FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

 

 

اسلم عمادی

(ارباب ادب کی نظر میں)

 

 

مرتب

ڈاکٹر جاوید انور

 

 

تقریظ

 

 

اسلم عمادی کی تخلیقات نظم و نثر کا مطالعہ کرنے سے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ گردش کرتا ہے کہ اتنی اعلیٰ شاعری کرنے والا شاعر جس کو صنف نظم و غزل پر یکساں قدرت حاصل ہے، اور ایسا ناقد جس کے تنقیدی مضامین کو دیکھتے ہوئے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ نظم و نثر میں اس قسم کی مجموعی صلاحیت جو اسلم عمادی کو سلیم احمد اور خلیل الرحمن اعظمی جیسے فن کاروں کی صف میں شامل کرتی ہے، اردو دنیا میں اس قسم کی پذیرائی سے محروم کیوں رہی جیسی خلیل الرحمن اعظمی اور سلیم احمد وغیرہ کے حصے میں آئی۔؟

غور کریں تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اسلم عمادی عرصۂ دراز تک ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر رہے۔ لیکن ملک سے باہر تو اور بھی بہت سے لوگ رہے جیسے شعرا میں عادل منصوری اور ساقی فاروقی وغیرہ اور نثری ادب میں بھی ایسے کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ ان تخلیق کاروں کی طرح اسلم عمادی بھی جہاں بھی رہے، ہمیشہ نشر و اشاعت سے منسلک رہے۔ ان کے مضامین اور شاعری اردو ادب کے موقر رسائل و جرائد میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔

غور کرنے پر مندرجہ بالا سوال کا ایک واحد جواب جو ذہن میں آتا ہے، وہ یہ کہ دوسرے کئی ادیب و شاعر جن پر کسی سبب سے اہل ادب نے ان کی وہ پذیرائی نہیں کی جن کے وہ بجا طور مستحق تھے، ان میں سے ایک اسلم عمادی بھی ہیں۔ ان کی تحاریر نثرو نظم کی جانب توجہ کی گئی جس کے ضامن ان پر لکھے گئے مضامین ہیں جو پوری اردو دنیا کے موقر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو وہ مقام و مرتبہ نہیں ملا جو خلیل الرحمن اعظمی اور سلیم احمد وغیرہ کے حصے میں آیا۔

مندرجہ بالا نقاط کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اسلم عمادی کے فن اور شخصیت پر یہ کتاب مرتب کرنے کا ارادہ کیا اور ان سے رابطہ کیا۔ میری خوش قسمتی کہ انہوں نے نہ صرف اس کی اجازت دی بلکہ اپنے کوائف بھی عطا کئے۔ ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ امید ہے یہ کتاب اسلم عمادی کے اردو ادب میں ان کے مقام کے تعین میں اہم کردار ادا کرے گی۔

ڈاکٹر جاوید انور

وارانسی

 

 

اسلم عمادی کا فن

 

 

اسلم عمادی کی شعری جہات

 

 

ڈاکٹر جاوید انور

 

اسلم عمادی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ہم سے اپنے مختلف رنگوں کی بدولت سنجیدگی سے پڑھنے، غور کرنے اور ادبی تعین قدر کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں ایک رنگ سماجی ہے، تو دوسرا اقتصادی، تیسرا نفسیاتی وغیرہ اور ہر پہلو شدید اندرونی کشش اور ذہنی تصادم کا آئینہ دار ہے۔  اسی لیے ان کی شاعری بالخصوص غزلیہ شاعری میں پردے کے پیچھے پر دہ اور معنی کی ایک تہہ کے پس پشت دوسری تہہ نمودار ہوتی معلوم ہوتی ہے۔  چند اشعار ؎

ہم اس کو سوالوں سے پریشان کریں گے

وہ ہم کو جوابوں سے پشیمان کرے گا

جس چہرے پہ تھی برف سی بے جذبہ خموشی

پگھلا تو خیالات کا محشر نظر آیا

رواں تھا شوق کا دریا، ہمیں لگا جامد

تھمی تھی موجِ توجہ اسے رواں جانا

جو ملا، وہ نئے انداز سے حیران ملا

جتنے پر درد مناظر تھے، تماشے نکلے

تیز رو تھے تو کسی سمت کوئی راہ نہ تھی

تھک کے جب ٹوٹ گرے ہیں تو یہ رستے نکلے

اسلم عمادی نے اپنی غزلوں میں زیادہ تر زندگی کی ان ٹیڑھی لکیروں کو اپنا موضوع بنایا ہے جن میں زندگی کے ہونے کی دلیل، ان کا ازل اور ابد سے رشتہ، زندگی اور مابعد کے درمیان حیرتوں کی دنیاؤں کا سراغ اور ان سے الجھنے کا رجحان شامل ہے۔  ان موضوعات کو برتنے کا سبب ان کا علم و فن اور اعلی ذہن ہے۔  علم و فن اور اعلی ذہن کی خصوصیت کے ساتھ اپنے سماج میں زندگی بسر کرنا جہاں تہذیب کے سوتے خشک ہوتے جا رہے ہوں اور علم و فن کا حصول زندگی کی ادنیٰ چیزوں کی حصول یابی تک محدود رہ جانا کس قدر اذیت کا باعث ہے، یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔  اسلم عمادی نے بھی اس اذیت کو صبر و تحمل کی اس منزل پر برداشت کیا ہے جہاں دل کا اضطراب تخلیقی سطح پر بیجا جذباتی صورت اختیار نہیں کر پاتا ؎

کہاں پہ کم ہوا ہر سمت اس کو کھوجتے ہیں

وہ ایک شعلۂ وحشت، مرا دماغ جو تھا

خوب آزادی ملی، اپنی زباں سے بھی گئے

اب تو اپنے شہر میں بھی ہم زباں کوئی نہیں

الف سے نام تیرا، تیرے نام سے میں الف

الٰہی میرا ہر ایک درد اس دعا میں ہے

وہ کوئی تھا جو ابھی اٹھ کے درمیاں سے گیا

حساب کیجے تو ہر ایک اپنی جا میں ہے

کوئی اب شہر میں کھل کر نہ دیکھے

نظر ڈالے مگر منظر نہ دیکھے

اسلم عمادی نے اپنے شعروں میں جمالیاتی پیکر ابھارے ہیں، ان کا دارو مدار محض خیال پرستی پر نہیں ہے۔ ان کی شاعری کا زیادہ تر مواد خیالات کے بجائے شعری تجربات اور اس کے اظہارات کی نوعیتوں سے ماخوذ ہے۔ اسلم عمادیؔ اپنے زمانے، اپنے ماحول اور حالات کی حد میں زمانے کے ماحول اور حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔  اس سلسلے میں وہ جدید سماجی، مادی، تاریخی تصورات اور جدید فلسفیانہ تصورات کے مابین امتیاز قائم رکھتے ہوئے بھی ان کے آپسی ربط اور توازن کو نظر انداز نہیں کیا ہے بلکہ ایسا طریقہ کار اپناتے ہیں کہ فلسفہ شعر میں تحلیل ہو کر شعر کے اہم جز کی صورت میں اپنی شناخت قائم کرتا ہے ؎

درندگی سے زمانہ نگل کیا ہم کو

عجب کہ اپنی ذہانت پہ ناز تھا ہم کو

وہ جو بلند آواز میں نعرے مار گیا

وہ اپنے اندر سے خائف لگتا ہے

ہمیں تو قریۂ جاں میں کوئی سمجھ نہ سکا

ہم اجنبی سے رہے اور فائدے میں رہے

نیا محکمہ جنوں کا بنائے گی دنیا

پھنسیں گے قیس بھی فکر معاش میں اک دن

اسلم عمادی کے یہاں زمانوں کے اظہار میں علم و افکار کے شعبوں کے تعلق سے جن تبدیلیوں کا ذکر ملتا ہے، وہ جہاں زمانے کے فطری بہاؤ کا ایک حصہ ہیں، وہیں ان کے جیسے اضطرابی ذہنوں کے ان علمی افکار کے شعبوں سے کبھی باہم اور کبھی متضاد صورت میں وابستگی کا اشاریہ ہیں۔  ان کی تخلیقی تعمیرات میں جذباتی کشمکش اور داخلی ہیجان کا بھی دخل ہے۔  ان اشعار میں موضوعات کے اعتبار سے مرکزیت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔  کہیں وہ معاشرے کی مرکزیت کو ایک سماجی قدر کی صورت میں تسلیم کرتے ہیں اور کہیں ان کی ذہنی حساسیت، انفرادیت اور ذات کے پیچیدہ گوشوں اور الجھاؤں کو مرکزی حیثیت عطا کرتی ہے۔

اک ٹوٹتی آواز رواں موج ہوا میں

اک اجنبی سرگوشی ابھرتی ہوئی ڈر کے

کل کے مجہول امکاں کی تائید میں

رات بھر ہم ستاروں سے لڑتے رہے

کیسے جذبات تھے، الفاظ جنھیں چھو نہ سکے

تیرتے رہ گئے بے سمت سفینے کی طرح

راہ ڈھونڈا کیے ایک راہ کو کھونے کے لیے

خواب دیکھا کیے اک خواب کو جینے کی طرح

اسلم عمادی نے اپنی غزلوں میں خواہ مخواہ یا زبر دستی کسی موضوع کو برتنے کی کوشش نہیں کی ہے۔  بلکہ ان کے یہاں جذبات کی جو شدت محسوس ہوتی ہے، وہ حقیقت کی ترجمانی کے پیش نظر سماجی ناہمواریوں سے نبرد آزمائی کی ایک صورت ہے۔  اس طرح بعض جگہوں پر ان کی فطرت منظر نگاری جس میں کہ مرکزی موضوع پیوست ہوتا ہے، کے ذریعہ بہترین تخلیقی سانچے مرتب کرتی ہے۔  جن میں نئی قدروں کے مثبت پہلوؤں کی جستجو کا ترجمان موجود ہے۔ اسلم عمادی جب اپنی آگہی کی وسیع مدوں میں تعقل کے وسائل کو شامل کر کے زندگی کے اسرار و رموز پر نظر ڈالتے ہیں، تب ان کے یہاں جو فن پارہ وجود میں آتا ہے، وہ سجاد ظہیر کے اس نظریے کے عین مطابق ہے۔

’’ایک کامیاب فن کار حقائق اور واقعات، مختلف انسانی رشتوں کے عمل کی کیفیتوں سماجی زندگی ہے پیدا ہونے والے بہترین تصورات اور نظریوں کا مشاہدہ کر کے اور سمجھ کر اپنے دل و دماغ میں جذب کرتا ہے۔  یہ سچائیاں اس کے جذبات کا اس قدر حصہ بن جاتی ہیں جتنا کہ اس کے ذہن کا پھر اپنے جوش، جذبے، تخیل، بصیرت اور فن مہارت کو کام میں لا کر وہ اپنے فن پارے کو تخلیق کرتا ہے۔  (’’روشنائی‘‘ از: سجاد ظہیر، ص:  ۳۲۷)

سنبھال رکھا تھا میں نے خود اپنی سمتوں کو

سمندر آج میرے ساحلوں یہ ٹھہرا تھا

راہ میں ایک قلندر جیسا مست ملنگ سا شخص

ملا تھا مجھ سے اسلمؔ پوچھ رہا تھا کیوں تم لیئے ہو دنیا کو

اسلمؔ ہوا میں زہر ہے، لیکن کریں تو کیا؟

لینی ہے سانس یعنی کہ جینا ہمیں عزیز

ہم اپنی زیست میں ہرگز نہیں پناہ طلب

کہ ایک شب ہے، سو وہ بھی گزارنے کے لیے

اسلم عمادی نے جہاں تعقل کے تازہ مظاہر کو شعری لباس سے آراستہ کیا ہے، وہیں ماضی کی ایسی محسوسات پر بھی نظر رکھی ہے جہاں شعر میں لفظ کے توسط سے کسی واحد مرکزی معنی کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔  انھوں نے الفاظ و اصوات کو تخلیقی عمل کے رویوں کے طور پر شعری تجربوں کو شعری منطق کے ساتھ برتا ہے۔  لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے سماجی مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی شاعری کے توسط سے زندگی بسر کرنے کا کوئی ہدایت نامہ پیش کیا ہے بلکہ زندگی کے مختلف الجہات راستوں میں پھیلے ہوئے سفید و سیاہ کے متعلق اپنا تجربہ اور اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔  اس سلسلے میں جہاں وہ اپنی ارضیت سے منہ نہیں موڑتے وہیں خلا سے اوپر اور آگے مابعد الطبیعات کے سلسلوں سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کرتے۔  اسلم عمادی نے ادب اور زندگی کے گہرے تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے فن اور سماج کی قدرو قیمت کو بخوبی اجاگر کیا ہے ؎

میری خاموشی کو اظہار نہ جان

بے زبانی کو اشارہ مت کہہ

صحراؤں میں بھی اٹھتی ہیں لہریں گمان کی

اسلمؔ سمندروں کی طرف ہم نہ جائیں گے

بھٹک رہا ہوں، مگر اس طرح تن تنہا

کہ جو بھی دیکھے گا، وہ رہنا ہی جانے گا

پھر اٹھے شوق طلب سے طوفاں

پھر وہی بے سر و سامانی ہو

آئینہ چیرہ فروشی تک ہے

ایک منظر ہے قضا سے یہ بھی

اسلم عمادی کے یہاں اعتدال، سلجھاؤ، ژرف نگاہی اور دور بینی کے عناصر اس نہج پر ملتے ہیں جہاں عقیدے اور عمل کا تضاد نظر نہیں آتا۔  مضمون اور طرز نگارش کے سلسلے میں لفظ معنی کی حدت کو صحیح طور پر سمجھنا ہی بڑی بات ہے۔  اسلم عمادی فن کی کلی حیثیت اور موضوع و اسلوب بیان کی جدت اور ناگزیر رابطہ کا واضح شعور رکھتے ہیں۔  اس لیے ان کے یہاں موضوع کے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ اسلوب بھی بدلتا رہتا ہے۔  اس طرح ایک معینہ زاویہ نظر کی موجودگی میں بھی سماجی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کی بہ یک وقت بازگشت ان کے ذاتی تجربے میں پیوست ہو کر تخلیقی رویے کی صورت میں اشعار میں نمودار ہوتی ہے:

سب کی سننی ہے مگر کچھ نہیں کہنا ہے مجھے

امتحاں اب کے مری بے جگری کا بھی ہے

سکھ میں آنکھیں نم نہ ہوں اور ہونٹ بھی سوکھے نہ ہوں

اس قدر سنجیدگی اب ہم میں آنی چاہیئے

ایسے زمیں چٹخ گئی صدیوں کی جیسے پیاس

اسلم یہ دکھ کے بیج کا ذوق نمو نہ ہو

اک بوڑھی ہے، دیوار کے سائے میں پڑی ہے

دیوار کرے گی، تو یہ نالے نہ رہیں گے

ہنس دوں تو زمانہ مجھے مسرور ہی سمجھے

وہ لذت غم ہے کہ میں رو بھی نہیں سکتا

اسلم عمادی اپنے اشعار میں شعری زبان کے تحفظ کے تعلق سے خیال و ا لفاظ کے سانچے اس طور خلق کرتے ہیں کہ ایک جمالیاتی وحدت کا احساس ہوتا ہے۔  ان کے بعض اشعار سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے خود کی ذات کو معاشرے کا مرکز تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی معاشرے کی مرکزیت کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ ذات اور معاشرے کو زندگی کی ایک قدر تصور کرتے ہیں۔  اس طرح ان کے فن پر انفرادی وجود یا سماجی وجود کے طبعی تسلط کا نشان نہیں ملتا۔  اور حسیات کی تبدیلی کے ساتھ شعری تجربے کی نوعیت اور صیغۂ اظہار میں نمایاں فرق آ جاتا ہے۔

کوئی نہیں تو رونا سسکنا ہے بے سبب

آہٹ ملے تو پھر سے یونہی چیخنے لگو!

سارے اشجار ہوا کو پی کر

ہو گئے زہر سے گویا سر سب

حرف کے سنگ میں پوشیدہ ہے معنی کا شرر

کچھ اسی سنگ تراشی سے ہے کہنا ہم کو

میں آتش گیر مٹی کا نمونہ!

جسے موسم بہ مشکل سہ رہے ہیں

یہی محسوس اب ہوتا ہے اسلمؔ

ہم اپنے قتل کے عادی رہے ہیں

اسلم عمادی نے زندگی کو سمجھنے کے لیے اس کی جن تہوں کو سمجھنے اور اپنے ذہن کا پرتو بنانے کی کوشش کی ہے، ان سے امکانات کے ایسے ایسے در وا ہوتے ہیں جن کے مفاہیم اپنے احساسات کی بنیادوں پر اس قدر سنجیدہ منظر نامہ قائم کرتے ہیں کہ ذہن و دل پر یکساں اثر ہوتا ہے۔  ان کے یہاں بعض اشعار ایسے بھی ہیں جو اپنی پیچیدگی کے سبب کسی ایک معنی کا تعین نہیں کرتے اور اس طرح بہت مبہم محسوس ہوتے ہیں۔  لیکن اگر زندگی کے پیچیدہ رویوں کو ذہن میں رکھا جائے اور ان موضوعات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے جو اس قسم کے پیچیدہ اشعار کے موجب ہیں تو اسلم عمادی کا یہ تخلیقی رویہ بھی قابل ستائش معلوم ہوتا ہے۔  انھوں نے اس طرح تخلیقی اظہار کی سمتوں کے تعین کے مسئلوں کو ہی سرے سے خارج کر دیا ہے۔

آنکھوں میں جھلک دیکھو دو بجھتے چراغوں کی

کیا روح تڑپتی ہے ہم شعلہ دماغوں کی

پکار مت مجھے اب میں خدا کی سمت چلا

کہ انتظار ترا میری زندگی تک تھا

میری انا کو ذوق ہے جب لامکاں کا میں

پیکر کی طرح بیچ میں دیوار کیوں رہوں

ہے گھنی مصروفیت کے درمیاں

وہ نظر مشکل سوالوں کی طرح

میں کائنات کے ذروں کی بات کرتا ہوں

یہ ٹوٹتے تو کئی حادثے ٹھہر جاتے

اکیلے در پہ کوئی کھٹکھٹا رہا ہے ابھی

کہ اک گمان سا اندر چھپا ہوا ہے ابھی

اک قہقہے میں ڈوب گیا سب نشاط و کرب

وہ چیخنا خزاں کا وہ ہنسنا بہار کا

اسلم عمادی نے اپنی شاعری میں زندگی کے تقریباً ہر اہم واقعے کی سمت اشارہ کیا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں کی چھان بین کا ایک سلسلہ اپنے اشعار میں قائم کیا ہے۔  زندگی اور سماج کے آپسی تعلقات اور اخلاقی قدروں کے نشیب و فراز میں زمانی تبدیلی کے اہم کردار کو انھوں نے بخوبی محسوس کیا اور اپنے اشعار میں اس کا اظہار کیا ہے۔  تصوف، فلسفہ، واردات دل کی مختلف آسان و پیچیدہ صورتوں پر ان کے اظہارات کی مختلف جہات اردو شاعری کے اہم شعراء کی صف میں ان کے مقام کو محفوظ کر دیتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

اسلم عمادی:  نئے پیکر تراشنے والا شاعر

 

علیم صبا نویدی

 

اردو شاعری میں غزل کو جو عروج اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ شاعری کی کسی اور صنف کو نصیب نہیں ہوئی۔  ہمارے اکثر شاعروں نے اپنے متصوّفانہ اور پاکیزہ خیالات سے اردو غزل کے مزاج کو روح اور رفعت عطا کی ہے۔  اسلم عمادی کی غزل متوازن مزاج اور دھیمے دھیمے لہجے کی غزل ہے۔  آپ اور اک و احساس کی مختلف الجہات کیفیات کو اس طرح شامل کرتے ہیں کہ ان کے اشعار میں پیکر تراشی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔  اپنی وسیع النظری، نازک خیالی اور تازہ کاری سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔  شاعر کا تصور بڑا لطیف ہوتا ہے معاشرے میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں۔  شاعر ان کا اثر قبول کرتا ہے۔  اسلم عمادی انسان کی زندگی پر یقیناً فلسفیانہ نظر رکھتے ہیں اور معمۂ حیات کی باریکیوں پر غور کرتے ہیں اپنی غزلوں میں انہوں نے غمِ روزگار کی تلخیوں اور ستم ظریفوں کو پیش کیا ہے۔

کئی شہیدوں کے سر ہو چکے ہیں نذر ستم

مگر یزید کا نیزے پہ سر نہیں آیا

موصوف ہمیشہ خیالات کے اتھاہ سمندر میں فرق رہتے ہیں اور خیالات اور الفاظ کو بار بار ناپتے تو لتے رہتے ہیں۔  کہتے ہیں ؎

نئی زبان نئی اصطلاح میں ہم کو

جو دل میں ہیں وہ مطالب ادا تو کرنے دے

اس حوالے سے تو مغنی تبسم نے کہا تھا ’’اسلم عمادی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروتے کار لا کر نئے علامتی پیکر تراشتے ہیں۔‘‘

اسلم عمادی کی زبان میں سلاست اور بیان کی سادگی و صفائی ہے اور اظہار بیان پر ان کو قدرت حاصل ہے، ان کے چند اشعار یہاں درج ہیں۔

چمکتے دن کی تمازت کو چاٹ جاتی ہے

یہاں پہ شام بہت تشنہ کام جاتی ہے

کئی دنوں سے مناسب گھڑی کی کھوج میں ہوں

اے دوست مجھ کو کھلے دل سے خوب رونا ہے

اب ہمیں جینا نہیں ان وحشتوں کے درمیاں

ٹوٹتی مٹتی بکھرتی الفتوں کے درمیاں

شاعر اپنے ماحول اور معاشرے کو کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور سیدھے سادے پند و نصیحت کے انداز میں اپنی بات کہہ دیتا ہے۔  اسلم عمادی کا شعر ہے ؎

ہم ایسی بزم میں عرض ہنر نہیں کرتے

سخن کی قدر جو اہل نظر نہیں کرتے

موصوف نے پیار و محبت کی دلنشیں تصویر میں بھی اس طرح اپنی شاعری میں اُتاری ہیں۔

جی بس یہی کہتا ہے تجھے یاد کئے جائیں

یادوں کے طریقے یونہی ایجاد کئے جائیں

ہوئے ہیں جمع سبھی خواب دیکھنے والے

تری گلی میں یہ مہتاب دیکھنے والے

ان کے بہت سارے اشعار سماجی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔  ان کے کلام کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہیں زندگی کا تلخ تجربہ اور اپنے ماحول کا گہرا مشاہدہ حاصل ہے۔  ان کی شاعری امیدو امکاں کی شاعری ہے وہ نفرت و عداوت کے سخت مخالف ہیں۔  انہوں نے مختلف اور گونا گوں موضوعات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔  ان کا انداز بیان ان کی لفظیات سب مل کر اُن کے شعروں کو دل پذیری اور معنوی بلندی عطا کرتی ہیں۔  موصوف نے عام فہم انداز میں زندگی کے مسائل کو فکری بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اعلیٰ و ارفع قدروں کی ترجمانی کی ہے۔ پیکر تراشی انسانی ذہن کا بنیادی وصف ہے اس لئے ہر تخلیق میں پیکروں کا ہونا ایک فطری بات ہے، اسلم عمادی نے اپنی شاعری میں اس سے کام لیا ہے اور نہایت برجستہ اشعار کہے ہیں جو اپنی معنی خیز تصوری اظہار کے سبب ہمارے حواس پر چھا جاتے ہیں۔

جبھی نذیر فتح پوری فرماتے ہیں کہ ’’ان کے تصور میں جو روشنی ہے وہ غیر مرئی نہیں ہے۔  وہ اپنا پیکر اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘

فانی نے غم کو ایک خاص نقطہ نظر اور خاص فلسفۂ حیات کے تحت پیش کیا ہے۔  اسلم صاحب نے بھی غم عشق، غم جاناں اور غمِ ہستی کو اپنی شاعری میں اس طرح پیش کیا ہے۔

چشم حیراں میں ترے غم کی ضیا لگتی ہے

چاندنی مہرِ گریزاں کی نوا لگتی ہے

اپنی تنہائی کا ہم کو نہیں شکوہ کوئی

غمزدہ شخص سے سچ سے نہیں ملتا کوئی

ان کی شاعری میں ان کی شاعرانہ زبان ان کے جذبات و احساسات اور ارتعاشات ایک تصوری تاثر کا اظہار کرتی ہے۔ بحیثیت مجموعی اسلم عمادی کی شاعری میں جا بجا زندگی کے مختلف رنگ ملتے ہیں۔  ان کی شعری کتاب ’’عرصۂ خیال‘‘ میں حقائق کی عکاسی بھی خوب کی گئی ہے۔

٭٭٭

اسلم عمادی۔ درونی خلش کا پیکر تراش شاعر

 

مضطر مجاز

 

حیدر آباد میں ترقی پسندی کے کوچ کا طبل بجتے ہی شعر و  اَدب کا منظر نامہ بڑی تیزی سے بدلنے لگا۔  پامال لفظیات اور امیجری کو خیر باد کہتے ہوئے مخدوم، جامیؔ اور اریبؔ نئی شاعری کی نیور کھ رہے تھے۔  مخدوم کا کارنامہ اور عظمت اس میں بھی ہے کہ انھوں نے جدید امیجری کو اپناتے ہوئے اپنی فکر اور فلسفے سے سمجھوتہ نہیں کیا۔  حیدر آباد کے ان تینوں بڑے شاعروں کی سرکردگی میں نوجوان نئے شاعروں کا ایک قافلہ نکل پڑا۔  اس قافلے میں ایک نو عمر لڑ کا اسلم عمادی بھی تھا (پ:  دسمبر ۱۹۴۸)، مشہور عالم دین اور اقبالؔ کے رفیق و ندیم علامہ عبد اللہ عمادی کے خانوادے کا چشم و چراغ۔  اس نو جو ان کے دل و دماغ پر کسی تحریک اور فلسفے کا بوجھ نہیں تھا۔  اس نے زندگی کی ساری خوب صورتیوں اور بدصورتیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔  اپنے ہاتھوں سے چھوا اور اپنی زبان سے چکھا۔  یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اسلم عمادی کی شاعری میں سمعی، بصری اور حسی پیکر لئے تراش خراش کے ساتھ، کہیں مکمل، کہیں نا مکمل کہیں پختہ اور کہیں ادھ کچری شکل میں ملتے ہیں۔

اسلم عمادی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنے پہلے ہی فن پارے سے تتلا تتلا کر ہی سہی مگر اپنی زبان میں بات کی۔  کسی کی آواز میں اپنی آواز ملانے کی کوشش نہیں کی۔  ایسا بھی نہیں کہ وہ میرؔ و مومن ؔو مصحفیؔ سے ملائی ہو، نہ فیض ؔو فراز ؔسے۔  ن۔  م۔  راشد سے ش۔ ک نظامؔ تک کوئی اس کے لیے اجنبی نہیں لیکن اس کا کمال فن یہ ہے کہ ان دیو قامتوں کا سایہ اس نے اپنے تحت شعور پر جمنے نہیں دیا۔  سستا کر آگے چل پڑا۔  تعلیم و تدریس کو دیکھیے تو انجینئری کے میکانیکل شعبے کا تربیت یافتہ (بی۔  ای۔  میکانیکل) جس کی شاعری سے دور کی بھی رشتے داری نہیں۔  ایسا بھی نہیں کہ دفع الوقتی کے لیے کچھ شعر کہہ لئے اور مشاعرے پڑھ لئے کہ کچھ واہ واہ ہو جائے۔  اسلم نے شاید نصف درجن مشاعرے بھی نہیں پڑھے ہوں گے۔  جب کے ان بیس بائیس سالوں میں اس کے چارا چھے خاصے ضخیم مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔  نیا جزیرہ، اجنبی پرندے، اگلے موسم کا انتظار اور قریہ فکر، ان مجموعوں کے ناموں ہی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا تخلیق کار اپنے آپ کو کسی نئے ہی جزیرے میں دیکھ رہا ہے، جہاں کے پرندے بھی اجنبی ہیں، جہاں کا موسم بھی زیادہ سازگار نہیں اور اسے اگلے سازگار موسم کے انتظار میں اپنی فکر کے چھوٹے سے قریے میں پڑاؤ ڈالے رہنا ہے۔  انجمنوں، محفلوں اور مشاعروں سے دور اجنبی ماحول اور غیر ممالک میں رہتے ہوئے اسلمؔ نے اپنی شمع سخن کی لو کو دونوں ہاتھوں سے بچائے رکھا۔  ہندو پاک کے با وقار ادبی جریدوں کے پڑھنے والوں کے لئے اسلم عمادی کا نام بہت جانا پہچانا ہے یہ اور بات ہے کہ مشاعرہ کوش اور شاعری پوش حلقوں میں وہ اجنبی رہا ہو اور اس کا احساس اسے بھی ہے کہ وہ بہر حال ان فضاؤں میں اجنبی پرندہ ہے۔  اور اس کی شاعری بھی مشاعرے والی نہیں جس میں بقول وحشت کلکتوی بجتی ہوئی آواز‘‘ (چیخ پکار) اور ’’سازندوں کے انداز‘‘ شاعری اور شعریت پر فوقیت رکھتے ہیں۔  یوں ہر طرح سے اس کی شاعری بہت ساری آلودگیوں سے محفوظ رہ گئی۔

بقول پر کاش فکری ’’اس کے شعری افق پر جو رنگ آمیزی ہے وہ کچھ الگ الگ سی ہے جن رنگوں کو بہ روئے کار لایا گیا ہے ان کی آسانی سے نشان دہی نہیں کی جا سکتی‘‘۔  یہ سارے رنگ بے اساس ہوتے ہوئے بھی قاری سے ’’ایک گہرا باطنی رشتہ قائم کر لیتے ہیں اور ایک انوکھے تجربے کی لذت سے دو چار کرتے ہیں‘‘۔  لیکن ایسے ذہن جو شاعری کو کچھ جمے جمائے سانچوں اور کھانچوں میں دیکھنے کے عادی ہیں وہ ممکن ہے اسے پڑھ کے مونڈھے اچکانے اور ہونٹ لٹکانے لگیں۔  ہم ان سے گذارش کریں گے کہ وہ اقبال ؔکی یہ نصیحت بھی حرز جاں نہیں تو کم سے کم زیب گوش کریں:

تجھے ساحل نہیں ملتا، تو اے موج!

اچھل کر جس طرف چاہے نکل جا!

فکر و فن کے منہ زور دریا میں جس طرف چاہے نکل جانے کے لیے بھی ہمت چاہئے کہ یہ ’’حوصلہ مرد ہیچ کارہ نہیں‘‘! لیکن واضح رہے کہ یہ وہ موج نہیں جو دریا سے تو اٹھے لیکن ساحل سے ٹکرا نہ پائے۔  اسلم کے قدم اپنی زبان اپنی تہذیب اور اپنے فن کی زمین پر ٹکے ہوئے ہیں وہ ساحل آشنا بھی ہے۔  آزاد نظم اور غزل ہی اس کے پسندیدہ فارمس ہیں اس نے ظفرؔ اقبال (کسی حد تک) اور عادل منصوری کی طرح شاعری کو سولی پر کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔  اس کا لہجہ اجنبی سہی مگرا میجری تازہ کار ہے جس پر اس کی اپنی ذات اور فکر اور سوچ کی چھاپ ہے اس کی زبان کم آشنا سہی مگر پیغام آشنا ہے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل