FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

أصول فی التفسیر

 

اصولِ تفسیر

 

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ

 

ترجمہ: طارق علی بروہی

 

 

 

مقدمہ

 

الحمد للہ، نحمدہ ونستعینہ، ونستغفرہ ونتوب إلیہ، ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا، من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ہادی لہ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریك لہ، وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ ، صلی اللہ علیہ وسلم، وعلی آلہ وأصحابہ، ومن تبعہم بإحسان وسلم تسلیماً، أما بعد :

ہر قسم کے فن سے متعلق یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ کوئی بھی شخص اس کے اصولوں کو جانتا ہو۔ جو اس کے فہم اور ان اصولوں کے ذریعہ تخریجِ مسائل میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اور تاکہ اس کا علم قوی اساس اور مضبوط ستونوں پر قائم ہو۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے : ‘‘من حُرِم الأصول حرم الوصول’’ (جو اصول کی معرفت سے محروم رہا وہ منزلِ مقصود تک پہنچے سے محروم رہا)۔

اور تمام فنونِ علم میں سب سے بہترین و اشرف علم علمِ تفسیر ہے۔ جو کلام اللہ کے معانی کی وضاحت کرتا ہے۔ اہل علم نے اس کے لیے بھی اصول وضع فرمائے ہیں جیسا کہ انہوں نے اصولِ حدیث یا اصول فقہ وغیرہ کے لیے اصول وضع فرمائے ہیں۔

میں نے معھد العلمیہ، جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ (ریاض) کے طالبعلموں کے لیے اس علم کے تعلق سےجتنا مجھ سے ہوسکا کچھ ضروری باتیں لکھی تھیں۔ پس کچھ لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اسے علیحدہ طور پر ایک رسالے کی شکل دے دوں، تاکہ یہ آسان تر اور یکجا ہو جائے۔ لہذا میں نے ان کی اس طلب پر لبیک کہا۔

اور اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ اس کے ذریعہ نفع پہنچائے۔

اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :

 

القرآن الکریم:

1- قرآن مجید نبی کریمﷺ  پر کب نازل ہوا اور فرشتوں میں سے کون اسے آپﷺ  کے پاس لے کر نازل ہوئے۔

2- قرآن میں سے سب سے پہلے کیا نازل ہوا۔

3- قرآن کریم کا نزول دو طرح کا ہے : سببی اور ابتدائی۔

4- قرآن مجید کا مکی اور مدنی ہونا، اور اسے وقتاً فوقتاً نازل ہونے کی حکمت، اور ترتیبِ قرآن۔

5- عہدِ نبوی میں قرآن حکیم کی کتابت و حفاظت۔

6- عہدِ ابو بکر و عثمانؓ  میں قرآن شریف کا جمع کیا جانا۔

 

تفسیر:

1- تفسیر کا لغوی و اصطلاحی معنی، اس کا حکم اور اس کی غرض و غایت۔

2- تفسیر قرآن کے سلسلے میں ایک مسلمان پر کیا واجب ہے۔

3- تفسیر قرآن کے مراجع یہ ہیں :

1- خود کلام اللہ یعنی قرآن کی تفسیر قرآن سے ہونا۔

2- سنت رسولﷺ  کیونکہ آپ ہی اللہ تعالی کی طرف سے اس کو پہنچانے والے ہیں، اور تمام

لوگوں میں سب سے زیادہ کتاب اللہ میں اللہ تعالی کی حقیقی مراد کو جاننے والے ہیں۔

3- صحابہ کرامؓ  خصوصاً وہ صحابہ جنہوں نے قرآن کی تفسیرکا خاص اہتمام فرمایا، کیونکہ قرآن مجید ان کی زبان میں اور ان کے زمانے میں نازل ہوا۔

4- کبار تابعین کرامؒ جنہوں نے صحابہ کرامؓ  سے تفسیر حاصل کرنے کا اہتمام فرمایا۔

5- سیاق وسباق کے اعتبار سے قرآنی کلمات کے شرعی یا لغوی معنی کا جو تقاضہ ہو اسے لینا، اور اگر شرعی اور لغوی معنی میں کہیں اختلاف ہو تو وہاں شرعی معنی کو ترجیح دینا الا یہ کہ کوئی خاص دلیل موجود ہے جس کی وجہ سے کبھی لغوی معنی کو شرعی معنی پر ترجیح حاصل ہو جائے۔

4- تفسیرِ ماثور میں وارد ہونے والے اختلاف کی انواع واقسام۔

5- ترجمہ قرآن: اس کی تعریف، انواع اور ان تمام انواع کا حکم۔

٭ پانچ مشہور مفسرین کی سیرت کا بیان۔ تین صحابہ میں سے اور دو تابعین میں سے۔

٭محکم و متشابہ کے اعتبار سے قرآن کریم کی اقسام:

= متشابہ آیات سے متعلق راسخین فی العلم اور کجروؤں کا مؤقف۔

= حقیقی اور نسبی متشابہات۔

= قرآن مجید کے محکم و متشبہ میں تقسیم ہونے کی حکمت۔

٭ قرآن کریم کی آیات میں تعارض پائے جانے کا وہم اور اس کا جواب مثالوں کے ساتھ۔

٭ قرآن کریم میں قَسَم کا بیان: اس کی تعریف، صیغے اور فوائد۔

٭ قرآن کریم میں قصص: ان کی تعریف، غرض و غایت، ان کی تکرار اور طوالت، اختصار واسلوب کے فرق میں حکمت-

٭ اسرائیلیات: یعنی وہ بنی اسرائیل سے مروی روایات جنہیں تفسیر میں شامل کر دیا گیا اور ان کے تعلق سے علماء کرام کا مؤقف۔

٭ ضمیر: اس کی تعریف، مرجع، جہاں ضمیر استعمال ہونا چاہیے وہاں اسم کا اظہار کرنا اور اس کا فائدہ، ایک ضمیر سے دوسرے ضمیر کی جانب التفات کرنا اور اس کا فائدہ، ضمیر منفصل کا استعمال اور اس کا فائدہ۔

٭٭

 

 

 

 

قرآن کریم

 

1۔ لغوی تعریف

 

مصدر "قرأ” (قرات) بمعنی "تلا”(تلاوت) یا پھر بمعنی "جمع” (جمع)۔ آپ کہتے ہیں "قرأ قرءاً وقرآناً” جیسا کہ کہتے ہیں : "غفر غَفْراً وغفراناً "۔ پس پہلے معنی کے اعتبار سے ” تلا” مصدر ہو گا بمعنی اسم مفعول کے یعنی "متلوّ” (جس کی تلاوت کی جاتی ہے )۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے "جَمَعَ” مصدر ہو گا بمعنی اسم فاعل یعنی "جامع” (جمع کرنے والا )کیونکہ قرآن مجید اخبار و احکام کو جمع کرتا ہے ([1])۔

 

شرعی تعریف

 

قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جو اس نے اپنے رسول اور خاتم الانبیاء محمدﷺ ‍پر نازل فرمایا۔ جو سورۃ الفاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور سورۃ الناس پر ختم ہوتا ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِیلاً﴾

(الدہر: 23)

(بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے )

﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾

(یوسف: 2)

(یقیناً ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو)

اور اللہ تعالی نے اس قرآن عظیم کو کسی بھی قسم کے تغیر و تبدیلی، نقص یا زیادتی سے محفوظ رکھا ہے۔ کیونکہ خود اللہ عزوجل نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ، فرمایا:

﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾

(الحجر: 9)

(ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں )

یہی وجہ ہے کہ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود دشمنانِ قرآن میں سے جس کسی نے بھی کبھی یہ کوشش کی کہ اس میں تغیر، کمی بیشی یا تبدیلی کرے تو اللہ تعالی نے اس کا پردہ چاک فرما دیا اور اس کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔

اللہ تعالی نے قرآن حکیم کو بہت سے اوصاف سے متصف فرمایا ہے جو اس کی عظمت، برکت، تاثیر و شمولیت پر دلالت کرتے ہیں۔ اور یہ سابقہ تمام کتب پر حاکم ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَلَقَدْ آتَیْنَاكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ﴾

(الحجر: 87)

(یقیناً ہم نے آپ کو سات آیتیں (یعنی سورۃ الفاتحہ) دے رکھی ہیں کہ وہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے )

﴿وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ﴾

(ق: 1)

(بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے )

اور فرمایا:

﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْكَ مُبَارَكٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾

(ص: 29)

(یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں )

﴿وَہَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾

(الانعام: 155)

(اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیرو برکت والی، سو اس کی اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو)

﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یَہْدِی لِلَّتِی ہِیَ أَقْوَمُ﴾

(الاسراء: 9)

(یقیناً یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے )

اور فرمایا:

﴿لَوْ أَنْزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَأَیْتَہُ خَاشِعاً مُتَصَدِّعاً مِنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَكَّرُونَ﴾

(الحشر: 21)

(اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے، تو آپ دیکھتے کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا، ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں )

﴿وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَۃٌ فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ أَیُّكُمْ زَادَتْہُ ہَذِہِ إِیمَاناً فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَاناً وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ . وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْساً إِلَی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوا وَہُمْ كَافِرُون﴾

(التوبۃ: 124-125)

(اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا! سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔ اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وہ حالت کفر ہی میں مر گئے)

﴿وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ﴾

(الانعام: 19)

(اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں )

﴿فَلا تُطِعِ الْكَافِرِینَ وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَاداً كَبِیراً﴾

(الفرقان: 52)

(پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں )

اور فرمایا:

﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتَابَ تِبْیَاناً لِكُلِّ شَیْءٍ وَہُدیً وَرَحْمَۃً وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ﴾

(النحل: 89)

(اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے ، اور ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لیے)

اور فرمایا:

﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُہَیْمِناً عَلَیْہِ فَاحْكُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ﴾

(المائدۃ: 48)

(اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے)

قرآن کریم اس شریعت اسلامی کا مصدر ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنی نبی ورسول محمدﷺ  کو تمام انسانیت کی جانب مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿تَبَارَكَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَكُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیراً﴾

(الفرقان: 1)

(بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے)

﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ.اللَّہِ الَّذِی لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَوَیْلٌ لِلْكَافِرِینَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیدٍ﴾

(ابراہیم: 1-2)

(یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ان کے رب کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔ اس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے )

اور سنت نبوی بھی شریعت کا مصدر ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اسے قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿مَن یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ وَمَنْ تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَیْہِمْ حَفِیظاً﴾

(النساء: 80)

(اس رسول کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپﷺ  کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا)

﴿وَمَنْ یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُبِیناً﴾

(الاحزاب: 36)

(یاد رکھو جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا)

﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا﴾

(الحشر: 7)

(اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ)

﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْكُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌرَحِیمٌ﴾

(آل عمران: 31)

(کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

[1] اور جمع کے تعلق سے بمعنی اسم مفعول بھی ہوسکتا ہے یعنی "مجموع” کیونکہ اسے مصاحف وسینوں میں جمع و حفظ کیا جاتا ہے۔

٭٭

 

 

 

2- سب سے پہلے قرآن کریم میں سے جو نازل ہوا

 

سب سے پہلے مطلقاً قطعی طور پر جو قرآن کریم میں سے نازل ہوا وہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں، اور وہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہیں :

﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾

(العلق: 1-5)

(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا)

پھر کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی پھر سورۂ مدثر کی ابتدائی پانچ آیات نازل ہوئیں، اور وہ یہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہیں :

﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ، وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ، وَثِیَابَكَ فَطَہِّرْ، وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ﴾

(المدثر: 1-5)

(اے کپڑا اوڑھنے والے۔ کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے۔ اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر۔ اور ناپاکی کو چھوڑ دے)

صحیح بخاری ومسلم میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ  سے وحی کی ابتداء کے تعلق سے روایت ہے کہ آپؓ  نے فرمایا: ‘‘حَتَّی جَاءَہُ الْحَقُّ وَہُوَ فِی غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَہُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ’’([1]) (۔۔۔ یہاں تک کہ آپﷺ  کے پاس حق آیا جبکہ آپﷺ  اس وقت غار حرا میں تھے۔ پس آپﷺ  کے پاس وہ فرشتے(جبرئیل ؑ) آئے اور کہا: پڑھو۔ آپﷺ نے فرمایا: میں قاری نہیں (یعنی مجھے پڑھنا نہیں آتا)) پھر وہ مکمل حدیث بیان فرمائی کہ پھر فرشتے نے کہا: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ سے لے کر ﴿عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ تک۔
اور اسی بخاری ومسلم میں سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ  نے پہلی وحی کے بعد کچھ عرصہ وحی کے منقطع ہونے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ: ‘‘بَیْنَا أَنَا أَمْشِی إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ’’([2]) (میں جارہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی) پھر وہ مکمل حدیث بیان کی جس میں ہے کہ پھر اللہ تعالی نے یہ آیات مجھ پر نازل فرمائیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ﴾ سے لے کر ﴿وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ﴾ تک۔
اور ایسی آیات بھی ہیں کہ جن کے بارے میں کہا گیا: "اول مانزل” (پہلی جو نازل ہوئیں ) اس سے مراد کسی معین چیز کے بارے میں جو نازل ہوئیں، اس اعتبار سے یہ مقید قسم کی اولیت ہوئی۔ جیسا کہ سیدنا جابرؓ  کی صحیح بخاری ومسلم میں حدیث ہے کہ سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمنؓ  نے آپؓ سےقرآن میں سب سے پہلے نازل ہونے والی آیات کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ‘‘﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ﴾، قُلْتُ: یَقُولُونَ: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾، فَقَالَ أَبُو سَلَمَۃَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْ ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَہُ مِثْلَ الَّذِی قُلْتَ، فَقَالَ جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّہِﷺ  قَالَ: جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَیْتُ جِوَارِی ہَبَطْتُ۔۔۔ ’’ (تو انہوں نے کہا سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئی۔ میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات سب سے پہلے نازل ہوئی!۔ تو ابوسلمہ نے کہا : میں نے سیدنا جابر بن عبداللہؓ  سے اس کے متعلق پوچھا اور میں نے وہی کہا جو تم نے کہاتو سیدنا جابرؓ نے کہا: میں تم سے وہی بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہﷺ  نے بیان فرمائی، آپﷺ  نے فرمایا کہ: میں (غار)حرا میں گوشہ نشین تھا جب میں نے گوشہ نشینی کی مدت کو پورا کر لیا تو میں وہاں سے اترا۔۔ ) پھر پوری حدیث بیان کی کہ جس میں ہے : ‘‘فَأَتَیْتُ خَدِیجَۃَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِی وَصُبُّوا عَلَیَّ مَاءً بَارِدًا۔ قَالَ: فَنَزَلَتْ﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ﴾’’([3]) (پھر میں سیدہ خدیجہؓ  کے پاس آیا، اور کہا مجھے چادر اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو، پھر مجھ پر ﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَاَنْذِرْ﴾ سے لے کر ﴿وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ﴾ تک نازل ہوئیں )۔

یہاں سیدنا جابرؓ  جس اولیت کی بات کر رہے ہیں وہ پہلی وحی کے انقطاع کے بعد جب دوبارہ وحی نازل ہوئی تو اس میں سب سے پہلے کیا نازل ہوا، یا پھر شان رسالت کے بارے میں جوسب سے پہلے نازل ہوا۔ کیونکہ جو کچھ سورۂ علق میں نازل ہوا اس سے آپﷺ  کی نبوت ثابت ہوئی اور جو کچھ سورۂ مدثر میں نازل ہوا اس سے آپﷺ  کی رسالت ثابت ہوئی، جو اللہ تعالی کے اس فرمان میں وارد ہے :

﴿قُمْ فَاَنْذِرْ﴾

(المدثر: 2)

(کھڑے ہو جاؤ اور ڈراؤ)

اسی لیے اہل علم کہتے ہیں کہ: نبی کریمﷺ ‘‘نبی باقراء وارسل بالمدثر’’ (اقراء کے ذریعہ نبی بنے اور مدثر کے ذریعے رسول)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

[1] اخرجہ البخاری، کتاب بدء الوحی، باب 1: کیف کان بدء الوحی، باب 1: کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ۔۔۔ ، اصول فی التفسیر، حدیث رقم 3، ومسلم، کتاب الایمان، باب 73: بدء الوحی الی رسول اللہﷺ ، حدیث رقم 403 [252] 160۔
[2] اخرجہ البخاری، کتاب بدء الوحی، باب 1: کیف کان بدء الوحی، باب 1: کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ ، حدیث رقم 4، ومسلم، کتاب الایمان، باب 73: بدء الوحی الی رسول اللہﷺ ، حدیث رقم 406 [255] 161۔
[3] اخرجہ البخاری، کتاب التفسیر، باب 3: قولہ: (یاایھا المدثر)، حدیث رقم 4924، ومسلم، کتاب الایمان، باب 73: بدء الوحی الی رسول اللہﷺ ، حدیث رقم 409 [257] 161۔

 

 

 

 

3- قرآن کریم کا ابتدائی اور سببی نزول

 

قرآن کریم کا نزول دو اقسام میں تقسیم ہوتا ہے :

 

پہلی قسم ابتدائی

 

وہ آیات کے جن کے نزول سے پہلے کوئی خاص سبب پیدا نہ ہوا ہو کہ جس کی وجہ سے یہ آیات نازل ہوئی ہوں۔ اور قرآن مجید کی غالب آیات اسی قسم سے ہیں۔ اس میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

﴿وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَیِٕنْ اٰتٰینَا مِنْ فَضْلِہ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾

(التوبۃ: 75)

(ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور آپکی طرح نیکوکاروں میں ہو جائیں گے)

یہ آیات ابتداءً ہی بعض منافقین کی حالت بیان کرنے کو نازل ہوئی۔ البتہ جو بات مشہور ہے کہ جناب ثعلبہ بن حاطبؓ کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی تھیں اور اس بارے میں ایک طویل قصہ بیان کیا جاتا ہے جسے بہت سے مفسرین نے بیان کیا اور بہت سے واعظوں نے رواج دیا، ضعیف ہے صحیح نہیں ([1])۔

 

دوسری قسم سببی

 

جو آیات کسی خاص سبب کے باعث نازل ہوئی ہوں۔ اور سبب بہت سے ہو سکتے ہیں جیسے:

1- سوال ہو گا کہ جس کا جواب اللہ تعالی نے دیا ہو گا جیسے:

﴿یَسْئلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ  قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ﴾

(البقرۃ:189)

(لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے )

2- یا کوئی واقعہ رونما ہوا ہو گا جو محتاج بیان و تحذیر ہو گا جیسے:

﴿وَلَیِٕنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہ وَرَسُوْلِہ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُ وْنَ۔ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَایِٕفَۃٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَایِٕفَۃً بِاَنَّہُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ﴾

(التوبۃ: 65-66)

(اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔ تم عذر نہ تراشو یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے۔ اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں، تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے)

یہ آیتیں منافقین میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جس نے غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک مجلس میں کہا کہ:

‘‘مَا رَأَیْنَا مِثْلَ قُرَّائِنَا ہَؤُلاءِ، أَرْغَبَ بُطُونًا، وَلا أَكْذَبَ ألسنًا، وَلا أَجْبَنَ عِنْدَ اللِّقَاءِ’’([2])

(ہم نے اپنے ان قاریوں کے جیسا کسی کو پیٹو، زبان کا جھوٹا، لڑائی کے وقت بزدل نہیں دیکھا) ان کی اس سے مراد رسول اللہﷺ ‍اور آپ کے صحابہ کرامؓ تھے۔ پس یہ بات نبی کریمﷺ  تک پہنچی اور قرآن کریم نازل ہو گیا اور وہ شخص نبی اکرمﷺ ‍کے پاس معذرت کے لیے آیا تو آپﷺ  نے اس آیت کے ذریعے ہی اسے جواب ارشاد فرمایا کہ:

﴿ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہ وَرَسُوْلِہ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُ وْنَ۔ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ﴾

(التوبۃ: 65-66)

(کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔ تم عذر نہ تراشو یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے)

3- یا کوئی ایسا فعل واقع ہو کہ جس کا حکم معلوم کرنے کی احتیاج ہو جیسے:

﴿قَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُكَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَكِی إِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ الَّذِینَ یُظَاہِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِہِم مَّا ہُنَّ أُمَّہَاتِہِمْ ۖ إِنْ أُمَّہَاتُہُمْ إِلَّا اللَّائِی وَلَدْنَہُمْ ۚ وَإِنَّہُمْ لَیَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّہَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ وَالَّذِینَ یُظَاہِرُونَ مِن نِّسَائِہِمْ ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِیرُ رَقَبَۃٍ مِّن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِہِ ۚ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ﴿٣﴾ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِن قَبْلِ أَن یَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ یَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْكِینًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّہِ  وَلِلْكَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ﴾

(المجادلۃ: 1-4)

(یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا۔ بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں ) وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے، یقیناً یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کر لیں تو ان کے ذمے آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے ، اس کے ذریعے تم نصیحت کئے جاتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمے دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لئے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم برداری کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی وہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لئے دردناک عذاب ہے )

 

اسباب نزول کی معرفت کے فوائد

 

اسباب نزول کی معرفت بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

1- اس سے بیان ہوتا ہے کہ یہ قرآن واقعی اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ  سے کسی چیز کی بابت پوچھا جاتا تو کبھی کبھار آپﷺ  توقف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ  پر وحی نازل نہ ہو یا پھر کوئی بات آپﷺ  پر مخفی ہوا کرتی تھی تو وحی نازل ہو کر اسے آپﷺ  پر بیان کر دیتی تھی۔

پہلی صورت کی مثال: اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَیَسئَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾

(الاسراء: 85)

(اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے )

اور صحیح البخاری میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ یہود میں سے کسی شخص نے کہا:
‘‘یَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّہُ یُوحَی إِلَیْہِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَی عَنْہُ، قَالَ: ﴿وَیَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا﴾’’([3])
(اے ابو القاسم (رسول اللہﷺ  کی کنیت ہے ) روح کیا ہے ؟ پس آپﷺ  خاموش ہو گئے۔ میں نے کہا کہ: آپﷺ  پر وحی نازل ہورہی ہے۔ میں اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب آپﷺ کو نزول وحی والی کیفیت سے افاقہ ہوا تو یہ آیت تلاوت فرمائی: اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے )

دوسری صورت کی مثال: اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿یَقُوْلُوْنَ لَیِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ﴾

(المنافقون: 8)

(یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا)

اور صحیح البخاری میں ہے کہ سیدنا زید بن ارقمؓ  نے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے ہوئے سناکہ وہ سب سے بڑا عزت دار ہو گا جبکہ رسول اللہﷺ  اور آپ کے صحابہ کرامؓ  سب سے زیادہ ذلیل ترین ہوں گے۔ چنانچہ سیدنا زیدؓ  نے اپنے چچا کو اس کی خبر دی اور انہوں نے نبی اکرمﷺ  کو اس کی خبر دی۔ پس رسول اللہﷺ  نے سیدنا زیدؓ  کو بلا بھیجا اور آپؓ  نے جو کچھ سنا تھا وہ بتا دیا۔ پھر عبداللہ بن ابی اور ان کے ساتھیوں کی طرف کسی کو بھیجا تو انہوں نے قسم اٹھائی کہ ہم نے ایسا نہیں کہا اوررسول اللہﷺ  نے ان کی قسم کے سبب ان کی تصدیق کی۔ پھر اللہ تعالی نے سیدنا زیدؓ  کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی اور یہ معاملہ رسول اللہﷺ  پر کھل گیا([4])۔

2- اللہ تعالی کی اپنے رسولﷺ  کے دفاع کی خصوصی عنایت فرمانا۔ اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان:

﴿وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا﴾

(الفرقان: 32)

(اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیااسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کر کے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے )

اسی طرح سے آیاتِ افک(ام المومنینؓ  پر تہمت لگنے کا واقعہ) کہ اس میں رسول اللہﷺ  کی حرمت و آبرو کا دفاع کرنا اور اسے بہتان طرازوں کی پھیلائی گندگی سے پاک کرنا تھا۔

3- اس میں اللہ تعالی کا اپنے بندوں کی تکالیف کو دور کرنے اور غموں کا ازالہ کرنے کا بیان ہوتا ہے۔ اس کی مثال تیمم سے متعلق آیت ہے۔ صحیح البخاری میں ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ  کا ہار کہیں گم ہو گیا جبکہ آپؓ  رسول اللہﷺ  کے ساتھ کسی سفر میں تھیں تو نبی کریمﷺ  اسے ڈھونڈھنے کی کوشش میں رک گئے۔ اور لوگ بغیر پانی کے کھڑے ہو گئے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے شکوہ کرنے لگے اور جو پوری حدیث ہے۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے تیمم سے متعلق آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا۔ اس پر سیدنا اسید بن حضیرؓ  نے فرمایا: ‘‘مَا ہِیَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ یَا آلَ أَبِی بَكْر’’([5]) (اے آل ابی بکر یہ تمہاری کوئی پہلی برکت تو نہیں ) ( یعنی اس سے پہلے بھی تمہاری وجہ سے بہت سے آسانی کے احکام نازل ہو چکے ہیں ) اور یہ حدیث بخاری میں مطولاً بیان ہوئی ہے۔

4- آیت کا صحیح فہم حاصل ہونا۔ اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

﴿اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَایِٕرِاللّٰہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا﴾

(البقرۃ: 158)

(صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں )

ان کے درمیان سعی کرے اس میں اللہ تعالی کے فرمان ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ ﴾ کا ظاہر تو زیادہ سے زیادہ سعی کو مباح وجائز قرار دیتا ہے (یعنی کرنے میں کوئی گناہ نہیں )۔ چناچہ صحیح البخاری میں سیدنا عاصم بن سلیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ‘‘سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنْ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، فَقَالَ: كُنَّا نَرَی أَنَّہُمَا مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْہُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی: ﴿اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَایِٕرِاللّٰہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا﴾’’([6]) (میں نےسیدنا انس بن مالکؓ  سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: دراصل ہم اسے جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا توہم اس سے رک گئے جس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: (صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ))
اس سےمعلوم ہوا کہ گناہ یا حرج ہونےکی نفی کرنے سے مراد سعی کا حکم بیان کرنا نہیں تھا بلکہ اس حرج کی نفی تھی جسے وہ اپنے اندر پاتے تھے اور اسے جاہلیت کا عمل سمجھ کر رک گئےتھے۔ البتہ سعی کے حکم کی جو اصل ہے وہ اللہ تعالی کے اس فرمان سے ظاہر ﴿ مِنْ شَعَایِٕرِاللّٰہِ ﴾ (البقرۃ: 158) (شعائر اللہ میں سے ہیں )۔

 

عمومِ لفظ اور خصوصِ سبب

 

اگر کوئی آیت کسی خاص سبب کی وجہ سے نازل ہوئی لیکن اس کے الفاظ عام ہیں تو وہ اس سبب سمیت ان تمام باتوں کو شامل ہے جو اس لفظ کے تحت آسکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید پوری امت کے لیے ایک عام شریعت کے بطور نازل ہوا ہے۔ لہذا اعتبار عموم لفظ کا کیا جاتا ہے ناکہ خصوص سبب کا۔

اس کی مثال لعان کی آیات ہیں اور وہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہیں :

﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَكُنْ لَّہُمْ شُہَدَاءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍ بِاللّٰہِ  اِنَّہ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ۔ وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۔ وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدٰتٍ بِاللّٰہِ  اِنَّہ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ۔ وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْہَآ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ﴾

(النور: 6-9)

(جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی خود اپنے علاوہ گواہ نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ اور پانچویں دفع کہے کہ اس پر اللہ کا عذاب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو)

اور صحیح البخاری میں سیدنا ابن عباسؓ  کی حدیث ہے کہ: ‘‘أَنَّ ہِلَالَ بْنَ أُمَیَّۃَ قَذَفَ امْرَأَتَہُ عِنْدَ النَّبِیِّﷺ ‍بِشَرِیكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِیُّﷺ ‍: الْبَیِّنَۃَ أَوْ حَدٌّ فِی ظَہْرِكَ، فَقَالَ ہِلَالٌ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّی لَصَادِقٌ، فَلَیُنْزِلَنَّ اللَّہُ مَا یُبَرِّئُ ظَہْرِی مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَ جِبْرِیلُ، وَأَنْزَلَ عَلَیْہِ، ﴿وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ﴾ فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ﴿ إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ﴾’’([7]) (سیدنا ہلال بن امیہؓ  نے نبی کریمﷺ  کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کرنے کی تہمت لگائی۔ رسول اللہﷺ  نے فرمایا: یا تو گواہ لاؤ یاپھر اپنی کمر پر درے کھاؤ۔ ہلال نے کہا : جس ذات نے آپﷺ  کوحق کے ساتھ بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں، اور اللہ تعالی ضرور کوئی ایسی آیت نازل فرمادے گا جس سے میری کمر حد لگنے سے بچ جائے گی۔ اس پر جبرئیل ؑ نازل ہوئے اور آپﷺ  پر یہ آیات نازل ہوئیں (جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں )سے لے کر(اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو))۔

چناچہ یہ آیات سیدنا ہلال بن امیہؓ  کی اپنی بیوی پر تہمت لگانے کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، لیکن اس کا حکم انہیں اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی شامل ہے۔ اس کی دلیل بخاری میں سیدنا سہل بن سعدؓ  کی حدیث میں ہے کہ سیدنا عویمر العجلانیؓ  نبی کریمﷺ  کے پاس آیا اور عرض کی:

‘‘رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا أَیَقْتُلُہُ فَتَقْتُلُونَہُ، أَمْ كَیْفَ یَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ: قَدْ أَنْزَلَ اللَّہُ الْقُرْآنَ فِیكَ وَفِی صَاحِبَتِكَ، فَأَمَرَہُمَا رَسُولُ اللَّہِﷺ  بِالْمُلَاعَنَۃِ بِمَا سَمَّی اللَّہُ فِی كِتَابِہِ، فَلَاعَنَہَا’’([8])

(کوئی مرد اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو(برائی کرتے) پاتا ہے ، کیا وہ اسے قتل کر دے تو آپ لوگ اسے بھی قتل کرنے کی وجہ قتل کر دیتے ہیں، یا پھر وہ آخر کیا کرے؟ نبی کریمﷺ  نے فرمایا: اللہ تعالی تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن نازل فرما چکا ہے۔ پس آپﷺ  نے دونوں کو جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں لعان کا نام دیا ہے اس کا حکم فرمایا، پس دونوں نے لعان کیا)۔

پس رسول اللہﷺ  نے ان آیات کے حکم میں سیدنا ہلال بن امیہؓ  اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی شامل فرمایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

[1] اسے الطبرانی نے روایت کیا، اس میں علی بن یزیدالالھانی ہے جو کہ متروک ہے۔
[2] اس واقعہ کو ابن کثیر نے اپنی تفسیر (2/368) میں، اور الطبری نے بھی اپنی تفسیر (10/172) میں ذکر کیا ہے۔
[3] اخرجہ البخاری، کتاب العلم، باب قول اللہ تعالی (ومآ اوتیتم من العلم الا قلیلا) (الاسراء: 85)۔ حدیث رقم (125)، ومسلم، کتاب صفات المنافقین واحکامھم، باب سؤال الیھود النبیﷺ  عن الروح، وقولہ: (یسئلونک عن الروح۔۔۔ ) (الاسراء: 85)۔ حدیث رقم (2794)۔
[4] اخرجہ البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ المنافقون، باب قولہ: (اذا جآءک المنافقون قالوا نشھد انک لرسول اللہ) (المنافقون: 1)۔ حدیث رقم (4900)، ومسلم، کتاب صفات المنافقین واحکامھم، باب صفات المنافقین واحکامھم۔ حدیث رقم (2772)۔
[5] اخرجہ البخاری، کتاب التیمم، قول اللہ تعالی: (فلم تجدوا مآء فتیمموا صعیدا طیبا فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ) (المائدۃ: 6) حدیث رقم (334)، ومسلم، کتاب الحیض، باب التیمم۔ حدیث رقم (367)۔
[6] اخرجہ البخاری، کتاب الحج، باب ماجاء فی السعی بین الصفا والمروۃ، ومسلم، کتاب الحج، باب بیان ان السعی بین الصفا والمروۃ رکن لایصح الحج الا بہ۔ حدیث رقم (1278)۔
[7] اخرجہ البخاری، کتاب الشھادات، باب اذا دعی او قذف فلہ ان یلتمس البینۃ وینطلق البینۃ۔ حدیث رقم (2671)۔
[8] اخرجہ البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النور، باب قولہ عزوجل: (والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھداء۔۔۔ ) (النور: 6) حدیث رقم (423)، ومسلم، کتاب اللعان۔ حدیث رقم (1492)۔

٭٭

 

 

 

4- مکی یا مدنی سورتیں

 

قرآن مجید نبی کریمﷺ  پر وقتاً فوقتاً تیئس برسوں میں نازل ہوا۔ جن میں سے اکثر برس آپﷺ  نے مکہ مکرمہ میں گزارے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا﴾

(الاسراء: 106)

(قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا)

اسی لیے علماء کرام نے قرآن حکیم کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ہے مکی اور مدنی۔

مکی: جو کچھ نبی کریمﷺ  پر مدینہ نبویہ کی جانب ہجرت سے قبل نازل ہوا۔

مدنی: جو کچھ نبی کریمﷺ  پر مدینہ نبویہ کی جانب ہجرت کے بعد نازل ہوا۔

اسی وجہ سے اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿اَلْیَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: 3)
(آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا)
مدنی قسم میں سے ہے اگرچہ یہ نبی اکرمﷺ  پر حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفہ(مکہ مکرمہ) کے مقام پر نازل ہوئی تھی۔ صحیح البخاری میں سیدنا عمرؓ  سے روایت ہے کہ فرمایا:
‘‘قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْیَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِی نَزَلَتْ فِیہِ عَلَی النَّبِیِّﷺ ‍وَہُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَۃَ یَوْمَ جُمُعَۃٍ’’([1])
(ہمیں وہ دن معلوم ہے اور وہ جگہ بھی کہ جہاں یہ آیت رسول اللہﷺ  نازل ہوئی تھی، یہ اس وقت نازل ہوئی جب آپﷺ بروز جمعہ عرفہ میں کھڑے ہوئے تھے)۔

مکی سورتیں مدنی سورتوں سے اپنے اسلوب اور موضوع کے اعتبار سے بھی ممیز ہوتی ہیں۔

1- اسلوب کے اعتبار سے:

1- مکی سورتوں میں غالباً قوت اسلوب اور شدت خطاب ہوتا ہے کیونکہ غالب مخاطبین اعراض و تکبر کرنے والے تھے، جو اسی طرز خطاب کے لائق تھے۔ پڑھیں سورۃ المدثر اور القمر۔

جبکہ مدنی سورتوں میں نرم اسلوب اور سہل خطاب ملے گا کیونکہ غالب مخاطبین قبول کرنے والے اور اطاعت بجا لانے والے تھے۔ پڑھیں سورۃ المائدۃ۔

2- مکی سورتوں میں چھوٹی چھوٹی آیات اور قوت مجادلہ ملے گا۔ کیونکہ غالب مخاطبین معاندین و مخالفین کی تھی۔ پس ان کے حسب حال ان سے خطاب کیا گیا۔ پڑھیں سورۃ الطور۔

جبکہ مدنی سورتوں میں غالباً طویل آیات اور احکام بنا مجادلہ کے ارسال کیے گئے ہیں۔ کیونکہ ان کا حال اس کا متقاضی تھا۔ سورۃ البقرۃ میں آیتِ دین (قرض والی آیت رقم282) پڑھیں۔

2- موضوع کے اعتبار سے:

1- مکی سورتوں میں غالب طور پر توحید اور صحیح عقیدے کا بیان ہوتا ہے ، خصوصاً توحید الوہیت اور مر کر جی اٹھنے پر ایمان کے تعلق سے، کیونکہ غالب مخاطبین اس کے انکاری تھے۔

جبکہ مدنی سورتوں میں عبادات اور معاملات کی تفصیل ملے گی کیونکہ مخاطبین کے دلوں میں توحید اور صحیح عقیدہ جاگزین تھا۔ اور انہیں عبادات و معاملات کی تفصیلات جاننے کی حاجت تھی۔

2- مزید برآں مدنی سورتوں میں جہاد اور اس کے احکام اسی طرح سے منافقین اور ان کے احوال بیان ہوئے ہیں جو کہ ان کے حالات کا تقاضہ تھے، کیونکہ اسی وقت جہاد مشروع ہوا تھا اور نفاق کا ظہور ہوا تھا برخلاف مکی سورتوں کے۔

 

مکی اور مدنی معلوم کرنے کے فوائد

 

کسی سورت کا مکی یا مدنی معلوم کرنا قرآن کریم کے علوم میں سے ایک اہم نوع ہے۔ کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

1- قرآن مجید کی اعلی مرتبت بلاغت کا اظہار ہے کہ وہ ہر قوم کو اس کے مناسب حال قوت وشدت یا نرمی وسہولت کے ساتھ مخاطب کرتا ہے۔

2- شریعت کی حکمت کا ظہور کے وہ مخاطبین کے حسب حال اور ان کے اندر پائی جانے والی قبول و تنفیذ کی استعداد کے اعتبار سے اہم ترین غایت سے شروع کرتے ہوئے بتدریج چلتی ہے۔

3- داعیان کی تربیت اور انہیں سمجھانا کہ وہ بھی مخاطبین کے لحاظ سے قرآنی اسلوب اور موضوع کی پیروی کریں۔ اس طرح کہ پہلے اہم ترین بات سے شروع کریں پھر جو اس کے بعد اہم ہو۔ اور شدت کو اس کے مناسب مقام پر اور نرمی وسہولت کو اس کے مناسب مقام پر استعمال کریں۔

4- ناسخ اور منسوخ کی تمیز ہونا۔ اس طرح کے ایسی دو آیات کہ جن میں نسخ کی شروط پائی جاتی ہوں ان میں سے ایک مکی اور دوسری مدنی ہو، تو مدنی آیت مکی آیت کو منسوخ کرنے والی ہو گی کیونکہ مدینہ نبویہ کا زمانہ بعد کا زمانہ ہے۔

قرآن کریم کو وقتاً فوقتاً نازل کرنے کی حکمت:

قرآن مجید کی مکی اور مدنی تقسیم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نبی اکرمﷺ پر وقتاً فوقتاً نازل ہوا تھا۔ اور اس کے اس طور پر نازل ہونے میں بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

1- نبی کریمﷺ  کے دل کو ثابت قدم رکھنا، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا وَلَا یَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِیرًا﴾

(الفرقان: 32-33)

(اور کافروں نے کہا اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا اسی طرح ہم نے (تھوڑا تھوڑا) کرکے اتارا تاکہ اس سے ہم آپ کا دل قوی رکھیں، ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے۔ یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ دلیل آپ کو بتا دیں گے)

2- تاکہ لوگوں کو اس کا حفظ کرنا، اس کا فہم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے کہ ان پر اسے تھوڑا تھوڑا پڑھا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا﴾

(الاسراء: 106)

(قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لئے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا)

3- نفس اور مزاج کا جو کچھ قرآن میں نازل ہو اسے قبول اور نافذ کرنے کے لیے چوکس ہونا تاکہ لوگ آیت کے نزول کے لیے بہت پر جوش، شوق اور حرص رکھیں۔ خصوصاً جب اس کی شدید حاجت ہو جیسے واقعہِ افک اور لعان میں ہوا۔

4- شریعت سازی میں تدرج کا عمل یہاں تک کہ وہ اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ جیسا کہ شراب سے متعلق آیات میں ہوا کہ لوگ تو اسے پیتے پیتے ہی پروان چڑھے تھے، وہ ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ لہذا بہت ہی مشکل تھا کہ وہ اسے مکمل طور پر منع کر دینے کے حکم کا فوری سامنا کرسکیں۔ پس اللہ تعالی نے سب سے پہلے اس سے متعلق فرمایا:

﴿یَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ  قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا﴾

(البقرۃ: 219)

(لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے ، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے )

اس آیت میں نفس کو تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ شراب کی حرمت کو قبول کرنے کے لیے راضی ہو جائیں کیونکہ عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ایسی چیز سے بچا جائے کہ جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ ہو۔

پھردوسری بار یہ آیت نازل فرمائی:

﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ﴾

(النساء: 43)

(اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو)

اس آیت میں ترتیب دی جا رہی ہے کہ بعض اوقات یعنی نماز کے اوقات میں تو اسے چھوڑ دیا کرو۔ پھر تیسری بار میں یہ آیات نازل فرمائی:

﴿یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۔ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ﴾

(المائدۃ: 90-92)

(اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو۔ شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے۔ سو اب بھی باز آ جاؤ۔ تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو۔ اگر اعراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صاف صاف پہنچا دینا ہے )

ان آیات میں نفوس کو تیار کرنے، پھر بعض اوقات میں پرہیز کروانے، کے بعد اب شراب نوشی سے تمام اوقات میں بالکل منع فرما دیا گیا۔

ترتیب قرآن

ترتیب قرآن سے مراد ہے کہ اس کی یکے بعد دیگرے آیات وسورتوں کی تلاوت اس طور پر کرنا جیسے مصاحف میں لکھی ہے یا سینوں میں محفوظ ہے۔

اس کی تین اقسام ہیں :

پہلی قسم: کلمات کی ترتیب اس طور پر کہ آیت میں پایا جانے والاہر کلمہ اپنی جگہ پر ہے۔ یہ نص(دلیل) اور اجماع سے ثابت ہے۔ اس کے وجوب اور اس کی مخالفت کی تحریم کا ہمیں کوئی مخالفت کرنے والا معلوم نہیں یعنی سب ہی مانتے ہیں۔ لہذا یہ جائز نہیں کہ کوئی یوں پڑھے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الفاتحہ) کے بجائے (للہ الحمد رب العالمین)۔
دوسری قسم: آیات کی ترتیب کہ ہر آیت اپنی سورت کی مخصوص جگہ پر ہو۔ یہ بھی نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ راجح قول کے مطابق یہ بھی واجب ہے اور اس کی مخالفت حرام ہے۔ لہذا یہ جائز نہیں کہ ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ (الفاتجہ) کے بجائے (مالک یوم الدین، الرحمن الرحیم) پڑھا جائے۔ صحیح البخاری میں سیدنا عبداللہ بن الزبیرؓ  نے سیدنا عثمان بن عفانؓ سے اللہ تعالی کے اس فرمان  ﴿وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِیَّۃً لِّأَزْوَاجِہِم مَّتَاعًا إِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ إِخْرَاجٍ﴾ (البقرۃ: 240) (جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں اور وہ وصیت کر جائیں ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے) کے متعلق فرمایا اسے دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے یعنی اللہ تعالی کے اس فرمان نے ﴿وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا﴾ (البقرۃ: 234) (تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ) جبکہ یہ تلاوت میں اس سے قبل آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا: تو پھر ایسے کیوں لکھتے ہیں ؟ اس پر سیدنا عثمانؓ  نے فرمایا: ‘‘یَا ابْنَ أَخِی، لَا أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْہُ مِنْ مَكَانِہِ’’([2]) (اے بھتیجے میں اس میں سے کسی چیز کو اس کے مقام سے ردوبدل نہیں کرسکتا)۔

اور امام احمد، ابو داود، النسائی و الترمذی نے سیدنا عثمانؓ  کے حوالے سے حدیث بیان کی کہ: (نبی اکرمﷺ  پر کچھ عدد سورتیں نازل ہوتیں، پس جب وہ نازل ہوتیں تو آپﷺ بعض ان صحابہ کو جو کاتبین وحی ہوتے تھے بلاتے اور فرماتے):

 ‘‘ضَعُوا ہَذِہِ الْآیَاتِ فِی السُّورَۃِ الَّتِی یُذْكَرُ فِیہَا كَذَا وَكَذَا’’([3])

(اس آیت کو اس سورت میں لکھ دو جس میں فلاں فلاں ذکر ہے )۔

تیسری قسم: سورتوں کی ترتیب کے ہر سورت مصحف میں ترتیب کے اعتبار سے اپنے مقام پر ہو۔ یہ اجتہاد سے ثابت ہے اور واجب نہیں۔ صحیح مسلم میں سیدنا حذیفہ بن یمانؓ  سے روایت ہے کہ: ( انہوں نے ایک رات رسول اللہﷺ  کے ساتھ نماز پڑھی پس آپﷺ  نے)

 ‘‘ثُمَّ قَرَأَ الْبقَرَۃَ، ثُمَّ النِّسَاءَ، ثُمَّ آلَ عِمْرَانَ’’([4])

( سورۃ البقرۃ تلاوت فرمائی پھر سورۃ النساء پھر آل عمران)۔ اور البخاری نے تعلیقاً الاحنف سے روایت بیان کی کہ: ‘‘وَقَرَأَ الْأَحْنَفُ بِالْكَہْفِ فِی الْأُولَی وَفِی الثَّانِیَۃِ بِیُوسُفَ أَوْ یُونُسَ، وَذَكَرَ أَنَّہُ صَلَّی مَعَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ الصُّبْحَ بِہِمَا’’[5]

(وہ پہلی رکعت میں الکھف پڑھتے تھے اور دوسری میں یوسف یا یونس۔ اور ذکر کیا کہ انہوں نے صبح کی نماز سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی تھی تو وہ بھی انہیں تلاوت فرماتے تھے)۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ  فرماتے ہیں : (اس سے پہلے اس کی قرات جائز ہے۔ اسی طرح سے کتابت بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ  کے مصاحف کتابت کے اعتبار سے مختلف تھے۔ لیکن جب سیدنا عثمانؓ  کے زمانے میں سب ایک ہی مصحف پر متفق ہو گئے تو یہ سنت خلفائے راشدین میں سے ہو گیا۔ اور ایک حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خلفائے کرام کی بھی سنت ہوتی ہے جو واجب الاتباع ہوتی ہے )۔

۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

[1] اخرجہ البخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ۔ حدیث رقم (45)، ومسلم، کتاب التفسیر، باب فی تفسیر آیات متفرقۃ۔ حدیث رقم (3015)۔
[2] اخرجہ البخاری، کتاب التفسیر، باب (والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا۔۔۔ ) (البقرۃ: 234) حدیث رقم (4530)۔
[3] احمد (399)، ابو داود (786)، والنسائی فی السنن الکبری (8007)، والترمذی (3086)۔
[4] اخرجہ مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراءۃ فی الصلاۃ اللیل۔ حدیث رقم (772)۔
[5] اخرجہ البخاری، کتاب الاذان، باب (الجمع بین السورتین فی الرکعۃ۔۔۔ )۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

5- قرآن کریم کی جمع و تدوین

 

قرآن کریم کی جمع و تدوین تین مراحل پر مشتمل ہے :

پہلا مرحلہ: عہد نبویﷺ  میں، اس مرحلے میں قوتِ یادداشت، سرعتِ حفظ، کاتبین اور وسائل کتابت کی قلت کی وجہ سے کتابت سے زیادہ حفظ پر اعتماد کیا جاتا تھا۔ اسی لیے اسے مصحف میں جمع نہیں کیا گیا بلکہ جو کوئی بھی کوئی آیت سنتا اسے حفظ کر لیتا، یا پھر اسے جو کھجور کی چھال، چمڑے، پتھر کی سلیں یا ہڈیوں وغیرہ میں سے جو میسر ہوتا اس پر لکھ لیتا۔ اور اس وقت قراءِ قرآن کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔

چنانچہ صحیح البخاری میں سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ: (نبی اکرمﷺ  نے ستر صحابہ جنہیں القراء (قاری) کہا جاتا تھا تبلیغ اسلام کی غرض سے مبعوث فرمائی۔ مگر بنی سلیم میں سے دو قبیلوں رعل و ذکوان نے معونہ کنواں کے پاس ان سے مزاحمت کی اور انہیں قتل کر دیا)([1])۔ اور صحابہ کرامؓ میں ان کے علاوہ بھی بہت سے تھے جیسے خلفائے اربعہ(ابوبکر، عمر، عثمان و علی)، عبداللہ بن مسعود، سالم مولی ابی حذیفہ، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوالدرداءؓ  وغیرہ۔

دوسرا مرحلہ: سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے دور میں سن بارہ(12) ہجری۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ واقعۂ یمامہ میں قراء کرام کی بہت بڑی تعداد قتل ہو گئی۔ جن میں سیدنا سالم مولی ابی حذیفہؓ  بھی تھے کہ جن سے قرآن کریم سیکھنے کا نبی کریمﷺ  نے خود حکم فرمایا تھا۔

چناچہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے اسے جمع کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ کہیں یہ ضائع ہی نہ ہو جائے۔ صحیح البخاری میں ہے کہ سیدنا عمر بن الخطابؓ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کو واقعۂ یمامہ کے بعد قرآن کریم جمع کرنے کا مشورہ دیا، لیکن آپؓ  نے تقویٰ و ورع کے اعتبار سے توقف فرمایا۔ لیکن سیدنا عمرؓ  انہیں یہ کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے سیدنا ابو بکرؓ  کا سینہ کھول دیا اور شرح صدر حاصل ہوا۔ پس آپؓ  نے سیدنا زید بن حارثؓ  کو بلا بھیجا جبکہ سیدنا عمرؓ  بھی آپ کے ساتھ تھے۔ پس سیدنا ابو بکرؓ  نے فرمایا:

‘‘إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، لَا نَتَّہِمُكَ، قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْیَ لِرَسُولِ اللَّہِﷺ ‍فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ، فَاجْمَعْہُ۔۔۔ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُہُ مِنَ الْعُسُبِ، وَالرِّقَاعِ، وَاللِّخَافِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ۔۔۔ وَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِی بَكْرٍ حَیَاتَہُ حَتَّی تَوَفَّاہُ اللَّہُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَیَاتَہُ حَتَّی تَوَفَّاہُ اللَّہُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ’’([2])

(بخاری نے اسے مطولاً روایت کیا ہے ) (تم ایک ایسے عقل مند نوجوان ہو جسے ہم کسی طور پر متہم نہیں سمجھتے۔ اور تم رسول اللہﷺ  کے لیے وحی لکھا کرتے تھے، پس تم قرآن کریم کی آیات کو تلاش کر کر کے جمع کر لو۔۔۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کی اور اسے میں کھجور کی چھال، چمڑے وغیرہ کے ٹکڑوں، پتلے پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سےجمع کرنے لگا۔ یہ صحیفے سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کے پاس رہے جب تک وہ زندہ رہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں وفات دی، پھر وہ سیدنا عمرؓ  کے پاس آ گئے اور آخر وقت تک ان کے پاس رہے۔ جب آپ کو بھی اللہ تعالی نے وفات دی تو وہ سیدہ حفصہ بنت عمرؓ  کے پاس محفوظ رہے۔۔ )۔

تمام مسلمانوں نے سیدنا ابو بکرؓ کے اس فعل کی موافقت کی اور اسے آپؓ کے حسنات میں سے شمار کیا۔ یہاں تک کہ سیدنا علیؓ  نے فرمایا:

‘‘أَعْظَمَ النَّاسِ أَجْرًا فِی الْمَصَاحِفِ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، رَحْمَۃُ اللَّہِ عَلَی أَبِی بَكْرٍ ہُوَ أَوَّلُ مَنْ جَمَعَ كِتَابَ اللَّہِ’’([3]) (مصاحف میں اجرکے اعتبار سے سیدنا ابو بکرؓ  سب سے عظیم تر انسان ہیں۔ اللہ تعالی ابو بکرؓ  پر رحمت نازل فرمائے آپ نے ہی سب سے پہلے کتاب اللہ کو جمع فرمایا تھا)۔

تیسرا مرحلہ: امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفانؓ  کی عہد میں سن پچیس (25) ہجری۔ اس کا سبب لوگوں کا ان مختلف صحیفوں کی وجہ سے جو مختلف صحابہ کرامؓ  کے پاس تھے قرات میں اختلاف کرنا تھا پس فتنے کا اندیشہ ہوا۔ لہذا سیدنا عثمانؓ  نے ان تمام صحیفوں کو ایک صحیفہ میں جمع کر دینے کا حکم صادر فرمایا تاکہ لوگ آپس میں اختلاف نہ کریں اور کتاب اللہ کے بارے میں تنازع کا شکار ہو کر تفرقہ نہ ہو جائے۔

چناچہ صحیح البخاری میں ہے کہ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ ارمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے بعد سیدنا عثمانؓ  کے پاس حاضر ہوئے اور وہ لوگوں کے قراتِ قرآن میں اختلاف سے پریشان تھے، فرمایا:

‘‘یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، أَدْرِكْ ہَذِہِ الْأُمَّۃَ قَبْلَ أَنْ یَخْتَلِفُوا فِی الْكِتَابِ اخْتِلَافَ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَی حَفْصَۃَ، أَنْ أَرْسِلِی إِلَیْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُہَا فِی الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّہَا إِلَیْكِ، فَأَرْسَلَتْ بِہَا حَفْصَۃُ إِلَی عُثْمَانَ، فَأَمَرَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ وعَبْدَ اللَّہِ بْنَ الزُّبَیْرِ وسَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ وعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ فَنَسَخُوہَا فِی الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّہْطِ الْقُرَشِیِّینَ الثَّلَاثَۃِ: إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِی شَیْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَاكْتُبُوہُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ، فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِہِمْ، فَفَعَلُوا حَتَّی إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِی الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَی حَفْصَۃَ، وَأَرْسَلَ إِلَی كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاہُ مِنَ الْقُرْآنِ فِی كُلِّ صَحِیفَۃٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ یُحْرَقَ’’([4])

(امیر المؤمنین اس سے پہلے کہ یہ امت بھی یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے، آپ اس کی خبر لیجئے۔ چنانچہ سیدنا عثمانؓ  نے سیدہ حفصہؓ  کے یہاں کہلایا کہ صحیفے (جنہیں زیدؓ  نے ابو بکرؓ کے حکم سے جمع کیا تھا اور جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں ) نقل کروا لیں۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے سیدہ حفصہؓ نے وہ صحیفے سیدنا عثمانؓ  کے پاس بھیج دیئے اور آپؓ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن ابی العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشامؓ  کوحکم دیا کہ وہ اسے صحیفوں میں نقل کر لیں۔ سیدنا عثمانؓ  نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں سیدنا زیدؓ  سے اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھ لیں (کیونکہ سیدنا زیدؓ  انصاری تھے اور باقی تین قریشی تھے)، کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو سیدنا عثمانؓ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا اور حکم دیا کہ اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن مجید کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کوئی صحیفہ یا مصحف ہو تو اسےجلا دیا جائے)۔

سیدنا عثمانؓ نےایسا صحابہ کرامؓ کے مشورے سے کیا تھا جیسا کہ ابن ابی داود نےسیدنا علیؓ  سےروایت کیا کہ انہوں نے فرمایا:

‘‘فَوَاللَّہِ مَا فَعَلَ الَّذِی فَعَلَ فِی الْمَصَاحِفِ إِلا عَنْ مَلأٍ مِنَّا۔۔۔ قَالَ: نَرَی أَنْ نَجْمَعَ النَّاسَ عَلَی مُصْحَفٍ وَاحِدٍ، فَلا تَكُونُ فُرْقَۃٌ، وَلا یَكُونُ اخْتِلافٌ، قُلْنَا: فَنِعْمَ مَا رَأَیْتَ’’([5])

(اللہ کی قسم مصحف کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا وہ ہم سب کی باہم رضامندی سے ہوا تھا۔۔ فرمایا: ہم نے سوچا کہ تمام لوگوں کو (قرات کا اختلاف ختم کر کے ) ایک مصحف پر جمع کر دیں، تاکہ نہ کوئی تفرقہ ہو اور نہ اختلاف۔ لوگوں نے علیؓ  سے کہا: آپ لوگوں نے بہت خوب سوچا تھا)۔

اور مصعب بن سعدؒ  فرماتے ہیں :

‘‘أَدْرَكْتُ النَّاسَ مُتَوَافِرِینَ حِینَ حَرَّقَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ، فَأَعْجَبَہُمْ ذَلِكَ، وَقَالَ: لَمْ یُنْكِرْ ذَلِكَ مِنْہُمْ أَحَدٌ’’([6])

(میں نے پایا کہ بہت سے لوگ جمع تھے جب سیدنا عثمانؓ  نے مصاحف کو جلایا تو لوگوں کو یہ فعل (برا نہیں ) اچھا لگا اور کسی نے بھی آپ پر انکار نہیں کیا)۔ اور یہ امیر المؤمنین عثمانؓ کے حسنات میں سے ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں نے آپ کی موافقت کی، اور یہ خلیفۂ رسول سیدنا ابو بکر t کے جمعِ قرآن کریم کی ہی تکمیل تھی۔

آپؓ  اور جناب ابو بکرؓ کے جمع کرنے کے درمیان یہ فرق تھا کہ سیدنا ابو بکرؓ  کے دور میں قرآن کریم کو جمع کرنے سے غرض پورے قرآن کو ایک مصحف میں جمع کر دینا تھا تاکہ اس میں سے کوئی بھی چیز ضائع نہ ہونے پائے۔ البتہ یہ غرض نہیں تھی کہ لوگوں کو ایک ہی مصحف پر جمع کر دیا جائے کیونکہ اس دور میں لوگوں کے درمیان قرات میں اختلاف اتنا واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ انہیں ایک مصحف پر جمع کرنے کے لیے ابھارتا۔

جبکہ عہدِ عثمانی میں اسے جمع کرنے کی غرض و غایت پورے قرآن مجید کو ایک مصحف میں جمع کرنا اور لوگوں کا اس پر اجتماع کرنا تھا کیونکہ ان کے دور میں اختلافِ قرات پریشان کن حد تک بڑھ رہا تھا۔

اور اس جمع کرنے کے نتائج ظاہر بھی ہوئے کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے لیے مصلحتِ عظمی حاصل ہوئی جیسے امت کا اجتماع، اتفاقِ کلمہ و باہمی الفت اور اس کے ذریعہ سے امت میں تفرقہ، اختلافِ کلمہ، نفرت اور عداوت کا افشاں ہونا جیسے مفاسدِ کبری کا قلع قمع ہوا۔

اور اب تک وہی قرآنی مصحف جیسا کا تیسا باقی ہے جس پر تمام مسلمان متفق ہیں اور وہ ان کے مابین بلا تردد متداول(ہاتھوں ہاتھ عام) ہے۔ جسےہرچھوٹا بڑے سے بلا جھجک حاصل کرتا ہے ، جسے فسادیوں کے ہاتھ بگاڑ نہیں سکتے اور نہ گمراہوں کی اہوا پرستی اس کی صحت کو داغدار کرسکتی ہے۔ پس تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین اور تمام جہانوں کا رب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

[1] اخرجہ البخاری، کتاب الجھاد، باب العون بالمدد۔ حدیث رقم (3064)۔
[2] اخرجہ البخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ: (لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم۔۔۔ ) (التوبۃ: 128)۔
[3] فتح الباری 8/628، کتاب الشریعۃ للآجری 897وغیرہ۔
[4] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن۔ حدیث رقم (4987)۔
[5] اخرجہ الخطیب فی کتابہ "الفصل للوصل المدرج” 2/954، وفی الاسناد المحفوظ "محمد بن ابان الجعفی” (علل الدارقطنی 3/229-230): قال ابن معین: "ضعیف” (الجرح والتعدیل للرازی 7/200)۔ اخرجہ ابن ابی داود فی کتاب المصاحف ص 22۔
[6] اخرجہ ابن ابی داود فی کتاب المصاحف ص 12۔

٭٭

 

 

 

 

 

تفسیر

 

التفسیر لغوی اعتبار سے "الفسر”سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے چھپی چیز سے پردہ اٹھانا انکشاف کرنا۔ اور اصطلاح میں اس سے مراد قرآن کریم کے معانی بیان کرنا ہے۔

اورتفسیرکی تعلیم واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہ وَلِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ﴾

(ص: 29)

(یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں )

اور یہ فرمان کہ:

﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا﴾

(محمد: 24)

(کیا یہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں )

پہلی آیت کی وجہ الدلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا کہ اس مبارک کتاب کو نازل کرنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس کی آیات پر غور و فکر و تدبر کریں اور جو کچھ اس میں سے ہے اس سے وعظ و نصیحت حاصل کریں۔

اور تدبر کہتے ہیں کہ الفاظ پر غور و فکر کر کے اس کے معانی تک پہنچا جائے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو نزول قرآن کی حکمت ہی فوت ہو جائے گی اور بایں صورت وہ ایسے الفاظ بن جائیں گے کہ جن کی کوئی تاثیر ہی نہ ہو۔ اوراس لیے بھی کہ قرآن حکیم میں جو کچھ ہے اس سے وعظ و نصیحت حاصل کرنا اس کے معانی کوسمجھے بغیر ممکن ہی نہیں۔

اور دوسری آیت کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو ملامت کیا ہے کہ جو قرآن مجید پر تدبر نہیں کرتے، اور اشارہ فرمایا ہے کہ یہ ان کے دلوں پر تالے پڑے ہونے اور اس تک خیر کے نہ پہنچ سکنے کی دلیل ہے۔

اورسلف امت اسی واجب طریقے پر گامزن تھے کہ وہ قرآن کریم کی الفاظ اور معانی کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اور اسی طور پر ان کے لیے اس قرآن پر اللہ تعالی کی مراد کے مطابق عمل کرنا ممکن تھا کیونکہ ایسی بات پر جس کا معنی ہے معلوم نہ ہو عمل غیر ممکن ہے۔

جناب ابوعبدالرحمن السلمیؒ فرماتے ہیں کہ ہمیں ان صحابہ کرام نے جو قرآن کریم کی ہمارے لیے قرات کیا کرتے تھے جیسے سیدنا عثمان بن عفان و عبد اللہ بن مسعودؓ  وغیرہ نے بیان کیا کہ:

 ‘‘أَنَّہُمْ كَانُوا إِذَا تَعَّلَمُوا مِنْ رَسُولِ اللَّہِﷺ  عَشْرَ آیَات، لَم یُجَاوِزُوھَا حَتَّی یَتَعْلَمُوا مَا فِیہِا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ. قَالَوا: فَتَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ وَالْعِلْمَ وَالْعَمَلَ جَمِیعًا’’([1])

(صحابہ کرامؓ  جب دس آیات رسول اللہﷺ  سے سیکھ لیتے تھے تو ان سے آگے نہ بڑھتے تھے جب تک اس میں موجود علم اور عمل کو سیکھ نہ لیتے۔ پس وہ فرماتے کہ ہم نے قرآن، علم اور عمل سب ساتھ ساتھ سیکھا)۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؓ فرماتے ہیں کہ: (عام عادت بھی اس بات کو مانع ہے کہ کوئی قوم علم سے متعلق کسی فن جیسے طب اور حساب وغیرہ میں کوئی ایسی کتاب پڑھے جس کی وہ شرح و وضاحت نہ کرتے ہوں۔ پھر کلام اللہ سے متعلق ایسا کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ جس میں ان کی عصمت، نجات، سعادت اور دین و دنیا کا قیام ہے )۔

اور اہل علم پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کی اس کی وضاحت کریں خواہ کتابت کی صورت میں ہو یا بالمشافہ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَہ﴾

(آل عمران: 187)

(اور اللہ تعالیٰ

نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں )

اور لوگوں کے لیے کتاب کی وضاحت وبیان میں اس کے الفاظ اور معانی دونوں کی وضاحت شامل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے گویا کہ اہل علم سے جس چیز کے بیان وضاحت کرنے کا عہد لیا ہے وہ تفسیر قرآن ہے۔

تفسیر کی تعلیم سے غرض بہت سی غایات حمیدہ اور ثمرات جلیلہ تک رسائی ہے جیسے اس میں بیان کردہ اخبار کی تصدیق اور ان سے درس و نفع کا حصول، اس کے احکام کی بالکل منشاء الہی کے مطابق تطبیق تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالی کی عبادت مکمل بصیرت و علم کے ساتھ کی جائے۔

 

ایک مسلمان پر تفسیر قرآن کے سلسلے میں کیا واجب ہے

 

ایک مسلمان پر تفسیر قرآن کے سلسلے میں یہ واجب ہے کہ وہ جب قرآن کریم کی تفسیر کر رہا ہو تو یہ شعور اپنے اندر اجاگر کرے کہ وہ اللہ تعالی کی ترجمانی کر رہا ہے ، اور اس بات کا شاہد و گواہ بن رہا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس کلام سے یہ مراد لی ہے۔ پس اسے چاہیے کہ اس شہادت کو عظیم جانے اور اس بات سے ڈرے کہ کہیں اللہ تعالی پر بلا علم کوئی بات نہ کہہ دے، جس کے نتیجے میں وہ اس جرم میں مبتلا نہ ہو جائے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا اور جس کی وجہ سے بروز قیامت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾

(الاعراف: 33)

(آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں، اور ہر گناہ کی بات کو، ناحق کسی پر ظلم کرنے کو، اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں )

اور اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ وُجُوْہُہُمْ مُّسْوَدَّۃٌ  اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ﴾

(الزمر: 60)

(اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہو گئے ہوں گے، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں )

۔۔۔۔۔

حاشیہ:

[1] تفسیر مجاہد 2/193۔

٭٭

 

 

 

 

تفسیر قرآن کا مرجع

 

تفسیرقرآن کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مراجع ہیں :

1- کلام اللہ تعالی، کہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کی جائے، کیونکہ اللہ تعالی ہی نے اسے نازل فرمایا ہے اور وہی سب سے زیادہ اپنی مراد کو جانتا ہے۔

اسی کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :

1- اللہ تعالی کا فرمان:

﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾

(یونس: 62)

(یاد رکھو کے اولیاء اللہ( اللہ کے دوستوں ) پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں )

پھر اولیاء اللہ کی تعریف آگے ہی فرما دی کہ:

﴿الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾

(یونس: 63)

(یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوی (برائیوں سے پرہیز) رکھتے ہیں )

2- اللہ تعالی کا فرمان:

﴿وَمَآ اَدْرٰیكَ مَا الطَّارِقُ﴾

(الطارق: 2)

(تجھے معلوم بھی ہے کہ وہ الطارق (رات کو نمودار ہونے والی چیز) کیا ہے ؟)

اور الطارق کی تفسیر دوسری ہی آیت میں فرما دی:

﴿النَّجْمُ الثَّاقِبُ﴾

(الطارق: 3)

(وہ روشن ستارہ ہے )

3- اللہ تعالی کا فرمان:

﴿وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰیہَا﴾

(النازعات: 30)

(اس کے بعد زمین کو دَحٰیہَا (ہموار بچھا دیا))

﴿ دَحٰیہَا﴾ کی تفسیر اس کے بعد والی دو آیات میں فرمادی:
﴿اَخْرَجَ مِنْہَا مَاءَہَا وَمَرْعٰیہَا، وَالْجِبَالَ اَرْسٰیہَا﴾

(النازعات: 31-32)

(یعنی اس میں سے پانی اور چارہ نکالا، اور پہاڑوں کو (مضبوط) گاڑ دیا)

2- کلامِ رسول اللہﷺ ، کہ قرآن مجید کی تفسیر سنت سے کی جائے، کیونکہ رسول اللہﷺ  اللہ تعالی کی جانب سے مبلغ ہیں، لہذا وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالی کی اس کے کلام میں مراد کو جاننے والے ہیں۔

اس کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :

1- اللہ تعالی کا فرمان:

﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ﴾

(یونس: 26)

(جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید بھی)

نبی کریمﷺ  نے "الزیادۃ” کی تفسیر دیدار الہی سے فرمائی ہے ، جیسا کہ ابن جریر و ابن ابی حاتم نے صریح طور پر سیدنا ابو موسی([1]) اور ابی بن کعبؓ ([2]) سے روایت فرمایا، اور ابن جریر نے سیدنا کعب بن عجرہؓ  ([3])کی حدیث نقل فرمائی ہے۔

اور صحیح مسلم([4]) میں سیدنا صہیب بن سنانؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت فرماتے ہیں کہ جس میں فرمایا: ‘‘فَیَكْشِفُ الْحِجَابَ، فَمَا أُعْطُوا شَیْئًا أَحَبَّ إِلَیْہِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَی رَبِّہِمْ ثُمَّ تَلَا ہَذِہِ الآیَۃَ ﴿لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ﴾’’ (پھر حجاب اٹھا لیا جائے گا تو جنتیوں کو اپنے رب کے دیدار سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہ ملی ہو گی پھر آپﷺ  نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید بھی)۔

2- اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ﴾

(الانفال: 60)

(تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو)

نبی کریمﷺ  نے قوت کی تفسیر "الرمی” (تیر اندازی) سے فرمائی۔ جسے مسلم([5])وغیرہ نے سیدنا عقبہ بن عامرؓ  سے روایت فرمایا۔

3- کلامِ صحابہؓ  خصوصاً جو ان میں سےاہل علم تھے اور جنہوں نے تفسیر پر خصوصی توجہ و عنایت فرمائی۔ کیونکہ قرآن کریم ان کی زبان میں اور ان کے زمانے میں نازل ہوا تھا۔ اور اس لیے بھی کہ انبیاء کرام ؑ کے بعد وہ طلب حق میں سب سے سچے، خواہش و اہوا پرستی سے سب زیادہ بچنے والے، اوراس مخالفت سے سب سے زیادہ پاک تھے جو ایک بندے اور حق و صواب کے مابین حائل ہو جاتی ہے۔ اس کی بہت سے مثالیں موجود ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں :

1- اللہ تعالی کا فرمان:

﴿وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَاءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَایِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ﴾

(النساء: 43)

(اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں چھوا ہو)

سیدنا ابن عباسؓ  سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپؓ  یہاں لمس (عورتوں کو چھونے) کی تفسیر جماع سے کرتے تھے([6])۔

4- تابعین عظامؒ  کے کلام سے خصوصاً ان میں سے جنہوں نے صحابہ کرامؓ  سے خصوصی طور پر علم تفسیر حاصل کیا۔ کیونکہ تابعین صحابہ کرام کے بعد سب سے بہترین لوگ تھے، اور ان لوگوں کے بنسبت جو ان کے بعد آئے اہوا وخواہش پرستی سے زیادہ سلامتی میں تھے۔ عربی لغت بھی ان کے دور میں کچھ زیادہ متغیر نہیں ہوئی تھی، لہذا وہ اپنے بعد میں آنے والوں کی بنسبت قرآن کریم کے فہم میں اقرب الی الصواب تھے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : (اگر تابعین عظامؒ  کا کسی بات پر اجماع ہو تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اور اگر ان میں اختلاف ہو تو ان میں سے کسی کا قول کسی دوسرے پر یا ان کے بعد میں آنے والوں پر حجت نہیں ہو گا۔ اس صورت میں قرآن کی لغت، یا سنت، یا عمومی عربی لغت، یا اقوال صحابہ کی جانب رجوع کیا جائے گا)۔ اور یہ بھی فرمایا: (جو کوئی اپنی تفسیر میں صحابہ و تابعین کے مذہب اور ان کی تفسیر سے روگردانی کرتا ہے تو وہ اس بارے میں غلطی پر ہے ، بلکہ وہ بدعتی ہے۔ اب اگر وہ مجتہد ہو گا تو اس کی غلطی معاف ہو جائے گی)۔ پھر فرمایا: (جس کسی نے ان کے قول کی مخالفت کی اور ان کی تفسیر کے برخلاف قرآن کی تفسیر کی تو وہ یقیناً دلیل اور مدلول دونوں کے تعلق سے خطاء کر گیا)۔

5- قرآن مجید کے کلمات کے حسب سیاق وسباق جو شرعی و لغوی معنی متقاضی ہوں ان کے اعتبار سے تفسیر کرنا، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰیكَ اللّٰہُ﴾

(النساء: 105)

(یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے یا دکھا یا ہے )

اور فرمایا:

﴿اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾

(الزخرف: 3)

(ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو)

اور فرمایا:

﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ﴾

(ابراھیم: 4)

(ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے)

اور اگر شرعی اور لغوی معانی میں اختلاف ہو جائے تو ہم شرعی معنی کو ترجیح دیں گے، کیونکہ قرآن حکیم شریعت کو بیان کرنے کے لیے نازل ہوا ہے ، ناکہ لغت کو بیان کرنے کے لیے الا یہ کہ کوئی ایسی خاص دلیل موجود ہو جو لغوی معنی کو ترجیح دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں ہم لغوی معنی کو ترجیح دیں گے۔

شرعی و لغوی معنی میں اختلاف کی مثالیں :

ایسی مثال جس میں ہم شرعی معنی کو ترجیح دیں گے، اللہ تعالی کا منافقین سے متعلق یہ فرمان ہے :

﴿وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا﴾

(التوبۃ: 84)

(ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں )

"صلاۃ” کا لغوی معنی دعاء ہے اور شریعت میں یہاں معنی ہو گا میت پر کھڑے ہو کر ایک مخصوص طریقے سے اس کے لیے دعاء کرنا، لہذا اس صورت میں ہم نے شرعی معنی کو ترجیح دی، کیونکہ یہاں متکلم کا مقصود مخاطب کو اس شرعی معنی سے متعلق بیان فرمانا ہے۔ اگرچہ منافقین کے لیے علی الاطلاق ویسے ہی دعاء کا ممنوع ہونا دوسری دلیل سے ثابت ہے۔

ایسی مثال کہ جس میں اختلاف کی صورت میں ہم شرعی معنی پر لغوی معنی کو ترجیح دیں گے، اللہ تعالی کا فرمان:

﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ﴾

(التوبۃ: 103)

(آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے)

یہاں "صلاۃ” سے مراد دعاء ہے ، اور اس کی دلیل وہ ہے جو مسلم([7]) نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیؓ  سے روایت فرمایا کہ: جب نبی اکرمﷺ  کے پاس کسی قوم کے صدقات لائے جاتے تو آپﷺ  ان کے حق میں دعاء فرمایا کرتے تھے، پس میرے والد صاحب آپﷺ  کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو آپﷺ  نے ان کے لیے ان الفاظ میں دعاء فرمائی کہ: ‘‘اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِی أَوْفَی ’’ (اے اللہ آل ابی اوفی کو خیر و برکت عطاء فرما)۔

اور ایسی مثالیں کے جن میں شرعی اور لغوی معنوں کا اتفاق ہے تو وہ بہت زیادہ ہیں جیسے السماء (آسمان)، والارض (زمین)، الصدق (سچائی)، الکذب (جھوٹ)، الحجر (پتھر)، الانسان (انسان)۔

۔۔۔۔۔

حاشیہ:

[1] اخرجہ ابن ابی حاتم فی تفسیرہ 6/1945، حدیث رقم 10341، واخرجہ اللالکائی فی شرح اصول الاعتقاد المجلد الثانی 3/458-459، حدیث رقم 785۔
[2]اخرجہ الطبری فی تفسیرہ 15/69، حدیث رقم 17633، واللالکائی فی شرح اصول الاعتقاد، الملجد الثانی 3/456۔
[3] اخرجہ الطبری فی تفسیرہ 15/67، حدیث رقم 17631، واللالکائی فی شرح اصول الاعتقاد، الملجد الثانی 3/456-457۔
[4] اخرجہ مسلم ص 709، کتاب الایمان، باب 80: اثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربھم سبحانہ وتعالی، حدیث رقم 449 [297] 181، 450 [298] 181۔
[5] اخرجہ مسلم ص 1060، کتاب الامارۃ، باب 52: فضل الرمی والحث علیہ۔۔۔ ، حدیث رقم 4946 [168] 1917، والترمذی ص 1963، کتاب تفسیر القرآن، باب 8: ومن سورۃ الانفال، حدیث رقم 3083، وفی سند الترمذی مبھم، واخرجہ ابوداود ص 1409، کتاب الجھاد باب23: فی الرمی، حدیث رقم 2514، وابن ماجہ ص 2647، کتاب الجھاد، باب 19: الرمی فی سبیل اللہ، حدیث رقم 2813، واخرجہ غیرھم ایضا۔
[6] اخرجہ عبدالرزاق فی مصنفہ (1/134)، وابن ابی شیبۃ فی مصنفہ (1/192)۔
[7] اخرجہ البخاری ص 342، کتاب المغازی، باب 36: غزوۃ الحدیبیۃ، حدیث رقم 4166، ومسلم ص 849، کتاب الزکاۃ، باب 54: الدعاء لمن اتی بصدقۃ، حدیث رقم 2496 [176] 1078۔

٭٭

 

 

 

 

تفسیر مأثور میں وارد ہونے والا اختلاف

 

تفسیر مأثور میں وارد ہونے والا اختلاف تین اقسام پر مشتمل ہے :

پہلی قسم: معنی میں نہیں بلکہ صرف لفظ میں اختلاف ہونا۔ اس اختلاف کا آیت کے معنی تبدیل ہونے میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی مثال اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَقَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ﴾

(الاسراء: 23)

(اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ (لوگو، ) اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو)

سیدنا ابن عباسؓ  فرماتے ہیں : "قضی” یعنی”امر” (حکم دیا)، اور مجاہدؒ  فرماتے ہیں یعنی "وصی” (وصیت فرمائی)، اور الربیع بن انسؒ فرماتے ہیں : "اوجب” (واجب فرمایا)، ان تمام تفسیروں کا ایک ہی یا متقارب معنی ہے لہذا اس اختلاف کا آیت کے معنی تبدیل ہونے پر کوئی اثر نہیں۔

دوسری قسم: لفظ اور معنی دونوں میں اختلاف ہو۔ اور آیت میں دونوں معانی کا احتمال ہو جبکہ ان کے مابین کوئی تضاد بھی نہ ہو تو ہم آیت کو دونوں معانی پر محتمل مانیں گے اور دونوں کے ساتھ تفسیر کریں گے۔ اس اختلاف میں جمع اس طرح ہوسکتا ہے کہ جب ہم یہ مان لیں کہ ان دونوں اقوال کو آیت کے معنی یا تنویع کے اعتبار سے بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مثال اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ، وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰكِنَّہ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰیہُ﴾

(الاعراف: 175-176)

(اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہو گیا، اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا)

سیدنا ابن مسعودؓ  فرماتے ہیں : وہ بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا، اور سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ وہ اہل یمن میں سے ایک شخص تھا، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اہل البلقاء میں سے کوئی تھا۔

ان تمام اقوال میں جمع اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ آیت ان تمام اقوال کو متحمل ہے ، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی مراد لے لینے میں تضاد نہیں، اس صورت میں ہر قول کو بطور تمثیل سمجھا جائے گا۔

ایک اور مثال، فرمان الہی ہے :

﴿وَّكَاْسًا دِہَاقًا﴾

(النباء: 34)

(اور (جنتیوں کے لیے ہوں گے) چھلکتے جام)

سیدنا ابن عباسؓ  فرماتے ہیں :”دھاقا” کا معنی ہے بھرے ہوئے، اور مجاہدؒ  فرماتے ہیں : پے درپے، اور عکرمہؒ فرماتے ہیں : نتھرے ہوئے شفاف۔

اب ان تمام اقوال میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ آیت ان تمام کو محتمل ہے ، اور ہر قول اس کے معنی کی ایک نوع یا قسم کہلائے گا۔ (یعنی بھرے ہوئے، پے درپے اور شفاف جام سب ہی ایک ساتھ مراد ہوسکتے ہیں )۔

تیسری قسم: لفظ اور معنی دونوں میں اختلاف ہو، اور آیت دونوں معانی کو محتمل نہ ہوسکے کیونکہ دونوں میں تضاد ہو۔ اس صورت میں ہم سیاق وسباق وغیرہ کی دلالت سے جو راجح ترین معنی ہو گا اسے لیں گے۔

اس کی مثال اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ  اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾

(البقرۃ: 173)

(تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ، پھر جو مجبور ہو جائے حالانکہ وہ اس کی چاہت نہ رکھتا ہو اور نہ دوبارہ بلاوجہ ایسی حرکت کرے، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے )

سیدنا ابن عباسؓ  فرماتے ہیں : مردار کھانے کی نیت نہ ہو اس کی اوراسے دوبارہ نہ کھائے، اور کہا جاتا ہے : امام پر خروج نہ کرے اور اس کا سفر اللہ کی نافرمانی والا سفر نہ ہو (یعنی ان حالات میں خواہ جان پر بن آئے مردار حلال نہیں )۔ تو راجح پہلا قول ہو گا کیونکہ دوسرے قول کی آیت میں کوئی دلیل ہی نہیں۔ کیونکہ یہاں مقصود تو اس مجبوری کی حالت سے دوچار ہونے پر اس کا حل پیش کرنا ہے۔ جو مجبوری صرف جائز سفر وغیرہ میں درپیش نہیں ہوتی بلکہ خواہ امام پر خروج کی حالت ہو یا حرام سفر وغیرہ میں بھی یہ حالت کسی کی ہوسکتی ہے۔

اس کی ایک اور مثال اللہ تعالی کا فرمان:

﴿وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہ عُقْدَۃُ النِّكَاحِ﴾

(البقرۃ: 237)

(اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کر دیں، یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں عقد نکاح (نکاح کی گرہ) ہے )

سیدنا علی بن ابی طالبؓ  فرماتے ہیں جس کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے : وہ شوہر ہے ، اور سیدناابن عباسؓ  فرماتے ہیں : وہ ولی ہے۔ جبکہ راجح پہلا قول ہے کیونکہ معنی اسی پر دلالت کرتا ہے ، اور اس لیے بھی کہ اس بارے میں نبی اکرمﷺ سے حدیث بھی روایت کی گئی ہے۔

 

 

 

ترجمۂ قرآن

 

ترجمہ کا لغتاً ایک سے زائد معانی پر اطلاق ہوتا ہے جوسب کے سب بیان و توضیح کے معنی میں آتے ہیں۔

اور اصطلاح میں : کسی زبان کے کلام کی دوسری زبان میں تعبیر پیش کرنا۔

اور ترجمۂ قرآن کا مطلب ہے کہ کسی اور زبان میں اس کے معنی کی تعبیر پیش کرنا۔

ترجمے کی دو انواع ہیں :

پہلی نوع: حرفی ترجمہ (حرف بہ حرف یا لفظی ترجمہ)، وہ اس طرح کے ایک ایک کلمہ کا دوسری زبان میں بالکل اس کے مدمقابل معنی پیش کیا جائے۔

دوسری نوع: معنوی ترجمہ یا تفسیری ترجمہ، وہ اس طرح کے کلام کے معنی کی دوسری زبان میں عربی مفردات اور ترتیب کی رعایت کیے بغیر تعبیر کی جائے۔

اس کی مثال اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

﴿اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾

(الزخرف: 3)

(ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن کیا ہے کہ تم سمجھ لو)

پس اس آیت کا حرفی یا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ اس آیت کے ایک ایک کلمے کا ترجمہ لکھا جائے جیسے ﴿اِنَّا﴾ (بے شک ہم نے) پھر ﴿جَعَلْنٰہُ﴾ (کیااسے) پھر ﴿قُرْءٰنًا﴾ (قرآن) پھر ﴿عَرَبِیًّا﴾ (عربی زبان کا) اوراسی طرح باقی کلمات۔

اور اس آیت کا معنوی ترجمہ ایسے ہو گا کہ ہر کلمے اور ترتیب کے قطع نظر پوری آیت کا ترجمہ کیا جائے اور یہ اجمالی تفسیر کے معنی کے قریب قریب ہوتا ہے۔

 

ترجمۂ قرآن کا حکم

 

قرآن کریم کا حرفی یا لفظی ترجمہ بہت سے اہل علم کے نزدیک مستحیل و ناممکن ہے۔ کیونکہ اس نوع میں کچھ ایسی شرائط ہیں کہ جن کا اس کے ساتھ پورا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے ، اور وہ یہ ہیں :

1- جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے (جیسے اردو ) اس زبان میں وہ تمام مدمقابل حروف موجود ہوں کہ جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے (یعنی عربی)۔

2- جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اس میں ترجمہ کیے جانی زبان کے ادواتِ معانی بالکل مساوی یا مشابہ موجود ہوں۔

3- دونوں لغات، (ترجمہ ہونے والی اور جس میں ترجمہ کیا جا رہا ہے ) جب اسے جملوں، صفات اور اضافات میں ترتیب دیا جائے تو ترتیبِ کلمات کے اعتبار سے مماثل ہوں۔ اور بعض علماء کرام فرماتے ہیں : حرفی ترجمہ بعض آیات کا ہونا ممکن ہے لیکن اگرچہ اس طرح کرنا ممکن ہی کیوں نہ ہو، ا س کا کرنا حرام ہے کیونکہ اس کلام کا معنی اس کے کمال کے مطابق بیان کرنا ممکن نہیں، اور نہ ہی وہ نفس میں واضح عربی قرآن مجید جیسی تاثیر پیدا کرسکتا ہے ، اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوئی خاص حاجت ہے ، کیونکہ معنوی ترجمہ کر دینا ہمیں ایسا کرنے سے مستغنی و بے نیاز کر دیتا ہے۔

لہذا بعض آیات کا حرفی ترجمہ اگر حسی طور پر کرنا ممکن بھی ہو تو بھی شرعی طور پر وہ ممنوع ہے ، الا یہ کہ پوری ترکیب کو ترجمہ کرنے کے بجائے محض کسی خاص کلمے کا ترجمہ کسی دوسری زبان والے کو سمجھانے کے غرض سے بیان کر دیا جائے تاکہ وہ اس خاص کلمے کو سمجھ سکے ، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

البتہ جہاں تک تعلق ہے قرآن مجید کے معنوی ترجمہ کا تو وہ بنیادی طور پر بالکل جائز ہے کہ جس میں کوئی محذور نہیں۔ بلکہ کبھی تو وہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ جب وہ وسیلہ بنتا ہو غیر عربی لوگوں تک قرآن واسلام کی دعوت پہنچانے کا۔ کیونکہ اس کی تبلیغ و پہنچا دینا واجب ہے ، اور یہ شرعی اصول ہے کہ جس واجب کو ادا کرنے کے لیے کوئی دوسری چیز لازم ہو تو وہ بھی خودبخود واجب ہو جاتی ہے۔

لیکن اس کے جواز کی کچھ شروط ہیں :

اول: اس کو قرآن کریم کا بدل نہ بنا دیا جائے کہ اصل عربی قرآن سے ہی بے نیاز ہو جائیں بلکہ ضروری ہے کہ عربی قرآن ضرور لکھا ہوا ہو پھر اس کی ایک جانب اس کا ترجمہ درج ہو، اس طرح گویا کہ وہ اس کی تفسیر بن جائے۔

دوم: مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں کے الفاظ کے مدلولات کا اور سیاق وسابق جس تبدیلی کے متقاضی ہوتے ہیں اس کا مکمل علم رکھتا ہو۔

سوم: وہ قرآن مجید کے الفاظ کے شرعی معانی کا بھی پورا علم رکھتا ہو۔

قرآن کریم کا ترجمہ اسی شخص سے قبول کیا جا سکتا ہے کہ جس کے بارے میں ہم مطمئن اور مامون ہوں کہ وہ ایک ایسا مسلمان ہو جو اپنے دین میں مستقیم ہو۔

قرآن کریم اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہدایت نامہ ہے ، جس میں ساری انسانیت کے لیے رہنمائی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ

(الحجر:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر(یعنی قرآن)ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یَہْدِی لِلَّتِی ہِیَ أَقْوَمُ

(بنی اسرائیل:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔

لہذا جو شخص بھی اس کو اپنائے گا اس کو اللہ کی جانب سے صحیح راستہ دکھایا جائے گا اور جو اس سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے دنیاوی زندگی بھی تنگ کر دی جائے گی اور آخرت میں تو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی”۔

(طٰہٰ:۱۲۴، ۱۲۳)

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ مشکل میں گرفتار ہو گا اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

الغرض رب کائنات کی جانب سے انسان کی رہبری کے لیے قرآن ایک مکمل دستوراور ضابطۂ حیات ہے اور اس کتاب کے بغیر انسانیت نامکمل ہے۔

 

تفسیرقرآن کریم

 

جب یہ کتاب رہبری کے لیے نازل کی گئی تو اس کو آسان کرنا بھی ضروری ہے ، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے :

"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔

(القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے ، اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔

اِسی سورت میں یہ آیت چار جگہ پر آئی ہے ، نیز اس کو آسان کرنے کی مختلف شکلیں حق تعالیٰ نے واضح فرمائی ہیں، مثلاً سورۂ قیامہ میں فرمایا:

” اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ”۔

(القیامۃ:۱۷۔ ۱۹)

یقین رکھو کہ اس کو یاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے ، پھر جب ہم اسے(جبرئیل کے واسطے سے) گویا اس کو پڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔

تفسیر کا اولین حق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہی حاصل ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق (فداہ ابی وامی)ﷺ کے ذریعہ واضح کیا، چنانچہ فرمایا:

"وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ”۔

(النحل:۴۴)

اور (اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کر دو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں۔

آیت شریفہ میں "الذکر” سے مراد قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی تبیین وتفسیر کی ذمہ داری آپﷺ  پر ہے اور پھر اس کے بعد عوام پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس پر غور و فکر سے کام لیں ، الغرض یہ ہے تفسیر و تاویل و تبیین۔

 

تفسیر کی تعریف

 

یہ لفظ "فسر” سے مشتق ہے جس کے معنی کھولنے کے آتے ہیں ، چونکہ اس کے ذریعہ قرآن کے معانی و مفاہیم کھول کر بیان کئے جاتے ہیں اس لیے اس کو علم تفسیر سے تعبیر کیا جاتا ہے ، قرآن مجید میں اس کے لیے دوسرے الفاظ بھی آتے ہیں، تفسیر، تاویل بیان تبیان، تبیین، جو تقریباً ہم معنی ہیں ، لیکن بعض اہل علم کے مابین ان الفاظ میں کچھ جزوی فرق بھی ہے ، جس کی تفصیل ایک مستقل مضمون کے ذیل میں آئے گی۔

تفسیر کی اصطلاحی تعریفیں بھی بیان کی گئی ہیں ، چنانچہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اس کی مختصر تعریف یوں نقل کی ہے :

"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ”۔

(البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)

وہ ایسا علم ہے جس سے قرآن کریم کی سمجھ حاصل ہو اور اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام اور حکمتوں کو نکالا جا سکے اور علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تعریف میں مزید عموم پیدا کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"ھُوَعِلْمٌ یُبْحَثُ فِیْہِ عَنْ كَیْفِیَّۃِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِہَا، وَأَحْكَامِہَا الْإِفْرَادِیَّۃِ وَالتَّرْكِیْبِیَّۃِ، وَمَعَانِیْہَا الَّتِیْ تُحْمَلُ عَلَیْہَا حَالَۃِ التَّرْكِیْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك”۔

(روح المعانی:۴/۱)

وہ علم ہے کہ جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ ومنسوخ اور شان نزول اور غیر واضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔

 

تفسیر کے اصول

 

چونکہ ہر کام کی ایک اصل ہوتی ہے اور اصول کے ساتھ ہونے والے کام کو کام کہا جاتا ہے ، بے اصولی تو کسی بھی شعبہ میں اچھی نہیں سمجھی جاتی، اسی اصول پر تفسیر کے اصول بھی ہیں ، تاکہ اس میں دلچسپی پیدا ہو، اب ایک بات ضروری طور پر یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کیا ذرائع اور طریقے ہیں جن کی بنیاد پر قرآن کریم کی تفسیر کی جا سکے ، یقیناً ہم کو اس کے لیے حق سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے رہبری کی گئی ہے ، چنانچہ فرمایا:

"ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ”۔

(آل عمران:۷)

اے رسول !وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔

گویا اس آیت کی رو سے آیات کی اولین تقسیم دو طرح پر کی گئی ہے۔

(۱)آیات محکمات (۲)آیات متشابہات، پھر متشابہات دوقسم پر ہیں :

(۱)جو لفظ بھی سمجھ سے باہر ہو جیسے حروف مقطعات

(۲) لفظ تو سمجھ میں آتے ہوں ، لیکن مفہوم ان کا قابل فہم نہ ہو۔

پھر آیاتِ محکمات کو مفسرین نے دو طرح پر تقسیم کیا ہے :

(۱)وہ آیتیں جن کے سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو جو بالکل واضح ہوں یعنی جس زبان میں بھی ان کا ترجمہ کیا جائے سمجھنے والے کو مشکل معلوم نہ ہوں اور بظاہر مفسرین کے پاس کوئی اختلاف رائے نہ ہو، جیسے پچھلی قوموں سے متعلق واقعات اور جنت و جہنم سے متعلق آیات۔

(۲)دوسری وہ آیتیں ہیں جن کے سمجھنے میں کوئی ابہام یا اجمال یا اور کوئی دشواری پائی جائے یا اُن آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کے منظر وپس منظر کو سمجھنا ضروری ہو جیسے وہ آیتیں جن سے دقیق مسائل اور احکام نکلتے ہوں یااسرار و معارف اُن سے نکلتے ہوں، ایسی آیات کو سمجھنے کے لیے انسان کو صرف زبان اور اس کی باریکیوں کو جاننا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اور بھی بہت سی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے ، انہیں معلومات میں سے ایک "ماخذِ” تفسیر کہلاتا ہے۔

 

تفسیری مآخذ

 

یعنی وہ ذرائع جن سے قرآن کریم کی تفسیر معلوم ہوسکتی ہے ، یہ تقریباً چھ قسم کی بتلائی گئی ہیں :

(۱)تفسیر القرآن بالقرآن۔ (قرآن کریم کی کسی آیت یا لفظ کی تشریح قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا لفظ سے کی جائے)

(۲)تفسیر القرآن بالاحادیث النبویہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت آنحضرتﷺ  کے کسی قول یا فعل سے کی جائے)

(۳)تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ (قرآن پاک کے کسی آیت کی تشریح حضرات صحابہ کرام میں سے کسی صحابی کے قول سے کی جائے، تفسیری شرائط کے ساتھ)

(۴)تفسیر القرآن باقوال التابعین رحمہم اللہ۔ (قرآن مجید کے کسی آیت کی وضاحت حضرات تابعین میں سے کسی تابعی کے قول سے کی جائے، تفسیری شرائط کے ساتھ)

(۵)تفسیر القرآن بلغۃ العرب۔ (قرآن مجید کے کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح اہل عرب کے اشعار اور عربی محاورات کے مطابق کی جائے، تفسیری شرائط کے ساتھ)

(۶)تفسیرالقرآن بعقل السلیم۔ (قرآن مجید کی تشریح و توضیح اپنی صحیح سمجھ بوجھ اور منشائے خداوندی کو ملحوظ رکھ کر علوم اسلامیہ کی روشنی میں، حالات و واقعات، مواقع ومسائل پر اس کا صحیح انطباق کرنا اور اس کے اسرار و رموز کو کھولنا اور بیان کرنا تفسیرالقرآن بعقل سلیم کہلاتا ہے )

ہر ایک کی تھوڑی سی تفصیل ضروری مثالوں سے ذیل میں ذکر کی جاتی ہے :

 

تفسیرالقرآن بالقرآن

 

اختصار کی غرض سے اس کی صرف تین مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

پہلی مثال

سورۃ الفاتحہ کو ہی لیجئے، اِس کی دونوں آیتیں اس طرح ہیں :

"اہْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ، صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِالْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّینَ”۔

(الفاتحۃ:۶، ۷)

ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔

جن پر انعام کیا گیا ہے اس کی تفسیر”سورۃالنساء” کی درجِ ذیل آیت میں کی گئی ہے :

"وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِیقًا”۔

(النساء:۹۶)

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔

دوسری مثال

"فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ”۔

(البقرۃ:۳۷)

پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے(توبہ کے )کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انہوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

اس آیت میں کلمات کا تذکرہ ہے مگر وہ کلمات کیا تھے؟ دوسری آیت میں اس کی تفسیرموجود ہے :

"قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا، وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ”۔

(الاعراف:۲۳)

دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہو جائیں گے۔

تیسری مثال

"سورۃ الانعام” کی آیت نازل ہوئی:

"الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ”۔

(الانعام:۸۲)

جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا، امن وچین تو بس ان ہی کا حق ہے اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔

تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے کہ جس سے( کسی نہ کسی طرح کا) ظلم صادر نہ ہوا ہو، تو اللہ نے ظلم کی تفسیر و مراد کو واضح کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی:

” إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ”۔

(لقمان:۱۳)

کہ شرک ظلم عظیم ہے۔

یعنی آیت بالا میں ایمان کے ساتھ جس ظلم کا تذکرہ آیا ہے وہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔

(بخاری، باب ظلم دون ظلم، حدیث نمبر:۳۱)

تفسیر القرآن بالقرآن کے موضوع پر ایک گرانقدر کتاب مدینہ منورہ کے ایک عالم شیخ محمد امین بن محمد مختار کی تالیف ہے جو "اضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن” کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

 

تفسیرالقرآن بالحدیث والسیرۃ

 

قرآن پاک کی تفسیررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی روشنی میں کرنا تفسیر القرآن بالحدیث والسیرۃ کہلاتا ہے ، خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقوال و افعال اور عملی زندگی سے آیات قرآنیہ کی تفسیر و تشریح فرمائیں۔

(النحل:۴۴)

تو جس طرح اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو بندگی بنانے کے لیے اپنے احکامات کو قرآن حکیم کی شکل میں نازل فرمایا، اسی طرح ان احکامات پر عمل آوری کے لیے آپﷺ کے پوری عملی زندگی کو در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر بنا کر مبعوث فرمایا، جو کچھ احکامات قرآن کریم کی شکل میں نازل کیے گئے ان پر سب سے پہلے آپ ہی نے عمل کر کے دکھلایا اور ان احکامات خداوندی کو عملی جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ آپ کی خصوصیات میں سےایک نمایا خصوصیت ہے ، خواہ وہ حکم ایمان، توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، صدقہ و خیرات، جنگ و جدال، ایثار و قربانی، عزم واستقلال، صبر و شکر سے تعلق رکھتا ہو یا حسن معاشرت وحسن اخلاق سے، ان سب میں قرآن مجید کی سب سے پہلی  و عمدہ عملی تفسیر نمونہ و آئیڈیل کے طور پر آنحضرتﷺ  ہی کی ذات اقدس میں ملے گی، اس میں بھی دو قسم کی تفسیر ہے ایک تفسیرتو وہ قرآن پاک کے مجمل الفاظ و آیات کی تفسیر و توضیح ہے جن کی مراد خداوندی واضح نہیں تو ان کی مراد و اجمال کی تفصیل کو زبان رسالت مآبﷺ  نے واضح فرما دیا اور دوسری قسم عملی تفسیر کی ہے ، یعنی قرآن حکیم کی وہ آیات جن میں واضح احکامات دئے گئے ہیں جن کا تعلق عملی زندگی کے پورے شعبۂ حیات سے ہے ، خواہ وہ عقائد، عبادات، معاملات کی رو سے ہوں یا حسن معاشرت وحسن اخلاق کی رو سے اس میں بھی آپ نہ وہ کمال درجہ کی عبدیت اور اطاعت و فرمانبرداری کی ایسی بے مثال و بے نظیر عملی تفسیر و تصویر امت کے سامنے پیش فرمائی کہ جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر اعجاز و فوقیت رکھتا ہے اسی طرح آپ کی عملی زندگی کا ہر قول و فعل بھی تمام انسانی زندگیوں پر اعجاز و فوقیت رکھتا ہے ، دوسری قسم کی مثالیں کتب سیر، کتب مغازی، کتب تاریخ، کتب دلائل اور کتب شمائل میں بکثرت ملیں گے، بلکہ یہ کتابیں تو آپ ہی کی عملی تفسیر پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مثالوں کو یہاں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے اگر دیکھنا چاہیں تو ہمارے ہوم پیج کے عنوان”سیرت طیبہ” میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں اور پہلی قسم کی مثالیں کتب احادیث وتفسیر میں بکثرت ملیں گی ان میں سے بغرض اختصار صرف تین مثالیں پیش کی جا رہی ہیں :

پہلی مثال

سورۂ بقرہ کی آیت شریفہ:

"وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ”۔

(البقرۃ:۱۸۷)

اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہو جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیط ابیض اور خیط اسود کی مراد کو اپنے ارشاد مبارک سے واضح فرمایا :

” إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَبَیَاضُ النَّہَار”۔
(بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)

کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔

دوسری مثال

سورہ نور کی آیت:

"اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ”۔

(النور:۲)

زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے اور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔

ظاہر ہے کہ اس آیت سے زانیہ اور زانی کی سزامیں سو کوڑے مارنے کا ذکر ہے ، اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا کوئی فرق نہیں کیا گیا، اس کی تفسیر احادیثِ پاک سے واضح ہوتی ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑوں کی سزا دی جائے گی جیسا کہ بخاری شریف میں ہے :

"عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ أَمَرَ فِیمَنْ زَنَی وَلَمْ یُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَۃٍ وَتَغْرِیبِ عَامٍ”۔
(بخاری، بَاب شَہَادَۃِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِی، حدیث نمبر:۲۴۵۵، شاملہ، موقع الإسلام)

زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ  نے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کا حکم دیا۔

اور شادی شدہ مرد و عورت کو سنگسار کیا جائے گا:

"الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَازَنَیَا فَارُجُمُوہُمَا أَلْبَتَّۃَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَہٗ”۔
(ابن ماجہ، باب الجرم، حدیث نمبر:۲۵۴۳، شاملہ، موقع الإسلام)

شادی شدہ مرد و عورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کر دو، راوی کہتے ہیں کہ خود حضورﷺ  نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔

تیسری مثال

قرآن کی تفسیر حدیث سے کرنے کی مثال میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے :

"غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ”۔

(الفاتحۃ:۷)

نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔

قرآن پاک میں المغضوب اور الضال کا مصداق متعین نہیں کیا گیا ہے ، لیکن ان دونوں کا مصداق متعین کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ أَلْیَہُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّیْنَ النَّصَارَیٰ”۔

(مسند احمد بن حنبل، بقیۃ حدیث بن حاتم، حدیث نمبر:۹۴۰۰، شاملہ، موقع الإسلام)

جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاریٰ ہیں۔

اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں اور اس نقطۂ نظر سے بھی کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں، اُن میں سے چند تفاسیر یہ ہیں۔

۱۔ قاضی بیضاوی رحمہ اللہ کی انوار التنزیل والتاویل۔

۲۔ علامہ خازن کی لباب التاویل فی معانی التنزیل۔

۳۔ علامہ ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر۔

۴۔ اردو زبان میں تفسیر حقانی(فتح المنان)مولانا عبدالحق حقانی دہلوی کی ہے۔

 

تفسیرالقرآن باقوال الصحابۃرضی اللہ عنہم

 

حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم چونکہ بجا طور پر خیر امت کہلانے کے مستحق ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیم و تربیت حاصل کی، ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیں کہ قرآن کریم اوراس کی تفسیر و تاویل کو بلاواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں، اہل زبان ہونے کے باوجود ان کو صرف زبان دانی پر بھروسہ نہ تھا، چنانچہ بعضے صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سبقاً سبقاً قرآن کریم کو پڑھا، مشہور تابعی ابوعبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں :

"حَدَّثَنَا الَّذِیْنَ كَانُوْا یَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَیْرِہِمَا أَنَّہُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِیِّﷺ عَشَرَ آیَاتِ لَمْ یَتَجَاوَزُوْہَا حَتَّی یَعْلَمُوْا مَافِیْہَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ”۔
(الاتقان فی علوم لقرآن، الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:۲/۴۶۸، شاملہ، المؤلف:عبد الرحمن بن الكمال جلال الدین السیوطی)

صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے، مثلاً حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی و عملی باتوں کو نہ جان لیتے۔

یہ ہے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم و تربیت کا سیکھنا کہ جتنا سیکھتے اتنا عمل کا بھی اہتمام فرماتے شاید اسی وجہ سے مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ اثر منقول ہے :

"كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِیْنَا”۔

(مسند احمد، مسند انس بن مالک، حدیث نمبر:۱۱۷۶۹)

یعنی جب کوئی شخص سورۃ بقرہ و آل عمران کو پڑھ لیتا تووہ ہماری نظروں میں بہت ہی عزت والا سمجھا جاتا اور موطا مالک کی روایت میں ہے :

"أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَی سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ ثَمَانِیَ سِنِینَ یَتَعَلَّمُہَا”۔
(مؤطا مالک، کِتَابُالنِّداءِ لِلصّلاۃِ، بَاب مَاجَاءَ فِی الْقُرْآنِ، حدیث نمبر:۴۲۸، شاملہ، موقع الإسلام)

حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتنے کمزور ذہن والے تھے کہ سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے، جبکہ موجودہ دور میں کمزور سے کمزور طالب علم اتنے عرصہ سے کم میں پورا قرآن کریم حفظ کر لیتا ہے ، دراصل بات یہ تھی کہ آٹھ سال کی مدت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ کے الفاظ اور اس کی تفسیر و تاویل اور اس کے متعلقات کے ساتھ حاصل کرنے میں لگی، اس کی تائید حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے ہوتی ہے جسکو ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے :

"والذی لا إلہ غیرہ، ما نزلت آیۃ من، كتاب اللہ إلا وأنا أعلم فیمن نزلت؟ وأین نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ”۔

(ابن کثیر:۱/۳)

قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس کے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہونچا سکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔

یہ چند نمونے ہیں حضرات صحابہ کی جانفشانی اور ان کی محنت کے جو تفسیر قرآن کے سلسلہ میں پیش کئے گئے، یوں تو بہت سی آیات کی تفسیر حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال سے ثابت ہیں ان میں سے کچھ برائے نمونہ پیش ہیں۔

پہلی مثال:

ایک دفعہ حضرت بن عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور درج ذیل آیت کی تفسیر دریافت کی:

"أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا”۔

(الانبیاء:۳۰)

کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان و زمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔

حضرت بن عمرؓ نے اس سے فرمایا کہ تم ابن عباسؓ  کے پاس جاؤ اور ان سے اس کی تفسیر معلوم کرو اور وہ جو تفسیر بتائیں وہ مجھے بھی بتاتے جانا، وہ شخص ابن عباسؓ کے پاس پہنچا اور درج بالا آیت کی تفسیر پوچھی تو آپﷺ  نے فرمایا کہ:

آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا، بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی، گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے۔

اس شخص نے حضرت ابن عمرؓ کو جب یہ تفسیر بتائی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی کی جانب سے ان کو خصوصی علم عطا ہوا ہے۔

(روح المعانی، ۱۲/۳۶۹شاملہ)

دوسری مثال

” وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ، وَاَحْسِنُوْا، اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ”۔

(البقرۃ:۱۹۵)

اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو، بیشک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔

اس آیت کی تشریح میں مفسرین نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ:

"التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد”۔

(تفسیر بن کثیر، تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ)

"التھلکۃ "سے مراد گھر اور مال کی مصروفیات میں لگا رہنا اور جہاد کو چھوڑ بیٹھنا ہے۔

عام مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر میں اس تفسیر کو خاص طور سے نقل کیا ہے۔

تیسری مثال

علامہ طبری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے صحابہؓ  سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت کیا :

"أَیَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَہُ جَنَّۃٌ مِنْ نَخِیلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ لَہُ فِیہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَہُ الْكِبَرُ وَلَہُ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَہَا إِعْصَارٌ فِیہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ”۔

(البقرۃ:۲۶۶)

کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آ پکڑا ہو اور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آ کر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔

کوئی بھی اس کا شافی جواب نہ دے سکے ، حضرت ابن عباسؓ نے عرض کیا کہ میرے دل میں ایک بات آ رہی ہے ، حضرت عمر نے فرمایا کہ آپ بلا جھجک برملا بیان کیجیے، ابن عباسؓ نے فرمایا:

"اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال بیان کی ہے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہے اور جب اس کا آخری وقت آئے جب کے نیکیوں کی اسے زیادہ ضرورت ہو تو بُرا کام کر کے سب نیکیوں کو برباد کر دے”۔

(تفسیر طبری، ۵/۵۴۵، شاملہ)

ایک اہم بات اس بارے میں اہل اصول نے بتلائی ہے کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم کے تفسیری اقوال میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایتیں ملتی ہیں تو ان اقوال کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کئے جانے سے پہلے اصولِ حدیث کے اعتبار سے ان کی جانچ ضروری ہے۔

۲۔ نیز دوسرے یہ کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر اسی وقت حجت، دلیل سمجھے جائیں گے جبکہ آپﷺ سے آیت شریفہ کی کوئی صریح تفسیر مستند طور پر ثابت نہ ہو، چنانچہ اگر آپﷺ  سے تفسیر منقول ہو تو پھر صحابہ رضی اللہ عنہ سے اقوال محض اس تفسیر کی تائید شمار کئے جائیں گے اور اگر آپﷺ  کے معارض کوئی قول صحابی رضی اللہ عنہ ہو تو اس کو قبول نہ کیا جائے گا۔

۳۔ تیسرے یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال تفسیر میں اگر تعارض اور ٹکراؤ ہو تو جہاں تک ہوسکے ان کے اقوال میں مطابقت پیدا کی جائے گی اگر مطابقت نہ ہوسکے تو پھر مجتہد کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ دلائل کی روشنی میں جس صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مضبوط ہے اس کو اختیار کر لے۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے مقدمہ تفسیر ابن کثیر۱/۳)۔ (واللہ تعالی اعلم)

اس موضوع پر مستقل کتاب، تنویرالمقیاس فی تفسیر ابن عباس”ہے اور اس کے علاوہ دیگر کتب تفاسیر میں صحابہ کی تفسیری روایات مذکور ہیں۔

 

تفسیر القرآن باقوال التابعین

 

واضح ہونا چاہئے کہ تابعین سے مراد تمام ہی تابعین نہیں ہیں ، بلکہ وہ حضرات تابعین جنہوں نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کی صحبت اٹھائی ہو اور ان کی صحبت سے علمی استفادہ کیا ہو، اہل علم میں اس بات پربھی اختلاف ہے کہ تفسیر قرآن کے بارے میں اقوال تابعین حجت ہیں یا نہیں، اس معاملہ میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بہت ہی معتدل بات لکھی ہے کہ اگر کوئی تابعی کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے تفسیر نقل کر رہے ہوں تو اس کا حکم صحابی کی تفسیر جیسا ہو گا اور اگر خود تابعی اپنا قول بیان کریں تو دیکھا جائے گا کہ دوسرے کسی تابعی کا قول ان کے خلاف تو نہیں اگر خلاف میں کوئی قول ہو تو پھر اس تابعی کے قول کو حجت نہیں قرار دیا جائے گا، بلکہ ایسی آیات کی تفسیر کے لیے قرآن کی دوسری آیتیں احادیث نبویہ آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اور لغت عرب جیسے دوسرے دلائل پر غور کر کے فیصلہ کیا جائے گا، ہاں اگر تابعین کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہو تو ان کے تفسیری اقوال کو بلاشبہ حجت اور واجب الاتباع قرار دیا جائے گا۔

(بحوالہ تفسیر ابن کثیر، ا-۵، مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری)

جب تابعین کے اقوال پر تفسیر کی جا سکتی ہے تو اس کے کچھ نمونے بھی ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :

پہلی مثال

ارشاد باری تعالی ہے :

"وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ”۔

(التوبہ:۱۰۰)

اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کر رکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔

اس آیت شریفہ میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے مختلف درجاتِ فضیلت بیان کئے گئے ہیں ایک سابقین اولین کا، دوسرے ان کے بعد والوں کا، اب سابقین اولین کون ہیں، اس میں مفسرین کے مختلف اقوال نقل کئے جاتے ہیں، کبار تابعین حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ، ابن سیرین رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور عطاء بن ابی رباح کا یہ قول ہے کہ سابقین اولین سے مراد بدر میں شریک ہونے والے صحابہ ہیں اور شعبی نے فرمایا کہ وہ جو کہ حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل رہے۔

(تفسیرروح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ، آیت نمبر۱۰۰)

اس آیت میں تابعین رحمہ اللہ کے مختلف اقوال سامنے آئے، مفسرین نے کسی قول کو رد نہیں کیا اور ان کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔

دوسری مثال

ارشاد باری تعالی ہے :

” اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ”۔

(التوبہ:۱۱۲)

توبہ کرنے والے، اللہ کی بندگی کرنے والے، اس کی حمد کرنے والے، روزے رکھنے والے، رکوع میں جھکنے والے، سجدہ گزارنے والے، نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دے دو۔

آیت میں ایک لفظ "أَلسَّائِحُوْنَ” آیا ہے ، جس کا مطلب جمہور مفسرین کے ہاں "صَائِمُوْنَ” یعنی روزہ دار مراد ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی سائحین کا لفظ آیا ہے وہاں صائمین مراد ہیں، حضرت عکرمہؒ جو کبارِ تابعین میں سے ہیں انہوں نے کہا سیاحت کرنے والوں سے مراد طالب علم ہیں جو علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے ہیں۔

(تفسیر روح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ، آیت نمبر:۱۱۲)

اس تفسیر کو مفسرین نے رد نہیں کیا ہے اگرچیکہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ اس تفسیر میں منفرد ہیں۔

تیسری مثال

ارشاد باری تعالی ہے : "اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ

(التوبہ:۶۰)

صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں ..الخ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے غنی اور فقیر کے درمیان فرق کو واضح کیا ہے ، غنی سے متعلق امام ابو حنیفہؒ  نے فرمایا کہ غنی وہ شخص ہے جس کے پاس اصلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بقدر نصاب زکوٰۃ مال باقی رہے۔

(تفسیر روح المعانی، سورۂ توبہ:آیت نمبر:۶۰)

عام مفسرین نے امام ابو حنیفہؒ کے ذکر کردہ تعریف غنی کو اپنی تفاسیر میں بلا کسی نکیر کے ذکر فرمایا ہے۔

اس موضوع پر بھی بہت سی تفاسیرلکھی گئی ہیں ، چنانچہ علامہ نیشاپوری رحمہ اللہ کی تفسیر”غرائب القرآن اور رغائب الفرقان” قابل ذکر ہے اور علامہ نسفیؒ کی مدارک التزیل بھی قابل ذکر ہے اور علامہ آلوسی کی روح المعانی بھی ایک وقیع تفسیر ہے۔

نیز اردو تفاسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیرمعارف القرآن بھی اہم تفاسیر میں سے ایک ہے۔

 

تفسیر القرآن بلغۃ العرب

 

لغت عرب کو تفسیر کا ماخذ ماننے میں اگرچیکہ اہل علم کے یہاں اختلاف ہے ، جیسے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے لغۃ عرب سے قرآن کی تفسیر کو مکروہ قرار دیا ہے (حوالہ البرھان ۲/۱۶۰ نوع ۴۱) کیونکہ، عربی زبان ایک وسیع زبان ہے اور بعض اوقات ایک لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک جملے کے بھی متعدد اور کئی مفہوم ہوسکتے ہیں تو ایسے مواقع پر صرف لغت عرب کو بنیاد بنا کر ان میں سے کوئی ایک مفہوم متعین کرنا تفسیر میں مغالطہ کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو مکروہ بھی کہا گیا ہے مگر محققین کا کہنا ہے کہ مغالطہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لغت کے کثیر الاستعمال معانی کو چھوڑ کر انتہائی قلیل الاستعمال معنی مراد لیے جائیں اس لیے ایسی جگہ جہاں قرآن وسنت و آثار صحابہ و تابعین میں سے کوئی صراحت نہ ملے تو آیت کی تفسیر لغت عرب کے عام محاورات(جن کا چل چلاؤ ہو) کے مطابق کی جائے گی۔

پہلی مثال

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ  نے صحابہ کرامؓ سے درج ذیل آیت کے معنی دریافت کیے:

"أَوْ یَأْخُذَہُمْ عَلَی تَخَوُّفٍ”۔

(النحل:۴۷)

یا انہیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔

یہ سن کر قبیلہ بنو ھذیل کا ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ ہماری زبان میں "تخوف”کمی اور نقصان کو کہتے ہیں، حضرت عمرؓ نے پوچھا عربی اشعار میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ؟اس نے کہا جی ہاں اور فوراً یہ شعر پڑھ دیا:

*تَخَوَّفَ الرَّحُلُ منہا تامِكاً قَرِداً * كما تَخَوَّفَ عُودَ النبعۃِ السَّفِنُ*

ترجمہ:کجاوہ کی رسی اونٹنی کے کوہان کے بال کو کم کرتی رہتی ہے ، جیسا کہ لوہا کشتی کی لکڑی کو کم کرتا رہتا ہے۔

یہ سن کر حضرت عمرؓ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا اپنے دیوان کو تھامے رکھو، صحابہ نے عرض کیا دیوان سے کیا مراد ہے تو آپﷺ  نے فرمایا جاہلی شاعری، اس میں قرآن کی تفسیر اور تمہاری زبان کے معانی موجود ہیں۔

(روح المعانی۱۰/۱۷۹، شاملہ )

دوسری مثال

علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ  صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے سوال کرنے والوں کا ایک ہجوم تھا دو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے تفسیر قرآن کے متعلق کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں، حضرت ابن عباس نے فرمایا دل کھول کر پوچھئے، انہوں نے پوچھا کہ آپ اس آیت باری تعالی کی تفسیر بتائیے:

"عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِینَ”۔

(المعارج:۳۷)

دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا عزین کے معنی ہیں ساتھیوں کے حلقے، انہوں نے پھر سوال کیا کہ کیا اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں ؟حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا :جی ہاں پھر آپ نے عبید بن الابرص کا شعر پڑھا ؎

فَجَاؤُا یُہْرَعُوْنَ إِلَیْہِ حَتً
یَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِہِ عِزِیْنًا

وہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں

اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں

(الاتقان، ۲/۶۸، شاملہ)

دیکھیے یہاں حضرت ابن عباسؓ  نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب کی مدد سے کی ہے۔

تیسری مثال

اُسی صاحب نے آپ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل آیت کی تفسیردریافت کی:

"وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ”۔

(المائدۃ:۳۵)

اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔

حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ وسیلہ حاجت اور ضرورت کو کہتے ہیں اس نے پوچھا کہ اہل عرب اس معنی سے واقف ہیں :آپﷺ  نے فرمایا کیا آپ نے عنترۃ نامی شاعر کا شعر نہیں سناہے ؟پھر شعر پڑھا:

إنَّ الرِّجَالَ لَہُمْ إِلَیْكِ وَسِیلَۃٌ إِنْ یَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِی وتَخَضَّبی

(الاتقان:۲/۶۹)

اس شعر میں وسیلہ کا لفظ حاجت و ضرورت کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ ابن عباسؓ نے آیت بالا کی تفسیر لغت عرب سے کی ہے۔

اس نقطۂ نظر سے بہت سی تفاسیر لکھی گئی ہیں، ان میں تفسیر خازن جس کا اصل نام "لباب التاویل فی معانی التنزیل(۲)السراج المنیر فی الاعانۃ علی معرفۃ بعض معانی کلام ربنا الحکیم الخبیر، للخطیب شربینی”قابل ذکر ہیں۔

 

تفسیر القرآن بعقل سلیم

 

عقل سلیم جس کی اہمیت و ضرورت سے کسی کو انکار نہیں، دنیا کے ہر کام میں اس کی اہمیت ہوتی ہے اور پچھلے مآخذ سے فائدہ اٹھانا بغیر عقل سلیم کے معتبر نہیں اس ماخذ کو علاحدہ لکھنے کی ضرورت محض اس لیے پڑتی ہے کہ قرآن کریم کے معارف ومسائل، اسرارورموز یقیناً ایک بحر بیکراں ہیں اور پچھلے مآخذ سے ان کو ایک حد تک سمجھا جا سکتا ہے ، لیکن کسی نے بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ قرآن کریم کے اسرار و معارف کی انتہاء ہو گئی اور مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی، یہ بات خود قرآن کریم کی صریح آیتوں کے خلاف ہو گی، فرمان خداوندی ہے :

"قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ، الخ”۔

(الکہف:۱۰۹)

کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیےسمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہو چکا ہو گا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔

گویا اس آیت میں وضاحت ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو ممکن نہیں سارا سامان تسوید ختم ہو جائے گا اور لامتناہی کسی طرح بھی متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا، متناہی صفات والے لا متناہی صفات والی ہستی کو کیونکر اپنی گرفت میں لا سکتے ہیں اور یقیناً قرآن کریم بھی صفات باری میں سے ایک ہے لہذا عقل سلیم کے ذریعہ ان حقائق اور اسرار پر غور و فکر کا دروازہ قیامت تک کھلا ہوا رہے گا اور جس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم و عقل اور خشیت و تقوی اور رجوع الی اللہ کی صفات سے مالا مال کیا وہ تدبیر کے ذریعہ نئے نئے حقائق تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ، چنانچہ ہر دور کے مفسرین کی تفسریں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔

اور نبی اکرمﷺ کی دعا جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے تھی:

"اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ”۔
(کنزالعمال فی سنن الأقول والأفعال:۱۳/۴۵۸، شاملہ، المؤلف:علی بن حسام الدین المتقی الہندی۔ بخاری، كِتَاب الْوُضُوءِ، بَاب وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلَاءِ، حدیث نمبر:۱۴۰، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔

یہ دعا بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس باب میں راہیں کھلی ہیں البتہ اہل علم نے اس معاملہ میں یہ اصول ضرور بتلایا ہے کہ عقل سلیم کے ذریعہ مستنبط ہونے والے وہی مسائل اور معارف معتبر ہوں گے جو سابق مآخذ سے متصادم نہ ہوں، یعنی ان سے نہ ٹکراتے ہوں، اصول شرعیہ کے خلاف کوئی نکتہ آفرینی کی جائے تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو گی۔

ہم کو ایمان رکھنا چاہئے کہ کل کائنات خدا کی بنائی ہوئی اور اس کے قبضۂ قدرت میں ہے ، لہذا قرآن کریم کی بعض آیتوں سے اگر کوئی ڈاکٹر یا سائنس داں معلومات کو اخذ کرتا ہے اور وہ معلومات مذکورہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں توایسی تفسیر بھی قابل اعتبار ہو گی۔

پہلی مثال

"لِلَّہِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَخْلُقُ مَایَشَاءُ یَہَبُ لِمَنْ یَشَاءُ إِنَاثاً وَیَہَبُ لِمَنْ یَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْیُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَیَجْعَلُ مَنْ یَشَاءُ عَقِیماً إِنَّہُ عَلِیمٌ قَدِیرٌo”۔

(الشوری:۴۹، ۵۰)

سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، وہ جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملا کر لڑکے بھی دیتا ہے اور لڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں خنثیٰ(ایسا شخص جو نہ مرد ہو نہ عورت) کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ، لیکن ابن العربیؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ایسا کہنا عقل کے خلاف بات ہے اس لیے کہ اللہ نے آیت کے ابتداء ہی میں فرما دیا”یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ”وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، لہذااس میں خنثیٰ بھی شامل ہے۔

(الجامع لاحکام القرآن:۱۶/۵۲، شاملہ)

دوسری مثال

حضرت موسی جب کوہ طور پر تیس دن کے لیے تشریف لے گئے تھے اور انہیں چالیس یوم تک وہاں رہنا پڑا تھا تو ان کے غائبانہ ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی تھی اس واقعہ سے متعلق ایک حصہ کو قرآن پاک نے یوں بیان کیا ہے :

"وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَی مِنْ بَعْدِہِ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلًا”۔

(الاعراف:۱۴۸)

موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیا۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ تستری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بچھڑے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی محبت میں گرفتار ہو کر انسان اللہ سے منہ موڑ لے ، مثلاً اہل و اولاد اور مال وغیرہ انسان تمام خواہشات کو ختم کر دے جس طرح بچھڑے کے پجاری اس سے اسی حالت میں چھٹکارا پا سکتے ہیں جب وہ اپنی جانوں کو تلف کر دیں۔

(التفسیر التستری:۱/۱۶۹، شاملہ)

یہ تفسیر بھی عقل سلیم کی روشنی میں کی جانے والی تفسیر کے قبیل سے ہے اور یہ اصول شرعیہ کے مخالف بھی نہیں ہے۔

تیسری مثال

قرآن پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالی نے ان کو اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیا تھا قرآن پاک میں یوں ہے :

"وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ "۔

(الصافات:۱۰۷)

اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔

اس کی تفسیر میں علامہ تستری لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے اس لیے اللہ تعالی نے آزمائش کے طور پر اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا، منشأ خداوندی دراصل یہ نہ تھا کہ ابراھیمؑ بیٹے کو ذبح کر ڈالیں ، بلکہ مقصود یہ تھا کہ غیراللہ کی محبت کو دل سے نکال دیا جائے، جب یہ بات پوری ہو گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی عادت سے باز آ  گئے تو اسماعیل کے عوض ذبح عظیم عطا ہوئی۔

(التفسیر التستری:۱/۴۳۹، شاملہ)

یہ تفسیر بھی اسی قبیل سے ہے اور اصول شرعیہ کے معارض بھی نہیں ہے اس لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس عنوان پر تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں، علامہ ابوالسعودکی”ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم” اور” تفسیر التستری”قابل ذکر ہیں۔

 

تفسیر کے لیے ضروری علوم

 

قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں، جنت و دوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے ، بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنی مادری زبان میں بھی ان آیات کو سمجھ سکتا ہے ، ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّكِر”۔ ٍ

(القمر:۱۷)

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے ، اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔

دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام و قوانین، عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں، اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اور ان سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کے لیے علم تفسیرکاجانناضروری ہے ، صرف عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے ، صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسولﷺسے معلوم کیا کرتے تھے، اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ میں آ چکی ہیں ، یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیا جا رہا ہے ، روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ”۔

(البقرۃ:۱۸۷)

اور کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمہیں فرق معلوم ہونے لگے۔

اس آیت کو سننے کے بعد حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(۶۷ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے، تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کر لیا کریں ، اسی طرح اور ایک روایت میں حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں :کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے، یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہو جائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اور شب کی سیاہی ہے۔

(بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)

الغرض !قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے ، کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے ، خود بھی گمراہ ہو گا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا، قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علماء سے استفادہ کرنا چاہیے، اس مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں، درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے :

"مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ”۔

جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

"مَنْ قَالَ فِی كِتَابِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْیِہِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ”۔

جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔

(ترمذی، باب ماجاء فی یفسر القرآن، حدیث نمبر:۲۸۷۴۔ ابو داؤد، الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم، حدیث نمبر:۳۱۶۷)

سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا، کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے ، چنانچہ مفسرین اور اہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے :علم لغت، صرف و نحو، معانی، بیان، بدیع، عربی ادب، علم کلام، منطق، حکمت وفلسفہ، علم عقائد، علم تفسیر، پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئے ہیں، چنانچہ ابتدائی لغت و صرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں ، کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا نیز معانی بیان و بدیع وغیرہ اس کی رعنائیوں کو سمجھنے کے لیے اور منطق حکمت وفلسفہ کلام، دوسری زبانوں سے مستعار علوم کے ذریعہ جو گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے ، مثلاً وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اور فرشتے کاانسانی شکل میں آنا، رویائے صادقہ، نفث فی الروع، پھر وحی متلو و غیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی و مدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی آیتیں اور بعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی ہیں اس کا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیا مطلب ہے ، پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات، سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اور حفاظت قرآن اور جمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیئے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی میں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب و حرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکر کئے گئے ہیں، مثلاً عقائد، واقعات اور ایام اللہ و انعم اللہ، پھر آیات مقطعات و متشابہات و محکمات وغیرہ کی تفصیلات، بہرحال یہ تو چند ضروری علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت وقت لگ جائے۔

 

اہم مفسرین کے نام مع تاریخ وفات

 

جب اہم مفسرین کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے قرن اول یعنی صحابہ و تابعین کا ذکر ضروری ہوتا ہے۔

لہٰذا سب سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اہم مفسرین کے نام آتے ہیں اور ان میں سے بھی پہلے حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں جو مفسر اول کے نام سے جانے جاتے ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے جو تفسیر فی زمانہ منظر عام پر آئی ہے تنویر المقیاس فی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ حتی کہ اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا، لیکن حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں مانی گئی ہے ، کیونکہ یہ کتاب "محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ” کی سند سے مروی ہے اوراس سلسلہ سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب قرار دیا ہے۔

(دیکھئے الاتقان:۱۸۸/۲)

بہرحال قرن اول کے مفسرین میں پہلا نام حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے تاریخ وفات سنہ۶۸ھ۔

دوسرانام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وفات سنہ۴۰ھ۔

پہلے تین خلفاء کی نسبت حضرت علی سے تفسیری روایات زیادہ مروی ہیں ، چنانچہ علامہ ابوالطفیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ اپنے خطبے میں یوں فرمایا کہ لوگو!مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں سوالات کیا کرو، کیونکہ قسم خدا کی قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت رات کو نازل ہوئی یا دن میں میدان میں اتری یا پہاڑ پر۔

( الاتقان:۱۸۷/۲)

تیسرا نام حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ متوفی سنہ۳۲ھ۔

ان کی بھی کئی روایات تفسیر میں منقول ہیں ، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں زیادہ منقول ہیں۔

چوتھا نام حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ متوفی سنہ۳۹ھ۔

حضرت ابی بن کعب اُن صحابہ میں سے ہیں جو تفسیر اور علم قرأت میں مشہور ہیں، چنانچہ رسول اللہﷺ  نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا، اَقْرَأُ کُمْ اُبَیْ ابْنُ کَعْبٍ، تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)

حضرت ابی بن کعب کی علمی وقعت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضرت معمر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:

"عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ، عُمَر وَعَلِی وَاُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ”۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں، حضرت عمر و علی و ابی بن کعب رضی اللہ عنہم۔ ٍ

ان حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ اور بھی کچھ نام تفسیر کے سلسلہ میں منقول ہیں مثلاً زید بن ثابتؓ، معاذ بن جبلؓ، عبداللہ بن عمروؓ، عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عائشہؓ، جابرؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، انسؓ  اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہم۔

 

تابعین

 

حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے چونکہ مختلف علاقوں اور مقامات میں پھیل کر قرآن کریم کی خدمت کا سلسلہ شروع کیا، جس کی وجہ سے تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کام کے لیے تیار ہوئی، جس نے علم تفسیر کو محفوظ رکھنے میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں سے کچھ برائے تعارف پیش کئے جاتے ہیں :

(۱)حضرت مجاہدؒ یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں پورا نام ہے ابوالحجاج مجاہد بن جبر المخزومی، ولادت سنہ۲۱ ھ اور وفات سنہ۱۰۳ھ۔

(۲)حضرت سعید بن جبیرؒ، وفات۹۴ھ

(۳)حضرت عکرمہؒ

(۴) حضرت طاؤسؒ، وفات۱۰۵ھ

(۵)حضرت عطاء بن ابی رباح، وفات۱۱۴ھ

(۶)حضرت سعید بن المسیبؒ، وفات۹۱ھ یا ۱۰۵ھ

(۷)محمد بن سیرینؒ، وفات۱۱۰ھ

(۸)حضرت زید بن اسلمؒ، وغیرہ۔

(منقول از علوم القرآن:۴۶۱)

 

تفاسیر کی اہم کتابیں

 

مفسرین نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کئی نقطۂ نظر سے تفسیریں لکھی ہیں ، مثلاً ادبی، عقلی اور کلامی وغیرہ، بعض نے تفسیر بالماثور بھی لکھی، بعض نے تفسیر اشاری یعنی صوفیانہ انداز پر تفسیرلکھی، غرض مختلف نقاط نظر سے قرآن کی خدمت کی گئی ہے۔

 

تفسیر بالماثور میں اہم تفاسیر

تفسیر طبری، تفسیر بحر العلوم ازسمر قندی، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن از ثعالبی، معالم التنزیل ازبغوی، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب لابن عطیہ، تفسیر ابن کثیر، الدر المنثور فی تفسیر الماثور ازسیوطی، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن ازثعالبی- خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

تفسیر بالرائے کے نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں

مفاتیح الغیب ازرازی، انوارالتنزیل واسرار التاویل ازبیضاوی، مدارک التنزیل وحقائق التاویل فی معانی التنزیل از خازن، غرائب القرآن و رغائب الفرقان از نیسا پوری، تفسیر جلالین، السراج المنیراز خطیب شربینی، روح المعانی از آلوسی۔ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

 

صوفیانہ نقطۂ نظر سے لکھی جانے والی تفاسیر میں

تفسیر ابن عربی، تفسیر فیضی، تفسیر القرآن العظیم از تستری، حقائق التفسیر ازسلمی، عرائس البیان فی حقائق القرآن وغیرہ ہیں۔

فقہی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی کتابوں میں

احکام القرآن ازکیاہراسی، احکام القرآن ازابن العربی، الجامع لاحکام القرآن از قرطبی، کنزا لعرفان فی فقہ القرآن، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن للتھانوی اور اردو میں ایک مختصر سی کتاب مولانا عبدالمالک صاحب کاندھلوی کی فقہ القرآن کے نام سے آئی ہے۔

 

اہل کتاب کی روایات نقل کرنے والے حضرات

عہد صحابہ اوراس کے بعد کے ادوار میں بھی تفسیر قرآن کے ماخذ کے طور پر یہود و نصاریٰ رہے ہیں ، کیونکہ قرآن کریم بعض مسائل میں عموماً اور قصص انبیاء اور اقوام سابقہ کے کوائف و احوال میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے ، اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں ، مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا واقعہ اور ان کے معجزات وغیرہ۔

البتہ قرآن کریم نے جو طرز و منہاج اختیار کیا ہے وہ تورات و انجیل کے اسلوب بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے ، قرآن کریم کسی واقعہ کی جزئیات و تفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ واقعہ کے صرف اسی جز پر اکتفاء کرتا ہے جو عبرت و موعظت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا ہے ، یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام اور بعد کے ادوار میں تابعین اور تبع تابعین حضرات اہل کتاب کے ان اہل علم سے جو حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے قرآن میں ذکر کردہ واقعات کی تفصیل کے واسطے رجوع کیا کرتے تھے، اسرائیلی روایات کا مدار و انحصار زیادہ تر حسب ذیل چار راویوں پر ہے :

عبداللہ بن سلامؓ، کعب احبار، وھب بن منبہ، عبدالملک بن عبدالعزیزابن جریج، جہاں تک عبداللہ بن سلامؓ کی بات ہے تو آپ کے علم و فضل میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور ثقاہت و عدالت میں آپ اہل علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، آپؓ  کے بارے میں قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں، امام بخاریؒ  اور امام مسلمؒ اور دیگر محدثین نے آپ کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔

حضرت کعب احبار بھی ثقہ راویوں میں سے ہیں، انہوں نے زمانہ جاہلیت کا زمانہ پایا اور خلافت صدیقی یا فاروقی میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ خلافت فاروقی میں آپ کے اسلام لانے کی بات مشہور تر ہے۔

(فتح الباری، ۱۵۸/۱ حدیث نمبر:۹۵)

آپ کے ثقہ او رعادل ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ و حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی جلالت قدر اور علمی عظمت کے باوجود آپ سے استفادہ کرتے تھے، امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں کتاب الایمان کے آخر میں کعب سے متعدد روایات نقل کی ہیں، اسی طرح ابو داؤد، ترمذی اورنسائی نے بھی آپ سے روایت کی ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کعب احبار ان سب محدثین کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔

اسی طرح وھب بن منبہ کی جمہور محدثین اور خصوصاً امام بخاریؒ  نے توثیق و تعدیل کی ہے ، ان کے زہد و تقویٰ کے بارے میں بڑے بلند کلمات ذکر کئے ہیں، فی نفسہ یہ بڑے مضبوط راوی ہیں ، البتہ بہت سے لوگوں نے ان کی علمی شہرت و عظمت سے غلط فائدہ اٹھایا کہ بہت سی غلط باتوں کو ان کی طرف منسوب کر کے اپنے قد کو اونچا کیا اور لوگوں نے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ابن جریج اصلاً رومی تھے، مکہ کے محدثین میں سے تھے، عہد تابعین میں اسرائیلی روایات کے مرکز و محور تھے، تفسیر طبری میں نصاریٰ سے متعلق آیات کی تفسیر کا مدار انہی پر ہے ، ان کے بارے میں علماء کے خیالات مختلف ہیں، بعض نے توثیق کی ہے تو بعض نے تضعیف بھی کی ہے ، بکثرت علماء آپ کو مدلس قرار دیتے ہیں اور آپ کی مرویات پر اعتماد نہیں کرتے، مگر بایں ہمہ امام احمد بن حنبلؒ ان کو علم کا خزانہ قرار دیتے ہیں ، بہرحال ابن جریج سے منقول تفسیری روایات کو حزم و احتیاط کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔

 

اہل کتاب کی روایات پر مشتمل کتب تفاسیر

کوئی ایسی کتاب جس میں خاص اسرائیلی(اہل کتاب کی) روایات کے جمع کرنے پر توجہ دی گئی ہوایسی تو کوئی تفسیر نہیں ہے ، البتہ آیات کی تفسیر میں عموماً کتب تفاسیر میں اسرائیلی روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، جس کا علم راوی کو دیکھ کر یا پھر ان کی بیان کردہ باتوں کو اصول شرعیہ کی روشنی میں پرکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے ، مولانا اسیر ادروی صاحب کی ایک کتاب اردو میں ” تفسیروں میں اسرائیلی روایات” کے نام سے آ چکی ہے ، جس کے مقدمہ میں اسرائیلی روایات سے متعلق عمدہ بحث اکٹھا کر دی ہے اور پھر جو اسرائیلی روایات ان کو معلوم ہوسکیں ان پر الگ الگ کلام کیا ہے اور معتبر تفاسیر سے ان کا اسرائیلی روایات کے قبیل سے ہونا بھی ظاہر کیا ہے۔

٭٭٭

کمپوزنگ: ابو بکر سلفی

ماخذ:

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84-%D8%AA%D9%81%D8%B3%DB%8C%D8%B1-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D9%84%D8%BA%D9%88%DB%8C-%D9%88%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D8%B1%DB%8C%D9%81-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%B9%D8%AB%DB%8C%D9%85%DB%8C%D9%86.19974/

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/%D8%AA%D9%81%D8%B3%DB%8C%D8%B1%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%DA%A9%D8%A7%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D8%B1%D9%81.31057/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید