FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اسیرِ ذات

 

 

 

دلشاد نسیم

 

 

پیشکش:کتاب ایپ

Product of: Ideal Ideaz

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

انتساب

 

 

حسن خالد اور حمزہ خالد

کے نام

کہ جنہوں نے مجھے جب جب ماں کہا

تب تب مجھے اپنی تکمیل کا احساس ہوا

دلشاد نسیم

 

 

 

 

تعارف از محمد حامد سراج

 

دلشاد نسیم سے میرا پہلا تخلیقی تعارف ان کے افسانے ’’کہنی کی چوٹ‘‘ سے ہوا جو ایک ایسا افسانہ تھا جو میرے من میں بسیرا کر گیا۔ بالکل  ایسے جیسے راجندر سنگھ بیدی کا ’’لاجونتی‘‘ اور نگہت نسیم کا ’’تندور‘‘ ۔۔۔۔۔! اردو ادب میں وہ خوش نصیب ٹھہرتے ہیں جن کی لازوال تخلیقات میں سے کوئی ایک تخلیق امر ہو کر ان کے نام کا حصہ بن جاتی ہے۔ ’’اسیر ذات‘‘ کی خالق کو افسانہ تراشنا، جملوں کے جوڑ بٹھانا اور کرداروں کے ساتھ انصاف کرنے کا قرینہ آتا ہے۔ وہ افسانے کو نکھارنے کے فن سے خوب آشنا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے کے تمام افسانے قاری کا دل کھینچتے ہیں۔ سن انیس سو سینتالیس کی ہجرت کے عذاب کی کوکھ سے لازوال فن پاروں نے ناول اور افسانے کے ساتھ پردۂ سکرین پر بھی جنم لیا۔ قدرت اللہ شہاب نے ’’یا خدا‘‘ لکھ کر کر تاریخ کی کروٹ کو اپنے قلم سے سمیٹ کر امر کیا تو منٹو کا ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اردو افسانے کا مینار پاکستان ہے۔ یہی درد دلشاد نسیم کے دل سے قرطاس پر ٹپکا تو ’’سراب‘‘ نے قاری کو رلا دیا جیسے منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ آج بھی وجود کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ ایک ایک افسانہ ’’اسیر ذات‘‘ کا اپنے ہونے کی مکمل گواہی دے رہا ہے۔ یہی ان افسانوں کی خوبی ہے۔ آپ مطالعہ شروع کیجئے افسانے آپ کو اپنے ساتھ باندھ کے رکھیں گے اور یہی دلشاد نسیم کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی ہے اور اسے اپنے عصر میں ممتاز کرتی اور دوام اس کے نام کرتی ہے۔

محمد حامد سراج

 

 

 

 

 

تعارف از ڈاکٹر نگہت نسیم

 

اسیرِ ذات کا آخری ورق پڑھنے کے بعد مجھے دو باتوں کا یقین ہو گیا۔ پہلی بات یہ کہ اسیرِ ذات ایک ایسا نثر پارہ ہے جو خوش کن خبر کی طرح کو بہ کو پھیل جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ دلشاد نسیم نے اپنے اور ادب کی دنیا کے درمیان مسلسل ایک فاصلہ رکھا ہے جو کہیں بھی کم نہیں ہوتا۔ انہوں نے بڑی دلیرانہ بے نیازی اور دیوانگی سے ادبی دنیا کی سطحی سوچ اور سطحی لفظوں سے اپنی روحانی آزادی کی جنگ نہ صرف لڑی ہے بلکہ جیتی بھی ہے۔ یہی وہ روحانی آزادی ہے جو تخلیق کار کو اپنے ہمعصروں میں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہے اور یہی وہ ادبی دیوانگی ہے جو حیات کے اسرار منکشف کرتی ہے۔ دلشاد بجا طور پر سعادت کے اسی مقام پر قیام رکھتی ہے جس کی تمنا ہر نثر نگار کو ہوتی ہے۔

 

ڈاکٹر نگہت نسیم

(سڈنی آسٹریلیا)

 

 

 

تعارف از سائرہ غلام نبی

 

دلشاد نسیم کا پرکشش سراپا محبت کے رنگوں میں ڈوبا نظر آتا ہے بھرپور زندگی کی مسکراہٹ ان کی آنکھوں سے پل پل جھلکتی ہے۔ وہ غموں اور دکھوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بھی سبھاؤ سے جینے کا سلیقہ رکھتی اور جب کہانی لکھنے کے لیے قلم ہاتھ میں لیتی ہیں تو ان کے وجود سے پھوٹتے یہی رنگ لفظوں کا روپ دھار کر دل گرفتہ حکایت بن جاتے ہیں۔ دلشاد نسیم اپنی ذات کو کہانی سے باہر رکھ کر بھی ہر اس کردار میں جھلکتی ہیں جو کہانی کو مرکزیت عطا کر رہا ہوتا ہے اور اس ہنر مندی سے کہ موضوعات میں عجب طرح کی مانوسیت در آتی ہے۔ یوں کہ وہ سب دیکھے بھالے مناظر ایک نئے منظر نامے میں ڈھل کر دلشاد نسیم کی کہانی کا عنوان بن جاتے ہیں اور قاری ان کہانیوں سے لطف کشید کرنے لگتا ہے۔

 

سائرہ غلام نبی

 

 

 

 

سراب

 

(یہ محض ایک افسانہ نہیں سچی کہانی ہے )

’’جب ہم محبتیں بانٹتے ہیں تو مار دئے جاتے ہیں، لیکن نفرت کا زہر پھیلانے والے، برچھیاں چلانے والے ہاتھ آزاد ہیں۔ کیوں؟‘‘

یہ عجیب سا سوال ہے، اگرچہ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے لیکن یہ میرے دماغ کے خالی کمرے میں کسی چمگادڑ کی طرح دیواروں سے مسلسل ٹکریں مار رہا ہے۔ اس سوال کو دہرانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے میں کسی کے سامنے برہنہ ہو جاؤں۔۔ شرمندگی اور ندامت مجھے سر اٹھانے نہیں دے رہی اور سوال ہے کہ مستقل گھاؤ لگا رہا ہے۔ میرے سامنے ان لفظوں نے کئی کہانیاں کھول دی ہیں۔ واقعات کا ہجوم سا لگ گیا ہے اور میں ایک کونے میں مجرم بنا کھڑا ہوں۔ گو سارا قصور میرا نہیں ہے پھر بھی مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں ہی واحد گناہ گار ہوں مجھے ’’شہاب نامہ‘‘ کا عبد اللہ یاد آ رہا ہے جس نے اپنی دو جوان بیٹیوں کی عصمت محفوظ رکھنے کی خاطر انھیں اپنی ہی دہلیز پر مار ڈالا تھا اور ساتھ ہی اپنی بے نور آنکھوں کی ٹھنڈک اور تیسری موت سے خوف زدہ بیٹی لے کر وطن کے لئے روانہ ہو گیا تھا لیکن اس نیک اور خدا پرست عبد اللہ کی عفت کیمپ والوں کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ مجھے عابدہ یاد آ رہی ہے جس نے خود کو اس لئے موجوں کے حوالے کر دیا تھا کہ وہ نہ تو اپنی ماں سے اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کا بدلہ لے سکتی تھی نہ اس سے کٹ کر تنہا دنیا آباد کر سکتی تھی۔

اور اب۔ رابعہ بانو! عزت، عورت کی ہتھیلی کا ہمیشہ سے پھپھولا بنی رہی ہے۔ وہ ساری عمر مٹھی بند کر کے اس کی حفاظت کرتی ہے لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ معمولی سی ٹھوکر سے،  کسی کے ٹہوکے سے، اچانک اس کی مٹھی کھل جاتی ہے اور وہ بھرے بازار میں تماشا بن جاتی ہے۔ اس کے رستے ہوئے زخم کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ اس پر صرف بہتانوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ الزام تراشیاں ہوتی ہے۔ اس کو صرف ایک بازاری عورت سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کا سارا دکھ، سارا غم اپنی جگہ جما قطرہ قطرہ خون روتا رہ جاتا ہے۔ رابعہ بانو کے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہوا تھا۔ ابھی صرف سترہ گھنٹے پہلے وہ مجھ سے ملی تھی۔ صرف سترہ گھنٹے پہلے، اور اب میرے اور اس کے بیچ ایک ابدی فاصلہ حائل ہو چکا تھا جسے تصوراتی طور پر پاٹنے کیلئے میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ اور وہ میری آنکھوں کے سامنے آ گئی، ہلکے آسمانی رنگ کے ملگجے لباس میں۔

’’آپ سے کوئی خاتون ملنے آئی ہیں۔‘‘ میرے چپراسی نے آ کر مجھے اطلاع دی تو میں چراغ پا ہو گیا۔ ’’مجھ سے؟ اب میں اپنی سیٹ سے اٹھ رہا ہوں اور وہ آئی ہے۔ ان سے کہہ دو میں اس وقت نہیں مل سکتا۔ کل آ جائیں۔ میرا ڈیوٹی ٹائم ختم ہو چکا ہے۔‘‘

’’لیکن جی وہ بہ ضد ہیں۔‘‘ چپراسی نے ہاتھ باندھ کر مسکین سی آواز میں اس کی طرف داری کی۔ ایک لمحے کو میں نے توقف کیا۔ سوچا ممکن ہے وہ بہت الم رسیدہ ہو۔ ظاہر ہے میرا کام اس ملک اور اس میں رہنے والے شہریوں کی مدد کرنا ہے۔ میرے اندر کا منصف انسان جو میرا دست راست تھا مجھے سمجھانے لگا۔

’’اچھا بھیجو!‘‘ میں مجبوراً بولا۔

’’السلام علیکم۔‘‘

میرا خیال تھا وہ خاتون معمر نہیں تو ادھیڑ عمر ضرور ہو گی لیکن کمرے میں آنے والی ہستی کو دیکھ کر میں بے ساختہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بے حد خوبصورت لڑکی تھی۔ عمر بھی پچیس چھبیس سال سے زیادہ نہیں تھی۔۔ ’’آئیے تشریف لائیے۔‘‘ مجھے کہنا پڑا۔

’’شکریہ۔‘‘ وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر اضمحلال تھا۔ ایسا حزن جو اس کے حسن کو دو آتشہ کر رہا تھا لیکن میں الجھن میں پڑ گیا۔ وہ خاموش تھی اور بار بار اپنی مومی انگلیوں کو آپس میں ملاتی اور پھر جدا کر دیتی تھی۔ ’’محترمہ!‘‘ میں نے قدرے محتاط طریقے سے متوجہ کیا۔ ’’کیا میں آپ کی آمد کا مقصد پوچھ سکتا ہوں ’‘‘

’’جی!‘‘ اس نے ایک لمحہ مجھے دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔ ’’میرا نام۔۔،  وہ رکی۔ دانتوں سے نچلا ہونٹ دبا کر اس نے اس طرح سانس لیا جیسے سسکی روکی ہو۔ ’’میرا نام رابعہ بانو ہے۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’آپ سب انسپکٹر جلال الدین ہیں نا؟‘‘

’’جی!‘‘ میں تھوڑا سا حیران ہوا۔ ’’میں نے باہر آپ کے نام کی تختی پڑھی تھی۔ میں جانتی ہوں کے آپ کی ڈیوٹی کا ٹائم ختم ہو چکا ہے لیکن میرے لئے ایسا کرنا بہت ضروری تھا۔‘‘

’’فرمائیے۔‘‘ میں ہمہ تن گوش ہو گیا اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس کی کہانی سے بھی جو وہ سنانے والی تھی، کوئی دلچسپی نہیں تھی، میں تو اس کی صورت دیکھنا چاہتا تھا۔ سنہرے گندم کے دانوں ایسی چمکیلی رنگت اور سیاہ حسین آنکھیں۔ یاقوت سے ہونٹ جنہیں وہ بار بار دانتوں تلے دبا کر اور حسین بنا رہی تھی۔ سچ ہے عورت کو دیکھتے ہوئے مرد کی نگاہ میں ایکسرے مشین فٹ ہو جاتی ہے جو اس کی چال ڈھال اور لباس سے قطع نظر سر سے پیر تک معائنہ کر آتی ہے۔ ’’میں پچھلے ماہ ہندوستان سے آئی ہوں۔‘‘ اس نے میری توجہ اپنی باتوں کی طرف مبذول کر دی۔ ’’میرے آباء و اجداد بھی وہیں کے رہنے والے ہیں۔ الہ آباد میری جنم بھومی ہے۔ میں نے اور میرے بھائیوں نے وہیں ہوش سنبھالا۔ ہمارے آس پاس مسلمانوں کے گھر بھی تھے اور ہندو، سکھ بھی رہتے تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے ہم ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ اکٹھے کھیلتے اور اسکول جاتے تھے۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں ہماری جان و مال محفوظ تھی۔

منوہر کے پتا میرے باپ سمان تھے اور کنور سنگھ کی والدہ ہماری بھی ماں تھیں۔ میں جانتی ہوں جلال صاحب! یہ ساری باتیں آپ کے لئے بے معنی ہوں گی لیکن مجھے کہنے سے مت روکئے گا۔ یہ میری نہیں،  ہر مسلم گھر کی کہانی ہے،  ہر اس شخص کی کہانی ہے جو اپنے ہاتھوں میں محبت اور امن کی مشعلیں لے کر اندھا دھند اپنے وطن سے محبت کیے جا رہا ہے۔ اسے کسی انعام کا لالچ نہیں۔ کسی تمغے کی چاہ نہیں ہے۔ وہ صرف روشنی پھیلانا چاہتا ہے۔ میں، منور اور پوجا ایک کلاس میں پڑھتے تھے اور منور سنگھ میرے جڑواں بھائیوں کا ہم جماعت تھا۔ ہم سب چاندنی رات ایک ساتھ منایا کرتے تھے۔ ہم سب کے گھروں کا دروازہ جس میدان کی طرف تھا وہ ہماری سیر گاہ تھی، جہاں ہر شام آ کرسورج ڈھلنے تک مختلف کھیل کھیلے جاتے۔ لڑائیاں ہوتیں مگر پھر صلح کا پرچم لہرا دیا جاتا۔ لیکن میری کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب میں نے بی اے کے بعد ایم اے کے لئے یونیورسٹی میں اپلائی کیا۔ میرے والد کالج میں لیکچرار تھے اور دونوں بھائی بی کام کے اسٹوڈنٹ تھے۔ مجھے منوہر نے بہت منع کیا کہ میں ایم اے کرنے کا خیال دل سے نکال دوں۔ مجھے سخت حیرت ہوئی۔ بھلا منوہر جیسے ذی ہوش سے ایسی بات کی توقع ہو سکتی تھی! ہر گز نہیں۔ میں نے وجہ پوچھی۔ تب اس نے کہا۔

’’رابعہ! ہم تعصب کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ ایسی نہیں ہے جس کے لئے مخصوص جگہ کا انتخاب کیا جائے اور شہریوں کو اس کی آفات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ جنگ تو ہمارے دلوں سے نکل کر گلیوں کوچوں تک پھیل چکی ہے۔ اب کسی مسلم گھبرو کی جان اور کسی ناری کی عزت محفوظ نہیں ہے۔‘‘

میں دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ یہ وہی شخص کہہ رہا تھا جس کے ساتھ میرا بچپن بیتا۔ ہماری آنکھوں میں ابھی تک تمام چاندنی راتوں کی حلاوت گلی ہوئی تھی اور ہاتھوں میں صلح کے پرچم لہرا رہے تھے۔ ’’میری خواہش ہے تم گھر سے نہ نکلا کرو۔‘‘ اس نے آزردگی سے التجا کی۔

’’لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ کب تک چھپ چھپ کر جان بچائیں گے؟ ہمیں اپنا حق مانگنے کیلئے میدان میں آنا ہی ہے۔‘‘ ’’تم ٹھیک کہتی ہو لیکن یہاں کے حالات اب سنور نے کے نہیں لگتے۔ کل جب میں بازار میں کھڑا تھا،  اچانک مسلم گاہک کو ہندو دوکان دار نے دھتکار دیا اور فریقین نے جس قسم کی جنگ کی رابعہ! میں تمہیں نہیں بتا سکتا۔ ہندو برادری ایک طرف ہو گئی ہے۔ اور اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ چن چن کرمسلمانوں کے گھر اور ان کی قیمتی اشیا نیست و نا بود کر دیں گے۔ مجھے بتاؤ تم جیسی نازک اور قیمتی چیزیں دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو سکتی ہیں۔؟‘‘

’’منوہر!‘‘ مجھے غصہ آ گیا۔ ’’مجھے چیز کہہ کر تم میری توہین کر رہے ہو اور ہمیں نازک اور بے دست و پا کہہ کر ذہنی طور پر بھی مفلوج بنا دینا چا ہتے ہو تو سن لو،  ہم لڑیں گے۔ آخری دم تک لڑیں گے۔‘‘

’’یہی لفظ تو ہماری جانوں اور آزادی کا دشمن ہے۔ لڑنا کوئی بہت اچھی بات تو نہیں۔ اس نے بے چار گی سے کہا۔

’’ہاں،  ہاں منوہر لڑنا کسی صورت میں بھی اچھی بات نہیں، لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ ملک ہندوستان جہاں ہم نے آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا،  برے بھلے کی تمیز سیکھی،  اب ہم سے ہر احسان کا بدلہ لے رہا ہے۔ آخر کب تک اس وطن کی دھرتی مسلم خون کی بھینٹ لیتی رہے گی؟‘‘

’’رابعہ!‘‘ منوہر نے بہت سنجیدگی سے میری سنی اور کہا۔ ’’مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ تم عزیز ہو، لیکن تم میرا خواب نہیں،  سراب ہو اور میری مجبوری دیکھو میں سراب کو بھی مٹی میں ملتے نہیں دیکھ سکتا۔ کیا تم لوگ پاکستان نہیں جا سکتے؟‘‘ اس نے ایسا سوال کیا تھا جس کے بارے میں کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں تھا اگرچہ پاکستان میں میری ایک پھپو ہیں مگر اس وقت کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا یہاں آنے کا۔ میں نے منوہر کے سوال پر زورسے گردن ہلا کر انکار میں جواب دے دیا۔ ہر گز نہیں جائیں گے۔ آخر ہمیں بھی اس مٹی سے پیار ہے۔‘‘

’’اس مٹی سے!‘‘ منوہر نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ ’’جس کے ذرے ذرے میں تمھارے بھائیوں کا خون رچا ہوا ہے۔ تمھارے سائبان کبھی نہ جاگنے کے لئے طویل نیند کا شکار ہو گئے۔ اپنے گھر والوں کو راضی کر لو پلیز۔‘‘

’’سوچیں گے۔‘‘ میں قدرے بے پروائی سے بولی۔ ’’فی الحال تو مسئلہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا۔ تمہیں بھی تو لینا ہے۔‘‘

’’ہاں ارادہ تو ہے۔‘‘ اس نے یونہی روکھا سا جواب دیا۔

’’میں تو پولیٹکل سائنس میں ایم اے کروں گی۔‘‘

’’کیا؟ تمہیں داخلہ لینا ہے تو اکنامکس میں لو۔ اس لئے کہ میں بھی اسی میں لے رہا ہوں۔‘‘

’’نہیں بھئی، مجھے تو بالکل پسند نہیں اکنامکس۔‘‘

اور آپ یقین کریں سر! اس نے میرے ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا۔ اس کا نام اپنے ساتھ لسٹ میں دیکھ کر مجھے اتنی حیرت ہوئی کہ میں اس کا مذاق بھی نہ اڑا سکی کہ اب کیوں پولیٹکل سائنس کو ترجیح دی ہے۔ شاید اس لئے کہ مجھے معلوم تھا کو وہ میری حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ کسی بھی وقت الگ نہیں ہونے دے گا اور یہ تو مجھے یونیورسٹی آ کر پتا چلا کہ تعصب کی آگ کس حد تک بھڑک چکی تھی۔ کبھی ہم دونوں محکوم تھے۔ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگایا کرتے تھے مگر اب صرف ہم مسلمان ہی محکوم ہیں اور ہندو حاکم۔ اور حکم حاکم یہ تھا کہ مسلمانوں کو تباہ کر دیا جائے۔ جس روز پہلی کلاس ہونا تھی اس صبح منوہر میرے گھر آیا اور میرے ساتھ میز پر بیٹھ کر چائے پینے کے دوران میں کہنے لگا۔ ’’اب بھی وقت ہے،  دل سے ایم اے کا خیال نکال دو رابی۔ تم پاکستان جا کر پڑھ لینا۔ یاد رکھنا اگر تم پر کوئی آنچ آ گئی تو میں خود کو ساری عمر معاف نہیں کر سکوں گا۔ کیا تم مجھے کسی مشکل میں دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘ میں اس کی بات پر لاجواب ہو گئی۔ اس نے مجھے چپ دیکھ کر میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے بولا۔ ’’بات سمجھنے کی کوشش کرو اور کسی محفوظ جگہ چلی جاؤ۔ کیا تمھارے نزدیک میری اتنی بھی وقعت نہیں کہ میری بات مان سکو؟‘‘

اس کی آنکھوں میں کیا تھا؟ التجا، مان یا بھروسا؟میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اس کی توقع رائیگاں نہیں جائے گی۔ ’’تو کیا میں یقین کر لوں؟‘‘ اس کی آنکھوں میں ان گنت چراغ روشن ہو گئے۔

’’ہاں لیکن ایک شرط ہے۔‘‘

’’مجھے ہر شرط منظور ہے۔‘‘ اس نے بے سوچے سمجھے کہا۔

’’سنے بغیر کوئی وعدہ مت کرو منوہر!‘‘ میں نے کہا تو وہ سنجیدہ ہو گیا۔

’’سنو! اگر میں پاکستان چلی جاؤں تو تم ضرور آؤ گے۔‘‘ وہ مسکرانے لگا لیکن اس کی آنکھوں میں دکھ کی ایک واضح لکیر تھی۔ ’’میں شاید تمھاری یہ شرط پوری نہ کر سکوں رابی لہٰذا بہتر ہے تم کوئی وعدہ نہ لو۔‘‘

’’تم لوگ جا نہیں رہے ہو؟‘‘ ممی نے آ کر ہم دونوں کو باتیں کرتے دیکھا تو حیرت سے بولیں۔

’’میں تو جا رہا ہوں ممی لیکن رابی نہیں جائے گی۔‘‘

’’خیر تو ہے؟ سارے کاغذ تو جمع کروایے تھے پھر جائے گی کیوں نہیں؟‘‘

’’شہر کے حالات اچھے نہیں ہیں لہٰذا اس کا گھر سے باہر نکلنا مناسب نہیں اب اس علاقے میں کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ آپ یہاں سے چلی جائیں ممی۔‘‘ اس نے التجا کی۔ ممی حیران ہو کر اسے دیکھ رہی تھی۔ منوہر کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں تھا لہٰذا جواب لئے بغیر چلا گیا۔ خاصی دیر بعد ممی ورطہ حیرت سے نکلیں تو دروازے کی طرف غصے سے دیکھ کر بولیں۔ ’’ہونہہ! یہ دیس نکالا دینے کے اچھے بہانے ہیں۔ ویسے نہیں جاتے تو میٹھی چھری گھونپ کر ماریں گے۔‘‘

’’ممی! آپ منوہر پر شک نہ کریں۔ اس نے جو بات کی ہے اس میں ضرور کوئی سچائی ہو گی۔‘‘ میں نے ممی کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ انھوں نے میرے ہاتھ جھٹک کر مجھے شاکی نگاہوں سے دیکھا اور کمرے سے نکل گئیں۔ میں نے رات کو پپا سے بات کی۔ انھوں نے منوہر کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستان میں مقیم پھوپی جان کو خط لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ وہ باہر جاتے تھے۔ گلیوں سڑکوں پر ہونے والے معمولی جھگڑوں سے بھی باخبر تھے۔ جانتے تھے کہ اب وہ بھائی چارے کی فضا نہیں رہی جس میں ہم نے آنکھ کھولی تھی۔ بہت افسردگی سے پپا کہنے لگے۔ ’’بیٹے! ہمارے پرکھوں نے بڑی قربانیاں دیں پاکستان کے لئے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم وہاں نہ جا سکے لیکن خود ہمارے خاندان کے کئی چشم و چراغ مٹی میں مل چکے ہیں۔ پھر مشرقی پاکستان گیا۔ اب کچھ نہیں جائے گا، صرف ہم اپنی جانوں سے جائیں گے۔ بڑا مشکل وقت آ پڑا ہے۔ دیکھو،  ہم کیسے سرخرو ہوتے ہیں۔‘‘

منوہر اگلے دن ہمارے گھر آیا۔ میں اس کو لے کر بالکونی میں چلی آئی۔ اس نے مجھے حسرت سے دیکھا۔ مجھے بڑا عجیب سا لگا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’تمھاری ان نگاہوں کا کیا مطلب ہے؟ مجھے حسرت نہیں اپنائیت سے دیکھو۔‘‘ لیکن زندگی میں بعض مقام ایسے بھی آتے ہیں جب آدمی دل کے سارے رابطے آن واحد میں ختم کر دیتا ہے۔ دل سے دل تک پہنچنے والی تمام سڑکیں توڑ ڈالتا ہے۔ منوہر نے آسمان کی طرف دیکھا اور سردآہ بھر کے بولا۔ ’’کاش ہم ایک دوسرے کے لئے سراب نہ ہوتے۔ سراب جو پیاس بڑھاتا ہے۔ کاش ہم وہ نہ ہوتے جو ہیں۔ ایک مذہب، ایک جماعت اور ایک قوم کے فرد ہوتے پھر۔ پھر شاید تم میری آنکھوں میں کیلیں گاڑ کر ساری عمر تڑپنے کے لئے چھوڑ کر نہ جاتیں۔‘‘

’’منوہر! اگر میں نہ جاؤں تب بھی ہم سراب ہیں ایک دوسرے کے لئے۔ پپا نے خط لکھ دیا ہے، دیکھو کیا جواب آتا ہے لیکن تب تک تم اور کنور ہماری حفاظت کرنا‘‘

’’تم اور کنور سنگھ الگ الگ جماعتوں،  الگ الگ مذاہب کے نام ہیں مگر اس مثلث میں تعصب کی چنگاری بھڑک چکی ہے رابی اب یہ بجھنے کی نہیں۔ میں کل شام کنور کے گھر گیا تھا۔ اس کے پِتا نے مجھے محبت سے گھر آنے کو منع کیا ہے۔ میں بہت دکھی ہو رہا ہوں۔ آج انھوں نے محبت سے کہا ہے،  کل غصے سے اور پھر نفرت سے بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘

’’ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب نیکی کا درس دیتے ہیں۔ محبت اور یگانگت سکھاتے ہیں، بھائی چارے اور امن کا درس دیتے ہیں۔ یہ سارے امن دوست مذاہب دنیا کے ہر خطے میں الگ الگ ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ کسی نے چوری کو حلال اور راستی کو حرام نہیں کہا۔۔ کسی نے سچ کو غلط اور جھوٹ کو صحیح نہیں لکھا، پھر یہ تعصب کی تبلیغ کن کتابوں میں لکھی ہے؟ کس جماعت اور کس مذہب میں ہے؟ ہم سب ایک دوسرے سے مذہب کے حوالے سے اس قدر شدید نفرت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میں اس طرح چیخی گویا سارا قصور منوہر ہی کا ہو۔ مگر وہ انتہائی متحمل مزاج شخص تھا۔ مسکرا کر میرے شانوں سے ریلنگ پر ڈھلک آنے والے آنچل کو دوبارہ شانوں پر سجا کر بولا۔ ’’تم میں ابھی بہت بچپنا ہے اور جانتی ہو، بچپن کا خاتمہ کس سیڑھی پر ہوتا ہے؟ جب انسان مصلحت کی چادر اوڑھ لے اور اسے جھوٹ بولنا آ جائے۔ تمھاری سچائی، تمھارا دکھ اس بات کا شاہد ہے کہ ابھی تم نے اس سیڑھی پر قدم نہیں رکھا جہاں سے مصلحت کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘

’’تمھاری یہ باتیں میرا ملال کم نہیں کر سکتیں۔‘‘ میں نے دکھ سے کہا۔

’’جانتا ہوں لیکن ایسا کہہ کر میں اپنے ملال کو کم کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سمجھ لو کہ اب منوہر خود غرض ہو گیا ہے۔ اس پر بھروسا بیکار ہے۔‘‘

’’ایسا نہ کہو منوہر! تمھاری خود غرضی سر آنکھوں پر! تمھارے بھروسے کی ناؤ ہے،  اسی لئے تو حالات کے سمندر کی طغیانی جھیل رہی ہوں۔ ممی بہت مشکل سے اس بات پر راضی ہوئی ہیں کہ میں کلاسیں نہ لوں۔ ان کا خیال ہے تم نے ازلی تعصب پرستی کا ثبوت دیا ہے اور میری ترقی سے جل گئے ہو۔‘‘

’’کاش یہ بات صرف یہیں تک رہتی تو شاید میں اس قدر افسردہ نہ ہوتا۔‘‘ منوہر نے دھیرے سے قدم اٹھائے اور۔ ’’چلتا ہوں۔‘‘ کہہ کر چلا گیا۔

پھوپی جان نے خط کا جواب نہیں دیا تھا ہمارا ایک ایک دن اذیت سے بسر ہو رہا تھا۔ رابعہ نے کرسی پر بے چینی سے پہلو بدلا۔ میرا انہماک اچانک ٹوٹا۔ گھنٹی بجا کر چپراسی کو بلایا۔۔ اس سے پانی اور چائے لانے کو کہا۔ رابعہ نے خاموشی سے میرے احکام سنے اور چپراسی کے جانے کے بعد کہنے لگی۔

’’جلال صاحب! آپ شاید اس تکلیف اور اذیت کو کبھی محسوس نہ کر سکیں۔ میں سارے منظر ایک ایک کر کے آپ کے سامنے کھینچ دوں تب بھی،  لیکن سر! میں یہ بات ضرور واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ہم نے اور ہم جیسے کئی لوگوں نے اپنے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں اور آج تک دیتے آ رہے ہیں۔ صرف اور صرف اس ملک کے لئے جس میں،  میں اس وقت آزادی سے سانس لے رہی ہوں۔ منوہر کہا کرتا تھا کہ تم جب اپنے وطن میں چلی جاؤ گی تو ہمیں بھول کر بھی یاد نہیں کرو گی۔ آزادی ایسی نعمت ہے لیکن منوہر بھول گیا تھا کو آزاد دنوں میں بھی اسیری کی کسک ساتھ رہتی ہے اور ساتھ رہنے والے دوست کبھی نہیں بھولتے۔‘‘

چائے آ گئی اور پانی بھی۔ رابعہ کا سلسلہ کلام ٹوٹ گیا۔ میں نے چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے شکریے کے ساتھ ہاتھ آگے کر دیا۔ وہ اس قدر سنجیدہ تھی کہ میں اس سے خوف کھانے لگا۔ حسن اور اس قدر اعتماد! میرے دل کی دھڑکنیں ذرا تیز ہونے لگیں لیکن اگلے ہی لمحے مجھے منوہر یاد آ گیا۔ وہ ان دیکھا غیر مسلم شخص جو رابعہ کے ہر دوسرے جملے پر مسکرا رہا تھا۔ میں نے ایک لمبا سانس لے کر پانی کا گلاس لبوں سے لگا لیا۔ چائے بھی اس نے بالکل خاموشی سے پی۔ میں نے دو ایک بار اس کی طرف اس نیت سے دیکھا بھی کہ شاید وہ کچھ کہے لیکن اس نے زبان نہ کھولی۔ چائے پی کر اس نے میرے عقب میں بند کھڑکی کو غور سے دیکھا۔ یقیناً وہ کسی گہری سوچ میں تھی۔ پھر گلا صاف کر کے گلو گیر لہجے میں بولی۔ ’’اور پھر بہت انتظار کے بعد پھوپی جان کا خط آ گیا۔ انھوں نے لکھا،  وہ خط ملتے ہی جواب لکھ رہی ہیں۔ ہم دونوں کے خطوں کے جواب میں تقریباً پونے دو ماہ کا فرق تھا۔ پھوپی جان نے ہمیں خوش دلی سے آنے کو کہا بلکہ خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ اب سب مل کر رہیں گے۔ ہماری فیملی کے سبھی افراد پاکستان میں تھے لیکن پپا کا کاروبار انھیں جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد کاروبار کر لیا تھا۔ اب بھی پپا سوچ رہے تھے کہ کیا سلسلہ ہو سکتا ہے؟ جما جمایا کاروبار چھوڑ کر جانا بھی مشکل تھا پھر صرف تین دن بعد اچانک فیصلہ ہو گیا۔‘‘ رابعہ بانو کی آنکھیں ایک دم چمکی پھر دھند لانے لگیں۔ کوئی عکس ابھرا جسے میں پہچان نہ سکا۔ اس کی آواز دھیمی ہو گئی اور گلا رندھ گیا۔ ’’میرے پیارے بھائی جب کالج سے کاندھوں پر لائے گئے تو پپا کی کمر ٹوٹ گئی۔ ممی پر ایسا غشی کا دورہ پڑا کہ آج تک ہوش میں نہ آ سکیں۔ میرے راج دلارے بھائی نسلی تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن میں رو نہ سکی۔ میری ماں مجھے اور میرے پپا کو تنہا چھوڑ گئیں مجھے اس وقت بھی رونا نہ آیا۔ میں روتی کیسے؟ وہ مرے ہی کب ہیں۔ وہ تو میرے اندر زندہ ہیں۔ میرے چاند سورج جب میں ان دونوں کو چاند سورج کہا کرتی تو ممی میری دیوانگی پر ہنستی تھیں۔۔

چاند کہتا تھا! ہم آکاش کے باسی ہیں۔ زمین پر زیادہ دن نہیں رہیں گے۔ وہ اس دنیا میں ساتھ آئے تھے اور ساتھ ہی آکاش پر چلے گئے۔ منوہر نے بہت چاہا کہ میں رو پڑوں لیکن میری آنکھیں تو ایسے خشک ہو گئیں جیسے انھوں نے کبھی پانی دیکھا ہی نہ ہو۔ میں سارا دن ٹکر ٹکر چاند اور سورج کے کمرے میں ان کی ایک ایک کتابوں کو تکا کرتی۔ ممی کی تصویر سینے سے لگائے پورے گھر میں گھوما کرتی۔ تبھی ایک دن پپا نے بتایا کہ اب ہم یہاں نہیں رہیں گے مگر اب مجھے پاکستان جانے سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی! میرا تو سارا جیون ہندوستان میں دفن تھا۔ میرا بچپن، میرے بھائی، میری ماں اور وہ منوہر،  اس کی دوستی، اس کی محبت، میری اسیری کی تمام چاند راتیں اور حسین صبح، میں پاکستان آنے کو بالکل تیار نہ تھی لیکن پپا نے بہت اصرار کیا۔ منوہر نے بھی وعدہ کیا کہ وہ مجھ سے ملنے پاکستان ضرور آئے گا۔ تب میں نے پپا کی بات مان لی اور یہاں چلی آئی۔‘‘

رابعہ نے بات ختم کر کے مجھے دیکھا۔ میں چونک گیا۔ در حقیقت میں اس وقت منوہر کا تصور باندھ رہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ وہ شخص جانے خوش قسمت ہے یا بد قسمت لیکن رابعہ بانو جیسی معصوم اور حسین صورت لڑکی کو چھوڑتے ہوئے وہ ایک بار تو بالکل ڈھے سا گیا ہو گا۔ نصیب کی اس ستم ظریفی نے مجھے زندگی میں پہلی بار افسردہ کر دیا۔

’’میں اور پپا بہ ظاہر زندہ ہیں لیکن کاش! ہم زندہ نہ ہوتے جلال صاحب! ہم جو گھاؤ سینے پر لے کر آئے ہیں، اس کا مداوا تو بھری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ آتے وقت ماتا جی نے منوہر کی ماتا جی نے مجھے ڈھیروں دعائیں دیں۔ پتا جی نے، کئی حسین پیشن گوئیاں کیں اور آخر میں منوہر نے کچھ کہنا چاہا مگر کہہ نہ سکا۔‘‘

رابعہ نے بے ساختہ اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھ کر رگڑا اور پلکیں جھپکیں۔ ساتھ ہی آنسو تواتر سے اس کے گالوں پر بہنے لگے۔ اس نے ان آنسوؤں کو بہنے دیا، پھر بولی۔

’’اس نے پھر کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر کہہ نہ سکا۔ اس نے اپنی کلائی میں سے چاندی کا بریسلٹ اتار کر مجھے دیا۔‘‘ رابعہ نے پرس کھول کر بریسلٹ میرے سامنے رکھ دیا۔ میرا ہاتھ بلا ارادہ آگے بڑھا اور میں نے بریسلٹ اٹھا لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بہت استعمال میں رہا ہے۔ موٹی سی زنجیر پر چوڑی سی سادہ سی سطح پر ’’منوہر‘‘ لکھا ہوا تھا۔

’’یہاں میری پھوپی اور ان کے تین بچے ملیر میں رہتے ہیں جی۔‘‘ اس نے سلسلہ کلام بڑھایا۔ ’’میرے پھوپھا کا اپنا کاروبار ہے۔ ملیر میں ان کا خاصا خوبصورت گھر ہے۔ میری پھوپی نے میری اور پپا کی خراب حالت دیکھ کر ہماری دلجوئی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پپا ایک طرح سے سکتے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ ان کو کوئی کھانا کھلا دے تو کھا لیں گے ورنہ چپ چاپ پڑے رہتے ہیں۔ شطرنج کی پہلی ہی چال میں پٹ جانے والے مہرے کی طرح تنہا اور اداس۔ میں پپا کے سامنے گھنٹوں بیٹھی رہتی ہوں پر نہ وہ مجھے پکارتے ہیں اور نہ اپنا حال سناتے ہیں۔

پچھلے ہفتے پھوپی جان نے کہا کہ وہ میری شادی اپنے بڑے بیٹے سے کرنا چاہتی ہیں۔ پپا کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا اگر تھا بھی تو انھوں نے کچھ کہا نہیں۔ پھوپی نے ایک طرح سے ہماری مدد ہی کی تھی ناں جلال صاحب! میری پھوپی کا بیٹا افسر علی دیکھنے میں کافی خوش شکل اور اچھے اطوار کا مالک ہے۔ میرے دل میں منوہر کا کانٹا تھا لیکن میں جانتی ہوں، وہ ایک سراب ہے۔ میں نے وہ کانٹا دل ہی میں رہنے دیا اور افسر علی کے لئے راضی ہو گئی۔ جس شام ہماری با قاعدہ منگنی ہونا تھی اس دن صبح ہی شہر کے حالات بہت خراب تھے۔ بالخصوص ہمارے علاقے میں بہت فائرنگ ہو رہی تھی۔ بسیں جل رہی تھیں۔ لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈر رہے تھے۔ پھوپی جان نے موقع دیکھتے ہوئے منگنی کا ارادہ ملتوی کر دیا اور اپنے طور پر صرف زبان کو بہت جان کر مجھے بہو بنانے کا فیصلہ لے لیا۔ اگلی صبح پھوپھا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ باہر سڑکوں پر پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں اور گولیوں کی بوچھار نے پپا پر ہذیانی کیفیت طاری کر دی۔ ان کے ہاتھ پاؤں اکڑ گئے۔ ایک تشنج کی سی کیفیت تھی۔ سب کو خالی خالی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ پھوپی جان نے بہت سہارا دیا۔ جو میرا سہارا تھا، وہ آندھی کی زد میں تھا۔ پولیس والوں کی منت کر کے ہم ہسپتال پہنچے۔ پپا کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا۔ میں سارا دن دودھیا شیشے کے دروازے کے بیچ میں بنے گول دائرے سے اس پار دیکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ غالباً انھیں بے ہوش رکھا جا رہا تھا۔ شہر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا، میں افسر علی اور طاہر علی اسپتال میں قید ہو کر رہ گئے۔ گھر والوں سے صرف ٹیلی فون پر رابطہ تھا۔ بیچ میں ایک گھنٹے کے لئے کرفیو کھلا تو افسر علی گھر سے ہو آیا لیکن میں اور طاہر وہیں رہے۔ ’’رابعہ نے دوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف کیا۔ اس کی خوبصورت آنکھیں بار بار ڈبڈبانے لگتیں۔ ’’پھر افسر علی کے ساتھ پھوپی جان آ گئیں اور طاہر گھر چلا گیا۔ پھوپی جان کی وجہ سے مجھے ڈھارس ہو گئی۔ دو دن بعد صبح اور شام کے وقت کرفیو کھلا، جب پھوپی جان نے مجھ سے گھر جانے کو کہا۔ ان کے خیال میں، میں بہت بے آرام ہو چکی تھی۔ میری اپنی طبیعت بھی کچھ خراب ہونے لگی تھی، انھوں نے بہت محبت سے کہا کہ میں شام کو آ جاؤں۔ میں بادل نخواستہ مان گئی۔ افسر علی میرے ساتھ تھا۔ گھرسے طاہر اور افسر کی بہن فرح اسپتال آنے کے لئے چل چکے تھے۔ جب میں اور افسر گھر پہنچے، وہاں کوئی نہیں تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود کو اس گھر میں بالکل اس طرح محفوظ سمجھتی تھی کہ جیسے اپنے گھر میں ہوا کرتی تھی۔ پھوپی جان کی خواہش کے بعد میں نے اپنے ذہن کو اس بات کے لئے تیار کر لیا تھا کہ اول و آخر مجھے اسی گھر کا فرد بن کر رہنا ہے۔

’’تمہیں بھوک نہیں لگ رہی؟‘‘ افسر نے مجھ سے پوچھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ بھوک لگ رہی تھی یا نہیں۔ میرا تو سارا دھیان پھوپھا کی طرف تھا۔ ان کی حالت ابھی تک سنبھلی نہیں تھی۔

’’کچھ کھا لو۔ اس طرح تو تم مر جاؤ گی۔‘‘ افسر نے بہت اپنائیت سے مجھ سے کہا لیکن میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ اس وقت میرے اتنا قریب تھا کہ مجھ سے نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں گیا، پھر اس نے خود ہی انڈا فرائی کیا اور ہم دونوں نے ناشتا اکھٹے کیا۔ ہم دونوں ہی بالکل خاموش تھے۔ میں تو خیر پریشان تھی لیکن افسر علی خاصا باتونی شخص تھا،  پھر بھی وہ نہ جانے کیوں چپ تھا۔ چائے پی کر میں فرح کے کمرے میں آ گئی۔ واقعی میں بہت تھک چکی تھی۔ پلنگ پر لیٹی تو جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ کبھی ذہن میں پھوپھا دکھائی دینے لگتے اور کبھی چاند اور سورج آ جاتے۔ کبھی ممی مسکرانے لگتیں۔ میں اس وقت اپنے وطن میں تھی، محفوظ۔ اپنے لوگوں کی امان میں، بالکل بے فکر۔ باہر شہر کے ہنگاموں نے البتہ دل بہت خراب کر رکھا تھا۔ جس امن کا تصور میرے ذہن میں تھا وہ یہاں بھی نہیں تھا۔ پھر گھر کی چار دیواری میں ایک تحفظ کا احساس ضرور تھا۔ ایسا تحفظ جو گئے دنوں میں الہ آباد سے اٹھ چکا تھا مگر منوہر نے جس کا آخری دم تک ساتھ دیا تھا۔ میں نہ جانے کیا کیا سوچ رہی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی۔ کئی دنوں کی بے آرامی تھی اور کئی راتوں کی بے خوابی۔ میں بے خبر سو چکی تھی۔ جانے میں کب تک سوتی رہی کہ اچانک پلنگ کے ہلنے سے میری آنکھ کھل گئی۔ اپنے سامنے افسر علی کو دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ’’خیر تو ہے افسر؟‘‘ میں بری طرح گھبرا گئی۔ مجھے پپا کی طرف سے بے حد فکر تھی۔ افسر کو بے وقت کمرے میں دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اس کی آنکھیں وحشت زدہ اور سرخ ہو رہی تھیں۔ ’’ہاں۔‘‘ وہ پلنگ پر بیٹھ گیا۔ میں بھی سیدھی ہو کر بیٹھ چکی تھی۔

’’تو پھر؟ میرا مطلب ہے،  آپ نے مجھے جگایا کیوں؟‘‘ اس نے بغیر پلکیں جھپکے مجھے دیکھنا شروع کر دیا۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔

’’امی کہتی ہیں، تم میری امانت ہو۔‘‘

’’لیکن اس وقت اس بات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

’’میرا مطلب صاف ہے۔ میں تمھاری دیوار کے سائے میں تنہا لیٹا رہوں ’‘‘

’’افسر صاحب!‘‘ اس کی باتوں نے میری چھٹی حس بیدار کر دی۔

’’دیکھو نا آج نہیں تو کل، تمہیں میری ہی بن کے رہنا ہے تو پھر انتظار کیسا؟‘‘ وہ میری طرف بڑھا۔‘‘ خدا نے تم کو اتنی فرصت سے بنایا ہے کہ ایمان تیاگ دینے کو دل کرتا ہے۔ سنو! تم کو دشمنوں نے بارڈر کیسے کراس کرنے دیا؟ ایمان سے بتانا، عزت سے آئی ہو یا۔۔۔۔۔؟‘‘

میرے کان گرم ہو کر سلگنے لگے۔ بے ساختہ میرا ہاتھ اٹھا اور افسر علی کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا لیکن وہ مرد تھا۔ بے عزتی چاہے بھری محفل میں ہو یا تنہائی میں، اس کا جواب دینا اسے خوب آتا ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں کس قدر کمزور ہوں۔ گھر میں کوئی نہیں تھا اور دیواریں تنگ مگر بہت اونچی تھیں۔ نہ میری فریاد باہر گئی نہ کسی بہانے موت ہی اندر آئی۔ میں سیپ میں بند موتی کی طرح اپنی عزت کی کس کس جتن سے حفاظت کرتی رہی تھی۔ ایک ذرا سی ٹھوکر نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔‘‘

رابعہ نے سر جھکا کر گویا شکست تسلیم کر لی۔ بریسلٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ میں اس وقت افسر کی بہادری کا تمغہ سجانے کی بجائے رابعہ کی بربادی اور مُلک و ملت کے ناموس پر اُڑتی دھول سے عرق عرق ہو رہا تھا۔ ’’میری تو دنیا اندھیر ہو گئی نا جلال صاحب! افسر علی جس کو پھوپھی جان نے میرے لیے منتخب کیا تھا، میری اور اپنے ظرف کی حفاظت نہیں کر سکا۔ وہ مجھے شام کو تنہا ہی چھو ڑ کر چلا گیا۔ میری اپنی حالت ایسی نہیں تھی کہ میں کسی کا سامنا کرتی اور پھر کیا پپا اپنی بیٹی کے ماتھے کی سیاہی دیکھ نہ لیتے؟ کیاسوچتے کہ کہاں آ کر برباد ہوئے ہیں، میں منوہر کی مجرم ہو گئی۔ میں مر جانا چاہتی تھی لیکن ابھی جینا باقی ہے۔ کچھ قرض اتارنے ہیں۔ گذشتہ شب وہ پھر میرے پاس آیا تھا لیکن میرے خوف نے مجھے ایک پل کیلئے بھی خود سے غافل نہیں ہونے دیا۔ صبح اس نے مجھے دھمکی دی کہ میں خود اس کے پاس آ جاؤں ورنہ وہ میرے پاس آ جائے گا۔ جلال صاحب! آسمان پر خدا اور زمین پر آپ ہی ہمارے محافظ ہیں۔ یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ افسرعلی جیسے گھناؤنے کردار کے مالک کو فوری گرفتار کیا جائے اور اس کو اس کے کیے کی سزا دی جائے۔‘‘ وہ یہ داستان سنا کر خاموش ہو گئی تو میں بھی سیدھا ہو گیا۔

’’ہوں۔‘‘ میں رابعہ بانو کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی خوبصورتی نے ماحول کو جس جادوگری سے نوازا تھا وہ طلسم رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگا۔ میری نظر مرد کی نظر بن گئی بلا شبہ وہ اچھی صورت کی لڑکی تھی۔ اس پہ کسی کا دل آ جانا مشکل نہیں تھا۔

جلال صاحب! افسر علی جیسے لوگ، انسان کے روپ میں بھیڑیے ہیں۔ اجلے لباس پہنے یہ لوگ ہر وقت کسی نہ کسی کو لوٹنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’محترمہ! کیا آپ جانتی ہیں،  جب تفتیش ہو گی تو پہلی گواہی آپ ہی کی ہو گی اور پھر جس طرح آپ کی عزت اچھالی جائے گی، کیا آپ برداشت کر سکیں گی؟‘‘

’’میں تو جی اپنے ہی گھر میں لٹی ہوں۔ میری کیا عزت؟اور شاید میری اس قربانی سے بہت سی لڑکیاں بے آبرو ہونے سے بچ جائیں۔‘‘

’’آپ کی بات کا میں اعتبار کر بھی لوں لیکن ہو سکتا ہے آپ چھٹکارا پانا چاہتی ہوں۔ بہرحال آپ منوہر کو پسند کرتی ہیں جس کا ثبوت یہ بریسلٹ بھی ہے۔‘‘

’’مجھے منوہر کو پسند کرنے میں انکار نہیں جلال صاحب! لیکن افسر علی سے چھٹکارے کے اور بھی بہت سے راستے ہیں۔ خود کو بد نام کر کے افسر علی سے نہیں خود سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا اور پھر بتائیں،  کون سی لڑکیاں ہو گی اس دنیا میں جو خود کو سرعام رکھ دے گی کہ آؤ مجھے اپنی نظروں سے سنگسار کرو۔ میں خود پہ دنیا تنگ کرنا نہیں چاہتی اسی لیے تو سمجھوتے کرتی آ رہی ہوں لیکن شاید آپ وہ دل ہی نہیں رکھتے جو کسی عورت کی بے آبروئی پر رو سکے۔ آپ کو اپنی قانون کی کتابوں سے دلچسپی ہے اور اس سے بھی زیادہ اس بات سے کہ۔۔۔‘‘

’’محترمہ!‘‘ اس کو پر جوش ہوتے دیکھ کر میں نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’قانونی کاروائی بھی تو ضروری ہے اور پھر ثبوت کی اشد ضرورت ہے۔ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ افسر علی بد چلن ہے۔ ہو سکتا ہے آپ نے اسے۔۔۔۔‘‘

’’جلال صاحب!‘‘ آپ سنبھالیے اس ملک کی سلطنت، یہاں عزت اور بے عزتی، امانت اور خیانت میں فرق نہیں ہے۔ اس سے تو وہ غیر اچھے ہیں جو حفاظت کے مفہوم سے آگاہ ہیں۔ میں نے ایک افسر علی کی شکایت کر کے کئی گھر یا کم از کم ایک گھر بچانا چاہا لیکن جب ہم محبتیں بانٹتے ہیں تو مار دیئے جاتے ہیں مگر نفرت کا زہر پھیلانے والے لوگ اور برچھیاں چلانے والے ہاتھ آزاد ہیں۔ کیوں؟ اگر آپ منصف نہیں بنتے تو نہ سہی،  میرا منصف اوپر بیٹھا ہے۔ فیصلہ میں کروں گی اور انصاف خدا کی ذات۔

اگر میں بچ گئی تو کل دیکھ لوں گی،  اور اگر سرخرو ہو کر ماری جاؤں تو میرا یہ پیغام منوہر تک پہنچا دیجیئے گا کہ تم جس ناموس کے محافظ بنے تھے،  میں اسے سرحد کے پار ہی چھوڑ کر آئی تھی۔ اب تم اپنے عہد سے آزاد ہو۔ یہاں آؤ یا نہیں،  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے وطن کی بنیادیں خون سے رکھی گئی ہیں۔ یہ ہر عہد میں مختلف بہانوں سے خون مانگتا ہے۔ میں اگر برائی کا خاتمہ کر کے وطن کے لئے کچھ کر سکتی ہوں تو تم دل گرفتہ مت ہونا۔‘‘

’’محترمہ! آپ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں، میں آپ کی رپورٹ لکھ رہا ہوں۔ جو آپ کہہ رہی ہیں،  اس سے بہت برا ہو گا آپ کے لئے۔‘‘

اس نے ایک قہر آلود نظر مجھ پر ڈالی اور منوہر کا پتا لکھ کر میرے سامنے رکھ دیا اور بولی۔ ’’آپ اسے بس میری امانت پہنچا دیجئے گا نہیں تو میں کل آ کر لے لوں گی۔‘‘

’’میں اب بھی آپ سے یہی کہوں گا کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیے گا جو خود آپ کے لئے پریشانی کا باعث بن جائے۔ میں ذاتی طور پر آپ کی مدد کروں گا اور محکمے سے بھی اپیل کروں گا۔

’’شکریہ۔‘‘ اس نے کرسی سے اٹھتے ہوئے پھر ایک نظر مجھ پر ڈالی اور کمرے سے چلی گئی۔

میں ایک حد تک مطمئن تھا۔ میرے محدود تجربے نے مجھے یہ بات بتائی تھی کہ کوئی بھی عورت اس قدر بہادر نہیں ہو سکتی کہ لب گور باپ کی پرواہ کیے بغیر قتل یا خود کشی کر سکے۔

لیکن صبح کے پہلے پہر مجھے ایمرجنسی ڈیوٹی پر پہنچنے کا حکم ملا۔ واردات میرے تھانے کے حدود میں ہوئی تھی۔ رابعہ نے افسر علی کو قتل کر دیا اور خود بھی گولی کا نشانہ بن گئی۔ کیسے؟ کیوں؟ یہ تو وہ سوال تھے،  جو لوگوں کو کرنے تھے میں تو سب کچھ جانتا تھا لیکن افسوس اس بات کا تھا کہ جس واقعے کو میں معمولی اور غیر اہم سمجھا، وہ اس قدر اہم ہو چکا تھا۔ مجھے موقع واردات پر فوری پہنچنا تھا لیکن نہیں، پہلے میں منوہر تک اس کی امانت پہنچا دوں ورنہ کہیں خیانت نہ ہو جائے۔ اس کے بعد لاشوں کا پوسٹ مارٹم ایک لمبی کہانی ہو گی۔ سوالیہ چہروں کو جواب دینا ہوں گے کہ اصل واقعہ کیا تھا اور پھر اس دھرتی ماں کو سلام بھی تو کرنا ہے جس کی کوکھ میں آج بھی ایسی بیٹیاں سر پر آنچل ڈالے ابدی نیند سو رہی ہیں جو اپنی آن پہ قربان ہو جانے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کہنی کی چوٹ

 

امیر علی کی بیوی کا انتقال ہو گیا، بالکل اچانک۔۔ شہر بھر میں موذی بخار نے کئی گھروں سے میتیں اُٹھائیں اُن میں سے ایک گھر امیر علی کا بھی تھا موت نے رخسانہ بیگم کو جب لے جانے کا بہانہ بنایا تو یہ بھی نہ دیکھا اُس کے بیٹوں کا کیا ہو گا امیر علی کی طرف دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ امیر علی جب بیوی کو بچانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا وہ نہیں جانتا تھا اس کی محنت اُس کی دعائیں رائیگاں ہو جائیں گی اور جب رخسانہ کے چہرے کو نرس سفید چادر سے ڈھک رہی تھی تو اُسے لگا اس کی پوری کائنات پر کسی نے گہرا پردہ ڈال دیا ہو بس اب اُس کے لئے سب ختم ہو گیا۔ اُسے یقین آ گیا کہ اگر اس پوری دنیا میں کوئی بے حس ہے تو بس یہ موت ہے جو کسی کے جذبے کسی کی چاہت نہیں دیکھتی۔۔

امیر علی کی اپنی عمر بھی کیا تھی بس پینتالیس سال بھلا یہ بھی کوئی عمر ہے ایسا عذاب سہنے کی اُسے خود پہ ترس آ رہا تھا۔۔ رخسانہ کا آخری دیدار کرتے ہوئے اُس کے ساتھ گزارے بیس سال بیس لمحوں میں اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ وہ اُس سے پانچ چھ برس چھوٹی تھی۔۔ کتنا خوبصورت وقت گزر ا، کتنی حسین عورت تھی اب منوں مٹی کے نیچے جا سوئے گی۔۔۔ امیر علی کو اُس وقت اپنے غم سے زیادہ حسین عورت کی جوان مرگی رلا گئی۔۔ بچے بہت چھوٹے نہ تھے کہ سنبھل نہ پاتے، سنبھل گئے اُسے بھی لگا جیسے وہ بھی رفتہ رفتہ سنبھل رہا ہے۔ بیوی کی موت کہنی کی چوٹ جیسی ہے لگے تو جان کھینچ لیتی ہے مگر یہ اذیّت بہت دیر تک نہیں رہتی، سنبھالا مل جاتا ہے لیکن امیر علی کے لئے کہنی کی چوٹ روگ بن گئی۔۔

چالیسواں ہوا تو سب دوست احباب اور رشتے داروں نے گھر میں عورت نہ رہنے پر اندیشہ ظاہر کیا کہ اب گھر، گھر نہیں رہے گا گھر تو بناتی ہی عورت ہے جس گھر میں عورت نہ ہو اُس گھر کے تالے زنگ آلود ہو جاتے ہیں، پہرے خاموش ہو جاتے ہیں، بچے من مانی کرنے لگتے ہیں امیر علی سر جھکائے ساری حکایتیں سن رہا تھا اُسے یقین تھا اب کوئی دوست، عزیز، رشتے دار یہ ضرور کہے گا۔۔

’’امیر علی ہے تو مشکل مگر تمہیں یہ کڑوی گولی نگلنی ہو گی۔۔ اپنے لئے نہ سہی بچوں کے لئے، گھر کے لئے، ہم جانتے ہیں رخسانہ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا مگر اسے مجبوری سمجھو اور شادی کر لو۔‘‘

ا ور وہ روایتی پس و پیش کے بعد اِس عظیم پیشکش کو بصد انکسار قبول کر لے گا۔ ظاہر ہے ’’نظامِ زندگی‘‘ بھی تو چلانا ہے، ابھی پچھلی شب بستر پہ لیٹے لیٹے اُس نے کس شدت سے رخسانہ کی کمی کو محسوس کیا تھا۔ امیر علی نے آہ بھر ی۔ کیسے جھٹ پٹ مر گئی بے چاری۔ اُس نے دکھ سے سوچا اُس کی آنکھوں میں نمی آ گئی وہ مسلسل خود ترسی کے مرض میں مبتلا ہوئے جا رہا تھا۔۔ جانے اور کتنی زندگی ہے، جتنی بھی ہے تنہا کیسے کٹے گی میں گھر دیکھوں یا دوکان دیکھوں جب سے رخسانہ مری ہے خدا گواہ ہے نہ کھانے کا ہوش رہا نہ کپڑوں کا نہ ہی گھر کی کسی اور شے کے ٹھکانے کا پتہ چل رہا تھا کوئی بیٹی ہوتی تو بات اور تھی مگر اب۔۔۔ رخسانہ مجھے معاف کر دینا ہمارا گھر مکان بنتا جا رہا ہے بس ایک سرائے جیسا، اگر سب مل کر مجھے شادی کے لئے مجبور کریں گے تو مجھے کرنی پڑے گی تیرے گھر کی، تیرے بچّوں کی خاطر۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔ اُس نے سننے کے لئے ساری توجہ بڑے بیٹے رضوان کی طرف کر دی وہ مسلسل جرح کر رہا تھا۔ ’’یہ کیسے ممکن ہے میں ابھی اِس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا ابھی میری  عمر ہی کیا ہے۔۔ آپ لوگ ابو کی شادی کیوں نہیں کرا دیتے۔۔‘‘ وہ ناگواری سے بولے جا رہا تھا۔۔ اُس نے پہلے تو غور سے بات کی نوعیت کو سمجھا پھر خود کو ٹٹولا اُسے رضوان کی بات میں کافی وزن نظر آیا واقعی ابھی رضوان کی عمر ہی کیا تھی صرف انیس سال۔۔ امیر علی نے رضوان کی بات کو آگے بڑھانے کی خاطر کچھ کہنے کے لئے گلا صاف کیا مگر اُس کے کہنے سے پہلے ہی خاندان کی ایک بزرگ عورت بول پڑی۔۔ ’’پاگل ہو گئے ہو کیا باپ کی شادی کراؤ گے؟ سوتیلی ماں لاؤ گے؟ ایک بات بتائے دیتے ہیں تمہیں، سیانے کہتے ہیں ماں سوتیلی ہو تو باپ آپ ہی سوتیلا ہو جاتا ہے تُو اپنے چھوٹے بھائیوں کو سوتیلے پن کی آگ میں جلانا چاہتا ہے کیا؟‘‘

امیر علی پریشان ہو گیا سب کے چہروں کو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا وہی بوڑھی عورت پھر بولی۔ ’’امیر علی تیری کیا صلاح ہے اپنے بچوّں کو سوتیلی ماں کے قہر میں رکھنا چاہتا ہے یا رضوان کو منائے گا۔؟‘‘

امیر علی کے بولنے سے پیشتر ہی اُس کی بڑی چچی نے کتھا کھائے دانتوں کے بیچ سپاری رکھ کر بھنچے بھنچے مُنہ سے کہا۔۔۔ ’’لو بھلا امیر علی کو کیا اعتراض ہو گا، پکا پکایا ملے گا، کپڑا دھلا ہوا، طریقہ سلیقہ آ جائے گا پھر سے گھر میں۔۔۔ اور ہاں بہو آ جائے گی تو سکون سے باہر نوکری کر سکے گا ورنہ تو سارا دھیان اِدھر بچوں میں لگا رہتا ہو گا بے چارے کا۔۔‘‘ پھر لمبا سانس کھینچ کے دکھی لہجے میں بولیں ’’رخسانہ کی بے وقت موت نے کیسے ادھ موّا کر دیا ہے غریب کو۔۔‘‘

امیر علی نے سب کی باتیں سنیں اُسے اپنی سوچ پر خود سے ہی شرم آنے لگی اُس نے سرجھکا کر سب کی باتوں پر سر تسلیم خم کر لیا۔ طے پایا رضوان کا بیاہ اگلے اتوار سادگی کے ساتھ کر دیا جائے گا لڑکی چچی نے پہلے ہی نظر میں رکھی ہوئی تھی اُن کی کامنی۔۔ سب لوگ فیصلہ سنا کے چلتے بنے اور وہ رخسانہ کی قبر پہ آ بیٹھا، اُس سے معافی مانگنے کہ وہ گمراہ ہو گیا تھا دل کی باتوں اور جسم کی تھکان نے اُس پہ جادو کر دیا تھا ورنہ وہ رخسانہ کے سوا کسی اور کے بارے میں کہاں سوچنے والا تھا شکر ہوا بر وقت فیصلہ ہو گیا۔ کامنی بمشکل سترہ سال کی تھی۔ تیکھے نقوش، سانولا رنگ مگر جلد ایسی ملائم کہ پانی کا قطرہ بھی پھسل پھسل جائے گالوں کے اندر ان گنت چراغ روشن رہتے آنکھوں میں شرم و حیا سرمے کی طرح پہرے دیتی اور بدن میں ایسی سختی کہ جو اگر بھولے سے امیر علی کی نظر اس پہ جا پڑتی تو اُسے جھرجھری سی آ جاتی۔۔ کامنی کے آتے ہی گھر کا نقشہ بدل گیا تھا جیسا کہ چچی نے کہا تھا اُسے دھلا دھلایا ملتا گھر کی ہر شے قرینے سے رہتی دستر خوان بن مانگے سج جاتا وہ سوچتا شاید اُس کی بیٹی بھی ایسی ہنر مند اور سلیقہ شعار نہ ہوتی۔ وہ دیکھتا کامنی صبح ہوتے ہی سب کو ناشتہ بنا کے دیتی اُسے اور رضوان کو دکان جانا ہوتا تھا۔ چھوٹے دونوں ابھی سکول کالج میں تھے سب کو بھیج کے گھر کے کاموں میں لگ جاتی پھر دوپہر کا کھانا، بے چاری کتنا تھک جاتی ہو گی اُسے ہمیشہ کامنی کا احساس رہتا وہ سوچتا اتنی کم عمری میں اگر اُس کی سگی بیٹی پر اتنی ذمہ داریاں پڑ جاتیں تو کیا وہ اُس کا ساتھ نہ دیتا جانے کیوں وہ غیر شعوری طور پر کامنی اور اپنی اُس بیٹی میں مقابلہ کرتا رہتا جو تھی ہی نہیں شاید اِس لئے کہ بیٹی کی محرومی کامنی نے آ کے بہت خوبصورتی سے ختم کر دی تھی۔۔ وہ کوشش کرتا گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں کامنی کا ہاتھ بٹا دے اُس دن بھی دوکان سے آ کے موٹر سائیکل صحن میں کھڑی کرتے کرتے اُس نے سوکھے کپڑے تار پہ لہراتے دیکھے تو اُس سے رہا نہ گیا۔ یہ کپڑے اُس نے پچھلے کل دھوئے تھے لیکن اُسے اُتارنے کا وقت ہی نہ مل سکا امیر علی کو کامنی کی مصروفیت کا خیال تھا اِسی لئے اُس نے کپڑے اُتارنے شروع کر دیے یہ کام اُس کے لئے کون سا نیا تھا جب سے رخسانہ دنیا سے رخصت ہوئی تھی وہ سب ہی کام خود اپنے ہاتھوں سے کر رہا تھا سوکھے کپڑے تار سے اُتارنے کیا معنی رکھتے تھے اُسے تو اکثر کپڑے دھونے بھی پڑتے رہے ہیں ہاں البتہ جنتّی رخسانہ کی زندگی میں کبھی اُس نے کسی کام کو چھو کے نہ دیکھا تھا۔۔۔ اچانک کپڑے کھینچتے کھینچتے اُس کے ہاتھ اپنی جگہ جم گئے آج تک اُس نے صرف پینٹ اور شرٹ ہی کو تار پہ لہراتے دیکھا تھا پہلی بارایسا ہوا کہ۔۔۔ مردانہ کپڑوں کے درمیان زنانہ خوشبو میں بسے کامنی کے کپڑے بھی سوکھ رہے تھے وہ سونگھنا نہیں چاہتا تھا، ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا مگر۔۔۔ امیر علی کا چہرہ سرخ ہو گیا ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے ہاتھ نے بے ساختہ ہی انگاروں کو چھو لیا۔۔ امیر علی نے محسوس کیا کپڑوں کی گٹھری بناتے وقت اُس کے بازوؤں میں وہ طاقت نہیں رہی تھی جس کا اُسے ہمیشہ گمان رہتا تھا۔۔

کامنی اُس وقت روٹیاں سینک رہی تھی چولہے کی گرمی اور آگ کی تپش نے اُس کی جلد کے سارے دیے روشن کر رکھے تھے۔ اُس کی سیاہ کاجل سے بھری آنکھوں میں سرخ آگ کا عکس دھڑک رہا تھا۔۔ اچانک امیر علی کو کپڑوں کا گٹھڑ لاتا دیکھا تو گڑ بڑا گئی توے پہ روٹی اُتارے بغیر ہی لپکی وہ جانتی تھی اس نے سوکھنے کو کون کون سے بچھو تار پہ ڈال رکھے تھے تب ہی تو شرم سے اور بھی سرخ ہو گئی۔۔ ’’ہائے اللہ ابو آپ نے کیوں اُتارے کپڑے میں خود اُتار لیتی فارغ ہو کے۔۔‘‘ وہ نیچی نظر کیے کیے بولی۔ ’’میں بھی فارغ ہی تھا۔۔‘‘ امیر علی نے نرمی سے انجان بن کے جواب دیا۔۔ کامنی نے شکر گزاری سے گٹھری اُس کے ہاتھ سے لی اور ایک طرف رکھ کے دھیمے سے انداز میں بولی۔ ’’ابو آپ ہاتھ دھو لیں میں کھانا لگاتی ہوں۔۔‘‘

’’بچے کہاں ہیں۔۔؟‘‘ امیر علی نے باورچی خانے کی ٹونٹی سے ہاتھ دھوتے دھوتے پوچھا۔۔

فیضی اور ارسلان ہوم ورک کر رہے ہیں اور ’’یہ‘‘ کہہ رہے تھے ابھی بھوک نہیں۔‘‘

’’خیر تو ہے بھوک کیوں نہیں۔۔‘‘ ؟امیر علی نے ہاتھ دھو کے ہوا میں ہاتھ جھٹک کے پانی کے چھینٹے اُڑاتے اُڑاتے پریشانی سے پوچھا۔۔ کامنی پھر شرما گئی اور جب وہ شرماتی امیر علی دل اُچھل کے حلق میں آ جاتا اور نظر جھک جاتی۔۔ خدا گواہ تھا امیر علی کے دل میں کامنی کو دیکھ کے کبھی برا خیال نہ آیا تھا مگر عورت کو اُس نے قریب سے دیکھ رکھا تھا وہ نسوانی اداؤں سے واقف تھا بدن کے کیف سے واقف تھا وہ جانتا تھا نئی بیاہتا کے شرمانے کے راز کیا ہیں اُس کی بوجھل پلکیں کیا چھپانا چاہتی ہیں اور بے وجہ مسکراتے ہونٹ کیا بتانا چاہتے ہیں۔۔

’ ’دہی بھلے اور سموسے لے آئے تھے یہ۔۔ ہم سب نے مل کے ابھی کچھ دیر پہلے ہی کھائے ہیں۔۔۔‘‘

امیر علی حیران رہ گیا رضوان اور دہی بھلے، سموسے دو مختلف سی باتیں لگ رہی تھیں۔ کامنی کھانے کی ٹرے اُس کے سامنے رکھتے رکھتے بولی۔۔ ’’میرا جی چاہ رہا تھا۔۔۔ ابو اس لئے لائے تھے۔۔‘‘ مگر امیر علی اُس کی سن کہاں رہا تھا وہ تو جھکی ہوئی کامنی کی بھول بھلیوں میں گم تھا شاید کامنی کو احساس ہو گیا وہ دوپٹہ ٹھیک کرتی وہاں سے ہٹ گئی مگر منظر پھر بھی ٹھہر گیا۔۔

دن گزر رہے تھے وہ دیکھ رہا تھا کامنی کی دونوں دیوروں سے محبت بھی گہری ہوتی جا رہی تھی رضوان کے دل پر تو وہ یوں قابض ہوئی جیسے کسی کنواری پہ آسیب وہ جہاں جاتی رضوان کی نگاہ اُس کے تعاقب میں رہتی کامنی کو خوب اندازہ تھا اِسی لئے پلٹ پلٹ کے مسکراتی رہتی بن بات کبھی آنکھوں سے تو کبھی ہونٹوں سے۔۔ دیکھا جائے تو اِس سے اچھی کیا بات ہو سکتی تھی کہ اُس نے ساری ذمہ داریاں آہستہ آہستہ اپنے نازک کاندھوں پہ ڈال لی تھیں۔۔

وہ گرمیوں کے دن تھے اور حبس بھری راتیں اور اگر یہ دن گرمیوں کے نہ بھی ہوتے تب بھی امیر علی کے سب دن گرم اور تمام راتیں حبس زدہ ہو چکی تھیں تھے۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ شریف انسان تھا کچھ لوگ کہتے ہیں شریف وہ ہوتا ہے جسے موقع نہیں ملتا اور کچھ شریف ایسے بھی ہوتے ہیں جو میسر نہ آ سکنے والی چیز کو مقدر کے سپرد کر دیتے ہیں گویا جِسے چھونا ممکن نہ لگے وہ اُن کے حساب سے خدا ہی ہوتا ہے۔۔ امیر علی کی معاشرے میں جس قدر عزت تھی اُس کی اولاد جیسے اپنے باپ کی شرافت کی قسمیں کھاتی تھی جس طرح رضوان اُس کے خاموش مشورے سے خوش تھا۔۔ سب کچھ مل کر اُس سے اُس کی طاقت چھین چکے تھے دل کی ساری آرزوئیں اُس کے لئے خدا بن چکی تھیں۔۔۔ حبس بھرے ماحول، سوچوں کی یلغار اور خود سے گھبرا کے امیر علی نے چھت پہ جائے پناہ ڈھونڈنی چاہی اُس کی عمر تو ایسی نہ تھی مگر اُس کے تشخص نے اُسے وقت سے پہلے بوڑھا اور کمزور کر دیا تھا اب اُس کے گھر میں بہو آ چکی تھی بہت جلد اُسے دادا بھی بن جانا تھا۔ ایک ایک سیڑھی اُس کے لئے بلند چوٹی کی چڑھائی جیسی مشکل ہو رہی تھی اور کیوں نہ ہوتی اُس کے اندر کا جوان امیر علی اپنی بیوی کے مرتے ہی خود کو ختم جو کر چکا تھا رفتہ رفتہ اُسے سمجھ آنے لگا تھا، ستی کی رسم ختم ہو جانے کے باوجود ابھی باقی ہے مرد اور عورت کی تشخیص کے بغیر۔۔ بس اب اُس کو ادا کرنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔۔

آخری سیڑھی پر پیر رکھتے ہوئے کامنی کی مدھر آواز نے اُس کا راستہ روک لیا اُس نے سرگوشی میں کہا مگر سناٹے میں آواز کا سفر آسان ہو جاتا ہے کامنی کی آواز بھی امیر علی تک با آسانی پہنچ گئی اُس نے سنا وہ کہہ رہی تھی۔ ’’سنیے کیا ہم ابو کی شادی نہیں کرا سکتے۔۔؟‘‘

’’کیا۔۔؟‘‘ رضوان کی کرنٹ لگی آواز امیر علی کے کانوں سے ٹکرائی۔۔ ’’پاگل ہو گئی ہو کیا ابو ہر گز نہیں مانیں گے۔‘‘

’’آپ کہہ کے تو دیکھیں۔۔۔ مان جائیں گے۔‘‘ اُس نے اصرار کیا

’’دیکھو اگر اُنہوں نے شادی کرنی ہوتی تو تب ہی کہہ دیتے جب سب مجھے مجبور کر رہے تھے لیکن وہ اپنے بچوں پہ سوتیلی ماں لانا ہی نہیں چاہتے ویسے بھی میں اُن کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ امی کے علاوہ کسی عورت کو بیوی کا درجہ دے ہی نہیں سکتے۔۔‘‘

’’آپ سمجھتے کیوں نہیں۔۔‘‘ وہ زچ ہو رہی تھی۔۔ ’’مرد کو ہمیشہ بیوی نہیں چاہئے ہوتی۔۔‘‘

امیر علی کو یوں لگا جیسے کامنی نے اُس کی چوری پکڑ لی ہو اُسے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا مگر اُس کے اندر کا شریف آدمی پسینے پسینے ہو گیا۔۔ پھر چارپائی چر چرائی یقیناً رضوان نے کروٹ لے کر اپنا رخ کامنی کی طرف کیا ہو گا۔ امیر علی نے قدم پچھلی سیڑھی پہ دھرا سرگوشی ابھری۔۔ ’’کتنا بور کرتی ہو تم۔۔ دیکھو کتنی ٹھنڈی میٹھی رات ہے، شکر ہے چاند بھی نہیں چمک رہا تاریکی ہی تاریکی ہے اِس پر تم ابو کی وکیل بنی بیٹھی ہو۔۔‘‘

’’کیونکہ مجھ سے اُن کی تنہائی دیکھی نہیں جاتی۔۔ وہ اتنے اکیلے اور۔۔۔‘‘ کامنی بات کرتے کرتے خاموش ہو گئی شاید رضوان نے اُس کے نرم ہونٹوں پہ انگلی رکھ دی ہو گی یا پھر۔۔ سوچ کے ہی امیر علی کے کان سلگ اُٹھے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی۔۔

’’یہ ہمارے پیار کا وقت ہے اِس میں، میں کسی کا ذکر برداشت نہیں کر سکتا، ابو کا بھی نہیں۔۔‘‘

امیر علی کے جسم میں لرزہ سا آ گیا۔

’’آہستہ بولیں رضوان اگر ابو اوپر آ گئے۔۔ اُنہوں نے سن لیا تو۔۔؟‘‘

’’کل سے اُن کے کمرے میں تالا لگا کے آیا کروں گا میں تا کہ تمھارا یہ دھڑکا بھی ختم ہو جائے کہ وہ اوپر آ سکتے ہیں۔۔‘‘

امیر علی کا ہاتھ بے ساختہ سینے پہ پڑا۔۔ درد کی شدید لہر اُس کے سینے سے نکلی اور پورے جسم میں پھیل گئی اُس کا پیر لڑکھڑایا اور وہ گرتا چلا گیا۔۔

ہوش آیا تو سب اُس پہ جھکے ہوئے تھے۔۔ کامنی بہت پریشان تھی امیر علی کی نظر چاروں طرف گھومی وہ سمجھ گیا کہ وہ ہسپتال میں ہے کامنی کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا امیر علی کو ہوش میں آتا دیکھا تو بے تابی سے اُس پہ جھکی۔۔ ’’ہائے اللہ ابو آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔؟‘‘ وہ رو دی۔ ’’شکر ہے آپ کو ہوش آ گیا اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو ہائے اللہ۔۔‘‘ اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے گال پیٹے۔

’’ڈاکٹر کہہ رہا تھا آپ کا جلدی ہوش میں آنا بہت ضروری ہے، چوٹوں کی تو خیر ہے ٹھیک ہو جائیں گی۔ مگر۔‘‘ امیر علی نے کامنی کی بات سے توجہ ہٹانی چاہی ایک لمحے میں اُسے سب کچھ یاد آ گیا محض اپنی توجہ بانٹنے کے لئے اُس نے اپنے جسم کو حرکت دی اُس نے محسوس کیا کہ اُس کا پورا جسم درد سے چُور پھوڑا بنا ہوا ہے۔ اُس نے اپنا بائیاں ہاتھ اُٹھانا چاہا مگر کامنی نے جلدی سے امیر علی کے ہا تھ پہ ہاتھ رکھ دیا۔۔

’’نہیں ابو ہاتھ نہ ہلائیے گا کہنی کا جوڑ ہل گیا ہے بہت گہری چوٹ لگی ہے ڈاکٹر کہہ رہا تھا احتیاط بہت ضروری ہے اگر احتیاط نہیں کی۔۔ تو کہنی کا جوڑ ٹھیک نہیں ہو گا کیوں رضوان؟۔۔‘‘

جانے رضوان نے کیا جواب دیا امیر علی نے آنکھیں بند کر لیں یہ تو وہ جان گیا تھا کہنی کی چوٹ بہت ظالم ہوتی ہے اچانک لگے تو لگتا ہے جیسے جان ہی نکل گئی ہو مگرسنبھالا مل جاتا ہے لیکن نہیں سنبھالا اتنا آسان کہاں تھا اُس نے سنا کامنی نے بھر پور معصومیت سے نمک پاشی کی۔

’’رضوان اگر ابو کی چوٹ ٹھیک نہ ہوئی تو اُن کی زندگی اُن پر کتنی بوجھ بن جائے گی۔۔؟‘‘

امیر علی کی آنکھوں میں اپاہجی کا ممکنہ دکھ آنسو بن کے چمکنے لگا اس نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا جیسے جو ہونا ہے ہو جائے۔۔ کیوں کہ کہنی کی چوٹ روگ تو بن سکتی ہے جا نہیں سکتی۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

مٹی کی قسمت

 

نام تو اس کاسلطانہ رکھا گیا تھا مگر ہاڑ کے مہینے میں آدھی رات کو جب دائی جنتے نے الٰہی بخش کے ہاتھوں میں سلطانہ کو دیا تو لگا سارے گھر میں روشنی ہو گئی اس نے بیٹی کو پہلا نام چندا دیا رانی وہ اپنے آپ ہی بن گئی یوں وہ چندا رانی ہو گئی۔۔ ماں بال بنا کے آنکھوں میں سرمہ لگاتی توسرمے کا ایک ٹیکہ کن پٹی پہ لگانا کبھی نہ بھولتی باپ اسے دیکھ کے واری جاتا آس پڑوس کی عورتوں کو اس نے بارہا یہ کہتے سنا کہ جوان ہوتے ہی بیاہ دینا خوبصورت بیٹی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی رہی سہی کسر اس نامراد شیشے نے پوری کر دی۔۔ سفید بے داغ چہرہ اس پر فاختہ کی رنگت ایسی چمکیلی آنکھیں تیکھی ناک پر غصہ اور ناک کی کیل ایک ساتھ رکھے رہتے وہ جب ناک کو نخرے سے چڑھاتی، ناک پر رکھا خون کے قطرے جیسا سرخ رنگ کا لونگ خوب دمکتا۔۔ کھیتوں میں چوکڑی بھرتی چندا کو سرسوں کے پھول، گندم کی بالیاں بھی سر اُٹھا کے دیکھتیں، جھومتیں تو چھوٹے سرکار کی جیپ کو بریک کیوں نہ لگتے۔ ابھی کل کی بات ہے محب رسول لندن سے ایم بی اے کی ڈگری لے کے لوٹا ہے۔ دس سال پہلے جب وہ گیا تھا تب یہ سب کچھ ایسا نہیں تھا چندا بھی بہت چھوٹی تھی اس نے مارے حیرت کے اپنے پرانے ملازم سے کہا ’’سبحان سب کتنا بدل گیا ہے۔۔‘‘ سبحان نے کمال لاپروائی سے کہا۔ ’’کہاں چھوٹے سرکار کچھ بھی تو نہیں بدلا۔۔‘‘

محب رسول اپنی بات پر قائم تھا۔۔ ’’تمہیں یاد ہے جب دس سال پہلے میں گیا تھا تو سٹیشن تک ہم تانگے پہ گئے تھے اب جب تم لینے آئے تو جیپ پر۔ پہلے زمین کے سینے پر ہل چلانے کے لئے بیل جوتا کرتے تھے اب ٹریکٹر، تمہیں یاد ہے ہمارے گاؤں میں تب صرف ایک سکول تھا وہ بھی بنا دیوار اور چھت کے‘‘

سبحان نے اپنے کندھے سے صافے کو اتارا پھر واپس کندھے پہ رکھا اور بڑے فلسفیانہ انداز سے بولا۔ ’’چھوٹے سرکار جب مٹی کا رنگ نہیں بدلا، مٹی کی قسمت وہی ہے۔۔ تو کیسے کچھ بدل سکتا ہے۔۔؟‘‘

محبِ رسول ایم بی اے کر کے آیا تھا وہ بھی انگریزوں کے ملک سے، اُسے یہ باتیں کیسے سمجھ آتیں۔ اُسے تو یہ پتہ تھا پن چکی کے سُر آج بھی اتنے ہی میٹھے ہیں جتنے وہ چھوڑ کے گیا تھا، نہر کا پانی ٹھنڈا اور سرسوں کے پھول زرد ہیں وہ مٹی کے رنگ اور قسمت کے فلسفے کو کیسے سمجھتا۔۔

جب محب کی جیپ کی بریک لگی ٹائر چرچرائے وہ رکا تو اُس نے دیکھا چندا رانی نے رک کر مسکرا کے سلام کیا دھوپ سے اس کا رنگ تانبے جیسا سنہری ہو رہا تھا آنکھوں میں سورج کی کرنیں روشنی کی لکیریں بنا رہی تھیں ایسے جیسے آنکھ نہ ہو شیشہ دھرا ہو۔۔ محب نے سبحان کو دیکھا وہ پرانا نمک خوار تھا مالک کے تیوروں کی زبان خوب سمجھتا تھا کہنے لگا۔۔ ’’مزارعے بخشو کی بیٹی ہے چندا۔‘‘ محب رسول مسکرا دیا اُس نے بدیس میں کتنا حسن دیکھا تھا مگر وہ ایسا نہیں تھا معصوم بے ضرر کھیتوں میں چوکڑیاں بھرتا۔۔۔ ’’بہت خوبصورت ہے۔۔‘‘

محب رسول کو آئے ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا صبح سویرے نہر کنارے کیکر کی مسواک کرتے، اور تب بھی جب ماں اپنے ہاتھ سے مکھن بلو کر اُس کی سوکھی روٹی پہ رکھ دیتی اور اور تب بھی جب گاؤں سرِ شام ہی رات کا چولا پہن لیتا، وہ لمحے کے کسی حصّے میں بھی شیشے کی آنکھ والی چندا کو بھول نہیں پا رہا تھا تب اُس نے بہت سوچ سمجھ کے ایک فیصلہ کیا کہ اُسے ماں سے بات کرنی چاہیے۔ اُس کی تعلیم بڑے چھوٹے، امیر غریب کے روایتی فرق سے آزاد تھی اِسی لئے صبح جب ماں نے اپنے حنائی ہاتھوں سے سفید مکھن کا پیڑہ محب رسول کی روٹی پہ رکھا تو اُس نے ماں کی سہاگنی رنگ کی سرخ چوڑیوں والی کلائی تھام لی۔۔ ’’امی مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے۔۔‘‘ ماں کی پور پور ممتا بھری مسکراہٹ سے جگمگا اُٹھی۔ ’’بولو میری جان۔۔‘‘

’’مجھے چندا اچھی لگی ہے، بخشو مزارعے کی بیٹی۔۔ بہت خوبصورت ہے وہ۔‘‘ جانے کیا ہوا ماں کا چہرا بجھ گیا اُس کی آنکھوں کے کنارے پر پڑی جھریوں کی لکیروں میں ایک لمحے میں کئی گنا اضافہ ہو گیا وہ کچھ نہ بولیں تو محب رسول اُن کی خاموشی پر حیران رہ گیا مگر جب اُس نے اِس بات کا تذکرہ سبحان سے کیا، وہ بالکل حیران نہ ہوا اِدھر ماں کے نیم انکار جیسی خاموشی نے محب کی دھیمی آنچ پر رکھی محبت پر مٹی کے تیل کی چھینٹوں جیساکام کیا، آگ یکدم بھڑک اُٹھی اُس نے سبحان سے کہا اُسے چندا سے ملنا ہے اُسے بتانا ہے کہ مجھے اُس سے محبت ہو گئی ہے۔۔ اگر محبت ہو گئی ہے تو وہ اکیلا کیوں جلے، محب رسول کا نظریہ محبت چندا کی آنکھوں جیسا شفاف تھا ماں کے کمرے کے دروازے کے پاس رکھے سنگھار میز کے آئینے کی طرح جس میں سے وہ بڑے سرکار کی چاپ تک سن لیا کرتی تھیں۔۔

سبحان نوکر تھا مالک کے بے زبان کتوں کی زبان سمجھنے والا، مالک کی زبان کیسے نہ سمجھتا۔۔ ’’چھوٹے سرکار کب ملنا چاہیں گے؟‘‘

’’رات حویلی کے مہمان خانے میں لے آؤ۔۔۔۔‘‘ اُس نے بظاہر عام سے لہجے میں کہا مگر جی سے وہ کتنا خوش تھا یہ کچھ وہی جان سکتا تھا ایسا نہیں تھا کہ عورت اُس کے لئے کوئی پہیلی ہو ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس کا پہلو بے آباد رہا ہو مگر اِس بار انوکھا سا تجربہ تھا عورت ذات کے انتظار کا یہ ذائقہ اُس نے پہلی بار چکھا تھا اس کا دل بہت شور سے دھڑک رہا تھا۔۔

’’رات کب ہو گی۔؟‘‘ محب کو اپنے سوال پہ آپ ہی شرمندگی ہونے لگی وہ خجل سا ہو کے ہنس دیا۔۔

’’یہاں تو جی بڑے سرکار کی مرضی سے رات ہوتی ہے۔۔۔‘‘ محب محبت کے نئے سے نشے میں تھا وہ سبحان کی بات کی تلخی سمجھ نہ پایا۔۔ اُس نے تو ہمشہ انسان کو انسان ہی سمجھا تھا قانونِ قدرت کا زبردست حامی تھا، وہ خود کو کششِ ثقل اور دنیا کا سورجکے گرد گھومنے پر یقین رکھنے والا معمولی انسان سمجھتا تھا۔ وہ کیا جانتا کہ سبحان کے ہاں رات بڑے سرکار کی مرضی سے کیوں ہوتی تھی۔۔ سبحان نے محب کے نشے پر ٹھنڈا ٹھار پانی ڈالا۔۔ ’’کتنے بجے؟ ۔۔‘‘

محب نے گہری سوچ کے بعد کہا رات گیارہ بجے اور یہ بھی کہ اُس کی عزت اور احترام میں ہر گز کمی نہ آئے، کوئی اُسے یہاں آتے دیکھ نہ لے اُس نے کہا ’’میری تو خیر ہے مگر مجھے چندا کے ماتھے پہ رسوائی کا داغ گوارا نہیں۔۔؟

وقت بہت سست روی سے گزر رہا تھا دن ڈھلا تو شام نے بیڑیاں پہن لیں محب سورج کی ایک ایک کرن کو رات کا روپ بھرتے دیکھ رہا تھا اُس کا رواں رواں ’’کان‘‘ بنا ہوا تھا۔۔ جب ہی تو ماں کی تیسری پکار پر بھی اُس نے نہ سنا تو ماں نے اُسے کندھے سے پکڑ کے ہلایا اُس کی خاموشی کو ماں نے اُس کی ناراضگی جانا اور بہت مُردہ آواز میں بولیں۔۔ ’’میں جانتی ہوں وہ بہت حسین ہے رنگین بھی، پر میری جان ہمارا اُن سے مقابلہ نہیں ہے۔ سن میرے لعل خاندانی وقار بھی کوئی چیز ہے عالی مرتبت چودھری وقار احمد ولد رسول احمد ایک بے ضرر مٹی میں بیج بونے والے مزارعے کی بیٹی کو اپنے ’’دستر خوان‘‘ کی زینت تو بنا سکتا ہے اپنی حویلی کی نہیں۔؟‘‘ محب انسانیت کے اس فلسفے سے قطعی واقف نہیں تھا۔۔ سچ تو یہ تھا کہ اُسے ماں کی بات سمجھ ہی نہ آئی۔۔

رات چڑھی، سوئی کی ٹک ٹک اور حویلی کے مہمان خانے کی خاموشی۔۔۔ محب نے کتنے خیال باندھے اس نے سوچا اُس کے بلاوے کو چندا نے کیا خیال کیا ہو گا؟ محب نے ارادہ کیا کہ وہ چندا کے آتے ہی کہہ دے گا اُس کا مقصد کچھ اور نہیں بس اپنی محبت کی خبر دینا ہے۔۔ ’’میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں تم مجھے اچھی لگی ہو اور۔۔۔۔ لیکن۔۔‘‘ محب ہڑبڑا گیا یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں تھی ہمت ہے تو مزارعے بخشو کی بیٹی کو بیاہ کے لا۔۔ مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا وہ آنے والی ہو گی وہ خود سے لڑتے لڑتے جھنجلا گیا، محبت میں بلایا ہے۔

اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ اُس نے خود کو دلاسہ دیا، تب ہی سبحان نے کمرے کے دروازے پر دستک دی سبز اور سرخ بڑے بڑے پھولوں والی چنری اُوڑھے چاند نے کمرے کو روشن کر دیا چندا کی شیشے جیسی رنگین آنکھوں میں کمرے کے سارے بلب روشن ہو گئے محب بے ساختہ مسکرا دیا۔۔ سبحان نے چھوٹے سرکار کو دیکھے بغیر کہا ’’میں باہر ہوں‘‘

سبحان چلا گیا اور گہری چپ چھوڑ گیا محب نے دو بار کھنکار کے گلا صاف کیا اور کئی بار پہلو بدلا۔ بالآخر محب نے جان لیا کہ اُس سے بہت زیادہ نہیں بولا جائے گا جب ہی اُس نے تمہید باندھے بغیر کہا۔ ’’مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے چندا، میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘ وہ پڑھا لکھا سمجھدار آدمی دل سے کی محبت کے سامنے کمزور پڑ گیا ہکلا کے بولا ’’مطلب شادی کر کے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں‘‘ چندا جو اب تک آنکھوں سے روشنی کر رہی تھی مسکرا دی اُس کے اُوپری ہونٹ کا کٹاؤ اور واضح ہوا اور دو پنکھڑیاں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں۔ ’’کب تک۔۔۔؟‘‘

محب بات کو سمجھا نہیں چندا قریب آ گئی اتنے قریب کہ وہ چندا کی دھڑکنیں گن سکتا تھا۔

اُس کے ہاتھ بے ارادہ چندا کے گرد حمائل ہو گئے چندا ٹوٹی شاخ کی طرح محب کے سینے سے آ لگی اُس نے محب کو اپنی قربت کے نشے سے ملوانا چاہا مگر اچانک ہی محب کی نظر دیوار پہ آویزاں اپنے والد بڑے سرکار چودھری وقار احمد کی تصویر پہ پڑی اس کے بالکل ساتھ اس کے دادا جن کا نام اس کے نام سے جڑا تھا رسول احمد پوری وجاہت اور خاندانی وقار کے ساتھ کھڑے تھے۔۔ چودھری وقار احمد کے خاندان کی بڑی عزت تھی سب جانتے ہیں اس خاندان کے مَردوں نے کبھی کسی غیر عورت کو سر اُٹھا کے نہیں دیکھا جب ہی تو زمانے سے کمیوّں کی عورتیں ہی اُن کی حویلی میں کام کے لئے آیا کرتی تھیں اور خوب نوازی بھی جاتیں تھیں۔۔ محب کے ہاتھ چندا سے دور ہو گئے وہ دو قدم پیچھے ہو گیا اُسے احساسِ ندامت نے آ گھیرا۔ ’’اگر جو کسی نے رات کے اِس پہر چندا کو باہر نکلتے دیکھ لیا تو؟ کسی نے عالی مرتبت بڑے سرکار سے شکایت لگا دی تو؟ سبحان ملازم ہے جانے میری اس کمزوری کو کیسے لے گا؟ اُف مجھے کیا ہو گیا تھا‘‘ اسے اپنی عجلت پر غصہ آ نے لگا۔۔

اُس نے بہت سنجیدگی کے ساتھ چندا سے کہا ’’سنو جو کچھ میں نے کہا اس میں اتنی ہی سچائی ہے جتنی تمہارے یہاں ہونے میں پر میں نہیں چاہتا یہ بات سب کو پتہ چلے اس لئے فی الحال خاموش رہنا۔۔ اور میرا انتظار کرنا، اب تم جاؤ۔۔‘‘ محب نے سبحان کو موبائل پر بیل دے کے بلا لیا۔۔

’’سبحان۔۔‘‘ محب نے اس سے نظر ملائے بغیر کہا ’’اسے احترام سے لے جاؤ اور دیکھنا کسی کو خبر نہ ہو کہ چندا رات یہاں آئی تھی یہ ہمارے بزرگوں کی عزت کا سوال ہے۔۔‘‘

’’جاؤں۔۔؟‘‘ چندا نے حیرت سے کہا ’’ایسے ہی؟‘‘

’’مطلب۔۔؟‘‘ محب پریشان ہو گیا

’’بڑے سرکار تو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔۔ کیوں سبحان۔۔؟‘‘ اس نے کمال معصومیت سے کہا سبحان نے لمحے بھر کو محب کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا محب کے لئے سارا منظر اجنبی ہو گیا اسے ماں کی خاموشی سمجھ آ گئی، اسے لگا سبحان کہہ رہا ہے۔۔ ’’دیکھا چھوٹے سرکار مٹی کا رنگ نہیں بدلا، مٹی کی قسمت بھی وہی ہے۔۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

اسیرِ ذات

 

روز کی طرح آج بھی فجر پڑھ کے صبوحی کی ساس جو اُس کی سگی چچی تھیں، نے جائے نماز تہہ کی اور تسبیح ہاتھ میں لے کر لگیں صبوحی کے بیڈروم کا دروازہ بجانے۔ اُن کا خیال تھا یہ ہر ماں باپ کا فرض ہے بچہ چاہے جاگے نہ جاگے ایک بار اُسے جگانا ضرور چاہیے شاید کبھی وہ سن ہی لے اب بھی اپنے تئیں صبوحی کی ساس نے اپنا فرض پورا کیا اور بولی۔۔۔ ’’صبوحی … اٹھ جاؤ دو سجدے ہی کر لیا کرو۔‘‘

اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تو وہ پھر چیخیں اب اُن سے کوئی پو چھے اُن کا فرض ادا ہو گیا اب کیا مسئلہ ہے۔ ’’صبوحی … ارباز … ’اس بار ’قدرے اونچی آواز میں بولیں۔ صبوحی نے کسلمندی سے کروٹ لی اور تیسری اونچی آواز پر بڑبڑاتی ہوئی اُٹھی۔۔ ’’اسرائیل کی آواز بھی کیا ہو گی جو چچی جان کی للکار ہے … پھر قدرے اُونچی آواز میں چیخی۔۔۔ ’’اُٹھ گئی ہوں … ‘‘

ساس نے دروازے کے پاس سے ہٹتے ہٹتے تیکھے انداز میں کہا۔ ’’شکر ہے … اُسے بھی جگاؤ پتہ نہیں کیسی نیندیں ہیں جو پوری نہیں ہوتیں۔۔ ’’صبوحی کا بس چلتا تو اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیتی اور وہ ایسا کر بھی گزرتی مگر عین اُسی وقت ارباز نے آنکھیں کھول کے محبت سے اُسے دیکھا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے سینے پہ رکھ لیا۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور کچھ کہے بنا ہی اُٹھ گئی۔۔

ساس کو ناشتہ کرا کے، ارباز کو آفس بھیج کے اپنی اور ارباز کے تایا ابو کی چائے لے کے وہ ان کے کمرے میں آ گئی تایا ابو اپنے کمرے کی کھڑکیوں کے پردے کھول کر روشنی کر رہے تھے اُس کی آواز سن کر مسکرانے لگے وہ جانتے تھے کہ اب صبوحی نے جی بھر اپنی ساس کی شکایتیں لگانی ہیں اور وہی ہوا اُس نے چائے کا کپ تایا جی تھمایا اور اُن کے پاس ہی کارپٹ پہ بیٹھ گئی تایا جمیل کو یہ خوبصورت لڑکی اچھی بہت لگتی تھی جب صبوحی اپنی چھوٹی سی ناک چڑھا کے روشن ماتھے پہ بل ڈال کر تایا جمیل سے ساس کی برائی کرتی تایا جی کو کبھی بری نہ لگی بلکہ اُن کا انہماک اور زیادہ ہو جاتا صبوحی کے شکوے بھی تو اتنے معصوم ہوا کرتے تھے اب بھی وہ کوئی ایسا ہی غم لے کے آئی تھی کہنے لگی۔۔۔۔

’’تایا ابو کوئی آج کی بات تھوڑی ہے یہ … ایسا تو روز ہی ہوتا ہے … میری ساس پتہ نہیں کیا چاہتی ہیں … اُس نے ویٹ (WET ) ٹشو پیپر سے ناک رگڑا۔۔

تایا جمیل پہلی بار حیران ہوئے۔۔ ’’ارے … صبوحی تو رو رہی ہے … ؟‘‘

صبوحی ہنس کے تایا جمیل کو دیکھنے لگی ’’تایا ابو روتے تو بزدل ہیں اور میں بزدل نہیں … میں تو اپنا حق چھننے والوں میں سے ہوں۔۔ میں نئیں روتی ووتی۔۔

تایا ابو۔۔ پھر یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے ٹشو پیپر کی طرف اشارہ کیا ’’یہ۔۔۔؟‘‘ صبوحی زور سے ہنسی۔ ’’یہ تو میں کلینزنگ کر رہی ہوں … سارا دن کچن میں کام کر کر کے برا حال ہو جاتا ہے … آج کیا ہوا سُنیں … ‘‘ وہ تایا ابو کے ذرا اور قریب آ گئی انہوں نے بھی دلچسپی سے اسے دیکھا … ’’میری ساس کہتی ہیں یعنی آپ کی بھابی … ‘‘ اُس نے ایسی حسرت سے کہا کہ جیسے اُسے خود پہ ترس آ رہا ہو۔۔ ’’جانے انہیں مجھ سے کیا بیر ہے … کہنے لگیں جو بیاہ کر لایا ہے وہی اُٹھا سکتا ہے تیرے نخرے … آپ خود ہی بتائیں بے چاری بہو کیا نخرہ کر سکتی ہے …

تایا ابو نے اُس سے بھی زیادہ معصوم صورت بنا کر ’’ہاں … واقعی … ‘‘

صبوحی شہہ ملنے پر شیر ہو گئی ’’بس اتنا ہی کہا تھا کہ مونگرے آلو نہ پکائیں … پورے گھر میں بدبو پھیل جاتی ہے … لگیں طعنے دینے بڑی آئیں پیرس سے … باپ نے خوشبو کی فیکٹری لگا رکھی ہے … جو بیٹی کو بدبو آتی ہے ہر چیز سے … ‘‘

تایا ابو حیرت سے بولے ’’ایسا کہا اُنہوں نے … ؟

صبوحی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر کریم کا مساج کر رہی تھی بے نیازی سے بولی ’’نہیں … کہا تو نہیں مگر ان کا مطلب ایسا ہی تھا … ‘‘

(تایا ابو بے ساختہ ہنس دیے کہنے لگے۔۔۔ ’’بے وقوف لڑکی … اگر میں کہوں کیا تو پیرس سے آئی ہے … جو ذرا سی بدبو برداشت نہیں کر سکتی تو … کیا کرے گی تو … ؟

صبوحی مساج کرتے کرتے اُن کو دیکھے بغیر بولی۔۔ ’’میں بالکل بُرا نہیں مانو گی … ‘‘ ’’کیونکہ میں تمہاری ساس نہیں ہوں … ‘‘ انہوں نے سادگی سے پوچھا ’’نہیں … اس لیے کہ میں آپ کی کسی بات کا کبھی بُرا مان ہی نہیں سکتی … ‘‘ اُسنے اپنا ہاتھ رگڑا ’’جانتی ہو کیوں … ‘‘ صبوحی نے ذراسی شکل بنائی ’’اب کوئی نئی بات نہ کر دیجئے گا‘‘

تایا جمیل نے گہری سوچ میں ڈوبے ڈوبے کہا ’’وہ بات جو میں کرنے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ تجھے میری کوئی بات اس لئے بری نہیں لگتی کیوں کہ تو مجھ سے بے حد محبت کرتی ہے … ‘‘

صبوحی نخرے سے بولی۔ ’’ایک تو میں آپ کے اس confidenceسے بہت تنگ ہوں … ‘‘

تایا جمیل مسکرا کے بولے ’’بیٹی محبت کا اعتماد یونہی تھوڑا مل جانا ہے وہ بھی تیرے جیسی لڑکی کا … توبہ توبہ … بڑا پتہ مارنا پڑتا ہے … ‘‘ تایا ابو ہنس کر رہ گئے

’’بیٹی کسی کا پیار پانے کے لیے پہلے اس سے محبت کرنی پڑتی ہے … تمہارا اپنا دل اگر صاف ہو گا تمہیں ساری دنیا پیاری لگے گی … ‘‘

صبوحی زچ ہو کر رہ گئی۔۔ ’’تایا ابو اب نئی بات سکھانے لگے ہیں … ؟‘‘

تایا ابو نے صبوحی کا ہاتھ پکڑ کے پیار سے پوچھا … ’’صبوحی میری بیٹی سب میں سو سو کیڑے نکالتی ہے لیکن مجھ بوڑھے میں ایسی کیا بات ہے جو وہ میرے پاس بیٹھی رہتی ہے … ‘‘ صبوحی نے اُن کے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور لاڈ سے ’’مجھے یہ بوڑھا اس لئے اچھا لگتا ہے کہ یہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔۔‘‘

تایا جمیل نے کہا۔۔ ’’یہی تو میں سمجھانا چاہتا ہوں … دس لاکھ کا مجمع ہو لیکن اس میں ایک محبت بھری آنکھ اپنا جادو جگا دیتی ہے … باقی نو  لاکھ نو ہزار نو سو ننانوے لوگ دکھائی نہیں دیتے … جیسے سب کو چھوڑ کر تم میرے پاس آ جاتی ہو … جیسے سارے خاندان کی لڑکیاں چھوڑ کر ارباز نے تجھ سے شادی کر لی … ‘‘

صبوحی تلملا ہی تو گئی۔۔ ’’پر محبت تو نہیں کی ناں … ‘‘ وہ برا سا مُنہ بنا کے چلی گئی۔

تایا ابو بڑبڑاتے رہ گئے۔۔ پگلی ہے تو … اور وہ کیا کرے بے چارہ …

کمر پر ہاتھ رکھے صبوحی نے کمرے کا جائزہ لیا … گیلا تولیہ صوفے پر پڑا ہوا تھا … گندے کپڑے زمین پر … چادر شکن آلود … سرہانے بے ترتیب اس نے پہلے گیلا تولیہ اٹھا کر دھونے والے کپڑوں میں رکھا۔۔ صبوحی کی نازک مزاجی نے ماتھے پہ سو بل ڈالے۔۔ ’’تایا ابو بھی عجیب ہیں … سارا دن کی کِل کِل میں بھلا محبت کیسے ہو سکتی ہے … اب اگر ارباز نے مجھ سے شادی کر لی ہے تو اس میں میرا کیا گناہ ہے … اگر وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو مانے ناں میری ساری باتیں … کبھی ایک بار خوشی سے مجھے میکے جانے دیا‘‘ … صبوحی نے سارا غصہ چادر پر نکالا اور اسے بری طرح جھاڑا۔۔ ’’رضا کی سالگرہ والے دن حالانکہ ارباز جانتا ہے مجھے اپنے اس بھائی سے کتنا پیار ہے … لیکن کھانا بھی نہیں کھانے دیا تھا کسی نے … پورا خاندان مجھ پر پل پڑا جلدی کرو … جلدی کرو … حد ہوتی ہے کسی بات کی … اسے محبت کہتے ہیں بھلا … وہ بڑبڑائے جا رہی تھی کہ فون کی بیل بجی۔۔ ’’ہیلو … ‘‘ اس نے بے دلی سے کہا

دوسری طرف ارباز تھا خوش مزاجی سے پوچھنے لگا۔ ’’کیا ہو رہا ہے … ؟‘‘

صبوحی نے ناگواری سے کمرے کو دیکھا اور تلخی سے بولی۔۔ ’’ہونا کیا ہے … اتنا ہنگامہ مچا کے جاتے ہو کمرے میں … کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر نظر ہی نہیں آتی … شرٹ کہیں … تکیہ کہیں اور چادر … ‘‘

ارباز ہنس دیا ’’کیا ان سب میں تمہیں میری خوشبو نہیں آتی … کیا تم ایسانہیں سوچتیں کہ میرے کام تمہیں تھکاتے نہیں … ‘‘

صبوحی کو اُس کی بات میں کہیں رومینس محسوس نہ ہوا۔۔ ’’دیکھو ارباز کام تو تھکا ہی دیتے ہیں … ‘‘

’’بہت غصے میں ہو … امی سے جنگ تو نہیں ہو گئی … ؟‘‘ اُس نے چھیڑا۔

’’آپ تو جانتے ہیں ناشتے کے بعد دو گھنٹے کی نیند اُنہیں کتنی عزیز ہے … ‘‘ اُس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔ ’’تو اس میں غصہ کرنے کی کیا بات ہے تم بھی سو جاؤ … تھوڑی دیر کے لیے … ویسے بھی تمہیں جگانے والا تو اس وقت گھر پر ہے ہی نہیں۔۔‘‘ خود ہی ہنس دیا۔۔ ’’سب نخرے اٹھائے ہیں تمہارے ایک یہ بھی سہی … ‘‘

’’کون سے نخرے اُٹھاتے ہو۔۔ صبح کے گئے کہیں … رات کو آتے ہو … کون سا وقت بچتا ہے میرے نخروں کے لیے … میں تو بس یونہی بدنام ہوں … ‘‘ صبوحی کی بات سن کر ارباز خوب ہنسا۔۔۔ ’’اچھا … چلو آج جلدی آؤں گا … وعدہ … پھر ہم لانگ ڈرائیو پر چلیں گے … ‘‘

صبوحی دل ہی دل میں خوش … مگر لاپروائی سے بولی ’’اچھا … چلیں … جب شام آئے گی تب دیکھوں گی … ‘‘

’’ہاں ہم دونوں مل کر دیکھیں گے۔۔‘‘ ارباز نے گمبھیر آواز میں کچھ کھوئے کھوئے کہا … ’’ڈوبتے سورج کو۔۔ ساحل سے گلے ملتی لہروں کو۔۔۔۔۔۔‘‘

صبوحی کسی اور ہی خیال میں گم ہو گئی اُسے اندازہ ہوا تایا جی صحیح کہتے ہیں اب ایسی بھی بات نہیں کہ ارباز مجھے چاہتا نہ ہو آخر خوب صورت ہوں سمارٹ ہوں مجھ جیسی لڑکی آسانی سے کہاں ہاتھ آتی ہے۔۔۔ اُس نے تیار ہو کے خود کو بارہا آئینے میں دیکھا۔۔۔ مگر وقت گذر رہا تھا اور مایوسی بڑھ رہی تھی۔۔ کسی بہلاوے سے بھی دل نہیں رہا تھا۔۔

تاریکی پھیلی جا رہی ہے گھڑی نے نو بجا دئیے ہیں … صبوحی کا لمحہ بہ لمحہ غصہ تیز ہوتا جا رہا ہے وہ لان میں چکر پہ چکر کاٹ رہی تھی تایا ابو کو گواہ کے طور پر سامنے بٹھا رکھا تھا۔۔ ’’فون کر کے پتہ تو کرو … ‘‘

’’کیوں کروں … ؟‘‘ غصے میں بولی۔۔ تایا ابو۔ اس کی کیفیت سمجھ رہے تھے تحمل سے بولے۔ ’’مردوں کے کام بڑے عجیب ہوتے ہیں … گھر سے جاتے تو اپنی مرضی سے ہیں مگر واپسی اللہ کی مرضی سے آتے ہیں … بزنس میں ہے تمہارا میاں … سرکار کا ملازم نہیں … 9 to 5والا … ‘‘

صبوحی نے تنک کے کہا ’’آپ مرد ہیں ناں … اس لیے اس کی طرف داری کر رہے ہیں … ‘‘

’’مرد ہوں اس لیے اُن کے مسائل سمجھتا ہوں اچھا ادھر آؤ ایک بات بتاؤں … (وہ دونوں گھاس پر بیٹھ گئے … چاند آب و تاب سے چمک رہا تھا۔۔ صبوحی چاند کی روشنی میں دمک رہی تھی۔۔ ’’میں تمہاری تائی سے بہت محبت کرتا تھا … وہ بھی کرتی تھی مگر کم … جس طرح تمہیں ارباز سے محبت ہے مگر کم کم … ‘‘ صبوحی نے پہلو بدلا۔۔ ’’وہ بھی بہت خوبصورت تھی … اسے مجھ سے زیادہ اپنی ذات سے محبت تھی وہ کسی کو اپنے جیسا سمجھتی ہی نہیں تھی … بیٹی اپنی ذات سے محبت بڑی ظالم ہوتی ہے … کسی اور کو قریب آنے نہیں دیتی … میں اسے بہت سمجھاتا تھا … ‘‘

صبوحی نے مُنہ بنایا ’’لو جی … کیوں نہ کریں اپنی ذات سے محبت … جب کوئی دوسرا نہ سرا ہے … نہ چاہے تو کیا خود بھی اپنا آپ بھول جائیں … ؟آپ کہتے ہیں ناں … ارباز نے مجھ سے محبت کی شادی کی … آپ کو سچ سچ بتاؤں شادی کے ان تین سالوں میں تین بار بھی اس نے یہ نہیں کہا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے …

تایا ابو نے ہنس کے کہا۔۔ ’’محبت نہ کرتا ہوتا تو تیرے نخرے اُٹھاتا بھلا … صبو میری جان محبت کو پا لینا مشکل نہیں مگر اس کو قائم رکھنا کسی پل صراط سے کم نہیں ہوتا۔ محبوب بنانا بہت جوکھم کا کام ہے میری پیاری۔‘‘ (انہوں نے صبوحی کے چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کو اپنے ہاتھ سے ہٹایا) ’’جس دن تم اپنی ذات کی محبت سے آزاد ہو جاؤ گی اس روز ارباز بھی تمہارا محبوب بن جائے گا … ‘‘

صبوحی جیسے خواب میں بولی۔۔۔ ’’مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آیا محبوب کہتے کِسے ہیں … ؟‘‘

(انہوں نے مسکرا کے صبوحی کی مانگ پر بوسہ دیا)

تایا جمیل نے محبوبیت سے صبوحی کی آنکھوں میں دیکھا۔۔ ’’محبوب اُسے کہتے ہیں جس کا نہ ٹھیک بھی ٹھیک لگے … سارے قصور اپنے لگیں … وہ سدا بری الذمہ رہے … (وہ کہیں دور کھو گئے ) جیسے مجھے تیری تائی سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی … وہ غصہ کرتی تو اس کے ماتھے کی ایک رگ پھڑکنے لگتی … مجھے اس رگ سے بھی محبت تھی … جب وہ ناراض ہوتی تو دنوں لباس نہ بدلتی … بال نہ بناتی … چلتی تو دوپٹے کا آدھا پلو زمین پر گرا رہتا … میں اس کا آنچل اٹھا کر اسے پیار کرتا اس کے کندھے پر رکھ دیتا … اس کے الجھے بال … اس کے لباس کی شکنیں … سب اچھا لگتا … اورجس دن وہ جا رہی تھی …

مارے حیرت کے صبوحی کی آنکھیں پھٹنے کو تھیں۔۔ ’’ آپ جانتے تھے وہ جانے والی ہیں … ؟‘‘

تایا جمیل نے بہت چاہا اُن کی آنکھیں نہ چھلکیں اسی لیے ہنس دیے۔ ’’ہاں … اس نے بہت پہلے بتا دیا تھا وہ مجھ جیسے لا پرواہ کے ساتھ نہیں رہ سکتی … اس دن صبح ہی سے میں بہت اداس تھا … وہ جا رہی تھی اس کا دوپٹہ زمین سے اٹھا کر میں نے اس کے شانے پر رکھنا چاہا اس نے نہیں رکھنے دیا … اس نے غصے سے مجھے دیکھا … اُس کی رگ پھڑپھڑائی … میں نے التجا کی اس رگ پر آخری بوسہ لے لینے دو … مگر وہ رکی نہیں … ‘‘

صبوحی افسردہ ہو رہی تھی۔ ’’آپ کو بہت غصہ آیا ہو گا … ؟‘‘

تایا ابو لمبی سی آہ بھری جیسے برسوں پرانا حبس نکال دینا چاہتے ہوں۔

’’نہیں … اور آج بھی اس پر غصہ نہیں ہوں … قصور تو میرا ہی تھا … نہ کبھی اُس کی تعریف کی … نہ محبت کا اظہار … شادی کی تو سمجھا … محبت کو یہ sovenior بہت ہوتا ہے … دیکھو ارباز آئے تو ناراض نہ ہونا … ‘‘ جانے وہ اُسے سمجھا رہے تھے یا خود کسی دکھ سے نبٹ رہے تھے۔۔

’’تایا ابو آپ کو پتہ ہے اُس کے پاس بہانوں کی کتاب ہے جب دیر سے آتا ہے ایک نیا صفحہ کھول کے بیٹھ جاتا ہے۔۔‘‘

تایا ابو نے بہت اُونچا قہقہہ لگایا۔۔ ’’تو پھر اسے اتنا تو آزاد کر دو میری بیٹی کہ اسے تمہیں بہلانے کے لیے جھوٹ نہ بولنا پڑے۔۔ یا اس کا سچ تمہیں کڑوا نہ لگے۔۔‘‘

اور وہی ہوا ارباز نے بہانوں کا دفتر کھول دیا صبوحی غصے سے بالوں میں لگا کلپ اتارنے لگی … وہ ارباز کی ہر سنی اَن سنی کر رہی تھی وہ تقریباً ہاتھ جوڑے التجا کر رہا تھا۔۔ ’’تمہاری قسم اگر بے وقت کلائنٹ نہ آ جاتا تو میں وقت سے پہلے تمہارے پاس ہوتا … (صبوحی نے ان سنی کر دی اور کانوں سے بالیاں نوچنے لگی) مجھے دیکھ تو لینے دو کیسی لگ رہی ہو … (ارباز نے کندھے سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا) بہت محنت سے تیار ہوئی تھیں … ؟صبوحی جیسے کچھ سن ہی نہ رہی ہو اس نے چوڑیاں اتارنے کے لیے ایک ہاتھ چوڑیوں پر رکھا ارباز نے اُس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے محبت سے کہا۔۔ ’’یقین کرو ایک ایک پل گھڑی دیکھ کر گزر رہا تھا … ‘‘

صبوحی کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہیں تھی۔ ’’تو معذرت کر کے آ جاتے … ‘‘

کلائی سے چوڑی کھینچتے کھینچتے بولی۔۔

ارباز زچ ہو رہا تھا مگر ظاہر کیے بنا بولا۔۔ ’’تم میری بیوی ہو … میرے دن رات کی رفیق۔۔ جب تم میری معذرت قبول نہیں کر رہی … تووہ کیا کرے گا وہ تو میرا کچھ لگتا ہی نہیں … وہ میری معذرت میری مجبوری کیا سمجھے گا … ‘‘ صبوحی نے کھانے کا پوچھا اور ارباز کی خاموشی نے جواب دے دیا اُس نے بے حد غصے سے کروٹ لی اور سونے کا ڈھونگ کیا۔۔

اگلی صبح ناشتے کی میز پر ارباز کے سامنے رومال، گھڑی، موبائل اور چشمہ رکھ کر خود دوسری کرسی پر بیٹھ گئی ارباز بے نیازی سے بیٹھا ناشتہ کرتا رہا … صبوحی نے پہلی بار محسوس کیا کہ ارباز نے اُس کی موجودگی کا نوٹس نہیں لیا۔۔ ارباز کے جاتے ہی اپنی پریشانی لے کے تایا جمیل کے پاس چلی آئی۔۔ اس نے بتایا اُسے ارباز کی بے نیازی سے ڈر لگ رہا ہے …

تایا ابو نے عادتاً ہنس کے کہا۔۔ ’’تمہیں ڈر ہے وہ تم سے دور ہو رہا ہے؟‘‘ سگریٹ کے طویل کش کے بعد یوں بولے جیسے صبوحی سے نہیں خود اپنے آپ سے کہہ رہے ہوں ’’کھونے کا احساس محبت کی جڑیں مضبوط کرتا ہے … در اصل تم ارباز کو چاہتی ہو … لیکن تمہاری محبت میں خود غرضی کا عنصر تھوڑا زیادہ ہے … جس دن یہ بیلنس ہو گیا … تم برملا کہو گی ارباز تمہارا محبوب ہے … تمہیں اس کی کوئی بات بری نہیں لگتی … ‘‘

’’لیکن کب … تایا ابو … ؟‘‘ اُس نے حسرت سے پوچھا۔۔۔

’’جس دن تم اپنا دل صاف کر لو گی … بات یہ ہے کہ، یہ جو دل ہوتے ہیں نا انسان کے۔۔ آئینے ہوتے ہیں … اسے جتنا صاف رکھو گی دوسرے لوگ اتنے ہی صاف اور اچھے نظر آئیں گے … محبت خالی لفظ نہیں ہے میری جان بہت بڑی آزمائش ہے … اس ایک لفظ میں دل دھڑکتا ہے اسے ہمارے احساسات اور جذبات اپنا لہو پلا کر زندہ رکھتے ہیں … جس دن اس لہو کی سپلائی بند ہو جاتی ہے … اس دن محبت بھی مر جاتی ہے … جیسے تمہاری تائی کی محبت آج بھی میرے اندر سانس لے رہی ہے … اگر تم ارباز کو چاہتی ہو تو اس سپلائی کو کبھی بند نہ ہونے دینا … ‘‘ اُنہوں نے سمجھایا اور صبوحی نے بھی سوچ لیا تایا ابو کی بات پر ضرور غور کرے گی شاید اِسی لئے جب ارباز نے اُسے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا تو اُس نے انکار نہیں کیا۔۔

صبوحی بہت خوش … سیاہ چمکدار اور قیمتی کار میں بیٹھی صبوحی بار بار کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھی … ارباز کا سیاہ بالوں والا اجلا ہاتھ اسٹیرنگ پر تھا کبھی کبھی بلیک مٹیلک گھڑی چمکتی تو صبوحی ضرور متوجہ ہو جاتی دوسرا ہاتھ گیئر پر تھا۔۔ ’’ایک بات پر میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں …‘‘ صبوحی نے گئیر پہ رکھے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔

ارباز مسکرا دیا۔ ’’اچھا صرف ایک بات پر؟ … اچھا خیر بتاؤ وہ ایسی کون سی خاص بات ہے …‘‘

صبوحی نے اِترا کر نخرے سے کہا۔۔ میری طرح تمہارے ہاتھ بھی بہت صاف ستھرے اور خوبصورت ہیں بلکہ تم بھی … (ارباز مسکرا دیا) اگر تم میلے ہوتے … تمہارے ہاتھ پیر ایسے نہ ہوتے تو میں کتنی Uncomfortableرہتی … بالکل مزہ نہیں آتا … تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کا۔۔‘‘ ارباز نے بہت عجیب نظروں سے صبوحی کو دیکھا۔ ’’اب comfortableہو … ؟‘‘

صبوحی کی ہنسی غائب ہو گئی اُس نے روٹھے روٹھے انداز میں کہا۔۔ ’’شاید ہاں شاید نہیں در اصل جیسا میں نے سوچا تھا تم ویسے نہیں ہو … ‘‘

ارباز حیران ہی تو رہ گیا۔۔ ’’تم کیا سوچتی تھیں … ؟‘‘

’’میں سوچتی تھی تم بہت پیار کرنے والے ہو گے … تمہیں میرے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیا کرے گا … ظاہر ہے میں اتنی خوبصورت جو ہوں … میری تعریف کرو گے … مجھے سراہو گے۔۔ ’’گاڑی ریسٹورنٹ کے سامنے روک کر ارباز صبوحی کی بے وقوفانہ بات پر ہنس دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

(ہلکی روشنی اور دھیمے میوزک والے نیم خوابیدہ ماحول میں دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یوں آئے جیسے بادلوں کی سیر کرنے نکلے ہوں۔۔ آگے بڑھ کر ارباز نے کرسی میز کے سینے سے الگ کی اور صبوحی کو بیٹھنے کے لئے کہا۔۔ صبوحی بیٹھ گئی۔

ارباز اُس کے مقابل آ کے بیٹھ گیا۔۔ اُس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بہت سنجیدگی سے بولا۔۔ ’’ایک بات بتاؤں صبوحی دنیا کے سارے مرد اس عورت کو پیار کرتے ہیں جو اپنی ہستی بھلا کے اس کے عشق میں مبتلا ہو جائے …‘‘

(صبوحی کھلکھلا کے ہنسی پھر خفت سے دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے ارباز کی طرف جھک کر بولی) ’’اور مجھ جیسی عورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے … ہم کم نصیبوں کو بھی کسی کی محبت میسر آ سکتی ہے یا نہیں … ؟‘‘

ارباز جانے ریسٹورنٹ کے احترام میں آہستہ بول رہا تھا یا کوئی اور وجہ تھی لیکن اُس نے کہا۔ ’’اپنی ذات میں گم رہنے والے لوگ کبھی کبھی نقصان بھی اٹھاتے ہیں … صبوحی نے ارباز کے ہاتھوں میں ہاتھ رکھ دیا ہے۔ ’’اپنی ذات کا بھروسہ ہی تھا جو تمہیں پایا ہے … ‘‘ ارباز نے صبوحی کو بہت پیار سے دیکھا۔۔ ’’اپنی ذات پر کامل یقین ہی تو سرمایہ ہے ورنہ ایک انسان دوسرے انسان کو کیا دے سکتا ہے … جھوٹی امید … بے اعتباری … ‘‘

(ارباز نے دوسرا ہاتھ صبوحی کے ہاتھ پر رکھا) ’’سچی خوشی کامل یقین … محبت … خود سپردگی سوچو کیسی کیسی لازوال خوشیاں دے سکتا ہے انسان دوسرے انسان کو۔۔‘‘ اس کی آواز سرگوشی میں بدل گئی۔۔

صبوحی اُس کی آواز اُس کی باتوں کے نشے کھو سی گئی اور جانے کتنے پل کتنی صدیاں وہ نشے میں رہی۔۔۔ اُس روز جب ارباز آفس گیا تو اُس کا پھیلایا ہوا ہنگامہ، ہنگامہ نہیں لگا وہ بہت خوش تھی اتنی کہ تایا ابو کے گلے میں بازو ڈال کر جھوم گئی۔۔

’’تایا ابو میں بہت خوش ہوں … ‘‘ پھر وہ تایا ابو سے ہٹ کر کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔ باہر لان میں نئے موسم کے قطار در قطار زرد پھول کھلے پھول کھلے ہوئے تھے اور وہ پھولوں کو دیکھتے دیکھتے کہہ رہی تھی۔ ’’شادی کے شروع دنوں میں ارباز ایسا ہی تھا … ہر بات ماننے والا … سمجھنے والا … یوں لگتا تھا اُسے میرے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آتا … وہ جیسے اُن دنوں میں کھو گئی۔۔ ’’تایا ابو شکر ہے آپ کا بھتیجا سمجھ گیا … کہ میں کیسے خوش رہ سکتی ہوں … اُس نے مجھے اتنی ڈھیر ساری شاپنگ کرائی یہ دیکھیں۔۔‘‘ اُس نے ہاتھ تایا ابو کے سامنے کیا جس میں نئی انگوٹھی دمک رہی تھی۔۔ ’’ڈائمنڈ کی ہے۔۔‘‘ ’’اِس کا مطلب ہے میرے بھتیجے کی جیب ہلکی کر کے بہت مزہ آیا تمہیں۔۔‘‘ صبوحی دلنشیں سا ہنسی۔۔ ’’ارباز کہتا ہے جن چیزوں سے میں راضی ہوتی ہوں وہ انمول ہیں۔۔ آپ سچ کہتے تھے تایا ابو واقعی ارباز مجھے بہت چاہتا ہے۔۔

اور واقعی اُن دنوں اربازصبوحی پر بہت توجہ دینے لگا تھا کبھی پھولوں کے گہنے کبھی آؤٹنگ، صبوحی کی وارڈ روب سج چکی تھی لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ اب ارباز کی محبت میں وارفتگی کم نظر آتی اُس دن بھی وہ بہت خوبصورت ڈریس پہنے … میچنگ جیولری کے ساتھ دل میں اُتر رہی تھی مگر اُس کی آنکھیں اُداس تھیں ارباز کے آنے میں ابھی وقت تھا وہ تایا جمیل کے پاس آ گئی۔۔ ’’تایا ابو آج کل ارباز مجھ پر بہت توجہ دینے لگے ہیں … ‘‘

تایا ابو زچ ہو کے رہ گئے۔۔ ’’لڑکی تو کسی حال میں خوش ہے یا نہیں … توجہ نہیں دیتا تھا تو مشکل تھی … دیتا ہے تو عذاب … ‘‘

صبوحی وہ صبوحی نہیں لگ رہی تھی لا پروہ اپنے آپ میں گم رہنے والی صبوحی اُسے تو کوئی غم اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔۔ ’’آپ نہیں سمجھ سکتے … مرد کی آنکھ صرف عورت پہچانتی ہے … اور یہ بھی کہ کب وہ محبت کر رہا ہے اور کب محبت کا ناٹک تایا ابو جب شوہر بلا وجہ توجہ دینے لگے … خود سے قریب کرنے لگے تو اس کا مطلب ہے وہ بیوی کی آنکھ میں دھول جھونک رہا ہے … ‘‘

تایا ابو کو اُس کی بات دل کو تو لگی مگر وہ صبوحی کو اندیشوں کے دکھ سے بھی بچانا چاہتے تھے۔ ’’بیٹی شک کی کھڑکی بند کر کے رکھو … یہاں سے آنے والی ہوائیں بہت زہریلی ہوتی ہیں … اور محبت کی کونپلیں بہت نازک … یہ ہوائیں انہیں جلا کر راکھ کر دیں گی … ‘‘ صبوحی بہت بے بسی سے بولی ’’کیا کروں … بس خود بخود میرا دماغ بھٹک جاتا ہے … ‘‘

تایا ابو کو پھر تائی یاد آ گئیں کہنے لگے۔۔ ’’نہیں بیٹی سوچا بھی نہ کرو … تیری تائی نے جانے کے کئی سال بعد فون کیا … کہنے لگی بڑی بھول ہوئی … میں چلی آئی … اور اس سے بھی بڑی غلطی یہ ہوئی کہ آپ کے روکنے سے رکی نہیں … صبوحی محبت بڑا ظالم جذبہ ہے اپنے جیسا کِسی کو سمجھتاہی نہیں نہ اس میں کوئی موڑ نہ ٹھہراؤ، جتنا ہم ساتھ رہتے ہیں، اتنا ہی بڑھتا ہے … بہت خاموشی سے … غیر محسوس طریقے سے … دو محبت کرنے والوں کے بیچ قدم کے ساتھ قدم ملا کے چلتا ہے … مگر جب کوئی ساتھی راستے میں رہ جائے تو کبھی بھی کسی اور راستے سے اسے واپس نہیں لا سکتے … محبت کے کسی راستے میں، کوئی U ٹرن نہیں کہ موڑ کاٹ کے اسے اپنے ساتھ ملا لیں … (صبوحی نے تڑپ کے دیکھا … تایا ابو نظر کا چشمہ اتار کے سر اونچا کیے تھوک نگلنے لگے ) میری پیاری … ! چاہتوں کے رشتوں میں گرہ نہیں لگتی اور لگا دو تو اس میں وہ کشش نہیں رہتی … بس ایک پھیکا پھیکا سا رابطہ ہوتا ہے تازگی نہیں رہتی … نہ روح کے تعلق میں وہ بات ہوتی ہے … … ‘‘ تایا ابو نے گلاس بھر کے پانی پیا اور ایک گلاس ساکت بیٹھی صبوحی کی طرف بڑھایا۔ ’’اپنے دل کو دنیا کے گرد اور جھاڑ پھونس سے بچا کے رکھو … جس طرح وقت دینے والی گھڑی میں مٹی اَٹ جائے تو وہ وقت دینا بند کر دیتی ہے … اسی طرح جب دل شک کی گرد سے بھر جائے تو وقت تھم جاتا ہے … اس وقت کو تھمنے نہ دینا … صبو میری جان اس جامد گھڑی کی سوئیوں کے ہر ایرو پر پچھتاوے کا نشان ہے۔‘‘ صبوحی جیسے خواب کے عالم میں سن رہی تھی۔

وہ رات بہت عجیب تھی صبوحی کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ارباز نہیں آیا تھا اور وہ جاگ کر اُس کا انتظار کر رہی تھی … وہ خود بھی اپنی کیفیت پر حیران تھی دل میں وسوسے تھے یا محبت اُسے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا ایسی حالت اُس کی پہلے کبھی ہوئی جو نہیں تھی۔۔ پہلے جب بھی ساس کہتیں جب تک شوہر گھر نہ آئے بیوی کو اس کا انتظار کرنا چاہیے … تو وہ ماتھے پہ بل ڈال کر کہتی، اور شوہر کو چاہیے کہ گھر کو سرائے سمجھے اور جب دل چاہے آئے جب چاہے جائے … اس پر کوئی چارج نہیں ہے … میری تو آنکھوں کے گرد black circles بن جاتے ہیں۔ میں تو نہیں جاگ سکتی۔۔ تایا ابو اُس کی بات پہ کھلکھلا کے ہنستے اور ان کی بھابی باقاعدہ برا مان جاتیں، کہتیں … گھر گرہستی کے لیے اور بھی بہت کچھ چاہیے ہوتے ہے … مرد کو اپنے کھونٹے سے باندھے رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں … یہ نہیں کہ بس اپنا روپ چمکا لیا اور سمجھا کہ میاں کو قابو کر لیا۔۔۔۔ اُس رات وہ ایک پل کو بھی نہ سو سکی وہ کیسا وہم تھا کہ اُس کی آنکھوں کی نیند ختم ہو چکی تھی۔ گھڑی رات کے آخری پہر کا اشارہ کر رہی تھی … صبوحی نے باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھولی … چاند اپنی پوری آب کے ساتھ بادلوں سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا اس کے مڑکے دیکھا بے شکن بستر یونہی پڑا تھا، ارباز ابھی تک نہیں آیا تھا اور زندگی میں پہلی بار اُسے غصہ نہیں آ رہا تھا … وہ انتظار کر رہی تھی … اِسی انتظار میں کرسی پر بیٹھی اور آنکھ لگ گئی … جانے وہ کب تک سوئی رہتی کہ ارباز بنا آہٹ کمرے میں آ گیا … صبوحی کو اِس طرح سوئے دیکھا تو پریشان ہو اُسے یقین تھا آج اُس کی شامت آنے والی ہے اُس نے صبوحی کو آواز دی اور صبوحی کی آنکھ کھلتے ہی اِس خیال سے جلدی سے بولا کہ اگر صبوحی شروع ہو گئی تو کون چپ کرائے گا اُس کا غصہ۔۔ ’’دیکھو خفا نہ ہونا … میں جان بوجھ کر لیٹ نہیں ہوا اچھا چلو اُٹھو بستر پر لیٹو۔‘‘ وہ معصوم بچے کی طرح پچکار رہا تھاَ ’’تم نے کیوں نیند خراب کی سو جاتیں … ‘‘ صبوحی خاموش تھی ’’آج لڑنے کا ارادہ نہیں لگتا … یا سارا دن فارغ رہ رہ کر تھک گئی ہو … ‘‘ خود ہی ہنس دیا۔ ’’اگر پوری نیند نہیں لو گی تو چہرے کی فریش نیس ختم ہو جائے گی … ‘‘ صبوحی کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے چیخے روئے یا فریاد کرے ارباز نے اُس کا ہاتھ تھاما اور کمر کے گرد بازو ڈالے اُسے بیڈ تک لے آیا اور صبوحی ارباز کا معمول بنی اُس کے اشارے پہ لیٹ گئی۔۔ ارباز نے چادر کا کونہ کھینچ کر صبوحی کے اوپر دیا … صبوحی کروٹ کے بل ہو کر پلکیں جھپکا رہی تھی … ارباز واش روم چلا گیا۔۔ صبوحی نے بہت انتظار کیا کہ اُس کی طرف سے صبوحی کے بدلے رویے پر کوئی خوشی کا اظہار ہو گا مگر ایسا کچھ نہ ہوا وہ دبے پیروں آیا اور لیٹ گیا … صبوحی نے منتظر ادھ کھلی آنکھیں بند کیں ایک آنسو ناک کی ہڈی اور دوسرا تکیے کے اندر جذب ہو گیا اگلی صبح حسب عادت صبوحی رومال، گھڑی، موبائل، چشمہ اور گاڑی کی چابی میز کے اوپر ارباز کے سامنے رکھ کر وہ خود ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی …

’’بہت خفا لگ رہی ہو … ؟‘‘ ارباز نے کانٹے کی مدد سے سلائس کو دو ٹکڑوں میں کرتے ہوئے یوں پوچھا جیسے موسم کا حال بتا رہا ہو۔۔

صبوحی کو جانے کیوں اتنا رونا آ رہا تھا۔۔ اُس نے جلدی سے چائے کا کپ منہ سے لگا لیا۔۔ ’’پوچھو گی نہیں اتنی دیر سے کیوں آیا … ‘‘ ارباز نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔۔

صبوحی نے آہستہ سے کہا ’’کوئی کام ہو گا … ‘‘

ارباز کی مسکراہٹ گہری ہو گئی کچھ دیر اُسے یونہی دیکھتا رہا اور پھر بہت احتیاط سے سلائس دانتوں کے نیچے دبایا۔۔ ’’میں سوچ رہا تھا گھر پہنچوں گا تو تمہارا منہ غبارہ بنا ہوا ہو گا لیکن اچھا ہوا تم سو گئیں۔۔‘‘ (اس نے چاہت آنکھوں میں بھر کے اُسے دیکھا۔۔ ’’کرسی پر سوئی ہوئی تم بہت حسین لگ رہی تھیں You are gorgeous (ارباز نے پانی پیا اور گولڈن اسڑیپ والی گھڑی اپنی مضبوط سیاہ بالوں والی کلائی پر پہنی … صبوحی اس کو بغور دیکھ رہی تھی۔ ارباز اور صبوحی کی نگاہیں ملیں … صبوحی کے حلق میں چائے کا پھندہ لگ گیا۔ وہ شوخی سے بولا … ’’چاند کی کرنوں میں تمہارا چہرہ اتنا چمک رہا تھا میں سوچ رہا تھا اتنی حسین عورت میری بیوی (صبوحی نے چونک کر ارباز کو دیکھا) صد افسوس میں شاید تمہاری قدر نہیں کر سکا … جس تحسین اور داد کی تم خواہاں تھیں … ارباز نے اُس کے گلے میں بازو ڈال کے محبت سے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور بولے گیا۔ ’’اور تم اہل بھی تھیں، میں کر نہیں سکا۔ در اصل تم اپنی ذات کی محبت میں گرفتار تھیں اور مجھے اپنے وجود کی اہمیت درکار تھی … but I love u too much darling۔۔‘‘ اس نے بازو علیحدہ کیے، نرمی سے کہنے لگا۔۔ ’’آفس کو دیر ہو رہی ہے … ‘‘

(وہ گاڑی میں بیٹھ گیا وہ وہیں کھڑی رہ گئی ستون سے ٹیک لگائے۔ اس کے کان میں مسلسل آواز آ رہی تھی …

آئی لو یو ٹو مچ مائی ڈارلنگ …

صبوحی کے چہرے پہ خوشی ناچ رہی تھی اُس کا جی چاہا ایک ایک شخص کو بتائے کہ وہ جان گئی ہے کہ روح کی سچی خوشی اپنی ذات کی رضامندی نہیں ہے جو سکون محبت کے سامنے گھنٹے ٹیکنے میں ہے۔ اُس سے رہا نہیں گیا بھاگی بھاگی تایا جمیل کے پاس جا پہنچی ایک وہی تو تھے جنہوں نے اُس کی منزل تک کے راستوں کو آسان کیا تھا آپ یقین کریں تایا ابو … اب میں اپنی ذات سے باہر نکل آئی ہوں … میں نے بہت سوچا … آپ بالکل ٹھیک کہتے تھے جب تک ہمارا اپنا دل صاف نہیں ہوتا کوئی چہرہ صاف دکھائی نہیں دیتا‘‘ … اب میں بہت خوش ہوں … لگتا ہے … میرا دوسرا جنم ہوا ہے اور اس جنم میں ارباز میرا محبوب ہے … مجھے اس کی ساری باتیں ٹھیک لگ رہی ہیں … تایا ابو ایک بات اور بتاؤں (صبوحی خود بہ خود ہنسی) آج صبح امی نے جگایا مجھے ان کی آواز اسرافیل کی آواز نہیں لگی … میں نے انہیں شکریہ کیا تو وہ حیران رہ گئیں اور سچ میں ان کی حیرت پر شرمندہ ہو گئی …

تایا ابو اس کی دیوانگی پر مسکرارہے تھے۔۔ ’’اب میری بیٹی خود بھی اس قابل ہو گئی ہے کہ اسے چاہا جائے … ‘‘

وہ تو اُن دنوں عجیب سی سرشاری میں رہتی ہونٹ بن بات ہنستے یہ اور بات کہ ارباز آج کل کچھ زیادہ مصروف رہنے لگا تھا مگر وہ ساس کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتی تایا کے پاس آتی تب بھی نہ شکوہ نہ شکایت۔۔ تایا ابو کو صبوحی اپنی جیت لگتی اُنہیں یقین تھا وہ غلطی جو انجانے میں اُن سے ہوئی صبوحی سے نہ ہو گی۔۔

یہ ایسے ہی ایک غافل دن کی بات ہے ارباز صبوحی کو اپنے ساتھ لارنس لے گیا سبز گھاس کے درمیان پکی زمین پر ارباز کے کندھے پر سر رکھ کر چلتی صبوحی خود کو کسی اور ہی دنیا کی سمجھ رہی تھی اُس کا دھیان اپنے ساتھ چلتے ارباز کی کچھ کہتی اُلجھن کی طرف نہیں تھا۔۔ اُس کے اپنے ہی پاس کہنے کو بہت کچھ تھا وہ نیم وا آنکھوں سے راستوں کو دیکھتی اپنا آدھا وزن ارباز پہ گویا اُسی کے سہارے چل رہی تھی۔ ’’ارباز جیسے ایک غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے اس کا دل چاہتا ہے ساری عمر کی نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ لے، پورا قرآن دل میں بسا لے … بالکل ایسے ہی جی چاہتا ہے اپنی ساری کوتاہیوں کا ازالہ کر دوں … (ارباز صبوحی کی کیفیت کو محسوس کر رہا تھا مگر بے چین تھا اس نے صبوحی کا سرخود سے علیحدہ کیا اور جیبوں میں ہاتھ ڈال کر ساتھ ساتھ چلنے لگا صبوحی اس کی طرف دیکھ رہی تھی) تایا ابو کہتے ہیں دل کا شیشہ صاف ہو تو دنیا خوبصورت لگتی ہے … ہم جو دوسروں کے عیب دیکھتے ہیں وہ ہمارے اپنے ہی دل کی میل ہوتی ہے … ( اُس نے معصومیت سے کہا اور خود ہی ہنس دی) چلو میری سمجھ میں یہ بات جلدی آ گئی ورنہ … (ارباز بہت بے دلی سے سن رہا تھا … اس کا چہرہ سنجیدہ تھا اُسے صبوحی کی باتیں صرف سنائی دے رہی تھیں۔ ارباز نے خشک لبوں پر زبان پھیری ہے۔ ’’صبوحی … !‘‘

صبوحی کی سرشاری نے اُسے ارباز کی آواز بھی نہ سننے دی وہ سر اُٹھائے محبت بھرے تبسم کو اپنے گلابی ہونٹوں پہ سجائے بولے جا رہی تھی ایک بار ارباز نے اُسے دیکھنے کی کوشش بھی کی لیکن اُسے ڈر ہوا کہیں وہ صبوحی کی آنکھوں کی چمک دیکھ کے خیرہ نہ ہو جائے کہیں اپنے دل کی بات کہنا بھول نہ جائے اسی لئے جب صبوحی کہہ رہی تھی ارباز سن بھی نہیں رہا تھا اپنے خیالوں کے تانے بانے میں اُلجھا رہا وہ بتا رہی تھی کہ مجھے یوں لگتا ہے میرا وجود بے وزن ہو رہا ہو اور میں ان بادلوں کے ساتھ مل کر چاند سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہوں …

ارباز نے ہمت کی اور صبوحی کی بات سنی ہی نہیں۔ ’’بہت دنوں سے تمہیں ایک بات کہنا چاہتا ہوں … ‘‘

صبوحی کو ابھی بہت کچھ کہنا تھا اُس نے پھر ارباز کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔ ’’میں سوچتی ہوں اگر تایا ابو نہ ہوتے تو میں تمہیں کبھی پا ہی نہیں سکتی تھی … ‘‘

ارباز سرگوشی جیسی مدھم آواز کہا۔ ’’میں شاید تمہارے قابل تھا ہی نہیں … کہاں تم اور کہاں میں … تم بہت خوبصورت ہو … اور میں۔۔۔۔

ارباز نے کہتے کہتے اپنا ہاتھ صبوحی کے کندھے پہ رکھا تھا اتنا یخ ہاتھ صبوحی اُس سے دور ہو گئی سرد ہاتھ نے وہ ساری باتیں کہہ دیں جسے کہنے کے لئے ارباز کئی دنوں سے بے چین تھا اُس نے کہا۔ ’’میں بہت برا ہوں … تمہاری قدر نہیں کی … اور امی، انہوں نے بھی ہمیشہ تمہیں دوسرے درجے پہ رکھا … (صبوحی بری طرح چونکی) تمہیں تمہارا حق نہیں دے سکیں نہ ہی میں تمہاری خاطر ان سے لڑ سکا … ‘‘

صبوحی حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی۔

ارباز کہہ رہا تھا۔ ’’میں تمہیں خوش نہیں رکھ سکا … ہم دونوں کی آنکھوں پر اپنے اپنے نظریات کا چشمہ چڑھا تھا … جانے دونوں میں سے زیادہ قصوروار کون ہے … لیکن اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہم اپنے اپنے راستے الگ کر سکتے ہیں … ‘‘

صبوحی جیسے آسمان پر چلتے چلتے زمین پر گر گئی

’’میری کولیگ ہے حمیرا … بہت چاہتی ہے مجھے … ‘‘ اب وہ ہشاش بشاش لگ رہا تھا جیسے بہت دنوں کے بند کمرے کی کھڑکی کھل گئی۔۔ ’’میں حمیرا سے شادی کرنا چاہتا ہوں … ‘‘

صبوحی جیسے پتھر کی ہو گئی … اس کی آنکھ میں آنسو نہیں تھا … آواز میں لرزش نہیں تھی … اس کی کیفیت تو اس نو مسلم کی سی تھی جو ساری قضا نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ لینا چاہتا ہے … چاہتا تھا سجدے سے سر نہ اٹھے … جب تک کہ اس کے سارے گناہ … ثواب نہ بن جائیں …

رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی کرسی پر بیٹھی صبوحی چاند کی آنکھ مچولی دیکھ رہی تھی … آنکھوں میں نمی تھی مگر آنسو گالوں پہ گر ہی نہیں رہے وہ سوچ رہی تھی اگر ارباز نے اُس کے لئے تنہائی چنی تو یقیناً وہ اسی کی حقدار ہے اُس نے ارباز کے ہمراہ گزارے چند سال چند لمحوں میں ٹٹول لئے۔ اُس کا دل بھر آیا وہ سوچ رہی تھی یہ کیسا گورکھ دھندا ہے کہ میں نے اسے اپنا محبوب بنایا تو اس نے سب سے پہلے مجھے ہی چھوڑ دیا …

٭٭٭

 

 

 

 

عرضی

 

میری اور جازب کی دوستی اتنی پرانی ہے جتنی ہمارے محلّے کی مسجد۔۔۔ ہم دونوں چار سال کے تھے جب میری انگلی میرے بابا نے اور جازب کی اس کے ابا نے پکڑی اور ہمیں اس نئی مسجد کی کھجوری خاکی تنکوں والی صف پر لا بٹھایا۔ جانے ہم نے پہلے کیا بات کی ہو گی۔ جانے یہ بھی سوچا ہو گا کہ نہیں کہ ہمارے مزاج کیسے ہوں گے ہم گہرے دوست بن جائیں گے۔ کچھ دن اور ادھر ہوئے۔۔ ہمارا سکول بھی ایک ہو گیا۔ سکول اور جماعت کا ایک ہو جانا گویا دوستانے کو اکیسویں گریڈ کے افسر نے تصدیقی مہر لگا دی ہو۔ اب ہم فخر سے ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے۔۔ انڈر گارمنٹس سے لے کر اپر گارمنٹس تک کا تبادلہ ہوتا۔

امتحانوں کے دنوں میں ہم بانٹ لیتے کہ کس نے کس مضمون کی بوٹی بنانی ہے۔ طے یہ بھی پاتا کہ جو زیادہ نمبر لے گا وہ کھانا کھلائے گا نمبر برابر ہوئے تو پیسے آدھے آدھے غرض کوئی ایسی بات کبھی نہ ہوئی کہ اختلاف کی گنجائش نکلی ہو۔

جازب کہتا۔۔ ’’یار پاکستانی فلمیں دیکھنی چاہئیں۔۔۔‘‘

میں کہتا۔۔ ’’ہاں یار اپنا کلچر اپنا ہی ہوتا ہے‘‘ ۔۔۔

میں کہتا ’’اس بار گرمیوں میں کاغان چلیں گے۔‘‘

جازب بڑا سا سر ہلا کر کہتا۔۔ ’’کیوں نہیں۔۔‘‘

یہ اور بات کہ ہم نے کبھی پاکستانی فلم نہ دیکھی۔ جازب جانتا تھا مجھے وہ اچھی نہیں لگتیں اور نہ ہی ہم کبھی کاغان جا سکے۔۔ کیوں مجھے معلوم تھا کہ اسے ہائٹ فوبیا ہے۔۔۔

اس دن ہم دونوں نے پرانی انارکلی میں سموسہ چاٹ کھائی ٹھاہ والی بوتلیں پیں اور ابھی موٹر سائیکل سٹینڈ تک پہنچے ہی تھے کہ ایک لڑکی رکشہ پر بیٹھی اور رکشہ غائب۔ یا پھر مجھے اور جازب کو ہوش ہی اس کے جانے کے بعد آیا۔ ’’یار رر۔۔ کیا چیز تھی یہ۔‘‘ ۔۔۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ جازب سے بے حد متاثر ہو کر پوچھا۔۔ ’’دیکھنے میں تو لڑکی لگتی تھی لیکن ضرور کوئی جنی بھیس بدل کے آئی ہو گی۔۔‘‘ میں توبہ توبہ والی حالت میں تھا پر جازب تو شاید کچھ بھی کہنے کی حالت میں نہیں لگ رہا تھا۔ کافی دیر تک ہم دونوں گم سم رہے۔ پھر قہقہہ لگا کر ہنسے اور دونوں ایک ساتھ ہی بولے۔۔ ’’دفع کر یار۔‘‘

اور پھر ہاتھ پہ ہاتھ مار کر زور سے ہنسے۔ لیکن اگلی شام بلا ارادہ اسی جگہ پھر دہی بھلے کھانے پہنچ گئے۔ مگر لڑکی کو روز تو کوئی کام نہیں ہونے والا تھا۔ لیکن روز بھلے کھانے کی وجہ سے دکاندار سے خوب واقفیت ہو گئی۔ وہ سمجھا کہ اس کے بھلے کا جادو ہے لیکن۔

جو ہمارے سر چڑھ چکی تھی وہ جادوگرنی پھر نظر نہ آئی۔

ادھر ہماری انجینئرنگ کا آخری سال تھا۔ محنت تو خیر کس کمبخت نے کرنی تھی۔ ہمیشہ کی طرح امتحان سے ایک رات پہلے سٹیشنری کا خیال آیا۔ اور ہمارا گھر سمن آباد گول چکر کے پاس ہے۔ اور یہاں لاکھوں نہیں تو سینکڑوں کتاب گھر موجود ہیں لیکن سارا شہر چھوڑ کر میں اور جازب موٹر سائیکل پر کاغذ قلم لینے نکل پڑے بلا جواز بے ارادہ ہم انارکلی کی طرف جا رہے تھے۔ وہاں جا کر زمین پہ یہاں سے وہاں تک بچھے کتابوں کے ڈھیر کو دیکھ کر یاد آیا کہ آج چھٹی ہے۔ دکانیں بند تھیں سیکنڈ ہینڈ کتابوں اور لنڈے کے کپڑے والوں کی چاندی تھی۔۔۔ ’’یار بے کار اتنا سفر کیا۔‘‘ جازب نے الٹے چاند جیسے ہونٹ بنا کر کہا۔ ’’دکانیں تو ساری بند ہیں۔‘‘

’’کوئی بات نہیں صبح گھر کے پاس سے لے لیں گے۔۔ پین ہی تو لینے ہیں۔۔ کاغذ تو گھر ہی سے مل ہی جائیں گے۔‘‘

’’تو پھر ہم یہاں کیوں آئے تھے۔۔؟‘‘ جازب نے بھولے بن کر ایسے پوچھا کہ جیسے اس کی یاد داشت کھو گئی ہو۔ اور وہ ہوسپٹل میں لیٹا پوچھ رہا ہو۔ میں کہاں ہوں ڈاکٹر۔۔؟ مجھے اس کے بھولپن سے ایکٹنگ کی بو آئی بھلا ہم جو پچھلے کئی دنوں سے بھلے اور سموسہ چاٹ کھا رہے تھے وہ کیوں کھا رہے تھے اسی لئے نا کبھی نہ کبھی شاید وہ دکھ جائے۔۔ میں نے اس کی کمر پہ زوردار دھپ لگائی اور دانت پیس کر بولا ’’دوں ایک کان کے نیچے الو کا۔۔۔‘‘ اچانک بالکل سامنے وہ نظر آ گئی میں بات کرنا بھول گیا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں معلوم ہوتا تھا روتی رہی ہو۔ وہ ہمارے بالکل سامنے سے گزری۔۔ ایک رکشے کو ہاتھ دیا اوراس میں بیٹھ گئی۔ میں نے اور جازب نے ایک دوسرے کی آنکھوں کی بولی پڑھی اور موٹر سائیکل رکشے کے پیچھے لگا دی۔ ہمیں نہیں پتہ تھا رکشہ کہاں جا رہا تھا۔ اور کیوں جا رہا تھا۔ ہم یہ بھی بھول گئے کل پیپر ہے۔۔ رکشہ استنبول چوک کراس کرتا ہوا کچہری سے بھاٹی کی طرف مڑ گیا اور عین داتا صاحب کے دربار کے سامنے آ کے رک گیا۔۔۔ میں نے بھی موٹر سائیکل روک لی اور سمجھداری دکھائی جازب کو اتارا کہ وہ جادو گرنی کو دیکھتا رہے دوسرے لفظوں میں تعاقب کرے اور میں موٹرسائیکل پارک کرنے چلا گیا۔ اور جب میں موٹر سائیکل پارک کر کے پھولی سانسوں کے ساتھ بھاگتا ہوا آیا تو جازب وہیں کھڑا تھا، بنا میرے کسی سوال کے معصومیت سے کہنے لگا۔۔ ’’پتہ نہیں کہاں گئی۔‘‘

’’لعنت ہے تجھ پہ۔۔‘‘ اس کے علاوہ میں اب اور اسے کیا کہتا۔۔ اس نے التجا کی۔۔ ’’یار دربار کے سامنے تو چپ رہ گھر جا کرسو جوتے مار لئیں۔۔۔۔‘‘

’’مار بھی دوں گا پھر نہ کہیں ایک لڑکی کیلئے جوتے نہیں کھا سکتا۔۔۔۔‘‘ میں بھی غصے میں آ گیا۔۔۔

’’اچھا مار لینا خفا تو نہ ہو۔۔‘‘ اس کی ایسی باتوں پر مجھے اور غصہ آتا تھا۔۔ کمبخت خفا بھی نہیں ہونے دیتا تھا۔ چل اب واپس چلتے ہیں لوگوں کے سمندر میں اُسے کہاں ڈھونڈیں گے۔۔‘‘

’’اب یہاں تک آ ہی گئے ہیں تو چل اندر چلتے ہیں سلام ہی کر آتے۔۔‘‘ اس نے کہا۔۔۔

’’اچھا۔۔۔ چل۔۔‘‘ میں نے احسان کیا۔

ہمارا خاندان کٹر تھا۔۔ وہ مزار پرستی کو غلط کہتے تھے۔ میں بھی انہی کا کلمہ پڑھنے والا تھا لیکن جازب کو کبھی انکار نہیں کر سکا۔ اُس دن بھی نہ کیا اور ہم دونوں اندر آ گئے اس نے سیڑھیوں کو ہاتھ سے چھو کر عقیدت سے اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگا لئے۔۔ پھر جالیوں کو۔۔۔ پھر دست دعا بلند کیا۔ ’’یار رکشے والی کا پتہ پوچھنا سرکار سے۔۔‘‘ اپنے حساب سے میں نے مذاق اڑایا۔۔ جازب نے مجھے گھورا میں دبک گیا۔

واپس ابھی سیڑھیاں اتر ہی رہے تھے کہ وہ پھر نظر آ گئی۔ اس وقت وہ پھول مخانے بانٹ رہی تھی۔ میں نے اور جازب نے ہاتھ آگے بڑھا دیے۔ اس نے ہمیں دیکھے بغیر ہمارے ہاتھ پہ دو دو مخانے رکھ دیے۔۔ اور جانے لگی بے ساختہ میں نے اسے پکارا۔۔۔ ’’سنئیے۔۔۔۔‘‘ ۔۔ وہ رک گئی۔۔ اس کے چہرے پر بلا کی سادگی تھی۔۔۔ انتہائی پر کشش لڑکی۔۔ میں اسے دیکھتا رہ گیا۔۔

’’آپ یہاں اکثر آتی ہیں۔۔؟‘‘ جازب نے بات کو گرہ لگائی۔۔

’’جی۔۔ جب بھی کوئی کام پڑ جائے۔۔۔‘‘ اس نے سادگی سے کہا بالکل اپنے چہرے کی طرح سچا اور سیدھا جواب۔۔ ’’آج بھی کوئی کام تھا۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔

’’جی اماں ٹھیک نہیں رہتیں دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ کل ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔۔ آج داتا صاحب عرضی دینے آئی تھی۔‘‘

’’عرضی۔۔۔؟‘‘ میں بے ساختہ پوچھ بیٹھا۔۔ ’’وہ کیسے۔۔‘‘

’’جیسے ابا دیا کرتے تھے۔۔‘‘ اس نے کہا۔۔ اور دوسری طرف چل دی۔۔ میں اور جازب حیران اسے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ وہ مخانے تقسیم کر کے جانے لگی۔ ہم بھی اس کے پیچھے ہو لئے۔۔ میں مستعدی سے اس کے سامنے آیا۔۔۔ ’’مجھے بھی عرضی دینی ہے۔ پتہ نہیں ہے کیسے دوں۔۔‘‘

’’آپ کی جو بھی آرزو ہے اسے ایک پرچے پر لکھ کرسرکار کے قدموں کے پاس رکھ دیں۔ اللہ نے چاہا تو آپ کی بات پوری ہو جائے گی۔۔‘‘

مجھے اس کی منطق سمجھ نہ آئی لیکن لڑکی سمجھ آ گئی۔ وہ زلیخا تھی ایک مقامی سکول کی ٹیچر۔۔ ماں کے سوا اس کا اور کوئی نہ تھا۔ وہ بھی آج کل بیمار تھی اور زلیخا اسی کی صحت کی عرضی رکھنے آئی تھی۔ اس نے جب دکھ سے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا کاش میں ابا کیلئے بھی عرضی رکھ سکتی پر مہلت ہی نہ ملی۔۔

جازب نے جیب سے نکال کے جھٹ رومال پیش کر دیا میں ڈر رہا تھا زلیخا ہم دونوں کے درمیان لڑائی نہ بن جائے۔۔۔ شکر ہوا ایسا نہ ہوا جازب نے بہت سوچ کر کہا۔۔ ’’یہ زلیخا زیادہ حسین ہو گی یا حضرت یوسف کی زلیخا۔۔؟‘‘

میں نے یقین سے کہا۔۔، ’یہ والی۔۔ حضرت یوسف کی زلیخا کو ہم نے دیکھا تھوڑی ہے بس پڑھا ہی ہے ناں۔۔۔‘‘

اس نے سر ہلایا۔۔ ’’ہاں۔۔‘‘ ساتھ میں متاثر ہو کر آنکھیں بھی نچائیں پھر سنجیدگی سے کہنے لگا۔۔ ’’وہ بہت دکھی ہے یار اسے باپ کیلئے دعا کی مہلت ہی نہ ملی۔۔‘‘ دکھ سے میں نے کہا ’’اگر ابا نہ مرتا تو قدرت کے کارخانے میں کیا کمی رہ جاتی۔۔‘‘

کوئی اختلاف نہیں۔۔ دو رائے نہیں ہم دونوں اس کے گھر آنے جانے لگے۔ زلیخا کی عقیدت کام کر گئی۔۔ ماں بیمار تو تھی۔۔ مگر ایسی کوئی بیماری نہیں جس کا علاج نہ ہو۔۔ جس روز اس نے شکرانہ ادا کرنے داتا صاحب جانا تھا۔۔ اس روز رنگ برنگا زردہ اس نے خود بنایا تھا۔ رکشہ جازب نے لا کر دیا۔۔ ہم ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ حالانکہ جازب نے مجھے کہا تو ساتھ بیٹھ جا۔۔ میں نے اسے آفر کی۔۔ لیکن ہم دونوں نے دیکھا اس نے اپنے ساتھ سیٹ پر زردے کا پتیلا رکھا ہوا ہے۔ پہلی بار مجھے محسوس ہوا۔ میرے اندر اطمینان کی مسرور سی لہروں نے کوئی راگ چھیڑ دیا ہے۔ مجھے کمینی سی خوشی کا احساس ہوا اگر میں نہیں بیٹھ سکا تو بیٹھا وہ بھی نہیں۔ میں نے عقیدت سے پتیلے کو ہاتھ لگایا تو زلیخا مسکرا دی۔ کہنے لگی۔ ابا کہتے تھے نیاز کی چیز مقدس ہوتی ہے۔۔ وہ بھی ایسے ہی ہاتھ لگا کر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔‘‘ قریب تھا کہ مجھے زلیخا کے ابا مرحوم سے نفرت ہو جاتی۔ رکشہ بھی چل پڑا۔ اور ہم بھی۔ کوئی اختلاف نہ تھا۔۔ کوئی دو رائے نہیں۔ زلیخا کو بات بے بات رونے کا شوق تھا، میں نے اور جازب نے طے کر رکھا تھا ایک دفعہ اسے رو مال میں دوں گا ایک بار وہ۔۔۔ کوئی اختلاف نہ ہوا۔۔ نہ کہیں دو رائے ہوئیں لیکن غیر  محسوس طریقے سے راستے دو ہو گئے۔ ہم دونوں پاس ہوئے۔ مگر ہماری جابس الگ ہو گئیں۔۔

شروع کے کچھ دن ہم صبح شام ملتے۔۔ رات گئے تک ساتھ رہتے۔ پھر اس کے بعد صبح والی ملاقات کا خانہ خالی ہو گیا۔ پھر رات گئے والا معاملہ ختم ہوا۔۔ پھر چھٹی والے دن پر بات چل نکلی۔ پھر یوں بھی ہوا کہ دونوں کبھی کبھی ملتے اور کہتے۔۔

’’کیسے ہو یار۔۔‘‘

وہ کہتا۔۔ ’’ٹھیک ہوں تو کیسا ہے۔۔؟‘‘

میں کہتا۔۔ ’’بس گزر رہی ہے۔۔‘‘

وہ جواب دیتا۔۔ ’’یار کبھی چکر ہی لگا لیا کر۔‘‘

’’ٹائم ہی نہیں ملتا۔۔ جاب اتنی ظالم ہے کیا کروں۔۔‘‘

’’ہاں ہے تو۔۔۔ چل کبھی پروگرام بنائیں گے۔۔ بیٹھیں گے۔‘‘

’’ہاں یار کیوں نہیں۔۔‘‘

’’چل تو پھر ملتے ہیں۔۔‘‘

’’اپنا خیال رکھیں۔۔‘‘

’’تو بھی۔۔‘‘

سب کچھ بدل گیا۔۔ دونوں سب ہی کچھ بھول گئے۔۔ نہ بھول سکے تو زلیخا کے گھر کا رستہ۔۔ لیکن سچ تو یہ ہے۔۔ کہ جاب کا بہانہ بن گیا۔۔ کہیں نہ کہیں کسی چور رستے سے زلیخا صاف شفاف اللہ کے نور جیسے دودھ میں پھٹکری کی طرح گری اور آپ ہی آپ دوستی میں سے وفا اور محبت، دودھ سے پانی کی طرح الگ ہو گئی شروع میں ہم دونوں جب زلیخا کے گھر جاتے۔۔ وہ بتاتی ماں کو دس سال سے عرق النساء ہے شروع سردیوں میں بخار چڑھتا ہے اور ماں کی ساری سردیاں لحاف میں آگ تاپتے گذر جاتی ہیں۔۔ ہائے بچاری۔۔۔ جازب دکھی ہو جاتا۔۔ میں سوچتا سردیاں آتی ہی کیوں ہیں۔۔ اکثر اس کے آنسو نکل آتے اور ہماری جیبوں سے ہمارے رومال۔۔ ہماری پہلی سرد جنگ اسی رومال کی وجہ سے ہوئی۔۔ جس دن اس کے ابا کی برسی تھی۔ وہ بہت روئی۔۔ قاعدے کے مطابق ہم کو باری باری رومال پیش کرنا تھا۔ لیکن جازب نے ہر بار خود رومال دیا۔ ہر بار شکریے کے ساتھ وہ پکڑ لیتی ہر بار دونوں کے ہاتھ آپس میں ٹکراتے اور ہر بار میرا ہاتھ جیب میں رہ جاتا۔

واپسی پر میں نے اس سے بات نہیں کی۔ وہ سمجھ گیا میں غصے میں ہوں۔ کیونکہ میں صرف غصے میں موٹر سائیکل تیز بھگایا کرتا تھا۔ اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈالا اور کہنے لگا۔

’’یار میں کیا کرتا۔۔۔ پہلے وہ کبھی ایک دن میں ایک بار سے زیادہ روئی ہی نہیں تھی۔۔‘‘

لیکن میرے دل پہ گرہ پڑ گئی۔ حالانکہ زلیخا میرے ساتھ جازب سے بھی کہیں زیادہ بے تکلف تھی۔ گھر کا سودا وہ مجھ سے منگواتی۔۔ ماں کی دوا۔۔ حتیٰ کہ دھنیا اور ہری مرچ بھی۔۔۔ جازب کون ہوتا تھا رو مال پیش کرنے والا۔ مجھے سفید رنگ سے نفرت کرا دی۔ وہ سفید رنگ جو صلح کا نشان ہے۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان وجہ لڑائی بن گیا۔

اسی لیئے جب میری شادی کیلئے ماں نے مجھ سے کہا تو میں نے جھٹ سے زلیخا کا نام لے دیا۔ بنا جازب کو بتائے۔۔ میں کیوں اس سے کہتا۔ اصول اور قاعدے کی خلاف ورزی میں پہل اس نے کی تھی۔ تو میں کیوں اس کو ہر بات بتانے کا پابند ہوتا۔ میں خود کو بہلا رہا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگا جیسے چار سال کا واصف ابھی تک مسجد میں جازب کے ساتھ کھجور والی صف پہ بیٹھا ہے واصف، صفوں کے تنکے نوچ رہا ہے اور جازب سر ہلا ہلا کر الف زبر آ ب زبر با کر رہا ہے۔ میں اس چھوٹے سے واصف اور جازب سے نظر بچا کر امی سے بولا ’’بہت خوبصورت ہے وہ۔۔‘‘

امی نے کہا۔۔ ’’اور بھی کوئی گُن ہیں یا بس خوبصورت ہے‘‘

مجھے امی کی تنگ نظری پر شدید دکھ ہوا گویا خوبصورت ہونا کوئی گُن ہی نہیں ماؤں کو جانے کب سمجھ آنے والی ہے بھاری دل سے جی کڑا کے کہا ’’آپ ایک بار اُس سے مل کر تو دیکھیں۔۔‘‘

امی بولیں۔۔ ’’ہاں ہاں وہی تو کہہ رہی ہوں کب ملوا رہے ہو؟‘‘

میری تو جیسے مراد بر آئی۔ ویسے تو مجھے یقین تھا زلیخا بھی مجھے چاہتی ہے لیکن پھر بھی اس سے پوچھنا۔۔ اسے بتانا ضروری تھا۔۔ ہماری دوستی کو چودہ ماہ اور بارہ دن گزر چکے تھے یہ اور بات کہ ہمارے درمیان کبھی بے باکی سے اظہارِ محبت نہیں ہوا تھا ابھی تک یہ دوستی آڑو کی گٹھلی جیسی تھی نا مراد سی۔۔ بے مغز۔۔ بے کار۔۔ جب تک مٹی میں نہ ڈالیں پودا بھی نہیں نکل سکتا۔ مجھے آڑو کی اس بے فیض گٹھلی کو اپنی محبت کی سوندھی مٹی کی گرمی دینی تھی۔ اس روز میں روز سے زیادہ تیار ہو کر خوشبو لگا کے اہتمام سے خاص بات کرنے زلیخا کے گھر پہنچا لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا۔۔ اس کے ساڑھے تین مرلے کے گھر کے سامنے پندرہ اٹھارہ فٹ کی تنگ سڑک پر مہران کار ایسے کھڑی تھی۔ جیسے کھڑی نہ ہو۔ حادثاتی طور پر پھنس گئی ہو۔ یہ کون ہو سکتا ہے؟ کار پہ کون آیا ہو گا بھلا۔۔؟ میں نے خود سے سوال کیا مگر جواب سے پہلے آہٹ سن لی۔۔ جازب گھر سے باہر نکل رہا تھا۔۔ میں نے سٹینڈ کو پاؤں سے کھینچا اور موٹر سائیکل کو کھڑا کر دیا۔۔ اسے کار کی طرف بڑھتے دیکھا تو جلن نے مجھے مسکرانے بھی نہ دیا۔ اچھا ہوا جازب میرا دوست نہ رہا تھا ورنہ آج مجھے حیران ہونے کے بجائے خوش ہونے کا ڈھونگ کرنا پڑتا۔

’’ارے تم۔۔۔ یہاں؟‘‘ میں نے حیران ہونے کی حد کر دی۔۔

’’ہاں یار۔۔ سوری آج ہی کار لے کر آیا ہوں۔ ابھی بس تیری ہی طرف آنے والا تھا مٹھائی لے کر۔ دیکھ کار کی پچھلی سیٹ پر رکھی ہے۔ تیری پسند کے جالندھر کے موتی چور لڈو۔۔۔‘‘

زلیخا ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ میرا پروگرام اچانک بدلا۔ میں نے جازب کو گلے سے لگا لیا اور بولا۔ ’’چل تو پھر اپنی کار کی سیر ہی کرا دے۔، جازب خوش ہو گیا۔۔ میں اس کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور کھوکھلی ہنسی ہنس کے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولا۔۔ ’’تو نے گاڑی کب چلانی سیکھی۔۔ سالے تجھے تو موٹر سائیکل بھی نہیں چلانا آتا تھا۔۔ ڈرتا تھا۔۔‘‘

میں نے جان بوجھ کر بے تکلف ہونے کی کوشش کی وہ شرمندہ سا ہو گیا۔

’’آج تیری کار کی خوشی میں تجھے کھانا کھلاتا ہوں۔‘‘ میری آفر پر اس کی نظر جھک گئی۔۔ کہنے لگا۔ ’’تیری قسم آخری بار تیرے ہی ساتھ باہر کھانا کھایا تھا۔۔ پھر کبھی قدم نہیں اٹھے۔۔‘‘ مگر مجھے اس وقت اس سے زیادہ یہ خیال ستا رہا تھا کہ وہ بات کیسے شروع کروں جس کو کہنے کیلئے میں اس کے ساتھ آیا ہوں۔ ہم دونوں طباق چلے گئے۔۔ بے تحاشہ رش سے گزر کر اوپر آئے۔۔ کھانے کا آرڈر میں نے دیا۔۔ وہی جو جازب کو پسند تھا دیگی چرغہ۔۔ رائتہ سلاد اور سیخ کباب۔۔ جازب گھِسے ہوئے ٹیپ ریکارڈر کی طرح ایک ہی بات بار بار کئے جا رہا تھا۔۔ ’’یار کیوں شرمندہ کر رہا ہے۔۔‘‘

’’یاد کر یہی کچھ کھایا تھا ناں ہم نے آخری ملاقات میں۔۔؟‘‘ وہ حسبِ عادت سر ہلا کر ہنس دیا۔ ’’تو سمجھ درمیان میں جتنے دن آئے ہمارے نہیں تھے۔۔ بلکہ وہ تھے ہی نہیں ہماری عمر کے اُن دنوں کو ہم کیلینڈر سے نکال دیں گے۔‘‘

کھانا آ گیا اور ہم نے اپنی پرانی وضع داریوں کے مطابق آدھا آدھا بانٹ نہ سکے تکلف ہم دونوں کے درمیان کنڈلی مارے بیٹھا رہا۔۔ ’’اماں کو پچھلے مہینے ہارٹ اٹیک آ گیا۔‘‘

میں نے مرغی کی ٹانگ بھنبھوڑی۔۔ جازب کے ہاتھ سے نوالہ چھوٹ گیا۔ ’’سب خیر رہی ناں۔۔؟‘‘

’’ہاں۔۔‘‘ میں نے نوالہ چبایا حلق میں اتار کر چند سیکنڈ کا پوز لیا پھر کہا۔ تب تک اس کا منہ کھلا رہا میرے جواب کے بعد وہ نارمل ہوا۔۔ ’’اوئے ہاں۔۔۔ اماں سے یاد آیا وہ صبح کہہ رہی تھیں کہ اب میں شادی کر لوں۔۔‘‘ جازب کے چہرے پر مسکراہٹ سی آ گئی۔۔۔ ’’پھر تو نے کیا کہا۔۔؟‘‘

’’کہنا کیا تھا حامی بھر لی۔۔ ویسے بھی جب لڑکی بھی راضی ہے ماں بھی تو۔۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ کر پانی پینے کے بہانے ایک آنکھ سے جازب کے چہرے کے تاثرات کو دیکھا۔

’’لڑکی۔۔؟‘‘ اس وقت میرا مقصد اس کو جتانا تھا اور بس۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ سوائے اس کے کچھ نہ کہہ سکا۔ ’’ہاں۔۔ لڑکی۔۔۔ اپنی زلیخا۔۔‘‘ میں نے بھرپور کوشش کی کہ نارمل رہوں۔ بہت عام سے لہجے میں کہوں۔۔ لیکن اس قدر خاص بات اتنے عام انداز میں کیسے ہوتی۔ کہتے کہتے جازب کو نظر بھر کر دیکھ نہ سکا۔ اس نے چند ثانیے کا توقف کیا اور گلا صاف کر کے بولا۔ ’’ز۔۔ زلیخا۔۔ سے۔۔ بات۔۔ کی۔؟‘‘

’’یار لڑکے لڑکی کی دوستی میں محبت کی ملاوٹ نہ ہو تو۔ چند دن سے زیادہ نہیں چلتی۔ محبت دوستی میں الاسٹک کی طرح ہوتی ہے محبت ہو تو یہ سالوں تک کھینچتی ہے ورنہ۔۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر قہقہہ لگایا۔۔‘‘ ۔ اس نے میرا ساتھ دینے کی بھرپور کوشش کی اور ہنسا بھی، جیسے عموماً ساتھ دینے والی ہنسی ہوتی ہے۔۔ ہنسنے کی وجہ کہیں دکھائی نہ دی، بس منہ کھلا تھا۔ میں نے بل دیا اور ہم باہر نکلے۔

’’یار میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ میری ہو سکتی ہے تجھے یاد ہے جب ہم دربار گئے تھے اس کے پیچھے۔۔۔‘‘ کہہ کر میں نے اس کے تاثرات دیکھے ’’ہاں کبھی کبھی وہ سب کچھ ہو جاتا ہے۔۔ جس کا ہمیں پتہ نہیں ہوتا۔۔‘‘ اس نے مسکرا کے کہا، ’’جیسے ہم دونوں کے درمیان، اتنے دن۔۔ ہفتے۔۔ مہینے اماؤس کی طرح آ گئے۔۔ پتہ چلا۔۔؟ نہیں پتہ چلتا کب زندگی خواب سی لگنے لگے۔۔ کب خواب زندگی بن جائے۔۔‘‘

واپسی پر اس نے زلیخا کے گھر سے کچھ فاصلے پر گاڑی روکی۔۔ ’’اندر نہیں چلے گا میں جا رہا ہوں‘‘ ۔۔ میں نے گاڑی سے اتر کر دروازہ بند کرتے کرتے پوچھا۔

’’نہیں، تجھے پتہ ہے ناں کتنی تنگ سڑک ہے۔ آتے ہوئے پتہ نہیں کیسے اس کے گھر تک پہنچ گیا۔۔ مگر کس مشکل سے واپس ہوا مجھ سے پوچھو۔‘‘ اس کی پھیکی ہنسی کو محسوس کیے بغیر میں ہنس دیا۔۔۔ اس کے جانے کے بعد زلیخا کے گھر کا دروازہ بجانے لگا۔ لیکن گھڑی دیکھی رات کے نو بجتے دیکھ کر سوچا بہت رات ہو گئی ہے اس کی سدا کی بیمار ماں الرجی کی میڈیسن لے کر سونے والی ہو گی اور احترام میں گھر کی تمام روشنیاں گُل ہو چکی ہوں لہٰذا واپس آ گیا۔

گھر آ کر میں نے خود کو ٹٹولا میں سوچ رہا تھا میرے اندر کوئی بے چین ہے جھنجلایا ہوا، کیوں؟ ۔ مجھے جازب کے خوشگوار چہرے۔۔ چار پہیوں، یا پھر اس کے اجلے کپڑوں میں سے کس چیز نے زیادہ اپ سیٹ کیا۔ میں کس بات پر حسد کر رہا ہوں فیصلہ نہ ہوا تو میں نے کروٹ لے لی۔ جیسے کروٹ نہیں، پردہ ہو جو میرے احساس پر گر گیا ہو۔ اگلے دن جان بوجھ کر اسی وقت میں زلیخا کے گھر پہنچا۔۔ اس روز اس کی ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ بہت پریشان تھی۔۔ میں اس سے کوئی بات نہ کر سکا۔ نہ ہی جازب آیا۔۔ اور نہ میں زلیخا سے پوچھ سکا کہ وہ روز آتا ہے یا۔۔

ہفتہ اسی طرح سے گزر گیا۔ میں زلیخا سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔ وقت لینا چاہ رہا تھا لیکن اس کی ماں کو عین وقت پر فلمی ماؤں کی طرح ایسا کھانسی کا دورہ پڑتا کہ الامان والحفیظ۔۔ ایک بار تو میں اتنا زچ ہوا کہ جی چاہا زلیخا کو شہد لانے کے بہانے کچن میں بھیجوں اور ماں کی شہہ رگ پہ ہاتھ رکھ دوں۔۔ میں دیکھ رہا تھا کہ یہ عورت شادی کے بعد میری اور زلیخا کی زندگی میں اپنی بلغمی کھانسی سے کافی تعفن پھیلانے والی ہے۔ لیکن میں کچھ نہ کر سکا آخر ماں کی صحت کی عرضی داتا سرکار کے قدموں میں دھری ہوئی تھی۔ اس کے گلے تک میرے ہاتھ کیسے پہنچتے۔۔ ادھر میری اماں کا تقاضہ بڑھنے لگا۔۔ میں نے ان سے کہا کہ اس کی ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ پریشان ہے۔۔ لیکن آج میں اسے بتا دوں گا کہ ہم اس اتوار کی شام اس کی طرف آنے والے ہیں میں نے فیصلہ کن انداز میں موٹر سائیکل کا سٹینڈ گھسیٹا اور دروازہ بجا دیا۔ ایک لمحے میں دروازہ کھل گیا۔ زلیخا سفید دوپٹہ اوڑھے چہرے پر حوروں جیسا تقدس سجائے۔۔ پریشانی سے باہر نکلی۔ ’’میں آپ ہی کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘

’’سب خیر ہے ناں۔۔۔ امی ٹھیک ہیں؟‘‘

’’ہاں مجھے داتا صاحب جانا ہے۔‘‘

’’داتا صاحب۔۔ لیکن کیوں۔۔؟‘‘

’’عرضی دینی ہے جی۔۔‘‘

اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ میرا ہاتھ میکانکی انداز میں جیب سے رومال نکال لیا۔

’’کیوں۔۔۔ کس کیلئے؟‘‘

’’بتا نہیں سکتی۔۔‘‘

’’کیوں۔۔؟‘‘

’’ابا کہتے تھے ہیڈ ماسٹر سے پہلے ماسٹر کو بتا دو۔ اور ماسٹر سے پہلے چپڑاسی کو۔ تو بات جوٹھی ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی جس کی عرضی ہو اس کو دیتے ہیں۔ ورنہ عرضی جوٹھی ہو جاتی ہے۔۔؟‘‘

’’تمہارے ابا بہت عجیب باتیں کرتے تھے اللہ بخشے۔۔‘‘

’’ہائے اللہ جلدی چلیں ناں۔۔‘‘

میں نے موٹر سائیکل کی رفتار بڑھا دی اور ذرا سا سر پیچھے کر کے کہا ’’زلیخا مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔‘‘

زلیخا روہانسی ہو گئی۔ ’’ابھی نہیں۔۔ گھر آ کر، ابھی میں بہت پریشان ہوں۔‘‘

میں نے سوچا اگر ابھی اس کی پریشانی میں بات کی تو شاید سب گڑ بڑ ہو جائے۔ اس لئے خاموش رہا۔۔ میں اپنے کندھے پہ زلیخا کے ہاتھ کو، اور اس کے وجود کو اپنی کمر کے ساتھ محسوس کرتا چپ چاپ چلتا رہا۔۔ داتا سصاحب کا مزار آ چکا تھا۔

ہم دونوں جوتیاں شو ریک پہ اتار کے اندر آ گئے سیڑھیاں چڑھتی زلیخا دنیا سے بے خبر تھی میں بھی ساتھ تھا کہ نہیں اسے یاد نہ رہا ہو گا اس نے بہت عقیدت سے جالیاں چومیں اور عرضی پکڑ کر کھڑکی سے فاصلے پر کھڑی ہو گئی، جانے منہ ہی منہ میں کیا بول رہی تھی۔ پھر مجاور کے ہاتھ میں عرضی دے دی اور جب تک مجاور نے عرضی سرکار کے قدموں کے پاس نہ رکھ دی زلیخا کھڑی رہی۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو سیلابی ریلے کی طرح بہہ رہے تھے۔ میں فاصلے پر تھا ورنہ رومال تو تھا جیب میں لیکن۔۔۔۔

مخانوں کی نیاز تقسیم ہوئی۔ اور ہم دونوں واپس آ گئے۔۔ ہم دونوں چپ تھے۔۔ اچانک میرے جی میں آئی اور میں نے موٹر سائیکل طباق کے سامنے روک دی۔ سوچا اسی میز پر بیٹھ کے زلیخا سے کہوں گا کہ میں نے یہاں بیٹھ کر جازب سے تمہاری محبت کا اقرار کیا ہے۔ ساڑھے چودہ ماہ کی دوستی یا محبت نے ہم دونوں کو اتنا اعتماد تو دے ہی دیا تھا کہ کہیں بھی آرام سے جا سکتے تھے۔۔ ڈاکٹر کے پاس، داتا صاحب، ایک بار تو وہ میرے ساتھ اپنی سینڈل لینے بھی گئی تھی زلیخا بہت پریشان تھی مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنی بات کیسے شروع کروں۔ میں نے جگ سے گلاس میں پانی نکال کے گھونٹ بھرتے بھرتے پوچھا۔

’’کیا اماں کی طبیعت زیادہ خراب ہے جو عرضی۔۔۔‘‘ محض بات شروع کرنے کے بہانے میں نے بات کی لیکن میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بولنے لگی۔۔ ’’پندرہ دن ہو گئے ہیں وہ آیا نہیں۔۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔ وہ روز آتا تھا شام کو پانچ سے چھ بجے تک آفس سے سیدھا لیکن اس دن آپ جس دن آپ بھی آئے تھے اُس دن آپ کو یاد ہے ناں وہ گاڑی لے کے سیدھا ہمارے گھر آیا تھا۔۔ اس کے بعد سے اب تک‘‘ وہ جیسے بھری بیٹھی تھی۔۔ شروع ہو گئی۔۔ پانی پیتے پیتے اچانک مجھے اچھو لگ گیا۔

’’وہ کہہ کر گیا تھا اب کے اپنی امی کے ساتھ آئے گا۔ نہ خود آیا نہ امی۔ امی کی تو خیر ہے ہو سکتا ہے ان کو میں اچھی ہی نہ لگی ہوں۔۔ وہ تو آئے ناں۔۔۔ کتنے فون کئے، فون بھی نہیں اٹھاتا۔۔ جانے ہم سے کیا غلطی ہو گئی ہے۔ آپ تو جانتے ہوں گے ہم دونوں ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ آپ کو اس نے بتایا ہو گا۔۔ وہ بتا رہا تھا آپ کو ہر بات کا پتہ رہتا ہے۔۔ اس لئے۔۔‘‘ میں ایسا ہو گیا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ میرا جی چاہا اسے جازب کے خلاف کر دوں لیکن مجھ سے اس درجہ گھٹیا نہ ہوا جا سکا مجھے یاد نہیں ہم نے کیا کھایا یہ بھی نہیں کہ کتنی دیر بیٹھے کہیں کہیں جھلک سی آتی ہے کہ وہ بتا رہی تھی ’’جازب کہہ رہا تھا ہماری شادی کی سب سے زیادہ واصف کو خوشی ہو گی‘‘ پتہ نہیں اس کی یہ بات سن کر میں مسکرایا بھی تھا کہ نہیں۔۔

اسے اس کے گھر چھوڑ کر آیا تو میں اسی کیفیت میں تھا جیسے ابھی بخار سے اٹھا ہوں۔ پورا جسم کمزوری کے مارے لاغر ہو رہا تھا ٹھنڈے پسینوں نے آنکھوں کے سامنے اندھیرا کر رکھا تھا۔ بیل دی تو دروازہ جازب نے کھولا۔ اس نے خوش ہونا چاہا۔۔ بغلگیر بھی ہوا۔۔ میں اسے خود سے جدا کرتے کرتے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر چکا تھا۔

’’سالے پندرہ دن سے اِدھر کُڑک مل کے بیٹھا ہوا ہے۔ اُدھر زلیخا بیچاری تیری راہ دیکھ رہی ہے۔‘‘

’’میری۔۔ کک۔۔ کیوں؟‘‘ اس نے بمشکل کہا۔۔

’’زیادہ بھولا نہ بن۔۔ چل میرے ساتھ۔۔‘‘

میں نے اسے گھسیٹا لیکن اس نے ایک قدم آ گے نہ بڑھایا۔ ’’وہ تیری محبت ہے۔۔‘‘ اس نے مجھے یاد دلایا۔

’’سمجھا تو میں بھی یہی تھا پر آج وہ میرے ہی ساتھ داتا صاحب جا کر تیرے نام کی عرضی ڈال آئی ہے۔ اب تو نہ گیا تو اس کا بھروسہ اٹھ جائے گا سرکار کی محبت سے۔ میری محبت کی تو خیر ہے۔ پر داتا صاحب کا بھروسہ نہیں ٹوٹنا چاہیئے۔ وہ ٹوٹ گیا تو زلیخا اپنی عرضی لے کر کس کے پاس جایا کرے گی۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

بسو کی ماں

 

بسو کی ماں کو مرے دو ماہ ہو چکے تھے مگر بسو کو ایک ایک پل ایسے یاد تھا جیسے کل کی بات ہو۔۔۔ اُس وقت مہینے کی آخری تاریخیں اور شروع گرمیوں کے دن تھے۔۔ حبس نے سانس بند کر رکھی تھیاِسی میں بیمار ماں کو کھانستے کھانستے ایسی چپ لگی کہ وہ چپکی ہی رہ گئی۔ رات کے آ ٹھ بجے کی بات تھی، غریبی میں آٹا ایسے گیلا ہوا کہ بسو ہاتھ پیر ہی نہ مار سکا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ماں کو رات بھر گھر رکھنا تھا ماں کی آخری خواہش تھی جنازہ روشنی میں لے کر جانا۔۔۔ چند ایک صفیں بھی بھر گئیں تو مردہ بخشتا جاتا ہے۔ گرمی اور حبس زندہ انسانوں کیلئے تو قابل برداشت ہے لیکن مردے کیلئے نہیں۔ اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ زندگی سمجھتی ہے برداشت کرنا یا یہ کرنا بس اسی کا خاصہ ہے۔ لیکن مردے کے مطالبے تو زندگی سے کہیں زیادہ نکلے۔۔ بسو پر یہ تلخ حقیقت پہلی بار آشکار ہوئی تھی۔ اور ایسی ہوئی کہ اس کی آنکھ سے آنسو بھی نہ نکل سکا، اور رونے اتنے تھے کہ اسے ماں کی میّت پر رونے کی فرصت ہی نہیں مل رہی تھی۔ بسو کی بیوی بھاگاں نے اپنا میلا دوپٹہ سر سے اتار کے ماں کے چہرے پر کس کے باندھ دیا وہ جو حالات کے ہاتھوں پہلے ہی اپنی اصلی ساخت کھو چکی تھی اور کیا بگڑتی لیکن رسماً ایسا کرنا ہی تھا۔ اب سب سے بڑی پریشانی کفن دفن کی تھی۔ زندہ ماں اتنا پریشان نہیں کرتی تھی جتنی فکر اسے بے حس و حرکت پڑی ماں کر رہی تھی۔ اس نے بیوی کو تو ’’کچھ کرتا ہوں‘‘ کہہ کر مطمئن کر دیا مگر خود پریشان ہو کر گھر سے باہر بچھی مٹی سے اٹی دری پر آ بیٹھا۔ آس پڑوس کے لوگ اظہار افسوس کرتے کرتے آخر میں یہ ضرور کہتے ’’شکر ہے ماں کی مشکل آسان ہوئی۔‘‘

لیکن یہ تو بسو جانتا تھا کہ ماں کی مشکل آسان ہوتے ہوتے اس کی مشکلیں کتنی بڑھ گئی ہیں۔ اس کا دماغ چک پھیریاں کھا رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے گا۔ آنے جانے والوں کا تانتا ختم ہوا تو اس نے بیوی سے کہا

’’بھاگوان میں جاتا ہوں۔۔۔ قبرستان دیکھتا ہوں۔۔۔ کچھ۔ کرتا ہوں۔۔۔‘‘

اس کی بے ربط باتیں، پریشانی، بیوی کیلئے اجنبی نہیں تھی۔ وہ سب سمجھتی تھی کہ اندر کھاتے بات کیا ہے بیوی نے مردہ ساس پر ہمدردی کی نظر ڈالی اور پریشانی سے بولی۔۔۔ ’’ماں کو صبح تک رکھنا ہے بسو تو۔۔ برف کا انتظام کرنا ہو گا۔۔۔‘‘

’’برف۔۔۔۔۔؟ بسو کا لہجہ اس قدر یخ تھا لگا سی پر برف پڑ گئی۔۔۔ ’’وہ کیوں؟

’’گرمی ہے۔۔۔۔۔‘‘

’’ماں تو مر گئی ہے اس کو کیا خبر کہ گرمی ہے یا سردی۔۔۔۔؟‘‘

’’پاگل پن کی بات نہ کر۔۔۔ تھوڑی دیر میں پیٹ پھول جائے گا۔‘‘

’’بسو نے حیران ہو کر کہا‘‘ ماں نے تو تین دن سے کھانا نہیں کھایا تھا۔۔۔ پیٹ میں تو کچھ ہے نہیں تو پھولے گا کیا؟‘‘

بھاگاں جھلا گئی۔۔۔۔ ’’فاقہ بھی ہوا کر دیتا ہے پھر بیماری نے جانے کیا سے کیا کر رکھا ہو گا۔۔ صبح تک رکھنا ہے تو برف کا انتظام کرنا ہو گا۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔۔

’’انتظام۔۔‘‘ بسو نے دہرایا۔۔ جیسے یہ لفظ اس نے پہلی بار سنا ہو۔۔

’’جا کے چوہدری سے بات کیوں نہیں کرتے۔۔ سارا دن ان کی جوتیاں سیدھی کرتے رہتے ہو۔‘‘

’’جوتیاں سیدھی کرنے والے جوتی جیسے ہوتے ہیں پگلی۔۔ جوتے کی کون سنتا ہے۔۔ ذرا سی آواز نکالیں مالک کوڑے میں پھینک دیتا ہے‘‘

’’بسو باتیں نہ بنا۔۔ جا کر بات کر کے آ۔۔‘‘ بھاگاں نے اکتا کر کہا

بسو نے بیوی کو دیکھا پھر ماں کو۔۔ اس کے لہجے میں تلخی آ گئی۔۔ ’’اس سے تو اچھا تھا ماں زندہ رہتی۔۔۔ بھلے کھانستی رہتی۔۔۔ دوا ملتی تھی تو کھا لیتی تھی۔ نہیں ملتی تھی تو کبھی اُف نہیں کیا تھا بے چاری نے۔۔۔ اب مر گئی ہے تو چیزیں کتنی ضروری ہو گئی ہیں برف نہ ملی تورات نہیں کٹے گی۔ زمین نہیں ملی تو دفن نہیں ہو گی۔ کفن نہ ملا تو۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بس کر دے بسو۔۔‘‘ بھاگاں بری عورت نہیں تھی تڑپ کر بولی۔۔ ’’یہ بولنے کا وقت نہیں ہے۔‘‘

بسو نے ماں کو دیکھا۔۔ سر سے پیر تک پتلی سی چادر اوڑھے لیٹی تھی۔۔۔ اس کا جی چاہا۔۔۔ ماں اٹھ جائے اور وہ کہے ’’ماں تُو سونے بھی نہیں دیتی۔‘‘

یہی تو کہتا تھا وہ۔۔ جب وہ رات بھر کھانستی ادوائن کی کھردری چارپائی کی چولیں ہلتیں تو۔۔۔۔ بسو کس قدر بے آرام ہوتا تھا۔

آج ماں کو دائمی آرام آ گیا۔ مگر وہ پھر بھی بے آرام ہے۔ رات کی تاریکی میں چلتے چلتے ماں کی وہ ساری باتیں یاد کرتے کرتے جنہیں اس نے کبھی کسی قابل بھی نہ سمجھا تھا۔۔۔ چوہدری کی حویلی آ گئی۔ حویلی کا گیٹ دیکھ کر ہمیشہ اس کی نظریں جھک جایا کرتی تھیں۔۔ اور کیوں نہ جھکتیں۔ اس کی نوکری ہی کچھ ایسی تھی۔ وہ چوہدری کی جوتیاں سیدھی کرنے اور چلم بھرنے پر معمور تھا۔ اس کے عوض سال بھر کی گندم ہفتے وارانہ دو چار زناٹے دار تھپڑ کبھی کبھی لاتیں اور روزانہ کی دھتکاریں ملتی تھیں جسے وہ سر جھکا کے سنتا رہتا تھا۔ وہ ذرا اور قریب ہوا تو اسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بند کمرے میں گھنگروؤں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ مطلب چوہدری صاحب جاگ رہے تھے۔ جوتیاں سیدھی کرنے والے نے ہمت کی۔ آہنی گیٹ کھلا اور وہ اندر آ گیا۔ سب جانتے تھے بسو کی ماں مر گئی ہے۔۔ بسو کے ہم مرتبہ کمّی، بسو کے دکھ میں شریک تھے مگر اسے بانٹ نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ یہ سب جانتے تھے کہ بانٹنے کیلئے جیب میں کچھ ہونا چاہیئے۔۔ اسی لیے تو سب نے بھلا سوچاکہ ماں کی مشکل آسان ہو گئی ہے۔ گویا موت نے ماں کو نہیں بسو کو شانت کر دیا ہے۔ کسی ہمدرد پہرے دار نے چوہدری کے کان میں کچھ کہا۔

چوہدری نے مخمور نگاہیں اُٹھا کے بسو کو دیکھا اور ہمدردی سے بولا۔ ’’کیا بات ہے بسو ماں مر گئی ہے۔۔۔؟‘‘ پہلی بار بسو کی آنکھ میں آ نسو آ گئے۔ وہ پہلے ہی سر جھکا کے کھڑا تھا۔۔ اور بھی جھک گیا نظریں زمین پر گڑی تھیں چوہدری کی دیکھے بغیر ہاتھ جوڑ دیے کہ جیسے ماں کا وہ زندہ ہی کر دے گا۔۔۔

’’تو شکر کیوں نہیں کرتا۔۔۔ اچھا ہوا مر گئی۔‘‘ بسو کا دل پسلیوں سے نکل گیا۔۔ ’’بیماری کا گھر‘‘ آخر بسو کی ماں تھی۔

’’کفن دفن کا انتظام ہو جائے گا۔۔ کہہ دیا ہے قبرستان میں۔‘‘

’’آپ مائی باپ ہو سرکار۔۔ آپ کے در کا کتا ہوں۔۔ بھلے اگلے سال اناج نہ دینا۔۔ ابھی تھوڑے پیسے چاہیئے سرکار‘‘ وہ منمنایا

’’پیسے۔۔ کیوں؟‘‘

گھنگرو بجنا بند ہو چکے تھے طبلے کی آواز خاموش تھی۔ سب اس کیوں کا جواب مانگ رہے تھے۔

’’سارا انتظام تو کر دیا ہے پیسے کیوں چاہیے تجھے۔۔۔؟‘‘ بسو چوہدری کے چہرے پہ لکھی نفرت پڑھ لیتا تو شاید تھوک کے چلا جاتا۔۔

’’ماں کیلئے برف لے کے جانی ہے۔۔ رشید برف والا کہتا ہے کہ پیسے کے بغیر برف نہیں دے گا۔۔ سرکار گرمی بڑی ہے۔ صبح تک۔۔۔‘‘

چوہدری کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

’’برف میں رکھے گا ماں کو حرام خور۔۔ کبھی پانی میں برف ڈال کے پی تیری ماں نے اب اسے برف میں رکھے گا‘‘

چوہدری پھنکارا۔ ’’یہ چونچلے کہاں سے سیکھ لیے تو نے؟‘‘

’’وہ جی میری گھر والی نے کہا۔۔۔۔۔‘‘ وہ ہکلا گیا

’’ماں مر ہی گئی ہے تو جا کر ڈال اسے قبر میں۔۔ انتظام کر تو دیا ہے گڑھے کا۔۔۔ نہ کوئی تیرے آگے ہے نہ پیچھے۔۔ تجھے کس کا انتظار ہے؟ جورو کی ماننی ہے تو جا کے بول اس سے کرے انتظام برف کا‘‘

’’بسو نے اسی طرح رکوع کی حالت میں ہاتھ جوڑ دئے اور منت سے کہا۔ ’’سرکار سورج چڑھنے کا۔ دوچار خدا کے بندے جنازے میں آ جائیں گے۔ ماں کی بڑی خواہش تھی۔۔ کہتی تھی سات صفیں ہوں تو مردہ بخشا جاتا ہے۔‘‘

’’دفع ہو جا کے دفنا دے بڈھی کو۔۔۔‘‘ اس نے پیر سے دھکا دیا ’’بات سنو اس کی برف لینی ہے‘‘ اس نے مذاق اڑایا اس کے لہجے کے غرور کو گھنگرو پہننے والی ’’معمولی‘‘ طوائف نے بھی محسوس کیا۔۔

’’لاچار وہ کمرے سے نکل آیا۔۔ برف کا انتظام نہ ہو سکا۔ اس نے دل گرفتگی سے ماں کے پیروں کے پاس بیٹھ کر بیوی سے کہا۔ اگر میں نے اتنی چاہت سے ماں کیلئے دوا کا انتظام کیا ہوتا تو آج یہ نہ مرتی‘‘

’’موت کا دن تو اوپر والے نے لکھا ہے‘‘ بھاگاں لاکھ نرم خو تھی لیکن مرنے والی اس کی ماں نہیں تھی۔ اس لیئے میت کے سامنے کسی بھی طرح کی بات کہتے اس کے دل کو ہاتھ نہیں پڑ رہا تھا، بسو کی تو جیسے آنکھیں کوری ہو گئیں۔ چھوٹ چھوٹے کئی کنکر اس کے پپوٹوں کے درمیان بچھ گئے تھے جیسے سمندر کی ریت۔۔۔ سارا پانی پی گئی۔۔ بسو نے ماں کو دیکھا اسے لگا ماں کا پیٹ اب پھولنا شروع ہو چکا تھا۔ وہ گھبرا کے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’میں قبرستان جا رہا ہوں۔۔۔‘‘

بسو کو بھیج کر بھاگاں چار گھر چھوڑ کر نہلانے والی کمو مائی کو بلا لائی۔۔ کفن بھی چوہدری نے بھجوا دیا تھا۔ کمو مائی نے ماں کو نہلایا ہی نہیں اس کا نام ہی بدل دیا۔۔ کفن ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگی ’’میت کا کفن تو چھوٹا ہے‘‘

ہائے ہائے۔ بھاگاں نے سر پیٹ لیا۔ کفن خیرات کا تو تھا ہی ترس کا مارا بھی نکلا۔۔ غریبی کا مذاق اڑاتا ہوا بھاگاں کا دل غم سے آ دھا ہو گیا۔

’’غریب نے ساری عمر لگا کر بیٹے کو بڑا کیا، گھر پالنے جوگا کیا۔ مگر بد نصیب کو پورا کفن بھی نصیب نہ ہو سکا۔‘‘

ادھر گورکن مٹی کھود چکا تھا سر کو باہر نکال کے بولا۔۔

’’لے دیکھ لے قبر ٹھیک ہے؟ ۔۔‘‘

بسو نے حیرت سے گورکن کو دیکھا ’’قبر تو قبر ہے۔۔ یہ کیسے ٹھیک یا نہ ٹھیک ہو سکتی ہے۔؟‘‘

گورکن ہنس کر بولا۔ ’’دیکھنا یہ ہے کہ اس میں تیری ماں پوری آ جائے گی یا نہیں۔‘‘

’’اچھا۔۔‘‘ بسو نے معصومیت سے سر ہلایا اور قبر میں اتر کے اندازہ لگانے لگا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی ماں اس کے بازوؤں میں آ جاتی تھی۔ ابھی چھ ماہ پہلے ہی اتفاقاً  اسے ماں کو گود میں اٹھا کر ڈسپنسری لے جانا پڑا تھا اُس رات ماں پر کھانسی کا دورہ پڑا تھا اور وہ دل میں اِس حادثے کے لئے خوف زدہ ہو رہا تھا جو اُس روز نہ ہوا تھا، آج ہو گیا۔۔ تب، جب اُس نے ماں کو گود میں اُٹھایا تھا اُسے یاد آ رہا تھا کہ ماں کس قدر بے وزن ہو چکی ہے۔۔ یہ قبر تو کافی بڑی تھی ماں کو کیسے پوری نہ آتی۔ بسو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ گورکن بولا۔۔ ’’چل پھر ماں کو جلدی سے لے آ‘‘ اس نے احسان جتایا۔ ’’چوہدری صاحب کا آرڈر نہ ہوتا تو رات کو کبھی کام نہ کرتا‘‘

بسو معمول کی طرح گھر لوٹ آیا جہاں ماں ادھورا کفن پہنے بے خبر لیٹی تھی۔ بھاگاں نے گھر آتے بسو کو دیکھ کر رقّت سے کہا۔

’’بسو ماں کا کفن پورا نہیں ہے‘‘

بسو نے عام سے لہجے میں کہا۔۔ ’’کوئی بات نہیں۔ قبر تو پوری ہے، غریبی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سر ڈھکو تو پیر ننگے اور پیر ڈھکو تو سر۔۔‘‘ بولتے بولتے وہ چپ ہو گیا۔۔ پھر لمبا سا سانس لے کر حسرت سے کہنے لگا۔ ’’کیا تھا جو گرمیاں نہ ہوتیں سردی ہوتی۔۔ برف کی ضرورت نہ ہوتی ماں کی آخری خواہش پوری ہو جاتی۔۔ نمازیوں کی تین صفیں بن جاتیں۔ ماں بخشی جاتی۔‘‘

اس نے ماں کو اپنے ہاتھوں سے کشادہ قبر میں اتار دیا۔ گنتی کے دو چار لوگ شریک ہوئے۔ ایک تورات اس پر بسو ذات کا کمّی۔ اس نے جنازے کے ساتھ چلتے دو تین لوگوں کو دیکھ کے سوچا جہنم تو کمیّوں سے بھری ہو گی۔۔

ماں کو مرے دو مہینے ہو چکے تھے۔ ادوائن کی کھری چار پائی سونی ہو چکی تھی۔ رات نہ کوئی کھانستا نہ چار پائی چرچراتی۔ گرمی بڑھتی جا رہی تھی۔ کورے گھڑوں میں پانی ٹھنڈا ہونے لگا تھا۔ پھٹے پہ بیٹھا رشید برف والا اپنی دکان چمکا رہا تھا۔ بسو جوتیاں سیدھی کرتا رہا تھا سوکر رہا تھا چاند کی چاندنی میں کچے صحن میں لیٹے لیٹے بھاگاں نے یکدم کہا۔ ’’بسو تو شہر کیوں نہیں چلا جاتا۔۔‘‘

بسو نے کروٹ لی اور بے اعتنائی سے بولا

’’سنا ہے شہر کے لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جوتیاں خود پہنتے ہیں۔ وہاں چلم بھی نہیں بنتی۔ سب سگریٹ پیتے ہیں۔۔ وہاں میرا کیا کام۔۔‘‘

بھاگاں چپ ہو گئی۔ گہری خاموشی میں شور اٹھا بسو نے کان لگائے۔۔ بین کی آوازیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ میاں بیوی نے خاموشی سے ایک دوسرے کی زبان کو سمجھا اور اپنی اپنی چارپائیاں چھوڑ کر باہر نکل گئے۔ باہر کیا نکلے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ چوہدری شہر سے آتے ہوئے کار کے حادثے میں موقع پر ہی مر گیا۔ منٹوں سیکنٹوں میں پورا گاؤں حویلی کے باہر آ کر کھڑا ہو گیا۔ کوئی بسو کی ماں تھوڑی مری تھی چوہدری کا انتقال ہوا تھا وہ بھی اچانک۔ روتے دھوتے طے پایا چوہدری کو صبح گیارہ بجے دفنائیں گے۔ بسو نے سنا کوئی کہہ رہا تھا آ خر دور دراز سے یاروں دوستوں اور عزیز داروں نے چوہدری کا منہ دیکھنے آنا تھا۔ منہ دیکھنے پر بسو کو یکدم خیال آیا۔ کیوں نہ وہ بھی آج چوہدری کا منہ دیکھ ہی لے۔ ساری عمر اس نے چوہدری کے پیر دیکھے تھے، پیر ہی کھائے تھے۔ اس کا کام ہی ایسا تھا۔ چلم بھرتا جوتیاں سیدھی کرتا اس کی نظر چہرے تک کیسے جاتی۔ اس کی نظر میں چوہدری بس ایک ہیولہ تھا۔ میت نہلا کفنا کے کھلے میدان میں دیدار کو رکھی جا چکی تھی، بسو نے بھی لوگوں کے کندھوں کے درمیان سے سر اٹھایا اس نے دیکھا اور حیران رہ گیا چوہدری کا کفن بھی بالکل ایسا ہی سفید تھا جیسا اس کی ماں کا کفن تھا۔ ہاں بس یہ فرق ضرور تھا کہ یہ چوہدری کو پورا تھا مگر افسوس وہ آج بھی چہرہ نہ دیکھ سکا اور اس کی خاطر چوہدری کے منہ سے کون کپڑا ہٹاتا۔۔

کسی نے آ کر چوہدری کے بیٹے وجاہت اللہ کو بتایا کہ قبر کا کام پورا ہو گیا ہے۔ وجاہت اللہ نے فکر مندی سے پوچھا ’’قبر میں کسی نے اتر کر دیکھا ہے؟ آخر میرے ابا جی کی قبر ہے۔۔ چوہدری فراست اللہ کی۔۔۔ اسے تنگ نہیں ہونا چاہیئے۔‘‘

جانے بسو کے جی میں کیا آئی وہ جو سر اُٹھائے اس انتظار میں تھا کہ کب کوئی معتبر آئے اور چوہدری پر سے چادر اتاری جائے اور اس کی خواہش پوری ہو جائے، یکدم بولا ’’سرکار اگر برا نہ مانیں تو میں جا کر دیکھ لوں۔۔‘‘

چوہدری کے بیٹے دکھی مسکراہٹ کے ساتھ کمال فراخدلی کا ثبوت دیا اور کہا۔۔ ’’تیرا حق زیادہ ہے جتنی تو نے ابا جی کی خدمت کی تجھے اس کا اجر تو ملنا چاہئے۔۔ چل تو اپنا شوق پورا کر لے جا کے۔‘‘ بسو جانے لئے پلٹا کہ اسے آواز آئی۔۔ ’’اچھی طرح سے دیکھنا اندر لیٹ کر۔‘‘

بسو گھبرا گیا۔ نیچی آواز میں بولا۔۔ ’’سرکار میں یہ گستاخی کیسے کر سکتا ہوں جی۔۔۔ جہاں مائی باپ نے لیٹنا ہے میں وہاں پہلے کیسے لیٹ جاؤں۔‘‘

’’بیوقوفا۔۔ ابا مر گیا ہے۔۔ اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔‘‘

بسو واقعی بے وقوف تھا اسی لئے ہونقوں کی طرح سر ہلا کر قبرستان آ گیا۔۔ قبر میں اترتے اترتے اس نے مٹی کو ہاتھ میں لے کر محسوس کیا۔۔ ایک بار پھر حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ یہ مٹی بھی بالکل اس کی ماں کی قبر کی مٹی جیسی تھی۔۔۔ قبر میں لیٹ کر اس نے اندازہ لگا لیا کہ اس کا لمبا چوڑا چوہدری فراست اللہ اس میں سکون سے لیٹ سکتا ہے۔ وہ خوشی خوشی باہر نکلا اور حویلی کی طرف بھاگ گیا اس پر شادیِ مرگ طاری تھا کہ جس مٹی میں اس کی ماں سو رہی ہے۔ آج چوہدری بھی اسی مٹی میں سونے والا ہے۔ مگر حویلی پہنچ کر اس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے ڈرتے ڈرتے بولا ’’سرکار مائی باپ کی شان میں کمی تو نہیں آئے گی میں نے اندر جا کے دیکھا ہے بالکل بسو کی ماں کی قبر جیسی قبر ہے۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

کرتا

 

چھوٹے سے لال اینٹوں کے بنے صحن کے ایک طرف کمرہ تھا اور اُس کے بالکل سامنے چولہا رکھا تھا۔ جسے باورچی خانہ کا نام دے دیا گیا تھا اور اسی کے ساتھ دیوار پر لگی پیتل کی ٹوٹی۔۔ جس سے سرکاری پانی قطرہ قطرہ یوں بہتا رہتا جیسے کوئی بِرہن ہجر کی ماری بن بات رو پڑے۔۔ زمین میں عین اس جگہ سوراخ ہو چکا تھا معلوم ہوتا زمین کی سختی بھی اِس مسلسل عذاب سے گھبرا چکی ہے، تو پھر کچے دھوئیں میں روٹیاں پکاتی تاجی کا جی کیوں نہ گھبراتا۔۔

تاجی کا آٹھ سالہ بیٹا معین جس کو غربت نے پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہ دیا بمشکل پانچ ایک سال کا دِکھتا۔ صحن کی پیلی، کمزور یرقان زدہ روشنی میں سکول کا کام کر رہا تھا، نذیر اپنے اطراف روز کی طرح بہت سے میلے، پرانے، گوٹے کناری والے مَسلے کپڑے لیے بیٹھا، خوش ہو رہا تھا۔۔ تاجی کو ہمیشہ حیرت ہوتی نذیر کیسے اتنا خوش رہتا ہے اور وہ کیوں نہیں رہ سکتی یکدم روٹیاں سینکتی تاجی کے کان میں نذیر کی آواز آئی کھردری بلغمی آواز جس کو سن کے ایک بار تاجی غیر ارادی طور پہ اپنا گلا ضرور صاف کرتی مگر اس نے نذیر سے کبھی نہ کہا کہ اُس کی آواز تاجی کی ملائم سماعت پر خراشیں ڈالتی ہے اُسے نذیر سے محبت ہوتی تو اُسے کوئی صلاح دیتی۔۔ نذیر بہت خوش تھا۔ ’’لے بھئی دیکھ ہم غریب مہنگائی کو روتے ہیں اور بابو لوگ نئے نکور کپڑے کچے پکے برتنوں کے لئے آرام سے بیچ دیتے ہیں۔۔ یہ دیکھ کیسا پیس ہے۔۔؟‘‘

تاجی کو بات ہضم نہیں ہوئی اپنے دھیان میں روٹیاں دسترخوان میں لپیٹتے لپیٹتے بولی۔۔ ’’امیروں کو کیا پڑی ہے کچے برتن خریدنے کی وہ بھی پھیری والے سے وہ تو اپنی کام والیوں کو دے دیتے ہوں گے پرانے دھرانے کپڑے۔۔ وہی بیچ باچ دیتی ہوں۔۔۔۔‘‘

بات کرتے کرتے تاجی نے سر اُٹھایا اس سے پہلے بھی کئی بار ایسا ہوا تھا وہ معین کے لئے پرانے کپڑوں میں سے کچھ رکھ لیتا کئی تاجی کو بھی دان مل جاتا مگر تاجی دیکھ کے بات کرنا بھول گئی وہ جسے پیس کہہ رہا تھا،۔۔ نذیر ہاتھ اُونچا کیے جو دِکھا رہا تھا، کُرتا تھا۔ پیلی روشنی کرتے کی سفیدی نگل چکی تھی۔۔۔ یا پھر کُرتا ہجر کے دکھ سے زرد پڑ چکا تھا۔۔۔

نذیر نے بلغمی قہقہ لگایا اور کرتا تاجی کی طرف بڑھا دیا۔۔ کہنے لگا ’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا تُو دیکھے گی تو دیکھتی رہ جائے گی ہاتھ میں پکڑ کے دیکھ بزاری کڑائی(کڑھائی) نئیں لگتی۔۔ لگتا ہے کسی نے بڑی جان ماری ہے۔۔‘‘ پھر بے پروا سی ہنس کے بولا۔۔ ’’ہمیں اس سے کیا۔‘‘

اُسے نذیر زندگی میں پہلی بار خوش قسمت لگا جس کو اس سے کچھ نہیں تھا کہ کس نے اس کُرتے کے لئے جان ماری ہے۔۔ اُس نے کُرتا گول مول کر کے اپنی لکڑی کی ٹانگ کے نیچے دبایا۔۔ ’’تُو کھانا لگا بڑی سخت بھوک لگی ہے چل معین بند کر اپنا بستہ تُو شام کو اپنا کام کیوں نئیں کر لیتا اب کھانے کے ٹیم پہ تجھے سکول کا کام یاد آ جاتا ہے۔۔ تاجی!‘‘ اُس نے تاجی کو دیکھا مگر محسوس کئے بغیر بولا۔ ’’کھانا لگا جلدی سے۔۔ معین میرے ہاتھ دھلا دے۔۔‘‘

تاجی کا سکتہ ٹوٹا وہ ایک پلیٹ میں سالن اور چنگیر میں روٹیاں لے کے خود کو گھسیٹتی ہوئی اُٹھی باپ بیٹے کے سامنے کھانا رکھ کے پلٹنے لگی کہ نذیر نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اُسے جب تاجی پہ بہت پیار آتا وہ یہی کہتا ’’جب تک تُو نئیں آئے گی میں کھانا نئیں کھاؤں گا۔‘‘

’’میں پانی لے آؤں۔۔‘‘ تاجی نے مری مری آواز میں کہا۔۔

نذیر نے ہاتھ چھوڑ دیا اور ہنس کر بولا۔۔ ’’کلاسے بیچ کر جتنے پیسے ملیں گے سب تیرے ہاتھ پہ رکھ دوں گا کل تو نے مرغا پکانا ہے۔۔‘‘ پھر ہنستا ہے۔۔ ’’اتنی دال کھلائی ہے تو نے اُس کو چُگنے کے لیئے مرغا بہت ضروری ہے۔۔‘‘ وہ تاجی کا جواب لئے بغیر ہی ہنستا چلا گیا تاجی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُس کے مُنہ پہ ہاتھ رکھ دے۔۔ نذیر سے آنے والے دن میں ملنے والی دھاڑی کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔۔

کھُلے آنگن میں گرمیوں کا چاند بادلوں سے کھیل رہا تھا کبھی روشنی بہت تیز اور کبھی مدھم ہو جاتی پیتل کی ٹونٹی کی ٹپ ٹپ سکوت کو توڑ دیتی تو کبھی اُس کی اپنی لا متناہی سوچیں۔۔۔ نذیر جاگ رہا تھا ورنہ اُس کے خراٹے اُس کی چھوٹی سی دنیا میں زلزلہ لانے کو کافی تھے۔۔ نذیر نے دیکھا تاجی کی چمکدار آنکھوں کی نمی چاند کی روشنی میں ستارے بنا رہی تھی نذیر کو ہمیشہ گمان رہا کہ خاموشی تاجی کی عادت ہے وہ ہے ہی روکھی پھیکی اُس نے کبھی یہ نہ سوچا۔۔ دو وقت کی روٹی، ایک بچہ اور کچا پکا مکان زندگی نہیں ہوتا۔۔ زندگی جینے کے لئے کچھ اور بھی چاہئیے لیکن نذیر ایسے لطیف احساس سے بہت دور تھا۔ ’’تاجی۔۔‘‘ نذیر نے بلایا تاجی نے کچھ کہے بغیر اس کی طرف کروٹ لی دونوں کی چارپائیوں کے بیچ بمشکل تین بالشت کا فاصلہ ہو گا لیکن یہ تین بالشت کا فاصلہ تاجی کو تین جنموں کا لگتا۔۔

’’کیا تو بھی وہی سوچ رہی ہے جو میں سوچ رہا ہوں؟‘‘

’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ اُس نے اُلٹا سوال کیا۔۔

’’میں سوچ رہا ہوں آج کل پہلے جیسے حالات نئیں رہے بڑی شو شا آ گئی ہے لوگوں میں، کوئی پرانی چیزوں کو خریدتا ہی نہیں۔۔ پھر بھی تیرا کیا خیال ہے کتنے میں بک جائے گا کُرتا۔۔۔؟‘‘

’’تمہیں کتنے میں ملا۔۔‘‘ سوال کرتے کرتے اُس نے اپنی دل کی دھڑکن کو اپنے کانوں میں سنا۔۔

’’شیدا بتا رہا تھا چار کچی مٹی کی پیالیاں دی تھیں اس نے۔۔۔‘‘

تاجی نے مارے دکھ کے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں لے کر بری طرح کچلا۔۔۔ ’’بس۔۔ چار کچی مٹی کی پیالیاں؟ یہ

قیمت لگی اُس کُر۔۔۔۔ تے کی۔۔‘‘ اُس نے اپنی آہوں کو خود محسوس کیا تاجی کی آنکھ سے پھر ایک تارہ ٹوٹا اور کان کی کٹوری میں غائب ہو گیا۔۔۔

میں بھی یہی سوچ رہا تھا جانے اُس کا اچھا مول لگتا ہے کہ نہیں سو روپے معین کی فیس جاتی ہے تم بتا رہی تھی سکول سے خط آیا ہے کہ فیس نہ دی تو وہ معین کو سکول سے نکال دیں گے اگر مرغا ا گیا تو فیس۔۔۔ فیس کہیں رہ نہ جائے۔۔۔ سو ڈیڑھ سو سے زیادہ کا تو نہیں بک سکے گا۔۔۔‘‘

تاجی نے دل کی دیواروں کو توڑتے طوفان کو بڑی مشکل سے روکا۔۔ ’’اور اگر کل نہ بک سکا تو۔۔؟‘‘

نذیر پھیکی ہنسی ہنس کے بولا۔۔۔۔ ’’مجھے پہلے ہی شک تھا تیری نیت ضرور خراب ہو جائے گی۔۔۔‘‘ تاجی نے اَن سنی کر کے پوچھا۔۔ ’’شیدے نے کہاں سے لیا۔۔۔ کُرتا‘‘ ۔۔ کرتا اُس نے زیرِ لب ہی کہا۔۔ جیسے آہ بھری ہو

نذیر نے خود کو گھسیٹا اور کروٹ بدلی ’’مجھے کیا پتہ کہاں سے لیا تھا۔۔۔ مجھے سونے دے۔۔۔‘‘

اُسے نذیر کے سونے کا ہی تو انتظار تھا فضا میں ٹوٹی کے ٹپکتے قطروں کی جگہ اب نذیر کے خراٹوں نے لے لی تھی اُس نے سر اُٹھا کے اپنے ادھورے شوہر کو دیکھا اُسے خود پرترس آ گیا۔۔ معین کا ہاتھ پرے کیا اس کی شرٹ اوپر تک آئی ہوئی تھی اُسے معین کے کمر سے لگے پیٹ سے خوف محسوس ہوتا تھا۔۔ یہ وہ سکون تو نہیں تھا جس کا خواب ماں نے تاجی کی آنکھ میں رکھا تھا وہ تو خواب سے پہلے تعبیر کا غم ڈھو رہی تھی۔۔ تاجی نے معین کی شرٹ نیچے کی اور خود بے آواز اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی کپکپاتے ہاتھوں سے کھٹکا دبایا اندھیرے کمرے میں مردہ سی روشنی پھیل گئی تاجی نے بے تابی سے کپڑوں کی گٹھڑی کو کھولا اور کپڑوں میں ہاتھ ڈال کر کُرتے کی اپنائیت کو محسوس کیا۔۔ بے تابی مگر احتیاط کے ساتھ اُس نے ہاتھ کھینچا۔۔۔ کُرتا اُس کے ہاتھ میں تھا اُس نے پلکیں جھپکیں جانے کرُتا میلا تھا یا اُس کی آنکھوں میں بسی آنسوؤں کی دھند نے اسے ملگجا کر دیا تھا۔۔ تاجی نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔۔ مگرآنسو اب کہاں رکنے والے تھے۔۔ اُس نے کرتے پر یوں ہاتھ پھیرا جیسے کرتا اُس کے ہاتھ میں نہ ہو منوں نے پہن رکھا ہو اور تاجی اس سے شکوہ کر رہی ہو۔۔ ’’رے منوں تُو نے میرا پیار کچی مٹی کی چار پیالیوں کے عوض بیچ دیا۔۔ تُو تو کہتا ہے تھا تُو مر جائے گا پر ساری عمر اِسے سینے سے لگا کے رکھے گا۔۔‘‘

تاجی نے گٹھڑی دوبارہ باندھ دی اور کرتا تہہ کرتے کرتے کئی بار اس کا ضبط ٹوٹا اُس نے کئی بار اُسے وارفتگی سے چوما، آنکھوں سے لگایا اور کمرے کی کھڑکی کے پیچھے پردے میں رکھتے رکھتے بھول گئی کہ نذیر جب صبح اسے گٹھڑی میں نہیں پائے گا تو۔۔۔ تو کیا ہو گا

اُس رات بھی چاند ایسے ہی چمک رہا تھا جب منوں نے اس سے کہا تھا۔۔ تیرا پیار۔۔ پیار تھوڑی ہے میرے لئے احسان ہے۔ جو احسان بھولے، کافر ہو کے مرتا ہے۔

تاجی کے سارے منظر ہی دھندلے ہو گئے۔ ہائے منوں میرا پیار بھول جاتا احسان تو نہ بھولتا۔

اس رات نے تو جیسے پیروں میں لوہے کی زنجیریں پہن لی ہوں۔ سرک ہی نہ رہی تھی۔ جیسے میّت کا گھر۔ ساری رات بین کرتے گزر گئی۔ اذانوں کے وقت ذرا سی جھپکی لگی کہ نذیر نے آواز دی۔

’ چل اُٹھ اذانیں ہو رہی ہیں، نماز نہیں پڑھنی کیا؟ ، ۔

اسے یوں لگا جیسے نذیر نے کہا ہو، میّت نہیں دفنانی کیا۔ وہ رات کی جاگی وحشت سے نذیر کو دیکھے گئی۔

’ ایسے کیا دیکھ رہی ہے؟ ، ۔ نذیر نے اِسے محبت جانا۔

تاجی نے پلاسٹک کی چپل پیروں میں اڑسی اور بنا کچھ کہے اٹھ کر چلی گئی۔

معین نے سکول جانا تھا اور نذیر نے کام پہ۔۔ آندھی ہو یا طوفان شیدا اپنے وقت پہ آ جاتا تھا مگر پتہ نہیں کیوں اُس دن وقت گذر ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ شیدا آیا معین اور نذیر دونوں کو لے کے چلا گیا۔ تاجی نے دروازہ بند کر کے بھاگ کے کرتا نکالا۔ اور جلدی جلدی دھونے لگی۔ اسے اتنی محبت سے ایک بار پہلے بھی وہ دھو چکی تھی جب اس نے کاڑھ لیا تھا، سلائی سے پہلے۔ منوں سے چھپ کر گرمیوں کی کتنی تپتی دوپہر یں اس نے کمرے میں بند ہو کے گزاریں۔۔ تب کہیں جا کر مکمل ہوا تھا۔ کُرتا تار پر ڈال کر اس نے جلدی جلدی ہانڈی چڑھائی۔ بار بار اس کی نظر ہوا کی شہہ پہ ہلتے کُرتے پہ جاتی اسے یوں لگتا منوں سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا ہے۔ ایک بار تو اس نے منو کا ہاتھ بھی جھٹکا۔ ’مجھے کھانا پکانے دے شیدا روٹی لینے آتا ہی ہو گا، ۔ کہہ کر جب اس نے سر اٹھایا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ تار پر بے وفائی کھڑی تھی۔

تاجی کو یاد آ رہا تھا چھت پر سیمنٹ کی دیوار سے ٹیک لگائے لگائے اس نے کتنے نخرے سے پوچھا تھا۔ ’یہ تو بتا کتنا پیار کرتا ہے مجھ سے؟ ، ۔ منوں سوچ میں پڑ گیا۔

تاجی کا دل بجھ سا گیا۔ اس نے کتنے دنوں کی گرمی کھا کر اس کے لئے سفید لون کا کرتا کاڑھا تھا اور اس کو دینے آئی تھی۔

منو کو یوں سوچ میں گم دیکھا تو کُرتا دوپٹے کی آڑ میں چھپا لیا۔ اور اٹھنے لگی۔ ’’۔ رہن دے پیار ہو گا تو بتائے گا نا۔‘‘ وہ اُٹھ گئی۔۔ اٹھتے اٹھتے تاجی کی چوٹی منوں کے ہاتھ میں آ گئی اس نے ہاتھوں پہ دو بل دے کہ اسے اور قریب کر لیا۔ ’میں تو یہ سوچ رہا تھا کاش میں اگلے چار سو سال تک تجھے اس طرح بیٹھ کر دیکھتا رہوں۔۔‘‘ اس کا لہجہ مخمور ہونے لگا۔ تاجی کا دل زور سے دھڑکا۔ بے ساختہ اس کا سر منوں کے کاندھے پہ ٹک گیا۔ شور مچاتی دھڑکنوں کے سازپر سرگوشی میں بولی۔ ’چار سو ایک سال کیوں نہیں؟ ،  منوں نے اس کے کان میں کہا ’ہو سکتا ہے میں اتنا نہ جی سکوں۔

تاجی ایک جھٹکے سے منوں سے علیحدہ ہوئی۔۔ ’’شکل اچھی نہ ہو تو بات ڈھنگ کی کر لیا کرو۔۔‘‘ پھر اترا کے بولی۔ ’’اچھا خیر۔۔ چار سو سال ہی ٹھیک ہے، ۔ یہ دیکھ۔۔‘‘ ، اس نے خوش ہو کر دوپٹے کی آڑ سے کرتا نکالا۔ ’تیرے لئے کاڑھا ہے۔ سیا بھی خود ہے میں نے۔‘‘

منوں نے کرتا آنکھوں سے لگا لیا۔ ’میرے لئے؟ ، ۔ ناقابلِ یقین حیرت سے پوچھنے لگا تو تاجی مغرور سی ہو گئی۔ ’ہاں تیرے لئے۔۔ بتایا تو ہے میں نے خود بنایا ہے، ۔

منوں نے کرتے پر ہاتھ پھیرا ’’اتنا خوبصورت، ایک ایک ٹانکے میں اپنا پیار پرو کے دے دیا تو نے تو‘‘ ۔ اس نے کرتا چوم لیا۔ تاجی نے سخاوت سے کہا ’تجھے اچھا لگا تو ایک اور بنا دوں گی، ۔ منوں گھبرا کر بولا ’نہیں نہیں۔،  اس نے تاجی کے ہاتھ سیدھے کئے جہاں سوئیوں نے چھوٹے چھوٹے سوراخ کر دیئے تھے۔ ’میں تجھے اور تکلیف نہیں دے سکتا، ۔ تاجی ہنس دی۔ ’بہت پاگل ہے تو اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔ سو روپے کا کپڑا آیا بتیس روپے کا دھاگہ اور دس روپے کی چھپائی۔ کل ملا کر کتنے ہوئے۔؟ ،  وہ ہنس دی۔ ’تو اسے تکلیف سمجھتا ہے، اس نے تکلیف پر زور دے کر کہا۔ ’اتنا تو سستا بنا ہے۔‘

منوں نے تاجی کی آنکھوں کو چوم لیا ’’تیری آنکھوں کا نور ہے یہ۔ سوچتا ہوں کیسے چکا پاؤں گا اس کی قیمت۔ اتنی محبت۔ اتنی چاہت۔‘‘ تاجی منوں کے ماتھے کی لٹ پیچھے کر کے وارفتگی سے بولی ’’جب تو اسے پہنے گا تو اس کی قیمت آپ ہی چکتا ہو جائے گی۔‘‘ پھر مِنت سے کہا۔۔ ’’پہن کر دکھا ناں۔‘‘

منوں مسکرا کے اسے دیکھ رہا تھا۔ ’’میں اسے تیرے بیاہ والے دن پہنوں گا۔‘‘ اُس نے تاجی کو چھیڑا۔۔

تاجی یاد کرتے کرتے کیسے دنیا سے بے خبر لگ رہی تھی۔۔ کئی سالوں بعد وہ آپ ہی آپ ہنس رہی تھی دروازہ بج رہا تھا۔ تاجی ہوش کی دنیا میں وآپس آ گئی ہنڈیا کے جلنے کی بُو سارے گھر میں پھیل چکی تھی۔ تاجی نے جلدی سے ہنڈیا اُتاری اور دروازہ کھولا۔

شیدا کھانا لینے کے لئے کھڑا تھا۔ شیدے نے بھی جلنے کی بو محسوس کی۔ ’’پرجائی سالن لگ گیا لگتا ہے۔‘‘

’ہاں، اس نے مختصراً کہا اور ہمت کر کے کرتے کے مالکوں کا پتہ پوچھا۔

شیدا ہنس دیا۔ ’’استاد کہہ رہا تھا عورتوں کو تو کوئی اچھی شے دکھانی ہی نہیں چاہئے۔

’’خفا تو نہیں تھا‘‘ تاجی کا دل پھر زور سے دھڑکا۔ شیدے نے بد رنگ مگر صاف دسترخوان کی گرہ لگائی اوراسے دیکھ کر روانی سے بولا۔ ’’پرجائی تجھ پہ خفا ہوتے کبھی دیکھا نہیں استاد کو۔‘‘ شیدا جاتے جاتے مڑا۔ ’’ویسے تم نے کیا کرنا ہے؟

بہت دور ہے گھر سواری کے بغیر نہیں جا سکتا کوئی وہاں۔‘‘ تاجی نے سر ہلایا۔ ’’تیری مرضی ہے میرا کام تھا صلاح دینا۔‘‘

تاجی نے دروازہ بند کیا اور رو پڑی۔ اس منحوس صلاح ہی نے تو مارا تھا مجھے۔

تاجی نے اپنا صاف ستھرا دوپٹہ جستی ٹرنک سے نکالا اور کرتا تہہ کر کے اس میں یوں لپیٹا جیسے اس کا دوپٹہ دوپٹہ نہ ہو جزدان ہو۔ اور کرتا کرتا نہ ہو۔ کوئی صحیفہ ہو۔ یکدم اُس پہ بے بسی کی کیفیت چھا گئی جیسے کوئی مرضِ موت میں مبتلا اُس کے سامنے ہو اور اُس کی سارے دعائیں کہیں زمین آسمانوں کے درمیان رہ گئی ہوں۔۔ منوں تو نے کیوں بیچا میرا پیار۔ اتنا سستا۔ اس کا سانس بند ہو رہا تھا۔ ایسی بھاری سل سینے پہ دھری تھی کہ جیسے اب جان نکلی کہ تب۔

بے بسی نے ایڑھیاں رگڑنے کی سی حا لت کر دی تھی۔ تمہیں تو یاد بھی نہیں ہو گا منوں جب تم نے مجھے اماں کی آرزو سنائی تھی۔ میں تو اماں کو منع کر چکی تھی کہ مجھے کسی کے ساتھ بیاہ نہیں کرنا۔ پر تیرے سامنے۔۔

ہائے کاش تو کہتا، تاجی دریا میں کود جا میری خاطر تو میں ہنس کر کود جاتی۔۔ اب بھی کودی ہوں پر یہ دریا نہیں آگ ہے۔ روز جلتی ہوں۔ روز مرتی ہوں تیرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی تھی تو آسمان بازوؤں میں لگتا ایسا لگتا میں دنیا کی خوش قسمت ترین ہستی ہوں جو تیرے ساتھ ہوں اپنے منوں کے ساتھ اور تجھے پتا ہے۔ نذیر کے ساتھ تو میں کبھی چلی ہی نہیں۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ شوہر کے ساتھ چلتے ہیں تو کون سا احساس دل میں جاگتا ہے۔ ہماری شادی کے بیس دن بعد ہی ایک بم دھماکے نے اس کی ٹانگیں ہوا میں یوں اچھالیں جیسے گنڈیری کی گلیاں۔

مجھے شیدے نے بتایا تھا۔ وہ ہانپتا ہوا گھر میں آیا۔ اس وقت میں بالوں میں رنگین کلپ لگاتے لگاتے آئینہ دیکھ رہی تھی۔ پتا نہیں کیسے مجھے آئینے میں تم دکھائی دینے لگے۔ اگر شیدا نہ آتا تو۔۔۔۔ نہ آتا تو بھی۔ کونسا تو نے میرے پاس رہ جانا تھا۔ تاجی نے اپنے خیال کو جھٹکا۔ گھر کو بند کیا اور باہر نکل آئی۔ کرتا سینے سے لگائے۔ اُس نے لمبی لمبی سانس لی اور چل پڑی۔۔۔۔۔ خیالوں میں اُلجھی اُلجھی۔۔۔۔

’’منوں تجھے یاد ہے تو نے مجھے بتایا اماں کہتی ہے ’ نذیر کی اپنی دکان ہے کھاتا کماتا ہے میں راج کروں گی۔ اور میں نے تجھ سے کیا کہا تھا۔۔‘‘ ۔ تاجی کا دل دکھ سے بھر گیا۔۔۔ ’’تجھے کہاں یاد ہو گا۔۔۔‘‘ تاجی نے آپ ہی سوال کیا اور آپ ہی جواب دیا۔

’’میں نے کہا تھا راج تو پیار میں ہوتا ہے‘‘ ۔ اس شام کتنا کہرا تھا ٹھنڈے ہونٹ اودھے ہو کر لرز رہے تھے۔ کبھی کبھی اللہ میاں موسموں کو ہمارے حق میں کر دیتا۔ اس شام بھی ایسا ہی ہوا۔ میرا لہجہ کانپ رہا تھا۔ تیرے پیار کے جگنو تیری آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے ہم نے ایک دوسرے کو اتنا اداس کبھی نہ دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کتنا وقت ہم ساتھ رہے۔ دونوں کے پاس بہت ساری باتیں تھیں مگر دونوں کے پاس لفظوں کی قلت ہو گئی۔  دونوں کے پاس آنے والے دنوں کی ان مٹ یادیں تھیں مگر آج کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ پھر تم نے کہا ہوا بہت تیز چل رہی ہے، گھر چلو۔ ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ اورمیرے کانپتے وجود کو پہ اپنی سیاہ چادر سے ڈھک دیا۔۔ آج بھی میری اُداسی وہی سمیٹتی ہے۔۔

اماں کتنا خوش تھی۔ پاؤں زمین پر ٹکتے نہ تھے۔ منوں کے قصیدے کہتے زبان تھکتی نہ تھی آتے جاتے واری صدقے ہو رہی تھیں۔ چوڑے لپّے والا دوپٹہ اوڑھ کر مہندی کی رسمیں ادا کرتے ماں کو میرا دکھ دکھائی نہ دیا۔ اور مجھے یقین ہو گیا بہت سی کتابی باتوں کی طرح یہ بھی کتابی بات ہے کہ ماں اولاد کا دکھ بِن کہے جان لیتی ہے

’’اور اس رات جس صبح بارات آنی تھی۔‘‘ سوچتے سوچتے اچانک تاجی کے گلے میں کانٹے اگ آئے اس نے پیاس کو شدت سے محسوس کیا۔ مگر آس پاس کہیں پینے کو پانی نہیں تھا چلتے چلتے وہ اپنے گھر سے دور بڑی سڑک پر نکل آئی تھی۔ پلاسٹک کی چپل نے ایڑھی پر کیل سا گاڑ دیا۔ لیکن منوں سے ملنے کی لگن ہر شے پر بھاری تھی۔ اُسے ایڑھی کی دُکھن کا بالکل احساس نہ ہوا۔۔۔

وہ مہندی کی رات تھی منوں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ تاجی کی آنکھوں میں مسلسل برسات کی دھند تھی۔ پیلے جوڑے میں ابٹن اور مہندی کی خوشبوؤں میں بسی تاجی کو منوں نے نظر بھر کے دیکھا ہی نہیں۔ اس سے دیکھا ہی نہ گیا۔

تاجی کا جسم سسکیوں سے ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ وہ لرزتی دھیمی سرگوشیوں میں ایک ہی ساز پر نوحہ کناں تھی۔ منوں سن کہاں رہا تھا۔ وہ تو اس کی ایک ایک سانس کو خود ہی اتار رہا تھا۔ تاجی کہہ رہی تھی۔

’’منوں میری تو نہ کوئی سہیلی ہے نہ بہن۔ سارا بچپن تیرے ساتھ بیر توڑتے، کچی پکی امبیاں چراتے۔ تیرے لئے اماں سے جھڑکیاں کھاتے گزر گیا۔ مجھے یہ تو بتا تُو جب بہت یاد آئے گا اور میرا دل بھر بھر جائے گا تو میں کس سے کہوں گی۔۔ تیری یاد مجھ سے سہی نہیں جا رہی۔ میں تیرے بہانے کس کے گلے لگ کر روؤں گی۔ منوں اپنا واسطہ دے کے تُو نے مجھے بے موت مار دیا ہے۔۔‘‘ پھر تاجی نے آہ بھری۔۔ ’’پورے چاند کی راتوں میں کون تیرے ساتھ باتیں کرے گا بتا کہُرے کے ٹھنڈے دنوں میں دھند میں چھپ کے کس کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلے گا۔۔‘‘ منوں سپاٹ چہرے کے ساتھ اُسے دیکھے جا رہا تھا۔۔ جانے اُس کے دل میں کیا چل رہا تھا، تاجی کو بعد میں کتنا دکھ رہا کاش اُس کی بھی سنی ہوتی میں بس اپنی ہی کہتی رہی کتنی ظالم رات تھی وہ، اگلا دن اُن دونوں کی جدائی کا دن تھا۔۔ تاجی کو سدا کے لئے نذیر کا ہو جانا تھا۔۔۔ ’’اللہ کرے مجھے تجھ سے محبت نہ رہے۔۔‘‘ تاجی نے روتے روتے رخ پھیر لیا۔ منوں نے شکر ادا کیا اور اپنی آنکھوں کا خاموش سمندر خاموشی سے بہہ جانے دیا اُسے یقین تھا اگر تاجی نے اُس کی آنکھوں میں اتنے ڈھیر آنسو دیکھ لئے تو مرتی مر جائے گی مگر شادی نہیں کرے گی اور اُس نے تو خالہ کو زبان دے دی تھی۔ وہ کافی دیر تک بے آواز روتا رہا پھر سرگوشی میں بولا۔۔ ’’تیرے پیار کا تو احسان تھا ہی مجھ پہ، اب میری بات مان کے تو تُو نے مجھے خرید ہی لیا ہے۔‘‘ سجو کو بھی پتہ تھا وہ جو اُس وقت ہنسا ہے ہنسا نہیں تھا اس نے بین کیا تھا۔۔ ’’یوں سمجھا ب تیرا ایک اور احسان ہو گیا مجھ پہ۔ میں نے خالہ سے وعدہ کیا تھا۔ تجھے نذیر کے لئے منا لوں گا۔۔‘‘ تاجی بلبلا گئی۔ ’’اور جو مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ پورے چار سو سال کا۔‘‘

وہ پلٹ کر بولی۔ منوں نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور آنکھیں بند کر کے بولا۔ ’’جب تک زندہ ہوں اپنے وعدے کا پابند رہوں گا۔‘‘

تاجی بگڑ گئی۔۔۔ ’’مجھے اس سے کیا۔ میرے تو نہیں رہو گے ناں۔ مجھے تو تیرا ہو کے رہنا تھا۔ تیری خدمت کرنی تھی۔ تیرے پیر دبانے تھے۔ تیرے لئے کھانا بنانا تھا۔ رات دیر تک چوکھٹ پر بیٹھ کر تیرا انتظار کرنا تھا۔۔۔‘‘ وہ بات کرتے کرتے جیسے ہار گئی۔۔۔ ’’جس سے دل نہ ملے گا اس کے لئے کیسے جاگوں گی۔ مجھ سے یہ جھوٹ کیسے بولا جائے گا بتانا منوں میں کسی اور کے انتظار میں کیسے جاگ سکوں گی۔‘‘

منوں کا دل بھر آیا اس سے رہا نہ گیا۔ تاجی کو سینے سے لگا لیا۔ منوں کے آنسو تاجی کے ابٹن سے مہکتے جسم کی خوشبو کو دو آتشہ کر رہے تھے تاجی کا مہندی لگا ہاتھ منوں کے کندھے سے گرا اور سینے پر آ کر رک گیا مہندی سوکھ چکی مگر اُس کی خوشبو منوں کی سانس میں رچ گئی۔ تاجی نے روتی آنکھوں سے مسکرا کے پوچھا۔ ’’تو نے کرتا پہن لیا۔؟‘‘

منوں کی آنکھیں نمی سے چمک رہی تھی۔ ’’تجھے دکھانا بھی تو تھا۔ اور میں نے تو وعدہ کیا تھا۔ تیری شادی پہ پہنوں گا۔ رخصتی کا دن بس اب چڑھنے ہی والا ہے۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ تاجی کی ریڑھ کی ہڈی یوں سُن ہوئی جیسے برف قطرہ قطرہ پگھل کے گر رہی ہو اگلے دن منوں ملا ہی نہیں۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ اماں بار بار بول رہی تھی۔ دیکھو ذرا شادی والا گھر ہے منوں کا کہیں پتہ نہیں۔ کوئی ایسا بھی کرتا ہے بھلا۔ یہ تو تاجی ہی جانتی تھی۔ کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔

چلتے چلتے تاجی کو ٹھوکر لگی اُس کے خیالات کا طوفان تھما۔ ٹھوکر لگنے سے چپل ٹوٹ گئی۔ اس کا دل ہول گیا۔ کہتے ہیں جوتی کا ٹوٹنا اچھا نہیں ہوتا۔

اللہ کرے کوئی خیر کی خبر ہو۔ منوں ٹھیک ہو۔ اس کے دل میں عجیب سے وسوسے نے سر اٹھایا۔ اسے لگا منوں اب اس جہان میں نہیں ہو گا۔ اسی لئے یہ کُرتا۔۔ کچی مٹی کے پیالیوں کے عوض بک گیا۔ ونہ وہ اپنا پیار میرا احسان، میری آنکھوں کا نور۔ پور پور پیار سے بھرے ٹانکوں کو یوں بکنے دیتا؟ ۔ تاجی کی رفتار دھیمی پڑ گئی۔ اب اس کے دل میں لگن کی جگہ دکھ نے گھیر لی۔ ’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے اب اسے مجھ سے محبت ہی نہ رہی ہو۔ اس لئے اس کی نظر میں اس کُرتے کی حیثیت نہ رہی ہو گی۔ لیکن دعا تو میں نے یہ کی تھی کہ مجھے اُس سے محبت نہ رہے وہ تو قبول نہ ہوئی۔۔ تاجی کو خود پہ ترس آنے لگا۔۔ کیا واقعی منوں اُسے بھول گیا ہے۔۔۔۔ تاجی نے بے ساختہ آنکھوں کو پرانے ملگجے دوپٹے سے رگڑا۔۔ راستہ سمجھ نہیں آ رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ بھٹکتی۔ اس نے شیدے کے بتائے راستے پر بڑے سے سکول کے چوکیدار سے پوچھا۔ کوٹھی نمبر دس کہاں ہے۔؟

چوکیدار نے اسے اوپر سے نیچے دیکھا۔ اسے تاجی پر ترس سا آ گیا۔ ٹوٹی چپل۔ مٹی سے اَٹے پیر۔ کبھی وہ حسین ہو گی مگر اب تو چہرے پر بس شکنیں تھیں۔ سانولا رنگ، سیاہ بھنورا آنکھوں کے گرد اس سے بھی سیاہ حلقے۔

چوکیدار نے راستہ سمجھایا۔ تاجی پھر چل پڑی۔ اور کوٹھی نمبر دس کے سامنے کھڑی ہو کر اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔ یہ کس کی کوٹھی ہو سکتی ہے۔ کہیں منوں یہاں ملازم ہی نہ ہو۔ یا پھر اس کی بیوی۔

بیوی کا سوچ کر اس کا دل کانپ گیا۔ آنکھیں اور اندر دھنس گئیں۔ اس کا جی چاہا۔ منوں نے شادی نہ کی ہو۔ وہ اس کے لئے بیٹھا رہے ساری عمر۔ تاجی کے لئے جو اس کی خاطر تن سے۔۔ نذیر کی ہو گئی۔ من۔ منوں کے اندر چھوڑ کر۔

تاجی نے کپکپاتے ہاتھوں سے بیل بجائی۔ جی میں سو اندیشے تھے کہ جانے کیا سُننے کو ملے گا تبھی ایک نسوانی آواز نے اُس کی توجہ اپنی جانب کر لی اُس نے نہ چاہتے ہوئے بھی بڑے سے آہنی گیٹ کی جھِری سے جھانکا ایک خوبصورت صاف ستھری عورت بولتی ہوئی گیٹ کے قریب آ رہی تھی۔

’’چوکیدار نے بھی آج ہی چھٹی کرنی تھی۔ میں تو صبح سے گیٹ کھول کھول کر تنگ آ چکی ہوں۔ اس پر حمیداں کو تو کچن ہی نہیں چھوڑتا جو ادھر اُدھر کی خبر لے لے۔۔‘‘ آ نے والی نے گیٹ کھولا۔۔ اور بولنا بند کیا۔۔ تاجی کو دیکھا۔ تاجی آنے والی کو دیکھتی رہ گئی اس کا رعب۔

اس کی دولت مندانہ شان اورحسن میں چھپا تھا۔ تاجی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔ ’’کس سے ملنا ہے۔؟‘‘ خلافِ توقع عورت نرمی سے بولی۔

تاجی ہکا بکا رہ گئی حلق خشک ہونے لگا۔ اُسے ایسی نرم گفتگو کی توقع نہیں تھی۔

’’وہ۔ جی منوں۔۔۔۔‘‘

ایک آواز آئی۔ ’’کون ہے رابعہ۔؟‘‘

تاجی کا دل آواز کے ساتھ ڈولنے لگا۔ اس نے بے ساختہ جھانکا۔ وہ منوں ہی تھا۔ اس کا منوں۔ اس کی آواز۔ اس کا چہرہ۔ اس کے لئے ماضی کب بنا جو وہ نہ پہچانتی۔

’’کوئی غریب عورت ہے منور کسی منوں کا پوچھ رہی ہے۔‘‘

منور کے آس پاس ایک جھماکا ہوا۔ وہ کرسی کے کنارے سے آ لگا۔ رابعہ نے پھر تاجی کی طرف رخ کر کے کہا۔۔ ’’منوں تو یہاں کوئی نہیں رہتا تمہیں کیا کام تھا اُس سے۔؟‘‘

تاجی ہکلانے لگی۔ ’’جی۔ وہ۔۔۔‘‘

’’کام کرو گی۔۔۔؟‘‘ رابعہ نے اس کی مشکل آسان کی اُسے تاجی کی غربت پر ترس آ رہا تھا۔ بلا وجہ تاجی نے ہاں میں سرہلا دیا۔

رابعہ نے اُسے اندر آنے کو کہا۔ تاجی جزدان سینے سے لگائے اندر آ گئی۔ تاجی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اُسے تو بس منور تک پہنچنا تھا۔۔

منور اسے محسوس کر رہا تھا۔ اس کا اُٹھنے والا ایک ایک قدم اُس کے مہنگے سنہرے فریم والے چشمے کی اُوٹ سے صاف نظر آ رہا تھا۔ اسے تاجی آج بھی ابٹن اور مہندی کی خوشبو میں بسی اپنی ہی تاجی لگی۔ منوں کو اُس کا سانولا پن دکھائی ہی نہیں دیا۔ اُسے یاد تھا وہ شوخ نخرے سے کمر کو جھٹکا دیتی تو منوں کیسے اس کا ہاتھ پکڑ کے اُسے گلے سے لگا لیا کرتا تھا۔۔ اب بھی اُس کا کتنا جی چاہا کہ اُس سے کہے۔ ایک بار اپنی کمر کے بل پہ اُس کی ہستی ہلا دے اُسے اُسی دنیا میں لے جائے جہاں وہ دونوں جدا ہوئے تھے۔

رابعہ نے نرمی سے اسے بیٹھنے کو کہا۔۔ ’’۔ میں پانی لے کر آتی ہوں‘‘

تاجی اور منوں اکیلے رہ گئے۔ تاجی نے سر کو جھکائے جھکائے دیکھا۔ وہ سناٹے میں تھی۔ منوں سفید کرتے پاجامے میں چشمہ لگائے اخبار ہاتھ میں لئے کتنا پر کشش لگ رہا تھا۔ بالوں میں کہیں کہیں سفیدی۔ اور وہ ایک لٹ ماتھے پہ۔ تاجی کا بے ساختہ دل چاہا۔ اسے ماتھے سے پرے کر دے۔ مگر۔ اسے ہوش آ گیا۔ آس پاس سب کچھ اجنبی تھا۔ اس کا منوں بھی۔ تاجی نے سوچا۔ جانے یہ سب کیسے ہوا ہو گا منوں، منور بن گیا اور جب وہ منوں نہ رہا تو اُس کا کیسے رہ سکتا تھا تاجی کو اپنی قسمت پہ رونا آ گیا تاجی کو اپنی غربت نہیں منوں کا منوں نہ رہنا کسی اور کا ہو جانا بے موت مار گیا۔۔ کہیں اس کے آنسو آنکھ سے بہہ نہ جائیں اس لئے اُس نے جلدی سے دوپٹہ سر پہ ٹھیک کیا۔۔ ’’شکر ہے منوں نے اُسے پہچانا نہیں۔۔۔‘‘ اس نے سوچا مگر بہت حسرت تھی اُس کے دل میں۔۔ کاش کہ پہچان لیتا۔۔

لیکن یہ کیسے ممکن ہے منوں نے اُسے پہچانا نہ ہو یہ خواہش تو تاجی کے احساسِ کمتری کی تھی۔ دوپٹے کی کھونچ اور ٹوٹی چپل۔ منوں سے چھپ ہی نہ سکی۔ رابعہ پانی لے آئی۔ منوں نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور اشارے سے تاجی کو دینے کے لئے کہا۔۔ تاجی دکھ کے سمندر میں جیسے غرق ہی ہو گئی ہو اُسے کتنا رنج ہوا کہ آج بھی وہ منوں کی آنکھ کا اشارہ سمجھتی ہے، اِسی لئے رابعہ کے پیسے دینے سے پہلے ہی اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔

منوں اور تاجی کی ایک لمحے کو آنکھ ملی اور اس ایک لمحے میں تاجی کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ یہ وہ منوں تو نہیں تھا۔ جس کی خاطر آج تک وہ اپنے شوہر کو مجازی خدا نہ سمجھ نہ سکی۔ یہ وہ منوں تو نہیں تھا۔ جو اسے چار سوسال تک یاد رکھنے کا وعدہ کر چکا تھا یہ وہ نہیں جو اُس کے پیار کا احسان ساری عمر سینے کے ساتھ لگا کے رکھنے والا تھا۔ یہ تو کوئی اور تھا۔ شاید رابعہ کا شوہر۔ یا شاید آس پاس کھیلتی تین چار سال کی بچی کا باپ۔ یا۔۔ یا۔۔ یا۔۔ اور اسی ایک اندھیر لمحے میں تاجی نے رابعہ کے ہاتھ پر سارے نوٹ رکھ کر مٹھی بند کر دی۔ تاجی پر بے حسی کا دورہ پڑ چکا تھا۔ وہ سب کچھ سہہ سکتی تھی پر منوں کا ایسے دیکھنا۔ اس سے دیکھا ہی نہ گیا۔ الٹے پیروں بھاگی۔ جزدان وہی رہ گیا۔ رابعہ نے اسے جاتے دیکھا تو پکارا۔۔ ’’ارے یہ تمہارا سامان۔۔‘‘ اس نے جھک کر کپڑا اٹھایا اور سفید کرتا جزدان کی تہوں سے آزاد ہو کر ہری گھاس پر موتیے کے پھول کی طرح کھِل گیا۔ رابعہ نے اسے اٹھایا۔ اور آنکھوں میں حیرت بھر کے بولی۔۔ ’’منور یہ تو۔ یہ۔ تاجی۔۔۔۔‘‘ اس نے پہلے کرتے کو اور پھر جانے والی کو دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا۔ منور نے صبر کا بڑا سا گھونٹ بھرا حلق میں نمکین سمندر کے پانی نے کڑواہٹ بھر دی۔۔ آہستہ سے سر ہلا کر بولا۔۔ ’’ہاں تاجی تھی۔۔‘‘

رابعہ اور بھی حیران ہوئی۔ ’’پر یہ۔‘‘ ۔۔ اس نے کرتے کو دیکھا ’’۔ اس کے پاس کیسے پہنچا۔‘‘ منور کے پاس اس کا کیا جواب ہو سکتا تھا۔ وہ تو یہ بھی نہ کہہ سکا شاید میری بے وفائی کا رونا رونے گیا ہو یا پھر یہ بتانے کہ دیکھ تیرے پیار سے پروئے ٹانکے اب وقت اپنے ہاتھ سے اُدھیڑ رہا ہے۔۔ تُو بھی اپنے دل کو اِس پرانی محبت سے آزاد کر لے۔۔ ’’مجھے لگتا ہے چوکیدار کی بیوی نے چرایا ہو گا۔ اس دن جب میں پرانے کپڑوں کو دھوپ دکھا کر پیٹی میں رکھ رہی تھی۔ وہی میرے ساتھ تھی لیکن۔۔۔‘‘ وہ پریشان ہو کر بولی ’’تم نے اسے روکا کیوں نہیں۔ اُسے روکنا چاہیئے تھا تم نے اُس کا حال نہیں دیکھا تھا اُس کی خیر خبر تو پوچھتے۔۔‘‘ منور نے چشمہ اتار کے آنکھوں کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے مسلا۔ ’’میں اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں اسی لئے اُسے نہیں روکا اگر آج اسے روک لیتا۔ تو آج کے بعد وہ کبھی نذیر کی نہ ہو پاتی۔ میں اُسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ اس کی ہو بھی نہ ہو سکی ہو گی۔ لیکن آج میں نے اسے رخصت کر دیا۔ پچھلی بار میں اُسے رخصت نہیں کر سکا تھا اسی لئے آج اُسے روکا نہیں وہ چلی گئی ہمیشہ کے لئے۔ میں نے اُسے اپنے پیار کے ہر ہر ٹانکے سے آزاد کر دیا۔۔۔‘‘

رابعہ اس کے پاس والی کرسی پر بیٹھ کر محبت سے بولی۔ ’’مگر کیا تم خود کو اس کے پیار سے آزاد کر سکو گے۔ اس کے پیار میں پروئے کسی پھول کسی پتی۔۔ کسی گرہ سے۔ اپنا اُس کا۔۔ دکھ کھول سکو گے۔؟‘‘

گیٹ کے ساتھ والی دیوار سے لگے لگے تاجی نے سن لیا۔ اور وہ جو یہ سمجھ رہی تھی کہ منوں نے اسے پہچانا ہی نہیں۔۔ وہ غلط تھا۔ کاش۔ یہ غلط فہمی آخری سانس تک رہتی۔ منوں نے اسے نہ پہچانا ہوتا۔ وہ جس کے عشق میں سانس لیتی تھی جیتی تھی اُس پہ ترس نہ کھاتا۔۔ اُسے کچھ اور سنائی نہ دیا سوائے اِس کے کہ منوں نے اُسے پہچان لیا مگر کہا نہیں کیوں۔۔ کیوں۔۔ تاجی کی آنکھیں خشک ہو گئیں باوجود کوشش کے کوئی آنسو نہ آیا اُس نے یہ بھی سوچا شاید بیوی کی وجہ سے اس نے ایسا کہا ہو لیکن میں تو تاجی تھی ناں اُس کی محبت اُس کا پہلا پیار۔۔ تاجی نے دوپٹہ اپنے اوپر اچھی طرح پھیلایا اور گھر واپس آنے کے لئے ایک ایسا سفر شروع کیا جو ساری عمر ختم ہونے والا نہیں تھا نا مراد عشق سے واپسی کا سفر ایسا تو نہیں تھا کہ آسانی سے طے ہو پا تا۔

گھر پہنچی تو نذیر معین کو بہلا رہا تھا۔ اور وہ ماں کی گم شدگی پر آسمان سر پر اٹھائے اونچی آواز میں روئے جا رہا تھا۔ تاجی کو دیکھا تو اس کی سسکیاں اور ہچکیاں اور تیز ہو گئیں۔ ’’کہاں چلی گئی تھی تم۔؟‘‘ معین نے اُس سے لپٹنا چاہا تاجی نے جواب ہی نہیں دیا اُسے خود سے علیحدہ کر کے نذیر کے سامنے مٹھی کھول دی۔ نذیر ہزار ہزار کے کئی نوٹ دیکھ کر پہلے حیران اور پھر خوشی سے بولا۔ ’’کرتا بیچنے گئی تھی۔۔۔‘‘ ؟اس کی آنکھیں چمکی۔ ’’میں جانتا تھا۔ تجھ سے اچھی قیمت اس کی کوئی لگا ہی نہیں سکتا۔ اچھا کیا بیچ آئی۔‘‘

تاجی مسلسل پانی گراتی ہجر کی ماری ٹونٹی کے نیچے آ کر کھڑی ہو گئی۔ پہلے پیر دھوئے پھر چہرہ اور۔ چہرہ دھوتے دھوتے کئی آنسو بھی گرائے۔ اس کا جی چاہا چیخ چیخ کر کہے ’’میں نے کرتا نہیں بیچا۔ منوں نے اس کی قیمت ادا کر دی اور اس کی ہی کیا آج اُس نے سارے حساب ہی چکتا کر دیے۔۔۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

جدائی کی سڑک پر

 

مجھے اپنے ملک اپنے ہم زبانوں سے ملے ہوئے تیرہ برس ہو چکے تھے۔۔۔ ان تیرہ برسوں نے مجھے بہت دھوکے میں رکھا۔ ہر رات یہ برس مجھے تھپکی دیتے اور کسی ماہرِ نفسیات کی طرح ان دیکھا پنڈولم میرے سامنے نچاتے اور کہتے تم سب کچھ بھول چکے ہو۔ تمہارے ہر گزرے دن پر برف پڑتی جا رہی ہے۔ تم برف پوش پہاڑوں میں دبتے جا رہے ہو۔ ہر نیا دن میرے اندر کچھ اور حاصل کرنے کی جستجو بھر دیتا اور شاید ایسا ہی رہتا۔۔۔ یوں بھی جدائی کی جس سڑک پر میں چل رہا تھا پیچھے سڑک دیکھنا پتھر کر دیتا ہے۔ میں پتھر ہونے سے ڈرتا بھی تھا۔۔۔۔

خط آیا میری ماں جیسی بڑی بہن آپا رشیدہ اپنی آخری گھڑیاں گن رہی ہیں۔ اپنے لاڈلے بھائی عبدالواسع کو ایک نظر دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ کوئی قبولیت کی گھڑی میں ہو گی جب عبدالواسع کو کوئی کام یاد نہ آیا۔ بیوی کی تیکھی نوکیلی باتیں بھول گئیں۔ یہ احساس نہ رہا کہ دونوں بیٹیاں کیا کریں گی؟ آپا رشیدہ کی ہمت نے وہ جوش مارا کہ سدھ بدھ کھو گئی۔ ہزاروں میل اونچائی کے سفر پر گامزن جہاز کی کھڑکی سے جھک کر زمین پہ رہنے والوں کو دیکھنا۔ زمین گڑیا گڈے کی کہانیوں جیسی بے قدر لگ رہی تھی۔ میں نے سیٹ سے سر ٹکا کر سونا چاہا مگر کیسے سوتا۔ میرے سامنے تیرہ برس لمبی جدائی کی سڑک آ کھڑی ہوئی۔ جانے کہاں سے ساتھ والی سیٹ پر صدف بیٹھ گئی اور میں بے خیالی میں بہت پیچھے چلا گیا۔

جب صدف نے کندھا ہلا کر کہا تھا۔ ’’ایکسکیوزمی آپ میری سیٹ بیلٹ پر بیٹھ چکے ہیں‘‘ ۔ یہ صدف سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ فرانس سے واپس پاکستان آ رہی تھی۔ اوہ۔۔۔۔ میں نے ذرا سا کھسک کر سیٹ بیلٹ گھسیٹی۔ صدف خوش شکل دبلی پتلی لڑکی تھی۔ چہرے سے خاموش مزاج نہیں دکھتی تھی مگر راستے بھر اس نے مجھ سے ایک بات نہیں کی۔ یوں صدف میرے لیے ایک عام سی لڑکی بن گئی جو کبھی اتفاقاً مل جاتی ہے۔ اسے یاد بھی نہ رہا لیکن اس سے دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں شاہ عالمی میں آپا رشیدہ کی دی ہوئی لسٹ کے مطابق سامان خرید کے واپس جا رہا تھا۔ شدید گرمی اور میں کاٹھا انگریز۔ گاڑی کو جانے کیا ہوا اچانک چلنے سے انکاری ہو گئی۔ میں نے گرمی سے بچنے کے لیے کیپ کو اتارا پھر سر پر رکھا اور زچ ہو کر گاڑی سے اتر آیا۔ گاڑی کو کھینچ کھانچ کر فٹ پاتھ پہ کھڑا کیا اور خود رکشہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگا کہ میرے بالکل سامنے گاڑی رکی۔

ہیلو۔۔۔ ’’میں نے دیکھا ایک لمحے کے لیے ذہن پہ زور دیا۔۔۔ مگر زیادہ وقت نہیں لگا صدف اپنے حسین دانت کھولے مسکراتی ہوئی مجھے بلا رہی ہے۔ مجھے۔۔۔ جہاز میں اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی یاد آ گئی۔

’’آپ‘‘ ۔۔۔۔ میں نے پہچان لیا تو جواباً مسکرا دیا۔ May I help you?۔۔۔۔ اس کے کچھ اور کہنے سے پہلے ہی میں دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔ ’’کسی قریبی ورکشاپ تک پہنچا دیں‘‘ ۔ میں نے بیٹھتے ہی کہا۔

’’میں سمجھی وٹامن ڈی لے رہے ہیں‘‘ ۔ وہ ہنس دی۔ لعنت بھیجئے وٹا من ڈی پر۔۔۔ میں تو گیروسری کر رہا تھا۔ ’’یہاں؟‘‘ اس نے فخر سے کندھے اُچکائے اس نے میرا انداز دیکھا۔ خوش لباس اور چہرے پر کھلتی اطمینان بخش سرخی میری حیثیت بتا رہی تھی۔ یہاں اب بہت اچھے شاپنگ سینٹرز کھل چکے ہیں لبرٹی، مال روڈ اور۔۔۔ آپ کتنے عرصے بعد پاکستان آئے ہیں؟ ’’سب جانتا ہوں۔ مگر آپا رشیدہ کہتی ہیں یہ سارے سینٹرز یہیں سے مال لے کے جاتے ہیں اور دگنی قیمت پر بیچتے ہیں۔

آپا رشیدہ۔۔۔۔؟

میری بڑی بہن۔۔۔ ماں جیسی۔۔۔ انہوں نے مجھے پالا ہے۔ وہ اسی شاہ عالمی سے چیزیں لا کے پکاتی رہیں اور کھلاتی رہیں۔ صدف نے محسوس کیا اسے آپا رشیدہ سے بہت محبت ہے۔ ورکشاپ آ گئی تو اس نے ہنس کے کہا۔ ’’میرا سلام کہیے گا آپا رشیدہ کو‘‘ ۔

’’کیا آپ بھی یہاں سے کچھ لینے آئی تھیں؟‘‘ میں نے سرسری سا پوچھا۔

’’نہیں نہیں میں اخبار میں لکھتی ہوں یہاں سروے کرنے آئی تھی‘‘ ۔ واسع نے اس کو دیکھا اور متاثر ہو کر ہونٹوں کو لٹکا کر ’’گڈ‘‘ کہا اور اتر گیا۔

تیسری بار ہم دونوں لارنس میں ملے پھولوں کی نمائش تھی اور میں آپا رشیدہ کے کہنے پر موسمی پھولوں کی پنیریاں لینے آیا تھا۔ صدف نے اس کو دور سے دیکھا اور ہنستی ہوئی آ گئی۔

ہیلو۔۔۔

’’میرا خیال ہے ہم ایک دوسرے کو اب اپنا نام بھی بتا دیں۔ تاکہ ہیلو کے بجائے آپ مجھے سیدھا عبدالواسع کہہ کر بلائیں۔ او میں! ’’صدف۔۔۔ صدف احسان‘‘ ۔

صدف نے ہنس کر کہا پہلی بار مجھے ایسا لگا اس کے لہجے میں پازیب بندھی ہے جب وہ بولتی ہے تو ایک گھنگھرو بجتا ہے اور جب ہنستی ہے تو سب کے سب ایک ساتھ بج اٹھتے ہیں جلترنگ جیسے۔

’’آج رنگوں کی شاپنگ کے لیے آئے ہیں یا پھولوں کی۔‘‘

اس نے پوچھا۔

پنیری لینے آیا ہوں۔ آپا رشیدہ کہہ رہی تھی یہاں سستی ملتی ہیں۔

(صدف کی ہنسی میں سارے گھنگھرو ایک ساتھ بج اٹھے۔ بہت کنجوس ہیں وہ؟

مجھ سے اس کی برائی کہاں برداشت ہوتی۔ بول پڑا۔ ’’نہیں نہیں کفایت شعار ہیں۔‘‘

صدف مسکرا دی۔ اس کی آنکھوں میں ڈھلتے سورج کی نارنجی کرنیں چمک رہی تھیں گالوں کی سرخی میں پلکوں کے سائے پہرہ دے رہے تھے۔۔۔

’’چائے پئیں؟‘‘ میں نے اس کے طلسم سے گھبرا کر کہا اس نے ہاں میں سر ہلا دیا اور وہ دونوں سٹال سے چائے لے کر آبشار کی طرف سے ہوتے ہوئے قائد اعظم لائبریری کے سامنے بنے لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گئے۔

’’تم بہت خوبصورت ہو۔‘‘ میری زبان پھسلی ورنہ میرا ایسا کہنے کا ارادہ نہیں تھا۔ صدف حیران ہوئی۔

’’تم سے اب تک کتنے لوگوں نے اظہارِ محبت کیا؟‘‘

ایک اور بے وقوفی کا سوال رسان سے نکلا۔

’’کسی کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ بات تو میرے دل کی ہے۔ مجھے کسی سے محبت ہے یا نہیں؟

’’ہے۔۔۔؟‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘

کوئی اچھا نہیں لگا۔۔۔ یا اچھا نہیں ملا؟

صدف نے نچلا ہونٹ ٹیڑھا کیا۔ چائے کا سپ لیا اور گلابوں کی کیاری میں نظر جما کر بولی۔ ’’محبت میں دو ہی چیزیں ملتی ہیں۔ رسوائی۔۔۔ اور۔۔۔ جدائی۔ اور مجھے ان دونوں سے خوف آتا ہے۔‘‘

دونوں چپ ہو گئے۔ چائے ختم ہو گئی۔ دونوں کے درمیان سفید سمندری جھاگ کے کپ ٹھنڈے ہونے لگے تو وہ بولی۔ ’’چلیں۔۔۔؟‘‘

مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ عبدالواسع کی زبان سے غیر ارادی طور پر نکلا۔

اس کے ماتھے پہ بل ابھرے وہ مسکرائی۔ ’’چائے کے ایک کپ پر؟

نہیں۔۔۔ جب سے ملی ہو۔ مختلف سی لگی ہو۔ کشش ہمیشہ مختلف میں ہوتی ہے۔۔۔ ’’عام‘‘ میں نہیں۔

صدف کے چہرے پہ سنجیدگی پھیل گئی۔ اس نے بنچ کی پشت پہ کہنی ٹکا کر اپنی ساری توجہ واسع کی طرف کر دی۔ رخ سیدھا واسع کی آنکھوں میں تھا۔ ’’ایسا ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگ جب چند دنوں کے لیے پردیس سے دیس میں آتے ہیں تو ایسی کہانیاں بن جاتی ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے ہم جیسے سادہ مزاج لوگ آپ لوگوں کو اچھے لگتے ہیں۔

Just for the change. __ یہ ایسا ہوتا نہیں جسے آپ محبت سمجھ رہے ہیں۔۔۔ محبت نہیں۔۔۔

واسع کچھ بولتا۔۔۔ مگر صدف بولی۔ شام ہو گئی ہے میرے ابا میرا راہ دیکھ رہے ہوں گے۔ ہاں آپا رشیدہ کو میرا سلام کہیے گا۔ اللہ حافظ۔

وہ چلی گئی۔۔۔۔ واسع کا دل بیٹھ گیا۔ اسی لیے جب رات کھانے کے بعد آپا رشیدہ نے واسع کا سر اپنی گود میں رکھ کر پوچھا۔

’’چپ چپ کیوں ہو۔۔۔؟‘‘

وہ بولا ’’آپا۔۔۔ مجھے محبت ہو گئی ہے۔ واسع نے یوں کہا جیسے آپا کی گود میں سر نہ ہو صدف کے زانو پر سر ہو۔ ’’مجھے ہر وقت اس کا خیال رہتا ہے۔ جس راستے پہ جاتا ہوں دل چاہتا ہے وہ کھڑی ہو۔ صبح اٹھتا ہوں تو سب سے پہلے اس کی ہنسی جلترنگ بجانے لگتی ہے۔ آپا محبت اسی کو کہتے ہیں ناں؟‘‘

آپا مسکرا کے بولیں ’’سنیا تے ہے اے نامراد ایہو جئی ہوندی اے (سنا تو ہے یہ نامراد ایسی ہی ہوتی ہے ) پھر وہ کہتی ہے۔ پردیس سے کچھ دنوں کے لیے دیس میں آنے والے محبت نہیں کرتے وہ Just for change ایسا کہتے ہیں۔‘‘ آپا نے واسع کے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔‘‘ بڑی سیانی کڑی اے۔‘‘

اور واسع آپا رشیدہ کو مان گیا صدف واقعی بہت سیانی تھی۔

پاکستان میں وہ اس کا آخری دن تھا۔ اگلی صبح اسے واپس جانا تھا۔ وہ دن بہت اداس تھا۔ اگلی صبح اسے واپس جانا تھا۔ آپا رشیدہ سے جدائی کے ساتھ ساتھ اب مجھے صدف کی یاد بھی چٹکیاں لیا کرے گی۔ اُف۔ محبت میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ اس نے سوچا۔

سمن آباد کی پرانی عمارتوں میں سے ایک گھر صدف کا تھا۔ میں اسے لینے اس کے گھر گیا وہ تیار تھی۔ میں گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ ہمارا پروگرام آج سارا دن اکٹھے گزارنے کا تھا۔ میانی صاحب قبرستان سے گزرتے گزرتے ہماری بائیں جانب ایک پرسکون روایتی سبز گنبد سے مزین مزار آیا صدف بول پڑی۔

رکو۔۔۔

کیوں؟

مجھے سلام کرنا ہے۔

واسع الجھا۔ ’’عورتوں کا قبرستان میں جانا ٹھیک نہیں۔‘‘

واسع مزارات پر جانا اچھا نہیں سمجھتا تھا۔

میں مزار پہ جا رہی ہوں۔ سلام کرنے۔

’’گاڑی میں ہی بیٹھ کر کر لو۔‘‘ ساتھ ہی گاڑی روک دی۔

اس نے اترتے اترتے کہا۔ ’’محبت کرتے ہو۔ تو محبت کے آداب بھی سیکھو۔ محبت دور دور سے کیے سلام کو نہیں مانتی۔ اسے تو چاہیے اپنے ہونے کا ثبوت۔

وہ چلی گئی واسع کھڑا رہ گیا۔

تھوڑی دیر بعد واپس آئی۔

دونوں پھر چل پڑے۔

’’کیا مانگا؟‘‘ واسع نے پوچھا۔

’’دیتا تو اللہ ہے‘‘ ۔ اس نے کہا۔

واسع گڑبڑا گیا۔ ’’پھر۔۔۔‘‘

پھر جب دوبارہ پاکستان آؤ گے تب بتاؤں گی۔

وہ بہت پراسرار لگی۔ اس دن اس کی آنکھوں کی چمک ماند تھی۔ اس کے لفظوں کی پازیب چپ تھی۔ پرل کانٹینل میں کھانا کھاتے کھاتے اچانک ہی اس نے ہاتھ روک لیے نچلے ہونٹ کو ٹیڑھا کیا پانی کا گھونٹ بھر کے بولی۔ ’’دیکھا وہی ہو گیا ناں۔۔۔ جس کا مجھے ڈر تھا۔‘‘ واسع گھبرا گیا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘

’’محبت‘‘ اس نے گلاس میز پر واپس رکھ کر مجرمانہ سے انداز میں سر جھکا لیا۔

واسع مسکرا دیا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ کر بولا۔ ’’تھینکس۔۔۔‘‘

تمہارے جانے سے ایک دن پہلے مجھ پر یہ حقیقت نہیں کھلنی چاہیے تھی۔

واسع نے اپنا نام پتہ فون نمبر لکھ کر اس کے ہاتھ میں دے دیا۔

’’اسے اپنے پاس رکھنا۔۔۔ میں تم سے کبھی دور نہیں ہو سکوں گا۔ ’’ایسا ممکن نہیں۔‘‘ سیانی صدف کا لہجہ بھیک گیا۔ تمہاری دنیا بہت رنگین ہے۔ رنگوں میں سادہ چہرے مر جاتے ہیں۔۔۔ میلوں کی دوری آ جائے گی درمیان تو دلوں میں بھی دوری آ جائے گی۔

’’ایسا نہیں ہو گا۔‘‘

ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ہو گا۔ قدرت کے قانون نہیں بدلتے۔۔۔۔ زندگی کی قیمت بدل جاتی ہے۔

واسع کو اس ایک لمحے میں صدف وہمی ہی نہیں بے وقوف ترین لڑکی لگی۔ بھلا اس کی محبت بدل سکتی ہے ایسا نہیں۔ اس نے چاہا ہے صدف کو۔ سچی اور کھری لڑکی کو۔ ایسی لڑکی مل سکتی ہے کہیں ہرگز نہیں۔

صدف بولی۔ ’’ایک آدھ دن تمہیں میں بہت یاد آؤں گی۔ پھر تمہیں میری یاد کی عادت ہو جائے گی۔۔۔ نشے کی طرح رات سے پہلے تم کچھ لمحے میری باتوں میری یادوں کو دو گے پھر۔۔۔‘‘ وہ ہنسی۔۔۔ ’’پھر وقت جال بننے لگے گا۔ مصروفیت کا عدیم الفرصتی کا۔۔۔ پھر ہم جدائی کی سڑک پر چلتے رہنے کے عادی ہو جائیں گے۔ ’تم پاگل ہو، ۔۔۔ واسع نے بیان دیا۔

بہت دیر ہو گئی تھی کھانا تو ہم نے کیا ہی کھایا۔۔۔ ایک دوسرے کو بس محسوس کرتے وقت گزار دیا۔

نہ کوئی وعدہ۔۔۔ نہ عہد۔۔۔ نہ قسم

یہ تو غیر ممکن تھا کہ میں صدف کو بھول جاتا۔

اور صدف کے دل میں دستک دینے والا پہلا مرد۔۔۔ عبدالواسع

صدف کو عبدالواسع نے گلے سے لگا کر اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر الوداع کہا تو صدف کو لگا وہ پانی بن کر عبدالواسع کے بازوؤں میں بہہ جائے گی۔ اس سے خود کو سمیٹنا مشکل ہو جائے گا۔ وہ پھر اپنے سانچے میں کبھی واپس نہ آ پائے گی۔ کبھی بھی۔ اس نے خود کو واسع کے بازوؤں میں سے نکال لیا۔ سامنے دہکتے انگاروں پہ اپنی سرد انگلیاں دیکھیں واسع مسکرا رہا تھا۔۔۔ صدف کے ہونٹوں پر اندیشوں کا قفل لگا تھا۔

عبدالواسع چلا گیا۔ واسع نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا ساتھ والی سیٹ پر کوئی نہیں تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔ صدف بہت سیانی ہے۔ آپا رشیدہ نے سچ کہا تھا۔ وہ اتنی سیانی تھی کہ اس کو آنے والے لمحوں کی چاپ سنائی دیتی تھی۔ اس کے سارے اندیشے درست نکلے۔

عبدالواسع نے جا کر شادی کر لی۔ دو بیٹیوں اور ان کی نگہداشت نے صدف تو صدف آپا رشیدہ کو بھی بھلا دیا۔ دو دن پہلے جو آپا کو کال آئی تو اس سے رہا نہ گیا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا صدف کس اخبار میں لکھا کرتی تھی۔ شاید امن میں۔۔۔ نہیں۔۔۔ روزنامہ جسارت میں۔۔۔ اُف میں یہ بھی بھول گیا۔

عبدالواسع نے خود کو اطمینان دلانے کے لیے پہلو بدلا جیسے پہلو نہ ہو سوچ ہو۔ ’’وہ بھی اپنی زندگی مزے سے گزار رہی ہو گی۔ جوانی میں اکثر ایسی حماقتیں ہو جاتی ہیں۔ عبدالواسع کو اپنی بات خود بری لگی۔ حماقت تو نہ کہو محبت کو۔ یہ اور بات کہ تم نے اس کی محبت کی قدرنہیں کی۔ تمہاری جیت اس کے لیے حماقت ہی ہو گئی۔

تو اس نے بھی کہاں محبت کی مجھ سے اس کے پاس تو میرا نام پتہ سب کچھ تھا۔ میں نے نہیں کیا تو اس نے بھی کب مجھ سے رابطہ کیا ہے۔

پاکستان علامہ اقبال ائیر پورٹ کی آواز کے ساتھ ہی بھگدڑ مچ گئی۔ جہاز رکنے سے پہلے لوگ کھڑے ہو گئے۔۔۔ سامان رکھنے والے ڈبے کھلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ باہر کی آوازوں نے اندر کی آوازیں دبا دیں۔

آپا رشیدہ کے گھر تک اس نے ٹیکسی لے لی۔

ہر رستہ جدائی کی طرز پر بنا ہوا تھا۔ سب کچھ بدل چکا تھا۔

اِن گزرے تیرہ برسوں میں آپا کتنا ڈھل گئی تھیں۔ چارپائی پہ آپا نے واسع کو گلے سے لگایا مگر ان کی شفقت محبت میں بالکل بدلاؤ نہیں آیا۔ ان کی بیٹی اور داماد ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ بیٹی نے پھولی پھولی جیکٹ پہنے، سنہرے رنگت والے وجیہہ ماموں کو دیکھا اور مسکرا دی (تیرہ برس کم مدت نہیں ہوتی۔۔۔ تعارف کرانا پڑتا ہے ) واسع نے سوچا جنے یہ چھوٹی والی بیٹی ہے یا بڑی۔

آپا رشیدہ کے پائے جیسی کوئی عورت نہیں۔۔۔ ایک لمحہ کو نہ کہا۔۔۔ بھائی تو جا کر بھول ہی گیا۔ آپا کہتی ہیں جو شکوہ کرے وہ محبت نہیں کر سکتا۔ محبت تو سمندر ہے جس میں جدائیاں اور انتظار کے کئی چھوٹے بڑے پودے ہوتے ہیں جو پانی سے سراٹھا کر نہیں کہتے کہ ہم بھی ہیں۔ ان کا پانی میں دم نہیں گھٹتا۔ جن کا دم گھٹنے لگے سمجھو ان کو محبت نہیں۔

’’ماشاء اللہ بڑا روپ چڑھا ہے تجھ پہ اس عمر کا۔ ’’آپا رشیدہ نے اس قدر محبت سے کہا کہ واسع نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔

واسع نے اِدھر اُدھر دیکھا۔۔۔ آپا تو اس کی آنکھیں پڑھ لیتی تھیں کہنے لگیں ’’جب سے تیرے بھائی رخصت ہوئے گھر کو رنگ نہیں کرا سکی۔

واسع شرمندہ سا ہوا کہ اس نے کبھی بہن کو پوچھا ہی نہیں۔ سوچا بھی نہیں کہ وہ کیسے گزارا کرتی ہوں گی۔

’’بانو۔۔۔۔‘‘ آپا نے آواز دی۔ ’’بیٹا ماموں کے لیے کچھ لے کر آ جا۔۔۔۔ چائے۔۔۔ یا؟‘‘ انہوں نے واسع کو دیکھا۔

’’چائے۔۔۔۔‘‘ واسع نے کہا۔ ’’ڈاکٹر کیا کہتا ہے آپ کو۔

کہتا ہے دل بڑھ گیا ہے۔

علاج

ہو رہا ہے۔ بس تمہیں دیکھنے کو دل کیا۔ نہیں دیکھے بغیر مر جاتی تو قبر میں بھی بے چین رہتی۔

اُف کیسی محبت کرتی تھیں آپا۔

اور محبت سے واسع کو صدف یاد آ گئی۔۔۔ صدف احسان۔۔۔۔ جانے اب کا نمبر لکھتی ہو گی یا بچوں کے جھمیلے میں سب کچھ بھول چکی ہو گی۔

چائے پی کر آپا کے پاس ہی لیٹ گیا۔

پرانی وضع کے بنے اس مکان کی خستہ حالت کو دیکھ کر بولا۔۔۔ وہ کھنڈر میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کے کانوں میں سرگوشیاں ہونے لگیں تھوڑی ہی دیر میں وہ پوری طرح بیدار ہو چکا تھا۔ بانو کے لہجے میں اکتاہٹ تھی۔ ’’یوں کوئی اچانک کیسے آ سکتا ہے امی۔۔۔ ضرور ماموں کی کوئی چال ہے۔

’’نہیں بیٹی عبدالواسع میرا بھائی ہے وہ کوئی چال نہیں چل سکتا‘‘

آپ کو بھول سکتا ہے۔۔۔ وہ آپ کے خلاف چال بھی چل سکتا ہے۔ وہ ضرور اپنے ابا کا یہ گھر ہم سے واپس لینے آئے ہیں کروڑوں کا ہے آخر۔۔۔ ایسے کیسے چھوڑ دیں گے۔ امی یہ باہر رہنے والے بڑے بے دید ہوتے ہیں۔

اسے میں نے بلایا ہے۔۔۔ جو بلائے پہ آ جائے اسے بے دید چالباز کیسے کہہ دوں۔

’’امی ساری عمر آپ کو اس بھائی کی محبت کا مغالطہ رہا ہے جس نے تیرہ سال ایک فون کال کر کے آپ کا حال نہیں پوچھا‘‘ ۔

اس کی کوئی مجبوری ہو گی بیٹا۔ ورنہ ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ماں سمجھتا ہے مجھ کو۔

یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہی ہے۔

’’چل فیر مینوں اس غلط فہمی وچ رین دے۔ میں بڑی خوش آں۔ انہوں نے خفگی سے کہا۔ ان کو جب بہت پیار یا جب وہ خفا ہوتیں مادری زبان پہ آ جاتیں۔

واسع اگر آنکھ کھول دیتا تو آنسو پلکوں سے نکل آتے۔ وہ سوتا بنا رہا۔ اس نے خود کو ٹٹولا۔ اس نے ان تیرہ سالوں میں محبت کے سوا سب کچھ پایا۔ دولت، کاروبار، غیر ملکی شہریت، امیر بیوی اور دو بیٹیاں۔

مگر محبت۔۔۔۔

صبح کا ناشتہ کر کے اس نے ٹیکسی کو سمن آباد کا کہا۔ وہ بہت آسانی سے صدف کے گھر تک پہنچ گیا۔ بیل دی تو دروازہ کسی ملازم نے کھولا۔

صدف صاحبہ کا گھر یہی ہے؟

جی

مجھے اُن سے ملنا ہے۔

اور پھر ڈرائنگ روم میں بٹھا کر وہ گھر کے اندر کہیں گُم ہو گیا۔ چند منڈ بعد صدف آ گئی۔

وہ ذرا سی بھی نہیں بدلی تھی، کہیں راستے میں چلتی پھرتی بھی دکھائی دے جاتی تو واسع پہچان جاتا۔ عبدالواسع کو دیکھ کر وہ مسکرا دی۔۔۔ جیسے کل کی بات ہو کہ وہ آیا ہو اور آج پھر۔۔۔ تیرہ برس درمیان میں آئے لگتے ہی نہیں تھے۔

کتنے سمارٹ لگ رہے ہو تم۔۔۔

(آپا رشیدہ کی بات اس کے کانوں میں گونجی۔۔۔ کتنا روپ چڑھا ہے تم پر اس عمر کا)

’’بابا‘‘ ۔۔۔ اس نے آواز دی چائے۔۔۔ پھر اسے دیکھا۔

’’چائے۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔

واسع نے گھر کے چاروں طرف تنقیدی نظروں سے دیکھا کہا کچھ نہیں۔۔۔ صدف بولی

’’ابا کے چلے جانے کے بعد ان کا اخبار میں نے سنبھال لیا۔ اس لیے بہت مصروف رہتی ہوں۔ کبھی کبھی گھر اِگنور ہو جاتا ہے۔

شادی۔۔۔ واسع نے جملہ ادھورا رہنے دیا۔

صدف ہنس دی۔

یہ ہنسنے والی بات ہے۔

جدائی کی سڑک پر چلنے والوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی عبدالواسع۔

نہ کوئی شکوہ۔۔۔ نہ شکایت۔۔۔ سمندر کی تہہ میں اُگے پودوں کی طرح۔۔۔ واسع اپنے اندر مرنے لگا۔

سوری۔۔۔۔

کس بات کی

بھول جانے کی

بھولے ہوتے۔۔۔ تو یہاں آتے؟

تم بالکل نہیں بدلی۔

بدل جاتی۔۔۔ تو تم پہچان نہ پاتے۔۔۔ تم نہ پہچان پاتے تو مجھے بہت دکھ ہوتا۔ خود کو دکھ سے بچانے کے لیے میں خود کو بدل نہ سکی۔

واسع نے محسوس کیا وہ بہت کمزور ہے۔ اس کے سامنے محبت کے تخت پر بیٹھی صدف بہت بہادر۔

چائے پیتے پیتے اچانک بولی۔۔۔ ’’یاد ہے لارنس میں چائے کے کپ پر تم نے مجھ سے اظہارِ محبت کیا تھا (خود ہی ہنس دی۔۔۔ اس کی ہنسی میں لاکھوں آنسو سسکیاں لینے لگے)

’’تمہیں شادی کر لینی چاہیے تھی‘‘ ۔۔۔۔۔ واسع گھبرا گیا۔

کسی کا انتظار کروں۔۔۔ کسی اور کے ساتھ رہوں۔ عبدالواسع مجھ میں ایسی ہمت کہاں تھی۔ ایک عمر میں دو زندگیاں جیتی۔

کوئی شکوہ کرو۔۔۔ کوئی گِلہ۔

وہ مسکرا دی۔ اس کی آنکھوں سے جگنو چمکے

عبدالواسع گھبرا گیا۔ ’’چلتا ہوں‘‘

آج پوچھو گے تو بتا دوں گی۔۔۔ اس دن بابا فیروز کے دربار پر جا کے کیا کہا تھا۔

واسع کا دل دھڑکا۔۔۔۔ ’’کیا‘‘

کہا تھا۔۔۔ عبدالواسع کو اللہ کے بعد آج سے آپ کی پناہ میں دیا۔ یہ جہاں بھی ہو۔۔۔ اس کی حفاظت کیجئے گا اور یہ بھی۔۔۔۔ کہ لوٹ کے ضرور آئے۔۔۔ اور تم آ گئے۔‘‘

مگر میں مکمل نہیں آیا۔

’’لو۔۔۔۔‘‘ اس نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔۔۔ ’’اس بات کا تو ان سے طے ہی نہ کیا۔۔۔ جتنا کہا۔۔۔ اتنا پا لیا۔۔۔ الحمد للہ۔ شکر ہے میرا مان سلامت رہا۔

میں بھاری دل۔۔۔ بھاری قدموں سے اٹھا اور چلتے چلتے ڈول گیا۔

اب چاہے تو نہ آنا۔ یوں بھی جدائی کی سڑک پر چلتے رہو تو ٹھیک۔۔۔ پلٹ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے حوالے۔

اس نے دروازہ بند کیا۔۔۔ تو پہلی بار اسے ایسا لگا وہ دنیا میں بالکل تنہا ہے۔ محبت کرنے والا آپا رشیدہ ہو چاہے صدف احسان۔۔۔ خدا نے ان کو سب سے اونچے مقام پر رکھا ہے۔ شکر ہے وہ عبدالواسع جیسے کم ظرفوں سے بہت دور ہیں۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

نصیب

 

جب گھڑی نے چھے کے ہند سے کو بھی کلٹ دیا تو میں بے چین ہو گیا۔

وقت کی ہمارے معاشرے میں کوئی قدر نہیں ہے اگر ہوتی تو ہم بھی چاند پر کسی پلاٹ کی بکنگ کروا چکے ہوتے۔ ایک نظرہال پہ ڈال کر سرسری نظر میں نے اپنے حال پر ڈالی۔

احمق۔۔۔ بے وقوف۔۔۔ اٹھنا چاہ رہا تھا۔

بیرا کئی بار مجھے دیکھ چکا تھا۔ چائے کا تیسرا کپ بھی خالی کر چکنے کے بعد میں نے چوری چوری اپنی طرف متوجہ بیرے کو بلایا۔ ’’بل!‘‘

’’جی۔۔۔‘‘ وہ سعادت مندی سے سرجھکا کر چلا گیا۔

آج میرے ایک کاروباری دوست کو آنا تھا۔ کافی اچھی ڈیل تھی، میں پر امید بھی تھا۔ مگر ابھی تک تو اس کا کوئی سراغ نہیں تھا۔ میں تقریباً سواگھنٹے سے اکیلے ہی چائے پر چائے پیتا چلا جا رہا تھا۔ تبھی میں نے ایک نوجوان کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

غالباً رمیز کا پیغام لایا ہو گا۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ واہ میاں، بہت جلدی کی۔۔۔ میں نے تلخی سے سوچا۔

’’کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟‘‘ آنے والے نے اجازت مانگی۔

’’آپ کو رمیز نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے اپنا شبہ دور کرنے کی خاطر پوچھا۔

’’نہیں، لیکن وہ آئے گا نہیں۔‘‘ آنے والا اپنی کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

’’مطلب؟‘‘

’’مجھے آپ سے ملنا تھا اور میں کئی سالوں سے منتظر تھا۔ آج جب وہ یہاں آ رہا تھا تو میں اس کی گاڑی کے سامنے آ کھڑا ہوا اور وہ بے چارہ مجھے بچاتے بچاتے فٹ پاتھ پر چڑھ گیا۔۔۔‘‘

’’کیا۔۔۔‘‘ اس کے مطمئن چہرے کو دیکھ کر میں اپنی کرسی سے اچھل پڑا۔ مجھے غصہ آ گیا۔ ’’رمیز کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور آپ۔۔۔‘‘

’’آپ فکر نہ کریں، اسے کچھ نہیں ہوا۔ وہ خیریت سے ہے البتہ اس کی کار کافی۔۔۔‘‘

’’محترم آپ صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے؟‘‘ غصہ دبا کر میں صرف اسی قدر کہہ پایا۔

’’مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘

وہ دھیرے سے مسکرایا۔

میں اسے غور سے دیکھنے لگا۔ ایسا لگتا تو تھا کہ نیلی دھاری دار شرٹ اور جینز کی پینٹ پہنے اس نوجوان کو کہیں دیکھا ہے مگر کہاں، یاد نہیں آ رہا۔

’’علی!‘‘ اس نے مجھے میرے نام سے پکارا۔

میں بری طرح چونکا۔ آس پاس کے لوگ مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔

’’میرا نام ہاشم ہے، یاد آیا؟‘‘

مجھے جیسے جھٹکا لگا۔ ’’ہاشم؟‘‘

’’ہاں وہی ہاشم جو۔۔۔‘‘ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ ’’کیا تم اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ مضطرب لوگوں کی روحیں بھٹک جاتی ہیں۔‘‘

میری ریڑھ کی ہڈی پر برفیلے پانی کا ایک قطرہ گرا اور زبان گنگ ہو گئی۔

’’یقین تو سب کرتے ہیں مگر اعتراف کوئی نہیں کرتا۔‘‘

میری آنکھیں پوری شدت سے کھلی ہوئی تھیں اور میں یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ اس دم بیرا بل لے کر آ گیا۔ اس کے ہاتھ سے بل لے کر میں نے اپنے پاس رکھ لیا اور خود کو نارمل ثابت کرنے کی خاطر ہاشم سے پوچھنے لگا۔

’’آپ چائے پئیں گے یا کچھ اور۔۔۔ میرا خیال ہے ساتھ میں کچھ کلب سینڈوچ ہو جائیں تو۔۔۔‘‘

’’نہیں میں کچھ نہیں کھاتا۔‘‘

بیرے نے حیران ہو کر اس طرف دیکھا۔

میں مسکرا دیا۔ ’’کیوں بھئی پیٹ سے کیسی ناراضگی۔۔۔‘‘ اب میں بیرے کی طرف متوجہ تھا۔

’’ایسا کرو کافی کے ساتھ کچھ سینڈوچز اور چکن رولز لے آؤ۔‘‘

’’کافی ایک ہی کپ ناں؟‘‘

’’ارے نہیں، یہ میرے بہت پرانے دوست ہیں، تکلف سے کام لے رہے ہیں۔۔۔ تم دو کپ ہی لے کر آنا۔‘‘

بیرے نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں پاگل ہو گیا ہوں پھر وہ چلا گیا۔

’’علی تم پوچھو گے نہیں میں یہاں کیوں آیا ہوں۔‘‘

میں آہستہ آہستہ نارمل ہو چکا تھا یا ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’وہ تو میں بعد میں پوچھوں گا مگر مجھے تم صرف اتنا بتادو، تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے، شیو بڑھی ہوئی، کپڑوں پر شکنیں، چہرہ مرجھایا ہوا، سب خیر تو ہے ناں؟‘‘

وہ پہلی بار مسکرایا۔ ’’مجھے تم اس لیے ہمیشہ سے اچھے لگتے تھے، بہت خیال رکھتے ہو تم سب کا، میں اکثر سوچا کرتا تھا مدھو کی شادی اگر مجھ سے نہ ہو سکی تو خیر ہے، تم شاید اس کا مجھ سے بھی زیادہ خیال رکھنے والے شوہر ہو گے۔‘‘

’’شکریہ۔‘‘ میں مسکرایا۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا کیونکہ سب ہی جانتے تھے کہ ہاشم مدیحہ کو کس قدر چاہتا تھا۔ ’’مگر تم اتنا عرصہ کہاں غائب رہے۔‘‘

’’میں۔۔۔‘‘ اس نے جس طرح مجھے دیکھا، میرے پورے جسم میں کانٹے اگ آئے۔ ’’کیا تم نہیں جانتے؟‘‘

میں اپنے ذہن میں اٹھتے سوالوں کے تمام بگولوں سے بھاگنا چاہ رہا تھا۔ میں دھیرے سے انکار میں سر ہلا کر چور نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

وہ ایک ٹک مجھے دیکھے جا رہا تھا۔

’’میں بھٹک رہا تھا۔‘‘ اس نے پرسکون سا ہو کر جواب دیا۔ ’’محبت کی ناکامی نے مجھ سے زمین آسمان تک چھین لیا۔‘‘

’’کیا تم کو ایسا نہیں لگتا کہ شوہر کے سامنے اس کی بیوی کے بارے میں ایسا کہنے سے کتنے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں؟‘‘ ایک طرح سے میں نے اسے تنبیہ کی۔

’’ہوں، لیکن تمہاری دنیا میں، میں تو ان تمام باتوں سے بے نیاز ہو چکا ہوں۔‘‘

شاید وہ جنون کی آخری سیڑھی پر قدم رکھ چکا ہے۔ میں نے آخر کار سوچا۔

’’کیا تم کو یقین ہے علی، اپنے مر جانے کے بعد بھی تم مدھو سے اسی طرح پیار کرتے رہو گے، وہ تم کو اتنی ہی عزیز ہو گی جتنی کہ آج تم اسے رکھتے ہو؟‘‘

میرا جی چاہا کہ اٹھ کر بھاگ جاؤں۔ ایک بے نام سا خوف تھا جو مجھے گھیرے میں لے کر پریشان کر رہا تھا۔

’’معلوم نہیں۔‘‘ میں نے بہت آہستہ سے کہا۔ میرا خیال تھا اس نے نہیں سنا ہو گا۔

’’مجھے معلوم ہے، تم اس کو یاد تو کرو گے مگر اسے بتانے کبھی اس کے پاس نہیں آ سکو گے۔ تم میری طرح بے چین تھوڑی ہو۔ تمہارے اندر ناکامی کے سانپ پھن پھیلا کے ڈسنے کو تیار نہیں ہیں۔ تم جس کو چاہتے ہو، اپنا بنا لیتے ہو۔

یاد ہے ناں تم کو، ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک جانتا تھا کہ ہاشم رضا، مدیحہ نواز کو کتنا چاہتا ہے اور خود مدیحہ بھی باخبر تھی لیکن پھر تم نے اس کی آنکھوں میں سپنے بھر دیے۔‘‘

وہ بہت دکھی ہو رہا تھا۔

میں اندر ہی اندر افسردہ سا ہو رہا تھا۔ آج پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ محبت میں ناکامی کیا ہوتی ہے۔ مجھے مدیحہ بہت پیاری تھی اور ہے اور شاید میں آج کے بعد اس کی اس لیے بھی اور قدر کرنے لگوں گا کہ اس نے میری زندگی میں شامل ہو کر مجھے ایسی اذیت ناک زندگی سے بچا لیا جیسی کہ ہاشم گزار رہا تھا اور شاید اسی جذبے نے مجھے مجبور کیا کہ میں ہاشم کی بات سنوں۔

بیرا ہماری خاموشی کے بیچ کافی اور سینڈوچز رکھ گیا۔ کافی کا دوسرا کپ میز کے عین وسط میں تھا۔ جسے میں نے اس کے سامنے رکھ دیا۔

’’میں نہیں پیتا۔‘‘

اس نے مجھے کچھ کہنے ہی نہیں دیا۔

ہال کے سبھی افراد مجھے کن انکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔

’’ہاشم جو ہوا سو ہوا، حالات سے سمجھوتہ کر لو۔ زندگی تو خدا کا تحفہ ہوتی ہے، صرف ایک بار ملتی ہے، گویا نایاب تحفہ! اسے ضائع کرو، بھول جاؤ اسے۔‘‘

’’بھول جاؤں اسے۔۔۔‘‘ اس نے استہزائیہ سا دھرایا۔ ’’یہ ممکن ہے؟ بھولنا ممکن ہے؟‘‘ اس نے پھر کہا۔ ’’کاش یہ تحفہ نایاب مجھے ایک بار اور ملے، تب میں اسے تم سے چھین بھی لوں لیکن ایسا ممکن ہی نہیں۔‘‘ اس نے مایوسی کے عالم میں کہا۔

’’ہاشم! اتنی بڑی دنیا میں صرف ایک مدھو تو نہیں ہے ناں، اس سے زیادہ پیاری بھی لڑکیاں ہوں گی۔‘‘

’’یہ تم سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ اس سے زیادہ پیاری لڑکیاں ہوں گی مگر وہ مدھو نہیں ہوں گی۔‘‘

میں لاجواب ہو گیا۔

میری نگاہوں میں مدھو پوری شان کے ساتھ مسکرا رہی تھی۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ، سیاہ بالوں کے ہالے میں دمکتا چہرہ، ہنستی تو گالوں پر بھنور پڑنے لگتے۔ آج بھی دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود وہ نزاکتوں سے بھرپور تھی۔ اگر کسی بات پر اسے غصہ آ جاتا تو چہرے کا رنگ اور بھی حسین لگنے لگتا، بار بار ہونٹ بھینچتی تو گالوں کے بھنور اور گہرے ہو جاتے۔

مجھے وہ غصے میں بہت حسین لگتی تھی۔ کبھی کبھی تو میں جان بوجھ کر اسے چھیڑتا۔ ’’مدھو کافی دنوں سے تم ناراض نہیں ہوئیں؟ یار کسی بات پر غصہ تو کرو۔‘‘

وہ بالوں کو جھٹک کر منہ بگاڑ کر مجھے دیکھتی۔

حالانکہ وہ جانتی تھی کہ میں یہ بات جان بوجھ کر کہتا ہوں لیکن وہ بگڑ جاتی۔

’’تم ناشکرے ہو، جانتے ہو جو میاں بیوی آپس میں لڑتے ہیں، ان کے بچے کیسے ہوتے ہیں؟ مسز کمال یاد ہیں ناں، اور وہ عرفان صاحب۔۔۔‘‘

’’ہاں ہاں سب یاد ہے۔ مسز کمال کا چودہ سال کا لڑکا گھر کے ماحول سے گھبرا کر بھاگ گیا اور عرفان صاحب کی بیٹی ہسٹریا کی مریضہ ہو گئی اور مسز نوید کے گھر۔۔۔‘‘

’’علی اب تم مذاق کرنا شروع کر دو۔‘‘ وہ پھر چہرہ بگاڑنے لگتی اور  میں۔۔۔

’’ہاشم تم سچے ہو، بھلا مدھو جیسی لڑکیاں کہاں ملتی ہیں۔‘‘

’’یوں تو میری زندگی کچھ ایسی مختلف بھی نہیں ہے، کئی لوگ اس طرح کی آگ میں جل رہے ہوں گے مگر جانے کیوں، مجھے ایسا لگتا تھا، جیسا میں کم نصیب ہوں، کوئی اور نہ ہو گا۔‘‘

تھوڑی دیر توقف کے بعد اچانک اس نے مجھے مخاطب کر کے کچھ کہنا چاہا۔ ’’تمہارا کیا خیال ہے، کم نصیب لوگ یونہی بھٹکتے نہیں رہتے دنیا میں؟‘‘

’’تم کافی لو۔‘‘ میں اس کی باتیں عدم دلچسپی سے سن رہا تھا۔

’’میں ان ساری چیزوں اور ہر طرح کی بھوک سے آزاد ہوں، تم سمجھ نہیں رہے علی!‘‘ وہ کچھ دیر کو رکا۔ ’’کیا میں تم کو اپنی داستان سنا سکتا ہوں؟‘‘

اس نے اجازت طلب نگاہ مجھ پر ڈالی۔

’’در اصل میری بے قراری کے لیے یہ ضروری ہے۔‘‘

’’کیا تمہارا کوئی ہمدرد، کوئی دوست، ماں باپ، بہن بھائی نہیں؟‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔

’’نہیں!‘‘

’’تمہیں شادی کر کے ایک نارمل زندگی کی طرف آ جانا چاہیے تھا۔ دیکھو ناں، اگر ایسا ہوتا تو یوں تم تنہا مصیبت بھری زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔‘‘

اس نے ایک لمبی سی آہ بھری۔ ’’مجھ سے میری زندگی نے صرف چھینا ہی چھینا ہے۔‘‘

اس کی آنکھوں میں خطرناک حد تک سکوت اور زردی تھی۔

شاید وہ بیمار ہے۔۔۔ میں نے سوچا اور اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اب میں دل سے چاہتا تھا کہ اس کی ہر بات سنوں اور ہر ممکن اس کی مدد کروں۔

’’میں بہت چھوٹا سا تھا جب میرے والد ایک بہت اونچی بلڈنگ سے گر کر انتقال کر گئے تھے، کہتے ہیں ان کو کسی نے انتقاماً دھکا دیا تھا لیکن کس نے؟ یہ آج تک بھی معمہ ہے۔ میری ماں ایک معمولی سی پڑھی لکھی عورت تھیں۔ انہوں نے اسکول میں آیا کی جاب کر لی اور شام کو شاید ایک دو سوٹ سی لیتی ہوں گی، معلوم نہیں، بہرحال انہوں نے دن رات محنت کر کے مجھے اس قابل کیا کہ اس یونیورسٹی کی شکل دیکھ سکا۔ مگر یہ میری بد نصیبی تھی کہ وہ اچانک کار کے حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔ اس وقت میں کالج میں تھا اور جب یونیورسٹی میں آیا تو۔۔۔ ہوتا یہ ہے علی کہ انسان کی بدنصیبی بھیس بدل بدل کر آتی ہے۔ اس بار کم نصیبی مدیحہ کے روپ میں آئی تھی۔‘‘

حالانکہ میں اس کی طرف بغور دیکھ رہا تھا پھر بھی میں نے دیکھا کہ میرے اس انہماک پر ساتھ والی میز پر بیٹھا بچہ میری طرف اشارے کر کر کے ہنس رہا تھا۔

اس نے جب مدیحہ کا نام لیا میں اور زیادہ چوکنا ہو گیا۔ ’’میری محبت میں کمی نہیں تھی البتہ میں اظہار نہیں کر سکا۔ ہمت کی کمی تھی ناں اور آج بھی ہے اسی لیے تو ساری باتیں کہنے میں اس کے پاس نہیں، تمہارے پاس آیا ہوں۔‘‘

’’ہوں، اچھا کیا۔‘‘ میں نے ہنکارا بھرا۔ ’’ویسے تم جانتے ہی کہاں تھے کہ ہم کہاں رہتے ہیں۔‘‘

’’اس کا علم ہے مجھ کو۔‘‘

’’کیا واقعی؟‘‘ میں حیران ہو رہا تھا۔ ’’کیا پیچھا کرتے رہتے ہو تم میرا؟‘‘

’’یونیورسٹی میں سب لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے۔ میرے اندر مختلف قسم کی محرومیاں تھیں جو احساس کمتری کا روپ دھارے ہوئے تھیں۔ میں ساری ساری رات پلاننگ میں گزار دیتا اور صبح وہی ہوتا جو ہو رہا ہوتا تھا۔ یہ دیکھو۔۔۔‘‘

اس نے اپنی میلے رنگ کی لائنوں والی شرٹ کی فرنٹ پاکٹ سے ایک منہ بند کلی نکالی۔

گلاب کی کلی کو دیکھ کر میں ہکلا سا گیا۔ ’’یہ کلی۔۔۔ تم رکھا کرتے تھے اس کی کرسی پر؟‘‘

’’یہ اور اس طرح کی سینکڑوں کلیاں بھی میری زبان نہ بن سکیں۔‘‘ وہ بہت سنجیدہ تھا۔ ’’علی! ناراض نہ ہونا۔ میں تمہاری زندگی میں دخل دینے تو آیا نہیں ہوں۔ بس تم یہ مدیحہ کو دے دینا۔ ایک بار تو وہ یہ سچائی جان کر اس کلی کو تھامے گی ناں کہ یہ میں رکھا کرتا تھا۔‘‘

اس نے ہاتھ بڑھایا اور کلی، بے حد خوب صورت کلی۔۔۔ میز پر رکھ دی۔

’’علی! تم کو یاد ہے، وہ گھڑی جب میں سڑک پار کرتے ہوئے، کھلکھلا کے ہنستی ہوئی مدیحہ کو مڑ کر دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ آ رہی تھی کہ اچانک بس آ گئی اور میں۔۔۔

اس وقت بھی میری جیب میں یہ کلی تھی اور شاید میں سو سال تک بھی اگر مدیحہ تک نہ پہنچ پاتا تو یہ میرے پاس اسی طرح رہتی۔ اس روز مدیحہ جلدی جلدی کلاس میں آ گئی تھی۔ میں اسے کرسی پر رکھ نہ سکا۔

بدنصیب تو میں ازل سے ہوں، یہ راز میرے ساتھ ہی رہ گیا۔ تمہارا کیا خیال ہے علی، اگر کوئی راز انسان کے ساتھ ہی دفن ہو جائے تو دنیا کے لوگ اس سے ناواقف ہی رہ جاتے ہیں؟ شاید نہیں، مجھے ہی دیکھ لو۔۔۔ اور اتفاق دیکھو، میں یا میرے والدین طبعی موت نہ مرسکے۔ میں بھی ان کی طرح حادثے کا شکار ہو گیا۔‘‘

اس نے مجھے حیرت اور پریشانی کے عالم میں وہیں چھوڑا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

’’تمہارا شکریہ علی! تم نے مجھے برسوں پرانے عذاب سے نکال لیا ہے اور ہاں، یہ کلی تم مدیحہ کو دے دینا اگر وہ اسے بالوں میں سجالے یا سنگھار میز کے کنارے رکھے گلدان میں لگا دے تو اس کی مہربانی ہو گی۔‘‘

میں وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ دفعتاً مجھے دھیان آیا کیوں نہ اسے گھر آنے کی دعوت ہی دے دوں۔ میں فوراً ہی باہر لپکا، بیرا میرے پیچھے پیچھے آیا۔ اس کو اپنے بل کی ضرورت تھی لیکن۔۔۔

باہر دور دور تک کوئی نہ تھا۔

میں نے بل دیا، میز پر سے کلی اٹھائی اور عجیب سی کیفیت میں گھر پہنچا۔

کبھی سوچتا، سب خواب تھا لیکن ڈیش بورڈ پر رکھی ادھ کھلی کلی کہتی، نہیں سب ہوش کا کمال ہے۔

وہ کہہ رہا تھا کہ اپنے والدین کی طرح میں بھی حادثے کا شکار ہوا۔ ہو سکتا ہے وہ مرا نہ صرف شکار ہوا ہو۔۔۔

لیکن شکار کا بھی تو یہی مطلب ہوتا ہے اور ویسے بھی مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، لیکن۔۔۔ نہیں، مجھے یقین نہیں آ رہا۔ یوں بھی مدیحہ اور میرے درمیان کبھی ہاشم کا ذکر ہی نہیں ہوا۔ ہاشم اسے چاہتا تھا اور بس۔۔۔ کئی لڑکے، لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں لیکن شادی تو ہر ایک سے نہیں ہو سکتی ناں!

گیٹ ہمیشہ کی طرح ملازم امین نے ہی کھولا۔ گاڑی بند کر کے کلی ہاتھ میں لیے میں اندر چلا آیا۔

مدیحہ چھوٹے بیٹے منیب کو نہلا کر اب اس کے بال بنا رہی تھی۔ میری آہٹ پا کر مسکرائی۔

’’السلام علیکم پاپا۔‘‘ منیب نے کہا۔

’’کیسے ہو بیٹا؟‘‘

’’ٹھیک۔‘‘ وہ کہہ کر باہر نکل گیا۔

’’بہت دیر کر دی آپ نے، کیا رمیز کی طرف چلے گئے تھے؟‘‘ اس نے یونہی پوچھا۔

یک بیک مجھے ہاشم کی بات یاد آ گئی۔ ’’کیا ہوا رمیز کو؟‘‘

’’کیا؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’آپ کو نہیں معلوم، ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ان کے گھر سے فون آیا تھا، کہہ رہے تھے کہ رمیز آپ سے ملنے کے لیے نکلے لیکن راستے میں ایک شخص کو بچاتے ہوئے گاڑی کنٹرول سے باہر ہو گئی۔ معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ البتہ گاڑی بالکل تباہ ہو گئی ہے۔‘‘

میں نے سر پکڑ لیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

’’کچھ نہیں، مجھے پانی پلا دو۔‘‘

وہ جلدی سے پانی لینے چلی گئی۔ کلی میں نے احتیاط سے اپنی شرٹ کی پاکٹ میں رکھ لی۔

مدیحہ جلدی سے پانی لے آئی۔ پانی پی کر میں نے خود میں تھوڑا حوصلہ محسوس کیا۔

’’کیا بات ہے، طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟ رمیز ٹھیک ہو جائیں گے، ممکن ہے کل تک ہاسپیٹل سے گھر شفٹ ہو جائیں۔ آپ ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں لیکن اِتنی دیر رہے کہاں؟‘‘ اس نے گلاس میرے ہاتھ سے پکڑ کر ٹیبل پر رکھ دیا۔

’’در اصل ہاشم مجھ سے ملنے آیا تھا۔ میں رمیز کا انتظار کر رہا تھا، اسی نے مجھے رمیز کے حادثے کے بارے میں بتایا تھا۔ میں تم سے اس لیے انجان بن کر پوچھ رہا تھا کہ ہاشم سچ کہہ رہا تھا یا پھر۔۔۔ تم کو یاد ہے ناں اپنا کلاس فیلو؟‘‘

’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ ہاشم! اس کو تو مرے ہوئے بھی آٹھ سال ہو چکے ہیں۔‘‘

’’ارے نہیں۔‘‘ میں ہنس دیا۔ ’’میں بھی یہی سمجھتا رہا لیکن آج اسے اپنے سامنے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ وہ زندہ ہے۔‘‘

میں نے کہا تو لیکن مجھے اپنی آواز کہیں دور کنوئیں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ گویا میں اپنی ہی تردید کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کیا کروں، میں اس سے مل بھی تو چکا تھا۔

’’علی! میرا یقین کریں۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہے ناں وہ حادثہ۔۔۔ بے شک آپ سینئر تھے اور ماسٹرز کر چکے تھے۔ یونیورسٹی کم آیا کرتے تھے لیکن یہ خبر تو اخباروں کی سرخی بنتی رہی ہے اور تو اور، وہ بس ڈرائیور بھی نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو گی، وہ کوئی اور ہاشم ہو گا۔‘‘ وہ کچھ گھبرا رہی تھی۔

’’نہیں! دونوں ایک ہی ہاشم تھے مدھو۔‘‘

میرے کانوں میں اس کی باتیں گونجنے لگیں۔

’’کیونکہ بدنصیب روحیں اس طرح بھٹک جاتی ہیں۔ وہ ساری زندگی کا پیاسا ہے تمہاری محبت بھی اس کے لیے ایک پیاس کی طرح ہے۔‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔‘‘

’’تم کو یقین نہیں آ رہا ناں، سچ پوچھو تو اس وقت سے پہلے مجھے بھی یقین نہیں آ رہا تھا بلکہ خوف زدہ بھی تھا لیکن ایک گھنٹہ یا پھر اس سے بھی زائد وقت میں اس سے ہم کلام رہا ہوں۔ نیلی دھاری دار شرٹ اور جینز کی پینٹ پر بہت شکنیں تھیں۔‘‘

’’ہاں، ہاں وہ اکثر یہی ڈریسنگ کرتا تھا۔‘‘ وہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔

میرا خوف رفتہ رفتہ زائل ہو رہا تھا اور برف جیسا ٹھنڈا پانی قطرہ قطرہ میری ریڑھ کی ہڈی کو سنسناتا ہوا، میرے حواس منجمد کیے دے رہا تھا۔

’’تم کو یقین نہیں آ رہا ناں، یہ دیکھو، یہ پھول۔۔۔‘‘

میں نے اپنی فرنٹ پاکٹ سے ادھ کھلا پھول نکالا۔

’’یہ اس نے دیا تھا۔ کہہ رہا تھا جس دن میں اس بھیڑ میں کھو گیا تھا، اس روز مدیحہ جلدی کلاس میں آ گئی تو اسے اس کی کرسی پر رکھ نہیں سکا۔ تب سے یہ میرے پاس اسی طرح سے میری جیب میں رہ گئی اور اگر یہ تم تک نہ پہنچ پائی تو صدیوں تک اسی طرح تر و تازہ رہتی۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘ مدیحہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔ شاید وہ چیخیں مار مار کر رونا چاہتی تھی لیکن خوف نے اس کی آواز بندکر رکھی تھی۔

’’مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جس دن وہ بس سے ٹکرایا تھا، یہ پھول اس کی جیب میں تھا۔ جب وہ ٹکرا کے گرا تو یہی، یا پھر ایسا ہی ادھ کھلا پھول اس کی جیب سے جھانک رہا تھا۔ ہماری کلاس کے سبھی لڑکے اس کے جنازے میں شریک تھے اور آپ جانتے ہیں، عباس نے کیا کیا تھا؟ اس نے وہ پھول، اس کے ساتھ ہی دفنا دیا تھا۔ عباس اس کا اکلوتا دوست تھا، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ ہاشم مجھ سے۔۔۔ لیکن میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے وہ کبھی بھی ایسا نہیں لگا تھا کہ میں۔۔۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں اس کا سوئم بھی ہوا اور چہلم بھی! اب تو آپ کو یقین آ گیا کہ وہ مر چکا ہے۔‘‘

’’ہوں، لیکن یہ پھول اس کی آخری نشانی یا آخری خواہش کی طرح میرے ہاتھ میں ہے۔ اس نے کہا تھا کہ میں یہ تم کو دے دوں۔ تم اسے اپنے بالوں میں۔۔۔‘‘

مگر وہ میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی چیخی۔ ’’یہ دیکھیں!‘‘

میں نے بھی اس طرف دیکھا۔ خون کا ایک قطرہ پھول کے بیچ میں ٹھہرا ہوا تھا۔

’’کوئی بات نہیں، اس کی آخری آرزو۔۔۔ ایک بدنصیب انسان کی آخری آرزو سمجھ کر اسے اپنے بالوں میں سجالو۔‘‘

وہ خوفزدہ ہو کر ایک جھٹکے سے دور ہو گئی۔

’’دیکھو مدیحہ ہماری ڈریسنگ ٹیبل پر تو کوئی گلدان ہے نہیں ورنہ۔۔۔‘‘

’’ہے!‘‘ وہ حلق کے بل چیخی۔ ’’آج صبح ہی میں نے ڈرائنگ روم میں نیا گلدان رکھا اور یہ پرانا اٹھا کر یہاں سجا دیا۔‘‘

وہ رو رہی تھی۔ مجھ سے آ کر لپٹ گئی۔ ’’یہ سب کیا ہو رہا ہے علی؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے مدیحہ۔‘‘

میرے ایک ہاتھ میں پھول تھا اور دوسرے ہاتھ سے میں نے مدیحہ کو تھاما ہوا تھا۔ یوں جیسے دن کا اُجالا رفتہ رفتہ ہر بات سے بے پرواہ ہو کر تمام خوف اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔

’’تم فکر نہ کرو۔ وہ تمہارے پاس کبھی نہیں آئے گا۔۔۔‘‘

میں اسے لیے لیے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آ گیا۔ ’’تم یہ پھول اپنے ہاتھوں سے اس گلدان میں اس طرح سجا دو۔۔۔ گویا اس کی قبر پر رکھ رہی ہو۔‘‘

ادھ کھلا پھول میں نے اس کے کانپتے ہاتھوں میں تھما دیا۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور دوسری نظر اس کی پھول پر تھی۔ شاید اس کا حوصلہ جواب دے رہا تھا۔ میں نے اس کی مدد کی۔

وہ مجھ سے لپٹی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ خوف زدہ تھی، کانپ بھی رہی تھی۔

’’سچ ہے مدھو، ایک تنہا، بدنصیب، جو ان موت کا غم ایسا ہی ہوتا ہے کہ بھولا نہ جائے۔ یقین کرو وہ آٹھ سال پہلے نہیں، آج ہم سے رخصت ہوا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

محور

 

ادھر وہ آئے، ادھر بجھ گئی نگاہ کی لو

کہاں پہ ختم ہوئیں آ کے سرحدیں دل کی

نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے

ہیں آئینے سے بھی بڑھ کر نزاکتیں دل کی

ستارے کا اپنے محور سے ہٹ جانا ہی، بکھر جانا ہے

مجھے اپنے دوست اظہار سے ملاقات کرنے یونیورسٹی جانا تھا۔ وہ وہیں کیمپس میں قیام پذیر تھا اور پچھلے پانچ سالوں سے نوجوان نسل کو جانے کیا سکھا رہا تھا۔ میرا خیال اس کے متعلق ہمیشہ کچھ یونہی سا رہا تھا۔ اب خود ہی سوچیے، جو لڑکا میٹرک سے لے کر ایم اے تک محض سیکنڈ ڈویژن بلکہ درمیان میں ایک ایک دفعہ تھرڈ ڈویژن سے پاس ہوا ہو، وہ بھلا کیا پروفیسری کرے گا۔ یہ بات اور کہ اس کے بارے میں ہمارے ٹیچرز کا خیال بالکل مختلف تھا۔

وہ بہت اچھا اور باریک بین قسم کا طالب علم تھا۔ اکنامکس اس کی انگلیوں پر ناچتی تھی۔ جب اس نے کارل مارکس پہ تھیسس لکھا تھا تو اس کی اندرونی اور بیرونی تمام زندگی بے نقاب ہو کر رہ گئی تھی۔ اس نے مارکس کے وہ وہ بخیے ادھیڑے کہ الا امان الحفیظ، مارکس کی روح تک تڑپ کر رہ گئی ہو گی۔

بہرکیف ایم اے سیکنڈ ڈویژن کے علاوہ بھی اس کی بہت سی خوبیاں تھیں۔ سب سے بڑی تو یہی کہ ’’ڈین‘‘ اس کے سگے ماموں تھے۔

NIPA سے الٹے ہاتھ پہ موڑتے ہوئے میں نے گاڑی یونیورسٹی روڈ پہ ڈال دی۔ میں یہاں بہت کم آیا کرتا تھا۔ در اصل یہ جگہ میرے اندر ایک حزن بھر دیتی ہے۔ ایک کسک۔۔۔ جیسے پھانس تو نکل جائے مگر چبھن رہ جائے۔

بعض درد اتنے شدید ہوتے ہیں کہ ختم ہو جانے پر بھی کئی دن تک اپنے ہونے کا نا معلوم سا احساس دلاتے رہتے ہیں۔

حفضہ اور میں چار سال اکٹھے پڑھے ہیں۔ میں جب بھی ان راستوں سے گزرتا ہوں تو وہ ماضی کی میٹھی یاد کی طرح کسک دینے لگتی ہے اور میں۔۔۔۔ اپنے پورے وجود کے ساتھ بے جان سا ہونے لگتا ہوں۔

وہ اتری شام کی طرح سانولی تھی لیکن اس کی جلد کے اندر بہت سارے جگنو تھے جو ہمیشہ روشنی دیتے رہتے۔ اس کے بال اتنے لچک دار اور چمکیلے تھے کہ میں سوچتا اگر یہ کندھوں تک نہ ہوتے، کمر تک ہوتے تو۔۔۔

جب یہ بات میں اس سے کہتا تو وہ اپنے بالوں کو جھٹک کر کہتی۔ ’’مجھ سے نہیں سنبھلتے۔‘‘

اتنی دبلی مگر سانچے میں ڈھلی، مکمل لڑکی میری نظر سے نہیں گزری تھی۔ جب وہ دور سے آ رہی ہوتی تو کئی بار میرا جی چاہتا اسے خود سے قریب کر لوں۔ بے ساختہ ہی اسے چھونے اور محسوس کرنے کو دل مچلتا مگر۔۔۔

اسے بہت جلدی غصہ آ جاتا تھا اور اس کے غصے کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ کسی اور پر نہیں اترتا۔ بس وہ خود ہی کڑھتی رہتی۔ کئی دنوں بھوکی رہتی اور بیمار ہو جاتی۔

اس وقت بھی وہ چپکے سے میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ میں اس کے بارے میں سوچ رہا تھا اور وہ مسکرا رہی تھی۔

ہمیں ایک دوسرے سے جدا ہوئے سات سال ہو گئے ہیں۔ جانے وہ کہاں ہو گی۔ میں نے اس کا انتظار کیا لیکن بہت زیادہ نہیں۔ پچھلے سال میری شادی ہو گئی۔

میرے حساب سے ہر طبقے کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ غریبی یوں جینے نہیں دیتی، روٹی کا ایک نوالہ قتل تک پر آمادہ کر سکتا ہے۔ سفید پوشی اپنی ذات میں خود ہی ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی، اور امیر۔۔۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آن اور شان کے سہارے اپنے سے کمتروں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔

حفضہ اس طبقے سے تھی لیکن ابھی اس کے اندر ایسی خوبی نہیں آئی تھی۔

میں جب اظہار کے گھر کے سامنے کھڑا بیل بجا رہا تھا، تب میں ذہنی طور پر اس قدر تھک چکا تھا گویا بہت سا کام نمٹا کر آ رہا ہوں۔

میں بھی کیا کروں، مجھے سوچنے کا مرض لاحق ہو چکا تھا۔

اظہار مجھے وقت کی پابندی کے ساتھ آتا دیکھ کر بہت خوش ہوا حالانکہ ہماری یہ میٹنگ طے شدہ تھی اور میں اس کے بلاوے پر ہی آیا تھا لیکن اس کا اس قدر خوش ہونا میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

’’کسی خاص وجہ سے بلایا ہے کیا؟‘‘ میں نے اس کی بیوی آمنہ سے براہ راست پوچھا۔

’’جی۔‘‘ اس نے سنجیدہ سا چہرہ میرے سامنے کر دیا۔

اس کی بیوی میں ایک سو ایک خوبیاں ہوں گی لیکن کم گو اس قدر تھی کہ بندہ بسا اوقات اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا تھا۔

’’یار کوئی اور بھی آنے والا ہے کیا؟‘‘ اس بار میرا رخ اظہار کی طرف تھا۔

’’ہوں، لیکن تم گوروں کے نوکر ہو اس لیے وقت کے پابند بھی ہو۔‘‘ اس نے میری ملٹی نیشنل کمپنی پر چوٹ کی۔ ’’سب تو ایسے نہیں ہوتے۔‘‘

’’کہتے سب ہیں کہ کوئی وقت کا پابند نہیں مگر اس قاعدے کے خلاف پہل بھی نہیں کرتا۔‘‘ میں ہنس دیا۔

تھوڑی دیر بعد بھابی کولڈ ڈرنک لے آئیں اور اظہار میرے ہاتھ میں تازہ اخبار تھما کر ’’ابھی آتا ہوں‘‘ کہہ کر غائب ہو گیا۔

اس کی شادی کو تین سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔ اسی لیے گھر کی فضا سونی اور خاموش تھی۔ اخبار اور کوک سے دل بہلانے کے بعد میں بور ہونے لگا۔

در حقیقت یہ تمام باتیں شاید بے معنی ہوں لیکن میرے لیے نہیں تھیں۔ اس دن جو کچھ بھی ہوا، اس کا دورانیہ بمشکل دو یا پونے دو گھنٹے ہو گا اور ممکن ہے یہ سب کچھ میرے سوا کسی کے لیے اہم بھی نہ ہو مگر میری آنے والی زندگی سنور گئی۔

’’بھائی، اظہار کو کہاں بھیج دیا آپ نے۔‘‘ میں نے بیٹھے بیٹھے آواز لگائی۔

’’نہیں سعدی بھائی، وہ خود گئے ہیں۔‘‘

مجھے ہنسی آ گئی۔

اسی دم بیل بجی۔ میں نے دل ہی دل میں شکریہ ادا کیا کہ اظہار صاحب آ گئے ورنہ اب تو بوریت بھی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔

میں نے جب اپنے طور پر فرض کر لیا کہ اب بھابی صاحبہ دروازہ بند کر کے آنے والے کو اندر لا چکی ہوں گی تب چیخا۔ ’’اظہار آ گیا؟‘‘

’’نہیں، یہ تو میری کزن آئی ہیں، یہ بھی مدعو تھیں۔‘‘

میرا حیران ہونا لازمی تھا۔ مجھے اور بھابی کی کزن کو ساتھ مدعو کرنا چہ معنی۔۔۔ جبکہ وہ جانتا تھا میں ’’شدہ‘‘ ہوں۔

اسی دم بچوں کی آوازیں آئیں۔ گویا آنے والی بھی شدہ ہی نہیں بچوں والی ہے۔

آنے دو اظہار کو، میرا جی چاہا میں اس کا خون پی جاؤں۔

’’السلام علیکم انکل!‘‘ دو پیاری اور خوبصورت قیمتی فراکوں میں ملبوس بچیاں میرے سامنے تھیں۔

’’وعلیکم السلام!‘‘ میں شگفتہ ہو گیا۔

’’آنٹی کہہ رہی تھیں آپ اکیلے بور ہو رہے ہیں۔‘‘

’’ہوں، یہ تو ہے۔‘‘ میں مسکرادیا۔

’’انکل میرا نام انوشا ہے اور اس کا نام پلوشا ہے۔‘‘

بڑی والی نے تعارف کرایا۔

’’کیا آپ بس دو بہنیں ہی ہیں۔‘‘

’’ہوں، ماما کہتی ہیں۔ تم دونوں اتنا لڑتی ہو کہ تیسرے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ انوشا نے باقاعدہ نقل اتاری۔

’’بہت بری بات ہے، اس طرح ماما کی نقل نہیں اتارتے۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ انوشا نے منہ بنایا۔

’’اظہار انکل کہاں ہیں؟‘‘ پلوشا نے مجھ سے پوچھا۔

ابھی میں کوئی جواب دینا ہی چاہتا تھا کہ انوشا جھٹ سے بولی۔ ’’ہمارے لیے کچھ لانے گئے ہوں گے۔‘‘

میں ان غیر معمولی بچیوں کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا۔ ’’آپ دونوں کون سی کلاس میں پڑھتی ہیں؟‘‘

’’میں ٹو میں ہوں اور پلوشا ون میں لیکن ہم یہاں نہیں پڑھتے، ہم امریکا میں ہوتے ہیں۔ دادا کی طبیعت خراب تھی تو انہوں نے بلا لیا۔‘‘

’’آپ کے پاپا کیا کرتے ہیں؟‘‘

اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی، اظہار آ گیا۔

’’یار تم نے اچھا بور کیا مجھے اسی لیے بلایا تھا کہ خود غائب ہو جاؤ؟‘‘

’’نہیں میرے دوست، در اصل مجھے کوئی ہفتہ بھر پہلے خبر ہوئی کہ حفضہ۔۔۔‘‘

دونوں بچیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔

’’جاؤ بیٹا اپنی ماما کے پاس جاؤ۔‘‘ اظہار نے بروقت ان سے کہا۔

کان تو میرے بھی کھڑے ہو گئے تھے۔ جب سے یونیورسٹی لائف ختم ہوئی ہے، اسے دیکھا ہی نہیں۔ جس دن ہمارا رزلٹ آیا تھا تب اس نے مبارک باد کا فون کیا تھا اور بس۔۔۔

میرے سامنے اس کا نازک سراپا گھوم گیا۔

’’حفضہ تمہاری بھابی کی نہ صرف بہت اچھی دوست بلکہ فرسٹ کزن بھی ہے۔‘‘

صد شکر کہ میرے ہاتھ میں اس وقت کچھ نہیں تھا ورنہ۔۔۔ گویا اظہار نے یہ تقریب بہر ملاقات رکھتی تھی۔

میں اسے دیکھنے کے لیے بے چین ہو گیا۔

’’وہ تم سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔‘‘

میرے سینے میں اس سفاکی نے بہت کچھ توڑ دیا۔

’’لیکن پھر بھی میری گزارش پر آ گئی۔‘‘

میری نگاہیں بے ساختہ دروازے کی طرف تھیں۔ ’’یہ بچیاں اسی کی تھیں ناں؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’اسی کی ہو سکتی تھیں، اتنی ذہین اور خوبصورت۔‘‘

تھوڑی دیر بعد اظہار بچیوں کو لے کر باہر چلا گیا۔ بھابی کچن میں تھیں اور حفضہ۔۔۔

میں نے اسے دیکھا اور بس دیکھتا ہی رہ گیا اگر یوں سر راہ میری اس سے ملاقات ہوتی تو شاید میں اسے پہچانتا بھی نہیں۔ وہ ایک بے انتہا خوبصورت، سرو قامت، نازک سی لڑکی کہیں گم ہو چکی تھی۔ ہاں اس کی آواز کا لوچ ابھی باقی تھا۔

’’سعدی۔‘‘ اس نے دھیرے سے پکارا۔

میرے طالب علمی کے دن لوٹ آئے۔ وہ جب بہت پریشان ہوتی تھی تو یونہی پکارتی تھی۔ اس کا لہجہ باتیں کرتا تھا۔ اس کا مطلب تھا وہ پریشان ہے حالانکہ اس کا لباس اور مہکتی فرانسیسی خوشبو اس کی خوش حالی کی داستان کہہ رہی تھی اور اس کی بچیاں۔۔۔ سب کچھ تو ٹھیک تھا۔

’’میں کہہ رہی تھی اظہار سے کہ مجھے نہیں ملنا ہے تم سے لیکن۔۔۔‘‘ اس نے پہلو بدلا۔ ’’وہ کہنے لگا تم ملنا چاہتے ہو۔‘‘

’’میں۔‘‘ میں چونکا۔ ’’ہاں ہاں، ایک بار اظہار سے کہہ دیا تھا۔‘‘ میں صاف اظہار کا جھوٹ چھپا رہا تھا لیکن میں دیکھ رہا تھا حفضہ کو اس کی پروا نہیں تھی۔ وہ اپنے آپ میں مست لگ رہی تھی۔

’’تم بالکل بدل گئی ہو۔‘‘ میں نے بہت عام سی بات کی حالانکہ عورتوں کے پاس اس کا بہت سیدھا سادہ جواب ہوتا ہے۔ شادی کو اتنے سارے سال ہو گئے، بچے ہوئے، موٹے نہ ہوتے تو کیا کرتے لیکن حفضہ نے میری توقع کے برخلاف عجیب جواب دیا۔

’’مجھے یہی اچھا لگتا ہے۔‘‘

ماضی کی ویٹ کونشس لڑکی نے حال میں مجھے حیران کر دیا۔ وہ ساڑھے پانچ فٹ کی لڑکی جس کا وزن بہ مشکل چون پچپن کلو ہوا کرتا تھا آج اس سے ڈبل ہو کر کہہ رہی تھی کہ مجھے یہی اچھا لگتا ہے؟

’’تمہاری ساری عقل تو اس موٹاپے میں چھپ گئی ہے، تم کیا سمجھتی ہو، اتنی موٹی عورتیں شوہروں کو اچھی نہیں لگتیں۔‘‘

’’میرا شوہر مجھ سے محبت کرتا ہی نہیں پھر اس کی خاطر ڈائٹ کنٹرول کرنے اور خود پر جبر کرنے کی مجھے کیا ضرورت ہے۔‘‘

ہمیشہ خود کو اذیت دینے والی حفضہ نے اتنے رسان سے یہ بات کی کہ میں صوفے پر اچھل پڑا۔

’’تم، یعنی حفضہ کریم خوبصورتی اور ذہانت کا شاہکار۔۔۔ تمہیں کوئی ناپسند بھی کر سکتا ہے؟‘‘

’’ہر شخص آئینے کو اپنے حساب سے، اپنے رخ سے دیکھتا ہے۔ یہ تم کہہ رہے ہو جو میرے ہر اٹھتے قدم سے واقف تھے کہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ میں تم سے اسی لیے نہیں ملنا چاہتی تھی سعدی۔ میں سوچتی تھی، کوئی تو ہو جو مجھے چاہتا رہے مگر آج کے بعد شاید تم بھی مجھے نہ چاہ سکو۔ تمہاری یاد میں تو میں ایک خوش شکل، اسمارٹ لڑکی تھی۔ تم اسی حوالے سے مجھے یاد کرتے اور چاہتے رہے۔ کامران کے پاس تو میرا کوئی حوالہ ہی نہیں۔ وہ ایسی کتاب ہے جس کا انتساب کسی اور کے نام ہوتا ہے اور شعر کسی اور کے لیے کہے جاتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو میں بھی اس کے لیے ایسی ہوں۔ میری زندگی کے ہر ورق پر تمہارے نام کے شعر ہیں سعدی لیکن خوش رنگ سرورق کامران نوید کا ہے۔‘‘

’’تم بہت زیادہ نہیں بولنے لگی ہو؟‘‘

’ہوں،  کامران بھی یہی کہتا ہے لیکن اس کے پاس سننے کے لیے وقت ہی نہیں۔ ہماری جیسی شادیوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے سعدی۔‘‘

’’کیا مطلب ہم جیسی شادیوں کا۔۔۔؟‘‘

’’ہماری شادی بزرگوں کی ہٹ اور جائیداد کی تقسیم کے نتیجے میں ہوئی۔ وہ یعنی کامران کسی اور کو چاہتا تھا۔ نہ اس کی کسی نے سنی، نہ میری۔۔۔‘‘

’’مظلوم تو پھر وہ بھی ہوا ناں۔‘‘ میں نے لاشعوری طور پر کامران کی طرف داری کی۔ میرے احساس میں میرے اپنے زخم تازہ ہو گئے۔

وہ طنزیہ ہنسی۔ ’’اس نے چھپ کر اس لڑکی سے شادی کر لی ہے۔‘‘

میں ڈھے سا گیا۔ ’’حفضہ، یہ سب تمہارے ساتھ ہوا؟‘‘

’’ہو رہا ہے۔۔۔ اس لیے کہ اب وہ امریکا میں ہے۔ اس کے دو بیٹے بھی ہیں۔ میرا اور کامران کا رشتہ اب محض کاغذی ہے۔ وہ اپنی بچیوں کی خاطر ملنے آتا ہے۔ ان کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ ہر مہینے مجھے ہزار ڈالر مل جاتے ہیں۔ گھر ذاتی ہے۔ خرچ کی مجھے فکر نہیں تو پھر میں بیٹھ بیٹھ کر کھاؤں نہیں تو کیا کروں؟ موٹی نہ ہوں تو کیا کروں؟ بتاؤ سعدی۔۔۔ کیا تم نے اپنی بیوی کو بتایا کہ تم شادی سے پہلے مجھے چاہتے رہے ہو؟ یقیناً نہیں اور اگر واقعی نہیں بتایا تو خدارا کبھی بتانا بھی نہیں۔ وہ بھی میری طرح اپنے محور سے ہٹ جائے گی۔ جب گردش ایب نارمل ہو جائے تو سب کچھ ایب نارمل ہو جاتا ہے۔ میری طرح۔۔۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

میں دم بخود بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔

’’بتاؤ سعدی، میں کس لیے سجوں سنوروں، مجھے چاہنے والا کون ہے، کون ہے اس پردیس میں جو میرے لیے ہو؟‘‘

میں اس کے بے بسی پہ کٹ گیا۔ کاش میں اسے سینے سے لگا کر کہہ سکتا۔ ’’میں تھا اور آج بھی ہوں۔‘‘ لیکن شاید میں اسے کوئی تسلی نہیں دے سکتا تھا۔ میرا اور اس کا رشتہ ہی کیا تھا۔ وہ کسی اور کی امانت تھی اور میرے دن رات بھی کسی کے امین۔

وہ میرا ماضی تھی۔ ماضی کو تھپک تھپک کر سلانا تو آسان تھا لیکن گلے لگانا بہت مشکل۔

’’جو ہوا سو ہوا، اب خود کو سنبھالو۔‘‘

اس نے سر اُٹھایا تو اس کا آئی لائنر پھیل چکا تھا۔

’’چلو منہ ہاتھ دھولو۔‘‘

’’تمہاری بیوی کیسی ہے؟ اظہار بتا رہا تھا تم نے ایک سال پہلے ہی شادی کی ہے۔‘‘

’ہوں،  تمہارا انتظار تھا مجھے۔‘‘ میں بے خیالی میں کہہ گیا۔ ’’اچھی ہے، مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد انوشا اور پلوشا بھی آ گئیں۔ ہم نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانے کے دوران میں حفضہ زیادہ تر چپ ہی رہی۔ کھانا بھی واجبی سا کھایا۔

’’تمہاری صحت تو بتا رہی ہے کہ تم کوئی چیز چھوڑتی نہ ہو گی۔ اس وقت کیا کھانا اچھا نہیں لگ رہا؟‘‘ اظہار حسب عادت کفن پھاڑ کر بولا۔

’’نہیں اظہار، کھانا تو بہت عمدہ ہے۔ مجھے معلوم ہے آمنہ بہت زبردست کوکنگ کرتی ہے۔‘‘ وہ مسکرائی لیکن صرف ہونٹوں سے، آنکھوں سے نہیں۔

پھر ہم جدا ہو گئے۔ جدائی کا یہ لمحہ تو پہلے بھی ہماری زندگی میں آیا تھا مگر اس جدائی میں ایک کسک تھی۔ میٹھی کسک۔۔۔ ایک آس، ایک امید مگر اب ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم دوبارہ کبھی نہ ملنے کے لیے جدا ہو رہے ہیں۔

’’اپنا خیال رکھنا۔‘‘ میں نے حفضہ سے کہا۔

اس کی آنکھ کے سارے سوالوں کا مفہوم میں اچھی طرح سمجھتا تھا۔

’’اپنی بیٹیوں کے لیے۔‘‘ میں نے اس کے بند لبوں پر مچلتے سوال کا جواب دیا۔

وہ دھیرے سے مسکرادی۔

’’آج تم سے ملی ہوں تو لگتا ہے سینے کا سارا بوجھ اتر گیا۔ شاید زندگی اسی کو کہتے ہیں۔ ملنا، جدا ہونا، پھر ملنا اور پھر۔۔۔ میں نے تم سے کچھ بھی نہ پوچھا۔ تمہارے ماہ و سال، رات دن، شاید اس لیے کہ میں جانتی ہوں، تم کسی کو دکھ نہیں دے سکتے۔ کسی کی خاطر، کسی کو بھی نہیں۔‘‘

اور اس کی چمکدار بیش قیمت گاڑی فراٹے بھرتی، سیاہ سڑک کا سینہ چیرتی میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ پھر میں بھی اجازت لے کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔

سارا راستہ میں عجیب سی کیفیت کا شکار رہا۔ میرا سینہ اتنا بھاری اور وجود اس قدر بوجھل تھا کہ جی چاہا ایک بار رک کر خوب رولوں۔ جب تک وہ ملی نہ تھی، اس کی یاد ایک نشہ تھی اور آج ایک بوجھ بن گئی۔

میرا گھر یونیورسٹی روڈ سے کوئی پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر تھا اور میں ایک لمحے کا سرا بھی ہاتھ میں نہ لے سکا۔

گیٹ میری بیوی صدف نے کھولا۔

’’امی کہاں ہیں؟‘‘ میں نے اندر آتے آتے پوچھا۔

’’سورہی ہیں۔‘‘

ایک لمحے کے ہزارویں حصہ میں میرے دماغ نے عجیب سی بات سوچی۔ جب ہماری شادی ہوئی تو صدف بہت دبلی تھی لیکن آج، اس وقت۔۔۔

میں بری طرح چونکا۔ اس کی قمیص شانوں اور کمر سے تنگ ہو رہی تھی۔

’’موٹی کیوں ہو رہی ہو تم؟‘‘

’’میں۔۔۔‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’ہاں ہاں تم، کیا کوئی پریشانی ہے؟‘‘

’’کوئی پریشانی سے بھی موٹا ہوتا ہے کیا؟‘‘ یہ بات شاید اس کے لیے قطعی نئی تھی۔

’’ہاں ہاں، ہوتے ہیں۔ کہیں تم یہ تو محسوس نہیں کرتیں کہ میں تم کو نظرانداز کرتا ہوں؟‘‘

’’کیا بات ہے سعدی، آج آپ عجیب عجیب سی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘

ہم اپنے کمرے میں کھڑے تھے۔ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا بیڈ پر بیٹھ گیا۔

’’صدف، مجھے موٹی عورتیں اچھی نہیں لگتیں۔ ڈائٹ کنٹرول کرو یا ایکسرسائز کرو، میں تم کو ویسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں جیسا پہلی بار دیکھا تھا، سمجھیں۔‘‘

’’جی۔‘‘ اس نے اطمینان سے کہا۔

’’صدف!‘‘ ایک لمحے کے توقف کے بعد میں نے اسے پھر متوجہ کیا۔ ’’ادھر، میرے پاس آؤ۔‘‘

وہ آ کر میرے قریب بیٹھ گئی۔ میرا رخ اس کی طرف تھا۔

’’صدف تمہارا کیا خیال ہے، ہم مطمئن اور بھرپور زندگی گزار رہے ہیں یا نہیں؟ تم یہ تو محسوس نہیں کرتیں کہ میں تمہیں پسند نہیں کرتا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ اس کے لیے میری ساری باتیں انوکھی تھیں۔

’’اور تم صدف، مجھے چاہتی ہو نا؟ بحالت مجبوری ہی سہی۔‘‘

’’یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، میں تو آپ کے سوا کسی کا تصور ہی نہیں کر سکتی۔‘‘ وہ ایک پڑھی لکھی صاف گو لڑکی تھی۔

میں نے اسے محبوبیت سے دیکھا۔

اس کے چہرے پر ہزاروں شمعیں روشن تھیں۔ مسکراتے ہوئے اس کے گالوں پر بھنور پڑنے لگتے ہیں۔ شاید میں یہ سب پہلی بار محسوس کر رہا تھا۔

میں نے بے اختیار اسے خود سے قریب کر لیا۔ ’’ہمیں ایک دوسرے کے سوا کچھ سوچنا بھی نہیں ہے اس لیے کہ ہم ایک دوسرے کے محور ہیں اور جب محور کے گرد گردشیں ایب نارمل ہو جائیں تو سب کچھ ایب نارمل ہو جاتا ہے۔ میں تمہارا محور ہوں ناں؟‘‘

اس نے سر اقرار میں ہلایا۔

’’اور تم۔۔۔‘‘ میں نے اپنا چہرہ اس کے بالوں میں چھپا لیا کہ کہیں وہ زبان کے اقرار اور نگاہ کے کسی احساس کے فرق میں نہ پڑ جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

خواب لمحے

 

آج اُس کی جیب میں جو کچھ بھی تھا، وہ یقیناً سال بھر کی محنت اور مشقّت کے بعد بھی پس انداز نہیں کر سکتا تھا۔ مگر آج اس وقت سے چند لمحے پہلے بغیر محنت، بغیر کسی کے احسان جتائے اور بغیر غریبی کا طعنہ سُنے ہی اس کو وہ کچھ مل گیا تھا جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔ ہوا یہ تھا کہ آج مِل سے آتے ہوئے راستے میں جب وہ دوسری بس بدلنے سے پہلے اپنے مخصوص بس اسٹاپ پر اترا تو وہیں بس کے انتظار میں بھاگتے دوڑتے لوگوں اور بازار میں چمکتی چیزوں کو حسرت سے دیکھتے اور خدا سے شکوہ کرتے ہوئے اچانک اُس کی نظر کچھ قدم اُدھر سیاہ رنگ کے مردانہ پرس جا پڑی۔

اُس وقت نعیم کی عجیب سی حالت تھی۔ ایک سوچ بڑھ کر پرس اٹھا لینے پر مجبور کر رہی تھی اور دوسری روک رہی تھی۔

’اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ میں یہ پرس اٹھا لیتا ہوں۔ جس کا بھی ہو گا، اُسے دے دوں گا لیکن مجھے اس کا کیسے پتا چلے گا؟ نعیم کے اٹھتے قدم پھر رُک گئے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس بدقسمت شخص کا شناختی کارڈ پرس میں موجود ہو۔ میں پتا دیکھ کر پرس اُسے دے آؤں گا۔ اگر کارڈ نہ ہوا تو پرس پولیس اسٹیشن پہنچا دوں گا۔ کم از کم اس سے یہ تو ہو گا کہ اُس شخص کو اس کی رقم اور کاغذات مل جائیں گے ورنہ خدا جانے یہ کس کے ہاتھ لگ جائے۔،

نعیم نے اپنے اندر کے کچھ لمحے پہلے والے شیطان کا سَر کچلتے ہوئے جھُک کر پرس اٹھا لیا۔ یہ کیا؟ اس نے چپکے سے سُرخ اور ہرے نوٹوں کو علیٰحدہ علیٰحدہ گِنا۔ پندرہ سو کی خطیر رقم اس کے دل کی دھڑکن بڑھا رہی تھی۔ اس نے پرس کو پھر ٹٹولا۔ لال اور ہرے بے جان نوٹ خاموش رہ کر اپنی توقیر اور اہمیّت کا احساس دلا رہے تھے۔ ’اب مجھے کیا کرنا چاہیے، نعیم نے سوچا پھر پرس بغل میں دبا کر تیزی کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔ کسی نے اُسے پرس اٹھاتے نہیں دیکھا تھا۔

مصروف اور خودغرض لوگوں کی شاہراہ پر اُسے بس یہی ایک فائدہ نظر آیا کہ کسی نے اس کی طرف توجّہ نہیں دی تھی مگر وہ اپنے اندر کے شریف آدمی کا کیا کرتا؟ اب اُسے اس بات کا بھی یقین ہوتا جا رہا تھا کہ ہر انسان میں واقعی دو طرح کی قوتیں ہوتی ہیں بدی کی اور نیکی کی۔ وہ اپنے اندر کی دونوں قوتوں سے لڑ رہا تھا مگر نیکی زیادہ اچھی طرح مقابلہ نہ کر سکی۔ خالی پیٹ، پیوند لگے کپڑے، جگہ جگہ سے رِستی چھت والا گھر، نیکی ایسی کمزور چھت کے نیچے کب تک سرچھپائے کھڑی رہتی۔

نعیم نے روپے پرس سے نکال کر بنیان کی اندرونی خفیہ جیب میں رکھ دیے اور پرس کُرتے کی جیب میں ڈال لیا۔ تب ایک لمحے کو اس نے سوچا کہ اس کی بیوی جو بنیان میں ہمیشہ ایک خفیہ جیب ضرور لگا دیا کرتی تھی، اس کا اصل مصرف کیا ہے۔ عام دنوں میں تو اُس کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔

اگلے اسٹاپ پر بس آنے تک اُس نے کافی غور و فکر کر لیا تھا کہ اُسے ان روپوں سے کیا کرنا ہے۔ اس کے دونوں لڑکے اب نئے جوتے خرید سکیں گے۔ اس کی بیٹی روز اسکول کے لیے نئے بیگ کا شور مچاتی تھی اور وہ پرنٹیڈ سوٹ جسے بازار میں لٹکا دیکھ کر ہمیشہ اُسے اپنی چہیتی بیوی راشدہ کا خیال آتا تھا۔ اب اس سوٹ کو دیکھ کر وہ محض ٹھنڈی آہ نہیں بھرے گا بلکہ خرید لے گا اور پھر گھر جا کر جب راشدہ کو دکھائے گا۔۔۔ نعیم نے چشمِ تصوّر سے راشدہ کے سانولے چہرے پر خوشیوں کے ان گنت چراغ جلتے ہوئے دیکھے اور اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اتر آئی۔ راشدہ کے چہرے پر روشنی کی پھوٹتی ہوئی کرنیں اُسے بہت اندر تک جگمگا گئیں۔

’آہ،  نعیم اچانک بہت دُکھی سا ہو گیا۔ وہ ہمیشہ راشدہ سے کہا کرتا تھا۔ راشدہ! میں تمہیں دولت کا کوئی سُکھ نہیں دے سکا۔

’’کوئی بات نہیں، دیکھنا جب میرے بچّے بڑے ہو جائیں گے تو میں کتنی امیر ہو جاؤں گی، راشدہ اس کو بہلانے لگتی۔‘‘ کوئی دولت ہی سے تھوڑی امیر ہوتا ہے۔ آدمی تو خدا سے صبر کی دولت پا کر امیر، بلکہ امیر ترین ہو جاتا ہے۔‘‘

خدا جانے غربت نے اس کے نظریۂ امارت کو اتنا مختلف کیسے کر دیا تھا لیکن جو کچھ بھی ہو، وہ راشدہ سے بہت خوش تھا۔ ایسی بیوی بقول نعیم کسی نیکی کا بدلہ تھی جو اس نے نہ جانے کب کی تھی اور وہ نیکی بھی کوئی معمولی نہیں ہو گی جس کے بدلے میں اُسے عمر بھر کا سُکھ ملا تھا۔ واقعی کوئی عظیم ہی ہو گی۔

آج راشدہ کو خوش کرنے کا کتنا نادر موقع تھا۔ کچھ سوچ کر نعیم بس سے اُتر گیا اور اب نعیم کے قدم آپ ہی آپ مارکیٹ کی طرف اُٹھ رہے تھے۔ خُفیہ جیب میں رکھے ہوئے چھوٹے سے خزانے نے اس کے سارے جسم میں گرمی بھر دی تھی۔ اتنی کہ اس کا ماتھا پسینے پسینے اور اس کا گلا خشک ہو چکا تھا۔ شاید جیبوں میں اتنے سارے پیسے رکھ کر چلنے والے سبھی لوگوں کا یہی حال ہوتا ہو! اس بات کا صحیح طور پر اُسے تجربہ نہیں تھا۔ مگر اب تجربے سے گزرتے ہوئے وہ کافی لُطف لے رہا تھا۔ اگر ہمیشہ ہی اس کی جیب میں اتنے پیسے رہیں تو زندگی کتنی حسین ہو جائے۔ وہ اپنی سوچ پر خود ہی ہنسنے لگا۔ اُسے تو یوں لگ رہا تھا جیسے ہر طرف سُرخ اور سبز رنگوں کے پھولوں کی بارش ہو رہی ہو۔

کپڑوں کی دُکان کے پاس آ کر وہ زیرِ لب مسکرایا اور یونہی اس نے ایک ہینگر سے لٹکا سُوٹ اتار کر دیکھا۔ اس کا انداز اِس بات کا غماز لگتا تھا جیسے دولت کی پری آج ہی اس پر مہربان ہوئی ہے۔

’’نہیں بھئی، اس کا رنگ تو بالکل اچھا نہیں ہے۔‘‘ اس نے بے حد حسین آتشی گلابی رنگ کو مسترد کر دیا۔

’’اس کا کپڑا کچھ گھٹیا لگتا ہے۔‘‘

’’اس کا پرنٹ اچھا نہیں۔‘‘

یوں کپڑوں کا ڈھیر تھا جو اس کے سامنے دُکان دار نے لگا دیا۔ آدھے گھنٹے کی مسلسل کوشش اور فکر کے بعد بالآخر اس نے وہی سوٹ پسند کیا جسے دیکھ کر وہ ٹھنڈی آہیں بھر ا کرتا تھا۔

’’یہ کتنے کا ہے؟‘‘ ایک شان سے اس نے پوچھا۔

’’ایک سو پچاس کا۔‘‘

’’بس۔‘‘ نعیم نے دل میں سوچا اور مسکرایا۔ فی الحال اس کے نزدیک راشدہ کی خوشی کے لیے بغیر محنت کے کمائی ہوئی دولت کی وقعت نہیں تھی۔ اس نے خیال ہی خیال میں سارا حساب دُہرایا۔ لمحے کے ایک چوتھائی حصّے میں اس نے سوچ لیا، ان سارے کاموں سے فارغ ہو کر وہ باقی پیسے بینک میں جمع کرا دے گا۔ کبھی کوئی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ابھی تک وہی حال ہے۔ کبھی اتنا پیسا بچا ہی نہیں کہ بینک میں جمع کراتا۔ بچّوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے کچھ جمع کر لیتا۔

اس نے اپنی بنیان کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا مگر یہ کیا؟ ہاتھ ڈالتے ہی اُسے احساس ہوا کہ اس کی انگلیاں اس کے پیٹ سے ٹکرا گئی ہیں۔ چند لمحوں پہلے تک اُس کی جو پیشانی پیسوں کی تپش سے پسینے پسینے ہو رہی تھی، اب احساسِ ندامت سے عرق آلود ہونے لگی۔

دُکھ کی ایک سرد لہر نعیم کی ریڑھ کی ہڈی کو سُن کرتی ہوئی دماغ تک پہنچ گئی۔ اُسے خاموش کھڑا دیکھ کر دُکاندار بہت برہم ہوا مگر اس نے اتنا کرم کیا کہ نعیم کو پاگل سمجھ کر اس زور سے دھکا دیا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔

اب نعیم پیدل ہی گھر کی طرف چلنے لگا۔ کالے ناگ جیسے پرس کو اس نے کُرتے کی جیب سے نکال کر پٹخ دیا۔ کم مائے گی کا احساس اس کو رُلائے دے رہا تھا۔ دل شدّت سے پھٹا جا رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اگر راشدہ بنیان میں خفیہ جیبیں لگانے کی بجائے جا بجا پھٹی ہوئی بنیان میں پیوند لگا دیا کرتی تو یقیناً آج وہ رقم دوبارہ گر کر اس کی غربت کے احساس کو دوچند نہ کرتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے کیا خبر تھی

 

آج دو باتوں کا ایک ساتھ منکشف ہونا میرے لیے پریشانی کی بات ہے۔۔ بہت سی باتیں جن کو میں عام سا سمجھتا تھا یکم دم خاص ہو گئیں۔ زرینہ میرے چچا کی بیٹی مجھ سے بے پناہ محبت کرتی تھی یہ بات نہ حیران کن تھی نہ پریشانی کی لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس بات کا ادراک مجھے اب ہوا جب ہوبہو وہی باتیں میں منات سے کر رہا تھا۔۔۔ میری آنکھیں اس قدر بھیگی ہوئی تھیں کہ خود سے نظریں نہیں ملا رہا تھا۔۔۔ اور وہ کہہ رہی تھی ’’مجھے فوک میوزک اچھا لگتا ہے کیونکہ ارسل بہت شوق سے سنتا ہے‘‘ ۔ کبھی کہتی اسے سویرے جاگنا اچھا لگتا ہے ارسل کا پسندیدہ لینڈ اسکیپ ہے یہ جب پہاڑوں کے پیچھے بڑا سا نارنجی گولا گولا سر نکال رہا ہوتا ہے ساری دنیا رنگین ہو جاتی ہے۔۔۔

ایک روز اس نے کہا ’’جب ارسل لوٹے گا وہ ضرور اس سے ملوائے گی۔۔۔‘‘ مجھے ارسل کے ذکر سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی مگر وہ بہانے بنا بنا کے اس کا ذکر نکال لیتی۔۔۔۔

میری اور منات کی ملاقات کو زیادہ دن نہیں ہوئے تھے ہم دونوں ریسرچ ورک کے لیے اپنے اپنے ملکوں سے دور ایک تیسرے ملک میں تھے۔

ایک بار زری نے مجھ سے کہا ’’مجھے اڈے سے لے کر گھر تک کا کچا راستہ بڑا اچھا لگتا ہے۔۔۔ ’’میں اس وقت ابھی شہر سے گھر آیا ہی تھا برا سا منہ بنا کر بولا۔۔۔ ’’تم جیسے فرسودہ حال والے مٹی سے محبت کے سوا کیا کر سکتے ہیں‘‘ ۔۔۔ وہ ہنس دی۔ مجھے آج احساس ہو رہا ہے اس کا انداز کیسا دلنشیں تھا گالوں کے بھنور کسی کو بھی ڈبو سکتے تھے مگر میں اسے دیکھتا ہی کب تھا۔ بولی ’’تم جن رستوں سے گزرتے ہو وہاں روشنی ہو جاتی ہے‘‘ ۔

میں اسے پاگل قرار دے کر جس روز ان کچے راستوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ رہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ ماسی زلیخاں کے گھر کی لال اینٹوں والی دیوار سے ٹیک لگا کے اس نے بڑی آس سے مجھے دیکھا۔۔۔ ’’میں تیرا انتظار کروں گی۔۔۔‘‘ وہ بولی۔

میں کس قدر سنگدل تھا۔۔۔ مسواک کے پھوک کو ہوا میں اُچھال کے لاپروائی سے بولا ’’انتظار تو اُن کا کیا جاتا ہے جن کے لوٹ آنے کی اُمید ہو۔۔۔ میں نہیں لوٹوں گا۔۔۔ مجھے بہت آگے بڑھنا ہے، نام کمانا ہے۔۔۔ اتنا انتظار نہ ہو سکے گا تم سے۔۔۔‘‘ وہ بولی۔۔۔ ’’آزما لو۔۔۔‘‘

میں ان جھنجوڑوں میں پڑنا ہی نہیں چاہتا تھاسو گیا تو پلٹ کر کبھی پیچھے رہ جانے والوں کو یاد ہی نہ کیا۔۔۔ اور اب وہ کیسے یاد آ رہی تھی۔۔۔

لندن کا موسم بہت خوبصورت تھا۔ میں ناروے میں رہ رہا تھا اور منات فرانس میں مگر ان دنوں ہم دونوں لندن میں تھے اس کے چہرے پہ ہر وقت حزن رہتا شاید محبت میں ایسا ہی ہوتا ہو۔۔۔ اس نے واپس جانا تھا اپنے ارسل کے پاس اور مجھے آنے والا دن بہت پریشان رکھتا۔۔۔ سوچتا اگر ارسل آ گیا تو۔۔۔؟

ارسل فلسطینی تھا۔ اسے اپنے وطن اور وطن میں رہنے والوں سے عشق تھا۔ منات کہتی اس سے بھی زیادہ جتنی وہ ارسل سے کرتی ہے۔۔۔۔ اسے فلسطینی شاعر محمود سے دیوانگی کی حد تک محبت تھی۔۔۔ وہ محمود درویش کی شاعری میں پنہاں انسانیت کے گہرے شعور کی بات کرتا تھا۔۔۔ وہ خشک۔۔۔ بنجر زمین۔۔۔ اُجڑے باغ کی کہانیاں سناتا۔۔۔ اپنے وطن کی ویرانی کی بات کرتے ہوئے رو دیتا۔۔۔ منات کی باتوں میں میرا دل اٹک جاتا۔۔۔ میں اس کے ارسل سے اپنا موازنہ کرتا تو۔۔۔ مجھے اپنا آپ کہیں دکھائی نہ دیتا۔۔۔ کتنی کھوکھلی زندگی بسر کر رہا ہوں میں۔۔۔ وطن سے دور ہوں اور اس دوری کی کسک کو محسوس بھی نہیں کرتا۔۔۔۔ مجھے منات سے اس کی گیلی آنکھوں سے عشق ہو گیا میرے اندر میرے وطن کی محبت نے انگڑائی لی۔۔۔ میں نے کہا تم میرے وطن چلو گی میرے ساتھ۔۔۔ اس نے اس حیرت سے مجھے دیکھا جیسے میں نے انہونی کہہ دی ہو۔۔مجھے یاد ہے وہ لندن میں ہماری آخری شام تھی اس روز سورج نہیں نکلا تھا موسم بہت سرد نہیں تھا۔۔۔ میں اور منات آخری بار ٹیمز کو دیکھنے آئے تھے۔ بہت سے سیاح دنیا سے بے نیاز منظر کیمرے میں مقید کر رہے تھے۔ کئی جوڑے ایک دوسرے کے کندھے پہ سرٹکائے اپنی دنیا الگ بسائے چلے جا رہے تھے۔۔۔ میرا بہت دل چاہا منات کا ہاتھ تھام لوں۔۔۔ اس پہ ایک بوسہ دے کر محبت کی مہر ثبت کروں مگر میں کچھ بھی نہ کر سکا۔۔۔ اس دن ارسل کی سالگرہ تھی اس نے کئی تحائف لیے۔۔۔ وہ میرے ساتھ چلتے چلتے اپنی محبت میں گم تھی۔۔ بے تکان بولے جا رہی تھی۔۔۔ ’’مجھے سمجھ نہیں آتا یہ سٹوڈنٹ کیسے ہیں۔۔۔ اپنی زندگی کا مقصد کیوں بھول جاتے ہیں۔۔۔ ارسل کو دیکھو ہم دونوں گھنٹوں ساتھ گھومتے ہیں شاید لوگ سمجھتے ہوں ہم صرف عشقیہ باتیں ہی کرتے ہوں گے مگر یقین کرو ہم صرف محبت کے احساس کے ساتھ جی رہے ہیں۔۔۔ وہ جانتا ہے مجھے اس سے محبت ہے اور مجھے معلوم ہے کہ۔۔۔ وہ مجھے فیض کے شعر سناتا ہے۔۔۔ فلسطین کے قصے جب وہ آزاد تھا اور بہت خوشحال تھا۔۔۔ اسی نے بتایا مزاحمتی شاعری کیسے وجود میں آتی ہے وہ بچے جن کی بچپن سے کبھی آشنائی نہ ہوئی ہو۔۔۔ وہ گاؤں وہ زمین جس سے نسبت ہو صفحہ ہستی سے مٹ جائے تو۔۔۔ پناہ گزینی کے روح فرسا تجربے برہم نوجوانوں کو جنم دیتے ہیں۔۔۔ منات چلی گئی۔۔۔ میرے دل میں رفاقت کا خونخوار بھیڑیا کسی بھی وقت اَن دیکھے رقیب کو مار دینے کو تیار بیٹھتا تھا۔۔۔ چلتے چلتے منات نے فون نمبر بھی لیا تھا اور خط لکھنے کے لیے پوسٹل ایڈریس بھی مگر ایک ماہ ہونے تک نہ اس کا فون آیا نہ ہی خط۔۔۔ میرا حال اتنا دگرگوں ہو چکا تھا کہ سانس بھی لیتا تو آہ جیسی لگ رہی تھی اس کی جدائی نے مجھے ذہنی طور پر اور بھی زیادہ اس کے قریب کر دیا تھا حالانکہ میں اچھی طرح جانتا تھا محمود درویش کی شاعری سنانے والا ارسل اس کے دل کے ہر خانے پر قابض ہے۔۔۔ اوراق الزیتون کے پیراگراف اس کی رگ رگ میں شامل ہیں جو ارسل اس کو سنایا کرتا ہے۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ پھر بھی ایک لاحاصل کی محبت میں پور پور ڈوبا میں ماہیِ بے آب جیسا تھا۔۔۔

اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا رات کی بارش کے بعد صبح خنکی ہو چکی تھی میں کتنی ہی دیر اپنے سٹڈی روم میں محمود کو پڑھتا رہا اور اوراق الزیتون کے صفحے پلٹتا رہا۔ منات کو بھولنے کی ناکام آرزو میں مبتلا ہو کر اسے اور زیادہ محسوس کرتا رہا کہ صبح سات بجے کال بیل نے مجھے جگا دیا۔۔۔ دروازہ کھولا تو منات مجسم میرے سامنے تھی۔ مجھے خود پہ اختیار نہ رہا اسے بے ساختہ گلے سے لگا کے رو دیا۔ اس قدر رویا کہ مجھے خود بھی احساس نہ ہوا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔ وہ خود کچھ دیر بعد مجھ سے الگ ہوئی اور ٹشو سے آنکھیں اور سرخ ناک کو سلیقے سے صاف کر کے متانت سے بولی۔۔۔ ’’مطلب تمہیں بھی ارسل کی شہادت کی خبر مل گئی؟

میرے اوسان خطا ہو گئے وہ میرے بلبلا کے رونے کو ارسل کی۔۔۔ اوہ میرے خدا یہ کیا ہو گیا۔

’’میں پہنچی تو اس کی شہادت کو ہفتہ گزر چکا تھا۔۔۔ مجھے پتہ نہ چلے اسی کی خواہش تھی اسے میرا کتنا خیال تھا۔۔۔۔۔۔ ’’وہ سسکی‘‘ اس کے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تم مجھے کس قدر چاہتے ہو وہ باتیں جو تم کرتے ہو ایسی ہی اب میں کرنے لگی ہوں۔۔۔

ایسی ہی زری کیا کرتی تھی۔۔۔ مطلب ہم سمجھتے ہیں ہم بول رہے ہیں مگر ہمارے اندر جب محبت جنم لیتی ہے تو پھر وہی بولتی ہے اسی لیے ہر زبان میں محبت ایک سی رہتی ہے ایک سی باتیں کرتی ہے۔ وہ بتا رہی تھی اس کا زیادہ وقت ارسل کی قبر پہ گزرتا ہے مجھے پہلی بار اس پہ غصہ آیا ایسا بھی کیا عشق میں نے کہہ دیا ’’تم زندہ ہو زندہ انسانوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں ’’اس نے آہ بھری اور بولی‘‘ رہتی ہوں۔۔۔ ارسل کی ماں کے ساتھ ارسل کے جانے کے بعد ان کو میری بہت ضرورت ہے۔

میں نے سر پیٹ لیا مگر وہ مجھے دیکھ ہی کہاں رہی تھی۔۔۔

’’لیکن اب میں تمہیں جانے نہیں دوں گا تم نہیں جانتی تمہارے جانے کے بعد میں نے تمہیں کتنا یاد کیا۔۔۔

ارسل بھی یہی کہا کرتا تھا محبت اس لمحے میں نہیں ہوتی یہ اس وقت ہوتی ہے جب وہ وصال لمحہ گزر چکا ہوتا ہے۔۔۔۔

’’سنو ہم ارسل کی امی کو یہیں لے آئیں گے‘‘ میں نے بہت آس سے کہا۔ وہ بے ساختہ بولی ’’اور ارسل کی آخری آرام گاہ؟‘‘

میرے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ کچھ لمحے خاموشی کا راج رہا۔ وہ اٹھنے لگی تو میری امید بھی دم توڑ گئی۔۔۔ ’’میں انتظار کروں گا‘‘

مجھے اس دن اپنے برسوں پرانے کہے جانے کی سنگدلی کا پتہ وہ بولی۔۔۔ ’’انتظار تو ان کا کیا جاتا ہے جن کے لوٹ آنے کی اُمید ہو۔۔۔ میں نہیں آؤں گی۔۔۔‘‘

اور وہ چلی گئی۔ جانے کیسی محبت تھی اس کی۔۔۔ فلسطین کی زمین میں ہی شاید وفا ہے۔۔۔ اب منات وہیں رہتی ہے۔۔۔ مگر سانس مجھ میں ہی لیتی ہے۔۔۔

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل