فہرست مضامین
اقبال کی آخری علالت
سید نذیر نیازی
ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال
مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت
۱۹۳۶ء کی سردیاں آئیں تو حضرت علامہ کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی اور ۱۹۳۷ء کے اختتام تک صحت کی یہ رفتار برابر قائم رہی۔ اس زمانے میں ایسا بھی ہوا کہ کبھی کبھی ان کی آواز نہایت صاف ہو جاتی علی ہذا تنفس اور بلغم میں بھی کمی تھی۔ البتہ کمزوری کا احساس باقی تھا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت علامہ پلنگ پر لیٹے رہنے کی بجائے اکثر نشست کے کمرے میں آ بیٹھتے مگر انہوں نے خود پڑھنا لکھنا ترک کر دیا تھا کیونکہ مارچ یا اپریل ۱۹۳۷ء میں موتیا بند کی علامتیں قطعی طور سے ظاہر ہو گئی تھیں۔ بہر کیف اب ان کی خواہش تھی کہ قرآن پاک کے حقائق و معارف کے متعلق اپنا دیرینہ ارادہ پورا کریں۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کس رنگ میں ؟تفسیر و تشریح یا ابتدائی مطالعہ کے لیے ایک مقدمہ؟ بالآخر موجودہ زمانے کی اجتماعی تحریکات کو دیکھتے ہوئے ان کے دل میں یہ خیال دن بدن مستحکم ہوتا چلا گیا کہ اس وقت ضرورت اسلام کے نظام عمرانی کی تصریح و توضیح کی ہے وہ چاہتے تھے کہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کی مانند تشکیل جدید فقہ اسلامی پر قلم اٹھائیں اور دیکھیں کہ قرآن پاک نے ان مسائل کی رہنمائی کس انداز میں کی ہے۔ لیکن اس کے لیے وقت کی ضرورت تھی اور ان حضرات کی بھی جو فقہ اسلامی پر نظر رکھتے ہوئے جدید عمرانی رجحانات کو سمجھتے ہوں۔ بایں ہمہ انہوں نے اس غرض سے یورپ اور مصر کی بعض نئی مطبوعات فراہم کرنا شروع کر دی تھیں لیکن افسوس ہے کہ اس تصنیف کا کام استفصائے مسائل، ترتیب مقدمات اور تقسیم مباحث سے آگے نہیں بڑھا اور وہ بھی صرف ان کے غور و فکر اور گفتگوؤں کی دنیا میں۔ آگے چل کر جب وہ اپنی صحت سے ناامید ہو گئے تو اس ارادے کی ناکامی سے اس قدر شکستہ خاطر تھے کہ دو ایک بار فرمایا۔ ’’میں یہ کتاب لکھ سکتا تو اطمینان سے جان دیتا۔ ‘‘
تشکیل جدید فقہ اسلامی کا ارادہ ملتوی ہوا تو ان کا ذہن جس کی تیزی اور سر گرمی جمود تعطل کی بجائے دن بدن بڑھتی جاتی تھی، ایک دوسری جانب منتقل ہو گیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ میں صبح و شام ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور گھنٹوں مباحث پر ان سے گفتگو کرتا۔ ایک مرتبہ حضرت علامہ نے فرمایا۔ ’’لوگوں سے بات چیت کرنے میں بہت سے عمدہ خیالات سوجھتے ہیں مگر بعد میں کوئی یاد رہ جاتا ہے اور کوئی نہیں۔ ‘‘میں نے خلاف ارادہ عرض کیا کہ میں نے تو اپنی بساط کے مطابق آپ کے ارشادات کا ایک روزنامچہ تیار کر رکھا ہے۔ کہنے لگے ’’ایکرمان کی طرح ؟‘‘میں اپنی بے مایگی کے احساس سے خاموش ہو گیا۔ انہوں نے کہا ’’اگر تم اپنے ساتھ ایک یادداشت بھی رکھ لو تو کیا خوب ہوتا کہ جس بات کو کرنے کو کہا جائے فوراً قلم بند ہو جائے۔ ‘‘ لیکن ابھی دو ایک باتیں ہی درج یادداشت ہوئی تھیں کہ یہ امر واضح طور سے محسوس ہونے لگا کہ حضرت علامہ کے افادات ایک کتاب کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ میں ہر روز عہد نامہ عتیق یا اناجیل کا کوئی حصہ پڑھ کر سنایا کروں یہ مشغلہ کئی روز تک جاری رہا۔ عہد نامہ عتیق پر ان کی تنقید بڑے مزے کی ہوتی اور وہ اس کے انداز بیان اور مطالب کا مقابلہ بار بار قرآن پاک سے کرتے۔ دراصل ان کا خیال تھا کہ نطشے کی کتاب Also Sprachh Zarathustraکی طرح ایک نئی تصنیف What an unknown Prophet said یا The book of an unknown Prophetکے نام سے مرتب کریں۔ اور اس کے لیے انہیں کسی مناسب ادبی اسلوب کی تلاش تھی۔
اس امر کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ تشکیل جدید فقہ اسلامی کی طرح اس کتاب کا تصور بھی کوئی عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ میں ابھی عرض کر چکا ہوں کہ ۱۹۳۷ء میں حضرت علامہ کی صحت سال گذشتہ سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے بدن میں ایک قسم کی تازگی اور قوت محسوس کرنا شروع کی۔ اس سے انہیں پھر امید بندھ گئی کہ شاید کچھ مدت کے بعد سفر کے قابل ہو جائیں۔ اس خیال کے آتے ہی حکیم صاحب قبلہ سے درخواستیں ہونے لگیں کہ تقویت بدن کے لیے کوئی زود اثر اکسیر ایجاد کریں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :
ہے دو روحوں کا نشیمن یہ تن خاکی مرا
ایک میں ہے سوز و مستی ایک میں ہے تاب و تب
ایک جو اللہ نے بخشی مجھے صبح ازل
دوسری وہ آپ کی بھیجی ہوئے روح الذہب
جب سے حضرت علامہ گول میز کانفرنسوں کے سلسلے میں یورپ تشریف لے جا رہے تھے بالخصوص سیاحت اندلس اور افغانستان کے بعد ان کے دل میں برابر یہ شوق پیدا ہو رہا تھا کہ اگر ممکن ہو تو بلادِ اسلامیہ کا سفر کریں تاکہ دنیائے اسلام کی موجودہ ذہنی کشاکش اور اجتماعی اضطراب کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ ان کا خیال تھا جو لوگ ان ممالک کی سیر کرتے ہیں ، ان کی قوتِ مشاہدہ نہایت محدود بلکہ اکثر معدوم ہوتی ہے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر ان کی ایک دیرینہ آرزو تھی اور وہ حرم پاک نبوی کی زیارت تھی۔ ۱۹۳۲ء میں انگلستان سے واپس ہوتے ہوئے جب وہ موتمر اسلامیہ کی شرکت کے لیے بیت المقدس تشریف لے گئے ہیں تو اس وقت سفر حجاز کا سامان تقریباً مکمل ہو چکا تھا لیکن پھر جیسا کہ انہوں نے خود مجھ سے فرمایا۔ ’’اس بات سے شرم آتی تھی کہ میں گویا ’’ضمناً‘‘ دربار رسولؐ میں حاضر ہوں۔ ‘‘ خیر اس وقت تو یہ ارادہ پورا ہونے سے رہ گیا مگر ان کے تاثرات دب نہ سکے اور ان کا اظہار اس نظم میں ہوا جو ’’ذوق شوق‘‘ کے عنوان سے بالِ جبریل میں موجود ہے۔ اب ۱۹۳۷ء میں ان کی حالت بہتر ہوئی تو انہوں نے مختلف جہاز راں کمپنیوں سے خط و کتابت شروع کر دی۔ خیال یہ تھا کہ ۱۹۳۸ء میں نہیں تو ۱۹۳۹ء میں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منور کی زیارت سے فیض یاب ہو سکیں۔ رفتہ رفتہ انہوں نے عالم تصور میں اس مقدس سفر کی تمام منزلیں طے کر لیں۔ ادھر وفور شوق نے ان کے درد بھرے ساز کو چھیڑا اور ادھر ان کی زبان جوش و خروش میں ترانہ ریز ہوئی ؎
بایں پیری رہ یثرب گرفتم
نوا خواں از سرور عاشقانہ
چوآں مرغے کہ در صحرا سر شام
کشاید پر بہ فکر آشیانہ
انہوں نے خیال ہی خیال میں احرام سفر باندھا اور ارض پاک کو روانہ ہو گئے
’’الا یا خیمگی خیم فروہل
کہ پیش آہنگ بیروں شدز منزل‘‘
خرد از راندن محمل فروماند
زمام خویش دادم در کف دل
کبھی وہ عین حرم کعبہ میں اپنی بے تابی کا اظہار کرتے ؎
بدن داماند و جانم درتگ و پوست
سوئے شہرے کہ بطحا در رہ اوست
توباش ایں جا و با خاصاں بیامیز
کہ من دارم ہوائے منزل دوست
اور کبھی دیار حبیب صلعم میں پہنچ کر ان کی بے چین روح کو تسکین و قرار کی ایک دولت ہاتھ آ جاتی ہے ؎
دریں وادی زمانی جاودانی
ز خاکش بے صور روید معانی!
حکیماں یا کلیماں دوش بر دوش
کہ ایں جاکس نہ گوید ’لن ترانی‘!
اب طبیعت میں آمد کا وہ زور تھا کہ رباعیوں پر رباعیاں موزوں ہوتی چلی گئیں۔ پچھلے سال کی برسات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک روز مجھ سے ارشاد فرمایا ’’نیازی صاحب !ارمغان حجاز کا مسودہ صاف کرنا ہے۔ ‘‘عنوان کتاب اور رباعیات (یا قطعات اس لیے کہ اوزان کی روسے غالباً انہیں قطعات کہنا ہی زیادہ مناسب ہو گا اگرچہ حضرت علامہ نے خود ان کو رباعیوں ہی سے تعبیر کیا) کا ذکر تو روز مرہ کی صحبتوں میں اکثر آتا رہتا تھا لیکن یہ سن کر اور بھی مسرت ہوئی کہ مسودے کی تبیض کا وقت آ پہنچا۔ ۱۹۳۶ء سے اشعار کی ترتیب و تسوید کی خدمت حضرت علامہ نے میرے ہی ذمے کر رکھی تھی جس سے مجھے ان کی شاعری کے نفسیاتی پہلوؤں سے اور زیادہ گہرا اتصال پیدا کرنے کا موقعہ ملا۔ حضرت علامہ کی یہ آخری تصنیف جو ایک طرح سے حجاز کا خیالی سفرنامہ ہے (فرمایا کرتے تھے ’’اصل سفرنامہ تو وہ ہو گاجو حرمین پاک کی زیارت کے بعد لکھا جائے گا) ان کی وفات سے بمشکل ایک ہفتہ پہلے مکمل ہوئے۔ میرا مطلب اس رباعی سے ہے جو آنے والے ’’مرد مسلم‘‘ کے متعلق انہوں نے درج بیاض کرائی ورنہ صحیح معنوں میں اس تصنیف کو مکمل کہنا غلط ہے کیونکہ رباعیات کی آمد اور ان کی تصحیح ترمیم،انتخاب اور قطع و برید کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔ ایک دن جب میں اور چودھری صاحب حسب معمول ان کی خدمت میں حاضر تھے تو فرمایا ’’بیاض لے آؤ اور فہرست مرتب کر دو۔ ‘‘ قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ لمحے میرے اور چودھری صاحب کے لیے کس قدر تکلیف اور رنج کا باعث ہوں گے۔ میں نے فہرست کو ترتیب دے کر عرض کیا ’’اور اردو نظمیں ؟‘‘ فرمایا ’’الگ عنوان دے کر ساتھ ہی شامل کر دو۔ ‘‘
اردو نظموں کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ حضرت علامہ کا مشغلہ سخن تو ہمیشہ جاری رہتا۔ وہ اگر چاہتے بھی تو اسے بند نہ کر سکتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک دن خود مجھے سے ارشاد فرمایا کہ ’’آمد شعر کی مثال ایسی ہے جیسے تحریک جنسی کی ہم اسے چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔ ‘‘کہنے لگے ’’میں بلا ارادہ بھی شعر کہہ سکتا ہوں ‘‘ اور بعض دفعہ ایک ہی شب میں اشعار کی تعداد تین تین سو تک پہنچ گئی۔ ایک دفعہ سو کر اٹھے تو یہ شعر زبان پر تھا ؎
دوزخ کے کسی طاق میں افسردہ پڑی ہے
خاکستر اسکندر و چنگیز و ہلاکو
اور فرمایا ’’اس کا کچھ مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘ بہر کیف ان مثالوں سے ان کے جوش طبیعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے ایک طویل نظم ۱۹۳۶ء میں ہو چکی تھی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً یہ مشغلہ جاری رہا اور متعدد قطعات، نظمیں اور رباعیاں مرتب ہوتی چلی گئیں۔ بعض اشعار کشمیر اور اہل کشمیر کے متعلق تھے۔ خیال تھا کہ یہ مجموعہ شاید حضور اسرافیل کے نام شائع ہو گا گھر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آخری اُردو نظم جو انہوں نے کہی اس کی تاریخ، فروری ۱۹۳۷ء ہے چھ شعر کا ایک مختصر سا قطعہ جس کا موضوع تھا:’’حضرت انسان۔ ‘‘
یوں حضرت علامہ کی علالت کو کم و بیش چار سال گزر گئے۔ پانچویں برس یعنی ۱۹۳۸ء کا آغاز ہوا تو ان کی طبیعت نے یک بیک پلٹا کھایا۔ البتہ ۱۹۳۷ء میں دو ایک روز کے لیے دہلی ضرور تشریف لے گئے تاکہ حکیم صاحب کو نبض دکھا سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مرض کے ازالے کا کچھ بہت زیادہ موثر طریق نہ تھا۔ معلوم نہیں ان کے آخری عوارض کی ابتدا کب ہوئی لیکن جہاں تک میں اپنی قوت مشاہدہ پر اعتماد کر سکتا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ان کی صحت آخر ۱۹۳۷ء ہی سے گرنا شروع ہو گئی تھی۔ میں اس زمانے میں حضرت علّامہ کو دیکھ کر اکثر گھبرا جاتا۔ بسا اوقات وہ اس قدر لاغر اور نحیف معلوم ہوتے جیسے ان کے بدن میں خون ہی نہیں۔ بایں ہمہ ان سے جو کوئی بھی خیریت مزاج دریافت کرتا،فرماتے ’’الحمدللہ، بہت اچھا ہوں۔ ‘‘
اس زمانے میں حکیم محمد حسن صاحب قرشی نے ان کے لیے چند مرکبات تجویز کر رکھے تھے جن سے فائدہ ہوا لیکن ۱۹۳۷ء کا آغاز اور ’’یوم اقبال ‘‘کی تقریب خیر و خوبی سے گزر گئی تو انہیں دفعتاً ضیق النفس کے خفیف سے دورے ہونے لگے ایک روز انہوں نے شکایت کی کہ پچھلی رات کا اکثر حصہ بے خواب گزرتا ہے۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے گردے کے مقام پر درد ہے۔ دو ایک دن نقرس کی تکلیف بھی رہی مگر اس کے بعد بتدریج افاقہ ہوتا گیا۔ رہی نیند کی کمی سو خیال تھا کہ شاید تبدیلی وقت کی وجہ سے ایسا ہو۔ کیونکہ حضرت علامہ دن کا اکثر حصہ سو لیا کرتے تھے اور بے خوابی کے باوجود تھکن یا بے چینی محسوس نہ کرتے۔ ضیق النفس کے لیے قرشی صاحب نے ایک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کر رکھا تھا جس کے استعمال سے فوراً سکون ہو جاتا۔ ان کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو دمہ قلبی (Cardiac Asthma) ہے ضعف قلب کے باعث اور ڈاکٹروں نے اس کی تائید کی۔ اس تکلیف میں حضرت علامہ اکثر بیٹھے بیٹھے سامنے کی طرف جھُک جاتے اور بسا اوقات پائنتی پر تکیہ رکھے اپنا سر اس پر ٹیک دیتے۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان ایام میں انہوں نے دفعتاً مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ علی بخش سے اکثر کہا کرتے تھے:’’۱۹۳۸ء خیریت سے گزر جائے تو سمجھنا کہ اچھا ہوں۔ ’’۲۲فروری کی شام کو مجھ سے شوپن ہاور کے متعلق گفتگو کرتے کرتے یک بیک کہنے لگے ’’نیازی صاحب اس فلسفہ میں کیا رکھا ہے،کچھ بھی نہیں۔ ‘‘میں سمجھا ان کا اشارہ ہے عقل کی بے مایگی کی طرف۔ کہنے لگے۔ ’’علم کی مسرت ،کوئی مسرت نہیں مسرت یہ ہے کہ انسان کی صحت ہو تندرستی ہو۔ ‘‘
اس کے تین روز بعد یعنی ۲۵فروری کی شام کو انہوں نے ضیق کو روکنے کے لیے حسب معمول جوشاندہ پیا مگر دورے کی شدت میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اگلے روز ایلوپیتھک علاج شروع کیا گیا۔ اس میں کچھ دوائیں غالباً دورے کو روکنے اور کچھ نیند کے لیے تھیں۔ اس طرح چند روز آرام سے گزر گئے مگر پھر ۳مارچ کو آخر شب میں ان پر ضعف قلب کے باعث غشی طاری ہو گئی اور وہ اسی حالت میں پلنگ سے نیچے گر گئے۔
قرشی صاحب کا قاعدہ تھا کہ صبح کی نماز کے بعد حضرت علامہ کی خیریت معلوم کرنے اکثر جاوید منزل تشریف لے جاتے۔ اس روز بھی حسن اتفاق سے ایسا ہی ہوا۔ قرشی صاحب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت علامہ دم کشی کے باعث تکلیف میں ہیں انہوں نے جہاں تک ممکن تھا اس وقت مناسب تدابیر کیں اور پھر سیدھے میرے ہاں چلے آئے ان کی اس غیر متوقع تشریف آوری پر مجھے ایک گونہ تعجب ہُوا لیکن میں ابھی دریافتِ حالات نہ کرنے پایا تھا کہ اُنھوں نے خود ہی صبح کے پُر خطر واقعہ کا ذکر کر دیا۔ کہنے لگے :دل نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے ماؤف ہو رہے ہیں۔ مگر اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے، مناسب تدابیر اور احتیاط سے افاقہ ہو جائے گا۔ ‘‘ میں کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا کہ انہوں نے کہا۔ ’’آپ فوراً جاوید منزل چلے جائیے اور حضرت علامہ کی حالت سے مجھے اطلاع دیجئے۔ میں دوائیں بھجواتا ہوں۔ ‘‘
یہ گویا آغاز تھا حضرت علامہ کے مرض الموت کا لیکن اس وقت بھی ان کے استقلال اور دل جمعی کی یہ کیفیت تھی کہ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو حسب معمول نہایت اطمینان سے باتیں کرنے لگے۔ ’’آج کیا خبر ہے ؟لڑائی ہوئی ہے یا نہیں ؟ آسٹریا کا کیا حال ہے؟‘‘دو تین گھنٹے کی نشست کے بعد جب میں نے یہ دریافت کیا کہ قرشی صاحب سے کیا عرض کر دیا جائے تو مسکرا کر فرمایا۔ ’’میری طبیعت اچھی ہے اس قدر اچھی کہ اگر کسی موضوع پر تقریر کرنا پڑے تو اس کا سلسلہ تین گھنٹے تک جاری رکھ سکتا ہوں۔ ‘‘ حضرت علامہ نے یہ الفاظ اس لیے فرمائے کہ انہیں زیادہ گفتگو سے منع کر دیا گیا تھا۔ طبی اصطلاح میں ان کی نبض اگرچہ ’’نملی ‘‘تھی یعنی چیونٹی کی طرح نہایت ضعیف لیکن ان کا ذہن برابر صفائی سے کام کرتا رہا۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی قلب و دماغ عطا کیے تھے۔ ان کے معالج اگرچہ ابتدا میں گھبرا جاتے۔ لیکن ان کی قوت دماغی سے چند ہی روز کے بعد امید بندھ جاتی کہ ابھی صحت کے امکانات باقی ہیں۔ یوں حضرت علامہ کے اس نظریے کی تائید ہو جاتی تھی کہ ہر شخص کی طب انفرادی ہے اور دوران علاج میں مزاج کا خیال رکھنا از بسکہ ضروری۔
حضرت علامہ کے تیمار داروں کے لیے یہ دن بڑے اضطراب کا تھا۔ بالخصوص اس لیے کہ شام کو انہیں ذرا ذرا سی دیر کے بعد ضعف قلب کا دورہ ہونے لگتا ظاہر ہے کہ اس تشویش انگیز حالت میں خطوں پر اکتفا کرنا ناممکن تھا اور اگرچہ حکیم صاحب کی خدمت میں مفصل اطلاع کر دی گئی مگر اب عملاً علاج قرشی صاحب ہی کا تھا۔ یوں بھی حضرت علامہ انہیں اکثر مشورے کے لیے طلب فرما لیا کرتے تھے اور پچھلے برس سے تو ان کا معمول ہو گیا تھا کہ ہر دوسرے تیسرے روز جاوید منزل تشریف لے جاتے حضرت علامہ کو ان کی ذات پر بے حد اعتماد تھا اور وہ ان کی لیاقت و خداقت سے متاثر ہو کر اکثر فرمایا کرتے تھے:’’شمالی ہند میں اب اُن کے سوا اور کون ہے؟ اگر ان کا وجود ایک چھوٹے سے ادارے کی شکل اختیار کر لے تو ہندوستان میں نہ سہی کم از کم پنجاب میں ہماری طب کو بہت کافی فروغ ہو سکتا ہے ‘‘ قرشی صاحب نے بھی جس خلوص اور دلسوزی سے حضرت علامہ کی خبر گیری کی ہے اس کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی ہو گا کہ ان کا تعلق محض طبیب اور مریض کا نہیں بلکہ ایک عقیدت مند اور خدمت گذار دوست کا تھا۔ وہ ان ایام میں حضرت علامہ کی بیماری کے سوا سب کچھ بھول گئے۔ کتنے مرکبات تھے جو انہوں نے محض حضرت علامہ کے لیے اپنی زیر نگرانی تیار کیے وہ صبح و شام ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گھنٹوں ان کے پاس بیٹھ کر کبھی دوا کھلاتے کبھی مزے مزے کی باتوں سے ان کا جی بہلاتے اکثر وہ ان کی ہتھیلیاں سہلانے لگتے اور پھر چپکے چپکے ان کے چہرے اور پاؤں کا معائنہ کر لیتے۔ یہ اس لیے کہ ان کو ابتدا ہی سے خیال ہو چلا تھا کہ حضرت علامہ کا رجحان استسقا کی طرف ہے۔ خود حضرت علامہ کی یہ کیفیت تھی کہ ادھر قرشی صاحب نے جاوید منزل میں قدم رکھا اور ادھر ان کی تمام شکایات دور ہو گئیں۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے ’’میرا سب سے بڑا علاج یہی ہے کہ حکیم صاحب پاس بیٹھے رہیں۔ ‘‘
لہٰذا قرشی صاحب کی محنت اور توجہ سے تھوڑے دنوں میں یہ حالت ہو گئی کہ حضرت علامہ کو لحظہ بہ لحظہ افاقہ ہونے لگا اور بعض دفعہ وہ اپنی خواب گاہ میں چل پھر بھی لیتے۔ اس اثنا میں حکیم نابینا صاحب کی دوائیں آ گئی تھیں اور پھر کُچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر مظفر الدین صاحب بھی ان سے ضروری ہدایات لیتے آئے کیونکہ حکیم نابینا صاحب اس وقت حیدرآباد تشریف لے جا چکے تھے۔ اس طرح اطمینان کی ایک اور صورت پیدا ہو گئی مگر ان کے بعض نیاز مندوں کا خیال تھا کہ اگر قرشی کے علاج میں ڈاکٹری مشورہ بھی شامل کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ ممکن ہے ایسا کرنا مفید ہی ثابت ہو۔ یہ سوچ کر ڈاکٹر محمد یوسف صاحب سے رجوع کیا گیا اور انہوں نے پورے خلوص اور توجہ سے اس امر کی کوشش کی کہ تخفیفِ مرض کی کوئی صورت نکل آئے کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر کپتان الٰہی بخش سے بھی مشورہ ہوا۔ مگر حضرت علامہ کی اپنی طبیعت کا یہ عالم تھا کہ ایلوپیتھک دواؤں سے بار بار گھبرا تے اور ایک خاص میعاد مقرر کرنے کے بعد ان کا استعمال چھوڑ دیتے۔
یہاں پہنچ کر قدرتاً یہ سوال پیدا ہو گا کہ حضرت علامہ کا مرض فی الحقیقت کیا تھا۔ قرشی صاحب کہتے ہیں کہ انہیں عظم و اتساع قلب کی شکایت تھی یعنی دل کے مناسب عمل میں نقص واقع ہو گیا تھا جس سے ان کے عضلی ریشے بڑے ہو کر لٹک گئے تھے اس طرح ان کے دل میں سانس کی تکلیف دمہ قلبی کی وجہ سے تھی۔ بالفاظ دیگر چونکہ دل کا عمل پورا نہ ہوتا تھا اس لیے تکلیف رونما ہو جاتی۔ قرشی صاحب کی رائے تھی کہ ’’حضرت علامہ کی کھانسی، بول زلالی،نبض کا ضعیف، سریع اور غیر منظم ہونا یہ سب اتساع قلب کی علامات ہیں۔ مزید برآں ان کا جگر بھی بڑھا ہوا تھا مگر حضرت علامہ کا جگر پہلے سے ماؤف تھا۔ ’’اتنا تو مجھے بھی یاد ہے کہ حکیم نابینا صاحب حضرت علامہ کے جگر کی اصلاح کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ قرشی صاحب کے نزدیک حضرت علامہ کے گردے بھی متاثر تھے اور ان کو شروع ہی سے خیال ہو گیا تھا کہ استسقا کا خدشہ ہے۔
اس کے مقابلے میں ایک دوسری تشخیص یہ تھی کہ حضرت علامہ کو انور سما اور طی (انورزم) یعنی شہ رگ کی رسولی ہے۔ یہ اس لیے کہ جب ان کا دل کمزور ہو گیا تو خون کے مسلسل دباؤ نے شہ رگ میں جو ربڑ کے غبارے کی مانند پھیل گئی تھی۔ ایک گڑھا سا پیدا کر دیا جس نے رفتہ رفتہ ایک دموی رسولی کی شکل اختیار کر لی۔ یہی سبب وقت نفس کا تھا کیونکہ قصبتہ اریحہ (ہوا کی نالی) پراس رسولی کا دباؤ پڑتا تھا۔ اس طرح حضرت علامہ کو مسلسل کھانسی ہوتی رہتی اور انور سما کے باعث چونکہ آواز کے ڈورے کھل گئے تھے لہٰذا ان کا گلا بیٹھ گیا۔
حضرت علامہ کے عوارض کی ان دو تشخیصوں کے متعلق جن کی تفصیل کے لیے میں قرشی صاحب کا ممنون احسان ہوں ، اگرچہ راقم الحروف کا کچھ کہنا بے سود ہو گا لیکن اتنا ضرور عرض کرنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر اتفاق رائے غالباً پہلی تشخیص پر ہی تھا۔ ۲۱مارچ کو جب محمد اسد صاحب مترجم بخاری حضرت علامہ کی عیادت کے لیے آئے ہیں اور ان کے ساتھ ڈاکٹر زیلتسر(Selzer) بھی تھے تو ان کا (ڈاکٹر زیلتسر کا) بھی یہی خیال تھا کہ حضرت علامہ کو اتساع قلب کا عارضہ ہے اور گلے کی تکلیف مقامی فالج کا نتیجہ۔ بہر کیف قرشی صاحب کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو لطیف مقویات اور مغزیات کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے اور ان کے لیے مشک غبر اور مروارید بہت مفید ہیں گے۔ ان دواؤں کا فی الواقع یہ اثر بھی ہوا کہ حضرت علامہ اگر کبھی تبدیلی علاج بھی کرتے تو ان کا استعمال برابر جاری رکھتے۔
بات اصل میں یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیالات اور تجربات کی بنا پر طب قدیم کی خوبیوں کے قائل ہو چکے تھے۔ جدید نظریوں پر انہیں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ان میں انسان کی حیثیت محض ایک شے کی رہ جاتی ہے اور اس کے نفسیاتی پہلوؤں کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ اول تو ان کی رائے یہ تھی کہ طب کا علم ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس کے یہ معنی ہو گے کہ ہم زندگی کی کنہ سے باخبر ہیں جو بداہتاً ایک غلط سی بات ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ایک حد تک طب ممکن بھی ہے تو ہر شخص کی طب دوسرے سے جداگانہ ہو گی کیونکہ پرانا (Ego) بجائے خود یکتا اور منفرد ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے اس امر کی طرف اشارہ بھی کیا کہ اس نقطۂ نظر کے ماتحت اٹلی میں ایک جدید طب کی تشکیل ہو رہی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے علم طب نے کیا ترقی کی ہے؟حالانکہ نوع انسانی کو اس کی ضرورت بد و شعور ہی سے محسوس ہو رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ علم ہوتا یا پھر اس کی ابتدا اس وقت ہو گی جب تمام علوم و فنون کا ارتقا مکمل ہو جائے۔ لیکن جہاں تک عملی مجبوریوں کا تعلق ہے ان کے لیے دواؤں کا استعمال ناگزیر تھا۔ مگر وہ ایلوپیتھک دواؤں سے بہت ناراض تھے اس لیے کہ ان میں نہ ذائقے کا خیال رکھا جاتا ہے نہ پسند کا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدمت خلق کی بجائے تجارت کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ ان کے مقابلے میں طبی دوائیں ہیں۔ کس قدر لطیف اور خوش مزہ!ان سے مسلمانوں کے ذوق جمال اور نفاست مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ جب وہ قرشی صاحب کے تیار کردہ خمیرہ گاؤ زبان عنبری یا دواء المسک کو مزے لے لے کر چاٹتے تو اس پر اظہار افسوس ظاہر کرتے کہ ان کی خوراک کس قدر کم ہے۔ نہ چھ نہ سات فقط تین ماشے پھر ان کا ذاتی تجربہ بھی یہ تھا کہ درد گردہ کی شکایت جو انہیں مدت سے تھی۔ حکیم نابینا صاحب ہی کے علاج سے دور ہوئی اور ۱۹۳۴ء میں جب ڈاکٹروں نے بار بار ان کی صحت سے مایوسی کا اظہار کیا تو یہ حکیم صاحب ہی کی دوائیں تھیں جن سے امید کی ایک جھلک پیدا ہوئی اور وہ کم و بیش چار برس تک اپنے مشاغل کو جاری رکھ سکے۔ دوران علاج میں حضرت علامہ نے بارہا اس امر کا مشاہدہ کیا جدید آلات سے بالآخر انکشافات نبض ہی کی تصدیق ہوتی۔ لہٰذا یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ ان کا اعتماد قدیم دواؤں پر دن بدن بڑھتا گیا۔ وہ کہا کرتے تھے ہماری دواؤں کے اثرات صدیوں کے تجربے سے ثابت ہو رہے ہیں۔ آج کل کی دواؤں کی کیا ہے، ادھر ایجاد ہوئیں ادھر متروک۔
۱۷مارچ کے بعد جب سے طبی علاج از سرنو شروع ہوا حضرت علامہ کی صحت میں خفیف سا مد و جزر پیدا ہوتا رہا۔ اس خیال سے کہ اگر ان حالات کی اطلاع عام ہو گئی تو شاید لوگوں کی عقیدت مندی ان کے آرام میں حارج ہو حضرت علامہ کی خرابی صحت کی خبر مخفی رکھی گئی۔ ان دنوں معمول یہ تھا کہ حضرت علامہ کے متعدد احباب کے علاوہ ہم لوگ یعنی چودھری محمد حسین، راجا حسن اختر، قرشی صاحب اور راقم الحروف صبح و شام حضرت علامہ کی خیریت معلوم کر آتے اور پھر رات کو باقاعدہ ان کی خدمت میں جمع ہو جاتے یا پھر محمد شفیع صاحب جاوید منزل ہی میں اٹھ کر آئے تھے تاکہ حضرت علامہ کی دیکھ بھال اور دواؤں کا خیال رکھیں۔ خدمت گزاری کے لیے علی بخش اور دُوسرے نیاز مند موجود تھے۔ علی بخش بے چارا تو کئی راتیں سویا ہی نہیں۔ حضرت علامہ کو دن میں تو نسبتاً آرام رہتا تھا اور وہ کُچھ وقت سو بھی لیتے تھے لیکن رات کو ان کی تکلیف بڑھ جاتی۔ کبھی اختلاج ہوتا۔ کبھی ضعف، کبھی احتباس ریاح۔ ضیض کے دورے بالعموم پچھلے پہر میں ہوتے تھے اور شفیع صاحب کو اس کی روک تھام کے لیے خاص طور سے جاگ جاگ کر دوائیں کھلانا پڑتیں۔ علی بخش،رحما، دیوان علی (حضرت علامہ کے ملازمین) اور احباب ان کا بدن دباتے۔ جب رات زیادہ ہو جاتی تو چودھری صاحب اور راجا صاحب ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیتے تاکہ حضرت علامہ سو جائیں۔ اس وقت قرشی صاحب اور بھی زیادہ قریب ہو بیٹھتے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضرت علامہ دیوان علی سے بلھے شاہ کی کافیاں یا پنجابی گیت سنتے اور مجھ سے فرماتے کہ ’’میں بغداد یا قرطبہ کا کوئی ایسا افسانہ بیان کروں جس سے ان کو نیند آ جائے۔ ‘‘اس طرح کچھ دنوں کے بعد حضرت علامہ کی طبیعت یہاں تک سنبھل گئی کہ راجا صاحب سے (سرکاری مشاغل کی مجبوریوں کے باعث ) ناغے ہونے لگے اور قرشی صاحب سے دوا اور غذا کے متعلق چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی۔ حضرت علامہ ان سے ہر دوسرے تیسرے روز اس امر کی خواہش کرتے کہ ان کی غذا کی فہرست میں اضافہ ہو تاکہ انتخاب میں سہولت رہے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے :’’پلاؤ کھانے کو بہت جی چاہتا ہے۔ ‘‘ قرشی صاحب نے کہا آپ کھچڑی کھا لیجئے۔ فرمایا:’’بھنی ہوئے؟کافی گھی کے ساتھ؟‘‘انہوں نے کہا ’’نہیں ، گھی کم ہونا چاہیے کیونکہ آپ کا جگر بڑھ گیا ہے۔ ‘‘ حضرت علامہ کہنے لگے:لو پھر اس میں کیا لذت ہو گی۔ اس میں دہی کیوں نہ ملا لیا جائے۔ ‘‘ قرشی صاحب بولے:’’مگر آپ کو کھانسی ہے ….دہی مضر ہے۔ ‘‘ فرمایا:تو پھر اس کھچڑی سے نہ کھانا اچھا ہے۔ ‘‘ بقول قرشی صاحب آخری ایام میں ان کی قُوّتِ تنقید بہت بڑھ گئی تھی اور مزاج میں بے حد ذکاوت اور نفاست پیدا ہو چکی تھی اس لیے ان کے سوالات کا جواب دینا کوئی آسان بات نہ تھی۔ بعض دفعہ وہ (قرشی صاحب) خود بھی پریشان ہو جاتے۔ اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ ان کی بعض علامات دوسرے اسباب کا نتیجہ ہیں تو وہ اس شدت سے جرح کرتے کہ جواب نہ بن پڑتا۔ ان کا اصرار تھا کہ ہر بات ٹھیک ٹھیک بیان کی جائے۔
۱۶اپریل کی شام کو جب راجا صاحب اور سیّد عابد علی حسب معمول تشریف لائے ان سے مصلحتاً یہ کہا گیا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں تو حضرت علامہ بہت خفا ہوئے۔ کہنے لگے:’’میں جانتا ہوں یہ باتیں تعلّقِ خاطر کی بنا پر کہی جاتی ہیں۔ مگر اس طرح سننے والے غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ‘‘دواؤں کے متعلق بھی ان کا کہنا یہ تھا کہ میں انہیں صحت کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس لیے کہ شدت مرض میں میری خودی (Ego) کو نقصان نہ پہنچے۔
بایں ہمہ ان کے اخلاق عالیہ اور کمال وضع کا یہ عالم تھا کہ ان کے معمول اور روز مرہ زندگی میں انتہائی تکلیف کے باوجود کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اپنے ملنے والوں سے اسی خندہ پیشانی اور تپاک سے ملتے جس طرح تندرستی میں ان کا شیوہ تھا بلکہ اب انہوں نے اس بات کا اور بھی زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا تھا کہ ان کی تواضع اور خاطرداری میں کوئی فرو گذاشت تو نہیں ہوتی۔ صحت کی اس گئی گزری حالت میں بھی وہ اگر کسی کے کام آ سکے تو اس سے انکار نہیں کیا اور اپنی قوم کے معاملات میں جہاں تک ممکن تھا حصہ لیا۔ انہیں اپنے احباب کے جذبہ خدمت گزاری کی بڑی قدر تھی اور انہوں نے اپنی خلوتوں میں اس کا اظہار بھی کیا۔ ایک شام جب وہ انتہائی کرب کی حالت میں تھے، علی بخش نے بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ ہم نے اسے تسلی دی تو فرمایا۔ ’’رونے دیجئے تیس پینتیس برس کا ساتھ ہے جی ہلکا ہو جائے گا۔ ‘‘
حضرت علامہ ایک زندہ انسان تھے اور آخر وقت تک صحیح معنوں میں زندہ رہے۔ وہ اپنے اردگرد کی زندہ دنیا کو ایک لحظے کے لیے بھی فراموش نہیں کر سکے برعکس اس کے یورپ اور ایشیا کی ایک ایک تبدیلی کا حال پوچھتے اور اپنے مخصوص انداز میں اس پر رائے زنی کرتے۔ لوگوں نے صرف اتنا سنا کہ،آسٹریا کا الحاق جرمنی سے ہو گیا۔ حضرت علامہ نے فرمایا:’’وسط ایشیا میں ۴کروڑ ترک آباد ہیں۔ اتحاد اتراک پر اس کا اثر کیا رہے گا۔ ‘‘ اس زمانے میں اٹلی اور برطانیہ کے درمیان گفت و شنید ہو رہی تھی۔ حضرت علامہ اس کی ایک ایک تفصیل کو سنتے اور فرماتے:’’اگر اٹلی نے فی الواقع اتحادیوں سے مصالحت کر لی جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے تو بلاد اسلامیہ کو مجبوراً روس کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑے گا۔ اس طرح سیاسیات عالم پر ان کے سبق آموز تبصروں کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار و افکار اور ارشادات کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا۔ اپنی وفات سے دو روز پہلے وہ راجا صاحب کے بعض احباب سے شاعر کی ملی حیثیت اور اسلامی فن تعمیر پر فلسفیانہ بحث کر رہے تھے۔ ان کی گفتگوئیں لطف و حرارت سے کبھی خالی نہ ہوئیں اور اس کی جولانیاں مرتے دم تک قائم رہیں۔ علی بخش اور چودھری صاحب کی چھیڑ چھاڑ مدت سے چلی آتی تھی۔ ایک روز چودھری صاحب کہنے لگے:’’علی بخش کی مونچھوں کو دیکھتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں آخر ان کا رنگ کیا ہے؟ جس بال کو دیکھیے دوسرے سے مختلف ‘‘ حضرت علامہ نے برجستہ فرمایا ’’مچھئی‘‘
ان کا یہ کہنا کہ دواؤں کا استعمال فائدے کے خیال سے نہیں بلکہ محض اس لیے کرتا ہوں کہ میری خودی (Ego) کو نقصان نہ پہنچے لفظ بلفظ صحیح تھا اور معلوم نہیں اس میں دواؤں کو فی الواقع کوئی دخل تھا بھی یا نہیں۔ بہر حال انہوں نے اپنی قوت ادراک اور ذہن کی بیداری کو جس طرح واضح طور پر قائم کر رکھا اسے دیکھ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ ایک رات جب ہم لوگ اس کوشش میں تھے کہ حضرت علامہ سو جائیں۔ دیوان علی نے گانا شروع کیا اور گاتے گاتے سہ حرفی ہدایت اللہ کے چند اشعار پڑھ ڈالے۔ اس پر حضرت علامہ یک بارگی اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے۔ ’’چودھری صاحب اسے کہتے ہیں بحرفے امتے رامی تواں کش۔ ‘‘چودھری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں سر پر ہاتھ پھیرا اور ’’ہوں ‘‘ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ حضرت علامہ فرما رہے تھے:’’مشرق کیا ایک طرح سے ساری شاعری کا پس منظر یہی ہے۔ ‘‘ میں نے عرض کی کہ ہدایت اللہ نے موت و سکرات کا جو نقشہ پیش کیا ہے خلاف واقعہ تو نہیں۔ خود قرآن پاک میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ نے جواب میں فرمایا :’’مجھے حقائق سے انکار نہیں۔ انکار حقائق کی تعبیر سے ہے۔ ‘‘اور پھر اپنی وہ رباعی لکھوائی جس پر سول اینڈ ملٹری گزٹ کے کالم کے کالم سیاہ ہوتے رہے، بایں ہمہ اس کا مطلب بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آیا۔ یعنی:
بہشتے بہر پاکان حرم ہست
بہشتے بہر ارباب ہمم ہست
بگو ہندی مسلماں راکہ خوش باش
بہشتے فی سبیل اللہ ہم ہست
(آخری رباعی اس سے دو ایک دن بعد ہوئی)
حضرت علامہ نے اپنی بیماری کا مقابلہ جس ہمت اور استقلال سے کیا اس کو دیکھ دیکھ کر ان کے تیمار دار تو کیا معالجین کو بھی خیال ہونے لگتا تھا کہ شاید ان کا وقت اتنا قریب نہیں جتنا بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ حضرت علامہ نے ایک لحظے کے لیے بھی مریض بننا گوارا نہیں کیا۔ وہ مریض ضرور تھے مگر انہیں مریض کی حیثیت میں زندہ رہنا منظور نہ تھا۔
ایک دفعہ جب ان کی غذا و دوا اور آرام میں خاص اہتمام ہونے لگا تو فرمایا:’’اس طرح کا جینا گویا جینے سے بغاوت کرنا ہے میں محسوس کرتا ہوں کہ اب میں دنیا کے قابل نہیں رہا۔ ‘‘ تکلیف کی حالت میں انہیں بے شک تکلیف ہوتی مگر ادھر اس کا احساس کم ہوا اور ادھر ان کی ساری شگفتگی عود کر آئی ان کی باتوں میں وہ لطف اور دلچسپی پیدا ہو جاتی جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ان کی طویل علامت نے ان کے ذہن پر کوئی اثر نہ کیا۔ ان کو کوئی اندیشہ تھا نہ پریشانی۔ ان کے یاس نا آشنا دل میں اضطراب اور خوف کی ہلکی سی جھلک بھی پیدا نہ ہوئی۔ گویا موت و حیات کے متعلق جو دلیرانہ اور جرات آموز رویہ انہوں نے عمر بھر اختیار کر رکھا تھا آخر تک قائم رہا۔ اس لحاظ سے وہ فی الواقع خودی کے پیغمبر تھے۔ موت سے ان کی بے خوفی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ جب ان کے معالجین کی بے بسی صاف صاف نظر آنے لگی اس وقت بھی ان کو مکروہات دنیوی کا مطلق خیال نہ آیا۔ چنانچہ آخری شب میں انہوں نے جو نصیحت جاوید سلمہ کو فرمائی اس کا ماحصل یہ تھا۔ ’’میرے بیٹے!میں چاہتا ہوں کہ تم میں نظر پیدا ہو۔ ‘‘ایک دن جب انہیں درد کی شدت نے بے تاب کر رکھا تھا مجھ سے کہنے لگے:’’اللہ ہی اللہ ہے۔ ‘‘ میرے پاس ان الفاظ کا کیا جواب تھا میں خاموش کھڑا رہا۔ انہوں نے پھر فرمایا۔ ’’یاد رکھو اللہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ‘‘ میں سمجھتا ہوں اس وقت ان کا ذہن وجود و عدم کے عقدوں سے الجھ گیا تھا اور ان کا اشارہ حضرت بایزیدبسطامی کے ارشاد کی طرف تھا جس کا ذکر اُنھوں نے تشکیلِ جدید میں بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ ایک دن حضرت کے حلقے میں تخلیق کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ ان کے کسی مرید نے کہا ’’جب کچھ نہیں تھا تو صرف خدا تھا۔ ‘‘حضرت بایزید فوراً بول اٹھے۔ ’’اور اب کیا ہے !اب بھی صرف خُدا ہے۔ ‘‘
رہی اسلام سے ان کی شیفتگی سو اس کے متعلق کیا عرض کیا جائے۔ یہ داستان بہت طویل ہے۔ وہ اس کے مستقبل یا خود ان کے اپنے الفاظ میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کی تقدیر (destiny) سے ایک لحظے کے لیے بھی مایوس نہیں ہوئے۔ عالم اسلامی کے جدید رجحانات ظاہراً کس قدر یاس انگیز ہیں لیکن ان کی رجائیت میں سر مو فرق نہ آیا۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص بصیرت عطا کی تھی۔ لوگ ان کے پاس آتے اور بے چین ہو کر مادیت و وطنیت کے اس سیلاب کی طرف اشارہ کرتے جو بلادِ سلامیہ میں ہر طرف پھیل رہا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے تمہاری نگاہیں قشر پر ہیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھو اور منتظر رہو کہ انسان کے اندرون ضمیر سے آخر کس چیز کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب سیاست حاضرہ کی دسیسہ کاریوں سے عوام اور خواص تو کیا بڑے بڑے حجرہ نشین اور عبادت گزار بھی محفوظ نہ رہے۔ حضرت علامہ کے پائے استقامت کو جنبش تک نہ ہوئی۔ ایک سہ پہر کا ذکر ہے۔ حضرات سالک و مہر بھی موجود تھے اور زعیم ترکی کی غیر معمولی فراست کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔ کسی نے کہا اتحاد شرق کا خیال نہایت مستحسن ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ انقرہ و کابل اور طہران کا میثاق اتحاد اسلامی کا نتیجہ ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا:’’بے شک، مگر آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس کی تکمیل کا راستہ اسلام ہی نے صاف کیا۔ ‘‘البتہ ایک حقیقت آشنا مبصر کی طرح وہ اس بات کو خوب جانتے تھے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کی حالت کیا ہے؟ان کے ذہنی اور اخلاقی انحطاط کا انہیں بڑا دکھ تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم لوگ رات کو انہیں اچھی حالت میں چھوڑ کر آتے مگر صبح جب قرشی صاحب پھر ان کی نبض دیکھتے تو ضعف و نقاہت کی انتہا ہوتی۔ دریافت کرنے پر پتا چلتا کہ حضرت علامہ ملت کی زبوں حالی پر دیر تک روتے رہے۔ اُنھیں جدید زمانہ کے ان الحاد پرور نظریوں سے بے حد تکلیف ہوتی تھی جو اندر ہی اندر ہمارے جسد ملی کو کھائے جا رہے ہیں مگر اس پر انہوں نے، درویشانہ، خاموشی اختیار کی غیر اسلامی تفریق پر انہوں نے اپنا بیان اس وقت لکھوایا جب رہ رہ کر ضعف اور اختلاج کے دورے ہو رہے تھے اور قرشی صاحب کو خطرہ تھا کہ اس کا کوئی ناگوار اثر ان کی طبیعت پرنہ پڑے۔ ان ایام میں وہ اکثر فرمایا کرتے تھے:
حقیقت را بہ رندے فاش کردند
کہ ملا کم شناسد رمز دیں را
ایک رات انہوں نے یہ شعر پڑھا:
تہنیت گوئید مستاں را کہ سنگ محتسب
بر دل ما آمد و ایں آفت از مینا گزشت
اور اتنی رقت طاری ہوئی کہ ان کے نیاز مندوں کو اضطراب ہونے لگا۔ وہ کہا کرتے تھے میں نے اسلام کے لیے کیا کیا؟ میری خدمت اسلامی تو بس اس قدر ہے جیسے کوئی شخص فرط مُحبّت میں سوتے ہوئے بچہ کو بوسہ دے۔ ایک دن مجھ سے رسول صلعم پر گفتگو فرما رہے تھے۔ جب حضرت ابوسعید خدری کی اس روایت کا ذکر آیا کہ حضور رسالت ماب صلعم اپنے بعض اصحاب کے ساتھ احد پر تشریف لے گئے اور احد کانپ اٹھا تو حضرت علامہ نے فرمایا:’’یہ محض استعارہ نہیں۔ ‘‘ اور پھر درد کی تکلیف کے باوجود سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور جوش میں آ کر کہنے لگےMind you this is no metaphor (یاد رکھو یہ محض استعارہ نہیں ) انہیں حضور سرور کونین صلعم سے کچھ ایسا عشق تھا کہ آپؐ کا ذکر مبارک آتے ہی ان کی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں اور بیماری کے آخری ایام میں تو فرط ادب سے یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ حضور صلعم کا اسم گرامی زبان پر لانے سے پہلے اس امر کا اطمینان کر لیتے کہ ان کے حواس اور بدنی حالت میں کوئی خرابی تو نہیں۔
اس رفتار میں مرض الموت کی رفتار کچھ عجب سی رہی۔ اول استستا کا حملہ ہوا جس سے چہرے اور پاؤں پر ورم آ گیا۔ اب پیٹھ کے درد سے بھی خاصی تکلیف رہتی تھی اور حضرت علامہ فرمایا کرتے تھے:’’میری دواؤں کی آزمائیش اس میں ہے کہ پیٹھ کا درد جاتا ہے یا نہیں۔ ’’مگر پھر رفتہ رفتہ ان علامات میں تخفیف ہونا شروع ہو گئی حتیٰ کہ قرشی صاحب ایک خاص مجبوری کے باعث دو روز کے لیے راولپنڈی تشریف لے گئے۔ لیکن اگلے ہی روز بیماری نے کچھ ایسا زور پکڑا کہ حضرت علامہ کے بائیں جانب تمام جسم پر ورم پھیل گیا۔ اس حالت میں ڈاکٹر جمعیت سنگھ صاحب کو بلوایا گیا۔ انہوں نے معائنے کے بعد قطعاً مایوسی کا اظہار کیا اور دو ایک باتیں ان کی عادت کے متعلق صاف صاف کہہ دیں۔ بایں ہمہ حضرت علامہ مطلق پریشان نہ ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو سن کر اس طرح سوالات کرنا شروع کر دیے جیسے کسی امر کی تنقیح مقصود ہو۔ ڈاکٹر صاحب گئے تو ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب نے کوشش کی کہ دوچار کلمات تسلی کے کہیں مگر حضرت علامہ الٹا ان کی تسکین خاطر فرماتے ہوئے کہنے لگے:’’میں مسلمان ہوں۔ موت سے نہیں ڈرتا۔ ‘‘اس کے بعد اپنا یہ شعر پڑھا:
نشان مرد حق دیگر چہ گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
ڈاکٹر صاحب گئے تو انہوں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کاغذ قلم لے آؤ خط لکھوانا ہے۔ یہ ان کا آخری خط تھا!
تیسرے پہر ڈاکٹر جمعیت سنگھ پھر تشریف لائے۔ ڈاکٹر یار محمد خاں صاحب ساتھ تھے،شام کو کپتان الٰہی بخش صاحب بھی آ گئے اور باہمی مشورے سے دواؤں اور انجکشنوں کی تجویز ہونے لگے۔ دوسرے روز قرشی صاحب بھی پہنچ گئے۔ اب ہر قسم کی تدابیر ہو رہی تھیں۔ قدیم و جدید سب۔
بالآخر وہ وقت آ پہنچا۔ جس کا کھٹکا مدت سے لگا ہوا تھا۔ ۲۰اپریل کی سہ پہر کو جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بیرن فلٹ ہائم (Von Veltheim) اور ان کے ایک پارسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے اور گوئٹے اور شلر اور معلوم نہیں کس کس کا ذکر تھا فلٹ ہائم گئے تو چند اور احباب آ گئے جن سے دیر تک لیگ، کانگریس اور بیرونی سیاسیات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ شام کے قریب جب ان کے معالجین ایک ایک کر کے جمع ہوئے تو انہیں بتلایا گیا کہ حضرت علاّمہ کو بلغم میں کل شام سے خون آ رہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی اس لیے کہ خون دل سے آیا تھا۔ اس حالت میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ شاید وہ آج کی رات جان بر نہ ہو سکیں۔ مگر انسان اپنی عادت سے مجبور ہے۔ تدبیر کا دامن آخر وقت تک نہیں چھوڑتا۔ قرشی صاحب نے بعض دوائیں تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موٹر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت راجا صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا گاڑی ہے؟ کہنے لگے:’’نہیں مگر کیا مضائقہ ہے ابھی لیے آتا ہوں۔ ‘‘ چونکہ ان کی اپنی گاڑی خراب تھی لہٰذا اتنا کہہ کر راجا صاحب موٹر کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان کی رائے ہوئی کہ کرنل امیر چند صاحب کو بھی مشورے میں شامل کر لیا جائے۔ اس اثنا میں ہم لوگ حضرت علامہ کا پلنگ صحن میں لے آئے تھے۔ کرنل صاحب تشریف لائے تو ان کی حالت کس قدر سنبھل چکی تھی۔ مطلب یہ کہ ان حواس ظاہری کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ پھر امید بندھ گئی۔ لہٰذا طے ہوا کہ کچھ تدابیر اس وقت اختیار کی جائیں اور کچھ صبح۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحبان چلے گئے اور ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کو رات کے لیے ضروری ہدایات دیتے گئے۔ اب ہوا میں ذرا سی خنکی آ چکی تھی اس لیے حضرت علامہ بڑے کمرے میں اٹھ آئے اور حسبِ معمول باتیں کرنے لگے۔ دفعتاً انہیں خیال آیا کہ قرشی صاحب غالباً شام سے بھوکے ہیں اور ہر چند کہ انہوں نے انکار کیا لیکن حضرت علامہ علی بخش سے کہنے لگے کہ ان کے لیے چائے تیار کرے اور نئے بسکٹ جو میم صاحبہ نے بنائے ہیں ، کھلائے۔ اس وقت صرف ہم لوگ یعنی قرشی صاحب، چودھری صاحب،سید سلامت اللہ اور راقم الحروف ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو یاد فرمایا تو ان سے عرض کیا گیا کہ وہ کام سے گئے ہیں۔ ۱۱بجے تو اس خیال سے کہ ہم لوگ شاید ان کی نیند میں حارج ہو رہے ہیں چودھری صاحب نے اجازت طلب کی لیکن حضرت علامہ نے فرمایا :’’میں دوا پی لوں ، پھر چلے جائیے گا۔ ‘‘ اس طرح بیس پچیس منٹ اور گزر گئے حتیٰ کہ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لے کر آ گئے۔ حضرت علامہ کو ایک خوراک پلائی گئی مگر ا س کے پیتے ہی ان کا جی متلانے لگا اور انہوں نے خفا ہو کر کہا ’’یہ دوائیں غیر انسانی (Inhuman) ہیں۔ ‘‘ان کی گھبراہٹ کو دیکھ کر قرشی صاحب نے خمیرہ گاؤ زبان عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے فوراً سکون ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے اور جب شفیع صاحب نے یہ کہا کہ انہیں اوروں کے لیے زندہ رہنا چاہیے تو فرمایا:’’ان دواؤں کے سہارے نہیں ‘‘(Not on these medicines) ) اس طرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ بالآخر یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ نیند کی طرف مائل ہیں ہم نے اجازت طلب کی۔ انہوں نے فرمایا :بہت اچھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے ان کی خواہش تھی کہ ہو سکے تو قرشی صاحب ٹھہرے رہیں۔ بایں ہمہ انہوں نے اس امر پر اصرار نہیں کیا۔ اس وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اور کسی کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ آخری صحبت ہو گی جاوید منزل کی!
ہم لوگ حضرت علامہ کی خدمت سے اٹھ کر آئے ہی تھے کہ راجا صاحب تشریف لے آئے اور آخر شب تک وہیں حاضر رہے۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ کو سکون رہا اور وہ کچھ سو بھی گئے لیکن پچھلے پہر کے قریب بے چینی شروع ہو گئی۔ اس پر انہوں نے شفیع صاحب سے کہا:’’قرشی صاحب کو لے آؤ۔ ‘‘ وہ ان کے ہاں آئے تو سہی لیکن غلطی سے اطلاع نہ کر سکے۔ شاید ۳بجے کا وقت ہو گا کہ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو طلب فرمایا۔ ان کا (راجا صاحب کا) اپنا بیان ہے کہ جب میں حاضر ہوا تو حضرت علامہ نے دیوان علی سے کہا:’’تم سو جاؤ البتہ علی بخش جاگتا رہے اب اس کے سونے کا وقت نہیں۔ ‘‘ اس کے بعد مجھ سے فرمایا:پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو سامنے آ جاؤ۔ میں ان کے متصل ہو بیٹھا کہنے لگے:قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھ کر سناؤ۔ کوئی حدیث یاد ہے؟ اس کے بعد ان پر غنودگی سی طاری ہو گئی میں نے دیا گل کر دیا اور باہر تخت پر آ بیٹھا۔ راجا صاحب چلے آئے تو ایک دفعہ پھر کوشش کی گئی کہ حضرت علامہ رات کو دوا استعمال کریں مگر انہوں نے سختی سے انکار کر دیا۔ ایک مرتبہ فرمایا:’’جب ہم حیات کی ماہئیت ہی سے بے خبر ہیں تو اس کا علم (science) کیونکر ممکن ہے؟‘‘ تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب کو پھر ان سے قرشی صاحب کے لانے کے لیے کہا۔ راجا صاحب کہتے ہیں۔ ’’میں اس وقت کی حالت کا مطلق اندازہ نہ کرنے پایا تھا۔ میں نے عرض کیا حکیم صاحب رات دیر سے گئے ہیں۔ شاید ان کو بیدار کرنا مناسب نہ ہو۔ ‘‘پھر اپنی یہ رباعی پڑھی جو گذشتہ دسمبر میں انہوں نے کہی تھی ؎
سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجازآید کہ ناید؟
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟
راجا صاحب کہتے ہیں۔ میں نے ان اشعار کو سنتے ہی عرض کیا کہ ابھی حکیم صاحب کو لے آتا ہوں۔ یہ واقعہ۵بج کر ۵منٹ کا ہے راجا صاحب گئے تو حضرت علامہ خواب گاہ میں تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم نے حسب ہدایات فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علامہ بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ کر کہنے لگے:’’اتنا بڑا گلاس کس طرح پیوں گا؟‘‘اور پھر چپ چاپ سارا گلاس پی گئے۔ علی بخش نے چوکی پلنگ کے ساتھ لگا دی۔ اب اس کے سوا کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ حضرت علامہ نے اول اسے شانوں کو دبانے کے لیے کہا پھر دفعتاً لیٹے لیٹے اپنے پاؤں پھیلا لیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا:’’یا اللہ۔ ‘‘ میرے یہاں درد ہے۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔ علی بخش نے آگے بڑھ کر سہارا دیا تو انہوں نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس طرح وہ آواز جس نے گذشتہ ربع صدی سے ملت اسلامیہ کے سینے کو سوز آرزو سے گرمایا تھا۔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ علامہ مرحوم نے خود اپنے ارشادات کو کاروان اسلام کے لیے بانگ درا سے تعبیر کیا تھا اور آج جب ہماری سوگوار محفل ان کے وجود سے خالی ہے تو انہیں کا یہ شعر بار بار زبان پر آتا ہے:
جس کے آوازے سے لذت گیر اب تک گوش ہے
وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟
انا للہ وانالیہ راجعون۔
۲۱اپریل کی صبح کو میں سویرے ہی اٹھا اور حسب عادت جاوید منزل پہنچ گیا لیکن ابھی پھاٹک میں قدم رکھا تھا کہ راجا صاحب نظر آئے۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ میں سمجھا رات کی بے خوابی کا اثر ہے۔ میں ان کی طرف بڑھا اور کہنے لگا رات آپ کہاں تھے؟ آپ کا دیر تک انتظار رہا۔ وہ معلوم نہیں ہاتھ سے کیا اشارہ کرتے ہوئے ایک طرف چلے گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو قرشی صاحب سر جھکائے ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔ میں نے حضرت علامہ کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کچھ تامل کیا۔ پھر ایک دھیمی اور بھرائی ہوئی آواز میں ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا ’’فوت ہو گئے۔ ‘‘
میں ایک لحظے کے لیے سناٹے میں تھا۔ پھر دفعتاً حضرت علامہ کی خواب گاہ کی طرف بڑھا۔ پردہ ہٹا کر دیکھا تو ان کے فکر آلود چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم اور سکون متانت کے آثار نمایاں تھے۔ معلوم ہوتا تھا وہ بہت گہری نیند سو رہے ہیں۔ پلنگ سے ہٹ کر فرش پر بیٹھ گیا۔ شاید وہاں کچھ اور حضرات بھی بیٹھے تھے لیکن میں نے نہیں دیکھا۔ ہاں راجہ صاحب کو دیکھا وہ ان کی پائنتی کا سہارا لیے زار زار رو رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کر سکا اور بے قرار ہو کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس اثنا میں حضرت علامہ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح شہر میں پھیل چکی تھا اب جاوید منزل میں ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم تھا۔ یہ سانحہ کچھ اس قدر عجلت اور بے خبری میں پیش آیا تھا کہ جو شخص آتا معتوب ہو کر کہتا :’’کیا ڈاکٹر صاحب کیا علامہ اقبال فوت ہو گئے؟‘‘ گویا ان کے نزدیک یہ خبر ابھی غلط تھی۔ حالانکہ وہ گھڑی جو بر حق ہے اور جس کا ایک دن ہر کسی کو سامنا کرنا ہے آ پہنچی تھی۔
کل من علیھا فان۔ و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام۔
جنازہ سہ پہر میں ۵بجے کے قریب اٹھا۔ جاوید منزل کے صحن اور کمروں میں خلقت کا اژدہام تھا۔ معلوم نہیں ان کے غم میں کس کس کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور میو روڈ سے شاہی مسجد تک کتنے انسان جنازے میں شریک تھے۔ ہم لوگ لاہور کی مختلف سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ شہر میں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا جدھر دیکھیے حضرت علامہ ہی کا ذکر تھا۔ جنازہ ابھی راستے میں تھا کہ اخباروں کے ضمیمے، قطعات اور مرثیے تقسیم ہونے لگے۔ دفعتاً خیال آیا کہ یہ اس شخص کی میت ہے جس کا دل و دماغ رفتہ رفتہ اسلام میں اس طرح کھویا گیا کہ اس کی نگاہوں میں اور کوئی چیز جچتی ہی نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی بے حسی اور اغیار کی چیرہ دستی کے باوجود یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا:
گرچہ رفت از دست ما تاج و نگیں
ما گدایاں را بچشم کم مبیں
معلوم نہیں ساحر افرنگ کی فریب کاریوں نے اسے کس کس راہ سے سمجھایا کہ ملت اسلامیہ کی نجات تہذیب نوی کی پرستش میں ہے مگر اس کے ایمان سے لبریز دل میں نبی اُمّی صلعم کی محبت بے اختیار کہہ ٹھی:
در دل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما ز نام مصطفی است
اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ تو بے شک اقبال ہی کا ہے لیکن کیا اقبال کی موت ایک لحاظ سے ہندوستان کے آخری مسلمان کی موت نہیں ؟ اس لیے کہ وہ اسلام کا نقیب تھا، راز دار تھا اور اب کون ہے جو علامہ مرحوم کی مخصوص حیثیت میں ان کی جگہ لے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مقامات عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں پناہ دے۔ آمین، ثم آمین۔
اقبالیاتِ نذیر نیازی، مرتبہ : عبداللہ شاہ ہاشمی۔ اقبال اکادمی لاہور ۱۹۹۶ء
٭٭٭
تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید