

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
- اردو محفل کے شعرا کے کلام کی پیروڈیز
- محمد خلیل الرحمٰن
- اردو محفل کی یاد میں
- جناب فاتح الدین بشیرؔ
- جناب راحیل فاروق
- جناب نوید ظفر کیانی
- جناب محمد احمد
- جناب شاہین فصیح ربانی
- جناب منصور آفاق
- جناب شاکر القادری
- محترمہ سیدہ سارا غزل ہاشمی
- جناب ابن سعید
- جناب شاہد شاہنواز
- جناب عاطف بٹ
- جناب اسد قریشی
- جناب محمد حفیظ الرحمٰن
- کاشف عمران کامل
- جناب مزمل شیخ بسملؔ
- جناب ظہیر احمد ظہیر
- جناب ظہیر احمد ظہیرؔ
- جناب اعجاز عبید
- جناب ظہیر احمد ظہیرؔ
- جناب منیب احمد
- جناب محمد ریحان قریشی
- جناب عظیم شہزاد
- جناب یاسر شاہ راشدی
- جناب عاطف ملک
- جناب محمد احمد
اردو محفل کے شعرا کے کلام کی پیروڈیز
محمد خلیل الرحمٰن
اردو محفل کی یاد میں
اردو محفل،https://urduweb.org/Mehfil) ) جو ۳۰ جون ۲۰۰۵ء کو منصۂ شہود پر آئی، ایک عہد ساز ویب سائٹ ثابت ہوئی۔ اردو کمپیوٹنگ کے پروجیکٹس (جن کے نتائج کے طور پر اب آپ کو اپنے موبائل فونوں پر اردو نظر آ رہی ہے، اور اردو کی لا تعداد ویب سائٹس وجود میں آ چکی ہیں اور آتی رہتی ہیں) کے علاوہ اردو ادب اور بطور خاص اردو شاعری کے عاشقوں کے لئے بھی مشعلِ راہ ثابت ہوئی۔ اردو کے کسی بھی ادبی موضوع کے بارے میں گوگل تلاش کرنے پر نتائج کے پہلے ہی صفحے پر ریختہ ڈاٹ آرگ کے علاوہ اردو محفل کے روابط کی نمائش اس کا ثبوت ہے۔
اردو محفل کے اراکین میں بھی کئی ادیب اور شاعر تھے، خود جناب خلیل الرحمٰن، ایک اچھے ادیب اور شاعر، اس کے رکن رہے، یا شاید اس کے رکن ہونے کے باعث وہ ادیب اور شاعر کے طور پر سامنے آ سکے۔ محفل میں جب اس کے اراکین اپنی تخلیقات پیش کرتے تو خلیل صاحب کی ’’رگِ پیروڈی‘‘ بھی کبھی کبھی پھڑک اٹھتی، اور اس کے نتیجے کے طور یہ کتاب تیار ہو گئی ہے جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
اعجاز عبید
جناب فاتح الدین بشیرؔ
سے معذرت کے ساتھ
میں کہ بلبل ہوں شِکاری کے گلے میں قید ہوں
اِک نوالہ ہوں میں اس کے قہقہے میں قید ہوں
ترچھی نظروں کے جو تو نے تیر مارے تھے کبھی
میں اسی ترچھی نظر کے زاویے میں قید ہوں
ایک پھّرا ہوں میں نقلِ امتحاں کے واسطے
بے معانی ہوں ابھی تک حاشیے میں قید ہوں
میں ہوں بس آدھا نوالہ، تو نے جوں چھوڑا مجھے
بس اسی دن سے میں اس نعمت کدے میں قید ہوں
تو نے اک دن مسکرا کر مجھ کو دیکھا تھا کبھی
بس اسی دن سے میں دل کے عارضے میں قید ہوں
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ فاتح الدین بشیر
حاصلِ کُن ہوں بقا کے سلسلے میں قید ہوں
میں کہ یزداں کے لگائے قہقہے میں قید ہوں
چاکِ ہَست و بُود کے کب دائرے میں قید ہوں
میں ازَل سے اک نظر کے زاویے میں قید ہوں
نفسِ مضموں کھُل نہ پایا کیوں کسی پر ذات کا
"بے معانی ہوں ابھی تک حاشیے میں قید ہوں”
اختیار و جبر گویا ہیں بلمپَت لَے میں راگ
سازِ استبداد کے ہر زمزمے میں قید ہوں
ہجر کی گھڑیاں ہوئی ہیں سب زمانوں پر محیط
وقت رک جائے جہاں اس ثانیے میں قید ہوں
میں خداؤں کا ہوں مسکن اور خدائی کا ثبوت
گو مثالِ اہرمَن ہوں، بت کدے میں قید ہوں
کَل نِبھا لوں گا تعلق روح کا میں، آج تو
عارضی سے عارضوں کے عارضے میں قید ہوں
جسمِ خاکی حدّتِ جذبات سے جلنے لگا
آگ ہے میری سرشت اور کوئلے میں قید ہوں
٭٭٭
جناب راحیل فاروق
سے معذرت کے ساتھ
یوں تو کچھ بھی نہ کھاؤ گے صاحب
چھپ کے تم کچھ تو کھاؤ گے صاحب
دال سبزی نہیں چکن ہے یہ
اب تو ہنس ہنس کے کھاؤ گے صاحب
کل سے رمضان ہیں، خیال رہے
روزہ کیسے بِتاؤ گے صاحب
یوں تو خود گوشت خور ہو تم بھی
سبزی کِس منہ سے کھاؤ گے صاحب
میری حالت ہے دیکھنے والی
اب بھی کچھ نہ کِھلاؤ گے صاحب
گھر پہ مہماں ہے تنگ ہوتا ہے
دال کے دِن چلاؤ گے صاحب
خود سے بھی بڑھ کے جانتے ہیں تمہیں
تم ہمیں کیا کھِلاؤ گے صاحب
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ راحیل فاروق
تم مجھے بھول جاؤ گے صاحب؟
تم مجھے بھول پاؤ گے صاحب؟
میں شریف آدمی، مجھے چھوڑو
خود کو کیا منہ دکھاؤ گے صاحب؟
تم نہیں مانتے، مناتا ہوں
میں نہ مانوں، مناؤ گے صاحب؟
تم تو خود شعلۂ فروزاں ہو
آگ کیسے بجھاؤ گے صاحب؟
دل تو زندہ نہ ہو سکے گا اب
کتنے محشر اٹھاؤ گے صاحب؟
میری حالت ہے دیکھنے والی
دیکھنے بھی نہ آؤ گے صاحب؟
خود سے بھی بڑھ کے جانتا ہوں تمھیں
مجھے کیا کیا بتاؤ گے صاحب؟
کتنی پیاری ہیں یہ گہر آنکھیں
انھیں کب تک چراؤ گے صاحب؟
مان جاؤ کہ عشق ہے راحیلؔ
کتنی باتیں بناؤ گے صاحب؟
٭٭٭
جناب نوید ظفر کیانی
سے معذرت کے ساتھ
ٍ
لڑکیوں کو تاڑتا رہتا ہوں میں
ہاتھ اُن کا مانگتا رہتا ہوں میں
خواب میں بھی اُن کے ابّا جی کا ڈر
’’رات بھر کیوں جاگتا رہتا ہوں میں‘‘
قرض لینا اور نہ دینا میرا فن
سب سے رقمیں مانگتا رہتا ہوں میں
کیسی اُلٹی سیدھی باتیں سوچ کر
’’اپنے اندر گونجتا رہتا ہوں میں‘‘
چاہیئے ہر وقت بریانی، پلاؤ
بوٹیاں بھنبھوڑتا رہتا ہوں میں
لڑکیاں جب بھی مجھے دھتّا بتائیں
ہاتھ اُن کا تھامتا رہتا ہوں میں
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ نوید ظفر کیانی
رنگِ دنیا دیکھتا رہتا ہوں میں
خود کو خود سے مانگتا رہتا ہوں میں
رات بھر کیوں جاگتا رہتا ہوں میں
چاند سے کیا پوچھتا رہتا ہوں میں
کیسا نابینا سمے ہے زیست کا
سب سے آنکھیں مانگتا رہتا ہوں میں
تشنگی بجھتی نہیں اظہار کی
اپنے اندر گونجتا رہتا ہوں میں
زعم ہے پتھرائے جانے کا مجھے
اور دل کو تھامتا رہتا ہوں میں
خشک پتے ہیں یا امّیدیں ظفر
ٹہنیوں سے توڑتا رہتا ہوں میں
٭٭٭
جناب محمد احمد
سے معذرت کے ساتھ
کچن میں گھس کے میں سارے ہی برتن توڑ آیا ہوں
مگر گندی پلیٹیں سب کی سب میں چھوڑ آیا ہوں
تمہارے اس کچن میں اس طرح کے کام سے پہلے
میں کچھ برتن، کئی قابیں کہیں پر توڑ آیا ہوں
کہیں پر کانچ کے برتن تھے اور کچھ سنگِ خارا کے
جہاں تک توڑ سکتا تھا وہیں تک توڑ آیا ہوں
پلٹ کر آگیا لیکن، ہوا یوں ہے کہ سب ٹکڑے
جہاں پر مجھ سے ٹوٹے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں
مجھے آنے کی جلدی تھی سو کچھ لیکر نہیں آیا
جہاں پر چھوڑ سکتا تھا، وہاں پر چھوڑ آیا ہوں
کہاں تک میں لیے پھرتا یہ سب ٹوٹے ہوئے برتن
جہاں موقع ملا یہ ڈھیر سارا چھوڑ آیا ہوں
کہاں تک چپ رہا جائے، بتانا ہی تمہیں تھا جب
’’سو احمد دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں‘‘
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ محمد احمد
تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں
تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں
محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں
پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں
اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں
کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا
سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں
کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں
٭٭٭
جناب شاہین فصیح ربانی
سے معذرت کے ساتھ
ایک ناکام شاعر
نظم میں ہو کوئی ترتیب ضروری تو نہیں
اور غزل میں کوئی ترکیب ضروری تو نہیں
ہجو گوئی ہے مرا کام تو بندہ پرور
’’میں کروں آپ کی تکذیب ضروری تو نہیں‘‘
جس میں شاعر لیے بیٹھے ہوں بیاضیں اپنی
ختم ہو جائے وہ تقریب ضروری تو نہیں
مجھ کو بچنا ہے جو شاعر کی نئی نظموں سے
’’کارگر ہو مری ترکیب ضروری تو نہیں‘‘
سن کے نظمیں، مری غزلیں، مرے سادے اشعار
لوگ ہوں مائلِ تخریب ضروری تو نہیں
کیا یہ اشعار لکھے ہیں کسی بھڑبھونجے نے
تھی یہ صرف آپ کی ترغیب ضروری تو نہیں
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ شاہین فصیح ربانی
زیست میں ہو کوئی ترتیب ضروری تو نہیں
لوگ ہوں تابعِ تہذیب ضروری تو نہیں
مہربانوں نے بلایا ہے محبت سے مگر
راس آ جائے وہ تقریب ضروری تو نہیں
آپ جھٹلائیں مجھے، آپ کا ہے ظرف مگر
میں کروں آپ کی تکذیب، ضروری تو نہیں
دوست بھی تو مری تعمیر سے خائف ہوں گے
ہوں عدو ہی پسِ تخریب، ضروری تو نہیں
مجھ کو بچنا ہے جدائی کے کٹھن لمحوں سے
گار گر ہو مری ترکیب ضروری تو نہیں
آپ ہو جائیں محبت میں وفا پر مائل
رنگ لائے مری ترغیب ضروری تو نہیں
بہتری لائیے کچھ اپنے رویے میں فصیح
بات بے بات ہو تادیب، ضروری تو نہیں
٭٭٭
جناب منصور آفاق
سے معذرت کے ساتھ
’’راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص‘‘
کھڑکی کے راستے ہی سے آتا تھا کون شخص
راتوں کو روز دیر سے آتا تھا کون شخص
بیگم کی روز ڈانٹ وہ کھاتا تھا کون شخص
روتا تھا زور زرو سے، گاتا تھا کون شخص
یوں ہم کو روز رات جگاتا تھا کون شخص
گو دِن میں اس کے آنے پہ پابندیاں لگیں
راتوں کو دیرسے چلا آتا تھا کون شخص
صاحب نے جِس کا نام تھا لسٹوں میں لکھ دیا
چپراسیوں کے ناز اُٹھاتا تھا کون شخص
یہ راز گو عوام پہ افشاء نہ ہو سکا
میمو یوں دور ہی سے لکھاتا تھا کون شخص
گیلانی اب بھی خواب میں ڈرتے ہیں رات کو
یوں جاگتے میں اُن کو ڈراتا تھا کون شخص
زرداری آج کل تو چلاتے ہیں ملک کو
جب یہ نہ تھے تو ملک چلاتا تھا کون شخص
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ منصور آفاق
راتوں میں کھڑکیوں کو بجاتا تھا کون شخص
اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص
قوسِ قزح پہ کیسے مرے پائوں چلتے تھے
دھیمے سروں میں رنگ بہاتا تھا کون شخص
مٹی ہوں جانتا ہوں کہاں کوزہ گر کا نام
یہ یاد کب ہے چاک گھماتا تھا کون شخص
بادل برستے رہتے تھے جو دل کے آس پاس
پچھم سے کھینچ کر انہیں لاتا تھا کون شخص
ہوتا تھا دشت میں کوئی اپنا جنوں نواز
شب بھر متاعِ درد لٹاتا تھا کون شخص
کوئی دعا تھی، یا کوئی نیکی نصیب کی
گرتا تھا میں کہیں تو اٹھاتا تھا کون شخص
اس کہنہ کائنات کے کونے میں بیٹھ کر
کارِ ازل کے کشف کماتا تھا کون شخص
بہکے ہوئے بدن پہ بہکتی تھی بھاپ سی
وہ جسم پر شراب گراتا تھا کون شخص
ہونٹوں کی سرخیوں سے مرے دل کے چاروں اور
داغ ِ شبِ فراق مٹاتا تھا کون شخص
پائوں سے دھوپ گرتی تھی جس کے وہ کون تھا
کرنوں کو ایڑیوں سے اڑاتا تھا کون شخص
وہ کون تھا جو دیتا تھا اپنے بدن کی آگ
بے رحم سردیوں سے بچاتا تھا کون شخص
ماتھے پہ رکھ کے سرخ لبوں کی قیامتیں
سورج کو صبح صبح جگاتا تھا کون شخص
منصور بار بار ہوا کون کرچیاں
مجھ کو وہ آئینہ سا دکھاتا تھا کون شخص
٭٭٭
جناب شاکر القادری
سے معذرت کے ساتھ
میرے محبوب پر نگاہ کریں
دوست میرے بھی واہ واہ کریں
وہ نہ زرداری ہم نہراجا ہیں
کس لیے ان سے ہم بیاہ کریں
اپنی دلہن کے واسطے سے ہم
آرزوئے جہیز و جاہ کریں
بنگلہ و کار اور جہیز کی چاہ
بھینگی بیوی سے سے بھی نباہ کریں
اب کسے اعتماد بیوی پر
سالیوں سے بھی رسم و راہ کریں
حسن والوں کی ہو گئی بہتات
آؤ ہم بھی کسی کی چاہ کریں
حسن کی بے حجابیاں اکثر
میرا فیوچر یونہی تباہ کریں
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ شاکر القادری
زخم دل پر اگر نگاہ کریں
میرے عیسیٰ بھی آہ آہ کریں
اب کسے اعتماد منصف پر
آؤ قاتل سے رسم و راہ کریں
اپنی نظروں میں گر کے ہم کیسے
آرزوئے حصولِ جاہ کریں
ہم نہ زر دار ہیں نہ حاکم ہیں
کس لیئے ہم سے وہ نباہ کریں
رحمت کردگار جوش میں ہے
آؤ ہم بھی کوئی گناہ کریں
حسن کی بے حجابیاں شاکرؔ
دل کو آمادۂ گناہ کریں
٭٭٭
محترمہ سیدہ سارا غزل ہاشمی
سے معذرت کے ساتھ
ساس کی آس
ہاں مہینوں مع اِک فوجِ ظفر ٹھہرے گی
میرے ہی گھر میں مری ساس اگر ٹھہرے گی
ساسو امّاں کی سواری جو نکل آئی ابھی
کہیں ٹھہرے گی تو بس میرے ہی گھر ٹھہرے گی
سُسرے آتے ہیں تو دو دن میں چلے جاتے ہیں
ساس لیکن مری بے خوف و خطر ٹھہرے گی
ہم میاں جی کو اگر گھر پہ مقیّد کرلیں
یوں کسی ’’گل‘‘ پہ نہ اب اُن کی نظر ٹھہرے گی
لکھنے بیٹھے ہیں تو اچھّی ہے یہ اپنی ہی غزل
دوسری بحر میں یہ کارِ دِگر ٹھہرے گی
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ سیدہ سارا غزل ہاشمی
کبھی ساحل تو کبھی سیل ِ خطر ٹھہرے گی
بحر ِ ہستی میں اگر موج ِ سفر ٹھہرے گی
ورطۂ شب سے نکل آئی اگر کشتیِ صبح
ساحل ِ نور پہ ٹھہرے گی اگر ٹھہرے گی
سینۂ حسن میں پوشیدہ ہے جو آگ ابھی
تیشہ عشق سے گلرنگ سحر ٹھہرے گی
کشتیِ جاں کو سلامت نہ اگر لے کے گئی
بیکلی دل کے سمندر کا بھنور ٹھہرے گی
ہم سر ِ شام چراغوں میں تجھے دیکھیں گے
اب کسی گل پہ نہ تارے پہ نظر ٹھہرے گی
دل کی فریاد کو لازم ہے خموشی ہی غزل
ورنہ اس دہر میں یہ کار ِ ہنر ٹھہرے گی
٭٭٭
جناب ابن سعید
سے معذرت کے ساتھ
کاش یہ سال تو لکھ پڑھ کے گزارا ہوتا
امتحانوں میں ہمارے یہ سہارا ہوتا
کارتوس ایک میسر تو ہوا تھا لیکن
اس کو کاپی پہ ذرا ٹھیک اُتارا ہوتا
آج کِس منہ سے کچھ امید رکھیں گے ہم بھی
کبھی آموختہ ہی لب سے گزارا ہوتا
ممتحن آج یہ پرچے بڑے دشوار سہی
سہل ہو جاتے اگر تیرا سہارا ہوتا
گھر نتیجہ لیے پہنچے ہیں تو ابّا نکلے
کاش اُس روز کسی اور نے مارا ہوتا
٭٭٭
کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا
آج قدموں میں ہمارے بھی کنارہ ہوتا
کسی گمراہ مسافر کے ہی کام آ جاتا
ماہِ تاباں نہ سہی بھور کا تارا ہوتا
آج کس منھ سے میں امیدِ شفاعت رکھوں
اسمِ وحدت جو کبھی لب سے گزارا ہوتا
رہگزر زیست کی لمبی سہی دشوار سہی
سہل ہو جاتی اگر تیرا سہارا ہوتا
کپکپاتی ہوئی شمع نے بھی دم توڑ دیا
صبح نو خیز نے ٹک سر تو ابھارا ہوتا
٭٭٭
جناب شاہد شاہنواز
سے معذرت کے ساتھ
ایک قطعہ
ترے چہرے پہ گر غازہ نہ ہوگا
مرا جوشِ سخن تازہ نہ ہوگا
نہ پڑ جائے گی جب تک تیری جوتی
تری چاہت کا اندازہ نہ ہوگا
اصل قطعہ ۔۔۔ شاہد شاہنواز
سنے گا جب تلک نہ میرے نالے
مرا جوش جنوں تازہ نہ ہوگا
نہ ہو جائے گی جب تک میری بخشش
تری رحمت کا اندازہ نہ ہوگا
٭٭٭
جناب عاطف بٹ
سے معذرت کے ساتھ
جب اُس سے عشق کا اظہار یوں کیا بھی نہیں
نظر چرا کے وہ گزرا تو دُکھ ہوا بھی نہیں
میں اُس کے واسطے جیتا ہوں پر عجیب ہے وہ
وہ میرے واسطے اِک بار تو مرا بھی نہیں
عجب لِباس پہن کر وہ بزم میں آیا
جو کاسنی نہیں، اوُدا نہیں، ہرا بھی نہیں
سلام کیسے کریں، کیسے بات اُن سے کریں
اگرچہ اُن سے کوئی ایسا واسطہ بھی نہیں
وہ دِل پہ زخم نیا اِک لگا گئے ہیں خلیلؔ
اگرچہ زخم پرانا ابھی بھرا بھی نہیں
٭٭٭
غزل ۔۔۔ عاطف بٹ
گو اس کے ہجر میں پل بھر کبھی جیا بھی نہیں
بچھڑ کے اس سے مجھے دکھ ہوا ذرا بھی نہیں
اسی کی یاد کا پہرہ ہے ہر گھڑی دل پر
وہ شخص جس سے مرا کوئی واسطہ بھی نہیں
میں جانتا ہوں کہ اب ہجر ہی مقدر ہے
"مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں”
وہ زعمِ حسن میں اس طرح محو رہتا ہے
میں مر رہا ہوں یہاں اور اسے پتہ بھی نہیں
وہ میرے پاس سے گزرا ہے اب کے یوں جیسے
میں اجنبی ہوں کوئی، اور وہ جانتا بھی نہیں
حیات کاٹ لی چپ چاپ قیدِ فرقت میں
کسی کے ہونے نہ ہونے کا کچھ گِلہ بھی نہیں
میں اس کے واسطے یکسر بکھر گیا عاطف
جو اپنی جا سے کبھی اک قدم ہِلا بھی نہیں
٭٭٭
جناب اسد قریشی
سے معذرت کے ساتھ
ورا کے بعد کیا ہے، ماورا ہے
سبھی کھوٹا ہے یاں پر، یا کھرا ہے
کوئی اِس ماورا کا قفل کھولے
یہی کیا واقعی تحت الثریٰ ہے
میں کیسے ماورا کا راز جانوں
مرے چاروں طرف ایتھر بھرا ہے
تری واماندگی، درماندگی کا
سبب کچھ عقل سے اپنی وریٰٰ ہے
مجھے اشعار سے مطلب نہیں کچھ
بس اِک یہ قافیہ ہے جو بُرا ہے
دِلِ مردہ کو کہہ سکتا ہوں کیا میں
تمہارا ہے، بھلا ہے یا بُرا ہے
۔۔ق۔۔
وہی دِل کل جو تُم کو دے چکا تھا
اُسی کا بس تقاضا اب مِرا ہے
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ اسد قریشی
وراء کے آئینے میں ماوراء ہے
یہی سب سے بڑا یک دائرہ ہے
مزاجِ عاجزی نے قفل کھولے
عیاں مجھ پر ہراک تحت الثریٰ ہے
مری تیرہ شبوں کا راز جانو
بدن میں نور سا میرے بھرا ہے
بساطِ زندگی میں مکر جیسے
سبھی کھوٹوں میں اک سکّہ کھرا ہے
مرے زخموں میں تھا اک زخمِ ہجرت
وہی اک زخم ہے اب تک ہرا ہے
مری واماندگی تیرے سبب سے
اسد میرا ہے جو کچھ سب ترا ہے
٭٭٭
جناب محمد حفیظ الرحمٰن
سے معذرت کے ساتھ
مجھ کو دیکھا سنبھل کے لوٹ گئے
آپ رستہ بدل کے لوٹ گئے
جن کا سامان کچھ نہ تھا وہ بھی
ہم سے ساماں بدل کے لوٹ گئے
قرض لینے گئے تھے آپ کے گھر
آپ گھر سے نکل کے لوٹ گئے
جن سے ملنے کا وقت طے تھا آج
وہ تو سنتے ہیں کل کے لوٹ گئے
سردیوں میں وہ آیا کرتے تھے
گرمیوں میں پگھل کے لوٹ گئے
وہ جو عادی تھے اِس ڈگر کے خلیل
آج ہی وہ پھسل کے لوٹ گئے
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ محمد حفیظ الرحمٰن
دو قدم ساتھ چل کے لوٹ گئے
لوگ رستہ بدل کے لوٹ گئے
ہم سمجھتے تھے ساتھ ساتھ ہیں وہ
پھر سنا یہ کہ کل کے لوٹ گئے
وہ جو خوگر تھے گرم موسم کے
ٹھنڈی چھاؤں میں جل کے لوٹ گئے
آپ مشکل میں میرے پاس آئے
چار دن میں سنبھل کے لوٹ گئے
جانے کیوں اتنے پیش و پس میں تھے آپ
گھر سے باہر نکل کے لوٹ گئے
وہ جو آئے تھے اپنا عکس لئے
تیرے پرتو میں ڈھل کے لوٹ گئے
ڈھونڈنے آئے تھے تجھے ہم بھی
کفِ افسوس مل کے لوٹ گئے
لوگ آئے تھے آپ سے ملنے
مجھ کو دیکھا تو جل کے لوٹ گئے
٭٭٭
کاشف عمران کامل
سے معذرت کے ساتھ
بیگم نے ڈائری میں پڑھی جوں ہی یہ غزل
مجھ کو تو بے نیاز کیا عرضِ حال سے
بیوی کو گھر پہ چھوڑ کے آئے تھے اُس گلی
’’بننی تھی بات کیا بُتِ صاحب جمال سے‘‘
پھینٹی پڑی ہے اِتنی کہ اب شاعری محال
’’ڈرتا ہوں سوزِ آہِ دلِ پُر ملال سے‘‘
بیگم تمہاری شان میں کیا شعر لکھ سکوں
ڈرتا ہوں، بے مہار تمہارے جلال سے
چولہا نہ جل سکے مری غزلوں سے جب خلیلؔ
کیسے چلے گا کام بھلا کل کی دال سے
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ کاشف عمران کامل
بننی تھی بات کیا بتِ صاحب جمال سے
آغازِ گفتگو تھا وفا کے سوال سے
تقدیر نے اسیرِ غمِ عاشقی رکھا
تھا ورنہ بے نیاز تمھارے جمال سے
عشرت کدے کو تیرے کہیں راکھ کر نہ دے
ڈرتا ہوں سوزِ آہِ دلِ پُر ملال سے
تابِ بیاں تو ہے مگر اک خوف ہے کہ وہ
ناراض ہو نہ جائے کہیں عرضِ حال سے
کاملؔ بہ فیضِ حسنِ دل آرامِ روئے یار
کیا کیا نہ گل کھلے مری خاکِ خیال سے
٭٭٭
جناب مزمل شیخ بسملؔ
سے معذرت کے ساتھ
مری پڑوسن کھڑی ہوئی ہے، مجھے محبت سے تک رہی ہے
کہ میرے چہرے کی ساری نخوت مری جبیں سے جھلک رہی ہے
یہ دیکھ کر میری بیوی کوندی، اب اس کی حدت کڑک رہی ہے
زمانہ حیرت سے تک رہا ہے، یہ کون سی شے چمک رہی ہے
مری محبت نگاہِ بیوی میں آج بھی یوں کھٹک رہی ہے
مری پڑوسن، تری ہی قسمت ہے آج در در بھٹک رہی ہے
ہمارے زخموں کا چارہ گر ہے کوئی تو ہم کو بتاؤ یارو!
ابھی تو بیوی کی ہاؤ و ہو بھی خواصِ مشک و نمک رہی ہے
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ مزمل شیخ بسمل
’’قدم میں لغزش، نظر فریبی، خیال ناقص، ہے دِل بدی میں‘‘
ہمارے کرتوت ہیں کچھ ایسے، نہ پاس کوئی پھٹک رہی ہے
یہ آسماں گر کچھ اور ہوتا یا اپنی بیوی نہ ایسی ہوتی
الٰہی بسمل کہاں پھنسے ہیں کہ جان بھی اب سسک رہی ہے
نگاہِ مسلم جو زورِ باطل کو آج حیرت سے تک رہی ہے
یہ ساری طاقت غلام بن کر کہ عرصۂ طول تک رہی ہے
عمل سے برقِ یقین کوندی، اب اسکی مدت کڑک رہی ہے
زمانہ حیرت سے تک رہا تھا، یہ کونسی شے چمک رہی ہے
وہی چمک تو نگاہِ باطل میں آج تک بھی کھٹک رہی ہے
وصالِ مومن کی جستجو میں جو آج در در بھٹک رہی ہے
ہمارے زخموں کی چارہ گر جز کتابِ یزداں کوئی نہیں ہے
ہر ایک آیت بوقتِ چارہ خواصِ مشک و نمک رہی ہے
کچھ ایسے حق سے ہوئے ہیں عاری، گراں گزرتی ہے راز داری
امانتِ حق ہے ہم پہ بھاری، دلوں سے ظلمت جھلک رہی ہے
قدم میں لغزش، نظر فریبی، خیال ناقص، ہے دل بدی میں
مرے گناہوں سے معصیت بھی اب اپنا دامن جھٹک رہی ہے
یہ آسماں گر کچھ اور ہوتا تو اس زمیں پر گرا ئے دیتا
الٰہی بسملؔ کہاں پھنسا ہے کہ روح بھی اب سسک رہی ہے
٭٭٭
جناب ظہیر احمد ظہیر
سے معذرت کے ساتھ
لو بھی چولھے کی بہت کم ہے خدا خیر کرے
میری بیوی بڑی برھم ہے خدا خیر کرے
حکم اُن کا "کوئی برتن بھی نہ بچنے پائے”
کے الیکٹرک کا جو سسٹم ہے خدا خیر کرے
کام اتنے کہ سمیٹے بھی نہ جائیں ہم سے
اُن کے غصے کا جو عالم ہے خدا خیر کرے
مار پڑنی تو اِک عادت ہے، وہ سہہ بھی لیں گے
"آج تو درد بھی پیہم ہے خدا خیر کرے”
قہرِ بیگم سے جو واقف ہی نہیں ہے میرے
"وہ مرا چارہ گرِ غم ہے خدا خیر کرے”
خوئے پُرسش بھی نہیں جاتی مری بیگم کی
کام اپنا بھی ذرا کم ہے خدا خیر کرے
کالی ہانڈی کی جو کالک نہیں اُتری مجھ سے
"وہ مرے زخم کا مرہم ہے خدا خیر کرے”
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیر
لَو چراغوں کی بہت کم ہے خدا خیر کرے
بادِ صرصر بڑی برہم ہے خدا خیر کرے
سرِ تکیہ کوئی ہمدم بھی نہیں آج کی شب
آج تو درد بھی پیہم ہے خدا خیر کرے
لذّتِ دردِ نہاں سے نہیں واقف جو ذرا
وہ مرا چارہ گرِ غم ہے خدا خیر کرے
خوئے لغزش بھی نہیں جاتی مرے رہبر کی
جادۂ راہ بھی پُر خم ہے خدا خیر کرے
جانے اغیار کی سازش ہے یا اپنوں کا ستم
شہر ِ یاراں کا جو عالَم ہے خدا خیر کرے
کوئے قاتل کی رہی ہے جو کبھی خاک ظہیر
وہ مرے زخم کا مرہم ہے خدا خیر کرے
٭٭٭
جناب ظہیر احمد ظہیرؔ
سے معذرت کے ساتھ
بیویاں چھوڑ گئی ہیں مجھے بازار کے بیچ
لا کے پٹخا تھا مقدر نے جو منجدھار کے بیچ
زینتِ صفحہ ء اول ہے تماشا میرا
چُن دیا ہے مجھے دونوں نے جو دیوار کے بیچ
یادِ ایام کہن اور کبھی ذکرِ یاراں
چھپ کے بیٹھا ہوں kitchen کے در و دیوار کے بیچ
اے مری دوسری بیوی تری غصے کی قسم
ہاں جلاتا ہوں میں چولھا تری پھٹکار کے بیچ
آج مرنا مجھے مشکل ہے تو جینا دوبھر
اک کھلونا ہوں میں گل مینہ و گلنار کے بیچ
سارے برتن مجھے دھونے تھے، kitchen بھی دھویا
کیوں توقف تھا مرے کلمۂ اقرار کے بیچ
دہرے meaning ہیں کبھی اور کبھی less ہیں meaning
کبھی پڑھ کر بھی تو دیکھو مجھے اشعار کے بیچ
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیر
حسرتیں چھوڑ گئیں کوچۂ و بازار کے بیچ
لوگ ٹوٹے ہوئے، سالم در و دیوار کے بیچ
زینتِ صفحۂ اول ہے تماشائے حیات
آدمی چھوٹی خبر ہے کہیں اخبار کے بیچ
بیش و کم کیا کریں اب، دام جو لگتے ہیں لگیں
نقدِ جاں رکھ چکے جب درہم و دینار کے بیچ
نخلِ اندیشۂ صد شاخِ زیاں اگتا ہے
ہر گلستانِ شجر دار و ثمر بار کے بیچ
موجۂ بادِ صبا زلف سے اُن کی نہ الجھ
گُل نہیں دل ہے مرا گیسوئے خمدار کے بیچ
مل گیا مجھ کو مرے سارے سوالوں کا جواب
اک توقف تھا ترے کلمۂ ا نکار کے بیچ
تمہیں مل جائے گی پہچان مرے لفظوں سے
کبھی پڑھ کر مجھے دیکھو مرے اشعار کے بیچ
میں سمجھتا نہیں دریا کو کنارے سے الگ
وہ شناور ہوں کہ رہتا ہے جو منجدھار کے بیچ
جو ملا شاخِ محبت سے اُسے چوم لیا
فرق رکھا ہی نہیں ہم نے گل و خار کے بیچ
یادِ یارانِ وطن ا ور کبھی ذکرِ وطن !
یہ دوائیں ہیں مری مجمعِ آزار کے بیچ
ہمیں مرنا بھی ہے اپنی ہی روایات پر آج
اور جینا بھی ہے مرتی ہوئی اقدار کے بیچ
اک تنازع ہے ہنر عہدِ ضرورت میں ظہیر
کاسۂ دادِ فن و کیسۂ فنکار کے بیچ
٭٭٭
جناب اعجاز عبید
سے معذرت کے ساتھ
دوسری بیوی
اے نازوں کی پالی، مری اے دوسری بیوی
گو میں ترا پہلا ہوں بڑی دیر سے چُپ ہوں
اتنا سا کوئی چھیڑ دے، طوفان اُٹھا دوں
گو ریت کا ذرّہ ہوں، بڑی دیر سے چُپ ہوں
ہاں یاد ہے اک دن تو میں بولا تھا کوئی لفظ
کہنے کو میں "گویا” ہوں، بڑی دیر سے چُپ ہوں
کب تک نہ کروں بات ذرا یہ تو بتا دے!
"گونگا ہوں نہ بہرہ ہوں، بڑی دیر سے چُپ ہوں”
مانا کہ تو بیوی ہے مری، میں ترا شوہر
انساں ترے جیسا ہوں، بڑی دیر سے چُپ ہوں
باقی جو خواتین ہیں، بہنیں ہیں وہ میری
اتنا ہی تو کہتا ہوں، بڑی دیر سے چُپ ہوں
جھاڑو ہو کہ برتن ہوں، سبھی کام ہیں "میرے”
چوں بھی نہیں کرتا ہوں، بڑی دیر سے چُپ ہوں
٭٭٭
اصل غزل (حمدیہ) ۔۔۔ اعجاز عبید
تو اوج فلک، اوجِ ثریا سے بھی اونچا
میں خاک کا ذرہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
ہر سمت ترا دست کرم ہے، یہاں میں بھی
دست طلب آسا ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
تو سبع سماوات میں ہے بزم سجائے
میں ٹوٹتا تارہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
جلوے ہیں ترے ارض و سماوات میں، اور میں
ٹوٹا ہوا شیشہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
مانگوں بھی تو کیا مانگوں، تجھے سب کی خبر ہے
گونگا ہوں نہ بہرا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں
اتنا سا کوئی چھیڑ دے، بس آگ لگا دوں
گو راکھ کا ذرہ ہوں بڑی دیر سے چپ ہوں
٭٭٭
جناب ظہیر احمد ظہیرؔ
سے معذرت کے ساتھ
ہوش و خرد گنوائی، خُرافات بک چلے
کچھ گڑبڑا کے اور ذرا ادبدا کے ہم
دیکھا اُسے تو بھول گئے اپنے سارے کام
ٹُک دیکھتے رہے اُسے، بھوکے سدا کے ہم
دھکے ملے کبھی، تو کبھی گالیاں ملیں
نکلے ہیں اُس گلی سے، ہر اک بار جا کے ہم
اُس نے بھی گالیوں سے نوازا ہے آج تو
آئے جب اُس کے سامنے مرچیں چبا کے ہم
سوچے ہیں شاعری سے نہ متھّا لڑائیں گے
پیروڈی ایک ایسی غزل کی بنا کے ہم
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیرؔ
ہوش و خرد، غرورِ تمنا گنوا کے ہم
پہنچے ترے حضور میں کیا کیا لٹا کے ہم
کوہِ گرانِ عشق تری رفعتوں کی خیر!
دامن میں تیرے آگئے تیشہ گنوا کے ہم
ہم پیش کیا کریں اُسے کشکول کے سوا
وہ ذات بے نیاز ہے، بھوکے سدا کے ہم
نادم ہیں کر کے چہرۂ قرطاس کو سیاہ
ناموسِ حرف اوجِ قلم سے گرا کے ہم
ہم لوگ ہیں ظہیرؔ اُسی اک خیال کے
نکلے نہ جس خیال سے اک بار جا کے ہم
٭٭٭
جناب منیب احمد
سے معذرت کے ساتھ
اگر یہ سوچ لیا ہے کہ خوب کھاؤ گے
تو کھاؤ کھاؤ مری جان! سوچتے کیا ہو؟
جو ٹھونس ٹھونس کے کھانے کی تم نے ٹھانی ہے
پھر اِس میں پیٹ کا نقصان سوچتے کیا ہو؟
یہ پیٹ کھانے سے بھرتا ہے بس، ہوا سے نہیں
بغیر کھائے پریشان، سوچتے کیا ہو؟
بس اپنے کھانے پہ تم کو نگاہ رکھنی ہے
اگرچہ تھوڑا ہے نقصان، سوچتے کیا ہو؟
ڈکار آئی نہ کچھ پیٹ کی گرانی ہے
ڈکار آئے یا طوفان، سوچتے کیا ہو؟
ابھی تو بھوک لگی ہے، ابھی تو کھاؤ گے
ابھی سے ہو گئے ہلکان، سوچتے کیا ہو؟
تمھیں تو آج مرغن غذائیں کھانی ہیں
سفر کٹھن ہے مری جان، سوچتے کیا ہو؟
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ منیب احمد
اگر یہ سوچ لیا ہے کہ کر دکھاؤ گے
تو کر دکھاؤ مری جان! سوچتے کیا ہو؟
متاعِ دل کو لٹانے کی تم نے ٹھانی ہے
پھر اِس میں نفع ہو، نقصان، سوچتے کیا ہو؟
جو فاصلہ ہے نا! وہ فیصلے سے کٹتا ہے
بنا چلے ہو پریشان، سوچتے کیا ہو؟
فرازِ کوہ پہ تم کو نگاہ رکھنی ہے
عمیق کتنی ہے ڈھلوان، سوچتے کیا ہو؟
اتار دی ہیں اگر کشتیاں سمندر میں
پھر آئے لہر کہ طوفان سوچتے کیا ہو؟
ابھی تو حال ہے، ماضی نہیں، نہ مستقبل
ابھی سے ہو گئے ہلکان! سوچتے کیا ہو؟
تمھیں تو منزلِ مقصود پر پہنچنا ہے
سفر کٹھن ہے کہ آسان، سوچتے کیا ہو؟
٭٭٭
جناب محمد ریحان قریشی
سے معذرت کے ساتھ
کچھ اینکروں کی شوخیِ پرواز دیکھنا
پھر ہو گا فاش آج ہر اک راز دیکھنا
اعجازِ فیسبک ہے یا ٹوئیٹر کی ہے خبر
سیٹھی کی شوخ چڑیا کا انداز دیکھنا
سو راز ڈھونڈ لائے دھبڑ دًھس کے واسطے
شاہد مسعود کو بھی سرافراز دیکھنا
شہزیب خانزادہ عجب ڈھنگ سے ملیں
ہو دیکھنا جو ان کی تگ و تاز دیکھنا
اک دن جیو سہیل وڑائچ کے ساتھ تھا
ان کا کھلا تضاد بہ انداز دیکھنا
نکتے یہ سوچ لاتے ہیں تخریب کے لیے
خبروں کا چینلوں کے یہ اعجاز دیکھنا
ہر کس بریک کرتا ہے خبروں کو آج کل
ہر جرنلسٹ آج سرافراز دیکھنا
٭٭٭
غزل ۔۔۔ محمد ریحان قریشی
کچھ واہموں کی شوخیِ پرواز دیکھنا
پھر ہو گی عام بات ہر اک راز دیکھنا
جانے فتورِ گوش ہے یا معجزِ نظر
صد موجۂ سکوت بر آواز دیکھنا
کرنا نگہ کا از سرِ نو شرحِ خوش دلی
ہر ذی نفس کو شاد و سرافراز دیکھنا
سو نکتے سوچ لائیں ہیں تجلیلِ عشق میں
ان عاشقوں کے عشق کا اعجاز دیکھنا
بھاتی ہے آرزو کے چراغوں کی کشتگی
زورِ طلسمِ دودِ نفس تاز دیکھنا
زنگار میں ہے تابِ الم دل میں پر نہیں
کیا یار سوئے آئنہ پرداز دیکھنا
٭٭٭
جناب عظیم شہزاد
سے معذرت کے ساتھ
چاند نکلا تو دھوپ بھی ہو گی
گھپ اندھیرے سی روشنی ہو گی
جس کسی نے بھی آج پی ہو گی
اپنی حالت خراب کی ہو گی
تم نہ ہو گے تو اس زمانے میں
ہر طرف دوڑتی خوشی ہو گی
کیوں نہ باہر کی راہ دیکھے گا
جس کو گرمی بہت لگی ہو گی
مجھ کو لگتا ہے آنجناب کی شکل
آپ کے دادا جان سی ہو گی
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ عظیم شہزاد
چاند نکلا ہے چاندنی ہو گی
گھپ اندھیرے میں روشنی ہو گی
جس کسی نے بھی عمر جی ہو گی
اس نے محنت غضب کی کی ہو گی
غم نہ ہو گا تو اس زمانے میں
ہر طرف دوڑتی خوشی ہو گی
کیوں نہ مرنے کی راہ دیکھے گا
جس کو خواہش جناب کی ہو گی
مجھ کو لگتا ہے اس جہان کی شکل
اس ہی دنیا جہان سی ہو گی
٭٭٭
جناب یاسر شاہ راشدی
سے معذرت کے ساتھ
یہ ہے شوہروں کی جنّت، یہاں چپقلِش بھی ہوگی
کبھی سوکنوں کی صورت یہ بڑی خلِش بھی ہوگی
کبھی وہ پکا رہی ہے، کبھی ہم پکا رہے ہیں
کبھی اُس کی ڈِش بھی ہوگی، کبھی اپنی ڈِش بھی ہوگی
کبھی منہ لپیٹ سوؤں تو کبھی میں گُل بداماں
’’کبھی یہ چلن بھی ہوگا، کبھی وہ روِش بھی ہوگی‘‘
’’نہیں ہوتی ہے بہاراں، کبھی پورا سال جاناں!
کبھی ٹھنڈ بھی لگے گی، تو کبھی تپِش بھی ہوگی‘‘
مری گفتگو بھی یکساں نہیں پاؤ گے ہمیشہ
کبھی پیار سے ملوں گی، کبھی سر زنِش بھی ہوگی
میں اگر ہوں گل تمھاری، مرے خار بھی تو چاہو
’’جو مہک سے حظ اٹھاؤ، تو چبھن کو بھی سراہو‘‘
٭٭٭
اصل نظم :یہ جہاں نہیں ہے جنّت ۔۔۔ یاسر شاہ راشدی
(اپنی بیگم کی نذر)
یہ جہاں نہیں ہے جنّت، یہاں چپقلِش بھی ہوگی
کبھی باہمی محبّت تو کبھی خلِش بھی ہوگی
کبھی کوفتے پکیں گے، کبھی روسٹ فِش بھی ہوگی
کبھی تیری ڈِش بھی ہوگی، کبھی میری ڈِش بھی ہوگی
کبھی ہوگی چوما چاٹی، کبھی ہوگی ہاتھا پائی
کبھی یہ چلن بھی ہوگا، کبھی وہ روِش بھی ہوگی
نہیں ہوتی ہے بہاراں، کبھی پورا سال جاناں!
کبھی ٹھنڈ بھی لگے گی، تو کبھی تپِش بھی ہوگی
مری گفتگو بھی یکساں نہیں پاؤ گی ہمیشہ
یہ کبھی تو بکھرے موتی، یہ کبھی ربِش بھی ہوگی
میں اگر ہوں گل تمھارا، مرے خار بھی تو چاہو
جو مہک سے حظ اٹھاؤ، تو چبھن کو بھی سراہو
٭٭٭
جناب عاطف ملک
سے معذرت کے ساتھ
یقیناً چھپ کے وہ کچھ کھا رہے ہیں
تبھی ملنے سے وہ کترا رہے ہیں
جو کہتے تھے ہمیں کھانے کا بھوکا
ہمارے پیچھے خود بھی کھا رہے ہیں
کہا تھا تم نے کچھ کھاؤ گے اک دن
ذرا دیکھو تو، یہ ہم کھا رہے ہیں؟
تمہارا ذکر ہے، ہم ہیں، کچن ہے
کئی پکوان چکھے جا رہے ہیں
بہت کچھ کھا چکے ہیں پیٹ بھر کر
مگر ہم , جو ابھی تک کھا رہے ہیں
ہمیں کھانے کے طعنے دینے والو
ہمیں معلوم ہے کیا کھا رہے ہیں
جو تازہ تھے وہ ہم سب کھا چکے ہیں
جو تھے باسی وہ بچتے جا رہے ہیں
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ عاطف ملک
اگر وہ ترس ہم پر کھا رہے ہیں
تو پھر ملنے سے کیوں کترا رہے ہیں
جو کہتے تھے ہمیں گمراہِ منزل
ہمارے پیچھے پیچھے آرہے ہیں
کہا تھا تم نے پچھتاؤ گے اک دن
ذرا دیکھو تو، ہم پچھتا رہے ہیں
تمہارا ذکر ہے، ہم ہیں، قلم ہے
کئی دیوان لکھے جا رہے ہیں
جو ہیں ناواقفِ آدابِ محفل
سبب یہ ہے کہ ہم تنہا رہے ہیں
ہمیں ماضی کے طعنے دینے والو
ہمیں معلوم ہے، ہم کیا رہے ہیں
کسی کا مان رکھنا مدّعا ہے
سو ہم خوش ہیں، سو ہم مسکا رہے ہیں
نصیحت کیلیے کیا کم ہے عاطفؔ؟
جو تھے ساتھی، بچھڑتے جا رہے ہیں
٭٭٭
جناب محمد احمد
سے معذرت کے ساتھ
آج اُن کا مزاج اچھا ہے
بلکہ بہتر ہے آج، اچھا ہے
آج تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں
ہم بھی اچھے، سماج اچھا ہے
بات پر آج مسکراتے ہیں
چلیے یه بھی رواج اچھا ہے
آج ہم ان پہ واری جاتے ہیں
نذر دیں یا خراج، اچھا ہے
آج تو یه ترا نیا انداز
اے مرے "خوش مزاج!” اچھا ہے
کیا ہی اچھی ہے تیری چپ اے دوست
تیرا کم گو مزاج، اچھا ہے
٭٭٭
اصل غزل ۔۔۔ محمد احمدؔ
موسموں کا مزاج اچھا ہے
کل سے بہتر ہے آج، اچھا ہے
فرد بہتر، معاشرہ بہتر
آپ اچھے، سماج اچھا ہے
روٹھ کر بھی وہ مسکراتے ہیں
یہ چلن، یہ رواج اچھا ہے
رستگاری غموں سے ہوتی ہے
بیٹھے سے کام کاج اچھا ہے
وہ تفنن جو دل پہ بار نہ ہو
اے مرے خوش مزاج !اچھا ہے
احمدؔ اچھی ہے تیری گمنامی
تیرے سر پر یہ تاج اچھا ہے
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں