FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اصلاحِ معاشرہ

ابو الاعلیٰ مودودی

مولانا مودودی کی کتاب ’اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات کا ایک حصہ


 

بناؤ اور بگاڑ

(یہ تقریر ۱۰ مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام، نزد پٹھان کوٹ (مشرقی پنجاب) کے جلسۂ عام میں کی گئی تھی۔ سامعین میں مسلمانوں کے علاوہ بہت سے ہندو اور سکھ حضرات بھی شریک تھے۔ پسِ منظر میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا مشرقی پنجاب ایک کوہ آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے لیے تیار تھا اور تین ہی مہینے بعد وہاں فتنہ و فساد کی وہ آگ بھڑکنے والی تھی جس کی تباہ کاریاں اب تاریخ انسانی کا ایک دردناک ترین باب بن چکی ہیں )۔

حمدو ثناء

تعریف اور شکر اس خدا کے لیے ہے جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، بُرے اور بھلے کی تمیز بخشی اور ہماری ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنے بہترین بندوں کو بھیجا، اور سلام ہو خدا کے ان نیک بندوں پر جنہوں نے آدم کی اولاد کو آدمیت کی تعلیم دی، بھلے مانسوں کی طرح رہنا سکھایا، انسانی زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کیا اور وہ اصول اُن کو بتائے جن پر چل کر وہ دنیا میں سُکھ اور آخرت میں نجات پا سکتے ہیں۔

حاضرین و حاضرات، یہ دنیا جس خدا نے بنائی اور جس نے اس زمین کا فرش بچھا کر اس پر انسانوں کو بسایا ہے۔ وہ کوئی اندھا دھند اور الل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں۔ وہ چوپٹ راجہ نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیر نگری ہو۔ وہ اپنے مستقل قانون، پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے۔ جن کے مطابق وہ سارے جہان پر خدائی کر رہا ہے۔ اس کے قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں ، جس طرح ہوا، پانی، درخت اور جانور بندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم آپ سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر، ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہمارے سانس کی آمدورفت پر، ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر، اور ہماری بیماری و تندرستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے، ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اُتار چڑھاؤ پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزلی پر، اور ہماری ذاتی ، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھانا ہضم کرنے کے بجائے دل میں ہضم کرنے لگے، تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رو سے جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیے وہ اسے بلندی پر لے جائے۔ اگر آگ ایک کے لیے گرم اور دوسرے کے لیے ٹھنڈی نہیں ہے تو بُرے کرتوت بھی، جو خدا کے قانون کی رُو سے بُرے ہیں ، ایک کو گرانے والے اور دوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بُری تقدیر بنانے کے لیے مقرر کیے ہیں وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں ، نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتے ہیں ، اور نہ ان میں کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی کے ساتھ رعایت ہی پائی جاتی ہے۔ خدا کے اس قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ:

’’وہ بناؤ کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

خدا اپنی زمین کا انتظام کس کو دیتا ہے؟

مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے۔ اس کے دیئے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا؛ اور اس سے یہ توقع کی بھی تو نہیں جا سکتی کہ وہ کبھی اسے پسند کرے گا؛ کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے، اور اس کو بدنظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم و ستم سے خراب کر ڈالا جائے۔ انسانوں میں سے جو لوگ بھی دنیا کے انتظام کے امیدوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں ، جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انہی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔

پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہے اور بگاڑتے کتنا ہے۔ جب تک ان کا بناؤ ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا  امیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے۔ مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انہیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدوار کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔

یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی، کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا کوئی باغ ہو اور وہ اسے ایک مالی کے سپرد کر دے تو آپ خود بتائیے کہ وہ اس مالی سے اولین بات کیا چاہے گا؟ باغ کا مالک اپنے مالی سے اس کے سوا اور کیا چاہ سکتا ہے کہ وہ اس کے باغ کو بنائے نہ کہ خراب کر کے رکھ دے۔ وہ تو لازماً یہی چاہے گا کہ اس کے باغ کو زیادہ سے زیادہ بہتر حالت میں رکھا جائے۔ زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ اس کے حسن میں ، اس کی صفائی میں ، اس کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ جس مالی کو وہ دیکھے گا کہ وہ خوب محنت سے جی لگا کر سلیقے اور قابلیت کے ساتھ اس کے باغ کی خدمت کر رہا ہے، اس کی روشوں کو سنوار رہا ہے، اس کے اچھے درختوں کی پرورش کر رہا ہے ، اس کو بری ذات کے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کر رہا ہے اور اس میں اپنی جدت اور جُودت سے عمدہ پھلوں اور پھولوں کی نئی نئی قسموں کا اضافہ کر رہا ہے، تو ضرور ہے کہ وہ اس سے خوش ہو، اسے ترقی دے اور ایسے لائق، فرض شناس اور خدمت گزار مالی کو نکالنا کبھی پسند نہ کرے۔ لیکن اس کے برعکس اگر وہ دیکھے کہ مالی نالائق بھی ہے کام چور بھی ، اور جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے اس باغ کے ساتھ بد خواہی کر رہا ہے، سارا باغ گندگیوں سے اٹا پڑا ہے۔ روشیں ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں ، پانی کہیں بلا ضرورت بہہ رہا ہے اور کہیں قطعے کے قطعے سوکھتے چلے جا رہے ہیں ، گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ بڑھتے جاتے ہیں اور پھولوں اور پھلدار درختوں کو بے دردی کے ساتھ کاٹ کاٹ کر اور توڑ توڑ کر پھینکا جا رہا ہے ،اچھے درخت مرجھا رہے ہیں اور خار دار جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں ، تو آپ خود ہی سوچیے کہ باغ کا مالک ایسے مالی کو کیسے پسند کر سکتا ہے۔ کون سی سفارش، کون سی عرض و معروض اور دست بستہ التجائیں ، اور کون سے آبائی حقوق یا دوسرے خود ساختہ حقوق کا لحاظ اس کو اپنا باغ ایسے مالی کے حوالے کیے رہنے پر آمادہ کر سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ رعایت وہ بس اتنی ہی تو کرے گا کہ اسے تنبیہ کر کے پھر ایک موقع دے دے۔ مگر جو مالی تنبیہ پر بھی ہوش میں نہ آئے، اور باغ کو اُجاڑے ہی چلا جائے اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہے کہ باغ کا مالک پکڑ کر اسے نکال باہر کرے اور دوسرا مالی اس کی جگہ رکھ لے۔

اب غور کیجیے کہ اپنے ایک ذرا سے باغ کے انتظام میں جب آپ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو خدا، جس نے اپنی اتنی بڑی زمین اتنے سر و سامان کے ساتھ انسانوں کے حوالہ کی ہے، اور اتنے وسیع اختیارات ان کو اپنی دنیا اور اس کی چیزوں پر دیئے ہیں ، وہ آخر اس سوال کو نظرانداز کیسے کر سکتا ہے کہ آپ اس کی دنیا بنا رہے ہیں یا اجاڑ رہے ہیں۔ آپ بنا رہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ آپ کو خواہ مخواہ ہٹا دے لیکن اگر آپ بنائیں کچھ نہیں اور اس کے عظیم الشان باغ کو بگاڑتے اور اجاڑتے ہی چلے جائیں تو آپ نے اپنے دعوے اپنی دانست میں خواہ کیسی ہی زبردست من مانی بنیادوں پر قائم کر رکھے ہوں ، وہ اپنے باغ پر آپ کے حق کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کچھ تنبیہات کر کے، سنبھلنے کے دو چار مواقع دے کر،آخر کار وہ آپ کو انتظام سے بے دخل کر کے ہی چھوڑے گا۔

خدائی اور انسانی نقطۂ نظر کا فرق

اس معاملہ میں خدا کا نقطۂ نظر انسانوں کے نقطۂ نظر سے اسی طرح مختلف ہے۔ جس طرح خود انسانوں میں ایک باغ کے مالک کا نقطۂ نظر اس کے مالی کے نقطۂ نظر سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ فرض کیجیے کہ مالیوں کا ایک خاندان دو چار پُشت سے ایک شخص کے باغ میں کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان کا کوئی دادا پردادا اپنی لیاقت و قابلیت کی وجہ سے یہاں رکھا گیا تھا۔ پھر اس کی اولاد نے بھی اچھا کام کیا۔ مالک نے سوچا کہ خواہ مخواہ انہیں ہٹانے اور نئے آدمی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب کام یہ بھی اچھا ہی کر رہے ہیں تو ان کا حق دوسرے سے زیادہ ہے۔ اس طرح یہ خاندان باغ میں جم گیا۔ لیکن اب اس خاندان کے لوگ نہایت نالائق، بے سلیقہ، کام چور اور نا فرض شناس اٹھے ہیں۔ باغبانی کی کوئی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے۔ سارے باغ کا ستیاناس کیے ڈالتے ہیں اور اس پر ان کا دعویٰ ہے کہ ہم باپ دادا کے وقتوں سے اس باغ میں رہتے چلے آتے ہیں ، ہمارے پر دادا ہی کے ہاتھوں اول اول یہ باغ آباد ہوا تھا، لہٰذا ہمارے اس پر پیدائشی حقوق ہیں ، اور اب کسی طرح یہ جائز نہیں کہ ہمیں بے دخل کر کے کسی دوسرے کو یہاں کا مالی بنا دیا جائے۔ یہ ان نالائق مالیوں کا نقطۂ نظر ہے مگر کیا باغ کے مالک کا نقطۂ نظر بھی یہی ہو سکتا ہے؟ کیا وہ یہ نہ کہے گا کہ میرے نزدیک تو سب سے مقدم چیز میرے باغ کا حسنِ انتظام ہے۔ میں نے یہ باغ تمہارے پردادا کے لیے نہیں لگایا تھا بلکہ تمہارے پردادا کو اس باغ کے لیے نوکر رکھا تھا۔ تمہارے اس باغ پر جو حقوق بھی ہیں ، خدمت اور قابلیت کے ساتھ مشروط ہیں۔ باغ کو بناؤ گے تو تمہارے سب حقوق کا لحاظ کیا جائے گا۔ اپنے پرانے مالیوں سے آخر مجھے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ کہ وہ کام اچھا کریں تب بھی انہیں خواہ مخواہ نکال ہی دوں اور نئے امیدواروں کا بلا ضرورت تجربہ کروں۔ لیکن اگر اس باغ ہی کو تم بگاڑتے اور اجاڑتے رہو جس کے انتظام کی خاطر تمہیں رکھا گیا ہے تو پھر تمہارا کوئی حق مجھے تسلیم نہیں ہے۔ دوسرے امیدوار موجود ہیں ، باغ کا انتظام ان کے حوالے کر دوں گا اور تم کو ان کے ماتحت پیش خدمت بن کر رہنا ہو گا۔ اس پر بھی اگر تم درست نہ ہوئے اور ثابت ہوا کہ ماتحت کی حیثیت سے بھی تم کسی کام کے نہیں ہو، بلکہ کچھ بگاڑنے ہی والے ہو، تو تمہیں یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا اور تمہاری جگہ خدمت گار بھی دوسرے ہی لا کر بسائے جائیں گے۔

یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطۂ نظر میں ہے، ٹھیک یہی فرق دنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطۂ نظر میں بھی ہے۔ دنیا کی مختلف قومیں زمین کے جس جس خطہ میں بستی ہیں ، اُن کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے۔ پشت ہا پشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہاں رہتے چلے آئے ہیں۔ اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں۔ لہٰذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہیے، کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آ کر یہاں کا انتظام کرے۔ مگر زمین کے اصلی مالک خدا کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ اس نے کبھی ان قومی حقوق کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ نہیں مانتا، کہ ہر ملک پراس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے، جس سے اس کو کسی حال میں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میں کیا کام کر رہی ہے۔ اگر وہ بناؤ اور سنوار کے کام کرتی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح و ترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیداوار روکنے اور بھلائیوں کی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو تو مالکِ کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہو کہ یہاں کا انتظام تمہارے ہاتھ میں رہنے دیا جائے۔ تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو۔ لہٰذا تمہارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بناؤ کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جا رہے ہوں ، بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور برائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جا رہی ہو، جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا ہے، اسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہو۔ اور کوئی بہتر کام اس سے لیا ہی نہ جاتا ہو تو پھر خدا کی طرف سے پہلے کچھ ہلکی اور کچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں ، تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویہ درست کر لیں۔ پھر جب وہ قوم اس پر درست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو، جو کم از کم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو، وہاں کی حکومت دے دی جاتی ہے اور بات اس پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ اگر ماتحت بننے کے بعد بھی باشندگانِ ملک کسی لیاقت و اہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے کچھ بھی بن نہ آئے گا بلکہ کچھ بگڑ ہی جائے گا، تو خدا پھر ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور دوسروں کو لے آتا ہے جو اس کی جگہ بستے ہیں۔ اس معاملہ میں خدا کا نقطۂ نظر ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہیے۔ وہ اپنی زمین کے انتظام میں دعویداروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بناؤ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے۔ ایک وقت کے امیدواروں میں سے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں۔ انتخاب انہی کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بناؤ زیادہ رہتا ہے یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آ جاتا، اسی وقت تک انتظام انہی کے سپرد رہتا ہے۔

تاریخی شہادتیں

یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں ، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دور کیوں جائیے، خود اپنے اسی ملک کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ یہاں جو قومیں پہلے آباد تھیں ان کی تعمیری صلاحیتیں جب ختم ہو گئیں تو خدا نے آریوں کو یہاں کے انتظام کا موقع دیا جو اپنے وقت کی قوموں میں سب سے زیادہ اچھی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ انہوں نے یہاں آ کر ایک بڑے شاندار تمدن کی بنا رکھی، بہت سے علوم و فنون ایجاد کیے، زمین کے خزانوں کو نکالا اور انہیں بہتری میں استعمال کیا، بگاڑ سے زیادہ بناؤ کے کام کر کے دکھائے۔ یہ قابلیتیں جب تک ان میں رہیں ، تاریخ کے سارے نشیبوں اور فرازوں کے باوجود یہی اس ملک کے منتظم رہے۔ دوسرے امیدوار بڑھ بڑھ کر آگے آئے مگر دھکیل دیئے گئے، کیونکہ ان کے ہوتے دوسرے منتظم کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے حملے زیادہ سے زیادہ بس یہ حیثیت رکھتے تھے کہ جب کبھی یہ ذرا بگڑنے لگتے تو کسی کو بھیج دیا گیا، تاکہ انہیں متنبہ کر دے۔ مگر جب یہ بگڑتے ہی چلے گئے اور انہوں نے بناؤ کے کام کم اور بگاڑنے کے کام زیادہ کرنے شروع کر دیے، جب انہوں نے اخلاق میں وہ پستی اختیار کی جس کے آثار بام مارگی تحریک میں آپ بھی دیکھ سکتے ہیں ، جب انہوں نے انسانیت کی تقسیم کر کے خود اپنی ہی سوسائٹی کو ورنوں اور ذاتوں میں پھاڑ ڈالا، اپنی اجتماعی زندگی کو ایک زینے کی شکل میں ترتیب دیا، جس کی ہر سیڑھی کا بیٹھنے والا اپنے سے اُوپر کی سیڑھی والے کا بندہ اور نیچے کی سیڑھی والے کا خدا بن گیا، جب انہوں نے خدا کے لاکھوں کروڑوں بندوں پر وہ ظلم ڈھایا جو آج تک اچھوت پن کی شکل میں موجود ہے، جب انہوں نے علم کے دروازے عام انسانوں پر بند کر دیے، اور ان کے پنڈت علم کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے، اور جب ان کے کارفرما طبقوں کے پاس اپنے زبردستی جمائے ہوئے حقوق وصول کرنے اور دوسروں کی محنتوں پر داد عیش دینے کے سوا کوئی کام نہ رہا، تو خدا نے آخرکار ان سے ملک کا انتظام چھین لیا اور وسط ایشیا کی ان قوموں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا جو اس وقت اسلامی تحریک سے متاثر ہو کر زندگی کی بہتر صلاحیتوں سے آراستہ ہو گئی تھیں۔

یہ لوگ سینکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے، اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کر کے شامل ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑ اس سے زیادہ بنایا۔ کئی سو برس تک ہندوستان میں بناؤ کا جو کام بھی ہوا، انہی کے ہاتھوں ہوا یا پھر ان کے اثر سے ہوا، انہوں نے علم کی روشنی پھیلائی۔ خیالات کی اصلاح کی۔ تمدن و معاشرت کو بہت کچھ درست کیا۔ ملک کے ذرائع و وسائل کو اپنے عہد کے معیار کے لحاظ سے بہتری میں استعمال کیا اور امن و انصاف کا وہ عمدہ نظام قائم کیا جو اگرچہ اسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا مگر پہلے کی حالت اور گرد و پیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔ اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بناؤ کی صلاحیتیں گھٹنی شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے بھی اونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کر کے خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا، جس کے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔ انہوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر ناجائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انہوں نے بھی ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا۔ اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی و عیش پرستی میں وہ اتنے کھوئے گئے کہ جب آخری شکست کھا کر ان کے فرماں رواؤں کو دلّی کے لال قلعہ سے نکلنا پڑا تو ان کے شاہزادے؛ وہی جو کل تک حکومت کے امیدوار تھے؛ جان بچانے کے لیے بھاگ بھی نہ سکتے تھے۔ کیونکہ زمین پر چلنا انہوں نے چھوڑ رکھا تھا۔ مسلمانوں کی عام اخلاقی پستی اس حد تک پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی جو انہیں دین فروشی، قوم فروشی اور ملک فروشی سے روکتی۔ ان میں ہزاروں لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے جن کی اخلاقی حالت پالتُو  کُتّوں کی سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر انہیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے ان سے شکار کرا لے۔ ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ، جس کی بدولت ان کے دشمن خود انہی کے ہاتھوں ان کا ملک فتح کر رہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالب جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ:

سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری

یہ بات کہتے ہوئے اتنے بڑے شاعر کو ذرا خیال تک نہ گزرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی بات نہیں ، ڈوب مرنے کی بات ہے۔

جب یہ ان کی حالت ہو گئی تو خدا نے ان کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا۔ اور ہندوستان کے انتظام کا منصب پھر نئے امیدواروں کے لیے کھل گیا اس موقع پر چار امیدوار میدان میں تھے۔ مرہٹے، سکھ، انگریز اور بعض مسلمان رئیس۔ آپ خود انصاف کے ساتھ، قومی تعصب کی عینک اُتار کر اس دور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے کسی میں بھی بناؤ کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا اس سے کہیں زیادہ بگاڑ، مرہٹوں ، سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا وہ ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انہوں نے بگاڑا اس سے بہت زیادہ یہ امیدوار بگاڑ کر رکھ دیتے۔ مطلقاً دیکھیے تو انگریزوں میں بہت سے پہلوؤں سے بے شمار برائیاں آپ کو نظر آئیں گی۔ مگر مقابلتاً دیکھیے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے ان کی برائیاں بہت کم اور اُن کی خوبیاں بہت نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اس من مانے اصول کو توڑ دیا۔ جو انہوں نے بغیر کسی حق کے بنا رکھا ہے کہ ’’ہر ملک خود ملکیوں کے لیے ہے خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں ‘‘۔ اس نے تاریخ کے اٹل فیصلہ سے ثابت کیا کہ نہیں۔ مالک تو خدا ہے، وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کا انتظام کس کے سپرد کرے اور کس سے چھین لے۔ اس کا فیصلہ کسی نسلی، قومی یا آبائی حق کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (آل عمران ۳: ۲۶)

کہو کہ خدایا۔ ملک کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ ہزاروں میل کے فاصلہ سے ایک ایسی قوم کو لے آیا جو کبھی یہاں تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو، مسلم، سکھ سب طاقتوں کو زیر کر کے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے ان مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تن تنہا ایک ایک ضلع پر حکومت کی، بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دوسرا فرد اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندوستانیوں نے جو کچھ کیا پیش خدمت کی حیثیت سے کیا نہ کہ کارفرما کی حیثیت سے۔ ہم سب کو یہ ماننا پڑے گا، اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں ، جب کہ انگریز یہاں رہے، بناؤ کا جو کچھ بھی کام ہوا، انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثر سے ہوا۔ جس حالت میں انہوں نے ہندوستان کو پایا تھا اس کے مقابلہ میں آج کی حالت دیکھیے تو آپ اس بات سے انکار نہ کر سکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود بناؤ کا بہت سا کام ہوا ہے جس کے خود اہلِ ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہر گز توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ اس لیے تقدیر الٰہی کا وہ فیصلہ غلط نہ تھا جو اس نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں کر دیا تھا۔

اب دیکھیے کہ جو کچھ انگریز بنا سکتے تھے وہ بنا چکے ہیں (۱)۔ ان کے بناؤ کے حساب میں اب کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس حساب میں جو اضافہ وہ کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے ہاتھوں بھی ہو سکتا ہے۔ مگر دوسری طرف ان کے بگاڑ کا حساب بہت بڑھ چکا ہے اور جتنی مدت بھی وہ یہاں رہیں گے بناؤ کی بہ نسبت بگاڑ ہی زیادہ بڑھائیں گے؛ ان کی فرد جرم اتنی لمبی ہے کہ اسے ایک صحبت میں بیان کرنا مشکل ہے اور اس کے بیان کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ سب کے سامنے ہے؛ اب تقدیر الٰہی کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ یہاں کے انتظام سے بے دخل کر دیے جائیں۔ انہوں نے بہت عقل مندی سے کام لیا کہ خود سیدھی طرح رخصت ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔ سیدھی طرح نہ جاتے تو ٹیڑھی طرح نکالے جاتے، کیوں کہ خدا کے اٹل قوانین اب ان کے ہاتھ میں یہاں کا انتظام رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔

ہندوستان کی آزادی

یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں ، تاریخ کے اُن اہم مواقع میں سے ہے جب زمین کا اصلی مالک کسی ملک میں ایک انتظام کو ختم کر دیتا ہے اور دوسرے انتظام کا فیصلہ کرتا ہے۔ بظاہر جس طرح یہاں انتقالِ اختیارات کا معاملہ طے ہوتا نظر آ رہا ہے اس سے یہ دھوکا نہ کھا جائیے کہ یہ قطعی فیصلہ ہے جو ملک کا انتظام خود اہلِ ملک کے حوالے کیے جانے کے حق میں ہو رہا ہے۔ آپ شاید معاملہ کی سادہ سی صورت سمجھتے ہوں گے کہ اجنبی لوگ جو باہر سے آ کر حکومت کر رہے تھے واپس جا رہے ہیں ، اس لیے اب یہ آپ سے آپ ہونا ہی چاہیے کہ ملک کا انتظام خود ملکیوں کے ہاتھ آئے۔ نہیں ، خدا کے فیصلے اس طرح کے نہیں ہوتے وہ ان اجنبیوں کو نہ پہلے بلاوجہ لایا تھا نہ اب بلاوجہ لے جا رہا ہے۔ نہ پہلے الل ٹپ اس نے آپ سے انتظام چھینا تھا اور نہ اب الل ٹپ وہ اسے آپ کے حوالہ کر دے گا۔ دراصل اس وقت ہندوستان کے باشندے امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ سب امیدوار ہیں۔ چونکہ یہ پہلے سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں اس لیے پہلا موقع انہی کو دیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ مستقل تقرر نہیں ہے بلکہ محض امتحانی موقع ہے۔ اگر فی الواقع انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے اندر بگاڑ سے بڑھ کر بناؤ کی صلاحیتیں ہیں تب تو ان کا تقرر مستقل ہو جائے گا۔ ورنہ اپنے بناؤ سے بڑھ کر اپنا بگاڑ پیش کر کے یہ بہت جلدی دیکھ لیں گے کہ انہیں پھر اس ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جائیگا اور دور و نزدیک کی قوموں میں سے کسی ایک کو اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا جائے گا۔ پھر اس فیصلے کے خلاف یہ کوئی فریاد تک نہ کر سکیں گے۔ دنیا بھر کے سامنے اپنی نالائقی کا کھلا ثبوت دے چکنے کے بعد ان کا منہ کیا ہو گا کہ کوئی فریاد کریں اور ڈھیٹ بن کر فریاد کریں گے بھی تو اس کی داد کون دے گا۔

اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندوستان کے لوگ ؛ ہندو ، مسلمان، سکھ ؛ اس امتحان کے موقع پر اپنے خدا کے سامنے اپنی کیا صلاحیتیں اور قابلیتیں اور اپنے کیا اوصاف اور کارنامے پیش کر رہے ہیں جن کی بنا پر یہ امید کر سکتے ہیں کہ خدا اپنے ملک کا انتظام پھر ان کے سپرد کر دے گا۔ اس موقع پر اگر میں بے لاگ طریقے سے کھلم کھلا وہ فردِ جرم سنا دوں جو اخلاق کی عدالت میں ہندوؤں ، مسلمانوں اور سکھوں سب پر لگتی ہے، تو میں امید کرتا ہوں کہ آپ بُرا نہ مانیں گے۔ اپنی قوم اور اپنے وطنی بھائیوں کے عیوب بیان کر کے خوشی تو مجھے بھی نہیں ہوتی۔ حقیقت میں میرا دل روتا ہے۔ مگر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ خواہ وہ راضی ہوں یا ناراض بہرحال سچی بات ان سے کہہ دوں۔ کیوں کہ میں گویا اپنی آنکھوں سے انجام کو دیکھ رہا ہوں جو ان عیوب کی بنا پر کل انہیں دیکھنا ہی نہیں ، بھگتنا بھی پڑے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ عیوب انہیں لے ڈوبیں گے۔ ہم، آپ ، کوئی بھی ان کے انجام بد سے نہ بچے گا۔ اس لیے میں انہیں دلی رنج کے ساتھ بیان کرتا ہوں تاکہ جن کے کان ہوں وہ سنیں اور اصلاح کی کچھ فکر کریں۔

ہماری اخلاقی حالت

ہمارے افراد کی عام اخلاقی حالت جیسی کچھ ہے، آپ اس کا اندازہ خود اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بنا پر کیجیے۔ ہم میں کتنے فی صد آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں ، کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے میں کوئی ’’مفید‘‘ جھوٹ بولنے اور کوئی ’’نفع بخش‘‘ بے ایمانی کرنے میں صرف اس بنا پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً برا ہے؟ جہاں قانون گرفت نہ کرتا ہو، یا جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو، وہاں کتنے فی صدی اشخاص محض اپنے اخلاقی احساس کی بنا پر کسی جرم اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں ؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو، وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی، ہمدردی، ایثار، حق رسانی اور حسنِ سلوک کا برتاؤ کرتے ہیں ؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے، جو دھوکے اور فریب اور جھوٹ اور نا جائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں ؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ کچھ اپنے خریداروں کے مفاد اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال رکھتے ہیں ؟ ہمارے زمینداروں میں کتنے ہیں جو غلہ روکتے ہوئے اور بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے وہ کتنے لاکھ بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں ؟ ہمارے مالداروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی ظلم، کسی حق تلفی، کسی بددیانتی کا دخل نہیں ہے؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اُجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں ؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے، اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں ؟ ہمارے وکیلوں میں ، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں میں ، ہمارے اخبار نویسوں میں ، ہمارے ناشرین و مصنفین میں ، ہمارے قومی ’’خدمت گزاروں ‘‘ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلق خدا کو ذہنی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ شرم محسوس کرتے ہوں ؟ شاید میں مبالغہ نہ کروں گا اگر یہ کہوں کہ ہماری آبادی میں بمشکل ۵ فیصدی لوگ اس اخلاقی جذام سے بچے رہ گئے ہیں ، ورنہ۹۵ فیصدی کو یہ چھوت بری طرح لگ چکی ہے۔ اس معاملہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہریجن کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ سب کے سب یکساں بیمار ہیں ، سب کی اخلاقی حالت خوفناک حد تک گری ہوئی ہے، اور کسی گروہ کا حال دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔ اخلاقی تنزل کی یہ وبا جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانے پر اجتماعی شکل میں اس کا ظہور شروع ہو جائے۔ اس آنے والے طوفان کی پہلی علامت ہمیں اس وقت نظر آئی جب جنگ کی وجہ سے ریلوں میں مسافروں کا ہجوم ہونے لگا وہاں ایک ہی قوم اور ایک ہی ملک کے لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جس خود غرضی، بے دردی اور سنگ دلی کا سلوک کیا، وہ پتہ دے رہا تھا کہ ہمارے عام اخلاق کس تیز رفتاری کے ساتھ گر رہے ہیں۔ پھر اشیاء کی کمیابی و گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھر بنگال کا وہ ہولناک مصنوعی قحط رونما ہوا جس میں ہمارے ایک طبقہ نے اپنے ہی ملک کے لاکھوں انسانوں کو اپنے نفع کی خاطر بھوک سے تڑپا تڑپا کر مار دیا۔ یہ سب ابتدائی علامات تھیں۔ اس کے بعد خباثت، کمینہ پن، درندگی اور وحشت کا وہ لاوا یکایک پھوٹ پڑا، جو ہمارے اندر مدتوں سے پک رہا تھا اور اب وہ فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں ہندوستان کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک کو بھسم کر رہا ہے۔ کلکتہ کے فساد کے بعد سے ہندوؤں ، مسلمانوں ، اور سکھوں کی قومی کش مکش کا جو نیا باب شروع ہوا ہے اس میں یہ تینوں قومیں اپنی ذلیل ترین صفات کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جن افعال کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی انسان ان کا مرتکب ہو سکتا ہے، آج ہماری بستیوں کے رہنے والے علانیہ ان کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے علاقوں کی پوری پوری آبادیاں غنڈہ بن گئی ہیں اور وہ کام کر رہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیر خوار بچوں کو ماؤں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا ہے۔ شریف عورتوں کو برسر عام ننگا کیا گیا ہے اور ہزاروں کے مجمع میں ان کے ساتھ بدکاری کی گئی ہے۔ باپوں ، شوہروں اور بھائیوں کے سامنے ان کی بیٹیوں ، بیویوں اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروں اور زخمیوں اور بوڑھوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔ مسافروں کو چلتی ریل پر سے پھینکا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضا کاٹے گئے ہیں ، نہتے اور بے بس انسانوں کا جانوروں کی طرح شکار کیا گیا ہے۔ ہمسایوں کو لوٹا ہے۔ دوستوں نے دوستوں سے دغا کی ہے۔ پناہ دینے والوں نے خود اپنی ہی دی ہوئی پناہ کو توڑا ہے۔ امن و امان کے محافظوں (پولیس اور فوج اور مجسٹریٹوں ) نے علانیہ فساد میں حصہ لیا ہے، بلکہ خود فساد کیا ہے اور اپنی حمایت و نگرانی میں فساد کرایا ہے۔ غرض ظلم و ستم ، سنگ دلی و بے رحمی اور کمینگی بدمعاشی کی کوئی قسم ایسی نہیں رہ گئی ہے جس کا ارتکاب ان چند مہینوں میں ہمارے ملک کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر نہ کیا ہو۔ اور ابھی دلوں کا غبار پوری طرح نکلا نہیں ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ یہ سب کچھ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اور بدرجہا بدتر صورت میں ابھی ہونے والا ہے۔

اخلاقی تنزل کے اسباب

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ابھی میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس ملک کی آبادی کے ۹۵ فی صد افراد اخلاقی حیثیت سے بیمار ہو چکے ہیں۔ جب افراد کی اتنی بڑی اکثریت بد اخلاق ہو جائے تو قوموں کا اجتماعی رویہ آخر کیسے درست رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان اور سکھ تینوں قوموں میں سچائی، انصاف اور حق پسندی کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ راست باز، دیانت دار اور شریف انسان ان کے اندر نکو بن کر رہ گئے ہیں۔ برائی سے روکنا اور بھلائی کی نصیحت کرنا ان کی سوسائٹی میں ایک ناقابلِ برداشت جرم ہو گیا ہے۔ حق اور انصاف کی بات سننے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قوم کو وہی لوگ پسند ہیں جو اس کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات اور اغراض کی وکالت کریں ، دوسروں کے خلاف اس کے تعصبات کو بھڑکائیں اور اس کے جائز و ناجائز مقاصد کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ اسی بناء پر ان قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بدترین آدمیوں کو چنا، اور انہیں اپنا نمائندہ بنا لیا۔ انہوں نے اپنے اکابر مجرمین کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نکالا اور انہیں اپنا سربراہِ کار بنا لیا۔ ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اخلاق، بے ضمیر اور بے اصول تھے وہ ان کی ترجمانی کے لیے اٹھے اور اخبار نویسی کے میدان میں وہی سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے۔ پھر یہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے کر چلے۔ انہوں نے متضاد قومی خواہشات کو کسی نقطۂ انصاف پر جمع کرنے کے بجائے اتنا بڑھایا کہ وہ آخرکار نقطۂ تصادم پر پہنچ گئیں انہوں نے معاشی و سیاسی اغراض کی کشمکش میں غصے اور نفرت اور عداوت کا زہر ملایا اور اسے روز بروز بڑھاتے چلے گئے۔ انہوں نے برسوں اپنی زیر اثر قوموں کو اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں کے انجکشن دے دے کر یہاں تک بھڑکایا کہ وہ جوش میں آ کر کتوں اور بھیڑیوں کی طرح لڑنے کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے عوام و خواص کے دلوں کو ناپاک جذبات کی سنڈاس اور اندھی دشمنی کا تنور بنا کر رکھ دیا۔ اب جو طوفان آپ کی نگاہوں کے سامنے برپا ہے یہ کوئی وقتی اور ہنگامی چیز نہیں ہے جو اچانک رونما ہو گئی ہو۔ یہ تو قدرتی نتیجہ ہے بگاڑ کے اُن بے شمار اسباب کا جو مدتوں سے ہمارے اندر کام کر رہے تھے۔ اور یہ نتیجہ بس ایک ہی دفعہ ظاہر ہو کر نہیں رہ جائے گا، بلکہ جب تک وہ اسباب اپنا کام کیے جا رہے ہیں یہ روز افزوں ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک بِس بھری فصل ہے جو برسوں کی تخم ریزی و آبیاری کے بعد اب پک کر تیار ہوئی ہے اور اسے آپ کو اور آپ کی نسلوں کو نہ معلوم کب تک کاٹنا پڑے گا۔

حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانونِ قدرت کے مطابق اس ملک کی قسمت کا نیا انتظام درپیش ہے، ہم مالک زمین کے سامنے اپنی اہلیت و قابلیت کا کیا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ موقع تو یہ تھا کہ ہم اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرتے کہ اگر وہ اپنی زمین کا انتظام ہمارے حوالے کرے گا تو ہم اسے خوب بنا سنوار کر گلزار بنا دیں گے۔ ہم اس میں انصاف کریں گے۔ اسے ہمدردی اور تعاون اور رحمت کا گہوارہ بنائیں گے۔ اس کے وسائل کو اپنی اور انسانیت کی فلاح میں استعمال کریں گے۔ اس میں بھلائیوں کو پروان چڑھائیں گے اور برائیوں کو دبائیں گے۔ لیکن ہم اسے بتا رہے ہیں کہ ہم ایسے غارت گر، اس قدر مفسد اور اتنے ظالم ہیں کہ اگر تو نے یہ زمین ہمارے حوالے کی تو ہم اس کی بستیوں کو اجاڑ دیں گے، محلے کے محلے اور گاؤں کے گاؤں پھونک دیں گے، انسانی جان کو مکھی اور مچھر سے زیادہ بے قیمت کر دیں گے ،عورتوں کو بے عزت کریں گے، چھوٹے بچوں کو شکار کریں گے، بوڑھوں اور بیماروں اور زخمیوں پر بھی ترس نہ کھائیں گے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں تک کو اپنے نفس کی گندگی سے لیس دیں گے۔ اور جس زمین کو تو نے انسانوں سے آباد کیا ہے، اس کی رونق ہم لاشوں اور جلی ہوئی عمارتوں سے بڑھائیں گے۔ کیا واقعی آپ کا ضمیر یہ گواہی دیتا ہے کہ اپنی یہ خدمات، یہ اوصاف، یہ کارنامے پیش کر کے آپ خدا کی نگاہ میں اس کی زمین کے انتظام کے لیے اہل ترین بندے قرار پائیں گے؟ کیا یہ کرتوت دیکھ کر وہ آپ سے کہے گا کہ ’’شاباش! اے میرے پرانے مالیوں کی اولاد! تم ہی سب سے بڑھ کر میرے اس باغ کی رکھوالی کے قابل ہو۔ اسی اکھیڑ پچھاڑ، اسی اجاڑ اور بگاڑ، اسی تباہی و بربادی اور گندگی و غلاظت کے لیے تو میں نے یہ باغ لگایا ہے۔ لو اب اسے اپنے ہاتھ میں لے کر خوب خراب کرو‘‘۔

میں یہ باتیں آپ سے اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے اور اپنے مستقل سے مایوس ہو جائیں۔ میں نہ تو خود مایوس ہوں ، نہ کسی کو مایوس کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مدعا آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہندوستان کے لوگ اپنی حماقت اور جہالت سے اس زرین موقع کو کھونے پر تُلے ہوئے ہیں جو کسی ملک کی قسمت بدلتے وقت صدیوں کے بعد خداوند عالم اس کے باشندوں کو دیا کرتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر، اپنے اعلیٰ اوصاف اور اپنی بہتر صلاحیتوں کا ثبوت پیش کرتے تاکہ خدا کی نگاہ میں انتظامِ زمین کے اہل قرار پاتے۔ مگر آج ان کے درمیان مقابلہ اس چیز میں ہو رہا ہے کہ کون زیادہ غارت گر، زیادہ سفاک اور زیادہ ظالم ہے تاکہ سب سے بڑھ کر خدا کی لعنت کا وہی مستحق قرار پائے۔ یہ لچھن آزادی اور ترقی، اور سرفرازی کے نہیں ہیں۔ ان سے تو اندیشہ ہے کہ کہیں پھر ایک مدت دراز کے لیے ہمارے حق میں غلامی اور ذلت کا فیصلہ نہ لکھ دیا جائے۔ لہٰذا جو لوگ عقل و ہوش رکھتے ہیں انہیں حالات کی اصلاح کے لیے کچھ فکر کرنی چاہیے۔

اس مرحلہ پر آپ کے دل میں یہ سوال خود بخود پیدا ہو گا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے کے لیے حاضر ہوں۔

امید کی کرن

اس تاریکی میں ہمارے لیے امید کی ایک ہی شعاع ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فی صد لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بد اخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جس کو اصلاح کی ابتدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصلاح کی راہ میں یہ پہلا قدم ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ کر منظم کیا جائے۔ ہماری بدقسمتی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے۔ لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں۔ ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔ کوئی تعاون اور اشتراکِ عمل نہیں ہے۔ کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے۔ اسی چیز نے ان کو بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گرد و پیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے، مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہہ  بیٹھتا ہے مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی ہے اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کو داد دے کر رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کر گزرتا ہے، مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔ یہ حالت اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک خدا کے عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں ، وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنہ کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔

 

اصلاح کی صُورت

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کُن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہو جائیں۔ اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو، اور اگر وہ مسائل زندگی کا بہتر حل اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لیے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں ، تو یقین جانیے کہ اس منظم نیکی کے مقابلہ میں منظم بدی، اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شرپسند نہیں ہے۔ اسے دھوکا ضرور دیا جا سکتا ہے، اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے، اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا۔ انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دلچسپی رکھتے ہوں اور اس کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں۔ اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنہیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں۔ وہ نہ بدی کے گرویدہ ہوتے ہیں اور نہ نیکی ہی سے انہیں غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علمبرداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انہیں اپنے راستہ کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر خیر کے علمبردار سرے سے میدا ن میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوئی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم بردارانِ  شر ہی کے ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی طرف کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علمبردار بھی میدان میں موجود ہوں۔ اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم بردارانِ شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخرکار اخلاق کے میدان میں ہو گا، اور اس میدان میں نیک انسانوں کو بُرے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ، ایمانداری کے مقابلہ میں بے ایمانی، اور پاک بازی کے مقابلہ میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگائے، آخری جیت بہرحال سچائی ،پاک بازی اور ایمان داری کی ہو گی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور بُرے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخرکار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔

اصلاح کے لیے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بناؤ اور بگاڑ کا ایک واضح تصور موجود ہو۔ ہم اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ بگاڑ کیا ہے تاکہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور بناؤ کیا ہے تاکہ اسے عمل میں لانے پر سارا زور لگا دیا جائے۔ تفصیلات میں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے۔ میں بڑے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے ان دونوں چیزوں کی ایک تصویر پیش کروں گا۔

انسانی زندگی میں بگاڑ جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے ان کو ہم چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں :

۱۔ خدا سے بے خوفی، جو دنیا میں بے انصافی، بے رحمی، خیانت اور ساری اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے۔

۲۔ خدا کی ہدایت سے بے نیازی، جس نے انسان کے لیے کسی معاملہ میں بھی ایسے مستقل اخلاقی اصول باقی نہیں رہنے دیئے ہیں جن کی پابندی کی جائے اسی چیز کی بدولت اشخاص اور گروہوں اور قوموں کا سارا طرزِ عمل مفاد پرستی اور خواہشات کی غلامی پر قائم ہو گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ اپنے مقاصد میں جائز و ناجائز کی تمیز کرتے ہیں اور نہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کے بُرے سے بُرے ذرائع اختیار کرنے میں انہیں ذرا سا تأمّل ہوتا ہے۔

(۳) خود غرضی، جو صرف افراد ہی کو ایک دوسرے کی حق تلفی پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ بڑے پیمانے پر نسل پرستی، قوم پرستی اور طبقاتی امتیازات کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔

(۴) جمود، یا بے راہ روی، جس کی وجہ سے انسان یا تو خدا کی دی ہوئی قوتوں کو استعمال ہی نہیں کرتا یا غلط استعمال کرتا ہے۔ یا تو خدا کے بخشے ہوئے ذرائع سے کام نہیں لیتا، یا غلط کام لیتا ہے۔ پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کاہل اور نکمے لوگوں کو زیادہ دیر تک اپنی زمین پر قابض نہیں رہنے دیتا بلکہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے جو کچھ نہ کچھ بنانے والے ہوں۔ دوسری صورت میں جب غلط کار قوموں کی تخریب، ان کی تعمیر سے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہٹا کر پھینک دی جاتی ہیں اور بسا اوقات خود اپنی ہی تخریبی کارروائیوں کا لقمہ بنا دی جاتی ہیں۔

اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہے۔

(۱) خدا کا خوف، جو آدمی کو برائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لیے ایک ہی قابلِ اعتماد ضمانت ہے۔ راستبازی،انصاف، امانت، حق شناسی، ضبطِ نفس اور وہ تمام دوسری خوبیاں جن پر ایک پُربامن اور ترقی پذیر تمدن و تہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعہ سے بھی کسی نہ کسی حد تک انہیں پیدا کیا جا سکتا ہے، جس طرح مغربی قوموں نے کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے۔ لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشوونما بس ایک حد پر جا کر رک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر برائی سے رکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر تمام انسانی معاملات میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔

(۲) خدائی ہدایت کی پیروی، جو انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویّہ کو اخلاق کے مستقل اصولوں کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔

جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں کا خود واضع اور مصنف رہتا ہے اس کے پاس باتیں بنانے کے لیے کچھ اور اصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لیے کچھ اور۔ کتابوں میں آبِ زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق بالکل دوسری ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں اس کے اصول کچھ اور ہوتے ہیں اور دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت کچھ۔ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دباؤ سے اس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور ’’حق‘‘ کو نہیں بلکہ ’’اپنے مفاد‘‘ کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔ اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویّہ غلط ہو جاتا ہے اور اسی سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس جو چیز انسان کو امن، خوش حالی اور فلاح و سعادت بخش سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی کے مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں۔ اور انہیں اٹل مان کر تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے۔ خواہ وہ معاملات شخصی ہوں یا قومی، خواہ وہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست اور صلح و جنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں ، اور ان پر عمل درآمد کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان ان کے اندر ردّ و بدل کے اختیار سے دست بردار ہو کر انہیں واجب الاتباع تسلیم کر لے۔

(۳) نظامِ انسانیت، جو شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خود غرضیوں کے بجائے تمام انسانوں کے مساوی مرتبے اور مساوی حقوق پر مبنی ہو۔ جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں جس میں اونچ نیچ، چھُوت چھات اور مصنوعی تعصبات نہ ہوں۔ جس میں بعض کے لیے مخصوص حقوق اور بعض کے لیے بناوٹی پابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں۔ جس میں سب کو یکساں پھولنے پھلنے کا موقع ملے۔ جس میں اتنی وسعت ہو کہ روئے زمین کے سارے انسان اس میں برابری کے ساتھ شریک ہو سکتے ہوں۔

(۴) عمل صالح، یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو پوری طرح استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔

حضرات یہ چار چیزیں ہیں جن کے مجموعے کا نام ’’بناؤ‘‘ اور ’’صلاح‘‘ ہے اور ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر نیک انسانوں کی ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بناؤ کی ان صورتوں کو عمل میں لانے کے لیے پیہم جدوجہد کرے۔ یہ جدوجہد اس ملک کے باشندوں کو راہِ راست پر لانے میں کامیاب ہو گئی تو خدا ایسا بے انصاف نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی زمین کا انتظام اس کے اصلی باشندوں سے چھین کر کسی اور کو دے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ ناکام ہوئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا آپ کا اور اس سرزمین کے رہنے والوں کا کیا انجام ہو گا!

 

اسلام اور جاہلیت

(یہ مقالہ ۲۳ فروری ۴۱ء کو مجلس اسلامیات اسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا۔ )

انسان کو دنیا میں  جتنی چیزوں  سے سابقہ پیش آتا ہے ان میں  کسی کے ساتھ بھی وہ کوئی معاملہ اس وقت تک نہیں  کر سکتا جب تک کہ وہ اس چیز کی ماہیت و کیفیت اور اپنے اور اس کے باہمی تعلق کے بارے میں  کوئی رائے قائم نہ کر لے۔ اس سے بحث نہیں  کہ وہ رائے بجائے خود صحیح ہو یا غلط ،مگر بہرحال اسے ان امور کے متعلق کوئی نہ کوئی رائے قائم ضرور کرنی پڑتی ہے اور جب تک وہ کوئی رائے قائم نہیں  کر لیتا یہ فیصلہ نہیں  کر سکتا کہ میں  اس کے ساتھ کیا طرز عمل اور کیا رویہ اختیار کروں۔ یہ آپ کا شب و روز کا تجربہ ہے۔ آپ جب کسی شخص سے ملتے ہیں  تو آپ کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ شخص کون ہے، کس حیثیت ،کس مرتبے، کن صفات کا آدمی ہے اور مجھ سے اس کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ اس کے بغیر آپ یہ طے کر ہی نہیں  سکتے کہ آپ کو اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے۔ اگر علم نہیں  ہوتا تو بہرحال آپ کو قرائن کی بنا پر ایک قیاسی رائے ہی ان امور کے متعلق قائم کرنی پڑتی ہے ،اور جو رویہ بھی آپ اس کے ساتھ اختیار کرتے ہیں  اسی رائے کی بنا پر کرتے ہیں۔ جو چیزیں  آپ کھاتے ہیں  ان کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ اسی وجہ سے ہے کہ آپ کے علم یا آپ کے قیاس میں  وہ چیزیں  غذائی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ جن چیزوں  کو آپ پھینک دیتے ہیں  ،جن کو آپ استعمال کرتے ہیں  ،جن کی آپ حفاظت کرتے ہیں  ،جن کی آپ تعظیم یا تحقیر کرتے ہیں  ،جن سے آپ ڈرتے یا محبت کرتے ہیں ، ان سب کے متعلق آپ کے یہ مختلف طرز عمل بھی اس رائے پر مبنی ہوتے ہیں  جو آپ نے ان چیزوں  کی ذات و صفات اور اپنے ساتھ اُن کے تعلق کے بارے میں  قائم کی ہے۔

پھر جو رائے آپ اشیاء کے متعلق قائم کیا کرتے ہیں  اُس کے صحیح ہونے پر آپ کے رویہ کا صحیح ہونا اور غلط ہونے پر آپ کے رویہ کا غلط ہونا منحصر ہوتا ہے۔ اور خود اس رائے کی غلطی و صحت کا مدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ آیا آپ نے وہ رائے علم کی بنا پر قائم کی ہے یا قیاس پر یا وہم پر یا محض مشاہدہ حسی پر۔ مثلاً ایک بچہ آگ کو دیکھتا ہے اور مجرد مشاہدہ حسی کی بنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ بڑا خوبصورت چمک دار کھلونا ہے۔ چنانچہ اس رائے کے نتیجہ میں  اس سے یہ طرز عمل ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھا دیتا ہے۔ ایک دوسرا شخص اسی آگ کو دیکھ کر وہم سے یاقیاس سے یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اس کے اندر الوہیت ہے ،یا یہ الوہیت کا مظہر ہے۔ چنانچہ اس رائے کی بنا پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ میرا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ میں  اس کے آگے سر نیاز جھکا دوں ۔ ایک تیسرا شخص اسی آگ کو دیکھ کر اس کی ماہیت اور اس کی صفات کی تحقیق کرتا ہے اور علم و تحقیق کی بنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ پکانے اور جلانے اور تپانے والی ایک چیز ہے،اور میرے ساتھ اس کا تعلق وہ ہے جو ایک مخدوم کے ساتھ خادم کا تعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس رائے کی بنا پر آگ کو نہ کھلونا بناتا ہے نہ معبود بلکہ اس سے حسب موقع پکانے اور جلانے اور تپانے کی خدمت لیتا ہے۔ ان مختلف رویوں  میں  سے بچے اور آتش پرست کے رویے جاہلیت کے رویے ہیں ، کیونکہ بچے کی یہ رائے کہ آگ محض کھلونا ہے، تجربہ سے غلط ثابت ہو جاتی ہے اور آتش پرست کی یہ رائے کہ آگ خود الہٰ ہے یا مظہر الوہیت ہے ،کسی ثبوت علمی پر مبنی نہیں  بلکہ محض قیاس و وہم پر مبنی ہے۔ بخلاف اس کے آگ سے خدمت لینے والے کا رویہ علمی رویہ ہے۔ کیونکہ آگ کے متعلق اس کی رائے علم پر مبنی ہے۔

زندگی کے بنیادی مسائل

اس مقدمہ کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا اپنی نظر کو جزئیات سے کلیات پر پھیلائیے۔ انسان اس دنیا میں  اپنے آپ کو موجود پاتا ہے۔ اس کے پاس ایک جسم ہے جس میں  بہت سی قوتیں  بھری ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے زمین وآسمان کی ایک عظیم الشان بساط پھیلی ہوئی ہے جس میں  بے حد و حساب اشیاء ہیں  اور وہ ان اشیاء سے کام لینے کی قدرت اپنے اندر پاتا ہے۔ اس کے گردو پیش بہت سے انسان ،جانور نباتات، جمادات وغیرہ ہیں  اور ان سب سے اس کی زندگی وابستہ ہے۔ اب کیا آپ کے نزدیک یہ بات قابل تصور ہے کہ وہ ان چیزوں  کے ساتھ کوئی رویہ اختیار کر سکتا ہے جب تک کہ پہلے خود اپنے بارے میں ، ان تمام موجودات کے بارے میں  اور ان کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں  کوئی رائے قائم نہ کر لے؟ کیا وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی راستہ اختیار کر سکتا ہے جب تک یہ طے نہ کر لے کہ میں  کون ہوں  ؟ کیا ہوں  ؟ ذمہ دار ہوں  یا غیر ذمہ دار؟ خود مختار ہوں  یا ماتحت؟ ماتحت ہوں  تو کس کا اور جواب دہ ہوں  تو کس کے سامنے ؟ میری اس دنیوی زندگی کا کوئی مآل ہے یا نہیں  ؟اور ہے تو کیا ہے؟ اسی طرح کیا وہ اپنی قوتوں  کے لیے کوئی مصرف تجویز کر سکتا ہے جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ کر لے کہ یہ جسم اور جسمانی قوتیں  اس کی اپنی ملک ہیں  یا کسی کا عطیہ ہیں ؟ ان کا حساب کوئی لینے والا ہے یا نہیں ؟ اور ان کے استعمال کا ضابطہ اسے خود متعین کرنا ہے یا کسی اور کو؟ اسی طرح کیا وہ اپنے گردو پیش کی اشیاء کے متعلق کوئی طرز عمل اختیار کر سکتا ہے، جب تک اس امر کا تعین نہ کر لے کہ ان اشیاء کا مالک وہ خود ہے یا کوئی اور ؟ ان پر اس کے اختیارات محدود ہیں  یا غیر محدود؟ اور محدود ہیں  تو حدود مقرر کرنے والا کون ہے ؟ اسی طرح کیا وہ آپس میں  اپنے ابنائے نوع کے برتاؤ کی کوئی شکل متعین کر سکتا ہے جب تک اس معاملہ میں  کوئی رائے قائم نہ کر لے کہ انسانیت کس چیز سے عبارت ہے؟ انسان اور انسان کے درمیان فرق و امتیاز کی بنیاد کیا ہے؟ اور دوستی و دشمنی، اتفاق و اختلاف ،تعاون اور عدم تعاون کی اساس کن امور پر ہے؟ اسی طرح کیا وہ بحیثیت مجموعی اس دنیا کے ساتھ کوئی رویہ اختیار کر سکتا ہے جب تک اس معاملہ میں  کسی نتیجہ پر نہ پہنچے کہ یہ نظام کائنات کس قسم کا ہے اور اس میں  میری حیثیت کیا ہے؟

جو مقدمہ میں  پہلے بیان کر چکا ہوں  ،اس کی بنا پر بلاتا مل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام امور کے متعلق ایک نہ ایک رائے قائم کیے بغیر کوئی رویہ اختیار کرنا غیر ممکن ہے۔ فی الواقع ہر انسان جو دنیا میں  زندگی بسر کر رہا ہے ان سوالات کے متعلق شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر کوئی نہ کوئی رائے ضرور رکھتا ہے اور رکھنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ وہ اس رائے کے بغیر کوئی قدم نہیں  اٹھا سکتا۔ یہ ضروری نہیں  کہ ہر شخص نے ان سوالات پر فلسفیانہ غور و فکر کیا ہو اور واضح طور پر تنقیحات قائم کر کے ایک ایک سوال کا فیصلہ کیا ہو،نہیں  ،بہت سے آدمیوں  کے ذہن میں  ان سوالات کی سرے سے کوئی متعین صورت ہوتی ہی نہیں  ،نہ وہ کبھی ان پر بالارادہ سوچتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے ہر آدمی اجمالی طور پر ان سوالات کے متعلق منفی یا مثبت پہلو میں  ایک رائے پر لازماً پہنچ جاتا ہے ،اور زندگی میں  اس کا رویہ جو بھی ہوتا ہے لازمی طور پر اس رائے کے مطابق ہوتا ہے۔

یہ بات جس طرح اشخاص کے معاملہ میں  صحیح ہے اسی طرح جماعتوں  کے معاملہ میں  بھی صحیح ہے۔ چونکہ یہ سوالات انسانی زندگی کے بنیادی سوالات ہیں  اس لیے کسی نظام تمدن و تہذیب اور کسی ہئیت اجتماعی کے لیے کوئی لائحہ عمل بن ہی نہیں  سکتا جب تک کہ ان سوالات کا کوئی جواب متعین نہ کر لیا جائے۔ اور ان کا جواب جو بھی متعین کیا جائے گا اسی کے لحاظ سے اخلاق کا ایک نظریہ قائم ہو گا،اسی کی نوعیت کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں  کی تشکیل ہو گی اور فی الجملہ پورا تمدن ویسا ہی رنگ اختیار کرے گا جیسا اس جواب کا مقتضا ہو گا۔ درحقیقت اس معاملہ میں  کوئی تخالف ممکن ہی نہیں  ہے خواہ ایک شخص کا رویہ ہو یا ایک سوسائٹی کا ،بہر حال یہ ٹھیک وہی نوعیت اختیار کرے گا جو ان سوالات کے جوابات کی نوعیت ہو گی۔ حتیٰ کہ اگر آپ چاہیں  تو ایک شخص یا ایک جماعت کے رویہ کا تجزیہ کر کے بآسانی یہ معلوم کر سکتے ہیں  کہ اس رویہ کی تہہ میں  زندگی کے ان بنیادی سوالات کا کون سا جواب کام کر رہا ہے کیونکہ یہ بات قطعی محال ہے کہ کسی شخصی یا اجتماعی رویہ کی نوعیت کچھ ہو اور ان سوالات کے جواب کی نوعیت کچھ اور ہو۔ اختلاف زبانی دعوے اور واقعی رویے کے درمیان تو ضرور ہو سکتا ہے،لیکن ان سوالات کا جو جواب درحقیقت نفس کے اندر متمکن ہے اس کی نوعیت میں  ہر گز کوئی اختلاف نہیں  ہو سکتا۔

اچھا اب ہمیں  ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیے۔ زندگی کے یہ بنیادی مسائل جن کے متعلق ابھی آپ نے سنا کہ ان کا کوئی حل اپنے ذہن میں  متعین کیے بغیر آدمی دنیا میں  ایک قدم نہیں  چل سکتا ،اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ سب امور، غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کوئی جواب افق پر لکھا ہوا نہیں  کہ ہر انسان دنیا میں  آتے ہی اس کو پڑھ لے۔ اور ان کا کوئی جواب ایسا بدیہی نہیں  ہے کہ ہر انسان کو خود بخود معلوم ہو جائے۔ اسی وجہ سے ان کا کوئی ایک حل نہیں  ہے جس پر سارے انسان متفق ہوں۔ بلکہ ان کے بارے میں  ہمیشہ انسانوں  کے درمیان اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ مختلف انسان مختلف طریقوں  سے ان کو حل کرتے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو حل کرنے کی کیا کیا صورتیں  ممکن ہیں  ،کیا کیا صورتیں  دنیا میں  اختیار کی گئی ہیں  اور ان مختلف صورتوں  سے جو حل نکلتے ہیں وہ کس قسم کے ہیں۔ ان کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے حواس پر اعتماد کرے اور حواس سے جیسا کچھ محسوس ہوتا ہے اُسی کی بنا پر ان امور کے متعلق ایک رائے قائم کر لے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مشاہدہ حسی کے ساتھ وہم و قیاس کو ملا کر ایک نتیجہ اخذ کیا جائے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ پیغمبروں  نے حقیقت کا براہ راست علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان مسائل کا جو حل بیان کیا ہے اس کو قبول کر لیا جائے۔

دنیا میں  اب تک ان مسائل کے حل کی یہی تین صورتیں  اختیار کی گئی ہیں ، اور غالباً یہی تین صورتیں  ممکن بھی ہیں ۔ ان میں  سے ہر صورت ایک جداگانہ طریقہ سے ان مسائل کو حل کرتی ہے ،ہر ایک حل سے ایک خاص قسم کا رویہ وجود میں  آتا ہے اور ایک خاص نظام اخلاق اور نظام تمدن بنتا ہے۔ جو اپنی بنیادی خصوصیات میں  دوسرے تمام حلوں  کے پیدا کردہ رویوں  سے مختلف ہوتا ہے۔ اب میں  دکھانا چاہتا ہوں  کہ ان مختلف طریقوں  سے ان مسائل کے کیا حل نکلتے ہیں  ،اور ہر ایک حل کس قسم کا رویہ پیدا کرتا ہے۔

 

خالص جاہلیت

حواس پر اعتماد کر کے جب انسان ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کرتا ہے تو اس طرز فکر کی عین فطرت کے تقاضے سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامہ وجود و ظہور ہے جس کے پیچھے کوئی مصلحت اور مقصد نہیں۔ یونہی بن گیا ہے ،یونہی چل رہا ہے ،یونہی بے نتیجہ ختم ہو جائے گا۔ اس کا کوئی مالک نظر نہیں  آتا ،لہٰذا وہ یا تو ہے ہی نہیں  یا اگر ہے تو انسان کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ انسان ایک قسم کا جانور ہے جو شاید اتفاقاً پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ خبر نہیں  کہ اس کو کسی نے پیدا کیا یا یہ خود پیدا ہو گیا۔ بہرحال یہ سوال خارج از بحث ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں  کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے، کچھ خواہشیں  رکھتا ہے جنہیں  پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے،کچھ قویٰ اور کچھ آلات رکھتا ہے جو ان خواہشوں  کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں  ،اور اس کے گرد و پیش زمین کے دامن پر بے حد و حساب سامان پھیلا ہوا ہے جس پر یہ اپنے قویٰ اور آلات کو استعمال کر کے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہے۔ اور اس کی قوتوں  کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں  ہے کہ یہ اپنی خواہشات و ضروریات زیادہ سے زیادہ کمال کے ساتھ پورا کرے۔ اور دنیا کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں  ہے کہ یہ ایک خوان یغما ہے جو اس لیے پھیلا ہوا ہے کہ انسان اس پر ہاتھ مارے۔ کوئی صاحب امر نہیں  جس کے سامنے انسان جواب دہ ہو، اور نہ کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود ہے جہاں  سے انسان کو اپنی زندگی کا قانون مل سکتا ہو۔ لہٰذا انسان ایک خود مختار اور غیر ذمہ دار ہستی ہے۔ اپنے لیے ضابطہ و قانون بنانا اور اپنی قوتوں  کا مصرف تجویز کرنا اور موجودات کے ساتھ اپنے طرز عمل کا تعین کرنا اس کا اپنا کام ہے اس کے لیے اگر کوئی ہدایت ہے تو جانوروں  کی زندگی میں ، پتھروں  کی سر گذشت میں  ،یا خود اپنی تاریخ کے تجربات میں  ہے اور یہ اگر کسی کے سامنے جواب دہ ہے تو آپ اپنے سامنے یا اُس اقتدار کے سامنے ہے جو خود انسانوں  ہی میں  سے پیدا ہو کر افراد پر مستولی ہو جائے۔ زندگی جو کچھ ہے یہی دنیوی زندگی ہے اور اعمال کے سارے نتائج اسی زندگی کی حد تک ہیں ۔ لہذا صحیح اور غلط ،مفید اور مضر، قابل اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف اُنہی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو اس دنیا میں  ظاہر ہوتے ہیں۔

یہ ایک پورا نظریہ حیات ہے جس میں  انسانی زندگی کے تمام بنیادی مسائل کا جواب حسی مشاہدہ پر دیا گیا ہے۔ اور اس جواب کا ہر جز و دوسرے جز کے ساتھ کم از کم ایک منطقی ربط ،ایک مزاجی موافقت ضرور رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا میں  ایک ہموار و یکساں  رویہ اختیار کر سکتا ہے ،قطع نظر اس سے کہ یہ جواب اور اس سے پیدا ہونے والا رویہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ اب اُس رویہ پر ایک نگاہ ڈالیے جو اس جواب کی بنا پر آدمی دنیا میں  اختیار کرتا ہے۔

انفرادی زندگی میں  اس نقطہ نگاہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اول سے لے کر آخر تک خود مختارانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کر لے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جسم اور اپنی جسمانی قوتوں  کا مالک سمجھے گا،اس لیے اپنے حسب منشاء جس طرح چاہے گا انہیں  استعمال کرے گا۔ دنیا کی جو چیزیں  اس کے قبضہ قدرت میں  آئیں  گی اور جن انسانوں  پر اس کو اقتدار حاصل ہو گا ان سب کے ساتھ وہ اس طرح برتاؤ کرے گا جیسے کہ وہ ان کا مالک ہے۔ اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی چیز صرف قوانین قدرت کی حدیں  اور اجتماعی زندگی کی ناگزیر بندشیں  ہوں  گی۔ خود اس کے اپنے نفس میں  کوئی ایسا اخلاقی احساس—ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پرس کا خوف —نہ ہو گا جو اسے شتر بے مہار ہونے سے روکتا ہو۔ جہاں  خارجی رکاوٹیں  نہ ہوں  یا جہاں  وہ ان رکاوٹوں  کے علی الرغم کام کرنے پر قادر ہو ،وہاں  تو اس کے عقیدے کا فطری اقتضاء یہی ہے کہ وہ ظالم ،بد دیانت ،شریر اور مفسد ہو۔ وہ فطرتاً خود غرض ،مادہ پرست اور ابن الوقت ہو گا۔ اُس کی زندگی کا کوئی مقصد اپنی نفسانی خواہشات اور حیوانی ضروریات کی خدمت کے سوا نہ ہو گا اور اس کی نگاہ میں  قدر و قیمت صرف ان چیزوں  کی ہو گی جو اُس کے اس مقصد زندگی کے لیے کوئی قیمت رکھتی ہوں۔ افراد میں  یہ سیرت و کردار پیدا ہونا اس عقیدے کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ بیشک یہ ممکن ہے کہ مصلحت اور دور اندیشی کی بنا پر ایسا شخص ہمدرد ہو ،ایثار پیشہ ہو ،اپنی قوم کی فلاح و ترقی کے لیے جان توڑ کوشش کرتا ہو ،اور فی الجملہ اپنی زندگی میں  ایک طرح کے ذمہ دارانہ اخلاق کا اظہار کرے۔ لیکن جب آپ اس کے اس رویہ کا تجزیہ کریں  گے تو معلوم ہو گا کہ دراصل یہ اس کی خود غرضی و نفسانیت ہی کی توسیع ہے۔ وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کی بھلائی میں  اپنی بھلائی دیکھتا ہے اس لیے اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص زیادہ سے زیادہ بس ایک نیشنلسٹ ہی ہو سکتا ہے۔

پھر جو سوسائٹی اس ذہنیت کے افراد سے بنے گی اُس کی امتیازی خصوصیات یہ ہوں  گی:۔

سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر قائم ہو گی ،خواہ وہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقہ کی حاکمیت ہو ،یا جمہور کی حاکمیت۔ زیادہ سے زیادہ بلند اجتماعی تصور جو قائم کیا جا سکے وہ بس دولت مشترکہ(Common Wealth) کا تصور ہو گا -اس مملکت میں  قانون ساز انسان ہوں  گے ،تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں  گے ،اور منفعت پرستی و مصلحت پرستی ہی کے لحاظ سے پالیسیاں  بھی بنائی اور بدلی جائیں  گی۔ مملکت کے حدود میں  وہ لوگ زور کر کے ابھر آئیں  گے جو سب سے زیادہ طاقت ور اور سب سے زیادہ چالاک ،مکار ،جھوٹے،دغا باز، سنگ دل اور خبیث النفس ہوں  گے؟ سوسائٹی کی رہنمائی اور مملکت کی زمام کار انہی کے ہاتھ میں  ہو گی اور ان کی کتابِ آئین میں  زور کا نام حق اور بے زوری کا نام باطل ہو گا۔

تمدن و معاشرت کا سارا نظام نفس پرستی پر قائم ہو گا۔ لذات نفس کی طلب ہر اخلاقی قید سے آزاد ہوتی چلی جائے گی اور تمام اخلاقی معیار اس طرح قائم کیے جائیں  گے کہ ان کی وجہ سے لذتوں  کے حصول میں  کم سے کم رکاوٹ ہو۔

اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں  گے اور ان کے اندر عریانی و شہوانیت کے عناصر بڑھتے چلے جائیں  گے۔

معاشی زندگی میں  کبھی جاگیرداری سسٹم برسر عروج آئے گا ،کبھی سرمایہ داری نظام اس کی جگہ لے گا ،اور کبھی مزدور شورش کر کے اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کر لیں  گے۔ عدل سے بہرحال معیشت کا رشتہ کبھی قائم نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ دنیا اور اس کی دولت کے بارے میں  اس سوسائٹی کے ہر فرد کا بنیادی رویہ اس تصور پر مبنی ہو گا کہ یہ ایک خوانِ یغما ہے جس پر حسب موقع ہاتھ مارنے کے لیے وہ آزاد ہے۔

پھر اس سوسائٹی میں  افراد کو تیار کرنے کے لیے تعلیم و تربیت کا جو نظام ہو گا اس کا مزاج بھی اسی تصور حیات اور اسی رویہ کے مناسب حال ہو گا اس میں ہر نئی آنے والی نسل کو دنیا اور انسان اور دنیا میں  انسان کی حیثیت کے متعلق وہی تصور دیا جائے گا جس کی تشریح میں  نے اوپر کی ہے۔ تمام معلومات خواہ وہ کسی شعبہ علم سے متعلق ہوں  ، اُن کو ایسی ہی ترتیب کے ساتھ دی جائیں  گی کہ آپ سے آپ اُن کے ذہن میں زندگی کا یہ تصور پیدا ہو جائے اور پھر ساری تربیت اس ڈھنگ کی ہو گی کہ وہ زندگی میں  یہی رویہ اختیار کرنے اور اسی طرز کی سوسائٹی میں  کھپ جانے کے لیے تیار ہوں۔ اس تعلیم و تربیت کی خصوصیات کے متعلق مجھے آپ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں  ، کیونکہ آپ لوگوں  کو اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ جن درس گاہوں  میں  آپ تعلیم پا رہے ہیں  وہ سب اسی نظریہ پر قائم ہوئی ہیں ،اگرچہ ان کے نام اسلامیہ کالج اور مسلم یونیورسٹی وغیرہ ہیں۔

یہ رویہ جس کی تشریح میں  نے ابھی آپ کے سامنے کی ہے خالص جاہلیت کا رویہ ہے۔ اس کی نوعیت وہی ہے جو اس بچہ کے رویے کی نوعیت ہے جو محض حسی مشاہدے پر اعتماد کر کے آگ کو ایک خوبصورت کھلونا سمجھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں  اس مشاہدے کی غلطی فوراً تجربہ سے ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ جس آگ کو کھلونا سمجھ کر وہ دست اندازی کا رویہ اختیار کرتا ہے وہ گرم آگ ہوتی ہے۔ ہاتھ لاتے ہی فوراً بتا دیتی ہے کہ میں  کھلونا نہیں  ہوں۔ بخلاف اس کے یہاں  مشاہدے کی غلطی بڑی دیر میں  کھلتی ہے ،بلکہ بہتوں  پر کھلتی ہی نہیں  کیونکہ جس آگ پر یہ ہاتھ ڈالتے ہیں  اس کی آنچ دھیمی ہے ،فوراً چرکا نہیں  دیتی بلکہ صدیوں  تک تپاتی رہتی ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص تجربات سے سبق لینے کے لیے تیار ہو تو شب و روز کی زندگی میں  اس نظریہ کی بدولت افراد کی بے ایمانیوں ، حکام کے مظالم ،منصفوں  کی بے انصافیوں  ،مال داروں  کی خود غرضیوں  ،اور عام لوگوں  کی بد اخلاقیوں  کا جو تلخ تجربہ اس کو ہوتا ہے ،اور بڑے پیمانے پر اسی نظریہ سے قوم پرستی ،امپیریلزم ،جنگ و فساد ،ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکلتے ہیں  ،ان کے چرکوں  سے وہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ رویہ جاہلیت کا رویہ ہے، علمی رویہ نہیں  ہے۔ کیونکہ انسان نے اپنے متعلق اور نظام کائنات کے متعلق جو رائے قائم کر کے یہ رویہ اختیار کیا ہے وہ امر واقعہ کے مطابق نہیں  ہے ورنہ اس سے یہ برے نتائج ظاہر نہ ہوتے۔

اب ہمیں  دوسرے طریقہ کا جائزہ لینا چاہیے۔ زندگی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مشاہدے کے ساتھ قیاس و وہم سے کام لے کر ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کی جائے۔ اس طریقے سے تین مختلف رائیں  قائم کی گئی ہیں  اور ہر ایک رائے سے ایک خاص قسم کا رویہ پیدا ہوا ہے۔

۱۔ شرک

ایک رائے یہ ہے کہ کائنات کا یہ نظام بے خداوند تو نہیں  ہے مگر اس کا ایک خداوند (الٰہ یا رب ) نہیں  ہے بلکہ بہت سے خداوند (اٰلہِ) اور ارباب ہیں  ،کائنات کی مختلف قوتوں  کا سر رشتہ مختلف خداؤں  کے ہاتھ میں  ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت، کامیابی و ناکامی ،نفع و نقصان بہت سی ہستیوں  کی مہربانی پر منحصر ہے۔ یہ رائے جن لوگوں  نے اختیار کی ہے انہوں  پھر اپنے وہم و قیاس سے کام لے کر یہ تعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدائی کی طاقتیں  کہاں  کہاں  اور کس کس کے ہاتھ میں  ہیں  ،اور جن جن چیزوں  پر بھی ان کی نگاہ جا کر ٹھہری ہے اُنہی کو خدا مان لیا ہے۔

اس رائے کی بنا پر جو طرز عمل انسان اختیار کرتا ہے اس کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں :۔

اولاً: اس سے آدمی کی پوری زندگی اوہام کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ کسی علمی ثبوت کے بغیر مجرد اپنے وہم و خیال سے بہت سی چیزوں  کے متعلق یہ رائے قائم کرتا ہے کہ وہ فوق الفطری طریقوں  سے اس کی قسمت پر اچھا یا برا اثر ڈالتی ہیں۔ اس لیے وہ اچھے اثرات کی موہوم امید اور برے اثرات کے موہوم خوف میں  مبتلا ہو کر اپنی بہت سی قوتیں  لاحاصل طریقہ سے ضائع کر دیتا ہے۔ کہیں  کسی قبر سے امید لگاتا ہے کہ یہ میرا کام کر دے گی۔ کہیں  کسی بت پر بھروسہ کرتا ہے کہ وہ میری قسمت بنا دے گا۔ کہیں  کسی اور خیالی کارساز کو خوش کرنے کے لیے دوڑتا پھرتا ہے۔ کہیں  کسی برے شگون سے دل شکستہ ہو جاتا ہے۔ کہیں  کسی اچھے شگون سے توقعات کے خیالی قلعے بنا لیتا ہے۔ یہ ساری چیزیں  اس کے خیالات اور اس کی کوششوں  کو فطری تدابیر سے ہٹا کر ایک بالکل غیر فطری راستے پر ڈال دیتی ہیں۔

ثانیاً: اس رائے کی وجہ سے پوجا پاٹ ،نذر و نیاز ،اور دوسری رسموں  کا ایک لمبا چوڑا دستور العمل بنتا ہے جس میں  الجھ کر آدمی کی سعی و عمل کا ایک بڑا حصہ بے نتیجہ مشغولیتوں  میں  صرف ہو جاتا ہے۔

ثالثاً: جو لوگ اس مشرکانہ وہم پرستی میں  مبتلا ہوتے ہیں  ان کو بیوقوف بنا کر اپنے جال میں  پھانس لینے کا چالاک آدمیوں  کو خوب موقع مل جاتا ہے۔ کوئی بادشاہ بن بیٹھتا ہے اور سورج ،چاند اور دوسرے دیوتاؤں  سے اپنا نسب ملا کر لوگوں  کو یقین دلاتا ہے کہ ہم بھی خداؤں  میں  سے ہیں  اور تم ہمارے بندے ہو۔ کوئی پروہت یا مجاور بن بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارا نفع و نقصان جن سے وابستہ ہے ان سے ہمارا تعلق ہے اور تم ہمارے ہی واسطے سے اُن تک پہنچ سکتے ہو۔ کوئی پنڈت اور پیر بن جاتا ہے اور تعویذ گنڈوں  اور منتروں  اور عملیات کا ڈھونگ رچا کر لوگوں  کو یقین دلاتا ہے کہ ہماری یہ چیزیں  فوق الفطری طریقے سے تمہاری حاجتیں  پوری کریں  گی۔ پھر ان سب چالاک لوگوں  کی نسلیں  مستقل خاندانوں  اور طبقوں  کی صورت اختیار کر لیتی ہیں  جن کے حقوق ، امتیازات اور اثرات امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور گہری بنیادوں  پر جمتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح اس عقیدہ کی بدولت عام انسانوں  کی گردنوں  پر شاہی خاندانوں  ،مذہبی عہدہ داروں  اور روحانی پیشواؤں  کی خدائی کا جوا مسلط ہوتا ہے اور یہ بناوٹی خدا اُن کو اس طرح اپنا خادم بناتے ہیں  کہ گویا وہ اُن کے لیے دودھ دینے اور سواری اور بار برداری کی خدمت انجام دینے والے جانور ہیں۔

رابعاً: یہ نظریہ نہ تو علوم و فنون ،فلسفہ و ادب ،اور تمدن و سیاست کے لیے کوئی مستقل بنیاد فراہم کرتا ہے اور نہ ان خیالی خداؤں  سے انسانوں  کو کسی قسم کی ہدایت ہی ملتی ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں۔ ان خداؤں  سے تو انسان کا تعلق صرف اس حد تک محدود رہتا ہے کہ یہ اُن کی مہربانی و اعانت حاصل کرنے کے لیے بس عبودیت کے چند مراسم ادا کر دے۔ باقی رہے زندگی کے معاملات تو ان کے متعلق قوانین اور ضوابط بنانا اور عمل کے طریقے معین کرنا انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ اس طرح مشرک سوسائٹی عملاً انہی سب راہوں  پر چلتی ہے جن کا ذکر خالص جاہلیت کے سلسلہ میں  ابھی میں  آپ سے کر چکا ہوں۔ وہی اخلاق ،وہی اعمال ،وہی طرز تمدن ،وہی سیاست ،وہی نظام معیشت ،اور وہی علم و ادب۔ ان تمام حیثیتوں  سے شرک کے رویے اور خالص جاہلیت کے رویے میں  کوئی اصولی فرق نہیں  ہوتا۔

۲۔ رہبانیت

دوسری رائے جو مشاہدے کے ساتھ قیاس و وہم کو ملا کر قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا اور یہ جسمانی وجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب ہے۔ انسان کی روح ایک سزا یافتہ قیدی کی حیثیت سے اس قفس میں  بند کی گئی ہے۔ لذّات و خواہشات اور تمام وہ ضروریات جو اس تعلق کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں  اصل میں  یہ اس قید خانہ کے طوق و سلاسل ہیں۔ انسان جتنا اس دنیا اور اس کی چیزوں  سے تعلق رکھے گا اتنا ہی ان زنجیروں  میں  پھنستا چلا جائے گا اور مزید عذاب کا مستحق ہو گا۔ نجات کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں  کہ زندگی کے سارے بکھیڑوں  سے قطع تعلق کیا جائے، خواہشات کو مٹایا جائے ،لذات سے کنارہ کشی کی جائے ،جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبوں  کو پورا کرنے سے انکار کیا جائے۔ ان تمام محبتوں  کو دل سے نکال دیا جائے جو گوشت و خون کے تعلق سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور اپنے اس دشمن۔ (یعنی نفس و جسم) کو مجاہدوں  اور ریاضتوں  سے اتنی تکلیفیں  دی جائیں  کہ روح پر اس کا تسلط قائم نہ رہ سکے۔ اس طرح روح ہلکی اور پاک صاف ہو جائے گی اور نجات کے بلند مقام پر اڑنے کی طاقت حاصل کر لے گی۔

اس رائے سے جو رویہ پیدا ہوتا ہے اس کی خصوصیات یہ ہیں :

اولاً: اس سے انسان کے تمام رجحانات ،اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔ وہ دنیا اور اس کی زندگی سے منہ موڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے ،ذمہ داریوں  سے بھاگتا ہے ،اس کی ساری زندگی عدم تعاون اور ترک موالات کی زندگی بن جاتی ہے اور اس کے اخلاق زیادہ تر سلبی (Negative) نوعیت کے ہو جاتے ہیں۔

ثانیاً: اس رائے کی بدولت نیک لوگ دنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں  گوشہ ہائے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیں  اور دُنیا کے سارے معاملات شریر لوگوں  کے ہاتھوں  میں  آ جاتے ہیں۔

ثالثاً: تمدن میں  اس رائے کا اثر جس حد تک پہنچتا ہے۔ اس سے لوگوں  کے اندر سلبی اخلاقیات ،غیر تمدنیUn-Social) ) اور انفرادیت پسندانہ (Individualistic) رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی عملی قوتیں  سرد ہو جاتی ہیں۔ وہ ظالموں  کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں  اور ہر جابر حکومت ان کو آسانی سے قابو میں  لا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ نظریہ عوام کو ظالموں  کے لیے ذلول (Tame)بنانے میں  جادو کی تاثیر رکھتا ہے۔

رابعاً: انسانی فطرت سے اس راہبانہ نظریہ کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اکثر یہ اس سے شکست کھا جاتا ہے۔ پھر جب یہ شکست کھاتا ہے تو اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے اسے حیلوں  کے دامن میں  پناہ لینی پڑتی ہے۔ اسی وجہ سے کہیں  کفارہ کا عقیدہ ایجاد ہوتا ہے ،کہیں  عشق مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور کہیں  ترک دنیا کے پردے میں  وہ دنیا پرستی کی جاتی ہے جس کے آگے دنیا پرست بھی شرما جائیں۔

۳۔ ہمہ اوست

تیسری رائے جو مشاہدے اور قیاس کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے،یہ ہے کہ انسان اور کائنات کی تمام چیزیں  بجائے خود غیر حقیقی ہیں۔ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں  ہے۔ دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں  کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کر رہا ہے۔ تفصیلات میں  اس نظریہ کی بے شمار صورتیں  ہیں  ،مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا ظہور خارجی ہیں  اور دراصل موجود وہی ہے، باقی کچھ نہیں۔

اس نظریہ کی بنا پر انسان جو رویہ اختیار کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے خود اپنے ہونے ہی میں  شک ہو جاتا ہے کجا کہ وہ کوئی کام کرے۔ وہ اپنے آپ کو ایک کٹھ پتلی سمجھتا ہے، جسے کوئی اور نچا رہا ہے یا جس کے اندر کوئی اور ناچ رہا ہے۔ وہ اپنے تخیلات کے نشے میں  گم ہو جاتا ہے۔ اُس کے لیے نہ کوئی مقصد زندگی ہوتا ہے اور نہ کوئی راہ عمل۔ وہ خیال کرتا ہے کہ میں  خود تو کچھ ہوں  ہی نہیں  ،نہ میرے کرنے کا کوئی کام ہے، نہ میرے کیے سے کچھ ہو سکتا ہے۔ اصل میں  تو وہ وجود کلی جو مجھ میں  اور تمام کائنات میں  سرایت کیے ہوئے ہے اور جو ازل سے ابد تک چلا جا رہا ہے ،سارے کام اسی کے لیے ہیں  اور وہی سب کچھ کرتا ہے۔ وہ اگر مکمل ہے تو میں  بھی مکمل ہوں  ،پھر کوشش کس چیز کے لیے؟ اور وہ اگر اپنی تکمیل کے لیے کوشاں  ہے تو جس عالمگیر حرکت کے ساتھ وہ کمال کی طرف جا رہا ہے اسی کی لپیٹ میں  ایک جز کی حیثیت سے میں  بھی آپ سے آپ چلا جاؤں  گا۔ میں  ایک جز ہوں  ،مجھے کیا خبر کہ کُل کدھر جا رہا ہے اور کدھر جانا چاہتا ہے۔ اس طرز خیال کے عملی نتائج قریب قریب وہی ہیں  جو ابھی میں  نے راہبانہ نظریہ کے سلسلے میں  بیان کیے ہیں۔ بلکہ بعض حالات میں  اس رائے کو اختیار کرنے والے کا طرز عمل ان لوگوں  کے رویے سے ملتا جلتا ہے جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں  اپنی باگیں  دے دیتا ہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں  اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلا جاتا ہے کہ جانے والا وجود کلی ہے نہ کہ میں۔

پہلے نظریے کی طرح یہ تینوں  نظریئے بھی جاہلیت کے نظریئے ہیں  اور اس بنا پر جو رویے ان سے پیدا ہوتے ہیں  وہ بھی جاہلیت ہی کے رویے ہیں۔ اس لیے کہ اول تو ان میں  سے کوئی نظریہ بھی کسی علمی ثبوت پر مبنی نہیں  ہے بلکہ محض خیالی اور قیاسی بنیادوں  پر مختلف رائیں  قائم کر لی گئی ہیں۔ دوسرے ان کا واقعہ کے خلاف ہونا تجربہ سے ثابت ہوتا ہے۔ اگر ان میں  کوئی رائے بھی امر واقعی کے مطابق ہوتی تو اس کے مطابق عمل کرنے سے برے نتائج تجربے میں  نہ آتے۔ جب آپ دیکھتے ہیں  کہ ایک چیز کو جہاں  کہیں  انسان نے کھایا، اس کے پیٹ میں  درد ضرور ہو اتو اس تجربہ سے آپ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں  کہ فی الواقع معدہ کی ساخت اور اس کی طبیعت سے یہ چیز مطابقت نہیں  رکھتی۔ بالکل اسی طرح جب یہ حقیقت ہے کہ شرک ،رہبانیت ،اور وجودیت کے نظریے اختیار کرنے سے انسان کو بحیثیت مجموعی نقصان ہی پہنچا تو یہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ ان میں  سے کوئی نظریہ بھی واقعہ اور حقیقت کے مطابق نہیں  ہے۔

اسلام

اب ہمیں  تیسری صورت کو لینا چاہیے جو زندگی کے ان بنیادی مسائل کے متعلق رائے قائم کرنے کی آخری صورت ہے ،اور وہ یہ ہے کہ پیغمبروں  نے ان مسائل کا جو حل پیش کیا ہے اُسے قبول کیا جائے۔

اس طریقہ کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی اجنبی مقام پر آپ ہوں  اور آپ کو خود اس مقام کے متعلق کوئی واقفیت نہ ہو تو آپ کسی دوسرے شخص سے دریافت کریں  اور اس کی رہنمائی میں  وہاں  کی سیر کریں۔ ایسی صورت حال جب پیش آتی ہے تو آپ پہلے اس شخص کو تلاش کرتے ہیں  جو خود واقف کار ہونے کا دعویٰ کرے۔ پھر آپ قرائن سے اس امر کا اطمینان کرنے کی کوشش کرتے ہیں  کہ وہ شخص قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ پھر آپ اس کی رہنمائی میں  چل کر دیکھتے ہیں  اور جب تجربہ سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق جو عمل آپ نے کیا اس سے کوئی برا نتیجہ نہیں  نکلا تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہو جاتا ہے کہ واقعی وہ شخص واقف کار تھا اور اس جگہ کے متعلق جو معلومات اس نے دی تھیں  وہ صحیح تھیں۔ یہ ایک علمی طریقہ ہے ، اور اگر کوئی دوسرا طریق علمی ممکن نہ ہو تو پھر رائے قائم کرنے کے لیے یہی ایک صحیح طریقہ ہو سکتا ہے۔

اب دیکھیے ،دنیا آپ کے لیے ایک اجنبی جگہ ہے۔ آپ کو نہیں  معلوم کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا انتظام کس قسم کا ہے ؟کس آئین پر یہ کارخانہ چل رہا ہے؟ اس کے اندر آپ کی کیا حیثیت ہے ؟ اور یہاں  آپ کے لیے کیا رویہ مناسب ہے؟ آپ نے پہلے یہ رائے قائم کی کہ جیسا بظاہر نظر آتا ہے اصل حقیقت بھی وہی ہے۔ آپ نے اس رائے پر عمل کیا مگر نتیجہ غلط نکلا۔ پھر آپ نے قیاس اور گمان کی بناء پر مختلف رائیں  قائم کیں  اور ہر ایک پر عمل کر کے دیکھا۔ مگر ہر صورت میں  نتیجہ غلط ہی رہا۔ اس کے بعد آخری صورت یہی ہے کہ آپ پیغمبروں  کی طرف رجوع کریں۔ یہ لوگ واقف کار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے حالات کی جتنی چھان بین کی جاتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت سچے ،نہایت امین ،نہایت نیک، نہایت بے غرض اور نہایت صحیح الدماغ لوگ ہیں۔ لہذا بادی النظر میں  ان پر اعتماد کرنے کے لیے کافی وجہ موجود ہے۔ اب صرف یہ دیکھنا باقی رہ جاتا ہے کہ دنیا کے متعلق اور دنیا میں  آپ کی حیثیت کے متعلق جو معلومات وہ دیتے ہیں  وہ کہاں  تک لگتی ہوئی ہیں ، ان کے خلاف کوئی عملی ثبوت تو نہیں  ہے ،اور ان کے مطابق جو رویہ دنیا میں  اختیار کیا گیا وہ تجربہ سے کیسا ثابت ہوا۔ اگر تحقیق سے ان تینوں  باتوں  کا جواب بھی اطمینان بخش نکلے تو ان کی رہنمائی پر ایمان لے آنا چاہیے اور زندگی میں  وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو اس نظریہ کے مطابق ہو۔

جیسا کہ میں  نے عرض کیا پچھلے جاہلیت کے طریقوں  کے مقابلہ میں  یہ طریقہ علمی طریقہ ہے اور اگر اس علم کے آگے آدمی سر تسلیم خم کر دے ،اگر خود سری اور خود رائی کو چھوڑ کر اس علم کا اتباع کرے اور اپنے رویہ کو انہی حدود کا پابند کر دے جو اس علم نے قائم کی ہیں  ،تو اسی طریقہ کا نام ’’اسلامی طریقہ‘‘ ہے۔

انبیاء کا نظریہ کائنات و انسان

پیغمبر کہتے ہیں :

یہ سارا عالم ہست و بود جو انسان کے گرد و پیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جزء انسان بھی ہے کوئی اتفاقی ہنگامہ نہیں  ہے بلکہ ایک منظم ،با ضابطہ سلطنت ہے۔ اللہ نے اس کو بنایا ہے ،وہی اس کا مالک ہے اور وہی اس کا اکیلا حاکم ہے۔ یہ ایک کُلّی نظام (Totalitarian System) ہے۔ جس میں  تمام اختیارات مرکزی اقتدار کے ہاتھ میں  ہیں۔ اُس مقتدر اعلیٰ کے سوا یہاں  کسی کا حکم نہیں  چلتا۔ تمام قوتیں  جو نظام عالم میں  کام کر رہی ہیں ،اسی کے زیر حکم ہیں  اور کسی کی مجال نہیں  ہے کہ اس کے حکم سے سرتابی کر سکے ،یا اس کے اذن کے بغیر اپنے اختیار سے کوئی حرکت کرے۔ اس ہمہ گیر سسٹم کے اندر کسی کی خود مختاری اور غیر ذمہ داری کے لیے کوئی جگہ نہیں  ،نہ فطرۃً ہو سکتی ہے۔

انسان یہاں  پیدائشی رعیت (Born Subject ) ہے۔ رعیت ہونا اس کی مرضی پر موقوف نہیں  ہے۔ بلکہ یہ رعیت ہی پیدا ہوا ہے ،اور رعیت کے سوا کچھ اور ہونا اس کے امکان میں  نہیں  ہے۔ لہذا یہ خود اپنے لیے طریق زندگی وضع کرنے اور اپنی ڈیوٹی آپ تجویز کر لینے کا حق نہیں  رکھتا۔

یہ کسی چیز کا مالک نہیں  ہے کہ اپنی ملک میں  تصرف کرنے کا ضابطہ خود بنائے اس کا جسم اور اس کی ساری قوتیں  اللہ کی ملک اور اس کا عطیہ ہیں  لہٰذا یہ ان کو خود اپنے منشاء کے مطابق استعمال کرنے کا حق دار نہیں  ہے بلکہ جس نے یہ چیزیں  اس کو عطا کی ہیں  اسی کی مرضی کے مطابق اسے ان کو استعمال کرنا چاہیے۔

اسی طرح جو اشیاء اس کے گردو پیش دنیا میں  پائی جاتی ہیں۔ زمین ،جانور، پانی، نباتات ،معدنیات وغیرہ ——- یہ سب اللہ کی ملک ہیں۔ انسان ان کا مالک نہیں  ہے ،لہٰذا انسان کو ان پر بھی اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں  بلکہ اسے ان کے ساتھ اس قانون کے مطابق برتاؤ کرنا چاہیے جو اصل مالک نے مقرر کیا ہے۔

اسی طرح وہ تمام انسان بھی جو زمین پر بستے ہیں  ،اور جن کی زندگی ایک دوسرے سے وابستہ ہے،اللہ کی رعیت ہیں۔ لہٰذا ان کو اپنے باہمی تعلقات کے بارے میں  خود اصول اور ضابطے مقرر کر لینے کا حق نہیں  ہے۔ ان کے جملہ تعلقات خدا کے بنائے ہوئے قانون پر مبنی ہونے چاہئیں۔

رہی یہ بات کہ وہ خدا کا قانون کیا ہے؟ تو پیغمبر کہتے ہیں  کہ جس ذریعہ علم کی بنا پر ہم تمہیں  دنیا کی اور خود تمہاری یہ حقیقت بتا رہے ہیں ،اسی ذریعہ علم سے ہم کو خدا کا قانون بھی معلوم ہوا ہے۔ خدا نے خود ہم کو اس بات پر مامور کیا ہے کہ یہ علم تم تک پہنچا دیں۔ لہٰذا تم ہم پر اعتماد کرو۔ ہمیں  اپنے بادشاہ کا نمائندہ تسلیم کرو اور ہم سے اس کا مستند قانون لو۔

پھر پیغمبر ہم سے کہتے ہیں  کہ یہ جو تم بظاہر دیکھتے ہو کہ سلطنت عالم کا سارا کاروبار ایک نظم کے ساتھ چل رہا ہے مگر نہ خود سلطان نظر آتا ہے نہ اس کے کار پرداز کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ جو تم ایک طرح کی خود مختاری اپنے اندر محسوس کرتے ہو کہ جس طرح چاہو ،کام کرو ،مالکانہ روش بھی اختیار کر سکتے ہو ،ہر صورت میں  تم کو رزق ملتا ہے، وسائل کار بہم پہنچتے ہیں  اور بغاوت کی سزا فورا نہیں  دی جاتی ،یہ سب دراصل تمہاری آزمائش کے لیے ہے۔ چونکہ تم کو عقل ،قوتِ استنباط اور قوتِ انتخاب دی گئی ہے ،اس لیے مالک نے اپنے آپ کو اور اپنے نظام سلطنت کو تمہاری نظروں  سے اوجھل کر دیا ہے۔ وہ تمہیں  آزمانا چاہتا ہے کہ تم اپنی قوتوں  سے کس طرح کام لیتے ہو۔ اس نے تم کو سمجھ بوجھ ،انتخاب کی آزادی اور ایک طرح کی خود اختیاری عطا کر کے چھوڑا ہے۔ اب اگر تم اپنی رعیت ہونے کی حیثیت کو سمجھو اور برضا و رغبت اس حیثیت کو سمجھو اور برضا و رغبت اس حیثیت کو اختیار کر لو ،بغیر اس کے کہ تم پر اس حیثیت میں  رہنے کے لیے کوئی جبر ہو ،تو اپنے مالک کی آزمائش میں  کامیاب ہو گے۔ اور اگر رعیت ہونے کی حیثیت کو نہ سمجھو ،یا سمجھنے کے باوجود باغیانہ روش اختیار کرو تو امتحان میں  ناکام ہو جاؤ گے۔ اسی امتحان کی غرض سے تم کو دنیا میں  کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں  ،دنیا کی بہت سی چیزیں  تمہارے قبضہ قدرت میں  دی گئی ہیں ،اور تم کو عمر بھر کی مہلت دی گئی ہے۔

اس کے بعد پیغمبر ہمیں  بتاتے ہیں  کہ یہ دنیوی زندگی چونکہ امتحان کی مہلت ہے۔ لہٰذا یہاں  نہ حساب نہ جزا سزا ۱؂۔ یہاں  جو کچھ دیا جاتا ہے لازم نہیں  کہ وہ کسی عمل نیک کا انعام ہی ہو۔ وہ اس بات کی علامت نہیں  ہے کہ اللہ تم سے خوش ہے یا جو کچھ تم کر رہے ہو وہ درست ہے۔ بلکہ دراصل وہ محض امتحان کا سامان ہے ،مال و دولت ، اولاد ،خدام و حکومت ،اسباب زندگی ،یہ سب وہ چیزیں  ہیں  جو تم کو امتحان کی غرض سے دی جاتی ہیں  تاکہ تم ان پر کام کر کے دکھاؤ اور اپنی اچھی یا بری قابلیتوں  کا اظہار کرو۔ اسی طرح جو تکلیفیں  ،نقصانات ،مصائب وغیرہ آتے ہیں۔ وہ بھی لازماً کسی عمل بد کی سزا نہیں  ہیں  بلکہ ان میں  سے بعض قانونِ فطرت کے تحت آپ سے آپ ظاہر ہونے والے نتائج ہیں  ۱؂، بعض آزمائش کے ذیل میں  آتے ہیں  اور بعض اس وجہ سے پیش آتے ہیں  کہ حقیقت کے خلاف رائے قائم کر کے جب تم ایک رویہ اختیار کرتے ہو تو لامحالہ تم کو چوٹ لگتی ہے۲؂۔ بہرحال یہ دنیا دار الجزا نہیں  ہے بلکہ دار الامتحان ہے۔ یہاں  جو کچھ نتائج ظاہر ہوتے ہیں  وہ کسی طریقہ یا کسی عمل کی صحیح یا غلط ،نیک یا بد ،قابل ترک یا قابل اخذ ہونے کا معیار نہیں  بن سکتے۔ اصل معیار آخرت کے نتائج ہیں۔ مہلت کی زندگی ختم ہونے کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں  تمہارے پورے کارنامے کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ تم امتحان میں  کامیاب ہوئے یا ناکام۔ اور وہاں  جس چیز پر کامیابی و ناکامی کا انحصار ہے وہ یہ ہے کہ اولاً، تم نے اپنی قوت نظر و استدلال کے صحیح استعمال سے اللہ تعالیٰ کے حاکم حقیقی ہونے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی تعلیم و ہدایت کے منجانب اللہ ہونے کو پہچانا یا نہیں  ،اور ثانیاً ،اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد آزادیِ انتخاب رکھنے کے باوجود تم نے اپنی رضا و رغبت سے اللہ کی حاکمیت اور اس کے حکم شرعی کے سامنے سر تسلیم خم کیا یا نہیں۔

نظریہ اسلامی کی تنقید

دنیا اور انسان کے متعلق یہ نظریہ جو پیغمبروں  نے پیش کیا ہے،ایک مکمل نظریہ ہے۔ اس کے تمام اجزاء میں  ایک منطقی ربط ہے، کوئی جز دوسرے جز سے متناقض نہیں  ہے۔ اس سے تمام واقعات عالم کی پوری توجیہہ اور آثار کائنات کی پوری تعبیر ملتی ہے۔ کوئی ایک چیز بھی مشاہدہ یا تجربہ میں  ایسی نہیں  آتی جس کی توجیہہ اس نظریہ سے نہ کی جا سکتی ہو۔ لہٰذا یہ ایک علمی نظریہ ہے۔ ’’علمی نظریہ‘‘ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ اس پر صادق آتی ہے۔

پھر کوئی مشاہدہ یا تجربہ آج تک ایسا نہیں  ہوا جس سے یہ نظریہ ٹوٹ جاتا ہو۔ لہٰذا یہ اپنی جگہ قائم ہے۔ ٹوٹے ہوئے نظریات میں  اس کو شمار نہیں  کیا جا سکتا۔ ۱؂

پھر نظام عالم کا جو مشاہدہ ہم کرتے ہیں  اس سے یہ نظریہ نہایت اغلب (Most Probable) نظر آتا ہے۔ کائنات میں  جو زبردست تنظیم پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر یہ کہنا زیادہ قرین دانش ہے کہ اس کا کوئی ناظم ہے ، بہ نسبت اس کے کہ کوئی ناظم نہیں  ہے۔ اسی طرح اس تنظیم کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا زیادہ معقول ہے کہ یہ مرکزی نظام ہے اور ایک ہی مختار کل اس کا ناظم ہے ، بہ نسبت اس کے کہ یہ لا مرکزی نظام ہے اور بہت سے ناظموں  کے ماتحت چل رہا ہے۔ اسی طرح جو حکمت کی شان اس کائنات کے نظام سے علانیہ محسوس ہوتی ہے اُسے دیکھ کر یہ رائے قائم کرنا زیادہ قریب از عقل ہے کہ یہ حکیمانہ اور با مقصد نظام ہے ، بہ نسبت اس کے کہ بے مقصد ہے اور محض بچے کا کھیل ہے۔

پھر جب ہم اس حیثیت سے غور کرتے ہیں  کہ اگر واقعی یہ نظام کائنات ایک سلطنت ہے اور انسان اس نظام کا ایک جز ہے تو یہ بات ہم کو سراسر معقول معلوم ہوتی ہے کہ اس نظام میں  انسان کی خود مختاری و غیر ذمہ داری کے لیے کوئی جگہ نہ ہونی چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ ہم کو نہایت معقول (Most Reasonable) نظریہ معلوم ہوتا ہے۔

پھر جب عملی نقطۂ نظر سے ہم دیکھتے ہیں  تو یہ بالکل ایک قابل عمل نظریہ ہے۔ زندگی کی ایک پوری اسکیم اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اس نظریہ پر مبنی ہے۔ فلسفہ اور اخلاق کے لیے ، علوم و فنون کے لیے ، صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے ، غرض زندگی کے ہر پہلو اور ہر ضرورت کے لیے یہ ایک مستقل بنیاد فراہم کرتا ہے اور کسی شعبہ زندگی میں  بھی انسان کو اپنا رویہ متعین کرنے کے لیے اس نظریہ سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں  آتی۔

اب ہمیں  صرف یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ اس نظریے سے دنیا کی زندگی میں  کس قسم کا رویہ بنتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں ؟

انفرادی زندگی میں  یہ نظریہ دوسرے جاہلی نظریات کے برعکس ایک نہایت ذمہ دارانہ اور نہایت منضبط رویہ(Discipline) پیدا کرتا ہے۔ اس نظریہ پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں  کہ آدمی اپنے جسم اور اس کی طاقتوں  اور دنیا اور اس کی کسی چیز کو بھی اپنی مِلک سمجھ کر خود مختارانہ استعمال نہ کرے بلکہ خدا کی مِلک سمجھ کر صرف اس کے قانون کی پابندی میں  استعمال کرے۔ ہر چیز کو جو اُسے حاصل ہے، خدا کی امانت سمجھے اور یہ سمجھتے ہوئے اس میں  تصرف کرے کہ مجھے اس امانت کا پورا حساب دینا ہے اور حساب بھی اس کو دینا ہے جس کی نظر سے میرا کوئی فعل بلکہ کوئی دل میں  چھپا ہوا ارادہ تک پوشیدہ نہیں  ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص ہر حال میں  ایک ضابطہ کا پابند ہو گا۔ وہ خواہشات کی بندگی میں  کبھی شتر بے مہار نہیں  بن سکتا۔ وہ ظالم اور خائن نہیں  ہو سکتا۔ اس کی سیرت پر کامل اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ وہ ضابطہ کی پابندی کے لیے کسی خارجی دباؤ کا محتاج نہیں  ہوتا۔ اس کے اپنے نفس میں  ایک زبردست اخلاقی انضباط پیدا ہو جاتا ہے جو اسے ان مواقع پر بھی راستی اور حق پر قائم رکھتا ہے، جہاں  اسے کسی دنیوی طاقت کی باز پرس کا خطرہ نہیں  ہوتا۔ یہ خدا کا خوف اور امانت کا احساس وہ چیز ہے جس سے بڑھ کر سوسائٹی کو قابل اعتماد افراد فراہم کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ تصور میں  نہیں  آ سکتا۔

مزید برآں  یہ نظریہ آدمی کو نہ صرف سعی و جہد کا آدمی بناتا ہے بلکہ اس کی سعی و جہد کو خود غرضی ، نفس پرستی ، یا قوم پرستی کے بجائے حق پرستی اور بلند تر اخلاقی مقاصد کی راہ میں  لگا دیتا ہے۔ جو شخص اپنے متعلق یہ رائے رکھتا ہو کہ میں  دنیا میں  بیکار نہیں  آیا ہوں  بلکہ خدا نے مجھے کام کرنے کے لیے یہاں  بھیجا ہے۔ اور میری زندگی اپنے لیے یا اپنے دوسرے متعلقین کے لیے نہیں  ہے بلکہ اس کام کے لیے ہے، جس میں  خدا کی رضا ہے، اور میں  یونہی چھوڑا نہ جاؤں  گا بلکہ مجھ سے پورا حساب لیا جائے گا کہ میں  نے اپنے وقت کا اور اپنی قوتوں  کا کتنا اور کس طرح استعمال کیا ، ایسے شخص سے زیادہ کوشش کرنے والا اور نتیجہ خیز اور صحیح کوشش کرنے والا آدمی اور کوئی نہیں  ہو سکتا۔ لہٰذا یہ نظریہ ایسے بہتر افراد پیدا کرتا ہے کہ ان سے بہتر انفرادی رویے کا تصور کرنا مشکل ہے۔

اب اجتماعی پہلو میں  دیکھیے:

سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماعیت کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریہ کی رو سے تمام انسان خدا کی رعیت ہیں۔ رعیت ہونے کی حیثیت سے سب کے حقوق یکساں ۔ سب کی حیثیت یکساں۔ اور سب کے لیے مواقع یکساں۔ کسی شخص ، کسی خاندان ، کسی طبقہ ، کسی قوم ، کسی نسل کے لیے دوسرے انسانوں  پر نہ کسی قسم کی برتری و فوقیت ہے نہ امتیازی حقوق۔ اس طرح انسان پر انسان کی حاکمیت اور فضیلت کی جڑ کٹ جاتی ہے اور وہ تمام خرابیاں  یک لخت دور ہو جاتی ہیں  جو بادشاہی، جاگیرداری ، برہمنیت و پاپائیت اور آمریت سے پیدا ہوتی ہیں۔

پھر یہ چیز قبیلے ، قوم ، نسل ، وطن اور رنگ کے تعصبات کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے۔ جن کی بدولت دنیا میں  سب سے زیادہ خون ریزیاں  ہوئی ہیں۔ اس نظریہ کی رو سے تمام روئے زمین خدا کی مِلک ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد اور خدا کے بندے ہیں ، اور فضیلت کی بنیاد نسل و نسب ، مال و دولت ، یا رنگ کی سپیدی و سرخی پر نہیں  بلکہ اخلاق کی پاکیزگی اور خدا کے خوف پر ہے۔ جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور اصلاح و تقویٰ پر عمل کرنے والا ہے، وہی سب سے افضل ہے۔

اسی طرح انسان اور انسان کے درمیان اجتماعی ربط و تعلق یا فرق و امتیاز کی بنا پر بھی اس نظریہ میں  کلیتہً تبدیلی کر دی گئی ہے۔ انسان نے اپنی ایجاد سے جن چیزوں  کو اجتماع و افتراق کی بنا ٹھہرایا ہے، وہ انسانیت کو بے شمار حصوں  میں  تقسیم کرتی ہیں  اور ان حصوں  کے درمیان ناقابل عبور دیواریں  کھڑی کر دیتی ہیں۔ کیونکہ نسل یا وطن یا قومیت یا رنگ وہ چیزیں  نہیں  ہیں  جن کو آدمی تبدیل کر سکتا ہو اور ایک گروہ میں  سے دوسرے گروہ میں  جا سکتا ہو۔ برعکس اس کے یہ نظریہ انسان اور انسان کے درمیان اجتماع و افتراق کی بِنا خدا کی بندگی اور اس کے قانون کی پیروی پر رکھتا ہے۔ جو لوگ مخلوقات کی بندگی چھوڑ کر خدا کی بندگی اختیار کر لیں  اور خدا کے قانون کو اپنی زندگی کا واحد قانون تسلیم کر لیں ، وہ سب ایک جماعت ہیں  ، اور جو ایسا نہ کریں  وہ دوسری جماعت۔ اس طرح تمام اختلافات مٹ کر صرف ایک اختلاف باقی رہ جاتا ہے اور وہ اختلاف بھی قابل عبور ہے۔ کیونکہ ہر وقت ایک شخص کے لیے ممکن ہے کہ اپنا عقیدہ اور طرز زندگی بدل دے اور ایک جماعت سے دوسری جماعت میں  چلا جائے۔ اس طرح اگر دنیا میں  کوئی عالمگیر بین الاقوامی برادری بننی ممکن ہے تو وہ اسی نظریے پر بن سکتی ہے۔ دوسرے تمام نظریات انسانیت کو پھاڑنے والے ہیں  ، جمع کرنے والے نہیں۔

ان تمام اصلاحات کے بعد جو سوسائٹی اس نظریہ پر بنتی ہے اس کی ذہنیت، اسپرٹ اور اجتماعی تعمیر بالکل بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں  اسٹیٹ انسان کی حاکمیت پر نہیں  بلکہ خدا کی حاکمیت پر بنتا ہے۱؂۔ حکومت خدا کی ہوتی ہے۔ قانون خدا کا ہوتا ہے۔ انسان صرف خدا کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ یہ چیز اول تو ان ساری خرابیوں  کو دور کر دیتی ہے جو انسان پر انسان کی حکومت اور انسان کی قانون سازی سے پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ایک عظیم الشان فرق جو اس نظریہ پر اسٹیٹ بننے سے واقع ہو جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ کے پورے نظام میں  عبادت اور تقویٰ کی اسپرٹ پھیل جاتی ہے۔ راعی اور رعیت دونوں  یہ سمجھتے ہیں  کہ ہم خدا کی حکومت میں  ہیں  اور ہمارا معاملہ براہ راست اُس خدا سے ہے جو عالم الغیب و الشہادہ ہے۔ ٹیکس دینے والا یہ سمجھ کر ٹیکس دیتا ہے کہ وہ خدا کو ٹیکس دے رہا ہے ، اور ٹیکس لینے والے اور اس ٹیکس کو خرچ کرنے والے یہ سمجھتے ہوئے کام کرتے ہیں  کہ یہ مال خدا کا مال ہے اور ہم امین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ایک سپاہی سے لے کر ایک جج اور گورنر تک، ہر کارندۂ حکومت اپنی ڈیوٹی اُسی ذہنیت کے ساتھ انجام دیتا ہے جس ذہنیت کے ساتھ وہ نماز پڑھتا ہے۔ دونوں  کام اس کے لیے یکساں  عبادت ہیں  اور دونوں  میں  وہی ایک تقویٰ اور خشیت کی روح درکار ہے۔ باشندے اپنے اندر سے جن لوگوں  کو خدا کی نیابت کا کام انجام دینے کے لیے چنتے ہیں  ان میں  سب سے پہلے جو صفت تلاش کی جاتی ہے وہ خوف خدا اور امانت و صداقت کی صفت ہے۔ اس طرح سطح پر وہ لوگ ابھر کر آتے ہیں  اور اختیارات ان کے ہاتھوں میں  دیئے جاتے ہیں  جو سوسائٹی میں  سب سے بہتر اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔

تمدن و معاشرت میں  بھی یہ نظریہ، تقویٰ اور طہارتِ اخلاق کی یہی اسپرٹ پھیلا دیتا ہے۔ اس میں  نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی ہوتی ہے ، ہر ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان خدا کا واسطہ حائل ہوتا ہے اور خدا کا قانون دونوں  کے تعلقات کو منضبط کرتا ہے۔ یہ قانون چونکہ اس نے بنایا ہے جو تمام نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض سے پاک ہے اور علیم و حکیم بھی ہے، اس لیے اس میں  فتنے کا ہر دروازہ اور ظلم کا ہر راستہ بند کیا گیا ہے اور انسانی فطرت کے ہر پہلو اور اس کی ہر ضرورت کی رعایت کی گئی ہے۔

یہاں  اتنا موقع نہیں  کہ میں  اُس پوری اجتماعی عمارت کا نقشہ پیش کروں  جو اس نظریہ پر بنتی ہے۔ مگر جو کچھ میں  نے بیان کیا ہے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں  کہ پیغمبروں  نے جو نظریۂ کائنات و انسان پیش کیا ہے وہ کس قسم کا رویہ پیدا کرتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں  اور کیا ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی نہیں  کہ یہ محض کاغذ پر ایک خیالی نقشہ ہو۔ بلکہ تاریخ میں  اس نظریہ پر ایک اجتماعی نظام اور ایک اسٹیٹ بنا کر دکھایا جا چکا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریہ پر تیار کیے گئے تھے ،نہ اس سے بہتر افراد کبھی روئے زمین پر پائے گئے اور نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔ اس کے افراد میں  اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک صحرائی عورت کو زنا سے حمل ہو جاتا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ میرے لیے اس جرم کی سزا سنگ ساری جیسی ہولناک سزا ہے ، مگر وہ خود چل کر آتی ہے اور درخواست کرتی ہے کہ اس پر سزا نافذ کی جائے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وضع حمل کے بعد آئیو، اور بغیر کسی مچلکہ و ضمانت کے اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وضع حمل کے بعد وہ پھر صحرا سے آتی ہے اور سزا دیئے جانے کی درخواست کرتی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ بچہ کو دُودھ پلا اور جب دُودھ پلانے کی مدت ختم ہو جائے تب آئیو۔ پھر وہ صحرا کی طرف واپس چلی جاتی ہے اور کوئی پولیس کی نگرانی اس پر نہیں  ہوتی۔ رضاعت کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ پھر آ کر التجا کرتی ہے کہ اب اسے سزا دے کے اس گناہ سے پاک کر دیا جائے جو اس سے سرزد ہو چکا ہے۔ چنانچہ اسے سنگسار کر دیا جاتا ہے اور جب وہ مر جاتی ہے تو اس کے لیے دعائے رحمت کی جاتی ہے۔ اور جب ایک شخص کی زبان سے اس کے حق میں اتفاقاً یہ کلمہ نکل جاتا ہے کہ کیسی بے حیا عورت تھی، تو جواب میں  فرمایا جاتا ہے کہ ’’خدا کی قسم! اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ناجائز محصول لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا‘‘۔ یہ تو اس سوسائٹی کے افراد کا حال تھا اور اس اسٹیٹ کا حال یہ تھا کہ جس حکومت کی آمدنی کروڑوں  روپئے تک پہنچی ہوئی تھی اور جس کے خزانے ایران و شام و مصر کی دولت سے معمور ہو رہے تھے، اس کا صدر صرف ڈیڑھ سو روپیہ مہینہ تنخواہ لیتا تھا اور اس کے شہریوں  میں  ڈھونڈے سے بھی بمشکل کوئی ایسا شخص ملتا تھا جو خیرات لینے کا مستحق ہو۔

اس تجربے کے بعد اگر کسی شخص کو یہ اطمینان حاصل نہ ہو کہ انبیاء نے نظامِ کائنات کی حقیقت اور اس میں انسان کی حیثیت کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہ حق ہے تو ایسے شخص کے اطمینان کے لیے کوئی دوسری صورت ممکن نہیں  ہے۔ کیونکہ خدا اور فرشتوں  اور آخرت کی زندگی کا براہِ راست عینی مشاہدہ تو اسے بہرحال حاصل نہیں  ہو سکتا۔ جہاں  مشاہدہ ممکن نہ ہو وہاں  تجربے سے بڑھ کر صحت کا کوئی دوسرا معیار نہیں  ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک طبیب بیمار کے اندر مشاہدہ کر کے یہ نہیں  دیکھ سکتا کہ فی الواقع سسٹم میں  کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے تو مختلف دوائیں  دے کر دیکھتا ہے، اور جو دوا اس اندھیری کوٹھڑی میں  ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھتی ہے، اس کا مرض کو دور کر دینا ہی اس بات پر قطعی دلیل ہوتا ہے کہ سسٹم میں  فی الواقع جو خرابی تھی یہ دوا اس کے عین مطابق تھی۔ اسی طرح جب انسانی زندگی کی کل کسی دوسرے نظریہ سے درست نہیں  ہوتی اور صرف انبیاء کے نظریہ ہی سے درست ہوتی ہے تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریہ حقیقت کے مطابق ہے۔ فی الواقع یہ کائنات اللہ کی سلطنت ہے اور واقعی اس زندگی کے بعد ایک زندگی ہے جس میں  انسان کو اپنے کارنامۂ حیاتِ دنیوی کا حساب دینا ہے۔

اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر

(یہ مقالہ ۲۶ فروری ۱۹۴۴ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں پڑھا گیا)

معمولی حالات میں ، جب کہ زندگی کا دریا سکون کے ساتھ بہہ رہا ہو انسان ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتا ہے۔ کیوں کہ اُوپر کی صاف شفاف سطح ایک پردہ بن جاتی ہے جس کے نیچے تہہ میں بیٹھی ہوئی گندگیاں اور غلاظتیں چھپی رہتی ہیں اور پردے کی اوپری صفائی آدمی کو اس بات کا تجسس کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہونے دیتی ہے کہ تہہ میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اور کیوں چھپا ہوا ہے۔ لیکن جب اس دریا میں طوفان برپا ہوتا ہے اور نیچے کی چھپی ہوئی ساری گندگیاں اور غلاظتیں اُبھر کر بر سرِ عام سطحِ دریا پر بہنے لگتی ہیں ، اس وقت اندھوں کے سوا ہر وہ شخص جس کے دیدوں میں کچھ بینائی کا نور باقی ہو، ہر اشتباہ کے بغیر صاف صاف دیکھ لیتا ہے کہ زندگی کا دریا کیا کچھ اپنے اندر لیے ہوئے چل رہا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام انسانوں میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہو سکتا ہے کہ اس منبع کا سراغ لگائیں جہاں سے دریائے زندگی میں یہ  گندگیاں آ رہی ہیں۔ اور اس تدبیر کی جستجو کریں جس سے اس دریا کو پاک کیا اور رکھا جا سکے۔ فی الواقع اگر ایسے وقت میں بھی لوگوں کے اندر اس ضرورت کا احساس بیدار نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ نوعِ انسانی اپنی غفلت کے نشے میں مدہوش ہو کر سود و  زیاں سے بالکل ہی بے خبر ہو چکی ہے۔

 

موجودہ قوموں کی اخلاقی حالت

یہ زمانہ جس سے ہم آج کل گزر رہے ہیں انہی غیر معمولی حالات کا زمانہ ہے۔ زندگی کا دریا اس وقت اپنی طغیانی پر ہے۔ ملک ملک اور قوم قوم کے درمیان سخت کش مکش برپا ہے اور یہ کش مکش اتنی گہرائی تک اُتری ہوئی ہے کہ بڑے بڑے مجموعوں سے گزر کر فرد فرد تک کو نزاع کے میدان میں کھینچ لائی ہے۔ اس طرح عالمِ انسانی کے بیشتر حصہ نے اپنے وہ تمام اخلاقی اوصاف اُگل کر منظرِ عام پر رکھ دیئے ہیں جنہیں وہ مدتوں سے اندر ہی اندر پرورش کر رہا تھا۔ اب ہم ان گندگیوں کو علانیہ سطحِ زندگی پر دیکھ رہے ہیں ، جن کو تلاش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تعمق کی ضرورت تھی۔ اب صرف ایک مادر زاد اندھا ہی اس غلط فہمی میں مبتلا رہ سکتا ہے کہ ’’بیمار کا حال اچھا ہے‘‘۔ اور صرف وہی لوگ بیماری کی تشخیص اور علاج کی فکر سے غافل رہ سکتے ہیں جو حیوانات کی طرح اخلاقی حِس سے بالکل خالی ہیں یا جن کے اخلاقی احساسات پر فالج گِر گیا ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری پوری قومیں بہت بڑے پیمانے پر اُن بدترین اخلاقی صفات کا مظاہرہ کر رہی ہیں جن کو ہمیشہ سے انسانیت کے ضمیر نے انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بے انصافی، بے رحمی، ظلم و ستم، جھوٹ، دغا، فریب، مکر، بدعہدی، خیانت، بے شرمی، نفس پرستی ، استحصال بالجبر اور ایسے ہی دوسرے جرائم محض انفرادی جرائم نہیں رہے ہیں بلکہ قومی اخلاق کی حیثیت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی قومیں اجتماعی حیثیت سے وہ سب کچھ کر رہی ہیں جس کا ارتکاب کرنے والے افراد ابھی تک ان کے ہاں جیلوں میں ٹھونسے جاتے ہیں۔ ہر قوم نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے بڑے سے بڑے مجرموں کو اپنا لیڈر اور سربراہ کار بنایا ہے اور ان کی قیادت میں بدمعاشی کی کوئی مکروہ سے مکروہ قسم ایسی نہیں رہ گئی جس کا وہ کھلم کھلا نہایت بے حیائی کے ساتھ وسیع پیمانے پر ارتکاب نہ کر رہی ہوں۔ ہر قوم دوسری قوم کے خلاف جھوٹ تصنیف کر کے علانیہ نشر کر ہی ہے اور ریڈیو کے ذریعہ سے ان جھوٹوں نے فضائے اثیر تک کو گندہ کر دیا ہے۔ پورے پورے ملکوں اور براعظموں کی آبادیاں لٹیروں اور ڈاکوؤں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور ہر ڈاکو عین اس وقت جبکہ وہ خود ڈاکہ مار رہا ہوتا ہے، نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنے مخالف ڈاکو کی ان ساری گناہ گاریوں کا شکوہ کرتا ہے، جن سے داغدار ہونے میں اس کا اپنا دامن بھی اپنے حریف سے کچھ کم سیاہ نہیں ہوتا۔ انصاف کے معنی ان ظالموں کے نزدیک صرف اپنی قوم کے ساتھ انصاف کے رہ گئے ہیں حق جو کچھ ہے ان کے لیے ہے۔ دوسروں کے حقوق پر دست درازی ان کے اخلاقی قانون میں جائز بلکہ کارِ ثواب ہے۔ قریب قریب تمام قوموں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ ان کے ہاں لینے کے پیمانے اور ہیں اور دینے کے اور۔ جتنے معیار وہ اپنے مفاد کے لیے قائم کرتی ہیں ، دوسروں کا مفاد سامنے آتے ہی وہ سب معیار بدل جاتے ہیں ، اور جن معیاروں کا وہ دوسروں سے مطالبہ کرتی ہیں ان کی پابندی خود کرنا حرام سمجھتی ہیں۔ بدعہدی کا مرض اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اب ایک قوم کو دوسری قوم پر کوئی اعتماد باقی نہ رہا۔ بڑی بڑی قوموں کے نمائندے نہایت مہذب صورتیں لیے ہوئے جب بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں یہ خبیث نیت چھپی ہوئی ہوتی ہے کہ پہلا موقع ملتے ہی اس مقدس بکرے کو قومی مفاد کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھائیں گے اور جب ایک قوم کا صدر یا وزیر اعظم اس قربانی کے لیے چھُری تیز کرتا ہے تو پُوری قوم میں سے ایک آواز بھی اس بد اخلاقی کے خلاف نہیں اٹھتی، بلکہ ملک کی پوری آبادی اس جرم میں شریک ہو جاتی ہے۔ مکاری کا حال یہ ہے کہ بڑے بڑے پاکیزہ اخلاقی اصولوں کی گفتگو کی جاتی ہے صرف اس لیے کہ دنیا کو بے وقوف بنا کر اپنے مفاد کی خدمت اس سے لی جائے اور سادہ لوح انسانوں کو یقین دلایا جائے کہ تم سے جان و مال کی قربانی کا مطالبہ جو ہم کر رہے ہیں یہ کچھ اپنے لیے نہیں ہے بلکہ ہم بے غرض، نیکوں کے نیک لوگ، یہ ساری تکلیفیں محض انسانیت کی بھلائی کے لیے برداشت کر رہے ہیں۔ سنگدلی و بے رحمی اس مرتبۂ کمال تک پہنچی ہے کہ ایک ملک، جب دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی آبادی کو روندنے اور کچلنے میں محض اسٹیم رولر کی سی بے حسی ہی اس سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت مزے لے لے کر دنیا کو اپنے ان کارناموں کی اطلاع دیتا ہے، گویا اسے معلوم ہے کہ اب دنیا انسانوں سے نہیں بلکہ بھیڑیوں سے آباد ہے۔ خود غرضانہ شقاوت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو اپنے مفاد کے لیے مسخر کرنے کے بعد صرف یہی نہیں کہ بے دردی کے ساتھ اسے لوٹتی کھسوٹتی ہے بلکہ نہایت منظم طریقہ سے پیہم کوشش کرتی رہتی ہے کہ انسانیت کے تمام شریفانہ خصائل سے اس کو خالی کر دے اور وہ تمام کمینہ اوصاف اس کے اندر پرورش کرے جنہیں وہ خو د نہایت گھناؤنا سمجھتی ہے۔

یہ چند نمایاں ترین اخلاقی خرابیاں میں نے محض نمونے کے طور پر بیان کی ہیں ورنہ تفصیل کے ساتھ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پوری انسانیت کا جسم اخلاقی حیثیت سے سڑ گیا ہے۔ پہلے قحبہ خانے اور قمار بازی کے اڈے اخلاقی پستی کے سب سے بڑے پھوڑے سمجھے جاتے تھے، لیکن اب تو ہم جدھر دیکھتے ہیں ، انسانی تمدن پورا کا پورا ہی پھوڑا نظر آتا ہے۔ قوموں کی پارلیمنٹیں اور اسمبلیاں ، حکومت کے سیکریٹریٹ اور وزارت خانے، عدالتوں کے ایوان اور وکالت خانے، پریس اور نشر گاہیں ، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے، بینک اور صنعتی و تجارتی کاروبار کے مجامع، سب کے سب پھوڑے ہی پھوڑے ہیں جو کسی تیز نشتر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ علم جو انسانیت کا عزیز ترین جوہر ہے آج اس کا ہر شعبہ انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ طاقت اور زندگی کے تمام وسائل جو قدرت نے انسان کے لیے مہیا کیے تھے فساد اور خرابی کے کاموں میں ضائع کیے جا رہے ہیں اور وہ صفات بھی، جو انسان کی بہترین اخلاقی صفات سمجھی جاتی تھیں ،مثلاً شجاعت، ایثار، قربانی، فیاضی، صبر و تحمل، اولوالعزمی، بلند حوصلگی وغیرہ، آج ان کو بھی چند بڑی بنیادی بد اخلاقیوں کا خادم بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

ظاہر ہے کہ اجتماعی خرابیاں اس وقت اُبھر کر نمایاں ہوتی ہیں جب انفرادی خرابیاں پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ آپ اس بات کا تصور نہیں کر سکتے کہ کسی سوسائٹی کے بیشتر افراد نیک کردار ہوں اور وہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی بدکرداری کا مظاہرہ کرے۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ نیک کردار لوگ اپنی قیادت اور نمائندگی اور سربراہ کاری بدکردار لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں اور اس بات پر راضی ہو جائیں کہ ان کے قومی اور ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو غیر اخلاقی اصولوں پر چلایا جائے۔ اس لیے جب وسیع پیمانے پر دنیا کی قومیں ان گھناؤنے اور رذیل اخلاقی اوصاف کا اظہار اپنے اجتماعی اداروں کے ذریعے سے کر رہی ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آج نوع انسانی اپنی تمام علمی و تمدنی ترقیوں کے باوجود ایک شدید اخلاقی تنزل میں مبتلا ہے اور اس کے بیشتر افراد اس دباؤ سے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ حالت اگر یونہی ترقی کرتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب انسانیت کسی بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو گی اور ایک طویل عہدِ ظلمت اس پر چھا جائے گا۔

اب ہم اگر آنکھیں بند کر کے تباہی کے گڑھے کی طرف سرپٹ جانا نہیں چاہتے تو ہمیں کھوج لگانا چاہیے کہ اس خرابی کا سرچشمہ کہاں ہے، جہاں سے یہ طوفان کی طرح امڈی چلی آ رہی ہے۔ چونکہ یہ اخلاقی خرابی ہے لہٰذا لامحالہ ہمیں اس کا سراغ ان اخلاقی تصورات ہی میں ملے گا جو اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں۔

موجودہ اخلاقی تصورات

دنیا کے اخلاقی تصورات کیا ہیں ؟ اس سوال کی جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولاً یہ تمام تصورات دو بڑی قسموں پر منقسم ہیں۔

ایک قسم کے تصورات وہ، جو خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر مبنی ہیں دوسری قسم کے تصورات وہ ،جو ان عقیدوں سے الگ ہٹ کر کسی دوسری بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔

آئیے اب ہم ان دونوں قسم کے تصورات کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ دنیا میں اس وقت یہ کس صورت میں پائے جاتے ہیں اور ان کے نتائج کیا ہیں۔

خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر جتنے اخلاقی تصورات قائم ہوئے ہیں ان کی صورت کا تمام تر انحصار اس عقیدے کی نوعیت پر ہوتا ہے جو خدا اور حیات بعد موت کے متعلق لوگوں میں پایا جاتا ہو۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ دنیا اس وقت خدا کو کس شکل میں مان رہی ہے اور دوسری زندگی کے متعلق اس کے عام تخیلات کیا ہیں۔

خدا کو ماننے والے بیشتر انسان اس وقت شرک میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے اپنے زعم میں خدائی کے اکثر اختیارات، جن کا تعلق ان کی اپنی زندگی سے ہے، دوسری ہستیوں پر تقسیم کر دیئے ہیں اور ان ہستیوں کا خیالی نقشہ اپنی خواہشات کے مطابق ایسا بنا لیا ہے کہ وہ اپنے ان خدا یا نہ اختیارات کو ٹھیک اسی طرح استعمال کرتی ہیں جس طرح یہ چاہتے ہیں کہ وہ استعمال کریں۔ یہ گناہ کرتے ہیں ، وہ بخشوا لیتی ہیں۔ یہ فرائض سے غافل اور حقوق سے بے پروا ہو کر بے مہار جانور کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر دنیا کی کھیتی کو چرتے پھرتے ہیں اور وہ کچھ نذر و نیاز کے عوض ان کی نجات کی ضمانت لے لیتی ہیں۔ یہ چوری بھی کرنے جاتے ہیں تو ان کی عنایت سے تھانہ دار سوتا رہ جاتا ہے۔ ان کے اور ان کے درمیان یہ سودا طے ہو گیا ہے کہ ان کی طرف سے عقیدہ اچھا رکھیں اور نذر پیش کرتے رہیں ، اور اس کے جواب میں وہ ان کے سب کام، جو کچھ بھی یہ کرنا چاہیں ، بناتی رہیں گی اور مرنے کے بعد جب خدا انہیں پکڑنا چاہے گا تو وہ بیچ میں حائل ہو کے کہہ دیں گی کہ یہ ہمارے دامن کے سایہ میں ہیں ، ان سے کچھ نہ کہا جائے بلکہ بعض جگہ تو اس پکڑ دھکڑ کی نوبت ہی نہ آئے گی، کیونکہ ان کے گناہوں کا کفارہ پہلے ہی کوئی ادا کر چکا ہے۔ ان مشرکانہ عقائد نے زندگی بعد موت کے عقیدے کو بھی بے معنی کر دیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ساری اخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں جو مذہب نے تعمیر کی تھیں۔ مذہبی اخلاقیات کتابوں میں لکھے ہوئے موجود ہیں اور زبانوں پر ان کا ذکر بھی احترام کے ساتھ آتا ہے، مگر عملاً ان کی پابندی سے بچنے کے لیے شرک نے فرار کی بے شمار راہیں فراہم کر دی ہیں اور کچھ اس شان سے فراہم کی ہیں کہ جس راہ سے بھی یہ چاہیں بھاگیں ، بہرحال انہیں اطمینان ہے کہ آخرکار پہنچیں گے نجات ہی کی منزل پر۔

شرک سے قطع نظر کر کے جہاں خدا پرستی اور عقیدہ آخرت کچھ بہتر صورت میں موجود ہے، وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے مطالبات سکڑ کر انسانی زندگی کے ایک بہت چھوٹے سے دائرے میں محدود ہو گئے ہیں۔ چند اعمال، چند رسوم، اور چند پابندیاں ہیں جن کا محدود انفرادی و معاشرتی زندگی میں خدا ان سے مطالبہ کرتا ہے اور انہی کے معاوضے میں اس نے ایک بہت بڑی جنت ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے۔ اگر یہ ان مطالبوں کو پورا کر دیں تو پھر کوئی چیز خدا کی طرف سے ان کے کرنے کی نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد یہ آزاد ہیں کہ اپنی زندگی کے معاملات جس طرح چاہیں چلائیں۔ اور اگر ان خدائی مطالبوں میں بھی کوتاہی رہ جائے تو اس کی رحمت اور نکتہ نوازی پر بھروسا ہے کہ وہ گناہوں کے پشتارے ان سے جنت کے دروازے پر رکھوا لے گا اور اندر جانے کے لیے اعزازی ٹکٹ عنایت فرما دے گا۔ اس تنگ مذہبی تصور نے اول تو زندگی کے معاملات پر مذہبی اخلاقیات کے انطباق کو بہت محدود کر دیا ہے جس کی وجہ سے زندگی کے تمام بڑے بڑے شعبے ہر اس اخلاقی رہنمائی اور بندش سے آزاد ہو گئے ہیں جو مذہب سے حاصل ہو سکتی تھی، دوسرے اس تنگ دائرے میں بھی اخلاق کی گرفت سے بچ نکلنے کے لیے ایک راستہ کھلا ہوا ہے جس سے فائدہ اٹھانے میں کم ہی لوگ سستی دکھاتے ہیں۔

ان سب سے بہتر حالت جن مذہبی طبقوں کی ہے، جو شرک سے بھی پاک ہیں ، سچائی کے ساتھ خدا کو بھی مانتے ہیں اور آخرت کے متعلق بھی کسی جھوٹے بھروسے پر تکیہ نہیں کر بیٹھے ہیں ، ان کے اندر اخلاق کی پاکیزگی تو بے شک پائی جاتی ہے، اور بہترین سیرت و کردار کے لوگ ان میں مل جاتے ہیں ، لیکن ان کو بالعموم مذہب و روحانیت کے محدود تصور نے خراب کر رکھا ہے۔ وہ دنیا اور اس کے مسائلِ زندگی سے بڑی حد تک بے تعلق ہو کر یا تو چند مخصوص کاموں کو، جنہیں مذہبی کام سمجھا جاتا ہے، لے بیٹھتے ہیں ، یا اپنے نفس کو مانجھ مانجھ کر صاف کرتے ہیں تاکہ وہ اس دنیا ہی میں عالمِ غیب کی آوازیں سننے اور حسنِ مطلق کی پرچھائیاں دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔ ان کے نزدیک نجات کا راستہ دنیوی زندگی کے کنارے کنارے سے بچ کر نکل جاتا ہے اور خدا کے قرب سے سرفراز ہونے کی سبیل بس یہ ہے کہ ایک طرف مذہب کے دیے ہوئے نقشے پر اپنی زندگی کے ظاہری پہلوؤں کو ڈھال لیا جائے ، دوسری طرف نفس کی صفائی کے چند طریقوں سے کام لے کر اسے مجلیّٰ و مصفّا کر لیا جائے، اور پھر ایک محدود دائرے کے اندر کچھ مذہبی و روحانی مشاغل میں مصروف رہ کر زندگی کے دن پورے کر دیئے جائیں۔ گویا ان کے خد ا کو چند خوش وضع شیشے کے برتن، چند مقطع لاؤڈ سپیکر، چند عمدہ گراموفون، چند لطیف ریڈیو سیٹ، چند خوش نما فوٹو کے کیمرے درکار تھے اور اسی غرض کے لیے اس نے زمین میں اتنا کچھ سامان دے کر انسانوں کو بھیجا تاکہ یہاں سے اپنے آپ کو ان چیزوں میں تبدیل کر کے پھر اس کے پاس واپس پہنچ جائیں۔ مذہب و روحانیت کے اس غلط تصور کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ جو نفوس بلند تر اور پاکیزہ تر اخلاقی صلاحیتوں کے حامل تھے انہیں یہ زندگی کے میدان سے ہٹا کر گوشوں میں لے گیا اور گھٹیا درجہ کے اوصاف رکھنے والوں کے لیے بغیر مزاحمت کے خود بخود میدان خالی ہو گیا۔

دنیا کی پوری مذہبی صورتِ حال کا یہ لُبِّ لباب ہے اور اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ خداپرستی سے جو اخلاقی طاقت انسان کو ملنی ممکن تھی، بیشتر انسان تو اس کو سرے سے حاصل ہی نہیں کر رہے ہیں ، اور ایک بہت قلیل تعداد اس کو حاصل کر رہی ہے لیکن انسانیت کی رہنمائی و سربراہ کاری سے وہ خود دست بردار ہو گئی ہے۔ اس لیے اس کا حال اس بیٹری کا سا ہے جس میں بجلی بھری جائے اور وہ یونہی رکھے رکھے اپنی عمر پوری کر دے۔

انسانی تمدن کی گاڑی بالفعل جو لوگ اس وقت چلا رہے ہیں ان کے اخلاقیات خدا اور آخرت کے اساسی تخیل سے خالی ہیں اور دانستہ خالی کیے گئے ہیں۔ نیز اخلاق میں خدا کی رہنمائی قبول کرنے سے انہوں نے قطعی انکار کر دیا ہے۔ اگرچہ ان میں کثیر التعداد لوگ کسی نہ کسی مذہب کے قائل ہیں ، مگر ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کا محض ایک شخصی و انفرادی معاملہ ہے جسے اپنی ذات تک آدمی کو محدود رکھنا چاہیے۔ اجتماعی زندگی اور اس کے معاملات سے مذہب کو کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ پھر اس کی کیا ضرورت کہ وہ ان معاملات کو چلانے کے لیے کسی فوق الفطری ہدایت کی طرف رجوع کریں۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں جس اخلاقی تحریک کی ابتداء امریکہ سے ہوئی تھی اور جو بڑھتے بڑھتے انگلستان اور دوسرے ممالک میں پھیل گئی، اس کا بنیادی مسلک ’’امریکی انجمنِ اخلاق‘‘ (American Ethical Union) کے مقاصد کی فہرست میں بایں الفاظ واضح کیا گیا تھا:

’’انسانی زندگی کے تمام تعلقات میں خواہ وہ شخصی ہوں ، اجتماعی ہوں ، قومی ہوں یا بین الاقوامی، اخلاق کی انتہائی اہمیت پر زور دینا بغیر اس کے کہ مذہبی معتقدات یا مابعد الطبیعی تخیلات کا اس میں کوئی دخل ہو۔ ‘‘

اس تحریک کے زیر اثر انگلستان میں ’’اتحاد انجمن ہائے اخلاق‘‘ (Union of Ethical Societies) قائم ہوئی جو بعد کو ’’اخلاقی اتحاد‘‘ کے نام سے منظم کی گئی اس کا اساسی مقصد یہ بیان کیا گیا تھا:

’’انسانی رفاقت اور خدمت کے ایک ایسے طریقے کی تلقین کرنا جو اس اصول پر مبنی ہو کہ مذہب کا سب سے بڑا مقصد بھلائی کی محبت ہے اور یہ کہ اخلاقی تصورات اور اخلاقی زندگی کے لیے دنیا کی حقیقت اور زندگی بعد موت کے متعلق کسی عقیدے کی حاجت نہیں ہے، اور یہ کہ خالص انسانی اور فطری ذرائع سے انسانوں کو اپنے تمام تعلقاتِ زندگی میں حق سے محبت کرنے، حق جاننے اور حق پر عمل کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ ‘‘

ان الفاظ میں در حقیقت اُس پورے طبقے کی نمائندگی کی گئی ہے جو اس وقت دنیا کے افکار، تہذیب، تمدن، اور معاملات کی رہنمائی کر رہا ہے۔ آج دنیا کے کاروبار کو عملاً جو لوگ چلا رہے ہیں ،ان سب کے ذہن پر وہی تخیل چھایا ہوا ہے جو اوپر کے چند فقروں میں بیان کیا گیا ہے۔ سب ہی نے بالفعل اپنے اخلاقیات کو خدا اور آخرت کے عقیدے اور مذہب کی اخلاقی رہنمائی سے آزاد کر لیا ہے۔ وہ اگر خدا کو مانتے بھی ہیں تو صرف اس کے ہونے کو مانتے ہیں۔ اپنی زندگی کے اصول اور ضابطے اس سے نہیں لیتے۔

غیر مذہبی اخلاقی فلسفوں کا جائزہ

اب ہمیں ان غیر مذہبی اخلاقی فلسفوں کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان کی کیا کیفیت ہے۔

۱۔ فلسفۂ اخلاق کا پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ اصلی اور انتہائی بھلائی کیا ہے جس کو پہنچنا انسانی سعی و عمل کا مقصود ہونا چاہیے اور جس کے معیار پر انسان کے طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ وہ اچھا ہے یا برا، صحیح ہے یا غلط؟

اس سوال کا کوئی ایک جواب انسان نہیں پا سکا۔ اس کے بہت سے جوابات ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ بھلائی خوشی ہے۔ دوسرے کے نزدیک کمال ہے۔ تیسرے کے نزدیک فرض برائے فرض ہے۔

پھر خوشی کے متعلق مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیسی خوشی؟ آیا وہ جو جسمانی و نفسانی خواہشات کے پورا ہونے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو ذہنی ترقی کے مدارج پر چڑھنے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو اپنی شخصیت کو آرٹ یا روحانیت کے نقطۂ نظر سے آراستہ کر لینے سے حاصل ہوتی ہے؟ نیز یہ کہ کس کی خوشی؟ آیا ہر شخص کی اپنی خوشی؟ یا اس جماعت کی خوشی جس سے انسان وابستہ ہے؟ یا تمام انسانوں کی خوشی؟ یا فی الجملہ دوسروں کی خوشی؟

اسی طرح کمال کو مقصود قرار دینے والوں کے لیے بھی بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کمال کا تصور اور اس کا معیار کیا ہے؟ اور کمال کس کا مقصود ہے؟ فرد کا؟ جماعت کا؟ یا انسانیت کا؟

اسی طرح جو لوگ فرض برائے فرض کے قائل ہیں اور ایک غیر مشروط واجب الاطاعت قانون فرض (Categorical imperative) کی بے چون و چرا اطاعت ہی کو آخری و انتہائی بھلائی قرار دیتے ہیں ان کے لیے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قانون فی الواقع ہے کیا؟ کس نے اس کو بنایا؟ اور کس کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے؟

ان تمام سوالات کے جوابات مختلف گروہوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ محض فلسفہ کی کتابوں ہی میں مختلف نہیں بلکہ عملاً بھی مختلف ہیں۔ یہ ساری انسانوں کی بھیڑ جو آپ کے سامنے تمدنِ انسانی کی گاڑی کو چلا رہی ہے، جس میں سلطنتوں کو چلانے والے وزیر، فوجوں کو لڑانے والے جنرل، انسانوں کے درمیان فیصلہ کرنے والے جج، انسانی معاملات کے قانون بنانے والے شارعین (Legislators) ،انسانوں کو تیار کرنے والے معلم، انسان کے معاشی ذرائع کو کنٹرول کرنے والے کاروباری لوگ، اور تمدن کے کارخانے میں کام کرنے والے مختلف مدارج کے کارکن، سب ہی شامل ہیں ، ان کے پاس بھلائی کا کوئی ایک معیار نہیں ہے، بلکہ ہر ایک شخص اور ہر ایک گروہ اپنا الگ معیار رکھتا ہے اور ایک تمدنی نظام میں کام کرتے ہوئے بھی ہر ایک کا رُخ ایک الگ مقصود کی طرف پھرا ہوا ہے۔ کسی کے نزدیک اپنی خوشی منتہا ہے اور خوشی سے اس کی مراد نفسانی و جسمانی خواہشات کی تکمیل ہے۔ کوئی اپنی خوشی کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کے ذہن میں خوشی سے کچھ اور مراد ہے۔ اس ذاتی خوشی کے حصول اور عدم حصول ہی کے لحاظ سے وہ فیصلہ کر رہا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے لیے کون سا طرزِ عمل نیک ہے یا بد۔ مگر اُس کی ظاہری شریفانہ صورت سے ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کے لیے وہ ایک موزوں وزیر یا جج، یا معلم یا کسی دوسری حیثیت سے تمدن کی مشین کا ایک اچھا پُرزہ ہے۔ اسی طرح کوئی خوشی سے مراد انسانوں کے اس مخصوص مجموعہ کی خوشی و خوش حالی سمجھتا ہے جس کے ساتھ اس کی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور یہی اس کے نزدیک وہ برتر چیز ہے جس کے حصول کی سعی کرنا اس کے نزدیک نیکی ہے۔ یہ نقطۂ نظر اُسے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا ہر ایک کے لیے سانپ اور بچھو بنا دیتا ہے۔ لیکن ہم اس کی ظاہری مہذب صورت کی وجہ سے اس کو ایک شریف انسان فرض کر لیتے ہیں۔ اور وہ امانتیں اس کے حوالے کر دیتے ہیں جن میں اس کے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا دوسروں کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی مختلف اقسام کی شخصیتیں کمال کو خیرِ اعلیٰ ماننے والوں اور فرض برائے فرض کے قائلین میں بھی پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر کے نظریات اپنے عملی نتائج کے اعتبار سے انسانی تہذیب و تمدن کے لیے زہر کا حکم رکھتے ہیں ، مگر وہ تریاق کا لیبل لگائے ہوئے ہماری اجتماعی زندگی میں جذب ہوئے چلے جا رہے ہیں۔

(۲) اب آگے چلیے۔ فلسفۂ اخلاق کے بنیادی سوالات میں سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس خیر و شر کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے؟ کس ماخذ کی طرف ہم یہ معلوم کرنے کے لیے رجوع کریں کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا، صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟

اس سوال کا بھی کوئی ایک جواب انسان کو نہیں ملا۔ اس کے بھی بہت سے جوابات ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ ذریعہ اور ماخذ انسانیت کا تجربہ ہے، کسی کے نزدیک قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا علم ہے، کسی کے نزدیک وجدان ہے، کسی کے نزدیک عقل ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ بدنظمی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جس کا آپ نے پہلے سوال کے معاملہ میں مشاہدہ کیا۔ ان چیزوں کو مآخذ قرار دینے کے بعد اخلاق کے لیے مستقل اصول ہی یہ قرار پا جاتا ہے کہ اس کا کوئی متعین معیار نہ ہو، بلکہ وہ ایک سیال مادے کی طرح بہتا اور مختلف صورتوں اور پیمانوں میں ڈھلتا چلا جائے۔

انسانیت کے تجربے سے صحیح علم حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کے متعلق مکمل اور مفصل معلومات یکجا جمع ہوں اور کوئی ہمہ بیں اور کامل متوازن ذہن ان سے نتائج اخذ کرے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں حاصل نہیں ہیں۔ اول تو انسانیت کا تجربہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جاری ہے۔ پھر اب تک کا جو تجربہ ہے اس کے بھی مختلف اجزا مختلف لوگوں کے سامنے ہیں اور وہ مختلف طور پر اپنی ذہنیت کے مطابق ان سے نتائج نکال رہے ہیں۔ تو کیا ان ناقص معلومات سے مختلف نامکمل ذہن اپنے رجحانات کے مطابق جو نتائج بھی اخذ کر لیں وہ سب صحیح ہو سکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو کیسے سخت بیمار ہیں وہ ذہن جو اپنے خیر و شر کو جاننے کے لیے اس ذریعۂ علم کو کافی سمجھتے ہیں۔

یہی معاملہ قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا ہے۔ یا تو آپ اخلاقی بھلائی اور برائی کو جاننے کے لیے اس وقت کا انتظار کریں جب ان قوانین اور حالات کا علم قابلِ اطمینان حد تک آپ کی گرفت میں آ جائے یا نہیں تو ناکافی معلومات کو ناکافی جانتے ہوئے انہی کی بنیا د پر مختلف ذہنیت اور مختلف مراتب علمی کے لوگ مختلف طور پر فیصلے کرتے رہیں کہ اُن کے لیے خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ اور علم کی ہر نئی قسط حاصل ہونے کے بعد ان فیصلوں کو بدلتے بھی رہیں حتیٰ کہ آج کا خیر کل کا شر ہو جائے اور آج کا شر کل خیر قرار پائے۔

عقل اور وجدان کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ بلاشبہ خیر و شر کو جاننے کی کچھ استعداد عقل کو بھی حاصل ہے اور اس عقل سے ہر انسان نے کچھ نہ کچھ حصہ پایا ہے اور خیر و شر کا کچھ علم وجدانی بھی ہے جس کا الہام ہر انسان کے ضمیر پر فطرتاً ہوتا ہے۔ لیکن اس علم کے لیے ان میں سے کوئی بھی کافی بالذات نہیں کہ اسی کو آخری اور واحد ذریعۂ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ عقل یا وجدان جس کو بھی آپ کافی بالذات سمجھیں گے، بہرحال ایک ایسے ذریعۂ علم پر آپ اعتماد کریں گے جو نہ صرف یہ کہ اپنی فطرت میں ناقص و محدود ہے، بلکہ وہ مختلف اشخاص، مختلف طبقوں ، مختلف حالات اور مختلف زمانوں میں پہنچ کر بالکل مختلف چیزوں پر خیر یا شر ہونے کا حکم لگاتا ہے۔

یہ ساری بدنظمی جس کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، محض علمی مقالات اور فلسفیانہ بحثوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فی الواقع دنیا کے تمدن و تہذیب میں عملاً اس کا عکس پوری طرح نمایاں ہو رہا ہے۔ آپ کے تمدن میں جو لوگ کام کر رہے ہیں ، خواہ وہ کارفرمائی کے مقام پر ہوں ، یا کارکنی کے مقام پر، یا کارفرماؤں اور کارکنوں کے بنانے میں لگے ہوئے ہیں ، یہ سب خیر و شر اور صحیح و غلط جاننے کے لیے اپنے اپنے طور پر انہی مختلف ماخذوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں ، اور ہر شخص اور ہر گروہ کا خیر و شر دوسرے کے خیر و شر سے الگ ہے، حتیٰ کہ ایک کا خیر دوسرے کا انتہائی شر ہے اور ایک کا شر دوسرے کا انتہائی خیر۔ اس بدنظمی نے اخلاق کے لیے کوئی پائیدار بنیاد باقی ہی نہیں رہنے دی ہے۔ جن چیزوں کو دنیا میں ہمیشہ سے جرم اور گناہ سمجھا جاتا رہا ہے آج کسی نہ کسی گروہ کی نگاہ میں وہ عین خیر ہیں یا مطلقاً خیر نہیں تو اضافی خیر بن گئی ہیں۔ اسی طرح جن بھلائیوں کو ہمیشہ سے انسان خوبی سمجھتا رہا ہے ان میں سے اکثر آج حماقت اور مضحکہ قرار پا چکی ہیں اور مختلف گروہ ان کو شرم کے ساتھ نہیں بلکہ فخر کے ساتھ علانیہ پامال کر رہے ہیں۔ پہلے جھوٹا جھوٹ بولتا تھا مگر معیار اخلاق سچائی ہی کو مانتا تھا، لیکن آج کے فلسفوں نے جھوٹ کو خیر بنا دیا ہے اور جھوٹ بولنے کا ایک مستقل فن مدوّن کیا جا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر قومیں اور سلطنتیں جھوٹ پھیلا رہی ہیں۔ یہی حال ہر بد اخلاقی کا ہے کہ پہلے بد اخلاقیاں ، بد اخلاقیاں ہی تھیں مگر آج نئے فلسفوں کے طفیل وہ سب مطلق یا اضافی خیر میں تبدیل کر دی گئی ہیں۔

(۳) فلسفۂ اخلاق کے بنیادی سوالات میں سے تیسرا سوال یہ ہے کہ قانون اخلاق کے پیچھے وہ قوت کون سی ہے جس کے زور سے یہ قانون نافذ ہو؟ اس کے جواب میں مسرت اور کمال کے پرستار کہتے ہیں کہ خوشی یا کمال کی طرف لے جانے والی بھلائیاں اپنی پیروی کرانے کی طاقت آپ ہی اپنے اندر رکھتی ہیں اور رنج یا پستی کی طرف لے جانے والی برائیاں آپ اپنے ہی زور پر اپنے سے اجتناب کرا لیتی ہیں۔ اس کے سوا قانونِ اخلاق کے لیے کسی خارجی اقتدار کی ضرورت ہی نہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قانونِ فرض انسان کے ارادۂ معقول کا اپنے اوپر عائد کیا ہوا قانون ہے، اس کے لیے کسی بیرونی زور کی حاجت نہیں۔ تیسرا گروہ سیاسی اقتدار کو قانونِ اخلاق کی اصل قوت نافذہ سمجھتا ہے اور اس مسلک کی رُو سے اسٹیٹ کی طرف وہ تمام اختیارات منتقل ہو جاتے ہیں جو پہلے خدا کے لیے تھے، یعنی باشندوں کے حق میں یہ فیصلہ کرنا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے۔ چوتھے گروہ نے یہ مرتبہ اسٹیٹ کے بجائے سوسائٹی کو دیا ہے۔ یہ سب جوابات فساد کی بے شمار صورتیں دنیا میں عملاً پیدا کر چکے ہیں اور اب تک کر رہے ہیں۔ پہلے دونوں جوابوں نے انفرادی خودسری و بے راہ روی یہاں تک بڑھا دی کہ اجتماعی زندگی کا شیرازہ درہم برہم ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر اس کا رد عمل اُن فلسفوں کی صورت میں رونما ہوا جنہوں نے یا تو اسٹیٹ کو خدا بنا کر افراد کو بالکل اس کا بندہ بنا ڈالا، یا پھر افراد کی روٹی کے ساتھ ان کے خیر و شر کی باگیں بھی معاشرے کے ہاتھوں میں دے دیں ، حالانکہ سبوح و قدوس نہ اسٹیٹ ہے نہ معاشرہ۔

(۴) یہی معاملہ اس سوال کے جواب میں پیش آتا ہے کہ وہ کون سا محرک ہے جو انسان کو اپنے طبعی رجحانات کے علی الرغم اخلاقی احکام کی پابندی پر آمادہ کرے؟ کسی کے نزدیک بس خوشی کی طمع اور رنج و تکلیف کا خوف اس کے لیے کافی محرک ہے۔ کوئی محض کمال کی خواہش اور نقص سے بچنے کی تمنا کو اس کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ کوئی اس کے لیے محض آدمی کے اپنے جذبۂ احترام قانون پر اعتماد کرتا ہے۔ کوئی اسٹیٹ کے اجر کی امید اور اس کے غضب کو اہمیت دیتا ہے۔ اور کوئی معاشرے کے اجر اور اس کے غضب کو طمع و خوف کے لیے استعمال کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ ان میں سے ہر جواب کو عملاً ہمارے اخلاقی نظامات میں سے کسی نہ کسی کے اندر تقدم کا مقام حاصل ہے اور تھوڑا سا تجسس کرنے پر یہ حقیقت بآسانی کھل سکتی ہے کہ یہ سب محرکات بد اخلاقی کے لیے بھی اتنے ہی اچھے محرک بن سکتے ہیں جتنے خوش اخلاقی کے لیے۔ بلکہ ان میں بد اخلاقی کے لیے محرک بننے کی قوت بہت زیادہ ہے، اور بہرحال کسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقیات کے لیے تو یہ تمام محرکات قطعاً ناکافی ہیں۔

یہ بہت مختصر جائزہ جو میں نے دنیا کی موجودہ اخلاقی حالت کا لیا ہے اس سے بیک نظریہ محسوس ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اِس وقت ایک ہمہ گیر اخلاقی انتشار پایا جاتا ہے۔ خدا سے بے نیاز ہو کر انسان کوئی ایسی بنیاد نہیں پا سکا جس پر وہ قابلِ اطمینان طریقے سے اپنے اخلاق کی تعمیر کرتا۔ اخلاق کے سارے بنیادی سوالات اس کے لیے حقیقتہً لاجواب ہو کر رہ گئے۔ نہ وہ اس خیرِ برتر کا کہیں سراغ لگا سکا جو اس کی کوششوں کا منتہا بننے کے قابل ہوتی اور جس کے لحاظ سے اعمال کے نیک یا بد اور صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا۔ نہ اسے وہ ماخذ کہیں ہاتھ لگا جس سے وہ صحیح طور پر معلوم کر سکتا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا۔ نہ اسے وہ اقتدار فراہم کرنے میں کامیابی ہوئی جس کی بنا پر اخلاق کے کسی بلند، جامع اور عالمگیر ضابطہ کو قوتِ نفاذ حاصل ہوتی اور نہ اسے کوئی ایسا محرک مل سکا جو انسانوں میں راستی پر عمل کرنے اور نا راستی سے پرہیز کرنے کے لیے حقیقی آمادگی پیدا کرنے کے قابل ہو۔ خدا سے بغاوت کر کے انسان نے خودسری کے ساتھ ان سوالات کو حل کرنا چاہا اور اپنے نزدیک حل کیا بھی، مگر یہ اسی حل کے پیدا کردہ نتائج ہیں جو آج ہم کو اخلاقی تنزل کے ایک خوفناک طوفان کی شکل میں اٹھتے اور پوری انسانی تہذیب کو تباہی کی دھمکیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔

کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اس بنیاد کو تلاش کریں جس پر انسانی اخلاق کی صحیح تعمیر ہو سکے؟ فی الواقع یہ تلاش و جستجو محض ایک علمی بحث نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی کی ایک عملی ضرورت ہے اور وقت کی نزاکت نے اس کو اہم ترین ضرورت بنا دیا ہے۔ اسی لحاظ سے میں اپنی تلاش کے نتائج پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو لوگ اس ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں وہ نہ صرف میرے ان نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کریں بلکہ خود بھی سوچیں کہ اخلاقِ انسانی کے لیے آخر کون سی بنیاد صحیح ہو سکتی ہے۔

انسانی اخلاق کی صحیح بنیادیں

میں اپنی تلاش و تحقیق سے جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ اخلاق کے لیے صرف ایک ہی بنیاد صحیح ہے اور وہ اسلام فراہم کرتا ہے۔ یہاں فلسفۂ اخلاق کے تمام بنیادی سوالات کا جواب ہم کو ملتا ہے اور ایسا جواب ملتا ہے جس کے اندر وہ کمزوریاں موجود نہیں ہیں جو فلسفیانہ جوابات میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں مذہبی اخلاقیات کی اُن کمزوریوں میں سے بھی کوئی کمزوری موجود نہیں ہے جن کی وجہ سے وہ نہ کسی مستحکم سیرت کی تعمیر کر سکتے ہیں اور نہ انسان کو تمدن کی وسیع ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہاں ایک ایسی ہمہ گیر اخلاقی رہنمائی ملتی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کے انتہائی ممکن درجات تک ہمیں لے جا سکتی ہے۔ یہاں وہ اخلاقی اصول ہم کو ملتے ہیں جن پر ایک صالح ترین نظامِ تمدن قائم ہو سکتا ہے اور اگر ان اصولوں پر انفرادی و اجتماعی کردار کی بنا رکھی جائے تو انسانی زندگی اس فساد سے محفوظ رہ سکتی ہے جس سے وہ اس وقت دوچار ہے۔

اس نتیجہ پر میں کن دلائل سے پہنچا ہوں ؟ اس کی مختصر تشریح میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔

فلسفہ جس مقام سے اپنی اخلاقی بحث شروع کرتا ہے درحقیقت وہ اخلاق کے مسئلے کا سرا نہیں ہے بلکہ بیچ کے چند نقطے ہیں ، جنہیں سرے کو چھوڑ کر اُس نے نقطۂ آغاز بنا لیا ہے اور یہی اس کی پہلی غلطی ہے۔ یہ سوال کہ انسان کے لیے کردار کی صحت و غلطی کا معیار کیا ہے اور وہ کون سی بھلائی ہے جس کو پہنچنے کی سعی انسان کے لیے مقصود بالذات ہونی چاہیے، دراصل یہ بعد کا سوال ہے۔ اس سے پہلے جو سوال حل ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ یہ سوال اس لیے تمام سوالات پر مقدم ہے کہ حیثیت کے تعین کے بغیر اخلاق کا سوال محض بے معنی ہی نہیں ہو جاتا بلکہ اس میں بیشتر امکان اس امر کا ہوتا ہے کہ اس طرح جو اخلاقیات متعین کیے جائیں گے وہ بنیادی طور پر غلط ہوں گے۔ مثلاً کسی جائیداد کے متعلق آپ کو یہ طے کرنا ہے کہ اس میں کس طرح مجھے کام کرنا چاہیے اور کس قسم کے تصرفات میرے لیے حق ہیں اور کس قسم کے تصرفات باطل۔ کیا آپ اس سوال کو صحیح طور پر حل سکتے ہیں تاوقتیکہ پہلے اس بات کا تعین نہ کر لیں کہ اس جائیداد میں آپ کی حیثیت کیا ہے اور اس سے آپ کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اگر یہ جائیداد کسی دوسرے کی ملکیت ہے اور آپ اس میں امین کی حیثیت رکھتے ہیں تو آپ کے لیے اس میں اخلاقی طرز عمل کی نوعیت کچھ اور ہو گی اور اگر آپ خود اس کے مالک ہیں اور اس پر آپ کے مالکانہ اختیارات غیر محدود ہیں تو آپ کے اخلاقی طرزِ عمل کی نوعیت بالکل دوسری ہو جائے گی۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ حیثیت کا سوال اخلاقی طرزِ عمل کی نوعیت کے معاملہ میں فیصلہ کُن ہے بلکہ درحقیقت اسی پر اس امر کے فیصلہ کا بھی انحصار ہے کہ اس جائیداد میں آپ کے لیے طرزِ عمل متعین کرنے کا حق دار کون ہے؟ آپ خود یا وہ جس کے آپ امین ہیں ؟

اسلام سب سے پہلے اسی سوال کی طرف توجہ کرتا ہے اور ہمیں بالکل واضح طور پر شائبۂ اشتباہ کے بغیر یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کی حیثیت خدا کے بندے اور نائب کی ہے۔ یہاں انسان کو جتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے وہ سب خدا کی ملک ہیں۔ حتیٰ کہ انسان کا اپنا جسم اور وہ تمام قوتیں بھی جو اس جسم میں بھری ہوئی ہیں ، انسان کی اپنی مِلک نہیں ہیں بلکہ خدا کی ملک ہیں۔ خدا نے اس کو ان تمام چیزوں پر تصرف کرنے کے اختیارات دے کر یہاں اپنے نائب کی حیثیت سے مامور کیا ہے، اور اس ماموریت میں اُس کا امتحان ہے۔ امتحان کا آخری نتیجہ اس دنیا میں نہیں نکلے گا بلکہ جب افراد کا، قوموں کا، اور پوری نوع انسانی کا کام ختم ہو چکے گا اور انسانوں کی مساعی کے اثرات و نتائج پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گے، تب خدا بیک وقت ان سب کا حساب لے گا اور اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کس نے اس کی بندگی اور نیابت کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کیا ہے اور کس نے نہیں کیا۔ یہ امتحان کسی ایک امر میں نہیں بلکہ تمام امور میں ہے۔ کسی ایک شعبۂ زندگی میں نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پوری زندگی میں ہے۔ نفس و جسم کی جتنی قوتیں انسان کو دی گئی ہیں سب کا امتحان ہے۔ اور خارج میں جن جن چیزوں پر جس جس طرح کے اختیارات اسے عطا کیے گئے ہیں ، ان سب میں بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح ان پر اپنا اختیار استعمال کرتا ہے۔

حیثیت کے اس تعین کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں اپنے لیے اخلاقی طرز عمل کے تعین کا حق ہی سرے سے انسان کو حاصل نہیں رہتا، بلکہ اس کا فیصلہ کرنا خدا کا حق ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد فلسفۂ اخلاق کے وہ تمام سوالات جن کو فلسفیوں نے چھیڑا ہے، نہ صرف یہ کہ حل ہو جاتے ہیں بلکہ اس امر کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ایک ایک سوال کے چھتیس چھتیس جوابات ہوں ، اور ایک ایک جواب پر انسانوں کا ایک ایک گروہ اخلاق کے ایک جداگانہ رُخ پر چل پڑے، اور ایک ہی تمدنی و اجتماعی زندگی میں رہتے ہوئے یہ مختلف سمتوں پر چلنے والے لوگ اپنی بے راہ رَوِیوں سے بدنظمی، انتشار اور فساد برپا کریں۔ اگر انسان کی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا جائے جو اسلام نے قرار دی ہے تو یہ بات خود متعین ہو جاتی ہے کہ خدا کے امتحان میں کامیاب ہونا اور اس کی رضا کو پہنچنا ہی وہ بلند ترین بھلائی ہے جو مقصود بالذات ہونی چاہیے اور کسی طرز عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا مدار اسی امر پر ہے کہ وہ اس بھلائی کے حصول میں کہاں تک مددگار یا مانع ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی یہیں سے متعین ہو جاتی ہے کہ انسان کے لیے نیک اور بد، صحیح اور غلط کے علم کا اصل ماخذ خدا کی ہدایت ہے اور اس کے سوا دوسرے ذرائع علم اس اصل ماخذ کے مددگار تو بن سکتے ہیں مگر خود اصل ماخذ نہیں بن سکتے۔ نیز یہ امر بھی طے ہو جاتا ہے کہ قانون اخلاق کے واجب الاطاعت ہونے کی اصل بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ خدا کا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔ اور یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ اچھے اخلاق کی پابندی اور بُرے اخلاق سے اجتناب کے لیے اصل محرک خدا کی محبت، اور اس کی رضا کی طلب اور اس کی ناراضگی کا خو ف ہونا چاہیے۔

پھر نہ صرف یہ کہ اس سے فلسفۂ اخلاق کے سارے اصولی سوالات حل ہو جاتے ہیں بلکہ درحقیقت اس بنیاد پر جو اخلاقی سسٹم بنتا ہے اس کے اندر نہایت متوازن اور متناسب طریقے سے وہ تمام اخلاقی سسٹم اپنی اپنی موزوں جگہ پا لیتے ہیں جو فلسفۂ اخلاق کے مفکرین نے تجویز کیے ہیں۔ فلسفیانہ اخلاقی نظاموں کی اصل قباحت یہ نہیں ہے کہ ان میں حقیقت و صداقت کا جز و بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کی اصل قباحت یہ ہے کہ انہوں نے صداقت کے ایک جز کو لے کر پوری صداقت بنا لیا ہے۔ اس لیے جز کے کل بننے میں جس قدر زائد کی ضرورت پڑتی ہے اس کی تکمیل کے لیے لامحالہ انہیں باطل کے بہت سے اجزاء لینے پڑتے ہیں۔ اسلام اس کے برعکس پوری صداقت پیش کرتا ہے اور اس کی کُل صداقت میں وہ تمام جزئی صداقتیں جذب ہو جاتی ہیں جو لوگوں کے پاس الگ الگ تھیں اور ناقص تھیں۔

یہاں خوشی کا بھی ایک مقام ہے، مگر اس سے مراد وہ خوشی و خوشحالی ہے جو خدا کے قانون کی پیروی سے اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہو، اور یہ خوشی و خوشحالی جسمانی و مادی بھی ہے، ذہنی و نفسی بھی، آرٹسٹک اور روحانی بھی۔ نیز یہ خوشی و خوشحالی فرد کی بھی ہے، جماعت کی بھی اور تمام انسانیت کی بھی۔ ان مختلف خوشیوں میں تصادم نہیں بلکہ تو افُق ہے۔

یہاں کمال کا بھی ایک مقام ہے ، مگر وہ کمال جو خدا کے امتحان میں سو فیصدی نمبر پانے کا مستحق ہو، اور یہ فرد کا، جماعت کا، قوم کا، پوری انسانیت کا، غرض سب ہی کا کمال ہے۔ صحیح اخلاقی طرزِ عمل وہ ہے جس سے ہر فرد نہ صرف خود کمال کی طرف ترقی کرے بلکہ دوسروں کی تکمیل میں بھی مددگار ہو۔ کوئی کسی کی تکمیل میں مزاحم نہ ہو۔

یہاں کانت کے ’’قطعی واجب الاطاعت‘‘ (Categorical Imperative) کو پوری عزت کی جگہ مل جاتی ہے، اور اس جہاز کو وہ لنگر بھی مل جاتا ہے جس کے بغیر یہ فلسفہ کے دریا میں ڈگمگا رہا تھا۔ جس قطعی واجب الاطاعت قانون کا ذکر کانت نے کیا ہے اور جس کی وہ خود کوئی توضیح نہ کر سکا،در اصل وہ خدا کا قانون ہے۔ خدا کی طرف سے اس کی صورت معین کی گئی ہے۔ خدا ہی کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے اور اس کی بے چون و چرا اطاعت کا نام نیکی ہے۔

اسی طرح یہاں اخلاقی خیر و شر کے علم کا جو ماخذ ہمیں بتایا گیا ہے، وہ ان دوسرے ذرائع علم کی نفی نہیں کرتا، جن کی طرف فلاسفہ رجوع کرتے ہیں ، بلکہ ان سب کو ایک سسٹم کا جُز بنا لیتا ہے۔ البتہ وہ نفی، جس چیز کی کرتا ہے، وہ صرف یہ بات ہے کہ انہیں ، یا ان میں سے کسی ایک کو اصلی اور آخری ذریعۂ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ خدا کی ہدایت کے ذریعہ سے خیر و شر کا جو علم ہمیں بخشا گیا ہے، وہ اصل علم ہے۔ رہا تجربی علم، قوانین حیات اور حالاتِ وجود سے استنباط کیا ہوا علم، عقلی علم، اور وجدانی علم، تو یہ سب اس اصلی علم کے شواہد ہیں۔ جن چیزوں کو خدا کی ہدایت خیر کہتی ہے، انسانیت کا تجربہ ان کے خیر ہونے پر شہادت دیتا ہے۔ قوانین حیات اس کی تصدیق کرتے ہیں ، عقل اور وجدان دونوں اس پر گواہ ہیں۔ لیکن معیارِ صداقت خدائی ہدایت ہی ہے نہ کہ یہ ذرائع علم۔ انسانیت کے تاریخی تجربات سے یا قوانین حیات سے اگر کوئی ایسا استنباط کیا جائے یا عقل اور وجدان سے کوئی ایسی رائے قائم کی جائے جو خدا کی ہدایت کے خلاف ہو تو اصل اعتبار خدا کی ہدایت کا کیا جائے گا، نہ کہ اس استنباط یا اس رائے کا۔ ہمارے پاس علم کے ایک مستند معیار ہونے کا فائدہ ہی یہ ہے کہ ہمارے علوم میں ڈسپلن پیدا ہو اور ہم اس انارکی اور بدنظمی سے بچ جائیں جو کسی معیار کے نہ ہونے اور اعجاب کل ذی رایٍ برأیہ سے پیدا ہوتی ہے۔

اسی طرح یہاں قانونِ اخلاق کی پشتیبان قوت (Sanction) اور محرکات کا مسئلہ بھی اس طور پر حل ہوتا ہے کہ اس سے ان دوسری چیزوں کی نفی نہیں ہوتی۔ جو فلسفیوں نے تجویز کی ہیں ، بلکہ صرف ان کی تصحیح ہو جاتی ہے، اور جن غلط حدود پر وہ پھیلا دی گئی ہیں یا خود پھیل جاتی ہیں وہاں سے ان کو ہٹا کر ایک جامع سسٹم میں ٹھیک مقام پر رکھ دیا جاتا ہے۔ خدا کا قانون، اس لیے کہ وہ خدا کا قانون ہے ،اپنے قیام کی طاقت آپ اپنے اندر رکھتا ہے، اور یہ طاقت اس مومن کے نفس میں بھی موجود ہے جو خدا کی رضا چاہنے میں خوشی محسوس کرتا ہے اور خود اس کمال کا طالب ہے جو خدا کی طرف بڑھنے سے حاصل ہو۔ نیز یہ طاقت مومنین کی سوسائٹی اور اس صالح ریاست میں بھی موجود ہے، جو خدا کے قانون پر مبنی ہو۔ قانون کی پابندی پر مومن کو آمادہ کرنے والی چیز اس کی خالص فرض شناسی بھی ہے، اس کا حق کو حق جانتے ہوئے اسے پسند کرنا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے اس سے نفرت کرنا بھی ہے، اور وہ طمع اور خوف بھی ہے جو وہ اپنے خدا سے رکھتا ہے۔

اسلامی تصور اخلاق کا انسانی زندگی پر اثر

دیکھیے، اس طرح اسلام اُس پوری فکری اور عملی انارکی کو ختم کر دیتا ہے جو انسان کو بے خدا فرض کر کے اس کے لیے ایک نظامِ اخلاق تجویز کرنے کی کوششوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آگے چلیے۔ اسلام خدا کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا ہی انسان کا اور ساری کائنات کا واحد مالک، خالق، معبود اور حاکم ہے۔ اس خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ اس کے ہاں بجُز دعائے خیر کے کسی ایسی سفارش کی گنجائش بھی نہیں جو زور سے منوائی جاتی ہو اور رد نہ کی جا سکتی ہو۔ اس کے ہاں ہر شخص کی کامیابی و ناکامی کا مدار اس کے اپنے طرزِ عمل پر ہے۔ نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکتا ہے، نہ کسی کے عمل کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالی جاتی ہے، اور نہ کسی کے عمل کا صلہ دوسرے کو ملتا ہے۔ اس کے ہاں جانبداری نہیں ہے کہ ایک شخص یا خاندان یا قوم یا نسل سے اس کو دوسرے کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی ہو۔ سب انسان اس کی نگاہ میں یکساں ہیں۔ سب کے لیے ایک ہی قانون اخلاق ہے اور فضیلت جو کچھ بھی ہے اخلاقی فضیلت کے اعتبار سے ہے۔ وہ خود رحیم ہے اور رحم کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود فیاض ہے اور فیاضی کو پسندکرتا ہے۔ وہ خود غفور ہے اور درگزر کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود عادل ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے۔ وہ ظلم سے، تنگ نظری و تنگ دلی سے، بے رحمی و سنگ دلی سے تعصب اور نفسانی جانب داری سے پاک ہے، اس لیے انہی کو پسند کرتا ہے جو ان صفات سے پاک ہوں۔ پھر کبریائی تنہا اس کا حق ہے اس لیے تکبر اسے ناپسند ہے۔ خدا ئی صرف اسی کے لیے ہے، اور دوسرے سب اس کے بندے ہیں ، اس لیے ایک بندے پر دوسرے کی خداوندی اس کو پسند نہیں۔ مالک و ہ اکیلا ہے اور دوسروں کے پاس جو کچھ ہے امانت کی حیثیت سے ہے، اس لیے کسی بندے کی خودمختاری اور کسی کا کسی کے لیے قانون بنانا اور کسی کا کسی کے لیے بذاتِ خود واجب الاطاعت ہونا یہ سب فی الحقیقت غلط ہے۔ سب کا مطاع وہی ایک ہے اور سب کے لیے خیر اسی میں ہے کہ اس کی بے چون و چرا اطاعت کریں۔ پھر وہ محسن ہے اور شکر، احسان مندی اور محبت کا مستحق ہے۔ وہ منعم ہے اور اس کا حق دار ہے کہ اس کی نعمتوں میں اسی کے منشاء کے مطابق تصرف کیا جائے۔ وہ منصف ہے اور لازم ہے کہ انسان اس کے انصاف میں سزا پانے کا خوف اور جزا پانے کی طمع رکھے۔ وہ علیم و خبیر ہے اور دلوں کی چھپی ہوئی نیتوں سے بھی واقف ہے اس لیے ظاہری حسنِ اخلاق سے اس کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ وہ محیط ہے اس لیے کوئی یہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ جُرم کر کے اس کی پکڑ سے بچ نکلے گا۔

خدا کے اس تصور پر غور کیجیے۔ اس سے بالکل ایک فطری نتیجہ کے طور پر انسان کے لیے ایک مکمل اخلاقی زندگی کا نقشہ وجود میں آتا ہے اور وہ نقشہ ان تمام کمزوریوں سے خالی ہے جو مشرکانہ مذاہب کے اخلاقیات اور دہریانہ مسلکوں کے اخلاقیات میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں نہ تو اخلاقی ذمہ داریوں سے بچ نکلنے کے چور دروازے کہیں موجود ہیں ، نہ ان ظالمانہ فلسفوں کے لیے کوئی جگہ ہے جن کی بنا پر انسان اپنی دلچسپیوں کے لحاظ سے عالمِ انسانیت کو تقسیم کر کے ایک حصہ کے لیے مجسم فرشتہ اور دوسرے حصہ کے لیے مجسم شیطان بن جاتا ہے۔ نہ دہریانہ اخلاقیات کی وہ بنیادی کمزوریاں اس میں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اخلاق میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔ ان سلبی خوبیوں کے ساتھ اس نقشہ میں یہ ایجابی خوبی موجود ہے کہ یہ اخلاقی فضیلت کا ایک بلند ترین اور وسیع ترین منتہا پیش کرتا ہے جس کی وسعت اور بلندی کی کوئی حد نہیں اور اس منتہا کی طرف بڑھنے کے لیے ایسے محرکات فراہم کرتا ہے جو پاکیزہ ترین ہیں۔

پھر یہ تصور کہ امتحان کسی ایک چیز میں نہیں بلکہ ان تمام چیزوں میں ہے جو خدا نے انسان کو دی ہیں ، کسی ایک حیثیت میں نہیں بلکہ ان تمام حیثیتوں میں ہے جو انسان کو یہاں حاصل ہیں ، اور کسی ایک شعبۂ حیات میں نہیں ، بلکہ پوری زندگی میں ہے،یہ اخلاق کے دائرے کو اتنا ہی پھیلا دیتا ہے جتنا امتحان کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ انسان کی عقل اس کے ذرائع علم، اس کی ذہنی و فکری قوتیں ، اس کے حواس، اس کے جذبات، اس کی خواہشات، اس کی جسمانی طاقتیں ، سب کے سب امتحان میں شریک ہیں ، یعنی امتحان آدمی کی پوری شخصیت کا ہے، پھر خارج کی دنیا میں جن جن اشیاء سے آدمی کو سابقہ پیش آتا ہے، جن اشیاء پر وہ تصرف کرتا ہے، جن انسانوں سے مختلف طور پر اس کو واسطہ پڑتا ہے، ان سب کے ساتھ اس کے برتاؤ میں امتحان ہے اور سب سے بڑھ کر اس امر میں امتحان ہے کہ انسان یہ سب کچھ خدا کی خداوندی اور اپنی عبدیت و نیابت کے احساس کے ساتھ کر رہا ہے یا آزادی و مختاری کی ہوا میں مبتلا ہو کر؟ یا خدا کے سوا دوسروں کا بندہ بن کر؟ اس وسیع ترین تصور اخلاق میں وہ تنگی نہیں ہے جو مذہب کے محدود تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ آدمی کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھاتا ہے۔ ہر میدان کی اخلاقی ذمہ داریاں اسے بتاتا ہے، اور وہ اخلاقی اصول اسے دیتا ہے، جن کی پیروی کرنے سے وہ خدا کے اُس امتحان میں کامیاب ہو سکے جو ایک ایک میدانِ زندگی سے متعلق ہے۔

پھر یہ تصور کہ امتحان کا اصلی اور آخری فیصلہ اس زندگی میں نہیں ، بلکہ دوسری زندگی میں ہو گا اور حقیقی کامیابی و ناکامی وہ ہے جو وہاں ہو نہ کہ یہاں ، یہ دنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر انسان کی نظر کو بنیادی طور پر بدل دیتا ہے۔ اس تصور کی وجہ سے وہ نتائج جو اس دنیا میں نکلتے ہیں ، ہمارے لیے حسن و قبح، صحت اور غلطی، حق اور باطل اور کامیابی و ناکامی کے قطعی، اصلی اور آخری معیار نہیں رہتے۔ اس لیے قانونِ اخلاق کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا انحصار بھی ان نتائج پر نہیں ہو سکتا ہے۔ جو شخص اس تصور کو قبول کرے گا، وہ قانونِ اخلاق کی پیروی پر بہرحال ثابت قدم رہے گا خواہ اس دنیا میں اس کا نتیجہ بظاہر اچھا ہو یا برا، کامیابی کی صورت میں نکلتا نظر آئے یا ناکامی کی صورت میں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی نگاہ میں دنیوی نتائج بالکل ہی ناقابل لحاظ ہوں گے بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ وہ اصلی اور آخری لحاظ ان کا نہیں بلکہ آخرت کے پائیدار نتائج کا کرے گا اور اپنے لیے صحیح صرف اُس طرز عمل کو سمجھے گا جو اُن نتائج پر نگاہ رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے۔ وہ کسی چیز کو چھوڑنے اور کسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کرے گا کہ زندگی کے اس ابتدائی مرحلہ میں وہ لذت اور خوشی اور نفع کی موجب ہے یا نہیں۔ بلکہ اس بنیاد پر کرے گا کہ زندگی کے آخری مرحلہ میں اپنے قطعی و حتمی نتائج کے اعتبار سے وہ کیسی ہے۔ اس طرح اس کا نظامِ اخلاق ترقی پذیر تو ضرور رہے گا مگر اس کے اصولِ اخلاق تغیر پذیر نہیں ہوں گے اور نہ اس کی سیرت ہی تلوّن پذیر ہو گی۔ یعنی تمدّن و تہذیب کے نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے اخلاقی تصوّرات میں وسعت تو یقیناً ہو گی، مگر یہ ممکن نہ ہو گا کہ واقعات کی ہر کروٹ اور حالات کی ہر گردش کے ساتھ اخلاق کے اُصول بھی بدلتے جائیں اور آدمی ایک اخلاقی گرگٹ بن کر رہ جائے کہ اس کے اخلاقی رویہّ میں سرے سے کوئی پائیداری ہی نہ ہو۔

پس اخلاق کے نقطۂ نظر سے آخرت کا یہ اسلامی تصور دو اہم فائدے عطا کرتا ہے، جو کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ ایک یہ کہ اس سے اصول اخلاق کو غایت درجہ کا استحکام نصیب ہوتا ہے جس میں تزلزُل کا کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس سے انسان کی اخلاقی سیرت کو وہ استقامت میسر آتی ہے جس میں (بشرطِ ایمان) انحراف کا کوئی اندیشہ نہیں۔ دنیا میں سچائی کے دس مختلف نتیجے نکل سکتے ہیں اور ان پر نگاہ رکھنے والا ایک ابن الوقت انسان مواقع اور امکانات کے لحاظ سے دس مختلف طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن آخرت میں سچائی کا نتیجہ لازماً ایک ہی ہے اور اس پر نظر رکھنے والا ایک مومن انسان دنیوی فائدے اور نقصان کا لحاظ کیے بغیر لازماً ایک ہی طرزِ عمل اختیار کرے گا۔ دنیوی نتائج کا اعتبار کیجیے تو خیر و شر کسی متعین چیز کا نام نہیں رہتا بلکہ ایک ہی چیز اپنے مختلف نتیجوں کے لحاظ سے کبھی خیر اور کبھی شر بنتی رہتی ہے اور اس کے اتباع میں دنیا پرست آدمی کا کردار بھی اپنی پوزیشن تبدیل کرتا رہتا ہے۔ لیکن آخرت کے نتائج پر نظر رکھیے تو خیر اور شر دونوں قطعی طور پر متعین ہو جاتے ہیں ، اور مومن بالآخرۃ آدمی کے لیے یہ ناممکن ہو جاتا ہے کہ کبھی خیر کو  بد انجام یا شرک کو نیک انجام سمجھ کر اپنے کردار کو بدل دے۔

پھر یہ تصور کہ انسان اس دنیا میں خدا کا خلیفہ ہے اور تصرف کے جو اختیارات یہاں اسے حاصل ہیں وہ سب دراصل نائب خدا ہونے کی حیثیت سے ہیں ، انسانی زندگی کے لیے راستے اور مقصد دونوں کا تعین کر دیتا ہے۔ اس تصور سے لازم آتا ہے کہ انسان کے لیے خودمختاری اور بندگیٔ غیر اور خداوندانہ بڑائی کے تمام رویے غلط ہوں اور صرف یہی ایک رویہ صحیح ہو کہ اپنے تمام تصرفات میں وہ خدا کی مرضی کا تابع اور اس کے نازل کردہ اخلاقی قانون کا پابند بن کر رہے۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان ایک طرف تو اپنے اخلاقی رویہ میں ہر ایسے طرزِ عمل سے شدّت اجتناب کرے جس میں خودمختاری و بغاوت کا یا خدا کے سوا کسی اور کی بندگی، یا خداوندانہ کبریائی کا ذرہ برابر شائبہ پایا جاتا ہو، کیوں کہ یہ تینوں چیزیں اس کی نائبانہ حیثیت کے منافی ہیں مگر دوسری طرف خدا کی املاک میں اس کا تصرف، اور خدا کی پیدا کردہ قوتوں میں اس کا برتاؤ، اور خدا کی رعیت میں اس کی فرماں روائی اُس اخلاق اور اُس برتاؤ کے عین مطابق ہو جو اس سلطنت کا اصل مالک اپنے مُلک اور اپنی رعیت میں اختیار کر رہا ہے کیونکہ نائبانہ حیثیت کا فطری اقتضاء یہی ہے کہ نائبِ سلطان کی پالیسی خود سلطان کی پالیسی سے اور نائب سلطان کے اخلاق خود سلطان کے اخلاق سے منافی نہ ہوں۔ نیز اس تصور سے یہ بھی لازم آتا ہے جو قوتیں اللہ نے انسان کو عطا کی ہیں اور جو ذرائع اور وسائل اسے دنیا میں بخشے ہیں ان سب کو استعمال کرنے اور منشائے الٰہی کے مطابق استعمال کرنے پر انسان مامور ہو۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہ نائب سلطان بھی سخت مجرم ہو، جس نے سلطان کے منشاء کے خلاف اس کی مِلک اور اس کی رعیت میں تصرف کیا، اور وہ نائب بھی بڑا مجرم قرار پائے جس نے سلطان کے دیئے ہوئے اختیارات میں سے کسی اختیار کو سرے سے استعمال ہی نہ کیا ہو بلکہ اس کی بخشی ہوئی قوتوں میں سے کسی قوت کو بلاوجہ ضائع کر دیا، اس کے بنائے ہوئے ذرائع و وسائل سے کام لینے میں جان بوجھ کر کوتاہی کی اور اس ڈیوٹی سے منہ موڑ کر کھڑا ہو گیا جس پر سلطان نے اسے مامور کیا تھا۔ نیز اس تصور سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ پوری نوعِ انسانی کی اجتماعی زندگی ایسے ڈھنگ پر قائم ہو کہ سارے انسان، یعنی خدا کے سب خلیفہ، ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں جو خدا نے ان پر عائد کی ہیں ، ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوں ، اور نظام تمدن و عمران میں ایسی کوئی چیز کارفرما نہ رہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کی، یا انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کی خلافت کو عملاً سلب کر لے یا اس کے اجرا میں مانع و مزاحم ہو، بجُز اُس صورت کے جبکہ کوئی انسان خلافت سے محروم ہو کر اپنے حقیقی سلطان سے بغاوت کا مرتکب ہو رہا ہو۔

یہ تو ہے وہ اخلاقی منہاج جو تصورِ خلافت سے ایک لازمی نتیجہ کے طور پر انسان کے لیے بنتی ہے۔ رہا انسان کی اخلاقی زندگی کا مقصد اور اس کی تمام سعی و عمل کا نصب العین تو وہ بھی اسی تصور سے بالکل ایک منطقی لزوم کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔ نائب سلطان کی حیثیت سے انسان کا زمین پر مامور ہونا خودبخود اس بات کا مقتضی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ خدا نے زمین کے انتظام کا جتنا حصہ انسان سے متعلق کیا ہے اس حصہ میں خدا کے قانون کو جاری کرنا، خدا کے منشاء کے مطابق امن اور عدل و صلاح کا نظام قائم کرنا اور قائم رکھنا، اس نظام میں شروفساد کی جو جو صورتیں شیاطین جن و انس پیدا کریں ان کو دبانا اور مٹانا، اور ان بھلائیوں کو زیادہ سے زیادہ نشوونما دینا جو خدا کو محبوب ہیں اور جن سے خداوندِ عالم اپنی زمین اور اپنی رعیت کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے، یہ ہے وہ مقصد جس پر ہر وہ انسان اپنی تمام مساعی کو مرکوز کر دے گا جس کے اندر خلیفۂ الٰہی ہونے کا شعور پیدا ہو چکا ہو۔ یہ مقصد صرف یہی نہیں کہ اُن تمام مقاصد کی نفی کر دیتا ہے جو لذت پرستوں اور مادہ پرستوں اور قوم پرستوں اور دوسرے مہملات کے پرستاروں نے اپنی جگہ کے لیے مقرر کیے ہیں۔ بلکہ یہ اُن لایعنی مقاصد کی بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ نفی کرتا ہے جو روحانیت کے ایک غلط تصور کے تحت اہل مذاہب نے متعین کیے ہیں۔ ان دونوں غلط انتہاؤں کے درمیان خلافتِ الٰہیہ کا تصور انسان کے سامنے ایک ایسا بلند ترین اور پاکیزہ ترین مقصدِ حیات رکھ دیتا ہے جو اس کی قوتوں اور قابلیتوں کو زندگی کے ہر میدان میں بر سرِ کار لاتا ہے اور انہیں ایک صالح ترین نظامِ تہذیب و تمدن کے قیام و ارتقاء کی خدمت میں استعمال کرتا ہے۔

یہ ہیں وہ بنیادیں جو اخلاق انسانی کی تعمیر کے لیے اسلام نے ہم کو دی ہیں۔ اسلام کسی ایک قوم کی جائیداد نہیں بلکہ تمام انسانیت کی مشترک میراث ہے اور سارے انسانوں کی فلاح اس کے پیش نظر ہے۔ اس لیے ہر اُس شخص کو جو اپنی اور انسانیت کی فلاح کا خواہش مند ہو، یہ سوچنا چاہیے کہ آیا انسانی اخلاق کی تعمیر کے لیے یہ بنیادیں بہتر ہیں جو اسلام ہمیں دے رہا ہے یا وہ جو روحانی مذاہب یا فلسفیانہ مسالک ہم کو دیتے ہیں ؟ اگر کسی کا دل گواہی دے کہ اخلاق کے لیے یہی بنیادیں صحیح ہیں تو پھر کوئی جاہلانہ تعصب اُسے ان بنیادوں کے قبول کر لینے میں مانع نہ ہونا چاہیے۔

***

ناشر کی اجازت سے، تشکر: ایم بلال

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید