FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اس نظم میں

 

                میراجی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

مدیر: حیدر قریشی

 

 

ایک

 

 

مندرجہ ذیل نظموں کا جائزہ لیا جائے گا۔

(۱) بوادی کہ درآں خضر را عصا خفت است۔

عطا اللہ سجاد

(ہمایوں )

(۲) طلوع آفتاب

امین حزیں سیالکوٹی

(عالمگیر)

(۳) ایسا کیوں ہوتا ہے۔

سلام مچھلی شہری

(ادب لطیف)

 

بظاہر اردو شعرا کے دو بڑے گروہ اس وقت ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ اپنے کو ترقی پسند سمجھتا ہے اور اس کی اس تقسیم سے باقی تمام شاعر دوسرے گروہ میں آ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے شاعر ترقی پسند نہیں، بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے گروہ میں تالاب کو گندہ کرنے والی مچھلیاں دوسرے گروہ کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔ اس گروہ میں ایسے شعرا کی کثرت ہے، جن کے جذبات و خیالات اپنے نہیں، جن کے اپنے پاس کوئی خیال ایسا نہ تھا، جسے وہ شعر کے ذریعے پیش کرتے اور اس لے  انھوں نے چند تبلیغی باتوں کو، جو نثر میں بہتر طریق پر ادا کی جا سکتی تھیں، ایک سطحی اور کم و بیش غیر موثر انداز میں ظاہر کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن مجھے اس وقت دوسرے گروہ کی کار گزاریوں سے تعلق ہے۔ ان کے کلام میں زندگی محدود ہو کر نہیں رہ گئی۔ یہ جو کچھ کہتے ہیں، فطری تحریک شعر کی بنا پر ہی کہتے ہیں، اسی لے  ان کے کلام میں زندگی کے ایک حقیقت نما بہاؤ کی بے ساختگی ہے۔ عطا ئ اللہ سجاد سر راہے کسی بھکاری لڑکے کی صدا سنتا ہے، ’’عشقے دی گلی وچّوں کوئی کوئی لنگھ‘‘ اور اس کی ذہانت جاگ اٹھتی ہے۔ اسے یاد آتا ہے کہ ایک زمانے میں وہ بھی اس گلی سے نکلا تھا۔

میں نے ایک بار محبت کی تھی۔

لذت اندوز تھا دل غم کی فراوانی سے۔

زندگی میری عبارت تھی غزل خوانی سے

آہ و کیف میں ڈوبے ہوئے دن رات مرے

رفعت عرش پہ رہتے تھے خیالات مرے

کسے معلوم کہ میں نے بھی یہ جراَت کی تھی،

’’وادیِ عشق میں پرواز کی ہمت کی تھی‘‘۔

لیکن اسے احساس ہے کہ ’’عشق کی راہ میں آتے ہیں بہت سخت مقام‘‘ اور اسی لےا اس گلی سے گزرنے والے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔

نارسائی مری تقدیر میں تھی۔

ہمسفر چھوڑ گئے ساتھ مرا۔

تھام لیتا وہیں اے کاش ! کوئی ہاتھ مرا۔

اور ہاتھ کے تھامنے والے کی ضرورت بھی تھی، کیوں کہ

راہ انجانی، نشیب اور فراز

’’منزل دور دراز

تیرگی چاروں طرف اور بلاؤں کا ہجوم

’’راہ رو خستہ المناک نواؤں کا ہجوم‘‘

ایسی حالت میں کہ کوئی سہارا نہ ہو یہ کیفیت لازمی تھی کہ

خوف آلام و شدائد سے میں گھبرا ہی گیا۔

’’میرے ماتھے پہ عرق آ ہی گیا

بزدلی پاؤں کی زنجیر بنی

عزم نے چھوڑ دیا ساتھ تمناؤں کا

وہ مرا جوش سفر ختم ہوا

اور اب طاقت رفتار کہاں

اب سبک گام مرے شوق کا رہوار کہاں

تم نے بھیجا بھی تو کس وقت محبت کا پیام۔

اگرچہ یہ نظم محبت کی ناکامی کا ایک عام نوحہ ہے، لیکن اس میں شاعر جس ترتیب خیال سے حال کو چھوڑ کر ماضی میں کھو گیا ہے، وہ قابل غور ہے۔ راستہ چلتے ہوئے شاعر کسی بھکاری لڑکے کی صدا سنتا ہے کہ ’’عشق کی گلی میں سے ہر کوئی نہیں گزرا کرتا‘‘___وہ ٹھٹھک کر رک جاتا ہے، گویا سڑک پر ایک تنہا ستون ہو، لیکن اس کے ذہن میں حرکت پیدا ہوتی ہے، اس کا ذہن گویا الٹے پاؤں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ ہمیں بھی، اس گلی میں لے جاتا ہے، جہاں شاید کبھی ہمارا بھی گزر ہوا ہو۔

آخری مصرعے پر پہنچ کر شاید شاعر کا ذہن نارسائی، تیرگی، بلاؤں کے ہجوم، آلام و  شدائد اور المناک صداؤں سے بیزار ہو گیا۔ اور اس کے آسودہ نفسی پہلو نے یکایک کروٹ لی۔ ’’تم نے بیجا بھی تو کس وقت محبت کا پیام؟‘‘ ___یوں قاری کا ذہن، جو شاعر کے ساتھ ساتھ اْس کے یا اپنے ماضی کی طرف جا کر گزرے ہوئے زمانے کی یاد میں ڈوب گیا تھا۔ یک دم پھر حال میں آ پہچا۔ حقیقت پرستی کے لحاظ سے یہ پلٹا صحیح نہیں۔ کیوں کہ غیر جانبداری سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’یہ محبت کا پیام‘‘ فریب نفس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یوں فنی لحاظ سے بھی اگر نظم اس مصرع سے پہلے مصرع پر ختم ہو جاتی ( اور اب طاقت رفتار کہاں، اب سبک گام مرے شوق کا رہوار کہاں ) تو ایک ایسی لرزتی ہوئی کیفیت پیدا ہوسکتی، جو ذہن کو ماضی سے دور لے جا کر تینوں زمانوں کی پابندی سے آزاد کر دیتی اور اْن لرزتے ہوئے ماضی میں کھو جاتے ہوئے سروں کا اثر زیادہ ہوتا۔

عطا اللہ سجاد نوحہ کناں تو نہیں، لیکن ایک حسرت بھرے انداز سے سوچ رہا تھا کہ محبت کا سورج چھپ گیا۔ لیکن امین حزیں (سیالکوٹی) مادی سورج کی طرف رجوع ہے، اسے ہر روز صبح نکل کر شام کو چھپ جانے والا سورج اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے :

اللہ کا فٹ بال فرشتوں نے اچھالا

یا خْم سے مے نور کا نکلا ہے پیالہ

یا اوڑھ کے انوار تجلی کا دوشالہ

سر حور نے جنت کے دریچے سے نکالا

تھا چاند کی کرنوں میں ابھی نور کا دم خم

تاروں میں سے اکثر نہ ہوئے تھے ابھی مدھم

اور نجم سحر نے ابھی کھولا ہی تھا پرچم

سر اپنا سیاہی سے سفیدی نے نکالا

پہنائے افق سے تھیں اٹھیں نور کی امواج

یہ نور کی امواج تھیں یا نور کی افواج

یلغار کیے آتا تھا پورب کا مہاراج

کرتے ہوئے ظلمت کی صفوں کو تہ و بالا

آتے ہیں جو یہ صبح و مسا ہم کو نظر رنگ

دن رات میں چھڑتی ہے جو شام و سحر جنگ

منظر ہیں یہ قدرت کے قوانین کی فرہنگ

ہے شرط مگر دل ہو کوئی دیکھنے والا

اقوام کا آغاز بھی انجام بھی خوں ہے

ہے ایک جنوں وہ بھی امیں یہ بھی جنوں ہے

وہ جذبہ بے باک ہے یہ حال زبوں ہے

فطرت نے گرایا بھی اسے جس کو اچھالا

اس نظم میں بعض باتیں قابل غور ہیں۔ سورج کو ’’اللہ کا فٹ بال‘‘ کہنا ایک تجدید ہے، شاید اس استعارے کا لطف ہر شخص کو نہ آسکے۔ لیکن اس کی وجہ تشبیہ کا اچھوتا پن ہے، اس کی خامی نہیں۔ ’’سر اپنا سیاہی سے سفیدی نے نکالا‘‘ منظر میں یہ قدرت کے قوانین کی فرہنگ ’’یلغار کیے آتا تھا پورب کا مہاراج‘‘ اپنے زور بیان کی دلیل آپ ہیں۔ کْل نظم میں ایک ایسی شوکت الفاظ ہے، جو طلوع آفتاب کے شکوہ سے پورے طور پر ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے۔

جس طرح امین حزیں کی نظم میں ایک دو باتیں اچھوتی ہیں، اسی طرح سلام مچھلی شہری کی نظم میں بھی ہیں۔

دوسروں کی مغرور خوشی سے میں بھی اثر لے ہی لیتا ہوں

دوست جب آپس میں ہنستے ہیں میں بھی ان میں ہنس دیتا ہوں

ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

رات کو جب ناول کے رنگیں باب پہ آنے لگتا ہوں

موسیقی سی رومانی جذبات میں پانے لگتا ہوں

ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

فلم کے پردے پر جب کانن رقصاں ہو ہو کر گاتی ہے

میرے آنسو ہنس دیتے ہیں میری دنیا کھو جاتی ہے

ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

چاہے دن بھر کتنا ہی افسردہ بھوک سے ہوتا ہوں

لیکن خواب بہت کیف آگیں ہوتے ہیں جب سوتا ہوں

ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

’’تاج محل‘‘ کے رہبر جس دم پچھلے قصّے دہراتے ہیں

شاہی کا دشمن ہوں لیکن پھر بھی آنسو آ جاتے ہیں

ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

سوچتا ہوں دیہاتوں میں کیوں یہ دلکش دنیا غمگیں ہے

کیا دل کے بہلا لینے کو ان کا خدا کوئی بھی نہیں ہے

ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

خونی پرچم کے نیچے مزدوروں کے جب آتا ہوں میں

اپنی قوت سے خوش ہو کر باغی نغمے گاتا ہوں میں

ایسی صورت میں کیا جانے آخر ایسا کیوں ہوتا ہے

اس نظم میں شاعر کا ذہن ایک سیدھے خط میں نہیں چلتا۔ سجاد کی نظم میں جب ایک بار ذہن ماضی کی طرف رجوع ہوتا ہے، تو آخری مصرع سے پہلے تک ماضی ہی کی طرف چلا جاتا ہے۔ گویا ہر نیا سْر پہلے سْر میں گھلتا جاتا ہے اور اثر کو گہرا کرتا ہے۔ لیکن یہ نظم ان بنگالی گیتوں کی مانند ہے، جو ہر مصرع پر بدلتی ہوئی راگنی کے سانچے میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔

اس نظم کے شاعر کا ذہن ایک ایسے نوجوان کا ذہن ہے، جسے غور وتدبر کا مادہ ملا ہے اور وہ دنیا کی مختلف باتوں سے اثر لے رہا ہے۔ عنوان سے تو یہ ظاہر ہے کہ اْسے ایک خلش سی ہے۔ ایک استفسار سا اس کے دل میں کھٹک رہا ہے ’’ایسا کیوں ہوتا ہے ؟‘‘ وہ زندگی کی ندی میں بہتا جا رہا ہے۔ کیوں بہتا جا رہا ہے ؟ اس لے  کہ اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر شے بہتی جا رہی ہے۔ ’’دوست (میرے دوست) جب آپس میں ہنستے ہیں، میں بھی ان میں ہنس دیتا ہوں۔ ‘‘گویا یہ ہنسی بے ساختہ نہیں ہے، ایک نقالی سی ہے۔ اْس کا جی نہیں چاہتا ہے کہ وہ ہنسے، یہ بے دلی کیوں ؟ کیا اسے اپنے ماحول سے تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ اگلا تصور بے ساختہ احساس کا حامل ہے۔ جب شاعر (وہ نوجوان) رات کو ناول پڑھتا ہے، تو خود بخود دل میں امنگیں پیدا ہوتی ہیں، کیسی امنگیں ؟ ___وہ امنگیں جن کو ایک ناول کے رنگین باب سے تحریک ہوسکتی ہے۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے اس بند میں آغاز بلوغ کی کیفیت کا اظہار ہے۔ تصور پھر بدل جاتا ہے۔ ناول سے اس کے دل میں، جو بے چینی پیدا ہوتی ہے، اْس کی ادھوری تسکین فلم کے پردے پر ہوتی ہے۔ ایک لمحے کے لےک، اس کے ذہن کی مرکز کانن(؟)بالا بن جاتی ہے اور ناول کے رنگین باب نے جن آنسوؤں کو بیدار کر دیا تھا، وہ پلکوں سے گر پڑتے ہیں۔ ’’میرے آنسو ہنس دیتے ہیں، میری دنیا کھو جاتی ہے ‘‘۔ ’’میری دنیا‘‘ ___کونسی دنیا؟ کیا وہ دنیا، جس میں دوستوں کے ساتھ محض ظاہری ہنسی کا دخل ہے یا وہ دنیا، جس کی ایک ہلکی سی جھلک ناول کے رنگین باب سے دکھائی دی تھی۔ ہمیں اس سے غرض نہیں۔ ہمیں اتنا ہی کافی ہے کہ فلم کے پردے سے شاعر کے دل میں، وہ امنگیں، جو ناول سے پیدا ہوئی تھیں، زیادہ شدید صورت اختیار کرتی ہیں۔ امنگوں کی یہ شدت کسی لفظ سے ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ اس بند اور اس سے اگلے بند کی درمیانی خلا میں ایک نفسی وضاحت پوشیدہ ہے۔ فرائڈ کے چیلوں نے نفسیات کی بحثوں میں کہا ہے کہ جنسی ناکامی انسان کو مناظر قدرت کا متوالا بنا دیتی ہے (اور ایک نقاد نے تو انگریزی شاعر ورڈزوتھ کی زندگی کے حالات کا تجزیہ کر کے ماہرین نفسیات کے اس نظریے کو ثابت کیا ہے۔ ہمارے دل میں بھی حالی کی قدرتی شاعری کے سلسلے میں ایسے تجزیے کی ضرورت ہے۔ ) کہتا ہوں۔ ’’نیچر میں کھو کر یہ نظّارے میرے ہوتے، کاش یہ کلیاں میری ہوتیں، کاش یہ تارے میرے ہوتے ‘‘___ان ستاروں میں کچھ بھی نہیں، نہ ان کلیوں میں کوئی بات ہے۔ یہ تلازم خیال اور انداز نظر کا مسئلہ ہے، کانن بالا یا ناول کے رنگین باب کی عورت یا ’’وہ‘‘ اگر مجھے مل سکتی تو ان کلیوں سے لطف اندوز ہوا جاتا۔ اس تاروں بھری رات میں وقت گنوایا جاتا___لیکن یہ کلیاں میری نہیں، یہ تارے میرے نہیں، یعنی میرے لےھ بے کار ہیں۔ کاش یہ میرے ہوتے۔ یہ ’’کاش‘‘ بہت بامعنی لفظ ہے، اس میں حسرتوں کا انبار چھپا ہوا ہے۔ اس سے مناظر پرستی کی علت غائی کا بھید کھلتا ہے۔

’’چاہے دن بھر کتنا ہی افسردہ بھوک سے ہوتا ہوں میں‘‘___بھوک سے افسردہ ہونے کا تصور اس تخیل پرستانہ نظم کو یکدم حقیقت کے قریب لے آتا ہے۔ آج کل کے نوجوان بے کار ہیں، ناول پڑھتے ہیں، پردہ سیمیں پر کانن بالا کو دیکھتے ہیں، باغوں میں پھرتے ہیں، کلیوں کو دیکھ دیکھ کر غمگین ہوتے ہیں، چاندنی راتوں میں آوارہ گردی کرتے ہیں۔ ستاروں سے اکتساب غم کرتے ہیں، رات کو گھر آ کر پھر ناول پڑھتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔ اس نظم کا نوجوان بھی اسی قسم کا ایک مرد بے کار ہے۔ تاج محل کی سیر کو جاتا ہے، تو اسے صرف ممتاز محل کا المناک فسانہ ہی موثر کر سکتا ہے، پرانے بادشاہوں کی شان و شوکت اْس کے جمہوری احساس کو جگاتی ہے، اس کا انداز نظر موجودہ ہندوستان کے سیاسیات سے آلودہ نوجوان کا انداز نظر ہے۔ اخباروں کے مطالعے نے اسے بتایا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کی اکثریت کسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے بند میں اسے کسانوں کے مصائب کا ایک بے نام سا احساس ہوتا ہے اور پھر وہ ایک خالص نوجوان کی طرح خدا کے بھی خلاف چند لفظ کہتا ہے اور آخر میں زمانے کے فیشن کے مطابق مزدوروں کے پرچم کے نیچے جا کر کھڑا ہو جاتا ہے، لیکن یہ پرچم خونی کیوں ہے ؟ اس کی وضاحت اس مختصر جگہ میں نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات لمبی ہے، جس کا اختصار یہ ہے کہ، موجودہ زمانے میں، جس قدر انقلابی تحریریں (خواہ پروپیگنڈا کی ہوں، خواہ ادب و شعر کی) پیدا ہو رہی ہیں، ان کے تحت میں ایک ازلی اصول کارفرما ہے۔ یہ اصول اذیت پرستی کا ہے۔ مغرب کی موجودہ جنگ اذیت پرستی ہی کا مظاہرہ ہے اور انسان کے ہر عمل میں اسی اصول کی کاروائی کی موجودگی کی دلیل دی جا سکتی ہے، لیکن اگر شاعری مقصود ہوتو کہا جا سکتا ہے کہ مزدوروں کا پرچم اس نوجوان کے خون آرزو سے سرخ ہے۔

٭٭

(ادبی دنیا، لاہور جون ۱۹۴۰ء)

٭٭٭

 

 

 

دو

 

 

سعی خام(سعید احمد اعجاز)

پرانا باغ(جوش ملیح آبادی)

ہماری سوسائٹی(جوش ملیح آبادی)

میری رانی(مختار صدیقی)

 

انسان نے تخلیق انسانی سے لے کر اب تک اس قدر ترقی کی، لیکن آج بھی وہ زمان و مکان کا ویسا ہی قیدی ہے، جیسا روز ازل کو تھا۔ مکان کی قید پر تو اس نے کرّۂ ارض کی حد تک کافی قابو پالیا ہے،  لیکن زمان کا مسئلہ ابھی اُس کے بس میں نہیں آیا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وقت ایک اضافی تصور ہے۔ اگرچہ علم و تہذیب کے موجودہ دور میں وقت کے متعلق جدید ترین نظریے قائم ہوئے ہیں، لیکن ذہن انسانی اب بھی ماضی، حال اور مستقبل کے سلسلے میں ماضی ہی کے شیدا ہیں اور شعرا کے ذہن اس اعتبار سے اکثر رجعت پسند ہیں۔

 

                سعی خام

 

چاندنی کے ساز پر

میرے دل کا اہتزاز

راگنی کو لے کے دور

ہے محبت نغمہ گر

بن گیا ہے روح ساز

جا رہی ہے موج نور

بھیجتا ہوں تیرے نام

موج سیمیں پر پیام

موج سیمیں پر پیام

جس طرح بچہ کوئی

آبجو میں چھوڑ دے

ناؤ اس کی جائے گی

مادر مرحوم سے

پھر کنار جوئبار

کشتیوں کو دور سے

ناؤ اپنی کاغذی

اور توقع یہ کرے

اور کھلونے لائے گی

شہر نامعلوم سے

وہ سراپا انتظار

دور سے آتے ہوئے

دیکھتا ہو تا بہ شام

 

سعید احمد اعجاز

 

سعید احمد اعجاز کی نظم ’’سعی خام‘‘ جہاں منظر نگاری اور تصورات کی مثال ہے،  وہیں اس سے اردو شاعری پر انگریزی شاعری کے اثر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے دو مناظر سے اپنی دلی کیفیت کو ظاہر کیا ہے۔ بظاہر اس نظم میں صرف چاندنی کا تاثر ہے۔ لیکن اس تاثر سے زیادہ دلچسپ وہ تسلسل خیال ہے، جس کو چاندنی کے منظر سے تحریک ہوتی ہے۔ نظم کے دو حصّے ہیں، اور دوسرے حصّے میں پہلے حصّے کی تشبیہ پیش کی گئی ہے۔ لیکن تشبیہ شاعر کے ذہن میں یوں ہی نہیں پیدا ہو گئی۔ وہ چاندنی سے لبریز فضا میں بیٹھا ہوا تھا، اُس کی نظروں میں اونچا نیلا صاف ساگر پھیلا ہوا تھا، جس میں نور کی موجیں تھیں،  چاند تھا، ستارے تھے۔ اس من موہن منظر کو دیکھنے سے اُس کے ساز دل کے، جو عشقیہ تار سوئے ہوئے تھے، وہ جاگ اٹھے۔ اسے تنہائی محسوس ہوئی۔ اس کا جی چاہا کہ کوئی محبوب ہستی، ان لمحوں میں اُس کی ہم جلیسی میں اس منظر کے حسن سے متاثر ہو۔ اس کے اپنے کیف میں حصّہ بٹائے۔ لیکن وہ تنہا تھا، ہاں ماضی میں ایک محبوب ہستی اس کے پاس ہوا کرتی تھی (یا کم سے کم ایک محبوب ہستی ایسی ہے،  جس سے اس منظر کے کیف کی حصّہ داری میں اسے مسرت حاصل ہوسکتی ہے ) اُس کا خیال آتے ہی، اس تک پہنچنے کی مجبوری کا احساس بھی ہوا اور اس لیے موج سیمیں پر پیام بھیجنے کی تحریک ہوئی۔ لیکن اس پیام کا پہنچنا بھی ویسا ہی ناممکن نظر آیا، جیسی کہ یہ کوشش خیالی کہ وہ ہستی یہاں آن موجود ہو اور پھر اس مجبوری کے متواتر احساس نے غیر شعوری طور پر شاعر کے ذہن کو گریز پر مائل کیا تاکہ یہ المناک احساس دور ہوسکے اور وہ یوں تشبیہ کی طرف راغب ہوا۔ لیکن یہ رغبت بھی کچھ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ وہ اپنے احساس مجبوری کو کسی اور کا احساس بنانے میں کامیاب ہو گیا یعنی مجبوری اور سعی خام کی کیفیت کے متعلق اُسے یوں محسوس ہوا کہ یہ کیفیت تو اُس بچے کی ہوا کرتی ہے، جو ’’اپنی کاغذی ناؤ کو کھلونوں کی توقع میں آبجو کے سپرد کر دے ‘‘___یوں شاعر کا دل ہلکا ہو گیا کیوں کہ اُس کا بار الم ایک اور شخص کا بارِ الم بن گیا اور اُس کے اپنے دل میں اُس بچے کے لیے ہمدردی کا احساس پیدا ہو گیا۔

لیکن تشبیہ کے لیے یہ بچہ اور اس کی ناؤ شاعر کے ذہن میں کیوں آئی؟ اُس کی اپنی مجبوری سے ملتی جلتی کیفیتیں تو کئی اور بھی ہوسکتی تھیں ___شاعر کی نظروں میں اونچا نیلا صاف ساگر پھیلا ہوا تھا۔ جس میں نور کی موجیں تھیں،  چاند کی کشتی تھی، ستاروں کے بجرے تھے۔ شاید کہکشاں کی آبجو کے کنارے پر اسے چاند کی کاغذی کشتی کا دھیان آیا۔ آخری مصرعوں کے تصور میں ( پھر کنار جوئبار /  وہ سراپا انتظار /  کشتیوں کو دور سے /  دور سے آتے ہوئے / دیکھتا ہوتا بہ شام) شاعر نے اس سکون کو (اس دل کے ہلکا ہونے کو) ظاہر کر دیا ہے،  جو اسے اس تشبیہ سے ملا۔

اور اس نظم میں جوش بھی ماضی ہی کی طرف رجوع کر رہا ہے، اگرچہ اُس کے تخیل کی بنیاد حال پر ہے۔

 

                پرانا باغ

 

آم کا باغ جو ہے پیش نظر

یاد ہے خوب، یاد ہے کہ یہاں

باغ کے پاسباں نے بہر سلام

کس قدر دل نواز شاخیں تھیں

پتّے پتّے پہ نوجوانی تھی

خستہ چڑیوں کے چہچہانے سے

میرے اک بار مسکرانے سے

دل پہ اب تک خراش باقی ہے

یہ مرے باپ نے لگایا تھا

ایک روز اُن کے ساتھ آیا تھا

ہاتھ اٹھایا تھا، سر جھکایا تھا

کس قدر دل فریب سایا تھا

ذرّے ذرّے پہ رنگ چھایا تھا

شام کا وقت گنگنایا تھا

باغ سو بار مسکرایا تھا

دو گھڑی کو وہ لطف آیا تھا

___________

اور آیا ہوں میں جو آج یہاں

کل تو گاتا تھا گنگناتا تھا

ذرّہ ذرّہ مری طرف صد حیف

باغ کب کا بھلا چکا ہے جو دور

یاد ماضی ارے معاذ اللہ!

آہ! بیتے دنوں کی یاد کا درد

صرف اک بار مسکرادینا

کیا کہوں کس قدر مرے دل کو

باغ ہنستا نہ مسکراتا ہے

اب نہ گاتا نہ گنگناتا ہے

آنکھ بیگانہ وار اٹھاتا ہے

اس لیے مجھ کو یاد آتا ہے

دل تڑپتا ہے بیٹھ جاتا ہے

زندگی کو لہو رلاتا ہے

دل پہ سو بجلیاں گراتا ہے

نوع انساں پہ رحم آتا ہے

جانتا ہے،  فریب ہے ہستی

پھر بھی ناداں فریب کھاتا ہے

زمانہ جون ۱۹۴۰ء

___________

جوش ملیح آبادی

 

اس نظم کے عنوان ہی سے، وہ فضا قاری کے ذہن میں قائم ہوسکتی ہے، جہاں پہنچ کر شاعر اس نظم کی خود کلامی شروع کرتا ہے۔ اس لیے عنوان کے بعد نظم کی طرف جلد رجوع ہونے کی ضرورت نہیں،  بلکہ عنوان کے انجام اور نظم کے آغاز میں ایک وقفہ درکار ہے، تاکہ جہاں شاعر کھڑا ہے، وہیں ہم بھی جا کھڑے ہوں اور اُس کی بات کو پورے طور پر سمجھ سکیں۔ باقی نظم میں بیان اور بے ساختگی کی، جو خوبیاں ہیں،  اُن کے اظہار کے لیے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔

 

                ہماری سوسائٹی

 

حوصلے سرنگوں،  امیدیں شل

آرزو باد یاس سے بوجھل

نشہ بجھتا ہوا سا ایک شرار

کیف گرتی ہوئی سی اک دیوار

ہر لطیفے کی تہ میں رنج و محن

ہر ظرافت میں ایک پھیکاپن

شرم سے آب آب جولانی

ہر ہنسی شرم سار کھسیانی

خال و خط پر دھواں بناوٹ کا

کرب بالقصد مسکراہٹ کا

ماہنامہ اضطراب، لکھنو جولائی ۱۹۴۰ئ

 

جوش ملیح آبادی

 

جوش کی دوسری نظم ماضی کی طرف نہیں لے جاتی، بلکہ جس ’’حال‘‘ سے گریزاں رہنے کی کوشش میں ہم ہمیشہ مصروف رہتے ہیں، وہی اس کا موضوع ہے۔

اردو میں اگرچہ ہجو ایک قدیم صنف سخن ہے، لیکن جدید مفہوم کے لحاظ سے طنزیہ نظموں کی ابھی بہت کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ طنزیہ نظم کی تخلیق آسان کام نہیں۔ کیوں کہ طنز کے ساتھ ساتھ شعریت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا، ایک ایسی مہم ہے، جو ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ اس خیال کی روشنی میں یہ نظم خصوصاً قابل غور ہے۔ ایک اور نکتہ اس میں یہ ہے کہ شاعر نے طنز کرتے ہوئے، سماج کی سطحی اور بیرونی باتوں کا ذکر نہیں کیا، بلکہ سماجی روح اور کردار کی خامیوں اور پستیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔

___________

میری رانی

پہلے پیکان محبت سے تھا دل پہلو میں

خون کی گنگا نہایا تو بنا رنگ محل

چپکے چپکے کوئی اس رنگ محل میں آیا

بجلیاں کانوں میں،  سینے پہ وہ آڑی ہیکل

آتش حسن سے گلنار، بھبھوکا چہرہ

عید ملتا ہوا آنکھوں سے وہ کافر کاجل

بول اٹھے چمن داغ میں خوش رنگ کنول

رخ کے پرتو سے چھپے نور کا لے کر آنچل

غم نے بڑھ کر اسے پہنا دیا ان پھولوں کا ہار

نازنیں فرق پہ اک تاج زر افشاں رکھا

حسرتیں آئے حضوری میں زمیں بوس ہوئیں

نازک ارمانوں نے داماں نہ گریباں رکھا

یاس نے آ کے سلامی دی بڑی شوکت سے

اُس نے اس کے حضور آپ نمکداں رکھا

راج کرنے لگی اقلیم جنوں پر رانی

میری بلقیس نے انداز مسلماں رکھا

کم نظر تو اسے کہتے ہیں فغاں کی بانی

وہ ہے فی الاصل مرے رنگ محل کی رانی

دمے باقی و مہتاب باقی

سب رس حیدرآباد، جولائی ۱۹۴۰ء

___________

مختار صدیقی

اس نظم میں رائی کا پربت بنا ہے، لیکن اس پربت کی چوٹی پر پہنچ کر شاعر نے دیکھا کہ ایک مندر ہے اور اس مندر میں کسی دیوی کی مورتی۔ دنیا میں کئی مندر ہیں اور ان میں کئی مورتیاں، لیکن جب تک کسی مورتی کا نام ہمیں معلوم نہ ہو۔ ہماری نظروں میں اس مورتی کے مندر کی کوئی اہمیت نہیں پیدا ہوتی۔ شاعر نے بھی پربت پر پہنچ کر، جب مندر میں دیوی کی مورتی کو دیکھا، تو اس کا ایک نام رکھ دیا اور اس نام رکھنے ہی سے اس نظم کے مندر کی اہمیت ہماری نظروں میں پیدا ہو گئی۔ اگر شاعر اس مورتی کو پریم کی دیوی پکارتا تو یہ ایک عام سی بات ہوتی۔ شعرا (خصوصاً نوجوان) ہر مورتی کو پریم کی دیوی ہی سمجھنے لگتے ہیں اور یہی اُن کی غلطی ہے۔ لیکن یہ شاعر عوام کی طرح غلط نظری کا مرتکب نہیں ہوتا۔ یہ اُس دیوی کو فغاں کی بانی کہتا ہے اور اپنے رنگ محل یعنی دل کی رانی سمجھتا ہے۔ دل کی رانی سے مراد یہاں محبوبہ نہیں ہے،  بلکہ اس نظم کا بنیادی موضوع اصل میں غم کی پوجا ہے۔ رانی کا مفہوم اُس تلازم خیال کی وجہ سے آ گیا ہے،  جس کی وضاحت ابھی کی جائے گی۔ اگر وہ تلازم خیال پیدا نہ ہوتا تو شاعر اُس مورتی کو ’’فغاں کی بانی ‘‘ کہہ کر ہی بات کو ختم کر دیتا۔

میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہمارے اردو شعرائے جدید عموماً نظم کے شروع ہی سے تلازم خیال کا اظہار نہیں کرتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آغاز میں شدت احساس اُن کے ذہن کو باقاعدہ چال سے نہیں چلنے دیتی۔ لیکن جب وہ دوچار شعر کہہ کر اظہار نفس کے ابتدائی اظہار کی کسی حد تک تسکین کر لیتے ہیں، تو اُن کے ذہن میں آسودہ تصور جاگتے ہیں اور تلازم خیال بھی بیدار ہو جاتا ہے۔ اس نظم کا بھی یہی حال ہے۔

شاعر کو چپ چاپ بیٹھے ہوئے اچانک خیال آتا ہے کہ اب تو دل کی حالت ہی بدل گئی۔ اب تو یہ دل ہی نہ رہا۔ محبت کا تیر لگنے سے پہلے یہ دل تھا۔ تیر لگا، خون نکلا، دل خون میں نہا گیا، خون کی گنگا نہایا___گنگاکا تصور آتے ہی شاعر کی زبان بدل گئی اور وہ ’’پیکان محبت‘‘ اور ’’پہلو‘‘ جیسے فارسی الفاظ سے ہٹ کر خالص ہندوستانی الفاظ کی طرف راغب ہو گیا۔ لیکن آگے چل کر پھر وہی فارسی الفاظ والی زبان جاری ہو گئی کیوں کہ وہ شاعر کی اصل زبان ہے۔ ’’خون کی گنگا ‘‘ کے خالص ہندوستانی استعارے سے ’’رنگ محل‘‘ کی آمد ہوئی اور پھر اس میں ’’کوئی‘‘ آیا۔ یہاں شاعر نے آنے والے کی تخصیص نہیں کی۔ قاری آپی سوچے کہ کون آیا۔ شاعر آخر میں چل کر بتائے گا۔ یوں ایک دلچسپی پیدا ہو گئی۔ قاری کا ذہن بیدار رہا اور اُس نے اپنے دل میں سوچا کہ شاعر کی محبوبہ رنگ محل میں آئی تھی، لیکن آخر میں جا کر جب قاری کو معلوم ہواکہ وہ آنے والی شاعر کی محبوبہ نہ تھی، بلکہ ’’فغاں ‘‘ تھی، تو اسے یہ ایک غیر معمولی بات معلوم ہوئی کیوں کہ یہ بات اس کی اپنی سوچ کے خلاف تھی۔

اس نظم کے دوسرے حصّے میں بہت سے شاہی سے تعلق رکھنے والے لوازم ہیں۔ تاج زرافشاں،  حضوری زمیں بوس، سلامی دی، شوکت سے،  راج کرنے لگی، رانی بلقیس اور انداز سلیمان___یہ سب چیزیں رنگ محل کے تصور کی پیداوار ہیں۔

بیان کی خوبی کے لحاظ سے دو مثالیں۔ ’’ عید ملتا ہوا آنکھوں سے وہ کافر کاجل‘‘ اور ’’چمن داغ میں خوش رنگ کنول نور کا آنچل لے کرچھپے ‘‘۔

آخری ٹکڑا، جو خطوط وحدانی میں ہے،  اس کا مطلب میں نہیں سمجھ سکا۔ آپ خود کوشش کیجیے :-

اس نظم میں بھی شاعر ماضی ہی کے دلکش زمانے کی طرف رجوع کر رہا ہے اور ذیل کے منتخب اشعار میں اختر شیرانی بھی ماضی ہی کا نغمہ خواں ہے :

فراق

حیراں ہے آنکھ جلوۂ جاناں کو کیا ہوا

ویراں ہے خواب گیسوے رقصاں کو کیا ہوا

قصر حسیں خموش ہے ایوان پُر سکوت

پردوں سے روشنی کی کرن پھوٹتی نہیں

دنیا سیہ خانۂ غم بن رہی ہے کیوں

طوفاں اٹھا رہی ہیں مرے دل کی دھڑکنیں

نادان آنسوؤں کو ہے لذّت سے جستجو

سیراب کاریِ لب گلگوں کدھر گئی

کشت مراد ہو چلی نذر سموم غم

آواز پاے سرو خراماں کو کیا ہوا

اُس شمع رنگ و بوکے شبستاں کو کیا ہوا

اللہ میرے ماہ خراماں کو کیا ہوا

اس دست نرم و ساعد لرزاں کو کیا ہوا

آرام گاہ گوشۂ داماں کو کیا ہوا

ہیں تشنہ کام ساغر جاناں کو کیا ہوا

یارب نمود ابر خراماں کو کیا ہوا

روتا ہے بات بات پہ یوں زار زار کیوں

اختر خبر نہیں دل ناداں کو کیا ہوا

٭٭

(ادبی دنیا لاہور، اگست ۱۹۴۰ء)

٭٭٭

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

مدیر: حیدر قریشی

تشکر: وقاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید