FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ارمغانِ تبسم

 

                مدیر: نوید ظفر کیانی

 

اپریل تا جون ۲۰۱۶ء

 

(نثری حصہ۔ ۱، قندِ شیریں)

 

 

 

 

قندِ شیریں

 

کالی بھیڑ

 

                محمد ایوب صابر

 

بھیڑ اور بھیڑیا جانوروں کے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھیڑ انتہائی شریف النفس اور بھیڑیا انتہائی شریر النفس ہوتا ہے۔ بھیڑ سے ہم دودھ، گوشت اور کھال حاصل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی اون سے تیار کردہ کپڑاسردیوں میں کپکپاہٹ دور کرنے میں مدد کرتا ہے جبکہ بھیڑئیے کے خوف سے انسان گرمیوں میں بھی کانپنے لگتے ہیں۔ جس طرح چینی باشندے اکثر ہم شکل ہوتے ہیں اسی طرح ہر بھیڑ کی شکل دوسری بھیڑ سے قدرے مشترک ہوتی ہے۔ بھیڑ کا دودھ گوالے کو بہت پسند ہوتا کیونکہ گاڑھا ہونے کی وجہ سے اس کے اندر زیادہ مقدار میں پانی ’’جذب‘‘ کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ آج کل ہم لوگ بھیڑ چال ہو گئے ہیں، جہاں ذرا سا ہنگامہ دیکھا جوق در جوق منہ اٹھائے اس میں شامل ہو گئے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ بھیڑوں کے گِلے کی طرح جمع اس جمِ غفیرسے اگر پوچھو کہ تم لوگ کس مقصد کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تو سب ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیں گے گویا ہم لوگ بھی بھیڑچال چلنے لگے ہیں اور بلا مقصد کسی طرف بھی منہ اٹھا کر چلے جاتے ہیں۔

بھیڑ میں بظاہر کوئی برائی نظر نہیں آتی بشرطیکہ وہ سفید رنگ کی ہو۔ ہاں البتہ کالی بھیڑوں سے خود کو دور رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں کالی بھیڑوں کی تعداد اِس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ سفید بھیڑ تلاش کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اب ٹیکس چوروں کو ہی لیجئے، اِن سے بڑی کالی بھیڑیں اور کون ہو سکتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اربوں روپے عیاشی میں لٹانے والے حضرات سے جب ٹیکس کے بابت دریافت کیا جائے تو ادا کردہ سالانہ انکم ٹیکس کی رقم ان کے گھر میں ملازم خانساماں کی ماہانہ تنخواہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی نظر میں ملکی معیشت کا استحکام اور قدر و قیمت ایک خانساماں سے بھی سو گنا کم ہے۔

ہم اپنے وطنِ عزیز کو کب تک ان کالی بھڑوں کے رحم و کرم پر چھوڑیں کے جن کے دل میں ذرا سا بھی احساسِ ندامت نہیں ہے۔ یاد آیا جرمن ٹینس اسٹار اسٹیفی گراف کے والد کو صرف ٹیکس کی مد میں تھوڑی سی ہیرا پھیری کرنے کی وجہ سے جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی جبکہ ہمارے ٹیکس نا دہندگان سے بھی بڑی کالی بھیڑیں محکمہ انکم ٹیکس میں موجود ہیں۔ جس طرح واپڈا کا میٹر ریڈر ’’چائے پانی‘‘ لے کر گھر یا فیکٹری کا میٹر بند رکھنے کا طریقہ خود بتاتا ہے اسی طرح ٹیکس ریٹرن میں ہیرا پھیری کے سارے گُر خود انکم ٹیکس انسپکٹر بتاتا ہے جو اس نے برسوں کی ریاضت سے سیکھے ہیں۔ اِن کے ہاتھوں کا کمال دیکھ کر تو نٹور لال بھی کانوں کو ہاتھ لگا لے۔ بھیڑ اور کرکٹ میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ نہیں سمجھے !کوئی بات نہیں میں وضاحت کر دیتا ہوں۔ پاکستا ن کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور غیرسرکاری مذہب کرکٹ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بھیڑیں آسٹریلیا میں پیدا ہوتی ہیں اور دنیا کی مضبوط ترین کرکٹ ٹیم بھی آسٹریلیا کو تصّور کیا جاتا ہے۔ چند برس پہلے دہشت گردوں نے لاہور میں سری لنکا کے کرکٹ کھلاڑیوں کی سری اڑانے کے لئے بہت نشانے لگائے تھے لیکن خوش قسمتی ہے تمام کھلاڑی اپنی سری بچا کر سری لنکا پہنچ گئے۔

اس سانحے کے بعد تمام بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں نے پاکستا ن آ کر کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ بالآخرآسٹریلیا نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان آ کر کرکٹ کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ اس غرض سے انہوں نے ایک حکمتِ عملی طے کی ہے۔ سب سے پہلے اپنی بیمار بھیڑوں کو پاکستان روانہ کریں گے۔ تمام پاکستانی بشمول کرکٹ کھلاڑی ان بیمار بھیڑوں کا گوشت کھائیں اور اگر اس گوشت کو کھانے کے بعد وہ کھیلنے کے قابل رہیں تو آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان آنے کا فیصلہ کرے گی۔

اس معاہدے کے تحت آسٹریلوی بیمار بھڑیں پاکستان کی بندر گاہ پورٹ قاسم پر اتار دی گئی ہیں۔ اس ساری ’’حکمتِ عملی ‘‘ کا پردہ ایک ٹی وی چینل نے چاک کر دیا ہے۔ اب آسٹریلیا سے درآمد شدہ بھیڑوں کا دن رات معائنہ کیا جا رہا ہے۔ وہ بھیڑیں بیماری سے زیادہ دن رات کے ڈاکٹری معائنے اور اور خون کے نمونے لینے سے لاغر ہو کر مر رہی ہیں۔ آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ یہ بھیڑیں پاکستان پہنچنے سے پہلے فٹ بال کھیلنے بحرین بھی گئی تھیں۔ بحرینی عوام میں کالی بھیڑیں تلاش کرنا مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ آسڑیلوی حکام نے پاکستان کی کالی بھیڑوں سے رابطہ کر کے انہیں اپنی سفیدبھیڑوں کے استقبال کے لئے تیار کر لیا تھا۔ آسٹریلوی بھیڑوں کو تندرستی کی جعلی ڈگری جاری کر دی جائے گی لیکن ان کا منصوبہ بھی ’’بھیڑ کی لات ٹخنوں تک ‘‘ثابت ہوا ہے۔ آج کل ہر کوئی اِن آسٹریلوی بیمار بھیڑوں کی فکر میں لاغر نظر آ رہا ہے۔

پاکستانی حکومت نے ان بیمار سفید بھیڑوں کی تلف کرنے کا کچا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ آسٹریلوی حکام نے پاکستانی حکومت کو باور کرایا ہے کہ اِن بھیڑوں کو تلف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کچھ دنوں بعد بھولے عوام سارے قصّے کو بھول جائیں گے۔ آسٹریلیا کا استدلال ہے کہ پاکستان میں پہلے کون سا تندرست جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا ہے۔ آسڑیلوی سفید بھیڑیں بلا ناغہ معائنے سے اس قدر تنگ آ چکی ہیں کہ خود کشی پر آمادہ نظر آ رہی ہیں۔ اِ ن بھیڑوں میں کچھ سرکردہ بھیڑوں نے طنزیہ انداز میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کر دیا ہے کہ ہماری فکر چھوڑیں کیونکہ ہم سے زیادہ خطرناک اور زہریلی تو وہ کالی بھیڑیں ہیں جو سارے معاشرے کا حق کھا رہی ہیں۔ پہلے اُن کی ٹھکانے لگانے کی فکر ہونی چاہئے جن کی وجہ سے آپ کا شمار دنیا کے پہلے 10کرپٹ ترین ممالک میں ہو چکا ہے۔ یہی وہ کالی بھیڑیں ہیں جو آپ کے منہ پر بدنامی کی کالک مَل رہی ہیں۔ اب آسٹریلیا نے آخری وارننگ دی ہے کہ اگر آپ نے ہماری سفید بھیڑوں کو تلف کیا تو ہم پاکستان سے کرکٹ روابط بحال نہیں کریں گے۔ آسٹریلیا کا کیا ہے اُن کی بھیڑ جہاں جائے گی وہیں منڈے گی۔ اس کے برعکس ہمارے لئے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اگر کرکٹ کی بحالی چاہتے ہیں تو بیمار آسڑیلوی بھیڑوں کا گوشت کھانا پڑے گا۔ میرے خیال میں کرکٹ کو بھول کر قومی صحت کی فکر کریں جو کسی کھیل سے زیادہ اہم ہے کیونکہ آسٹریلوی بھیڑوں کو قبول کرنا قومی صحت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ اس کے ساتھ عہد کریں کہ آئندہ انتخابات کے موقع پر تمام کالی بھیڑوں کو ووٹ کے ذریعے تلف کریں گے تاکہ ایک صحت مند اور روشن پاکستان کی تکمیل کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہو جائے، وہ خواب جو ہمارے بزرگوں نے جاگتی آنکھوں دیکھا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

شلوار اور لُنگی

 

                کائنات بشیر

 

شلوار اور لنگی، جن کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں کوئی تال میل نہیں پھر بھی ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں ایشیائی لباس کا حصہ ہیں۔ شلوار تو قومی لباس کے آدھے حصے میں بھی شامل ہے۔ یہ دونوں خود مشہور ہوئے کہ نہیں پر ان کی بدولت ان کے جوڑی دار خوب مشہور ہوئے۔ شلوار کے ساتھ کئی طرح کے کُرتے فروغ پا گئے۔ کئی طرح کی اونچی، نیچی، لمبی، چھوٹی قمیضیں فیشن میں آ گئیں۔ اِدھر لنگی دراصل ایک مسکین سا لباس ہی رہی، جس کے ساتھ چاہے کرتا پہن لو یا قمیض اور بنیان کے ساتھ بھی باکمال، جبکہ بڑے بڑے لوگ سیاستدان، افسروں، تھانیداروں کا گھروں میں تخلیے میں یہ بے تکلف سا حلیہ ہے۔ اور ان سے بھی بڑھ کر شاعر حضرات کا پسندیدہ لباس ہے بنیان اور لنگی۔ حالانکہ یہ مشہور لوگ اسے چھپ کر پہنتے ہیں، سرِ عام پہننے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے گھروں پر کوئی اچانک چھاپہ مار لے تو یہ چھپنے لگتے ہیں یا اسے بدلنے کے لیے دو چار منٹ کے لیے ادھر ادھر ہونے لگتے ہیں۔ دراصل لنگی کے ساتھ ان کی پُر رعب شخصیت کا گراف کچھ نیچے آ جاتا ہے۔ حالانکہ لنگی میں بھی کافی ورائٹی آئی۔ ڈبیوں والی، چار خانوں والی، لائنوں والی، جاپانی لیڈی نے بھی اسے اپنے حسیں گداز بدن کا پہناوا بنایا۔ اور گھبراہٹ میں آدھے کی بجائے پورے جسم کی زینت بنا لیا۔ مگر کپڑا چونکہ محدود تھا اس لیے یہ لباس کافی چست بنا کہ اسے چلنا مشکل ہو گیا کیونکہ اسے پہن کر وہ جاپانی حسینہ، انجمن کی طرح چھلانگیں نہیں مار سکتی تھی۔ تبھی تو اسے پھولوں کو بھی اپنے پہناوے میں شامل کرنا پڑا اور چہرے پر اک ملکوتی مسکراہٹ سائیو نارا سائیو نارا کر کے لانی پڑی۔ سو ادھر ادھر کے مانگے لوازمات سے اس لنگی نما لباس کی عزت رکھنی پڑی۔

ویسے سری لنکا کے لوگوں کی لنگی بڑا متاثر کرتی ہے جسے وہ مچھیروں کی طرح اتنا اونچا باندھ لیتے ہیں جیسے ہر وقت شٹرپ شٹرپ پانی میں سے گزر رہے ہوں اور بنگالی بھائیوں کا تو یہ پسندیدہ لباس ہے جسے وہ مچھلی اور چاول کی مرغوب غذا کے ساتھ خوب پسند کرتے ہیں۔ وہاں بنگالی خواتین جتنا خوش ہو کر ساڑھی پہنتی ہیں، مرد سرعام اتنی ہی بے تکلفی سے لنگی پہنتے ہیں۔ ساڑھی اور لنگی کافی ملتے جلتے لباس ہیں، اگر ایک ساڑھی کو درمیان سے کاٹ دیا جائے تواس سے دو لنگیاں بآسانی تیار ہو سکتی ہیں۔ پھر مردوں کے لیے اس کے ساتھ زمین پر کھانا کھانے کے لیے بیٹھنا بھی کتنا آسان ہے۔ جبکہ پتلون والا زمین پر بیٹھنے میں کتنی تردد کرتا ہے۔ سو طرح کے بہانے بناتا ہے۔ کہ مجھے بھوک نہیں، پیٹ بھرا ہوا ہے۔ اور بھوکا ہو کر بھی بھوکے نہ ہونے کا ناٹک کرتا ہے۔

لنگی پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ ورزش کی جا سکتی ہے۔ یوگا کے آسن لگائے جا سکتے ہیں۔ پھسکڑی ماری جا سکتی ہے۔ بس کراٹے کرنے والوں کے لیے یہ لباس محفوظ نہیں۔

ویسے کہنے میں کیا حرج ہے۔ اپنی جگہ دونوں ہی نیم عریاں لباس ہیں۔ اگر شلوار کو عزت دار بنانے کے لیے قمیض نہ ملتی اور لنگی کو بنیان جیسی ساتھی نہ ملتی تو دونوں ہی فحش کیٹیگری میں آ جاتے۔

کہتے ہیں جب سکندر اعظم کی فوجیں برصغیر میں آئیں تو اپنے ساتھ مختلف طرح کے کھانے اور لباس کے انداز لائیں جن میں بھیڑ کا نمکین گوشت اور قمیض کے ساتھ شلوار چلی آئی۔ جب وہ واپس گیا تو اس کے اکثر فوجی اسی علاقے میں رہ گئے، یہیں مقامی لوگوں سے انھوں نے شادیاں کر لیں تویوں ان کے کھانے اور لباس بھی مقامی لوگوں میں رچ بس گئے۔ تو سکندر بھیا شلوار کو دوام بخشنے کا سہرا تمہارے سر ٹھہرا۔ ۔ شلوار پاکستان کے علاوہ عرب ممالک میں بھی کافی مشہور ہے۔ خاص طور پر بیلی ڈانس کرنے والی پر تو خوب جچتی ہے۔ ایک دوست خوب فیشن کی دلدادہ تھی۔ ایک بار اس نے ٹیلرسے سوٹ سلوایا تو اسے بتا بتا کر اپنی شلوار نئے طریقے سے ڈیزائن کروائی۔ جب تیار شدہ شلوار ٹرائل کے لیے پہن کر آئی تو سب کا ہنستے ہوئے برا حال ہو گیا وہ کوئی عربی رقاصہ لگ رہی تھی۔ شلوار میں ڈھیر سارا کپڑا علیحدہ کھپ گیا تھا اور چنٹیں ہی چنٹیں نظر آ رہی تھیں۔ اسی طرح کی ایک اور دلچسپ شلوار فلم پریم روگ میں پدمنی کولہا پوری نے پہنی تھی۔ گانا چل رہا تھا۔ ۔ ۔

محبت ہے کیا چیز ہم کو بتاؤ

یہ کتنے سروں کی ہمیں بھی سناؤ

اس میں وہ جو شلوار کا پہناوا پہنے نظر آئی تو اس کی ٹانگیں مرغی جیسی لگ رہی تھیں جسے دیکھ کر یقیناً فلم بین بھی سوچتا ہو گا،

یہ پہنی ہے کیا چیز ہم کو بتاؤ

یہ کتنے گزوں کی ہمیں بھی بتاؤ

خیر اس کے بعد تو خوب شلوار فیشن آئے، پٹیالہ شلوار، بیلٹ شلوار، پنجابی شلوار، دھوتی شلوار وغیرہ وغیرہ، شلوار کے بالمقابل چوڑی دار پاجامہ آیا۔ ٹراؤزر، غرارہ، شرارا، کی صورت نئے نئے مقابل سامنے آئے مگر شلوار جتنے مشہور نہیں ہو سکے۔ پاکستان کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پنجابی سے پٹھان، سندھی سے بلوچی تک سب ہی شلوار کے دلدادہ ہیں۔ بس اپنی علاقائی ثقافت دکھانے کے لیے اوپری لباس پر زور لگا دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں شلوار کھلی ہے اور کہیں تنگ۔ ۔ ! جیسے پٹھان کی شلوار اس کے مزاج کے الٹ کھلی کھلی ملے گی۔ یوں شلوار چاروں صوبوں میں نظر آتی ہے جبکہ لنگی صرف پنجاب میں۔ لیکن اس سے یہ مت سمجھئے گا کہ لنگی پہننے والوں کا تناسب کم ہو گیا ہے۔ ہرگز نہیں اب دیکھیں نا اگر سیاستدان شلوارسے شغف فرماتے ہیں تو اُدھر فردوس، نغمہ، رانی، عالیہ، آسیہ سے لے کر انجمن، ریما، صائمہ پنجابی فلموں کی ہیروئن لنگی نما لاچا پہنتی رہی ہے۔

لنگی وہ کپڑا ہے جسے کمر سے لے کر گھٹنوں یا پنڈلیوں تک باندھتے ہیں۔ یہ ریشم یا سُوتی کپڑے سے بنائی جاتی ہے اور اسے کمر کے گرد باندھا جاتا ہے۔ بھارت، پاکستان اور بعض دوسرے جنوب ایشیائی ممالک میں مرد حضرات اور بعض علاقوں میں خواتین بھی لنگی پہنتی ہیں۔ لاچا، لنگی، دھوتی، چادر یہ سب ایک ہی برادری سے ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ لاچا مذکر ہے اور لنگی مونث، فلموں میں عورت مذکر پہن رہئیے اور مرد مونث، اور معاشرے کو بھی اس پہ چنداں اعتراض نہیں۔ ۔ جبکہ عورت کے پتلون پہننے پر ہو ہو ہاہا کار مچ جاتی ہے۔ ۔ اب دیکھیں نا، لاچا پہن کر انجمن نے کھیتوں میں کتنے کدکڑے لگائے ہیں، کتنی فصلیں تباہ کی ہیں۔ اور سلطان راہی نے لنگی پہن کرگنڈاسہ اٹھایا ہے، بڑکیں ماری ہیں اور بہتوں کے ٹوٹے کیے ہیں۔ اس پر معاشرے کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔

لنگی کے تو اور بھی ہزار فوائد نکلے۔ ایسا لباس جسے کاٹنا سینا پرونا بھی نہیں پڑتا۔ ادھر بازار سے لائے ادھر بندہ پہننے کو تیار، بوقت ضرورت بسترپر بچھ سکتی ہے۔ سر پر ڈالی جا سکتی ہے۔ چھتری کی طرح تانی جا سکتی ہے۔ سر پر باندھنے کا صافہ بنا دیا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر جب کوئی دوسرا کپڑا دستیاب نہ ہو رہا ہو تو فوراً لوگ اسے استعمال میں لے آتے ہیں۔ اس کے چار کونے گرہیں باندھنے میں بڑے کارآمد ہیں۔ اسی لیے دھوبی جب بھی گندے کپڑے لینے آتا ہے تو باقی کپڑے اس لنگی نما چادر میں لپیٹ کر فورا گٹھڑی بنا لیا ہے۔ یقین نہ آئے تو آئندہ اسے کہہ دیکھیے کہ صاحب کی پتلون میں کپڑے باندھ کے لے جائے یا بیگم صاحبہ کے شرارے میں میلے کپڑے باندھ لے۔

ویسے سمجھا جاتا ہے کہ لنگی ایک دیہاتی پہناوا ہے۔ تو کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ شہر میں آپ کو لنگی پہننے والوں کا تناسب ذرا کم نظر آئے گا اور دیہات میں زیادہ، وہاں اس کے دلدادہ اور دلدار زیادہ ملیں گے۔ کچھ لوگ اس سے اتنے مانوس اور بے تکلف ہیں کہ لنگی کے لٹکتے سرے کو پکڑ کر اس سے بھی کوئی نہ کوئی کام لے لیتے ہیں۔ جیسے ہاتھ پونچھ لیے، منہ دیکھنے کے لیے آئینہ پکڑ کر صاف کر لیا، اور نہیں تو اس سے بچے کی بہتی ناک صاف کر دی۔ پھراس کی ڈب اک خفیہ تجوری کا کام دیتی ہے۔ کچھ مہربان اسی سرے میں روپے لپیٹ کر جلدی سے اسے اڑس لیتے ہیں۔

لنگی کی ایک اور قسم ہمسایہ ملک کی ہندی فلموں میں بھی نظر آتی ہے اور ان کے ٹی وی ڈراموں میں بھی۔ جو کچھ ایسے انداز، بھول بھلیوں کی طرح نظر آتی ہے کہ فلم بین کہانی چھوڑ کر اس لنگی کو پہننے کا طریقہ سوچنے لگتا ہے۔ ویسے کمال کی بات ہے کہ اس طرح لنگی پہن کر کچھ شلوار جیسی دکھنے لگتی ہے۔

ہر زمانے میں لنگی آرام دہ نائٹ سلیپنگ ڈریس بھی رہی ہے۔ لنگی ایک رنگ کی ہوتی تھی یا لائنوں ڈبیوں والی۔ شکر ہے کبھی پھولوں والی لنگی دیکھنے کو نہیں ملی۔

ویسے کہنے میں کیا حرج ہے، شاعر علامہ اقبال بھی گھر میں اسے شوق سے پہنتے تھے اور سکھ صاحبان تو لنگی پہن کر خوب۔ ۔ آہو آہو، بلے بلے۔ ۔ کر کے بھنگڑا ڈالتے ہیں۔

پہلوان لوگ لنگی پہن کر اسی کو چڈی میں تبدیل کر کے فوراً کمر کس کر اکھاڑے میں اتر آتے ہیں۔

عربی لوگ بھی چوغہ کے نیچے لُنگی ہی تو پہنتے ہیں۔

ساڑھی بھی ایک طرح سے اسی برادری سے ہے جس کا دو تہائی حصہ کمر پر لنگی کی طرح ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر باقی ایک تہائی حصہ فورا پلو کی طرح کندھے یا سر پر ڈال لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں شلوار پہلے زیادہ عورتوں کا پہناوا ہوا کرتی تھی یا پھر گاؤں کے پگڑی والے جاگیر دار، وڈیرے، نمبردار اسے پہنتے تھے۔ لیکن صدر ضیا الحق نے شلوار سوٹ پہن کر اسے مردوں میں عام دوام بخش دیا۔ اس فیشن کو آگے لے جانے کے لیے بعد میں نواز شریف نے بھی خوب ساتھ دیا۔ وہ کلف لگے شلوار سوٹ کے ساتھ با اعتماد امریکہ کا دورہ کیا کرتے تھے اور امریکن صدر کے بالمقابل بیٹھا کرتے تھے۔

لوگ اور سیاستدان شلوار سوٹ کو خوب کلف لگا کر پہن کر اکڑے پھرتے ہیں۔ جبکہ لنگی سادہ ہی رہتی ہے اور اسے پہننے والا بھی منکسر المزاج رہتا ہے۔

ویسے شارجہ میں پولیس نے گشت کے دوران ایک شخص کو لنگی پہننے کے جرم میں گرفتار کر لیا اور اس سے تفتیش شروع کر دی۔ پولیس افسران کا کہنا تھا کہ لوگوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عوام میں شائستہ لباس پہن کر باہر آئیں۔ جبکہ اس شخص کا واویلا تھا کہ لنگی نے مجھے اوپر سے نیچے تک ڈھانپ رکھا تھا۔ میری ٹانگیں مکمل طور پر ڈھکی ہوئی تھیں۔ یہ مکمل طور پر شائستہ اور صاف تھی اور لُنگی میرے آبائی وطن کا روایتی لباس ہے جسے اسے عام پہنا جاتا ہے۔

ہاں بھئی۔ ۔ اسی لیے تو بنگالی اور کیرالہ والے مہربان بنیان کے نیچے دھوتی پہن کر آرام سے بازار میں گھومتے ہیں۔

اب شلوار کتنی تمیز کے دائرے میں ہے اور لنگی غیر شائستہ، ان کے مداحوں کی تعداد کبھی کم نہ ہو گی۔ بہت سالوں غالباً صدیوں سے یہ دونوں پہناوے چلے آ رہے ہیں۔ ابھی تک کوئی بھی زمانہ، رواج اور فیشن انھیں مکمل آوٹ نہیں کر سکا۔ یہ بھی ثقافتی لباس کی طرح بڑے کروفر سے اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں کیونکہ ہر گھر میں ایک آدھ فرد ضرور لنگی پہننے والا مل جاتا ہے اور خاندانی تناسب اس سے بھی زیادہ۔ سو امید ہے کہ اسی طرح یہ دونوں رواج میں رہتے ہوئے آنے والے فیشن کو مقابلہ اور ٹکر دیتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حالتِ خاوندگی میں ایک دن

 

                راشد حمزہ

 

جب سے پاپا کو امی جی سے یہ سرگوشی کرتے ہوئے سُنا ہے کہ (د دہ ھم غم کوو) ’’اس کا‘‘ بھی ’’بندوسبت‘‘ کرتے ہیں، تب سے میرے پاؤں کے چوہے ہاتھوں کے طوطے اور بالوں کے کوے اُڑ گئے ہیں، میری مظلومیت کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مجھے تواتر سے ’’خاوندگی‘‘ کے دورے پڑنے لگے ہیں، میں بری طرح خود کو ’’خاوند خاوند‘‘ محسوس کرنے لگا ہوں۔

تصور مستقبل میں ’’خاوند‘‘ کی جو تصویر دکھا رہا ہے وہ کچھ ایسی ہے کہ میں ’’خاوند‘‘ بنا ہوا ہوں، شکل بہت معصوم اور رحم کھانے والی ہے، میرے سر کے بال بوجہ بڑی ہیل والے جوتا زدگی صاف ہو چکے ہیں، ٹنڈ کے ناف پر ہیل کی نشانات واضح دکھائی دیتے ہیں، تنخواہ پر بیوی کی میک اپ کا خرچہ بھاری ہے، میں ایک بات کرتا ہوں بیوی تین سنانا ثواب سمجھتی ہیں، ضروریاتِ لازمیہ پوری کرنے کا بوجھ کیا کم ہے کہ بیوی کے نخرے اٹھانے کا وزن بھی کندھوں پر ہے، صبح فرمائشوں کی ایک فہرست دکھا کر جگایا جاتا ہے، خاوند جاگنے میں لیت و لعل سے کام لے لیں تو زوجہ محترمہ لحاف کھینچنے اور پانی چھڑکانے سے گریز نہیں کرتی، اس سے بھی کام نہ بنے تو خاوند نامدار کو بیڈ سے گھسیٹنے کا باقاعدہ عمل بھی سرانجام دیا جاتا ہے۔

ناشتہ تیاری بنانے کا ٹھیکہ بھی خاوند کی کارکردگی سے منسوب کیا گیا ہے، جس دن ایک چھوٹی سی فرمائش پوری نہ ہو، بیوی روٹھنے کا عمل شروع کرتی ہے،   نتیجتاً خاوند کو اپنے لئے ناشتے کا اور اسے منانے کیلئے پاستے کا انتظام بھی کچن پوشی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

ناشتہ بنوانے اور زوجہ محترمہ کے منہ میں ٹھونسوانے کے بعد بیوی میک اپ کرنے سنگھار میز کے آگے بیٹھ جاتی ہے تو خاوند نامدار دفتر تیاری کیلئے کپڑے پریس کرنا شروع کر دیتا ہے، خاوند اپنے کپڑے ختم کر دیتا ہے تو ایک اور فرمائش دہانہ کھولے کھڑی ہوتی ہے، اپنے کپڑے پریس کرنے کا فرض ادا کرتے ہوئے بیوی خاوند پر ترس کھا کر ایک ادا سے جسے احسان کر رہی ہو کچھ یوں کہتی ہے ’’یار میرے بھی کرو نا۔ ‘‘

خاوند بیوی کے اس جملے سے ہواؤں میں اُڑنے لگتا ہے اسے ہر وہ رنگین خواب پھر دِکھنے لگتا ہے جو وہ زمانہ عاشقی معشوقی میں دیکھا کرتا تھا، کپڑے پریس کرنا جب ختم ہو جاتا ہے پر بیوی کے سنورنے کا عمل ابھی درمیاں میں اٹکا ہوا ہوتا ہے۔

اب شوہر نہایت احترام کے ساتھ التجا بھری نظروں سے دفتر جانے کی اجازت طلب کرتا ہے تو بیوی کی آنکھوں میں خون کے قطرے تیرنے لگتے ہیں، یہ غصے کا شدید اظہاریہ ہوتا ہے، ساتھ ہی دو تین عدد طعنوں سمیت چند ناقابل اشاعت جملے ارشاد فرما کر کہتی ہے، ’’ارے دفتر میں تم نے کو ن سا تیر مارنا ہوتا ہے‘‘ گھر کے تھوڑی اور چھوٹے موٹے کام پوری طرح کر نہیں سکتے چلتے ہیں دفتر کام کرنے‘‘، اس کے ساتھ شوہر پر مظلومیت کے دو تین شدید دورے پڑتے ہیں، اور دل ہی دل میں بیشمار غلیظ ترین گالیاں نکالتا ہے جو کسی ڈکشنریوں میں ملنا ممکن نہیں۔

ایک حکم بجا لانے کے بعد بیوی ایک اور حکم سناتی ہے کہ آ جا میک اپ بنوانے میں ہاتھ بٹھا، شوہر نامدار کو اپنے کنوارے پن کا زمانہ یاد آ جا تا ہے جب وہ شادی کے متعلق سوچا کرتا تھا کہ جب گلابو بیوی بن کر گھر آئیگی صبح جگانے و دیگر خدمات سرانجام دینے کے بعد دفتر نکلتے سمے نکٹائی جب بندھوائے گی، اس کے دونوں ہاتھ میرے نکٹائی پر ہوں گے اور میرے ہاتھوں کے گھیرے میں اس کی پتلی نازک سی کمر ہو گی، اسی سمے میرے روں روں کانپ اٹھے گی، بدن میں بجلی جیسے 440 واٹ کا کرنٹ محسوس ہو گا یوں میں آھستہ آھستہ ہاتھوں کا گھیرا تنگ کر کے اسے قریب اور قریب لے آؤں گا اتنی قریب کہ پھر درمیاں میں رہے گا نہ کوئی فاصلہ، جب تک وہ نکٹائی باندھنے کا کام تمام کر دے میں اس کے ہونٹوں کا رس پئیوں گا، تب وہ لجائے گی شرمائے گی ہچکچائے گی اور کہے گی کیا کر رہے ہو دفتر کیلئے دیر ہو رہی ہے۔

ذمہ داری اور باس کی گالیاں یاد آتے ہی بددلی کیساتھ یہ پُر خمار رومانوی منظر تمام ہو گا،   یوں میں دفتر کیلئے بخوشی نکلنے لگوں گا، شادی کے بعد بالکل برعکس ہو رہا ہے، حکم بجا لانے کی خاطر خاوند سنگھار میز کی قریب جاتا ہے، بیوی ان سے بال بنوائی کا حکم دیتی ہے، خاوند بال بنوانا شروع کر دیتا ہے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہیں اسے سیدھا کرتے ہیں سٹریٹنر استعمال کرتا ہے لیکن اس کے دل میں ایک بھی رومانوی خیال رنگین خواہش نہیں گزرتا کیونکہ اب وہ فرائض ادائیگی میں مصروف ہے، فرائض ادائیگی ہمیشہ بوجھ رہتی ہے، آخرکار بیوی تیاری کا مرحلہ بخیریت اختتام پذیر ہونے کی بعد خاوند دفتر جانے کیلئے پھر حوصلہ کر کے اجازت طلب کرتا ہے، تو بیوی حکم صادر کرتی ہے کہ ساتھ جائیں گے۔

خاوند سوال طلب نگاہیں بیوی کی طرف اٹھاتا ہے بیوی معاملہ بھانپ لیتی ہے کہتی ہے راستے میں ’’صغراں ‘‘ کا گھر پڑتا ہے میں وہاں انکے ہاں آنے والے نئے مہمان بچے کی مبارکباد دینے جا رہی ہوں۔ بیوی خاوند کیساتھ معاشی بدحالی کا نمونہ سوزوکی مہران میں بیٹھتی ہے، شوہر نامدار گاڑی سٹارٹ کرتا ہے ساتھ سوچتا رہتا ہے کہ کہاں بیوی کو ٹھکانے لگا دوں، انہی سوچوں میں گُم ’’صغریٰ‘‘ کا گھر آ پہنچتا ہے، بیوی ایک چیخ مارکر کہتی ’’ارے دھیان کدھر رکھ چھوڑ آئے صغریٰ کا گھر آ پہنچا ہے‘‘ شوہر کو دھچکا اور جھٹکا سا لگتا ہے کانپتے کانپتے کار روکتا ہے، ایسی نظروں سے بیوی دیکھتا ہے جیسے قریب اسے لات مارکر گاڑی سے باہر نکالے گا، اِتنے میں بیوی ایک اور بم یہ کہہ کر گراتی ہے کہ ذرا پانچ سو دینا ساتھ فروٹ لیے جانا ہے، خاوند چار و نا چار یہ بھی کرتا ہے اور اپنی راہ ایسے لے لیتا ہے جسے جیل سے بھاگا ہوا قیدی۔

خاوند دفتر پہنچتا ہے حسبِ معمول اور حسبِ ذائقہ باس سے دو تین عدد گالیاں دفتری چائے سمجھ کر نکال لیتے ہیں، دن دفتر میں بغیر کام کی بیوی کی فرمائشیں پوری کرنے کی منصوبہ بندی کرنے میں گزر جاتا ہے، دفتر سے نکلتے ہی وہ قریبی مارکیٹ کی راہ لیتا ہے جہاں اسے بیوی کی فرمائشیں پوری کر کے خاوندگی کا فرض ادا کرنا ہے، بیوی کے سامانِ فرمائشیہ میں ہیئر سٹریٹنر، فیس پوڈر، فیس کریم، فیس واش، مسکارا، پن کیک، اور آئی شید وغیرہ خرید لیتا ہے، مارکیٹ سے نکلتا ہے تو ایک پھوڑی کوڑی جیب میں نہیں بچی، اب وہ یہ منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے اگر راستے میں سی این جی ختم ہو جاوے تو کیا کریں گے، دھکے دے کر گاڑی کو گھر لے جایا جائیگا کہ گاڑی چھوڑ کر پیدل چلیں گے، اسی دوران صغراں کا گھر آ پہنچتا ہے، خاوند کے برے وقت کا آغاز خود اس کے ہاتھوں ہارن بجانے سے ہوتا ہے،   بیوی صغریٰ کے گھر سے رخصت ہو کر کار میں آ بیٹھ جاتی ہے، سفر شروع ہوا چاہتا ہے، خاوند نامدار دل میں اپنے سے کہتا ہے ’’میرا برا وقت تب چلتا ہے جب بیوی ساتھ ہوتی ہے‘‘ یوں گھر آ جاتا ہے۔

خاوند نامدار اتر کر بیگم کی طرف کا دروازہ کھول دیتا ہے بیوی کے چہرے پر بادشاہت کے تازہ تازہ اثرات واضح ہو جاتے ہیں، خاوند کے جسم سے کمزور بے بس اور مظلوم رعایا کی سی بو آنے لگتی ہے، بیوی کمرے میں پہنچ کر ہی لیٹ کر ایک ہی فریاد کرنے لگتی ہے ’’ہائے مڑہ شومہ‘‘ ہائے میں مر گئی، یوں اس فریادِ بامراد کے ذریعے وہ رات کیلئے کھانا بنانے سے بری الذمہ ہو جاتی ہے، خاوند بیوگی کے فرائض کی انجام دہی شروع کرتا ہے، سب سے پہلے سالن پکاتا ہے پھر روٹی، کھانے کی گھڑی آتی ہے تو کھانا لے کر بیوی کے سامنے میز پر پروستا ہے دونوں اکھٹے کھانا کھاتے ہیں، بیوی میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ خاوند کو کبھی نوکر نہیں سمجھتی تبھی ساتھ کھانے پر اعتراض نہیں اٹھاتی۔

نوالہ ٹھونسائی کے عمل سے فراغت کے بعد بیوی ٹیلی ویژن آن کر کے ریسلنگ دیکھنا شروع کرتی ہے، بیوی ریسلنگ دیکھنے اور کھیلنے کی شوقین ہے اور کسی حد تک دیکھ دیکھ کر سیکھ بھی چکی ہے آج نجانے اسے کیوں سوجھی کہ شوہر سے ریسلنگ کھیلی جائے، شوہر نامدار باوجود سخت تھکاوٹ کے اس لئے حامی بھر لیتا ہے کہ دن کا حساب برابر کر دے، دونوں سٹارٹ ہو جاتے ہیں، شوہر نامدار کے نا تجربہ کاری کی وجہ سے تمام مکوں کے ایٹم بم خالی جاتی ہے، پھر بیوی شروعات کرتی ہے اور ابتدائی مکا شوہر کے منہ اور ناک پر ایسا لگتا ہے کہ وہ یکدم گر کر بیہوش ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

گرل فرینڈ

 

                سید ممتاز علی بخاری

 

میرے احباب عموماً مجھ سے شکوہ کناں رہتے ہیں کہ میں نے گرل فرینڈ جیسی کوئی شے کوئی نہیں پال رکھی۔ میں ان سے ہمیشہ یہ عرض کرتا ہوں :جناب! گرل فرینڈ کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گرل فرینڈ انسان کو ہر وقت، ہر جگہ اور ہر موقع پر کام آتی ہیں۔ آپ کا بیلنس ختم ہو جائے تو ایک مختصر سے پیغام پر آپ کے موبائل کا پیٹ بھر جائے گا۔

آپ کوئی شے خریدنا چاہتے ہوں لیکن آپ کا جیب خرچ اجازت نہ دیتا ہو تو آپ اپنی گرل فرینڈ سے بطور گفٹ طلب کر سکتے ہیں۔ آپ اکیلے بیٹھے تنگ ہو رہے ہوں تو ایک کال یا میسج کی دوری پر آپ کی بوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ آپ کی فضولیات اگر کوئی نہیں سنتا تو آپ کی گرل فرینڈ کی حسِ سماعت حاضر ہے۔ گرل فرینڈ بہت ہی مددگار ہتھیار ہوتی ہے۔ اگر آپ کی گرل فرینڈ کسی با اثر خاندان کی ہو پھر کبھی آپ کا کوئی کام کسی افسر کے ہاں نہیں پھنسے گا۔

گرل فرینڈ بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک کھانے والی اور دوسری کھلانے والی۔ کھلانے پلانے والی گرل فرینڈ ہمیشہ نقصان میں رہتی ہے۔ اس سے بیلنس منگوا کر اور دوسرے اخراجات حاصل کر کے اس کا محبوب اکثر دوسری لڑکیوں سے گلچھڑے اُڑاتا رہتا ہے۔ مشکل اوقات میں جب بیوی بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے ایسے میں انسان گرل فرینڈ کا ہی سہارا تلاشتا ہے۔ چپ شاہ کہتے ہیں کہ اگر آپ گرل فرینڈ کو ایک سو روپے کی خریداری کروائیں تو وہ پوری زندگی آپ کی ممنونِ احسان رہے گی لیکن بیویاں جن کے ہاتھ پر انکے شوہر اپنی پوری تنخواہ رکھ دیتے ہیں وہ پھر بھی ناشکری کرتی رہتی ہیں۔ لوگ گرل فرینڈ کی تعداد کو اسی طرح باعثِ برکت سمجھتے ہیں جیسے زمانہ جاہلیت میں کثرتِ اولاد کو منبعِ قوت سمجھا جاتا تھا۔

ایک دفعہ چپ شاہ کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں جس گاڑی پر وہ سوار تھے۔ اس مین ان سے پچھلی نشست پر بیٹھی دو لڑکیاں ایک دوسری کو زبردستی شاہ جی کی زوجیت کی سعادت نصیب کروانے کی کوششیں کر رہی تھی۔ جب کافی دیر ان کی جنگ ختم ہونے کے آثار نظر نہ آئے تو چپ شاہ نے ان کی طرف رخ موڑا اور کہنے لگے: "آپ آپس میں کیوں اُلجھ رہی ہیں ؟ میں آپ دونوں سے بیک وقت شادی کے لیے تیار ہوں۔ اسلام نے تو چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ ”

گرل فرینڈ وہ افیون ہوتی ہے جو بد خوابی کے مریضوں کو بے خوابی کی گولی دیتی ہیں اور یوں ہر دو خاتون و حضرت شب بیداری کر کے اپنی نیکیوں میں روز افزوں ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ اب آپ سے کیا پردہ۔ ۔ ۔ ہمارے دوست اور مشہور مفکر چپ شاہ نے بھی گرل فرینڈ کا ایک جوڑا رکھا ہوا ہے۔ ہم نے ایک روز اعتراض کیا۔ ہمیں اعتراض اس بات پر نہیں تھا کہ انہوں نے کیونکر گرل فرینڈ کی مصیبت پال رکھی ہیں بلکہ ہم اس بات پر حیران تھے کہ بیک وقت دو گرل فرینڈ ز سے وہ کیسے نبھا کر پاتے ہیں۔ کہنے لگے:بخاری صاحب! ہم اہلِ ایمان ہیں اور بقولِ اقبال اہل ایمان کی نشانی یہ ہے

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِ دھر نکلے

وہ گرل فرینڈ جو انسان کی جان ہوتی ہے شادی کے بعد وبالِ جان بن جاتی ہے غالباً جنرل ایوب خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا تبھی تو وہ بے اختیار پکار اُٹھے”FRIENDS , NOT MASTERS”۔

اس حوالے سے ہم کافی بد قسمت واقع ہوئے ہیں۔ جب ہم یونیورسٹی کے ہاسٹل منتقل ہوئے تو وہاں جو معمولات جاری تھے اُن میں سے ایک یہ تھا کہ ہر رات نو بجے کے بعد پورے ہاسٹل میں بستروں پر، کرسیوں پر، باہر لان میں، کینٹین پر۔ ۔ ۔ غرض کوئی جگہ ایسی نہیں ہوتی تھی جہاں کوئی نہ کوئی اپنی گرل فرینڈ سے پیکج پر لمبی لمبی باتیں نہ کر رہا ہوتا۔

خدا معاف فرمائے ان موبائل کمپنیوں کے مالکان کو جن کے باعث ہمارے ہاسٹل کا سکون نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔ پہلے پہل تو ہم ملاں فضیحت کا کردار نبھاتے ہوئے چار سُو پند و نصائح کرتے پھرا کرتے لیکن آخر کب تک۔ ۔ ۔ ؟؟؟ آخر کار تنگ آ کر ہم نے اپنے ہم کمرہ حضرات سے پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت درخواست کی کہ آپ یا تو ہمارے سامنے پیکج نہ لگایا کریں کیوں کہ اس طرح ہم اپنے آپ کو ایک مجرم گرداننے لگتے ہیں اور گلٹی محسوس کرتے ہیں یا پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ہمیں بھی ایک عدد گرل فرینڈ عنایت فرمائی جائے۔ دوستی کی خاطر جان دینے کی بات کرنے والے دوستوں نے دو دو تین تین گرل فرینڈز ہونے کے باوجود ہمیں یہ سہولت میسر کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے معمول سے بھی باز نہیں آئے۔ پھر ہم جتنا عرصہ ہاسٹل میں قیام پذیر رہے ’’کتابوں ‘‘کو گرل فرینڈ بنائے رکھا لیکن میرے دوستوں کا کہنا تھا کہ کتابیں گرل فرینڈ نہیں ہو سکتیں۔

ہاسٹل کے دور میں جب ہم سب دوست اکٹھے بیٹھے چائے پی رہے ہوتے یا پھر کہیں سیر سپاٹے کے لیے نکلتے تو وہاں ہمیں ایک عجیب سی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہمارا ٭٭ وقت شٹرپ شٹے لگے اور بڑے بڑٰکوئی نہ کوئی مہربان ہماری اس محرومی کا ذکر کرتا اور پھر سب مل کر حسبِ توفیق ہمیں اس کمی کا جی بھر کر احساس دلاتے اور پھر اپنے اپنے تجربات سے روشناس کرواتے۔

کچھ حضرات تو اپنے تو اپنے’’سُسر فرینڈ‘‘ کے حوالے سے بھی من گھڑت باتیں اور ’’ساس فرینڈ‘‘ کی دعائیں اور پیار ہمارے سامنے یوں جتاتے کہ کبھی کبھی ان کی اور اکثر اوقات ہماری آنکھوں سے آنسوایک سِیل رواں کی طرح جاری ہو جاتے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ جب بھی ہمیں ہمارا کوئی دوست ملتا یا وہ ہمیں کہیں دیکھتا تو اپنے ساتھ چلنے والے لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کر کے بتاتا: ’’بھائی! اُس کو دیکھو، بے چارے کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔ ‘‘ پھر اس کے سارے ہمراہی ہمارے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے لگتے۔ اکثر اوقات تو فٹ پاتھ پر بیٹھے بھکاری بھی ہم پر ترس کھا کر مفت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی بارگاہ سے ہمیں ایک گرل فرینڈ عطا فرمائے۔ پھر تو انتہا ہی ہو گئی لڑکیوں نے ہمیں راہ چلتے دیکھ کرآپس میں کھُسر پھسر کرنی شروع کر دی۔

شاید اس طرح یہ سب مل کر بھی ہمیں ہمارے ’’اصولی‘‘ مؤقف سے ہٹا نہ سکتے لیکن ایک حادثے نے سب کچھ زیر و زبر کر دیا اور پھر ہم کسی اور کی ’’گرل فرینڈ ‘‘ بن گئے۔ ’’کسی اور کی گرل فرینڈ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ان الفاظ سے آپ بھی چونک گئے ہوں گے۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ہمارا ایک دوست حیدرآباد کا رہنے والا تھا۔ ہماری آپس میں خوب گاڑھی چھنتی تھی۔ ایک روز فون پر کہنے لگا:یار! میرا ایک لنگوٹیا مجھ سے کسی لڑکی کا نمبر مانگ رہا تھاجسے وہ اپنی گرل فرینڈ ہونے کا اعزاز بخشے۔ اب آپ ہی بتاؤ کہ میں اس کی یہ معصوم سی خواہش کیسے پوری کرتا؟ اب دوست کی حیثیت سے اس کے کام آنا ضروری تھا سو میں نے اسے آپ کا نمبر بھیج دیا ہے یہ کہہ کر کہ یہ ایک لڑکی کا نمبر ہے۔

اب آپ سے درخواست ہے کہ اس سے لڑکی بن کر کچھ عرصہ گپ شپ کرو۔ جب اس کا جنون کچھ کم ہوا تو میں اسے اصل صورتِ حال سے آگاہ کر دوں گا۔ ہم نے معذرت کرتے ہوئے کہا : یہ عمل نہ صرف دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آواز کی جنس کا بدلاؤ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ وہ کہنے لگا: آپ میسجز کے ذریعے رابطہ کرنا۔ ۔ ۔ اور اب کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے اُسے تمہارا نمبر دے دیا ہے۔ بالآخر اُس کے مسلسل اور پُر زور اصرار پر ہم اُس نامعلوم کے ’’گرل فرینڈ‘‘ بن گئے۔ پھر مت پوچھیے کیا ہوا ؟ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا اور ہم خود دیگ کے مزے لے رہے تھے اور ہمارا ’’عاشق ‘‘ ایک چمچے کی طرح ہمارے پیچھے لگا ہوا تھا اور ہمارا وہ دوست منظرِ عام سے غائب ہو چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

خراٹا

 

                حماد احمد

 

خراٹادر اصل ایک ایسی سریلی اور ’’خرخراتی‘‘ آواز کو کہا جاتا ہے جو بہت سے لوگوں کے حلق سے سوتے وقت برآمد ہوتی ہے۔ یہ وہ منفرد اور جادوئی آواز ہوتی ہے جسے نکالنے والا بذات خود نہیں سن پاتا۔ آسان الفاظ میں اس ’’ساز‘‘ کے متعلق آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ:۔

جس نے بھی یہ ساز بجایا

خود نہ سنا اوروں کو سنایا

آپ کسی خراٹا مار شخصیت سے یہ بات کہہ کر دیکھیں کہ میں گزشتہ رات آپ کے شدید ترین خراٹوں کی وجہ سے بالکل نہ سو سکا۔ فوری طور پر آپ کو جواب سنائی دے گا کہ کیا میں واقعی خراٹے مار رہا تھا؟ اگرچہ خراٹے مارنے والے لوگ اپنے خراٹوں کی ’’خوفناک خرر خرر‘‘ نہیں سن پاتے، لیکن اگر ان کے پاس بیٹھ کر لیز چپس کا پیکٹ کھولا جائے تو اس کی ’’دلنشین کھرر کھرر‘‘ سے فوری طور پر ان کی نیند اڑ جاتی ہے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خراٹے مارنے کے دوران ’’قوت سماعت‘‘ میں کسی بھی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ یہ محض خراٹوں کی انفرادیت ہے کہ خراٹا مار شخص بذات خود اپنے خراٹوں سے فیض یاب نہیں ہو پاتا۔

انسانی نیند کی مثال کسی شدید ترین نشے کی طرح ہوتی ہے۔ چارپائی یا بیڈ اس نشے کے ’’سپلائر‘‘ کی طرح ہوتے ہیں۔ اور آپ کے قریب سوئے ہوئے ’’خراٹا مار شخص‘‘ کا خراٹا، ایک ایسے پولیس افسر کی طرح ہوتا ہے، جسے آپ کی نیند کے نشے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہو۔ ۔

کچھ لوگوں کے خراٹے اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ ان کے خراٹوں کی توانائی سے جنریٹر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ یوں نہ صرف اس ’’خر کی توانائی‘‘ سے گھر کے پنکھے، اے سی اور بلب وغیرہ با آسانی چلا کر لوڈشیڈنگ سے دائمی نجات حاصل کی جا سکتی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے بھی خود کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

شدید ترین خراٹوں کی طاقت کے ساتھ ساتھ ان کی آواز کی شدت بھی عموما کسی انجن یا جنریٹر کی طرح ہی ہوتی ہے۔ ایک موٹر مکینک کو سوتے میں خراٹے لینے کی عادت تھی۔ خراٹوں کے دوران یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ریکٹر سکیل پر ان کے خراٹوں کی شدت ’’بارہ‘‘ کے ہندسے کو بھی کراس کر گئی ہے۔ ایک دن موصوف نے سوتے ہوئے کروٹ بدلی تو خراٹے کی آواز آنا بالکل ہی بند ہو گئی۔ ان کا بیٹا پریشان ہو کر ماں کی طرف بھاگا اور بولا: ’’اماں اماں۔ ۔ ! ابا کا انجن بند ہو گیا ہے‘‘۔

کچھ لوگوں کے خراٹوں کا شور تو جیٹ فائٹر طیاروں کی گونج سے بھی زیادہ شدید ترین ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے خراٹوں کی آواز کے سامنے واشنگ مشین، ٹریکٹر یا ریل گاڑی تک کی آواز اپنے کان پکڑ پکڑ کر پناہ مانگتی ہے۔ ایسے ’’عظیم الشان‘‘ افراد اپنے خراٹوں پر مغرور ہوتے بھی نظر آتے ہیں اور دیگر ’’خراٹا مار‘‘ لوگوں کے خراٹوں کو محض ’’مکھیوں کی بھنبھناہٹ‘‘ سے ہی تشبیہہ دیتے نظر آتے ہیں۔

جیسے تالی ایک ہاتھ سے بجنے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے ہی بجتی ہے، اسی طرح خراٹے بھی ہمیشہ کسی ’’ٹو وے‘‘ روڈ کی طرح ’’دو طرفہ‘‘ ہی چلتے ہیں۔ خراٹا مار شخص اپنی سانس منہ کے اندر کی طرف کھینچنے اور باہر کی طرف خارج کرنے کے دوران بالکل الگ اور منفرد قسم کی آوازیں نکالتا ہے۔ کسی امیر ترین تاجر کے متعلق مشہور ہے کہ چوروں کے خوف نے اس کی رات کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ جب اس نے اپنی یہ پریشانی دوسرے تاجر دوست کو بتائی تو اس نے مشورہ دیا کہ وہ خرا ٹے لینے کی ایک خاص مشق کرے۔ وہ اس طرح کہ منہ کے اندر کی طرف سانس کھینچتے ہوئے ’’کووووون‘‘ اور منہ کے باہر کی طرف سانس خارج کرتے ہوئے ’’ہییییے‘‘ کی آواز نمودار ہو۔ یوں مستقل ’’کوووووووووون ہییییییے، کون ہے، کون ہے‘‘ کی آوازیں برآمد ہونے سے چور تمہارے نزدیک آنے کی حماقت بالکل نہیں کر پائے گا۔ امیر تاجر نے اپنے دوست کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے خراٹوں کو ’’ماڈریٹ‘‘ کیا۔ یوں اس کے ہاں چوریوں کے واقعات پیش آنا بند ہو گئے۔

جس کمرے میں دو یا دو سے زیادہ افراد خراٹے مارتے ہوئے سو رہے ہوں تو ان کے مشترکہ خراٹوں کی گونج ماحول پر ایک ’’روحانی وجد‘‘ کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ دائیں طرف سے اگر ’’ خڑڑڑڑا اں خڑاں خڑا ا ا ا ا اں ں ں ‘‘ کی آوازیں برآمد ہو رہی ہوں تو بائیں طرف سے ’’خاؤں خاؤں خاؤں خاؤں ‘‘ کی آوازیں بھی ساتھ ہی برآمد ہو رہی ہوتی ہیں۔ دونوں کی مشترکہ آواز یعنی ’’خاؤں خڑاں خاؤں خڑاں ‘‘ سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ نے خراٹے مار نے والی شخصیات سے چپ کرنے کی فرمائش کی ہو اور وہ دونوں شخصیات مشترکہ طور پر، آپ کی فرمائش کا پنجابی زبان میں کچھ یوں جواب دے رہی ہوں کہ ’’کیوں کراں ؟۔ ۔ کیوں کراں ؟‘‘ (کیوں کروں ؟۔ ۔ ۔ کیوں کروں ؟)۔

خراٹوں کی سب سے زیادہ شکایات بیگمات کی طرف سے اپنے شوہروں کے لئے ہی ہوتی ہیں۔ در اصل شوہر ایک ایسی مخلوق کا نام ہے، جو تکیے پر سر رکھنے کے دو منٹ بعد ہی اپنے منہ سے ایسی ایسی آوازیں برآمد کرتا ہے جیسے کوئی ڈبل ڈیکر بس زیادہ لوگوں کے بوجھ کی بدولت عجیب و غریب آوازیں نکالتے ہوئے چلنے پر مجبور ہوتی ہے۔ منہ سے نکلنے والی یہ عجیب و غریب آوازیں در اصل خراٹوں کی ہی ہوتی ہیں۔

ایسے شوہر حضرات کے سامنے جب بیگم، کسی جج کی حیثیت سے ’’فرد جرم‘‘ عائد کرتی ہیں تو موصوف اس کا صاف صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ’’حکمت و بصیرت‘‘ کا عملی نمونہ بنتے ہوئے بیگم صاحبہ بھی فورا ان کا انکار تسلیم کر لیتی ہیں۔ اگلے ہی دن بیگم صاحبہ دوبارہ ’’ایمرجنسی عدالت‘‘ نافذ کر دیتی ہیں اور اپنے شوہر کو موبائل کیمرے کے ذریعے بنی ہوئی وہ ویڈیو دکھاتی ہیں، جس میں انہوں نے گزشتہ رات ہی شوہر کے خراٹوں کے خوفناک مناظر محفوظ کئے ہوتے ہیں۔ تب کہیں جا کر شوہر حضرات کو اپنا جرم تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ سمجھدار شوہر حضرات اپنا جرم ثابت ہونے کے بعد، ’’جج‘‘ کی طرف سے سزا سنائے جانے سے قبل، از خود ہی با عزت طریقے سے کان پکڑ لیتے ہیں۔ مگر چند شوہر تو جرم ثابت ہونے پر بھی ’’سمارٹ‘‘ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’’بیگم صاحبہ! آپ کی ویڈیو جھوٹ نہیں ہو سکتی لیکن در اصل میں ان آوازوں خراٹے نہیں مارتا بلکہ خواب میں خود کو سائلنسر نکلی ہوئی موٹر سائیکل سمجھ کر، اپنے منہ سے اس جیسی آوازیں نکالنے کی کوشش کرتا ہوں ‘‘۔

ایک خراٹوں سے متاثرہ خاتون تو اپنے شوہر کو خراٹوں کے علاج کے لئے ملک کے مشہور و معروف سرجن کے پاس بھی لے گئیں۔ ڈاکٹر اس کے شوہر کو آپریشن تھیٹر کے اندر لے گئے۔ دو گھنٹے مستقل آپریشن کرنے کے بعد جب ڈاکٹر صاحب تھیٹر سے باہر نکلے تو انتہائی افسردگی سے بولے کہ ’’محترمہ! ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم جو کچھ کر سکتے تھے، ہم نے کیا۔ ہم نے نہ صرف اینجیو پلاسٹی کی بلکہ ساتھ ہی ساتھ لیزر سرجری بھی کر لی۔ اگر ایک والو تبدیل کیا تو ساتھ ہی ساتھ ایک سٹنٹ بھی ڈال دیا۔ لیکن افسوس کہ تمہارا شوہر اب بھی کسی برفانی سنڈے کی طرح ہی خراٹے مارتا ہے‘‘۔

خواتین تو اپنے شوہروں کے خراٹوں کی اس قدر عادی ہو جاتی ہیں کہ اگر شوہروں کے خراٹوں کی آواز آنا بند ہو جائے تو اس کے ناک کے قریب اپنی انگلی لے جا کر چیک کرتی ہیں کہ اندر سے ’’ہوا‘‘ بھی برآمد ہو رہی ہے یا نہیں۔ دیگر الفاظ میں وہ یہ چیک کر رہی ہوتی ہیں کہ کیا موصوف ابھی سانس لے رہے ہیں یا پھر تڑکے کی صورت میں میرے مالی لحاظ سے مضبوط ہونے کا وقت آ گیا ہے؟۔

بہت سی بیگمات اپنے شوہروں کے خراٹوں کے حوالے سے مجبوراً صبر بھی کر لیتی ہیں، مگر شک و شبہ ان کے دل سے کبھی بھی نہیں نکل پاتا۔ ایسی خواتین انتہائی غور سے اپنے میاں کے خراٹے سنتی ہیں کہ کہیں میاں صاحب اپنے خراٹوں کے اندر بھی کوڈ ورڈز میں ’’کسی اور‘‘ کا نام تو نہیں لے رہے؟۔

آج کل تو ضرورت رشتہ کے اشتہار بھی کچھ اس طرح سے آنے لگے ہیں کہ ہماری خوب صورت و خوب سیرت بچی کے لئے انتہائی نیک اور پرہیز گار لڑکے کا رشتہ درکار ہے۔ لڑکا اس قدر پرہیزگار ہو کہ خراٹے مارنے سے بھی پرہیز کرتا ہو۔ ایسے اشتہارات دینے والے شاید یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دو طرح کے مرد دنیا میں مشکل ہی ملتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے گندی اور بدبو دار جرابیں زیب تن نہ کر رکھی ہوں اور دوسرے وہ جن کے خراٹوں کی گونج بہت زیادہ نہ ہو۔

عمومی طور پر ناؤ ہی ندیا میں ڈوبتی ہے لیکن صوفی غلام تبسم مرحوم نے اپنے کتابچہ ’’جھولنے‘‘ میں ’’ناؤ میں ندیا ڈوب چلی‘‘ کی خبر بھی سنائی تھی۔ ’’ناؤ میں ندی ڈوبنے‘‘ کی ہی طرح، کبھی کبھار مرد حضرات بھی اپنی بیگم کے خراٹوں سے متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ’’دہشت گردی‘‘ کے ایسے واقعات کم کم ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ بیگم کے خراٹوں کے حوالے سے شکوہ کرتے ہوئے ایسے ہی ایک ’’میاں ‘‘ کی ترجمانی سلمان گیلانی نے اپنے اشعار میں کچھ یوں کی ہے۔

کمرے میں تھی خراٹوں کی کھڑ کھڑ متواتر

ناسیں تیری بجتی رہیں پھڑپھڑ متواتر

سوتے میں بھی تکتی رہی لڑنے کے تو سپنے

تھی نیند کی حالت میں بھی بڑ بڑ متواتر

ہاسٹل میں روم میٹس کے حوالے سے بھی بہت سے لوگ خراٹوں کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے روم میٹس کے حوالے سے استاد بشیر چار عدد انتہائی مفید حل بتایا کرتے ہیں۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ آپ کسی بہانے سے اپنا کمرہ تبدیل کر لیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ آپ ہاسٹل میں جس مقصد کے لئے رہائش پذیر ہیں، اس مقصد کی ہی قربانی دے کر اپنے گھر واپس تشریف لے جائیں۔ تیسرا حل یہ ہے کہ آپ اپنے روم میٹ سے انتہائی شدید ترین لڑائی کریں۔ لڑائی اس قدر شدید ہونی چاہئے کہ آپ دونوں میں سے کسی نہ کسی کا تھوڑا سا خون جسم سے باہر ضرور نکل آئے۔ زخمی شخص کو ’’ابتدائی طبی امداد‘‘ دینے کے بعد، ہاسٹل انتظامیہ آپ دونوں کو خود بخود ہی الگ الگ کر دے گی۔ اگر مندرجہ بالا تین آپشنز میں سے کسی بھی آپشن پر عمل درآمد مشکل یا ناممکن محسوس ہو تو آپس میں مل بیٹھ کر مذاکرات کریں اور دونوں اپنے اپنے سونے کے اوقات ایک دوسرے سے الگ الگ مقرر کر لیں۔

ایک ہاسٹل میں رہائش پذیر دوست نے بتایا کہ انہوں نے رات کے آخری پہر چند دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر ایک شدید ترین خراٹے مارنے والی شخصیت کی چارپائی کو اٹھایا اور نزدیکی قبرستان کی طرف لے گئے۔ قبرستان کے بالکل ساتھ ہی مسجد تھی۔ فجر کی جماعت ختم ہوئی تو مسجد سے نکلنے والے نمازی بھی ’’جنازہ‘‘ سمجھ کر چارپائی کے ارد گرد اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ جب نمازیوں کی اچھی خاصی تعداد اکٹھی ہو گئی تو ہاسٹل کے تمام دوست مکھن میں سے بال کی طرح، ہجوم سے باہر نکل آئے۔ مسجد کے مولوی صاحب اور تمام نمازی یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہے کہ آخر یہ کس شخصیت کا جنازہ ہے؟۔ اور تدفین کے لئے قبر کی کھدائی بھی کیوں نظر نہیں آ رہی؟۔ جیسے ہی ایک صاحب نے ہمت کر کے ’’مرحوم‘‘ کے چہرے سے چادر ہٹائی تو ساتھ ہی چیخ مار کر بولے:۔ ’’مرحوم بد قسمتی سے زندہ ہیں۔ یا شاید ڈائریکٹ دوزخ میں پہنچ چکے ہیں۔ کیونکہ انتہائی کراہت ناک آواز ان کے حلق سے برآمد ہو رہی ہے‘‘۔ چیخ و پکار سن کر چارپائی والے حضرت کو بھی ہوش آ گیا۔ کچھ دیر تو انہیں اپنے ’’محل وقوع‘‘ کو سمجھنے میں لگ گئی۔ مگر جیسے ہی اس بات کا ادراک ہوا کہ ان کی نماز جنازہ ادا ہونے لگی ہے تو موصوف چارپائی سے نکل کر نو دو گیارہ ہو گئے۔ ۔

خراٹوں کی مدد سے یہ بات بھی معلوم کی جا سکتی ہے کہ کس جگہ پر کون کون سو رہا ہے اور کون کون جاگ رہا ہے۔ در اصل خراٹے مارنے والا شخص خود تو خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوتا ہے، مگر ان کے گھر والے اور ارد گرد کے لوگ شب بھر ’’نجم شماری‘‘ کا فریضہ ہی انجام دیتے رہتے ہیں۔ خراٹوں کے شور کے اندر بھی اگر کوئی سو رہا ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ کسی ماہر اداکار کی طرح ’’ڈرامہ‘‘ کر رہا ہے۔

کئی لوگوں کے خراٹوں کی آوازیں ان کے گھر سے باہر بھی دور دور تک سنائی دے رہی ہوتی ہیں۔ دیگر گھروں کے بچے تنگ آ کر ان کے گھر کے باہر ’’فلڈ لائٹ کرکٹ‘‘ کھیلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جب خراٹا مار شخصیت کی نیند بھی بچوں کے کھیلنے کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے تو باہمی مذاکرات اس شرط پر کامیاب ہوتے ہیں کہ ’’تم اپنے خراٹے بند کرو، اور ہم اپنی کرکٹ ختم کر لیتے ہیں ‘‘

ایک صاحب کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے کرائے پر مکان حاصل کیا۔ چند دنوں کے بعد ایک شخص ان کے گھر آیا اور گزارش کی کہ آپ کو اپنا نیا پڑوسی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ لیکن پلیز آپ خراٹے ذرا آہستہ مارا کریں کیونکہ آپ کے خراٹوں سے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ جب ان صاحب نے آنے والی شخصیت سے تعارف پوچھا تو جواب ملا کہ: ’’جناب ! میں رات کو آپ کے محلے میں چوکیداری کی ذمہ داریاں نبھاتا ہوں ‘‘۔

خراٹے مارنے والی شخصیات کے ساتھ آرام کرنے والوں کو ڈھیروں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’خراٹا متاثرین‘‘ کی پہلی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ خراٹا مار شخصیات سے پہلے ہی نیند کی میٹھی وادیوں میں کھو جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے نیند کی گولیوں کا استعمال، رات کا کھانا جلدی کھا لینے اور بیڈ پر ایک گھنٹہ جلدی پہنچ جانے، جیسی آپشنز کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے تمام تر احتیاط کے باوجود عموماً خراٹا مار شخصیت کی طرف سے ’’داغا‘‘ گیا پہلا خوفناک خراٹا ہی ’’مہلک‘‘ ثابت ہوتا ہے اور آپ کے کان کے ’’ہدف‘‘ سے جا ٹکراتا ہے۔ یوں آپ کی نیند بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ آپ خراٹا مار شخصیت کو جتنی مرتبہ مرضی کہنیوں کی ضربیں مار لیں، ان کی نیند اور خراٹوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ کچھ دیر بعد آپ کی کہنیوں میں درد ضرور شروع ہو جائے گی۔ انتہائی شدت کی بے بسی تب محسوس ہوتی ہے،   جب خراٹا مار شخصیات نیند کے دوران اپنی سائیڈ یعنی نیند کی پوزیشن تبدیل کرنے کے باوجود خراٹے مارنا ختم نہیں کرتے۔ یہ منظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی نان سٹاپ ٹرین کسی چھوٹے سے سٹیشن کے اندر سے گزرنے کے باوجود رکے یا آہستہ ہوئے بغیر تیزی سے آگے کی جانب رواں دواں ہو گئی ہو۔

کسی کے خراٹے ختم کرنے کا سب سے آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ایک تکیہ پکڑیں اور اسے خراٹے مارنے والی شخصیت کے ناک پر رکھ کے زور سے نیچے کی طرف دبائیں۔ جب تک خراٹوں کی آواز ختم نہ ہو جائے، تب تک یہ عمل جاری رکھیں۔ جیسے ہی خراٹوں کی آواز بند ہو جائے تو ’’تکیہ‘‘ سمیت پولیس سٹیشن جائیں اور ’’اقدام قتل‘‘ کے جرم کا اعتراف کر لیں۔

ایک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ خراٹا مارنے والی شخصیت کے کانوں کے قریب جا کر انتہائی زور سے تالی بجائیں۔ خراٹے مار شخصیت فوری طور پر نیند سے بیدار ہو جائے گی۔ اور آدھا گھنٹہ آپ پر سکون انداز سے سونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ دوبارہ خراٹے شروع ہوں تو پھر سے یہی عمل دہرائیں۔ یوں چھ گھنٹوں کی نیند کے لئے آپ کو کم سے کم درجن بھر تالیاں ضرور مارنا پڑیں گی۔ اگر تالیوں سے کام نہ بنے تو پانی کی ایک خالی بوتل لے کر اس میں چھوٹے چھوٹے سنگ ریزے بھریں۔ اور جیسے ہی خراٹے شروع ہوں، اس بوتل کو دو تین مرتبہ زور زور سے ہلائیں۔ امید ہے خراٹوں کی نشریات کم سے کم آدھے گھنٹے کے لئے پھر سے معطل ہو جائے گی۔ بوتل ہلانے کا کام بھی تالیوں کی طرح ہی حسب ضرورت کچھ کچھ وقفے کے بعد دہراتے چلے جائیں۔

تمام طریقے آزمانے کے باوجود بھی اگر آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو محض صبر کرنے پر ہی اکتفا کریں۔ اس کے علاوہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتے۔ زیادہ سے زیادہ اپنے دل کی تسلی کے لئے کبھی کبھار خراٹا مار شخصیت سے شکوہ شکایت کر لیا کریں۔

کسی شاعر کا یہ ’’شکایتی شعر‘‘ بھی آپ وقتاً فوقتاً گنگنا سکتے ہیں :۔

ٹوٹے کسی کی نیند مگر، تم کو اِس سے کیا

کرتے رہو خراٹے نشر، تم کو اِس سے کیا

شکوہ شکایت سے خراٹوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن شاید آپ کے دل کو ہی کچھ نہ کچھ تسکین حاصل ہو ہی جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہائے میرا ریڈیو

 

                سید عارف مصطفٰی

 

سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے اسباب کو نصاب میں کئی بار پڑھا لیکن کچھ زیادہ سمجھ نہ آئے بعد میں جب ریڈیو کا زوال دیکھا تو وہ اسباب سمجھنا بہت سہل ہو گیا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی اور اس وقت ممتحن کے اتفاق کی گاڑی چھوٹ چکی تھی۔ آج نئی نسل کے لیئے ریڈیو کا مطلب ہے ایف ایم کہ جہاں سارا سارا دن لوکل بقراط یا بقراطن کبھی خوابناک لہجے میں سرگوشیاں کرتے تو کبھی خوفناک سے لہجے میں بڑبڑاتے اور چلاتے سنے جاتے ہیں اور وقفے سے اُن کی گفتگو سے پاگل ہونے سے بچانے کے لئے نغمات بھی برائے تلافی سنائے جاتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ اُنہیں خاص طور پہ اُن کے غلط تلفظ کی وجہ سے ترجیح دی جاتی ہے تاکہ انگریزی میڈیم کے بگڑے ہوئے معلوم ہوں، بالعموم ان میزبانوں کی ساری افلاطونی و لفّاظی اقوالِ زریں کی چند کتابوں کے تراشوں اور چند پرانے ڈائجسٹوں سے اتارے گئے لطائف یا پند و نصائح کے بل پہ ہوا کرتی ہے جو اُن کے سامنے وہیں میز پہ دھرے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن سیانوں سے گھر میں بھی شاذ ہی کوئی رائے مشورہ لیا جاتا ہے بلکہ ایسے وقت کمرے سے باہر کر دیا جاتا ہے لہٰذا وہ انتقاماً سارے شہر کو مشورے دینے نکل پڑتے ہیں لیکن اپنے پرانے ریڈیو کے دنوں میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا اس میں تو بھلے بندے کی نیت اور اعمال دونوں ہی غلط ہوں تب بھی چل جاتا تھا لیکن اس کا تلفظ غلط ہو،   یہ نہیں چل پاتا تھا۔

اُن دنوں ریڈیو بہت بلند مقام پر تھا اور اس کی بہت توقیر تھی اتنی کہ بہت سے بزرگ حسبِ جلن، حسد کیا کرتے تھے جس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی تھی کہ وہ بزرگ تو پرانی تہ بند لپیٹے پھرتے تھے جبکہ وہ ناز پرور مستطیل ڈبہ یعنی ریڈیو اونچی جگہ پر قیمتی کپڑے کا غلاف سا ڈال کر رکھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اہلخانہ ان کی کم سنتے تھے اور ریڈیو کی بہت زیادہ، کئی بزرگ تو کلیجہ مسوس کے رہ جاتے تھے کہ وہ ریڈیو کیوں نہ ہوئے۔ ۔ ۔ ریڈیو کی آواز اور ذاتی آوازیں دونوں ہی اونچا رکھنا معیوب سمجھاجاتا تھا لیکن پھر بھی چونکہ تقریباً ہر گھر میں ہی ریڈیو بجتا تھا لہٰذا کسی پروگرام کو باہر گلی سے گزرتے ہوئے مسلسل ہی سنا جا سکتا تھا، بس ایک جمعے والے دن کے علاوہ کہ اس روز دوپہر سے سہ پہر تک ریڈیو پر اِس شدت سے قوالیاں گونجتی تھیں کہ لگتا تھا کہ یا تو سیل باہر جا پڑیں گے یا قوال کا کلیجہ، اسکول براڈ کاسٹ اور بزم طلباء کے پروگراموں میں عموماً خشک سائنسی بچوں، مجاہد اور غازی قسم کے بچوں کی یلغار ہوتی تھی جن میں اوّل الذکر وقت بے وقت ایجاد شدہ اشیاء کو دوبارہ ایجاد کرنے پہ تلے رہتے تھے یا پھر موخرالذکر کفر سے آخری جنگ کی تیاریاں کرتے معلوم ہوتے تھے، فلمی گیتوں کے فرمائشی نغموں کے پروگرام بھی کثرت سے نشر ہوتے تھے جن میں کالی کھانسی کی طرح پیچھا نہ چھوڑنے والے پھٹیچر قسم کے مستقل فرمائشی جیسے ایم اے بابو ناشاد وغیرہ قسم کے دس بارہ بوسیدہ التماسی لوگ نجانے کیوں ہر پروگرام میں ہر گلوکار کا ہر طرح کا نغمہ بجانے کی التجاء کرتے تھے، جس سے بے تعصبی اور قومی یکجہتی کو خود بخود فروغ ملتا تھا، سارا سارا دن ملکہ ترنم سماعت پہ یوں سوار رہتیں کہ اِک ذرا دیر کو چپ ہوتیں تو کان سائیں سائیں کرنے لگتے۔ گا گا کر اُن کا گلا نہیں بیٹھتا تھا مگر سننے والوں کے کان بیٹھ جاتے تھے، پھر ناہید اختر آئیں اور اُن کی تانیں جذبات کو یوں گرمانے لگیں کہ اُن کے نغمات چپکے چپکے بغل میں پاکٹ ریڈیو داب کے سنے جانے لگے، جو جذبات اُن کی آواز کو سن کے ابھرتے تھے،   اُنہیں دبانے کے لئے قدرت نے مہناز کو بھیجا۔ اس سے پہلے تصور خانم کے دور میں مالا اور نسیم بیگم اِسی حکمت کی حفاظتی نشانیاں تھیں۔ بعد میں ایک دو پروگرام تازہ فلموں کے تعارف پہ بھی مشتمل ہوا کرتے تھے جس میں حسن شہید مرزا اپنی خوبصورت کراری آواز سے فلم میں وہ رنگ بھی بھردیا کرتے تھے کہ جو ہدایتکار سے چھوٹ جاتے تھے۔

یوں تو عموماً ریڈیو پڑے پڑے بزرگوں کی طرح بجتا تو سارا ہی دن تھا لیکن اِسے خاص توجہ خبروں کے سبب ملتی تھی جو کہ سننے کے بعد دوچار گنا بڑھا کر آگے بے خبروں تک پہنچانا فرض سمجھا جاتا تھا،   خبریں پڑھنے والے بھی خبر میں ذاتی تاثرات کو اس شدت سے داخل کرتے تھے کہ خبر کہیں پیچھے رہ جاتی تھی اور سامع کو اکثر صرف جذبات ہی ہاتھ لگتے تھے۔ جنگوں کے دنوں کی خبروں میں تو نیوز ریڈر شکیل احمد ہر لفظ میں پوری گھن گرج سے گولے برساتے اور بم پھاڑتے محسوس ہوتے تھے اور لگتا تھا کہ بلیٹن کسی جنگی جہاز یا ٹینک میں بیٹھ کر پڑھا جا رہا ہے، ریڈیو پہ ڈرامے سننا کا الگ ہی ماحول ہوا کرتا تھا تھا۔ رات نو بجتے ہی ڈرامے کا وقت شروع ہو جاتا تھا اور اس سے پہلے ہی ریڈیو کو کسی تپائی پہ رکھ کر فرط عقیدت سے سب یک زانو درا ز ہو کر آگے پیچھے بیٹھ جاتے تھے اور ذرا دیر ہی میں ڈرامے کے سحر میں جکڑ کر جیسے دم بخود سے ہو جاتے تھے۔ اُدھر صداکار ایم سلیم نے کسی وقت کوئی ادنیٰ سی سسکی بھری تو آگے پیچھے یہاں سے وہاں تک کتنی ہی خواتین بلکنے لگتی تھیں، ، اگر المیہ منظر لمبا ہو جاتا تو پلو سے ڈبڈبائی آنکھیں اور چپچپاتی ناکیں بھی بار بار پونچھی جاتیں، اسی طرح کسی ایک برائے نام شگفتہ جملے پہ بھی سبھی حسب توفیق لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے، کسی سنجیدہ موڑ پہ ڈرامہ جتنے پہلو بدلتا تھا سننے والے اس سے دگنے پہلو بدلتے تھے،   زیادہ سنگین مراحل پہ تو نیم دراز سامع بھی اکڑوں بیٹھ جاتے تھے۔ ایسے میں جس پرانے کھنکھارتے بزرگ کو اپنی کئی روز سے نظرانداز کردہ دوا منگوانی ہو وہ عین کلائمکس کے موقع پہ قریب ہی سے کہیں نمودار ہو کر لگاتار کھانسنا یاد رکھتا تھا اور اس حکمت کے نتیجے میں اگلے دن کے ڈرامے سے پہلے ہی اس کی مطلوبہ دوائی اس کے سرہانے لا کر رکھ دی جاتی تھی۔

یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہو گا کہ اس دور میں ریڈیو ہر گھر کے ایک سرگرم فرد کی مانند تھا ایسا فرد جو زندگی سے بھرپور تھا اور جس کے زندہ ہونے کا ثبوت صبح دم مل جاتا تھا، کیونکہ آغاز ہی تلاوت اور حمد و نعت سے ہوتا تھا یہ الگ بات کہ بہتیرے اس مقدس آغاز کو محض برائے برکت ہی لیتے تھے اور ریڈیو کھول کر بے نیازانہ اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔ روزکسی مولانا کا خطاب بھی لازمی ہوتا تھا اور بیشتر لوگوں کو ان پہ اتنا زبردست اعتماد ہوتا تھا کہ حضرت مولانا جو کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہی ہو گا ‘ لہٰذا کان لگا کر سننے کی بد اعتمادی کم ہی کرتے تھے۔ اکثر ایسے چنیدہ مولانا حضرات ہی مائیک پہ چھوڑے جاتے تھے کہ جو حکومت کے خاص مزاج شناس تھے لہٰذا وہ خود ہی ایسے نکات پہ چیک رکھتے تھے کہ جن سے چیک ملنے کے امکانات خطرے میں پڑتے ہوں۔ وہ لوگوں کو بارہا یہ بتاتے اور سجھاتے تھے کہ فرمانبردار شہری کیسے بنا جاتا ہے لیکن شہری تھے کہ ان کی تقاریر کے وقت انہیں سو کام نکل آتے تھے، انہی تقاریر نہ سننے کا نتیجہ تھا کہ عوام بار بار نافرمانی پہ اترے،   ہڑتالیں کیں، جلوس نکالے اور کئی حکومتیں ان غیر ذمہ دار شہریوں کی تاب نہ لا کر تاریخ کے پچھواڑے میں جا پڑیں، تاہم ان مولاناؤں نے کبھی ہمت نہ ہاری اور پوری جرأت اور جوش و خروش سے ہر حکمران کے منہ پہ وہی دھواں دھار تقریریں کیں کہ جو اس سے پہلے والے کی توصیف میں کرتے رہتے تھے۔

ان دنوں ریڈیو پہ تفریحی پروگرام بکثرت ہوا کرتے تھے کیونکہ لوگ سربراہ اور وزرا کی سرگرمیوں اور ان کے بیانات کو اسی ذیل میں شمار کرتے تھے۔ ہر وزیر کی بھرپور کوشش یہی ہوتی تھی کہ آج سربراہ مملکت کی شان میں اور اپوزیشن کی مذّمت میں اس کا کم از کم ایک بیان تو نشر ہو ہی جائے کہ اگر کسی وقت حکمران کبھی اک ذرا دیر کو ریڈیو لگا بیٹھے تو کیا عجب کہ اس کی محنت ٹھکانے لگ ہی جائے۔ حکمران بھی کم نہ تھے،   خود بھی آئے دن ریڈیو پہ ہی ڈیرا جماتے تھے اور ہم وطنوں کی سماعتوں کا شکار کھیلتے رہتے تھے۔ وہ ہمہ وقت بس یہی یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے تھے کہ ان کی مخالفت کرنے والا دراصل بہت شدید نابکار اور بڑا جہنمی ہے اور وہ تو کمال عظمت سے محض اس کی عاقبت بچانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ چونکہ پہلے فوجی انقلاب کے بعد ہی ریڈیو نے حق گوئی کے اہم رموز بخوبی سیکھ لئے تھے چنانچہ ہر سہ پہر کو ‘فوجی بھائیوں کا پروگرام نشر ہونا معمول بنا لیا گیا تھا، بینڈ بجانے اور بجوانے کے یہ شوقین اتنے نغماتی مزاج کے تھے کہ ایک گانے کے بعد دوسرا گانا بجوانے ہی میں لگے رہتے تھے۔ بجانے بجوانے کی عادت بڑے منصب داروں میں محض بینڈ ہی تک محدود نہ تھی۔ ایک تصویر میں مادام نورجہاں کو صدر یحییٰ کے گھٹنے پہ بیٹھے دیکھا تو بہتوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ’’شوق دا کوئی مل نئیں ‘‘ پھر شاید صدر صاحب کی عقل اور نیت کے ساتھ ساتھ نظر بھی خراب تھی ورنہ وہ یہ شعر پڑھ کرکام چلا لیتے

یا الہٰی مجھے ہوا کیا ہے

بھلا اِس بی بی میں رہا کیا ہے

لیکن صدر کے وضاحتی بریگیڈ کے مطابق درحقیقت یہ تصویر اس حقیقت کی غماز تھی کہ صدر فنکاروں کی کتنی قدر کرتے تھے اور انہوں نے ایک فنکار کو اگر بوجوہ سر آنکھوں پر جگہ نہیں بھی دی تب بھی گھٹنے پہ تو جگہ دی۔

ریڈیو کے ابتدائی دور میں ہر بڑا اور نامور لکھاری اس وقت ریڈیو کے لکھنے والوں میں تھا۔ بعضے حاسد لوگ یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ بڑے اور نامور تو ریڈیو میں آنے سے ہوئے ہیں اور ان کا یہ کہا ہوا ان لکھاریوں نے تو دل ہی پہ لے لیا کہ جس کے صدمے سے زیادہ تر کے دل ایک ایک کر کے بند ہوتے چلے گئے اور رخصت ہوتے گئے،   یوں ان حاسدوں کو اندر گھس بیٹھنے کا موقع ملتا چلا گیا اور چونکہ تاریخی طور پہ جلنے والوں کا منہ کالا ہوتا ہے چنانچہ ریڈیوپاکستان کے کمروں میں اندھیرا چھا گیا اور وہاں منہ کالا ہونے یا منہ کالا کرانے ہی کو معیار بنا لیا گیا۔ ریڈیو کا یہ دور در حقیقت ریڈیو پروڈیوسروں کی شاہانہ تمکنت کا دور تھا جن کے سامنے سول سروس والوں کی بد دماغی بھی ماند تھی۔ اپنے اپنے کمروں میں مہاراج یوں اکڑ کر بیٹھتے تھے کہ لگتا تھا ابھی چٹخ ہی جائیں گے۔ ان میں شریف تر بھی لوکل مغل اعظم سے کم دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ان مہا بلیوں کے ہر حکم کی تعمیل کسی ایک چپراسی کے بس کی بات نہ تھی جبکہ کئی کئی پروڈیوسروں پہ ایک ہی خدمتگار مامور ہوتا تھا، اس صورتحال میں خداترس پرائیویٹ خدمتگاروں کا طبقہ ابھرا کہ جو قحبائی مزاج رکھتے تھے اور جو گویا پیدا ہی مالش پالش اور نالش کے لئے ہوئے تھے۔ انہوں نے پروڈیوسر مہاراج کے سارے’’ناقابل بیان‘‘ مسائل کو حل کرنے کا کام اپنے سر لے کر اسے مقصد حیات بنا لیا تھا۔ ان کی آمد کے بعد زیادہ تر پروڈیوسر بھڑک دار کپڑے پہن کر ٹھرک دار گفتگو کرنے کے سوا کچھ اور کرتے کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ اُسی زمانے میں کچھ ایسے لوگوں نے کہ جن کے کانوں میں پختہ سرکاری عزائم اور پکے راگ سننے سے مستحکم چھید ہو گئے تھے،   آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو سیلون (سری لنکا ) پہ التفات کیا اور مزید نجانے کون کونسے اسٹیشن ڈھونڈھ نکالے کہ جہاں ان کی روح کی غذا کا انتظام موجود تھا لیکن کمزورسگنل اور مضبوط خواہش کی وجہ سے وہ اور ان کا ریڈیو وقفے وقفے سے مرغِ باد نما کی صورت ہر سمت گھومتے رہتے تھے،   ملکی حالات خراب ہو جائیں تو بی بی سی لگایا جاتا تھا جو کہ عوامی توقعات کے عین مطابق کشتوں کے پشتے لگا دیتا تھا اور گھر گھر اور ہر تھڑے و چوراہے پہ اس کمال فن کی داد پاتا تھا۔

ریڈیو پہ ایک پروگرام بچوں کے لئے کہانی کا بھی ہوتا تھا جس میں ایک خاتون بہت دلگداز اور سرسراتی سی آواز میں روز ایک جھوٹی کہانی سناتی تھیں لیکن یہ سب کی سب غیر جمہوری ہوتی تھیں کیونکہ ان کا آغاز ہی کچھ یوں ہوا کرتا تھا۔ ۔ ۔ پیارے بچو، ایک تھا بادشاہ۔ ۔ ۔ اور بادشاہ کے بس دو ہی کام تھے،   تخت پہ بیٹھے رہنا اور تالیاں بجا بجا کر حکم جاری کرتے رہنا۔ یہ کہانیاں بچوں سے زیادہ بڑوں کو مرغوب ہونے لگیں اور گھریلو نظام بتدریج غیر پارلیمانی ہونے لگا تو بیگمات نے سردرد کے بہانے اتنی دیر کو ریڈیو کے کان مروڑے رکھنے کی راہ اپنائی۔ حکمران البتہ اس پروگرام سے خوب مستفید ہوئے۔ عجب بات یہ ہوئی کہ وہ اپنی کہانی میں بادشاہ بھی خود بنے اور وہ دیو بھی کہ جس کے چنگل میں جمہوریت کی پری قید تھی۔ کھیلوں کے پروگرام البتہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے پروگرام بنے رہتے تھے کیونکہ سب سے زیادہ سنے جانے والی چیز کرکٹ میچز تھے جن کی کمنٹری بڑے طمطراق سے انگلش میں پیش کی جاتی تھی، آخر حکمران اشرافیہ بدتمیز عوام کو بے حساب خوش ہونے کے لئے یوں بے لگام کیوں چھوڑتی، کہیں بہت بعد میں جب عوام ووٹ لینے کے کام آنے لگے تو کرکٹ کمینٹری میں بھی اک ذرا دیر کو اردو کا ’’جھونگا‘‘ پکڑا دیا گیا۔ منیر حسین کی’’ وہ جو ہے، وہ جو کہتے ہیں نا ‘‘ ٹائپ کے الفاظ سے لبریز .و بھرائی ہوئی کمنٹری بھی عوام کو بہت بھلی لگی۔

ہاکی میں ایس ایم نقی اور ذاکر سید نے مائیک ایسا پکڑا کہ جیتے جی کوئی چھڑا نہ سکا اس وقت ذاکر سے گیند لمبا ہو جاتا تھا اور جوشیلے ایس ایم نقی کھلاڑی سے پہلے گول کرنے سے بال بال ہی بچتے تھے۔ اسپورٹس سے بڑھ کر ریڈیو پہ بہت دلچسپی سے سنے جانے والے پروگراموں میں فلمی ستاروں و فنکاروں کے انٹرویوز نمایاں تر تھے۔ اداکاراؤں کے انٹرویوز مرد بڑے ذوق و شوق سے یوں سنتے تھے کہ گویا یہ اہم پروگرام نہ سنا تو زندگی میں اک بڑا خلا سا رہ جائے گا۔ انتقاماً خواتین بھی مرد فنکاروں کے انٹرویو سننے میں بہت سرگرمی دکھاتی تھیں اور سارے کام کاج چھوڑ کے مردوں کا دل جلاتی تھیں۔ کامیاب لوگوں کے یہ احوال بعد میں گھریلو فسادات میں طعنہ زنی کیلئے خاطر خواہ کام میں بھی لائے جاتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب فلم انڈسٹری زوروں پہ تھی اور زیادہ تر فنکار اینٹھے اینٹھے پھرتے تھے اور جب کبھی کوئی بڑا فنکار ریڈیو پر لایا جاتا تھا تو افریقہ سے لائے گئے ہاتھی کی مانند دیکھنے والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جایا کرتے تھے اور چھوٹا موٹا مجمع تو ریڈیو پاکستان کراچی کے گیٹ پہ تقریباً سارا ہی دن لگا رہتا تھا کیونکہ ان دنوں ریڈیو کی عمارت میں داخلہ بڑی بات سمجھی جاتی تھی اور اندر جانے کے لئے مشتاقان کی منت سماجت دیدنی ہوتی تھی اور اکثر ہی استقبالیہ کلرک کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتے دکھتے تھے۔ ریڈیو کی انتظامیہ نے ایسے بلکتے لوگوں کے لئے صرف یہ سہولت فراہم کی تھی کہ بالعموم ایسا تنومند و لحیم شحیم بندہ وہاں مامور کیا جاتا تھا کہ جس کی تھوڑی بہت بڑی بلکہ ڈبل ہو اور التجا کے لئے ایک ہی ساتھ بہت سارے لوگوں کو اسے چھونے میں آسانی ہو۔ ریڈیو پہ فنکاروں کے جو انٹرویوز نشر ہوتے تھے ان کی خاص بات جو عام ہو چکی تھی، یہی ہوتی تھی کہ انہیں اس کام کا بچپن ہی سے شوق تھا اور وہ فن کی خدمت کو مقصد حیات سمجھتے ہیں، گویا یہ فنکار حتیٰ الامکان جھوٹ بولنے سے پرہیز نہ کرنے کی پوری پوری کوشش کیا کرتے تھے اور وزراء کو شرماتے تھے۔ اس زمانے میں اینکر یا میزبان ہونے کے لئے زبان درازی کی صفت مطلوب نہ تھی لیکن عزت نفس سے محرومی، اور نہایت بہتر تلفظ سے آراستہ شدید چاپلوسی ہی سب سے زیادہ درکار صلاحیتیں تھیں۔ مہمان سے چبھتے ہوئے سوالات کرنا تو قابل دست اندازی پولیس باور کیا جاتا تھا، ایسے میں فنکاروں و وزیروں کی فنکاریاں عروج پہ ہوتی تھیں۔

قومی تہواروں ا ور اہم دنوں پر ریڈیو پہ خصوصی نشریات کا انبار سا لگا رہتا تھا۔ قومی دنوں پہ سارا دن جذبات سے سرشار قومی و ملی نغمے بجتے و گونجتے رہتے تھے جن کے باعث گلی محلے میں چلتے پھرتے لوگ بھی پریڈ کرتے معلوم ہوتے تھے اور جذبات کی بلندی کے سبب کلینکوں پہ بلند فشار خون کے ماروں کی قطاریں لگ جاتی تھیں۔ درحقیقت کئی اہم دن تو اہم محسوس ہی ریڈیو کے سبب کئے گئے ورنہ جس گھر میں بھی ریڈیو کبھی خراب ہوا، اہم دن بھی نارمل بن کے چپ چاپ گزر گیا، ان اہم دنوں کے حوالے سے پیش کئے جانے والے خاص پروگراموں میں معلومات عامہ کے پروگراموں کو بڑی اہمیت حاصل تھی، ان پروگراموں کی مقبولیت بڑھی تو عام دنوں میں بھی ذہنی آزمائش کے مقابلے منعقد کئے جانے لگے اور لوگ معمولی انعامات کے لئے بھی غیر معمولی عزم سے ریڈیو پاکستان کی عمارت کے چکر لگانے لگے اور داخلہ پاسوں کے حصول کے لئے ہر حربہ آزمانے لگے یوں لالچ کے ماروں اور انعامات کے طلبگاروں کے ہاتھوں ذہن کی آزمائش بتدریج علم کی نمائش اور ذہنیت کی آزمائش میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس زمانے میں ہمیں بھی متعدد بار ان معلوماتی مقابلوں میں شرکت کا موقع ملا اور رفتہ رفتہ بزم طلبہ اور نجانے کن کن پروگراموں میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اس زمانے میں بڑی بڑی نابغہ روزگار ہستیاں جیسے سلیم احمد، رضی اختر شوق، قمر جمیل، محشر بدایونی اور ضمیر علی ان دنوں ریڈیو کے پروگراموں کے پیشکاروں میں شامل تھیں جن کے پاس ہر وقت لوگوں کا یوں جمگھٹا سا لگا رہتا تھا کہ گویا نامرادوں کو مراد پانے میں مدد دیتے ہیں اور عین وقت پہ شرمندگی سے بچاتے ہیں۔

ایک طبقہ مگر ایسا تھا کہ جسے ہم ہر وقت کسی نہ کسی اسٹوڈیو میں یہاں وہاں پڑا پاتے تھے اور جس بندے کو جس حالت اور جس پہلو پہ دیکھتے گزرتے تھے، گھنٹوں بعد بھی اسی پہلو پہ دھرا پاتے تھے۔ عموماً غنودگی کی حالت میں رہتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ جاگتے رہے تو کسی بیگار میں کھپا دیئے جائیں گے۔ یہ کلاسیکل فنکاروں کا طبقہ تھا جو کہ اگر بٹ اور بھٹی خاندان میں بھی جنم لیتے تھے،   تب بھی پہلے ہی دن سے استاد فلانے خان صاحب ہی کہلوانا پسند کرتے تھے۔ عام طور پہ اپنے سازوں کے ساتھ ہی ساز باز کرتے نظر آتے تھے۔ ستار والا تو باقاعدہ اپنے ستار کے کان میں پہروں سرگوشیاں کرتا دکھڑے سناتا دکھتا تھا۔ ریڈیو کے اندر کسی اسٹوڈیو میں یہ وہ بدقسمت لوگ تھے کہ جنہیں شاید ان کے لوگوں نے بھی کبھی توجہ سے نہیں سنا، ہرچند کہ روٹھی قسمت کو منانے کے لئے وہ ہر انگلی میں دو دو پتھروں والی شرطیہ قسمت بدلنے والی رنگ برنگی انگوٹھیاں پہنے رہتے تھے لیکن عوام کے ذوق کا ہاتھی ذرا ٹس سے مس نہ ہوا اور پھر ریڈیو انتظامیہ نے بھی انہیں اپنے فن کی نکاسی کے لئے وہ اونگھتا بسورتا وقت الاٹ کیا کہ جب عوام کے کان سارا دن ریڈیو کے غُل اور بیوی کے غپاڑے سے تھک کر رخساروں پہ لٹک چکے ہوتے تھے اور ہوتا یہ تھا کہ جہاں ان فنکاروں کے راگ راگنیاں شروع ہوئے، عوام نے اسے گرم ہوتے ریڈیو کو ٹھنڈا کرنے کا غنیمت موقع سمجھا۔ چند سیانے ریڈیو کے موجودہ زوال کو انہی خان صاحبوں کے کوسنوں اور بددعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ورنہ ذرا بتائیے کہ آخر یہ کیا بات ہوئی کہ دیکھتے دیکھتے ادھر ٹی وی کی آمد کا کوندا لپکا، ادھر آناً فاناً برسوں سے دھوم مچاتے ریڈیو کی دنیا اندھیر ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

 

ہمارا باس

 

                زید عفان

 

پہلی جاب پر جس فرد سے واسطہ پڑا وہ باس کہلائے جانے کے قابل تھا یا نہیں اس کا اندازہ آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی نہ ہو سکا۔ ۔ ۔ درمیانہ قد، عمر ۴۵ لگ بھگ رہی ہو گی۔ ۔ ۔ بائیں طرف سے مانگ کی سیدھی لکیر دیکھ کر شروع میں ایسا لگتا رہا کہ ’’بیگم‘‘ کی کئی گھنٹوں کی محنت رہتی ہو گی۔ وقت کے ساتھ اندازہ ہوا کہ قدرت نے ایک ہی دفعہ محنت سے بنایا تھا مگر توند کا تعلق خود پہنی محنت سے تھا جو کسی فٹ بال سے بس دو گنا زیادہ تھی، تیز چلنے کی صورت میں توند دائیں بائیں لچکارے مارتی تو بے ساختہ اور بے آواز ہنسی کا فوّارہ باقیوں کے چہرے پر موجود چھوٹے سے منہ بلند ہوتا.. جیسے کسی پرانے استعمال شدہ کنویں میں پتھر ڈال کر پانی کے اچھل کودنے کی آواز بھی سنی نہیں جا سکتی۔ ان کے جوانی کے ساتھی حامد خان اکثر جملہ کستے کہ

’’بے حیا عورت اور آپ پیٹ بڑنے (بڑھنے) پر بھی منہ نہیں چھپاتے!‘‘

توند کم کرنے کے لیے اٹھک بیٹھک کی انتھک مشقیں کرتے۔ ۔ ۔ کہتے تھے اس سے چربی پگھلتی ہے۔ حامد خان کو ہی ان پر پورا حق تھا اور ایسے موقعوں پر وہ حق پورا استعمال ہوتا۔ گھنی مونچھوں کی چھاؤں سے اردو اور پنجابی لہجے کی مکس اور الفاظ کو تروڑ مروڑ کر آواز ابھرتی ’’گھٹنے پگھڑ غئے (پگھل گئے) تو کیا ہو گا؟‘‘

آنکھوں میں سرخی رہتی مبادا شریف مردوں کی طرح ان کو بھی گھر میں شب خوابی پر اکسایا جاتا۔ ۔ ۔ کس لیے ؟ یہ کبھی پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ وزن کسی طور ۱۰۰   کلو سے کم نہ تھا۔ ہمارا باس ہونے کے ناطے ہمارا دل تو یہ ہی کرتا تھا کہ ’’کبڈی‘‘ کے اکھاڑے میں کھڑا کر کے اگلے سے دانت پیس کر کہیں ’’کھیلو ان سے ‘‘کبڈی کبڈی!‘‘

کام کے بعد ان کا دوسرا شوق تھا نازیبا گفتگو۔ ۔ ۔ ہماری لائن کے اکثر لوگوں کی دو عادتیں بہت بری ہوتی ہیں، ایک یہ وہ گالیاں بکتے ہیں اور دوم یہ کہ زبان بہت گندی ہوتی ہیں۔ ان کی زبان کی گندگی کی عالم یہ تھا کہ اکثر بے دھیانی میں خود پر مغلظات کا طوفان الٹ دیتے۔ اسٹاف کے سامنے چرب زبانی ایسی ہوتی کہ بعض دفعہ ہم ’’شریف‘‘ نوجوانانِ وطن آنکھیں بند کر کے دیر تک دل میں ’’مطلب‘‘ کی بات سوچتے رہتے۔ ۔ ۔ یعنی بات میں سے اپنے مطلب کی بات نکالتے! کوئی خود سے بڑا باس آ جائے تو منہ میں گھگیاں پڑ جاتیں، جیسے آج کل بازاری عورتیں رمضان کے آتے ہیں سر پر ڈوپٹہ لے کر ’’اللہ ہو، اللہ ہو‘‘ کا ورد کرتی ہیں۔

دوپہر کے کھانے پر سب اکھٹے ہوتے سوائے ان کے جو باس کی نظروں، باتوں اور انگلیوں کا نشانہ بنتے۔ ۔ ۔ اکثر بیٹھے بیٹھے دوسروں کی نقل اتارنا شروع کر دیتے۔ خود ان کو جانے کیا لگتا ہو مگر بلا مبالغہ دوسروں کو ایسا لگتا کہ پاگل خانے کا خطرناک پاگل رسیوں سے آزاد ہوا پڑا ہے۔ ۔ ۔ مزے لینے والے کھل کر مزے لیتے اور منہ چھپانے والے دل میں ہی کسر نکال لیتے۔ کھانے میں پائے، نلی نہاری اور بڑے کا قیمہ از حد پسند تھا۔ کھانے کے بعد پیٹ پر اوپر سے نیچے ہاتھ پھیر کر کہتے تھے کہ ’’مولا تیرا کرم ہے جو توند اب تک بنی ہوئی ہے۔ ‘‘ سندھی ملازمین سے اُنھی کی سطح پر اتر کر بات کرتے۔ کہتے تھے جیسے کو تیسا۔ ۔ ۔ اس لیے ملازمین بھی ان کے ساتھ ان کے ’’جیسے کو تیسا‘‘ والے اصول پر سختی سے عمل پیرا ہوتے تھے۔

ان کا گھر ہمارے گھر سے کچھ اُدھر ہی تھا۔ ۔ ۔ اتفاق کہیے یا عذاب کہ ایک دن ہمیں اُنھیں گھر سے جائے وقوعہ یعنی کام کی جگہ تک پہنچانا پڑا۔ ۔ ۔ سارے راستے موٹر بائک ان کے وزن سے اور ہم باس کے گر جانے کے خوف سے کانپتے رہے۔ ۔ ۔ اس دور کے نوجوانوں میں بائک کے سائڈ مرر (side mirror) کا استعمال ویسے ہی ناپید ہے چنانچہ جب ہم ذرا پیچھے جھانکنے کو دائیں بائیں سر کرتے تو ہمیں اپنا آپ کوہ قاف کے دیو کے بازوؤں میں لگتا۔

کام میں کوئی خرابی ہو جائے تو دوسرے پر اس کا بار ڈال دیتے اور اگر دوسرے کا کام اچھا ہو جائے تو بڑے باس کے سامنے اپنی شیخیاں بگھارتے رہتے۔ ۔ ۔ عادات و اطوار سے شک گزرتا کہ اپنے ہاں کالا کوا پیدا ہو گیا تو بار کسی ناتواں کے کاندھوں پر نہ جا پڑے یا کسی شیر کی ماں کو الزامِ آشنائی نہ سہنا پڑے ! کام کے معاملے میں علی سے الجھ پڑے۔ یہ سیر تھے وہ سوا سیر، علی سے چرب زبانی میں کمی کی وجہ یہ ہی تھی۔ علی کی عمر ہمارے برابر ہی تھی بس لگتا دو بچوں کا باپ تھا۔ علی کے منہ در منہ جواب سے بس کسر یہ رہ گئی کہ وہ اپنا منہ نوچ لیتے۔ ۔ ۔ کہتے تھے تم بہت بولتے ہو۔ علی کہتا ’’میں بس جواب دیتا ہوں بولتے تو آپ ہیں۔ ‘‘

شدید سردی کے دنوں میں بھی سائٹ پر سوئٹر کے بغیر رہتے تھے۔ شدید گمان تھا کہ اللہ نے انھیں اس معاملے میں جانور بنایا ہے۔ ۔ ۔ یعنی سیلف ایڈجسٹ ایبل(self adjustable)۔ بقول یوسفی صاحب’’کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے‘‘۔ جتنی بھی پڑتی ہے جانور کو اس سے کیا غرض۔ ۔ ۔ سردی میں اسٹاف کو تین وقت چائے پینے کی نا صرف تائید کرتے تھے بلکہ آفس کے کھاتے سے پلاتے بھی تھے۔ الگ بات ہے خود سارا دن پیتے رہتے۔ ۔ ۔ اسٹاف سے کہتے تھے ’’دیکھ لو مجھ جیسا باس نہیں ملے گا۔ ‘‘ علی نے یک بارگی ہمارے کان میں کہا ’’جہنم والوں کو یہ ہی ملے گا۔ ‘‘

یہ تھے ہمارے پہلے باس۔ ۔ ۔ عابد صاحب !

٭٭٭

 

 

 

 

عشق پر زور نہیں

 

                میم سین بٹ

 

عشق بڑا خانہ خراب ہوتا ہے جو کوئی اس کا شکار ہو جائے تو اس پر زندگی بھاری ہو کر رہ جاتی ہے اسی لئے ولی دکنی نے صدیوں قبل کہہ دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جسے عشق کا تیر کاری لگے

اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے

بعض عاشق ابتدائے عشق میں ہی باں باں کر اٹھتے ہیں غالباً ایسے ہی

عاشقوں کے بارے میں میر تقی میر کہہ گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

سیانے کہتے ہیں کہ عشق زبردستی نہیں ہوتا اور جب انسان ایک بار اس میں ملوث ہو جائے تو پھر عشق کے نشے سے چھٹکارا ممکن نہیں رہتا شاید مرزا غالب ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

کچھ لوگوں کو عشق کا بھوت اس بری طرح چمٹ جاتا ہے کہ وہ ناکارہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور دین و دنیا میں سے کسی کے کام کے نہیں رہتے ایسے عشق پیشہ نکمے لوگوں کے بارے میں بھی غالب کاکہنا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

بعض لوگوں کا عشق بڑھ کر جنوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے ان کا اپنا سکون تو برباد ہوتا ہی ہے دوسروں کو بھی تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں ان وحشی عاشقوں کی وجہ سے محبوب کی بدنامی ہونے لگتی ہے مگر یہ ڈھیٹ عاشق محبوب کی بدنامی کو بھی اس کی شہرت قرار دے دیتے ہیں بقول غالبؔ۔ ۔ ۔ ۔

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

میری وحشت تری شہرت ہی سہی

عاشق بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں اکثر یہی چاہتے ہیں کہ محبوب صرف ان تک محدود رہے اور انکے کسی رقیب کو لفٹ نہ کرائے لیکن ہرجائی محبوب کے کچھ عاشق فراخ دل بھی ہوتے ہیں اور اس معاملے میں غالب کے ہمخیال بلکہ روشن خیال ہوتے ہیں۔

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

عشق کوئی آسان راستہ نہیں ہے پاؤں ہی نہیں دل و جگر بھی چھلنی ہو کر رہ جاتے ہیں جگر مراد آبادی تو اسے آگ کا دریا قرار دیتے ہیں۔ ۔ ۔

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا جان لیجئے

اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے

عشق کی کوئی انتہا نہیں ہوتی مگر عاشق اس کی بھی انتہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں علامہ اقبال نے اس حوالے سے کہا تھا۔ ۔ ۔

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اگر کوئی عشق کے امتحان میں پڑ جائے تو اسے جلد کامیابی نہیں ملتی بار بار ناکامی سے بہت سے عاشق دل چھوڑ جاتے ہیں حالانکہ

انہیں عشق کے چکر میں پرنے سے پہلے یہ بات ذہن مین رکھنی چاہیے بقول علامہ اقبال۔ ۔ ۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

عقلمند لوگ عشق و محبت کے چکر میں نہیں پڑتے وہ اس معاملے میں دامن بچا کر رکھتے ہیں اور اگر ان کی عقل پر پتھر پڑ جائیں تو وہ اس کھیل میں ملوث ہو جاتے ہیں اسرار ناروی المعروف ابن صفی کا ایک شعر ہے۔ ۔ ۔

تم نے دیکھا دل کے ہاتھوں کتنے ہم مجبور ہوئے

چلتی پھرتی چھاؤں کی خاطر عقل سے کوسوں دور ہوئے

ظہیر کاشمیری نے بھی عشق کے عہد بیکاری کے حوالے سے شعر کہا تھا۔ ۔ ۔

چھت کی کڑیاں، شہر کی گلیاں گنتے گنتے عمر تمام ہوئی

عشق کے عہدِ بے کار ی میں کتنا اچھا کام ملا

لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا کی عشقیہ داستانوں میں پتا نہیں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ پایا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عشق خانہ خراب نے بہت سے گھر جلائے اور لاتعداد زندگیوں کے چراغ بجھائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ عشق نے بہت سے گھر بسائے اور بڑے نامور شاعر بنائے ہیں اردو کا کلاسیکی اور جدید ادب عشقیہ شاعری سے بھرا پڑا ہے، محبت کے حوالے سے ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے بقول شاعر۔ ۔ ۔ ۔

محبت کرنے والوں کے عجب کھیل دیکھے

نتیجہ جب بھی نکلا عاشق فیل دیکھے

زمانے کے ساتھ ساتھ عشق کے انداز بھی خاصے بدل گئے ہیں ایک وہ دور تھا کہ بقول مولانا حسرت موہانی۔ ۔ ۔

دیکھنا بھی تو اُنہیں دور سے دیکھا کرنا

شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا

اب ایک یہ دور ہے کہ لوگ عشق کم اور رسوائی کا سامان زیادہ کرتے ہیں خود بھی بدنام ہوتے ہیں اور بیچارے ’’حسن‘‘ کا ازدواجی مستقبل بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں بلکہ ساتھ ہی اپنے اور محبوب کے اہل خانہ کو بھی معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہنے دیتے اس پر مستزاد گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے، رفع حاجت کے بہانے آشنا کے ساتھ فرار اور پھر حدود آرڈیننس کے تحت مقدمے کا اندراج جیسی خبریں عشق کی روح کو مجروح کر کے رکھ دیتی ہیں ہمارے خیال میں اس خرابی کی سب سے بڑی وجہ بیہودہ پنجابی، ہندی، پشتو، اردو اور انگریزی فلمیں ہیں کہ جنہوں نے ہماری نوجوان نسل کے دماغ خراب کر کے رکھ دیئے ہیں اور وہ آدم بو حوا بو پکارتے پھرتے ہیں، اس محبت کے بارے میں صوفی تبسم کہہ گئے ہیں۔ ۔ ۔

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

الطاف حسین حالی بھی اپنی شاعری پڑھنے والوں کو عشق خانہ خراب کے نقصانات سے ڈراتے رہے ہیں ان کا ایک شعر ہے۔

اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا

جس گھر پہ سر اٹھا یا اس کو بٹھا کے چھوڑا

انٹر نیٹ کی سہولت نے عشق و محبت کو نیا رخ دیدیا ہے چیٹنگ خطو ط کتابت نے چھٹی رساں کی محتاجی ختم کر دی ہے اب انٹر نیٹ یا موبائل فون کے ذریعے محبوب کے ساتھ پرائیوٹ معاملات پر براہ راست کھل کر تبادلہ خیال کر لیا جاتا ہے، یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ عشق انسان کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ عشق کرنے والے کا دل سدا جوان رہتا ہے ورنہ ہم نے تو کئی عشق پیشہ ایسے بھی دیکھے ہیں جو اس روگ میں مبتلا ہو کر جوانی میں ہی بوڑھے بابے بن جاتے ہیں یہ نوجوان سر کے معاملے میں فارغ البال نہ بھی ہو گئے ہوں تو ان کے بال پہلے کھچڑی اور پھر جلد ہی برف بن جاتے ہیں یہ لوگ عشق میں اس قدر دوبے رہتے ہیں کہ انہیں سر کے سفید بالوں کو خضاب لگا کر چھپانے کا بھی ہوش نہیں رہتا بقول عباس تابش۔ ۔ ۔

شکل تو شکل مجھے نام بھی اب یاد نہیں

ہائے وہ لوگ وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ

بعض لوگوں کو عشق کرنے کا کم اور اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کا زیادہ شوق ہوتا ہے اے جی جوش نے غالباً ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا۔ ۔ ۔

اک ذرا تم سے شناسائی ہوئی

شہر بھر میں میری رسوائی ہوئی

اے جی جوش شاعر کم اورسومو پہلوان زیادہ لگتے تھے شاعری کے اکھاڑے میں بڑی تاخیر سے اترے تھے اور اس دیر آید کو درست آید قرار دیتے تھے لوگوں کو اس پر حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے جس عمر میں آ کر شاعری شروع کی تھی انسان کے تو رومانی جذبات ہی مردہ ہو چکے ہوتے ہیں پس ثابت ہوا کہ عشقیہ شاعری نے انہیں بوڑھا نہیں ہونے دیا اور ان کا دل آج بھی جوان ہے۔

دل ہونا چاہیدا اے جوان

تے عمراں وچ کیہ رکھیا

عشق میں بدنامی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن عاشق لوگ اس کی پرواہ ذرا کم ہی کرتے ہیں البتہ بعض بزرگ شاعر بدنامی سے ڈرتے ہیں اور عشق کر کے بدنام ہونے پر گلہ کرتے ہیں، ابرار حامد کا ایک شعر ہے۔ ۔ ۔ ۔

عشق تو بس کیا ہے اک تجھ سے

ساری دنیا میں رسو ا کیونکر ہوں

بعض شاعر عشق کے چکر میں پڑ کر دین اور دنیا کے کام سے بھی جاتے ہیں ایسے ہی کسی ٹھرکی شاعر بابے کو اگر کوئی ہمدرد مشورہ دے کہ بزرگو!آپ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اب عشق، بوتل اور شاعری چھوڑ کر اللہ اللہ کریں تو جواب میں وہ یقیناً یہ شعر پڑھ دیں گے۔ ۔

گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

عشق اور شاعروں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے کیونکہ عشق کئے بغیر رومانی شاعری نہیں ہو سکتی جس نے جتنے زیادہ عشق کئے ہوں وہ خود کو اتنا ہی بڑا شاعر سمجھتا ہے، جوش ملیح آبادی کی سوانح عمری ’’یادوں کی بارات‘‘ اس کا واضح ثبوت ہے ان کے علاوہ بھی بڑے بڑے شاعروں نے عشق لڑائے ہیں، مولاناحسرت موہانی جیسے کامریڈ ادیب، شاعر، صحافی اورسیاستدان عاشقی کے زمانے میں چپکے چپکے رات دن آنسو بہاتے رہے ہیں، احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے دل بھی کیوپڈ کے تیر کا نشانہ بن چکے ہیں اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب آتش جواں تھا، احمد ندیم قاسمی تو اپنی دیہاتی محبوبہ کو پانے میں ناکام رہے تھے البتہ ڈاکٹر وزیر آغا بعد ازاں موچی دروازہ لاہور کی صفیہ مرزا کو شریک حیات بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے، احمد ندیم قاسمی کی طرح خواجہ پرویز کا عشق بھی ناکام ہو گیا تھا جس پر انہوں نے یہ مشہور فلمی گیت تخلیق کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دلِ ویراں ہے، تری یاد ہے، تنہائی ہے

زندگی درد کی بانہوں میں سمٹ آئی ہے

خواجہ پرویز کی طرح اے حمید کا پہلا عشق بھی ناکام ہو گیا تھا جس پر انہوں نے ’’منزل منزل‘‘ کے عنوان سے اپنا پہلا افسانہ لکھا تھا جسے ادب لطیف نے ۱۹۴۸ ؁ میں شائع کیا تھا ان کی اگر اپنی پہلی محبوبہ سے شادی ہو جاتی تو وہ افسانہ و ناول نگار نہ ہوتے، گوالمنڈی میں دودھ دہی، سری پائے یا ہریسے کی دکان چلا رہے ہوتے، محبت میں کامیاب یا ناکام ہونے والے سب ادیبوں، شاعروں کو ایک روز دنیا چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اور ان کی جگہ نئے عاشق ڈیوٹی سنبھال لیتے ہیں بقول طفیل ہوشیار پوری۔ ۔ ۔

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

محبت کی شادی کرنے میں کامیاب ہونے جانے والے معروف ادیبوں، شاعروں، نقادوں اور دانشوروں میں ڈاکٹر وزیر آغا اور اے حمید کے علاوہ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، ڈاکٹر شفیق الرحمان، کرنل مجید ملک، کرنل فیض احمد فیض، صاحبزادہ محمود الظفر، سید عابد علی عابد، سید امتیاز علی تاج، حجاب اسماعیل، مصطفیٰ زیدی، احمد راہی شہرت بخاری، ساقی فاروقی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، یوسف کامران، کشور ناہید، جون ایلیا، زاہدہ حنا، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر حنیف فوق، ڈاکٹر سید معین الرحمان، ڈاکٹر طارق عزیز، سحر انصاری، شائستہ حبیب، پروین عاطف، بشریٰ رحمان، نثار عزیز بٹ، اصغر بٹ، اصغر ندیم سید، دلدار پرویز بھٹی، انور مسعود اور اعتبار ساجد بھی شامل ہیں ان میں سے ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، فیض احمد فیض، حنیف فوق کی بیگمات غیرملکی تھیں جبکہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کلاس فیلو، ڈاکٹر خواجہ زکریا اور شگفتہ چوہدری، اصغر ندیم سید اور فرزانہ میاں مرحومہ استادشاگردہ جبکہ بشریٰ رحمان اور ان کے شوہر میاں عبدالرحمان ہمسائے تھے، عشق نہ پوچھے ذات برادری کے عین مطابق ان ادبی جوڑیوں کی آپس میں برادری الگ الگ تھی۔

بہت سے مشہور ادیبوں، شاعروں نے عشق میں ناکامی یا دیگر وجوہات کے باعث مجرد زندگی گزاری یا گزار رہے ہیں ان کنوارے ادیبوں، شاعروں میں میراجی، عاشق بٹالوی، شوکت ہاشمی، احمد ظفر، خاقان خاور، قمر یورش، الطاف فاطمہ، حسینہ معین، جاوید آفتاب، عامر فراز، ازہر منیر، ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ وغیرہ کے نام شامل ہیں، استاد امام دین، آغا حشر کاشمیری، ایم اسلم اور استاد دامن وغیرہ نے اہلیہ کی وفات جبکہ مجید امجد، صفدر میر، ساغر صدیقی، جون ایلیا، زاہدہ حنا اور غضنفر علی ندیم وغیرہ نے علیحدگی کے بعد دوبارہ شادی نہ کرائی تھی البتہ منیر نیازی، اصغر ندیم سید اور فخر زمان نے پہلی بیوی کے انتقال پر جلد دوسری شادی کر لی تھی، علیحدگی اختیار کرنے اوردوسری شادی نہ کرنے والے بعض ادیب، شاعر، دانشور پچھتاتے تو ضرور ہوں گے تاہم کچھ دانشور بال بچوں کی پرورش میں مصروف ہو کر غم بھول گئے ہوں گے بقول شاعرہ۔ ۔

ترک تعلق کیسے ہوا تھا اب تو کچھ یاد نہیں

دل نے صدمہ کیسے سہا تھا اب تو کچھ یاد نہیں

٭٭٭

 

 

 

میری ڈائری میری سہیلی

 

                شفیق زادہ ایس احمد

 

دسمبر ۲۰۱۵ء کی کوئی تاریخ

میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی میں چھوٹی سی تبدیلی کسی بڑے بھونچال کا سر چشمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے، کم از کم میری چھوٹی سی نوکری نے تو یہی ثابت کیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی ایک اسکول کو جوائن کیا ہے۔ مگر اس مختصر عرصے میں ہی روز روز کی جھک جھک سے طبیعت اتنی تنگ آ گئی تھی کہ کچھ نہ پوچھو۔ پہلے تو ایمان سے ٹھاٹ سے نیند پوری کیا کرتی تھی، دو چار گھنٹے اوپر بھی ہو جائیں تو بھی پروا نہیں ہوتی۔ پھر اپنی مرضی سے اُٹھ کر ماسی مِیڈیا سے پورے گھر کا کام کروا کر اطمینان سے ’ہم ٹی وی‘ پر ممنوع موضوعات پر بولڈ ڈرامے بنا روک ٹوک دیکھا کرتی۔ شام کو بھی جب بچے اسکول ورک، ہوم ورک، پروجیکٹ اور فیس بک پر غیبت و غلو وغیرہ میں لگے رہتے تھے تو میں اسی دوران جلدی سے جِم بھی ہو آتی تھی۔ آٹھ سوا آٹھ بجے بچوں کو کھانا کھلا کر، ڈانٹ پلا کر، سُلا کر خود بھی میاں کے ساتھ تھوڑا بہت زہر مار کر لیا کرتی۔ اب نہ کھاؤں تو ان کا منہ بن جاتا اور کھاؤں تو فِگر بگڑ جانے کی فکر۔ ان ’میاؤں ‘ کی تو ‘چِت ’بھی اپنی اور پٹ بھی، کچھ ان کا کچھ اپنا خیال رکھ کر ازدواجیات کو سہن کرنا پڑتا۔ یقین مانو،   بھاری نہ ہو جاؤں کے   چکر میں منہ میٹھا کیے بھی زمانے گذر جاتے، بس ان کی لبوں کی مٹھاس ہی سے کام چل جاتا،   یعنی تعریف کے وہ ڈیڑھ اکشر بول جو کبھی کبھی   صحرا میں بارش کی طرح ٹپک پڑتے، میٹھے کی ہڑک پورا کر دیتے۔ کھانا ختم کر کے میز صاف کرتے اور برتن سمیٹتے سمٹاتے ہی میاں جی کو اٹکھیلیاں اور مجھے اونگھ کا دورہ پڑنے لگتا، تو جیسے تیسے کام ختم کر کے میں بھی سونے لیٹ جاتی۔ پھر کیا تھا، گھنٹہ ڈیڑھ میں نہ نہ ہاں ہاں کرتے کم بخت نیند آ ہی جاتی اور گیارہ بجے کے قریب ہم لوگ گھوڑے بیچ کر جو سوتے تو صبح آنکھ بھی آرام سے کھل جایا کرتی تھی۔ ہائے کیا دن تھے، اُف!

مگر جب سے یہ شوقیہ نوکری کا طوق گلے میں لٹکا یا ہے، تب سے یہ حال ہے کہ چار بجے تھکن سے چور لڑکھڑا تے گھر میں داخل ہوتی ہوں تو سب سے پہلے بچوں کی چیں چیں، چخ چخ سننے کو ملتی ہے جو شام ڈھلے تک جاری رہتی ہے۔ ان سے جان چھوٹتی ہے تو میاں کی سرگوشیاں بھیجے کا ملیدہ بنانا شروع کر دیتی ہیں جو رات تک بھن بھن کرتے رہتے( پتہ نہیں شادی سے پہلے کن بھینسوں کے آگے بین بجایا کرتے تھے)۔ سچ کہا تھا ہماری چندا چچی نے کہ اکلوتے مرد سے شادی نہیں کرنی چاہئے ورنہ تمام زندگی آیا بن کر پالنا پڑتا ہے۔ ہمارے والے تو پالنے میں بھی منہ پھلائے رہتے ہیں جب تک کہ منہ میں ان کا پسندیدہ پکوان نہ گھسیڑ دوں، رال ٹپکتی ہی رہتی ہے۔ ندیدے پن کی بھی انتہا ہے، اونہہ!۔ ماسی مِیڈیا نے بھی شام کو کام پر آنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہے ’ میرے بوائے فرینڈ کو پسند نہیں کہ جب وہ گھر آئے تو میں موجود نہ ہوں ‘۔ کمینی کہیں کی! کسی نے زیادہ پیسے دیے ہوں گے تو اسی طرف پھسل گئی ہو گی۔ اب تو عالم یہ کہ چار بجے گھر میں گھسنے کے بعد، صفائی شروع کرتی ہوں ا ور ساتھ ہی شام کے کھانے کی تیار ی بھی چل رہی ہوتی ہے۔ بچوں کے قضیے نمٹانا بھی میرا ہی کام ہے، میں تو فیصلہ صادر کر دیتی ہوں،   معزز عدالت کی طرح، عملدرامد ہو یا کچھ برامد نہ ہو، بھاڑ میں جائے، اس سے زیادہ انصاف کی تحریک میرے اندر نہیں ہے۔ میں کونسا کسی بحالی تحریک میں بھگا کر لائی گئی ہوں۔ اس گھر میں باقاعدہ بیاہ کر برامد کیا گیا ہے مجھے، وہ بھی کسی این آر او کے بغیر، تو بھلا میں کیوں اوقات سے بڑھ کر بڑھک مارکر اپنا بیڑہ غرق کروں۔ ویسے بچوں کو بھی اب بڑا ہو جانا چاہئے، کب تک باپ کی طرح بچّہ بنے رہیں گے۔   خیر، ہاں تو میں یہ تو بتانا بھول ہی گئی کہ کھانا کھلانے کے وقت کمر تختہ ہو رہی ہوتی ہے۔   چار سیزرین کے بعد پاؤں بھاری تو کیا سُن ہونے کے تصور سے بھی کانپ جاتی ہوں، مگر یہ آسان سی بات اِن کے بھیجے میں کون پہنچائے۔ عشاء تک تمام کام کاج سے فارغ ہو جاتی ہوں، بلکہ یہ کہو کہ ایک مختصر سا وقفہ ملتا ہے تو وظیفہ پڑھنا جو شروع کر تی ہوں تو تسبیح ہاتھ میں پکڑے پکڑیہی بستر پکڑ لیتی ہوں۔ اس طرح تمام طرح کے (وظائف )و معمولات سے فراغت کے بعد کو ئی بارہ بجے جو بے خبر سوتی ہوں تو یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ آج کل یہ صرف نیٹ پر ہی چے ٹنگ کر ہے ہیں یا آفس میں چھوڑے موبائل سے صرف‘ایس ایم ایس اور وہاٹس ایپ’ پرہی گذارہ ہے،   اونہہ ! میری بلا سے( لیکن پھر بھی؟ معلوم تو ہونا چاہئے)۔ ادھر اسکول کے بین الاقوامی بچے؟ اف توبہ، اتنے خاندانی کہ کسی شریف آدمی کو اپنے بچوں کی تربیت کرنی پڑے تو، ان سے بڑھ کر کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی۔ یعنی، بس ان تمام حرکات سے اجتناب کرایا جائے جو یہ بچے کر تے ہیں، تربیت خود بہ خود ہو جائیگی۔ میرا تو دل چاہتا ہے کسی سانچے میں ڈال کر ان جیسے گدھوں کو مرغا بنا دوں۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اگر گدھوں کو مرغا بنا دوں تو بار برداری کون کرے گا۔ اس سیبڑھ کر یہ نقصان کے وقت پڑھنے پر ہمارے سیاست دان، باپ کِسے بنائیں گے۔

آج بہت دنوں کے بعد شمسہ کا فون آیا تھا۔ میں اس وقت باتھ روم میں ہارپک لگا رہی تھی،   فون پاں پاں کرتے کرتے جب تھکنے لگا تو میں نے کال ریسیو کی اور ہانپتی سانسوں میں ہیلو ہیلو کہا۔ میری ہولائی ہوئی ہیلو سن کر اس نے پوچھا ‘ اتنی دیر بعد فون پِک کیا، خیریت تو ہے’۔ اس کے لہجے میں شرارت اور کمینہ پن ڈھونڈنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے کہا ‘اس وقت بہت بزی ہوں ’۔ اس نے شاید مذاقاً یا طنزیہ سوال کیا‘ کیوں ؟ کیا میاں نے چھٹی کی ہے’۔ جھوٹ تو میں بولتی نہیں، سب جانتے ہیں، صاف جواب دیا کہ ‘جی نہیں، وہ آج ہی تو کام پر گئے ہیں، سوچا میں بھی دوسرے کام نبٹا لوں، کیا خبر لنچ پر پھر آ دھمکیں۔ وہ بہت کمینی ہے،   کہنے لگی ‘کرموں کا بھوگ بھگت رہی ہو؟’۔ میری ہنسی چھوٹ گئی ‘ بھوگ نہیں بھُوت’۔

اچھا بھئی اب مزید نہیں لکھا جاتا، بہت نیند آ رہی ہے، انہوں نے باتھ روم کی لائٹ تو گُل کر دی ہے،   اب کچھ ہی دیر میں کمرے میں بھی ‘ اندھیر’ ہونے والا ہے،   ہا ہاہا۔ شششش!! چُپ

ڈئیر ڈائری باقی باتیں کل، سایو نارا

٭٭٭

 

 

 

مولبیوں کی اقسام

 

                سکندر حیات بابا

 

محترم و نا محترم قارئین، خوش قسمتی، بد قسمتی، یا پھر اتفاق سے اگر آپ میری یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اور آپ نے اسے پڑھنے کا فیصلہ عنوان دیکھ کر کیا ہے، تو یقیناً آپ محبت، ہمدردی یا پھر ’’ دھلائی‘‘ کے لائق ہیں، کیوں کہ مولوی سے دلچسپی مولوی کو ہی ہو سکتی ہے یا پھر کسی مولبی کو یا مولبیوں کے ڈسے ہوئے کو،   مولوی تو یقیناً آپ جانتے ہی ہوں گے وہ شخص جو مسائل دین سے واقف ہو پڑھا لکھا، فقیہہ، اور فاضل آدمی،   یہ محبت کے لائق ہوتا ہے، جبکہ مولبی اس شخص کو کہتے ہیں جو اَن پڑھ جاہل یا پھر پڑھا لکھا جاہل، مسائل دین سے ناواقف اور مکمل طور پر ہی ’’ فاضل ‘‘ ہو، اسے ’’ دھُلائی‘‘ کی اشد ضرورت ہوتی ہے، جبکہ اس کے ڈسے ہوئے قابلِ ہمدردی ہوا کرتے ہیں۔

پچھلے زمانوں میں مولوی کم اور عام لوگ زیادہ ہوتے تھے، آج کل عام لوگ کم اور مولوی زیادہ ہو گئے ہیں، دراصل برساتی مینڈکوں کی طرح ہر جگہ پھدکتے مولیانہ شکل کے یہ لوگ مولوی نہیں مولبی ہوا کرتے ہیں، آپ نے سنا ہی ہو گا، نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان۔ ۔ ۔ یہی وہ ملا ہیں جنھیں ہم مولبی کہتے ہیں۔

جو مولوی ہوتا ہے اس کے اندر انسان اور انسانیت سے محبت رہتی ہے اور جو واقعی انسان ہو،   اسے’’ مولبی‘‘ سے نفرت ہو جاتی ہے۔ حضرت انسان جتنا پرانا ہے مولوی اور مولبی بھی اتنے ہی پرانے ہیں، بلکہ شاید اس سے بھی پہلے کے جب زمین پر آتشی مخلوق کا بسیرا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ ’’ مولبیانہ انداز‘‘ بھی ارتقائی مراحل سے گزرتا ہوا آج اکیسویں صدی میں نیا روپ اختیار کر گیا ہے، بلکہ مولبی کا کوئی ایک روپ نہیں ہوتا مولبیانہ روپ اتنے زیادہ ہیں کہ ٹھیک سے تمام کا بیان ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

آج ہم قدیم اور جدید ’’ مولبیوں ‘‘ کی کچھ اقسام بیان کریں گے۔

ٍٍ ۱۔   ڈسکو مولبی

ڈسکو مولبی جدید دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے، عجیب سا مضحکہ خیز حلیہ، گلے میں دوپٹہ یا ’’پٹے ‘‘ ٹائپ کا کوئی رنگین رومال، کرتا تو اس اہتمام سے پہنا جاتا ہے گویا اس کے علاوہ باقی تمام لباس حرام ہوں۔ ڈسکو مولوی بڑا ہی نٹ کھٹ واقع ہوتا ہے۔ یہ باجی باجی کہہ کر ’’مستورات‘‘ سے کچھ یوں بے تکلفانہ انداز میں خطاب کرتا ہے کہ کئی مستورات ’’مستور‘‘ نہیں رہتیں۔

ڈسکو ’’ مولبی‘‘ نعت گانوں کے انداز میں ایسے جھوم جھوم کر پڑھتا بلکہ گاتا ہے کہ سننے والوں پر وجد طاری ہو جاتا ہے اور سامعین عالمِ وجد میں ’’مولبی ‘‘ اور ’’ سندری بائی‘‘ کے درمیان فرق بھول جاتے ہیں۔ پھر وہی کوٹھے کا منظر ہوتا ہے، دولت ہوتی ہے۔ فرق ہوتا ہے تو بس اتنا کہ دولت یہاں جن قدموں میں پڑی ہوتی ہے ان میں گھنگرو نہیں ہوتے۔

۲۔ نجومی مولبی

یہ والے مولبی صاحب خاص کر خواتین میں بہت ہی زیادہ مقبول ہوتے ہیں۔ نوکری کا مسئلہ ہو،   چٹ منگنی پٹ بیاہ کی بات ہو،   گھریلو ناچاقی کا معاملہ ہو،   شوہر دوسری عورت پر فریفتہ ہو یا پھر آپ محبوب کو اپنے قدموں میں چاہیں، نجومی ’’مولبی ‘‘ صاحب کی خدمات حاضر ہیں، یہ الگ بات کہ اکثر اوقات شوہر کو قبضے میں کرنے کی خواہش رکھنے والی خواتین ان مولبیوں کے قبضے میں چلی جاتی ہیں۔ اِن ’’مولبیوں ‘‘ نے تمام عبادات خاص کر نمازیں معاف کروا رکھی ہیں اور خود کو مکمل طور پر ’’خدمت خلق ‘‘کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ نجومی ’’مولبی ‘‘ کمال کے مکار ہوتے ہیں اور غضب کے کمینے بھی، یہ مکار زیادہ ہوتے ہیں کہ کمینے اس بات کا فیصلہ گیارہ ممالک کی پولیس کو مطلوب ڈان کو پکڑنے کی طرح مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

۳۔ کمرشل مولبی

کمرشل مولبی خاص مواقعوں پر اپنے فن مولبیانہ کے اظہار میں ماہر ہوتا ہے۔ اسے تمام برگزیدہ ہستیوں کی تاریخ پیدائش و تاریخ وفات زبانی یاد ہوتی ہے اور موقع مناسبت کے حساب سے ان کا عرس خوب اہتمام سے منعقد کرتا ہے۔ اگر بدقسمتی سے کوئی مہینہ اس طرح کے کسی واقعے یا سانحے سے محروم ہو تو یہ دور دراز علاقے کا اپنا کوئی ’’سائیں مست قلندر بابا ‘‘ دریافت کر کے اس کے چہلم عرس کے مواقع پیدا کر لیتا ہے۔ عوام کو ٹوپی پہنانے کے لئے اسے ہری نیلی پیلی کالی یا کسی بھی رنگ کی پگڑی پہننے یا پہنے رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں، پگڑیوں کا بیوپار کرتے ان مولبیوں کو حقیقی معنوں میں دین فروش کہا جا سکتا ہے۔

۴۔ میڈیائی مولبی

میڈیائی مولبی میں ایک اچھی اداکارہ کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں یعنی یہ میڈیا میں ان رہنے کے گر یا ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ یہ بیک وقت ڈسکو مولبی، کمرشل مولبی اور نجومی مولبیوں کی تمام خصوصیات کا حامل ہو سکتا ہے۔ میڈیائی مولبیوں کی بھی دواقسام پائی جاتی ہیں۔ ۔ ۔ ایک سرکاری اور دوسری قسم غیر سرکاری۔ سرکاری مولبی کا کام حاضرِ وقت حکمران کو خلفائے راشدین کے ہم پلا قرار دینا اور غیر سرکاری مولبی کا کام خود کو وقتِ حاضر کا مجدد الف ثانی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ میڈیائی مولبی کا ظاہری حلیہ ’’مولیانہ ‘‘ ہونا بھی ضروری نہیں۔ یہ کلین شیو یا فرنچ کٹ سٹائل کا حامل بھی ہو سکتا ہے، عموماً ان کے پروگرامز کے نام ’’عالم آن لائن‘‘،   ’’قطب آپ کی خدمت میں حاضر‘‘ ٹائپ کے ہوتے ہیں۔

۵۔ ٹھیکیدار مولبی

ٹھیکیدار مولبی سے مراد ہرگز وہ لوگ نہیں جو ٹھیکیداری میں دو نمبری کرتے ہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا ذکر ’’ خیر‘‘ ہے جنہوں نے جنت اور دوزخ کے لئے بھرتی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ قلم کی ایک جنبش سے یہ کسی کو بھی کافر قرار دے کر جہنم کا حقدار بنا سکتے ہیں۔ مزید کسی گناہ پر مانگی گئی معافی کو قبول کرنے نہ کرنے کا بھی یہ اختیار رکھتے ہیں۔ ٹھکیدار مولبی ’’ نذرانہ‘‘ ملنے پر کوا حلال یا پھر حصہ نہ ملنے پر مرغی حرام کر سکتا ہے۔ آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو ٹھیکیدار مولبی کی خوشی کا خیال رکھیے ورنہ دونوں جہاں کی بربادی کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔

۶۔ مسلکی مولبی

مولبیوں کی یہ قسم ٹھیکیدار مولبیوں کی تمام خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ شیطان کی طرح ان کی زندگی کا بھی صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے شر انگیزی۔ ۔ ۔ جمعے کے خطبات پر پابندی عائد کر دی جائے یا پھر انہیں کسی قانون کے تحت کر دیا جائے تو مسلکی مولبیوں کی جان پر بن سکتی ہے۔ ہفتے کے تمام دن باہمی معاملات میں لوگ اگر ایک دوسرے کے قریب ہو رہے ہوں،   ان کے درمیان بھائی چارہ پیدا ہو رہا ہو تو جمعے کے روز یہ محبت کے ایسے تمام جراثیم کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ دانشمندوں کا کہنا ہے کہ ان کی اس عادتِ بد کی وجہ ان کے پیٹ کی آگ ہے لیکن بعد از مشاہدہ و تحقیق ہم نے جانا کہ یہ آگ و جلن پیٹ کی نہیں بلکہ اس جگہ پر ہوتی ہے جو ناقابل اشاعت و ناقابل بیان ہے۔

مولبیوں کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں لیکن چونکہ ہم نے ان مولبیوں اور ان کے چاہنے والوں کے درمیان رہ کر ہی کاروبار ذیست کرنا ہے سو اسی پر اکتفا کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ آپ مذکورہ بالا تمام مولبیوں کے شر سے خود بھی بچے رہیں گے اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

یادِ ماضی ثواب ہے یارب

 

                ارمان یوسف

 

مظفر گڑھ کے اکلوتے فیاض پارک کے کونے میں بیٹھے بیٹھے خدا جانے ایک روز کیا سوجھی کہ نوجوانوں کی نمائندہ ادبی تنظیم کی تشکیل کا خیال آیا اور یوں ’’ترین ادبی فاؤنڈیشن‘‘ کی بنا ڈال دی۔ چئیر مین کا قرعہ راشد ترین کے نام کا نکلا، صدر ہم بن بیٹھے اور کچھ نوجوانوں کو فون پر ہی عہدے بھی دے دئے گئے اور فون پر ہی مرزا غالب کی روح کو گواہ بناتے ہوئے حلف نامے بھی لے لئے گئے۔ انہیں دنوں کی بات ہے کہ مظفر گڑھ میں ’’علی بابا‘‘ کے نام سے ایک مقامی ٹی وی چینل اپنے آغاز کے ابتدائی دنوں میں تھا، خدا جانے ٹی وی والوں کو ’’چالیس چور‘‘ ملے یا نہ ملے البتہ رضا ٹوانہ، افضل چوہان اور سلیم نتکانی کے دبستانِ رضا اوعباس صادر، اصغر گورمانی کے سانجھ ادبی سنگت کے پلیٹ فارم سے ایک سو چالیس شاعر ضرور مل گئے۔ چونکہ ان کے پاس پروگراموں کی کمی تھی اور ہمیں کوئی دوسرا چینل پوچھتا ہی نہیں تھا، لہذا ہماری میزبانی اور راشد ترین کی صدارت میں ’’ترین ادبی فاؤنڈیشن ‘‘کے پہلے ہی مشاعرے کو انہوں نے دن رات چلا چلا کر اس وقت تک بند نہیں کیا جب تک کہ پورا شہر سراپا احتجاج نہیں بن گیا۔ مظفرگڑھ کے ادبی مورخ ظریف احسن تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ماؤں نے سکولوں کے بھگوڑے اور شرارتی بچوں تک کو ہمارے مشاعرے کے ذریعے ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا تھا کہ خبردار باز نہ آئے تو ’’ارمان‘‘ والا مشاعرہ چلوا دیں گے ایک ہی نشست میں پورا دیکھنا ہی نہیں بلکہ سننا بھی پڑے گا۔ سنا ہے مظفر گڑھ کی آدھی سے زیادہ نئی نسل تو یوں ہی سدھر گئی۔ اب حکومت وقت کی بے حسی بھی ملاحظہ کیجئے، اعزازات سے تو کیا نوازتے الٹا پابندی لگانے کی سازشیں تیار ہونے لگیں۔ چونکہ نوجوانوں کی نمائندہ تنظیم تھی لہذا پہلے مشاعرے میں صابر انصاری کو بطور مہمانِ خصوصی ملتان سے بلوایا گیا تھا اور انصاری نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ پچپن میں بھی خضاب لگا کر، بچپن کا کرتہ بازوؤں میں اٹکا کر کم از ٹی وی سکرین پر جوان ضرور نظر آیا جا سکتا ہے۔ انہیں مشاعروں میں ملتان سے استاد فدا ملتانی، اسلم ہمدم، مامون طاہر، نبیل طور، اجمل خاموش اور ملک اکبر اٹھنگل آنے لگے اور بدلے میں ہم بھی ملتان کو رونق بخشنے لگے۔ ہمارے رقیبِ رو سیاہ ملک الموت کی ’’حرکت‘ ملاحظہ کیجئے کہ اب کے سیدھا ہمارے دوست ملک اکبر ا ٹھنگل ہی کو لے اڑا۔ ابھی تو رضا ٹوانہ جیسے شاعرِ بے بدل اور مہربان دوست کا دکھ نہ بھلا پائے تھے کہ ایک اور صدمہ جھیلنا پڑا۔ عزرائیل کو راہَِ راست پہ لانے اور اپنے دوستوں سے دور رکھنے کے لئے لگتا ہے غالب و اقبال کی روحوں کو خط لکھنا ہی پڑے گا۔ ہفتہ بھر قبل ہی ملک اکبر اٹھگنل کی موت کی روح فرسا خبر ملی۔ پرت بہ پرت یاد کی تہیں اترنے لگیں۔ منفرد طبیعت اور جدا گانہ اندازِ بیاں کے حامل اکبر اٹھنگل کا ہمارے مشاعروں میں بطورِ خاص شرکت کرنا شاعری سے بڑھ کر ایک الگ نشہ سا تھا۔ وہ ہمیشہ ڈائری ساتھ لاتے اور کوشش بھی یہی ہوتی کہ آج کے مشاعرے کو پہلا اور آخری جانتے ہوئے داستانِ غم ایک ہی قسط میں بیان کرتے جائیں۔ گلے میں خراش اور دھیمی آواز ہونے کے ناطے آخری صف والے سامعین تو محض اندازِ بیان سے ہی کام چلاتے ہوئے داد دیا کرتے تھے۔ مہربان اس قدر کہ طبیعت کی ناسازی ہو یا موسموں کی سازش، ایک ہی گزارش پہ کھنچے چلے آتے تھے، اور کہتے:’’ارمان یار میں تاں بس تیڈے واسطے آنداں ‘‘ دیکھا جائے تو ان کے اس قول میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہ تھی۔ کیونکہ جتنی داد انہیں مظفر گڑھ سے ملتی تھی اس سے کہیں زیادہ تو وہ ملتانی گوبھی کے پھولوں سے وصول کر سکتے تھے۔ یوں ادلے کے بدلے ہمارا بھی ملتان آنا جانا شروع ہو گیا۔ ان کے ہاتھ سے لکھی ایسے ہی ایک مشاعرے کی رپورٹ اخبار کے مدیر تک پہنچی جس میں انہوں نے لکھا ’’ مشہورِ زمانہ شاعر ارمان یوسف۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ادبی صفحے کے انچارج نسیم شاہد نے کہا بھئی باقی تو ٹھیک ہے مگر یہ ارمان کے مشہورِ زمانہ والی لکیر کاٹناپڑے گی۔ اسی بات پہ اڑ گئے اور کہنے لگے ’’کیوں نہیں، وہ ایک مشہورِ زمانہ شاعر ہے اور آپ کو بھی ماننا پڑے گا‘‘ ان کا یہ دعویٰ چونکہ محبت اور شفقت کی بنا پر تھا، لہذا اخبار نے بھی جوں کی توں رپورٹ شائع کر دی۔ یہ ان کی شخصیت ہی کا جادو تھا ورنہ اپنے شہر سے باہر ہمیں جاننے والا تیسرا شخص وہ خود ہوں گے۔ دراصل وہ سراپا محبت تھے، ان کی دنیا، ان کی کائنات اور ان کا زمانہ محبتوں کی سر حد سے شروع ہو کر محبتوں کے دیس ہی میں آ کر ختم ہوتا تھا۔ جب ان کی موت کی خبر ملی تو سوچا ایسے یارِ طرح دار کی عارضی جدائی پہ ماتم کرنے کی بجائے اس کی ازلی و ابدی دوستی پہ ناز کرتے ہوئے کیوں ناحسیں یادوں کی ایک شام منائی جائے۔ شہر کی ویران سڑکوں میں اکثر خود ہی تنہایوں کی شال اوڑھے اگرچہ وہ اکثر اداس ہی پائے جاتے مگر دوستوں کی محفل میں جیسے گلاب سا کھل اٹھتے ؛دامے درمے سخنے سفنے ہر ایک محفل کی رونق، ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک۔ کیا خبر اب بھی موت کی سرحد کے اس پار نئی دنیا کی رونقوں اور اسرار و رموز کو تازہ با تازہ کلام میں ڈھالے، ایک ڈائری سی ہاتھوں میں اٹھائے، چمکتی آنکھوں میں بچوں کی سی حیرانی لئے غزل ہی گنگنا رہے ہوں۔ یہی سوچ کر اس پورے دور کو یادِ ماضی کا عذاب سمجھ کر دکھ جھیلنے کی بجائے ان کی ہنستی بستی شخصیت کو خراجِ عقیدت اور ایصالِ ثواب کے لئے ان کی محبت و شفقت کی تسبیح کا دانہ دانہ پھیرنے کو جی چاہا۔

ملک اکبر اٹھنگل کے شہر ملتان میں جہاں کئی نامی گرامی شاعروں سے پالا پڑا وہاں طہٰ قریشی کے چھوٹے بھائی رضوان قریشی سے بھی ملنا ہوا جو اِن دنوں ’شازلی ‘ تخلص کرتے تھے۔ ان کی شاعری کو بھی ہم نے قیامت ہی کی ایک نشانی گردانتے ہوئے آخرت پہ اور بھی یقین پختہ لیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طاہر قریشی بھی ’’نہر کنارے‘‘ عنوان کی ایک نظم گنگنانے لگے تھے، خدا معلوم ابھی تک نہر کنارے ہی بیٹھے ہیں یا شاعری کے سمندر میں ڈبکی لگا چکے۔ ان کو بھی ہم نے مظفر گڑھ میں منعقدہ مشاعروں کے لئے پھسلا یا تو بہت کہ اکبر اٹھنگل آ سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں۔ ہر بار یہی کہتے ’’بھئی واپس آتے آتے کافی دیر ہو جائے گی اور رات کے اندھیرے میں گاڑی چلانا میرے لئے آسان نہیں۔ دن دن کی کوئی محفل ہو تو اور بات ہے‘‘ دن کو ہم مشاعرہ رکھ نہیں سکتے تھے کہ اس بارے میں رضا ٹوانہ مرحوم کے واضح احکامات نازل ہو چکے تھے:’’دیکھو! ’ ش‘ سے جتنی چیزیں شروع ہوتی ہیں وہ شام کے بعد ہی اچھی لگتی ہیں مثلاً شاعری، شراب، شبِ مہتاب، شبِ وصل و فراق۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘یہ اور بات کہ ہم بھی ہر بار سر جھکائے یہی عرض کرتے :’’ حضور ہمیں تو ’ش‘ سے شرم ہی آتی ہے وہ بھی شام سویرے‘‘اب اس قدر واضح احکامات کے باوجود بھی شام سے پہلے پہلے مشاعرہ رکھ کے گنہگار تو نہیں ہو سکتے تھے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ جنت کا حصول اتنا آسان بھی نہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اب اگر حاسدینِ بد کے اکسانے پر کوئی سر پھرا فرشتہ روزِ قیامت یہ سوال کر لے کہ شام سے پہلے مشاعرہ کیوں رکھا تھا؟ تو اس کو کیا جواب دیں گے؟ آپ کی ناز برداریاں کرتے کرتے ہم تو گئے جنت الفردوس سے بھی!

اب تو خود طہ ٰ قریشی بھی صاحبِ کتاب بنے پھرتے ہیں۔ اپنی اس آب بیتی ’’میرا جہاد۔ چک نمبر ۴۴۴ سے بکھنگم پیلس تک‘‘ میں زندگی کی تلخ و شیریں تہوں کے پرت کھولتے کہیں حیرانی سے روشناس کراتے ہیں، کہیں ناممکن کے حصول میں بھی سرخرو نظر آتے ہیں اور ایم بی ای کا اعزاز اپنے نام کرتے ہیں، وطن سے محبت سب جگہ نمایاں ہے۔ حکومتِ وقت کو چاہئے کہ محبت پہ بھی ٹیکس لگا دے، دیکھتے ہی دیکھتے خزانہ بھر جائے گا۔ دل مگر خالم خالی ہو جائیں تو یہ بات اور ہے۔ جن حضرات نے موقع ملنے کے باوجود اب تک یہ کتاب نہیں پڑھی تو ان کے لئے گزارش ہے کہ اپنے علمی و ادبی ذوق پہ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھ لیں۔ تو بات یہاں پہ آ ختم ہوتی ہے کہ عزیز دوستوں کی میت پہ افسوس کرنے کی بجائے زندہ لاشوں کا ماتم کیا جائے۔ مسائل کے گرداب بھی اپنی جگہ، حالات کے آہنی شکنجے بھی بجا مگر اپنے چاہنے والوں اور دوستوں کے لئے ذرا سا وقت نکال کے نفرتوں کی دیوار پھلانگتے ہوئے وقت کے کورے ہاتھوں میں خوشیوں کے کنگن پہنائے جا سکتے ہیں۔ باغوں میں گاتی کوئل کے ابدی گیت سے اب بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ ضروریات کو کم سے کم کر کے بھی سادہ مگر پر لطف زندگی کے دلچسپ کھلونے سے جی بہلایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہمدمِ دیرینہ ملک اکبر اٹھنگل کی شاعری سے کوئی شام سجائی جا سکتی ہے۔ اور آخر میں رضا ٹوانہ مرحوم کے دو اشعار، ملک اکبر اٹھنگل مرحوم کے نام!

بچھڑ کے پھر بھی ملیں گے یقین کتنا تھا

یہ ایک خواب تھا لیکن حَسین کتنا تھا

مجھ ہی کو دے گیا الزام بے وفائی کا

حسیں تو خیر وہ تھا ہی، ذہین کتنا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

 

                ذہین احمق آبادی

 

دوشیزگان، خواتین اور خواتان کے ضخیم رومانوی، ڈیڑھ دو اِنچی کے ناول بلا کھٹکے اور تکان ایک ہی نشست میں پھانکنے والوں کو ہماری ’’دو تین‘‘ بالشتی تحاریر پڑھتے ہوئے کوفت ہوتی ہے… اور اس سے ہم کوفتہ… حالانکہ دو اور تین تو وہی ’’دو‘‘ شیزہ اور خوا’’تین‘‘ سے درآمدہ ہیں۔ ۔ ۔ قطع نظر اس سے کہ نام کی دوسری طرف سے کوئی حضرتِ موصوف زنانہ مسکراہٹ کے ساتھ برآمد ہوں اور شرماتے لجاتے، انگلیاں مروڑتے، پلکیں گراتے اٹھاتے اپنے پرویز ہونے کا اعلان کریں جبکہ پیچھے سے خم ہائے کاکلِ پُر بہار پروین کے ہی محسوس ہوتے ہوں، ایسے ہی لوگوں کیلئے میں نے اوپر ’’خواتان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ان خواتان میں کیسے’’بڑے بڑے‘‘ مصنفین شامل رہے ہیں۔ اسی طرح ہر تخلیقی میدان خاص طور پر شاعری اور نثر میں طبع آزمائی کرنے والے اپنے کسی کارنامے کے باعث مشہور ہو جاتے ہیں اور انکے باقی کارنامے انکی وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں …!

ایک دن یونہی محوِ خرام تھا کہ ’’ذہین احمق آبادی‘‘ اور ’’محترم اوٹ پٹانگ‘‘ سے ملاقات ہو گئی۔ ۔ ۔ دونوں برسرِ پیار اررررر پیکار تھے، اور اس بات پر لڑ رہے تھے کہ سردیوں میں سورج کی حدت محسوس کرنے بعد کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’پے گئی اے ٹھنڈ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ لیکن دونوں اس بات پر متفق تھے کہ سردیوں میں لحاف سے باہر کیا نکلو، سربستہ مائع بھی سردی کے باعث باہر نکلنے کو بیتاب ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ کافی نوک جھونک ہوئی مگر سوال حل ہونا تھا نہ ہوا۔ ۔ ۔ !

محترم بولا۔ ۔ ۔ ’’کیا سمجھتا ہے بے۔ ۔ ۔ میں اڑتے پروں میں چڑیا گن لیتا ہوں، ایک ہی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ !‘‘

ذہین بھی کہاں پیچھے رہنا والا تھا۔ ۔ ۔ ۔ مزہ لے کر بولا ’’ابے یہ تو کوئی بھی بتا سکتا ہے، میں تو یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ اڑتی چڑیا کے کتنے پر ہیں۔ ۔ ۔ دو ہی ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ہاں !‘‘

پھر دونوں نے ایک دوسرے کو کڑے تیوروں سے گھورنا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے کہ اگلا مرحلہ شروع ہوتا لفاظی کا میں نے بیچ بچاؤ کرایا۔ ۔ ۔ وگرنہ دونوں کو ایک دوسرے سے خدا واسطے کا ’’بیر‘‘ ہے جو ایک ’’آم‘‘ سی بات ہے کیونکہ اکثر دونوں ایک ہی سیبوں جیسے گال والی پر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور رفاقت و رقابت کی پیچیدہ گتھی سلجھانے کو ہم ہی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ فی الاصل ان میں اور کلینڈر میں فقط ایک ہی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ کلینڈر میں ہر روز ایک ’’ڈیٹ‘‘ ہوتی ہے۔

ان کا حصہ من و سلویٰ

اپنی قسمت دور کا جلوہ

اور ہوتا یہ تھا کہ دونوں رقابت نبھاتے رہ جاتے تھے اور کوئی تیسرا آ کر ڈنڈی مار جاتا تھا اور یہ دونوں ایک دوسرے کے سے مُنھ لے کر رہ جاتے تھے، پھر مل کر خوب خوب کیڑے نکالتے تھے اس میں اور ایسے مطمئن ہو جاتے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

محترم کی حالت تو اس وقت دیکھنے والی ہوتی تھی جب محفل میں کسی جاننے والے کی بیگم اس سے اس کی بیگم کی خیریت دریافت کرتی تھی ’’بھابھی کیسی ہیں ؟‘‘

وہ چونک کر سراسیمہ ہوتا بولتا ’’کون سی؟‘‘

مسؤلہ حیرانی سے پوچھتی ’’اوہ تو کیا آپ نے تا حال شادی ہی نہیں کی؟‘‘

اب کے ذہین ذرا ا س کی مدد کرتا اور اس کا پندار مجروح ہونے سے بچاتا ان الفاظ میں کہ ’’محترم کا اصل میں مطلب تھا کہ کونسی بھابھی، دراصل اس نے چار چار کر رکھی ہیں نا تو یہی دریافت کر رہا تھا کہ کونسی والی!‘‘

مجھے اس دن کا انتظار ہے جب خواتین بھی مردوں کے ’’شانہ بہ شانہ‘‘ ان کے حقوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ‘کثرتِ ازواج’ پر لکھیں گی کیونکہ کثرتِ ازواج کا بالآخر فائدہ عورتوں کو ہی ہو گا اور مردوں کا یہ بنیادی حق ہے۔ ۔ ۔ آہاں، مجھے معلوم ہے۔ ۔ ۔ احمقوں کی جنت، میں وہاں نہ رہوں گا تو اور کون رہے گا!

خیر۔ ۔ ۔ موصوفہ کی حیرت دو چند ہو جاتی کیونکہ محترم کی منحنی سی شخصیت اور جسم دیکھ کر یہ باور نہ آتا تھا کہ محترم، ذہین کو احساسِ ممنونیت سے دیکھتا مگر اسے کیا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی، ذہین اپنے مزے میں بول رہا ہوتا ’’یہاں تک کہ جب اس کی شادی ہوئی تو لڑکیاں یہ گانا گاتے ہوئے پائی گئی تھیں :

دولہے کا سہرا پرانا لگتا ہے

اب کہ محترم ذہین کو کینہ توزی سے دیکھتا اور وہ مزید حیران ہوتی، سوال پوچھتی ’’اوہ۔ ۔ ۔ تو کیا چاروں شادیاں ایک ہی سہرے میں بھگتائی تھیں ؟‘‘

ذہین چٹخارے لیتا بولتا ’’دراصل واقعہ یہ ہوا کہ محترم نے کہیں پڑھ لِیا تھا کہ کھانے کے دوران جگہ تبدیل کرنے سے شادی ہو جاتی ہے، اس احمق نے ایک ہی کھانے میں چار چار دفعہ جگہ تبدیل کر لی۔ ۔ ۔ یہ سمجھا تھا کہ یہ فوری نتائج کیلئے اکسیر ہو گا مگر یہ تو الٹا ہو گیا۔ ۔ ۔ اب چار چار اسے بھگت رہی ہیں اور یہ انھیں۔ ۔ ۔ !‘‘

وہ محترمہ تو فوراً اپنے نصف بہتر کی طرف متوجہ ہو جاتی جو کھانے کے دوران اپنی جگہ کئی دفعہ بدل چکا تھا اور اب کے محترم سے رہا نہ جاتا اور وہ بلا تکلّف ذہین کے چہرے پر ایک عدد مُکا مصرع طرح کی مانند عرض کر دیتا اور پھر جو باقاعدہ غزل شروع ہوتی تو زمین کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے تھے دونوں بلکہ اکثر بلا بحر ہی قافیے باندھتے تھے جن میں ردیف ہمیشہ مُنھ سے اول فول کا جھول ہوتا تھا۔

جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ آزاد شاعری کرنا شاعر کی ناکامی ہے، یا تو وہ کاہل ہے کہ اپنی پیچیدہ خیالی کو شعر میں نہیں باندھ رہا یا پھر وہ شاعر ہونے کے زعم میں ہے اور اپنے خیالات کو نثر میں باندھنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ آزاد شاعری سے بہتر بندہ نثر ہی لکھ لے، کم از کم مرجّز (مقفّہ نثر) تو بن ہی جائے گی۔

شاعری سے ایک اور بات یاد آئی۔ ۔ ۔ ایک دفعہ ذہینؔ سے ایک شاعرہ نے باتوں کے دوران کہہ دیا۔

’’مجھے شاعری سے پیار ہے۔ ‘‘

ذہینؔ نے بھی یہی جملہ دہرا دیا مگر شاعری کے ’’ی‘‘ کو ’’ہ‘‘ سے بدلنے کے بعد۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، کیونکہ اس کا شوہر پاس ہی کھڑا تھا۔ ۔ ۔ پس وہ وہاں سے بے نیل و مرام کے ساتھ ساتھ با نیل و مرہم بھی لوٹا۔

ایک خاتون پچھلی کھڑکی پر بور کر رہی تھیں کہ مرد اتنی ساری عبادات کر کے خواتین سے بازی لے جاتے ہیں اور اُن کا دل کڑھتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ کہنا بس یہ تھا کہ خواتین کو شوہر کی بات ماننے پر اجر ثبت ہے مگر میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ بیوی کا حکم ماننے سے شوہر کو اجر کیا خچر بھی نہیں ملنے کا۔ عورت کے بچے جو کچھ اچھا کریں گے اُس کا ثواب تو اسے ہی پہنچے گا اچھی تربیت کے عوض۔ ۔ ۔ بچوں کا خیال رکھنا کیا ہی بات ہے،   پرورش سے بچپن کی ایک بات یاد آ گئی۔ ۔ ۔ مجھے شاوَر کے نیچے نہانے کا بہت شوق تھا۔ جب کبھی ماما مجھے بغیر شاور کے غسل خانے میں بھیجتی تھیں تو میں کہتا تھا۔

’’ماما! میں نے پشاور میں نہانا تھا!‘‘

ماما آگے سے کہتیں ’’کچھ نہیں ہوتا، آج اسلام آباد میں ہی نہا لو!‘‘

اور اب اپنی حالت تو یہ ہے کہ جہاں میں چاہتا ہوں لوگ مجھے احمق سمجھیں وہاں وہ مجھے ذہین سمجھتے ہیں اور جہاں میں ذہین سمجھا جانا چاہتا ہوں وہاں احمق سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ تحاریر میں جہاں حماقت کرتا ہوں وہاں ذہانت کی سند تھما دیتے ہیں اور جہاں ذہانت آمیز بات نکل جائے وہاں ایسے دیکھتے ہیں جیسے حماقت کی ہو کوئی۔ اپنی تحاریر کے بارے میں میرا تو یہ خیال ہے کہ میری پکڑ دو وجوہات کے باعث ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ تحریر میں نقطوں اور نکتوں کا بے دریغ استعمال۔

ایک دن ذہین اور محترم گھر آئے۔ ۔ ۔ میں بیٹھا ہوا لکھ رہا تھا۔ ۔ ۔ لکھتا کیا تھا ’’خاکے‘‘ بنا بنا کر اڑاتا تھا۔ ۔ ۔ جہاز بنا کر۔ ۔ ۔ کیونکہ تحریر تو کہیں گلتی نہیں تھی۔ وہ دونوں مجھے پکڑ کر لے جانے لگے۔ ہرچند میں نے احتجاج کِیا اور معقول ترین جواز پیش کِیے مگر کون سنتا تھا۔ ۔ ۔ میں پکارتا رہ گیا۔

’’مجھے اپنی داستان تو مکمل کر لینے دو۔ ۔ ۔ مرکزی کردار کب سے سیڑھیوں تلے دبکا بیٹھا ہے، بیچارے کی کمر رہ گئی ہو گی بلکہ وہ تو نیم غنودہ ہو کر انٹا غفیل ہونے کے قریب ہو گا۔ اس کا انتظار کرتی وہ بیزار ہو ہو چار الفاظ بھیج، کسی اور سے گرہ لگا چکی ہو گی، دوسری طرف اس کا اونٹ جانے کب سے پر خلوص انداز میں جگالی کرنے میں مشغول ہو گا۔ ۔ ۔ بلکہ اس کا تو جبڑا بھی اب کسی قابل نہ رہ گیا ہو گا۔ ‘‘

مگر انھوں نے سننا تھا نہ سنا۔ ۔ ۔ میں پھر چائے کے بہانے چولہے تک آیا۔ واپس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کمرے میں الّو بول رہے ہیں۔ ۔ ۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں محاورتاً بول رہا ہوں، مگر وہاں حقیقتاً الّو ہی بول رہے تھے۔ دونوں کی چخ چخ سے دماغ پھٹنے کو تھا۔ ۔ ۔ بڑی مشکلوں سے دونوں کو علیحدہ کِیا۔ ۔ ۔ اس طرح کہ سانپ بھی کشتہ اور لاٹھی بھی شستہ۔ ۔ ۔ وہ پرانی پنجابی کہاوت ہے نا کہ :

’’ہتھاں دیاں بنیاں دندھاں نال کھولنیاں پیندیاں اے‘‘

یعنی کہ ہاتھوں سے باندھی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں اور اگر وہ ازاربند کی رہی ہوں تو اور عذاب۔ ۔ ۔ جنابِ غالب شاید ایسے ہی موقع پر فرما گئے:

درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں

جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا

رشتے سے مراد ادھر ناڑا ہی معلوم ہوتا ہے، انھیں غالباً پنجابی ٹوٹکا معلوم نہ رہا ہو گا وگرنہ ایسی بات نہ فرماتے۔ ۔ ۔ خیر۔ ۔ ۔ ان دونوں کو بڑی مشکل سے ٹالا یہ کہہ کر کہ ابھی نیند کی دیوی مجھے اپنے بستر پر ڈاؤنلوڈ کرنے پر مصر ہے۔ میں بھی پہلو بچانے کی کوشش میں نہیں ہوں، پس اس کا لمس مجھے وادیِ نوم میں دھکیلے جا رہا ہے اور اس کی زلفوں کی چھاؤں میں میری حماقت غروب ہونے لگی ہے۔ ۔ ۔ اس کی گداز بانہیں بھینچنے لگی ہیں اور مجھے لگتا ہے میرا زہر مار کردہ معجون رافعِ احمقِیّات اپنا اثر کھوتا جا رہا ہے اور اس نوبت سے پہلے مجھے رفو چکّر ہو جانا چاہیے۔ ۔ ۔ پس ٹاٹا۔ ۔ ۔ !

٭٭٭

 

 

 

ست رنگی نواب

 

                کے ایم خالد

 

وہ جولائی کی حبس زدہ صبح اسکول کی اسمبلی میں آج پھر قومی ترانہ پڑھتے ہوئے اپنی سوئی ’’پاک سرزمین کا نظام ‘‘پر پھنسا بیٹھا تھا ہیڈ ماسٹر سمیت پورا اسکول ترانے کے احترام میں الرٹ کھڑا تھا جھنڈے کو سیلوٹ کرنے والا اسکاؤٹ اسے بار بار ٹہوکا دے رہا تھا لیکن وہ آنکھیں بند کئے ’’پاک سر زمین کا نظام ‘‘ گائے جا رہا ہے تھاکافی دیر انتطار کے بعد ہیڈ ماسٹر نے پی ٹی ماسٹر کو اشارہ کیا جنہوں نے اسے جا کر جھنجھوڑا تب کہیں جا کر اس نے اگلا مصرعہ پکڑا ’’قوتِ اخوتِ عوام ‘‘طالب علموں سمیت سارے اساتذہ یہ دعا کر رہے تھے کہ وہ ترانہ سوئی پھنسائے بغیر پڑھ دے ورنہ پورا ترانہ پڑھے بغیر اس نے اسمبلی کا ڈائس نہیں چھوڑنا تھا۔

اسے بچپن سے ہی صحافی بننے کا بہت شوق تھا اس کی پریکٹس وہ اکثر اپنی ساتھی طالب علموں کو کہانیاں سنا کر کیا کرتا تھا اس کی یہ بے ربط کہانیاں انڈین فلموں کے سوپ ڈراموں کی طرح اتنی طویل ہوتی تھی کہ ایک کہانی اس نے پانچویں میں شروع کی تھی اور آٹھویں تک وہی چل رہی تھی یہ الگ بات تھی کہ اب اسے بھی پتہ نہیں تھا کہ کہانی کہاں سے شروع ہوئی تھی بس اسے کہانی کا عنوان ہی یاد تھا۔ آٹھویں میں اس کی ایک سبزیوں کی وین کو آنے والے حادثے کی رپورٹنگ کو ’’بزم ادب ‘‘میں بہت پسند کیا جا رہا تھا۔ ساتھی طالب علم ہنستے ہوئے اسے بار بار آلو کو لگنے والی رگڑوں، بینگن کو کی جانے والی سفید پٹیوں اور تربوز کا سر پھٹنے کی رپورٹنگ سن رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی پذیرائی، وہ ضرور صحافی بنے گا۔

ایک اخبار کی عارضی ملازمت میں اسے ایک حادثے کی رپورٹنگ کرنے کے لئے بھیجا گیا اس نے اپنی رپورٹ میں زخمیوں کی تعداد بیس اور ہلاکتوں کی تعداد پچیس بتائی، خبر اسی طرح چھپ گئی دوسرے دن کے اخبارات اس کی ہلاکتوں اور زخمیوں بتائی جانی والی تعداد کی نفی کر رہے تھے ایڈیٹر کے پوچھنے پر اس نے عجیب سی توضیح پیش کی اس نے کہا ’’جن کو ایدھی والوں نے اٹھایا ان کو گن کر میں نے میت کے خانے میں لکھ دیا اور جو۱۱۲۲کی ایمبولینس والے لے گئے، وہ میں نے زخمیوں میں شمار کئے ‘‘

اس جواب پر ایڈیٹر نے دروازے کی طرف اس کا منہ کر کے شاباش کے طور پر اس کی پیٹھ’’ ٹھونکی ‘‘تھی۔

اس نے صحافت کی اعلی ترین خدمات کے لئے بہت سی زبانیں بھی سیکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا اس کی خواہش تھی کہ وہ انٹرنیشنل صحافی بن جائے پرنٹ میڈیا میں کامیابی کے ’’جھنڈے گاڑنے ‘‘کے بعد اس کا اگلا ٹارگٹ الیکٹرونک میڈیا تھا۔ اس کی ’’ سی وی ‘‘ کے احترام میں چینل نے اسے آزمائشی نشریات میں ایک لائیو ایونٹ چاند رات کی کوریج دینے کا فیصلہ کیا تھا وہ مائیک ہاتھ میں پکڑے بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ اس نے ساری زبانیں ذہن میں اکھٹی کر لیں تھیں، یہی موقع تھا اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا وہ بڑے اعتماد کے ساتھ کیمرہ مین کو ساتھ لئے پھر رہا تھا۔ کیمرہ مین نے اسے لائیو کا اشارہ دیا تھا، بس رپورٹنگ شروع ہوئی اسے جتنی زبانیں یاد تھیں اس نے ان سب میں پہلے تو پاکستانی قوم کو چاند کی مبارک باد دی اس کے کان میں ڈی ایس این جی وین سے بار بار ’’ لائن ‘‘ پر آنے کا کہا جا رہا تھا اور اس نے اپنی انگلی سے کیمرہ مین کو اشارہ کیا کہ بس ایک زبان رہ گئی ہے۔ اتنے میں ڈی ایس این جی وین سے نکل غصے سے ایک شخص نے کہا ’’بس کریں جی ہمیں کنٹرول روم کٹ کر چکا ہے ‘‘۔

ایک چینل کا مالک اس کی’’سی وی ‘‘ غورسے دیکھ رہا تھا۔ مالک شائد امپریس ہو چکا تھا اس نے کہا ’’ میڈیا میں بہت سے منہ زور دریا بہہ رہے ہیں اس میں ایک ہمارا ایک کمزور سا انڈس بھی ہے، کبھی اس کے بہاؤ میں رکاوٹ نہ بنئے گا۔ ‘‘

اور اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہ جیسے بہت کچھ سمجھ گیا ہے اپنا سر ہلا دیا۔ اسے ایک اسٹیشن پر عید پر چلائی جانے والی ٹرین سے آنے والے مسافروں کی کوریج کرنی تھی چونکہ ٹرین بھی تیار کھڑی تھی اور کیمرہ بھی تیار تھا لیکن مسافر اس کے کام بڑی رکاوٹ بن رہے تھے۔ اس کے کوسنے، گالیاں ریکارڈ ہوتی رہیں وہ چینل پر تو نہ چل سکیں لیکن سوشل میڈیا اس ریکارڈ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

اسی ایک ریکارڈنگ کی بدولت جو ایک فلم کا حصہ بن چکی ہے،   اس کی پہچان بنی وہ خوش ہے کہ اس کا صحافتی کئیرئیر جو داؤ پر لگا ہو تھا، اس کا ’’داؤ ‘‘ لگا گیا ہے۔

رات اس نے تارے گنتے ہوئے ایک تارے پر ہاتھ رکھے اپنے بیٹے سے کہا ’’ اوئے اس تارے پر ہاتھ رکھ اور میری بات سن۔ ‘‘

بیٹے نے اس کے بتائے ہوئے تارے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’کیوں ابا۔ ۔ ! کتنے تارے اب تک گن چکے ہیں۔ ‘‘

’’ایک لاکھ پچپن ہزار پانچ سو بائیس، میری یہ رپورٹ جیو گرافک چینل پر تہلکہ مچا دے گی جیو گرافک والوں کو پتہ ہی نہیں میں ان کے لئے کام کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’ ابا اپنا تارہ پکڑیں، میرا بازو درد کرنے لگا ہے۔ ‘‘

’’ اوہ اچھا پوچھنا یہ تھا کیا خیال ہے اس سلیمان خان پر کیس نہ ٹھوک دیں جیسے امجد صابری نے ٹھوکا ہے اس نے بغیر اجازت میرا نام اور میرا کام استعمال کیا ہے کروڑ دو کروڑ تو دے ہی دے گا۔ ‘‘

’’ابا تمہیں پتہ ہے انڈیا کہاں ہے۔ ‘‘

’’ادھر پاکستان میں ہی کہیں ہو گا‘‘ اس نے دنیا کا جغرافیہ نظروں کے سامنے لاتے ہوئے کہا۔

’’ابا تیرا اسکوٹر پنکچر ہے اور صبح تو نے بی بی سی کو انٹرویو بھی دینا ہے تیری جیب میں صرف پچاس روپے ہیں اگر دو پنکچر نکل آئے تو، تو انڈیا میں کیس ٹھوکنے کی بات کر رہا ہے، یہ اپنا تارہ پکڑ ورنہ تیری جیو گرافک والی رپورٹ بھی خراب ہو جائے گی ‘‘ اس کے بیٹے نے تارہ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔

اس نے تارہ پکڑ فارسی زبان میں گنتی شروع کر دی ’’ ایک لاکھ پچپن ہزار پانچ سو تیئس۔ ‘‘

’’ابا، یہ فارسی میں کیوں گن رہا ہے؟‘‘

’’ یہ ستارے ایران والی سائیڈ کے ہیں اس لئے فارسی میں گن رہا ہوں ‘‘۔ اس نے اپنی انگلی اگلے ستارے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

دو بھگوڑے سر نیہوڑے

 

                گوہر رحمٰن گہر

 

’’ناں تو گرو( اشفاق احمد جو پیار سے مجھے گوہر کے بجائے گرو کہتا ہے) تم ذرا مجھے یہ تو بتاؤ کہ تم اور بھائی جمیل آخر کراچی بھاگے ہی کیوں تھے اور وہ بھی دوران امتحان۔ ۔ ۔ چہ خوب، گویا تم لوگوں نے اس بالی عمریا میں کراچی بھاگ کر بڑے اور مالدار آدمی بن کر آنا تھا، کیا بات ہے تمھارے قیانے کی۔ ۔ ۔ جیسے وہاں دولت درختوں پرہی تو اُگتی ہو جسے تم ایڑی اونچی کر کے جب چاہو آسانی سے توڑ لیتے اور وہاں پھر جی بھر کے موج میلے کرتے پھرتے‘‘ اشفاق نے میرے ساتھ والے فرنٹ سیٹ پر پہلو بدلتے ہوئے ہنستے ہوئے نتھنوں سے کہا، اور پھر وہی پرانی راگ الاپی مجھ کو چڑانے کے لئے۔

’’ہاہاہاہاہا۔ ۔ ۔ ہاں ہم وہاں پرستان کی سیر اور اپنے ساتھ پری بدری جمالہ لانے کے چکر میں تھے کیونکہ حسن یوسف ہم لوگوں پر تمام تھا اور کراچی کی سیٹھانیاں ہمارے فراق میں آٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہماری منتظر تھیں ‘‘ میں نے اشفاق کی رگ شیطنیت اور پھڑکائی۔

تو قارئین مندرجہ بالا مکالمے کا پس منظر جاننے کے کیلیے بیتاب ہو رہے ہوں گے تو آؤ آج تم لوگوں کو اپنے حماقتوں بھرے اس کارنامے سے ڈھکن ہٹا ہی دوں۔

پروفیسر جمیل احمد میرے بچپن کا لنگوٹیاں ہم جماعت اور ہم نسشت تھا جو کہ پروفیسرز کے گھر کا بڑا لاڈلا اور نازوں پلا فرزندِ ارجمند اور اشفاق احمد کا بھائی تھا۔ چھٹیوں میں میں اکثر راول پنڈی، اسلام آباد، لاہور مزدوری کرنے جاتا رہتا تھا اس لیے جب ہم جماعت دہم کے آخری امتحانی مرحلے میں تھے تو شائد جمیل کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے اور پروفیسر علی رحمان صاحب کے مطالعے پر دباؤ کی وجہ سے کافی دلبرداشتہ (دلبرداشتہ ایک ہی لفظ ہے، دلبر اور داشتہ کو الگ الگ پڑھنے کی ضرورت نہیں ) اور برگشتہ ہوئے اور ایک دن دوران تفریح مجھے کہا ’’ امی کے پلو سے ہزاروں روپے اُڑا لاؤ، کراچی بھاگ چلیں، وہاں مزدوری کریں گے اور گھر واپس نہیں آئیں گے !‘‘

میں نے لاکھ سمجھایا مگر وہ مصر رہا اور میری نادانی کہ میں اُس کی اس احمقانہ تجویز پرآمادہ ہو گیا۔ خیر، قصہ مختصر یہ کہ ہم نے نوشہر ہ سے کراچی کا ٹکٹ کٹایا اور عازمِ سفر ہوئے، اس بات سے بے خبر کہ ہمارے دونوں گھروں میں کیسا کہرام مچ سکتا ہے۔

ہم تین دن مسافت کے بعد جب تھکے ہارے کراچی سٹی سٹیشن پر اترے تو لاڈلے جمیل کے چودہ طبق روشن ہو گئے اور فلک بوس عمارات کو نظر بھر دیکھ کر ہی اماں بی یاد آ گئی۔ اِدھر میرا حال بھی کچھ کم خراب نہ تھا، ڈر اور خوف کے مارے شلوار گیلی پڑ رہی تھی۔

غالباً رات بارہ بجنے والے تھے اور کراچی یعنی روشنیوں کا شہر بقعہ ٔ نور بنا ہوا۔ ہم حیران و پریشان خوف ڈر اور سراسیمگی میں فیصلہ کرنے کی ہمت ہی نہیں کر پا رہے تھے کہ باقی کی رات کہاں گزاری جائے۔ جیب میں کچھ نہ کچھ پیسے تو تھے مگر پینڈو کیا جانے شہروں کی رِیت، لہذا رات سٹیشن کے احاطے کے ایک کونے میں ہم دو بھگوڑے سر نہوڑے بے یارو مددگار پڑے رہے، نہ کوئی ماویٰ نہ رہبر۔ ۔ ۔ تو صاحبو رات جیسے تیسے اونگھتے سوتے گزر ہی گئی۔ ناشتے کی طلب ہوئی تو ایک نمکیں چائے کا کپ اور کچھ سڑے ہوئے رس کیک وہ بھی اس زمانے کے ہوش ربا ریٹس پر سٹیشن کے اندر نصیب ہوئے مگر پاپی پیٹ کو تو عین نزع میں بھی بھرے جانے کا لالچ ہوتا ہے۔

جب دن چڑھا تو میری عقل بھی کچھ کچھ ٹھکانے آ گئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے، سینگ اُٹھا کر کہاں کا رخ کیا جائے۔ اچانک ہمیں ایک راہ سُوجھ ہی گئی، جمیل سے کہا ’’ چلو اکرام کے ہاں قصبہ کالونی چلتے ہیں ون ڈی بس میں۔ ‘‘

لیکن جمیل احمد کے ہوش ٹھکانے آ چکے تھے اور وہ واپس مردان آنے پر بضد تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اب زادِ راہ اتنا نہیں بچا تھا کہ واپسی ممکن ہو اس لیے کہ کشتیاں بمعہ بے بے کے پلو سے بندھے چرائے ہوئے پیسے زہر مار ناشتے اور ٹکٹوں کی نذر ہو چکے تھے۔ بس اِتنے پیسے بچے تھے کہ بنارس تک پہنچ پاتے۔ وہاں سے مجھے عبدالرحمان کے گھر کا پتہ معلوم تھا اس لیے سیدھے جا پہنچے۔

ارے واہ، وہاں تو ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ہمارے بھاگ جانے کی خبر پہنچ چکی تھی، جہاں میرے بچپن کے لنگوٹیے یار کے باپ نے جو میرے لیے بھی وہی درجہ رکھتے تھے، ہماری خوب خبر لی۔ کان سے پکڑ کر سیدھے لاری اڈے لائے اور مردان کے شہزاد کوچ میں روانہ کیا۔

جب بس مردان کے کیے روانہ ہو گئی تو جمیل اور مجھ میں تو جیسے زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ چوبیس گھنٹے جاں گسل مسافت کے بعد جب مردان اترے ہیں تو خوشی کا عالم یہ تھا کہ جیسے ہم دنیا کے جنت الفردوس میں پہنچ گئے اور جب اپنے پیارے گاؤں لوٹ رہے تھے تو اتنے ڈر ے ہوئے تھے کہ کچھ مت پوچھو کیونکہ فدوی کے بابا مرحوم و مغفور بڑے سخت گیر قسم کے باپ تھے اور یہی کیفیت جمیل احمد کی بھی تھی کیونکہ پروفیسر صاحب ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتے تھے مگر جب پیاروں نے ہم سفرگزیدہ اور بھوک کے ماروں کو زندہ و حیات دیکھا تو آنسوؤں کے طوفان امڈ آئے اور ہمیں کم از کم اس وقت کچھ بھی نہ کہا گیا۔ میرے بابا نے تو مجھے اس طرح گلے سے چمٹ لیا جیسے برسوں کا گمشدہ دوبارہ مل گیا ہو۔ تب مجھے اپنے بابا اور بے بے کی اور خصوصاً منجھلی بہن کی محبت کا پتہ چلا۔ ہائے ہم لوگ بھی کیسے کیسے خزانے چھوڑ کر خاک چاٹنے نکل کھڑے ہوئے تھے۔

اپنی کتھا بیان کرنے کا میرا مقصد صرف یہ تھا کہ اپنے پیشرو کو یہ بتا سکوں کہ گھر سے بلا وجہ اور خاص کر کم عمری میں بھاگ جانا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ ہم تو بہت خوش قسمت تھے کہ اِتنی جلدی واپس لوٹے، کسی بردہ فروش اور بیگاری کیمپ کے ہتھے نہ چڑھے۔ آپ لوگ ایسا بالکل نہ کریں لیکن رکیے، کہانی کا اصل مزہ تو اب شروع ہونے والا ہے۔

اللہ تکبر سے بچائے میں دوران طالب علمی خاصا فطین بچہ تھا جبکہ جمیل.احمد ذہین تو بہت تھے مگر والد گرامی کے شدید مطالعے پر زور نے اسے پڑھائی سے بدکا سا دیا تھا۔ چونکہ پروفیسر صاحب سرکاری ملازمت کے شعبہ تدریس سے منسلک اُردو کے پروفیسر تھے اس لیے اُنہیں اپنے بچوں تعلیم کی بڑی فکر رہتی تھی اور اُن کی ان کاوشوں کا صلہ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں دیا کہ اُن کے تین بیٹے پروفیسر ایک یعنی اشفاق احمد جو کہ اب بھی میرا دوست بلکہ چھوٹے بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہے، میرے ہم پیشہ آرٹ کے استاد ہے جبکہ تین بھائی ابھی ایم ایس سی، بی ایڈ اور جانے کیا کیا ڈگریاں لیے فارغ ہیں لیکن اس شان سے کہ اُن کے اعلیٰ تعلیمی پس منظر کی وجہ سے کوئی بہت ہی خاص ملازمت اُن کی تلاش میں ہے۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ۔ ۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ ہم دونوں کو اپنے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد کچھ پروفیسر صاحب اور میرے قابل احترام استاد مرحوم و مغفور جناب تاج محمد صاحب کی کوششوں کی بدولت جماعت دہم کے بورڈ امتحان میں بٹھایا گیا۔ اگر چہ ہم اپنی حماقت سے یہ بازی ہارنے ہی والے تھے مگر بالآخر بعد از خرابیِ بسیار، ہم دونوں بچہ لوگ میٹرک اچھے نمبروں یعنی اے ون گریڈ میں پاس کر نے میں کامیاب ہو گئے اور تقریباً انیس سو بانوے سے جو تعلق ٹوٹا تو دو ہزار آٹھ میں اشفاق احمد کی شکل میں پروفیسر فیملی سے میرے تعلقات دوبارہ استوار ہوئے، کچھ پرانے اور زیادہ نئی تعلق کی بنیاد پر۔ جب میں نے. ڈیوٹی پر جانے کے لیے اپنی پہلی کار خریدی اور میرے ساتھ کچھ اور میرے ہم پیشہ اور قریبی دوست ڈیوٹیوں پر جانے لگے تو علی زمان اور شاہ نواز نے جو کہ میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے، اشفاق سے میرا تعارف کروایا اور وہ بھی ہمارے ساتھ اکٹھے میری گاڑی میں جانے لگے۔

وہ پہلے والا مکالمہ اس کہانی کا یہاں پر ختم ہوتا ہے مگر اب بھی جب میں جمیل اور اشفاق کے ہاں جاتا ہوں اس اُن کے سب بھائی ہم دونوں کے اس کارنامے کا تذکرہ چھیڑ دیتے ہیں اور ہم اُن کے قہقہوں کا تختہ مشق بن جاتے ہیں حتیٰ کہ جب سارے بھائی کسی عید بقر عید پر اکھٹے ہو جاتے ہیں تو ہماری اس کتھا کا راگ ضرور چھیڑ دیا جاتا ہے اور یوں کہ سارا گھر کشت زعفران بن جاتا ہے۔

صبح اکھٹے سکول جاتے ہوئے اشفاق خوب حظ اٹھا کر ہمارے کارنامہ ہائے عالی کی ساری روداد بیان کر دیتا ہے اور میں بھگوڑا سر نہوڑا خاموشی سے کان لپیٹے ڈرائیو کر رہا ہوتا ہوں جبکہ جمیل بچارا تو ہر مرتبہ توپوں کے سامنے ہوتے ہوئے تختۂ مشق بن جاتا ہے بلکہ اُس کی نصف بہتر بھی اسے چڑانے کے لئے اس واقعے کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں اور آپ سے کیا پردہ، کچھ اِسی قسم کا حال آپ کے اس بھائی کا بھی ہے کیونکہ میری بے غم (بیگم) بھی جب شادی غمی میں جمیل کے ہاں جاتی ہیں تو ہمارا خوب کباڑا کیا جاتا ہے اور گھر آ کر میرے کان کچکچا دیتی ہیں۔

اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ ہم دو بھگوڑے رانوں میں سرنہوڑے نہ بیٹھیں تو کیا کریں۔

٭٭٭

 

 

 

انگریزی اور ہم دیسی

 

                خادم حسین مجاہدؔ

 

بیوی کی طرح ہے جس کے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں اور جس کے ساتھ نبھانا بھی مشکل ہے بات صرف زبان کی ہوتی تو خیر تھی لیکن اگر اسے اختیار کریں تو اس کے ساتھ اس کا کلچر بھی آ جاتا ہے جیسے شادی میں سسرالیر شتہ داریاں تحفے میں ملتی ہیں۔ اسی وجہ سے اول اول انگریزی کو حرام قرار دیا گیا مگر آ ہستہ آہستہ یہ خود ہی حلال ہوتی چلی گئی تو مجبوراً علماء نے بھی اسے یوں گوارا کر لیا جیسے حالتِ اضطرار میں شراب، سود اور حرام کی اجازت ہو جاتی ہے۔ لیکن اب یہ مجبوری سے بڑھ کر فیشن میں داخل ہو گئی ہے حتیٰ کہ اگر کسی کو انگلش بولنا نہ بھی آتی ہو تو وہ اسے بولنا ضروری سمجھتا ہے جس سے بعض اوقات بڑی دلچسپ صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔

ہمارے ایک دوست کی انگریزی کچھ کمزور ہے لیکن وہ انگلش کلچر کے اتنے دلدادہ ہیں کہ شادی کے آٹھ دس سال گزر جانے کے بعد بھی شادی کی سالگرہ منانے سے باز نہیں آتے، حالانکہ آخری درویش کے بقول دو چار سال بعد تو شادی کی سالگرہ نہیں بلکہ برسی منانی چاہئے۔ یہ اپنے مقامی احباب کو اپنے خوشی نما غم یا غم نما خوشی میں شریک کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی و غیر ملکی احباب کو بھی بذریعہ ایس ایم ایس اطلاع دے کر دعائیں ضرور وصول کرتے ہیں تا کہ جو حماقت کر بیٹھے ہیں اس پر خوشی خوشی قائم رہیں۔ اس سلسلے میں مجھے ایک دفعہ ان کا انگریزی اردو مکس میسج ملا تو میں نے سر پیٹ لیا۔ لکھا تھا’’ کل میری میرج marriage کی برتھ ڈے birthday ہے آپ کی دعاؤں کا ویٹweight کروں گا۔ ‘‘

شادی کی سالگرہ کا ترجمہ جو انہوں نے اینی ورسری کی بجائے برتھ ڈے (یومِ پیدائش ) سے کیا ا س کی صحیح دادتو کوئی انگریز ہی دے سکتا ہے۔ ہم تو حیران تھے کہ شادی کی پیدائش کا دن بھی ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک دن شام کی سیر کے دوران ایک شاعر دوست کے صاحبزادے سے ملاقات ہو گئی جو میٹرک کا امتحان دے کر تازہ تازہ فارغ ہوئے تھے اور ہر وقت درست یا غلط انگریزی کے استعمال کرنے کی تاک میں رہتے تھے تا کہ لوگ انہیں پڑھا لکھا سمجھیں۔ جب میں نے پوچھا ’’کیا ہو رہا ہے برخوردار؟؟؟‘‘ تو جھٹ سے بولے

’’ Nothing just enjoy yourself‘‘

اس میں مائی سیلفmyself کی جگہ یور سیلف yourselfاستعمال کرنے کی جو حماقت اس نے کی اس کا صحیح لطف تو انگریزی جاننے والے ہی اٹھا سکتے ہیں۔ باقی احباب کے لئے اس مقولے کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے’’ کچھ نہیں بس آپ کو لطف اندوز کر رہا ہوں۔ ‘‘ اُمید ہے آپ اس فقرے کی بلاغت تک پہنچ گئے ہوں گے۔

ایس ایم ایس اور ای میل کی بدولت انگریزی کی ایک اختصار شدہ شکل وجود میں آ گئی ہے جس میں you کو u,،   Your کو ur،   for کو 4،   eye کو i،   why کو y، we کو v اور کیونکہ کو qkلکھا جاتا ہے۔

ہمارے ایک دوست اسی وجہ سے انگلش کے پرچے میں فیل ہو گئے کیونکہ وہ ایس ایم ایس بہت کرتے تھے اور پیپرمیں بھی ایس ایم ایس والی انگلش ہی لکھ آئے اسی تناظر میں ہم ایک دوست عارف انیس کو 19 آر ایف لکھا کرتے تھے اور وہ بڑا خوش ہوتا تھا۔ انگلش میں تلفظ کا معاملہ بڑا گھمبیر ہے کیونکہ یہ بھی اردو کی طرح بے شمار زبانوں کا ملغوبہ ہے اس لئے اس میں تلفظ کے کوئی لگے بندھے قواعد نہیں مثلاً put میں u پیش کی آواز دے گا اور butمیں زبر کی۔ اس کے علاوہ اس میں بھی اردو کی طرح ایک آواز کے لئے ایک سے زائد الفاظ رائج ہیں مثلاً فے کے لیےf اورph، ش کے لئے sh,۔

ہمارے ایک دوست سکولschool کو سیچول اورfaculty کو فیسلٹی پڑھتے ہیں۔ اب امریکن انگلش میں کچھ آسانی کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں photoکو fotoاور school کو skool بھی لکھا جا رہا ہے لیکن یہ کوششیں اسی طرح کامیاب نہیں ہو رہیں جیسے ماضی میں اُردو کی ایک آواز کے لئے ایک سے زائد حروف ختم کر کے ایک ہی حرف مخصوص کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور ہم آج تک ’’س‘‘ کی آواز کے لئے ص، س ث اور ض کی آواز کے لئے خ، ض، ط کے حروف استعمال کرتے اور الجھنے پر مجبور ہیں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو کچھ حروفِ تہجی کم ہونے سے طلبہ کی الجھن تو کم ہوتی۔ ان کے لئے ساکن الفاظ بھی ایک مسئلہ ہیں۔

پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکولوں کے ٹیچرز اور ان کے اسٹوڈنٹس کے والدین انگلش میڈیم کے خبط کے باعث آسان ترین اردو کے الفاظ چھوڑ کر مشکل ترین انگریزی الفاظ استعمال کرنے پر مُصر ہیں۔ ، حالانکہ ان کو والدین آسانی سے ادا کر سکتے ہیں نہ بچے۔ مثلاً وہ شاپنر کا لفظ ہی استعمال کریں گے حالانکہ پنسل تراش، کہیں تو بھی وہ اسی صفائی سے پنسل تراشتا ہے۔ اسی طرح ریزر کا لفظ ہے جو بچہ ادا ہی نہیں کر سکتا اور دکاندار سے جب وہ مانگتا ہے تو وہ کبھی اسے ریزر پکڑا دیتا ہے اور کبھی کچھ۔ ۔ ۔ حالانکہ ربڑ کہنے سے اس کی مٹانے کی صلاحیت میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح پرائمری کے سلیبس میں خصوصاً سائنس میں گورنمنٹ اسکولوں میں بھی اصطلاحات تمام انگلش میں کر دی گئی ہیں جبکہ ان کو بچہ کیسے ادا کرے گا جب استاد بھی ادا نہیں کر سکتا، مثلاً ایکسکریٹری سسٹم جسے نظامِِ اخراج کے بجائے لکھا گیا ہے۔ یہ سلیبس کامیاب کرنے کے لئے تو پہلے اساتذہ کو پڑھانا پڑے گا پھر وہ بچوں کو پڑھانے کے قابل ہوں گے بشرطیکہ بڈھے طوطے پڑھ گئے تو۔

انگریزی بنیادی طور پر انگریزوں کی ہی طرح بدتمیز اور بے حیا زبان ہے۔ اس میں آپ اور تم دونوں کے لئے ہی you کا لفظ ہے۔ غیرت کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں۔ گالیاں اور فحش الفاظ کی کثرت ہے۔ اردو میں تو ادب و احترام کے لئے بڑی آسانی سے الفاظ میں تمیز کر لی جائے گی لیکن انگلش میں کسی کو عزت دینے کے لئے بڑا تکلف کر کے "his highness” اور her highness” "کے الفاظ استعمال کئے جائیں اور وہ بھی شاذو نادر کسی شخصیت کے لئے۔ بچوں اور بزرگوں کے لئے ایک جیسے الفاظ استعمال ہوں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انگلش عربی کی طرح جامع زبان بھی ہے۔ لفظ کزن کی ہی مثال لے لیں۔ اس ایک لفظ میں اردو کے آٹھ دس طویل و عریض قسم کے رشتے آ جائیں گے، بلکہ اگر کوئی رشتہ نہ بھی ہو تو بھی یہی لفظ کام کرتے ہیں۔ پھر انگلش چونکہ کھلی ڈھلی زبان ہے اس لئے جو بات آپ اپنی زبان میں کریں تو ڈنڈے سوٹے چل جائیں، وہی انگلش میں کریں تو کوئی برا نہ مانے بلکہ آپ مہذب گنے جائیں گے اور مطلوبہ مقاصد حاصل ہو جائیں گے۔ اظہارِ محبت کا معاملہ ہو یا ڈاکٹر کو علاماتِ مرض بتانے کا، انگریزی ہر جگہ آپ کی مدد کرے گی۔ لفظ ریپ کو ہی لیں، آپ اسے خواتین و حضرات کی محفل میں بے دھڑک استعمال کریں کوئی آپ کو ٹوکے گا نہیں لیکن اگر آپ نے کہیں غلطی سے بھی اس کا ترجمہ کر دیا تو کئی حضرات کی آنکھیں اور خواتین کے کان سرخ ہو جائیں گے۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ فلاں کی لڑکی نے گھر سے بھاگ کر آشنا سے شادی کر لی تو سب تھو تھو کریں گے، لیکن اگر کہا جائے کہ ان کی لڑکی نے کورٹ میرج کر لی تو ان کی ذرا بھی بے عزتی نہ ہو گی بلکہ لوگ لڑکی کی سمجھداری کی اور معاملہ فہمی کی داد دیں گے گویا انگلش بھی پردے کی طرح ہے جو ہم اپنی زبان پر چڑھا کر من مانی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی کو پتا نہیں چلے گا ان فن کار لڑکیوں کی طرح جو پردہ کرتی ہیں تو بے پردگی کے لئے اور وہ بھی صرف اپنوں کے سامنے۔

آج کل انگلش ماڈرن ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے اس لئے کئی ہوشیار لو گ اپنے دقیانوسی ناموں پر انگلش کا خول چڑھا کر ماڈرن ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ عموماً اپنے دقیانوسی نام کے انگریزی مخفف کے ساتھ کوئی ماڈرن سا نام یا تخلص لگا کر ماڈرن ہو جاتے ہیں، لیکن جب انگلش کا پردہ اٹھایا جائے تو نیچے سے ان کے دقیانوسی نام ننگے ہو جاتے ہیں جیسے ایم ڈی اختر مولا داد اختر نکلیں گے اور ایم ڈی چوہان موج دین چوہان اور اے ڈی سومرو اللہ وسایا سومرو وغیرہ۔

ہمارے ملک میں سرکاری اسکولوں میں نرسری سے مکمل انگلش میڈیم کا آغاز ہو گیا ہے۔ انگلش کی تدریس تو عرصے سے جاری ہے، اب تو شاید آئندہ اردو بھی انگلش میں پڑھائی جانے لگے، یوں ممکن ہے اردو واقعی قومی زبان کا درجہ حاصل کر لے جو کہ اب تک نہیں حاصل کر سکی اور اس بات پہ اب ہنسی تو کیا رونا بھی نہیں آتا کہ ہماری قومی زبان تو اردو ہے مگر کاروبارِ مملکت 63 سال سے انگلش میں چل رہا ہے اور وہ بھی اس ملک میں جہاں درست اردو بولنے والے بھی خال خال پائے جاتے ہیں ایک لحاظ سے یہ اچھا بھی ہے کہ حکومت نے اس قومی منافقت کوختم کرنے کا سوچا ہے ہم حکومت کو اس پر داد دیتے ہیں اور عوام کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اب انہیں انگریزی کے ساتھ بھی اسی طرح گزارا کرنا پڑے گا جیسے شوہر بیویوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

گورنمنٹ نے جن سرکاری اسکولوں کو انگلش میڈیم کیا ہے وہاں وردی بھی انگلش کر دی ہے ابھی یہ حکم صرف طلبہ تک محدود ہے لیکن کوئی بعید نہیں کہ کل کلاں کو اسے اساتذہ تک وسیع کر دیا جائے، پھر انگلش، سائنس، ریاضی اور کمپیوٹر والے اساتذہ کیلئے پینٹ شرٹ کوٹ ٹائی لازمی ہو گی جس سے صحت مند اساتذہ آزمائش میں بھی پڑ سکتے ہیں عربی و اسلامیات والے اساتذہ کو جبہ و دستار میں آنا ہو گا اردو اور مطالعہ پاکستان والے اساتذہ شلوار قمیض شیروانی اور جناح کیپ استعمال کریں گے، جبکہ زراعت اور پنجابی والے دھوتی کرتے میں دکھائی دیں گے۔ سوچنے والی بات یہ ہے اگر انگریزی و سائنس قومی لباس میں نہیں پڑھی جا سکتیں تو انگریزی لباس میں اردو اسلامیات، عربی، پنجابی مطالعہ پاکستان اور زراعت کیسے پڑھی جا سکتی ہے پرائیوٹ اسکولوں کی اندھا دھند تقلید میں موسم اور ماحول کا خیال کئے بغیر انگریزی وردی میں طلبہ کو خصوصاً گرمیوں جو حشر ہو گا اس سے معیارِ تعلیم میں جو بہتری آئے گی اس کا علم تو بعد میں ہو گا،   سرِدست تو پاکستانیت ہمارے سکولوں سے رخصت ہو گئی ہے اور مصنوعی انگریز بننے کی کوشش میں ہم اُردوسے بھی جائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اول و آخر دیسی ہیں اور جتنی بھی کوشش کی جائے ہم انگریز نہیں بن سکتے، اور دنیا میں ترقی انہی قوموں نے کی ہے جنہوں نے تعلیم اپنی مادری و قومی زبان میں حاصل کر کے انگلش کو ثانوی حیثیت میں رکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

کمپوزر کی غلطی

 

                شوکت علی مظفر

 

اخباری دنیا میں کمپوزر وہ مظلوم شخصیت ہے جس کے ہاتھوں کی رفتار سے اخبار چلتا ہے، مگر قدر چپراسی جتنی بھی نہیں ہوتی۔ پرانے زمانے میں کاتب کے مرہونِ منت اخبارات پر الفاظ جگمگاتے تھے اور اُن کی عزت بھی ایڈیٹر سے کم نہ ہوتی تھی بلکہ آج جو اخبار سب سے بڑا کہلاتا ہے، اس کے بانی بھی کتابت کے ماہر تھے اور ایڈیٹری کے علاوہ اخبار کی ترسیل بھی خود کیا کرتے تھے۔

ہر اخبار میں کمپوزرز(برقیاتی کاتب) کے علاوہ سب ایڈیٹر اور پروف ریڈر بھی ہوتے ہیں جن کا کام ہی غلطیاں درست کرنا ہوتا ہے اور تنخواہ بھی اُردو کمپوزر سے زیادہ ہوتی ہے لیکن مزیدار بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسی غلطی ہو جائے جس سے قانونی یا لسانی گرفت کا خدشہ پیدا ہو جائے، فرقہ واریت اور سرکولیشن پر چوٹ لگنے کا ڈر پیدا ہو جائے تو تمام ملبہ ’’ کمپوزر کی غلطی‘‘ کا اشتہار لگا کر نمٹا دیا جاتا ہے اور بے چارہ کمپوزر اس پر احتجاج کا حق بھی نہیں رکھتا کیونکہ کسی بھی اخبار کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کے باوجود انہیں ادارہ اپنا سمجھتا ہے اور نہ ہی صحافت سے ان کا تعلق ہوتا ہے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ یہ کمپوزرز فارمی مرغیوں کی مانند ہوتے ہیں جن پر چھری آسانی سے پھیری جا سکتی ہے۔

نوٹ:۔ تمام کمپوزرز سے آخری جملے کیلئے انتہائی معذرت کہ ’’کمپوزنگ کی غلطی‘‘ سے ایسا لکھا گیا۔

کمپوزنگ کا کرتب

کالج کے پیپر ہو چکے تھے، فراغت کے دن تھے۔ پاکستان چوک ایک دوست مصطفی غازی کے آفس جانا ہو ا جن کے والد مجاہد صاحب نوائے وقت کراچی کے سینئر ایڈیٹران میں سے ہیں۔ غازی نے اچانک پوچھا’’ کمپوزنگ کی جاب کرو گے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’یہ کیا بلا ہوتی ہے؟‘‘

غازی نے کمپیوٹر پر اِن پیج کا سوفٹ ویئر کھول کر بتایا، یہ بلا ہوتی ہے۔ دو گھنٹے کی کلاس لی اور اگلے دن ایک ہفتہ وار اخبار میں جاب پر تھا اور اس سے اگلے دو ہفتوں میں اُردو کمپوزنگ پر ہاتھ بیٹھ گیا۔ کیسے نہ بیٹھتا، جماعت نہم میں ٹائپنگ کا کورس شروع کیا تھا جو ادھورا رہ گیا لیکن ٹائپ رائٹر سے کمپیوٹر کی بورڈ کے سفر تک آسانی ہو گئی۔

بہر حال دو تین ہفتہ وار اخبارات اور مختلف ماہناموں سے ہوتا ہو ا، ایک روزنامہ تک پہنچ ہی گیا۔

ایک دن اخبار میں کوئی غیر ملکی وفد دورے پر آیا تو ایک دفتری نمائندے نے میرا تعارف کرواتے ہوئے بتایا’’یہ ہمارا سب سے کم عمر کارکن ہے، لیکن اسپیڈ سب سے زیادہ ہے۔ ‘‘پھر نمائندے نے میری طرف رُخ کیا’’چلو شوکت، اب ہمارے معزز مہمانوں کو کمپوزنگ کا کرتب کر کے دکھاؤ۔ ‘‘

وقت بدل گیا، لیکن کمپوزنگ کا کرتب نہ بدلا

اخبار سے نیوز چینل پر آ گیا۔ دس برسوں میں کمپوزنگ سے رائٹنگ کا سفر بڑی محنت سے طے کیا، مگر کمپوزنگ نے میری رائٹنگ میں آسانیاں پیدا کیں اور نیوز چینل میں جاب کیلئے بھی ایک اضافی ہنر ثابت ہوئی۔

ایک دن آ سکر ایوارڈ یافتہ خاتون ڈائریکٹر کے پروگرام کی ریکارڈنگ کیلئے کچھ اسکرپٹ ٹائپ کرنا تھا۔ اسٹوڈیو کافی دور تھا لہٰذا محترمہ کی برگر بچوں پر مشتمل ٹیم آفس میں موجود تھی اور اسکرپٹ کمپوزنگ کے ساتھ مغز ماری جاری تھی۔ میں چھٹی کر کے دوسرے چینل جا چکا تھا، وہاں پہنچ کر یاد آیا کہ کچھ ضروری چیزیں پہلے چینل میں رہ گئی ہیں لہٰذا رات گئے آنا پڑا۔ برگر لڑکے لڑکیوں کی ٹیم مشن پر جتی ہوئی تھی۔ میں نے سامان اُٹھایا اور جانے ہی لگا تھا کہ منیجر وسیم صاحب کی آمد ہوئی اور انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا، شکر ہے کہ آ گئے، یہ کچھ اسکرپٹ تو ٹائپ کر دو۔

’’سوری۔ ۔ ۔ میں کمپوزر نہیں، رائٹر ہوں۔ ۔ آپ کوئی کمپوزر ارینج کر لیں۔ ‘‘

میں نے بے رخی سے کہا اور جانے لگا تو منیجر نے دوستانہ انداز میں کہا ’’معلوم ہے مجھے کہ رائٹر ہو، لیکن کام انتہائی ایمر جنسی کا ہے، اور یہ ٹیم پہلے ہی چار چھ گھنٹے ضائع کر چکی ہے۔ ‘‘

میں نے ایک نظرسب کو دیکھا اور سب برگرز نے مجھے حقارت سے۔ لیکن اگلے آدھے گھنٹے میں جب میں اسکرپٹ کمپوزنگ فائنل کر کے اٹھا تو سب سر سر کر رہے تھے اور مجھے اخباری نمائندے کی کرتب والی بات یاد آ رہی تھی کہ آج پھر کمپوزنگ کا کرتب دکھا کر ہی داد سمیٹنی پڑی۔ بعد میں بہت سے برگر ز کا اِن پیج اُستاد بننا پڑا۔ اور فخر ہے کہ اُردو نے رسوا نہ کیا مجھے۔

کمپوزر سے بڑا اُردو کا کوئی محسن نہیں !

جہاں اُردو کمپوزرز کے ہاتھوں کی تیزی ضروری ہے، وہیں دماغی پھرتی بھی لازمی درکار ہوتی ہے۔ ایسی ایسی نادر تحریروں سے پالا پڑتا ہے کہ اچھا بھلا اُردو دان سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ کالم نگار، ادیب اور مصنف نے کیا لکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن جس طرح ڈاکٹر کے نسخے کو کمپاؤنڈر آسانی سے پڑھ لیتا ہے اسی طرح ایک منجھا ہوا کمپوزر سرسری نظر ڈال کر بتا دیتا ہے کہ یہ جو کیڑا سا کاغذ پر رینگتا دکھائی دے رہا ہے، اسے ’’سیاسی رنگینیاں ‘‘ کہتے ہیں اور یہ جو ’’بخار بھری نظروں سے دیکھنا‘‘ لگ رہا ہے، ادیب نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھنا لکھا ہے۔ کمپوزر کی حاضری دماغی نہ ہوتو اچھا خاصا نامزد اُمیدوار’’ نامرد اُمیدوار‘‘ بن سکتا۔ انتخابی نشان ’’شیر‘‘ سے ’’تیر‘‘ ہو سکتا ہے۔ محرم سے مجرم بنانا بھی کمپوزر کے بائیں ہاتھ کا کھیل اور دغا دینے والے کو دعا دینے والی ہستی میں تبدیل کرنا دائیں ہاتھ کی کاریگری۔ غرض یہ کہ کمپوزر سے بڑا اُردو کا کوئی اور محسن نہیں ہو سکتا۔

مجھے فخر ہے کہ بڑے بڑے ناول نگاروں، ڈرامہ نویسوں، ادیبوں، کالم نگاروں کی ہینڈ رائٹنگ دیکھنے کا موقع مل چکا ہے۔ بعض تو اتنا اچھا لکھتے ہیں جیسے وہ ناول کی بجائے محبوبہ کو خط لکھ رہے ہوں، اتنی نفاست اور محبت کہ بس بندہ تحریر کی بجائے لکھائی میں کھویا رہے۔ اور کچھ ایسے لکھتے ہیں جیسے کمپوزر سے ازلی دشمنی نکال رہے ہو، ایسی تحریر کہ لفظوں کو سمجھنے، سمجھ کر لکھنے میں دماغ کی سار ی بتیاں جلانی پڑتی ہیں، تب کہیں جا کر ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا۔

نئے کمپوزر بھرتی کرنے کیلئے میں عموماً انہیں کالم نگار و عالمی حالات پر تبصرہ نگار پروفیسر شمیم اختر کی ہینڈ رائٹر تھمایا کرتا تھا، جو اِس میں پاس ہو گیا سمجھو وہ اچھا کمپوزر ہے۔ تھوڑی سی دِقت ناول نگار اشتیاق احمد کی رائٹنگ سمجھنے میں ہوتی تھی لیکن ایک بار سمجھ آ گئی تو سمجھو پھر حلوہ تھا لیکن ایک اور نامور ناول نگار نے مجھے ز چ کر دیا تھا، میں نے ہار مان لی تھی۔ دو پیرا گراف پورے دن میں کمپوز کیے اور کس طرح کیے کہ اُردو لغت سے لفظ کھنگالتا اور کاغذ پر لکھے لفظ سے ملانے کی کوشش کرتا اور جو سمجھ آتا وہ ٹائپ کرتا لیکن شام ڈھلے ہمت ٹوٹ گئی اور پھر ہاتھ اٹھا لیے کہ خدا جانے یا طارق اسماعیل ساگر جانے کہ کیا لکھا ہے؟؟ البتہ سندھی ادب کے نامور مصنف، بچوں کی کہانیوں کے لکھاری اور پی ٹی وی پروڈیوسر غلام مصطفی سولنگی تو اس طرح لکھتے ہیں کہ اُردو ڈائجسٹ کے مدیر کے بقول ’’لفظ کسی چمٹی سے اٹھا کر بڑے اہتمام سے سجا سجا کر کاغذ پر رکھے گئے ہوں۔ ‘‘

بے چین کمپوزر

جس روزنامہ اخبار میں مجھے باقاعدہ کمپوزر اور پیج میکر کی نوکری ملی تھی وہاں مجھ سے زیادہ تیز رفتار کمپوزر کا نام مجھے یاد نہیں لیکن وہ خود اچھی طرح یاد ہے۔ الجھے بال، بکھری ہوئی داڑھی، پیلی پیلی آنکھیں اور انتہائی گہری مسکراہٹ۔ سگریٹ اتنی پیتا کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ اسی کام کیلئے پیدا ہوا ہے، لیکن جو کام میں 10منٹ میں کرتا، وہ ایک منٹ میں کر گزرتا۔ بہت کوشش کی رفتار میں اسے پیچھے چھوڑ دوں لیکن وہ کمپوزر ز میں جناتی صلاحیت کا مالک تھا اور اِدارے نے شاید اسی وجہ سے اسے نوکری پر برداشت کیا ہوا تھا کیونکہ واحد وہی تھا جو کھلے عام سگریٹ نوشی کرتا۔ میں نے چین اسموکر سے لے کر بے چین اسموکر تک دیکھ رکھے ہیں لیکن یہ واحد بے چین کمپوزر تھا جو اپنی سیٹ پر پورے دن میں ایک گھنٹہ نظر آتا اور دھواں دھار طریقے کام نمٹا کر باقی سات گھنٹے راہداری میں چہل قدمی کر کے سگریٹ پی کر دھوئیں کے مرغولے اُڑاتا۔ خدا جانے، اب کہاں ہو گا؟؟

معصوم کمپوزر، چالاک رائٹر

میں کام میں مگن تھا کہ اچانک ڈپارٹ سے آواز سنائی دی ’’بھائی، ان پیج سکھاد و گے؟ مجھے کمپوزر بننا ہے۔ ‘‘

میں نے پلٹ کر دیکھا، انتہائی معصوم سا لڑکا نظر آیا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی انکار کی گنجائش نہ نکلی، حامی بھر لی۔

اخبار کے دفتر میں یہ کس کے توسط سے پہنچا معلوم نہیں، لیکن اسے مفت خدمات کا شوق تھا۔ چند دن بعد کمپوزنگ سیکھا تو کچھ عرصے بعد گرافکس ڈیزائنر بھی بن گیا۔ میں ادارتی صفحے تک محدود رہا لیکن اس نے رنگین صفحے پر ترقی کر کے مجھ سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنا شروع کر دی۔

کمپوزنگ جاب کے دوران ہی میں لکھنے کا سلسلہ شروع کر چکا تھا۔ کہانی لکھتے وقت عموماً میں اِرد گرد کے لوگوں کے نام رکھ لیتا ہوں لہٰذا یک کہانی میں اس کا نام منفی کردار کے طور پر استعمال کر لیا۔ شاید یہ بات اس نے دل پر لے لی اور کمپوزنگ استاد سمجھ کر تو زبانی کچھ کہنے کی ہمت نہ کر سکا البتہ غصہ میں ایک کہانی اس نے بھی لکھ ماری اور منفی کردار میں میرا نام استعمال کر لیا۔

یوں ایک معصوم سا کمپوزر، چالاک رائٹر کے روپ میں اُبھرا۔ ۔ آج جمال عبداللہ عثمان، جو ہم پہ گزری، غیرت نہ بیچیں، لہو رنگ داستان اور اپنا گھر بچائیے جیسی مقبول عام کتابوں کا مصنف ہے جبکہ ایک اُردو ویب سائٹ بھی اس کی محنت سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ جیتے رہو جمال۔ ۔

کی بورڈ کی جنگ

جس طرح گاڑی ایک ہاتھ میں ٹھیک رہتی ہے، اسی طرح کمپوزر کا کی بورڈ بھی ایک ہاتھ میں رہے تو اچھا چلتا ہے۔ بعض کمپوزرز تو اپنا کی بورڈ ساتھ لیے گھومتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ نیوز کمپوزر ز عموماً میگزین کمپوزر کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے، اس میں بے چارے نیوز کمپوزرز کا بھی قصور نہیں۔ روزانہ جنگ جدل، خون خرابے، لوٹ مار اور دنگا فساد کی خبریں کمپوز کر کے ان کا دماغ بھی اسی طرح کے خیالات کی آماجگاہ بن چکا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی جو روزنامے کے ابتدائی دو سال تک مجھے ایک کی بورڈ کیلئے رات والے پیج میکر سے سرد جنگ کرنا پڑی۔ میں صبح آ کر اپنے کمپیوٹر پر کی بورڈ لگاتا تو موصوف رات میں اسے نکال کر اپنے کمپیوٹر میں فٹ کر لیتے۔ اُس نے مجھے بڑے سخت پیغامات بھجوائے کہ میں اپنی اس حرکت سے باز آ جاؤں لیکن وہ پٹھان تھا تو میں بھی میانوالی ہونے کے ناطے ڈبل پٹھان بن گیا اور جوابی پیغامات بھجوائے کہ وہ نہیں سدھرتا تو میں بھی کی بورڈ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ بالآخر دو سال بعد انور کمال سے سامنا ہوا، میری طرح کا ہی دبلا پتلا لیکن روایتی پٹھانوں کی طرح رنگ روپ کا نکھرا۔ مل بیٹھ کر طے کیا گیا ہم اپنا اپناکام کرنے کے بعد چھٹی سے پہلے کی بورڈ آنے والے کیلئے لگا کر جایا کریں گے۔ بعد میں انور کمال سے قومی اخبار بلڈنگ میں کافی ملاقاتیں رہیں، وہ اخبار میں وہی پیج میکنگ کی جاب کر رہا تھا اور میں اسی بلڈنگ میں قائم نیوز چینل میں رائٹر بن کر آ چکا تھا۔

نیک کمپوزر، جھگڑالو انچارج

اخبار میں صفحات کا اضافہ ہوا تو اسٹاف کا اضافہ بھی ضروری ہو گیا۔ تین نئے کمپوزروں سے واسطہ پڑا۔ عاصم صدیقی، عافف گزدر اور مُلا حسن۔ عاصم شرمیلا، حسن پہلوان نما اور عافف نیک سیرت، نرم خو انسان۔ صبح کی شفٹ کا کمپیوٹر انچارج بنانے کیلئے عافف کو چنا گیا، مجھے اعتراض بھی نہ تھا کہ کون سا تنخواہ زیادہ ملنی تھی البتہ سر دردی زیادہ تھی اور اسی وجہ سے نرم خو، نیک سیرت عافف مختلف صفحات کے مدیران سے لڑتا جھگڑتا دکھائی دینے لگا۔ باقی ہم مزے کرتے، وہ حقوق کی جنگ لڑتا۔ ہم سب میں کمپوزنگ کی مقابلے بازی بھی ہوتی رہتی۔ عافف اور میں نے رفتار کا مقابلہ کیا اور کئی بار کیا لیکن میچ برابر ہو جایا کرتا ایک آدھ بار وہ جیتا تو اگلی مرتبہ میں نے اسے پچھاڑ دیا۔ عافف نے ہی ایک دن مذاق میں کہا، چلو شوکت دونوں بی اے کر لیتے ہیں، پھر مشرف کے طے کردہ معیار کے مطابق سیاست میں حصہ لے سکیں گے۔ میں نے بھی مذاق ہی مذاق میں حامی بھر لی اور عافف نے کراچی یونیورسٹی کے فارم بھر لیے۔ یوں ہم بی اے میں ہم جماعت بھی ہو گئے اور پاس بھی ہو گئے۔ میں کمپوزنگ کی نوکری چھوڑ کر دوسرے روزنامہ اخبار میں ’’ادارتی انچارج‘‘ بن گیا اور اسی دوران عافف کے انتقال کی خبر ملی۔ دل بجھ سا گیا، اتنا اچھا کمپوزر اور اس سے بڑھ کر بہترین دوست یوں عین جوانی میں خدا کو پیارا ہو گیا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Good کمپوزر

صبح کی شفٹ میں کمپیوٹر ڈپارٹ کا ماحول بڑا ہی پرسکون، ادبی اور سلجھا ہوا تھا۔ تمیز کی گفتگو ہوتی اور کوئی مہمان آتا تو سمجھتا سب ہی فرشتے بیٹھے ہیں۔ پھر اچانک سے ہلچل مچ گئی، فرشتوں کو شیطان بنانے کا ٹھیکہ صابر بھائی کو مل گیا۔ وہ بڑے اخبار سے آئے اور قہقہوں اور ذو معنی گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ ’’گڈ‘‘ اُن کا تکیہ کلام تھا۔ آپ کو سیٹ بھی میرے برابر میں ملی اس لیے زیادہ اثرات مجھ پر پڑنے لگے۔ بلا سوچے سمجھے اُن کے منہ سے گڈ اَز خود خارج ہو جایا کرتا۔ ایک بار کسی کی کال آئی انہوں نے سنتے ہی گڈ کہا اور فون کاٹ دیا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو بتایا ’’ایک رشتہ دار کا انتقال ہو گیا ہے۔ ‘‘ اس پر باقی سب کی ہنسی نکل گئی کہ جہاں انا للہ پڑھنا ہو صابر بھائی وہاں بھی گڈ کہہ دیتے ہیں۔ ہم سب کنواروں میں آپ ہی شادی شدہ تھے اور دوسری شادی کی خواہش بڑی شدت سے رکھتے۔ کچھ عرصے بعد وہ نوکری چھوڑ گئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ پروفیسر سلیم مغل کے مشورے سے میں نے ایم اے ماس کمیونیکشن میں داخلہ لے لیا۔ وہاں میرے کلاس فیلو صابر بھائی نکلے۔ دوسری شادی کی خواہش جوں کی توں تھی اس لیے کلاس فیلوز لڑکیوں کیلئے نوٹس کمپوزنگ کی مفت خدمات کیلئے پیش پیش رہتے۔ لڑکوں سے البتہ منہ مانگے دام وصول کرتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اپنی فیسوں کا خرچہ بھی کلاس فیلوز کے نوٹس کمپوز نگ سے پورا کیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایم اے بھی ہو گیا، لیکن دوسری شادی نہ ہو سکی۔ آج کل بھی سب سے بڑے اخبار میں ہیں اور کمپوزنگ ہی کر رہے ہیں۔ ۔ گڈ صابر بھائی!

ایسی کمپوزنگ سے ہم باز آئے

اخبار کی نوکری(الیکٹرونک میڈیا بھی) اور موبائل فو ن پر ہونے والی دوستیاں زیادہ قابل بھروسہ نہیں ہوتیں۔ اس لیے اخباری ملازمین ہمیشہ سے دو دو نوکریوں میں لگے رہتے ہیں، ایک فُل ٹائم والی اور دوسری پارٹ ٹائم۔ تاکہ ایک جائے تو دوسری سے خرچہ پانی چلتا رہے۔ میں بھی اخبار میں کمپوزنگ کے دوران ایک دو ماہنامے ساتھ ساتھ چلاتا تھا۔ ایک مرتبہ مجھے سابقہ ایڈیٹر نے کسی اور صاحب کے حوالے کر دیا کہ اُن سے ملو، انہیں کسی نیک سیرت کمپوزر کی ضرورت ہے۔ میں جا ملا، معاملات طے ہوئے، د و گھنٹے روزانہ کی بات ہوئی اور اگلے دن سے میں نوکری پر تھا۔ وہ بزرگ ایک نامور کالم نگار و تجزیہ نویس تھے اور ایک ماہنامہ اپنے گھر سے بنا کر چھاپنے کے خواہش مند تھے۔ اوپر رہائش تھی اور نیچے پورا گھر اسی کام کیلئے مخصوص کر دیا۔

پہلے ہی دن مجھے جو کمپیوٹر دیا، انتہائی تھکا ہوا، کی بور ڈ ایسا کہ کسی ہتھوڑی سے تو اس کے بٹن دبا کر ٹھوکے جا سکتے تھے لیکن انگلیوں سے لفظوں کو ترتیب دینا ناممکن تھا۔ اور پھر گرافکس کے ذریعے پیج میکنگ تو دور کی بات تھی۔ مسئلہ بیان کیا تو انہوں نے دوسرے کمرے میں رکھا کمپیوٹر دکھا کر کہا ’’یہ میری بیٹی کا کمپیوٹر ہے، اسے چیک کرو، اگر اس پر کام ہو سکے تو۔ ‘‘

میں نے چیک کیا، گزارہ کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے بہت سا مواد کمپوزنگ کیلئے دیا اور وہ چائے لانے کا کہہ کر چلے گئے لیکن خود نہ آئے البتہ چائے کے ساتھ چائے بنانے والی خود بھی آ گئی۔ مجھے اپنے کمپیوٹر پر بیٹھا دیکھ کر چونکی اور کچھ خاص فولڈر تک رسائی سے منع کر دیا۔ کام چلتا رہا، چائے آتی رہی اور محترمہ مجھ میں غیر ضروری دلچسپی لینے لگی۔ تین ماہ چائے پانی میں کٹ گئے لیکن تنخواہ کا نام و نشان نہ تھا۔ پیسوں کا سن کر انکل جی کو سانپ سونگھ جاتا، وہ تو پیسے نکالنے کے موڈ میں نہ تھے، لیکن بیٹی اپنا آپ فدا کرنے پر تلی بیٹھی تھی اور مجھے اس وقت پیسوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ لہٰذا ایسی کمپوزنگ سے ہم باز آئے، یہ نوکری چھوڑ کر کسی اور جگہ ملازمت اختیار کر لی۔ تجزیہ نویس انکل پر میرے تین ماہ کے پیسے اور مجھ پر اُس محترمہ کی خاموش محبت اب تک اُدھار ہے۔

صنف نازک کمپوزر

جس طرح فائر بریگیڈ کے شعبے میں خواتین کو نوکریاں نہیں ملتیں کہ اُن کا کام آگ لگانا ہوتا ہے، بجھانا نہیں۔ اسی طرح کمپوزنگ کے شعبے میں بھی میں نے آج تک کوئی پروفیشنل کمپوزر صنف نازک نہیں دیکھی۔ اس کی وجہ یہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اخباری نوکری میں ایک تو اوقات بڑے سخت ہوا کرتے ہیں اور پھر کمپوزنگ کے دوران بندے کو اپنی اوقات بھی یاد رہتی ہے۔ صنف نازک کمپوزرز کی نایابی میں ایک وجہ ناخنوں کی پرورشِ لازمیہ بھی رکاوٹ ہو سکتی ہے کیونکہ تیز رفتاری کے باعث کی بورڈ کی جان کو لالے پڑ سکتے ہیں یا پھر ناخنوں کی تراش خراش میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ کچھ جگہوں پر کوشش بھی کی گئی، دن کے اوقات میں ایسی لڑکیوں کو موقع دیا جانا چاہئے جو اس فیلڈ میں قسمت آزمائی کرنا چاہتی ہوں لیکن نہ تو خورد بین سے کوئی مل سکی اور نہ دور بین لگا کر کسی کو تلاش کیا جا سکا۔ لہٰذا طے کر لیا گیا کہ کمپوزنگ کی فیلڈ بھی خالصتاً مردانہ ہے۔

کمپوزنگ میں شاگردہ شریف

ایک ہفت روزہ اخبار’’سماعت‘‘میں شام کی نوکری چل رہی تھی۔ وہاں کے آرٹ ڈیزائنر (نام یاد نہیں ) نے ایک دن کہا کہ ایک لڑکی کو اُردو کمپوزنگ سیکھنی ہے، چل کر سکھا دینا۔ میں نے عرض کی کہ ابھی تو میں خود طفل مکتب ہوں، رفتار بھی اتنی زیادہ نہیں۔ میری بات سن کر وہ مسکرائے اور کہا، جتنا کچھ تم جانتے ہو، اس لڑکی کیلئے اتنا بھی بہت ہو گا۔ پرانی رفاقت نبھانے کی خاطر جانا پڑا، نارتھ کراچی کا علاقہ تھا شاید۔ ایک فلیٹ میں وہ محترمہ بڑی خوش اسلوبی سے ملیں اور پندرہ منٹ کی کلاس میں ہی فین ہو گئیں۔ پی ٹی سی ایل کا دور دورہ تھا، وہ روز فون کرنے لگیں اور یوں مواصلاتی کلاس شروع ہو گئی لیکن آرٹ ڈیزائنر ہفتے بعد ہی مجھ پر تپ گئے کہ میری اچھی دوست چھین لی ہے، گھر جاتا ہوں تو لفٹ نہیں، فون پر وقت نہیں۔ آخر تم چاہتے کیا ہو؟ میں حیران کہ ’’کا، کی، کے‘‘ اور’’ چا، چوں، چے‘‘ کے سوا کوئی بات نہ ہوتی اور جناب کس غلطی فہمی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ بہر حال مشاورت سے طے کیا گیا کہ میں پہلے آرٹ ڈیزائنر کو سکھاؤں، پھر وہ رات میں جا کر موصوفہ کو سکھائیں اور میں کسی بھی طریقے سے شاگردہ کی پہنچ سے دور رَہوں۔ اب بھی نیوز چینل کے کسی نہ کسی فلورسے کوئی محترمہ کال کرتی ہیں کہ ان پیج پر فلاں فلاں مسئلہ کس طرح حل ہو گا تو پہلی مواصلاتی شاگردہ کا چہرہ اور آرٹ ڈیزائنر کا غصہ یاد آ جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

یونیورسٹی کا اخبار

 

                فہد خان

 

سوچئے اگر کبھی یو ای ٹی (University of Engineering and Technology, Lahore)میں اخبار چھپنا شروع ہو جائے تو اس میں کیسی خبریں چھپیں گی؟ کیسے اعلانات شایع ہوں گے اورکیسے کیسے اشتہارات اس کی زینت بڑھائیں گے؟ تصور کی آنکھ سے دیکھیے : بہت سی ایسی خبریں ہوں گی جن میں رئیسِ جامعہ کی تعریف کی گئی ہو گی۔ روایتی نشست سنبھالنے اور چھوڑنے پر اشتہارات، ملازمین اتحاد کی خبریں۔ ۔ لیکن اس سب کے علاوہ اس میں کیا کیا ہو سکتا ہے؟

خبریں۔ ۔ سرخیاں۔ ۔ شہ سرخیاں

۱)   قبرستان یو ای ٹی کی تزئین و آرائش کا مطالبہ!

اصلاحی جماعت یو ای ٹی کے امیر شیخ غریب الدین نے یونی ورسٹی کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہقبرستان یو ای ٹی کی بحالی کی جائے، ہمارے نمائندے اکبر احمد سے بات چیت کرتے ہوئے شیخ نے فرمایا کہ قبرستان کے آباد ہونے سے طلبا

٭٭ا جو اُ کے دل میں خشیتِ الٰہی کا جذبہ پیدا ہو گا۔ ہر دم قبریں نظروں میں گھومنے کی وجہ سے بس اڈے پر خواتین کو سی آف کرنے والے طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ آئی بی ایم کے خوش نصیب ویلھوں میں عموماً او مس سلینہ میں خصوصاً اصلاح کا جذبہ پیدا ہونے کا پورا پورا خدشہ ہے۔ ۔ اس پر ایک طالب علم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا : بلھیا اساں مرنا ناہیں۔ ۔ گور پیا کوئی ہور!

۲) آر ٹی صاحب کا چھاپہ

یو ای ٹی لاہور کے فارنر ہال میں رات کے وقت، ’’علی الصبح‘‘ آر ٹی صاحب نے ایک کمرے میں چھاپہ مار کر سگریٹ شیشہ اور دیگر ممنوعہ سامان بر آمد کر لیا۔ چھاپے کا پتا چلنے پر نیل کے ساحل تاںبخاکِ کاشغر سے تعلق رکھنے والے طلبا نے قوتِ اخوتِ عوام کا مظاہرہ کرتے ہوئے آر ٹی سے بدلہ لینے کی کوشش کی۔ جس کے بعد آر ٹی صاحب منظرِ عام سے غائب ہو گئے۔ طلبا نے آر ٹی صاحب کے الزامات رد کر دیے۔ ایک سوڈانی طالب علم نے کہا : ’’داغا دا آر تی، لاحول ولا۔ ۔ انا طالب مسلم۔ ۔ دخان لا ممنوع۔ ۔ ‘‘ طلبا نے الزام لگایا کہ آر ٹی صاحب نے دفتر میں نصف مال ‘‘ جمع کروایا ہے۔   بار بار رابطے پر بھی آر ٹی صاحب نے فون نہیں اٹھایا جبکہ ان کا کمرہ بدستور بند ہے۔ ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ اب وہ تین دن بعد ہی میسر ہوں گے کیوں کہ ’’گمشدہ نصف مال‘ ‘ تین یوم کے لیے کافی ہے۔

۳)   ایک فلاحی کام

وی سی صاحب نے سول اور مکینیکل ڈیپارٹمنٹ کی سی ایس ڈیپارٹمنٹ کے باہر بھٹکتی آتماؤں کی بے چینی کا نوٹس لیتے ہوئے سی ایس ڈیپارٹمنٹ کے باہر بنچ نصب کروا دیں ہیں۔ وی سی نے طلبا کے دوجے ڈیپارٹمنٹ میں دلچسپی کو دل سے سراہا ہے۔ طلبا نے ایسے اقدامات کی توثیق کی ہے۔ چند طلبا کا کہنا تھا کہ اگر بنچوں کی پشت کی بجائے رخ اگر سی ایس ڈیپارٹمنٹ کی طرف ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

۴)   لٹریری سوسائٹی کا عظیم کارنامہ

ہمیشہ کی طرح اپنے بزرگوں کا ریکارڈ توڑتے ہوئے لٹریری سوسائٹی کے شاہینوں نے سمسٹریکل سپلی کمپی ٹیشن میں پانچ سپلیاں بہت بڑے مارجن سے لے کر بیسٹ سوسائٹی کا خطاب حاصل کر لیا ہے۔ اس موقع پر چیف کو آرڈینیٹر بزرگوں کو یاد کرتے کرتے آنکھیں ’’نم ناک‘‘ کر بیٹھے۔ انھوں نے اس کامیابی کا سہرا جنرل سیکرٹری ہاموں صاحب پر ڈالا۔ جنہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا : مجھے بچپن سے سہرا پہننے کا شوق تھا۔ خیر اب ’’ووں ‘‘ نہ سہی تو یوں سہی!‘‘

۵)   ادھار اگلے چوک سے

سپوٹس کیفے کے ڈائرکٹر چاچا بھولا نے کھاتے پر کھانا بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ ، انھوں نے کہا ہے کہ وہ بھولے ہیں، کھوتے نہیں ہیں، ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ کھاتے میں کھاتے کھاتے، انہیں کھوتا سمجھ کر کھاتے تھے۔ ۔ حتیٰ کہ ان کے پیسے بھی کھا جاتے تھے۔ بعض لوگ دو دو دفعہ کھانا کھانے لگے تھے چاچے نے ایسے لوگوں کو عبرت ناک قبض ہونے کی بد دعا بھی دی ہے۔

اشتہارات

۱) چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کارو بار چلے!

عابد کریانہ سٹور۔ ایل اینڈ ایم، مالبرو، لپس،   جملہ اقسام کی خوشبودار اور بدبو دار سگریٹ دستیاب ہیں۔ چرخی گیٹ سے ۳ سیکنڈ کی مسافت پر۔ گیٹ بند ہونے پر بھی سروس ’’ چالو‘‘ رہتی ہے۔

۲) غوثیہ فاسٹ فوڈ

شوارما۔ پیزا۔ زنگر۔ پلیٹر

یو ایٹی کے گیٹ نمبر پانچ سے چند سو قدم کے فاصلے پر۔ ۔ ۔ غوثیہ فاسٹ فوڈ

ہماری سروس رات بارہ بجے کے بعد بھی میسر ہوتی ہے۔

ہمارا پکایا ہوا پیزا کھانا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے کرس گیل جیسے ہونٹ، بلعم باعور جیسا منہ، اور ڈائنو سار جیسا معدہ درکار ہے۔

ڈیٹنگ کے لیے چھت پر بیٹھنے کا بھی انتظام ہے، ۔

(نوٹ۔ چھت پر کیمرہ بھی لگا ہوا ہے۔ اپنی ذمہ داری پر سلسلہِ جنبانی و حیوانی کے لیے دست دراز کریں !)

۳) تبدیلیِ نام

میں نے اپنا نام وٹو سے بدل کر ایلوس پریسلے رکھ لیا ہے۔ آئندہ مجھے اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ نادرہ کے ریکارڈ اور میری ایم بی اے، آئی بی ایم ڈیپارٹمنٹ یو ای ٹی لاہور کی ٖڈگری پر نام بھی تبدیل کیا جائے۔ کسی کو اعتراض ہو تو سات دن میں رابطہ کرے۔ سات دن بعد عقیقہ اور رسمِ ’’گل تراشی‘‘ کے بعد ہرگز ہرگز نام تبدیل نہ کیا جائے گا۔

ایلوس پریسلے ولد بوٹا سنگھ۔ ۔ چیچو کی ملیاں

۴) پھلانگنے والا خبردار!!!

حبیب بنک، انجینئرنگ یونی ورسٹی برانچ کے دونوں دروازے کسی کے باپ کے نہ ہیں۔ شارٹ کٹ مارنے والے حضرات اپنی اپنی وصیتیں تیار رکھیں۔ ہم نے بلڈوزر نام کا نیا سیکورٹی گارڈ ہائر کیا ہے۔

۵) انتباہ

جن صاحب نے کمرہ نمبر ۴۱۲ خالد ہال سے ایک عدد سیفٹی ریزر چوری کیا ہے وہ چپ چاپ واپس دے جائیں۔ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا، ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ یہ ریزر کبھی بھی ڈاڑھی کاٹنے میں استعمال نہ ہوا تھا !

۶) مشتری ہوشیار باش

بعض لڑکیوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ ایس ایس سی میں اپنے ڈربے میں ہی انڈے دیا کریں۔ ورکنگ باؤنڈری پار کر کے علاقۂ غیر میں ڈیرہ جمانے والیوں سے آڑے ہاتھوں نمٹا جائے گا، ہاں ڈربے میں جگہ نہ ہونے پر منیجر کا کمرہ حاضر ہے۔

منیجر ایس ایس سی یو ایٹی لاہور

۷) پیاری پیاری میٹھی میٹھی کاکیو!

رات کو یوں بن ٹھن کر جنت روڈ پر گھومنے سے تمہیں ہر گز حوروں کا رتبہ نصیب نہیں ہونے والا۔ البتہ تمہارے تعاقب میں پھرنے والے بندر ضرور مسخ ہو کر لنگور ہو جائیں گے۔ اس سے قبل بھی تمہارے ایسے ہی اعمال کی بدولت جی ایس ایس سی کے باہر درخت پر بجلی گری تھی۔ عذابِ الٰہی تاک میں ہے۔

نوٹ: جو یہ اعلان دو کاکیوں کو سنائے گا اسے فائنلز میں اے گریڈ ملے گا۔ اور ساری لیبز بھی اچھی ہوں گی۔ ایک لڑکے نے اسے نظر انداز کر دیا اس کے کمرے کا فیوز اڑ گیا۔

۸)   ایک اعلان

ایک افسوس ناک بات سامنے آئی ہے کہ مسجد کے باتھ روم میں بعض لڑکے لڑکیوں کے فون نمبر لکھ آتے ہیں۔ یہ وہی لڑکے ہیں جو کمرۂ امتحان میں کچھ لکھے بغیر خالی شیٹ پکڑا آتے ہیں۔ تفتیش پر ان میں سے اکثر نمبر لڑکوں کے ہی نکلے ہیں۔ ایک تو نمبر لکھنا ہی غلط ہے، دوجا اگر نمبر لکھنا ہی ہے تو براہِ مہربانی صحیح نمبر لکھو۔

ایک خیر خواہ

۹) خوشخبری

پاکیزہ حضرات کے پہننے کے لیے گھوڑوں کی آنکھوں کے گرد پہنانے والے چمڑے کے ٹکڑے دستیاب یں۔ غضِ بصر کے لیے ہر طرح سے مفید! جوڑی خریدنے والے کو خصوصی رعایت۔

۱۰) چیلنج

آلو والے پراٹھے دستیاب ہیں۔ ۔ یہ صرف حاسدوں کا پروپیگنڈا ہے کہ ہمارے آلو والے پراٹھوں میں آلو کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے آلو والے پراٹھوں میں ہر گز ہرگز آلو استعمال نہیں کیے جاتے۔ ہمارے پراٹھوں میں آلو ثابت کرنے والے کو دس ہزار روپے نقد انعام

۱۱) یو ا ی ا ٹی انٹر نیٹ سروسز

ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے نیٹ کی سپیڈ اور مصباح کا سکورریٹ ایک سا ہے!

یو ای ٹی انٹر نیٹ سروس۔ ۔ ۔ ۔ ابھی بھی نہیں کبھی بھی نہیں

چند نمونے کے کالم

’’آپ کے نفسیاتی و سماجی مسائل‘‘

۱) جناب میں بہت پریشان ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ ہاسٹل میں سب مجھ سے سامان مانگ تانگ کر لے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ماں قسم اس وقت ایک چڈی میں ملبوس یہ خط لکھ رہا ہوں کہ نہانے کے بعد تولیا لپیٹے باہر آیا تو روم میٹ میرا لباس پہن کر چلا گیا تھا۔ میرا دل رونے کو چاہ رہا ہے۔ میں کیا کروں مجھے مشورہ دیجیے۔

جواب: محترم آپ نے اپنے اوپر دوسروں کی دل آزاری نہ کرنے کی چڈی ایویں ای چڑھا رکھی ہے۔ فوراً سے بھی قبل   یہ چڈی اتار پھینکئے۔ اور ایک لمحہ سوچے بنا ساتھ والے کمرے میں جا کر ہمسائے کا سب سے اعلیٰ سوٹ مانگئے، اس کے برابر کے کمرے سے ٹائی ادھار لیں اور اگلے کمرے سے کینوس شوز۔ ۔ ۔ کسی دوسرے کے کمرے میں جا کر اس کے واش روم میں نہائیے۔ ۔ یہ کہہ کر کہ میرے واش روم میں پانی نہیں آ رہا اور اس نہاتے سمے شیمپو صرف سر پر ہی نہ ملیے۔ ۔ ۔ بلکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صابن کی جگہ شیمپو استعمال کیجیے۔ اور پھر ایس ایس سی جا کر سموسے نوش فرمائیے جس کی چٹنی دانستہ سوٹ پر گرائیے۔ ۔ اور بلا معذرت وہ سوٹ واپس کیجیے۔ ۔ آپ کو دلی سکون ملے گا۔

۲) میرے یہاں کا نیٹ بہت سلو چلتا ہے۔ میں کرکٹ کا شیدائی ہوں مگر اس کمزور انٹر نیٹ کی وجہ سے صرف Cricinfo.comپر پٹی میں چڑھتے رنز اور اترتی وکٹیں شمار کرتا رہتا ہوں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میرا سکور ہر دفعہ بعد میں بڑھتا ہے، اس سے پہلے ہی ساتھ والے کمرے سے چوکے، چھکے پر نعرے مارنے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ ان کی چیخ سے پہلے میری چیخ نکلے۔ ۔ مگر ابھی تک میرا خواب پایہِ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ وہ لوگ تھری جی پر نیٹ چلاتے ہیں جو کہ میں افورڈ نہیں کر سکتا۔ میرا ایک دوست آج کل مجھے انقلاب پر مبنی کتابیں پڑھنے کو دے رہا ہے۔ جیسے سرخ انقلاب۔ ۔ درانتی۔ وغیرہ وغیرہ۔ جنہیں پڑھ کر میں پولتاری بنتا جا رہا ہوں۔ مجھے ان سرمایہ داروں سے نفرت ہونے لگی ہے جو اپنے سے پہلے کسی غریب کو چیخ مارنے کا موقع بھی نہیں دیتے!اب دیکھیے آگے ورلڈ کپ آ رہا ہے۔ ۔ اگر ورلڈ کپ کے دوران بھی یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو یا تو میں خود دھماکہ کر ڈالوں گا یا پھر خود کشی! براہِ کرم کوئی ایسا طریقہ بتائیے کہ پہلے میری ہی چیخ نکلے۔

جواب: محترم۔ ۔ آپ کی کرکٹ سے دیوانگی دیکھ کر ہمیں اپنے لڑکپن کا زمانہ یاد آ گیا۔ ۔ ۔ ارے ! واہ۔ ورلڈ کپ کے لیے اس سال ہم نے ۱۲ انچ سکرین کی حاملہ ایل سی ڈی لینے کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ آپ یہاں آ کر میچ دیکھ لیا کیجیے گا۔ ان شا اللہ اکٹھے میچ دیکھ کر اکٹھے ہی چیخ ماریں گے۔ اور اگر آپ کو کوئی اعتراض ہو تو ہم چند سیکنڈ یہ سوچ کر اپنی چیخ دبا لیں گے کہ آپ کی حسرتیں پوری ہو سکیں۔ بس ایل سی ڈی کی آدھی قیمت مبلغ ۰۰۰۴۱ روپے جمع کروا دیں۔ ۔ ۔ اللہ اللہ خیر صلا!

۳) میں جب بھی آئی بی ایم کے سامنے سے گزرتا ہوں تو وہاں بیٹھی کچھ خواتین مجھے دیکھ کر مسکرانے لگتی ہیں۔ ۔ اس پر میرا من ان سے جا کر بات کرنے کو چاہتا ہے مگر جا نہیں پاتا۔ مجھے کوئی طلائی کشتۂ ہمت عطا کیجیے۔

جواب: آپ نے آئی بی ایم کی لڑکیوں کو خواتین کہہ کر ہماری حسِ لطیف کو خود کش دھماکے سے مجروح کر ڈالا ہے!

اصولاً تو آپ کو جواب دینا ہی نہیں چاہیے تھا مگر پھر بھی۔ ۔ ۔ :

بھائی لڑکیوں کے مسکرانے سے کسی غلط فہمی میں مبتلا مت ہو جایا کیجیے۔ سب سے پہلے یہ چیک کیا کریں کہ کہیں آپ کا ناڑا تو نہیں لٹک رہا؟ اگر آپ نے کسی قسم کی شلوار زیب تن نہیں کر رکھی بلکہ پینٹ پہنی ہے تو کہیں پینٹ میں آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر کوئی روشن دان کھلا تو نہیں ؟ یا پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے صبح شیو کرتے ہوئے آپ نے اپنے تھوبڑے کی داہنی طرف تو صاف کر ڈالی مگر باہنی بھول گئے؟

اگر ان سب میں سے کوئی بات درست نہیں تب بھی مجھے یقین ہے کہ ان کے ہنسنے کا سبب آپ کی کوئی چول ہی ہے۔ سب سے پہلے اس چول کو تلاش کریں اور اور اس کا علا ج کریں۔ امید ہے ان کی بتیسیاں بند ہو جائیں گی۔

’’ آج کا دن کیسا گزرے گا؟‘‘

اگر آپ الیکٹریکل کے طالب علم ہیں تو آپ کو آج چند ٹھیٹا لڑکیوں کی باتوں پر روتے دل کے ساتھ مسکرانا پڑے گا۔

مکینیکل اور سول کے لڑکوں کو حسبِ معمول سی ایس اور آرکی ڈیپارٹمنٹ کا چکر لگانا ہی ہو گا۔ لالہ زار میں نشستیں سنبھالنا بھی آج کے معمول میں شامل ہے۔ ہاں البتہ آپ کو کھانے کے لیے آج بھی سپورٹس کیفے کی سرخ لوبیا ہی میسر ہو گی۔

آپ کا شعبہ سی آر پی ہے۔ آج بھی آپ دل کی بات زبان پر نہیں لا سکیں گے اور وہ آپ کو دیکھتے ہی بھائی کہہ کر پکارے گی۔ جواباً آپ کو بھی اسے سسٹر کہہ کر پکارنا پڑے گا۔

آپ آئی بی ایم میں پڑھتی ہیں۔ (پڑھنا محاورتاً۔ وگرنہ ایک سروے کے مطابق تمام یو ای ٹی اینز اس بات پر متفق ہیں کہ آئی بی ایم میں پڑھائی نہیں ہوتی۔ ۔ )آج بھی آپ کو میک اپ کرتے ہوئے بھاگ کر یونی آنا پڑے گا اور آپ ناشتہ نہیں کر پائیں گی۔ اور آج آپ کو وہی لڑکا پیزا کھلائے گا جس سے آپ نے پچھلے ہفتے اسائنمنٹ بنوائی تھی۔ آج بھی اسد آپ کو نظر انداز کر کے مہ پارہ کے ساتھ مصروف رہے گا۔

آپ ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ آج حسبِ معمول آپ ۰۰:۰۸ بجے بیدار ہوں گے اور ناشتہ کر کے ۷:۰۳ منٹ پر کلاس میں پہنچ جائیں گے۔ آپ کنگھی نہیں کر سکے کیوں کہ وہ کل ہمسایہ لے گیا تھا اور آپ کا شیمپو بھی آپ کا روم میٹ روح افزا سمجھ کر پی گیا ہے۔ آپ کو آئی بی ایم کے سامنے پہنچ کر احساس ہو گا کہ آپ کی پینٹ کی زپ کھلی ہوئی ہے۔ مگر آپ اسے بند نہیں کریں گے۔ میس میں روٹی ملنا دشوار ہے البتہ سالن فوراً مل جائے گا۔ آج مفت کی سگریٹ نہیں ملے گی۔ بلکہ مطالبہ کرنے پر بے عزتی کا بھی خاصا امکان ہے۔ رات کو آپ کے پیٹ اور دیگر حصے میں مروڑ اٹھے گا جسے دور کرنے کے لیے آپ جنت روڈ پر واک کریں گے۔

تصور کے گھوڑے کو بریک لگاتے ہوئے زمین پر واپس آتے ہیں۔ جب تین سال سے ایکو نہ چھپ سکا تو اخبار نکالنے کی ہمت بلا کس کے والد گرامی میں ہے۔ (بزبانِ شائستہ!)

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی تو میں جوان ہوں

 

                حسیب احمد حسیب

 

اجی کون تسلیم کرتا ہے کہ اس کی زندگانی کی گھڑیاں کم سے کم ہوتی چلی جا رہی ہیں اور وقت آخر قریب آتا چلا جا رہا ہے معاملہ تو یہ ہے کہ چاہے وہ بوڑھا ہو کہ جوان مرد ہو کہ عورت ہر دل کی ایک ہی صدا ہوتی ہے۔

بھلا میں چھوڑ دوں یہیں

ہے موت اس قدر قریں

مجھے نہ آئے گا یقیں

٭

نہیں نہیں ابھی نہیں

ابھی تو میں جوان ہوں

بر صغیر پاک و ہند کی دو بڑی بیماریوں میں سے ایک بیماری عمر کا غم اور دوسری بیماری نسل کا غم ہے ایک وہ زمانہ تھا کہ جب ہم یہ سمجھنے لگے تھے کہ شاید پچھلی صدیوں میں تمام سادات صوبہ بہار میں نقل مکانی کر گئے تھے اور اسی دور میں ہم پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ قریش کے بارہ قبیلے نہیں تھے بلکہ ایک قبیلہ اور بھی تھا کہ جو بلد عرب سے گمشدہ ہو کر سرزمین ہند میں آباد ہو گیا اس قبیلے کا اصل نام ” بنو قصاب ” تھا آج لوگ اسے قریشی اور فصیح اردو میں ” کریسی ” کہتے ہیں۔ ۔ ۔ اجی چھوڑیے اس نسلی احساس کمتری کا تذکرہ کہاں سے آ گیا ہم تو گفتگو فرما رہے تھے زندگانی کی گھڑیوں کی چوری کی۔ ۔ ۔ کہتے ہیں عورت سے اس کی عمر اور مرد سے اس کی تنخواہ پوچھنا بد اخلاقی ہے اور ہم اکثر اس بد اخلاقی سے بچتے ہیں کیونکہ اس کے بعد اگلے کے اخلاق خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ دھچکا آپ کو اس وقت لگتا ہے کہ جب بچپن کے ساتھ کھیلے ہوئے آپ کا تعارف کسی دوسرے سے یہ کہہ کر کروائیں۔ ۔ ۔ اجی ہم تو اُن کی گودوں میں کھیلے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت۔

ایک روز ایک مدقوق سفید ریش بابے نے انتہائی تیقن کے ساتھ ہمیں انکل کہ کر پکارا تو ہم گھر آ کر دیر تک آئینے میں اپنی صورت دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ ’’ آئینہ جھوٹ بولتا ہے یا پھر ہماری آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں۔ ‘‘

گزشتہ شب جب ہمارے ایک دوست شاہد میاں فرمانے لگے کہ میاں میں تو تمہیں بچپن سے دیکھ رہا ہوں تو ہم نے آگے سے پوچھ لیا ” ہمارے بچپن سے یا تمھارے بچپن سے ’’ تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئے اور بچپن کے تعلقات کے حوالے سے کچھ ایسے انکشافات فرمانے لگے کہ ہمیں اپنی دوستی اور انکی اخلاقیات دونوں ہی مشکوک دکھائی دینے لگیں، وہ تو میں سگریٹ کا عادی ہو گیا ہوں وگرنہ میری عمر ہی کیا ہے، اجی مجھے تو فکروں نے بوڑھا کر دیا۔ ‘‘

میں بچپن ہی سے بھری دوپہر میں آوارہ پھرنے کا عادی تھا میرے بال تو نزلے کی وجہ سے سفید ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں کہ اپنا شناختی کارڈ اپنے بچوں کی بلوغت کے وقت بنواتے ہیں اور پھر اپنی کم عمری پر اتراتے ہیں۔ ۔ ۔ عجیب بات ہے کہ ہم اپنے بہت سے دوستوں اور خاندانی ہم عصروں سے عمر میں بہت آگے نکل گئے جبکہ بڑے بتلاتے ہیں تم تو ساتھ کے ہو۔

ہاں شاید ہم کسی اور عصر میں زندہ ہیں اور وہ کسی اور زمانے میں جی رہے ہیں۔ یہ معاملہ تو ایسا معاملہ ہے کہ ابو الاثر حفیظؔ جالندھری بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘ کہہ ڈالی۔

نہ مے میں کچھ کمی رہے

قدح سے ہمدمی رہے

نشست یہ جمی رہے

یہی ہما ہمی رہے

وہ راگ چھیڑ مطربا

طرَب فزا، الَم رُبا

اثر صدائے ساز کا

جگر میں آگ دے لگا

ہر ایک لب پہ ہو صدا

نہ ہاتھ روک ساقیا

٭

پلائے جا پلائے جا

ابھی تو میں جوان ہوں

نجانے کس ظالم نے یہ نظم گواتے وقت ملکہ پکھراج کے ساتھ طاہرہ سید کو بٹھا دیا اور وہ

’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘

’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘

کی تکرار کے باوجود قصہ پارینہ دکھائی دیتی رہیں۔ ۔ ۔ سنا ہے پچھلے زمانے میں وہ نوجوان خواتین کہ جو شادیاں ہونے سے رہ جاتیں اپنی عمر چھپاتیں اور وہ بابے کہ جو بہنیں بیاہتے بڑھاپے کی دہلیز تک جا پہنچتے اپنی زندگی کی گھڑیوں میں ڈنڈی مارتے، لیکن کیا کیجئے

ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

فلمی اداکاروں کی عمر چوری تو کمال کی تھی کہ انکا کمال ہی اس میں تھا بڑی بڑی عمروں کے بابے اور قبر میں پیر لٹکا? بیٹھی بیبیاں جس انداز میں سرسوں کے کھیتوں میں محو رقص ہوتے اجی اس کے کیا کہنے۔

عجیب شے ہیں آپ بھی

بھلا شباب و عاشقی

الگ ہوئے بھی ہیں کبھی

حسین جلوہ ریز ہوں

ادائیں فتنہ خیز ہوں

ہوائیں عطر بیز ہوں

تو شوق کیوں نہ تیز ہوں

نگار ہائے فتنہ گر

کوئی اِدھر کوئی اُدھر

ابھارتے ہوں عیش پر

تو کیا کرے کوئی بشر

چلو جی قصّہ مختصر

تمھارا نقطۂ نظر

درست ہے تو ہو مگر

’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘

عقل بڑی چالاک ہے اور ہمیشہ دل کو اپنا تابع کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی ہے لیکن یہ وہ معاملہ ہے کہ جس میں عقل و دل کا باہمی اشتراک ہے بلکہ یوں کہیں کہ اس عمر چوری کے جرم میں دونوں شریک ہیں تو کچھ غلط بھی نہ ہو گا۔

’’ دل ہے کہ مانتا نہیں ‘‘

اور

عقل چالاک ہے کہ بہانے تراشتی ہے

جاتی ہوئی جوانی سے ہر کوئی یہ کہتا دکھائی دیتا ہے، اے میری محبوب جوانی۔

آج جانے کی ضد نہ کرو

یونہی پہلو میں بیٹھی رہو

ہائے ! مر جائیں گے ہم تو لُٹ جائیں گے

ایسی باتیں کیا نہ کرو

تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمہیں

جان جاتی ہے جب اُٹھ کے جاتے ہو تم

تم کو اپنی قسم جانِ جاں بات اتنی میری مان لو

آج جانے کی ضد نہ کرو

مگر جناب جوانی تو دیوانی ہوتی ہے کہ کب کہاں کسی کی مانتی ہے اور بڑھاپا کب آ جاتا ہے یہ کسے معلوم ہو پاتا ہے۔ آپ کچھ بھی کر لیجئے۔ ہیر کلر اور میکپ کی تہوں میں سچائی چھپائے نہ چھپے ہے۔ یہ شناختی کارڈ میں لکھوائی گئی جھوٹی عمر چہرے پر پڑی جھریوں کی چادر کو کیسے جھٹلا سکے گی۔

اجی جانے والی جوانی ان حیلوں بہانوں سے لوٹ کر نہیں آ سکے گی۔ اب تو بس ہر دوسری عورت کو آنٹی اور ہر دوسرے مرد کو انکل کہ کر دل بہلائیں اور سانسوں کی مالا پر ’’ ابھی تو میں جوان ہوں ‘‘ کی تسبیح پڑھتے چلے جائیں۔

٭٭٭

تشکر: مدیر، جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید