FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ارمغانِ ابتسام

 

جنوری تا مارچ ۲۰۱۷ء

 

حصہ اول

 

                مدیر: نوید ظفرؔ کیانی

 

 

 

 

شرگوشیاں

 

                خادم حسین مجاہد

 

طنز و مزاح لکھنا کوئی آسان کام ہوتا تواس کی صف میں خواتین کثرت سے موجود ہوتیں باوجودیکہ وہ طنز گوئی میں یدِ طولیٰ رکھتی ہیں لیکن ان کی اکثریت حسِ مزاح سے محروم ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ فیکٹری فالٹ ہے اِس لئے ان کو اس سلسلے میں موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی پاکستانی عوام کی اکثریت کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ خواتینِ خانہ گھر میں اور مرد حضرات گھر سے باہر کولہوں کے بیل بنے ہوئے ہیں اور کہیں کہیں تو دونوں ہی گھر سے باہر گردش میں ہوتے ہیں کہ مہنگائی کے جن کو قابو کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں طنز کی زیادتی اور مزاح کی قلت ہے کیونکہ طنز تلخی کی پیداوار ہے اور مزاح آسودگی کی، اس لئے اس دور میں جو لوگ طنز و مزاح لکھ رہے ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں، خصوصاً اس سلسلے میں خواتین کے جو چند نام نظر آتے ہیں ان کی خصوصی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے تاکہ دیگر اصنافِ سخن کی طرح طنز و مزاح میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نظر آئیں۔ ویسے بھی حکومت نے اپنے اقدامات سے طنز و مزاح کے بیشمار نئے موضوعات پیدا کر دئے ہیں۔ طنز و مزاح ٹینشن کے اس دور کی اہم ضرورت ہے، اس کے باوجود ادبی سطح پر اس کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور حکومتی سطح پر سوتیلے پن کی یہی وجہ ہے کہ کسی مزاح نگار کو آج تک کوئی اعلیٰ ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ اگر کسی مزاح نگار کو کوئی اعزاز دیا بھی گیا ہے تو اس کی وجہ اُس کے مزاح نگار ہونے کے بجائے اُس کی ذاتی اثر و رسوخ اور سیاسی چلت پھرت ہے۔ رہی سہی کسر برقی میڈیا نے پوری کر دی ہے جنہوں نے مزاحیہ مشاعروں کو بھانڈوں کی حیثیت دے دی ہے اور عید بقر عید پر مزاحیہ مشاعرہ کرا کر کچھ مخصوص شاعروں کو بلا لیتے ہیں اور معمولی معاوضہ ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ اس میں کچھ قصور ان میں شریک ہونے شاعروں کا بھی ہے جو بھانڈوں کی سی حرکتیں کر کے ان کی سوچ کو درست ثابت کر دیتے ہیں حالانکہ مسخرے، بھانڈ اور طنز نگار میں ویسا ہی فرق ہوتا ہے، جو پھکڑ پن اور شائستہ شگفتہ کلام میں ہوتا ہے۔ بھانڈ اور مسخرے بھی اپنی جگہ اہم ہیں اور ان کی ضرورت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان میں اور مزاح نگار میں جو فرق ہے اسے ملحوظ رکھنا چاہیئے۔ یاد رکھیں کہ طنزو مزاح نگاری نہایت سنجیدہ کام ہے اسور اسے سر انجام دینے والے اکثر نہایت سنجیدہ انسان ہوتے ہیں۔ اس کی تصدیق کے لئے مشفق خواجہ، کمال احمد رضوی، ابنِ انشاء، ڈاکٹر شفیق الّرحمٰن، کرنل محمد خان، مشتاق احمد یوسفی وغیرہ کی اصلی زندگی پر نظر دوڑائیں، یہ حضرات عام انسانوں سے بھی زیادہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ ہم طنز و مزاح نگاروں کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کا کام پیش کر رہے ہیں۔ طنز و مزاح لکھنا بذات خود دشوار سہی لیکن صحت افزا مزاح لکھنا اس سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے پھکڑ پن، نمائشی اور عامیانہ بازاری زبان سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ آپ کسی مخلوق کی تخلیقی خامی (لنگڑا کانا وغیرہ) کو طنز و تضحیک کا نشانہ نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ اللہ کی صنّاعی پر طنز کے مترادف ہو گا جس کی بہرحال اجازت نہیں، ہاں کسی مخلوق کی خود ساختہ ناہمواری پر طنز بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کا مضحکہ بھی اُڑایا جا سکتا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ اس میں ہمدردی کا جذبہ نمایاں ہو، نہ کہ دل آزاری کا۔ اس کے ساتھ ساتھ شعائرِ اسلام کا مضحکہ اُڑانا بھی غیر صحتمندانہ رویہ ہے جو انسان کو گناہگار ہی نہیں، بعض صورتوں میں دائرۂ اسلام سے بھی خارج کر دیتا ہے مثلاً اللہ، دوزخ، جنت، فرشتوں، مُردوں، داڑھی یاکسی دینی معاملے کا مذاق اُڑانا وغیرہ۔ زبان و بیان کی غلطی تو بعض اوقات مزاح کے ذیل میں آ جاتی ہے لیکن نظریاتی غلطی روحانی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے، اس لئے اس کا خیال رکھنا چاہیئے۔ دوسروں کا خیال رکھیں اور طنز و مزاح میں کسی کی دل آزاری سے بچیں، اللہ نگہبان۔

٭٭٭

 

 

 

 

پرانے چاول

 

مرحوم کی یاد میں

 

                پطرس بخاری

 

ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہو جائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے۔ لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹرکار گزر جاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی موٹرکار کو دیکھوں، مجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے۔ اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جا سکے۔ اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے سے گزر جائے کہ گرد و غبار میرے پھیپھڑوں، میرے دماغ، میرے معدے اور میری تلّی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آ کر علم کیمیا کی وہ کتاب نکل لیتا ہوں جو میں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔ اور اس غرض سے اُس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آ جائے۔

میں کچھ دیر تک آہیں بھرتا رہا۔ مرزا صاحب نے کچھ توجہ نہ کی۔ آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور مرزا صاحب سے مخاطب ہو کر کہا ’’مرزا صاحب۔ ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے ؟‘‘

مرزا صاحب بولے ’’بھئی کچھ ہو گا ہی نا آخر۔ ‘‘

میں نے کہا ’’میں بتاؤں تمہیں ؟‘‘

کہنے لگے ’’بولو۔ ‘‘

میں نے کہا ’’کوئی فرق نہیں۔ سنتے ہو مرزا؟ کوئی فرق نہیں۔ ہم میں اور حیوانوں میں۔ ۔ ۔ کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں ! ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو۔ کہہ دو گے۔ حیوان جگالی کرتے ہیں، تم جگالی نہیں کرتے۔ ان کے دم ہوتی ہے۔ تمہاری دم نہیں۔ لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے ؟ ان سے تو صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں لیکن ایک بات میں، میں اور وہ بالکل برابر ہیں۔ وہ بھی پیدل چلتے ہیں اور میں بھی پیدل چلتا ہوں۔ اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے ؟ جواب نہیں۔ کچھ ہے تو کہو۔ بس چپ ہو جاؤ۔ تم کچھ نہیں کر سکے۔ جب سے میں پیدا ہوا ہوں اور اس دن سے پیدل چل رہا ہوں۔ ‘‘

’’پیدل۔ ۔ ۔ تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔ پیدل کے معنی ہیں سینۂ زمین پر اس طرح سے حرکت کرنا کہ دونوں پاؤں میں ایک ضرور زمین پر رہے۔ یعنی تمام عمر میرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہا ہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں اور دوسرا اٹھاتا ہوں۔ دوسرا رکھتا ہوں پہلا اٹھاتا ہوں۔ ایک آگے ایک پیچھے، ایک پیچھے ایک آگے۔ خدا کی قسم اس طرح زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ حواس بیکار ہو جاتے ہیں۔ تخیل مر جاتا ہے۔ آدمی گدھے سے بدتر ہو جاتا ہے۔ ‘‘

مرزا صاحب میری اس تقریر کے دوران میں کچھ اس بے پروائی سے سگریٹ پیتے رہے کہ دوستوں کی بے وفائی پر رونے کو دل چاہتا تھا۔ میں نے از حد حقارت اور نفرت کے ساتھ منہ ان کی طرف پھیر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مرزا کو میری باتوں پر یقین ہی نہیں آتا۔ گویا میں اپنی جو تکالیف بیان کر رہا ہوں وہ محض خیالی ہیں یعنی میرا پیدل چلنے کے خلاف شکایت کرنا قابل توجہ ہی نہیں۔ یعنی میں کسی سواری کا مستحق ہی نہیں۔ میں نے دل میں کہا ’’اچھا مرزا یوں ہی سہی۔ دیکھو تو میں کیا کرتا ہوں۔ ‘‘

میں نے اپنے دانت پچی کر لیے اور کرسی کے بازو پر سے جھک کر مرزا کے قریب پہنچ گیا۔ مرزا نے بھی سر میری طرف موڑا۔ میں مسکرادیا لیکن میرے تبسم کا میں زہر ملا ہوا تھا۔

جب مرزا سننے کے لئے بالکل تیار ہو گیا تو میں نے چبا چبا کر کہا ’’مرزا میں ایک موٹرکار خریدنے لگا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر میں بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا۔

مرزا پھر بولے ’’کیا کہا تم نے ؟ کیا خریدنے لگے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’سنا نہیں تم نے۔ ایک موٹرکار خریدنے لگا ہوں۔ موٹرکار ایک ایسی گاڑی ہے جس کو بعض لوگ موٹر کہتے ہیں، بعض لوگ کار کہتے ہیں لیکن چونکہ تم ذرا کند ذہن ہو، اس لئے میں نے دونوں لفظ استعمال کر دیئے۔ تاکہ تمہیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ ‘‘

مرزا بولے ’’ہوں۔ ‘‘

اب کے مرزا نہیں میں بے پروائی سے سگریٹ پینے لگا۔ بھویں میں نے اُوپر کو چڑھا لیں۔ پھرسگریٹ والا ہاتھ منہ تک اس انداز سے لاتا اور لے جاتا تھا کہ بڑے بڑے ایکٹر اس پر رشک کریں۔

تھوڑی دیر کے بعد مرزا بولے ’’ہوں۔ ‘‘

میں سوچا اثر ہو رہا ہے۔ مرزا صاحب پر رعب پڑ رہا ہے۔ میں چاہتا تھا، مرزا کچھ بولے، تاکہ مجھے معلوم ہو، کہاں تک مرعوب ہوا ہے لیکن مرزا نے پھر کہا ’’ہوں۔ ‘‘

میں نے کہا ’’مرزا جہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے اسکول اور کالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ تمہیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی اسکول یا کالج یا شریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے۔ پھر بھی اس وقت تمہارا کلام ’’ہوں ‘‘ سے آگے نہیں بڑھتا۔ تم جلتے ہو۔ مرزا اس وقت تمہاری جو ذہنی کیفیت ہے، اس کو عربی زبان میں حسد کہتے ہیں۔ ‘‘

مرزا صاحب کہنے لگے ’’نہیں یہ بات تو نہیں، میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کر رہا تھا۔ تم نے کہا میں ایک موٹرکار خریدنے لگا ہوں تو میاں صاحب زادے خریدنا تو ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے لئے روپے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہو جائے گا۔ لیکن روپے کا بندوبست کیسے کرو گے ؟‘‘

یہ نکتہ مجھے بھی نہ سوجھا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ میں نے کہا ’’میں اپنی کئی قیمتی اشیاء بیچ سکتا ہوں۔ ‘‘

مرزا بولے ’’کون کون سی مثلاً؟‘‘

میں نے کہا ’’ایک تو میں سگریٹ کیس بیچ ڈالوں گا۔ ‘‘

مرزا کہنے لگے ’’چلو دس آنے تو یہ ہو گئے، باقی ڈھائی تین ہزار کا انتظام بھی کسی طرح ہو جائے تو سب کام ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

اس کے بعد ضروری یہی معلوم ہوا کہ گفتگو کا سلسلہ کچھ دیر کے لئے روک دیا جائے۔ چنانچہ میں مرزا سے بیزار ہو کر خاموش ہو رہا۔ یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ لوگ روپیہ کہاں سے لاتے ہیں۔ بہت سوچا۔ آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ چوری کرتے ہیں۔ اس سے ایک گونہ اطمینان ہوا۔

مرزا بولے ’’میں تمہیں ایک ترکیب بتاؤں ایک بائسیکل لے لو۔ ‘‘

میں نے کہا ’’وہ روپیہ کا مسئلہ تو پھر بھی جوں کا توں رہا۔ ‘‘

کہنے لگے ’’مفت۔ ۔ ۔ ‘‘

میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’مفت وہ کیسے ؟‘‘

کہنے لگے ’’مفت ہی سمجھو۔ آخر دوست سے قیمت لینا بھی کہاں کی شرافت ہے۔ البتہ تم احسان قبول کرنا گوارا نہ کرو تو اور بات ہے۔ ‘‘

ایسے موقع پر جو ہنسی میں ہنستا ہوں، اس میں معصوم بچے کی مسرت، جوانی کی خوش دلی، اُبلتے ہوئے فواروں کی موسیقی، بلبلوں کا نغمہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں یہ ہنسی ہنسا۔ اور اس طرح ہنسا کہ کھلی ہوئی بانچھیں پھر گھنٹوں تک اپنی اصلی جگہ پر واپس نہ آئیں۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ یک لخت کوئی خوشخبری سننے سے دل کی حرکت بند ہو جانے کا جو خطرہ ہوتا ہے اس سے محفوظ ہوں، تو میں نے پوچھا ’’کس کی؟‘‘

مرزا بولے ’’میرے پاس ایک بائیسکل پڑی ہے، تم لے لو۔ ‘‘

میں نے کہا ’’پھر کہنا۔ ۔ ۔ پھر کہنا!‘‘

کہنے لگے ’’بھئی ایک بائیسکل میرے پاس ہے جب میری ہے، تو تمہاری ہے، تم لے لو۔ ‘‘

یقین مانئے مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ شرم کے مارے میں پسینہ پسینہ ہو گیا۔ چودھویں صدی میں ایسی بے غرضی اور ایثار بھلا کہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ میں نے کرسی سرکا کر مرزا کے پاس کر لی، سمجھ میں نہ آیا کہ اپنی ندامت اور ممنونیت کا اظہار کن الفاظ میں کروں۔

میں نے کہا ’’مرزا صاحب سب سے پہلے تو میں اس گستاخی اور درشتی اور بے ادبی کے لئے معافی مانگتا ہوں، جو ابھی میں نے تمہارے ساتھ گفتگو میں روا رکھی، دوسرے میں آج تمہارے سامنے ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم میری صاف گوئی کی داد دو گے اور مجھے اپنی رحم دلی کے صدقے معاف کر دو گے۔ میں ہمیشہ تم کو از حد کمینہ، ممسک، خودغرض اور عیار انسان سمجھتارہا ہوں۔ دیکھو ناراض مت ہو۔ انسان سے غلطی ہوہی جاتی ہے۔ لیکن آج تم نے اپنی شرافت اور دوست پروری کا ثبوت دیا ہے اور مجھ پر ثابت کر دیا ہے کہ میں کتنا قابل نفرت، تنگ خیال اور حقیر شخص ہوں، مجھے معاف کر دو۔ ‘‘

میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، قریب تھا کہ میں مرزا کے ہاتھ بوسہ دیتا اور اپنے آنسوؤں کو چھپانے کے لئے اس کی گود میں سر رکھا دیتا، لیکن مرزا صاحب کہنے لگے ’’واہ اس میں میری فیاضی کیا ہوتی، میرے پاس ایک بائیسکل ہے، جیسے میں سوار ہوا، ویسے تم سوار ہوئے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’مرزا، مفت میں نہ لوں گا، یہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

مرزا کہنے لگے ’’بس میں اسی بات سے ڈرتا تھا، تم حساس اتنے ہو کہ کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ خدا گواہ ہے، احسان اس میں کوئی نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا ’’خیر کچھ بھی سہی، تم سچ مچ مجھے اس کی قیمت بتا دو۔ ‘‘

مرزا بولے ’’قیمت کا ذکر کر کے تم گویا مجھے کانٹوں میں گھسیٹنے ہو اور جس قیمت پر میں نے خریدی تھی، وہ تو بہت زیادہ تھی اور اب تو وہ اِتنے کی رہی بھی نہیں۔ ‘‘

میں نے پوچھا ’’تم نے کتنے میں خریدی تھی؟‘‘

کہنے لگے ’’میں نے پونے دو سو روپے میں لی تھی، لیکن اُس زمانے میں بائیسکلوں کا رواج ذرا کم تھا، اس ل?ے قیمتیں ذرا زیادہ تھیں۔ ‘‘

میں نے کہا ’’کیا بہت پرانی ہے ؟‘‘

بولے ’’نہیں ایسی پرانی بھی کیا ہوتی، میرا لڑکا اس پر کالج آیا جایا کرتا تھا، اور اسے کالج چھوڑے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے، لیکن اِتنا ضرور ہے کہ آج کل کی بائیسکلوں سے ذرا مختلف ہے، آج کل تو بائیسکلیں ٹین کی بنتی ہے۔ جنہیں کالج کے سرپھرے لونڈے سستی سمجھ کر خرید لیتے ہیں۔ پرانی بائیسکلوں کے ڈھانچے مضبوط ہوا کرتے تھے۔ ‘‘

’’مگر مرزا پونے دو سو روپے تو میں ہرگز نہیں دے سکتا، اِتنے روپے میرے پاس کہاں سے آئے، میں تو اس سے آدھی قیمت بھی نہیں دے سکتا۔ ‘‘

مرزا کہنے لگے ’’تو میں تم سے پوری قیمت تھوڑی مانگتا ہوں، اول تو قیمت لینا نہیں چاہتا لیکن۔ ۔ ۔ ‘‘

میں نے کہا ’’نہ مرزا قیمت تو تمہیں لینی پڑے گی۔ اچھا تم یوں کرو میں تمہاری جیب میں کچھ روپے ڈال دیتا ہوں تم گھر جا کے گن لینا، اگر تمہیں منظور ہوئے تو کل بائیسکل بھیج دینا ورنہ روپے واپس کر دینا، اب یہاں بیٹھ کر میں تم سے سودا چکاؤں، یہ تو کچھ دکان داروں کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

مرزا بولے ’’بھئی جیسے تمہاری مرضی، میں تو اب بھی یہی کہتا ہوں کہ قیمت ویمت جانے دو لیکن میں جانتا ہوں کہ تم نہ مانو گے۔ ‘‘

میں اٹھ کر اندر کمرے میں آیا، میں نے سوچا استعمال شدہ چیز کی لوگ عام طور پر آدھی قیمت دیتے ہیں لیکن جب میں نے مرزا سے کہا تھا کہ مرزا میں تو آدھی قیمت بھی نہیں دے سکتا تو مرزا اس پر معترض نہ ہوا تھا، وہ بیچارہ تو بلکہ یہی کہتا تھا کہ تم مفت ہی لے لو، لیکن مفت میں کیسے لے لوں۔ آخر بائیسکل ہے۔ ایک سواری ہے۔ فٹنوں اور گھوڑوں اور موٹروں اور تانگوں کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ بکس کھولا تو معلوم ہوا کہ ہست و بود کل چھیالیس روپے ہیں۔ چھیالیس روپے تو کچھ ٹھیک رقم نہیں۔ پنتالیس یا پچاس ہوں، جب بھی بات ہے۔ پچاس تو ہو نہیں سکتے۔ اور اگر پنتالیس ہی دینے ہیں تو چالیس کیوں نہ دیئے جائیں۔ جن رقموں کے آخر میں صفر آتا ہے وہ رقمیں کچھ زیادہ معقول معلوم ہوتی ہیں بس ٹھیک ہے، چالیس روپے دے دوں گا۔ خدا کرے مرزا قبول کر لے۔

باہر آیا چالیس روپے مٹھی میں بند کر کے میں نے مرزا کی جیب میں ڈال دیئے اور کہا ’’مرزا اس کو قیمت نہ سمجھنا۔ لیکن اگر ایک مفلس دوست کی حقیر سی رقم منظور کرنا تمہیں اپنی توہین معلوم نہ ہو تو کل بائیسکل بھجوا دینا۔ ‘‘

مرزا چلنے لگے تو میں نے پھر کہا کہ مرزا کل ضرور صبح ہی صبح بھجوا دینا۔ رخصت ہونے سے پہلے میں نے پھر ایک دفعہ کہا ’’کل صبح آٹھ نو بجے تک پہنچ جائے، دیر نہ کر دینا۔ ۔ ۔ خدا حافظ۔ ۔ ۔ اور دیکھو مرزا میرے تھوڑے سے روپوں کو بھی زیادہ سمجھنا۔ ۔ ۔ خدا حافظ۔ ۔ ۔ اور تمہارا بہت بہت شکریہ، میں تمہارا بہت ممنون ہوں اور میری گستاخی کو معاف کر دینا، دیکھو نا کبھی کبھی یوں ہی بے تکلفی میں۔ ۔ ۔ کل صبح آٹھ نو بجے تک۔ ۔ ۔ ضرور۔ ۔ ۔ خدا حافظ۔ ۔ ۔ ‘‘

مرزا کہنے لگے ’’ذرا اس کو جھاڑ پونچھ لینا اور تیل وغیرہ ڈلوا لینا۔ میرے نوکر کو فرصت ہوئی تو خود ہی ڈلوا دوں گا، ورنہ تم خود ہی ڈلوا لینا۔ ‘‘

میں نے کہا ’’ہاں ہاں وہ سب کچھ ہو جائے گا، تم کل بھیج ضرور دینا اور دیکھنا آٹھ بجے تک ساڑھے آٹھ سات بجے تک پہنچ جائے۔ اچھا۔ ۔ ۔ خدا حافظ!‘‘

رات کو بستر پر لیٹا تو بائیسکل پر سیر کرنے کے مختلف پروگرام تجویز کرتا رہا۔ یہ ارادہ تو پختہ کر لیا کہ دو تین دن کے اندر اندر اردگرد کی تمام مشہور تاریخی عمارات اور کھنڈروں کو نئے سرے سے دیکھ ڈالوں گا۔ اس کے بعد اگلے گرمی کے موسم میں ہو سکا تو بائیسکل پر کشمیر وغیرہ کی سیر کروں گا۔ صبح صبح کی ہوا خوری کے لئے ہر روز نہر تک جایا کروں گا۔ شام کو ٹھنڈی سڑک پر جہاں اور لوگ سیر کو نکلیں گے میں بھی سڑک کی صاف شفاف سطح پر ہلکے ہلکے خاموشی کے ساتھ ہاتھی دانت کی ایک گیند کی مانند گزر جاؤں گا۔ ڈوبتے ہوئے آفتاب کی روشنی بائیسکل کے چمکیلے حصوں پر پڑے گی تو بائیسکل جگمگا اُٹھے گی اور ایسا معلوم ہو گا جیسے ایک راج ہنس زمین کے ساتھ ساتھ اُڑ رہا ہے۔ وہ مسکراہٹ جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں ابھی تک میرے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی، بارہا دل چاہا کہ ابھی بھاگ کر جاؤں اور اسی وقت مرزا کو گلے لگا لوں۔

رات کو خواب میں دعائیں مانگتا رہا کہ خدایا مرزا بائیسکل دینے پر رضامند ہو جائے۔ صبح اٹھا تو اٹھنے کے ساتھ ہی نوکر نے یہ خوشخبری سنائی کے حضور وہ بائیسکل آ گئی ہے۔ میں نے کہا ’’اِتنے سویرے ؟‘‘

نوکر نے کہا ’’وہ تو رات ہی کو آ گئی تھی، آپ سو گئے تھے میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور ساتھ ہی مرزا صاحب کا آدمی یہ ڈھبریاں کسنے کا ایک اوزار بھی دے گیا ہے۔ ‘‘

میں حیران تو ہوا کہ مرزا صاحب نے بائیسکل بھجوا دینے میں اس قدر عجلت سے کیوں کام لیا لیکن اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی نہایت شریف اور دیانت دار ہیں۔ روپے لے لئے تھے تو بائیسکل کیوں روک رکھتے۔

نوکر سے کہا ’’دیکھو یہ اوزار یہیں چھوڑ جاؤ اور دیکھو بائیسکل کو کسی کپڑے سے خوب اچھی طرح جھاڑو۔ اور یہ موڑ پر جو بائیسکلوں والا بیٹھتا ہے اس سے جا کر بائیسکل میں ڈالنے کا تیل لے آؤ اور دیکھو، اے بھاگا کہاں جا رہا ہے ہم ضروری بات تم سے کہہ رہے ہیں، بائیسکل والے سے تیل کی ایک کپی بھی لے آنا اور جہاں جہاں تیل دینے کی جگہ ہے وہاں تیل دے دینا اور بائیسکلوں والے سے کہنا کہ کوئی گھٹیا سا تیل نہ دیدے۔ جس سے تمام پرزے ہی خراب ہو جائیں، بائیسکل کے پرزے بڑے نازک ہوتے ہیں اور بائیسکل باہر نکال رکھو، ہم ابھی کپڑے پہن کر آتے ہیں۔ ہم ذرا سیر کو جا رہے ہیں اور دیکھو صاف کر دینا اور بہت زور زور سے کپڑا بھی مت رگڑنا، بائیسکل کا پالش گھس جاتا ہے۔ ‘‘

جلدی جلدی چائے پی، غسل خانے میں بڑے جوش خروش کے ساتھ ’’چل چل چنبیلی باغ میں ‘‘ گاتا رہا اس کے بعد کپڑے بدلے، اوزار کو جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکلا۔

برآمدے میں آیا تو برآمدے کے ساتھ ہی ایک عجیب و غریب مشین پر نظر پڑی۔ ٹھیک طرح پہچان نہ سکا کہ کیا چیز ہے، نوکر سے دریافت کیا ’’کیوں بے یہ کیا چیز ہے ؟‘‘

نوکر بولا ’’حضور یہ بائیسکل ہے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’بائیسکل؟ کس کی بائیسکل؟‘‘

کہنے لگا ’’مرزا صاحب نے بھجوائی ہے آپ کے لئے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’اور جو بائیسکل رات کو انہوں نے بھیجی تھی وہ کہاں گئی؟‘‘

کہنے لگا ’’یہی تو ہے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’کیا بکتا ہے جو بائیسکل مرزا صاحب نے کل رات کو بھیجی تھی وہ بائیسکل یہی ہے ؟‘‘

کہنے لگا ’’جی ہاں۔ ‘‘

میں نے کہا ’’اچھا‘‘ اور پھر اسے دیکھنے لگا ’’اس کو صاف کیوں نہیں کیا؟‘‘

’’اس کو دو تین دفعہ صاف کیا ہے ؟‘‘

’’تو یہ میلی کیوں ہے ؟‘‘

نوکر نے اس کا جواب دینا شاید مناسب نہ سمجھا۔

’’اور تیل لایا؟‘‘

’’ہاں حضور لایا ہوں۔ ‘‘

’’دیا؟‘‘

’’حضور وہ تیل دینے کے چھید ہوتے ہیں وہ نہیں ملتے۔ ‘‘

’’کیا وجہ ہے ؟‘‘

’’حضور دُھروں پر میل اور زنگ جما ہے۔ وہ سوراخ کہیں بیچ ہی میں دب دبا گئے ہیں۔ ‘‘

رفتہ رفتہ میں اس چیز کے قریب آیا۔ جس کو میرا نوکر بائیسکل بتا رہا تھا۔ اس کے مختلف پرزوں پر غور کیا تو اتنا تو ثابت ہو گیا کہ یہ بائیسکل ہے لیکن مجموعی ہیئت سے یہ صاف ظاہر تھا کہ بل اور رہٹ اور چرخہ اور اس طرح کی ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے۔ پہیے کو گھما گھما کر وہ سوراخ تلاش کیا جہاں کسی زمانے میں تیل دیا جاتا تھا، لیکن اب اس سوراخ میں سے آمدورفت کا سلسلہ بند تھا۔ چنانچہ نوکر بولا ’’حضور وہ تیل تو سب ادھر اُدھر بہہ جاتا ہے۔ بیچ میں تو جاتا ہی نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا ’’اچھا اوپر اوپر ہی ڈال دو یہ بھی مفید ہوتا ہے۔ ‘‘

آخرکار بائیسکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی اس پر بائیسکل خودبخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہوئی۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں۔ چاں۔ چوں کی قسم آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ، کھڑکھڑ۔ کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھی۔ چر۔ چرخ۔ چر۔ چرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑچڑ بولنے لگتی تھی اور پھر ڈھیلی ہو جاتی تھی۔ پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا اور اس کے علاوہ داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنے کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔ مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیوں کے عین اوپر نہ تھے۔ ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کرنے کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہو رہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔

اگلے پہیے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اُٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔ پچھلے اور اگلے پہیے کو ملا کر چوں چوں پھٹ۔ چوں چوں پھٹ۔ ۔ ۔ کی صدا نکل رہی تھی۔ جب اتار پر بائیسکل ذرا تیز ہوئی تو فضاء میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اور بائیسکل کے کئی اور پرزے جو اب تک سو رہے تھے، بیدار ہو کر گویا ہوئے۔ ادھر اُدھر کے لوگ چونکے۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو اپنے سینوں سے لگا لیا۔ کھڑڑ کھڑڑ کے بیچ میں پہیوں کی آواز جدا سنائی رہی تھی لیکن چونکہ بائیسکل اب پہلے سے تیز تھی اس لئے چوں چوں پھٹ، چوں چوں پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ، چچوں پھٹ، کی صورت اختیار کر لی تھی۔ تمام بائیسکل کسی اَدق افریقی زبان کی گردانیں دہرا رہی تھی۔

اس قدر تیز رفتاری بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری۔ چنانچہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہو گئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جاتو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کو مڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بائیسکل کی گدی دفعتہً چھ انچ کے قریب نیچے بیٹھ گئی۔ چنانچہ جب پیڈل چلانے کے لئے میں ٹانگیں اوپر نیچے کر رہا تھا تو میرے گھٹنے میری تھوڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ کمر دہری ہو کر باہر کو نکلی ہوئی تھی اور ساتھ ہی اگلے پہیے کی اٹھی کیلوں کی وجہ سے سر برابر جھٹکے کھا رہا تھا۔

گدی کا نیچا ہو جانا از حد تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اس لئے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس کو ٹھیک کر لوں۔ چنانچہ میں نے بائیسکل کو ٹھہرا لیا اور نیچے اترا۔ بائیسکل کے ٹھہر جانے سے یک لخت جیسے دنیا میں ایک خاموشی سی چھا گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میں کسی ریل کے اسٹیشن سے نکل کر باہر آ گیا ہوں۔ جیب سے میں نے اوزار نکالا، گدی کو اونچا کیا، کچھ ہینڈل کو ٹھیک کیا اور دوبارہ سوار ہو گیا۔

دس قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچا ہو گیا۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصور کریں تو آپ معلوم ہو گا کہ میں دُور سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔ یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگتا تھا لیکن ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافتِ طبع کا باعث نہ ہو۔

ہینڈل تو نیچا ہو ہی گیا تھا، تھوڑی دیر کے بعد گدی بھی پھر نیچی ہو گئی اور میں ہمہ تن زمین کے قریب پہنچ گیا۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’دیکھو یہ آدمی کیا کر رہا ہے۔ ‘‘ گویا اس بدتمیز کے نزدیک میں کوئی کرتب دکھا رہا تھا۔ میں نے اتر کر پھر ہینڈل اور گدی کو اونچا کیا۔

لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک نہ ایک پھر نیچا ہو جاتا۔ وہ لمحے جن کے دوران میں میرا ہاتھ اور میرا جسم دونوں ہی بلندی پر واقع ہوں، بہت ہی کم تھے اور ان میں بھی میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب کہ گدی پہلے بیٹھے گی یا ہینڈل؟ چنانچہ نڈر ہو کر نہ بیٹھتا بلکہ جسم کو گدی سے قدرے اوپر ہی رکھتا لیکن اس سے ہینڈل پر اتنا بوجھ پڑ جاتا کہ وہ نیچا ہو جاتا۔

جب دو میل گزر گئے اور بائیسکل کی اٹھک بیٹھک نے ایک مقرر باقاعدگی اختیار کر لی تو فیصلہ کیا کہ کسی مستری سے پیچ کسوا لینے چاہئیں چنانچہ بائیسکل کو ایک دکان پر لے گیا۔ بائیسکل کی کھڑکھڑ سے دوکان میں جتنے لوگ کام کر رہے تھے، سب کے سب سر اٹھا کر میری طرف دیکھنے لگے لیکن میں نے جی کڑا کر کے کہا ’’ذرا اس کی مرمت کر دیجئے۔ ‘‘

ایک مستری آگے بڑھا، لوہے کی ایک سلاخ اس کے ہاتھ میں تھی جس سے اس نے مختلف حصوں کو بڑی بیدردی سے ٹھوک بجا کر دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ سب حالات کا اندازہ لگا لیا ہے لیکن پھر بھی مجھ سے پوچھنے لگا ’’کس کس پرزے کی مرمت کرائیے گا؟‘‘

میں نے کہا ’’بڑے گستاخ ہو تم دیکھتے نہیں کہ صرف ہینڈل اور گدی کو ذرا اونچا کروا کے کسوانا ہے بس اور کیا؟ ان کو مہربانی کر کے فوراً ٹھیک کرو اور بتاؤ کتنے پیسے ہوئے ؟‘‘

مستری نے کہا ’’مڈگارڈ بھی ٹھیک نہ کر دوں ؟‘‘

میں نے کہا ’’ہاں، وہ بھی ٹھیک کر دو۔ ‘‘

کہنے لگا ’’ اگر آپ باقی چیزیں بھی ٹھیک کرا لیں تو اچھا ہو۔ ‘‘

میں نے کہا ’’اچھا کر دو۔ ‘‘

بولا ’’یوں تھوڑا ہو سکتا ہے۔ دس پندرہ دن کا کام ہے آپ اسے ہمارے پاس چھوڑ جائیے۔ ‘‘

’’اور پیسے کتنے لو گے ؟‘‘

کہنے لگا ’’بس چالیس روپے لگیں گے۔ ‘‘

ہم نے کہا ’’بس جی جو کام تم سے کہا ہے کر دو اور باقی ہمارے معاملات میں دخل مت دو۔ ‘‘

تھوڑی دیر بعد ہینڈل اور گدی پھر اونچی کر کے کس دی گئی۔ میں چلنے لگا تو مستری نے کہا ’’میں نے کس تو دیا ہے لیکن پیچ سب گھسے ہوئے ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں پھر ڈھیلے ہو جائیں گے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’بدتمیز کہیں کا، تو دو آنے پیسے مفت میں لے لئے ؟‘‘

بولا ’’جناب آپ کو بائیسکل بھی مفت میں ملی ہو گی، یہ آپ کے دوست مرزا صاحب کی ہے نا؟ للّو یہ وہی بائیسکل ہے جو پچھلے سال مرزا صاحب یہاں بیچنے کو لائے تھے۔ پہچانی تم نے ؟ بھئی صدیاں ہی گزر گئیں لیکن اس بائیسکل کی خطاء معاف ہونے میں نہیں آتی۔ ‘‘

میں نے کہا ’’واہ مرزا صاحب کے لڑکے اس پر کالج آیا جایا کرتے تھے اور ان کو ابھی کالج چھوڑے دو سال بھی نہیں ہوئے۔ ‘‘

مستری نے کہا ’’ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن مرزا صاحب خود جب کالج میں پڑھتے تھے تو ان کے پاس بھی تو یہی بائیسکل تھی۔ ‘‘

میری طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہو گئی۔ میں نے بائیسکل کو ساتھ لئے آہستہ آہستہ پیدل چل پڑا۔ لیکن پیدل چلنا بھی مشکل تھا۔ اس بائیسکل کے چلانے میں ایسے ایسے پٹھوں پر زور پڑتا تھا جو عام بائیسکلوں کو چلانے میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس ل?ے ٹانگوں اور کندھوں اور کمر اور بازوؤں میں جا بجا درد ہو رہا تھا۔ مرزا کا خیال رہ رہ کر آتا تھا۔ لیکن میں ہر بار کوشش کر کے اسے دل سے ہٹا دیتا تھا، ورنہ میں پاگل ہو جاتا اور جنون کی حالت میں پہلے حرکت مجھ سے یہ سرزد ہوئی کہ مرزا کے مکان کے سامنے بازار میں ایک جلسہ منعقد کرتا جس میں مرزا کی مکاری، بے ایمانی اور دغا بازی پر ایک طویل تقریر کرتا۔ کل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کی ناپاک فطرت سے آگاہ کر دیتا اور اس کے بعد ایک چتا جلا کر اس میں زندہ جل کر مر جاتا۔

میں نے بہتر یہی سمجھا کہ جس طرح ہو سکے اب اس بائیسکل کو اونے پونے داموں میں بیچ کر جو وصول ہوا اسی پر صبر شکر کروں۔ بلا سے دس پندرہ روپیہ کا خسارہ سہی۔ چالیس کے چالیس روپے تو ضائع نہ ہوں گے۔ راستے میں بائیسکلوں کی ایک اور دکان آئی وہاں ٹھہر گیا۔

دُکاندار بڑھ کر میرے پاس آیا لیکن میری زبان کو جیسے قفل لگ گیا تھا۔ عمر بھر کسی چیز کے بیچنے کی نوبت نہ آئی تھی مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایسے موقع پر کیا کہتے ہیں آخر بڑے سوچ بچار اور بڑے تامل کے بعد منہ سے صرف اتنا نکلا کہ یہ ’’بائیسکل‘‘ ہے۔

دکاندار کہنے لگا ’’پھر؟‘‘

میں نے کہا ’’لو گے۔ ‘‘

کہنے لگا ’’کیا مطلب؟‘‘

میں نے کہا ’’بیچتے ہیں ہم۔ ‘‘

دکاندار نے مجھے ایسے نظر سے دیکھا کہ مجھے یہ محسوس ہوا مجھ پر چوری کا شبہ کر رہا ہے۔ پھر بائیسکل کو دیکھا۔ پھر مجھے دیکھا، پھر بائیسکل کو دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیصلہ نہیں کر سکتا آدمی کون سا ہے اور بائیسکل کون سی ہے ؟ آخرکار بولا ’’کیا کریں گے آپ اس کو بیچ کر؟‘‘

ایسے سوالوں کا خدا جانے کیا جواب ہوتا ہے۔ میں نے کہا ’’کیا تم یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ جو روپے مجھے وصول ہوں گے ان کا مصرف کیا ہو گا؟‘‘

کہنے لگا ’’وہ تو ٹھیک ہے مگر کوئی اس کو لے کر کرے گا کیا؟‘‘

میں نے کہا ’’اس پر چڑھے گا اور کیا کرے گا۔ ‘‘

کہنے لگا ’’اچھا چڑھ گیا۔ پھر؟‘‘

میں نے کہا ’’پھر کیا؟ پھر چلائے گا اور کیا؟‘‘

دکاندار بولا ’’اچھا؟ ہوں۔ خدا بخش ذرا یہاں آنا۔ یہ بائیسکل بکنے آئی ہے۔ ‘‘

جن حضرت کا اسم گرامی خدا بخش تھا انہوں نے بائیسکل کو دور ہی سے یوں دیکھا جیسے بو سونگھ رہے ہوں۔ اس کے بعد دونوں نے آپس میں مشورہ کیا، آخر میں وہ جن کا نام خدا بخش نہیں تھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’تو آپ سچ مچ بیچ رہے ہیں ؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’تو اور کیا محض آپ سے ہم کلام ہونے کا فخر حاصل کرنے کے لئے میں گھر سے یہ بہانہ گھڑ کر لایا تھا؟‘‘

کہنے لگا ’’تو کیا لیں گے آپ؟‘‘

میں نے کہا ’’تم ہی بتاؤ۔ ‘‘

کہنے لگا ’’سچ مچ بتاؤں ؟‘‘

میں نے کہا ’’اب بتاؤ گے بھی یا یوں ہی ترساتے رہو گے ؟‘‘

کہنے لگا ’’تین روپے دوں گا اس کے۔ ‘‘

میرا خون کھول اٹھا اور میرے ہاتھ پاؤں اور ہونٹ غصے کے مارے کانپنے لگے۔ میں نے کہا ’’او صنعت و حرفت سے پیٹ پالنے والے نچلے طبقے کے انسان، مجھے اپنی توہین کی پروا نہیں لیکن تو نے اپنی بیہودہ گفتاری سے اس بے زبان چیز کو جو صدمہ پہنچایا ہے اس کے لئے میں تجھے قیامت تک معاف نہیں کر سکتا۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں بائیسکل پر سوار ہو گیا اور اندھا دھند پاؤں چلانے لگا۔

مشکل سے بیس قدم گیا ہوں گا کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے زمین یک لخت اچھل کر مجھ سے آ لگی ہے۔ آسمان میرے سر پر سے ہٹ کر میری ٹانگوں کے بیچ میں سے گزر گیا اور ادھر اُدھر کی عمارتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بدل لی ہے۔ حواس بجا ہوئے تو معلوم ہوا میں زمین پر اس بے تکلفی سے بیٹھا ہوں، گویا بڑی مدت سے مجھے اس بات کا شوق تھا جو آج پورا ہوا۔ اردگرد کچھ لوگ جمع تھے جس میں سے اکثر ہنس رہے تھے۔ سامنے دکان تھی جہاں ابھی ابھی میں نے اپنی ناکام گفت و شنید کا سلسلہ منقطع کیا تھا۔ میں نے اپنے گرد و پیش پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میری بائیسکل کا اگلا پہیہ بالکل ہو کر لڑھکتا ہوا سڑک کے اس پار جا پہنچا ہے اور باقی سائیکل میرے پاس پڑی ہے۔ میں نے فوراً اپنے آپ کو سنبھالا۔ جو پہیہ الگ ہو گیا تھا اس کو ایک ہاتھ میں اٹھایا دوسرے ہاتھ میں باقی ماندہ بائیسکل کو تھاما اور چل کھڑا ہوا۔ یہ محض ایک اضطراری حرکت تھی ورنہ حاشا و کلا وہ بائیسکل مجھے ہرگز اتنی عزیز نہ تھی کہ میں اس کو اس حالت میں ساتھ ساتھ لیے پھرتا۔

جب میں یہ سب کچھ اٹھا کر چل دیا تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو، کہاں جا رہے ہو؟ تمہارا اِرادہ کیا ہے۔ یہ دو پہیے کا ہے کو لے جا رہے ہو؟

سب سوالوں کا جواب یہی ملا کہ دیکھا جائے گا۔ فی الحال تم یہاں سے چل دو۔ سب لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔ سر اونچا رکھو اور چلتے جاؤ۔ جو ہنس رہے ہیں، انہیں ہنسنے دو، اس قسم کے بیہودہ لوگ ہر قوم اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ آخر ہوا کیا۔ محض ایک حادثہ۔ بس دائیں بائیں مت دیکھو۔ چلتے جاؤ۔

لوگوں کے ناشائستہ کلمات بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک آواز آئی ’’بس حضرت غصہ تھوک ڈالیئے۔ ‘‘ ایک دوسرے صاحب بولے ’’بے حیا بائیسکل گھر پہنچ کے تجھے مزا چکھاؤں گا۔ ‘‘ ایک والد اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے جا رہے تھے۔ میری طرف اشارا کر کے کہنے لگے ’’دیکھا بیٹا یہ سرکس کی بائیسکل ہے۔ اس کے دونوں پہیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ‘‘

لیکن میں چلتا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں آبادی سے دُور نکل گیا۔ اب میری رفتار میں ایک عزیمت پائی جاتی تھی۔ میرا دِل جو کئی گھنٹوں سے کشمکش میں پیچ و تاب کھا رہا تھا، اب بہت ہلکا ہو گیا تھا۔ میں چلتا گیا چلتا گیا حتیٰ کہ دریا پر جا پہنچا۔ پل کے اوپر کھڑے ہو کر میں نے دونوں پہیوں کو ایک ایک کر کے اس بے پروائی کے ساتھ دریا میں پھینک دیا جیسے کوئی لیٹر بکس میں خط ڈالتا ہے۔ اور واپس شہر کو روانہ ہو گیا۔

سب سے پہلے مرزا کے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مرزا بولے ’’اندر آ جاؤ۔ ‘‘

میں نے کہا ’’آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خدا رسیدہ بزرگ کے گھر وضو کئے بغیر کیسے داخل ہو سکتا ہوں۔ ‘‘

باہر تشریف لائے تو میں نے وہ اوزار اُن کی خدمت میں پیش کئے جو انہوں نے بائیسکل کے ساتھ مفت ہی مجھ کو عنایت فرمائے تھے اور کہا ’’مرزا صاحب آپ ہی اِن اوزار سے شوق فرمایا کیجیے میں اب اِن سے بے نیاز ہو چکا ہوں۔ ‘‘

گھر پہنچ کر میں نے پھر علم کیمیا کی اُس کتاب کا مطالعہ شروع کیا جو میں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

قندِ شیریں

 

 

آج کیا پکائیں

 

                سید عارف مصطفیٰ

 

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کائنات کا سب سے اہم سوال کیا ہے تو نہ تو میں آسمان و زمین کے وجود کی بابت پوچھے جانے والے کسی سوال کی جانب اشارہ کروں گا اور نہ ہی انسانی فطرت کے اسرار کے بارے میں کسی سوال کا حوالہ دوں گا۔ ۔ ۔ گو یہ سوال بھی خاصے اہم ہیں لیکن اِتنے اہم پھر بھی نہیں نہیں جتنا کہ یہ سوال کہ ” بتائیں آج کیا پکائیں ُ” اور یہ سوال میرے گھر میں کہ جسے میں اپنی کائنات کہتا ہوں، تقریباً روز ہی اٹھتا ہے اور بلا ناغہ و باقاعدگی سے صبح ابھی جبکہ ناشتہ جاری ہی ہوتا ہے، بیگم اس سوال کا ہتھوڑا لیئے میرے سر پہ آ موجود ہوتی ہیں۔ اکثر تو میں چپ چاپ نکل بھاگتا ہوں لیکن کبھی کبھی نکل بھاگنے کے سبھی رستے مسدود ہوتے ہیں کیونکہ محض ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پہ وہ ہتھوڑا بدست موجود ہوتی ہیں اور وہ یہ ہتھوڑا اس وقت تک برساتی رہتی ہیں کہ جب تک اُن کی سانس پھول نہیں جاتی یا وہ یہ سوال ہی بھول نہیں جاتیں۔ ۔ ۔ لیکن بعد میں یاد آتے ہی پھر اِسی سوال کا ہتھوڑا لیئے آ دھمکتی ہیں اور مجھے درست طور پہ یوں لگنے لگتا ہے کہ مسئلہ کھانا پکانے سے زیادہ مجھے پکانے کا ہے کیونکہ اُن کے چلے جانے کے بعد میرے دلِ حزیں سے اور منہ سے ویسی ہی مسرت انگیز سیٹی نکلتی ہے کہ جیسے خوب پکائی کے بعد پریشر ککر میں سے بجتی سنائی دیتی ہے –

پھر میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ کچھ تکلیف دہ باتیں روز یا اکثر ہی کیوں ہوتی ہیں اور خوشگوار باتوں کو بار بار ہونے سے کیا موت پڑتی ہے ؟ پھر خود کو اس ڈھنگ سے سمجھاتا ہوں کہ ” صاحب بس یوں سمجھ سے کہ کچھ نہ کچھ چیزیں اکثر گھروں میں روز ہوتی ہیں جیسے ملنسار لوگوں کے گھروں میں روز کوئی نہ کوئی کوئی مہمان آ کے پڑ جاتا ہے یا جیسے کچھ سلگتے بلکتے لوگوں کے بدن میں روز ہی صبح سے کوئی نہ کوئی درد جنم لے لیتا ہے اور وہ یہاں وہاں جسم کے کسی کسی نہ کسی حصے پہ ہاتھ رکھے ہمیشہ درد سے کراہتے سنے جاتے ہیں تو عین اس طرح یہ سوال اٹھنا آپ کے اپنے گھر کی چھوٹی سی دنیا کا مقسوم ہے اور اس پہ صبر کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں لیکن کبھی کبھی خود کو سمجھانے کی یہ کوشش بے سود بھی رہتی ہے۔ ۔ ۔ کیونکہ یہ وہ دائمی بلکہ قائمی مسئلہ ہے کہ جو روز ہی چڑاؤنا کیئے دیتا ہے اور مجھے بے طرح ڈستا ہے اور بیگم بھی تازہ دم ہوکے ہر صبح میرے عین سامنے اپنے اس سوالی مورچے پہ آ کے ڈٹ جاتی ہیں اور بلا ناغہ گفتگو کی پٹاری کھول کے اس سوال کا ناگ برآمد کرتی ہیں اور پھر یہ بین تا دیر بجتی رہتی ہے کہ”بتائیے آج کیا پکائیں۔ ”

ویسے یہ مسئلہ ایک میرے گھر سے ہی مخصوص نہیں کیونکہ پیٹ تو سب کے جسمانی سامان کا لازمی حصہ ہے اور اسی لیئے اس سوال کا ہتھوڑا بھی روز ہی ہر ایسے شریف صاحب خانہ کے سر پہ جم کے برستا ہے کہ جو گھر میں ناشتے کی فاش غلطی کرتا ہے لیکن جو لوگ اس سوال سے بچنے کے لیئے ناشتے سے قبل ہی دفتر کے نام پہ کبھی نکل بھاگتے ہیں تو ان کی زندگی ہر رات کے کھانے کے وقت ہی حرام کر دی جاتی ہے اور وہ اس سوال سے بچ پھر بھی نہیں سکتے۔ ۔ ۔ اس سوال سے ناواقف لوگ جو کہ محض کنوارے ہی ہو سکتے ہیں یا پھر ایک ماہ کے بعد ہی طلاق یا رنڈاپے کی نوبت تک پہنچ جانے والے ( کیونکہ عموماً پہلے ماہ کسی بھی طرح کی دلہن سے کام کرانے کا رسک نہیں لیا جاتا کہ اپنا دل اور کھانا دونوں جلائے گی )۔

اِس سوال والے معاملے میں عجب ستم یہ ہے کہ بظاہر تو یہ سوال کوئی ایسا خاص گھمبیر معلوم بھی نہیں ہوتا بلکہ اس طرح کے سوال میں تو مخاطب کی عزت افزائی کا پہلو چھپا معلوم ہوتا ہے۔ ۔ لیکن اس استفسار کی چبھن، اس کی حدت اور شدت کا احوال وہی لوگ جانتے ہیں کہ جو ایک عدد بیوی کے حامل ہیں اور روز ہی اس سوال کی سولی چڑھائے جاتے ہیں۔ کوئی مرد اس سوال کا صحیح جواب دے پائے، یہ کچھ یقینی بھی نہیں خواہ وہ آخری درجے کا ایک صلح جو اور مسکین سا شوہر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس مسئلے میں صرف جواب دینا ہی ضروری نہیں سمجھا جاتا بلکہ اِس جواب کو بیگم کی طرف سے شافی و کافی باور کر لینے کی سند مل جانا بھی لازمی ہے اور یوں بیگم کا درجۂ اطمینان تک پہنچ جانا ہی گلو خلاصی کی واحد شرط ہے –

میں دنیا بھر کی بات نہیں کرتا، لیکن مجھے اپنی کائنات کے سب سے بڑے مسئلے کو پوری دلجمعی و مکمل تندہی سے حل کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے عالم میں کہ بیگم اس کے حل ہونے تک سرپہ موجود رہتی ہیں اور اس سچائی سے تو ہر وہ شخص واقف ہے کہ جو کبھی نہ کبھی خود طالبعلم رہ چکا ہو کہ کوئی ذہین سے ذہین طالبعلم بھی امتحان میں پرچہ کا وہ سوال ڈھنگ سے حل نہیں کر سکتا کہ جب اس دوران خشمگیں سی صورت لیئے کوئی ممتحن اس کے سر پہ ہی کھڑا رہے اور پھر یہ سوال بھی تو وہ ہے کہ جس کے جواب میں نقل کی سہولت بھی موجود نہیں۔

اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ بیگمات کے اس روزمرہ کے سوال کہ ” آج کیا پکائیں "کے نتیجے میں ان کی پکائی کا عمل کچن سے زیادہ کچن کے باہر سرانجام پاتا ہے اور کھانا پکنے سے بہت پہلے ہی ہم جیسے شوہر حضرات ضرور پک جاتے ہیں لیکن دوسری بیگمات کی طرح چونکہ میری بیگم کے لیئے بھی یہ مسئلہ کسی عالمی مسئلے سے بھی زیادہ اہمیت لیئے ہوتا ہے چنانچہ وہ مجھے اس میں کھینچ لینا عین ضروری بلکہ لازمی سمجھتی ہیں۔ میں اپنی سی کوشش ضرور کرتا ہوں کہ ان کے اس”معمولی”سے سوال کا کوئی جواب ایک آدھ گھنٹے ہی میں دے سکوں لیکن میرا صبر اور میری بصیرت روز ہی اس آزمائش کا شکار رہتی ہیں۔ آئیے آج آپ کو بھی اس کی ایک جھلک دکھاتا ہوں۔

یہ دیکھیئے، یہ میرے گھر کا کسی ایک دن کا صبح کا روٹین منظر نامہ ہے اور حسب معمول میری بیگم نے اس وقت مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور یہی سوال کسی پتھر کی طرح مجھے کھینچ مارا ہے اور میں بدحواسی میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہوں لیکن بدحواسی کو چھپانے اور پراعتماد نظر آنے کے لیئے میں بیٹھے بیٹھے ٹانگ ہلانا شروع کر دیتا ہوں جس سے میرا پیر سامنے رکھی تپائی پہ لگ جاتا ہے اور اس پہ رکھی چائے کی پیالی فرش پہ گر پڑتی ہے اور پھر یہ منظر نامہ میری بے کلی کی صفات کو بیان کرنے سے عاجز الفاظ کے تابڑ توڑ استعمال اور شور سے جیسے یکایک بھر سا جاتا ہے۔ صاف صفائی ہو جانے اور میری ہجو میں کئی بیانات دے چکنے اور میرے اِرد گرد سے، ٹھیس لگنے کے امکان سے گر پڑنے والا سب سامان دور کر دیئے جانے کے بعد یہ منظر نامہ وہیں سے جڑ جاتا ہے کہ جہاں سے ٹوٹا تھا۔

” ارے اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو سیدھی طرح کیوں نہیں بتا دیتے کہ آج کیا پکے گا؟؟ بیگم نے غرانا شروع کر دیا تھا۔

کسی بڑے جھگڑے سے بچنے کے لیئے میں حسبِ عادت پہلے تو یہ کہہ کر جان چھڑانے کی فوری تدبیر کا سہارا لیتا ہوں اور بڑی فیاضی سے کہہ اٹھتا ہوں ” جو جی چاہے پکا لو” لیکن اکثر یہ چال کامیاب نہیں ہوتی کیونکہ ادھر سے جواب میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ "چلو آج کھانے کو رہنے ہی دیتے ہیں۔ ” جس پہ میرے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں کیونکہ میں بھوک کا بہت کچا ہوں اور یہ”رہنے دیں” والے الفاظ گویا صورِ اسرافیل معلوم ہوتے ہیں، تب میں بتیسی نکال کے کہتا ہوں کہ ” آج آلو گوشت پکا لو”۔ ۔ ۔ ۔ !

” لیکن وہ تو گزشتہ ہفتے ہی پکایا تھا۔ ۔ ۔ ”

میں ایسے موقع پہ اپنے جبڑے بھینچ لیا کرتا ہوں تاکہ شروع ہی میں کوئی لفظ ایسا نہ نکل جائے جو میری ناگواری بالکل واضح کر دے، با وقار نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے کمرے میں اِدھر سے اُدھر نظر گھماتا ہوں پھر چھت کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر بے بس نظر کھڑکی کی طرف جاتی ہے پھر کہیں سے کوئی اشارہ یا مدد نہ ملنے پہ بے بس ہوکے کندھے اچکا کے کہتا ہوں ” بھئی کچھ بھی پکا لو۔ ۔ ۔ ”

” کچھ بھی۔ ۔ ۔ ! یہ کونسی ڈش ہے بھلا کچھ بھی ؟ ” بیگم نے گویا میری نقل اتاری۔

"اچھا چلو دھوئیں والی مرغی بنا لو ” میں نے دانت نکالے۔ جس چیز کے دام گرے ہوں اسے پکوانے میں ہمیشہ بڑی مسرت پاتا ہوں۔

"وہ تو گزشتہ ہفتے دس بارہ دن پہلے ہی پکی تھی” بیگم نے یاد دلایا۔

” تو چلو اروی گوشت بنا لو” میں نے ایک اور تجویز پیش کی۔

” اسے تو گھر کے صرف آدھے ہی لوگ کھاتے ہیں ! ” بیگم نے تاویل پیش کی۔

"نہاری بنا لو!!” میں نے چمک کے کہا

” وہ ابھی چار دن پہلے ہی بنی تھی” بیگم نے وضاحت کی۔

” اخاہ۔ ۔ ۔ پائے بہت لذیذ بناتی ہو تم، آج ہو جائیں پھر پائے ؟” میں نے تعریف کے رستے جان چھڑانے کی کوشش کی۔

” خدا کا خوف کریں۔ ۔ ۔ اتنا کولیسٹرول ہوتا ہے اس میں، اور آپ کا تو بلڈ پریشر بھی ہائی رہتا ہے ” بیگم نے جیسے میڈیکل کی کتاب ہی کھول لی۔

” اچھا مچھلی لے آؤں ؟” میں نے گویا حد ہی کر دی۔

” اتنی گرمی میں ؟ اور پھر آپ کو مچھلی کی پہچان بھی کہاں ہے ؟ مچھلی کے نام پہ جو شے آپ لاتے ہیں وہ ہوتی تو مچھلی کی شباہت والی ہی ہے لیکن پہچانی بڑی مشکل سے جاتی ہے پھر چھانٹ کر پوری کوشش کر کے ایسی افلاطون مچھلی لاتے ہیں کہ کثرتِ فکر سے گوشت مکمل ناپید ہو گیا ہو بس کانٹوں کا انبار ہی رہ گیا ہو جیسے۔ ۔ ۔ آپ کی لائی مچھلی اتنی باسی ہوتی ہے کہ پکتے ہوئے باس گلی کے آخر تک جاتی ہے۔ ۔ ۔ میں اسے جیسے ہی کڑھائی میں ڈالتی ہوں دائیں بائیں کے گھروں سے نجانے کتنے لوگ کھانسنے اور بڑبڑانے لگتے ہیں۔ ”

شرمندگی کا یہ طولانی بیان بہت دیر جاری رہ سکتا تھا اگر میں موضوع فوراً ہی نہ بدل دیتا ” کیوں بیگم۔ ۔ ۔ چکن کڑھائی اچھی رہے گی نا ؟”

"پچھلی بار بنائی تھی تو زیادہ مزا نہیں آیا تھا آپ کو۔ ۔ ۔ ایک بار بھی تعریف نہیں کی تھی آپ نے جبکہ ہمیشہ بہت تعریف کرتے تھے پہلے۔ ۔ ۔ ! ”

"تو اس سے کیا ہوا؟”

” میں نے تو بڑی شرمندگی محسوس کی تھی اور قسم کھا لی تھی کہ اب ایک برس سے پہلے نہ بناؤں گی چکن کڑھائی”

” آخر ایک برس ہی کیوں ؟ ”

"تاکہ اس کا کھویا ذائقہ بحال ہو جائے اور پرانے والے کی یاد بھول جائے۔ ”

” اچھا بریانی بنا لو۔ ۔ ۔ یا پھر۔ ۔ ۔ ۔ قورمہ بھی ہو سکتا ہے۔ ” میں منمنایا۔

” آخر کیوں یہ بار بار بریانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں آپ؟؟ جب دیکھو بریانی، جب دیکھو بریانی! ابھی اس مہینے ہی چار شادی ولیموں میں یہی بریانی اور قورموں پہ تو بڑھ چڑھ کے ہاتھ صاف کیا ہے آپ نے۔ ” بیگم نے ہاتھ نچائے۔

"اچھا تو کوئی سبزی ہی بنا لو۔ ”

” مثلاً۔ ۔ ۔ ! ”

” یہ کہ بھنڈی ایکدم ٹھیک رہے گی !” مجھے جیسے راہ سوجھ گئی تھی۔

” لیکن آپ کے دو بچے تو اس کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتے۔ ۔ ۔ کیا انہیں بھوکا ماردوں ؟؟” بیگم غضبناک لہجے میں بولیں۔

میں نے فوری اپنے ناخن تدبیر سے یہ گرہ کھولی ” اچھا یوں کرو کہ آپ بھنڈی کو گوشت میں ڈال دو توسب بچے کھالیں گے۔ ”

” نہیں پھر تو بالکل نہیں کھائیں گے، گوشت بھی خوامخواہ ضائع ہو گا۔ ”

میں تنگ آ چکا تھا، بیزاری سے کہا ” تو کوئی اور سبزی پکا لو۔ ۔ ۔ !”

” مثلاً۔ ۔ ۔ !” بیگم بھی تنگ آئی لگ رہی تھیں لیکن پھر بھی لہجہ مستحکم تھا۔

"میرا خیال ہے لوکی مناسب ہے۔ ” میں نے صلح جویانہ انداز میں مشورہ دیا۔

” کیوں کیا چند دن پہلے جو لوکی پکائی تھی اس کا حشر یاد نہیں ؟ چار دن تک ساری آپ نے ہی کھائی تھی۔ ” بیگم نے یاد دلایا تو یکایک جھرجھری سی آ گئی اور دفعتاً میرے رونگٹے یکدم کھڑے ہو گئے۔ ” نہیں، نہیں بھئی لوکی کو رہنے دو۔ ”

بیگم نے لقمہ دیا ” کدو اور ٹینڈے کو تو خود آپ بھی مارا باندھے ہی کھاتے ہیں، پھر بچوں کے صبر کا امتحان کیوں لوں ؟”

” میرا خیال ہے ابھی کوئی دال چاول ہی پکا لیں تو بہتر رہے گا” میری آواز جیسے کنوئیں سے آئی۔

” بچوں کو تو ایک ملکہ مسور کی کالی دال کے سوا اور کوئی دال نہیں بھاتی، الٹ پلٹ کے وہی بار بار پکتی ہے، اسے بھی کہاں تک پکاؤں !” بیگم ترنت بولیں۔

” اچھا یوں کرو کہ خشکہ ہی بنا لو، تمہارے خاص رائتے کے ساتھ کیا مزا دیتا ہے۔ ” میں نے مسکہ لگا کے معاملے کو نپٹانے کی کوشش کی۔

” اپنے کئی بچوں کو نزلہ زکام نے جکڑا ہوا ہے اور آپ کو چاول کی سوجھ رہی ہے وہ بھی دہی کے رائیتے کے ساتھ ” بیگم نے جلے کٹے انداز میں وضاحت کی۔

” اوہو۔ ۔ ۔ میں تو بھول ہی گیا تھا!!” خوشدلی سے اپنی کوتاہی کا فوری اعتراف اکثر اچھے نتائج کا موجب بنتا ہے۔ بیگم بھی ذرا دیر کو خاموش ہوئیں اور پھر ہاتھ نچا کے گویا ہوئیں۔ "اِتنی دیر لگا دی اور ابھی تک ایک ذرا سی بات نہیں بتاس کے آہ کہ آج کیا پکائیں ؟”

” چلو یوں کرو کہ بچوں کو ہوٹل سے نہاری منگوا کے کھلا دو۔ ” میں نے ایک آسان حل یہ سوچ کے پیش کیا کہ اس سے بیگم کو ابھی پکانے کے کام سے چھوٹ مل جائے گی تو دل کا نرم پڑنا یقینی ہے۔

"وہ جو منجھلے کا پیٹ چل پڑا تھا، کیا بھول گئے آپ۔ ۔ ۔ اس پہلے جو نہاری لائے تھے کتنی بھاری پڑی تھی اُسے بلکہ گھر میں ہم سب کو، کتنے پریشان ہوئے تھے اُس کے دستوں کی وجہ سے، حیرت ہے آپ کو یاد ہی نہیں جبکہ خود آپ کتنے دن ڈاکٹروں کے پاس لیئے لیئے پھرے تھے ! ” بیگم کے لیئے میری یہ پکی پکائی رعایت رائیگاں ہی رہی۔

” ارے بس ٹھیک ہے پھر۔ ۔ ۔ ہوٹل نہیں مگر تم گھر ہی میں بنا لو نہاری۔ ” میں شدید اکتاہٹ کا شکار ہو چلا تھا۔

” آپ خود ہی تو کہتے پھرتے ہیں ہر جگہ کہ نہاری تو بس ببن کے ہوٹل ہی کی مزا دیتی ہے۔ ۔ ! ” بیگم نے وار کیا۔

میں زچ ہوکے بولا ” بھئی کڑھی پکانے میں تو کوئی حرج نہیں ؟ ”

” ابھی ڈیڑھ ماہ میں دوسری بار دو ہفتہ پہلے ہی بنائی تھی تو بچے بسور رہے تھے کہ کیا ابا کی جیب کٹ گئی ہے ؟ ” بیگم کھوکھیائیں

” ہائیں۔ ۔ ۔ کیا تم نے بچوں کو ایسا بے لگام کر دیا ہے بیگم !! ایسی زبان درازی ؟ توبہ توبہ۔ ۔ ۔ باپ رے۔ ۔ ۔ میرا تو دل جل کے کباب ہو گیا ہے۔ ” میں نے ترش اور اونچے لہجے میں جھلا کے کہا۔

” ارے تو یوں گول گول کیوں گھماتے ہیں۔ ۔ ۔ صاف کیوں نہیں کہتے کہ کباب بناؤ۔ ۔ ۔ چلو ٹھیک ہے کباب بناتی ہوں۔ ۔ ۔ بہت دن بھی ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ! ”

٭٭٭

 

 

 

کتکتاریاں

 

                محمد ایوب صابر

 

ہم آج تک اپنے فکاہیہ مضامین کے ذریعے بہت سے پرندوں اور جانوروں سے چھیڑخانی کر چکے ہیں۔ بس ایک جانور ایسا ہے جس پر نہ لکھنے کا ہم نے پکا ارادہ کیا تھا۔ ہم نے سوچا کہ کتے پر نہیں لکھیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ کہ بہت ہی”کتا موضوع ” ہے، اس پر خواہ مخواہ قلم گھسائی کیوں کریں ؟ ویسے بھی ہمیں کتے جسے بھونکو جانور سے "کتکتاریاں ” کرنے کی کی ضرورت ہے مگر: ہوا یوں کہ ایک خبر کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں کتوں کے لئے ایک فائیواسٹار ہو ٹل کا افتتاح کر دیا ہے۔ ہوٹل میں کتوں کے لئے ایل سی ڈی ٹی وی اور نرم گدے والے بستر مہیا کئے گئے ہیں۔ اس ہوٹل میں ایک رات کا کرایہ 25سے لے کر 100ڈالر تک ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کتے کرایہ دے کر گدے پر بیٹھ سکتے ہیں گدھے پر نہیں۔ یہاں کتوں کے بھونکنے پر کوئی پابندی نہیں۔

میرا اپنا تعلق ہوٹل انڈسٹری سے ہے اس لئے مجھے کتوں کے ہوٹل سے کاروباری رقابت محسوس ہو رہی ہے۔ میں نے آج تک کسی سیاح کو کتے سمیت کمرے میں ٹھہرنے کی اجازت دیتے ہوئے نہیں سنا ہے۔ بعض دفعہ کچھ یورپی سیاح مع کتا ہوٹل میں قیام کی غرض سے تشریف لاتے ہیں۔ ایسے سیاح کے لئے کمرے میں اور کتے کے لئے اسٹور روم میں ٹھہرنے کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مذکورہ سیاح کا دل ساری رات کتے میں اٹکا رہتا ہو گا۔

ہمارے وطن میں کتے رکھوالی اور لڑائی کی غرض سے پالے جاتے ہیں بعض دفعہ کتوں کی لڑائی پر انسان آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ کتوں سے کھوجی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ کتا بے چارہ چور کا کھوج تو لگا لیتا ہے لیکن لوٹا ہوا مال واپس دلانا کتے کی ذمہ داری میں قطعی شامل نہیں۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگوں کو خوامخواہ کسی معروف شخصیت سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کا لاعلاج مرض ہوتا ہے۔ ایک دن ہمارے گاؤں کے ایک لندن ریٹرن خود کو برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس(جن کو ولی عہد بنے ایک عہد گزر گیا ہے )کا رشتہ دار ثابت کرنے پر بضد تھا۔ ہم نے کہا کہ جناب ! شنید ہے کہ آپ اور پرنس چارلس کا کتا آپس میں کزن ہیں، واقعی کیا کتا رشتہ نکالا ہے۔ اس پر موصوف شرمندہ ہونے کی بجائے ضد پر اتر آئے کہ پرنس چارلس اور وہ دودھ شریک بھائی ہیں۔ میں نے کہا کہ گپیں مت ہانکو، لیکن وہ جناب ثابت کرنے پر تلے رہے اور فرمانے لگے کہ میں تمھیں اپنی بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ لندن قیام کے دوران میں جس دُکان سے دودھ لیتا تھا، پرنس چارلس کا ملازم بھی اُسی دُکان سے دودھ لیتا تھا اس طرح ہم دودھ شریک بھائی ہیں۔

میرے ایک دوست کا خیال ہے کہ امجداسلام امجد کا تحریر کردہ پی ٹی وی ڈرامہ”وارث‘پاکستان میں کتوں کا رول اہم کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔ اگر چوہدری حشمت علی، اس طرح کتوں کے پیچھے خوار نہ ہوتا تو کوئی بھی چوہدری کسی کتے کو دہشت کا علامت نہ سمجھتا۔ آجکل ہم سنتے ہیں کہ فلاں چوہدری یا وڈیرے نے غریب ہاری یا مزدور پر کتے چھوڑ دئیے ہیں۔ ہم تو ویسے ہی ناخواندگی میں آگے اور ترقی میں پیچھے چلنے والی قوم قرار پاتے ہیں مگر خود کو تہذیب یافتہ قوم کہنے والے بھی اس معاملے میں حد سے گزر گئے جنہوں نے گوانتانامو جیل میں انسانوں کو کتوں کے برابر حقوق دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

میں نے ایک دفعہ خواجہ خوامخواہ سے پوچھا کہ تم اِدھر اُدھر کی ہانکتے رہتے ہو یہ بتاؤ! تم نے کبھی کوئی اچھا کام بھی کیا ہے۔ خواجہ یاد کرنے کے انداز میں اپنے سر کے بالوں میں انگلی گھمانے لگا، میں

نے پوچھا کہ کیا کیسٹ ریوائنڈ کر رہے ہو، خواجہ نے کہا کہ، ایک دفعہ ایک آدمی آرام سے چلتا ہوا اپنے گھر جا رہا تھا، میں نے اُس کے پیچھے کتا چھوڑ دیا، وہ جلدی گھر پہنچ گیا۔ میں نے کہا شرم کرو، اس کو تم اچھا کام کہہ رہے ہو۔

ہر ملک میں پولیس کتوں سے جاسوسی کا کام لیتی ہے۔ کتے میں سونگنے کی حِس بہت تیز ہوتی ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں آج کل نشہ بھی خالص میسّر نہیں۔ ایک دن نشئی نے دکھ بھرے لہجے میں شکایت کی کہ نشے میں بھی ملاوٹ ہو رہی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم لوگ کیسے یقین کرتے ہو کہ نشہ خالص ہے یا نہیں ؟ اس نے بتا یا کہ اس کے لئے کتے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کتا سونگھ کر نشے کے اصلیت کا اشارہ دیتا ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ اب تو میرا کتا بھی نشئی ہو گیا ہے کیونکہ وہ نشہ آور شے سونگھنے کے بعد ہی کسی پر بھونکنے کے لئے راضی ہوتا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ کتے کو گھی نہیں پچتا۔ شاید وہ بھی ہضم کرنے کے لئے نشہ کرتا ہے۔ ہم روز مرہ گفتگو میں سنتے ہیں کہ کتے کی دُم بارہ برس نلکی میں رکھی، پھر دیکھا تو ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔ ذرا سوچئے ! اگر کتے کی دُم سیدھی ہو جاتی تو کون سی خوشحالی آنی تھی؟ ہم آج تک اپنا ملکی نظام تو سیدھا کر نہیں پائے اور کتے کی دُم سیدھی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ایک دفعہ ایک نشئی سگریٹ پی رہا تھا کہ اُس کا باپ آ گیا۔ نشئی نے باپ کے ڈر سے جلتا سگریٹ شرٹ کی جیب میں چھپا لیا۔ باپ نے غصے سے کہا، تم سگریٹ پی رہے تھے۔ بیٹا کہتا ہے ! نہیں تو۔ باپ نے کہا پھر تمھاری جیب سے دھواں کیوں نکل رہا ہے۔ بیٹا فوراً کہتا ہے ! آپ نے بات ہی دل جلانے والی کی ہے تو دھواں کیوں نہ نکلے۔

ایک خبر کے مطابق اب کتوں کی جگہ چوہوں سے دھماکہ خیز اشیاء کا سراغ لگایا جائے گا۔ یہ خبر کتوں کے لئے بھی کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔ آج تک کتوں نے سراغرسانی میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ایک دن چوہوں کے ہاتھوں اُن کی درگت بنے گی

۔ وہ منصب جس پر آج تک کتے فائز تھا اب چوہوں کے پاس چلا گیا ہے۔ اِس سے ثابت ہو گیا کہ کوئی بھی عہدہ دائمی نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب چوہے بلی سے ڈرتے تھے، اب انہوں نے ایک ہی وار میں کتوں پر فتح حاصل کر لی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دنیا میں اس قدر دھماکے کتوں کی غفلت سے ہو رہے ہیں۔ اب چوہوں کو دھماکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا کر دیا جائے گا۔

میرے خیال میں اِن دھماکوں پر تحقیقات سے زیادہ ضروری ہے کہ ان دھماکوں کی وجوہات پر تحقیق کی جائے۔ کتوں یا چوہوں پر ذمہ داری ڈالنے سے صورتحال میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے البتہ انسانوں کے درمیان اخوت اور رواداری سے اِن دھماکوں کو روکا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

آنکھیں

 

                ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

 

شاعری میں آنکھ وہ عضو محبوب ہے جس پہ شعرا حضرات نے دل، قلم اور چشمِ بصیرت و بصارت کو وا کر کے بہت کچھ لکھا ہے۔ غزل میں محبوب کا سراپے کا بے ان اُس کی آنکھ سے ہی شروع کیا جاتا ہے۔ آنکھ کو جسم کے عالیشان محل کا دروازہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسی کے ذریعے بہت سی معلومات دماغ تک پہنچتی ہیں۔ موضوعاتی اعتبار سے اگر دے کھا جائے تو ظریفانہ شاعری میں امراضِ چشم میں بھی شعراء نے ظرافت ڈھونڈ نکالی ہے۔ آنکھوں کی حُسن و دلفریبی پر تو بہت قصے دے لکھے جا چکے ہیں مگر آنکھوں کی بیماریوں پہ اس طرح لکھنا کہ مریضِ چشم تھوڑی دیر کے لئے بیماری کے کرب سے نکل کر مُسکرا لے، ایک صاحبِ ظرافت ہی کے بس کی بات ہے۔ نظر کی کمی، موتیا اور اس کا علاج بذریعہ لینز، بھینگا پن، آشوبِ چشم جے سے موضوعات ظریفانہ شاعری ہی میں سموئے جا سکتے ہیں۔

آنکھیں تو اردو شاعری کا ایک اہم موضوع رہا ہے اور اردو غزل میں محبوب کی چشمِ غزال سے بات شروع کر دی جائے تو بے شمار اشعار اس ضمن میں تحریر کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن مزاحیہ شاعر نہ صرف محبوب بلکہ محبوب کے والدِ گرامی کی آنکھوں میں بھی آنکھیں ڈال سکتا ہے

بقول ڈاکٹر مظہر عباس رضوی۔

خوب کرتی ہیں پھر تو خوار آنکھیں

جب دکھاتا ہے ہم کوے ار آنکھیں

شب کے پچھلے پہر ڈراتی ہیں

اُس کے ابّا کی تھانے دار آنکھیں

کب غمِ عشق تھا؟ الرجی تھی!

دے گئیں دھوکا اشکبار آنکھیں

چوٹ لگتی ہے دل پہ اِن سے بہت

دیکھ یوں زور سے نہ مار آنکھیں

کے سے اب وہ نظر چُرائیں گے

ہم دکھائیں گے بار بار آنکھیں

غم و الم، حزن و ملال اوریاس و حرماں کو اردو کی عشقیہ شاعری میں بڑا اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے کہ اس کے بغیر عاشقِ صادق کی صداقت پہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر ظریف شاعر اپنے رونے میں بھی ایک لطافت کا پہلو نکال لیتا ہے۔ مثلاً جگت موہن کہتے ہیں

چشم نے میری اشکباری کی

کاشتکاروں نے کاشتکاری کی

اور پھر کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ عاشق صادق، فراقِ یار میں رو رو کر اپنا منہ اور آنکھیں سجا لیتا ہے اور ڈاکٹر صاحب ہیں کہ ڈاکٹرانہ عینک استعمال کرتے ہوئے بیمار دل کو ادویاتِ چشم تھما دے تے ہیں۔ بقول ڈاکٹر مظہر عباس

آبدیدہ خوں چکے دہ تھا فراقِ یار میں

ڈھل گئی تھی آنسوؤں میں ایک عاشق کی صدا

عشق پُر آشوب میں تھا مبتلا لیکن اسے

ڈاکٹر صاحب نے لکھ کر دے دی آنکھوں کی دوا

عاشقی وصال کے تصور کے بغیر ادھوری ہی رہتی ہے۔ اشاروں اور کنایوں سے محبوب کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہر عاشق کا مشغلہ رہا کرتا ہے، مگر مزاحیہ شاعر اس معاملے میں بڑی گہری نگاہ رکھتا ہے اور اس کی نظر دور تلک جاتی ہے بقول اسد جعفری۔

میں سمجھ بیٹھا ہوں جاناں جس کو پیغامِ وصال

وہ تمھاری آنکھ جھپکانے کی عادت ہی نہ ہو

اور انگلستان میں بیٹھے بلبل کاشمیری مزید محتاط ہو جاتے ہیں۔

مغرب میں آنکھ مارنا معمول کا سلام

مشرق میں یہ معاملہ وجہِ تضاد ہے

ممتاز مزاحیہ شاعر شوکت جمال تیر نظر کا شکار ہو کر کہتے ہیں۔

خنجر بکف وہ ڈھونڈتے پھرتے تو ہیں مجھے مگر

تیرِ نظر سے جاں بہ لب داخل ہوں ہسپتال میں

ماہر امراضِ چشم

عام ڈاکٹروں کی طرح ماہر امراض چشم بھی اپنی فےس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے اور ان سے تکرار مریض کے لئے کسی بڑی پریشانی کا باعث بھی بن سکتی ہے بقول ڈاکٹر مظہر عباس

یہ کہہ رہے تھے مطب میں طبیبِ نُکتہ چیں

ہمیں دکھاتا ہے آنکھیں مریضِ چشمِ حسیں

زبان دیکھیں اگر تو زباں چلاتا ہے

جو فیس مانگو تو ہوتا ہے خوب چیں بہ جبیں

اور

چشم کے ماہر سے چشمک دیکھ کر

دے نہ دے وہ "رانگ” عینک دیکھ کر

آ نہ جائے ہاتھ پر اپنے ہی چوٹ

مار لیکن دیکھ چابک دیکھ کر

بعض اوقات معاملات اس وقت گھمبیر صورت حال اختیار کر لے تے ہیں جب رقیب آئی سرجن ہو اور محبوب کی آنکھوں کا آپریشن کرانا پڑ جائے۔ ایسے موقع پہ ڈاکٹر عزیز فیصل دست بہ دعا نظر آتے ہیں

دوستو تم دعا کرو کہ رقیب

شہر کا اک ہی آئی سرجن ہے

میرے خوابوں کے فولڈر کی خیر

چشمِ جاناں کا آپریشن ہے

نظر کی کمی

امراض چشم میں نظر کی کمی سب سے زیادہ عام ہے بلکہ بڑھتی ہوئی عمر میں یہ ہر  ایک کا مسئلہ ہے۔ میڈیکل زبان میں اسے presbyopia کہا جاتا ہے اور پینتالیس برس کے بعد اکثر خواتین و حضرات معنک نظر آتے ہیں۔

اک دھند سی ہے جس میں ہیولا سا ہے کوئی

ہے کون میرے سامنے مجھ کو خبر کہاں

اب مائنس تھری کا بھی چشمہ اتر گیا

"اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں ”

انور مسعود

دنیا دار و چشمِ دنیا دار بالکل ٹھیک ہے

دیدۂ دیندار لیکن انتہائی ویک ہے

چونچال سیالکوٹی

عینک

اور اس کم نظری کا علاج عینک سے کیا جاتا ہے عینک کو شاید اس لئے بھی عینک کہا جاتا ہے کہ یہ عین ناک کے اوپر براجمان ہوتی ہے۔ مولانا حاتم علی نے اس آلۂ بصارت کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے۔

مدِّ نظر جناب کو عینک کا شغل ہے

بے ساکھیاں لگائی ہیں پائے نگاہ میں

جبکہ انور مسعود، انعام الحق جاوید، ڈاکٹر مظہر عباس، نسیم سحر اور پھل آگروی  عینک کی خوبیوں پہ اس طرح رقم طراز ہوتے ہیں،

لطف نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے

یہ نہ ہو پاس تو پھر رونقِ دنیا کیا ہے

تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو دکھائی دیتیں

میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

انور مسعود

جن کی دھوپ کے نظارے نے کر دی عشق کی آنکھ تباہ

چھ نمبر کی عینک لگ گئی اتنی ہوئی کمزور نگاہ

کس سے کہوں اب کیا ہونا ہے اس کے بزم میں آنے پر

لوگ ہوتے ہیں چشم براہ اور میں ہوتا ہوں چشمہ براہ

انعام الحق جاوید

کہا یہ ماہرِ امراضِ چشم نے مجھ سے

فروغِ دیدہ وری کی دوا کچھ اور نہیں

تجھے تو چاہئے پہنے رہے سدا عینک

"ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں ”

ڈاکٹر مظہر عباس

کچھ دکھائی نہیں دے تا جنہیں عینک کے بغیر

اُن کا دعویٰ ہے کہ عینک ہے نظر کی چابی

نسیم سحر

لگا کے رکھتا ہے چشمہ جو اپنی آنکھوں پر

مجھے تو یار وہ کانا دکھائی دیتا ہے

پھل آگرو ی

تہہِ غازہ چھپی ہے سب عبارت

نہیں آساں ہے اس کوے ار پڑھنا

لگا اے سی ہمیں عینک نظر کی

کہ آ جائے رُخِ دلدار پڑھنا

ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

آپریشن، موتیا، لینز

اس کے علاوہ آنکھ کے بہت سے دیگر امراض بھی نظر کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں جس میں سب سے زیادہ سفیدموتیا کی بے ماری شامل ہے۔ اس بے ماری میں آنکھ کے اندر کا عدسہ دھندلا پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے روشنی کی ترسیل میں رکاوٹ ہونے لگتی ہے۔ نظر کی کمی جب عینک سے نہ ٹھیک ہو سکتی ہو تو پھر اگلا مرحلہ اس کا علاج بذریعہ آپریشن کیا جاتا ہے۔ ان تمام موضوعات کو ہمارے مزاحیہ شاعروں نے کس چابکدستی سے اپنے کلام کی زینت بنایا ہے اس کی مثالیں درج ذیل ہیں :

موتیا

رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو

اِس دعا میں عجب اثر آیا

میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی

آنکھ میں موتیا اُتر آیا

اطہر شاہ خان جے دی

مے رے پیارے اللہ میاں تے را کرم نرالا ہے

اس کی آنکھ میں قیمتی لینز میری آنکھ میں جالا ہے

فاروق قیصر

اتنا مہنگا لگایا ” لینز ” کہ اب

ہو گئیں خوب مالدار آنکھیں

ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

اُس کی آنکھوں کا آپریشن کر

پھانس کو کہہ رہا جو بھالا ہے

عظمت اللہ خان

ہے واقعی کمال یہ کنٹیکٹ لینز کا

اک بحرِ نیلگوں جو تری چشمِ تر میں ہے

سرفراز شاہد

آپریشن کے بعد جب مریض ایک سبز رنگ کی پٹی باندھ لیتا ہے یا کالی عینک پہن لیتا ہے اس کے بارے میں ضمیر جعفری یوں رقم طراز ہوتے ہیں :

جانے اپنی آنکھوں کو کیسی لاگ لاگی ہے

طوطا نصف طوطی ہے کاگا نصف کاگی ہے

ہم بھی شعر لکھیں گے ایک ایک مصرعے کے

ایک آنکھ سوئی ہے ایک آنکھ جاگی ہے

آشوبِ چشم

آنکھوں کی بیماریوں میں آشوبِ چشم سے کون واقف نہیں۔یہ  ایک ایسی بیماری ہے جو بہت سے مختلف جراثیم سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر مظہر عباس کہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر بھی ہیں آشوب چشم کی متعدی بیماری کے مختلف پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں :

عاشق سے کہہ رہے تھے یہ آنکھوں کے ڈاکٹر

دستورِ عشق رہ گیا باتیں بگھارنا

ہو حالِ دل کے واسطے بس نامہ و پیام

آشوبِ چشم پھیلا ہے، آنکھیں نہ مارنا!

ڈاکٹر مظہر عباس

بتاؤ ہم کو نہ انگلش بدن کے اعضا کی

ہمیں پتہ ہے کہ انگلش میں آنکھ، Eyeہے

وہ رو کے بولے ارے بے خبر ہے درد بہت

رواں ہے چشم سے چشمہ کہ آنکھ آئی ہے

ڈاکٹر مظہر عباس

ملنے سے بھی یار گریزاں آنکھوں سے بھی دور

اس آشوبِ چشم سے کتنے طوطا چشم ہوئے

اسد جعفری

لوگ جسے آنکھوں کی مستی کہتے ہیں

ممکن ہے وہ آنکھوں کی بیماری ہو

سرفراز شاہد

نزدیک آ رہے ہیں زمانے وصال کے

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ آنے لگی ہے آنکھ

شوکت جمال

کلر بلائنڈ

یہ اکثر موروثی بے ماری ہوتی ہے کہ جب انسان کچھ خاص رنگوں میں تمیز نہیں کر سکتا۔ مگر ڈاکٹر صاحب اس بیماری کا کچھ اور ہی فائدہ بتا تے ہوئے نظر آتے ہیں

پوچھا کسی نے ماہرِ امراضِ چشم سے

رنگوں میں گر تمیز نہ ممکن ہو کیا کریں

کہنے لگے کہ اس میں تردد کی کیا ہے بات

توڑیں اشارے خیر سے اور ڈرائیور بنیں

ڈاکٹر مظہر عباس

بھینگا پن

انسانی ساخت کی کمزوریوں کا مذاق اُڑانا اگرچہ قابل ستائےش نہیں مگر کبھی کبھی مزاح نگاروں سے یہ فعل بھی سرزد ہو جاتا ہے :

میں نے سمجھا کہ مجھے دیکھ رہا ہے شاید

ترچھی نظروں کا یہ انداز بھی دھوکا نکلا

بعد میں کچھ نہ ملا مجھ کو ندامت کے سوا

جب اسے غور سے دیکھا تو وہ بھینگا نکلا

اسد جعفری

کنکھیوں سے بہت تکتا ہے اس کو

وہ آخرکار بھینگا ہو گیا نا

عنایت علی خان

کیسے ہوں گی چار

آنکھیں اس کی آنکھوں سے

بھینگا اپنا یار

نسیمِ سحر

عطیہ چشم

اور پھر جب آنکھیں بصارت کھو بیٹھتی ہیں اور کسی کام کی نہیں رہتیں تو جدیدسائنس کی بدولت قرنیہ کی پیوند کاری کسی نابینا کو صاحب بصارت کر سکتی ہیں۔ ہمارے شاعر اپنی آنکھیں بطور عطیہ دینے پر راضی تو ہیں مگر بقول انور مسعود

اس شرط پہ چاہے کوئی لے لے مری آنکھیں

دیکھے نہ حسینوں کے سوا اور کسی کو

٭٭٭

 

 

 

ڈگڈگی والے بھیا!

 

                کائنات بشیر

 

جمورے اوپر کی۔ ۔ ۔ اَسمان

آسے پاسے کی۔ ۔ اِنسان

اے ڈراموں والے ڈائریکٹر بھیا،

یہ گانا تمھاری نذر۔ ۔ !

آج کل تم خوب ڈگڈگی بجا کر اپنا رنگ جما رہے ہو۔ جو کبھی صرف پی ٹی وی پہ بجا کرتی۔ تمہاری ڈگڈگی میں واقعی سحر تھا، اس کی لے اتنی سریلی کہ ٹریفک جام ہو جاتی۔ دوکانیں سرِشام بند ہو جاتیں۔ کسی نامہ نیم کو لوڈ شیڈنگ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ لوگ کھانا پینا مغرب کے بعد پہلی فرصت میں کر لیتے اور تمھارا اکلوتا ڈرامہ ان کے لیے کسی سویٹ ڈش سے کم نہ تھا۔ اب نمکین آئیٹم میں کلاسیکل ناچ نچتے رہیں، شوشے چھوٹتے رہیں۔ بجلی گرتی رہے، دسترخوان سجتے ہیں۔ ۔ تم ہفتے میں ایک دن اپنی باری پر ڈرامے کی قسط دے کر چلے جاتے اور ناظر بے چارہ اگلے ہفتے تک تمھاری راہ میں آنکھیں بچھائے رہتا۔ دوسرے لوگ کیا پروگرام پیش کرتے گھر بیٹھے تمہارا دھیان ان کی طرف بھی مبذول رہتا۔ مقابلے کی فضا تمہاری اَنا کو اور بڑھاتی۔ خوب سے خوب تر کرنے کی خواہش متحرک رکھتی اور تم ٹائم پاس قسم کا کچھ بھی للو پنجو پیش کر کے اپنا گراف ہرگز کم نہ کرتے۔

پَر اب تمھیں کیا ہو گیا ہے میرے مداری بھیا!

لگتا ہے تم پہ کلچر کی یلغار ہو گئی ہے۔ تم ناظر کو ایک منٹ کے لئے بھی اِدھر اُدھر دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ڈراموں پہ ڈرامے اور سوپ پہ سوپ بنا رہے ہو۔ سیاست سے اُنھیں اپنی اور کھینچنا چاہ رہے ہو۔ ڈیلی سوپ دکھا دکھا کر تم نے نے ناظرین کو نکما اور ویلا بنا دیا ہے۔ میوہ جات کے بھاؤ بڑھا دئیے ہیں۔ گھروں میں بہو بیٹیوں کی جگہ ماسیوں کا رواج دے دیا ہے۔ ساس بہو کے جھگڑوں کے راز فاش کر دئیے ہیں، نند بھاوج کی دل لگیوں، سوکن سوکن کے کھیل کو اور بڑھاوا دے کر معاشرے میں اتھل پتھل مچا دی ہے۔ مرد کے چار حقوق میں سے دو کو تو تم نے عام دوام بخش دیا ہے۔ نئی نسل تمہارے ڈرامے دیکھ کر پروان چڑھ رہی ہے۔ اور وقت کا کیا کہنا۔ ۔ !دن رات کے بیشتر گھنٹے، منٹ، سیکنڈ تمہاری نذر ہو رہے ہیں۔ ایک قسط ختم ہوتی نہیں کہ دوسری کا انتظار۔ ۔ انتظار سے یاد آیا کہ حال ہی میں ایک ڈرامہ اس موڑ پر ختم ہوا کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔ دروازہ کھولنے والے نے دروازے کی کنڈی پہ ہاتھ رکھ دیا اور ساتھ ہی قسط ختم۔ ۔ پورا ہفتہ انتظار رہا کہ دروازے پہ کون ہو گا۔ دل دہلتا رہا، سانس سوکھتا رہا۔ ۔ اگلی قسط میں پتہ چلا کہ دروازے پہ دودھ والا تھا۔ تو کیا دودھ والے کے لیے تم نے اتنا انتظار کروایا۔

ایک اور ڈرامے میں تم نے سونے کے لیے ہیروئن کو اتنا اونچا تکیہ دے دیا کہ اس کی گردن میں بل پڑنے کا پکا اندیشہ تھا۔ ایسے میں ناظر کا دھیان پورا تکیے پہ ٹکا ہے اور کہانی ہے کہ ہاتھ سے چھوٹی جا رہی ہے۔ یہ تو حد کر دی ڈائریکٹر بھیا تم بھی بڑے کمال کے ہو، شمال کے ہو۔

ایسا ہی کچھ حال پڑوس والے بھائی بندو کا ہے۔ ۔ اب ڈرامہ تو ڈرامہ ہے چاہے انڈیا کا ہو یا پاکستان کا۔ ۔ کہانی گھر گھر کی ہو یا ان کہی، تنہائیاں۔ ۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو کچھ تو چاہیئے۔

ڈرامہ شاستری سسٹر میں تم نے رجعت کو انو سے ایک مسئلے پہ بات کرنے کے لیے ایسی جگہ پر بلا لیا۔ جہاں ایک طرف کھائی ہے اور دوسری طرف گہرا پانی۔ ۔ مسئلہ اتنا خطرناک نہیں تھا جتنی خطرناک جگہ تھی۔ اس مسئلے پر تو پائیں باغ میں بھی بات ہو سکتی تھی۔ بلکہ چاروں اور پھیلی ہریالی، سبک ہوائیں، خوبصورت منظر ان کے مسئلے کو گھمبیرتا سے نکال کر کوئی ہلکا پھلکا حل پیش کر سکتے تھے۔ دونوں خوشی خوشی اپنے گھر کو روانہ ہوتے۔ دیکھنے والا بھی چین کی بنسی بجاتا، سکون سے نیند کی وادی میں اتر جاتا۔ لیکن کہاں جی، ( تم نے دیکھنے والے کی پوری نہیں پڑنے دی) لگتا ہے تمھارا ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے شاید پانی میں دھکا دلوانے کا ارادہ تھا۔ مسئلے کا یہ حل سوچا تھا تم نے۔ ۔ ؟ پھر آخر وقت اپنا ارادہ بدل دیا۔ ادھر ڈرامہ دیکھنے والا پورا وقت کھائی اور پانی کے اوپر سفر کرتا رہا اور اس کی طرف سے مسئلہ جائے بھاڑ میں۔ ۔ !

اور ایسی تگڑم بازی ہوئی ڈرامہ سسرال سمرن کا۔ ۔ میں تو تم جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھس آئے اور کئی دن تک گھستے رہے، داد دینی پڑے گی تمھاری کہ تم نے ناظر کو اتنا کم عقل، کمزور نظر، بیچارہ غریب قسم کا سمجھ لیا ہے کہ وہ تمہاری کارستانی پہ غور نہیں کر پائے گا کہ سمرن کی بہن رولی، وہی رولی جو بالکا ودھو میں بچپن گزار کر پل بڑھ کر جوان ہوئی، تم نے اسے ایسے جھمکے پہنا دئیے جن میں ایک جھمکے کا موتی ٹوٹا ہوا تھا جو اچھا خاصا خلا بخش کر جھمکے کے ڈیزائن کو بدنما اور دیکھنے والے کو الجھن میں ڈال رہا تھا۔ جیسے لوگ سونے کا دانت لگوا لیتے ہیں اور مخاطب کا پورا دھیان وہیں پہ اٹکا رہتا ہے، یہی حال ڈرامہ دیکھنے والے کا تھا۔ اب رولی کا دوسرا جھمکا دیکھنے کی فرصت کسے تھی۔ سواِسی پہ دھیان ٹکا رہا۔ ہاں مانا کبھی ہوتا ہو گا یہ جھمکا دیدہ زیب اور خوبصورت، جب اس کی چمک دمک نرالی ہو گی۔ جِگر جِگر کرتا ہو گا۔ اس کے موتی ذرا سے ہلنے سے موج میں آ جاتے ہوں گے، جانے کن نظروں نے اسے دیکھا ہو گا۔ ۔ پَر اب تو جانے کتنے ڈرامے بھگتا کر وہ رولی تک پہنچا تھا اور رولی بیچاری نے اسے پہن بھی لیا اور ناظر کا دھیان فوراً کہانی سے ہٹ کر جھمکے پہ مبذول ہو گیا۔ دیدہ دلیری یہ کہ وہ جھمکا کئی دن تک رولی کو پہنایا جاتا رہا اور ایک دن تم نے وہ جھمکا ناظر کو عقل سے پیدل، گنوار، بدھو سمجھتے ہوئے اسے رولی کے دوسرے کان میں پہنا دیا۔ واہ بھئی واہ کیا کہنے، کہانی واقعی آگے بڑھ رہی تھی۔ ۔ اب دیکھنے والے کو ڈرامے کی ہر قسط کا انتظار رہنے لگا کہ آج رولی وہ جھمکا کس کان میں پہنے گی، دائیں میں کہ بائیں میں۔ ۔ ؟ ڈرامے کی اپنی کہانی کتنی آگے بڑھ گئی۔ سمرن گھر آ گئی یا نہیں، پریم جی نے اسے قبول کر لیا کہ نہیں۔ ۔ ؟ یہ ناظر کو بالکل نہیں پتا۔ ۔ !

چھوٹی بہو۔ ۔ زی ٹی وی کا ایک مشہور ڈرامہ، جو دو سال چلتا رہا۔ ماننا پڑے گا تمہاری خامیوں کے باوجود ناظر اس کے ساتھ لسوڑے کے لیس کی طرح چپکا رہا۔ پہلے تو تم نے ہیروئن کے باپ سے اتنی شد ہندی بلوائی کہ اسے جاننے کے لیے انڈین ناظرین بھی ڈکشنری کھولتے ہوں گے۔ پھر پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ تم نے اس کے ہیرو کے لپ اسٹک بھی لگوا دی۔ کبھی اس کے ہونٹ تربوزی لگنے لگتے کبھی جامنی تو کبھی عنابی۔ ۔ دیکھنے والے لپ اسٹک کے شیڈ دیکھتے رہ جاتے۔ اس سے پہلے ڈراموں میں ہیرو کے شیپ شدہ ابرو دیکھ کر شبہ پڑ تا تھا اب لپ اسٹک دیکھ کر تو وہ گمان بھی دور ہو گیا۔ گمان دور کرنے کے لیے بہت شکریہ بھیا، ویسے یہ لپ اسٹک لگانے کا مطالبہ ہیرو کا تھا یا ہیروئن کا۔ ۔ ؟

عشق کا رنگ سفید۔ ۔ اس ڈرامہ کا تو عنوان بڑے اچنبھے کا باعث بنا۔ کوئی شاعروں سے پوچھے عشق کے تو رنگ ہزار۔ ستاروں کی طرح جھلملاتے، قوسِ قزح کی طرح پھیلتے۔ اور کہانی میں،

ہیروئن بیوہ ہے دھانی اور ہیرو وکیل بابو وپلم۔ ۔ !

اپلم، چپلم جھپ لائی رے دنیا کو چھوڑ

تیری گلی آئی رے آئی رے آئی رے

ہو سکے تو یہ گانا بھی کسی قسط میں فلما لینا۔ آجکل ڈراموں میں گانوں کو خوب جگہ ملنے لگی ہے۔

ہاں تو بات یہ ہے کہ ایک قسط میں تم نے بابو جی کے کہنے پر اس کم بخت تریپو راری(جیسے مال واڑی)کے ہاتھوں دھانی کو اغوا کرا لیا۔ وپلم خودبخود پتنگ کے پیچھے ڈور کی طرح چلا آیا۔ موت کے ہاتھوں کھیلتے ہوئے دونوں فرار ہو کر ایک گھر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ادھر مرن جوگا تریپوراری شکاری کتے کی طرح انھیں ڈھونڈ تا، سونگھتا پھِر رہا ہے۔ بابو جی علیحدہ تلملا رہے ہیں۔ ایسے گھمبیر حالات میں دھانی، وپلم کو چھپ چھپ کر گھر کے اندر رہنا چاہیئے۔ کوئی ضرورت نہیں انھیں مندر جانے کی اور بس اسٹینڈ پرجا کر دشمنوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلنے کی۔ ۔ اب ایسے میں کیا واجب تھا کہ تم انھیں گھر کے لان میں چہلیں کرتے، پانی سے کھیلتے ہوئے دکھاتے۔ تمہیں نہیں پتہ، ایسے میں ناظر کا سانس کتنا سوکھتا ہے کہ کسی باڑ، جنگلے یا نیچی دیوار سے دشمن کے آدمی نہ دیکھ لیں۔ اب عشق کی منزلیں وہ متوالے پار کر رہے ہیں اور بی پی دیکھنے والے کا سفر کر رہا ہے۔ ۔ ممکن ہے اگلی قسطوں وہ دونوں خیر خیریت سے اپنے گھر پہنچ جائیں لیکن ناظر کو تو تمہارے طفیل ڈاکٹر کا منہ تاکنا پڑ سکتا ہے نا۔ ۔ !

ڈیلی سوپ کی دونوں طرف بھرمار ہے۔ حالانکہ اس میں تمھارا اور تمہارے اداکاروں کا اتنا ہی نقصان ہے۔ چونک گئے نا، سمجھ سکو تو سمجھ لو ڈگڈگی والے بھیا!

کیونکہ قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا۔ ۔ وہی شکلیں وہی صورتیں جو شروع میں حسین و پُر کشش لگتی ہیں۔ ایک نہ ایک دن اپنی آب و تاب کھونے لگتی ہیں۔ ان کا میک اپ، کپڑے، صورت، سیرت واضح ہونے لگتی ہے۔ بندہ خود ہی سوچے کہ جو اداکارہ رات دن ٹی وی پہ ہو گی وہ اصل زندگی کی ذمہ داریاں کہاں نبھا پائے گی۔ اس کا پھوہڑ پن تو ڈرامہ میں روٹی بیلتے ہوئے واضح ہونے لگتا ہے۔

ویسے تم سے ایک شکوہ اور بھی بنتا ہے کہ سین میں کھانے کی ٹیبل پہ لا تعداد کھانے تو دکھا دیتے ہو۔ لیکن چائے کافی کے لیے اداکاروں کے ہاتھوں میں خالی مگ تھما دیتے ہو۔ جسے وہ چسکیاں لے لے کر پینے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔ اب ایسی بھی کیا کنجوسی۔ ۔ ڈرامے کے اندر ڈرامہ۔ ۔ ؟ اس سے تو اچھا ہے کہ مگ میں گرم پانی ڈال دیا کرو۔ کم سے کم چینیوں کی روایت پوری ہو جائے گی۔

پھرسوپ میں ایک سین ختم ہونے کے بعد دوسرا سین شروع ہونے پر تمہارا کیمرہ پورے شہر پر گھوم جاتا ہے یا نئی نئی بنی شاہراہیں اور جلیبی کی طرح بل کھاتی موٹر وے نظر آتی ہیں۔ جسے کئی ڈراموں، سیریل میں دیکھ چکے۔ میری سہیلی میری بھابھی۔ ۔ میں تم نے ناظرین کے ساتھ کیا کھیل کھیلا ہے۔ بھلا بتاؤ، ایسے موقع پر گاڑی کی تیز ہیڈ لائیٹ استعمال کرنے کی کیا تک ہے۔ ۔ ؟کہ ناظر کو اپنی آنکھیں بچانے کے لیے ٹی وی سکرین سے منہ موڑنا پڑتا ہے۔ ورنہ تم نے تو اسے آنکھوں والے ڈاکٹر کے ہاں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس سے تو اچھا تھا کہ تم۔ ۔ انتظار فرمائیے۔ ۔ کی شیلڈ دکھلا دیا کرتے۔ اب کیسے کہیں اور کیا کیا کہیں۔ ۔ ؟

سُنو نا۔ ۔ سُنو نا۔ ۔ سُن لو نا۔ ۔ !

کہ ڈرامہ بناتے بناتے تم بڑے وہ ہو گئے ہو۔ ہاں ہاں ڈنکے کی چوٹ کہیں گے کہ تم بڑے ڈرامہ باز ہو گئے ہو۔ اور بزبانِ خاموشی کہہ رہے ہو

نہ میں کوئی دھوکا کراں نہ کوئی ہیرا پھیری

نال پریم دے بیٹھ کے دیکھو میری ہتھ صفائی

بد دعائیں

محمد ظہیر قندیل

ہماری بد دعاؤں میں اثر پروردگار آئے !

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری

زندگی سیٹھ کی صورت ہو خدایا میری

ہو میرا کام امیروں کی حمایت کرنا

درد مندوں کی ضعیفوں کی مرمت کرنا

بھائی بھائی میں لڑانے کا ہنر دے مجھ کو

لیڈروں کی طرح پتھر کا جگر دے مجھ کو

یوں تو میں کالا نہیں، پر زبان میری بہت کالی ہے، میری گھٹی میں پڑی ہوئی گالی ہے، میرا بازیچہ نالی ہے، نالی بھی گندی والی ہے، میرا دماغ عقل سے خالی ہے، اس لیے کہا سنا معاف! سنا ہے آپ کے بڑے بھائی کی ایک سالی ہے، سنا ہے وہ بہت نخرے والی ہے، سنا ہے اس کے گالوں پر لالی ہے، سنا ہے اس کے کان میں ایک بالی ہے، سنا ہے کہ دوسری اس نے کھا لی ہے، سنا ہے کئی بار اس نے اپنی شادی ٹالی ہے۔ ۔ ۔ اگر موقع دیں تو یہ خادم بھی آج کل خالی ہے۔ حضور غصے والی کیوں شکل بنا لی ہے ؟۔ ۔ ۔ مجھے غصہ نہ دلائیے، مجھے یاد نہ کرائیے کہ زبان میری کالی ہے۔ "ہماری بد دعاؤں میں اثر پروردگار آئے ”

ہمارا حق اگر مارے تجھے دو سو بخار آئے

منگیتر کی سنے جب کال، موبائل بھی جل جائے

کئی دن بیکری میں ہی پڑا باسی پزا کھائے

ہماری بد دعاؤں میں اثر پروردگار آئے

مجھ سے زیادہ مظلوم کون ہو گا، میری ولادت ہی میرے والدین کے لیے جھٹکا ثابت ہوئی، بارہویں بچے پر کون خوشیاں مناتا؟ قصور والدین کا تھا سزا مجھے ملی، شہد کی گھٹی کی جگہ دوا مجھے ملی، کھسرے بھی ناچنے آئے تو افسوس کا اظہار کر کے چلے گئے، خوف سے جب بھی والد کی جفا یاد آئی، اپنے دادا کی خطا یاد آئی۔ پیدا ہوتے ہی مجھ سے پوچھے بغیر رلایا گیا، مجھ سے پوچھے بغیر نہلایا گیا، حتیٰ کہ میرا نام مجھ سے پوچھے بغیر رکھ دیا گیا، نام کی حد تک تو ٹھیک تھا مگرسب مجھے کاکا کہہ کر پکارنے لگے، تکلیف مجھے تب ہوتی جب خوب صورت لڑکیاں بھی مجھے کاکا کہتیں۔ میری صحت دیکھ کے مجھے فاقہ کہتیں۔ مجھ سے بڑے بہن بھائیوں نے مجھ پر خوب ہاتھ صاف کیے، کچھ تو میرا فیڈر ہی چھین کر پی جاتے، میں بھوک سے روتا تو اماں کہتی صبح سے ایک لٹر دودھ پی چکا ہے پھر بھی روتا ہے۔ بھوکا کہیں کا۔ مجھے بھائیوں کے اترے ہوئے کپڑے نصیب ہوتے، افسوس تو اس وقت ہوتا جب بھائیوں کے دھلے ہوئے پیمپر پہنائے جاتے۔ جب ذرا بڑا ہوا تو احساس ہوا سگ باش برادر خورد مباش۔ مجھے تو یہ کہاوت یوں اچھی لگتی ہے سگ باش برادرِ سگ مباش۔ ۔ ۔ ۔ مجھ پر ستم ڈھائے گئے، قہر ڈھائے گئے، میں نے بھی خوب خوب بد دعائیں دیں۔ ۔ ۔ ۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ مگر افسوس صد افسوس کبھی کسی بد دعا کا اثر نہ ہوا۔ مگر یہ سننے کو ضرور ملا تمھاری زبان ہی کالی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ سے، ماؤتھ واش سے، یہاں تک کہ شیونگ کریم سے بھی کلیاں کیں مگر زبان کا رنگ نہ بدلا۔ ۔ ۔ ۔ نہ رنگ بدلا نہ بد دعاؤں میں اثر آیا۔ پھر صاحبِ صدر آپ ہی بتائیے کیا میں اس کالی زبان کا اچار ڈالوں یا مربا بناؤں۔ ۔ ۔ ۔ میری دو عادتیں گھر میں بہت مشہور ہیں ایک بد دعائیں دینا۔ ۔ ۔ دوسری بھی یہی ہے۔ مگر اثر ہے کہ کوسوں دور ہے۔ میرے محلے کے لڑکے کی زبان میں اتنا اثر ہے کہ اس نے ایک بار بد دعا مانگی۔ ” یا اللہ میرا ابا مر جائے۔ ” دوسرے ہی دن اس کا ہم سایہ مر گیا۔ دیکھیے موت کا فرشتہ محلے میں آیا تو سہی۔ ۔ ۔ ایک پڑوسی نہ سہی دوسرا ہی سہی۔ میں نے سب سے بڑی بہن کو بد دعا دی اللہ کرے تجھے، شرابی، بے ایمان اور گھٹیا شوہر ملے اگلے ہی دن اس کا رشتہ ایک سیاست دان سے طے ہو گیا۔ میں نے محلے کے لڑکے کو دعا دی اللہ کرے تجھے اونچا عہدہ ملے۔ آج کل وہ کھمبے پر چڑھ ٹیلی فون ٹھیک کرتا ہے۔ میں نے ایک اور لڑکے کو بد دعا دی اللہ کرے تو اندھا ہو جائے۔ وہ آج کل کرکٹ امپائر ہے۔

یا خدا دے مرے دشمن کو بہت سی عزّت

جانتا ہوں، ہے اثر میری دعا کا الٹا

بد دعاؤں کے بھی کئی رنگ ہیں، کئی ڈھنگ ہیں، ہر طبقہ، ہر معاشرہ اپنے مطلب کی بد دعائیں دیتا ہے۔ طالبِ علم کی بد دعائیں اسکول سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں، بارش ہو تو بد دعا کرتا ہے یا تو اسکول گر جائے، یا سیلاب آ جائے۔ استاد نہر میں نہاتا دکھائی دے تو بد دعا : اللہ کرے ڈوب جائے۔ چھٹی ہو جائے۔ استاد بھینس کے پاس سے گزرے۔ اللہ کرے بھینس اسے ٹکر ہی مار دے۔ اور تو اور مضامین کو بھی بد دعائیں : یہ میتھ منحوس کہیں سڑ جائے۔ اف یہ بائیو! غرق ہو جائے، جان چھوٹے، مینڈکوں پر ذرا ترس نہیں کھاتے، اسے لیب میں ننگا لٹا لیتے ہیں اور پھر اف توبہ اس کی تو جان ہی نکال لیتے ہیں۔ کیمسٹری، عجیب مسٹری ہے، گندھک کے تیزاب میں کہیں ڈوب سڑے۔ فزکس، اوہ میرے خدا موشن لاز کے خالق کو موشن لگ جائیں۔ اردو کی غزلیات اور ان کی تشریحات ! یا اللہ یہ آفات ہیں آفات۔ میر اور غالب خود تو مر گئے، ہمیں ذلیل کر گئے۔ ان کا محبوب اگر انھیں منہ نہیں لگاتا تھا تو اپنے منہ کی بد بو کا علاج کراتے، ہمارے اوپر تو یہ عذاب نہ ڈھاتے۔

نہ چھیڑو درد مندوں کو نہ جانے دل سے کیا نکلے

ہر اک بِل میں نہ انگلی دو، نہ جانے بِل سے کیا نکلے

بہت ہو گیا! اب مجھ سے بد دعائیں برداشت نہیں ہو رہیں۔ لیجیے اب میں بد دعائیں کرنے لگا ہوں

اللہ کرے۔ ۔ ۔ بھارتیوں کے ٹینکوں میں کیڑے پڑیں۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مودی کے تالو میں چھالا نکل آئے۔

اللہ کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انڈین توپوں کو بواسیر ہو جائے۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیف علی خان کی ایک اور شادی ہو۔ ۔ ۔ شادی کی رات وہ دلہن کا گھونگھٹ اُٹھائے۔ ۔ ۔ آگے سے اباما نکل آئے اباما نہیں تو اسامہ نکل آئے اور وہ بھی بن لادن۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ سارے بھارتی فوجی اپنے جہازوں کی طرح "جہاز” ہو جائیں۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ سارے بھارتی مرد ہیجڑے بن جائیں اور ہیروئینیں ہم سب میں تقسیم ہو جائیں۔ ۔ ۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ دیپیکا پڈوکون، میرے بغیر قلفی کھائے تو اس کی قلفی گر جائے۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ دیپیکا کے تمام ہیرو چولھے کو کموڈ سمجھ کر اس پر بیٹھ جائیں۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ لوڈ شیڈنگ کرنے والے کے لوٹے میں مرچیں پڑیں۔ ۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ مہنگائی کرنے والے ماؤتھ واش کرنے لگیں تو تیزاب ان کے ہاتھ میں آ جائے۔ ۔ ۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ مجھ سے زیادہ لائق بچوں کے پین جیب میں لیک ہو جائیں۔ ۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ دہشت گردوں کی شلواروں میں بچھو گھس کر "انّی” پادیں۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ پاناما لیکس کرنے والے کے دونوں پاؤں پینٹ کے ایک ہی پائنچے میں پھنس جائیں۔ ۔ ۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ ۔ مری تحریر پر نہ ہنسنے والوں کا فیس بک اکاؤنٹ ہیک ہو جائے۔ ۔ ۔ اللہ کرے۔ ۔ ۔ وہ انگلش بولنے لگیں تو انھیں "مِیرا "یاد آ جائے۔ ۔ ۔ ہماری بد دعاؤں میں اثر پروردگار آئے

عاشق کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو میاں کنگال ملے

مرغی بھی کبھی نہ ہاتھ آئے جا تجھ کو چنے کی دال ملے

 

گالوں میں ترے پڑ جائیں گڑھے چہرے پہ نکل آئے چیچک

یہ ریشمی زلفیں جھڑ جائیں لگ جائے جوانی میں عینک

سسرا بھی تجھے خوں خوار ملے اور ساس بڑی چنڈال ملے

عاشق کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو میاں کنگال ملے

 

ہر سال ہو تیری گود ہری بچے ہوں تجھے دو چار ڈزن

پنکچر ہو ترے ناز و نخرے ہو تیری اداؤں کا ایندھن

ت±و بال ہے ٹیبل ٹینس کا، جا تجھ کو میاں فٹ بال ملے

عاشق کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو میاں کنگال ملے

٭٭٭

 

 

 

 

گدھا کہیں کا

 

                خرم بٹ

 

سنا ہے گدھے سے کسی نے پوچھا کہ تم گدھے کیوں ہو تو اپنے لمبے کان ہلا کر کہنے لگا "کیونکہ میں گدھا ہوں۔ ” گدھے کے گدھے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی ولادت ہی گدھی کے ہاں ہوئی۔ وگرنہ وہ شیر، لومڑ یا ہرن بھی ہو سکتا تھا۔ نو عمری میں وہ گدھے کا بچہ کہلاتا ہے۔ اگرچہ تا دم مرگ وہ گدھے کا بچہ ہی رہتا ہے لیکن جوان ہونے پر اسے گدھے کے بچے کی بجائے صرف گدھا کہ کر پکارا جاتا ہے۔ گدھے کے چہرے پر ایک عجیب سی سنجیدگی ہمیشہ طاری رہتی ہے۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ گدھے کی آنکھیں رنجیدہ ہوتی ہیں لیکن انہیں ہم سنجیدہ بھی کہ سکتے ہیں۔ گدھا ایسا جانور ہے جس کا رویہ ہمیشہ گدھوں والا ہی رہتا ہے۔ انسان اور گدھے کا ساتھ نیا نہیں بلکہ آدم سے لے کر اب تک گدھا انسانوں کی لازوال خدمت پر معمور ہے۔ راستوں کا یاد رکھنا مسلسل اور انتھک محنت کرنا اور مالک کی وفاداری گدھے کی ایسی خصوصیات ہیں جو اسے انسانی معاشرے میں عزت تو نہ دلا سکیں لیکن ان خصوصیات ہی کی وجہ سے وہ انسان کی غلامی پر مجبور ہے۔ محض دو وقت کے گھاس پھونس کے عوض گدھے کو انسان کی غلامی کرتے ہزاروں سال بیت گئے لیکن وہ پھر بھی گدھا ہی رہا۔ اگرچہ بعض اوقات ضرورت کے وقت لوگ گدھے کو بھی باپ بنا تو لیتے ہیں لیکن محض ضرورت پوری ہونے تک۔ گدھے کے سر سے سینگ غائب ہونا گدھے کے عدم تشدد والے رویہ کی دلیل ہے۔ گدھے کے صبر کی انتہا کہ انتہائی غصے میں بھی محض ایک آدھ دو لتی ہی جھاڑتا ہے وہ بھی شاذ و نادر۔ گدھے کی زندگی میں شاید دو ہی خوشیاں ہیں پہلی خوشی تو گدھی ہے جسے دیکھتے ہیں وہ ڈھینچوں ڈھیچوں کرنے لگتا ہے اور دوسری خوشی ریتلی مٹی ہے جس میں بہت شوق سے وہ الٹ بازیاں لے کر غسل کرتا ہے۔ کچھ دن قبل ایک گدھے والے کو گدھے پر ڈنڈے برساتے دیکھا۔ گدھا چونکہ شاید صراط مستقیم کا قائل ہے اس لیے ناک کی سیدھ میں چل رہا تھا اور اس کی کمر پر اس کی طاقت سے کچھ زیادہ ہی بوجھ لدا ہوا تھا میں نے پوچھا بھائی بوجھ اٹھا کر چل تو رہا ہے کیوں ڈنڈے مار رہے ہو بے چارے کو تو کہنے لگا کہ کیونکہ چلتے گھوڑے کو چابک نہیں مارنی چاہیے اور یہ گدھا ہے میں اس کی اس منطق پر خود کو گدھا محسوس کرنے لگا۔

انسان کے گدھے پر ڈھائے جانے والے جبر اور ظلم و ستم کی ایک طویل داستان ہے۔ اس کے گوشت کے بنے مزیدار پکوانوں سے لے کر اس کی کھال کے جوتوں اور جیکٹوں تک۔ اس کی چربی کی کاسمیٹکس جسے انسان جانے انجانے میں اپنے چہروں پر ملتے ہیں۔ مال برداری کے ساتھ ساتھ اسے ریڑھوں پر بھی جوتا جاتا ہے۔ میدانوں اور پہاڑوں پر گدھا انسان کے لیے یکساں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ ان سب خوبیوں سمیت نبیوں کو اپنی پیٹھ پر سواری کروانے کے باوجود عزت و احترام کے حوالے سے گدھے کو انسانوں میں وہ مقام نہ مل سکا، جودوسرے خونخوار جانوروں اور پرندوں نے پایا۔ بھنبھوڑ کر، نوچ نوچ کر کھانے اور دوسرے کو شکار کرنے والوں کو انسانی معاشرے نے وہ مقام دیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کوئی خود کو شاہین تصور کرتا ہے تو کسی کا نام شیر خان ہے اورکسی کو اس کی چیرہ دستیوں کے باعث چیتے کا خطاب دیا جاتا ہے حیرت اس بات پر کہ دانشوروں اور شاعروں نے بھی اپنی تحریروں میں شیروں، چیتوں، شاہینوں اور ان جیسے خونخواروں کو ہی رول ماڈل بنا کر پیش کیا۔ یعنی طاقت اور جبر یہاں باعثِ تکریم ہے معاشروں میں جبر اور تشدد شاید اس لیے بھی زیادہ ہے کہ کہ رول ماڈل جانور بھی حملہ کرنے والے اور اور نوچ کھانے والے ہی بنائے گئے۔ اور یوں گدھا بے چارا حالات کا مارا اپنی تمام تر مشقت انسان دوستی اور وفاداری کے باوجود خود کو نہ منوا سکا کہ کہ کوئی طرم خان اپنے بیٹے کو میرا پیارا گدھا بیٹا کہ کر پکارے بلکہ ہر کوئی اپنے بچے کو شیر پتر ہی کہتا ہے چاہے بیٹے میں گیدڑ کی سی خصلتیں ہی کیوں نہ پائی جاتی ہوں۔ سکولوں میں اساتزہ ہوم ورک نہ کرنے والے طالب علم کو از راہِ تضحیک گدھے کا لقب دیتے وقت یہ بالکل بھی نہیں سوچتے کہ گدھے نے کبھی کام چوری نہیں کی۔ وہ تو مسلسل اور انتھک محنت کا استعارہ ہے۔ اگرچہ امریکہ نے اس حوالے سے گدھے کی ذات پر ایک احسان عظیم یوں کیا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنا انتخابی نشان گدھا رکھ لیا وہ بھی شاید اس لیے کہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ وہ گدھے نہیں ہیں محض ان کا انتخابی نشان گدھا ہے۔

کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ جس کو ہم گدھا کہتے ہیں کیا وہ ہمیں انسان بھی سمجھتا ہو گا ؟سوال اگرچہ مشکل ہے لیکن اس کا جواب ہم تلاش کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں خود پر گدھے کی سی سنجیدہ کیفیت طاری کرنی ہو گی۔ گدھے کی نظر سے خود کو اور دنیا کو دیکھنا ہو گا۔ اگرچہ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو لاکھوں کروڑوں میں ایسے کتنے ہیں جو آپ کو اشرف مخلوق کے منصب پر پورے اترتے دکھائی دیں گے ؟ یعنی انسان کو اپنے فکر و عمل سے ہی خود کو اشرف ثابت کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے جب ہم ایک سنجیدہ گدھے کی نگاہ سے اپنے معاشرے کو دیکھیں تو ہمیں انسانوں کی کھال اوڑھے خونخوار بھیڑیے، شیر، چیتے لکڑ بھگڑ، بد مست ہاتھی، سانڈ، گینڈے، مکار لومڑ اور بندر بھی دکھائی دیں جنہوں اپنی بھوک اور حوس کی بنیاد پر بہت سے معصوم ہرن اور خرگوش نما انسانوں کو اپنی خوراک بنا رکھا ہے۔ جو فصلوں کھیتوں، کھلیانوں اور چراگاہوں پر قابض ہیں۔ گدھے کی سی سنجیدہ آنکھ سے دیکھنے پر آ پکو بہت سے گدھے نما انسانوں کا بھی ہجوم دکھائی دے گا جن پر ضرورت سے زائد بوجھ لدا ہوا ہے اور سسک سسک کر زندگی کے ریڑھے کو گھسیٹ رہے ہیں۔ اور ان پر مسلسل رعونت اور ظلم کے ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں۔ چند لومڑوں نے شیروں اور سے مل کر کتنے ہی محنتی ایماندار گدھوں کو محض دو وقت کے کھانے کے عوض یرغمال بنا رکھا ہے۔ اور یہ گدھے اس لیے گدھے ہی ہیں کہ یہ خونخوار نہیں بن سکتے تھے۔

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ جس کو ہم گدھا کہتے ہیں کیا وہ ہمیں انسان بھی سمجھتا ہو گا؟ یا پھر ہو سکتا ہے کہ گدھوں کو ہم جیسے انسانوں کے بیچ رہ کر اپنے گدھے ہونے پر فخر ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

در و دیوار

 

                سیّد ممتاز علی بخاری

 

کہتے ہیں دیوار اور دروازے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دیوار نہ ہو تو پھر دروازہ بھلا کس کام کا؟ جس طرح دیوار دیدار میں رکاوٹ کا دوسرا نام ہے اسی طرح دروازہ دیدار کے لیے ایک پُل کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ سنا ہے دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن آج تک ہمیں اُن کے کان نظر نہیں آئے اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ اُن کانوں کی شکل و صورت کیسی ہے ؟ ان کا سائز کیا ہے ؟ ان کی طاقت کتنی ہے ؟ہماری تحریر میں جا بجا آپ کو لفظ گیٹ(Gate) نظر آئے گا۔ در اصل معزز دروازوں کو انگریزی زبان میں گیٹ کہتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چھت کے سوا گھر نہیں ہو سکتا لیکن چُپ شاہ کے نزدیک دیواروں کے بغیر گھر نہیں ہو سکتا۔ عورتوں کو چار دیواری کا درس دینے والے اکثر حضرات اپنی راہ میں ایک دیوار بھی برداشت نہیں کر تے۔ دیوار کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر کوئی ایرا غیرا نتھو  خیرا وہاں سے راستہ نہیں بنا سکتا۔ صرف چور اور ڈاکو اپنی مرضی سے جہاں سے چاہتے ہیں راستہ بنا لیتے ہیں چاہے وہاں دیوار ہو یا بیمار۔ یار لوگ تو دار کو بڑا دروازہ کہتے ہیں بلکہ بل گیٹس کو بھی "گیٹ” (دروازہ) ہی سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک بھی وہ دروازہ ہی ہے دولت بے پناہ کا۔

خیر آج ہم نے سوچا کہ آپ حضرات کو مختلف قسم کی دیواروں اور دروازوں کی اقسام سے متعارف کروا لیں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

۱۔ کالج کے دَر و دیوار یہ دیواریں بڑی خوش قسمت ہوتی ہیں۔ ان پر آئے دن نت نئے سیاسی گروہ اپنی تشہیر کے لیے چاکنگ کرتے ہیں پھر اُن پر پینٹ یا رنگ پھر جاتا ہے۔ اگلے روز ایک نئی عبادت یوں جگمگا رہی ہوتی ہے جیسے کہ اُسی کے لیے یہ دیوار بنائی گئی ہو۔ بعض اوقات اوپر تلے تحریر کی گئی چاکنگ بارش وغیرہ سے دھل کر کچھ یوں بن جاتی ہے کہ لکھنے اور پڑھنے والے دونوں حیران رہ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ اسی طرح کی وال چاکنگ دیکھی جس میں لکھا تھا کہ 25 ستمبر کو ملک کے مشہور و معروف حکیم صاحب میں کرکٹ کا ایک نمائشی میوزیم ہے جس میں تھیڑ کے بڑے فنکار بھی شامل ہوں گے۔ قربانی کی کھالیں ہمیں دے کر ٹکٹ بک کروائیں ورنہ حکومت ذمہ دار نہ ہو گی۔ حکیم صاحب کے جسم میں کرکٹ گراؤنڈ، کرکٹ میں تھیٹر کے فنکاروں کا کھیل، اور کرکٹ کا میوزیم بڑے عجیب و غریب انکشافات تھے لیکن سب سے انوکھا انکشاف یہ تھا کہ قربانی کی کھالوں کا ایک نیا مصرف بھی سامنے آ گیا تھا۔ جب ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ بارش اور باد و باراں نے نصف درجن اشتہاروں کا بھرتہ بنایا ہوا ہے۔

عموماً کالج کے گیٹوں کو بھی زنانہ اور مردانہ کالج کے حوالے سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بوائز کالج کے گیٹ عموماً ویران ہوتے ہیں جبکہ گرلز کالج کے گیٹوں پر زیرِ تعلیم طالبات کے علاوہ بے شمار لڑکے بھی نظر آتے ہیں۔ بعض تو لڑکیوں کے خونی رشتہ دار ہوتے ہیں اور بعض جنونی رشتہ دار بننے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ ہم تو یونیورسٹی کے دَر و دیوار کو بھی اسی فہرست میں رکھا کرتے ہیں۔ البتہ مخلوط تعلیم دلانے والے اداروں کے گیٹ بہت پُر رونق بنے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ہمیشہ! یوں تو روزانہ قوم کے مستقبل کے یہ ضامن وقت مقررہ پر اپنے فرائض سر انجام دینے کے لیے موجود ہوتے ہیں لیکن ایک روز ایسا بھی آتا ہے جب گرلز اور بوائز کالجوں کے گیٹ ایک سا منظر پیش کرتے ہیں اور وہ دن ہوتا ہے اتوار کا۔ اکثر اوقات کالجز کے یہ دروازے اور دیواریں سیاسی تنظیموں کے درمیان نزاع کا باعث بنتے ہیں۔ کہیں جھنڈے لگانے، اکھیڑنے پہ جھگڑا، کہیں چاکنگ کرنے مٹانے کی لڑائی تو کہیں کسی سیاسی تنظیم کی ہڑتال پر گیٹ کے کھلے رہنے یا بند رہنے پر چپقلش۔ ۔ ۔ ۔ !

۲۔ کوچۂ محبوب کے دَر و دیوار ایک مشہور قول ہے کہ محبوب کی گلی کا کُتا بھی عشاق کو محبوب ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کا اُن کے محبوب کی گلی سے ایک تعلق ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے محبوب کے گھر کے دَر و دیوار تو خصوصی اہمیت کے حامل ہوئے۔ یار لوگ تو محبوب کے گھر کی دہلیز کو اتنا متبرک سمجھتے ہیں کہ کئی ایک تو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اس سمت سجدوں کی اجازت مانگتے پھرتے ہیں۔ محبوب کے آشیانے کی دیواروں کو لمس کی حس بہت ہی طاقت ور ہوتی ہے۔ اس لیے عموماً عاشق اُن سے لپٹ لپٹ کر روتے ہیں۔ اگر عشق کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہو تو پھر عاشق محبوب کے دَر و دیوار کو ایک نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک دیوار اور دروازے میں فرق اتنا ہوتا ہے کہ دروازے پر سکیورٹی گارڈ یا گھر کے کسی نگران کی نظر ہوتی ہے جبکہ دیواروں کو کوئی نہیں دیکھتا۔ اسی لیے وہ دروازوں کے بجائے دیواریں پھلانگنا آسان سمجھتے ہیں کیونکہ یہ آسان راستہ بھی ہوتا ہے اور محفوظ بھی۔

اگر آپ ہماری اردو شاعری کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ محبوب کے دروازے پر ایک نا دیدہ رکاوٹ لگی ہوتی ہے۔ اس رکاوٹ کو عبور کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ اکثر جوشیلے مگر بزدل عاشق جو آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے دعوے دار ہوتے ہیں ان سے اتنا نہیں ہو سکتا کہ وہ ان نادیدہ جالوں کو توڑ پائیں جو محبوب کے گھر کی دہلیز پر لگے ہوتے ہیں۔

کچھ حضرات تو محبوبہ کے بھائیوں کو بھی دیوار سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن ان دیواروں کو پھلانگنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اکثر عاشق یہیں سے واپس ہو لیتے ہیں۔ ڈر کر یا مار کھا کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

۳۔ ٹھیکے والے دَر و دیوار یہ دروازے اور دیواریں ٹھیکے داروں نے بنائی ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض دیواریں تو آدھی بنی ہوتی ہیں اور بعض کی تعمیر تو مکمل ہو چکی ہوتی ہے لیکن یہ بنتی ہی ٹوٹنے کے لیے ہوتی ہیں۔ عموماً ٹھیکے دار حضرات پیسے تو پورے سامان (میٹریل )کے لے لیتے ہیں لیکن استعمال کرتے وقت ڈنڈی بلکہ ڈنڈا مارتے ہیں اور بقایا سامان(میٹریل )کے پیسے اپنے جیب میں ڈال دیتے ہیں تاکہ مرنے کے بعد دوزخ میں ایک عظیم الشان محل کی تعمیر کی جا سکے۔

اِسی لیے ٹھیکے والی دیواریں ایسی ہوتی ہیں کہ ذرا کسی نے ٹیک لگائی اور یہ دھڑام سے نیچے۔ ان دیواروں پر اگر غلطی سے کوئی کوا آ کر بیٹھ جائے تو یہ اس کی زندگی کا چراغ گل کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ ہم نے ایک بار مشہور مفکر چُپ شاہ سے پوچھا کہ یہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹا گون کی عمارتیں جہازوں کے ٹکرانے سے کیسے گریں ؟ تو انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جہاز تو جہاز اگر کوئی اڑتا مچھر بھی ان عمارتوں سے ٹکرا جاتا تو بھی ان عمارتوں نے زمین بوس ہو جانا تھا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ در اصل یہ عمارتیں ٹھیکے پر تعمیر کی گئی تھیں۔ ٹھیکے پر تعمیر ہونے والی عمارتوں کے اندر ایک اور کجی رہ جاتی ہیں اور وہ یہ کہ ایسی عمارتوں کے دیواریں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں، ہوا کے دباؤسے۔

چُپ شاہ کے نزدیک پیسا ٹاور کا ٹیڑھا ہونا اس کی ٹھیکے پر کی گئی تعمیر کی پہچان ہے۔ ہم ساری ٹیڑھی دیواروں کو ٹھیکے داروں کی غلطی نہیں قرار دے سکتے کیونکہ کئی دیواریں اتنی نیک ہوتی ہیں کہ وہ رکوع و سجود کے لیے کعبے کی سمت جھک جاتی ہیں اور ہم لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ شاید ٹھیکیدار نے دیوار کی تعمیر میں کوئی ڈنڈی ماری ہوئی ہے۔ کچھ یہی حال ٹھیکے پر بنائے دروازوں کا ہے۔ کبھی زنگ آلود لوہے کو پینٹ(رنگ و روغن) کر کے فروخت کیا جاتا ہے تو کبھی اس پرانی لکڑی کو جسے اندر سے کیڑوں نے کھا لیا ہو، رنگ و روغن کر کے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔ ایسے دروازے اکثر موت کے ہر کارے کے ساتھ مل کر اپنے مالک سے دغا کر جاتے ہیں اور انسان کو زمین کی پستیوں سے بلند آسمان کی وسعتوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ ان دروازوں سے توسوچ کے دروازے زیاد مضبوط ہوتے ہیں۔

۴۔ وی آئی پی دَر و دیوار یہ دَر و دیوار اپنی اہمیت کے حوالے سے سب سے منفرد اور ممتاز ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر پائی جانے والی اعلیٰ مقتدر شخصیات اور اہم اداروں کے ارد گرد اسی قسم کے دروازے اور دیواریں ہوتی ہیں۔ یہ دیواریں اونچائی میں تمام دیواروں سے اونچی ہوتی ہیں اور دروازے ہوشیار اور حسّاس۔ دیواروں نے خار دار تاروں والا لباس پہنا ہوتا ہے۔ عام دیواروں کے بر عکس ان دیواروں کے کان نہیں ہوتے البتہ آنکھیں ہوتی ہیں اور ان گنت تعداد میں جن کے اندر عقاب کی نظروں سے پھُرتی ہوتی ہے۔ وی آئی پی دروازے بھی دوسرے دروازوں سے کچھ الگ ہی شان رکھتے ہیں۔ وہاں بے شمار سکیورٹی گارڈز ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں اور یہ دروازے باز بان ہوتے ہیں۔ یہ بول کر بتا سکتے ہیں کہ آنے والا انسان کس قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ دلہن کی خاموشی اقرار کی علامت سمجھی جاتی ہے جبکہ ان دروازوں کی خاموشی انسان کے پر امن اور سادہ ہونے کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ اگر ان دروازوں میں سے کوئی ایسا ویسا آدمی گزر جائے تو یہ چیخ چیخ کر آسمان بادلوں سمیت اپنے سر پر اٹھا لیتے ہیں اور نتیجتاً پورا ماحول سنگینوں کی زد میں آ جاتا ہے اور اگر بات کچھ زیادہ شدت کی ہو تو پستولوں کی گھن گرج کے ساتھ گولیوں کی بوندا باندی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دروازے عام دروازوں سے کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ ایسے در و دیوار VIPsکو عام لوگوں کی پہنچ اور رسائی سے دور رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دواؤں کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے اور رکھا جانا چاہیے۔

۵۔ تاریخی دَر و دیوار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ ان دَر و دیوار کی اہمیت مسلمہ ہے۔ چاہے غیر مسلموں کے دیس ہی میں کیوں نہ ہوں۔ پہلے تذکرہ کرتے ہیں دیواروں کا تو صاحبو! دیوارِ برلن اور دیوار، عراق (جو امریکہ نے 2003 کے عراق پر قبضے کے بعد بنائی تھی ) بہت مشہور ہیں۔ ان دیواروں کا یہی کام ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں تفریق پیدا کر سکیں اور ان کے درمیان نفرت کے بیج بو سکیں لیکن ایک ایسی تاریخی دیوار بھی ہے جو بنی نوع انسان کی حفاظت کے لیے تعمیر ہوئی وہ ہے دیوارِ چین۔ ۔ ۔ ! تا تاریوں کے حملوں سے بچنے کے لیے یہ دیوار بنانے والوں کے علم میں بھی نہیں تھا کہ لوگ چاند سے جا کر اس دیوار کو تکتے رہیں گے۔ ایک دیوار ان دنوں انڈیا بھی لائن آف کنٹرول پر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک تاریخی دیوار سکندر نے بھی بنائی تھی جس میں یا جوج ماجوج کو قید کر دیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے سیاستدان کیسے اس دیوار کو پھلانگ آئے۔ باقی قوم ابھی قیامت کی منتظر ہے۔ دروازوں یعنی گیٹوں کے حوالے سے ہمیں پچھلے زمانوں میں کچھ روایات ملتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ہر شہر پناہ کا ایک بلکہ کئی گیٹ ہوتے تھے۔ لیکن آج کل کے دور میں سوائے لاہور کے کسی بھی شہر کے دروازوں کا ذکر نہیں ملتا۔ اس شہر میں لوہاری گیٹ، بھاٹی گیٹ، موچی گیٹ وغیرہ موجود ہیں۔ یہ سارے گیٹ انگریزوں سے بھی پہلے کے بنے ہوئے ہیں اور مغلیہ سلطنت کی یادگار ہیں۔

۶۔ عام دَر و دیوار اس قسم کے در و دیوار آپ کو ہر طرف نظر آئیں گے۔ یہ دیواریں اتنی ہی کمزور ہوتی ہیں جتنے ان کے مکین غریب ہوتے ہیں۔ یہ گھر کی حفاظت کی خاطر تعمیر کی جاتی ہیں لیکن چور حضرات ان سے مک مکا کرنے کے بعد ان کو پھلانگ کر گھر والوں کو ان کے سرمائے سے محروم کر دیتے ہیں۔ پھر لوگ پولیس کو رپورٹ تک نہیں کروا سکتے۔ اس لیے کہ چوروں نے اتنی رقم چھوڑی ہی نہیں ہوتی کہ مظلوم بے چارہ پولیس والوں کو تحفے میں دے سکے اور تحفے کے بغیر تو ہمارے ہاں پولیس والے صرف "کمال” کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری پولیس اور جاپانی ایک ہی فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ صرف ایک چھوٹا سا فرق ایسا ہے جو ہماری پولیس کی عظمت کی مثال پیش کرتا ہے۔ وہ یہ کہ جاپانی حضرات تحفے لینے اور دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور ہماری پولیس صرف تحفے لینے کی مشتاق ہے۔

کچھ اسی قسم کی دیواریں اور گیٹ سڑکوں کے بھی ہوتے ہیں۔ سڑک کی دیواریں مفرور مجرم جیسی ہوتی ہیں تبھی تو ان کو لوہے کی سلاخوں سے باندھا ہوتا ہے یا پھر سٹیل یا ایلومینیم کی تاروں سے۔ ۔ ۔ ! چُپ شاہ کا کہنا ہے کہ شاید دروازوں کی اہمیت یہیں تک محدود رہتی لیکن بھلا ہو امریکہ کے صدر نکسن کا جس نے واٹر گیٹ سکینڈل کا حصہ بن کر گیٹوں کو ایک نئی زندگی دی۔ اسی طرح دروازے حسین حقانی اور منصور اعجاز کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے میمو گیٹ سکینڈل تخلیق کیا اور اکیسویں صدی میں بھی دروازوں کا بول بالا کیا۔

٭٭٭

 

 

 

بیوی کی مار

 

                شوکت علی مظفر

 

ہمارے دیرینہ دوست مَلک صاحب تو ملنگ ٹائپ ہیں ہی مگر ان کی اہلیہ تو اُن سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمیں وقتاً فوقتاً ملک صاحب کی ظاہری حالتوں سے ہوتا رہتا ہے اور کبھی کبھار تو یہ خود بھی اہلیہ کے قصے سناتے رہتے ہیں جس سے ان کی گھریلو صورتحال کا علم رہتا ہے۔ مگر آج صبح صبح ہی ملک صاحب کو اپنے دروازے پر پاکر ہمیں حیرت ہوئی… حیرت اس بات پر نہیں کہ وہ نمازِ فجر کے بعد ہی ہم سے ملاقات کے لیے آ گئے بلکہ حیرت ان کے سوجے ہوئے منہ کو دیکھ کر ہوئی، جا بجا ناخن کی خراشیں ان کے چہرے پر واضح تھیں۔ ایک آنکھ تو اتنی سوجی ہوئی تھی، مَلک ہمیں کوئی بھوت لگ رہا تھا۔ ہم نے دریافت کیا "کیا ہوا؟کہیں ڈاکو شاکو تو گھر پر نہیں آ گئے جنہوں نے لوٹ مار کے دوران یہ حالت بنا دی ہو؟؟”

"ہونہہ ڈاکو۔ ۔ ۔ جس گھر میں تمہاری بھابھی جیسی عورت ہو اس میں ڈاکو بھی آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ”

"تو آپ کا مطلب ہے کہ یہ سب کیا دھرا بھابھی کا ہے ؟”

"اور نہیں تو کیا۔ ۔ ۔ پتہ نہیں کہاں سے اسے یہ خبر مل گئی کہ جب سے انسانی حقوق کے قومی ادارے نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں شوہروں پر تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ رکن شوریٰ اور مملکت کے ممتاز عالم دین شیخ عبدالحسن نے فتویٰ دیا کہ تشدد کی شکار خواتین کو اپنے شوہروں کی پٹائی کا حق حاصل ہے تو آج صبح صبح جب میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے بھی جواب دیا، مجھے غصہ آیا اور ایک تھپڑ رخِ روشن پر جڑ دیا۔ ۔ ۔ بس پھر کیا تھا۔ ۔ ۔ کب تک شمع جلی کچھ یاد نہیں، وہاں سے جان بچا کر تمہارے پاس آ گیا ہوں۔ ”

ابھی یہ بات ہوہی رہی تھی کہ بھابھی بھی آتی دکھائی دیں۔ ملک صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً مخالف جانب دوڑ لگا دی۔ ہم روکتے رہ گئے مگر وہ تو نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے، البتہ بھابی محترمہ ہمارے سامنے کھڑے ہو کر غصے سے گھورے جا رہی تھیں "آپ نے ہی انہیں مشورہ دیا ہو گا بھاگنے کا۔ ”

ہم اس بات کا مناسب جواب دینے ہی والے تھے کہ بھابی نے فرمایا "اب دیکھنا، ان جیسے شوہروں کا کیا حال ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اب تو فتویٰ مل گیا۔ ۔ ۔ کب تک بھاگتے پھریں گے، بڑے آئے بیویوں پر ہاتھ اُٹھانے والے۔ ”

ہم نے بڑی مشکلوں سے بھابھی کو سمجھایا کہ شوہر سر کا تاج ہوا کرتے ہیں، اُنہیں اس طرح گلیوں میں نہیں رولتے اور یہ فتویٰ سعودیہ میں شوہروں کا تشدد بڑھنے کی وجہ سے دیا گیا پاکستان کے لیے نہیں، تو جھٹ سے بولیں "بیویاں بھی گھر کی ملکہ ہوتی ہے، جانور نہیں کہ جب چاہا مار پیٹ شروع کر دی چاہے پاکستان ہو، سعودیہ ہو یا کوئی اور ملک۔ ”

ہمیں یقین تھا کہ یہاں جانور سے مراد اُن کے ذہن میں "محنتی جانور” ہو گا جسے خوامخواہ ہی مار پڑتی رہتی ہے اور ضرورت کے وقت لوگ باپ بھی بنا لیتے۔ خیر بھابی آندھی کی طرح آئی تھیں اسی طرح لوٹ گئیں اور ہمیں ملک صاحب جیسے لوگوں پر ترس آنے لگا جو خوامخواہ ہی بیویوں پر محض رعب جمانے کی خاطر یا ویسے ہی مردانگی کے زعم میں مار پیٹ سے کام لیتے ہیں۔ مذکورہ فتویٰ کے بعد تو اُنہیں بھی اینٹ کا جواب اینٹ سے ہی ملنے کی توقع ہے کہ عورتوں کی فطرت ہے، پیار بھی حد سے بڑھ کر اور مار۔ ۔ ۔ وہ تو ملک صاحب کے ایک تھپڑ کے بدلے پڑنے والے گھونسوں اور خراشوں سے واضح ہے۔

مذکورہ فتویٰ آ جانے سے ہم نے چند شادی شدہ حضرات سے اِس بابت مستقبل کے بارے میں دریافت کیا تو چند ایک نے کہا "‘اِس سے ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ہماری بیوی تو پہلے ہی ہر بات کا جواب برابر چکانے کی عادی ہے۔ ” ایک صاحب نے فرمایا "اب تو لگتا ہے گھر میں بھی ہیلمٹ پہن کر گھومنا پڑے گا کہ کچھ پتا نہیں کچن سے کون سا برتن کب برس جائے۔ ” ایک اور صاحب کے بقول "بیوی کو مارنے کا حق مل جانا غیر فطری سی بات معلوم ہوتی ہے، البتہ تنگ آمد بجنگ آمد ایسی بیویاں (تشدد زدہ) کسی فتوے کے انتظار سے قبل ہی، موقع ملتے ہی جان چھڑاتی آئی ہیں، کچھ اپنے شوہروں کو قتل کر دیتی ہیں یا پھر گھر چھوڑ دیتی ہیں۔ ” ایک سرکاری ملازم کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں "بیویاں بہت پکاتی(دماغ) ہیں۔ بری ہوں تو ان سے خدا کی پناہ ہے مگر اچھی ہوں تو اور زیادہ پکاتی ہیں اب مستقبل میں نجانے کیا صورتحال ہو گی، گھر میدان جنگ بنے ہوں گے۔ ” ایک محترمہ نے فرمایا "فتویٰ آ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، سوائے ان عورتوں کے جو پہلے اس قسم کی حرکتیں کرتی رہتی ہیں، اب اُنہیں جواز مل گیا اور خوشی بھی ہوئی ہو گی کہ خواتین کے حقوق مردوں سے کم نہیں لیکن پاکستانی معاشرہ، مشرقی معاشرہ کہلاتا ہے اور اسلام کے ساتھ ساتھ مشرقی رسم و رواج میں بیویوں کی اکثریت اپنے شوہروں کے تشدد کو بھی پیار کا ہی حصہ سمجھ کر برداشت کرتی ہیں اور گھر ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اپنی آخری سانس تک کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ ” ایک لیڈی ڈاکٹر کے خیالات "پاکستانی بیویاں جتنی بھی پڑھ لکھ جائیں اکثریت اپنے شوہروں پر ہاتھ اٹھانے سے گریز ہی کرتی ہیں اور ان کی مار پیٹ کو بھی مزاجی خدا کا تحفہ سمجھ کر ہنسی خوشی سہہ لیتی ہیں اور حرفِ شکایت تک زبان پر نہیں لاتیں، بہت کم ایسی ہوں گی جو اس انتہائی اقدام کی جانب راغب ہوتی ہوں گی۔ ” ایک محنت کش نے کہا "ہماری بیوی ہمارے سامنے بول نہیں سکتی وہ مارے گی کیسے۔ ۔ ۔ ؟ چاہے دس فتوے آ جائیں۔ ”

بہر حال یہ فتویٰ اپنی جگہ لیکن عورت کائنات کا حسن ہے اور بد ذوق انسان ہی خوبصورتی کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ ویسے بھی عورت کو ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، اِسے سیدھا کرنے کی کوشش کی جائے تو ٹوٹ سکتی ہے، اچھے شوہر وہی ہیں جو ایسا موقع ہی نہ آنے دیں کہ ان کی اہلیہ کا ہاتھ ان کے گریبان تک آئے۔ ۔ ۔ ورنہ آج کی عورت بھی بروسلی اور سنجے دت کی فلمیں دیکھ دیکھ کر داؤ پیچ سیکھ چکی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو، مرد حضرات ولن بننے کی کوشش کریں تو ہیرو کی مار اسے زمین چاٹنے پر مجبور کر دے۔ اور خواتین کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ شوہر بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں، ضد پر آ جائیں تو کسی کی نہیں سنتے، مار سے اور زیادہ بگڑ جاتے ہیں جبکہ پیار سے ہر بات مان جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوہر کتنی عمر کے بچے ہوتے ہیں تو سمجھ لیجئے، اتنی چھوٹی عمر کے بچے کہ اگر چار بیویاں مل کر بھی پالیں تب بھی ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ ۔ ۔ !!

٭٭٭

 

 

 

 

 

باغی مرغی

 

                محمد اشفاق ایاز

 

یہ دنیا عجائبات سے بھری ہوئی ہے۔ عجائبات وہ ہی نہیں جن سے عجائب خانے بھرے ہوئے ہیں بلکہ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے کچھ واقعات بھی ہیں جنہیں دیکھ کر یا پڑھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے اور دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے ” کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟” حالانکہ اس وقت تک تو بہت کچھ ہو بھی چکا ہوتا ہے۔

سکاٹ لینڈ سے تازہ تازہ خبر آئی ہے کہ وہاں ایک مرغی کو قانون پر عمل نہ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور یہ خبرپاکستانی اخبارات میں با تصویر ایسے شائع ہوئی ہے جیسے اس مرغی کا تعلق حکمران خاندان سے ہو اور اس کے گھر سے فرار ہونے سے کئی خاندانی پوشیدہ راز افشا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ہوا یوں کہ اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی میں ایک مرغی ایسٹ مارکیٹ گیٹ کی ایک مصروف سڑک کو عین رش کے اوقات میں عبور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہاں سے گزرنے والی ایک گاڑی کے مالک نے جب مرغی کو یوں آزادانہ اور بے حجابانہ سڑک سے گزرتے دیکھا تو اس کی غیرت نے جوش مارا، حالانکہ اگر اس مرغی کی جگہ کوئی میم برہنہ حالت میں بھی گھوم رہی ہوتی تو اس کی غیرت "سائلنٹ” پر ہی لگی رہتی کیونکہ وہاں شخصی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے مگر وہاں کوئی نوجوان لڑکی نہیں بلکہ ایک مرغی تھی جو سڑک کے بیچوں بیچ کسی کو خاطر میں نہیں لا رہی تھی۔ اس شخص نے فوراًپولیس کو فون کر ڈالا۔ یہاں آ کر خبر نگار خاموش ہے کہ کہیں اس مرغی کو اکیلے دیکھ کر گاڑی کے مالک کی نیت میں فتور تو نہیں آ گیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس نے مرغی کو پکڑنے کی کوشش کی ہو۔ جب ہاتھ نہ آئی تو "تھو کڑوی” کا نعرہ بلند کیا اور پولیس کو بلا لیا۔ پولیس بھی ایسی فرض شناس کہ فوراً جائے وقوعہ پر پہنچی۔ گاڑی کے مالک نے اصل بات تو چھپا لی۔ صرف اِتنا بیان دیا کہ اس مرغی کی وجہ سے لوگوں کو مصروف سڑک پر سفر جاری رکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ اس بیان کو حتمی جانتے ہوئے پولیس نے مرغی کو گرفتار کیا اور پولیس اسٹیشن لے گئی۔ اب پولیس نے اس مرغی کے اَصل وارثوں کی تلاش کے لیے جانوروں کی تنظیم سے رابطہ کر لیا ہے اور مالک کے نہ ملنے تک اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اس ادارے کو سونپ دی گئی ہے۔ خبر نگار نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس کی جانب سے یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ اگرکسی کو اُس مرغی کے مصروف ترین سڑک پار کرنے کی وجہ معلوم ہو تو وہ رابطہ کر کے آگاہ کریں۔

ہمارے خیال میں خبر کا آخری حصہ بہت ہی اہم ہے۔ اُس انگریز پولیس کی عقل پر ماتم کر نے کو جی چاہتا ہے۔ لگتا ہے اسے مزید ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ ٹریننگ کے اس اہم حصے کے لئے اسے پاکستان کی پولیس سے رابطہ کرنا چاہئے۔ پاکستانی پولیس ہے اس مت ماری انگریز پولیس کو بتا سکتی ہے کہ "مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ” کی اصل تشریح کیا ہے۔ اور اس کا استعمال کہاں کہاں کیا جا سکتا ہے۔ جب اس مرغی کو پولیس سٹیشن لے ہی گئے تھے تو پھر بھلا اسے جانوروں کی تنظیم کے حوالے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔

انگریز باغی مرغی کے گھریلو، سماجی، رفاعی اور سیاسی کردار کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ تفتیش کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ پتہ چلانا ضروری ہے کہ مرغی صاحبہ گھر سے ناراض ہو کر نکلی تھی، بغاوت پر اتر آئی تھی، کسی کے بہکاوے میں آ گئی تھی یا حقوق مرغیاں کی میر کارواں بن کر روڈ بلاک کرنے کے چکر میں تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ انڈے دے دے کر زندگی سے اِتنا تنگ آ چکی ہو کہ خودکشی کے ارادے سے مصروف سڑک پر آ نکلی ہو۔

ایک ایسی ہی بے باک اور لیڈر نما مرغی پاکستان کے ایک تھانے میں چلی گئی۔ پھر "تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ” جانا اس نے کہاں تھا، بڑے ادب اور احترام کے ساتھ تھانے کے باورچی خانے لے جائی گئی۔ جب تک اس کے مالک کو خبر ہوئی کہ وہ اسی تھانے میں داخل ہوتے دیکھی گئی تھی، اُس وقت تک اس کا گوشت صاحب لوگوں کے خون کا حصہ بن چکا تھا۔

یہاں مجھے وہ میراثی یاد آ رہا ہے جس کے گھر چوہدری صاحب کا مرغا کچھ جگتیں کچھ لطیفے سننے چلا آیا۔ میراثی کو علم تھا کہ چوہدری صاحب کو یقین ہو گا کہ ان کا پیارا مرغا اُسی کے گھر آیا ہے۔ میراثی نے مرغے کو ذبح کر کے اس کی کھال گھر کے دروازے پر لٹکا دی اور گوشت پکا کر کھا گیا۔ حسب توقع تھوڑی دیر بعد چوہدری صاحب اُس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس سے مرغے کا پوچھا۔ میراثی بھی خاندانی تھا، فوراً بولا "جی چوہدری صاحب آپ کا مرغا اِدھر آیا تھا۔ اس نے اپنی وردی یہاں اتاری اور بھیس بدل کر کسی مرغی کے ساتھ گاؤں سے باہر چلا گیا ہے۔ ”

یہ تو پھر مرغیوں کا حال ہے۔ ایک اچھے بھلے انسان کو ایک رات تھانے کی حوالات میں گزارنا پڑ جائے تو صبح تک اُسے اپنا نام ٹھیک طرح یاد نہیں رہتا۔ تھانے والے اسے کچھ اس طرح "روحانی و جسمانی مراقبے ” کی مشق کراتے ہیں کہ نہ اُس کا ذہن پہلے جیسا رہتا ہے نہ جسم۔ اِسی پر بس نہیں بلکہ اگر کوئی گاڑی ایک رات کے لئے تھانے کی چار دیواری میں کھڑی رہے تو صبح تک اس کا مالک بھی اسے پہچان نہیں سکتا۔ میوزک ڈیک، ایل سی ڈی وغیرہ اس مہارت سے غائب کی جاتی ہیں کہ جیسے یہ گاڑی میں تھی ہی نہیں۔ اس کے ٹائر اگر نئے ہوں تو پھر وہ خود بخود اس گاڑی سے کھسک کر گھومتے ہوئے "صاحب” کی گاڑی کے نیچے لگ جاتے ہیں۔ انجن اگر اچھی حالت میں ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ بس وہاں اتنا نشان رہ جاتا ہے کہ گاڑی اگر واپس کرنی ہی ہو تو ایک دفعہ سٹارٹ ہو کر گھر تک خیریت سے پہنچ جائے۔ آگے اللہ مالک ہے۔

گزشتہ دنوں ایک قصاب کو گدھے کو ذبح کر کے اس کا گوشت بناتے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ شخص انتہائی ایماندار تھا۔ جب مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ تو اس نے اپنے اقبالی بیان میں اعتراف کیا کہ وہ گدھے ذبح کرتا تھا لیکن ان کا گوشت دکان پر عام لوگوں کو فروخت کرنے کی بجائے "صاحب” لوگوں کے گھروں میں سپلائی کیا کرتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس نے علاقے کے آوارہ کتوں کو بھی ان "صاحب ” لوگوں کے باورچی خانوں تک پہنچا دیا تھا۔ وجہ پوچھی گئی تو بغیر ہچکچاہٹ بولا ” یہ ہر دوسرے تیسرے روز میرا چالان کر دیتے تھے اور مطالبہ کرتے تھے کہ میں انہیں مفت گوشت مہیا کیا کروں۔ مجھے اس کا یہی حل نظر آیا۔ آج تک مجھے کسی "صاحب” کے گھر سے شکایت نہیں آئی "۔ اس قصاب کے اعترافی بیان سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر سرکاری ” صاحب” ڈھیٹ کیوں ہوتے ہیں کہ گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہیں ہوتے یا اگر ذرا سی بات بھی ناگوار گزرے تو بھونکنا کیوں شروع کر دیتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی انگریز باغی مرغی کی جسے پولیس نے جانوروں کی تنظیم کے حوالے کر دیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس مرغی نے اس تنظیم کی تحویل میں انڈے دینے کا سلسلہ شروع کر دیا تو وہ انڈے کس کی ملکیت تصور ہوں گے۔ کیا اُنہیں پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا یا اصل مالک کے انتظار میں اُنہیں فریج میں اکٹھا کیا جاتا رہے گا۔ اِس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر اصل مالک کا پتہ چل گیا تو وہ کہیں پولیس اور جانوروں کی تنظیم پر مرغی کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے الزام میں ہرجانے کا دعویٰ ہی نہ کر دے کیونکہ معمولی معمولی بات پر ہرجانے کے دعوے یورپ میں عام سی بات ہے۔ ہم لوگ جو سمجھتے ہیں کہ یورپ والے ایماندار ہیں تو وہ ایویں ہی ایماندار نہیں، اُنہیں ہرجانے کا خوف ایماندار بنائے رکھتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ یہ مرغی سکاٹ لینڈ میں پکڑی گئی۔ اگر یہ ہندوستان میں پکڑی جاتی تو الزام پاکستان پر آ جاتا کہ اسے دہشت گردی کی کاروائیوں کے لیے انڈیا بھیجا گیا ہے۔ پہلے ہی انڈین آرمی کئی کبوتر پکڑ کر عالمی میڈیا کو دکھا چکی ہے، جن کے متعلق عالمی رہنماؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اُنہیں پاکستان نے اپنے خاص دہشت گردانہ مقاصد کے لئے انڈیا بھیجا ہے۔ کمپیوٹر کی دنیا کے ارب پتی بل گیٹس نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ وہ غریب ممالک میں ہر خاندان میں مرغیاں تقسیم کریں گے۔ مقصد یہ کہ اس مرغی پال سکیم سے غریب خاندان اچھی خاصی رقم کما کر اپنے بچوں کی کفالت کر سکتے ہیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ بل گیٹس کی مرغیاں پاکستان پہنچنے سے پہلے برائلر مرغیاں پہنچ چکی ہیں۔ جو پاکستانی گھریلو لڑکیوں کی طرح اتنی حیا دار ہیں کہ جہاں بٹھاؤ، ذبح ہونے تک وہیں بیٹھی رہتی ہیں۔ دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارہ کرتے ہیں مگر یہ برائلر مرغیاں دور بیٹھی چپ چاپ اپنے سامنے اپنی ہم جنسوں کو ذبح ہوتے اور خون میں لت پت پھڑکتے دیکھتی ہیں، مجال ہے کہ ایک حرف بھی شکایت کا اپنی زبان پر لائیں۔ اُنہیں ان کے میکے (مرغی خانے ) سے نکال کر دو دو دن کھانے پینے کو کچھ نہ دیں پھر بھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لاتیں۔ اِن مرغیوں کو دیکھ کر صدیوں پرانا محاورہ غلط ہو گیا ہے "کڑ کڑ کہیں اور انڈے کہیں "۔ یہ کیسی مرغیاں ہیں کہ نہ اِن کی کڑکڑ سنائی دیتی ہے اور نہ انڈے دکھائی دیتے ہیں۔

اِن مرغیوں سے ہمیں اپنا بچپن یاد آ گیا۔ جب ہمارے ماسٹر جی ذراسی غلطی یا سبق یاد نہ کرنے پر ہمیں مرغا بنا دیا کرتے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ طالبات کو بھی سکولوں میں مرغا ہی بنایا جاتا تھا۔ ساری عمر سر کھپانے کے باوجود ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ماسٹر جی ہمیں مرغا ہی کیوں بنایا کرتے تھے۔ مرغی کیوں نہیں ؟ ایک بزرگ ماسٹر جی سے جب ہم نے یہی سوال کیا تو شرما کر کہنے لگے "تہذیب اِس کی اجازت نہیں دیتی۔ ” اب بھلا مرغے سے مرغی بننے میں کون سی تہذیب آڑے آ گئی، لیکن ہمیں جواب نہ مل سکا۔ اب زمانہ بہت بدل چکا ہے، نہ وہ ماسٹر جی رہے اور نہ سکولوں میں مرغے بننے بنانے کا رواج رہا۔ پہلے مار کھا کر بھی ماسٹر جی کا احترام کیا جاتا تھا، اب "مار نہیں پیار” نے ماسٹر جی سے پیار اور شاگرد سے احترام دونوں چھین لئے ہیں۔

تو صاحبو ! اس باغی مرغی کی مزید کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی۔ ہو سکتا ہے کہ بعد میں کسی بات پر سمجھوتا ہو گیا ہو اور خبر اور مرغی دونوں کو دبا دیا گیا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

دانت نکالنا

 

                حماد احمد

 

کہتے ہیں کہ انسانی خواہشات دانتوں کی طرح ہوتی ہیں۔ جب دانت میں درد ہوتا ہے، تو زندگی عذاب ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں حل صرف یہی ہوتا ہے کہ خراب دانت کو "منہ” سے نکال باہر کیا جائے۔ ۔

اسی طرح ضرورت سے زیادہ خواہشات زندگی کو مشکل بنا دیتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر غیر ضروری خواہشات کو بھی "زندگی کے منہ” سے باہر نکال دینا چاہئے۔ تاکہ زندگی کو "آرام” آ سکے۔

آپ نے یہ تو سنا ہی ہو گا "علاج دنداں، اخراج دنداں "۔ دانتوں میں عقل داڑھ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ اس وقت نکلتی ہے جب آدمی عقل سے فارغ ہو چکا ہوتا ہے۔ دانت نکلوانا ایسا حساس معاملہ ہے کہ اس کے لئے دندان ساز کے پاس جانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔

دانت کے مریضوں کے لئے بہت زیادہ احتیاط کرنا بھی انتہائی ضروری ہے

ایک صاحب دانت نکلوانے کے لئے گئے تو ڈاکٹر نے انہیں منہ کھولنے کو کہا، جس پر انہوں نے منہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کھول دیا۔ ڈاکٹر نے منہ کھولنے کی مقدار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:۔ "جناب! مناسب منہ کھولیں۔ ۔ ۔ میں نے آپ کا دانت "باہر کھڑے ہو کر” ہی نکالنا ہے "۔

دانت نکلواتے وقت جیب میں کھلے یا ٹوٹے ہوئے پیسے ہونا بھی ضروری ہیں۔

ایک شخص نے دانت نکلوایا تو اس کے پاس ڈاکٹر کو دینے کے لئے کھلے پانچ سو روپے نہیں تھے، چنانچہ اس نے ڈاکٹر کو ایک ہزار کا نوٹ دیا۔ ڈاکٹر نے دراز میں بغور دیکھا اور مریض کو کہا "بقایا پانچ سو روپے تو نہیں ہیں۔ ایسا کرو کہ ایک دانت ہی اور نکلوا لو۔ ”

دانت نکلوانے کے لئے کسی ایسے معالج سے رجوع کرنا چاہئے جس کا ہاتھ نرم ہو اور وہ زیادہ تکلیف میں مبتلا نہ کرتا ہو۔

اک مریض ڈاکٹر سے بولا ” آپ نے سائن بورڈ پر بالکل درست لکھا ہے کہ یہاں پر دانت بغیر تکلیف کے نکالے جاتے ہیں۔ ”

ڈاکٹر :۔ "ہاں درست ہے۔ ۔ لیکن تمہارا اس وقت یہ بات کرنے کا آخر مطلب کیا ہے ؟”

مریض:۔ "یہی۔ ۔ ۔ کہ آپ نے میرے دانت تو نکال دئے لیکن تکلیف نہیں نکالی۔ وہ وہیں کی وہیں ہے۔ آپ نے واقعی "بغیر تکلیف” کے صرف اور صرف دانت ہی نکالے ہیں "۔

منہ کے پنجرے میں اِتنے زیادہ دانت بیک وقت قید ہوتے ہیں کہ کئی مرتبہ ڈاکٹرز کو بھی غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ کونسا دانت نکالنا تھا اور کونسا نہیں۔

ایک مریض نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ کئی دنوں سے میرے دانت نکال رہے ہیں اور ہمیشہ غلط دانت ہی نکال دیتے ہیں۔

ڈاکٹر بولا کہ میں آج وعدہ کرتا ہوں کہ صحیح دانت نکالنے میں کامیاب ہو ہی جاؤں گا۔

مریض حیرانگی سے بولا کہ وہ کیسے ڈاکٹر صاحب؟۔

ڈاکٹر بولا "جناب آپ کے منہ میں دانت ہی اب صرف ایک باقی رہ گیا ہے۔ ”

آئیں۔ اب آپ کو گھر بیٹھے دانت نکالنے کے آسان ترین طریقے بتاتے ہیں۔

پہلا طریقہ تو یہی ہے جو آخری واقعے میں بتایا گیا ہے۔ کسی ڈاکٹر سے اپنے سارے کے سارے دانت نکلوا لیں۔ اس کے بعد خالی ہو جانے والے مسوڑھوں پر سارے کے سارے دانت مصنوعی لگوا لیں۔ چونکہ نقلی دانت ہیں۔ اس لئے گھر بیٹھے ان دانتوں کو جب چاہے منہ سے باہر نکال لیں اور جب چاہے دوبارہ لگا لیں۔

دوسرا اور آسان ترین طریقہ کار یہ ہے کہ لطیفوں کی کسی اچھی سی کتاب کا "اپ ڈیٹڈ  ورژن” خرید لیں۔ اسے پڑھنا شروع کریں اور جتنی دیر چاہیں، گھر بیٹھے ہی دانت نکالتے رہیں۔

ہینگ لگے گی، نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے گا۔ گھر بیٹھے بیٹھے دانت نکل آئیں گے۔ اور کیا چاہئے ؟

٭٭٭

 

 

 

جوائنٹ فیملی سسٹم

 

                راشد حمزہ

 

جوائنٹ فیملی سسٹم کے بہت سارے فائدے ہوں گے لیکن جو سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے وہ آپ کی پرائیویسی کا برقرار نہ رہنا ہوتا ہے۔ جب آپ اپنی مائنڈسیٹ ایسی بناتے ہیں جس میں دوسروں کی پرائیویسی کا خیال رکھنا سب سے مقدم ہوتا ہے تب آپ کی اپنی پرائیویسی شدید خطرات سے دوچار ہو جاتی ہے۔ فطری طور پر جس طرح آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے پیش آتے ہیں، اُن سے بھی چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ آپ ہی کی طرح برتاؤ کریں، دوسروں سے آپ کی پرائیویسی کا خیال رکھنے کا یہی احساس آپ کو ذہنی طور پر شدید کوفت سے دوچار کرتا ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم میں اگر صبح کسی ایک کے ہاں بچہ جنم لیتا ہے تو شام کو کسی دوسرے کی شادی ہو جاتی ہے، اس طرح آپ مستقل اور مسلسل کنفیوژن میں گھرے رہتے ہیں کہ گزشتہ صبح جو بچہ پیدا ہوا تھا وہ چھوٹے چاچا کے ہاں ہوا تھا یا بڑے چاچا کے ہاں، اور اس سے گزشتہ ہفتے جس بچے کا ختنہ ہوا تھا وہ کس کزن کا تھا، خیر سے پٹھانوں میں بچے پیدا کرنے اور کرانے کی حتمی و ختمی عمر تو ہوتی نہیں اوپر سے ملاؤں نے خاندانی منصوبہ بندی کو بھی ایسے ناجائز قرار دیا ہے کہ پٹھان اس کے بارے میں سوچنا بھی دوزخ میں پہنچنے کا پروانہ سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات آپ یہ خبر بھی سن سکتے ہیں کہ مبارک ہو آپ کا چاچا ہوا ہے، جو بے حد نومولود ہے آپ ایک دفعہ پھر سے بھتیجا بن گئے ہیں۔ آپ پورے سکول بچوں کے نام یاد کر سکتے ہیں لیکن جوائنٹ فیملی سسٹم میں اپنے چچیروں ممیروں وغیرہ وغیرہ اور اُن کے بے تحاشا امڈنے والے بچوں کے نام یاد نہیں رکھ سکتے۔ یوں آپ نامعلوم افراد کے درمیان گزر بسر کرتے ہیں۔ اگر صبح آپ اپنا کمرہ سجا کر تسلی سے لاک کر کے بھی نکل جائیں تو رات تک کسی کے بچے نے کسی درز میں سے راستہ نکال کر آپ کے کمرے کا بینڈ باجا بجا دیا ہو گا۔ اگر آپ تفتیش شروع کریں گے تو ہر ماں اپنے بچے کے سر کی قسم کھا کر اس کو معصوم ثابت کرنے کا بھرپور اور مدلل طریقے سے مقدمہ لڑیں گی۔ اگر غلطی سے آپ نے بہت ساری ماؤں کے صف میں سے کسی کے بچے پر زیادہ دیر تک نگاہیں گاڑ دیں تو پھر نیا تماشا شروع ہو جاتا ہے، رونا دھونا اور "صرف اس گھر میں ہم ہی ہیں کیا؟” کی گردان، اپنے خاوندِ نامدار سے شکایتیں اور گلے، سسرال کی غیبتیں اور میکے کے قصیدے۔ ۔ ۔ یہ شیطان کی آنت کی طرح ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جس کا  انجام خدا ہی جانے۔

ویسے بھی جب اِتنے سارے نامعلوم افراد کے درمیان آپ رہیں گے تو واردات بھی نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہی ہوں گے اور کسی کی کیا مجال جو نا معلوم افراد تک پہنچ کر اس کی سراغرسانی کی جرأت کر سکے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا ہے آپ اپنے کمرے میں گہری نیند میں غرقاب ہو کر مزے لے رہے ہوں گے اور ایسے میں دروازے پر ایسے گھونسے چلیں گے جیسے ہتھوڑا گروپ آن موجود ہوا ہو، باوجود اس کے کہ آپ کو ایسی بھی آوازیں سنائی دیں گی "آپ سو نہیں رہے تو ذرا دروازہ کھول دیجئے، ہمیں ایک ضروری کام ہے۔ ” ارے بھائی بندہ سونے سے پہلے ہی تو دروازہ بند کرتا ہے۔ ” جب آپ دروازہ کھولیں گے تو آپ کا دور کا چاچا اور چچی بغیر اجازت کے کمرے میں داخل ہوں گی اور بیڈ کے نیچے دیکھ کر جاتے جاتے کہیں گی "ہم ذرا اپنا بچہ لینے آئے تھے، شام کو یہیں کھیل رہا تھا ہم بھول گئے تھے۔

آپ ذرا دیر پھر سوئے تو ماں آ جائیں گی ” بیٹا جی ذرا دروازہ کھول لیجئے کہ میں آپ کے لئے چائے لائی ہوں۔ ” آپ نے کہہ رکھا تھا کہ آج کسی ٹیسٹ کی تیاری کر رہا ہوں۔ دروازہ کھولنے سے پہلے آپ سٹڈی ٹیبل پھر سے سیٹ کرتے ہیں، بلینکٹ بیڈ سے سائیڈ پر رکھتے ہیں تاکہ ماں کوسونے کے تمام ثبوتوں میں سے کوئی ثبوت دکھائی نہ دے۔ آپ چائے وصول کرتے ہیں، ماں دعا دے کر رخصت ہو جاتی ہے۔ آپ پھر سے سوجاتے ہیں اِس دفعہ کافی رات گزرنے کے بعد دروازے پر نرم خرامی سے ایسی دستک ہوتی ہے جو فکر اور پریشانی کی کیفیتوں سے لبریز ہوتی ہے۔ آپ دھڑکتے دل کے ساتھ اٹھتے ہیں۔ اِس دفعہ آپ کی نزدیک کی چچی ہوتی ہے، بیٹا ذرا اپنے فون سے اپنے چاچا کو فون تو ملا نا۔ ۔ ۔ کہاں رہ گیا فلاں کا مسئلہ تھا، سلجھانے گیا تھا۔ ” آپ دل ہی دل میں نہایت بری گالی کے ساتھ کہیں دوسروں کے مسئلے سلجھانے والے ہمارے مسئلے کیوں بن جاتے ہیں ؟ فون پر پوچھتے ہیں تو وہ بتاتے ہیں کہ جی بس پہنچنے والا ہی ہوں۔ ۔ ۔ ”

آج کل تو چارجر کا بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اگر کسی کمرے کا پلگ خراب ہے تو وہ یا تو آپ کا چارجر لے جا کر چیک کرے گا یا پھر آپ کے کمرے میں اپنا موبائل رکھے گا، یوں ایک بڑی الجھن تو یہ شروع ہو جاتی ہے کہ اُس کے موبائل کی آلودگیاں بھی آپ کے کمرے کا حصہ بن جاتی ہیں، جیسے لوگوں کے کال پر کال میسج پر میسجز۔ ۔ ۔ یوں مسائل سلجھانے اور معرکے سر کرنے میں رات گزر جاتی ہے اور دن یہ سوچ کر کہ کدھر جائیں گے رات کا ٹھکانہ تو گھر ہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پاتھ تو اچھے ہوتے ہیں

 

                خانزادہ خان

 

زندگی فطرت کے وائرلیس سٹیشن سے جڑی رہتی ہے اگر اُسے اُمید حوصلے اور قوت کے سگنل کا پاتھ ملتا رہے، بالکل ویسے ہی جیسے کمپیوٹر میں کوئی فائل اُسی وقت کھلتی ہے جب اُسے مطلوبہ ریڈر سوفٹ وئیر کا پاتھ مل جائے۔ قدرت نے حضرت آدم کے کالبدِ خاکی میں روح پھونک کر اُسے فردوسِ بریں بخش دیا مگر گندم کی سلطانی سے بچنے کی تلقین کی تا کہ اُسے جنت میں نئے سے نیا پاتھ ملتا رہے لیکن آدم اپنی نسیانی جبلّت کے حصار میں آ گیا اور سب بھول بیٹھا۔

کام لیا ہے تو نے ایک سوچی سمجھی نادانی سے

نام مٹایا تو نے اپنا جنت کی پیشانی سے

اونچی ہے انسان کی عظمت گندم کی سلطانی سے

اے آدم کی پہلی بھول

تیرا میرا ایک اصول

پروردگار کے حوصلے لامحدود ہیں قدرت نے انسان کو ایک نئے امتحان سے گزارنے اور بطورِ خلیفہ آزمانے کے لیے اُسے کرۂ ارضی کا پاتھ دے دیا۔ انسان ظلوماً  جہولا ہونے کی بنا پر منتقم مزاج بھی ہے جب اس نے دیکھا کہ اسے فردوس بریں سے کرۂ ارضی پر منتقل کر دیا گیا ہے تو اُس نے اپنے زمین پر منتقل ہونے کا انتقام خود زمین سے لینا شروع کر دیا اور بجائے خود زمین پر منتقل ہونے کے اس کے جامد قطعات کو اپنے نام پر انتقال کرنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ پاتھ اس کی ہوس کو کسی تسکین کی منزل پر نہ پہنچا سکا۔ لامحدود کی خلش اور ھل من مزید کی تڑپ اُسے ایک سے ایک نئے موڑ سے ہمکنار کرتی رہی۔ انسانی فکر جب راست پاتھ پر رہی تو وہ نظری بلندی اور عظمت کے نئے سر چشموں کا کھوج پاتی رہی لیکن جب پست فکری کا شکار ہوئی تو نمرود اور فرعون کی راہ پر چل نکلی اور ا‘س وقت تک چلتی رہی جب تک کہ کسی فریادی کی آہ کو اُس کے مقابل پاتھ نہ مل گیا ہو۔

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے

بادلو ہٹ جاؤ، دے دو راہ جانے کے لیے

آغا شورش کاشمیری کے مذکورہ بالا شعر کے وزن کا ہی ایک شعر جو اکثر اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے اس میں ایک ایسے عقاب کا ذکر ہے جو تندیِ بادِ مخالف سے گھبرایا ہوا ہے اور با دلِ نخواستہ ہی اپنی اڑان جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ اقبال کا شاہین جدھر کا رخ کرتا ہے وہاں نیا سے نیا پاتھ اۃس کا استقبال کرتا ہے۔

صحرا است کہ دریا است تہ بال و پرِ ما است

 

اقبال کا شاہین کسی پاتھ کا خوف نہیں کھاتا بلکہ اپنے سنگِ میل خود وضع کرتا ہے۔ جب یہ شاہین چالیس سال تک اڑان بھر چکتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پر بوسیدہ اور بوجھل ہو رہے ہیں اس کی چونچ کنڈلی ہو چکی ہے اور اس کے پنجے پس ہو چکے ہیں جو اسے پلٹنے جھپٹنے اور شکارِ زندہ کی لذت سے کہیں بے نصیب نہ کر دیں تو یہ شاہین ایک فیصلہ کرتا ہے یہ ایک بلند و بالا چٹان کا انتخاب کرتا ہے اس پر بیٹھ کر اپنے پر نوچ ڈالتا ہے، اپنی چونچ اور پنجوں کو رگڑ کر ختم کر ڈالتا ہے اور پھر تین ماہ تک انتظار کرتا ہے جب تک کہ اسے نئے بال و پر، نئی چونچ اور پنجے حاصل نہ ہو جائیں۔ یوں وہ پر دم ہو کر ایک نئے جنم کے ساتھ ایک نئی زندگی کے پاتھ پر شاہین وار اڑان بھرتا ہے اور اسے تیس سال کے لیے زندگی کا ایک نیا پاتھ میسّر آ جاتا ہے۔

ایں سعادت قسمتِ شہباز و شاہیں کردہ اند

پرانے وقتوں کے بادشاہ جمہور میں نیک نامی پانے کے لیے اپنے محلات اور قلعوں کے پچھواڑے پروان چڑھنے والی طوائفوں کو بھی ریاست بدری کا راستہ دکھایا کرتے تھے، یہ کام خالص عوامی مفاد میں کیا جاتا تھا حالانکہ ان بادشاہوں کے اپنے شاہین بچوں کی بلند پروازی کو صحبتِ زاغ سے متاثر ہونے کے شدید خطرات پیدا ہو جاتے تھے۔ معاشرے کی تطہیرِ مسلسل کے لیے طوائفوں کی طرح کرپٹ طبقے کو بھی محفوظ پاتھ ملتا رہنا چاہیے تا کہ عام پاکستانی معاشرہ اس ریہہ سے محفوظ ہوتا رہے، بھلے طوائفوں کی طرح یہ بھی الگ بستیاں اور شہر ہی کیوں نہ بسا لیں۔

جس طرح زندگی کو اپنا پاتھ آکسیجن، پانی اور خوراک کے ذریعے ملتا ہے، ایسے ہی قوموں اور ملتوں کو ان کا پاتھ اقدار، روایات، قانون اور آئین کی سربلندی سے ملتا ہے۔ حکومتوں کی ذمہ داری صرف اِتنی ہی نہیں ہوتی کہ وہ آئین و قانون کی بالا دستی قائم رکھیں بلکہ اِس سے بڑھ کر یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو نظری و فکری پاتھ بھی دیتی رہیں تاکہ جمہور کے نئے سے نئے ہیرو اس پاتھ پر چل کر منصۂ شہود پر آتے رہیں جو اُنہیں فرقوں سے نکال کر "اھدنا الصراط المستقیم”والے پاتھ پر ڈالتے رہیں۔ پاتھ ملتے رہنے چاہیں کیونکہ پاتھ تو اچھے ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

آرٹ

 

                عامر راہداری

 

آرٹ کی کئی قسمیں ہیں پاکستان میں ہر قسم کا آرٹ پایا جاتا ہے لیکن آج کل سب سے مشہور آرٹ کسی کو لوٹنے کا آرٹ ہے اور اُلو بنانے کا آرٹ صرف سیاستدان جانتے ہیں۔ اِن مذکورہ آرٹس کو عرف عام میں چونا لگانا کہتے ہیں اور چونا لگانا بھی خود اپنی صنف میں ایک آرٹ ہے۔ ہمارے نصاب میں مڈل تک ایک مضمون آرٹ کا بھی ہوتا ہے (مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پتا نہیں اس کا انسانی زندگی میں کیا کام ہے ) میری ڈرائنگ بھی یوسفی صاحب کی طرح بہت اچھی تھی، وہ تو چلو کم از کم انگور تو بنا لیتے تھے۔ ۔ ۔ میں تو پیپر میں دائرہ بنا کر اس کے ساتھ "دائرہ” نہ لکھتا تو استاد مجھے "چوکور” بنانے کے ۲۰ میں سے ۲۰ نمبر دے دیتا تھا۔

اب تو خیر موبائل لے کر دیا جاتا ہے لیکن بچپن میں بچوں کو رنگوں کی ڈبیا اور ڈرائینگ پیپر لے کر دئے جاتے تھے جس سے بچے یہ سیکھتے تھے کہ مختلف دیواروں پر کون سا رنگ اچھا لگ سکتا ہے، بلکہ اکثر والدین تو بچوں سے آئیڈیا لیا کرتے تھے کہ دیواروں پر اس دفعہ کون سا رنگ اچھا لگے گا۔ ۔ ۔ ؟

آرٹ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے اس سے چند ایسے افراد مصروف رکھے جا سکتے ہیں جن کا انسانی زندگی میں سوائے بے روزگار رہنے کے اور کوئی کام نہ ہوتا۔ دنیا میں آرٹ گیلریاں لگتی اور لوگ فن پارے دیکھنے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں بھی آرٹ گیلریاں لگتی ہیں لیکن لوگ حسن پارے دیکھنے جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں شادی کرنا بھی ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ میں عورتیں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں۔ ویسے سنا ہے شاعری بھی ایک آرٹ ہے لیکن ہمارے خیال میں شاعری کسی کو کامیابی کے ساتھ سنانا اس سے بھی بڑا آرٹ ہے۔

تجریدی آرٹ بھی کمال کا فن ہے۔ جسے کچھ بھی نہ آتا ہو اسے تجریدی آرٹ ضرور آتا ہے۔ کہتے ہیں تجریدی آرٹ وہ واحد ہنر ہے جو بچہ ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آتا ہے۔ اس ہنر کے نمونے اکثر گھروں کے فرش اور گلیوں کی اطراف میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچپن کے اس آرٹ کو عرف عام میں "گلکاریاں "کہا جاتا ہے۔ تجریدی آرٹ، آرٹ کی وہ قسم ہے جس میں آپ کچھ بھی بنا دیں، کچھ نہ بھی بنا ہو تو کچھ نہ کچھ ضرور بن جائے گا۔ اِس آرٹ کے لئے سب سے ضروری چیزیں رنگ اور کاغذ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں تجریدی آرٹ کو سیکھنے کے لئے آپ کے پاس اور کچھ ہو نہ ہو، عقل بالکل بھی نہیں ہونی چاہئیے۔ تجریدی مصوری اور تجریدی افسانہ وہ صنفیں ہیں جن میں تخلیق کار کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ آخر میں کیا بنے گا۔ اچھی چیز بن گئی تو تخلیق کار پھولے نہیں سماتا اور بری چیز بن گئی تو اسے تجریدی نمونہ کہ کر پھر بھی پھولے نہیں سماتا۔

اِسی طرح مشہور مصور پکاسو کے گھر چوری ہو گئی۔ پولیس نے کہا "آپ تو خود مصور ہیں ہمیں چوروں کی تصویریں بنا دیں تو ہم چور آسانی سے پکڑ لیں گے۔ ”

پکاسو نے تصویریں بنا دیں۔ دو گھنٹے بعد پولیس نے دو طوطے، تین گائیں اور ایک گھوڑا پکڑ لیا۔ ویسے وہ انسانوں کو بھی پکڑ سکتے تھے لیکن وہاں کی پولیس بھی شاید پاکستانی پولیس کی طرح تھی جنہیں انسان صرف اس صورت میں نظر آتا ہے جب وہ غریب ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

میر اور ہم

 

                سلمان باسط

 

قدرت نے ہمیں جب سے اُردو ادب کی خدمت کے لیے چنا ہے، اردو شاعری کے بہت سے سربستہ راز ہم پر منکشف ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اکثر اوقات اشعار کی نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آئی غلط شرح تاریکی میں ملفوف کسی شب اچانک ہم پر اصل ہئیت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک بے کلی دل میں بس جاتی ہے۔ اردو ادب کی زبوں حالی کا خیال آتے ہی ہم اتنے رقیق القلب ہو جاتے ہیں کہ غرفۂ چشم خشک ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ نیند پپوٹوں کو الوداع کہ کر کسی اور منطقے کی طرف جا نکلتی ہے۔ ہم کسمسا کر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ قلبِ حزیں میں سکون کی جگہ تفکر وافر مقدار میں امڈا چلا آتا ہے۔ جب اردو شاعری اور اس کی تاریخ کے لیے ہمارے اندر جذبۂ ترحّم فشار کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے تو ہم تڑپ کر اپنے آرام دہ بستر سے اٹھتے ہیں اور تلامذۂ ادب کی خیر خواہی کی خاطر اپنے ذہنِ رسا میں کلبلانے والے افکارِ پریشاں کو قرطاس پر منتقل کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔

امشب ہم پر ایک اور عقدہ وا ہوا۔ میر تقی میر کے نام سے موسوم ایک شہرۂ آفاق شعر کی حقیقت ہم پر آشکار ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ تقریباً نصف شب کا عمل ہو گا۔ ہم گہری نیند سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ مقدور بھر خواب بھی دیکھنے میں منہمک تھے کہ ہمارے حجلۂ خواب کے درِ مقفّل پر حجابانہ سی دستک ہوئی۔ دستک کچھ مانوس سی تھی۔ ہم فوراً بھانپ گئے کہ ہو نہ ہو پھر کوئی عالمِ بالا کی نوائے سروش ہے۔ لیٹے لیٹے کروٹ بد لی اور ایسی کیفیت میں فطری طور پر در آنے والی ناگواری پر قابو پاتے ہوئے قدرے خشک لہجے میں پوچھا ” ارے بھائی کون ہے ؟ کیا افتاد آ پڑی اِس پہر؟”

دروازے سے کچھ منمنانے کی آواز کان پڑی۔ ہم سمجھ گئے کہ اُردوئے معلّی کا کوئی سائل ہے۔ ناچار اٹھ کر دروازہ کھولا تو میر تقی میر کو لانبی زلفوں اور نشیلی آنکھوں سمیت دروازے پر پایا۔ ہم نے لاکھ چاہا کہ چہرے پر خوش گواری کا تاثر برقرار رہے مگر آدھی رات کے وقت جب کوئے گہری نیند سے مستفید ہو رہا ہو اور اپنے مطلوبہ رنگین خواب بھی دیکھ رہا ہو تو ایسے میں کوئی مخل ہو کر درسی کتب جیسا ماحول پیدا کر دے تو آپ ہی ایمان سے کہیے، چہرے پر بشاشت کہاں سے آئے۔ خیر ہم دروازہ کھول کر بے اعتنائی سے بستر کی طرف لوٹ آئے۔ میر دروازے پر ہی کھڑے رہے۔ پھر لجلجاتے ہوئے لب کشا ہوئے، ” حضور اجازت ہو تو پائے مبارک کے قریب فرش نشیں ہو جاؤں ؟”

میر کا یہ جملہ سنتے ہی ہمیں انکساری لاحق ہو گئی۔ ہم نے ناگواری کی چادر کو طوعاً کرہاً اتارا اور خوش اخلاقی کا حصیر بچھا کر میر کو اپنے پاس برابر میں بٹھا لیا۔ میر بیچارے پاسِ ادب میں بہت نہ نہ کرتے رہے مگر ہم ایک ایسے شخص کو اپنے برابر کیسے نہ بٹھاتے جو کبھی خود کو خدائے سخن کہلواتا رہا ہے۔

"جی؟” ہم نے تمہید کو اختصار میں بدلتے ہوئے آمد کا مقصد دریافت کیا۔ میر جیسے انتظار میں تھے۔ فوراً ہی گویا ہوئے "حضور اِس نامناسب وقت میں ناحق تکلیف دینا ہر گز نہ چاہتا تھا۔ پر کیا کریں کہ عالمِ بالا سے چھٹی ہی اس وقت ملتی ہے۔ وہاں جس سے بات کرو آپ کا رطب السان ہے۔ کیسے کیسے عقدوں کی گرہ آپ نے کھولی ہے۔ آپ کتنے شعرا کی دلبستگی کا سامان بنے ہیں۔ ”

ہم دلبستگی والی بات پر ذرا سا ٹھٹھکے اور تیوری پر ہلکا سا بل ڈالا ہی تھا کہ میر جھٹ سے بولے ” میری مراد ہے کہ آپ نے اپنی دانش کے سرچشمے سے کتنے ہی شعرا کی فہم کی لاج رکھی ہے۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ عرض یہ کرنا تھی کہ بعض کج اداؤں اور عاقبت نا اندیشوں نے کچھ اشعار مجھ سمیت بہت سے شعرا کے نام کے ساتھ جڑ رکھے ہیں۔ میں وہاں اوپر بیٹھا دانت کچکچاتا رہتا ہوں لیکن کر کچھ نہیں پاتا۔ میری یہ حالت دیکھی تو غالب دہلوی قریب آئے اور بتایا کہ وہ بھی کچھ اسی طرح کی عرضی لے کر آپ کے درِ فیض پر حاضر ہوئے تھے اور با مراد لوٹے تھے۔ آپ سے ملتمس ہوں کہ میری داد رسی فرمائیے۔ ”

ہمارا دل پسیجنے لگا۔ آنکھوں کے گوشے میر کی لجاجت اور اپنا ترفع دیکھ کر بھیگنے لگے۔ ہم نے گلو گیر آواز میں کہا ” میر میاں آپ چنداں ملال نہ کیجیے۔ جو کہنا ہے بے جھجک کہیے۔ غالب دہلوی نے اگر ہمارا پردہ چاک کر ہی دیا ہے تو آپ بھلا کیوں محروم رہیں۔ کہیے۔ ہم ہمہ تن گوش ہیں۔ ”

میر نے اُسی گھگھیائے ہوئے انداز میں کہا ” حضور اکثر شعرا تو اپنے اشعار کی ملکیت کا مقدمہ آپ کے پاس لے کر آتے ہیں لیکن اس بار معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ہم اپنے ضمیر کی عدالت میں طویل عرصے سے کھڑے ہیں۔ زندگی میں ہی یہ بوجھ اتارنا چاہتے تھے مگر کچھ زندگی نے اور کچھ خوفِ رسوائی نے مہلت ہی نہ دی۔ در اصل میرا ایک شاگرد تھا۔ اس کا نام تو جانے کیا تھا مگر عرفیت بہت نا معقول قسم کی تھی۔ باز پالنے کا شوقین تھا لہذا اکثر لوگ اُسے "بازا بازا” کہہ کر پکارتے تھے۔ ہم سے عقیدت کی بنیاد پر اُس نے ہمارے تخلص کو اپنے نام کا جزو بنا رکھا تھا اور خود کو میر بازا کہلوایا کرتا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے اس آشفتہ سروں کے زمانے میں کوئی مغنّی مہدی حسن خاں کے نام سے جانے جاتے تھے اور ان کے عقیدت مند بہت سے گویّے خود کو ان کا شاگرد ظاہر کرنے کی شوخی میں اپنے نام کے ساتھ مہدی لگا لیتے ہیں۔ سو مرشدی! وہ شخص بازا بہت نا ہنجار تھا لیکن میری صحبت میں آ بیٹھتا تھا اور خوشہ چینی کرتا رہتا تھا۔ ایک روز جب ہم قبلہ گاہی کے فرمان کے مطابق عشق اختیار کر کے غزل کہنے میں مگن تھے

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا

ہم عشق کی لہر میں تھے۔ طبعیت بہت موزوں تھی۔ آٹھ اشعار ہو گئے۔ اسی اثنا میں ماموں زاد کا خیال غالب آ گیا اور ایک مصرع مزید ہوا

نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

تو پہلا مصرع اٹک گیا۔ ہم دوسرا مصرع بآوازِ بلند دہرانے لگے تاکہ پہلا مصرع بھی ہو جائے۔ وہ نا معقول بازا اِسی لمحے اپنا تخلص ہماری غزل میں داغنے کا مرتکب ہوا اور بول اٹھا "حضور میں کچھ عرض کروں ؟”

ہم مصرع سازی میں مگن تھے۔ اِسی عالم استغنا میں اسے بولنے کی اجازت دے بیٹھے۔ بازا نے ہمارے مصرع میں اپنے تخلص کے ساتھ مصرع ٹانک دیا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر بازا

ہماری محفل میں موجود سب لوگ اس کے اس مصرع پر پھڑک اٹھے اور بولے کہ آج اِسے آپ کی جوتیوں کا صدقہ مل گیا ہے۔

ہم چیں بہ جبیں ہوئے اور اس اس نا معقول کی اپنے پاپوش سے سرزنش کرتے ہوئے کہا "اے شعری اوزان سے نابلد انسان! تو نے اپنا تخلص جوڑنے کی خاطر شعر کو وزن سے خارج کر دیا ہے۔ ہاں اگر یہاں بازا کی بجائے باز آ ہوتا تو وزن میں تھا۔ ”

اُس نالائق کی جرأت ملاحظہ ہو۔ بولا ” تو حضور ہم نے اتنا عرصہ آپ کے آنسوؤں سے لبریز شعروں کا نمک کھایا ہے۔ اپنے مطلوبہ تصرّف کے ساتھ یہ مصرع آپ رکھ لیجیے۔ قسم لے لیجیے جو زندگی بھر کبھی آپ کو رسوا کروں۔ ”

ہم متامل ہوئے تو محفل میں شریک تمام احباب مصر ہو گئے کہ ایسا برجستہ مصرع اور نہیں ہو سکتا۔ سب نے کہا کہ ہم آپ کی پریشانی سمجھتے ہیں۔ ہم سب حلف اٹھاتے ہیں کہ یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا تا آنکہ آپ خود اسے افشا کرنے کا مناسب بندوبست فرما دیں۔ تمام لوگوں کے اصرار، مصرع کی چستی اور متبادل کی عدم دستیابی نے ہمیں یہ درخواست قبول کرنے پر رضامند کر لیا۔

سو یہ شعر ہماری زندگی میں اسی طرح پڑھا اور سنا جاتا رہا۔ اب کارکنانِ "قضائے قدر” نے ہمیں اس اندیشے میں مبتلا کر دیا ہے کہ مستعار لیے گئے مصرع کے ساتھ دفترِ عمل پیش کیا تو پکڑے جاؤ گے۔ اب آپ سے زیادہ مجھے ایسی امانتوں کا پاسدار کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ ملتجی ہوں کہ اُردو ادب کے طالب علموں کے سامنے آئینہ رکھ دیجیے تاکہ وہ اس میں شفاف عکس دیکھ سکیں اور میری عاقبت سنور جائے۔ مجھے مایوس نہ لوٹائیے گا ورنہ میں ضمیر کے بوجھ تلے دب جاؤں گا۔ ”

میر نے آخری جملہ کہا تو ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ مجھ سے ان کی بیچارگی دیکھی نہ گئی۔ آگے بڑھ کر ان کے بندھے ہوئے ہاتھ تھام لیے اور تسلی دیتے ہوئے کہا "عزیزِ من مطمئن رہو۔ ہم اس کام کا بیڑا اٹھا تے ہیں۔ ”

میر کی ڈبڈبائی ہوئے آنکھیں اظہارِ تشکر سے چھلک پڑیں۔ بندھی ہوئی ہچکی کے باعث کچھ کہنا ان کے لیے ناممکن تھا۔ ہم نے سر کو ذرا سی جنبش دیتے ہوئے انہیں سمجھا دیا کہ ان کے جذبات ہم تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ کچھ کہہ بھی نہ سکتے تھے۔ صرف ہماری دست بوسی کی اور ہماری طرف پشت کیے بغیر دروازے کی طرف بڑھ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

میری پہلی محبت

 

                رازی الغزالی

 

کیوں !میں ہی کیوں ؟ آخر میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ایسا؟ زندگی میں جس کو ٹوٹ کر چاہا سالا اُسی نے دھوکہ دیا۔ اب تو اعتبار ہی اٹھ گیا ہے زندگی سے۔ ساحل کنارے چائینا کے موبائیل سے تیز آواز میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے چلائے "لڑکا” کافی فلمی فلمی محسوس کر رہا تھا۔ پیچھے بینچ پر بیٹھا دوست مفتے کی "کول ڈرینکیں ” سوت رہا تھا اور "لڑکا” اپنے غموں کو "گولڈ لیف” کے دھوئیں میں اڑاتے ہوئے اپنی پہلی محبت کی ناکامی کا قصہ سنا رہا تھا۔

"لڑکا” آج کافی اداس تھا۔ یہ اداسی بے سبب نہ تھی، بلکہ اِس اداسی کی وجہ صبح صبح موصول ہونے والا وہ شادی کارڈ تھا جس میں لڑکے کو اس کی پہلی محبت کی شادی کی دعوت دی گئی تھی۔ کارڈ پر اپنی پہلی محبت کا نام اس کی سرگودھے والی پھوپی کے لڑکے کے ساتھ پڑھ کر "لڑکے ” کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور دل کی چوبیس کلو میٹر اتھاہ گہرائیوں سے ایک درد ناک آہ نکلی۔ کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں لیکن ذلیل زمین پر ہی آکہ ہوتے ہیں۔ "لڑکے ” کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا تھا۔ اس اچانک ملنے والے صدمہ بے پناہ کا فوری اثر عشق کے ہاتھوں تباہ شدہ بچے کھچے دماغ پر ہوا اور اس کا ذہن پلک جھپکتے میں ہی ریورس گیئر لگا کہ بیک گراؤنڈ پہ "وہ پہلی بار جب ہم ملے ” والا گانا چلا کہ زندگی کے سب سے دردناک خوشگوار واقع میں کھو گیا۔

اُسے اچھی طرح یاد تھا کالج کا وہ پہلا دن جب کلاس کی آٹھ لڑکیوں میں سے اسے صرف پانچ اچھی لگیں۔ لیکن نیلے پرنٹ والا لیلن کا سوٹ پہنے "دردانہ” اُسے پہلی ہی نظر میں بھا گئی۔ "دردانہ” کو دیکھتے ہی اس کے دل میں گھنٹی بجنا شروع ہو گئی ٹن ٹن ٹن۔ "دردانہ” لیکچر کے دوران لکھتے لکھتے اچانک سر اٹھاتی بال پین سے اپنا سر کھجاتی اور ہلکا سا مسکرا کر واپس لکھنے لگ جاتی۔ ۔ وہ ساری زندگی اِسی شش و پنج میں رہا کہ ایسا وہ اسے انسپائیر کرنے کے لیئے کرتی تھی یا پھر اُسے جوئیں تنگ کرتی تھیں۔ وہ ناک سڑ سڑ کر کہ انگلی سے پونچھنا، وہ چیونگم کھا کہ غبارے پھاڑنا، گویا "دردانہ” کی ہر ادا ہی اُس کے دل میں ایک نشتر چبھو جاتی۔ شروع میں تو وہ پینسل اس کیل لینے دینے کے بہانے اس سے بات کرتا رہا لیکن پھر جلد ہی اُن کی دوستی ہو گئی اور یہ دوستی کب پیار میں بدل گئی، معلوم ہی نہ ہوا۔ سال کا وہ آخری دن بھی آن پہنچا یعنی "فیئرویل پارٹی” جس میں سب ہی نے خوب انجوائے کیا اور اُن دونوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں۔ ۔ "دردانہ” تو امتحانات میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی لیکن وہ دس بارہ نمبروں کے فرق سے چار مضامین میں فیل ہو گیا۔ کلاسز کا دوبارہ آغاز ہوا تو وہ اپنی پہلی محبت کو خود سے ایک کلاس دور پاکر کافی ہرٹ ہوا۔ نئے کلاس فیلوز میں لڑکیوں کی تعداد پچھلے سال سے بھی کم یعنی صرف تین تھی اس لیئے "بے عزت افزائی” کا بھی کوئی خاص خوف نہ تھا اور ویسے بھی اس کے ہوش و حواس پر تو صرف اس کی پہلی محبت کا خمار چھایا ہوا تھا۔ کلاسیں الگ الگ ہو جانے کی وجہ سے اُن کی ملاقاتیں کم ہی ہوتی تھیں اِس لیئے اب اُنہوں نے قائدِ اعظم کے مزار اور سفاری پارک وغیرہ جانا شروع کر دیا تھا اور۔ اور یوں ایک اور سال بھی نکل گیا۔ اُس سال امتحانات کا نتیجہ آیا تو وہ صرف تین مضامین میں فیل ہوا تھا اور”دردانہ” ایک بار پھر اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی۔ اس کا دکھ شدید ہو گیا تھا کیوں کہ "دردانہ” اب یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے رہی تھی اور وہ اُسی کلاس میں تھا۔ اسے کیوں کہ دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کا سلیقہ آتا تھا اس لیئے وہ یہ زہر کا گھونٹ بھی پی گیا۔ گریجویشن کرنے کے بعد "دردانہ” نے پڑھائی چھوڑ دی۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ دردانہ کے لیئے رشتہ آیا ہے۔ اُس نے دردانہ سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی رابطہ نہ ہوا۔

"لڑکے ” کا حافظہ واپسی "نیوٹرل گئیر” پر آیا اور اس بار بیک گراؤنڈ میں "دل میرا توڑ دیا اس نے برا کیوں مانوں ” والا گانا چل رہا تھا۔ شادی کا کارڈ دیکھ کر "لڑکے ” کی پریشانی دوگنی ہو گئی تھی۔ ایک تو پہلے ہی گیارہویں جماعت کے امتحانوں کی ٹینشن اور اب یہ "پہلی محبت کی شادی” گویا اب جینے کا مقصد ہی ختم ہو گیا "لڑکے ” نے دوست کو فون کیا اور اس کے ساتھ ساحل سمندر پر جانے کو کہا۔

اور اب وہی دوست مفتے کی "کول ڈرینکیں ” سوتتے ہوئے اسے ہمدردانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور وہ "گولڈ لیف” کے دھوئیں میں اپنے غم کو اڑاتے ہوئے اُسے اپنی پہلی محبت کی ناکامی کا قصہ سنا رہا تھا۔ اچانک ایک سریلی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اسے نے پلٹ کر دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا ایک دوشیزہ فیشن کے نام پر ویلڈروں والے گلاسیز لگائے کھڑی تھی۔

لڑکا:۔ "جی فرمائیں۔ ”

لڑکی:۔ "کہیں آپ وہ تو نہیں ؟”

لڑکا:۔ "جی میں وہی ہوں لیکن آپ کون؟ ”

لڑکی:۔ "ارے میں وہ۔ ”

لڑکا:۔ "اوہ تو آپ وہ ہیں۔ ”

لڑکے کے دل میں ایک بار پھر گھنٹی بجنے لگی ٹن ٹن ٹن۔

لڑکی:۔ "تو آپ کیا کر رہے ہیں آج کل؟”

لڑکا:۔ "میں کنڈر گارڈن کالج میں۔ ۔ ۔ ۔ ”

لڑکی:۔ "اس کی بات کاٹتے ہوئے اچھا تو آپ لیکچرار ہیں کنڈر گارڈن کالج میں !”

لڑکا:۔ "جی جی! ”

لڑکی:۔ "میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ہم دوبارہ مل بھی پائیں گے۔ ”

لڑکا:۔ "وہ کہتے ہیں نہ اگر کسی کو سچے دل سے چا ہو تو ساری کائنات تمہیں اس سے ملانے میں لگ جاتی ہے۔ ”

لڑکی:۔ "تم اب تک امی سے ڈرتے ہو؟ ”

لڑکا:۔ "جان لٹانے والی نظروں سے چلو نہ جھولوں کی طرف چلتے ہیں۔ ”

کافی دیر پیار بھری باتیں کرنے کے بعد وہ اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کہ وہاں سے چلا آیا۔ اس اچانک ہونے والی ملاقات سے وہ بہت خوش تھا اور ہوتا بھی کیوں نہ آخر اسے اس کی پہلی محبت جو مل چکی تھی۔ جی ہاں پہلی محبت اس ملاقات کے بعد اسے احساس ہوا کہ در حقیقت اس کی پہلی محبت گیارہویں جماعت کی کلاس فیلو "دردانہ” تھی ہی نہیں۔ بلکہ اس کی پہلی محبت تو ساتویں جماعت کی کلاس فیلو "انوری” ہے جس سے کچھ دیر پہلے ہی ملاقات کر کہ وہ گھر پہنچا تھا۔ لڑکے کی خوشی اتنی شدید تھی کہ اب وہ اسے لفظوں میں پرونا چاہتا تھا۔

شششش "لڑکا” پوسٹ لکھ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کتے کہیں کے

 

                مدثر عباس

 

یہ کتے میرے ہیں۔ آپ ان کتوں کو پطرس کے کتوں کے ساتھ مکس نہ کیجیے گا کیونکہ میرے کتے زیادہ کتے نہیں ہیں اور یہ وہ کتے ہیں جو گھروں میں با عزت زندگی گزارتے ہیں۔ پطرس کے کتے تو باہر گلی محلوں میں چرسیوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اور رات کو مشاعرہ کرتے ہیں راتوں کو مشاعرہ کرنا یہ بتاتا ہے کہ یقیناً یہ لوگ سوٹا بھی لگاتے ہوں گے ورنہ اتنی اچھی شاعری تو مشکل ہے۔

فارسی میں کتوں کو سگ کہتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ بہت زیادہ عقیدت مند لوگ اپنے آپ کو کسی نہ کسی بزرگ شخصیت کا سگ کہتے رہتے ہیں اگرچہ اس شخصیت نے ایسا کوئی تقاضا نہیں کیا ہوتا۔

ہمارے ہاں ماں باپ بچوں کو غصے میں آ کر کتا یا کسی اور جانور کا نام لے دیتے ہیں سب جانوروں کے نام نہیں لکھے جا سکتے

ممکن ہے میرا قلم چالیس دن کے لیے ناپاک ہو جائے مگر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کتا تو کافی وفادار جانور ہے اور اس میں کوئی بڑی خرابی بھی نہیں، خرابی تو انسان میں ہے۔ میرے خیال میں بچے کے لیے سب سے بڑی گالی یہی ہے کہ آپ اسے انسان کہہ دیں۔

کہا جاتا ہے کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں مگر واللہ میں نے کوئی ایسا کتا نہیں دیکھا جو بھونکا ہو اور کاٹنے کو نہ دوڑا ہو۔ یہ تو انسان کی چالاکی ہے کہ اس کے پلان کو فیل کر دیتا ہے ورنہ وہ تو خلوصِ نیت کے ساتھ آشیر باد دینے آ رہا ہوتا ہے۔

اِن کتوں کو گھر کا ایک فرد سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو اکثر ایسے کتے مالک کی رکھوالی کے لیے رکھے جاتے ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک کے کتوں کی خود مالکوں کو رکھوالی کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ کتوں کا بہت خیال کرتے ہیں اور اُن کوایسی ایسی غذائیں دیتے ہیں جو راقم اور اِس ملک کی بڑی آبادی نے دیکھی بھی نہیں ہیں۔

گھریلو کتے بھی اچھی خاصی غذا کھا کر بھی رات کو جاگتے ہیں۔ اُلو بارڈر پہ فوجی اور کتے ان کے نصیب میں رات کو سونا نہیں لکھا۔

ہم تیسری دنیا کے لوگ مغرب سے بہت پیچھے ہیں اور ہمارے کتے بھی۔ وہاں کتوں کو خصوصی حقوق ملتے ہیں۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ مغرب میں اکثر وہ لوگ کتا نہلاتے ہیں جن کے اپنے دیس کے کتے غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں –

ایک زمانہ تھا جب مغرب میں انسانی حقوق کی باتیں ہوا کرتی تھیں اب وہ لوگ اس سے آگے جانوروں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں اور ہمیں انسانی حقوق میں الجھا دیا ہے۔

مغربی کتے اور پاکستانی کتے میں کچھ چیزیں مشترک ہیں مثلاً دونوں کی چار چار ٹانگیں ہوتی ہیں دونوں غراتے ہیں دونوں کی شادیاں نہیں ہو سکتیں، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کا کتا ڈپریشن کے ماحول کی وجہ سے زیادہ سخت مزاج ہو۔

گھروں میں پالے جانے والے کتے مختلف انواع و اقسام کے ہوتے ہیں۔ کچھ کے ہمیں نام آتے ہیں، جن میں پستہ، بوہلی، جرمن شیفرڈ، السشن وغیرہ ہیں۔ اِن کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں، جن کا ہمیں علم نہیں شاید اِسی لیے مرحوم پطرس نے ایسے کتوں کا انتخاب کیا جن کو چرسی اور گھر سے عاق کیا ہوا کہا جا سکتا ہے۔

انگریز مردوں کی توجہ عورتوں پر اور انگریز عورتوں کی توجہ کتوں بلیوں پہ ہوتی ہے۔ وہاں کے کتے بھی اس قدر سلجھے ہوئے اور لائق فائق ہوتے ہیں کہ انگریزی بھی سمجھ لیتے ہیں اور مجال ہے جو راستے میں کسی انسان کو تکلیف دیں مگر ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہمیں کتے بھی ملے تو وہ جن کو گھر سے باہر لے کر جایا جائے تو بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور نالائق اتنے کہ انہیں انگریزی کی اے بی سی نہیں آتی۔ لیکن ہمارے کتوں میں اچھی بات ہے کہ انہیں جو دو اس پہ قانع ہو جاتے ہیں۔ سردی ہو یا گرمی کسی اورکوٹ کے لیے نہیں غراتے جبکہ مغربی کتے موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ لباس بھی تبدیل کرتے ہیں۔

پاکستان کے کچھ علاقوں میں انسانوں کی پر زور حمایت اور زور پر کتے آپس میں لڑنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ اگرچہ لڑائی میں ایک نے جیتنا ہوتا ہے اور دوسرے نے ہارنا۔ ۔ ۔ ایک کتا جیتتا ہے اور ایک ہارتا ہے۔ یہاں کتوں اور انسانوں میں ایک باریک فرق یہ ہے کہ کتے اپنی ہار کو مان کر میدان سے کھسک لیتے ہیں مگر اشرف المخلوقات انسان اپنے کتے کی ہار کو اپنی ہار مانتے ہوئے بھی تسلیم نہیں کرتا اور جیتنے کے لیے پھر کتے کو تیار کرتا ہے اور کتا مالک کی اطاعت میں تیار بھی ہو جاتا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کتا سب سے وفادار جانور ہے مگر یہ انسان کو متاثر نہیں کر سکا ہم اس کی وفاداری تب مانتے جب یہ اپنے مالک کو بھی وفادار بنا دیتا-

٭٭٭

 

 

 

 

 

سیلفی دور کی مونالیزا اور گو المنڈی کی باقر خانیاں

 

                حافظ مظفر محسن

 

ٹیچر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اکبر بادشاہ اپنے بستر پر آرام فرما رہے تھے۔ ۔ ۔

سٹوڈنٹ: "مس۔ ۔ ۔ دیکھیں علی مجھے تنگ کر رہا ہے۔ پنسل باریک کر کر کے مجھے چبھو رہا ہے۔

ٹی چر: "علی اب اگر کسی کو تنگ کیا تو کلاس سے باہر نکال دوں گی۔ ۔ ۔ "ہاں۔ ۔ ۔ تو بچو میں کہاں تھی۔ ۔ ۔ ؟”

علی: "مس اکبر بادشاہ کے بستر پر۔ ۔ ۔ !!!!”

ٹیچر: "لکھ لعنت اے۔ ۔ ۔ ؟”

اصل میں میں بتانا چاہ رہا تھا کہ آج کل "بچے کس قدر توجہ” دیتے ہیں اپنی تعلیم پر اور کس مستعدی سے، توجہ سے کلاس میں بیٹھتے ہیں۔ ۔ ۔ جب سے "مار نہیں پیار” کا اصول اسکولوں میں نافذ ہوا ہے۔ اسکولوں میں "دوڑ اپنی اپنی” ہے۔ ۔ ۔ پھر یہ سوشل میڈیا۔ صبح فیشن ایجاد ہوتا ہے اور شام تک پرانا بھی ہو جاتا ہے۔ پہلے ہوتا تھا IDEAS HAVE LEGS پھر یہ بات پرانی ہو گئی اور کہا جانے لگا کہIDEAS HAVE WINGS۔

اب بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچی ہے۔ ۔ ۔ سترہ سال کا بچہ معتبر لگتا ہے۔ ۔ ۔ "قبول صورت” لڑکیاں میک اپ کے زور پر حسین جمیل لگنے لگی ہیں اور حسن کی یہ فراوانی مجھے کسی "طوفان” کا پیش خیمہ لگتی ہے۔

انور خاں صاحب ہمارے استاد ہیں۔ فیس بک پر کسی خاتون نے اُن کو پسند کر کے بات بڑھانا چاہی تو شام کو ہمیں بلا لیا۔ ۔ ۔ چائے وائے پلائی اور طرےیخاں صاحب ہمارے استاد ہیں۔ فے مے قے سے مشاورت کرنا چاہی۔ ہم نے "محترمہ” کی تصویر دیکھی اور پسند بھی کر لیا (استاد جی کے لیے ؟) مگر فرمانے لگے یار عمر کچھ زیادہ ہے (چالےس کی ہوں گی؟ ہم نے اندازہ لگایا) میاں میں اپنی عمر کی بات کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ لگتا ہے اس وقت تم بھی میری طرح کہیں "کھوئے ” ہوئے ہو۔ ۔ ۔ خاں صاحب نے مجھے جھڑک دیا "حضور۶۶ سے تو کم ہیں۔ ۔ ۔ اب تو BOTOM LINE شادی کی عمر کے لیے ۴۶ سال ہے۔ ۔ ۔ سمجھ گئے۔ ۔ ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اب عمران خان کو FOLLOW کریں گے۔ ۔ ۔ اس کام میں بھی؟ عورتیں دو شادی والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں یہاں تو معاملہ تین تک جا پہنچا؟ ویسے خان صاحب یہ۳۶ سال کی عمر میں ضرورت کیوں پیش آئی آپ تو MOD تھے خاصے، جوانی میں۔ آپ کے کلاس فیلوز بتاتے ہیں، گھر کا ماحول بھی۶۱۰۲ئءجیسا تھا ۴۶۹۱ء میں بھی؟۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ہاں یار ہم "موڈ” تھے جبھی تو یہ کسک سی رہ گئی۔ ۔ ۔ فیصلہ نہ کر سکے۔ ۔ ۔یا یوں کہہ لو درست فیصلہ نہ کر پائے، زرینہ کا رشتہ آیا تو امی مجھے بھی ساتھ لے کر لڑکی کے گھر پہنچ گئیں۔ زرینہ کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ "ہم پسند کر لیے گئے ہیں ؟” ویسے آنکھیں تھیں بھی بہت حسین۔ ۔ ۔ ۔ اور خود بھی اپنی آنکھوں جیسی تھی۔ ۔ ۔ چائے وائے پی۔ اپنا گھر سمجھ کر EASY ہو کر بیٹھ گئے اور جب زرینہ نے گفتگو شروع کی تو ہم "سمٹ” گئے۔ خود پر سنجیدگی طاری کر لی۔

چلو ماں جی چلتے ہیں۔ ۔ ۔ میں نے ماما کی انگلی پکڑی اور ہم سلام دعا کیے بغیر ہی وہاں سے رخصت ہوئے۔

"کیا ہوا انو؟” امی نے محبت سے پوچھا۔

"ماما۔ ۔ ۔یہ زرینہ کی آواز کتنی بھدی ہے ؟”جب تک چپ تھی، کتنی حسےن لگتی تھی، جب بولی تو "مری” کے کوئے یاد آ گئے۔ ۔ ۔ جب ہنسی تویوں لگا جیسے "شاذور ٹرک” سٹارٹ ہوا ہویا بیس سال پرانی "سیونٹی”۔ ۔ ۔ عورت کی آواز تو خوبصورت ہو۔ ۔ ۔ بندہ کہے۔ ۔ ۔ بیگم چائے لاؤ اور بیگم محبت سے سریلے انداز میں کہے "آئی جی” اوریوں محسوس ہو جیسے ہم نے "دودھ پتی والی چائے پی لی”۔ ۔ ۔ اگر بیگم کی آواز ہی ڈرا دینے والی ہو تو۔ ۔ ۔ اور اوپر سے وہ بد تمیز بھی نکل آئے تو۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ؟ "تربوز” اور "بیگم” کا کھلنے پر ہی پتہ چلتا ہے۔ "ایک دولت مند شخص نے ایک بیش قیمت ہار اپنی سیکرٹری کو پیش کر کے معاوضے میں پارک کی سیر کا طے کیا۔ جب سیکرٹری کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے وہ گھوم رہا تھا تو اتفاق سے اُس کی بیوی بھی آ پہنچی اور دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر غصے میں واپس چلی گی۔ گھر پہنچ کر اُس نے مقامی اخبار کے ایڈیٹر کو فون کیا "کل کے اخبار میں میرے شوہر کی موت کی خبر شائع کر دیں ؟” ایڈیٹر نے اظہار غم کرتے ہوئے پوچھا "اُن کا انتقال کب ہوا ؟” تو بیوی نے غصے سے کہا "آج شام کو ہو گا۔ ”

ماما میری بات سمجھ گئیں۔ ۔ ۔ دو ماہ کی جد و جہد کے بعد ماما نے میرے لئے ایک "قبول صورت” لڑکی کا رشتہ دریافت کر لیا۔ ویسے استاد کمر کمانی کہتا ہے کہ کچھ شیطان لڑکے محبوبہ سے ملنے دیوار پھلانگ کر دوسروں کے گھر پہنچ جاتے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے وقت اور اچانک لائٹ سوا دس بجے کی بجائے پونے دس بجے آ جائے اور دونوں "رنگے ہاتھوں ” پکڑے جائیں تو لڑکی بے چاری کے ساتھ تو جو ہوتا ہے سو ہوتا ہے، ایسے لڑکے کے لیے گھر والے جلدی میں "قبول صورت” لڑکی کا رشتہ تلاش کرتے ہیں اور "اگلے اتوار” شادی کر کے فارغ ہوتے ہیں اور ہفت روزہ "۔ ۔ ۔ ۔ ” کے نئے شادی شدہ جوڑوں والے صفحے پر تصویر بھی چھپوا دیتے ہیں اور شب برات والے دن "زردے کی پلیٹ” کے ساتھ ہفت روزہ "۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” بھی ساتھ بھیج دیتے ہیں کہ لڑکی کو پتہ چل جائے کہ "انوُ کی ثمینہ قبول صورت” کے ساتھ شادی ہو چکی ہے۔

لو جناب ماما نے بتایا۔ ۔ ۔ میرے لعل لڑکی تو قبول صورت ہے لیکن آواز یوں ہے جیسے مینا کماری فلم "پاکیزہ” میں بولتی ہے۔ ..۔ ثمینہ پیرزادہ ۷۲ سال پہلے "نے لام گھر” میں اور ماروی میمن چوتھی بار پارٹی بدل کر نئی پارٹی کے پلیٹ فارم سے پریس کانفرنس کر رہی ہو۔

ہم نے ماما کے سامنے ہی کہہ دیا۔ ۔ ۔ "قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔ ۔ ۔ ”

ہماری ہنسی نکل گئی "سر جی۔ ۔ ۔ گویا کہ منزل تو پا لی ناں آپ نے ؟”

"آہا۔ ۔ ۔ !” استاد جی نے نہایت ٹھنڈی آہ بھری "ہاں بیٹا ساری زندگی۔ ۔ ۔ ہم نے بغیر تصویر کے ٹیلی ویژن دیکھا۔ ۔ ۔ بیگم سے گانے بھی سنے۔ ۔ ۔ وہ گاتی رہتی ہم اخبار پڑھتے رہتے۔ ۔ ۔ مجال ہے جو آنکھ اُٹھا کے دیکھی ہو۔ ۔ ۔ ہاں البتہ ہم گھر فون کرتے تو ہیلو کا جواب "ہیلو” اتنی مدھر آواز میں آتا کہ ہم خوابوں میں کھو جاتے، جیسے باغوں پارکوں میں کوئل کوک رہی ہو بچوں کو ڈانٹ ڈانٹ کے اب وہ "سریلی” آواز بھی ہماری پرانی ہونے والی منگیتر زرینہ جیسی ہو چکی ہے۔

انور خاں صاحب۔ ۔ ۔ پرانے دور کے "موڈ”تھے۔ ہمیں "سیلفی دور” کے "موڈ” جوڑوں پر ترس آتا ہے کہ وہ "ویلنٹائن ڈے ” کی تیاریاں اس زور سے کر رہے ہیں جیسے "مونا  لیزا” کے لیے "یوسف ثانی” گلاب لیے جا رہا ہو حالانکہ بچوں کو ڈانٹ ڈانٹ کے اور شوہر کو جھڑک جھڑک کے سب آوازیں زرینہ جیسی ہو جاتی ہیں لیکن اگر ساٹھ کے بعد انور خاں بھی غور سے شیشہ دیکھے تو اُسے بھی یوں لگتا ہے جیسے "گو المنڈی” کی "باقر خوانی” اُس کے منہ کی جگہ شیشے میں دکھائی دے رہی ہو۔

تاریخ کے اوراق سے ایک سچا بیان "ویلنٹائن ڈے ” منانے والوں کے لیے پیش ہے۔ مغل بادشاہ شاہ جہان نے "تاج محل” کی ہر دیوار کو دیکھا۔ ۔ ۔ ہر مینار کو دیکھا۔ ۔ ۔ ہر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ ۔ ۔ اور بولا "ماں قسم۔ ۔ ۔ بہت خرچہ ہو گیا۔ ۔ ۔ ؟”

اُمید ہے۔ ۔ ۔ سمجھ تو گئے ہوں گے۔ ۔ ۔ ؟

٭٭٭

 

 

 

 

مرحوم بیگ صاحب

 

                حسیب احمد حسیب

 

بیگ صاحب مرحوم سے ہمارا پرانا تعلق تھا بلکہ یوں کہیئے کہ وہ ہمارے گھر کا ایک جزوِ لازم تھے۔ ہماری بیگم اگر دنیا میں کسی سے ڈرتی تھیں تو وہ بیگ صاحب ہی تھے بلکہ یوں کہیے کہ جتنا ڈر ہمیں اپنی بیگم کا ہے، اُس سے زیادہ ہماری بیگم بیگ صاحب سے خوف کھاتی تھیں۔

بیگ صاحب بڑی پہنچ والے تھے۔ گھر کا کچن ہو یا واش روم چھت ہو یا چمکتا ہوا فرش لکڑی کی الماری ہو یا شیشے کی میز بیگ صاحب ہر جگہ پہنچ جاتے تھے ایک دن تو مرحوم دادا جان کی شلوار سے بر آمد ہوئے۔

ارررے کسی غلط فہمی کا شکار مت ہوں بات ہو رہی ہے مرحوم ” لال” بیگ صاحب کی، جنھیں عرفِ عام میں "کاکروچ” کہا جاتا ہے۔

حضرت کو شہید کرنے کی کئی تدبیریں کی گئیں، طرح طرح کے منجن آزمائے گئے، ہر روز کوئی نئی دوا ڈالی جا رہی ہے، بعض دوائیں تو اتنی زہر آلود تھیں کہ گھر کے باقی لوگ قریب المرگ ہو گئے لیکن مجال ہے جو بیگ صاحب کو کچھ ہوا ہو۔ ۔ ۔ اور تو اور بے گم کی جھڑکیوں اور کوسنوں کا بھی موصوف پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔

دادا جی نے اپنی لاٹھی کے جوہر دکھانے کی کوشش کی، ہماری پشاوری چپل اسی چکر میں ٹوٹی، بیگم نے جھاڑُو آزمائی، ماسی نے گرم گرم پانی پھینک کر قتل کی ناکام کوشش کی لیکن موصوف نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے، گھر کی بلی ہو یا باہر کا چوہا مرحوم کبھی بھی کسی دشمن کو خاطر میں نہ لائے۔

خبروں کے بڑے شوقین تھے۔ اکثر اخبار پر ٹہلتے ہوئے پائے گئے۔ کیا شان بیان کی جائے حضرت کی طویل مونچھوں کی۔ ۔ ۔ ابھی بھی سوچ کر بدن میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔ موصوف کو گرمی میں ٹھنڈی اور سردی میں گرم غذائیں کافی پسند تھیں۔ سردیوں میں گرمی کا مزہ لینے اکثر چولہے کے نیچے سے نکلتے اور گرمیوں میں کئی مرتبہ فریج میں سے برآمد ہوئے۔

موصوف کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ اکثر اپنی ازلی دشمن بی چھپکلی کی نظروں کے سامنے دندناتے ہوے گزر جاتے اور چھپکلی کو جرات تک نہ ہوتی ایک بار بی چھپکلی نے کوشش بھی کی تو حضرت نے آر دلائی

ذات دی کوڑھ کِلی، تے شہتیراں نوں جھپے

بے چاری چپکی ہو رہی۔

ایک بار سپارے والے قاری صاحب کی ریش مبارک میں سے نمودار ہوئے۔ اُس کے بعد قاری صاحب بھی ہوشیار ہو گئے۔ اُن کا خیال تھا کہ بیگ صاحب کی شکل میں کوئی جن ہے جو اُن پر حملہ اور ہوا تھا۔ آس پڑوس کی ضعیف الاعتقاد خواتین تو کئی بار برکت کے لیے دعا کروانے بھی آئیں۔

بیگ صاحب کی پہنچ کتنی دور تک تھی اس بات کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا۔ ۔ ۔ ایک بار قادری صاحب کی تقریر کے عین دوران کہیں سے نمودار ہوے اور پوری تقریر ان کے شانے پر بیٹھ کر سنی گو قادری صاحب اسکرین کے پیچھے تھے۔

خان صاحب پر مرحوم فدا تھے۔ اکثر اُن کو ٹی وی پر دیکھ کر جوش میں آ جاتے۔ اس کے اثرات کچھ یوں پڑے کہ گھر میں آنے والے فلمی رسالے اُن کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔

ایک دن وینا جی کے گمشدہ آنچل میں چھید دیکھ کر ہمیں بڑا غصہ آیا، پہلے سوچا یہ بیگم کی کارستانی ہے پھر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا یہ تو موئے لال بیگ کی گھٹیا حرکت ہے۔

موصوف کی وفات کی صحیح وجہ تو معلوم نہ ہو سکی لیکن گمان غالب یہی ہے کہ بسیار خوری کا شکار ہو کر حرکتِ قلب بند ہو جانے کی وجہ سے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

لاش کچن میں رکھے چاکلیٹ کیک سے برآمد ہوئی۔ ۔ ۔

گو بیگم کا خیال تھا بیگ صاحب کے جسد خاکی کو کوڑے کے ڈبے کی زینت بنا دیا جائے لیکن ہمارا دل نہ مانا اور جناب کو اُن کی شان کے مطابق فلش میں بہا دیا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

با ادب بے ادب

 

                گوہر رحمٰن گہر مردانوی

 

اُس شخص کی آنکھیں یا تو قدرتی طور پر بھینگی تھیں یا قطار میں کھڑے دھکم پھیل اور بینک کے ” حبسِ بے جا "کی وجہ سے شرق و غرب کی طرف مڑی نظر آ رہی تھیں اور چال بھی کچھ کچھ بھنگیوں جیسی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نحیف و نزار بدن ابھی دھڑام سے زمین بوس ہونے والا ہے، جس کو ایک نیم شریف زادے نے بازو سے پکڑ رکھا تھا اور اِسی دھکم پھیل میں مشکل سے راستہ بناتا ہوا اور یہ کہتا ہوا نکل رہا تھا۔ ۔ ۔ "ہٹو ہٹو بھئی‘! معرکہ تو سرکر لیا ہے یعنی تنخواہ تو وصول کر لی ہے مگر بزرگوار گرمی سے بے حال ہیں، راستہ دو ورنہ خونِ ناحق ہونے والا ہے۔ ”

تو یارو! واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہم غریب مسکین ٹھہرے "تن۔ ۔ ۔ خواہ ” دار اور ہر یکم کو ہماری عید ہوتی ہے مگر عید بھی محض آدھے دن کی۔ ۔ ۔ پھر یہ مصرع دہراتے پھرتے ہیں کہ "چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے "۔ ۔ ۔ ہاہاہا۔ ۔ ۔ کیونکہ مہینے بھر کی خواری راستے ہی میں اُڑن چھو ہو جاتی ہے اور کریانے والا، دودھ والا، سکول کی فیسیں، ٹرانسپورٹ والا، سبزی والا، گیس والا ہمارے انتظار میں ماہیے گاتے، منتظر رہتے ہیں۔ اس پر جب کسی سے ادھار لیا ہو تو وہ تو ہزار توپوں کی سلامی کے ساتھ رستے میں ہوتا ہے، اور پھر ہم انتیس۹۳ دن کے لئے جھینگر بن جاتے ہیں۔ سیٹیاں تو بجاتے ہیں مگر کھوکھلے سینے سے آواز ہی نہیں نکلتی، اس لیے کوئی فریاد کیا سنے۔

ارے ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ یکم کو علی الصبح سکول سے پیشگی چھٹی کر کے نیشنل بینک کی راہ لی تاکہ پہلے پہنچ کر گیٹ پر قبضہ کیا جائے مگر ہائے ری قسمت، مجھ سے کچھ زیادہ ہی مستعد قبضہ گروپ شاید فجر پڑھ کر ہی وہاں براجمان نظر آئے جبکہ بینک نے ٹھیک نو بجے کھلنا تھا۔ ۔ ہم بھی تقریباً سوا سات بجے پہنچے اور لگ بھگ تیس بھوکوں کے پیچھے قطار میں اٹینشن ہو گئے۔ جیسے جیسے وقت قریب آ رہا تھا، پتنگانِ زر جمع ہوتے گئے مگر بجائے قطار کے، بینک کا دروازہ بھر گیا، اس پر مستزاد یہ کہ پچھواڑے سے پینشنز وصول کرنے والے بابوں کو بھی اِسی گیٹ کی طرف ہانک دیا گیا تو رش اور بڑھ گیا۔ خصوصاً گیٹ کے قریب تو میلۂ  مویشیاں لگ گیا اور جیسے ہی گیٹ کی بانچھیں کھل گئیں، سارے ادب نواز بے ادبی کا ایسا مظاہرہ کرنے لگے کہ الامان و الحفیظ۔ اُس وقت وہاں قطار میں یا تو ہماری آئندہ نسل کو شعور و ادب سے آراستہ کرنے والے اساتذہ کھڑے ہوئے تھے یا پھر دیگر محکموں کے پڑھے لکھے ملازمیں۔ پولیس اور بینک عملہ بہتیرے رش کم کرنے اور قطار کو سلیقے سے اندر آنے کو کہہ رہے تھے مگر اِس قیامت صغریٰ میں بھلا کون کسی کی بات سنتا ہے اور ہم جو بہتوں سے پہلے آئے تھے، کھینچا تانی میں پِس کر رہ گئے اور رفتہ رفتہ سب سے پیچھے دھکیل دیے گئے۔ بھلا لحیم شحیم پہلوان نما اور پھولے ہوئے پیٹوں کا مقابلہ ہم لاغر کہاں کر سکتے تھے، اِس لیے آرام سے ایک طرف بیٹھ کر رش کم ہونے اور نفسانفسی کا تماشہ دیکھنے لگے۔ سوچنے لگے کہ کہ یا وحشت! با ادبوں کا جب یہ حال ہے تو پاکستانی بے ادبوں نے دہشت گرد بننا ہی بننا ہے۔

رش ختم ہوا تو بینک میں داخل ہوئے مگر وائے افسوس رش اور بجلی کی عدم موجودگی نے بینک کی فضا کو کچھ ایسا بنا دیا تھا گویا ہم بینک نہیں بلکہ کسی اصطبل میں داخل ہو گئے ہوں۔ طرفہ یہ کہ اب ایک اور قطار میں کھڑا ہونا تھا جو اونٹ کے آنتڑیوں کی طرح لمبی تھی۔ "مرتا کیا نہ کرتا” کے مصداق جب کھیسے میں ایک کپ چائے پینے کے بھی پیسے نہ ہوں تو انتظار اور وہ بھی قومی بینک کے تعفن زدہ برانچ میں، جہاں کے ملازمین کا نشہ آسمان سے باتیں کرتا ہو اور ایک معمولی کلرک بھی سیدھے منہ بات کرنے کا روادار نہ ہو، اس پر بجلی کی عدم موجودگی، واللہ سیدھی سبھاؤ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور روزِ حشر میں گناہگاروں کے لئے جس سزا کی وعید ہے اُس کے مظاہرے کی ایک فوٹو سٹیٹ ہے۔

سب پر شادیِ مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی جب بجلی باجی آ دھمکی مگر اب ایک اور اعلان بینک کے چرچراتے سپیکر سے ہو رہا تھا۔ ہمارے کان پھر ہوا ہو گئے، مبادا یہ نہ کہا جا رہا ہو کہ سب نکل جاؤ تنخواہ کل ملے گی مگر سپیکر کی گھٹی گھٹی آواز جیسے کسی نے بولنے والے کا گلہ دبا رکھا ہو، یہ فرما نے کی کوشش کر رہی تھی کہ آن لائن رابطہ ابھی تک نہ ہو سکا، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ رابطہ جلد از جلد رابطہ بحال ہو۔ سب سُن رہے تھے مگر سب کو معلوم تھا کہ رابطہ بارہ بجے کے بعد ہی ہونا ہے کیونکہ اگر اس باب میں جلد بازی کی جائے تو کروڑوں پر نفع کون اور کس طرح کمائے، اس لیے بینک کے اندر موجود قطار میں چہ میگوئیوں کی بھنبھناہٹ شروع ہو گئی۔ کوئی کہتا تھا کہ روڈ بلاک کرتے ہیں، کوئی منیجر کے پاس جانے کی بات کر رہا تھا مگر مجال ہے کہ کوئی اپنی جگہ سے ہٹ کر دیا ہو، اِس امید پر کہ کیا خبر ابھی کے ابھی رابطے کا کوئی معجزہ ہو جائے ہو اور ہمارا کام چکتا ہو جائے۔ گھڑی نے بھی جیسے قسم کھا رکھی تھی کہ ہم لوگوں کے صبر و تحمل کا بھرپور امتحان لے گی۔ ۔ ۔ اب ہم سب لوگ تھے اور انتظار انتظار انتظار۔ ۔ ۔ بیکار مباش کچھ کیا کر، دامن ہی پھاڑ کر سیا کر، بعضوں نے سیٹیاں بجانا شروع کر دیں۔ جن کے ذمہ سکولوں میں بچوں کو عقل و تہذیب سکھانے کا کام لگایا گیا تھا، یہ ان کی اپنی تہذیب کا انداز تھا۔ کچھ لوگ مایوس ہو کر چلے بھی گئے تھے مگر جس طرح پاکستان کا سیاسی نظام ٹھیک ہو کر بھی ٹھیک نہیں ہو رہا ہے، اسی طرح اس کے بینک کا نظام بھی خدا خدا کر کے بارہ بجے تک خوار ہونے کے بعد بحال ہوا۔ ایک بار پھر اُسی تہذیب کا مظاہرہ ہونے لگا جو باہر ہو چکا تھا اور اُوپر کا قضیہ اسی کا شاخسانہ تھا۔

اب اپنی خواری کی اور کیا رام کہانی بیان کروں، تقریباً ایک بجے تنخواہ وصولنے کے بعد جب میں بینک سے باہر نکل رہا تھا تو سر میں شدید درد کی ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں لیکن اس کے باوجود میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہمارا بنے گا کیا؟ جب پاکستان کے پڑھے لکھے طبقے کا یہ حال ہے تو نیم خواندہ بلکہ اَن پڑھوں کا تو خدا ہی حافظ ہے، یعنی با ادب جب بے ادبی پر اتر آتے ہیں تو کس قانون کا احترام کریں اور جو اس سے سرے سے باخبر ہی نہ ہوں، اُن میں سلیقہ شعاری کہاں سے آئے ؟

٭٭٭

 

 

 

ہم زلف

 

                م۔ ص۔ ایمن

 

معاشرے میں لڑکی جہیز کے انتظام اور لڑکا بالغ ہونے کے بعد، اپنے پیروں پر کھڑا ہونے تک "تنہا” کہلاتے ہیں، اس تنہائی کو دور کرنے کے چکر میں وہ شادی سے دوچار ہوتے ہیں اور یوں ان کے ساتھ ایک اور”تن”کا اضافہ ہو جاتا ہے اس طرح وہ سچ مچ "تن ہا ” ہو جاتے ہیں۔

جہاں تک "شادی سے دوچار ہونے کا” تعلق ہے، یہ لایعنی نہیں ہے۔ مشاہیر کا قول ہے کہ "بہترین دوست کی پہچان یہ ہے کہ ’وہ مصیبت کے وقت‘ آپ کے ساتھ کھڑا ہو ” آپ کیسے پہچانیں گے کہ آپ کا بہترین دوست کون ہے ؟ اپنی شادی کی مووی یا البم میں دیکھ کر با آسانی پہچان سکتے ہیں۔

ای ک(خود ساختہ) مفکر کا قول ہے (اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ یہ مفکر اس وقت آپ کے سامنے کھڑا ہے ) کہ بالغانہ رشتوں میں اضافہ ہونے یا ا اضافہ کرنے کی عمر محدود ہوتی ہے یعنی اس حرکت یا عمل کی حد مقرر ہوتی ہے جب عمر کی وہ حد گزر جائے تو مرد (یا عورت) باقی ماندہ زندگی تنہا ہی گزار دیتے ہیں اور "تن ہا” ہونے سے باز رہتے ہیں۔

دُوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ اور "عقل داڑھ ” کی پیدائش کے بعد عقل میں اضافہ ہو جاتا ہے اور "شدہ”افراد کی حالت زار دیکھتے ہوئے تنہا شخص "تن ہا ” ہونے سے تائب ہو جاتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ دیگر واقف کاروں کو بھی شادی نہ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ تنہائی دور کرنے کی اس حرکت کے ساتھ ہی بے شمار رشتوں میں تبدیلی یا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر قبل "باجی ‘کہلانے والی لڑکی اچانک ہی ’بھابی ” بن جاتی ہے۔ جو چند لمحے پہلے بہن کہلاتی تھی، وہ نند، دیورانی یا جیٹھانی بن جاتی ہے۔ حسب مراتب کسی کی پھو پی کسی کی خالہ، کسی کی ممانی اور کسی کی چچی یا تائی کہلانے لگتی ہے۔ بیٹی کہلانے والی لڑکی بہو کہلاتی ہے۔

اگر اس گھرانے سے لڑکی کا پہلے سے کوئی رشتہ نہ ہوا تو وہ شوہر کے ماں باپ کو ہی امی ابا کہنا شروع کر دیتی ہے اسی طرح دیگر تمام رشتہ دار بھی وہی کہلاتے ہیں جو شوہر کے ہوتے ہیں۔ لڑکا بھی ان رشتوں میں اضافے کے سبب بھائی سے "دولہا بھائی ‘ اور نندوئی بن جاتا ہے کسی کا دیور اور کسی کا جیٹھ اور بھتیجے بھانجے کے ساتھ ساتھ "داماد”بھی کہلاتا ہے بالمقابل رشتوں میں بیوی کے بہن بھائی اس کے سالا اور سالی کہلاتے ہیں۔

معاشرے میں ایسے رشتے بھی موجود ہوتے ہیں جن کی شناخت کے لیے "منہ سے بولنے کی” ضرورت ہوتی ہے ایسے رشتے عموماً "منہ بولے ” رشتے کہلاتے ہیں۔ اِن منہ بولے رشتوں کی ملاوٹ صرف اور صرف حقیقی  رشتوں میں ہی ہوتی ہے مثلاً منہ بولا بھائی منہ بولا بیٹا منہ بولی بہن منہ بولی بیٹی، منہ بولی ماں جبکہ وصلی یعنی بالغانہ رشتوں میں ان کی ملاوٹ کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آئی۔ مثلاً آپ نے کبھی” منہ بولا سسر، منہ بولا سالا وغیرہ جیسے رشتے نہیں سنے ہوں گے، ہاں البتہ توفیق کے بقول فلموں میں منہ بولی بیوی اور منہ بولا شوہر جیسے رشتے مل جاتے ہیں۔

انگریز اس سارے جھنجٹ سے آزاد ہے۔ وہ ان تمام رشتوں کو "اِن لاز”کہہ دے تا ہے مثلاً”بوائے فرینڈ  اور گرل فرینڈ” "غلطی سے ” رشتۂ  ازدواج سے منسلک ہو جائیں تو ان کے رشتہ داروں کا آپس میں "ان لاءز رشتہ” قائم ہو جاتا ہے۔ سسٹر ان لا، برادر اِن لا وغیرہ وغیرہ۔

شوہر کا اپنی بیوی کے باپ، یعنی اپنے سسر سے، پہلے سے کوئی رشتہ موجود نہیں تھا تو وہ اپنی بیوی کے باپ کو "فادر ان لاء” کہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ "قانونی باپ ” یعنی لائسنس ہولڈر(قانونی کاغذ، نکاح نامہ رکھنے کے سبب)والد بزرگ۔ ساس کو "مدر ان لاء” کہے گا۔ یعنی ’’قانونی ماں "اِسی طرح سالیاں "سسٹر ان لاءز ” سالے "برادران لاءز” کہلاتے ہیں لیکن اس بارے میں ساری انگریزی خاموش ہے کہ "غیر قانونی” رشتہ دار کون سے ہوتے ہیں ؟

ہمارے ہاں سالی یا سالیاں بھی شادی شدہ ہوں تو ان کے شوہروں کا آپس میں ایک عجیب بلکہ عجیب ترین رشتہ قائم ہو جاتا ہے جسے اُردوئے عام میں "ہم زلف”کہا جاتا ہے۔ اس رشتے کی اصطلاح پر غور کرتے جائیں آپ کو یہ کہیں سے بھی مناسب نظر نہیں آئے گا۔

آئیے اس لفظ، اس رشتے "ہم زلف ” کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔

ایک ہی کلاس میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے تمام طالب علم آپس میں ایک دوسرے کے "ہم جماعت "کہلاتے ہیں۔

ایک ہی منزل کی جانب سفر کرنے والے "ہم سفر ” کہلاتے ہیں

ایک ہی سال یا ایک ہی مہینے میں تولد ہونے والے افراد آپس میں "ہم عمر ” کہلاتے ہیں

ایک ہی محلے میں جڑے ہوئے گھروں میں رہنے والے، کہ ایک کے گھر کا سایہ دوسرے کے گھر کے صحن میں پڑتا ہو، آپس میں "ہم سایہ” کہلاتے ہیں (اور اے سا اسی صورت میں ممکن ہے کہ گھر شہر میں ہوں اور صبح یا شام کے وقت ایک دوسرے کے سائے میں بھی آتے ہوں، بصورت دے گر وہ "ہم سایہ‘ ‘ کہلانے کے حق دار نہیں ہوتے اگرچہ لوگ کہہ دے تے ہیں )

گاؤں دے ہات میں رہائشی مکانات چونکہ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتے ہیں اس لیے وہاں "ہم سایہ” کہنے کی بجائے سب ہی آپس میں ایک دوسرے کے "گرائیں "کہلاتے ہیں اور”ہمسایہ” نہ ہونے کا بدلہ وہ یوں لیتے ہیں کہ ہر اس خاتون کو، جسے وہ بہن کہتے ہیں اسے "ہمشیرہ‘ ‘کہتے اور ’لکھواتے ‘ ہیں۔

ایسے ہی ایک صاحب نے مجھ سے خط لکھوایا اور مکتوب الیھا کو "ہمشیرہ‘‘ لکھنے پر اصرار کیا۔ میں جانتا تھا کہ وہ اس کی پڑوسن ہے، میں نے کہا وہ آپ کی ہمشیرہ نہیں ہے، اسے صرف بہن لکھوائیں کیونکہ” ہمشیر "یا "ہم شیرہ” اِسی صورت میں ہو سکتے ہیں جب انہوں نے اور آپ نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہو لیکن وہ مصر رہے کہ ہم ہمیشہ سے ہی انہیں اپنی ہمشیرہ کہتے اور پکارتے رہے ہیں، بے شک اس نے ہماری ماں کا دودھ نہیں پیا لیکن وہ ہماری ہمشیرہ ہے پھر انہوں نے تاویل دی کہ گاؤں میں جس گائے کا دودھ وہ استعمال کرتی ہیں، اُسی گائے کا دودھ ہم بھی استعمال کرتے ہیں پھر تو وہ بلکہ تمام گرائیں ہمارے ہمشیر ہوتے ہیں اس طرح تو مے ری بے وی بھی۔ ۔ ۔ ”

"اوہ! نہیں چچا ! اے سے ہوتا تو شہروں میں بھی سارے دوست دشمن دودھ کی ایک ہی دکان سے دودھ خریدتے ہیں۔ پھر تو سارے ہی ہمشیر ہوئے اپنے دودھ شریک رشتہ داروں کا حلقہ محدود رکھیں ورنہ بہت مشکل ہو جائے گی” میں نے دانستہ ڈبے کا دودھ استعمال کرنے والوں کا ذکر گول کر دے اور نہ "ہمشیروں ” کی تعداد، لا تعداد ہو کر بین الاقوامی ہو سکتی تھی۔

وہ صاحب جن کا میں خط لکھ رہا تھا مے ری بات سے قطعی متفق نہ ہوئے اور اس پڑوسن کو ہمشیرہ لکھوا کر ہی رہے اگر میں اپنے موقف پر ڈٹا رہتا تو بہت ممکن تھا کہ شہر میں دودھ کی ایک ہی دکان سیے ا ایک ہی گوالے سے دودھ خریدکراستعمال کرنے والے تمام شہری”ہمشیر”کہلاتے اور یقیناً یہ بات شہریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے گو کہ شہری بے حد فراخ دل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر ہول آتا ہے کہ "یہ سب اپنا اپنا حصہ نہ مانگ لیں۔ ”

ان صاحب نے جو خط لکھوایا تھا وہ بھی ناقابل فراموش ہے، اکثر یاد آ جاتا ہے۔

پشاور میں مقیم ان کی ’ہمشیرہ ‘ کے گھر چوری ہوئی تھی اور اسے وہ افسوس کا خط لکھوا رہے تھے۔ نفس مضمون کچھ یوں تھا کہ "پیاری ہمشیرہ ہم نے سنا ہے کہ تمہارے گھر چوری ہوئی ہے تمہارا بہت نقصان ہوا ہے، سن کر ہمیں بے حد افسوس ہوا ہے۔ ہماری دعا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

میں نے ان کا جملہ کاٹتے ہوئے کہا ’ ’چچا ! مجھے لکھنے تو دیں۔ یہ لکھ لوں تو آگے بتائیں۔ ”

"اچھا اچھا ! لکھو لکھو ! "وہ بولے اور بڑبڑائے "دل سے ہم بہت خوش ہیں، ہماری تو دعا ہے تمہارے گھر روز چوری ہو۔ ۔ ۔ ”

میں نے ان کا پہلا جملہ مکمل ہوتے ہی ان کے "دل کی بات‘‘ بڑبڑاہٹ بھی لکھ دی اور پوچھا "ہاں چچا ! آگے بتائیں !”

"ہاں بچو کیا لکھا ہے ؟ ”

"ہم بہت خوش ہیں ! ہماری تو دعا ہے تمہارے گھر روز چوری ہو۔ ۔ ۔ ”

"اوہو یہ کیوں لکھ دیا ؟ یہ تو میں نے ویسے ہی کہا تھا۔ ”

"آپ نے کہا تو میں نے لکھ دیا !”

"یار یہ بات لکھنے کی نہیں تھی، ٹھیک ہے اس نے ہمارا بہت دِل دُکھایا ہے۔ اندر سے تو ہم بہت خوش ہیں لیکن” پراولی” (برادری)کا تقاضا ہے کہ ہم افسوس کا اظہار کریں ورنہ وہ کمینی سمجھے گی اس کے گھر چوری بھی ہم نے کروائی ہے۔ ” وہ بولے "مٹاؤ اس کو مٹاؤ !”

میں نے کہا "مٹ نہیں سکتا دوبارہ لکھنا پڑے گا !” اور صفحہ بدل کر دوبارہ سے پیاری ہمشیرہ لکھنا شروع کر دیا۔ جہاں تک حکم ہوا تھا وہاں تک” نقل” کی پھر ان سے آگے بتانے کا کہا۔

وہ بولے "کل ہی تیرا بیٹا کمال ہمارے گھر آیا تھا اس نے بتایا کہ سب لوگ شادی میں گئے ہوئے تھے اور چور ایک کمرے کا تالا توڑ کر سارا سامان لے گئے ہیں۔ بڑا نقصان ہوا ہے۔ ۔ ۔ ہم نے سنا تو ہمیں بہت دکھ ہوا ہے۔ ۔ ۔ ” ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ میں نے بایاں ہاتھ اٹھاتے ہوئے انہیں کچھ دیر خاموش رہ کر لکھنے کی مہلت طلب کی۔

وہ چپ تو ہو گئے لیکن ان کی بڑبڑاہٹ، جاری رہی، ان کا”دل بولتا رہا۔ ‘‘

"پتا نہیں کیسے ڈرپوک چور تھے خالی گھر میں سے بھی ایک ہی کمرے کا سامان لے گئے ہیں۔ ۔ ۔ بے وقوف کے بچے۔ ۔ ۔ ٹرک لاتے سارا سامان لے جاتے۔ ۔ ۔ !”اُنہوں نے جیب سے نسوار کی پڑیا نکالی اور جبڑے میں نسوار بھری میں نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔

"ہاں چچا ! آگے بتائیں۔ ۔ ۔ ”

"کیا لکھا ہے ؟” انہوں نے پوچھا

” بے وقوف کے بچے۔ ۔ ۔ ! ٹرک لاتے، سارا سامان لے جاتے۔ ۔ !” میں نے ان کی زبان سے نکلا آخری جملہ کہہ سنایا۔

"اوہو ! یہ کیوں لکھ دیا ؟۔ ۔ ۔ ”

"چچا جو کچھ آپ بولیں گے وہ لکھتا جاؤں گا۔ ”

"نہیں نہیں۔ ۔ ۔ اس کو مٹاؤ۔ ۔ ۔ یہ نہیں لکھنا تھا۔ ”

چچا کی نظر بھی کچھ کمزور تھی، موٹے شیشوں سے وہی کچھ دیکھ سکتے تھے جو ان کے عین سامنے ہو، ان کے گھر والے ان کی بیٹیاں اس معرکے سے خوب لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ میں نے کاپی کا تے سرا صفحہ پھاڑا اور کہا "چاچا مجھے صرف وہ بات بتائیں جو آپ لکھوانا چاہتے ہیں۔ ”

” کیا بتاؤں ! ہماری اس کمینی بہن کے گھر چوری ہوئی ہے، دل میں ہم بہت خوش ہیں لیکن کیا کریں افسوس تو کرنا پڑتا ہے تم خود ہی لکھ دو، مے رے تو دل کی باتیں زبان سے نکل رہی ہیں۔ ”

تے سری بار میں نے خط مکمل کر کے انہیں سنایا۔ اُنہوں نے وہیں پر بس کر دی اور بولے "بس اتنا ہی کافی ہے ” لفافے میں ڈال کر پتا لکھ دو۔ ”

چار دن بعد ملے تو بولے "خط دوبارہ لکھنا پڑے گا، جو بات لکھوانا تھی وہ تورہ ہی گئی۔ ”

ایک ماں کا دودھ پینے والے اگر رضاعی بہن بھائی کہلاتے ہیں تو ایک ہی گائے ایک ہی بھینس یا ایک ہی بکری کا دودھ پینے والے، دودھ کی ایک ہی دکان سے دودھ خرید کر استعمال کرنے والے ایک ہی کمپنی کا "ڈبہ پیک ” دودھ استعمال کرنے والے آپس میں "ہمشیر ” کہلا سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ فیصلہ تو آپ بہتر کر سکتے ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ شادی کے بعد معرض وجود میں آنے والے گنجلک رشتے "ہم زلف ” کو کس خانے میں فٹ کیا جائے ؟

ایک مطلب تو اس رشتے کا یہ ہو سکتا ہے کہ دو مرد کسی ایک ہی زلف کے اسیر ہوں تو انہیں "ہم زلف” کہتے ہوں گے ؟۔ ۔ جیسا کہ میر نے کہا تھا

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

یعنی ہم، تم، امیر، غریب سب "ہم زلف "ہیں۔ لیکن نہیں۔ ۔ انہیں تو ایک دوسرے کا رقیب کہتے ہیں۔ در اصل ہمارے معاشرے میں ایک اے سا شخص !جس کی ساس اور سسر وہی ہیں جو کسی دوسرے (مرد) کے بھی ساس سسر ہیں، تووہ دونوں مرد آپس میں ایک دوسرے کے ” ہم زلف” کہلاتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ کہ! یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ان کی مشترکہ ساس کی زلف ہے جسے معیار بنا کر دونوں کو ایک ہی زلف۔ ۔ ۔ معاف کیجیے گا ایک ہی رشتے سے باندھ دیا گیا ہے۔

جن(برگر) گھرانوں میں زلفوں کا "رواج ” نہیں ہے کیا یہ محاورہ ان پر بھی فٹ آتا ہے یا نہیں ؟ فرصت ملنے پر اس پر بھی سوچیں گے فی الوقت اِس پر سوچ لیں کہ "سالی کا شوہر” تو "ہم زلف ” کہلاتا ہی ہے پھر سالے کی بیوی کو بھی” ہم زلف” کیوں نہیں کہہ سکتے ؟ کیونکہ اس کی ساس اور سسر بھی مشترکہ، یعنی وہی ہیں جو دو سالیوں کے ماں اور باپ ہیں۔ اگر نہیں تو پھر "ہم زلف ” کی اصطلاح تبدیل کرنے پر غور کیا جانا چاہیئے، مستقبل میں کسی بچے نے یہ سوال کر لیا تو بہت مشکل پیش آئے گی کیونکہ بہت سے بچے یہ سمجھ کر سوال کرتے ہیں کہ شاید ہمارے بڑے ہرسوال کا جواب دے دیں گے۔

ایک دادا اپنے پڑپوتے کو ڈانٹتے ہوئے کہہ رہے تھے "کتے کی دُم سو سال تک بھی نلکی میں رکھی جائے تب بھی سیدھی نہیں ہوتی! ” تو پڑپوتے نے پوچھ لیا ” دادا ابو ! اگر کتے کی دم سیدھی ہو بھی جائے تو آپ اس کا کیا کریں گے اور یہ کہ اسے سیدھا کرنے کے لیے سو سال کا انتظار بھی کرنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہ کیا کتے کی عمر سو سال ہوتی بھی ہے ؟”

پڑدادا نے چیں بہ جبیں ہو کر اپنے پوتے سے کہا "سمجھاؤ اِسے۔ ۔ ۔ بہت بولنے لگا ہے ! ”

٭٭٭

 

 

 

 

شوہر / بیویاں بدلنا

 

                خادم حسین مجاہد

 

اِس عالم رنگ و بو میں جس کو بھی دیکھا بیوی سے تنگ دیکھا بظاہر کتنے ہی خوش و خرم جوڑے کو دیکھ کر غلط فہمی ہوئی کہ میاں بیوی واقعی ایک دوسے سے خوش ہیں لیکن ذرا قریب ہو کے حقیقت حال دریافت کی تو خوش و خرم شوہر نے بھی یہی خلاصہ بیان کیا کہ اگر دنیا میں مصیبت کی کوئی مجسم شکل ہے تو وہ بیوی ہے اس کے ساتھ ہی یہ طرفہ تماشہ دیکھا کہ ہر کوئی اپنی بیوی کو تو مصیبت اور دوسروں کی بیویوں کو نعمت سمجھتے ہوئے حسد میں بھی مبتلا اور تمنائی ہیں کہ کاش میں اپنی بیوی کو کس اور سے بدل سکتا۔ہ یورپ میں اس سوچکے تحت ایسے کلب بھی قائم ہیں جہاں آپ اپنی بیوی سمیت شریک ہو کر اسے ڈانس ہال میں چھوڑ سکتے ہیں اور کسی بھی دوسرے کی بیوی کے ساتھ جو آپ کو اچھی لگی ہو ڈانس کر سکتے ہیں وہیں ہوٹل کے کمرے میں اس کے ساتھ وقت بھی گزار سکتے ہیں اور یہ بات اسے پسند آ جائے تو اسے اپنے ساتھ بھی لے جا سکتے ہیں آپکی بیوی بھی جس کے ساتھ چاہے جائے جا سکتی ہے، دوسروں کو بھی آزادی ہے کہ وہ بھی بدل کر جس کی بیوی چاہے لے جا سکتے ہیں، چونکہ انسان فطرتاً تغیر پسند ہے اس کا کاروباری فائدہ کلب والے اٹھاتے ہیں اور اس حد تک سہولت دیتے ہیں کہ آپ کو نئی بیوی پسند نہ ہو تو آپ جتنی مرتبہ چاہیں بیوی بدل سکتے ہیں کوئی قانونی کارروائی نہیں بس آپ کو کلب کی فیس ادا کر کے ممبر شپ لینی ہو گی پھر نہ طلاق کی ضرورت نہ نئے معاہدہ طلاق کی ضرورت نہ نئے معاہدہ نکاح کی بس دونوں طرف رضامندی ہونی چاہیئے۔

شاید اِنہیں اثرات کے تحت یا تغیر پسندی کے جذبات میں حکومت مسائلستان کے پارلیمنٹ کے بعض ممبران نے بل پیش کیا کہ ہر مرد کو زندگی میں کم از کم ایک بار اپنی بیوی کسی بھی دوسرے کی بیوی کے ساتھ باہمی رضا مندی کے ساتھ بدلنے کا حق ہونا چاہیئے بعض بزرگ اور کنوارے ممبران نے اس بل کی مخالفت کی لیکن اسمبلی میں شادی شدہ اکثریت میں تھے، اُن سب نے پر زور حمایت کی حتیٰ کہ خواتین ارکان ممبران نے بھی مردوں کا ساتھ دیا۔ شاید وہ بھی اپنے مردوں سے اِتنا ہی تنگ تھیں، چونکہ جمہوریت میں دو گدھوں کی رائے ایک انسان سے بہتر ہوتی ہے اِس لئے اکثریت کی بنیاد پر یہ بل پاس ہی نہیں، لاگو بھی کیا گیا۔ ملاؤں نے بڑا ہنگامہ کیا کہ جب طلاق اور عقد ثانی کا آسان راستہ شرع میں موجود ہے تو اِس مغربی بے غیرتی کی کیا ضرورت ہے لیکن چونکہ وہ اقلیت میں تھے، اکثریت نے انہیں ڈنڈوں سے چپ کرا دیا۔

ہر شہر میں بڑے بڑے پنڈال اور میدان اس مقصد کے لئے آباد ہو گئے جہاں لوگ اپنی ناپسندیدہ بیوی کو چھوڑ کر کسی کی بھی اور کیسی ہی بیوی بدل کر لے جا سکتے تھے کسی نے اپنی بد زبان بیوی کو چھوڑا تو کسی نے لگائی بجھائی کی ماہر بیوی کو۔ کسی نے فیشن پرست بیوی چھوڑی تو کسی نے غیبت کی ماہر کو، کسی نے بد صورت بیوی چھوڑی تو کسی نے کالے رنگ والی کو۔ کسی نے لڑاکا بیوی چھوڑی تو کسی نے حاکمانہ مزاج والی۔ کسی نے پھوہڑ بیوی کو چھوڑا تو کسی نے بدکردار، کسی نے سازشی بیوی کو چھوڑا تو کسی نے جاہل کو، کسی نے ان پڑھ بیوی کو چھوڑا تو کسی نے چیخم دھاڑ کرنے والی۔ کسی نے تعلیم یافتہ بیوی بحثوں سے تنگ آ کے اسے چھوڑا تو کسی نے ملازمت پیشہ بیوی کو اس کی جابرانہ و حاکمانہ طبیعت کے باعث۔ غرض ہر ایک شخص نے اپنی بیوی کو کسی نا کسی ناپسندیدہ خصلت یا خامی کے باعث وہاں چھوڑا اور نہایت خوشی اور آزادی محسوس کی حتیٰ کہ وہ خالی ہاتھ واپس جانے لگے تو حاکم کے کارندوں نے روک لیا کہ بدلے میں کوئی نہ کوئی بیوی ضرور لینی پڑے گی، قانون کا تقاضہ یہی ہے۔ مردوں کی اکثریت آزادی کے بعد دوبارہ غلامی نہ چاہتی تھی مگر ناچار حاکم کے فیصلے سے مجبور ہو گئے اور اور تبادلے کے لئے نئی بیوی کا انتخاب کرنے لگے۔ اب ہوا یوں کہ جس نے کالی بیوی چھوڑی تھی اس نے گوری چٹی بیوی کا انتخاب کیا مگر۔ ۔ ۔ اس کو گورا رکھنے کے لئے اتنی کریمیں، لوشن اور میک اپ درکار ہوا جس نے اس کی آدھی آمدنی کو ٹھکانے لگا دیا۔ جس نے بد صورت بیوی کو چھوڑا اس نے تاک کے نہایت خوبصورت بیوی کوا انتخاب کیا لیکن وہ بدکردار نکلی، جس نے ان پڑھ بیوی چھوڑ کر پڑھی لکھی بیوی لی، اُس نے بحث و تکرار سے چند دن میں ہی اس کا ناطقہ بند کر دیا۔ جس نے بد زبان بیوی کو چھوڑا تھا، اُس نے خوش اخلاق عورت کا انتخاب کیا مگر وہ لگائی بجھائی کی ماہر نکلی، جس نے زبان دراز بیوی کو چھوڑ کر کم گو عورت کا انتخاب کیا وہ نہایت سازشی نکلی جس نے سادہ طریقے سے رہنے والی بیوی کو چھوڑ کر فیشنی بیوی کا انتخاب کیا اس کی ساری آمدن اس کے نت نئے فیشنوں کی نذر ہو گئی، جس نے جاہل بیوی چھوڑ کر سکالر ٹائپ بیوی کا انتخاب کیا، اُسے اندرون و بیرون ملک دوروں اور لیکچروں سے ہی فرصت نہ تھی۔ جس نے گھریلو بیوی چھوڑ کر ملازمت پیشہ بیوی کا انتخاب کیا اس نے اس کی گھر اور اس کے گھر والوں کی خدمت کرنے سے انکار کر دیا۔ اُلٹا اُسے اُس کی خدمت کرنا پڑتی، ناشتہ بنا کے دینا پڑتا تاکہ وہ بروقت کام پر جا سکے اور آمدنی کا سلسلہ بند ہی نہ ہو جائے۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ کبھی کبھی اسے تو اس کا سر اور ٹانگیں بھی دبانا پڑتیں، جس نے بے اولاد بیوی کو چھوڑا تھا اس نے نو بچوں کی ماں کا انتخاب کیا مگر اُن بچوں نے اسی کا ناک میں دم کر دیا۔ جس نے کثیر العیال بیوی کو چھوڑ کے بانجھ بیوی کا انتخاب کیا، وہ اولاد کی خوشی کو ترسنے لگا اور اسے کثیر العیال بیوی کے بچے یاد آنے لگے۔ جس نے قلم کتاب کی دشمن بیوی کو چھوڑا تھا، اس نے ادب سے دلچسپی رکھنے والی بیوی کا انتخاب کیا مگر وہ ہر وقت کتابوں اوررسالوں میں گھسی رہتی حتیٰ کہ دودھ چولہے پر ابل جاتا، ہانڈی جل جاتی اور چیزیں خراب ہو جاتیں۔

غرض جس نے بھی جس خامی یا خرابی کی وجہ سے پرانی بیوی کو چھوڑا تھا، نئی بیوی میں اس کے بجائے کوئی اور خامی یا خرابی سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات تھی اس لئے مردوں کی اکثریت نئی بیوی سے بیزار ہو کر پرانی بیویوں کو یاد کرنے لگی دوسری طرف بیویاں بھی جو پرانے شوہروں سے تنگ تھیں اور نئے شوہروں کے ساتھ خوشی خوشی آ گئی تھیں، اُنہیں بھی خامیوں کے باوجود نئے شوہروں سے پرانے شوہر بہتر لگنے لگے کیونکہ انہیں جو پرانے شوہروں کی خامیوں سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھیں، اب اُنہیں احساس ہوا کہ اُنہوں نے خواہ مخواہ ناشکری کر کے پرانے شوہروں کو اس قدر بیزار کر دیا تھا کہ وہ بیویاں بدلنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ کسی عورت کا پرانا مرد اگر کنجوس تھا تو نیا مرد فضول خرچ اور حد سے زیادہ فیاض نکلا جو اپنا پیسہ ادھر ادھر لُٹا دیتا تھا۔ اگر کوئی پرانے مرد کی بد صورتی سے تنگ تھی تو نئے مرد کی خوبصورتی سے تنگ آ گئی کہ دوسری عورتیں ہی اس کا پیچھا نہ چھوڑتی تھیں۔ اگر کسی عورت کا شوہر شکی مزاج تھا تو نیا مرد لا پرواہی نکلا۔ اگر پرانا مرد ظالم تھا تو نیا بزدل نکلا۔ اگر پرانا مرد اَن پڑھ ہونے کے باعث بیوی کی بات نہ سمجھ پاتا تو نیا مرد اتنا پڑھا لکھا ملا کہ اسے اس کی باتوں کی سمجھ نہ آتی تھی۔ اگر پرانا مرد نکھٹو ہونے کے باعث ہر وقت گھر میں پڑا رہتا تھا اور وبال جان تھا تو نیا مرد اِتنا مصروف ملا کہ اس کے پاس بیوی بچوں کے لئے وقت ہی نہ تھا۔ اگر پرانا مرد غریب ہونے کے باعث اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہ تھا تو نیا مرد اتنا امیر تھا کہ وہ بیوی کو کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ اگر کسی عورت کا پرانا مرد زن مرید ہونے کے باعث خفت کا باعث تھا تو نیا مرد عورت ذات کے ہی خلاف تھا اور ہر وقت بیوی میں کیڑے نکلتا رہتا تھا۔ اگر کسی کا پرانا مرد نشئی تھا تو نیا جواری نکلا اور اگر کسی کا پرانا مرد بے روزگار تھا تو نیا مرد سسرال کے مال پر نظر رکھتا تھا اور خود کام کو گناہ سمجھتا تھا۔

زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ نئے جوڑوں کے مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی شکل سے بھی بیزار ہو گئے اور اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ایک پل گزارنا بھی دوبھر ہو گیا۔ در اصل پرانے مرد اور عورتیں جیسے بھی تھے ایک دوسرے کے عادی ہو چکے تھے۔ دوسرے اللہ جو جوڑے بناتا ہے اکثر ان کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ظرف بھی دے دیتا ہے۔ بہرحال ایک دن یہ لاوا پھوٹ پڑا اور مختلف شہروں میں جگہ جگہ ہنگامے اور احتجاجی جلوس شروع ہو گئے۔ سبھی کا مطالبہ تھا کہ اس بیہودہ بل کو ختم کیا جائے اور سابقہ شوہروں کو سابقہ بیویاں دی جائیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ان مظاہروں کی قیادت وہی ارکان پارلیمنٹ کر رہے تھے جنہوں نے یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔ پولیس اِن مظاہروں کو کنٹرول نہ کر سکی اور فوج کو بلانا پڑا۔ حتیٰ کہ مظاہرین سے مذاکرات کے بعد اس بل کی واپسی اور تمام رشتوں کو پرانے حالات کے مطابق بحال کرنے کا حکم دے دیا گیا پھر کہیں جا کے حالات نارمل ہوئے۔

پرانے رشتے بحال ہونے پر شوہروں اور بیویوں نے کلمۂ شکر ادا کیا اور خوشی خوشی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھر کو روانہ ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے اور ایک دوسرے کی خامیاں جو اُن کے لئے نا قابلِ برداشت ہو گئی تھیں، اب اُنہیں نعمت محسوس ہونے لگیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق بیویاں بدلنے والے پورے کلبوں کے ممبران کی اکثریت دس دس بار بیویاں اور شوہر بدلنے کے باوجود بالآخر اپنی ہی بیوی اور اپنے ہی شوہر کے ساتھ جانا پسند کرتے ہیں۔ اِسی لئے حکیمسقراط نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر تمام اہل دنیا کی مصیبتیں ایک جگہ لا کر ڈھیر کر دی جائیں تو پھر سب کو برابر بانٹ دیں تو جو لوگ اس وقت خود کو بد نصیب سمجھ رہے ہیں وہ اس تقسیم کو مصیبت اور پہلی مصیبت کو غنیمت سمجھیں گے۔ ایک اور حکیم نے اس مضمون کو یوں ادا کیا ہے کہ” اگر ہم اپنی اپنی مصیبتوں کو آپس میں بدل بھی سکتے تو بالآخر ہر شخص اپنی پہلی ہی مصیبت کو غنیمت سمجھتا، محمد حسین آزاد نے ان حکیموں کے اقوال پر ایک تمثیل (تصوراتی کہانی) بھی لکھی ہے جس میں لوگ اپنی مصیبتیں خوشی خوشی سے ایک دو سرے سے بدلتے ہیں اور بالآخر تنگ آ کر اپنی پرانی مصیبتوں کو واپس لے کر ہی خوش ہو تے ہیں کیونکہ وہ نئی مصیبتوں کے عادی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں ان کو سہنے کی طاقت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ جو مصیبت دیتا ہے وہ انسان کی طاقت کے مطابق ہی دیتا ہے یا اس کے مطابق طاقت دے دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر اِن بڑے لوگوں کے اقوال میں مصیبت کی جگہ "بیوی” کر لیا جائے تو ان کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا۔

٭٭٭

 

 

 

قصہ ہائے لیپ ٹاپس

 

                ذوالقرنین سرور

 

حالات کی ضرورت اور کمپنی کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ راوی کو ایک عدد لیپ ٹاپ سے نواز دینا چاہیے۔ یہ لیپ ٹاپ لے کر بھاگے گا نہیں۔ پورے گاؤں میں اعلان کروا دیا کہ کمپنی نے ہم پر اعتماد کی انتہا کر دی ہے۔ اب مجھے باقاعدہ ایک لیپ ٹاپ میسر ہو گا۔ ایک دو احباب نے حیرت سے پوچھا کہ تمہارے پاس تو ذاتی بھی ہے۔ میں نے تفاخر سے کہا، "اب دفتری بھی ہو گا۔ ” چند ایک نے مایوس کرنے یا نیچا دکھانے کی غرض سے کہا کہ ان کے پاس تو پتا نہیں کتنے سالوں سے دفتری لیپ ٹاپ ہے۔ لیکن میں ایسی بے دست و پا کو کب خاطر میں لانے والا تھا۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا۔ مجھے لیپ ٹاپ دے دیا گیا۔ ایک بد ہئیت سا بیگ میری میز تک لایا گیا۔ ایسا ایک بیگ ہمارے گھر میں بھی تھا۔ امی اس میں گھر بھر کے جوتے رکھا کرتی تھیں کہ مٹی سے بچے رہیں گے۔

"یہ کیا ہے ؟” میں نے حیرت سے استفسار کیا۔

"لیپ ٹاپ ہے۔ اس کی بیٹری بہت اچھی ہے۔ ” لانے والے نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔

لیپ ٹاپ دیکھا۔ یہ والا ماڈل میں نے زندگی میں پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ کتنا پرانا ہے۔ میں نے دوبارہ سوال کیا۔ "زیادہ سے زیادہ سات سال۔ ” جواب ملا۔

"ہمم۔ ۔ ۔ ۔ سات سو بھی ہوتے تو ہم نے کیا کر لینا تھا۔ ” میں نے ایک گہرا سانس لیا۔

چلایا۔ تو واقعی چلتا تھا۔ کچھ دن استعمال کرنے پر پتا چلا کہ واقعی صرف بیٹری بہتر ہے۔ کبھی سکرین چلتے چلتے بند ہو جاتی تو کبھی لیپ ٹاپ خود بخود ری سٹارٹ ہو جاتا۔ کی بورڈ کے ایک دو بٹن چھوڑ کر باقی سارے کام کرتے تھے۔ کچھ زور سے چلتے اور کچھ نرمی کی زبان سمجھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک بہترین چیز تھی۔ میں اس کو آن کر کے سامنے تو رکھ لیتا۔ لیکن کام اپنے دوسرے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر ہی کیا کرتا تھا۔ وہ لیپ ٹاپ عجیب و غریب آوازیں بھی نکالا کرتا تھا۔ اٹھانے پر برا مناتا اور کھڑ کھڑ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا۔ سوجاتا تو خراٹے لیتا۔ یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ ہر بار سونے کے بعد وہ اٹھ بھی جائے یعنی گہری نیند لینے کا عادی تھا۔ اکثر سکرین تاریک ہی رہتی تھی۔ ایسی صورتوں میں پاور کا بٹن دبا کر ایک ری سٹارٹ دینا پڑتا۔ رفتہ رفتہ میرا ہاتھ سیدھا ہو گیا۔ اب میں تاریک سکرین پر ہی ری سٹارٹ کی کمانڈ دے دیا کرتا تھا۔

ایک دن اس کے اندر سے کچھ عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں۔ ایسی آوازیں لڑائی جھگڑے والے گھروں سے عموماً آیا کرتی ہیں۔ لیکن کسی کمپیوٹر سے ایسی آوازیں سننے کا میرا پہلا ہی تجربہ تھا۔ اس کے بعد سب کچھ خاموش ہو گیا۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ آوازیں دیں۔ لیکن لگتا تھا اس نے اس فانی دنیا سے فنا کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ متعلقہ شعبے تک لے گیا۔ بہت دیر تک آئی سی یو میں رہا۔ پھر ایک نے آپریشن تھیٹر سے باہر آ کر افسردہ سی نظر مجھ پر ڈالی۔ میں نے اس کے چہرے پر لکھی مایوسی پڑھ لی تھی۔ کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہ تھی۔ میرے تمام سوالوں کا جواب اس کے چہرے پر تحریر تھا۔ دل بجھ گیا۔ اس لیپ ٹاپ سے مجھے انسیت سی ہو چلی تھی۔

"اس میں موجود ڈیٹا کا کیا ہو گا؟” میں نے سوچوں کا رخ بدلنے کو بجھے دل سے سوال کیا۔

” وہ آپ کو نئے والے میں منتقل کر دیا جائے گا۔ ” ایک سرد جواب ملا۔

یہی ہوتا ہے۔ یہی دنیا کا اصول ہے۔ پرانی چیزیں پھینک دی جاتی ہیں۔ اور ان کی جگہ نئی لے لیتی ہیں۔ میں دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے لگا۔ قبل اس کے میں فلسفی ہو جاتا۔ اور قنوطیت کی ساری حدیں پھلانگ جاتا۔

متعلقہ شعبے کے فرد نے میرے خیالات کا تسلسل توڑ دیا۔ "یہی چاہتے تھے نا تم! ایک نیا لیپ ٹاپ مل جائے۔ اس سے جان چھوٹ جائے۔ سمجھو جان چھوٹ گئی۔ اب جاؤ اور نئے کے لئے درخواست دے دو۔ ”

میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس شعبے سے نکل آیا۔ بوجھل دل سے یہ خبر اپنے افسران کو سنائی۔ اور دل کو تسلیاں دیتا ہوا واپس چلا آیا۔

ذرائع سے معلوم ہوا کہ نیا لیپ ٹاپ چند دن میں دے دیا جائے گا۔ دو دن بعد ہارڈ وئیر کے شعبے سے ایک لڑکا سیاہ رنگ کا شاپر سا اٹھائے ہمارے میز تک آ پہنچا۔ قریب آنے پر پتا چلا کہ یہ بیگ نما کوئی چیز ہے۔ غور کرنے پر غلط فہمی دور ہو گئی۔ یہ ایک بیگ ہی تھا۔ ہم نے ایک نظر بیگ پر ڈالی۔ ایک دریدہ دہن بیگ۔ جس کی ایک سائیڈ لقوہ زدہ لگ رہی تھی۔ لانے والا کانوں سے پکڑ کر اس کا منہ سیدھا اور بند کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ قبل اس کے بیگ کی دریدہ دہنی دیکھ کر ہم منہ پھٹ اور گستاخ ہونے کا الزام لگاتے، ٹوٹی زپ دیکھ کر اس کی معذوری سمجھ میں آ گئی۔

"یہ کیا ہے ؟” ہم نے کھلے دہن سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔

"لیپ ٹاپ۔ ” مختصر جواب ملا۔

"کس کا ہے ؟” ہم نے دوبارہ سوال کیا۔

"اب تمہارا ہے۔ ” دوبارہ وہی جواب ملا۔

"پہلے کس کے پاس تھا؟” ہم نے پھر پوچھا۔

"اس بات کو چھوڑو۔ بہت سے لوگوں کے پاس رہا ہے۔ ” اُسی روکھے انداز میں دوبارہ جواب دیا گیا۔

ہم خاموش ہو گئے۔ خود کو احساس ہو چلا تھا کہ ہمارے سوالات بکرا خریدنے والے کے سوالات جیسے ہو گئے ہیں۔

ہم نے لیپ ٹاپ کو دیکھے بغیر کہا "اس کو اٹھائیں گے کیسے۔ دہن بندی کا کچھ سبب ہو سکتا ہے ؟ ”

"فی الوقت یہی بیگ ہے۔ گزارہ کرو۔ ” ٹکا سا جواب ملا۔

"سوئی دھاگہ مل جائے گا؟” ہم شاید ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہ تھے۔

اب آنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی "یہ آئی ٹی فرم ہے۔ درزی کی دکان نہیں۔ ”

ہم نے ہنکارہ بھرا۔ اور لیپ ٹاپ کو باہر نکال لیا۔

کئی ایک جگہ زخموں کے گھاؤ تھے۔ کچھ پرانے مالکین کے دیے تحفے بھی تھے جو اس نے اپنے ماتھے پر تمغوں کی صورت سجا رکھے تھے۔ پاور کا بٹن دبانے پر پہلی بار ہی سکرین روشن ہو گئی۔ دل خوشی سے بھر گیا۔ ہم نے کی بورڈ کی ساری اکائیاں دبا دبا کر دیکھیں۔ سب ہی چلتی تھیں۔ ہم نے اس کے بنائے جانے کی تفصیلات دیکھیں تو اس کو اپنے پرانے والے سے ایک سال کم عمر پایا۔ ابھی جانچ پڑتال میں مصروف تھے کہ اس کا سی ڈی روم خود ہی باہر آ گیا۔ ہم نے سی ڈی روم بند کرنے کی بجائے اس لڑکے کو دیکھا جو ابھی تک ہمارے پاس کھڑا تھا۔

"یہ نئی سہولت ہے۔ سی ڈی روم کھولنا نہیں پڑے گا۔ ” اس نے ہماری نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا۔

"لیکن میں سی ڈی روم استعمال نہیں کرتا۔ ” ہم نے اپنے آپ کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا۔

"تو پھر اس کو بند کر دو۔ ” اس نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔

گھر جا کر چلایا تو نہ چلا۔ بہت کوشش کی۔ لیکن کوئی بات نہ بنی۔ ایسے ہی بیٹری باہر نکالی تو دیکھا کہ اندر ایک پٹی سے ابھری ہے۔ اس کو دبایا تو وہ کھٹک کی آواز کے ساتھ ہی نیچے ہو گئی۔ اب بیٹری لگا کر چلایا تو چل پڑا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد اتنا گرم ہو گیا کہ سکرین پر درجہ حرارت کا اطلاع نامہ کھل گیا۔ اور ساتھ ہی خود بخود بند بھی ہو گیا۔ یہ سہولت مجھے پسند آئی کہ گرم ہو جائے تو خودبخود بند ہو جائے۔ ابھی اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھنے جا رہا تھا کہ کوئی وزنی چیز پاؤں پر گرنے سے چیخ اٹھا۔ بیٹری زمین پر پڑی منہ چڑا رہی تھی۔ اس کا لاک خراب تھا۔ اٹھا کر چلو تو نیچے گر جاتی تھی۔ اب روز کا تماشا ہو گیا۔ بیٹری نکالو۔ پٹی دباؤ۔ پھر چلاؤ۔ سکرین کی ہر زاویے پر ریزولیشن (Resolution) مختلف تھی۔ کچھ جگہ بالکل سفید ہو جاتی تھی۔ اور کچھ جگہ پر کچھ رنگ کم اور کچھ زیادہ ہو جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس پر بھی ہاتھ سیدھا ہو گیا۔ اب سکرین کھولتے ہی خوب بخود اس زاویے پر ہاتھ رک جاتے تھے۔ جس پر بہترین نظر آتا تھا۔ گرمی کا حل ایک عدد پنکھا لگا کر دور کر لیا گیا۔ سی ڈی روم والا معاملہ میرے لئے کھیل سا بن گیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ عادت اتنی پختہ ہو گئی کہ اوسطاً میں ہر بیس سیکنڈ بعد خود ہی سی ڈی روم پر ہاتھ مار دیا کرتا تھا۔ چاہے کھلا ہو یا نہ۔ پہلے میں صرف اس کا فین پیڈ چھوڑ کر جانے لگا۔ پھر چارجر اور ماؤس بھی دفتر پڑا رہنے لگا۔ بیگ تو پہلے دن سے ہی میں ذاتی استعمال کر رہا تھا۔ دفتری بیگ وہی پڑا تھا۔ اور آخر آخر یہ صورتحال ہو گئی کہ لیپ ٹاپ بھی وہیں پڑا رہنے لگا۔ میں البتہ گھر آ جایا کرتا تھا۔ ایک دن ایک عمر اور عہدے میں بڑے ساتھی نے روک لیا ” یہ اٹاری تمہاری ہے ؟”

” اٹاری؟” ہم نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔

” ہاں یہ!” اس نے میرے شاندار لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے گستاخ جملوں سے اس بے جان چیز کو جو ٹھیس پہنچائی تھی مجھے سر تا پا سلگا گئی تھی۔ درجہ حرارت بلند ہونے پر ایک لمحہ مجھے خود پر بھی لیپ ٹاپ ہونے کا گمان گزرا۔

"یہ ایک لیپ ٹاپ ہے، اٹاری نہیں۔ ” ہم نے غصے سے کہا۔

"اوہ اچھا! معذرت۔ میں سمجھا لیپ ٹاپ ایسے ہوتے ہیں۔ ” اُس نے اپنے والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"نیا نو دن۔ پرانا سو دن۔ ” ہم نے استہزائیہ انداز میں کہا۔

"دن اور سال کا فرق سمجھتے ہو؟” اُس نے بھی زہریلی مسکراہٹ سے وار کیا۔

ہم بیٹھ گئے۔ بالکل اُس امید وار کی طرح جس کو اپنی ہار کا یقین ہو جائے تو جیتنے والے کے حق میں نتائج سے پہلے ہی بیٹھ جاتا ہے۔

"خیر آپ کو کیا مسئلہ ہے اس سے ؟” ہم نے اس کے سوال کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے کی کوشش کی۔

"یہ یہاں کیوں چھوڑ جاتے ہو؟” اس نے پوچھا۔

"مرضی ہماری!!” ہم نے ابرو اچکاتے ہوئے جواب دیا۔

"تم اس کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ یہ کمپنی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کو تمہیں ساتھ گھر لے جانا ہو گا اور اگلے دن لانا بھی ہو گا کہ یہی اصول برائے شودران ہے۔ ” اس نے ہمیں سمجھاتے ہوئے کہا۔

اس کی اس بات سے بے اختیار ہمیں آغا گل کے افسانے کی ایک سطر یاد آ گئی۔ "شاب جی! آپ بھی شودر ہیں کیا مسلمانوں کے ؟” اور ایک مسکراہٹ ہمارے چہرے پر پھیل گئی۔

"مسکرا کیوں رہے ہو۔ ” اُس نے حیرانی سے پوچھا۔

ہم ہنس دیے ہم چپ رہے، اب ہم اس کو کیا بتاتے، ہمارے دل پر کیا بیت گئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

غزلیات/ہزلیات

 

                ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی

 

گو حسنِ دلفریب و دل آراء غضب کا تھا

تھپڑ پڑا تو وہ بھی کرارا غضب کا تھا

 

تھی سر کی چوٹ زیادہ ہی کچھ دل کی چوٹ سے

دونوں طرف سے عشق نے مارا غضب کا تھا

 

انجام کو نہ پہنچیں تھیں پچیس منگنیاں

وہ جو کبیر سنِ تھا کنوارہ غضب کا تھا

 

جمہوریت کا کیا کرے کوئی جہاں عوام

دیتے ہوں اس پہ ووٹ کہ نعرہ غضب کا تھا

 

چڑیاں یہ سوچتی تھیں کہ انڈے یہیں پہ دیں

جُوڑا جو اس نے سر پہ سنوارا غضب کا تھا

 

رکنا پڑا ہر ایک کو الفت کے چوک میں

چشمِ فسوں کا اُس کی اشارہ غضب کا تھا

٭٭٭

 

 

لبھاتا ہے جو مجھے گدگدا کے دل میرا

وہی رُلاتا بھی ہے آزما کے دل میرا

 

جو کام کرتے تھے عاشق کیا وہ سرجن نے

کہ وقتِ نزع وہ بھاگا چرا کے دل میرا

 

تمام خواہشیں میری انڈیل لیں دل میں

لیا رقیب نے بدلا لگا کے دل میرا

 

کہا یہ مرغے نے تو بانگ دے گا ککڑوں کوں

ڈکار مار رہا ہے جو کھا کے دل میرا

 

کرے گا تو جو ’’پلوشن‘‘ تو خیر تیری نہیں

دھواں چھپائے گا کیسے جلا کے دل میرا

 

یہ دل لگی مجھے اچھی نہیں لگی کہ انہیں

لگایا دل سے تو بھاگے لگا کے دل میرا

 

یہ میل اچھا نہیں رند اور زاہد کا

’’ٹرانسپلانٹ‘‘ نہ کر پارسا کے دل میرا

 

جو دل دھڑکتا ہے تو یاد اس کی آتی ہے

کہاں پہ بھاگ گیا وہ پھنسا کے دل میرا

 

ادا پسند مجھے آئی رہزنِ جاں کی

کہ اس نے لوٹ لیا مسکرا کے دل میرا

 

میں اپنا قلب و جگر ڈھونڈتا ہوں اب مظہرؔ

کہاں گیا ہے یہ سرجن اڑا کے دل میرا

٭٭٭

 

 

 

                ڈاکٹر عزیزؔ فیصل

 

رات گئے کی کال

بھولی نہیں فی الحال

 

کوچے میں ’’پش اپس‘‘

اپنا آپ سنبھال

 

جان جگر کی نذر

اے ٹی ایم کا مال

 

راہ رقیب پہ چند

تو کنٹینر ڈال

 

اربوں کے مقروض

خود کو کہیں خوش حال

 

حال کے گردے فیل

’’جانِ استقبال‘‘

 

جگری پکے یار

میں اور میری دال

 

مصرع خون آلود

شعر کا بوتھا لال

 

ماتحتوں میں پھوٹ

باس کی سانس بحال

 

عین اپاہج لوگ

کھیلتے ہیں فٹ بال

 

مرلے بھر کی سانس

قبر ہے چار کنال

 

جیسے زنانہ روپ

مردوں کی اَشکال

 

لیکچر کے دوران

مس کو کریں ’’مس کال‘‘

 

لیلیٰ لکڑ چور

دشت میں قیس کی ٹال

 

کامل ’’سیدھا‘‘ پیر

الٹی مرید کی چال

 

پاپ ’’سماع‘‘ کے فین

شہر کے سب قوال

 

یہ ہے ضروری کام

اس کو کل پر ٹال

 

فیصلؔ شیور چھوڑ!

دیسی مرغی پال

٭٭٭

 

 

 

کیا کہا؟؟ کیا کہا؟؟ کیا کہا؟؟

پھر وہ ابا بنا؟؟ کیا کہا؟؟

 

قیمتاً دے رہا ہے وکیل؟

مفت کا مشورہ، کیا کہا؟

 

آستیں میں ترے چھپ گیا

اک عدد اژدہا؟ کیا کہا؟

 

پاس رکھتا ہے فوٹو سدا

مولوی ہیر کا؟؟؟ کیا کہا؟؟؟

 

مل بھی سکتی ہے مسکین کو

ٹارزن اہلیہ ؟ کیا کہا؟؟؟

 

نام دے آئی پولیس کو

کیوں، بشیراں، مرا؟ کیا کہا؟؟

٭٭٭

 

 

 

 

                عرفان قادرؔؔ

 

کس قدر مظلوم ہر شامت کا مارا اونٹ ہے

جو اس آفت سے بچا ہے، وہ کنوارا اونٹ ہے

 

گائے کہلاتا ہے ہر اک سیدھا سادا آدمی

جو ذرا قد میں بڑا ہے وہ بیچارا اونٹ ہے

 

اُڑ رہے ہیں شہر کے باسی جہازوں میں مگر

ریگزاروں کے مکینوں کا سہارا اونٹ ہے

 

بھائیوں میں جب ہوا جھگڑا تو ہر شے بٹ گئی

یہ ہمارا اونٹ ہے اور وہ تمھارا اونٹ ہے

 

خوبصورت یوں تو کھوتے کا بھی پُتّر ہے مگر

اونٹ کا بچّہ بہت ہی پیارا پیارا اونٹ ہے

 

جھانکتا ہے کون سا بے شرم اُس دیوار سے ؟

مُسکرا کر خود ڈھٹائی سے پکارا، "اونٹ ہے ”

 

جب گئی میکے تو کافی بوجھ ہلکا ہو گیا

اس طرح لگنے لگا، سر سے اُتارا اونٹ ہے

 

اونٹنی جیسی کسی "ڈی پی” پہ ہے وہ مر مٹا

فیس بک پر دل کو اپنے، آج ہارا اونٹ ہے

 

شیخ جی کی بیویاں ہیں چار، شرعاً ٹھیک ہی

ہاں مگر اُس شیخ کی آنکھوں کا تارا اونٹ ہے

 

آپ کو سننی پڑی جو بے دلی سے یہ غزل

اس کا ذمّہ دار بھی سارے کا سارا اونٹ ہے

٭٭٭

 

 

تختے بھی، تختیاں بھی، ہیں بنتے اِنہیں سے تخت

اشعار میں بھی ’’پیڑ‘‘، ’’شجر‘‘ ہیں، یہی درخت

 

کرتوت جیسے تیرے جوانی میں تھے میاں

ویسے ہے آج کر رہا تیرے جگر کا لخت

 

ایسا بھی عقدِ ثانی میں ہوتا ہے بالعموم

اطفال سات آٹھ ہے لاتی وہ نیک بخت

 

اُن کو پتا نہیں تھا کہ پی آئی اے ہے یہ

احباب باندھ لائے ہیں یونہی سفر کا رخت

 

ان باکس میں ہے نار نے بھیجا مجھے پیام

’’کینڈی کرش‘‘ کی گیم ہے فٹ بال سے بھی سخت

 

میٹھی ہے بانسری کی لے، رانجھے میاں مگر

بھینسوں کے ساتھ رہ کے ہے لہجہ ترا کرخت

 

مس کال کا جواب دیا کر ضرور ہی

ہم کیا کریں، اگر ترے ابا ہیں سخت شخت

 

عرفانؔ! تو نے ویسے غزل عام سی کہی

دنیائے شاعری میں مگر پَے گیا ہے وخت

٭٭٭

 

 

 

 

                ہاشم علی خان ہمدمؔ

 

نگر نگر کے پرندوں کا آشیانہ ہے

یہ فیس بک کا زمانہ عجب زمانہ ہے

 

دبی دبی ہے یہاں پر میاں کی آزادی

یہ ازدواجی تعلق بھی آمرانہ ہے

 

دیا ہے شیخ نے سکہ یہ کہہ کے بچے کو

یہ تیری اشک فشانی کا آبیانہ ہے

 

گلی میں شیر ہے گھر میں غریب شوہر ہے

وہ جس کا بیوی کے ہاتھوں میں آب و دانہ ہے

 

جنونیوں کے مریدو ! ہمارے ساتھ چلو

سنا ہے دشت میں مجنوں کا آستانہ ہے

 

تمام ریٹ ترے ہیں وطن کے پٹواری

ترے ہی ہاتھ میں منڈی کا بار دانہ ہے

 

کہاں سے آئی ہے دولت میاں بتاؤ تو

یہ مال و زر ہے کہاں کا جو غائبانہ ہے

 

بتا رہا ہے زمانے کو راز محنت کا

تمام زر تری محنت کا شاخسانہ ہے

 

اسے خریدتے دیکھا ہے دودھ کا ڈبہ

ضرور یہ کسی چوتھی کا شاخسانہ ہے

 

اٹھائے پھرتے ہیں گردن میں آدمی سریہ

تمام شہر ہی لوہے کا کارخانہ ہے

 

میں نازنینوں کے دھرنے سے ہو کے آیا ہوں

سو آج میری طبیعت بھی وحشیانہ ہے

 

تمام شہر کے چوزوں کا باپ ہے لیکن

ہمارے مرغے کا انداز عاجزانہ ہے

 

ہمارے بیچ محبت ہے نارمل ہمدمؔ

ہمارے بیچ ذرا عشق درمیانہ ہے

٭٭٭

 

 

 

سیلفیاں کھینچ کے یوں سب کو دکھانا تیرا

مار ڈالے نہ تجھے شوق یگانہ تیرا

 

تو نے لوٹی ہوئی دولت کو چھپا رکھا ہے

ہے کوئی ڈھونڈ کے لائے جو خزانہ تیرا

 

میں نے پھر ووٹ گنوانے کی سزا پائی ہے

بھول سکتا ہے کہاں مجھ کو زمانہ تیرا

 

تیرا یہ مال زمانے سے کہاں چھپتا ہے

میڈیا سب کو دکھاتا ہے فسانہ تیرا

 

پاک دھرتی ! ترے نوٹوں پہ مری جاتی ہے

قوم گاتی ہے مگر پھر بھی ترانہ تیرا

 

تجھ کو تحفے میں جو دیتا ہے کروڑوں ڈالر

پسر اصغر ہے میاں کتنا سیانا تیرا

 

رانگ نمبر تھا یا مس کال کسی نے دی ہے

کتنا اچھا ہے مری جان بہانہ تیرا

 

میرے ممنون تجھے کیسے ہنسائے کوئی

باچھیں کھلتی ہیں نہ کھلتا ہے دہانہ تیرا

 

مجھ کو برگر نہ سموسے کی طلب ہے لیکن

آج کھانا ہے ترے ساتھ یہ کھانا تیرا

 

میں تو جلسے میں یہی سننے چلا آتا ہوں

تیری تقریر سے اچھا ہے یہ گانا تیرا

 

ڈھونڈ لیتا ہوں ترے خاص کمنٹ سے تجھ کو

ہر حسینہ کا سٹیٹس ہے ٹھکانہ تیرا

 

کون کہتا ہے سیاست میں تو مر جائے گا

دیکھ مدت سے یہاں زندہ ہے نانا تیرا

 

تو نے رستے میں ہی دھرنے کو سبو تاڑ کیا

’’ ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا‘‘

 

خوش مزاجی کا زمانہ نہیں بدلا ہمدمؔ

ہر زمانے کو میسر ہے زمانہ تیرا

٭٭٭

 

 

 

 

                نویدؔ صدیقی

 

پانامہ کا جال بچھایا جا سکتا ہے

پی ایم کو یوں گھر بھجوایا جا سکتا ہے

 

کاروبار میں چل سکتا ہے سب کالا دھن

ملک سے باہر بھی سرمایا جا سکتا ہے

 

گرلز کے کالج میں عاشق کا داخلہ مشکل

داڑھی مونچھ کا کر کے صفایا، جا سکتا ہے

 

ایک ہی بیوی سے بھی ہو سکتا ہے گزارا

مجبوری کو دھکا "لایا” جا سکتا ہے

 

رشوت خور کو "با عزت ریٹائر” کر کے

اس کا رتبہ اور بڑھایا جا سکتا ہے

 

شادی ہال میں اپنوں سے پردہ ہے لیکن

مووی میکر ہو کے پرایا جا سکتا ہے

 

ایک بڑے ہوٹل کے شیف سے ہم نے پوچھا

آلو کو آلو میں پکایا جا سکتا ہے ؟

 

بھیڑ میں یہ موقع مت ہاتھ سے جانے دینا

گنجے سر پر ہاتھ جمایا جا سکتا ہے

 

پاکستان کا جو حاکم ہے اسے خبر ہے

کیسے کتنا مال بنایا جا سکتا ہے

 

ٹی وی اینکر کو معلوم ہے اس کا طریقہ

پیالی میں طوفان اٹھایا جا سکتا ہے

 

خود پر گزری تو یہ بات کھلی ہے ہم پر

چھوڑ کے مشکل میں ماں جایا، جا سکتا ہے

 

کبھی کبھی لفڑا کر کے اپنی بیگم سے

بن پیسے کے سر منڈھوایا جا سکتا ہے

 

ساٹھ پہ ہی موقوف نہیں کچھ کارِ حماقت

عمر کوئی بھی ہو، سٹھیایا جا سکتا ہے

 

بھینسوں نے بتلایا دیواروں سے رگڑ کر

اپنی پشت کو یوں کھجلایا جا سکتا ہے

٭٭٭

 

 

ایف بی پہ اس کی پکس کو چسپاں کیے ہوئے

’’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے ‘‘

 

وہ کھل کھلا کے کرتے ہیں بے وزن شاعری

اہلِ سخن میں خود کو سخن داں کیے ہوئے

 

چینل ہی دیکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں کوئی نیوز

جیتے ہیں لوگ زیست کو آساں کیے ہوئے

 

رشوت کے ساتھ ساتھ وہ کھاتے ہیں سود بھی

سنت کو اپنے چہرے کا عنواں کیے ہوئے

 

کھمبے پہ کنڈا ڈال کے صارف ہے مطمئن

دن کو بھی ہے گلی میں چراغاں کیے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

                عابد محمود عابدؔ

 

ہر زباں پر ہے نام سیلفی کا

نوجواں ہے غلام سیلفی کا

 

خوب صورت بگاڑ دیتی ہے

دیکھیے انتقام سیلفی کا

 

آپ کے ساتھ بنوا لوں لیکن

آپ لیتے ہیں دام سیلفی کا

 

بیٹھ کر میرے ساتھ اے جاناں !

پیجیے ایک جام سیلفی کا

 

پورا منہ کھول کر بناؤ تم

چرچا ہو گا مدام سیلفی کا

 

آپ کے فیل ہونے کے پیچھے

ہاتھ ہو گا تمام سیلفی کا

 

چاند چہروں کے ساتھ باغوں میں

کیجیے انتظام سیلفی کا

 

آپ لاکھوں بناتے رہتے ہیں

وقت سارا حرام سیلفی کا

 

ہر نکمّے کو آتا ہے عابدؔ!

بس یہی ایک کام سیلفی کا

٭٭٭

 

 

بصیرت میں حماقت کی شراکت ہو ہی جاتی ہے

جوانی میں میاں دل کی تجارت ہو ہی جاتی ہے

 

کسی کمرہ جماعت میں کسی شادی کی دعوت میں

چہل قدمی کی عادت میں محبت ہو ہی جاتی ہے

 

جسے ماں بھی دُلاری ہو، جسے بیوی بھی پیاری ہو

سیاسندان ہے اُس سے سیاست ہو ہی جاتی ہے

 

قیادت میں اگر بے پیندے کے لوٹے نہ ہوں پیارے

تو پورے پانچ سالوں تک حکومت ہو ہی جاتی ہے

 

کنوارے بھائیوں میں بعد از شادی مہینوں میں

یہی دیکھا سُنا ہم نے، عداوت ہو ہی جاتی ہے

 

جو سرکاری ملازم بن گئے آہستہ آہستہ

اُنہیں پھر کام چوری کی بھی عادت ہو ہی جاتی ہے

 

سپیکر بند ہوں، نعرے نہ ہوں، مووی نہ ہو یارو!

کہاں ایسے میں مُلّا سے خطابت ہو ہی جاتی ہے

 

وکالت سے، عدالت سے، کچہری کی ذلالت سے

جو ابا جان چاہیں تو ضمانت ہو ہی جاتی ہے

 

ضروری ہے گلابوں کا کوئی گلدستہ ہاتھوں میں

گُلِ گوبھی سے بھی عابدؔ عیادت ہو ہی جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

                تنویر پھولؔ

 

ہنستے رہنا اپنی عادت ہو گئی

غم کی دیوی جل کے غارت ہو گئی

 

بے تحاشا چِپس ہم کھانے لگے

اِس لئے آلو کی قلّت ہو گئی

 

اُس کا ابا نائی تھا اے دوستو !

مفت میں اپنی حجامت ہو گئی

 

یار اپنے ہیں سدا تتلا رہے

ہنس پڑے، کہنے لگے ’’حت‘‘ ہو گئی

 

کانا پھوسی کی رقیبوں نے تو پھر

ہم نے دیکھا، رائی پربت ہو گئی

 

سج گیا اب ہے وڈیرے کا حرم

اِس میں داخل ’’بی سیاست‘‘ ہو گئی

 

فیل ہوتا ہے ریاضی میں ریاض

کہتا ہے، کافی ریاضت ہو گئی

 

دیکھ لیلیٰ ! تو ہے محمل میں مگر

کیا میاں مجنوں کی حالت ہو گئی !

 

پھولؔ جی! کانٹوں سے مت گھبرائیے

دیکھئے اِن سے حفاظت ہو گئی

٭٭٭

 

 

فوراً کراچی چھوڑ کے سکھر چلا گیا

آیا تھا یار ملنے، وہ لڑ کر چلا گیا

 

گزری ہے ساری رات کھجاتے بدن ہمیں

ہم کو چبھو کے سوئی وہ مچھر چلا گیا

 

کہتا ہے تانگے والا، یہ سردی کی رات ہے

ملتی نہیں سواری ہے ’’سب گھر چلا گیا‘‘

 

بھاگا تھا چڑیا گھر سے، بڑے کرب میں وہ تھا

آیا مداری پاس تو بندر چلا گیا

 

پیٹو کا پیٹ بھر نہ سکا شادی ہال میں

کھانا ہُوا جب اُس کا واں دوبھر، چلا گیا

 

بیٹھے تھے انتظار میں، تعویذ ہم کو دے

لیکن وہ پیر دل پہ ہی خنجر چلا گیا

 

عاشق کو دن میں آئے نظر تارے بے شمار

جوتے لگا کے سر پہ وہ دلبر چلا گیا

 

ڈرپوک تھا بہت وہ، اُسے چھیڑتے تھے سب

بیوی ملی چڑیل تو ہر ڈر چلا گیا

 

دیکھی جھلک تھی پھولؔ نے اُس روسیاہ کی

بھونرا اُڑا جو باغ سے، فرفر چلا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

                گوہر رحمان گہرؔ مردانوی

 

بس تگ و دو میں یونہی عمر کٹا لی اف اف

کچھ بنایا بھی نہیں جیب بھی خالی اف اف

 

جبکہ انجام کا سوچا نہیں اب بھگتوں گا

زندگی بن گئی بسکہ مری گالی اف اف

 

پہلے شوہر بنا پھر باپ ہوا اب نانا

ریش میں آئی سفیدی ہے وبالی اف اف

 

بن گیا بیل جو کولہوں کا بتا کس کے لیے

بوجھ بر زندگی کھب خوب نکالی اف اف

 

ساٹھ سالہ پہ سبکدوش ہوا تو قلاش

آس تدریس کی پینشن سے لگا لی اف اف

 

اِتنا معلوم نہیں اب ہوں کسی کھاتے میں

یہ تو معلوم ہو بینگن ہوں کہ تھالی اف اف

 

در بدر ٹھوکریں کھائی تھیں بہ خاطر اولاد

اُن کا کھاتا ہوں تو اب جیسے سوالی اف اف

 

اب تلک کوئی بھی خوش ہو نہ سکا ہے گوہرؔ

بیٹا بیٹی ہو کہ بیوی ہے کہ (سالی) اف اف

٭٭٭

 

 

 

 

                نورؔ  جمشیدپوری

 

رہ رہ کے یوں چلاؤ نہ نظروں کے تیر کو

دل ہو چکا ہے زخمی کرو نہ شریر کو

 

کرنی تھی کامیاب جو ریلی وزیر کی

چمچوں نے لو جٹا لیا جم غفیر کو

 

دیتے نہیں جو روٹی کا ٹکڑا غریب کو

لے کر وہ قرض دیتے ہیں دعوت امیر کو

 

چڑھتا ہے جب کسی پہ نشہ اقتدار کا

ہنس کر وہ بیچ دیتا ہے اپنے ضمیر کو

 

اسمارٹ، سوٹ بوٹ میں ملٹی پلکس میں

حیرت زدہ تھی دیکھ کے کل کے فقیر کو

 

افسردہ دل یہ نورؔ کا ہوتا ہے، جب کبھی

ہنستا ہے کوئی دیکھ سخن کے اسیر کو

٭٭٭

تشکر: مدیر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید