں انہیں سمجھاناچاہ رہا تھا۔ وہ چند لمحے میری طرف دیکھتے رہے اور بولے۔ ’’اب اگر میں یہ کہوں گا کہ زویا تمہاری محبت ہے تو پھر وہی بات مجھ پر لوٹا دو گے۔ نہیں پتر۔۔۔! ایسے مت کرو، اب جبکہ ہر بات طے ہو چکی ہے تو کم از کم زویا کو اپنی بے جا ضد کی بھینٹ مت چڑھاؤ‘‘۔
’’وہ تو میں نے فیصلہ کر لیا ہے دادا جی، میں اب غیر برادری میں، غیر ذات میں شادی نہیں کروں گا۔ظاہر ہے وہ سید ہے، وہ ارائیں نہیں ہو سکتی اور میں آ رائیں ہوں، میں سید نہیں ہو سکتا‘‘۔ میں نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’اسلام میں یہ ذات برادری، کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سب برابر ہیں، صرف فوقیت اس کو حاصل ہے۔ جو متقی ہے۔ کسی کالے کو گورے اور کسی گورے کو کالے پر یا عربی عجمی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے پیار سے کہا۔
’’دادا جی، یہ متقی ہونا کیا ہوتا ہے، یہ صرف سوچنے کی حد تک بات ہے یا اس کا کوئی عملی پہلو بھی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا تو وہ چند لمحے سوچ کر بولے۔
’’ظاہر ہے پتر، با کردار اور با عمل انسان بھی متقی ہوتا ہے بعض اس کا تقوی اس کے کردار سے ظاہر ہو‘‘۔
’’یعنی یہ انسان کا کردار ہی ہے، جس کی وجہ سے وہ دوسروں پر مثبت یا منفی اثر ڈال سکتا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’تم جو کہنا چاہتے ہو، وہ کہو‘‘۔ دادا نے میری طرف دیکھتے ہوئے صاف لہجے میں کہا۔
’’دادا جی ۔۔۔! متقی میرے خیال میں وہ ہوتا ہے ، جو اپنا ویسا کردار بنا لے جو اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ ویسا کردار بن گیا تو یہی کردار خود دوسروں کو متاثر کرتا ہے اور دوسرے ویسا ہی کردار بنانے کی فکر میں ہو جاتے ہیں۔ اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ ہم متقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن منافقت کی انتہا پر ہوتے ہیں ۔ نماز پڑھ کر آتے ہیں اور آ کر ملاوٹ والی چیزیں بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر ہم سے کسی نے متاثر کیا ہونا، ہم اپنے مقصد کے لیے اسلام کے ان اصولوں کو اپنا لیتے ہیں جن سے ہم کو فائدہ حاصل ہو رہا ہو۔ لہٰذا۔۔۔! ان باتوں کو چھوڑیں اور وہی کریں جو ہمارا ماحول اور ہمارا یہ معاشرہ بتا رہا ہے‘‘۔ میں نے تلخی سے کہا تو دادا جی اچانک بولے۔
’’اچھا، اب تم یہ بتاؤ، کہ تمہارا فیصلہ حتمی ہے؟‘‘
’’جی‘‘۔ میں نے دل کڑا کرتے ہوے کہا تو وہ اٹھ گئے۔ پھر بغیر کچھ کہے باہر نکل گئے۔
ایک لمحے کے لیے میرے دل میں آیا کہ میں زویا کو اعتماد میں لے لوں۔ اسے بتا دوں کہ میں یہ کس لیے کر رہا ہوں۔ کہیں وہ کچھ اور ہی نہ سوچنے لگ جائے۔ میں نے فون اٹھایا اور اسے کال کرنے لگا، پھر ایک دم سے خیال آیا کہ نہیں، میں نہیں کروں گا اسے کال، اسے میری ذات پر اعتماد ہونا چاہئے کہ میں اس کے بغیر کسی اور کو نہیں سوچ سکتا، میں اس کا رد عمل دیکھوں، وہ کیا چاہتی ہے اور کیا کرتی ہے۔ جو بھی حالات ہوں گے، میں انہیں دیکھوں گا۔ ان کا سامنا کروں گا۔
میں نے فون ایک طرف رکھ دیا اور کافی دیر تک اپنے بیڈ پر پڑا آنے والے حالات کے بارے میں سوچتا رہا۔ پھر اٹھ کر تیار ہونے لگا۔ جیسے تیسے اب شاہ اور مسز شاہ سے ملنا تو تھا۔ تیار ہوتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ماما اور پاپا میری اس بات پر اتنا پریشان کیوں نہیں ہوئے۔ انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کہیں دادا جی نے انہیں جا کر یہ نہ کہہ دیا ہو کہ میں یونہی مذاق کر رہا تھا۔ کوئی ایسی بات نہیں ۔۔۔ہو سکتا ہے انہوں اپنا مان آزما لیا ہو۔
میں تیار ہو کر ڈرائنگ روم کی طرف جانے کی تیاریوں میں تھا کہ میرے سیل فون پر زویا کی کال آ گئی۔ اس نے چند لمحے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد تحمل سے پوچھا۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ میرے ماما پاپا آج تمہارے گھر آ رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں، اور میں تیار ہو گیا ہوں ان کے استقبال کے لیے‘‘۔
’’وہ کیوں؟ جبکہ تم میرے ساتھ شادی ہی نہیں کرنا چاہتے۔ جس مقصد کے لیے وہ آ رہے ہیں، اگر تمہیں وہی نہیں پسند تو پھر تم کیوں ملو گے؟‘‘
’’تمہیں یہ کس نے بتایا؟‘‘ میں نے ایک خیال کے تحت پوچھا۔
’’تمہاری ماما نے ۔۔۔! وہ بہت پریشان تھیں، وہ مجھ سے تصدیق کر رہی تھیں کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا مسئلہ تو نہیں ہو گیا، جس کی وجہ سے تم انکار کر رہے ہو‘‘۔
’’تو پھر اب تم کیا چاہتی ہو‘‘۔ میں نے اپنا لہجہ سخت کرتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی جو تم چاہو گے، مجھے نہیں معلوم کہ تم ایسا کیوں چاہ رہے ہو اور نہ ہی میں تم سے کوئی وجہ پوچھوں گی، ممکن ہے تمہارا فیصلہ بہتر ہو۔ میں بہر حال تمہارا انتظار کروں گی‘‘۔ یہ کہہ کر میری کوئی بات سنے بغیر اس نے فون آف کر دیا۔ اسے بلاشبہ دکھ ہوا تھا اور اس کے دکھ پر میں تڑپ کر رہ گیا تھا۔ یہ ایسے لمحات تھے، جن میں خود پر جبر کرنا بہت ضروری تھا۔ میں جذباتی کیفیت میں تھا، اس لیے تھوڑی دیر اپنے کمرے میں رہا اور پھر ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔ جہاں شاہ اور مسز شاہ آنکے ہوئے تھے۔ خوشگوار ماحول میں گپ شپ ہو رہی تھی۔ میں ان کے ساتھ بہت تپاک سے ملا اور پھر دادا جی کے ساتھ ہی صوفے پر آ بیٹھا۔ تبھی شاہ صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھا، مجھے بلال کے بارے میں یہ بات جب پتہ چلی تو بہت اچھی لگا کہ اپنے دادا جی سے بہت پیار کرتا ہے اور دادا جی بھی ، اس سے ۔۔۔‘‘
’’جی شاہ صاحب۔۔۔!‘‘ دادا نے تحمل سے کہا۔ ’’تاجر کو اپنے اصل مول سے کہیں زیادہ اپنے منافع سے پیار ہوتا ہے۔ بس مجھے تو ایک ڈر رہتا ہے‘‘۔
’’و ہ کیا۔۔۔‘‘ شاہ صاحب نے دلچسپی سے پوچھا تو دادا جی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’جب میں نہیں رہوں گا تو پھر اس کا کیا حال ہو گا، اتنا پیار اسے کرنا نہیں چاہئے‘‘۔
میں نے ان کی بات سن کر تڑپ کے ان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک فقرے میں بہت کچھ کہہ گئے تھے۔ اتنا کچھ کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے میری سوچوں پر بندھ باندھ کر رکھ دیا۔ ممکن ہے، ہمارے درمیان کوئی مزید بات چلتی ، ہمارے ملازم نے آ کر کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔ تب ہم سب میز پر آ گئے۔ میں اس سارے دورانیے میں خاموش رہا۔ پاپا اور شاہ صاحب باتیں کرتے رہے۔ گاہے بگائے خواتین بھی بات کر لتیں۔ میرا دل بجھ گیا تھا۔ نہ جانے کیوں اس وقت مجھے یہ خیال آ رہا تھا کہ میں نے بے جا ضد کر کے اچھا نہیں کیا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
ڈنر کے بعد دوبارہ جب ڈرائنگ روم میں چلے گئے تو شاہ صاحب نے خود ہی ہمارے بارے میں بات چھیڑ دی۔ تبھی ماما نے میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں یاسیت بھری ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کوئی رنسپاس نہیں دیا اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگا تو مسز شاہ بولیں۔
’’بلال بیٹا۔۔۔ کدھر جا رہے ہو۔ بیٹھو‘‘۔
’’وہ میں۔۔۔‘‘ میں نے کہنا چاہا تو شاہ صاحب بولے۔
’’ارے بیٹھو یار۔۔۔! تمہارے متعلق بات ہے اور تم ہی نہ ہو۔ میں مانتا ہوں کہ ہماری مشرقیت میں ایسا لحاظ ہونا چاہئے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر بچے ہمارا لحاظ کرتے ہیں تو ہمیں بھی ان پر اعتماد کرن چاہئے‘‘۔
’’بالکل ۔۔۔! آپ نے درست کہا۔شاہ جی ، زندگی انہوں نے گزارنی ہے‘‘۔ پاپا نے بہت محتاط انداز میں کہا۔
’’دیکھیں جی، اب آپ سے کیا پردہ، فیصلہ تو یہ خود کر چکے ہیں۔ اب یہ ان کی سعادت مندی ہے کہ انہوں نے ہمارا احترام کیا۔ ہمیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا، میرا خیال کہ زویا نے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا۔ میں راضی ہوں‘‘۔
’’شاہ جی ، آپ کے منہ میں گھی شکر، ہم آپ کی طرف سے ہی ہاں سننے کے منتظر تھے‘‘۔ دادا نے انتہائی خوشدلی سے کہا اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے یوں پکڑ لیا کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ادا نہ کروں۔ میں خاموش رہا۔ تب پاپا نے کافی خوشی دلی سے کہا۔
’’شاہ صاحب۔۔۔! یہ آپ کی بہت مہربانی کہ آپ نے ان بچوں کا ہمارا اور اپنا مان رکھا۔ جیسا آپ کہیں گے ہم ویسے ہی آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں۔ کیونکہ ہماری خوشیاں ان بچوں کے ساتھ ہی ہیں‘‘۔
’’آپ کو یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ میں خاندان سے باہر یہ رشتہ کر رہا ہوں۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ اپنی خاندانی روایات کی خاطر میں اپنی بیٹی کی خوشیوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتا، اس نے میرا مان رکھا ہے تو میں بھی اسے خوشیاں دینے سے دریغ نہیں کروں گا۔ بس میں ہی چاہتا ہوں کہ کبھی بھی مجھے اپنے خاندان کی طرف سے یہ طعنہ سننے کو نہ ملے کہ میں نے کوئی غلط فیصلہ کیا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں دکھ تر آیا تھا۔
’’نہیں شاہ جی، مجھے اپنے پوتے پر فخر ہے۔ یہ بات بلا ل اچھی طرح سمجھتا ہے، میری اس سے بہت بات ہو چکی ہے اس موضوع پر، آپ بے فکر رہیں۔ بس اب تو میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ بچے جلد از جلد اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں‘‘۔ دادا نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو مسز شاہ بولیں۔
’’ہاں جی! بیٹی والے ہمیشہ جلدی میں ہوتے ہیں‘‘۔ آپ جب چاہیں۔ شگون لے کر ہمارے ہاں آ جائیں۔ ہم آپ کے منتظر ہوں گے‘‘۔
’’ہم تو کل ہی آنے کو تیار ہیں‘‘۔ ماما نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر جلدی سے اٹھتے ہوئے بولیں‘‘۔ اس خوشی کے موقعہ پر منہ میٹھا تو ہونا چاہئے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اندر کی طرف چلی گئیں۔
’’بلال، تم نہیں بولے کچھ، تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ مسز شاہ نے یونہی پوچھا تو دادا نے میرا ہاتھ مزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جب بڑے بات کر رہے ہیں تو پھر مجھے بات کرنے کی کیا ضرورت اور آپ میں سے کسی نے بھی مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا، جس کا میں جواب دوں‘‘۔
’’چلو اب کر لیتے ہیں سوال، منگنی کی تقریب گھر میں ہونی چاہئے یا کسی ہوٹل وغیرہ میں۔ تم دونوں اپنے دوستوں کو دعوت دو گے، یا ہم صرف فیملی والے ہوں گے اور پھر سب سے بڑی بات کہ منگنی ہونی بھی چاہئے یا۔۔۔‘‘ انہوں نے خوشدلی سے کہا تو میں بولا۔
’’آنٹی۔۔۔! آپ بڑے ہیں، آپ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، لیکن پہلے مجھے اور دادا جی کو جھتوال جانا ہے، وہیں بھان سنگھ کی شادی ہے۔ وہاں دو ہفتے تو لگ جائیں گے، شادی بھی ہو گی اور کوئی کاروباری باتیں بھی ہو جائیں گی، بعد میں سیدھے سبھاؤ نکاح ہی ہو جائے گا۔ میری بہر حال یہ رائے ہے‘‘۔ میں نے جان بوجھ کر یہ کہا تاکہ دادا جی کا رد عمل دیکھ سکوں تبھی مسز شاہ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، اگر آپ لوگ جلدی جانا چاہتے ہیں تو ۔۔۔جو فیصلہ کر لیں، اگر کچھ دیر بعد جانا ہے تو۔۔۔ اب یہ آپ دونوں پر ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
وہ انجانے میں وہ بات کہہ گئیں جو میں دادا جی سے کرنا چاہ رہا تھا۔ تبھی پاپا نے کہا۔
’’یہ تو ابھی پلان ہیں، ایک دو دن میں یہ سب طے کر کے آپ کو بتا دوں گا۔ بہر حال اب یہ طے ہے کہ ہم نے ان بچوں کی شادی کرنی ہے اور بہت اچھے انداز میں کرنی ہے، دونوں ہی اکلوتے ہیں‘‘۔
’’بالکل۔۔۔! آپ نے ٹھیک کہا‘‘۔ شاہ صاحب نے کہا۔ اتنے میں ماما کافی ساری مٹھائی لے آ گئیں۔ یوں باتوں کا رخ کسی دوسری طرف ہو گیا۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شاہ صاحب اور مسز شاہ خوشی خوشی رخصت ہو گئے۔
میں اپنے کمرے میں آیا اور آتے ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔ دادا جی نے عین وقت پر میرا ہاتھ ہی نہیں ، مجھے بھی دبا کر اپنی بات منوا لی تھی۔ مجھے رہ رہ کر زویا کی بات یاد آ رہی تھی۔ میں نے اسے ہرٹ کیا تھا۔ وہ خوشی جو اس موقعہ پر ہونی چاہئے تھی، وہ نہیں ہو رہی تھی۔ ایک افسوس تھا جس نے میرے پورے وجود کو بہت بھاری بھاری کر دیا تھا۔ میں اوندھے منہ پڑا تھا کہ دادا کے بیڈ پر بیٹھنے کا احساس کر کے میں سیدھا ہو گیا۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اوئے پتندرا۔۔۔! یوں کیسے پڑا ہے۔ چل تو جو چاہتا ہے۔ویسا ہی کر لے۔ میں تیری بات مان لیتا ہوں‘‘۔
’’لیکن دادا جی، و ہ خوشی تو نہ ہوئی نا، جو آرام سے بات مان لینے میں تھی۔ ہم دونوں ہی نے ایک دوسرے کو بلیک میل کیا ہے، کیا فائدہ ایسی خوشی کا‘‘۔ میں نے افسوس بھرے انداز میں کہا تو وہ سنجیدگی سے بولے۔
’’پتر۔۔۔! جب تو میری عمر میں آئے گا نا تو تجھے پتہ چلے گا، عزت کیا شے ہوتی ہے۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ تو نے جھتوال جانے کا کیوں کہا۔ بس ایک بات کی فکر ہے مجھے‘‘۔
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دیکھو۔۔۔! ایسا تو نہیں ہے کہ ہم جائیں اور جاتے ہی کہہ دیں کہ آؤ امرت کور ہم تمہیں لینے کے لیے آئے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ چل پڑے گی۔ ایسا نہیں ہے میرے بچے، اس کا ایک خاندان ہے، ان کی وہاں عزت ہے، ان کی بھی کوئی رائے ہو گی، اور زویا سے بھی میری بات ہوئی تھی۔ اس کے مطابق ، ابھی تک تم لوگوں نے اس کے ساتھ بھی کوئی سنجیدہ بات نہیں کی۔ فرض کر لو، میں مان گیا ہوں، امرت کور مان گئی، لیکن اس کے خاندان والے آڑے آ گئے۔ یہ صورتِ حال ایسی نہیں ہے کہ جیسے تم دو نوجوانوں کی ہے‘‘۔
’’میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ سب راضی ہوں تو پھر آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہو گانا۔۔۔‘‘ میں نے تیزی سے پوچھا۔
’’نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘۔ انہوں نے حتمی انداز میں کہا تو میں نے جلدی سے پوچھا۔
’’تو پھر میں پاپا اور ماما سے بات کر لوں۔۔۔ انہیں۔۔۔‘‘
’’ساری بات معلوم ہے، تمہاری بے جا ضد کی وجہ سے میں نے انہیں، ساری بات بتا دی تھی۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور زویا کو بھی میں نے ابھی فون کر کے بتا دیا ہے کہ پریشان نہیں ہونا، بلال ایویں خواہ مخواہ کی بونگیاں مار رہا ہے‘‘۔ آخر لفظ کہتے ہوئے دادا ہنس دیئے۔ میں ان سے لپٹ گیا۔ وہ دیر تک مجھے پیار کرتے رہے۔ پھر ان سے الگ ہو کر بولا۔
’’آئیں۔۔۔! آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ آؤں۔ پھر میں بھان اور پریت کے ساتھ گپ شپ لگا کر انہیں ساری صورت حال بتاتا ہوں‘‘۔
’’تو نے جو کرنا ہے کر، میں چلا جاؤں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔ میں نے جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور اسے آن کیا۔ میری توقع کے مطابق ، زویا، بھان اور پریت آن لائن تھے۔ میرے آن لائن ہوتے ہی مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ زویا نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔ میں نے آہستہ آہستہ انہیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا۔
’’اب جو کچھ کرنا ہے تم لوگوں نے کرنا ہے‘‘۔ میں نے بھان اور پریت سے کہا۔
’’مگر تم نے جو زویا کو ہرٹ کیا، یہ غلط کیا‘‘۔ بھان نے فوراً کہا۔
’’یہ پارٹ آن گیم تھا یار، زویا کو بھی معلوم ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر دیکھ لو، وہ اب بھی نخرے دکھا رہی ہے‘‘۔ میں نے لکھا۔
’’میں کوئی نخرے نہیں دکھا رہی‘‘۔ زویا نے کہا۔
’’اچھا چلو ٹھیک ہے، میں اسے منالوں گا، اب تم لوگ ماحول کو بہتر کرو تو میں دادا کو لے کر جھتوال آ جاؤں‘‘۔ میں نے کہا۔
’’تم آ جاؤ، میری دادی ہرنیت سے بات ہو گئی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ سریندر پال سنگھ انکل ، کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ یہ سارا معاملہ کیا ہے۔ تمہارے آنے تک مزید بات کر لیں گے۔ فکر نہ کرو‘‘۔ بھان سنگھ نے کہا تو میں مطمئن ہو گیا۔ اس کے بعد ہم کافی دیر تک اِدھر اُدھر کی اور مستقبل کی باتیں کرتے رہے۔ رات گئے تک ہماری باتیں جاری رہیں۔
میں اور دادا جی دوستی بس میں بیٹھ گئے تو میرے جذبات میں خواہ مخواہ کی طغیانی آ گئی۔ میں اس وقت پُر جوش تھا۔ دادا کے من کی حالت کیا ہو گی، میں اس کے بارے میں سوچ ہی سکتا تھا، اس بارے اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ دادا جی سے بات ہونے اور امرتسر کی طرف روانگی میں محض دو ہفتے ہی گزرے تھے۔ میری اور دادا جی کی تیاری میں فرحانہ نے بہت دلچسپی لی۔ اسے ان دنوں میں معلوم ہوا تھا کہ میرے اور دادا جی کے درمیان کیا کھچڑی پکتی رہی تھی۔ جھتوال سے میرا فون اور کمپیوٹر کے ذریعے رابطہ تھا ۔ وہاں پر ماحول بالکل درست ہو گیا تھا۔ ہمیں بس تک چھوڑنے کے لیے جہاں سب آئے، وہاں زویا بھی ٹھیک وقت پر پہنچ گئی۔ اس نے تحائف کا ایک بیگ مجھے تھما دیا۔ بس چل پڑی تو لاہور پیچھے رہ گیا۔ واہگہ پر ہمیں کافی وقت لگ گیا۔ اس وقت شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ جب ہم امرتسر میں پہنچے۔ ہمارے استقبال کے لیے بھان سنگھ تو تھا ہی، اس کے ساتھ امریک سنگھ کو دیکھ کر میں خوش ہو گیا، وہ بڑے غور سے دادا نور محمد کو دیکھ رہا تھا، ممکن ہے ماضی کا کوئی حوالہ یاد کر رہا ہو، وہ دونوں بڑے تپاک سے ملے پھر بھان سنگھ سے بولا۔
’’چل بھئی کا کا۔۔۔! سورج غروب ہونے سے پہلے گاؤں پہنچا دے‘‘۔
بھان سنگھ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، دادا جی اس کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جبکہ میں اور امریک سنگھ پچھلی نشست پر آ گئے گاڑی چلتے ہی باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ دادا گاؤں کے پرانے لوگوں کے بارے میں امریک سنگھ سے پوچھتا رہا اور وہ بتاتا رہا۔ جس وقت ہم گاؤں جانے والی ذیلی سڑک پر مڑے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ میں دادا کی طرف دیکھ رہا تھا، ان کی حالت دیدنی تھی۔ بھیگی ہو ئی پلکیں، ستا ہوا چہرہ اور تنا ہوا وجود، حتیٰ کہ جب وہ بولے تو ان کا لہجہ بھی بھیگا ہوا تھا۔
’’یار بھان۔۔۔! سب سے پہلے قبرستان کا طرف چلو۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے دادا جی‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ کچھ دیر بعد ہم وہاں پہنچ گئے جو کھیت اب قبرستان کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ دادا جی نے پانی کی بوتل اٹھائی اور مجھ سے وضو کرانے کے لیے کہا۔ میں نے انہیں وضو کرایا تو انہوں نے نمازِ جنازہ کی نیت باندھ لی۔ پھر کافی دیر تک دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے رہے۔ جب انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ان کے چہرے پر کافی حد تک بشاشت اتر آئی تھی۔اس دوران میں نے فاتحہ پڑھ لی۔
’’چل بھئی بھان۔۔۔! اب تو جدھر چاہے لے چل‘‘۔ دادا نے اس کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد ہم حویلی جا پہنچے۔
سارا گھر باہر والے پھاٹک پر جمع تھا۔ ان کے ساتھ امرت کور کا سارا پریوار تھا، نہیں تھی تو فقط امرت کور نہیں تھی۔ میں پریشان ہو گیا۔ پریت کور اپنے ہاتھ میں بڑا سارا تھال لیے کھڑی تھی۔ اس میں پھول تھے اور درمیان میں تیل کی پیالی۔ پھاٹک پر ہی ہمیں اتار لیا گیا۔ اس وقت وہ کوئی گیت گا رہی تھیں، جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔ میں تو دادی پرونت کور کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جو بھیگی آنکھوں سے ایک ٹک نور محمد کو دیکھے چلی جا رہی تھی۔ دادا بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پریت کور نے دروازے کے دونوں اطراف تیل ڈالا پھر دادا نور محمد پر پھول نچھاور کیے۔ دادا نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا سر چوم لیا۔ پھر جیسے ہی آگے بڑھے تو دادی پرونت کور نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ دادا اس کے گلے لگ گئے اور وہ دونوں اس قدر دھاڑیں مار مار کر روئے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ جب ان کے رونے کے جوش میں ذرا کمی ہوئی تو پردیپ سنگھ سے ملے۔
پھر وہاں پر موجود ہر مرد اور عورت سے ان کی حیثیت کے مطابق ملے۔ کسی سے ہاتھ ملایا، کسی کے سر پر پیار دیا۔ کسی کے گلے ملے۔ تبھی دادی پرونت کور نے کہا۔
’’آوے نور محمد۔۔۔! تجھے میں سردار بلوندر سنگھ کے سپتر سے ملواؤں‘‘۔
قریب ہی سریندرپال سنگھ، ست نام کور، گینت کور کھڑے تھے۔ دادا انہیں چند لمحے دیکھتا رہا، پھر سریندر کے گلے لگا، باری باری ملا اور بولا۔
’’سردار بلوندر سنگھ کا مجھ سے بڑا پیار تھا‘‘۔
’’میں جانتا ہوں نور محمد، ایک ایک بات جانتا ہوں، خیر، کیسا رہا سفر ‘‘، ان باتوں کے بعد کچھ دیر میں وہ سب حویلی کے اندر چل دیئے تو میں نے بھان سنگھ کو ایک طرف لے جا کر کہا۔
’’اوئے امرت کور۔۔۔! وہ کدھر ہے؟‘‘
’’پریت سے پوچھتا ہوں، آؤ‘‘۔ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں اندر کی طرف چل دیئے۔ پریت اور گینت دونوں کاریڈور کے آخری سرے پر کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔ ہم ان کے پاس چلے گئے اور جاتے ہی امرت کور کے بارے میں پوچھا۔ تب گینت کور بولی۔
’’ویرے۔۔۔! ہم نے یہاں ساتھ آنے کے لیے کہا تھا، مگر وہ ہمارے ساتھ آنے کی بجائے گرودوارے چلی گئیں۔ ہو سکتا ہے، کچھ دیر بعد آ جائیں یا پھر صبح۔۔۔‘‘
’’چل ہم اسے لے آتے ہیں‘‘۔ بھان سنگھ کے کہا تو میں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم دونوں ہی پیدل گرودوارے تک گئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ واپس چلی گئی۔ ہم ان کی حویلی کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچے تو وہ ہمیں دالان ہی میں بیٹھی مل گئی۔ اس کے پاس گھرا یک ملازمہ بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے دور ہی سے دیکھ کر اٹھی گئی اور پھر اسی پیار بھری شدت سے ملی۔
’’میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ نور محمد کو لے آیا ہوں جھتوال‘‘۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں پتر۔۔۔!اچھا کیا، میرے وعدوں سے پہلے ہی تو نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ آؤ بیٹھو‘‘۔ امرت کور نے ایک رنگین پیڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔ دوسرے پر بھان سنگھ بیٹھ گیا تو میں نے کہا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ اب آپ کی زندگی سلامت رکھے، ابھی آپ نے میری اور زویا کی شادی دیکھنی ہے اور ابھی بڑا کچھ۔۔۔‘‘
امرت کور نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے ملازمہ سے دودھ لانے کو کہا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔
’’بات وعدوں کی ہے نا پتر۔۔۔! تو دودھ پی لے۔۔۔ پھر میں کھانا لگواتی ہوں تیرے لیے‘‘۔
’’ادھر حویلی میں سب کے ساتھ کھاتے ہیں۔ بے بے اور چاچی نے بڑا اچھا انتظام کیا ہوا ہے‘‘۔ بھان سنگھ نے جلدی سے کہا۔
’’چلو ابھی دودھ تو پیو‘‘۔ امرت کور نے کہا۔
اس وقت ہم دودھ پی رہے تھے۔ جب دونوں خاندانوں کے سارے افراد حویلی میں داخل ہوئے۔ ان میں دادی پرونت کور بھی تھی اور دادا نور محمد بھی۔ امرت کور انہیں دیکھتے ہی کھڑی ہو گئی۔ وہ ایک ٹک دادا نور محمد کو دیکھے چلی جاری تھی۔ جیسے پہلی بار انہیں دیکھ رہی ہو، اس کا گلابی رنگ سرخ ہو گیا تھا۔ تبھی دادی پرونت کور نے کہا۔
’’میں جانتی تھی کہ امرت کور ایسے نہیں آئے گی، اسے جا کر لانا پڑے گا۔ دیکھ نور محمد تجھے لینے کے لیے آیا ہے۔ اب چل ہمارے ساتھ۔۔۔‘‘
’’جانا تو پڑے گا پرونت کورے۔۔۔ وعدے جو پورے ہو گئے ہیں‘‘۔
اس وقت تک دادا نور محمد اس کے قریب جا کھڑا ہوا تھا، سب اس کی طرف دیکھا رہے تھے، اس نے اپنا ایک بازو بڑھایا اور پہلو سے لگ کر دادا جی سے ملی، تبھی دادا نے ہولے سے پوچھا۔
’’کیسی ہوا امرت کور۔۔۔؟ ‘‘
’’میں ٹھیک ہوں‘‘۔ امرت کور یوں بولی، جیسے کسی گہرے کنویں سے بول رہی ہو۔
’’میں تمہارا اور پرونت کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم دونوں نے حاجراں کی قبر بنا دی۔ میں پہلے ادھر ہی۔۔۔‘‘
لفظ دادا کے منہ ہی میں رہ گئے۔ امرت کور نے اوپر کی جانب دیکھا ، دونوں ہاتھ جوڑے اور زور زور سے واہِ گرو۔۔۔ واہِ گرو۔۔۔ کہنے لگی، یوں جیسے اس پر وجد طاری ہو گیا ہو۔پھر ایک دم سے خاموش ہوئی اور کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح گری، دادا ہی اس کے نزدیک کھڑے تھے۔ انہوں نے اسے اپنی بانہوں میں سنبھال لیا۔ ایک دم ہی سے وہاں افراتفری مچل گئی۔ دادا اور سریندر پال سنگھ اسے ہوش میں لانے لگے، مگر وہ وہاں تھی ہی نہیں۔ اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔
گاؤں کے ایک کونے سے رستہ اس اجڑے ہوئے میدان میں جاتا تھا، جہاں امرت کور کا جسد خاکی لکڑیوں کے ایک ڈھیر کے اوپر لا کر رکھ دیا گیا تھا۔ گاؤں بھر کے لوگ وہاں موجود تھے۔ میں اور دادا نور محمد بھی سوگوار سے وہیں کھڑے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد امرت کور کے جسد خاکی کو آگ دکھا دی جانے والی تھی۔ آخری رسومات ادا کر دی گئیں تھیں اور جب لاشے کو آگ دکھانے کا وقت آیا تو اس لمحے گرودوارے کا گیانی آگے بڑھا اور اس ے بھڑکتا ہوا شعلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، پھر سب کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔
’’امرت کور جی، روزانہ گرودوارے آتی تھیں۔ وہ سچے بادشاہ گرو مہاراج جی کی سچی سیوک تھی۔ کل وہ آئی تو اس نے مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ بلکہ اپنے ہاتھ سے ایک چھٹی بھی لکھ کر مجھے دی ۔وہ خواہش اس چھٹی میں بھی درج ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے وہ چھٹی سریندر پال سنگھ کی طرف بڑھا دی۔ اس نے پڑھی تو گیانی نے سر اٹھا کر اونچی آواز میں کہا۔ ’’امرت کور جی کو خواہش تھی کہ اس کی چتا کو آگ نور محمد لگائے‘‘۔
ایک دم سے وہاں پراسراسمیگی پھیل گئی۔ تبھی گیانی نے اونچی آواز میں کہا۔
’’اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سچے بادشاہ گرو مہاراج کے نزدیک نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان، ان کے نزدیک ہر وہ بندہ سکھ ہے جو سچا ہے، وہ چاہے ہندو ہے، عیسائی ہے، یا مسلمان، اسی لئے شری گرو گرنتھ صاب میں سب کی بانیاں ہیں۔ وہ چاہے فرید جی ہوں یا کبیر جی، بابا بھگت ہو یا دھا نے جٹ کی، جس وقت سچا سکھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے شریر کو کوئی بھی سچاپرکھ، اس کے گرو کو مان کر، اس شریر کو اگنی کی سیک دے سکتا ہے۔ سچے سکھ کی آتما تو پہلے ہی سچے گرو کے پاس پہنچ جاتی ہے‘‘۔
اس کے خاموش ہوتے ہی ہر طرف خاموش چھا گئی۔ سریندر سنگھ نے اس شعلے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر دادا نور محمد کی طرف بڑھا دیا۔ وہ چند لمحے کھڑے سوچتے رہے۔ پھر آگے بڑھ کر چتا کو آگ دکھا دی۔ تب میں نے دیکھا دادا نور محمد کے آنسونکل پڑے تھے۔ وہ ضبط نہ کر سکے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔ سریندر پال سنگھ نے انہیں گلے لگا لیا۔ ان لمحات میں میری ادا سی بڑھ گئی تھی۔ امرت کور نے مجھے اور دادا نور محمد کو بہت بڑے امتحان سے بچا لیا تھا۔ میں جیسے غور کر رہا تھا۔ مجھ پر بہت سارے راز افشا ہونے لگے تھے۔
امرتسر تک جھتوال کے بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ آئے۔ جس وقت ہم ان سے رخصت ہوئے تو سریندرپال سنگھ نے دادا نور محمد سے کہا۔
’’آپ نے بلال اور زویا کی شادی پر ہمیں ضرور بلانا ہے۔ امرت کور میرے لیے بھی ایک خط چھوڑ گئی تھی۔ اس میں امرت نے بلال اور زویا کے لیے ، بھان اور پریت کے لیے بہت کچھ دینے کو کہا ہے، وہ امانت ہے میرے پاس‘‘۔
’’جی ضرور۔۔۔!‘‘ دادا جی نے وعدہ کیا اور ہم وہاں سے رخصت ہو گئے۔ بھان اور پریت کی شادی نہیں ہو سکی تھی۔ وجہ امرت کور کی وفات تھی۔
واہگہ سرحد پر ہم ضروری کارروائی کے بعد باہر نکلے تو سامنے ہی پاپا کے ساتھ زویا کو دیکھ کر میری حیرت دوچند ہو گئی۔ ذرا فاصلے پر شاہ صاحب، مسز شاہ، ماما اور فرحانہ بھی موجود تھے۔ ملنے ملانے کے دوران پاپا نے پوچھا۔
’’کیسا رہا ٹور۔۔۔؟‘‘
’’بس دادا جی کی لواسٹوری ختم کر کے آیا ہوں‘‘۔
’’اور، اس پتندر کی لواسٹوری اب شروع ہو گئی ہے‘‘۔ دادا جی نے بے ساختہ کہا تو سب زور سے ہنس دیئے۔
’’چلو چلیں، باقی باتیں گھر چل کر کریں گے‘‘۔ پاپا نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کہا تو سبھی گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا زویا ایک الگ گاڑی میں بیٹھ رہی ہے۔ میں نے دادا جی کو ساتھ لیا اور اس میں جا بیٹھا۔ باقی دوسری گاڑیوں میں چل پڑے۔ تبھی میں نے پوچھا۔
’’یہ سب کیسے۔۔۔؟‘‘
’’تمہاری امرت کور کی وجہ سے‘‘۔ زویا نے معنی خیز انداز میں تو میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’امرت کور میری نہیں، دادا جی کی تھی، میری تو تم ہو‘‘۔
’’شاباش پتر۔۔۔! ہر جگہ دادے ہی کو بدنام کرنا‘‘۔
اس پر گاڑی میں ایک زور دار قہقہہ پھیل گیا۔ زویا نے محبت پاش نگاہوں سے دیکھا تو مجھے ہر طرف محبت بکھری ہوئی دکھائی دینے لگی۔
٭٭٭
مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید