FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ارمغانِ تبسم

 

                مدیر: نوید ظفر کیانی

 

اپریل تا جون ۲۰۱۶ء

 

نثری حصہ۲ (مزاحچے، شکر پارے، انشائیہ، کتابی چہرے، سہ ماہی کی کتاب، پرانے چاول)

 

 

 

 

 

 

 

مزاحچے

 

ایک تھا بادشاہ

 

                عامر راہداری

 

سُناہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا. بادشاہ بہت رحمدل تھا(پرانے وقتوں میں بادشاہ یا تو رحمدل ہوتے تھے یا پھر ظالم، موجودہ بادشاہوں کی طرح دوغلے نہیں ہوتے تھے) وہ بادشاہ بھی اپنے سے پہلے کے بادشاہوں کی طرح ’’موروثی مردانہ کمزوری‘‘ کا شکار تھا اس لیے محل میں اولاد نام کی کسی چیز کا گزر نہیں ہوا تھا، بادشاہ اس چکر میں کوئی پندرہ عدد شادیاں اور بیس کے قریب لونڈیاں بھی برداشت کر رہا تھا۔ باقی سلطنت میں چین ہی چین تھا امن اتنا شدید تھا کہ دو افراد ایک ہی جگہ سے بغیر لڑے مرے پانی پی لیتے تھے۔ بادشاہ اتنی خوبصورت رعایا اور اتنے خوشگوار حالات کے باوجود اولاد نہ ہونے کے سبب اکثر پریشان رہتا تھا، اس پریشانی میں کئی وزیروں کو بھی اس راز میں شامل کر چکا تھا۔ ایک وزیر نے تو بادشاہ کی قربت کی خاطر یہ تک کہہ دیا کہ ’’میں ٹرائی کروں ‘‘؟؟

لیکن چونکہ بادشاہ رحمدل تھا اس لیے اس نے اس وزیر کو کھلے دل سے معاف کر دیا۔

اولاد کی پریشانی میں بادشاہ سلامت لاکھوں اشرفیاں تو صرف پیروں فقیروں اور عامل بابوں کو بھی دے چکے تھے۔ جب پیروں اور عاملوں سے بھی کچھ نہ بن پایا تو تنگ آ کر چند وزیروں کو ’’مشن وال چاکنگ‘‘ پہ بھیج دیا۔ وزیر سارا دن ملک کی مختلف دیواروں پہ لکھے حکیموں کے پتے نوٹ کرتے اور شام کو وہ تمام حکیم بادشاہ کے دربار میں موجود ہوتے، بلکہ اکثر حکیموں نے تو ڈیرے بھی وہیں محل میں ڈال لیے تھے،   بادشاہ پچھلے چند ماہ میں کئی اقسام کی پھکیاں پھانک چکا تھا۔ آخر ایک دن خدا کی رحمت کا نزول ہوا اور کسی حکیم کی پھکی کام دکھا گئی۔ بادشاہ نے یہ خبر سنتے ہی غریبوں میں مٹھائیاں تقسیم کیں اور پورے ملک میں جشن کا اہتمام کیا گیا، چند ماہ بعد بادشاہ کی گود ہری، میرا مطلب ہے ملکہ کی گود ہری بھری ہو گئی اور خدا نے ملکہ کو چاند جیسی بیٹی سے نوازا، (ٹپیکل بادشاہ ہوتا تو شاید ملکہ کے ساتھ حکیم کو بھی بیٹی پیدا کرنے کے جرم پر ملک بدر کر دیتا) بادشاہ اور ملکہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا ملک بھر میں اشرفیاں بانٹی گئیں۔ راوی اب مکمل چین ہی چین لکھنے لگا، وقت گزرتا رہا شہزادی بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی میں قدم رنجا فرما رہی تھیں۔ شہزادی بھی پرانے دور کی شہزادیوں کی طرح نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ اس پر بھی اسی طرح کئی جن اور دیو دل و جان سے عاشق تھے۔ آخر وہی ہوا جس کا بادشاہ کو ڈر تھا ایک دن شہزادی اپنے کمرے میں نہیں تھی بادشاہ اور ملکہ کی تو جان نکل گئی۔ پانچ منٹ کے اندر پورے ملک کے اندر ہائی الرٹ ہو گیا۔ دربار عالیہ میں کہرام بپا ہوا تھا، محافظ جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف سرگرم ہو گئے وزیر وہی کام کرنے لگے جو ہمارے آج کل کے وزیر کرتے ہیں یعنی بادشاہ کو مشورے دینا، شہزادی کو کمرے سے غائب ہوئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے کچھ اتا پتا نہیں چل پا رہا تھا بادشاہ کو کوئی اور حل نہ سوجھا تو اس نے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں اعلانات کروا دیے کہ جو شہزادی کو ڈھونڈ لائے گا شہزادی کی شادی اسی سے کی جائے گی۔ کئی نوجوان رسیاں کسیاں سنبھالے شہزادے بننے نکل پڑے، اُنہی میں ایک شہزادہ بخت نگر بھی تھا جو قریبی ریاست کے شہنشاہ کا بیٹا تھا اور اپنی بوریت دور کرنے بادشاہ کے ہاں سرکاری دورے پر آیا ہوا تھا سو اس نے بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ بخت نگر بہت ذہین شہزادہ تھا اس نے باقی جوشیلے نوجوانوں کی طرح نہ تو گھوڑا تیار کیا اور نہ ہی تیر کمان وغیرہ، اور سوچنے لگا کہ یہ کون سے جن کی شرارت ہو سکتی ہے اور شہزادی کو کیسے واپس لایا جا سکتا ہے۔ تمام نوجوان جنگلوں جنگلوں گھوم رہے تھے اور شہزادہ بخت نگر گہری سوچ میں مصروف تھا۔ وزیر حیرت سے شہزادے بخت نگر کو دیکھے جا رہے تھے کہ کیسا امیدوار ہے جو شہزادی کو ڈھونڈنے کی بجائے بس سوچے جا رہا ہے۔ شہزادی کو غائب ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا بادشاہ کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کئی عامل پیر منتروں میں مصروف ہو چکے تھے۔ بادشاہ کو کہیں بھی چین نہیں نصیب ہو پا رہا تھا، شہزادہ بخت کسی گہری سوچ میں غرق ہو چکا تھا اچانک وزیروں اور بادشاہ نے شہزادے کو مسکراتے اور اپنی جانب آتے دیکھا

’’ظل الہٰی جان کی امان پاوں تو ایک عرض کروں ؟؟‘‘ شہزادے نے نہایت شائستگی سے جھکتے ہوئے کہا۔

’’بولو شہزادے ہم کسی کی جان نہیں لیتے تم ہماری رحمدلی سے واقف ہو‘‘ بادشاہ سلامت نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔

’’کیا مجھے محل میں جانے کی اجازت ہے؟؟‘‘ شہزادے نے التجائیہ لہجے میں درخواست کی۔

’’محل کا گیٹ شہزادے کے لیے کھولا جائے‘‘ بادشاہ نے وزیر کو حکمنامہ جاری کیا۔

شہزادہ اکیلا اندر کی جانب بڑھ گیا بادشاہ و وزیر شہزادے کی اس عجیب سی حرکت سے حیران پریشان تھے. اچانک محل سے شور بلند ہوا،

’’شہزادی مل گئی‘‘

’’رانی مل گئی‘‘

بادشاہ نے اندر دوڑ لگا دی وزیر بھی بادشاہ کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ بادشاہ سیدھا شہزادی کے کمرے میں داخل ہوا اندر شہزادے بخت نگر اور شہزادی کو ایک ساتھ دیکھ کر اس کی جان میں جان میں آئی اور اس نے بڑھ کر شہزادی کو سینے سے لگا لیا، ملکہ عالیہ بھی اتنی دیر میں کمرے میں پہنچ گئی تھیں۔

’’رانی بٹیا آپ کہاں تھیں کس دیو نے آپ کو اغوا کیا تھا؟؟‘‘ بادشاہ سلامت نے شہزادی کو خود سے علیحدہ کرتے ہوئے پوچھا۔

’’اغواء ؟؟‘‘ شہزادی نے استعجاب سے اُن کی بات دھرائی۔

’’ ہاں رانی بٹیا کون تھا وہ نامعقول جن جس نے سلطنت میں کھلبلی مچا دی‘‘ ملکہ نے بے چینی سے دریافت کیا۔

’’ ابا حضور یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے تو کسی نے اغوا نہیں کیا تھا!‘‘ شہزادی نے جواباً حیرت کا اظہار کیا۔

’’ تو بیٹا آپ کہاں تھیں پچھلے دو گھنٹوں سے؟؟‘‘ بادشاہ نے پوچھا۔

’’ ابا حضور ہم تو واش روم میں سلیفیاں بنا رہے تھے اچھی نہیں بن رہی تھی اس لیے وقت ذرا زیادہ لگ گیا تھا۔ ‘‘ شہزادی نے معصومیت سے کہا۔

بادشاہ کے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی۔ شہزادے نے مسکرا کر بادشاہ کی جانب دیکھا، بادشاہ بھی ہلکے سے مسکرا دیا اور شہزادی کی شادی فوراً اُس ذہین شہزادے بخت نگر سے کرنے کا اعلان کر دیا اور یوں سب حسبِ معمول ہنسی خوشی رہنے لگے۔

٭٭٭

 

 

 

آل اِن ون

 

                حنیف سید

 

غلطی کوئی بھی کرتا ہے، بھگوان معاف کر دیتا ہے، معاف توانسان بھی کر دیتا ہے، لیکن غلطی کبھی معاف نہیں کرتی، بڑے بابو۔ ۔ ۔ !‘‘ راکیش نے آفس سے باہر نکلتے وقت بڑے بابو کوسمجھایا۔

’’پر میں کیا غلطی کر رہا ہوں راکیش۔ ۔ ۔ ؟‘‘ بڑے بابو نے راکیش سے پوچھا۔

’’شادی نہ کر کے بہت بڑی غلطی کر رہے ہو بڑے بابو۔ ‘‘ راکیش کہہ کر اپنے راستے مُڑ گیا اور بڑے بابوسوچتے ہوئے اپنے گھر آ گئے۔

بڑے بابو پہاڑ پر جمی برف کی مانند ٹھنڈے تھے، بالکل یخ، اور میٹھے بھی، کبھی کبھی لوگوں کے طنز، سورج کی گرم شعاعوں کی مانند چبھتے بھی اُن کو۔ وہ حالات کے تحت تھوڑا بہت اگر پگھل بھی جاتے، مگر رہتے پھر بھی میٹھے پانی کی مانند۔ اونچائی سے گرتے، پتھروں سے ٹکراتے، دھول سے گزرتے، پر رہتے میٹھے کے میٹھے اور ٹھنڈے بھی۔ لوگوں کی باتیں ہواؤں کی مانند اُن سے ٹکرا کر گزر جاتیں، اُن کو لگتا بھی کہ کوئی اندر سے گزر گیا ہے اُن کے لیکن وہ جمے رہتے اپنی جگہ۔ اُن کے دِل میں تھوڑی بہت گندگی آ بھی جاتی، پرپل دو پل کے لیے۔

ماں باپ کے اکیلے تھے بڑے بابو۔ پہاڑوں کی آگ سینے میں دبائے چپ چاپ زندگی گزار رہے تھے، بِنا والدین کے۔ اُن کے گھر میں ایک کتّا، ایک توتا، اور دو چار مرغیاں مرغے تھے۔

صبح ہوئی، فراغت کے بعد کھانا بنایا، خود کھایا، جانوروں کو کھلایا، تالا لگایا اور نکل گئے آفس کے لیے۔ آفس سے چھوٹے، ہوٹل سے کھانا لیا، گھر آئے، کھا یا کھلایا اور سورہے۔ بس یہی تھا معمول اُن کی زندگی کا۔

اتوار کی تعطیل میں دو کام اہم تھے اُن کے۔ بازار سے سامان لانا اور مکان کی صفائی۔ دیگر تعطیلات میں دوستوں کے یہاں بھی نکل جاتے تھے کبھی کبھار، پر اپنے یہاں آنے کا موقع کم ہی دیتے تھے دوسروں کو۔

ایک دیوالی اُن کے یہاں جانے کا اتفاق ہوا میرا۔ اُ ن کے دیے وقت کے مطابق پہنچ کر جب گھنٹی بجائی تو اُن کا حلیہ دیکھ کربے ساختہ ہنسی آئی۔ اُن کے ایک ہاتھ میں کف گیر اور دوسرا بیسن میں لتھڑا تھا، ماتھے پر پسینے کی بوندوں کے ساتھ ہلدی کے داغ تھے۔ تہبند اور بنیائن پر بھی بیسن نے دست خط کر رکھے تھے اچھی طرح، جہاں تہاں۔

’’بڑے بابو۔ ۔ ۔ ! یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے آپ نے؟‘‘   مَیں نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔

’’اماں کیا بتاؤں یار!پکوڑے بنا رہا تھا۔ مرغا پاس کھڑا تھا۔ بلّی آ دھمکی کہیں سے۔ مرغا ہلدی مرچیں اُڑاتا ہوا نکل گیا، آنکھوں میں مرچیں بھر گئیں، بہت دھویا، دیکھو۔ ۔ ۔ ! اَب بھی آنکھیں سُرخ ہیں نا؟‘‘

’’ہاں، ہیں۔ ‘‘ میں کہتا ہوا اندر چلا گیا۔ اُن کے ساتھ کھانا بنوایا، کھایا پیا، چلا آیا۔

’’یہ مرغ مسلم کیسے بنایا جاتا ہے راکیش بابو؟‘‘ ایک روزآفس میں بڑے بابو نے راکیش کو فائل دیتے ہوئے دریافت کیا۔

’’ایک ساتھ دو غلطیاں کر رہے ہو بڑے بابو!‘‘ راکیش نے ان کی جانب عجب انداز سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’غلطیاں ؟ کون سی غلطیاں ؟؟‘‘

’’ایک تو فرید کی فائل مجھ کودے رہے ہواوردوسرے مرغ مسلم بنانے کا طریقہ کسی خان ساماں کے بجائے مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ ‘‘ راکیش نے جواب دیا، اور بڑے بابو شرمندہ ہو کر فرید کی جانب مڑ گئے۔

’’بڑے بابو! میری مانو تو ایک کام کرو!!‘‘ فرید نے فائل لیتے ہوئے بڑے بابو سے کہا۔

’’وہ کیا؟‘‘ بڑے بابو نے پوچھا۔

’’شادی کر لو!‘‘ فرید نے مشورہ دیا۔

’’اجی کیا ضرورت ہے شادی کی۔ ۔ ۔ ؟‘‘ بڑے بابو بے ساختہ سب کی جانب نظر ڈالتے ہوئے بھڑک گئے۔

’’ضرورت تو ہے شادی کی۔ بیوی ہوتی تو مرغ مسلم کے بارے میں دریافت نہ کرتے۔ ‘‘

’’وہ تو ٹی۔ وی۔ پر دیکھ لوں گا۔ ‘‘

’’ٹی۔ وی۔ پر دیکھ لینے سے مرغ مسلم نہیں بن جاتا بڑے بابو،   بنانا پڑتا ہے۔ ‘‘ فرید نے سمجھایا۔

’’سنا ہے کھانا بنانے کی مشین آ گئی ہے مارکٹ میں۔ اُس میں جس وقت کاجو بھی چاہو فیڈ کر دو۔ وقت پر گرما گرم کھانا تیار ملے گا۔ ‘‘ بڑے بابو فائل دے کر اپنی سیٹ پر بڑے اطمینان سے بیٹھ گئے۔

’’کھانا بنانے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیں گھر میں بڑے بابو!‘‘ فرید نے سمجھایا۔

’’ہاں ہیں، لیکن اَب سارے کام مشینوں سے ہو جاتے ہیں فرید!‘‘ بڑے بابو نے ٹال دیا

’’کیا کیا کام کرواؤ گے مشینوں سے بڑے بابو۔ ۔ ۔ ؟‘‘ فرید نے انگلیاں نچاتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔

’’پہلا کام وقت پرسوکراُٹھنا، جِس وقت کا بھی الارم لگا دو، اُسی وقت اُٹھائے گی مشین، ایک منٹ اِدھر نہ اُدھر۔ اسی طرح اور بھی مشینیں ہیں جیسے پانی گرم کرنے کی مشین، مسالاپیسنے کی مشین، کپڑے دھونے کی مشین، لگتا ہے ٹی۔ وی۔ پراِسکائی شاپ نہیں دیکھتے آپ ؟‘‘ بڑے بابو نے جیسے بازی مار لی۔

’’دیکھتا ہوں جناب، لیکن یہ تو بتاؤ!کیا بچّے بنانے کی مشین بھی بنائی ہے اِسکائی شاپ نے؟‘‘ فرید نے پھر اُنگلیاں نچاتے ہوئے نیا پتّا پھینکا۔

’’نہیں بنائی ہے تو بنا لی جائے گی ایک نہ ایک دن۔ ایک سے ایک سائنس داں پڑے ہیں دنیامیں۔ ‘‘

’’تو انتظار کرو بڑے بابو!‘‘

’’وہ تو کروں گا ہی۔ ‘‘ بڑے بابو نے فائنل کر دیا۔

٭٭٭

’’اَبے فرید۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘ ایک روز بڑے بابو نے دفتر میں آتے ہی بہ آوازِ بلند فرید کو مخاطب کیا۔

’’کہیے بڑے بابو!‘‘

’’اَب ایجاد ہو گئی ہے وہ مشین۔ ‘‘

’’مشین ! کون سی مشین؟‘‘

’’وہی نا۔ ۔ ۔ !بچّے بنانے والی، اَب ٹیسٹ ٹیوب میں تیار ہونے لگے ہیں بچّے۔ پڑھا نہیں اخبار میں ؟‘‘

’’پڑھا توہے! پر یہ تو بتاؤ۔ ۔ ۔ ! لا کب رہے ہو، وہ مشین؟‘‘ فرید نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا۔

’’اَبے فرید! تو جانتا نہیں، آج کے دور میں اتنی زیادہ مشینیں خریدنا ہے کب میرے بس کا؟ مَیں تو صرف ایک کلرک ٹھہرا، وہ بھی بوڑھا۔ ‘‘ بڑے بابو نے اپنے بڑھاپے کا رونا روتے ہوئے افسردگی ظاہر کی۔

’’پھر کرو گے کیا؟‘‘

’’سوچتاہوں جب یہ ساری مشینیں ایک ساتھ ایک ہی مشین میں آ جائیں گی یعنی کہ آل اِن وَن، تب ہی خرید سکوں گا مَیں تو۔ ‘‘

’’نہ دادا مریں گے اور نہ بٹیں گی بدھیاں۔ ‘‘

’’ بٹیں گی بدھیاں، ضرور بٹیں گی۔ تم دیکھ لینا۔ دادا کو تو مرنا ہی پڑے گا، ایک نہ ایک دِن۔ ‘‘ بڑے بابو کی آنکھوں میں امید کی چمک صاف دکھائی دے رہی تھی۔

’’مجھے لگتا ہے، داداسے پہلے تم ہی چلے جاؤ گے، آل اِن وَن کے ارمان میں۔ ‘‘   فرید نے لا پروائی سے کہتے ہوئے قصّہ تمام کر دیا۔

’’لگتا تو یہی ہے فرید!‘‘   بڑے بابوافسردہ ہو گئے۔

٭٭٭

’’دادا مر گئے۔ ‘‘بڑے بابو دفتر آ کر اُچھل پڑے خوشی سے۔ لوگ سمجھے کہ داد ا واقعی چلے گئے اُن کے۔

’’دادا مر گئے؟‘‘ راکیش نے اُن کو خوش دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں دادا مر گئے، اَب بَدھیاں بٹیں گی، یعنی کہ آل اِن وَن، آ گئی مارکٹ میں۔ ‘‘ بڑے بابو خوشی سے جھوم کر بولے۔

’’تولے آؤ نا!‘‘

’’جا تو رہا ہوں لینے اتوار کو نوئیڈا۔ تم سب بھی چلو نا مرے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘بڑے بابو نے التجا کی۔

٭٭٭

سوموارکوبڑے بابوآفس آئے تو حلیہ ہی بدلا ہوا تھا اُن کا۔ بال کالے، کریم کلر کاسوٹ، کالا بوٹ، بوٹ کی ہِل ہائی، سوٹ پرسرخ ٹائی، چھوٹی مہری کی پینٹ، اُس پر سیکسوسینٹ، نیا رومال، مستانی چال۔ آتے ہی نمستے مارا، کسی کی سمجھ میں نہ آیاماجراسارا۔

’’کیا آل اِن وَن، لے آئے بڑے بابو!‘‘ مَیں نے دریافت کیا۔

’’رات ہی تو لایا ہوں، تم دیکھ نہیں رہے ہو مجھ کو، آج۔ ‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’یہ پریس لگا خوش بو دار ٹن ٹناتا سوٹ، چمچماتا بوٹ، لال رومال، کالے بال، ٹناٹن حال، مستانی چال، اُسی مشین کی تو دین ہے نا؟‘‘ بڑے بابو نے آنکھیں مٹکائیں۔

’’ہاں ؟‘‘   مَیں نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں !فٹافٹ کام کرتی ہے، میری آل اِن وَن۔ ۔ ۔ ‘‘

’’تو کب دکھاؤ گے اپنی آل اِن وَن؟‘‘ راکیش نے پوچھا۔

’’آج ہی آ جاؤ شام کو!‘‘ بڑے بابو نے کہا، ہم سب نے ہامی بھر لی اور بڑے بابو ہاف ٹائم کی چھٹی لے کر نکل گئے آفس سے۔ ہم لوگوں نے اُن کے دِیے ہوئے وقت کے مطابق پہنچ کر مکان کی گھنٹی بجا دی، اور بڑے بابو نے ہم سب کو اندر بلا لیا۔

’’کہاں ہے آپ کی آل اِن وَن؟‘‘ مَیں نے بڑے بابوسے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے دریافت کیا۔

’’وہ دیکھو!آپ لوگوں کے لیے کھانا تیار کر رہی ہے، میری آل اِن وَن۔ ‘‘ بڑے بابو نے اُس جانب اشارہ کیا، جہاں سرخ کپڑوں میں لپٹی ایک دوشیزہ کھانا بنانے میں مصروف تھی۔

٭٭٭

 

 

 

حرام خور

 

                ابنِ منیب

 

حرامخور شہر میں داخل ہو چکا تھا۔

کب اور کیسے ہُوا، اِس بارے میں اتفاق نہیں تھا۔

اتفاق اِس بارے میں بھی نہیں تھا کہ اُس کی اصل شکل و ہیئت کیا ہے۔

کہ وہ شہر میں داخل ہو چکا تھا اِس کی پہلی واضح خبر تب ملی جب بخار کی دوا پینے والے بہت سے بچے جاں بحق ہو گئے اور تفتیشی ٹیم نے بتایا کہ حرامخور نے دوا میں ملاوٹ کر دی تھی۔

اس کے بعد کے پے در پے واقعات نے لوگوں کو حرامخور کی موجودگی کا مکمل یقین دلا دیا۔

چند ہی روز میں شہر کا نیا پُل زمین پر آ گرا۔ کسی نے کہا کہ حرامخور نے سیمنٹ میں ملاوٹ کر دی، اور کسی نے کہا کہ اُس نے پُل سے سریا چوری کر لیا۔ دونوں صورتوں میں سب کو یقین تھا کہ یہ کام حرامخور کا ہی ہے۔

تیسرا بڑا واقعہ تب پیش آیا جب طوفانی بارشوں نے قریبی علاقوں میں گندم کی کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔ حرامخور نے راتوں رات فلور ملوں اور دکانوں سے آٹے کی زیادہ تر بوریاں غائب کر دیں۔ جو چند بچیں وہ لوگوں کو بڑی مشکل سے دگنی تگنی قیمت پر ہاتھ آئیں۔

اِس کے بعد تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ حرامخور شہر کے چپے چپے میں اپنے آسیبی وجود کے ساتھ سرایت کر گیا۔ تھانوں میں مجرموں کی جگہ معصوموں کے نام ظاہر ہونے لگے اور بڑے بڑے سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور سکولوں میں افسروں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو حرامخور نے کام سے روک دیا۔

لوگ تنگ آ کر شہر کی جامع مسجد کی جانب دوڑے اور بحث مباحثہ کرنے لگے۔ ایک انتہائی ضعیف بزرگ بمشکل اٹھے اور اٹھ کر محراب کی دائیں جانب ٹنگی آیت کی طرف اشارہ کیا:

ولا تا کلوا اموالکم بینکم بالباطل

اشارہ دیکھ کر جن کو بات پہلے سمجھ آئی وہ پہلے اور جن کو بعد میں سمجھ آئی وہ بعد میں باہر کی جانب دوڑے اور آیت کے بیسیوں چھوٹے بڑے تعویذ بنوا کر اپنے گھروں دکانوں اور بچوں کے گلوں میں لٹکا دیے۔ کسی کے ذہن میں نہ آیا کہ بزرگ کا اشارہ آیت کے پیغام کی طرف تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

خودکش

 

                راشد اشرف

 

ویگن کے اڈے پر وہ خاموش ایک طرف بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں ایک تھیلا اور اس میں کھانے کا کچھ خشک سامان۔ سرخ و سفید رنگت، چہرے پر تازہ تازہ اگتے بال اور جسم پر ایک سادہ سا قمیض شلوار۔ قمیض کی اندرونی جیب میں ایک پرانا سا موبائل فون جو اسے خصوصی طور پر استادصاحب نے چلتے وقت دیا تھا۔ اسے سنبھال کر رکھنا اور کسی کو مت بتانا کہ تمہارے پاس ایسی کوئی چیز ہے۔ ۔ وہاں تربیتی کیمپ میں اسے سب استاد صاحب کہتے تھے، وہ بھی جو اس سے عمر میں بڑے تھے۔ چہرے مہرے سے وہ ایک جہاندیدہ شخص دکھائی دیتا تھا، پچاس کے پیٹے میں بھی اصل عمر سے کم ہی لگتا تھا۔ ۔ ۔ اس کی بھی ایک کہانی تھی۔ ۔ وہاں ہر شخص کی ایک نہ ایک دلدوز کہانی تھی لیکن اب وہ تمام کے تمام یہ کہانیاں اپنے سینے میں ہی چھپا کر رکھنے پر مجبور تھے کہ وہاں انہیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ ۔ کب نجانے کس کی باری آ جائے اور اسے روانہ ہونا پڑے اور وہ اپنے ساتھیوں کو بروز قیامت ملنے کا وعدہ کر کے چلتا بنے۔ ۔ ایک بڑے سے کمرے میں کسی مقامی فنکار کو بلوا کر خصوصی طور پر چند تصاویر بنوائی گئیں تھیں۔ سبزے سے بھرپور باغات، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی، درمیان میں کہیں دودھ کی نہر بہتی دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔

اسے ذہن میں بٹھا لو، یہی تمہارا آخری گھر ہے جہاں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔ استاد صاحب نے ایک روز اسے کئی دوسرے نوجوانوں کے ہمراہ آگاہ کیا تھا اور اس کی نظر آخر تک انہی باغات پر جمی رہی تھی جبکہ دوسرے کب کے وہاں سے منتشر ہو چکے تھے۔ ہریالی اسے بہت پسند تھی، وہ اس پر جان چھڑکتا تھا۔ اگر یہاں رہنا ہے تو میں تو بہت خوش قسمت ہوں۔ اس نے خود سے کہا تھا۔

استاد صاحب اسے حتمی روانگی سے قبل امیر المومنین کے پاس لے آئے تھے جو ایک تخت پر بیٹھے تسبیح پھر رہے تھے۔ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی۔ ؒ جاؤ بیٹا، اللہ کے حوالے۔ اور ایک لحظے کو اس کا دل بھر آیا، وہ امیر المومنین کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا اور ان کی کہی ایک ایک بات پر اسے اندھا اعتقاد تھا۔ استاد صاحب تو پھر اکثر تربیت کے دوران سخت لہجہ اختیار کر لیتے تھے لیکن امیر صاحب۔ ۔ کیا معلوم وہ بھی وہیں مل جائیں جہاں میں نے ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔

ویگن کے ہارن کی کرخت آواز نے اسے چونکا دیا اور وہ اپنا تھیلا سنبھالتا ہوا اٹھ گیا۔ سامنے ایک پولیس والا مونچھوں پر تاؤ دے رہا تھا لیکن اسے دیکھ کر وہ پرسکون ہی رہا۔ اس کے سامنے سے گزرتے وقت اس کے ذہن میں روکے جانے کی صورت میں ممکنہ جوابات گھوم گئے جنہیں استاد صاحب نے اسے اچھی طرح ذہن نشین کروادیا تھا۔ حکومت نے ایک بار خودکش حملہ آور کی پہچان کی نشانیاں بتا کر الٹا انہیں مزید چوکنا کر دیا تھا۔ اب وہ اپنا چہرہ اور جسم کی سکنات کو پرسکون رکھتے ہیں، پھٹنے سے قبل منہ ہی منہ میں کسی قسم کا کوئی ورد نہیں کر رہے ہوتے، کپڑے بھی عام انداز کے پہنتے ہیں اور رات کو اطمینان سے سونے کی وجہ سے ان کی آنکھیں سرخ بھی نہیں ہوتیں۔

ویگن نے اسے شہر کے ایک مضافاتی علاقے میں اتار دیا تھا جہاں سے وہ ایک جانب پیدل چل پڑا۔ بیس منٹ کی مسافت کے بعد ایک تنگ سی گلی میں اس نے ایک دروازے پر دستک دی، دروازہ کھولنے والا ایک باریش شخص تھا۔ شناختی جملوں کے تبادلے کے بعد اسے اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا گیا۔ ایک چھوٹے سے صحن سے گزار کر وہ ایک مختصر سے کمرے میں داخل ہوئے۔ تم بالکل محفوظ ہو یہاں۔ باریش شخص نے اسے اطمینان دلایا۔ کچھ دیر بعد وہ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔

وہ سامنے غسل خانہ ہے، یہ نیند کی گولی ضرور کھا لینا، رات کو آرام سے سونا، کوئی چیز چاہیے ہو تو مجھے آواز دے دینا لیکن کمرے سے باہر مت نکلنا، صبح جلدی اٹھنا ہے۔ باریش شخص نے اسے تنبیہ کی۔ اس کے منہ میں بڑا سا نوالہ تھا اس لیے وہ محض سرہلا کر رہ گیا۔ کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر وہ چلا گیا تھا اور خودکش حملہ آور چارپائی پر نیم دراز ہو گیا۔

باہر گلی میں کوئی بانسری بجاتا گزرا تھا۔ ۔ ۔ کچھ ہی دیر میں وہ کچھ پرانی تلخ یادوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ماں، باپ، بہن بھائی، سبھی تو تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ لیکن ایک دھماکے نے یک دم اس کی دنیا اجاڑ دی تھی۔ دھماکے قبل کسی طیارے کی پرواز کی جانی پہچانی آواز آئی تھی۔ لوگ ایسی آوازوں کے اب عادی ہو گئے تھے اور اسیے موقعوں پر گھر کے اندر ہی رہنے کو ترجیح دینے لگے تھے۔ لیکن اس بار کمپیوٹر کے سافٹ وئیر میں کوئی غلطی ہو گئی تھی یا پھر زمینی ہدف پر الیکٹرونک چپ رکھنے والے ایجنٹ سے کوئی چُوک۔ ۔ ۔ لیکن اس کا نتیجہ اس کے گھر والوں کی اچانک اور دلدوز موت کی شکل میں نکلا تھا۔ وہ گھر پر موجود نہیں تھا،   قریب واقع درختوں کے نیچے بانسری ہی تو بجا رہا تھا۔

گھنے درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر بانسری بجانا اس کی زندگی کی سب سے بڑی عیاشی تھی۔ اس کی پسندیدہ ہریالی اور اس ماحول میں بیٹھ کر نئے نئے شوق کی مشق۔ ۔ اس شوق پر کئی بار وہ اپنے باپ سے پٹ چکا تھا، ایسے موقعوں پر اس کی بہن اس کی مدد کو آتی تھی: بابا! بجانے دو نا اگر اسے اچھا لگتا ہے۔ ۔ جواب میں اسے کافی دیر تک باپ کی صلواتیں سنی پڑتی تھیں۔ دھماکے کی آواز اس قدر شدید تھی کہ بانسری اس کے منہ سے نکل کر دور جا پڑی اور وہ اوندھے منہ گر گیا۔ منہ میں بھر جانے والی مٹی نکالتا ہوا دیوانہ وار گھر کی جانب دوڑ پڑا تھا لیکن اس وقت تک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ تربیتی کیمپ میں وہ کسی کے توسط سے پہنچا تھا جہاں اس جیسے اور بھی کئی نوجوان تھے۔ سب کی کہانی ایک دوسرے سے ملتی جلتی تھی۔ سونے سے پہلے وہ نیند کی گولی کھانا نہیں بھولا تھا۔

علی الصبح اسے نماز کے لیے اٹھایا گیا۔ باریش شخص نے اسے ناشتے کے لیے پوچھا:کوئی خاص چیز کھانے کا دل کر رہا ہو تو بتاؤ! ہم سب سے پوچھتے ہیں۔ اور جواب میں اس نے گھی لگی روٹی اور قہوے کی فرمائش کی تھی، باریش شخص مسکرا کر چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں ناشتے کے ہمراہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوا۔

ناشتے کے بعد چاہو تو کچھ دیر آرام کر لو، پھر نہا کر تیار رہنا، میں ایک گھنٹے بعد دوبارہ آؤں گا۔ ۔ وہ یہ ہدایات دے کر چلا گیا تھا۔

ایک گھنٹے بعد باریش شخص اس کے جسم پر بارود سے بھری جرسی باندھ رہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے خانوں میں بارود بھرا تھا اور وہ بڑی مہارت سے اس کے جسم پر اسے نصب کر رہا تھا۔ درمیان میں وہ اسے آہستہ سے ہدایات بھی دے رہا تھا: ہلنا مت، اب گھوم جاؤ، داہنا ہاتھ اوپر اٹھاؤ۔ اور وہ خاموشی سے اس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا۔ یوں بھی اس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، تربیتی کیمپ میں اپنے سامنے وہ ایسا ہوتے کئی بار دیکھ چکا تھا۔ شروع شروع میں تو ایک بار چھپ کر یہ سب دیکھتے وقت استاد صاحب نے اسے ڈانٹ بھی دیا تھا لیکن وہاں سے گزرتے ہوئے امیر المومنین نے مشفقانہ لہجے میں انہیں ایسا کرنے سے روکا تھا۔ مت روکو اسے، ایک دن تو اسے بھی یہ کرنا ہے۔

اب تم بالکل تیار ہو۔ ۔ باریش شخص نے اس پر ایک ناقدانہ نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: تمہیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا، بس اس جگہ پہنچ کر لوگوں میں گھل مل جانا، اور ان کے عین درمیان پہنچ کر ہاتھ اٹھا کر زورسے اللہ اکبر کا نعرہ لگانا، اس کے بعد چند ہی لمحوں میں تمہیں شہادت نصیب ہو جائے گی اور تم اپنی اس پسندیدہ جگہ پہنچ جاؤ گے جہاں تمہیں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔

جرسی بڑی مہارت سے نصب کی جاچکی تھی، باریش شخص اپنے کام میں ماہر تھا۔ ایک موقع پر اس نے اسے فخر سے بتایا کہ اس کی تربیت امیر المومنین کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ ۔ کام مکمل کر کے اس نے اسے کھڑے ہونے کو کہا تھا اور چاروں طرف سے مکمل جائزہ لینے کے بعد مطمئن ہو کر سرہلایا۔ ؒ وزن زیادہ تو نہیں ؒ ؟

’’ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔ ۔ ۔ حالانکہ وزن زیادہ تو تھا ہی۔ وہ بے چینی محسوس کر رہا تھا اور سانس لینے میں بھی دقت ہو رہی تھی۔ اس نے اس سے قبل کسی جرسی والے کو اس طرح بے چین نہیں دیکھا تھا جیسی بے چینی وہ اس وقت محسوس کر رہا تھا لیکن اس کا اظہار کرنا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔

’’ زیادہ ہلنا جلنا مت، لیٹنا بالکل نہیں، ایک جگہ بیٹھے رہو، کچھ ہی دیر میں ہمیں روانہ ہونا ہے‘‘۔ ۔ ۔ باریش شخص یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے آواز لگائی : چلو، اٹھو، احتیاط سے۔ اور وہ باریش شخص کی ہمراہی میں گھر کے صحن سے گزرتا، وہاں بکھری مختلف چیزوں پر نظر ڈالتا باہر نکل آیا۔ گھر کے باہر ایک ویگن کھڑی تھی۔ یہ ایک عام سی گاڑی تھی جو عموماًاسکول کے بچوں کو لانے اور لے جانے کے کام آتی ہے۔ باریش شخص نے اسے آہستہ سے فی امان اللہ کہا۔ منزل پر وہ اس کے ساتھ نہیں جانئے گا، یہ بات وہ اسے گھر سے نکلنے سے قبل ہی بتا چکا تھا۔ ڈرائیور کی کرسی پر بیٹھے شخص نے اسے گاڑی کی عقبی جانب بیٹھنے کا اشارہ کیا اور وہ چپ چاپ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی تھی اور وہ راستے میں بکھرے منظر کو کھوئی کھوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ علی الصبح اسکول جاتے ہوئے چھوٹے بچے، سڑکوں کی صفائی کرتے خاکروب، پٹرول پمپ پر گاڑیوں کی قطار۔ ۔ ۔ ۔ پھر اچانک اس کی نظر پھولوں کے ایک جھنڈ پر پڑی جسے بڑی مہارت سے سنوارا گیا تھا، اس کے دل میں خوشی در آئی۔ ۔ یہ اس کا پسندیدہ منظر تھا۔ ڈرائیور بہت احتیاط سے گاڑی چلا رہا تھا۔ بلآخر وہ ایک ایسی جگہ رک گئے جہاں سے کچھ فاصلے پر پولیس کی وردیاں نظر آ رہی تھیں۔ یہ مال روڈ پر ہونے والا ایک مظاہرہ تھا، ہر طرف کالے کوٹوں کی بھرمار تھی اور ان کو ڈنڈوں کے زور پر روکتے ہوئے پولیس والے۔ ڈرائیور نے اسے اترنے کا اشارہ کیا اور وہ آہستگی سے اتر کر پولیس والوں کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ کچھ ہی ساعت میں وہ نعروں کی آوازیں بلند کرتے مظاہرین کو روکتے پولیس والوں کے درمیان پہنچ چکا تھا، ایک پولیس والے نے ہاتھ سے پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، اس نے اپنا دوسرا ہاتھ فضا میں بلند کر کے اللہ اکبر کا زوردار نعرہ لگایا اور ایک کان پھاڑ دینے والے خوفناک دھماکے نے فضا کو دہلا دیا۔ دھوئیں کے بادلوں سے فضا سیاہ ہو رہی تھی، کئی پولیس والوں کے چیتھڑے اڑ چکے تھے اور ان کے اعضاء دور دور تک بکھر چکے تھے۔

اگلے ہی لمحے اس نے خود کو ہوا میں اڑتے پایا، وہ تیزی سے ایک جانب اڑتا جا رہا تھا، اس کا بدن ہوا کی طرح ہلکا ہو چکا تھا۔ اس کے اردگرد مناظر تیزی سے بدلتے جا رہے تھے۔ جلد ہی وہ ایک جگہ ایسی جگہ جا کر رک گیا جہاں ہر طرف ملگجا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس دھندلکے میں اس نے دیکھا کہ اس کے چاروں جانب جلے ہوئے پتھروں کا ڈھیر ہے، ایک عجیب سی بو اسے پریشان کر رہی تھی۔ ماحول سوگوار تھا۔ اس کی پسندیدہ ہریالی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اچانک سامنے سے کوئی اس کی جانب آتا دکھائی دیا۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ میں اس وقت کہاں ہوں ؟۔ جواب میں اس شخص نے جو کہا، اسے سن کر اسے ایک جھٹکا سا لگا اور اس کا ذہن اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔

اس سے اگلی رات وہ استاد صاحب کے خواب میں آیا، وہ ہاتھ باندھے استاد صاحب کے سامنے کھڑا تھا اور گڑگڑاتی ہوئی آواز میں استدعا کر رہا تھا: حضرت! براہ کرم امیر المومنین تک یہ درخواست پہنچا دیں کہ خودکش جرسی میں بارود ذرا کم ڈالا کریں۔ ۔ میں جنت سے پچاس کلومیٹر آگے نکل گیا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

شکر پارے

 

 

ہَنوز بِلّی دُور اَست

 

                نادر خان سَرگِروہ

 

چوہوں کا انسانی زندگی میں اہم رول ہے۔ یہ چوہوں کا اِنکسارہے کہ وہ جنگلوں میں آزادی سے گھومنے کی بجائے ہمارے گھروں میں گُھُسنے اور بِلوں میں گھِسنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض جانور د ل میں گھر کر جاتے ہیں اور چوہے گھر میں بِل کر جاتے ہیں۔ انسان پر دواؤں اور جرّاحی کے تجربے کرنے سے پہلے اِن ’’ہر بِل عزیز‘‘ چوہوں کی ہی چیر پھاڑ کی جاتی ہے۔ گویا دونوں ایک سی صفات کے حامل ہیں۔ انسان تو انسان، بِلّی بھی مَرے ہوئے چوہے کو نہیں بخشتی۔ اُسے اُچھال اُچھال کر اپنے بچوں کو جھپٹنے پلٹنے، پلٹ کر جھپٹنے کی مشق کراتی ہے۔ لیکن وہ بڑے ہو کر سب سبق بھول جاتے ہیں اور تمام عمر خواب میں چھیچھڑے ہی دیکھتے رہتے ہیں اور ہر اُس اِنسان کا راستہ کاٹتے ہیں جو جلدی میں ہوتا ہے۔ کہاں گئیں وہ شیر کی خالائیں، چوہے کو دیکھ کر جن کی ’رگِ ہلاکت‘ پھڑکتی تھی؟ دوسری طرف چوہے بھی اپنے بچوں کو بِلّی سے بچنے اور اُسے چکما دینے کے گُر سکھاتے ہیں۔ لیکن وہ بھی بڑے ہو کر بِلّی کو چکما دینے کی بجائے اُس کی چمکتی آنکھوں میں اپنی بجھتی آنکھیں ڈال کر چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا پہلے ہی دن بِلّی مارنا چاہتے ہوں۔

چوہوں کی ایک عادت ہمیں پسند نہیں کہ اُن کے ہاں ڈِسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جتنا کھاتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ خانہ خرابی کرتے ہیں۔ اور جب اِن ’کھانا خرابوں ‘کی چوری پکڑی جاتی ہے تو بوکھلاہٹ میں آگے پیچھے نہیں دیکھتے۔ بندوق کی گولی کی طرح سَٹ سَٹ چھوٹتے ہیں۔ بندوق کی گولی تو کم اَز کم لحاظ رکھتے ہوئے نشانے کے آس پاس سے گزر جاتی ہے، لیکن یہ جس سے بچنا چاہتے ہیں اُسی کی ٹانگوں میں آ جاتے ہیں۔ ڈِسپلن تو چیونٹیوں کے ہاں ہوتا ہے۔ چاہے کچھ ہو جائے، وہ اپنی ترتیب بگڑنے نہیں دیتیں۔ اِس ڈِسپلن کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے، جس کی توقع چوہوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اِن سے تو بِلّی کے گلے میں ایک گھنٹی تک باندھی نہ گئی۔ یہ ناہنجار اَب تک اِس خوش فہمی میں ہیں کہ ہَنوز بِلّی دُور اَست!

چوہوں اور ہماری آنکھ مچولی کا کھیل بچپن سے چلا آ رہا ہے۔ زندگی میں دو ہی چُوہے ہمارے دل کو بھائے۔ اُن میں سب سے پہلے ہے، چالاک، بہادر’ جیری ‘۔ جس کی شرارتیں ہم نے ہنستے ہنستے برداشت کیں اور ’ٹام ‘کے خلاف قدم قدم پر اُس کی حمایت کی۔ اور دوسرے نمبر پر ہے وہ چُوہا، جس کی دُم کمپیوٹر سے جُڑی ہوتی ہے، جب کہ بقیہ چوہوں نے تو ہماری ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ یا یو ں کہہ لیجیے کہ ہماری ناک میں دُم کر رکھی ہے۔ ہم اِن کے بِل بھرتے رہتے ہیں اور یہ پڑوسی کے گھر سے ہمارے گھر تک ایک نیا بِل پاس کرتے ہیں۔ کاش ! اِن کا بھی یہ شیوہ ہوتا کہ:

گھروں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

بات گھروں تک ہی موقوف نہیں، اِن کے حوصلے اِتنے بلند ہیں کہ یہ ہمارے پیٹ میں بھی دوڑتے ہیں۔ کاش! ہم چوہوں کا شکار رائج کر سکتے، تو گھر بیٹھے شکار کا شوق پورا کرتے۔ لیکن چوہوں کو مارنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ ہم ہاتھ میں رائفل پکڑے، ایک پَیر مَرے ہُوئے، بلکہ مارے ہُوئے چوہے پر رکھ کر اَپنی تصویر نہیں کھنچوا سکتے۔ جب چوہا نظر ہی نہیں آئے گا تو چوہا مارنے اور تصویر اُتروانے کا فائدہ؟ چوہا مارنے میں ایک قباحت اور بھی ہے کہ اِس کارنامے پر ہم فخر بھی نہیں کر سکتے۔ لوگ کہیں گے، ’’ گھر میں چوہا مارا! کس نے دیکھا ‘‘ … یا پھر یہ کہ ’ ’دیکھو ! مارا تو کیا مارا ! … چوہا ؟ … ہا … بڑا آیا ماؤس مار خاں ! ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

آئیوڈین ملا نمک

 

                نعیم طارو کبیرین

 

میں نے رات ہی سن لیا تھا کہ چاچے صدیق کا سب سے چھوٹا لڑکا رشید عرف شیدا تیسری بار بھی میٹرک کے امتحان میں فیل ہو گیا ہے، اس لیے چاچے صدیق کو صبح سویرے اپنے دروازے پر دیکھ کر میں وہی گھسے پٹے فقرات سننے کے لیے خود کو تیار کرنے لگا کہ آج کل کوئی پڑھائی نہیں ہو رہی، نہ استاد توجہ دیتے ہیں نہ ہی بچے۔ لیکن جب چاچے صدیق نے یہ پوچھا کہ ” ماسٹرجی تیس کو چالیس پر تقسیم کرنے سے کیا جواب آتا ہے تو میرا ماتھا ٹھنکا، میں نے سوچا چاچا صدیق بے چارہ آخر کار شیدے کے تعلیمی اخراجات سے زچ ہو گیا ہے۔ مجھے ترس آیا میں نے موبائل پر حساب لگا کر جواب ایک اعشاریہ تیس نکال کر بتایا کہ سوا روپیہ روزانہ بنتا ہے۔

یہ سن کر چاچے نے ایک گہری سانس لے کر کہا ’’چلو یہ تو میں برداشت کر لوں گا‘‘۔

میں نے کہا ’’آپ فکر نہ کریں اس سال شیدا ضرور پاس ہو جائے گا۔ ‘‘

وہ کہنے لگا ’’پتر !سار قصور شیدے کی ماں کا ہے۔ میں سمجھا سمجھا کر تنگ آ گیا ہوں کہ روز روز گوشت نہ پکایا کر پر وہ مانتی ہی نہیں۔ ‘‘

میں نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا ’’چاچا جی ! شیدے کے فیل ہونے سے گوشت پکانے کا کیا تعلق بنتا ہے؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ ‘‘

چاچے نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ’’پتر ! آ میرے ساتھ ذرا شہر کے چوک تک چل، میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔ ‘‘ میں با دلِ ناخواستہ اُن کیساتھ چل پڑا۔ چوک پر پہنچ کر چاچے صدیق نے ایک خالی بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا ’’ ماسڑجی! گن کے بتاؤ کہ اس وقت چوک میں کتنی ’’گدھا گاڑیاں ‘‘ کھڑی ہیں ؟‘‘

’’میں نے ان کی بات مان کر گن کر بتایا   ’’چار‘‘

وہ کہنے لگے ’’اچھا اب لوڈنگ رکشے گن کے بتا۔ ‘‘

میں نے کہا ’’آٹھ۔ ‘‘

چاچا صدیق ہنس کر کہنے لگا ’’ ماسٹر جی، موٹا موٹا حساب بھی لگائیں تو لوڈنگ رکشے آنے سے پہلے یہاں بارہ گدھا گاڑیاں ہوں گی، اب آٹھ گدھا گاڑیاں کم ہو گئیں ہیں تو بتاؤ کہ ان گاڑیوں کے گدھے اب کس کام آتے ہوں گے؟‘‘

میں کافی دیر سوچتا رہا پھر کھسیانا ہو کر بولا ’’ چاچا جی گدھے گدھے ہوتے ہیں کہیں بھی چلے گئے ہوں گے۔ ‘‘

وہ پھر ہنسا اور کہنے لگا ’’تم بابو لوگ ہو، نہ کبھی گدھا خریدا نہ بیچا۔ ۔ ۔ او پتر! آج کل سیکنڈ ہینڈ گدھا بھی چالیس، پچاس ہزار سے کم میں نہیں ملتا، تو تیرا کیا خیال ہے، غریب ریہڑی بانوں نے گدھے ایسے ہی بھگا دیے ہوں گے؟‘‘

میں نے کہا ’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے آگے بیچ دیے ہوں گے۔ ‘‘

چاچے صدیق پر ہنسی کا ایک اور دورہ پڑا اور بولا ’’اب تو نے ٹھیک بات کی ہے پتر! اب ذرا غور سے میری بات سن کہ شیدے کے فیل ہونے میں گوشت پکانے کا کیا تعلق بنتا ہے،   پتر جب ہر کوئی لوڈنگ رکشے بنا رہا ہو تو گدھے کون لے گا؟اوماسٹر جی اب بازار میں گدھوں کا گوشت بکتا ہے۔ گدھے اب فائیو سٹار ہوٹلوں میں پکائے جاتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا ’’اخ تھو!ایسا حرام کام کرتے ہیں لوگ۔ ‘‘

وہ کہنے لگا ’’حرام حلال کی تو خیر ہے، پر اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ شیدے کی ماں نے شیدے کو گدھوں کا گوشت کھلا کھلا کر اس کا ذہن بھی گدھوں جیسا کر دیا ہے، وہ میٹرک پاس کیسے کرے گا؟ میرے پاس لے دے کر اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ جو گدھے اس وقت شہر میں زندہ چل پھر رہے ہیں انہیں آئیوڈین ملا نمک ہی کھلا دوں، سنا ہے اس سے عقل تیز ہو تی ہے، تاکہ میرا شیدا جس گدھے کا گوشت کھائے وہ تو کسی کام کا ہو۔ تم نے جو سوا روپے روزانہ کا حساب لگا کر دیا ہے، اتنے پیسوں سے میں شیدے کے اگلے امتحان تک میں اپنا یہ مشن مکمل کر لوں گا اور تمام گدھوں کو آئیوڈین ملا نمک کھلا دوں گا۔ اچھا اب آخری بات یہ بتا پتر ! یہ آئیوڈین ملے نمک کی تھیلی کتنے کی آتی ہے؟‘‘

میں نے کہا ’’ بیکری سے اچھے والا پچاس روپے میں اور عام دکان سے دو نمبر آٹھ روپے میں مل جاتا ہے، پر اس میں آئیوڈین کی مقدار مقررہ حد سے زیادہ ہوتی ہے۔ ‘‘

چاچے کی آنکھوں میں چمک آ گئی، کہنے لگا ’’واہ!پہلی دفعہ ملاوٹ کا فائدہ ہم غریبوں کو ہونے لگا ہے۔ آٹھ روپے والا نمک تو بنایا ہی گدھوں کے لیے ہو گا تو بتا پتر اس کارِ خیر میں کتنے پیسے دے سکتا ہے؟‘‘

میں نے چاچے کی ’’بات‘‘ کو سمجھتے ہوئے بیس روپے اس کی ہتھیلی پر کھ دیے۔ سوا روپے روزانہ میں مجھے یہ سودا اتنا برا نہیں لگا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک اتوار کی صبح

محمد خلیل الرحمٰن

 

اتوار کی خوبصورت صبح جوں ہی ہمارے چہرے پر طلوع ہوئی، یعنی ہماری نصف بہتر نے ہمارے چہرے پر سے چادر ہٹاتے ہوئے ہمیں یہ روح فرسا خبر سنائی کہ ہمارا پیارا اخبار پانی سے بھری ہوئی بالٹی کی نذر ہو چکا ہے، ہم بے چین ہو گئے۔ اتوار کی خوبصورت صبح گئی بھاڑ میں، اور تمام تر سُکھ چین اِس بے کلی کی نذر ہوئے۔

اتوار کی صبح ایک مہذب انسان کے لیے سب سے خوش گوار وہ لمحات ہوتے ہیں جب آنکھ کھلتے ہی بیگم کی سُریلی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے: ’’لیجیے یہ آپ کا نگوڑا اخبار آ گیا ہے۔ ‘‘

اب ہم اخبار کو بائیں ہاتھ سے تھامتے ہیں، آنکھیں بند کیے ہی اسے کھولنے کی تگ و دو کرتے ہیں،  داہنے ہاتھ سے اپنی عینک سنبھالتے ہوئے اسے اپنی ناک پر بٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ سے یوں گویا ہوتے ہیں : ’’بیٹا ! لو اب آنکھیں کھولو‘‘۔ اخبار میں خبروں کا سیکشن، مقامی سیکشن اور کتب کی دنیا کے علاوہ ایک اور اہم حصہ ہمارا منتظر ہوتا ہے جہاں حسینانِ جہاں کی رنگین اور خوبصورت تصویریں سجی ہوتی ہیں۔ ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر اس حسین دنیا میں کھوسے جاتے ہیں۔ ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ کی چٹ پٹی خبریں اور حسینانِ ختن کی شوخ و چنچل، اداؤں بھری رنگ برنگی تصویریں۔

لیکن آج ہی کیا غضب ہو گیا۔ آن کی آن میں یہ کیا ماجرا ہو گیا کہ اخبار کا اخبار پانی میں شرابور ہو گیا۔ ہائے حسینانِ ختن ! کے پانی میں بھیگے ہوئے چہرے۔ ۔ ۔ اُف وہ توبہ شکن حسنِ نمکین۔ ۔ ہمارا مطلب ہے، ارے کوئی ہے جو اس اخبار کو خشک کر دے تاکہ ہم گزرے ہوئے کل کی وہ خبریں پڑھ سکیں جنہیں ٹی وی اسکرین پر نہیں دیکھ سکے تھے۔ اور اس طرح اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔ مطالعہ علم حاصل کرنے کا ایک بڑا اہم ذریعہ ہے۔

اپنی اس دُہائی کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ پاکر ہم نے صورتِ حال کا بغور جائزہ لینے کی ٹھانی اور مائل بہ عمل ہو گئے۔ ۔

پس منظر

ہمارا اخبار والا روز کا اخبار تو کچن کی بالکونی سے اوپر پھینکتا ہے، البتہ اتوار کا اخبار ضخیم ہونے کی وجہ سے اوپر آ کر دروازے کی نچلی درز سے اندر سرکا دیتا ہے۔ یہ اس کا معمول ہے۔

پیش منظر

آج چونکہ ہمارا معمول کا اخبار والا چھٹی پر تھا لہٰذا اس کی جگہ لینے والے نے اتوار کا ضخیم اخبار بھی بنڈل بنا کر بالکونی سے اوپر کی جانب اچھال دیا۔ حسنِ اتفاق کہیے یا سوئے اتفاق، کل رات پانی کی فراہمی میں تعطل کے پیشِ نظر ہماری نصف بہتر نے (حفظِ ما تقدم کے طور پر )کچن کی بالکونی میں ایک عدد بالٹی پانی سے بھری رکھ چھوڑی تھی تاکہ سحری میں برتن دھونے کے کام آئے۔ وہ بالٹی اس طرح داشتہ آید بکار کے مصداق کام آئی کہ اخبار نے فوراً اس کے اندر گھر کیا اور مآلِ کار ہمارے چہرے پر چھینٹے اُڑاتے ہوئے ہمارے ہاتھوں میں آیا۔

اشیائے ضرورت

ہمارے اِس تجربے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے

۱۔ برقی رو کی فراہمی میں تعطل نہ ہو۔

۲۔ اخبار اتوار ہی کا ہو

۳۔ گھر میں موجود بجلی کی استری قابلِ استعمال ہو اور اِس

میں کوئی بنیادی نقص نہ ہو۔

ہمارا کامیاب تجربہ

ہم نے سب سے پہلے احتیاط کے جملہ تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خبروں کا حصہ اُٹھایا اور اس کے صفحات پر نہایت احتیاط سے استری پھیرتے چلے گئے۔ جب وہ کافی حد تک خشک ہو گیا تو اسے اپنے بستر پر ہلکے پنکھے میں سوکھنے کے لیے پھیلا دیا۔ پھر مقامی سیکشن پر ہاتھ صاف کیا اور سب سے آخر میں کتب دنیا پر اچھی طرح تجربہ کرنے کے بعد ہم تیار تھے کہ اپنے پسندیدہ اتوار میگزین کو خشک کریں جہاں پر چند حسینوں کے پانی میں بھیگے ہوئے نمکین چہرے ہمارے منتظر تھے۔ لیکن!!! نصف بہتر کی قہر آلود نظروں نے ہمیں اس منصوبے پر عمل درآمد سے باز رکھا اور ہم ان خوب صورت چہروں کوبستر پر پھیلا کر باقی ماندہ خشک اخبار کی بے مقصد ورق گردانی اور وقت گزاری کرنے لگے۔

ہمارا ناکام انجام

انتظار، انتظار، انتظار۔ ۔ ۔ اے نسیمِ صبح! جلد اِس پانی کو خشک کر دیتا کہ ہم ان حسیناؤں کے چہروں پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے سہانے دِن کا آغاز کر سکیں۔

سبق

اس تجربے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اخبار پڑھتے وقت، خاص طور پر حسینوں کے گداز چہروں پر نظر ڈالتے وقت، خیال رکھیے کہ بیگم صاحبہ کچن میں مصروف ہیں۔ ان کے قریب آتے ہی خبروں والے حصے کا بغور مطالعہ شروع کر دیجیے کہ سیاست، صحافت، مذہب، دِگرگوں سماجی و معاشرتی حالات ہی آپ کے مطالعۂ اخبار کا مطمحِ نظر ہیں۔ خبردار۔ ۔ ۔

’’سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری‘‘

کا راز کہیں بیگم پر افشاء نہ ہو جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بی بی شیریں اور کتا

 

                راشد حمزہ

 

بی بی شیریں نے ایک بلی پالی تھی جو کمینے کیلئے ایک عذاب سے کم نہیں تھی، ہر گزرتے لمحے کیساتھ بلی سے اسکے تعلقات خراب اور جلن بڑھتی جا رہی تھی، کمینے کو شکایت تھی کہ ایک تو بلی ’’بی بی شیریں ‘‘ کو خاصا مصروف رکھتی ہے تو دوسری طرف موصوفہ بلی سے بے انتہاء پیار بھی کرتی ہیں، کمینہ اکثر اپنی بدقسمتی پر روتے ہوئے کہتے تھے کہ میری بد قسمتی کی انتہاء تو یہ ہے کہ عرصے بعد جب بڑی مشکلوں سے اپنی لڑکی سے ملاقات کا کوئی موقع نکل آتا ہے تو آدھی سے زیادہ ملاقات بلی کی نذر ہو جاتی ہے، کمینہ کہتا ہے کہ اکثر ملاقاتوں میں بلی کی گستاخیاں اس حد تک بڑھ جاتی تھیں کہ بے اختیار جی میں آتا ہے کہ یا تو خودکشی کر لوں یا بلی بن جانے کی دعا مانگوں، میں نے خودکشی کے مقام اور دعا کے مقام کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے ’’خودکشی کا مقام وہ ہوتا ہے جب بی بی شیریں کی بلی میری چمی لینا شروع کر دے جبکہ بلی بن جانے کی خواہش تب امڈ اتی ہے جب وہ بی بی شیریں کے ہونٹ اور سرخ آنار ایسے رخساروں سے کھیلنا شروع کر دے۔ ۔ ۔ کمینہ کہتا ہے میرے لئے سب سے بڑا مسئلہ ایک یہ بھی ہے کہ بی بی شیریں کو خوامخواہ یقین ہو چکا ہے کہ اس کی کمینی بلی اسے بے حد و بے حساب پیار کرتی ہیں۔ ‘‘

جب وہ حد سے زیادہ بلی سے جلنے لگا تو اس نے بی بی شیریں کو جلانے کیلئے ایک کتا پالنے کا فیصلہ کر دیا، کتا کہیں سے ڈھونڈ لیا اور نہایت شوق سے پالنے لگا، لیکن کمینے کا کتا کمینے کی طرح کمینہ نکلا، نہ تو اس نے کمینے کی چمیاں لینے میں اپنی دلچسپیاں ظاہر کی نہ بی بی شیریں کو جلنے کا موقع فراہم کیا بلکہ کتا پالنے کے بعد کمینے کی لڑکی ان سے کترانے لگی۔ جب ملاقات کا کوئی موقع نکل آتا تو بی بی شیریں اس وجہ سے لڑنے لگتی کہ تمہارا کتا میری بلی پر لائن مارتا اور لائن ہی کیا کتے اور بلی میں اب تو ایک طرح سے دوستانہ مراسم شروع ہو چکے ہیں۔ ایک دن بی بی شیریں نے کمینے کے کتے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا مگر اس کو اپنی بلے کے ہاتھ رنگے نظر نہیں آئے۔ بی بی شیریں نے کمینے کے ہاں شکایت لگا دی کہ تمہارا کتا میری بلی میں بہت زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے جو مجھے بالکل قابل قبول نہیں۔

بی بی شیریں نے کمینے کو واضح پیغام دیا کہ اپنے کتے کو میری بلی سے دور رکھا کرے بصورت دیگر مجھ سے دستبردار ہو جاؤ، کمینے نے کتے کو راہ راست پر لانے کی محنت شروع کر دی، ایک دن ملاقات کا موقع نکل آیا تو کتا بھی کہیں سے آ نکلا اور ملاقات میں شامل ہو گیا۔ اس دن کمینہ بہت خوش تھا خوشی کی وجہ بی بی شیریں کیساتھ بلی کا نہ آنا تھا مگر اس دفعہ مسئلہ کتے نے پیدا کر دیا۔ شاید بی بی شیریں پورا دن بلی سے کھیل کر آئی تھی، کتے کو ان سے بلی کی خوشبو آتے ہوئی محسوس ہوئی تو اس نے اس کے ہاتھ بھی چاٹے اور رخسار بھی۔ بی بی شیریں کو کتے کی یہ گستاخی اتنی بری لگی کہ کمینے سے ملاقاتوں کا سلسلہ دو سال کیلئے برطرف کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ ایک طرف کمینہ بی بی شیریں کے فیصلے سے تپ رہا تھا دوسری طرف اپنے ہی کتے کا رقیب بننے پر جلال میں آ گیا تھا یوں اس نے کتے سے قطعِ تعلق کا فیصلہ کر کے کتے کو گاؤں سے پچاس کلومیٹر دور ایک دوست کے ہاں چھوڑ دیا.. اس سانحے کے بعد سے کمینہ کتے اور بلیاں پالنے کا سخت ناقد رہا ہے، اتنا کہ جہاں کہیں کتا دیکھے تو بھونکنے کے سے انداز میں بک بک کرنا شروع کرنے لگتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

دوست کے نام

 

                نیرنگِ خیال

 

ریاض میں مقیم عمرے پر جانے والے اک دوست کے نام

السلام و علیکم!

میاں کیسے ہو؟ آخری اطلاعات تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر آخری خط سے ذہنی طبیعت رواں نہیں لگتی۔ یہ چوکور ڈبہ بھی بھئی کمال کی چیز ہے۔ کہاں ہم گھنٹوں خطابت میں سر کھپاتے۔ ورق کے انتخاب پر دماغ و دل مناظرے کرتے۔ پھر قاصد کے نخرے الگ۔ مگر میاں یہ موٹا بھائی نے تو اس سے روشناس کرا کر کمال کر دیا ہے۔ ایک جھاڑو سا پکڑ کر ساری لائنوں پر پھیر دو تو بس خطاطی اور۔ ایسا دل آسا خطاط تو کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا۔ اور قاصد کی برق رفتاری تو دیکھنے لائق۔ ادھر مراسلہ لکھا ادھر ویسے چوکور ڈبے میں پہنچا۔ اور مزا یہ کہ راز داری شرط۔ بھئی بہت خوب۔ اللہ بھلا کرے ہمارے موٹے بھائی کا۔ اس چیز کا استعمال سکھا کر سیدھا جنت والے پلاٹ سے ۱۰   مرلہ زمین کے حقدار ٹھہرے۔

میاں وہ مکہ کا کیا چکر ہے ؟ ہم نے تو یہاں صوفیاء کی شاعری میں ہمیشہ یہی پڑھا کہ

مکے دے وال اوہی جاندے کم جنہاں دے ٹوٹی

اب اس مصرعہ کی روشنی میں دیکھیں تو تمہیں اچھا بھلا شریف پاتے ہیں۔ پھر ادھر جانا چہ معنی دارد؟ اور اوپر سے تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ کوّے سے تو کوئی ۴ سال چھوٹے ہی رہے ہو گے تم۔ اس بھری جوانی میں دیدارِ کعبہ! نہ میاں نہ۔ ۔ ۔ دیکھو ایسا نہ کرنا۔ یہ نہ ہو وہاں جا کر کوئی نیک ہونے کی کوئی دعا مانگ بیٹھو اور وہ ذات بے نیاز تمہیں خالی ہاتھ نہ لوٹائے۔ جب یہ جوانی ڈھلے گی تو توبہ بھی کر لینا۔ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔ سنا ہے زیارات کا بھی ارادہ کر رکھا ہے۔ تمہیں وہاں مال مڈی جمع کرنے بھیجا ہے کہ سیر و سیاحت کرنے۔ زیارات کا اتنا ہی شوق تھا۔ تو یہاں بتاتے۔ صرف ملتان اور اُچ شریف میں ہی تمہیں اتنی زیارات دکھا دیتے کہ سوچ ہے تمہاری۔ ابلیس بھی تمہاری اس حرکت سے سخت پریشان ہے۔ اور یہی شعر پڑھتا پھرتا ہے

یہ عمرے پر جانے کا کیا تذکرہ ہے

تمہارے سوا کوئی اپنا نہیں ہے

اچھا اب جا ہی رہے ہو تو دل کو درد سے نہ بھر لینا۔ جیسے گئے ہو ویسے ہی واپس آنا۔ میں نے سنا ہے کہ وہاں جا کر طبیعت بڑی نیکی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ بڑے بڑے ہل جاتے ہیں۔ اور کچھ ظالم تو خوفِ خدا سے رو دھو بھی لیتے ہیں۔ اپنے محلے کے حاجی صاحب کو دیکھتا ہوں تو اور بھی رونا آتا ہے۔ کیسے آزاد مرد تھے۔ کبھی تو دخترِ رز کے عشق میں مجذوب ہو کر صرف زیر جامہ میں ہی سڑکوں پر نکل آتے تھے اور فرماتے تھے کہ میاں پردہ دیکھنے والے کی آنکھ کا ہوتا ہے، مگر اب دیکھو تو انگور سے بھی شرماتے ہیں۔ ہر وقت چہرے پر اک رقّت طاری رہتی ہے۔ ظلم یہ کہ لوگ اس کو نیکی پر محمول کرتے ہیں۔ لو بھئی یہ کون سی نیکی ہے کہ اچھا بھلا ہنستا کھیلتا آدمی روتا پھرے اور لوگ اسے حاجی صاحب حاجی صاحب کہیں۔ بس یار دل کانپتا ہے آشیاں کو آشیاں کہتے۔ تم ننھی جان، خدا نخواستہ اس طرح الجھ گئے تو ہم۔ ۔ ۔ ۔ شش شش میرے منہ میں خاک۔ ۔ ۔ ویسے بھی تمہارے چہرے پر نورانیت بڑی عجیب سی لگے گی۔

اچھا سنو! میرے لئے تبرکات میں کھجور لے آنا۔ تمہیں پتا یہی وہ تبرک ہے جس پر مجھے سب سے زیادہ خوشی ہوتی۔ یہ اپنے محلے کے ہی باؤ جی جب گئے تھے۔ تو میرے لئے جائے نماز اٹھا لائے۔ کہنے لگے میاں میں اسے ادھر بچھا کر نماز پڑھا کرتا تھا۔ میں نے کہا قبلہ آپ نے پڑھی۔ پر مجھے کیا فائدہ۔ مجھے تو کھجور لا دیتے۔ ڈر کے مارے اس پر نماز نہیں پڑھتا کہ کہیں اثرانداز نہ ہو جائے۔ آخر کو احتیاط بہتر ہے۔

اب آخر میں نصیحت بھی سنتے جاؤ۔ اگر کوئی دلگداز واقعات سنانے شروع کرے تو فورا دل کو ادھر ادھر مائل کرنے کی کوشش کرنا۔ ان لوگوں میں عیب ڈھونڈنا تا کہ اندر کی نیکی کو حاوی ہونے کا موقع نہ ملے۔ اور کبھی کبھی تو ٹھیک ہے مگر کثرت سے ایسی جگہوں پر نہ جانا۔ آگے ہی کل کے خط میں تم نے یہ بات لکھ کر ڈرا دیا ہے کہ نمازوں میں باقاعدگی آ گئی ہے۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدمزگی

 

                ارسلان بلوچ ارسل

 

میں معمول کے مطابق اپنے کمرے میں ناک پر عینک رکھے ڈاکٹروں کی طرح میں اخبار پڑھ رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلنے کی اواز آئی اور کچھ ہی دیر میں میری زوجہ محترمہ نمودار ہوئی.ہمیشہ کی طرح ان کے استقبال میں کھڑا ہوا لیکن بیگم صاحبہ کا رویہ آج ہمیشہ سے کچھ الگ تھا۔ محترمہ کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’بیگم اگر جان کی امان پاؤں تو اس لٹکے ہوئے منہ کی وجہ پوچھ سکتا ہوں ؟‘‘

ایک ٹھنڈی آہ بھری محترمہ نے، میں نے جلدی سے حفاظتی تدابیر کی اور سوچا کہ آج پھر غصہ مجھ پہ ہی نکلے گا لیکن آج کچھ نصیب اچھے تھے، کہنے لگی ’’پانی تو پی لینے دو پھر بتاتی ہوں۔ ‘‘

میں نے بہت ادب اور احترام کے ساتھ محترمہ کو پانی پیش کیا اور ان کی پہنچ سے تھوڑا دُور ہو کے بیٹھ گیا۔ منہ کو تھوڑا اور لٹکا کے کہنے لگیں ’’ آج تو میرا دن ہی خراب ہے، فلاں کی فوتگی پہ گئی تھی، بالکل مزہ نہیں آیا، جیسے ہی پہنچی تو پتا چلا کہ خالہ گلشن اور چاچی سیمو کی لڑائی ہوئی ہے۔

مجھے بہت افسوس ہوا، میں نے بیگم صاحبہ کی ہاں میں ہاں ملائی، مجبوری جو تھی اور کہا   ’’جی بالکل لڑائی جھگڑا بری بات ہے۔ ‘‘

کہنے لگیں ’’ارے لڑائی کا افسوس نہیں، افسوس تو اس بات کا ہے کہ میں دیر سے پہنچی۔ کبھی کبھی تو ایسا موقع ملتا ہے، وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔ ابھی اس بات کا دکھ کم نہیں ہوا تھا کہ میں ماسی مسرت کے گلے لگ کے رو رہی تھی فوتگی کے افسوس میں، تو اچانک میری نظر ان کے ریشمی دوپٹے پر پڑی، بالکل وہی دوپٹہ تھا جو پچھلے ہفتے میں جمشید کی دکان سے۴۰۰ میں لائی تھی، میں روتے روتے پوچھا ’’ماسی یہ دوپٹہ کہاں سے لیا ہے، انہوں نے بھی روتے روتے جواب دیا کہ جمشید کی دکان سے ۳۵۰ کا لائی ہوں۔ یہ سُن کے تو میرا رونا ہی بند ہو گیا.اس کمبخت مارے نے مجھے ہی کیوں مہنگا دیا۔ مجھ سے اس انتہائی دکھ کے عالم میں اور رویا نہیں گیا اور نکل آئی سیدھی جمشید کی دکان پر گئی لیکن اس کمبخت کی دکان بند تھی ورنہ آج وہ میرے ہاتھ سے نہ بچتا پھر گھر آنے کے لیے رکشہ پہ سوار ہوئی۔ راستے میں رکشہ والے نے کہا ’’اماں جی کرایہ دے دیں۔ ‘‘میرا تو دماغ ہی خراب ہو گیا خوب سنائی اس کو۔ ۔ ۔ میں نے کہا، ’’میں تمہیں اماں دکھتی ہوں کیا بڈھے کھوسٹ کہیں کے۔ ۔ ۔ اِتنے میں گھر آ گیا۔ آپ یہاں بیٹھے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہیں، ہر وقت اخبار میں گھسے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ لگتا ہے مجھ سے نہیں اخبار سے نکاح ہُوا ہے آپ کا، جائیں، بچوں کو سکول سے لے کے آئیں اور ہاں، آتے ہوئے کچھ لے آنا ہوٹل سے، آج میری طبیعت نہیں ٹھیک۔

اس سے پہلے کہ کوئی چمچہ کڑچا وغیرہ چلتا، میں نے منہ کو اٹھایا اور بچوں کو لینے چل پڑا۔

٭٭٭

 

 

انشائیہ

 

سیاحت

 

                میجر عاطف مرزا

 

زندگی خالقِ کائنات کی وہ نعمت ہے جسے بالعموم کائنات میں اور بالخصوص زمیں پر ہر جگہ پر اتارا گیا۔ بے آب و گیاہ ریگستانوں سے سر سبز و شاداب میدانوں تک، اونچے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑوں سے لے کر پاتال سے معانقہ کرتے ہوئے گہرے سمندروں میں زندگی کا وجود روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ جس کا یقین حرکت کی موجودگی سے کیا جا سکتا ہے۔ پڑا پڑا تو پتھر بھی بھاری ہو جاتا ہے۔ حضر پہ نظر اور سفر سے مفر کاہلی کی علامت ہے، ایک گھر میں رہنے والے باہر سے قطع تعلقی کر لیں تو ان کی زندگی رک جاتی ہے۔ زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے آوارہ گردی ضروری ہے۔ آوارہ گردی ذرا سٹائل سے کی جائے تو یارانِ نیک نام اِسے سیّاحت کا نام دے دیتے ہیں۔ سیّاحت سفر کی وہ قسم ہے جس میں صعوبتوں سے بھی لطف اٹھایا جاتا ہے، یہ خالصتاً بے سکونی کی زندگی سے نکل کر کسی دور دراز علاقے میں جا کر بے سکون ہونے کا نام ہے۔ سیّاحت اور آوارہ گردی میں شاید ہلکا سا فرق ہو مگر جب یہ دونوں ایک ہی شخص کی عادت کا درجہ حاصل کر لیں تو پھر کہاں کے سفر اور کون مقیم…!!؟؟

آوارہ گرد سیّاح کبھی کسی ابن بطوطہ کے تعاقب میں نہیں نکلتے، وہ کبھی واسکو ڈے گاما بھی بننا پسند نہیں کرتے کہ اُن کی ’غلطی‘ کی سزا تاریخی یا سیاسی طور پر حال اور مستقبل کی نسلوں پر عذاب کی صورت مسلط رہے۔ ہاں جہاں وہ جاتے ہیں وہاں کا پتا وہ جدی پشتی آوارہ گردوں کو ہی دیتے ہیں۔ اُن کے یقین کے مطابق کم ظرف سیّاح اُس جنت نظیر مقام کی بے حُرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ تارڑ صاحب اور بیشتر سیّاحوں نے اپنے سفر ناموں میں کچھ کم ظرف سیّاحوں کی طرف سے کی جانے والی بے حرمتیوں کا ذکر بڑے رقت آمیز انداز میں کیا ہے۔ پاکستان کے کئی پُر فضا مقامات ایسے ہیں جن کے بارے میں بڑے جید سیّاحوں نے یہ فیصلہ لکھا ہے کہ اُن مقامات کو انسانوں کی دسترس اور پہنچ سے دور اور محفوظ کر دیا جائے، تاکہ آئندہ مشینی دور کی نسلوں کو ماضی کی خوب صورت یادوں کے نمونے کے طور پر دکھایا جا سکے۔ پاکستان کے علاوہ سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، ملائشیا، یونان، اٹلی، امریکہ، برطانیہ اور دوسرے ممالک میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں سیّاحوں کے قدم راستوں سے پہلے پہنچے۔ سیّاحوں کے تخلیق کردہ اِن راستوں پر اُن کے شاگرد اور مقلد بھی پہنچے۔ مگر کچھ مقامات پر اِنہی راہوں سے ہوتے ہوئے غلیظ جسموں اور مکروہ سوچوں والے سبز قدم پہنچے تو وہاں کی عفت اور حرمت ایسے پامال ہوئی جیسے کوئی شریف زادی جھوٹی محبت کے جال میں پھنس کر بے حال ہوئی۔

سیاحت کسی بھی ملک میں دولت، علم اور رواج لے کر داخل ہوتی ہے اور وہاں کے علاقوں اور لوگوں کے حسن اور حسنِ سلوک کے قصے لے کر واپسی کا رُخ کرتی ہے۔ سیاح کے لیے پیشے، مقام، قبیلے، ذات، تعلیم، مذہب، عہدے کی کوئی قید نہیں۔ ہاں یہ تمام چیزیں سیّاحت کے انداز پر ضرور اثر انداز ہوتی ہیں۔ سیّاح دنیا کا وہ شخص ہوتا ہے جو خوار ہونے کی بھی قیمت ادا کرتا ہے، اور اُسے ایڈونچر کا نام دے کر اپنے پیسے پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تقریباً ہر سیّاح اپنے تازہ ترین سفر کو سب سے بُرا اور بے آرام گردانتے ہوئے آئندہ سیّاحت سے توبہ کر لیتا ہے۔ مگر کچھ روز بعد اِسے یہ آرام و آسائش کاٹنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ اپنا بوریابستر گول کر کے پھر سے خواریوں کا سفر اختیار کر لیتا ہے۔

کہتے ہیں کہ پہلے سیّاح اپنے سفر کی کار گزاری زبانی یاد رکھتے تھے اور زبانی ہی دوسروں کو سُنا کر لطف اندوز ہولیا کرتے تھے۔ پھر کسی ایک سیّاح نے اپنے چیدہ چیدہ واقعات کی تفصیل کو کاغذی یاد داشت کے طور پر محفوظ کرنا شروع کر دیا اور پھر یاروں دوستوں کے اُکسانے پر اُس نے وہ رُوداد کتابی صورت میں چھاپ دی، ایسے سفر نامے کا آغاز ہوا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سفر ناموں کا فیشن سامنے آیا۔ فی زمانہ اصلی سفر نامے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سفر نامے کو دوام بخشنے میں ادیب قسم کے سیّاحوں نے اہم کردار ادا کیا، انہی کی کوششوں سے سفر نامے کو ادب کا حصہ تسلیم کر لیا گیا۔ سفر نامہ لکھنے کے دو طریقے ہیں، پہلا کہ آپ سیر و سیّاحت کریں، نگر نگر گھومیں اور پیش آنے والے تمام واقعات کو اپنے احساسات کے ہمراہ کاغذ پر منتقل کر دیں۔ دوسرا کچھ مختلف ہے اور اِسے فکشن یا کہانی نگاری کے علاوہ کوئی اور نام دینا سفر نامے کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ دنیا کا نقشہ کھولا، ایک دو مقامات چنے، اپنے شہر سے وہاں تک کے فاصلے ناپے، راہ میں پڑنے والے علاقوں اور لوگوں کے بارے میں ذرا سی تفصیل کسی کتاب یا انٹر نیٹ سے حاصل کی۔ کہیں اور سے رسوم و رواج کا حال معلوم کیا، پھر اِسے ایک خود ساختہ افسانے کے مکس کیا، تھوڑا سا مزاح کا تڑکا لگایا، چھ سات دوستوں کے نام ڈالے، کچھ فرضی کردار و واقعات ترتیب دیے اور یوں ایک معرکۃ الآراء سفر نامہ تخلیق کر کے ادب کے حوالے کر دیا۔ کچھ روپے پیسے یا پی آر والے تو اِس سفر نامے کی تقریبِ اجراء یا رونمائی کر کے اِسے ادب پر ایک احسانِ عظیم ثابت کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

سیّاحت کچھ ممالک میں باقاعدہ صنعت کا درجہ رکھتی ہے اور اِسے مِن حیث القوم اِسے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ فروغ سیّاحت کے لیے کئی باقاعدہ محکمے کام کرتے ہیں۔ سیّاحوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بہت سے لوگ بڑی تَن دہی سے مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ممالک میں تو یہ تندہی سیّاحوں کو لُوٹنے کے لیے برتی جاتی ہے۔ سادہ لوح سیّاحوں کو سو (۱۰۰) روپے کی چیز پانچ سو (۵۰۰) کی بتا کر تین سو (۳۰۰) میں فروخت کر دی جاتی ہے، اِس لیے طرح طرح کے حربے اور حیلے بہانے کیے جاتے ہیں۔

سیاحت کو کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ اِسی وجہ سے کچھ اقوام سیّاحت کے نام سے بھی چڑتی ہیں۔ سیّاحوں کو مختلف مقامات کی تاریخ وغیرہ سے رُوشناس کرانے کے لیے گائیڈ ہر ملک میں مل جاتے ہیں۔ یہ مسٹر گائیڈ عموماً چرب زبان، شاطر اور کایاں ہوتے ہیں، بلکہ اس شعبے میں آتے ہی ایسے لوگ ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی گھٹیا سے مقام کو گھی میں تلی دال کے مصداق کسی بڑے آدمی سے ملا کر پیش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ سیّاحوں کے روپ میں کئی طرح کے لوگ کسی بھی ملک میں داخل ہوتے ہیں جن میں جاسوس اور طلباء سر فہرست ہیں۔ مزدور طبقہ کسی بھی ملک میں داخلے کے لیے وزٹ ویزہ استعمال کرتا ہے۔ سیّاح دورانِ سفر اپنی یا کسی کی قسمت بھی بدل دیتے ہیں، ایسا عموماً عاشق مزاج قسم کے سیّاح کرتے ہیں۔

ہر سیّاح مسافر ہوتا ہے جب کہ ہر مسافر سیّاح نہیں ہوتا۔ سیّاح کے بنیادی مقاصد میں سفر شامل ہوتا ہے جب کہ مسافرکے مقاصد میں سیّاحت کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ سیّاحت پہلے پہل ایک چسکہ ہوتی ہے، بعد میں عادت اور پھر ضرورت یا مجبوری بن جاتی ہے۔ سیّاحت میں آرام و آسائش کی تلاش میں نکلنے والوں کو سکون تو کیا سیّاحت بھی نصیب نہیں ہوتی۔ جب کہ خالصتاً سیّاحت کی کھوج میں نکلنے والے کو خواری بھی آسائش لگتی ہے اور وہ بخوشی اِس خواری سے استفادہ کر کے اگلے سفر کے لیے زادِ راہ کر لیتا ہے۔ سیّاحت کے لیے کئی عادات کی ضرورت پڑتی ہے جن میں سے ایک پاگل ہونا بھی ہے۔ سیدھی سی بات ہے آسانیاں چھوڑ کر مشکلات کی تلاش میں نکلنا، خانماں خراب ہونا پاگل پن ہی تو ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

پہئے اور گدھے

 

                محمد اشفاق ایاز

 

کہتے ہیں کہ جدید سائنس کی بنیاد پہئے کی ایجاد تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پہیہ گول ہوتا ہے اور روٹی بھی گول ہوتی ہے۔ اب یہ پتہ نہیں کہ انڈے اور مرغی کی بحث کی طرح روٹی پہلے ایجاد ہوئی تھی یا پہیہ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت کے کسی شغلی سائنسدان نے پتھر کو روٹی کی شکل دی ہو۔ جب پتھر کی اس روٹی نے لڑھکنا شروع کیا تو یار لوگوں نے اسے اپنے تفریحی مقاصد کے لئے استعمال کر نا شروع کیا۔ پتھر کے دور کا یہ کھیل ذرا مختلف شکل میں اب بھی باقی ہے۔ گلی محلے کے بچے سائیکل یا موٹر سائیکل کا ٹائر لے کراسے ڈنڈے کی مدد سے بھگاتے چلے جاتے ہیں۔ قدم دو چار قدم پر جب اس کی رفتار سست ہونے لگتی ہے تو چھڑی یا ڈنڈا رسید کر کے اسے اس کی اوقات یاد دلا دیتے ہیں۔

پتھر کی روٹی کا لڑھکنا تھا کہ کھیل ہی کھیل میں لوگوں نے اس کے سفری استعمال کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ لیکن پتھر تو پتھر ہی ہوتا ہے۔ اور پتھر بھاری ہوتا ہے۔ اس کے لڑھکنے کی راہ میں کئی دشواریاں پیش تھیں۔ بعد کی تحقیق میں لکڑی کے استعمال پر غور کیا گیا۔ یوں لکڑی کے پہئے بننا شروع ہو گئے۔ ان کا وزن ہلکا اورا ستعمال بھی آسان ہو گیا۔ جب پہیہ ایجاد ہو گیا تو ہتھ گاڑیاں اور چھکڑے وجود میں آنے لگے۔ پہلے تو ان گاڑیوں کو انسان کھینچتے تھے۔ پھریہ بھی ایک مشکل کام نظر آنے لگا۔ تو جن جانوروں کوسامان ڈھونے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ انہیں ان جدید گاڑیوں میں جوت کر کام چلایا گیا۔ ان میں زیادہ تر گھریلو جانور استعمال ہونے لگے۔ کیوں کہ ان میں انسان کی خدمت کا جذبہ کچھ زیادہ ہی بھرا ہوا تھا۔ گائے، بھینس، گھوڑے کے خاندان کے جانور اس خدمت کے لئے سرفہرست ٹھہرے۔

گائے اور بھینس خاندان کے جانوروں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ جب تک چاہا انہیں گاڑی میں بطور بغیر پٹرول چلنے والے انجن کی طرح استعمال کیا۔ جب دیکھا کہ ان میں مزید کام کی سکت نہیں رہی، تو اس سے لذت کام و دہن کا کام لے لیا۔ دوسری طرف گھوڑے کا خاندان بھی عوامی خدمت میں کسی سے کم نہ تھا۔ جب چاہا اسے گاڑی کے آگے جوتا اور جب چاہا اس پر سوا ہو کے سیر کو نکل پڑے۔ اب گھوڑا مانے یا نہ مانے، گدھا اس کا قریبی رشتہ دار ہے۔ بلکہ گدھا ہونے کے باوجوداس کا استعمال گھوڑے سے زیادہ چلا آ رہا ہے۔ تاہم ستم ظریفی یہ تھی کہ خواہ گھوڑا ہو یا گدھا یہ اسی وقت تک انسان کو پیارا لگتا تھا جب تک یہ اس کے کام آتا تھا۔ ذرا بیمار ہوا، یا بڑھاپے میں قدم رکھا، اسے دیس نکالا دے کر کسی کھیت میں یا سڑک کنارے مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس ناروا سلوک پر یہ احتجاج بھی نہ کر سکتے تھے۔ جہاں کسی کھیت میں، سڑک کنارے یا گلی کی نکڑ پر دو چار ’’بزرگ‘‘ گدھے مل بیٹھتے تو نظروں ہی نظروں میں یہی سوال کرتے ’’ہمارا کیا بنے گا‘‘۔ یوں بیچارا گھوڑا یا گدھا ہزاروں خواہشیں دل میں لئے آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اتر کر کوؤں، چیلوں اور گدھوں کے پیٹ میں چلا جاتا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ شیر بھی جانور ہے اور گدھا بھی۔ شیر درندگی اور خوف کی علامت ہے جبکہ گدھا معصومیت اور مظلومیت کی۔ شیر کا تصور آتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جبکہ گدھا سامنے سامنے ہو تو اس کی پیٹھ پر دو چار ڈنڈے برسانے کو جی چاہتا ہے۔ دوسری طرف ستم ظریفی یہ ہے کہ شیر کی ہیبت ناکی کے باوجود لوگ بڑے شوق سے اپنا نام ’’شیر خان‘‘، ’’شیر محمد‘‘ اور ’’شیر بچہ‘‘ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ آج تک کسی نے اپنا نام ’’گدھا ‘‘ نہیں رکھا۔ سوائے سکولوں میں ’’ماسٹرجی‘‘ کے عطا کردہ نام کے۔ سبق نہ آنے پر جب ماسٹر جی ایک ہاتھ سے کان پکڑتے، دوسرے سے مولا بخش لہراتے اور زبان مبارک سے ’’اوئے کھوتے دیا پترا‘‘ کہتے تو کتنا بھلا معلوم ہوتا۔ بعض شاگرد کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ذہین ہوتے ہیں۔ ایک استاد نے ایک ایسے ہی ذہین شاگرد سے کہا ’’تم گدھے کی اولاد ہو‘‘ شاگرد بغیر جواب دئے اپنے پاؤں کو غور سے دیکھنے لگا۔ اور بولا ’’ سر جی مگر میرے پاؤں تو انسانوں کی طرح ہیں ‘‘۔

گدھا ایک ایسا جانور ہے جو سارا دن گالیاں اور ڈنڈے کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوتا۔ وہ اتنا سادہ ہے کہ صبح سے شام تک مالک کے ڈنڈے کھاتا ہے۔ اور شام کواس کی کھرلی سے چند خشک دانے کھا کر ساری مار بھول جاتا ہے۔ اور دوسری صبح پھر سر جھکائے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل میں تک کھڑا ہوتا ہے۔ گدھا ایک ایسا جانور ہے جو پیدائش سے وفات تک گدھا ہی رہتا ہے۔ بلکہ انسانوں میں بھی ’’کچھ‘‘ گدھے بنا دیتا ہے۔

پھر جوں جوں زمانے نے ترقی کی ہے۔ چھکڑوں کی جگہ گاڑیاں آ گئیں، لکڑی کے پہیوں کی جگہ ربڑ کے ٹائر گھومنے لگے، ان گاڑیوں کو سڑکوں پر رواں دواں رکھنے کے لئے گائے، بھینس، گھوڑے اور گدھے کی جگہ انجن کھینچنے لگے۔ ایک بات قابل ذکر رہی کہ اس افرا تفری اور زوال پذیری کے دور میں بھی گائے اور بھینس کی قدرو منزلت کم نہ ہوئی۔ کیونکہ ان کا دودھ ’’انسانی ماؤں ‘‘ کے دودھ سے کہیں زیادہ قیمتی اور درجہ ء فضیلت پر تھا۔ ایسے میں گھوڑوں اور گدھوں کو خوشی سے ہنہنانے اور دولتیاں جھاڑ کر ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے دن قصہ ء ماضی بنتے محسوس ہونے لگے۔ ان کا استعمال کم سے کم ہونے لگا تھا۔

کہتے ہیں بارہ سال بعد روڑی کی بجھی سنی جاتی ہے۔ لیکن گدھے کی دعا کی قبولیت میں کئی صدیاں بیت گئیں۔ جدید دور کے پھیلتے کاروبار، شہر شہر قریہ قریہ قائم ہوٹلوں، شادی ہالوں اور فوڈ سٹریٹس میں گوشت کے پکوانوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا۔ طلب اور رسد کی اس مانگ کو پورا کرنے کے لئے غور شروع ہوا۔ اسی غور و فکر میں غلطاں ایک ’’ہوٹلی ماہر غذائیات‘‘ کی نظر دور کھیتوں میں آخری سانسیں لیتے ایک گدھے پر پڑی۔ ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔ اور بس وہ اپنے تجربے کو آخری شکل دینے کے لئے رات کا انتظار کرنے لگا۔ اسے گویا انسانیت کی بقا کا پتہ چل گیا تھا۔ رات ہوئی، وہ کھلا میدان لیبارٹری بن گیا۔ اور اس نامعلوم سائنسدان کے خدمت انسانی کے جذبے سے وہ گدھا بے موت مرنے سے بچ گیا اور دوسرے بڑے شہر کے بڑے ہوٹل میں آنے والوں کے پیٹ میں اتر گیا۔ تجربہ کامیاب رہا۔ ’’ماہر غذائیات‘‘ کی کوششوں سے راندہ ء درگاہ بنتے گدھے، دن کی روشنی میں نہ سہی، راتوں رات درجہ ء قبولیت کو پہنچ گئے۔ جدید دور میں گدھے کے گوشت کا ہوٹلوں اور فوڈ سٹریٹس میں استعمال ایسی دریافت تھی۔ جو پتھر کے زمانے سے لے کر اب تک کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ یا شائد کم انسانی آبادی اور گائے بھینس کی وافر موجودگی کی وجہ سے لوگوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا ہو گا۔

بات آگے بڑھی تو گدھے کی افادیت پر کئی اور حلقے بھی غور و فکر کرنے لگے۔ امریکہ میں ایک پارٹی کا مستقل انتخابی نشان گدھا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ان کا لیڈر گدھوں کا لیڈر ہے۔ حالیہ دنوں میں گدھوں کو خود کش حملوں میں بھی کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے وقت کے ساتھ ساتھ گدھوں کی افادیت اور استعمال پر مزید تحقیق جاری رہے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

کتابی چہرے

 

حُسن شناسی۔ حسن عباسی

 

                سید بدر سعید

 

جس طرح ساتویں بچے کی پیدائش پر ہمارے ہمسائے کو خیال آیا کہ آٹھواں بچہ موٹر سائیکل پر نہیں پھنس سکے گا اسی طرح ایک دن موٹر سائیکل چلاتے چلاتے حسن عباسی کو احساس ہوا کہ اگلی شاعرہ کی آمد پر بہت جلد اسے ٹینکی سے ہینڈل پر آنا پڑے گا سو دونوں نے گاڑی خرید لی۔ مشاعروں میں حسن عباسی کو دیکھ کر اختر ریاض الدین کی ہوائی والی گاڑی یاد آ جاتی ہے، ہمارے دوست ’’ب‘‘ المعروف شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ حسن عباسی پارٹ ٹائم پبلشر ہے جبکہ فل ٹائم شاعرات ’’ڈھونے‘‘ کا کام کرتا ہے۔ وہ شاعرات جنہیں اکیلے، رات کوغیر مردوں کے ساتھ مشاعروں میں آنے کی اجازت نہیں ملتی انہیں لانے کا کام حسن عباسی انجام دیتا ہے معلوم نہیں کیوں ان کے گھر والے اسے ’’مرد‘‘ نہیں سمجھتے۔ حسن عباسی کو پانی، مسجد، کتاب اور لڑکیوں سے محبت ہے کہتا ہے پہلی تین چیزیں نہ ہوں تب بھی کام چلا لوں گا۔ کہتا ہے میں نے اپنے پہلے شعرسمندر کی ریت پر لکھے تھے میں نے پوچھا پھر کیا ہوا؟ تو کہنے لگا جس کے لیے لکھے تھے اسی نے گھر شکایت لگا دی کہ حسن ریت کھاتا ہے۔ اردو بازار کے پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن عباسی نے بہت محنت کی ہے شاہ صاحب کا کہنا ہے واقعی بہت محنت اسی لیے اس کے سر پر نئے بال اگ آئے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جتنا مشہور لاہور میں ہے اس سے کہیں زیادہ پشاور اور دبئی میں ہے۔ شکل و صورت کچھ ایسی ہے کہ ایک مرتبہ دبئی مشاعرہ پڑھنے گیا تو شیخ صاحبان نے غزل سے پہلے ہی واہ واہ شروع کر دی۔ اس کی غزل ’’ تیری مشکل نہ بڑھاؤں گا، چلا جاؤں گا‘‘ کافی مشہور ہوئی لیکن مشاعرے میں سنانے سے پرہیز کرتا ہے کیونکہ جیسے ہی پہلا مصرعہ پڑھتا ہے منچلے ’’ چلے جاؤ، چلے جاؤ‘‘ آواز لگا دیتے ہیں۔ ہر بات شاعرانہ انداز میں کرتا ہے، یہاں تک کہ کوئی بیوی بچوں کا پوچھے تو کہتا ہے:

ایک بیوی ہے تین بچے ہیں

عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں

وزن کی خرابی کے ڈر سے ابھی تک تین ہی بچے ہیں۔

حسن عباسی سب سے بنا کر رکھتا ہے اسی لیے ہمیں شک ہے کہ وہ زن مرید ہے جبکہ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ وہ رن مرید ہے کیونکہ زن عموما ایک اور زیادہ سے زیادہ چار ہوتی ہیں۔ اس کی ہر تحریر میں پھول، بادل، اور لڑکی ضرور ہوتی ہے۔ کسی کا تعزیت نامہ لکھے تو اس میں بھی کوئی خوبصورت لڑکی ضرور ڈال دے گا جیسے لڑکی نہ ہوئی کوئی پکا پکایا پھل ہو گیا۔ اگر کسی چیز کا بار بار ذکر کرنے پر انسان میں وہی خصوصیات آ جاتیں تو حسن عباسی آج دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوتا۔

اس کا کہنا ہے کہ لڑکیاں اس کی شاعری پر مرتی ہیں، یہ الگ بات کہ اس پر مرنے والی لڑکیاں بھی شادی کسی اور سے ہی کرتی ہیں۔ ادبی تقریبات میں عموماً سب سے پیچھے والی لائن میں بیٹھتا ہے کہتا ہے وہاں بیٹھ کر آگے والوں کی چغلیاں کرنے میں جو مزا ہے وہ اور کسی کام میں نہیں۔ سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کا قائل ہے البتہ لڑکیوں کو دونوں آنکھیں کھول کر دیکھتا ہے۔ حسن عباسی نے سفر نامے لکھنے کا آغاز کیا تو معلوم ہوا اس کے ہاں بھی مستنصر حسین تاڑر والا معاملہ ہے۔ یعنی جہاں جاتا ہے لڑکیاں اس کے آگے پیچھے منڈلاتی پھرتی ہیں کبھی ہم تارڑ صاحب کے سفر نامے پڑھ کر سوچا کرتے تھے کہ بیرون ملک سفر کے دوران ان کے آگے پیچھے پھرنے والی لڑکیاں کیا اندھی تھیں ؟ اب یہی حسن عباسی کے بارے میں سوچتے تھے لیکن ایک دن ان میں سے ایک لڑکی کی تصویر دیکھ لی تو حسن کی بات پر یقین آ گیا کیونکہ وہ لڑکی اس سے بھی زیادہ کالی تھی۔

حسن عباسی پاکستان سے باہر ہونے والے عالمی مشاعروں میں ضرور جاتا ہے کہتا ہے وہاں لڑکیاں مجھے چھیڑتی ہیں تو اچھا لگتا ہے، ۔ اس کی قسمت ایسی ہے کہ بیرون ملک کسی حسینہ کو غزل سنانے لگے تو پاس سے کوئی کالا آ جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسی جرات کرے تو اس کا اپنا سالا آ جاتا ہے۔ اصولوں کا اتنا پابند ہے کہ آوارہ گردی بھی ٹائم ٹیبل کے مطابق کرتا ہے، آوارہ گردی کرنے نکلے تو بھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کہاں کہاں جانا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح گٹار بجانا سیکھ لے ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا گٹار ایک ایسا ساز ہے جو کسی لڑکی کو سکھانا ہو تو پہلے اسے گود میں بٹھانا پڑتا ہے ہم نے پوچھا پھر سیکھا کیوں نہیں تو معصومیت سے کہنے لگا : ’’سیکھنے تو گیا تھا لیکن وہاں اصلی خان صاحب بیٹھے سیکھا رہے تھے۔ ‘‘

حسن عباسی ک ولکھنے پڑھنے کا بہت شوق ہے شاید اسی لیے جسے عشقیہ خط لکھے اس کی گالیاں بھی شوق سے پڑھ لیتا ہے۔ حسن سے جب بھی ملیں اس کی گفتگو میں لڑکیوں کا ذکر ضرور ہوتا گا یہاں تک کہ لڑکیوں سے بھی لڑکیوں کی باتیں کر لیتا ہے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس کی زندگی میں لڑکیوں کی وہی اہمیت ہے جو کھانے میں نمک کی، لیکن ہمیں شاہ صاحب کی بات سے سخت اختلاف ہے کیونکہ کھانے میں نمک ضروری، ضرور ہوتا ہے لیکن کم کم بھی ہوتا ہے۔ اسے شاعرات وہی اچھی لگتی ہیں جو ’’بے وزن‘‘ ہوں کہتا ہے ’’وزن‘‘ میں خود پیدا کر لوں گا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حسن عباسی کا شمار ان شاعروں میں کیا جاتا ہے جنہیں اوزان کا علم ہے اور وہ بے وزن شاعری کو باآسانی وزن میں کرنے پر قادر نظر آتے ہیں۔ حسن عباسی بہت اچھا دوست اور مخلص انسان ہے، آج کے دور میں ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں جو مخلص بھی ہوں اور ادبی انداز میں گفتگو کرنے پر بھی قادر ہوں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اسے ڈھیرساری خوشیاں عطا فرمائے۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس کے معاشقوں کو دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے کہ اسے ہر سال کم از کم تین چار خوشیاں تو ضرور ملتی ہوں گی لیکن یہ بدنامی کے ڈر سے چھپا لیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ارشاد العصر جعفری۔ ادب کا آل راؤنڈر

 

                خادم حسین مجاہدؔ

 

ارشاد العصر جعفری ہمہ جہت تخلیق کار ہے ادب کا کوئی شعبہ ہو اس میں آپ کو اس کا نام ضرور ملے گا۔ یہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، کہانی کار، ڈرامہ نگار، ناول نگار، بچوں کا ادیب، سفرنامہ نگار، مضمون نگار اور مزاح نگار ہے۔ اس سے بڑی بات یہ کہ اس نے ادب کے ہر شعبے میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کو کسی ایک شعبے میں محدود کر کے لیبل نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں تخلیق کی حیرت انگیز قوت پائی جاتی ہے۔ اگر آپ اس کے تخلیقی میدانوں میں کارناموں پر نظر دوڑائیں تو انگشتِ بدنداں رہ جائیں کہ بطور معلم اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ناول، کہانیاں، افسانے، ڈرامے، غزل، نظم اور طنز و مزاح میں اپنا وافر حصہ ڈالنا کس طرح ممکن ہے

مجھے ارشاد کے ہاں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ اس کی رفتار ہے، جتنی دیر میں عام رائٹر کوئی بڑی کہانی لکھتا ہے اتنی دیر میں یہ ناول لکھ لیتا ہے۔ اس تیز رفتاری کے باوجود تحریر کا معیار بھی متاثر نہیں ہوتا۔ یہ عام لوگوں کی طرح سوچ سوچ کر نہیں لکھتا بلکہ جب لکھنا شروع کرتا ہے تو اس کا قلم مشین کی طرح چلنے لگتا ہے۔ اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے تخلیقات اس پر بنی بنائی نازل ہوتی ہیں۔ یہ تو بس ان کو تحریر کرتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی تحریر میں بے ربطی کہیں محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی معیار میں کوئی کمی ہوتی ہے۔

دوسری چیز جو ارشاد کی تحریر کی نمایاں خصوصیت ہے وہ ہے اس کا زبردست مشاہدہ، یہ مثالی یادداشت کا مالک ہے اور حیرت انگیز قوتِ مشاہدہ کے ساتھ اس کی یادداشت تحریر میں نئے گل کھلاتی ہے۔ یہ برسوں پہلے کی باتوں کو جزئیات سمیت یاد رکھتا ہے اور جونہی موقع ملے انہیں پوری تفصیل کے ساتھ بیان بھی کر دیتا ہے۔ اس کی تحریر میں روانی اور سلاست ہے۔ یہ فطری تخلیق کار ہے اس لئے تحریر میں کبھی ثقیل اور ادق الفاظ استعمال کر کے اسے بوجھل نہیں بناتا۔ اس کی تحریر دل سے نکلتی ہے اور دل میں اتر جاتی ہے۔

ارشاد بنیادی طور پر نثر نگار ہے اور نثر کے ہر شعبے میں اس کا کام نمایاں ہے۔ لیکن شاعری بھی یہ اسی رفتار سے کرتا ہے۔ شاعری میں اس کا پسندیدہ میدان نظم ہے۔ کئی بہت سی اچھی نظمیں اس کے کریڈٹ پر ہیں

چند سال پہلے اس نے عمران سیریز سے متعلقہ ناول لکھنا شروع کئے اور ایسے ماحول میں کہ جہاں قاری محض ایک آدھ نام سے ہی عمران سیریز پڑھنا چاہتے تھے ارشاد نے اپنی ایک پہچان بنائی۔ اور قارئین کو اپنے ناول کے انتظار کا عادی بنا دیا۔ اب جبکہ ملٹی میڈیا کے طوفان نے کتب بینی کو کم کر دیا ہے اور ادب رو بہ زوال ہے تو اس نے ادب کی ترویج و ترقی کے لئے ادبی ویب سائٹ قلم اردو بنائی ہے جس پر دنیا بھر کے شعرا ء اور ادباء کی تخلیقات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اپنی تحریریں اور ناول بھی شائع کر رہا ہے۔

ارشاد اردو زبان کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان میں بھی لکھتا ہے سرائیکی میں سیرت کی کتاب ’’سوجھلا ‘‘ پر یہ صوبائی اور قومی ایوارڈ حاصل کر چکا ہے۔ یہ سرائیکی ڈرامے بھی لکھ رہا ہے اور اردو بھی۔ ۔ ۔ افسانہ اور کہانی ارشاد کا خصوصی میدان ہے۔ یہ کئی کہانیوں پر انعام اور ایوارڈ لے چکا ہے اس کی کئی کتب شائع ہو چکی ہیں اور کئی منتظرِ اشاعت ہیں۔ یہ ان کو عام اشاعت کے ساتھ ساتھ نیٹ پر بھی شائع کر رہا ہے اور اگر آپ اسے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس نے کبھی اپنی صحت پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی ادب پر دیتا ہے۔ ادب پرور لوگ آج کے دور میں ملنے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہیں اس لئے ان کا دم غنیمت سمجھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

سہ ماہی کی کتاب

 

قیس چلبلائی

 

ایک چلبلا ناول

 

 

                نوید ظفر کیانی

 

یادش بخیر، غالباً اُس وقت میری عمر یہی کوئی بارہ برس تھی، میرے ایک دوست ضیا معین نے مجھے ایک رسالہ تھمایا اور پڑھنے کی پُر زور سفارش کی۔ اُس رسالے کا نام ’’ماہنامہ قہقہہ‘‘ تھا۔ یہ رسالہ اُردو طنز و مزاح کا عظیم مرقع تھا اور یہ پہلا موقع تھا جب مجھ پر منکشف ہوا کہ پاکستان میں اُردو طنز و مزاح کا ایک مکمل رسالہ بھی کہیں شائع ہوتا ہے۔ اُس دن کے بعد میں ہر ماہ اپنے جیب خرچ سے یہ رسالہ خریدا کرتا تھا۔ بعد میں یہ رسالہ مختلف ناموں کی پٹڑی پر چلتا ہوا ’’تیس روزہ چاند‘‘ کے نام سے طلوع ہوا اور اِسی نام کے ساتھ پھر غروب بھی ہوا۔

’’تیس روزہ چاند‘‘ میں مجھے بہت سے ایسے اہلِ قلم نے متاثر کیا جو مسلسل کئی برسوں تک پوری تندہی سے لکھتے رہے اور اِن میں بعض لکھنے والوں نے اِتنا اچھا مزاح تخلیق کیا کہ آج بھی چاند کے گزشتہ شمارے کھولتا ہوں تو جیسے کھو سا جاتا ہوں۔ اِنہیں میں ایک نام سید ارشاد العصر جعفری کا بھی ہے۔

ارشاد صاحب نے چاند میں خاصی چاند ماری کی۔ کم از کم مجھے ہر ماہ جن اصحاب کی تحریروں کا انتظار ہوتا تھا اُن میں اِن کا نام بھی شامل تھا۔ اِنہوں نے چاند میں خاصے معرکے کی چیزیں لکھی ہیں۔ قیس چلبلائی اس کی ایک جھلک ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ارشاد صاحب نے ایک نوٹ میں واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ:

’’ 1990سے 1994 تک ہم میٹرک اور ایف اے کے سٹوڈنٹ تھے اسی زمانے میں ہم پاکستان بھر کے دیگر رسائل کے ساتھ ساتھ مزاحیہ ماہنامے ’’ چاند‘‘ میں بھی ذوق و شوق سے لکھتے تھے۔ یہ ناول انہی چھوٹی چھوٹی تحریروں کو ربط دے کر تیار کیا گیا ہے۔ ‘‘

اگر چہ ارشاد صاحب نے ’’قیس چلبلائی ‘‘ کی تجسیم میں بہت سی ایسی تحریروں کا مسالا گوندھ گوندھ کر ملایا ہے جو مختلف اوقات میں لکھی گئی ہیں اور جن کا ماحول بھی ایک دوسرے سے قطعاً مختلف تھا لیکن اُنہوں نے اِس مہارت سے اِن تمام مختلف تحریروں کو ایک لڑی میں پرویا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس ہار کے پروئے جانے والے موتی مختلف رنگوں کے حامل ہیں۔ مختلف ادوار میں لکھے گئے واقعات پر کسی ایک کردار کا کمبل ڈالنا ارشاد صاحب کا ہی کام ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ لکھے جانے والے واقعات قیس چلبلائی کے کردار سے مبرا ہو کر لکھے گئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بھی ارشاد العصر جعفری کا ایک منفرد کارنامہ ہے جو اُن کی ہم جہتی شخصیت کا ایک اور دریافت کردہ رنگ ہے۔

اُردو ادب میں ایک مکمل مزاحیہ ناول کا لکھا جانا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بہت سے مزاحیہ ناول لکھے جا چکے ہیں۔ اُردو طنز و مزاح کے لئے ’’اودھ پنچ‘‘ کا دور ایک سنہرا دور ہے۔ اس دور میں اودھ پنچ کے لکھنے والوں نے بہت سے ایسے طویل ناول لکھے ہیں جو اودھ پنچ میں قسط وار شائع ہوئے ہیں اور پھر بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ منشی سجاد حسین کا ناول ’’تمیز الذین‘‘ تو ریختہ ڈاٹ کام پر بھی موجود ہے۔ بعد ازاں بھی بہت سے ایسے شگفتہ بیان ناول نگار گزرے ہیں جنہیں بلا مبالغہ طنز و مزاح پر مبنی ناول نگار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں شوکت تھانوی کا ذکر نہ کیا جائے تو موضوع کے ساتھ سراسر نا انصافی ہو گی۔ شوکت تھانوی نے اسی (۸۰) کے قریب ناول تخلیق کئے ہیں جو بظاہر رومانوی تھے لیکن شوکت تھانوی کے شگفتہ اور برجستہ اندازِ بیان نے اِن ناولوں کو طنز و مزاح کی ایک ایسی طرز تغویض کی تھی جو اسے بلا مبالغہ فکاہیہ ناول کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ شوکت تھانوی کا یہی شگفتہ اندازِ بیان اور برجستگی ہے جس کی بناء پر اُنہیں اُردو ادب کا ’’پی جی ووڈ ہاؤس‘‘ کہیں تو بیجا نہ ہو گا۔ اسی طرح ابنِ صفی (اسرار احمد، طغرل بوغا) کا ناول ’’تزک دو پیازی‘‘ بھی ایک خاصے کی چیز ہے۔ ابنِ صفی کے سری ادبی رجحانات کے برعکس یہ ناول مکمل طور پر فکاہیہ ہے۔ اس ناول میں ابنِ صفی صاحب کے فکاہی جوہر کھل کر سامنے آئے ہیں۔

موجودہ دور میں گلِ نوخیز اختر کے ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ کو فخریہ طور پر فکاہی ناول کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ دراصل ارشاد العصر جعفری کا ناول ’’قیس چلبلائی‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اِن دونوں ناولوں کے مصنفین میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں کا تعلق مرحوم ’’چاند‘‘ سے رہا ہے۔

’’قیس چلبلائی‘‘ کا نام ہی اپنے آپ پر ایک طنز ہے۔ قیس چلبلائی کا کردار نام کا تو قیس ہے اور آپ کو قیس کا احوال معلوم ہے کہ بی بی لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو گیا تھا، اور کوئی اور حُسن اُسے متاثر نہیں کر سکا تھا، جبکہ قیس چلبلائی صاحب ایک مکمل فلرٹ کردار ہے جس کا نظریۂ عشق اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ:

تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

ظالم کا بچہ تمام ناول کے دوران محبوباؤں کو یوں بدلتا رہا ہے جیسے شیر خوار بچہ سارا دن پوتڑے بدلتا رہتا ہے۔ یہ آج کل کے عشاق پر ایک بھرپور طنز بھی ہے۔ آجکل کے عاشق اگرچہ دعویٰ تو اس امر کا کر رہے ہوتے ہیں کہ اُنہیں ’’لوریا (LOVERIA)‘‘ نے کہیں کا نہیں چھوڑا، لیکن اُن کی نظریں ہمہ اوقات اس چکر میں کلی کلی منڈلاتی پھرتی ہیں کہ:

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ ناول بہت سی خودمختار کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ناول کی ساری کہانیاں قیس چلبلائی کے کردار کے گرد بھنگڑا ڈالتی نظر آتی ہیں۔ قیس صاحب ہمہ اوقات راجہِ اندر بنے بیٹھے نظر آتے ہیں اور لڑکیاں موصوف کے گرد یوں امڈی پڑتی ہیں جیسے پتنگیں بجلی کی تاروں میں پھنسی نظر آتی ہیں لیکن انجامِ کار قیس صاحب کی محبت کا ہما ’’آفرین ‘‘ کے سر پر ہی بیٹھتا ہے۔ باقی سب لڑکیاں تو جیسے منزل نہیں بلکہ ’’راہگذر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مصنف نے مختلف النوع کہانیوں کو اس خوبی سے ناول کی وحدت دی ہے کہ وہ ایک مکمل ناول لگتا ہے۔

’’قیس چلبلائی‘‘ کا آغاز ہی اس انداز سے کیا گیا ہے کہ ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ در آتی ہے:

’’آج دل نے ایک نئی فرمائش کر دی۔

’’قیس صاحب۔ گالیاں تو سنیں ‘‘

دل کی اس فرمائش پر ہم نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں کہ کوئی ایسی ہستی نظر آئے تو دل کی فرمائش پوری کی جائے لیکن ابھی اردگرد کوئی بھی ایسی ہستی موجود نہیں تھی۔

ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارے دل کی اس فرمائش پر آپ کے ماتھے پر سلوٹیں ابھر آئی ہیں اور شاید آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ دل کی یہ کیسی فرمائش ہے۔ تو ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ ہمارا دل ہے۔ یعنی قیس چلبلائی۔ ایم ایس سی۔ سڑکیات۔ ڈی ایس سی۔ آواریات۔ یونیورسٹی آف عشقیات۔ یہ دل کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ کسی بھی چیز کی فرمائش کر سکتا ہے۔ ‘‘

بقول شاعر:

چاول کا ایک دانہ دیگوں کی مخبری ہے

ارشاد العصر جعفری کا یہی چُلبلا پن پورے ناول میں پھلجڑیاں چھوڑتا نظر آتا ہے۔

یہ ناول خالصاً تفریحی نقطہ نظر سے لکھا گیا ہے اور اسے اسی انداز میں لیا جانا چاہیئے، یہ میرا نقطۂ نظر ہے تاہم وہ اصحابِ دور اندیش و علم و فن جن کی آنکھوں میں قدرت نے ایکسٹرا لینز کی بصیرت فٹ کی ہوئی ہے اور جو بوسے میں بھی فلسفہ تلاش کر لیتے ہیں، انہیں اس ناول میں نصیحت و سبق حاصل ہو تو فدوی کچھ کہنے سے عاجز ہے۔

اِس ناول کا ماحول بھی ہمارے معاشرے کے عمومی رویے کے برعکس ہے۔ مصنف نے اس ناول میں تذکرہ کرنے کے لئے معاشرے کی اُن چیدہ چیدہ خصوصیات کا احاطہ کیا ہے جو مزاح نگاروں کا پسندیدہ موضوع رہی ہیں تاہم حقیقی معاشرے کی مکمل تصویر کا احاطہ نہیں کرتی۔ ناول کی تمام بیویاں شہ زور، تمام شوہر فرمانبردار اور مظلوم، تمام لڑکیاں مکار اور دھوکے باز اور تمام لڑکے دل پھینک اور ٹھرکی ہیں۔ اس رویے کو ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پنجاب اسمبلی سے ہمارے ملک کی مراعات یافتہ مخصوص کلاس کی نمائندہ خواتین ’’حقوقِ نسواں ایکٹ‘‘ کے نام پر ایسا قانون منظور کرانے میں کامیاب نہ ہو جاتیں اور وہ بھی اس انداز سے کہ سیاست کے شیر بھی اُن کے پیچھے اپنی اپنی دُمیں ہلاتے پھریں۔ اس ایکٹ کا انجام تا دمِ تحریر دو تین طلاقوں پر منتج ہوا ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ناول کو تفریحی نقطۂ نظر سے پڑھا جانا چاہیئے اور اسی انداز میں لیا جانا چاہیئے۔

ارشاد العصر جعفری نے اس ناول کی اُٹھان اس خوبصورتی سے رکھی ہے کہ دیکھا چاہیئے۔ واقعات کی رنگین بیانی کے ساتھ ساتھ مکالمات میں برجستگی اور بیساختہ پن اسے نہایت دلچسپ بنائے رکھتا ہے اور یہ اندازِ تحریر اول تا آخر برقرار رکھا گیا ہے۔ ذرا ناول کا یہ حصہ ملاحظہ ہو:

’’اچھا جناب۔ اب مجھے اجازت دیں ‘‘… ہمارا نام رجسٹر پر درج ہونے کے بعد ابا نے اٹھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں۔ قیس کی ہڈیاں ہماری اور کھال آپ کی۔ جس قدر چاہیں اس کی پھٹنی لگائیں ‘‘… انہوں نے کہا۔

’’ابا جی۔ گوشت کس کے حصے میں جائے گا‘‘… ہم نے نہایت معصومیت سے پوچھا، انہوں نے ہمیں گھور کر دیکھا۔

’’خاموش۔ نالائق گدھا‘‘… ابا نے ہمیں ڈانٹ دیا۔ دراصل ابھی چند دن پہلے گھر میں بکرا ذبح ہوا تھا تو ابا جی نے ہڈیاں محلے میں تقسیم کر دی تھیں۔ گوشت گھر میں رکھ لیا تھا اور کھال ایک ہزار میں بیچ دی تھی۔

’’ابا جی۔ استاد صاحب سے ہماری کھال کے پیسے تو لیتے جائیں ‘‘… ابا جانے لگے تو ہم نے پیچھے سے انہیں آواز دی۔ ابا رکے، انہوں نے مڑ کر ہمیں ایسی نظروں سے دیکھا کہ ہم فوراً ہی سہم گئے اور ہم نے گردن جھکا لی۔ ‘‘

’’قیس چلبلائی‘‘طنز و ظرافت کا حسین مرقع ہے۔ اس میں بیساختہ مسکراہٹ بکھرنے والی سچوئیشن بھی ہے اور مکالمات کی بیساختگی اور لطافت بھی۔ قیس چلبلائی کا یہ اقتباس اسی پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔

’’قیس۔ تم کتنے بہادر ہو؟‘‘… نائلہ نے پوچھا۔

’’بہت‘‘… ہم نے اکڑ کر کہا۔

’’ویری گڈ۔ پھر کام بن گیا۔ میں نے جن قابو کرنے کا ایک آسان طریقہ حاصل کیا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ انسان بہادر اور ذہین ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم جن قابو کر لو گے‘‘… نائلہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

’’معاف کرنا۔ اگر جن قابو کرنا ہے تو پھر میں بہادر نہیں ہوں بلکہ مجھ جیسا بزدل پورے ملک میں نہیں ہو گا‘‘… ہم نے منہ بنا کر کہا۔

’’قیس ڈئیر۔ تم بزدل نہیں ہو۔ ایک دم بہادر ہو۔ بھلا ایک بہادر بیوی کا شوہر بزدل کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔ ۔ ۔ نائلہ نے کہا۔

’’میں آج تک تمہیں قابو نہیں کر سکا جن کیسے قابو کر سکتا ہوں ‘‘… ہم نے بدستور منہ بناتے

ہوئے کہا۔

’’بیوی کو قابو کرنا مشکل ہے۔ لیکن جن قابو کرنا بہت آسان ہے۔ تم جن قابو کر لوگے۔ ہاں ‘‘… اس نے کہا۔ ‘‘

یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک فکاہی تخلیق کار ہو اور طنز کی چٹکیاں نہ بھرے۔ معاشرے کی غیر ہمواری کی نشاندہی کرنا ہر فکاہی ادیب و شاعر کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہنسی ہنسی میں کوئی ایسی بات کہہ جانا جس سے معاشرے کی ناہموار کی طرف اشارہ بھی ہو جائے اور تلخ بیانی کا ارتکاب بھی نہ ہو، ایک اچھے مزاح نگار کی امتیازی خصوصیت ہوتی ہے۔ ارشاد العصر میں یہ وصف بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ باتوں ہی باتوں میں طنز کی ایسے ایسے نشتر چبھو جاتے ہیں کہ دیکھا چاہیئے۔

 

 

 

 

 

قیس چلبلائی اور ایک شاعر

 

                سید ارشاد العصر جعفری

 

ہمارے پیپرز صحیح نہیں ہوئے تھے اس لئے ہمیں معلوم تھا کہ رزلٹ حسب سابق ہی ہو گا۔ اب ہمیں رات دن پریشانی رہتی تھی۔ اسی پریشانی کے عالم میں ہماری شیو بڑھ چکی تھی۔ کپڑے میلے کچیلے ہو چکے تھے مگر انہیں بدلنے کا خیال تک نہیں آتا تھا۔ اسی پریشانی میں ہم مجنوں روڈ سے گزر رہے تھے کہ اچانک پیچھے سے ایک آواز سنائی دی۔

’’اجی سنیئے‘‘۔ ۔ ۔ ہم نے رک کر پیچھے دیکھا۔ ایک بزرگ ٹائپ انسان کھڑے تھے۔ حلیہ ان کا ہم سے بھی بدتر نظر آ رہا تھا۔

’’مجھ سے کچھ فرمایا آپ نے‘‘   ہم نے ان سے پوچھا۔

’’واہ، واہ کیا بات ہے آپ کی۔ کیا ادبی لب و لہجہ ہے۔ پہلے تو مجھے شک تھا مگر اب سو فیصد یقین ہو گیا ہے کہ آپ ہمارے ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ‘‘   وکھری ٹائپ بزرگ نے ایک دم خوش ہوتے ہوئے کہا۔

’’جی۔ ۔ ۔ قبیلہ‘‘   ہم نے حیران ہو کر کہا۔

’’جی ہاں۔ اپنا قبیلہ، تو پھر ہو جائے ایک غزل‘‘   بزرگ نے اپنی دھن میں بولتے ہوئے کہا۔ ہماری حیرت کو انہوں نے نظر انداز کر دیا۔

’’غزل۔ ۔ ۔ قبیلہ؟ بزرگوار! میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘   ہماری حیرت ابھی تک برقرار تھی۔

’’یہ اڑی اڑی رنگت، یہ الجھے ہوئے بال، یہ پریشان آنکھیں، یہ میلے کچیلے کپڑے، ماتھے پر یہ تفکرات۔ ان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یا تو آپ کسی مقطع پر اڑ رہے ہیں یا کسی بحر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ماشاء اللہ، ماشاء اللہ اتنی سی عمر اور اتنا بڑا شاعر‘‘   بزرگوار نے کہا تو ہم طویل سانس لے کر رہ گئے۔ ہماری حالت کو دیکھ کر انہیں یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ہم شاعر ہیں۔

’’نہیں جناب۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں شاعر نہیں ہوں ‘‘   ہم نے ان کی غلط فہمی دور کرنا چاہی۔

’’اس حلیئے کا آدمی یا تو شاعر ہو سکتا ہے یا جہاز۔ ماشاء اللہ آپ کا انداز تکلم بتا رہا ہے کہ آپ جہاز تو نہیں ہیں، شاعر ہی ہو سکتے ہیں۔ دراصل عظیم شاعر کسر نفسی سے کام لیتے ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد دنیا کہ پتا چلتا ہے کہ کتنا عظیم شاعر اس دنیا سے چل بسا۔ دراصل یہ دنیا جیتے جاگتے انسان کی قدر نہیں کرتی۔ جب انسان اس دنیا سے۔ ۔ ۔ ‘‘   ابھی وہ نجانے کتنی طویل تقریر کرتے کہ ہم نے انہیں ٹوک دیا۔

’’جی جی۔ میں آپ کی بات سمجھ چکا ہوں۔ آپ بجا فرما رہے ہیں ‘‘   ہم نے بیزار سے لہجے میں کہا۔

’’تو پھر ہو جائے ایک غزل‘‘   انہوں نے کہا۔

’’نہیں جی۔ اس وقت نہیں۔ پھر کبھی سہی‘‘   ہم نے ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا اور ایک قدم آگے بڑھایا۔ انہوں نے بھی ہمارے ساتھ ہی قدم بڑھایا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ آسانی سے جان چھوڑنے والے نہیں۔

’’دیکھیئے صاحب۔ پہلے آپ اپنی غزل سنا لیجئے۔ میں اپنا تازہ کلام بعد میں سنا لوں گا‘‘   بزرگ شاعر کا انداز رشوت دینے والا تھا۔

’’عالیجاہ! میں نے عرض کیا نا کہ پھر کسی دن سہی‘‘   ہم نے سخت بیزار لہجے میں کہا۔

’’اچھا چلیئے۔ آپ ہی اپنا کلام سنا لیجئے۔ میں اپنا کلام سنانے کی ضد نہیں کروں گا‘‘   اُنہوں نے سخاوت کرتے ہوئے کہا۔

’’قبلہ۔ میں نے کہا تو ہے کہ پھر کبھی سہی۔ آخر آپ سمجھتے کیوں نہیں ‘‘   اس مرتبہ ہم نے کچھ سخت لہجے میں کہا۔

’’اجی! آپ کچھ بھی کہیں۔ ہم نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑنا۔ آپ کے کلام سے محروم رہ کر ہم گنہگار ہو جائیں گے۔ ہمیں گنہگار مت کیجئے‘‘   بزرگ شاعر مکمل طور پر کمبل ہو چکے تھے اور ہمیں ان سے پیچھا چھڑانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ پھر اچانک ہی ایک خیال برق کی طرح ہمارے ذہن میں کوندا۔

’’اعلیٰ حضرت۔ ایسا کرتے ہیں کہ دوڑ لگاتے ہیں۔ جو اس دوڑ میں جیت گیا وہ اپنا تازہ کلام سنائے گا‘‘   ہم نے کہا۔

’’میاں ! آپ نوجوان ہیں اور میں بوڑھا۔ آپ کا اور میرا کیا مقابلہ‘‘   بزرگ شاعر نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’مجھے تو نہیں لگ رہا کہ آپ بوڑھے ہیں۔ آپ تو آج کل کے نوجوانوں سے بہت بہتر ہیں۔ آج کے نوجوان کو تو کماد اور زہریلی دواؤں نے تباہ کیا ہوا ہے۔ باقی رہی سہی کسر وہ خود بھی پوری کر لیتے ہیں ‘‘   ہم نے کہا۔

’’فرماتے تو آپ درست ہیں۔ چلیئے ہمیں منظور ہے‘‘   بزرگ شاعر نے اپنا کلام سنانے کے شوق میں فوراً ہامی بھر لی جبکہ ہماری آنکھوں میں شرارت کی چمک پیدا ہو چکی تھی۔

’’ریڈی۔ ون، ٹو، تھری۔ ۔ ۔ گو‘‘   ہم نے کہا اور پھر دوڑنا شروع کر دیا۔ ہم نے جان بوجھ کر اپنی رفتار آہستہ رکھی۔ بزرگ شاعر ہم سے آگے نکل گئے۔ ساتھ سے گزرنے والے لوگ حیرت سے ہمیں دیکھنے لگے۔

’’پکڑو۔ ۔ ۔ پکڑو۔ ۔ ۔ چور۔ ۔ ۔ چور۔ ۔ ۔ چور‘‘   ہم نے ایک دم شور مچا دیا۔ بزرگ کچھ آگے جا چکے تھے اس لئے ہماری آواز ان تک نہ پہنچی البتہ چند لوگ ہماری آواز سن کر ہمارے ساتھ شامل ہو گئے اور انہوں نے بھی چور، چور کی آوازیں لگانا شروع کر دی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ بزرگ کے پیچھے دوڑنے لگے۔ بزرگ شاعر نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بہت سے لوگوں کو اپنے پیچھے دوڑتا دیکھ کر ان میں مزید جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے اپنی رفتار بڑھا لی۔ اب بہت سے لوگ شور مچا رہے تھے۔ ایک مجمع تھا جو بزرگ شاعر کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور پھر چند ہی لمحوں بعد کسی نوجوان نے انہیں پکڑ لیا جبکہ ہم وہاں سے قریبی گلی میں گھس چکے تھے۔

٭٭٭

 

 

پرانے چاول

 

رہئے اب ایسی جگہ۔۔۔۔۔

 

                شوکت تھانوی

 

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

(خالد باہر سے آواز دیتا ہے )

خالد۔ ” ارے بھئی میں آ جاؤں ؟؟ کوئی ہے تو نہیں۔”

ناہید۔” ایک منٹ ٹھہر نا ذرا ————آ جاؤ وہ نکل گئیں اُدھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

خالد۔ ” (آتے ہوئے ) کون تھا؟”

ناہید۔” طاہرہ بہن تھیں۔”

خالد۔ ” ناہید مجھے تم سے آج ایک خاص مشورہ لینا ہے کاش تم ہی کچھ سمجھا دو۔میری تو عقل کام نہیں کر رہی۔”

ناہید۔” بات کیا ہے آخر۔”

خالد۔ ” پوچھنا یہ تھا کہ موت تو بہر حال بر حق ہے مگر خود کشی کرنا اچھا رہے گا یا خون کر کے پھانسی پانا۔”

نا ہیید : اوئی ! یہ آخر کیا کہہ رہے ہو تم۔ آئے وہاں سے ایک نیا چونچلا لے کر۔”

خالد۔ ” چونچلے کی بات نہیں ہے میں اب یہ طے کر چکا ہون کہ اگر تم نے خود کشی سے روکا تو ایک آدھ کی جان لے کر پھانسی چڑھ جاؤں گا مگر اب ان پڑوسیوں کے یہ مظالم مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتے۔میں لکھنے پڑھنے والا آدمی۔ مجھ کو ضرورت ہے تنہائی اور یکسوئی کی اور یہاں یہ عالم ہے کہ باہر نکلو تو کم بخت عزیز مرزا جان کا گاہک بنا تاک لگائے بیٹھا رہتا ہے۔

گویا میں اس کے والدِ محترم کا خانہ زاد ہی ہوں کہ ان سے بے سروپا سیاسی بحثوں میں الجھتا پھروں۔خیر سے آپ جس قدر جاہل ہیں اس قدر جھکی بھی ہیں۔قابلیت کا عالم یہ ہے کہ اخبار میں ہز ایکسیلینسی کو ہزایکسیلینسی پڑھتے ہیں اور شوق ہے عالمگیر سیاست پر بحث فرمانے کا۔ ان حضرت سے چھپ کر گھر میں کام کروں تو کیسے کروں۔ یہاں آپ کی شاہین بہن اور بلائے بے درماں کیا نام ہے ان کا طاہرہ بہن ہر وقت دھری رہتی ہیں۔”

ناہید ” طاہرہ بہن کو تو آج میں نے خود بلایا تھا کہ ذرا اس سوئیٹر کے خانے مجھ کو سمجھا دیں جو انہوں نے اپنے بھائی کے لئے بنا ہے۔”

خالد۔ ” بس آپ سوئیٹر کا خانے سمجھئے اور میرے دماغ کے ہر خانے میں خود کشی یا خون کرنے کے ارادے پرورش پاتے رہیں۔ دیکھ لینا کسی دن کچھ کر گزروں گا۔”

ناہید” کیا ہو گیا ہے۔ محلہ پڑوس کے لوگوں سے کوئی کیونکر نہ ملے،آدمی ایسا ہی آدم بیزار بن کر بیٹھ رہے تو دکھ درد میں بھی کوئی شریک نہ ہو۔اس پردیس میں ہمارا اور ہے ہی کون؟؟؟”

خالد۔ ” آج چوتھا دن ہے اس نامراد افسانے کو لئے بیٹھا ہوں جہاں دو سطریں لکھیں کوئی نہ کوئی آ مرا۔ اب میں پبلشر کو کیا سمجھاؤں کہ مجھ کو مارے ڈالے ہیں میرے پڑوسی۔ باہر بیٹھ کر کچھ لکھنا تو خیر ممکن ہی نہیں نہعزیز مرزا کو سانپ سونگھے گا نہ ہم باہر بیٹھ سکیں گے،گھر کے اندر جناب اس قدر مرنجاں مرنج واقع ہوئی ہے کہ جب دیکئے مجلس گرم ہے وہی جو کسی نے کہا ہے

گزر گاہِ حوادث ہے ہمارا آشیاں کیا ہے۔”

ناہید۔” اچھا اب تم اطمینان سے بیٹھ کے لکھو اس وقت کوئی نہیں آئے گا !”

خالد۔” اور اگر اس وقت کوئی آیا تو دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔۔۔۔۔”

(کھڑکی پر دستک)

ناہید۔” آ رہی ہوں طاہرہ بہن آ رہی ہوں (خالہ سے مخاطب ہو کر ) میں ان ہی کی طرف جاتی ہوں تم اطمینان سے لکھو۔”

خالد۔” پوچھو تو سہی آخر بات کیا ہے۔ کیوں کھڑکی بجائی جا رہی ہے۔”

ناہید َ’ہو گی کوئی بات تم سے کیا مطلب تم لکھو میں جا تو رہی ہوں۔”

خالد۔” پہلے تم پوچھ کر مجھے بتاؤ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تماشہ کیا بنا رکھا ہے آخر۔ جاؤ پوچھو نا۔”

ناہید۔” اچھا خدا کے لئے چیخو تو نہیں۔ وہ بھی کہیں گی کہ کیوں چیخ رہے ہیں۔”

(جاتی ہے )

خالد۔” (زیرِ لب)کیوں چیخ رہے ہیں۔مذاق ہی بنا رکھا ہے گھر نہ ہوا سرائے ہو گئی۔بازار ہو گیا ( بلند آواز سے ) کیا بات ہے۔”

ناہید َ”0آتے ہوئے ) توبہ ہے کچھ بھی نہیں پوچھ رہی تھیں کہ یہ مہینہ تیس کا ہے کہ اکتیس کا۔”

خالد۔” تو یہ صندوقچہ میں سے کیا جنتری لے کر آپ جا رہی ہیں۔”

ناہید۔” ابھی بتاتی ہوں آکر بس اتم چپ رہو۔”

خالد۔” (زیرِ لب) چپ رہو۔ یہ چپ رہنے کا ہی نتیجہ ہے کہ گھر کو بھنگیڑ خانہ بنا کر رکھ دیا ہے۔( بلند آوا سے ) ارے صاحب اب اُدھر کہاں جا رہی ہیں بات سنئے میری۔”

ناہید ” (آتے ہوئے ) آج تو سچ مچ نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔”

خالد۔” کیوں آئی تھیں آپ کی ھمسائی اور کیا دے کر آئی ہیں آپ صندوقچہ میں سے۔”

ناہید۔” بیس روپے کی ضرورت تھی ان کو پہلی تاریخ کو دے دیں گی۔ اتنا چیخے کہ وہ بھی پوچھ رہی تھیں بھائی جان کو آج کیوں غصہ آ رہا ہے۔”

خالد۔” آج بیس روپے کی ضرورت ہے کل سلائی مشین چاہئے۔ پرسوں آم کا اچار پوچھا ہے، کبھی جوتے کی پالش مانگی جا رہی ہے تو کبھی بجلی کی استری درکار ہے، ناس مار کر رکھ دیا کمبخت استری کا جلا کر رکھ دیا۔”

ناہید۔” خالہ کی جان ہی بچ گئی ایسا شاک لگا تھا کہ میں تو سمجھی کہ چلیں۔ اچھا خیر اب تم لکھو۔”

خالد۔” یہ فرض کے جو لین دین آپ نے شروع کر رکھے ہیں ان کا کسی دن بہت تلخ تجربہ بھگتنا پڑے گا۔”

ناہید۔” محلہ پڑوس میں ہر جگہ یہی ہوتا ہے خیر تم اپنا کام کرو۔”

(دروازے پر دستک)

چودھری۔” خالد صاحب۔” جناب خالد صاحب۔”

خالد۔”

انا للہِ وانا الیہِ راجعونَ۔”

ناہید۔” چودھری۔” کی آواز ہے۔بلا لو ! اندر ان سے پردہ تھوڑی ہوتا ہے۔ ممکن ہے ممتاز بہن بھی ساتھ آئی ہوں۔”

خالد۔” ( مری ہوئی آواز میں )تشریف لے آئے َ”

چودھری۔” (آتے ہوئے ) اخاہ آج پکڑے ہی گئے ناں۔ یہ کہہ رہی تھیں تمھاری بھابھی کہ وہ تو آنے سے رہے چلو ہم ہی چلیں۔”

ممتاز۔” اس قدر بے مروت ہیں آپ خالد بھائی کہ ایک محلے۔گھر سے ملا ہوا گھر اور مہینوں نہ خود آتے ہیں نہ یہی توفیق ہوتی ہے کہ ہم کو ہی بلا لیں۔”

چودھری۔”۔” بھئی خوب کہا،خوب کہا۔ وہ جو شعر ہے کسی شاعر کا کہ

وہ خود آتے بھی نہیں ہم کو بلاتے بھی نہیں

باعث ترکِ ملاقات بتا تے بھی نہیں

ممتاز۔” اور یہ ناہید بہن تو جیسے ایک محلہ میں کیا اس شہر میں ہی نہیں رہتیں۔”

ناہید” کیا بتاؤں ممتاز بہن گھر کے جھگڑے فرصت ہی نہیں دیتے۔”

ممتاز۔” چلو ہٹو سخت بے مروت ہو۔”

چودھری۔”یہ کیا لکھا جا رہا ہے اور یہ بھی کوئی لکھنے کا وقت ہے۔سہ پہر کو تمام دنیا تفریح کو نکلتی ہے اور آپ ہیں کہ اس وقت یہ بکھیڑ پھیلائے بیٹھے ہیں۔

ممتاز۔” جب ہی تو دکھائی نہیں دیتے عید کا چاند ہو کر رہ گئے ہیں۔”

خالد۔” جی نہیں بلکہ چاند ماری۔”

چودھری۔” چاند مماری ارے وہ کیونکر ارے بھئی وہ کیونکر۔”

خالد۔” آج چوتھا روز ہے اس افسانے کو شروع کئے ہوئے نہ جانے کس ساعت میں شروع کیا تھا کہ جب لکھنے کا ارادہ کرتا ہوں کوئی نہ کوئی بات ایسی پیدا ہو جاتی ہے کہ افسانہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔”

چودھری۔” یہ کمال ہے بھئی مجھ کو خیر افسانے وغیرہ کا تو تجربہ نہیں مگر والد صاحب کو کچھ لکھنے کا شوق تھا اور وہ تو ایک ایک دن میں ایک ایک ناول لکھ لیا کرتے تھے۔وہ جو اُن کا ناول ہے تیرِ نظر یا خونخوار حسینہ یہ بس ایک ایک دو دو دن کے لکھے ہوئے ہیں۔ میری تو سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ ان کے دماغ میں پورے پورے ناول کیسے آ جایا کرتے تھے ؟”

ممتاز۔ "شاعری بھی تو کرتے تھے ابا جان شائد؟”

چودھری۔ "ان کا بھی یہ حال تھا کہ ہارمونیم لے کر بیٹھ گئے اور ایک سے ایک حقانی غزل کہہ ڈالی۔ یہ اُن کا ہی شعر ہے۔۔۔وہ کیا تھا جو میں کل گنگنا رہا تھا۔۔۔۔ہاں کہتے تھے :

منہ پھیر لیا ناز سے شرما کے کسی نے

دل تھام لیا تیرِ نظر کھا کے کسی نے

ممتاز۔”تو کیا خالد بھائی آپ جو یہ لکھتے ہیں اس کو چھپوا کر بیچتے بھی ہیں ؟”

خالد۔”چھوڑئیے بھابی اس قصے کو۔۔۔ اور کچھ فرمائیے ! کہئیے آپ کی بھینس کا کیا حال ہے۔”

چودھری۔”بھئی وہ تو اب بالکل ٹھیک ہو گئی۔ ماشا اللہ خوب دودھ دہی دے رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو آدمی ہم نے پہلے رکھا ہوا تھا، یہ سب اُس کا قصور ہے۔”

ممتاز۔” چور تھا کمبخت اس کے جاتے ہی اچھا خاصا دودھ دینے لگی۔”

چودھری ۔بھئی اس وقت یوں تو ہم دونوں خیر ملنے ہی آئے تھے، بہت دن سے دیکھا نہیں تھا تم کو مگر ایک بات اور بھی کہنا تھی۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ میرا ارادہ ہو رہا ہے ایک باقاعدہ ڈیری فارم کھولنے کا۔”

خالد۔” ڈیری فارم ؟ یعنی اب دودھ کا کاروبار کریں گے آپ؟”

چودھری۔” وجہ یہ ہے کہ بڑا فائدہ ہے اس کام میں۔۔۔۔ میں نے سوچا ہے کہ اگر تین چار دوست مل کر دو دو ہزار روپیہ لگا کر فی الحال ابتدا کریں تو انشا اللہ بعد میں یہی چھوٹا سا کام اعلیٰ پیمانے پر پہنچ سکتا ہے۔ ایک حصہ دار تو ہوا میں، ایک میں نے مرزا صاحب کو تیار کر لیا ہے۔۔۔ پھر خیال آیا کہ ایک حصہ تم بھی لے لو۔”

خالد۔” میں ؟۔۔۔۔۔ مگر ذرا خیال تو کیجئے۔۔۔ میں قلم کا مزدور، لکھنے پڑھنے والا آدمی۔”

چودھری۔” میاں تو کون تم سے کہتا ہے کہ بھینسوں کا چارہ سانی کر دیا کرو، بیٹھ کر دودھ دھو۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا ایک کاروبار یہ بھی چلتا رہے، دوسرے بھائی جان جہاں تک آپ کی اس قلم کی مزدوری کا تعلق ہے، اس کا حال جو کچھ ہے وہ میں دیکھ ہی رہا ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ چار دن سے یہ افسانہ لئے بیٹھے ہیں اور پورا نہیں ہو رہا ہے، برعکس اس کے ایک معمولی سی معمولی بھینس یومیہ دس بارہ سیر یومیہ دودھ دیا کرتی ہے۔ خواہ دودھ بیچے، خواہ مکھن، گھی۔۔۔۔مطلب یہ کہ سونا بناتی ہے بھینس، میاں بھول جاؤ گے اس قلم کی مزدوری کو کچھ دن میں۔”

خالد۔” خیر چھوڑئیے اس قلم کی بات کو آپ تو بھینسوں کا ذکر ہی کئے جائیے۔”

ممتاز۔”اب ایسا بھینسوں کا شوق ہوا ہے کہ کوئی اور ذکر سننا ہی نہیں چاہتے۔”

چودھری۔” شوق کی بات نہیں بلکہ سمجھ میں آ گئی ہو گی،یہ بات کہ کتنی معقول تجو یز ہے تمھاری طرح تھوڑی کہ اس کو خواہ مخواہ کا روگ سمجھتی ہو۔”

ممتاز۔” روگ میں یوں سمجھتی ہوں ناہید بہن کہ دن رات کم بختوں کی خدمت کرو۔بال بچوں والے گھر میں بھینسوں کی ناز برداری تو ہو نہیں سکتی،اب دیکھ لو وہ بھوری بھینس اور سلمیٰ ساتھ ساتھ بیمار ہوئیں بھینس کو دیکھوں تو سلمیٰ کی تاک کون لے اور سلمیٰ کو دیکھوں تو بھینس جاتی ہے ہاتھ سے عجیب مصیبت میں جان ہو کر رہ گئی تھی

چودھری۔” خیر چھوڑو اس ذکر کو،میں تو عرض کر رہا تھا عزیزِ من کہ اس قلم دوات مین کچھ نہیں رکھا ہے قلم کے ساتھ خود بھی گھس کر رہ جاؤ گے اور یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ قلم کی مزدوری میں کچھ فائدہ ہوتا تو یہ جو عرائض نویس ہوتے ہیں اور جو ڈاکخانوں کے سامنے منشی بیٹھتے ہیں کان میں قلم لگا کے اور ناک پر عینک رکھ کر ان سب کے پاس موٹر ہوتی۔”

ممتاز۔” میں نے تو ہمیشہ لکھنے پڑھنے والوں کی آنکھوں پر ہمیشہ عینک ہی دیکھی ہے۔”

چودھری۔” اب مجھ کو دیکھئے کہ چاند کی روشنی میں پھانس نکال لیتا ہوں انگلی سے انتیس کا چاند سب سے پہلے میں دیکھتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ میں نے لکھنے پڑھنے کا جھمیلہ کبھی نہیں رکھا ہے۔

خالد۔”صا حب چھوڑیئے اس لکھنے پڑھنے کے ذکر کو آپ تو ڈیری فارم ہی کا ذکر کیجئے مجھے اس سلسلے میں کیا کرنا ہو گا۔

چودھری۔” یہاں کرنا کیا ہو گا بس دو ہزار کی رقم کا انتظام کرو اس کے بعد بس۔ ذرا دیکھ بھال کرتے رہنا۔”

خالد۔” میرا اردہ ہو رہا تھا بندروں کی تجارت کا۔”

ممتاز۔” اوئی بندروں کی تجارت کیسی۔”

خالد۔” بڑے فائدے کا ہے یہ کام بھی ایک آدھ بندر سدھا کر رکھ لیا نچانے کے لئے،باقی جہاز پر بھرے اور باہر بھیج دئے۔”

ناہید۔” اونہہ وہ چلے بندر کا ذکر لے کر۔بات یہ ہے ممتاز بہن کہ بھینسوں اور دودھ کے کام کے لئے یہ تو کیا میں خود گور کروں گی اور ایک آدھ دن میں آپ کو جواب دونگی۔’

چودھری۔”ہاں ہاں غور کر لو۔ اس کام کے بڑے فائدے ہیں جو غور کرنے کے بعد ہی سمجھ میں آئیں گے۔”

ممتاز اچھا تو اب چلو۔دن چھپ رہا ہے۔سلمیٰ کو ابھی جا کر دوا دینی ہے۔”

ناہید۔” اب طبیعت کیسی ہے //۔”

ممتاز۔” کیا بتاؤں بہن دو دن ٹھیک اور پھر ماندی۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ جامن والی گلی کے حکیم کا علاج کیا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ گنڈے تعویذ سب ہی کچھ ہوئے۔ اب آج کل ایک قلعی گر کا علاج ہے اس کے پاس کوئی فقیری نسخہ ہے اس سے البتہ بہت فائدہ ہے۔ بھوک بھی لگی ہے اور چہرے پر رنگت بھی آ گئی ہے۔”

چودھری۔” اچھا تو بھائی صاحب اب اجازت دیجئے۔”

ممتاز۔” ناہید بہن آ جایا کرو کبھی تو بھول کر۔اچھا بھائی صاحب تسلیم۔”

خالد۔: تسلیمِ تسلیم۔”

(دونوں جاتے ہیں )

ناہید۔” اب مجھ کو قہر آلود نظروں سے کیوں گھور رہے ہو۔ کیا میں جا کر بلا لائی تھی۔”

خالد۔” تم سے صرف انصاف چاہتا ہوں اب تم ہی بتاؤ کہ ان حالات میں اچھے خاصے آدمی کا دماغ خراب نہ ہو تو کیا ہو۔ اس عرصے میں کئی مرتبہ اقدامِ قتل کا ارادہ کیا۔جی چاہتا تھا کہ چودھری کو مار کر اپنے دل کی لگی بجھاؤں مگر نجانے کیسے ضبط کرتا رہا۔آیا ہے وہاں سے بھینسوں کا دھندا لے کر دودھ کی تجارت کرانے چلا ہے۔”

ناہید۔” وہ بیچارے کیا جانیں جاہل آدمی اور تم لے کر بیٹھ گئے بندروں کا قصہ۔”

خالد۔”کیا کرتا جو شخص انشا پردازی اور عرائض نویسی میں امتیاز نہ کر سکے وہ بھینس اور بندر کا فرق تو سمجھ ہی سکتا ہے۔ اب دیکھ لو کہ دماغ کا تمام شیرازہ درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے، خدا جانے کیا لکھنا چاہتا تھا قلم اٹھاتا ہوں تو بھینس کی تصویر سامنے آ جاتی ہے اور جب اس کو غور سے دیکھتا ہوں تو وہی بھینس چودھری بن جاتی ہے۔”

ناہید۔” خیر یہ بلا بھی آنی ہی تھی،سو آ کر ٹل گئی اب تم اطمینان سے بیٹھ کر لکھو۔”

خالد۔” خاک لکھوں اب اس وقت سوائے بھینسوں کے ان کے دودھ کے کسی اور موضوع پر کچھ لکھ ہی نہیں سکتا دماغ ماٹی بنا ہوا ہے اور بھینس اس کو تناول فرما رہی ہیں۔”

ناہید۔” لو میں تم کو پان دیتی ہوں طبیعت کو ادھر سے ہٹاؤ اور اب بھینسوں کو بھولنے کی کوشش کرو۔”

(دروازے پہ دستک )

عزیز مرزا۔” (آواز دیتا ہے ) ارے بھئی خلد صاحب۔ میں نے کہا خالد میاں۔”

خالد۔”ناہید ذرا میری بندوق تو اٹھا دو۔”

عزیز مرزا۔” ( پھر آواز دیتا ہے ) خالد صاحب ارے بھئی خالد صاحب۔”

ناہید۔” سچ مچ بعض وقت تو واقعی تانتا بندھ جاتا ہے۔”

خالد۔” میں کہہ رہا ہوں بندوق لاؤ۔ مجھ کو پہلے ہی معلوم تھا کہ میری موت اسی طرح لکھی ہوئی ہے۔”

عزیز مرزا۔” زور سے جناب خالد صاحب۔ ارے میاں سو گئے کیا؟؟؟َ”

خالد۔” تم ہٹ جاؤ ناہید میں ان حضرت کو اندر ہی بلائے لیتا ہوں (بلند آواز سے ) تشریف لے آیئے۔”

عزیز مرزا۔” (آتے ہوئے ) کمال کر دیا یار چیختے چیختے گلا بیٹھ گیا۔یہ آج گھر سے نکلے کیوں نہیں۔”

خالد۔” یوں ہی ذرا طبیعت سست تھی۔”

عزیز مرزا۔” میاں جم کر علاج کسی کا روز کی طبیعت کی سستی ٹھیک نہیں ہے اور میں نے کہا پڑھا آج کا اخبار۔:

خالد۔” نہیں میں تو نہیں دیکھ سکا اخبار۔”

عزیز مرزا۔” یار کمال ہو گیا آج تو۔وہ جو میرے منہ سے بات نکلی تھی ایسی پوری ہوئی ہے کہ میں تو شش جہت ہو کر رہ گیا ہوں۔”

خالد۔” یہ ششدر کو آپ کہہ رہے ہیں غالباً شش جہت۔”

عزیز مرزا۔” وہی مطلب، مگر کیا کہنے ہیں۔ میں جو کہہ رہا تھا افغانستان کے خود ہاتھ پیر اس کو جواب دے دیں گے۔ اب آجکل بڑی بد شگونی پھیلی ہوئی ہے۔”

خالد۔” بد شگونی آپ سنسنی کو کہا کرتے ہیں ناں۔”

عزیز مرزا۔” ہاں ہاں وہ ایک ہی بات ہے۔اب دیکھ لیجئے کہ یہ جو افغانستان کے بعض لوگ اپنے ہی لوگوں سے غتاری کر رہے ہیں۔”

خالد۔” غتاری،یعنی غداری۔؟؟؟”

عزیز مرزا۔”اوہو بھئی وہی تو کہہ رہا ہوں کہ یہ تو اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارنا ہے۔”

خالد۔” ایک بات بتائیے مرزا صاحب کہ آپ کو یہ سیا سی شوق بھلا کب سے ہو گا۔”

عزیز مرزا۔”بس یوں سمجھ لیجئے کہ والد میرے ایک اخبار کے دفتر میں دفتری خانہ کے چارج میں تھے اور میں ان کے ساتھ بس دفتر گیا اور پڑھ رہا ہوں اخبار یہ سائمن میرے سامنے ہی گو بیک ہوا تھا۔”

خالد۔” اس وقت سے اب تک کوئی افاقہ نہیں ہوا۔”

عزیز مرزا۔” جی بس یوں سمجھو کہ پھر بس اسی کا شوق رہ گیا۔ اب اگر میں کسی دن اخبار نہ پڑھوں تو حالت غیر ہو جاتی ہے دو پیسہ روز کا یہ ضمیمہ بس بندھا ہوا ہے۔”

خالد۔” مگر آپ کو شاید یہ نہیں معلوم کہ یہ بیماری اب چھوت کی بیماری کے درجہ تک پہنچ چکی ہے۔”

عزیز مرزا۔” ایں ؟؟ اماں کون سی۔ یہ آپ نے ایک ہی سنائی۔” بھائی میں دورانِ گفتگو کر رہا ہوں اخبار کے متعلق۔”

خالد۔” میں آپ کے دورانِ گفتگو کے متعلق ذکر کر رہا ہوں جو مستقل دورانِ سر ہے اگر اجازت ہو تو اب میں ذرا سر پر پٹی باندھ کر لیٹ رہوں۔”

عزیز مرزا۔” ہاں ہاں۔ بڑے شوق اور ذوق سے آپ ابدی آرام فرمایئے۔”

خالد۔” کاش ابدی آرام ہی نصیب ہو سکے۔”

عزیز مرزا۔” اچھا تو پھر خدا حافظ۔”

خالد۔” خدا حافظ۔”

(عزیز مرزا) جاتا ہے )

ناہید۔”آتے ہوئے ) کمبخت کہیں کا۔ موا کلموہا۔ ابدی آرام فرمایئے۔ وہ کود نہ کرے ابدی آرام۔”

خالد۔” مقصد اس کا صرف آرام سے تھا۔ابدی تو محض قابلیت کے لئے لگا دیا ہو گا۔”

ناہید۔”بڑا اپنے کو قابل سمجھتا ہے۔”

خالد۔” اچھا ناہید اب ذرا مجھ کو تنہا چھوڑ دو۔ موضوع سوجھ گیا ہے اور مضامین امنڈ رہے ہیں ذہن میں۔یہ سب طفیل ہے چودھری صاحب، ممتاز بہن، عزیز مرزا تمہاری طاہرہ بہن اور شاہین بہن کا موضوع ہے مرزا غالب کے اشعار کہ

رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

اور اگر مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیئے

کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

٭٭٭

تشکر: مدیر، جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید