FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اُردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

 

 

حصہ سوم

 

                   ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی

 

 


 

 

 

ردیف ’’ز‘‘

 

 (۱) زارزار رونا، زار و قطار رونا، زار و نزار۔

یہ بھی ایک طرح کی شاعری ہے یا شاعرانہ اندازِ نظر ہے کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسو بہیں تو اُسے ’’زار و قطار‘‘ رونا کہا جائے۔ ’’زارِیدن ‘‘کے معنی فارسی میں رونے کے ہیں اُسی سے ’’زار زار‘‘ اور قطار‘‘ کو شامل کرتے ہوئے زار و قطار رونا کہا گیا ہے۔ جیسے ’’گر یہ بے اختیار بھی ‘‘کہتے ہیں یعنی جب رونے پر کوئی قابو نہ ہو اور عالم بے اختیاری میں آنسو بہ رہے ہوں اور مسلسل رونے کا عالم ہو۔

’’زار و نزار‘‘ اس کے مقابلہ میں بہت کمزور آدمی کو کہتے ہیں جب اِس میں تاب و تواں نہ رہے وہ اپنے آپ کو سنبھال بھی نہ سکے کہ اُن کی حالت تو بہت ہی زار ہے وہ زار و نزار ہو رہے ہیں۔ یا ’’زار و نزار‘‘ نظر آتے ہیں۔

 

(۲) زبان بدلنا پلٹنا،زبان بگڑنا، زبان بند کرنا، زبان بند ہونا، زبان بندی کرنا، زبان پر چڑھنا، زبان پکڑنا، زبان تڑاق پڑاق چلنا، زبان چلنا، زبان درازی کرنا، زبان چلائے کی روٹی کھانا، زبان داب کے کچھ کہنا، زبان داں ہونا۔ زبان دینا، زبان روکنا، زبان سمجھنا، زبان نکالنا، زبان دینا، زبان روکنا، زبان سمجھنا، زبان نکالنا، زبان سنبھالنا، زبان کو لے گئی، زبان کا چٹخارے لینا، زبان کے نیچے زبان ہے۔ زبان میں کانٹے پڑنا، زبانی جمع خرچ کرنا، زبانی منہ بات ہونا، زبان گھِسنا، زبان   گُدھی سے کھینچ لینا، وغیرہ وغیرہ۔

زبان قوتِ گویائی کی علامت ہے ہم جو کچھ کہتے ہیں اور جتنا کچھ کہتے ہیں اُس کا ہمارے ذہن ہماری زندگی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ دوست و دشمن تو اپنی جگہ پر ہوتے ہیں لیکن تعلقات میں ہمواری اور ناہمواری میں بہت کچھ زبان کے استعمال کو دخل ہوتا ہے کہ کون سا فِقرہ کہا جائے کس طرح کہا جائے اور کس موقع پر کہا جائے۔

لوگ زبان کے استعمال میں عام طور پر پھُوہڑ(بد سلیقہ) ہوتے ہیں اور الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتتے جو منہ میں آ جاتا ہے کہہ جاتے ہیں زبان روکنے اور زبان کے اچھے بُرے استعمال پر نظر داری کا رو یہ اُن کے ہاں ہوتا ہی نہیں یہی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے اور اچھے دِل بُرے ہو جاتے ہیں دلوں میں گِرہ پڑ جاتی ہے یہ زبان کے صحیح اور غلط استعمال سے ہوتا ہے۔

زبان کے استعمال میں لب و لہجہ کو بھی دخل ہوتا ہے اور شیریں بیان آدمی محفل میں باتیں کرتا ہوا زیادہ اچھا لگتا ہے اور اپنی میٹھی زبان کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے خوش لہجہ خوش گفتار ہونا خوش سلیقہ ہونا بھی ہے۔

اب یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں کی زبان اور لہجہ میں بے طرح کھُردرا پن ہوتا ہے ایسے لوگ اکھڑ کہلاتے ہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زبان کا اکھڑ پن ذہنی ناگواری دلی طور پر نا خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ اگر اِن محاوروں پر غور کیا جائے جو زبان اور  طرزِ بیان سے متعلق ہے تو ہماری سماجی زندگی کی بہت سی نا رسائیوں کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اب یہ جُداگانہ بات ہے کہ ہم غور وفکر کے عادی نہیں ہیں زبان کے استعمال اور  اُس کے اچھے بُرے نتائج کی طرف اُن محاوروں میں اشارے موجود ہیں یہ گویا ہمارے اپنے تبصرے ہیں جو ذہنی تجزیوں اور  معاشرتی تجربوں کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ ہم اُن سے بھی کوئی فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے۔ یہ بہر حال ہمارے سماجی رو یہ کی بات ہے لیکن ہم نے اس کا احساس کیا اور  محاورات میں اپنے محسوسات کو محفوظ کر دیا۔ یہ بڑی بات ہے اور  اِس سے زبان کے تہذیبیاتی مطالعہ کے بعض نہایت اہم پہلو میسّر آ گئے۔ لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان ٹوٹی نہیں یعنی یہ دوسری زبان کے الفاظ یا آوازیں صحیح طور پر اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتے بعض لوگ برابر بولے جاتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان تالو سے نہیں لگتی بعض اپنے آس پاس کے لوگوں سے بہت خطرے میں رہتے ہیں ان کو بتیس دانتوں کے بیچ میں رہنے والی زبان سے تشبیہہ دیتے ہیں کچھ لوگ اپنی بات کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں۔

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو  کہ مُدعا کیا ہے

(غالبؔ)

بعض لوگوں کو اپنی زبان دانی پر فخر ہوتا ہے اور وہ داغؔ کی طرح یہ کہتے نظر آتے ہیں۔

؂ اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

سارے جہاں میں دھُوم ہماری زباں کی ہے

غرض لوگ اپنے سامنے کسی کو بولنے نہیں دیتے وہ زبان اور کہلاتے ہیں بعض لوگوں کی زبان میں بہت تلخی اور کڑواہٹ ہوتی ہے وہ کڑوی زبان والے کہلاتے ہیں اسی طرح زبان کے بارے میں بہت سے محاورات کا لمبا سلسلہ ہے جس میں کسی نہ کسی لحاظ سے زبان کا اپنا اسلوب اظہار طریقہ گفتگو اور زبان پر قدرت کے پہلو سامنے آتے ہیں اور اُن پر تبصرہ دوسروں کی طرف سے ہوتا ہے اور ایسے ہی فقرہ زبان کے بارے میں ہمارے یہاں بہت ملتے ہیں یہ شاعری میں تو زیادہ کھیل ہی زبان کے حُسنِ استعمال کا ہوتا ہے اور لطف زبان پر زور دیا جاتا ہے اُردو کا شعر ہے۔

؂ بیانِ حُرمتِ صہبا صحیح مگر اے شیخ

تری زبان سے اُس کا مزہ نہیں جاتا

بہت سے شعروں کو ہم زبان کی خوبصورتی کے اعتبار سے زبان کا شعر کہتے ہیں اور اِس طرح بیان کی داد دیتے ہیں زبان و بیان کی بات تو ہماری زبان پر آتی رہتی ہے۔

؂گفتگو ریختہ میں ہم سے نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

(میرؔ)

 

 

 

(۳)زبانی جمع خرچ کرنا۔

ہماری زبان میں جو سماجی حیثیت رکھنے والے محاورے ہیں اُن میں زبانی جمع خرچ اس معنی میں بے حد اہم ہیں کہ جمع اور خرچ صرف ’بہی کھاتہ‘ کی چیز نہیں ہم دلوں میں بھی حساب رکھتے ہیں ‘‘ حسابِ دوستاں در دل اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ کوئی کہیں سمجھ لے اور کوئی کہیں اور یعنی ایک دوسرے کے عمل کو پیش نظر رکھو اور کسی نے ہمارے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی برتی ہے توہم کو بھی برتنی چاہیئے۔

ہماری ایک سماجی کمزوری یہ ہے کہ ہم دوسروں کی نیکیوں کا حساب نہیں رکھتے اگر یہ بھی ذہن میں رکھیں اور دل سے بھُلا نہ دیں تو معاشرہ میں نیکیاں بڑھتی رہیں۔ ہم اسی کو بھلا دیتے ہیں نتیجہ میں اچھا سلوک اور اچھا معاملہ کم سے کم ہو جاتا ہے اور بُرائیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ۔بعض لوگ کچھ کرنے کے عادی نہیں ہوتے بس کہنے سننے کی حد تک ہی ان کا معاملہ رہتا ہے ایسے لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے اور صحیح کہا جاتا ہے کہ اُن کے یہاں تو بس زبانی جمع خرچ ہے، وہ محض کہتے ہیں دعویٰ کرتے ہیں مگر عمل کبھی نہیں کرتے۔

 

(۴)زِچ کرنا، زِچ ہو جانا۔

یہ ہماری سماجی ’’برائی ہے جس میں شخصی مزاج بھی حصّہ لیتا ہے کہ ہم کبھی کبھی غیر ضروری طور پر دوسروں کے پیچھے پڑتے ہیں یا پیچھے لگ جاتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ دوسرا ہماری وجہ سے پریشان ہو رہا ہے بلکہ اپنے ارادے اپنی خواہش اور خوشی کے زیر اثر زچ کرنا کہتے ہیں اس رو یہ کو آدمی پہلے ناگواری کے ساتھ لیتا ہے اور پھر ناقابل برداشت قرار دیتا ہے اور ٹھکرا دیتا ہے۔ واقع یہ ہے کہ پریشان کرنے کے علاوہ اُس کا کوئی مقصد ہوتا بھی نہیں۔

 

(۵)زخم لگنا، زخم لگانا، زخم پر نمک چھِڑکنا، زخم ہرا ہونا، زخم تازہ ہونا، زخم کھانا، زخموں کو کُریدنا، زخموں پر خاک ڈالنا، زخم پہنچانا، یا پہنچنا، زخم اُٹھانا وغیرہ۔

زخم سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جن کا رشتہ ہمارے جسمانی وجود سے بھی ہے اور ذِہنی وجود سے بھی زخم لگتا بھی ہے گہرا بھی ہوتا ہے بھرتا بھی ہے’’ لہو‘‘ رونا اور خشک ہونا بھی زخموں سے وابستہ ہے ان تجربوں کو انسان نے یا ہمارے معاشرے میں اپنی نفسیات اور سماجی عمل سے وابستہ کیا اُس کے معنی اور معنویت میں نئی گہرائی اور گیرائی (وسعت) پیدا ہو گئی۔

دوسروں کا عمل ہمارے لئے اور ہمارا عمل دوسروں کے لئے تکلیفوں کا باعث بنتا ہے ہماری اپنی غلطیاں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں اِس پر ہم غور نہیں کرتے۔ زخم لگنا یا زخم لگانا زخم پہنچانا، زخم اٹھانا زخموں کو پالنا اور زخموں کا ہرا ہونا ہماری نفسیات اور دوسروں کے عمل اور  ردِ عمل کا حصّہ بنتا ہے بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے اُسے ریکارڈ کیا اُس پر Commentکئے اب یہ سماجی برائی ہے۔ کہ اُس سے بچنے اور بچانے کی کوشش نہیں کی اور اِس کے باوجود نہیں کی کہ قانونِ فلسفَہ اخلاقیات مذہب اور  روایت ہمیں روشنی دکھلا رہے تھے اور  تجربہ دُور تک اور دیر تک انسان کے معاشرے کو اِن نشیب و فراز یا  موڑ در موڑ راستوں سے آگاہ کر رہا تھا نتائج سامنے تھے لیکن اُن سے کوئی سبق لینے کے بجائے اُن کی طرف سے غفلت کو زیادہ پسندیدہ عمل قرار دیا گیا وہی ہوا اور وہی ہو رہا ہے۔

 

(۶)زمین آسمان کے قلابے مِلانا، زمین آسمان کا فرق ہونا، زمین پرپاؤں رکھنا، زمین کو پکڑنا، زمین دیکھنا، زمین سخت آسماں دُور ہے، زمین یا دھرتی پھٹ جائے۔ اور میں سما جاؤں زمین کا پاؤں کے نیچے سے سرک جانا، زمین کا پیوند ہو جانا، زمین میں گڑ جانا، زمین ناپنا۔

زمین غالباً زندہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے وہ کھیتی کرتا ہے تو زمین چاہیئے راستہ چلتا بھی ہے تو زمین ہی کے ذریعہ ممکن ہے مکان بھی زمین پر بنتے ہیں کارخانے بھی مسافر خانہ بھی غرض کہ انسان کی ہزار ضرورتیں زمین سے ہی وابستہ ہیں مرنے کے بعد بہت سی قومیں زمین ہی میں گاڑتی ہیں۔ زمین سے متعلق بہت سے محاورات ہیں اُن میں زمین آسمان ایک کر دینا بھی ہے یعنی بہت ہنگامہ برپا کرنا یا حد بھر کوشش کرنا۔ زمین آسمان کے قلابے مِلانا، ایسی باتوں کو کہتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اور ایسا آدمی جو اِس طرح کی باتیں کرتا ہے و معاشرے میں جھوٹا فریبی اور  دغا باز سمجھا جاتا ہے اُس کی بات پر کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

زمین آسمان میں بہت فاصلہ ہیں اسی لئے زمین آسمان کو قلابے ملانا جھوٹی باتیں کرنا ہوتا ہے کہ آدمی اُن فاصلوں کو نظر میں نہیں رکھتا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صحیح بھی ہے یا نہیں زمین پرپاؤں نہ رکھنا یہ تو خیر ممکن ہی نہیں لیکن جو لوگ بڑے ناز نخرے سے بات کرتے ہیں اُن کے لئے طنز کے طور پر کہا جا تا ہے کہ وہ تو زمین پر پاؤں نہیں رکھتے۔ اب اس سے دو باتیں مُراد ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ اُن کے راستہ میں تو فرش فروش بچھے ہوتے ہیں اور اُن کا پاؤں زمین سے نہیں لگتا یا نہیں پڑتا اب بھی شادی بیاہ کے موقع پر سرخ رنگ کا قالین Red Carpetبچھاتے ہیں۔ زیادہ ناز و نزاکت والے انسان کو بھی بطورِ طنز کہتے ہیں کہ ان کے پاؤں تو فرشِ مخمل پربھی چھِل جاتے ہیں یہ فرش زمین پرکیوں پاؤں رکھنے لگے۔

جب انسان کے لئے اُس کا ماحول بہت تکلیف دے اور  مایوس کُن ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں زمین اُس کے لئے سخت ہو گئی اور آسمان دُوریعنی نہ اُسے زمین پر جگہ ملتی ہے اور نہ آسمان کے نیچے پناہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ زمین آسمان میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ زمین پکڑی نہیں جا سکتی اور زمین دیکھنا کسی آدمی کو نیچا دکھانا ہے اور غالباً یہ پہلوانوں کے فن سے آیا ہے کشتی کے فن میں کسی کو زمین پر گرا دینا یا زمین پکڑوا دینا بھی بڑی کامیابی کی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے زمین پرما تھا ٹیکنا اظہارِ عاجزی ہے اسی سے فرشی سلام کا تصور اُبھرتا ہے اور ماتھا ٹیکنے کا بھی۔

زمین ہمیشہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے اور اسی طرح بے حد مصیبت اور پریشانی کے عالم میں یہ کہتے ہیں کہ پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی یعنی اس کا کوئی موقع نہ رہا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا رہے اور اپنی کوشش پراعتماد کر سکے۔ زمین کا پیوند ہو جانا مر جانا اور زمین میں دفن ہو جانا مرنے والوں کے لئے کہا جاتا ہے جو اظہار کا ایک شاعرانہ سلیقہ ہے پیوند یوں بھی ہمارے معاشرے اور سماجی زندگی کا ایک خاص عمل تھا اور اکثر غریبوں کے کپڑوں میں پیوند لگے رہتے تھے اور عورتیں کہا کرتی تھیں بی بی پیوند تو ہماری اوقات ہے۔

زمین ناپنا اِدھر اُدھر پھرنا جس کا کوئی مقصد نہ ہو اسی پر طنز سے کہا جاتا تھا کہ وہ تو زمین ناپتا پھرتا ہے یا جاؤ زمین ناپو یعنی کچھ بھی کرو یہاں سے ہٹ جاؤ زمین میں گڑ جانا حد بھر شرمندہ ہونا اور یہ محسوس کرنا کہ وہ اب منہ دکھلانے کے لائق نہیں ہے اسے تو زمین میں گڑ جانا چاہیئے یا اسی حالت میں آدمی کی یہ خواہش کرنا کہ کسی طرح زمین پھٹ جاتی اور وہ اُس میں سما جا تا۔

ہماری سماجی حسّیات محاوروں میں جو معنی پیدا کرتی ہیں اور اُن کی ہمارے معاشرتی زندگی میں جو معنویت ہوتی ہے محاوروں کے مطالعہ سے اُنہی اُمور کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ اور اِس طرح کے محاورے اِن سماجی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

 

(۷)زنانہ کرنا۔

مردانہ ہونا، ہماری معاشرتی زندگی کے ایک خاص حصّہ اور کچھ خاص طبقوں کی نمائندگی کرنے والے محاورے ہیں مسلمانوں اور ایک حد تک ہندوؤں سکھوں اور خاص طور پر راجپوتوں عورتوں کا انتظام الگ کیا جاتا تھا جو مردوں سے الگ ہوتا تھا ایسا اب بھی کیا جاتا ہے مگر پابندی کم ہو گئی ہے۔ اسی کو زنانہ کرنا کہتے ہیں۔

’’زن‘‘ کے معنی فارسی میں عورت کے ہیں اسی سے ہمارے ہاں زنانہ لباس زنانہ محاورہ اور زنانہ زیورات جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اِس کے مقابلہ میں مردانہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور محض مردانہ کہہ کر مکان کا وہ حصہ مراد لیا جاتا ہے جہاں مردوں کا اٹھنا بیٹھنا اور مِلنا جُلنا زیادہ ہوتا اُسی کو مردانہ کہتے ہیں۔

پنجابی زبان میں زنانی عورت کو بھی کہتے ہیں اور زنخہ ہیجڑوں  کو کہا جاتا ہے زنخی وہ عورت جس میں ’’ ہجڑہ پن‘‘ ہو یہ لفظ دلّی اور لکھنؤ میں رائج رہا ہے۔

 

(۸)زنجیر کرنا یا پکڑنا، زنجیر ہِلانا، زنجیر کھڑکانا۔

زنجیر سے متعلق بہت سے محاورے ہیں پیروں میں زنجیر ڈال دی یعنی قید کر لیا۔ اِس کو بیڑی ڈالنا بھی کہتے ہیں۔ بیڑی پہنانا بھی۔ ’’زنجیر کرنا ‘‘فارسی محاورے کا ترجمہ ہے۔ جہاں زنجیر کردن کہا جاتا ہے میرؔ کا شعر ہے۔

 

؂ بہار آئی دیوانے کی خبر لو

اگر زنجیر کرنا ہے تو کر لو۔

زنجیر ہلانا یا زنجیر کھڑکانا دروازے کی کُنڈی بجانا ہے زنجیر ہلانے سے مُراد انصاف کے لئے فریاد کرنا بھی ہے۔

؂ ایک چکر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

یعنی قید کی حالت میں بھی برابر گھُوما کرتا ہوں یہ جنون کا عالم ہوتا ہے اور شاعروں نے اسی معنی میں اِس کا ذکر کیا ہے جنون شدید جذبہ کے عالم میں ذہن پر طاری ہوتا ہے اور دل و دماغ قابو میں نہیں رہتے جانوروں میں بھی یہ کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔

 

(۹)زندگی سے تنگ آنا یا زندگی تلخ ہونا۔

ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو انسان پر طاری ہوتی ہے زندگی جو عزیز ہوتی ہے پیاری ہوتی ہے آدمی اُس سے بھی تنگ ہو جاتا ہے اور معاشرے کے رو یہ کو اس میں اکثر دخل ہوتا ہے یا پھر شدید بیماری ہوتی ہے جس میں آدمی کوئی علاج نہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ میری زندگی تو اجیرن ہو گئی ہے۔

 

(۱۰)زوال کا وقت۔

سُورج کے ڈوبنے سے پہلے کا وقت زوال کا وقت کہلاتا ہے جب سایہ ٹھہرنے لگتے ہیں دھُندلکا  چھا جانے کا ماحول شروع ہو جاتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں جب گِراوٹ  کا زمانہ آتا ہے۔ اور وہ اپنے کاموں میں بچھڑ جاتی ہیں تو وہ زوال کا وقت ہوتا ہے اور  یہی اِس محاورے کی سماج سے اور قوموں کی تاریخ سے ہم رشتگی ہے۔

 

(۱۱)زور پڑنا، زور چلنا، زور دینا، زور پکڑنا، زور مارنا، زور بخشنا وغیرہ

’’زور‘‘ قوت کو کہتے ہیں اِسی سے زوردار لفظ بنا ہے۔ زور داری بھی اردو میں زور کے ساتھ بہت سے محاورے بنتے ہیں اس میں زور و شور ہونا بھی ہے آج کل اِس بات کا بہت زور شور ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام زیادہ تر اُس کی طرف متوجہ ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ آج کل کانگریس کا زور ہے یا پھر فلاں پارٹی کا  زور ہے زور دینا کسی بات پر اِصرار کرنا زور چلنا قابو پانے کو کہا جاتا ہے جیسا اِس مصرعہ میں کہا گیا ہے۔

؂ ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

زور پکڑنا جیسے بارش نے زور پکڑا اور سماجی طور پر یہ کہتے ہیں کہ مخالفت نے زور پکڑا دشمنی نے زور پکڑا اُس نے بہت زور مارا یعنی اپنی بات یا اپنے معاملہ پر زور دیا۔ ’’ زور داری‘‘ سے کہا یا ’’زور داری‘‘ دکھائی اُس کی بات تو زور دار  ہے یہ سب ہمارے سماجی فِقرہ ہیں جو معاشرتی عمل اور  ردِ عمل کو پیش کرتے ہیں اُس میں زور بڑھنا اور زور ٹوٹنا بھی شامل ہے۔ ’’ زور بخشنا ‘‘کسی کو طاقت دینا ہے جیسے نثارؔ نامی  شاعر کا  یہ مصرعہ ہے۔

؂ حیدرِ کرار نے وہ’’ زور بخشا ‘‘ہے نثار

’’زور دکھانا‘‘ اپنے زیادہ طاقتور ہونے کو اپنی بات چیت یا عمل کو پیش کرنا وہ خواہ مخواہ اپنا زور دکھاتا ہے اگر دیکھا جائے تو یہ سب محاورے سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں۔

 

(۱۲)زہر اُگلنا، زہر کھانا، زہر پینا، زہر پلانا، زہر چڑھنا، زہراب ہونا، زہر کا سا گھونٹ پینا، زہر میں بجھا ہوا۔

زہر ہلاکت پیدا کرنے والی یا ہلاکت دینے والی شے کو کہتے ہیں اور سماجی زندگی میں تلخیاں پیدا کرنے والی یا نفسیات کو بگاڑنے والی کسی بھی بات کو زہر سے تشبیہہ یا نسبت دیتے ہیں جو بات یا  جو شئے آدمی با دلِ نخواستہ کرتا ہے اُس کو زہر مار کرنا کہتے ہیں زبردستی کسی سے کوئی بات منوانا یا کسی بات پر صبر کرنا زہر جیسے گھونٹ پینا کہا جاتا ہے۔ زہر دے کر مار  تو سکتے ہی ہیں مگر ناگواری کے عالم میں اگر کوئی چیز کھائی جاتی یا پی جاتی ہے اُسے بھی زہر مارنا کہتے ہیں۔ ۔

زہر کا  مز ہ چکھنا یا زہر چکھنا بھی اسی طرح کا محاورہ ہے زہر ہونا بھی اور زہر لگنا بھی کہ اس کی بات مجھے زہر لگتی ہے جب کوئی کسی پر بہت رشک یا  حسد کرتا ہے تو اُس کو زہر کھانا کہتے ہیں میرے دشمن اس بات پر زہر کھاتے ہیں ’’زہراب ہونا‘‘ پانی میں زہر ملنا ہے یا کسی بھی پینے کی شے کا ’’زہرناک ‘‘یا حد بھر تلخ ہو جانا ہے جیسے چائے کا گھونٹ بھی مجھے زہراب ہو گیا‘‘ یا یہ شراب نہ ہوئی زہراب ہوا ایسے شربت کو بھی میں تو زہر اب سمجھتا ہوں۔

’’زہر میں بجھا‘‘ ہوا ہونا بھی زہر جیسی کیفیت کو اپنے ساتھ رکھنا جیسے زہر میں بجھے ہوئے نشتر زہر میں بجھے ہوئے تیور زہر میں بجھے ہوئے تیر جب کسی ہتھیار کو اس غرض سے زہر میں بجھایا جاتا ہے کہ اس کا زخم پھر اچھا نہ ہو تو وہ جنگ کا نہایت اذیت ناک طریقہ ہوتا ہے انسانی نفسیات کے اعتبار سے بول بات میں بھی زہر مِلا ہوتا ہے اور زہریلے بول کہتے ہیں اِس معنی میں زہر ایک سماجی استعارہ بھی ہے اور ہماری گفتگو کے لئے غیر معمولی طور پر ایک علامتی کردار ادا کرتا ہے۔

 

(۱۳) زیب تن کرنا۔ زیب دینا اپنے کو۔

لباس پہننے کا ایک مقصد زیب دینا اور  ’’زیب تن کرنا‘‘ بھی ہوتا ہے، ویسے ’’زیب دینا‘‘ ایک محاورہ ہے اور  ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں۔

؂ زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے

اور جب بات غیر موزوں اور نامناسب ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ بات آپ کو زیب نہیں دیتی اور اچھا لگنے والی شے کو دیدہ زیب کہتے ہیں ’’تن زیب‘‘ ایک کپڑے کا نام بھی ہے اور ایسے لباس کو بھی’’ تن زیب‘‘ کہتے ہیں جو جسم پر اچھا لگتا ہے اور جس آدمی کے بدن پر لباس پھبتا ہے وہ زیب تن کہلاتا ہے۔

’’زیبائش‘‘ سجاوٹ کے لئے آتا ہے اور ایک ایسے زیور کو جو پیروں میں پہنا جاتا ہے اور پیروں کو سجاوٹ بخشتا ہے اُس کو پازیب کہتے ہیں۔

 

***

 

 

 

 

ردیف ’’س‘‘

 

 (۱) سات پردوں، یا سات تالوں میں چھُپا کر رکھنا،سات دھار ہو کر نکلنا۔

سات کا عدد ہماری تہذیبی زندگی اور تاریخی حوالوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں مذہبی حوالہ بھی شامل ہیں۔ ہم سات آسمان کہتے ہیں سات بہشتیں کہتے ہیں۔ سات سمندر کہتے ہیں قوسِ قزح (دھنک) کے سات رنگ کہتے ہیں۔ سات ستارے کہتے ہیں یہ سب گویا ہماری سماجی فِکر کا حصہ ہیں اِس کو اگر ہم محاورات میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کا مزید احساس ہوتا ہے کہ سماجی زندگی سے سات کا عدد کس طرح جڑا ہوا ہے کوئی چیز تالوں میں بند کی جاتی ہے تو ایک سے زیادہ تالے لگائے جاتے ہیں کہتے ہیں لیکن محاورے کے طور پر سات تالوں میں بند کرنا کہتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں اور اس طرح پردوں کے ساتھ سات پردے کہتے ہیں۔ مقصد تاکید اور زیادہ سے زیادہ توجہ کی طرف ذہن کو منتقل کرانا ہوتا ہے اور اُس سے سماجی فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

جب کوئی بات ہماری نفسیات کا جُز بن جاتی ہے تو وہ ہمارے لسانی حوالوں میں آتی رہتی ہے اور اُس کے محاوروں میں شامل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری نفسیات میں گہرا دخل رکھتی ہے اصل میں لٹریچر کا مطالعہ سماجی نقطہ نظر سے یا ایک معاشرتی ڈکشنری کے طوپر نہیں ہوتا ورنہ محاورہ صرف زبان کا اچھا قدیم رو یہ نہیں ہے جو فرسودہ ہو چکا ہو یہ صحیح ہے کہ ہم شہری زبان میں اب محاورے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے قصباتی اور طبقاتی زبان میں ضرور محاورے کی اہمیت ہے لیکن محاورہ سماج کو سمجھنے کے لئے اور مختلف سطح پر محاورے استعمال اس کے رواج اور سماج سے اس کے رشتہ کے بارے میں جتنی معلومات ہمیں محاوروں سے ہو سکتی ہے وہ شاید لٹریچر کے کسی دوسرے لسانی پہلو اور ادبی رو یہ سے نہیں ہو سکتی۔

سات دھار ہو کر نکلنا یہ ایک اہم بات ہے اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم بہت سے اُمور کو سات کے دائرے میں لا لا کر رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں زیادہ تر چشمے ایک دھارے میں پھوٹتے ہیں یا ایک سے زیادہ دھاروں میں مگر سات دھارے ہمارے روایتی اندازِ فکر کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے کہ دھاروں کے ساتھ سات کا عدد ضروری نہیں ہے۔ لیکن تہذیبی نقطہ نظر سے سات دھاروں کا تصور بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

 

(۲)ساز باز کرنا۔

ساز کا لفظ فارسی ہے ’’ساز ‘‘ کسی بھی آلہ موسیقی کو کہہ سکتے ہیں ’’باز‘‘ کے معنی ہیں کھولنا یا دوبارہ حاصل ہونا جیسے ’’باز یافت‘‘ اسی معنی میں دوبارہ پا جانے کے عمل کو کہتے ہیں۔ ’’ساز‘‘ کسی لفظ کے ساتھ مِلا کر اِسم فاعل بھی بناتے ہیں جیسے گھڑی ساز، سُمن ساز،تاریخ ساز یہ فارسی زبان کے اردُو پر اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح ’’باز‘‘ کا لفظ بھی جب کسی لفظ کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تو اسم  فاعل بن جاتا ہے جیسے ’’پٹہ باز‘ ‘ ’’بلَّے باز‘‘ یہاں تک کہ ’’تگڑم باز‘‘ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِن دو لفظوں کو ملا کر ایک نئے معنی نکالے گئے یعنی ’’سازش‘‘ کہ اِس نے اِس معاملہ میں دوست یا دشمن کے ساتھ ساز باز کر لی۔ اِس اعتبار سے یہ ہماری سماجی زندگی سے گہرا رشتہ رکھنے والا ایک محاورہ بن جاتا ہے۔

لفظوں کا معاملہ عجیب ہے یہ طرح طرح کے معنی دیتے ہیں بعض معنی ذہن کو علمی بڑائی اور ادبی خوبصورتی کی طرف لے جاتے ہیں اور بعض سماج کی ذہنی اور عملی بدصورتیوں کو ظاہر کرتے ہیں الفاظ وہی ہوتے ہیں۔ لیکن معنی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے اور یہی زبان کا سماجی استعمال ہے۔ Connotation of the Wordsیعنی الفاظ کے باہمی رشتے اور معنیاتی سلسلے محاورات کو اور عام زبان کے ساتھ اُن کے رشتوں کو سمجھنے میں یہ صورت حال بہت مدد دیتی ہے۔ اور اس سے کسی زبان کے سماجی کردار کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

 

(۳) ساکھ جاتی رہنا یا ساکھ بننا۔

ساکھ ہماری زبان کے اہم سماجی الفاظ میں سے ہے اور اِس کے معنی ہیں اعتبار،اعتبار سیاسی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی علمی بھی ہوتا اور کاروباری بھی ہم تحریروں سے زیادہ زبان پر اعتبار کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اُس پر اعتماد کرتے ہیں اسی کو’’ ساکھ بننا ‘‘کہتے ہیں ساکھ باقی رہنا کہتے ہیں ‘ اور اگر یہ اعتبار ختم ہو جاتا ہے چاہے ایک فرد پر سے ختم ہو چاہے ایک جماعت پر سے یا دکان اور  ادارے سے بہرحال ساکھ باقی رہنا بڑی بات ہے اور سماجی نقطہ نظر سے اس محاورے کو سماجی رشتوں کے ساتھ جوڑ کر اگر دیکھا جائے تو اُس کے معنی غیر معمولی طور پر اہم ہو جاتے ہیں۔ ساکھ جاتی رہنے کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔

 

(۴)سانپ سُونگھ جانا،سانپ کا کاٹا رسی سے ڈرتا ہے،چھاچھ کو پھُونک پھُونک کر پیتا ہے، سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے، سانپ کی طرح پھن مار کر رہ جانا، سانپ نکل گیا لکیر کو پیٹا کرو۔

سانپ جس کی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں ہماری زندگی کا کئی اعتبار سے ایک اہم حوالہ ہے۔ وہ جانداروں میں سب سے زیادہ زہریلا ہوتا ہے اور اُس کے کاٹے کا مشکل ہی سے علاج ہوتا ہے۔ سانپ’’ گُل کنڈے‘‘ کھا کر اپنے آپ کو سمیٹ لیتا ہے اور دُم کو اپنے منہ میں لے لیتا ہے یہ گویا ابتدا کو انتہا سے ملانا ہے وہ بغیر پیروں کے دوڑ سکتا ہے یہ ایک عجیب و غریب صفت ہے وہ اپنے سہارے پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی کچھ خو بیاں ہیں جو سانپ کے کردار میں شامل ہیں مثلاً ’’کالا سانپ‘‘،’’ بین پر رقص کرتا‘‘ ہے اور اس کی آواز پر کھنچا چلا آتا ہے سانپ کی آنکھوں میں غیر معمولی کشش ہوتی ہے۔

سانپ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جو سماج کی روش و کشش کو ظاہر کرتے ہیں اور اس آئینہ میں ہم انسان کے کردار کو سمجھ سکتے ہیں کہ کس وقت اُس کا عمل اور  رد عمل کیا ہوتا ہے اور اس کا ہمارے فکر و خیال سے سماجی طور پر کیا رشتہ بنتا ہے۔ مثلاً سانپ سونگھ جانا، مثلاً جب آدمی کسی بات کو سُن کر چُپ ہو جاتا ہے اور لاجواب ہونے کے عالم میں پہنچ جاتا ہے تو اسے سانپ سونگھنا کہتے ہیں جب کوئی موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو سانپ نکل جانا کہتے ہیں شاہ نصیرؔ کا استادانہ شعر ہے۔

 

؂ خیالِ زلفِ بُتاں میں نصیرؔ پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

 

لکیر پیٹنا یوں بھی وقت گزر جانے پر کسی کام کو کرنا ہے جو بے سُود ہوتا ہے اور اُس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہوتا سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے ایک بہت اہم بات ہے کہ دشمن کو آپ نقصان پہنچائے مگر خود نقصان میں نہ پڑیں اگر خود ہی نقصان میں پڑ گئے اور سانپ مارنے میں لاٹھی ٹوٹ گئی تو گویا خود ہی خطرے میں پڑ گئے اور نقصان اٹھا گئے۔

سانپ خاص طور پر کالا سانپ کاٹتا نہیں ہے صرف پھَن مار کر رہ جاتا ہے جہاں اُس کے سامنے کوئی چیز آئی اور اُس نے پھَن مارا جب کہ کاٹنے کے لئے پلٹنا ضروری ہے سانپ کے دانت سیدھے نہیں ہوتے وہ پلٹ کر ڈنک مارتا ہے اگر پلٹ نہیں سکتا تو ڈنک بھی نہیں مار سکتا اور جب وہ پھَن پھیلائے ہوتا ہے تو پلٹ نہیں سکتا اسی لئے کاٹ نہیں سکتا اور یہیں سے یہ محاورہ پیدا ہوا کہ وہ سانپ کی طرح پھَن مارتا ہے۔

 

(۵)سانس نہ نکالنا۔

سانس لینا زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی سانس بھی احتیاط سے لیتا ہے بلکہ نہیں لیتا میرؔ کا شعر ہے۔ اس سلسلہ کے بہترین اشعار میں سے ہے۔

؂ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اِس کار گہہ شیشہ گری کا

سانس روکنا صوفیوں کا عمل بھی ہے جس کو وہ دمِ سادھنا بھی کہتے ہیں سانس نہ لے یہ بڑی دھمکی ہوتی ہے۔ جس کے لئے غالبؔ نے شعر کہا تھا۔

 

؂ دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا

عِشق نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا

 

یعنی جس میں ہمت نہیں ہوتی حوصلہ نہیں ہوتا وہ دھمکی میں مر جاتا ہے بلکہ دوسروں کی غضبناک نگاہوں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا اور اُس کا سانس رک جاتا ہے اور کہتے بھی ہیں کہ دیکھو سانس مت نکالو۔

 

(۶)سایہ پڑ جانا۔

ہم سایہ کو بہت پُر اسرار اور بھید بھرا سمجھتے ہیں پرچھائیوں کو اِسی زُمرے میں رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کس کی پرچھائی پڑ گئی سایہ ہو جانا جن بھُوتوں کا اثر ہو جانا ہے گلزارِ نسیم کا مصرعہ ہے۔

؂ سایہ ہو تو دوڑ دھوپ کیجئے سایہ  سر سے اٹھنا

یعنی اگر اوپَر کے پرایہ کا سایہ پڑ گیا ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے یہاں توہم پرستی کہ ذیل میں جو باتیں آتی ہیں اُن میں سایہ پڑنا بھی ہے نظر لگنے سے سایہ پڑنے تک توہم پرستانہ خیالات کا ایک سلسلہ ہے جس میں لوگ عقیدہ رکھتے ہیں اور طرح طرح سے یہ باتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور سماج کے مطالعہ میں مدد دیتی ہیں سایہ سر سے اٹھنا یتیم ہو جانا بزرگوں کی سرپرستی مہربانی اور عنایت کا۔

 

(۷)سب چیز کی لہر بہر ہے۔

اصل میں ہمارے معاشرے میں کمی بہت تھی غریب طبقہ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ گھڑے پر پیالہ بھی نہیں کئی محاورے اِس صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے میں نے روٹی پہ روٹی رکھ کے کھائی جس کا یہ مطلب ہے کہ بعض خاندانوں میں اتنی غربت ہوتی تھی کہ ایک ایک روٹی مشکل سے میسر آتی تھی اور  روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا تو معاشرتی طور پر خوش حال ہونا تھا سوکھے ٹکرے پانی میں بھگو کر کھانا بھی ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حصّہ رہا ہے۔ روکھی روٹی کا ذکر اب تک آتا ہے سالن بھی مشکل سے میسر آتا تھا گھی، پیسے چُپڑی ہوئی روٹی کسی کسی کے حصّہ میں آتی ہو گی۔

دیہات کی ایک مثل ہے جاڑا لگے یا پالا لگٹے دم کھچڑی فَنڈوے کی روٹی گھی چپڑی یعنی دم کی ہوئی کھچڑی اور فنڈوے کی روٹی کے لئے ترستے تھے اور جن لوگوں کو گیہوں کی روٹی میسر نہیں آتی تھی وہ چنے جُوار باجرہ اور فنڈوے کی روٹی کھاتے تھے اور یہ آئیڈیل تھا کہ اگر وہ گھی چُپڑی روٹی ہو تو کیا کہنا لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے تھے سیاں (سوئیاں ) ہوں پر کھیلا (اکیلا) ہو۔ اب بھی کہتے ہیں کہ اُن کے حالات تو بہت اچھے ہیں پیسے میں پیسہ اور چیز میں چیز ہے یعنی پیسہ بھی پاس ہے اور ضرورت کی چیزیں بھی پہلے زمانہ میں نہ پیسہ ہوتا تھا نہ ضرورت کی چیزیں ہوتی تھیں۔

 

(۸)سُبکی ہونا۔

سبک ہلکے کو کہتے ہیں جیسے سُبک ناک نقشہ والی لیکن معاشرہ میں سُبکی ہونے کے معنی ایک سطح پر بے عزت ہونے کے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ اُن کی سُبکی ہوئی۔ سُبکنا بچوں کے رونے کا ایک خاص انداز ہوتا ہے جسے سُبک سُبک کر رونا کہتے ہیں۔

 

(۹)سِتارہ چمکنا، ستارہ گردش میں ہونا۔ ستارہ پیشانی۔

ستارہ آسمان کے اُن ستاروں کو کہتے ہیں جو اپنی جگہ پر رہتے ہیں اِس کے مقابلہ میں ’’سیارہ‘‘ گھومنے والے سِتارے کو کہتے ہیں ہمارے معاشرے میں ستاروں سے قسمت کو وابستہ کیا جاتا ہے۔ اسی لئے قسمت کا ستارہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہ اُس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے اور اُس کے مقابلہ میں یہ کہ اُس کی قسمت کا ستارہ گردش میں ہے خوش قسمت آدمی کی پیشانی کو بھی ستارہ پیشانی کہا جاتا ہے اِس لئے کہ ہمارا ایک معاشرتی تصور یہ بھی ہے کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہے وہ ہماری پیشانی میں منقش ہے۔ اسی لئے قسمت کی برائی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پیشانی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ستارہ جبیں کے معنی بھی یہی ہیں کہ اس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے۔ ہم لڑکیوں کا نام مہہ جبیں رکھتے ہیں یعنی چاند جیسی پیشانی والی۔

 

(۱۰) ستّرا بہتّرا۔

عُمر کا حِساب اکثر ہمارے یہاں سماجیاتی فقروں میں لیا جاتا ہے یا اُس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جیسے ستّرا بہتّرا  یا ساٹھا پاٹھا جیسا کہ میر حسن نے لکھا ہے۔

؂ برس پندرہ یا کہ چودہ کا سِن

جوانی کی راتیں مُرادوں کے دن

یا محاورے کے طور پر کہتے ہیں انیس بیس کا فرق چھٹے چھماس میں بھی عدد شامل ہے چھٹی کے دُودھ میں بھی اور چلّا چھٹی میں بھی شامل شمار موجود ہیں۔

 

(۱۱) سِتم توڑنا، ستم ٹوٹنا۔

سماج کے ظالمانہ رو یہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی لئے ستم کرنے کو ستم توڑنا کہا جاتا ہے اس سے سماج کے محسوسات کا پتہ چلتا ہے وہ کس طرح اعمال کو دیکھتا اور اپنے محاورے کے اعتبار سے اس پر تبصرہ کرتا ہے۔

 

(۱۲) سِٹی گُم ہو جانا۔

حیرت یا خوف کی وجہ سے آدمی کا گُم سُم رہ جانا بول نہ سکنا محاورہ میں سِٹی گُم ہونا کہا جاتا ہے۔ محاورہ زبان میں جو تبدیلیاں کرتا ہے اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں جو نئے پہلو محاورے کے باعث پیدا ہوتے ہیں وہ سماجی لسانیات کے سلسلہ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور زبان کے سمجھنے کے معاملہ میں اس سے بڑی مدد ملتی ہے چُپ سادھنا اسی ذیل میں آتا ہے۔
(۱۳)سخت و سُست کہنا۔

ہمارا سماجی رو یہ گفتگو میں اکثر سامنے آتا ہے محبت کی زبان کچھ اور ہوتی ہے نفرت کی زبان کچھ اور اسی طرح طنز کی زبان اور  تعریف کی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ ناراضگی میں سخت و سُست کہا جاتا ہے اور خوشی میں اچھی اچھی باتیں کی جاتی ہیں اس سے لب و لہجہ بھی بدلتا ہے الفاظ میں بھی تبدیلی آتی ہے اور مغنیاتی سطح میں بھی اس پر غور نہیں کیا جاتا ورنہ سماج کے بہت سے ذہنی رو یہ زبان کے استعمال میں خود کو واضح کر دیتے ہیں۔ سخت و سُست کہنا بھی اسی سلسلہ گفتگو کا ایک خاص انداز ہے جس میں بُرا بھلا کہا جاتا ہے ڈرانا دھمکانا اس ذیل میں آتا ہے جو غصّہ کے عالم میں ہوتا ہے مگر ناراضگی کی ایک دوسری سطح ہے۔

 

(۱۴) سر آنکھوں چڑھنا، سر آنکھوں میں ہونا، سر آنکھوں سے آنا، سر آنکھوں پر رکھنا۔

سر ہمارے معاشرے میں احترام کی چیز ہے اسی لئے  سر جھکانا، سر جھکنا، سر چھپانا ایسے کچھ محاورات ہیں جو سر سے تعلق رکھتے ہیں۔

سرکے ساتھ آنکھیں ہماری معاشرتی زندگی کی اعضائی علامتوں میں بڑی علامت ہے۔ آنکھوں سے لگانا آنکھیں دیکھنا آنکھ رکھنا آنکھوں سے آنکھوں پیار کرنا، آنکھوں میں رکھنا جیسے بہت سے محاورے آنکھوں ہی سے متعلق ہیں۔ بعض محاوروں میں سر آنکھیں ایک ساتھ آتے ہیں جیسے سر آنکھوں رکھنا جس کے معنی ہیں بہت احترام اور  محبت سے رکھنا جیسے آپ کا خط آیا سر آنکھوں پر رکھا یا اُن کی بات تو سر آنکھوں پر رکھی جاتی ہے سر آنکھوں سے آنا یعنی بڑے احترام و عزت اور عقیدت کے ساتھ آنا اِس کے مقابلہ میں سرپر چڑھنا بے ادبی ہے اور بے ادبی کا یہ پہلو سر آنکھوں پر چڑھنے میں بھی موجود ہے۔

 

(۱۵) سرپر خاک ڈالنا، سر پر چھپَّڑ رکھنا۔

سرپر خاک ڈالنا انتہائی افسوس کی علامت ہے خاک مٹی کو کہتے ہیں دھول مٹی ایک عام ذہن کے لئے اس معنی میں قابلِ احترام نہیں ہے کہ وہ پیروں کے نیچے رہتی ہے روندی جاتی ہے اور ہوا کے ساتھ جب اڑتی ہے تو دوسری چیزوں پر بیٹھتی ہے اور انہیں میلا کرتی ہے دھُول سے اینٹھتی ہے اور گرد آلود کرتی ہے اسی لئے سرپر خاک ڈالنا اظہارِ ملال کرنا ہے۔

مٹھی بھر خاک بھی یہ کہیے کہ ایک بے قیمت شئے ہے اسی لئے مشت خاک بھی بے قیمت شے ہی کو کہتے ہیں سرپر رکھنا اپنی جگہ عزت دینے اور احترام پیش کرنے کو کہتے ہیں مگر سر پر چھپَّر رکھنے کے معنی ہیں ذمے داریوں سے دبا رہنا اور اُن کا بوجھ سرپر رکھا جانا زیادہ اولاد کی صورت میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اور سماجی نقطہ نظر سے اس تصور کی بے حد اہمیت ہے کہ اس کے سرپر قرض یا فرائض کا چھپَّر رکھا ہوا ہے اب تو چھپَّر یا  چھپریاں شہروں اور قصبوں میں کم دیکھنے میں آتی ہیں مگر کسی زمانہ میں تو غریبوں کے مکانوں میں چھت کی جگہ چھپریا چھپر یاں ہی ہوتی تھیں اور ان پر پھونس بھی نہیں ہوتا تھا۔ مندرجہ ذیل محاورات کو بھی اسی ذیل میں رکھنا چاہیے اور مختلف فکری زاویوں سے اُن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جیسے ’’سرپر ہاتھ رکھنا ‘‘پرورش یا تربیت کرنا ہے سر سے سایہ اٹھ جانا بزرگوں کی محبت اور  سرپرستی سے محروم ہونا ہے سرپر ناچنا ایک طرح سے بے عزتی کرنا ہے ’’سرپر ہاتھ دھر کر رونا ‘‘یا سر پکڑ کر رونا رنج و غم کا ایسے موقعوں پر غیر معمولی اظہار ہے جب آدمی کو کسی خاص معاملہ میں اپنی نارسائی اور ناکامی کا احساس بھی شدت سے شامل ہو سرپھرا ہونا، سر پھرنا، سر چکرانا جیسے محاورات بھی سر ہی سے متعلق ہیں اور ہماری سماجی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں سرپھرا ہونا غیر معمولی جوش و جذبہ رکھنا اسی لئے دوسروں کو ہم یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ارے بھئی وہ تو سر پھرے آدمی ہیں عجیب و غریب انسان ہیں اُن کی سوچ دوسروں کو سماجی سوچ سے بہت مختلف ہے۔

اس میں ہم ان محاورات کو بھی شامل کر سکتے ہیں جیسے سر کھپانا، سر جوڑنا، سر جوڑ کے بیٹھنا، سر جھاڑ منہ پہاڑ، سر توڑ کوشش انتہائی کوشش کو کہتے ہیں جس میں آدمی اپنے سر پیر کا کچھ خیال نہیں رکھتا سر جھاڑ منہ پہاڑ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو بے تکے انداز سے رہتا ہے کبھی بالوں میں کنگھا نہیں کرتا اپنے ہاتھ منہ کا خیال نہیں کرتا اور بے سر پیر کی بات کہتے ہیں ’’سر سے کھیلنا ‘‘اردُو کا مشہور محاورہ ہے جو کہاوت کا درجہ رکھتا ہے اثر کے تحت جھومنا بھی ہے اب تو نہیں مگر اب سے کچھ پہلے تک بعض عورتوں کے سرپر یہ کہا جاتا تھا کہ اُن کے سر ماموں اللہ بخش آتے ہیں اور تب ہی ان کا حال ہوتا ہے کہ اُن کے سامنے ڈومنیاں گیت گاتی ہیں اور  وہ سر سے کھیلتی ہے۔

سر سفید ہونا سفید بال ہو جانا عام طور سے سفید بال ہونے کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اس عورت یا مرد کی عمر کا فی ہو چکی ہے اور زیادہ عمر کے معنی ہیں زیادہ تجربہ اسی لئے یہ بھی کہا جا تا تھا کہ میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے ہیں اس کے پیچھے میری عمر اور  تجربہ موجود ہے۔

سر سنہرا ہونا جب کسی اچھے کام کی ذمہ داری کسی کے سر ہوتی ہے اور وہ اسے خوبصورتی سے انجام دیتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا سہرا اُس کے سر ہے ۔معنی اس سلسلہ میں کسی تعریف و تحسین عزت و عظمت کا سلسلہ میں مستحق فلاں شخص ہے۔ ویسے ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ ’’سر بڑا سردار کا پیر بڑا گنوار کا‘‘ یعنی جو عقلمند با شعور اور خوش نصیب ہوتا ہے’’ اس کا سر بڑا ہوتا ہے‘‘ اور جو گاودی گنوار ہوتا ہے اُس کے پیر بڑے ہوتے ہیں۔

اعضائے جسمانی میں بہت سے عضو ایسے ہیں جو محاورات میں شامل ہیں اُس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کو یا انسانی وجود کے مختلف حصّوں کو اپنی سوچ میں شامل رکھا ہے اور ان کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اور تجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گردن بھی ہے زبان بھی ہے ہاتھ پیر بھی ہیں اور تن پیٹ بھی ہے۔

 

(۱۶) سر سے چلنا، سرکے بل چلنا۔

سرکے بل چلنا بھی ان محُاورات میں ہے جو سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں پیروں سے چلنا الگ بات ہے اور گھٹنوں سے چلنا ایک دوسری بات ہے جسے گُڈلیاں چلنا کہتے ہیں جو بچوں کے لئے ہوتا ہے مگر سر سے یا سرکے بل دینا ویسے تو عجیب سی بات ہے لیکن محاورے کے طور پر یہ انتہائی احترام کے لئے آتا ہے کہ میں تو سر کے بل چل کے وہاں آؤں گا یا جاؤں گا۔

 

(۱۷)سر سے کفن باندھنا۔

’’سر سے کفن باندھنا‘‘ تہذیبی محاورات میں سے ہے اور اپنی معنویت کے لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ بعض آدمیوں میں یا قوموں میں جان دینے کا جذبہ بہت شدت سے ہوتا ہے وہی یہ کہتے بھی ہیں کہ میں ’’ سر سے کفن باندھے رہتا ہوں ‘‘ یعنی ہر وقت جان دینے کے لئے تیار ہوں۔ غالبؔ نے کہا ہے۔

؂ آج واں سر سے کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

غالباً  یہ دستور بھی رہا ہے کہ جو لوگ جہاد میں حصہ لیتے تھے وہ اپنے سر سے کفن باندھتے رہتے تھے تاکہ شہید ہونے کے بعد کسی کو اُس کے کفن دفن کی فکر نہ ہو۔

 

(۱۸) سر گریبان میں ڈالنا، سر در گریبان ہونا۔

یہ اُردو فارسی دونوں زبانوں میں بطورِ محاورہ آتا ہے یعنی سر جھکا کر سنجیدگی سے کسی بات کو لینا اور اپنی نارسائی یا غلطی کا اعتراف کرنا۔ سماج کے رویوں کا ہم محاورات میں جو مطالعہ کرتے ہیں اس کا اندازہ اس محاورے پر  غور کرنے سے ہوتا ہے کہ ہم با اعتبار فرد یا با اعتبار جماعت دوسروں کے لئے یا  پھر خود اپنے لئے کیا رو یہ اختیار کرتے ہیں سر گریبان میں ڈالنا اسی روش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

(۱۹)سر نیچا ہونا۔

یعنی جو آدمی بہت تکبّر کرتا ہے اور جس کی گردن گھمنڈ اور غرور کے ساتھ تنی رہتی ہے اس کو کبھی ذلیل بھی ہونا پڑتا ہے اسی کے لئے ہمارے یہاں محاورہ ہے غرور کا سر نیچا یعنی جو بہت گھمنڈ کرتا ہے وہی بہت بے عزت بھی ہوتا ہے۔

 

(۲۰) سسرال کا کُتا۔

’’کُتا‘‘ ایک جانور ہے جو آدمی کا وفادار ہے اور اُس کی قبائلی زندگی سے لیکر مہذب شہری زندگی تک ایک وفادار پالتو جانور کی حیثیت سے اِس کے ساتھ رہا ہے۔ اس پر بھی مشرقی اقوام نے اس کو کوئی عزت نہیں دی اور اس کا ذکر ہمیشہ ذلت کے ساتھ آیا اس محاورے میں بھی ایسے کسی آدمی کی سماجی حیثیت کو برائی سے یاد کیا گیا ہے جو ’’جوائی‘‘ (داماد) کی حیثیت سے سُسرال میں جا کر پڑ جائے یا بھائی ہو کر اپنی بیوہ کے یہاں جا کر رہنے لگے۔ اسی کے لئے یہ کہاوت ہے کہ بہن کے گھر بھائی ’’کُتا‘‘ اور ساس کے گھر ’’جوائی‘‘ کتا۔

 

(۲۱) سنبھالا لینا۔

قوموں کے لئے بھی یہ کہا جا تا ہے کہ انہوں نے سنبھالا لیا یعنی زوال کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ سدھر گئیں یعنی ان کے حالات کچھ بہتر ہو گئے بیمار کا سنبھالا لینا وقتی طور پر ہی سہی صحت کا بہتر ہو جانا ہے۔ ذوقؔ کا شعر ہے اور اس محاورے کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔

؂ بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا

لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

اس میں سنبھلنا سنبھالنا اور سنبھالا لینا تینوں چاروں آ گئے۔ ۱۹۲۰ء ؁ کے قریب ترکی کو مرد بیمار کہا جا تا تھا سنبھالا لیتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری زندگی ہماری تاریخ اور ہماری سماجی زبان کو پیش کرتے ہیں اور ایک حوالہ کا کام دیتے ہیں۔

(۲۲) سو جان سے عاشق ہونا، سو جان سے صدقے جانا، یا نثار ہونا یا نچھاور ہونا۔

ہمارے یہاں صدقے قربان ہونا محاورہ ہے صدقہ ایک مذہبی اصطلاح بھی ہے جس کے ساتھ صدقہ دینا آتا ہے یا صدقے کرنا آتا ہے یعنی کسی کی جان کی حفاظت یا مال کی حفاظت کے خیال سے خیرات کرنا۔ ہم اس عمل کو طرح طرح سے دہراتے ہیں مثلاً جب ڈومنیاں گاتی تھیں تو ان کو رواں پھیر کر کے روپے پیسے دیئے جاتے تھے وار پھیر اس شخص کے لئے ہوتی تھی جس کی جان کا صدقہ دینا منظور ہوتا تھا یہی صورت اس وقت ہوتی تھی جب بھنگنیں  بدھاوا پیش کرتی تھیں یعنی مبارک باد کے لئے گانا اور  ناچنا کسی کے ہاتھ سے فقیر کو پیسے دلوانا بھی صدقہ دینے یا صدقہ کرنے کے مفہوم میں شامل ہوتا تھا۔

قربان کرنا بھی اسی معنی میں آتا تھا دہلی میں اب بھی دستور ہے کہ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے نام پر جانور قربان کیا جاتا ہے ہندوؤں میں دُودھ دریاؤں میں بہانہ یا تالابوں اور پوکھروں کے کناروں پر جانور ذبح کرنے کو صدقہ کے مفہوم میں شامل کرتے تھے اب بھی راجستھان میں ایسا ہوتا ہے بنگال میں ’’ بھینا‘‘ قربان کیا جاتا ہے اِس کو بَلی چڑھانا کہتے ہیں۔

عربوں میں جس اوٹنی کو ایسے کسی مقصد کے لئے ’’نحر‘‘ کیا جتا تھا خاص طریقے سے کاٹنا تو بلیَّہ کہتے تھے انسان کی اپنی قربانی بھی دی جاتی تھی۔ قدیم قوموں میں اس کا دستور رہا ہے یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی قربان کئے جاتے تھے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ تو یہ سلوک عام تھا اور  اُن کی بوٹیاں کر کے چیلوں کوؤں کو کھلائی جاتی تھیں۔

ہمارے یہاں جس سے محبت کی جاتی ہے اُس پر اپنے آپ کو صدقہ و قربان کیا جاتا تھا۔ اور محاورے کے استعمال کے وقت سو جان سے صدقہ و قربان ہونے کی بات کی جاتی ہے۔

 

(۲۳) سُورج کو چراغ دِکھانا۔

سُورج ہماری دنیا کی سب سے روشن تابناک اور  حرکت و حرارت سے بھری ایک قدرتی سچائی ہے نورانی وجود ہے اسی لئے اس کی پوجا کی جاتی ہے اور قدیم قوموں کے زمانے سے اب تک ہوتی رہی ہے چراغ اس کے مقابلے میں انسان کی اپنی ایجاد ہے جس کا سورج سے کوئی مقابلہ نہیں۔

سماجی طور پر جب کسی ادنی بات یا ادنی دلیل کو کسی بڑی بات یا بڑی دلیل کے مقابلہ میں سامنے لا یا جاتا ہے تو اس عمل کو سُورج کو چراغ دکھانا کہا جا تا ہے۔ گلزارِ نسیم میں ایک موقع پر یہی محاورہ آتا ہے۔

 

؂ اُن کے آگے فروغ پانا

سورج کو چراغ ہے دکھانا

 

 (۲۴) سُولی پر چڑھانا، سولی دینا۔

موت کی سزاؤں میں ایک سے ایک اذیت ناک سزا موجود ہے اُن میں پھانسی دینا گردن اُڑانا اور اندھے کنویں میں پھینک دینا نیز ہاتھی کے پیروں سے کچلوا دینا اور زندہ دیوار میں چُنوا دینا بھی ہے۔ ’’سُولی دینا‘‘ رومیوں کی طرف سے دی جانے والی سزا ہے حضرت عیسیٰ کو مشرقی رومی سلطنت کی طرف سے سُولی پر چڑھانے کی سزا دی گئی تھی اس سزا میں سولی یا صلیب پر آدمی کو لِٹا کر اس کے ہاتھ پیروں میں کیلیں ٹھوک دی جاتی تھیں اس کے سر سے کانٹے دار زنجیر باندھ دی جاتی تھی۔ اور اس طرح سے وہ آدمی سولی پر لٹکایا جاتا تھا جس کو موت کی سزا دینی ہوتی تھی۔

اردُو میں حضرت عیسیٰ کے اِس المناک انجام کے ساتھ وابستہ خیال ہی سولی دینے کے محاورے کو بامعنی بناتا ہے یعنی اذیت ناک سزا دینا سخت نقصان پہنچانا ہم محاوروں کی تاریخ پر بھی اگر غور کریں تو بہت سے محاورے یہ بتلاتے ہیں کہ وہ کب رائج ہوئے کیوں رائج ہوئے مغربی قوموں کو جو بیشتر عیسائی تھیں ہندوستان آنے کے بعد اس محاورے کے مروج ہونے کا زیادہ امکان ہے اور مروج ہونا رواج پانے کو کہتے ہیں۔

 

(۲۵) سونے کا نوالہ کھانا، سونے میں لدی پھندی ہونا۔

سونا ہمارے ہاں کا اور پوری دنیا کا سب سے قیمتی دھات ہے اسی لئے سونے کو بے حد پسند کیا جاتا ہے اور عورتیں سونے کا زیور پہن کر بہت خوش ہوتی ہیں اور اس پر دوسرے رشک کرتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ’’سونے میں لدی پھندی‘‘ رہتی ہیں یا یہ محاورہ کہ سونے کا نوالہ کھائی سے دیکھے قہر کی نظر اس موقع پر ’’سینی ‘‘شیر پر کی نظر بھی کہتے ہیں۔ ؂

 

(۲۶) سونے کی چڑیا ہاتھ میں آنا یا ہاتھ لگ جانا،سونے کی ڈلی ہاتھ آنا۔

سونے کی چڑیا بہت قیمتی شے کو کہا جاتا ہے اور اگر وہ قیمتی شے یا خاندان یا زمین کسی کو مل جائے تو کہتے ہیں کہ سونے کی چڑیا ہاتھ لگ گئی اور اس سے پھر ایک مرتبہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سونے کی کیا اہمیت ہے دولت کی دیوی یعنی لکشمی کی پوجا توکی جاتی ہے دولت کو بھی پوجا جاتا ہے اور  خاص طور پر سونے کو یا روپیہ پیسے کو ایک محاورہ اور بھی ہے اب تک استعمال میں آتا رہا ہے۔

سونے کے سہرے بیاہ (شادی) ہو جس کے معنی ہیں کہ شادی تمہارے لئے خوشیوں کا باعث ہو اور جو دلہن گھر میں آئے وہ سونا جھونا لیکر آئے (یہاں جھونا کوئی دھات نہیں ہے بلکہ سونے کا قافیہ ہے جس کے اپنے الگ سے کوئی معنی نہیں ایسے کسی بھی لفظ کو تابع  مُحمل کہتے ہیں۔) ’’سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا‘‘۔ ’’سونے کی ڈلی ہاتھ آنا ‘‘، سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا‘ جس آدمی کو کوئی ہنر ہاتھ آتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو سونے کی ڈلی ہاتھ میں لئے بیٹھا ہے سونا اُچھالتے جانا بھی ایک محاورہ ہے۔ یعنی وہاں چور چکار اٹھائے گرے یا ڈکیتی کرنے والے بالکل نہیں ہے چاہے کوئی سونا اُچھالتے جائے یعنی کسی کی دولت یا مال کو کوئی خطرہ نہیں وہ پوری طرح حفظ و امان میں ہے۔

سنہرے حرفوں میں لکھنا یا سونے کے حروف میں لکھنا بھی سونے کی اہمیت یا  قدر و قیمت کو ظاہر کرنے والا محاورہ ہے جس سے مُراد کوئی ایسا اہم قول ہے بات ہے یا حکیمانہ نکتہ ہے جس کو سونے کے حرفوں میں لکھا جانا چاہیے سونے کا ملمع ہونا یا کیا جانا کم قیمت دھات پر سونے کا ملمع کیا جا تا ہے یعنی اوپر سے وہ بالکل سونے کی چیز معلوم ہوتی ہے جبکہ وہ دراصل سونے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوتا ہے جب کسی کو خوش حالی کی دعا دینی ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ تم سونے کی کٹوری میں پانی پیو سونے کے برتنوں میں کھانا کھاؤ۔

 

(۲۷) سُہاگ رات۔

سُہاگ یعنی شوہر کا ساتھ‘ عورت کے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے اسی لئے دعا دی جاتی ہے کہ سہاگ رہے‘ ترا سائیں جیوے‘ تیرے سر والے کو اللہ رکھے۔   سسُرال میں گزاری جانے والی پہلی رات اس کے لئے سہاگ رات کہلاتی ہے اور اُس پر دولہا دلہن کو اور دونوں طرف کے سمندھانوں کو مبارک باد دی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماجی رشتوں کا قیام اسی رشتہ سے وابستہ ہوتا ہے جس کی خوبصورت یاد اور نشانی سہاگ رات سے وابستہ ہوتی ہے۔

سُہاگ اترنا اس کے مقابلہ میں بہت بدقسمتی اور نحوست کی بات ہوتی ہے بعض قومیں سرکے بال اتروا دیتے ہیں رنگیں کپڑے چوڑیاں اور زیورات تو عام طور پر سُہاگ سے محروم ہونے کے بعد عورتیں اتار دیتی ہیں ایسے موقعوں پر جو ایک سُہاگن کے لئے جو سہاگ سے محروم ہو گئی ہو بہت ہی المناک بات ہوتی ہے یہی سہاگ اترنا بھی ہے۔

ہمارے یہاں عورتوں کو ایک دعا یہ بھی دی جاتی ہے جو ہمارے سماج کا آئیڈیل ہے کہ تم بوڑھی سہاگن ہو یعنی بڑھاپے تک سہاگ قائم رہے’’ سُہاگ‘‘ سے محروم قدیم قوموں میں اتنی بڑی بات سمجھی جا تی تھی کہ بیوہ ہو جانے والی عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ زندہ دفن کر دیا جاتا تھا یا ستی کی رسم کے مطابق زندہ جلا دیا جاتا تھا مصر میں بادشاہوں کی موت کے بعد اس سے وابستہ بیویاں اور باندیاں زہر ملا کر ماردی جاتی تھیں۔

 

(۲۸) سیپی جیسا منہ نکلنا یا نکل آنا۔

کمزور ہو جانے کو کہتے ہیں جب آدمی کے چہرے پر ذرا بھی گوشت دکھائی نہ دے صرف کھال اور  ہڈیاں رہ جائیں تو اس حالت کو سیپی جیسا منہ نکل آنا کہتے ہیں اس سے ہم اپنے سماج کی شاعرانہ روش کو سمجھ سکتے ہیں شاعر تو تشبیہیں اور استعارے پیدا کرتے ہی ہیں عام آدمی بھی اپنی بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے تشبیہات کا سہارا لیتا ہے سیپی سے دبلے پتلے منہ کو تشبیہہ دینا اسی فکری عمل کا نتیجہ ہے جس سے کسی معاشرے تہذیبی مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

(۲۹) سیج چڑھنا، شبِ زفاف

دراصل شادی شدہ ہونے کو کہتے ہیں شادی کے معنی ہیں عورت و مرد کے آپسی طور پر جنسی روابط جس کے لئے ایک شادی ہو جانے والے جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور خلوت میں اظہارِ تعلق کرنے کا موقع مل جاتا ہے اسی لئے ان کی جائے ملاقات کو سیج چڑھنا کہتے ہیں یہ تعلق زندگی کا سب سے اہم رشتہ ہے کہ سارے واسطے اسی ایک تعلق کے مرکزی دائرے کے گرد گھومتے ہیں اگر سیج کا یہ رشتہ درمیان میں نہ ہو تو باقی رشتے بھی جو خون سے تعلق رکھتے ہیں اور نسل سے وابستہ ہیں باقی نہ رہیں اور قائم ہی نہ ہوں ’’ شبِ زفاف‘‘ بھی جسے دلی والے’’ تخت کی رات‘‘ کہتے ہیں اسی ضمن میں آتا ہے مزید ملاحظہ ہو سہاگ رات۔

بعض الفاظ محاورے اور لفظی ترکیبیں اہلِ علم سے تعلق رکھتی ہیں بعض اہلِ ادب سے اور بہت سے لفظ طبقہ عوام سے۔

 

(۳۰) سیدھیاں چڑھنا۔

اس اعتبار سے ایک اہم محاورہ ہے کہ سیدھ اور  سیدھی قدیم ہندو تہذیب کا ایک مقدس مرحلہ ہے یعنی گیان حاصل ہونا جب کہ یہاں بالکل اُس کے خلاف بات کہی گئی ہے اور اس سے سماج کے اُس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ سچائیاں اور اچھائیاں کس طرح اپنے معنی بدل دیتی ہیں اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں۔

’’سیدھانا‘‘ یا  سُدھانا ہماری زبان میں تربیت کرنے کے معنی میں آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ سدھایا ہوا آدمی ہے یابندہ۔ ہندو کلچر میں سادھنا ‘دھیان‘ گیان کی ایک صورت ہے اسی لئے ایک خاص طبقہ کے لوگ ’’سادھو‘‘ کو کہتے ہیں جو ہندو کلچر میں ایک بہت اہم روحانی تربیت کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر سیدھا کرنا ایک ٹیٹرھی  میڑھی چیز کو یا بُرے کردار کو درُست کرنے کے لئے آتا ہے اور سدھّی کا مفہوم اُس سے غائب ہوتا ہے۔

 

 (۳۱) سیدھی انگلیوں گھی نکالنا یا سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا ہے۔

محاورے کے ساتھ زندگی کا جو تجربہ شریک رہتا ہے محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے لیکن اُس کے ایک مرادی معنی بھی اُس میں لازمی طور پر شریک رہتے ہیں اُس کے بغیر محاورہ بنتا ہی نہیں یہاں بھی وہی صورت ہے کہ یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ کچھ اس طرح کے لوگ ہیں یا ایسی عادتوں والا ایک شخص ہے کہ اس سے سیدھے سادھے طریقے پر کام نہیں لیا جا سکتا کوئی نہ کوئی تگڑم بازی یا مکاری اپنے عمل میں شامل کر کے کام نکالا جا سکتا ہے۔

اس سے ہم سماجی مطالعہ میں مدد لے سکتے ہیں کہ معاشرے کی صورت اور  اس کا طریقہ رسائی کیا بنتا ہے ؟ کیوں بنتا ہے اور اس کا اظہار کس طریقہ پر ہوتا ہے۔

دودھ نکالنا بغیر انگلیوں کو موڑے ہوئے ممکن نہیں ہوتا اور اگر سیدھی انگلیوں دُودھ نہیں نکل سکتا تو گھی کیسے نکل آئے گا وہ تو ایک پیچیدہ عمل ہے دودھ نکالو پھر گرم کرو اس کے بعد اس کو بلونے کے لئے خاص طرح کے برتن اور  رہی کا استعمال کرو پھر کچا گھی نکلے گا اور اس میں سے گرم کر کے چھاچھ الگ کی جائے گی تب گھی نکلے گا تو سیدھی انگلیوں کہاں نکلا۔ دودھ نکالنے سے لیکر گھی نکالنے تک بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کام کو کرنے یا اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے کئی مشکل ترکیبیں اختیار کرنی ہوں گی سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا۔

 

(۳۲) سیر کو سوا سیر موجود ہے۔

آدمی مکاریّ فریب زبردستی سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس طاقت زیادہ ہے فریب کرنے یا فریب کی صلاحیت موجود ہے ایسی صورت میں یہ کہتے ہیں کہ اس ہوش میں نہ رہو سیر کو سوا سیر موجود ہے یعنی اگر تم بُرے ہو تو تم سے زیادہ اور بُرے موجود ہیں۔

بُرائی کو برائی سے ختم کرنے کا عمل بھی سماج کا ایک ایسا عمل ہے جس کے حوالہ سامنے آتے رہتے ہیں اور اس پہلو کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

 

(۳۳) سیلا کر کے کھانا۔

’’سیلا‘‘ کے معنی ہیں بھیگا ہوا اسی لئے نم خوردہ شے کو’’ سیلا‘‘ کرنا یا ہونا کہتے ہیں غریب معاشرے میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو کر کھائے جاتے تھے اور نمک کی ڈلی ساتھ رکھی جاتی تھی ’’سیلے‘‘ کر کے کھانا غالباً اسی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کو ٹھنڈا کر کے کھانا بھی کہا جاتا ہے مراد یہ ہے کہ بے صبرے پن کا اظہار نہ کرو گرم گرم کھانے سے منہ جلتا ہے۔ معدے کو نقصان پہنچتا ہے یہ تو ایک طبعی بات ہوئی لیکن تہذیب و شائستگی اور کھانے کے آداب کا لحاظ رکھنا یہ بھی ہے کہ گرم گرم کھانے پر ایک دم سے ہاتھ نہ ڈالا جائے اور ضرورت کے مطابق ٹھنڈا کر کے کھایا جائے سماجی حیثیت سے کسی بھی کام کو سلیقہ سے اور مناسب وقت دیکھ کر انجام دینا زیادہ بہتر بات ہوتی ہے اور جلد بازی کو شیطان کا کام خیال کیا جاتا ہے۔

 

(۳۴) سینہ ابھار کر چلنا۔

یہ سماجی رو یہ ہے اور اس کے ذیل میں انسان کی اخلاقی روشیں آتی ہیں سر جھکا کر چلنا شرافت اور تابع داری کی علامت داری اور بڑائی کی شناخت کا خیال کیا جاتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ بازار میں سر اٹھا کر اور سینہ تان کر چلتا ہے یہی معنی سینہ اُبھار کر چلنے کے بھی ہیں جس سے انسان کی ذِہنی اور نفسیاتی حالت کا پتہ چلتا ہے سینہ کے ابھار صنفی علامتیں ہیں جو’’ عنفوانِ شباب‘‘ میں ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے انہیں آثارِ شباب بھی کہا جاتا ہے اس سے ہماری معاشرتی زندگی کے اشارات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس بات کو ہم کس طرح ظاہر کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ مہذب طبقہ کا سلیقہ اظہار کچھ اور ہوتا ہے۔

درمیانی طبقہ کا کچھ اور  اور نچلے طبقے کا کچھ اور اسی کے مطابق الفاظ کا چناؤ عمل میں آتا ہے الفاظ آزاد نہیں ہوتے بلکہ ذہنی حالتوں کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالتیں سماجیات کی پابند ہوتی ہیں۔

 

(۳۵) سینہ بہ سینہ۔

سینہ سے یہاں مُراد’’ دل‘‘ ہے اور اُردُو شاعری میں جب سینہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُس سے مُراد’’ دل‘‘ ہی ہوتا ہے اس لئے کہ جذبات و احساسات کا مرکز سینہ نہیں دل ہوتا ہے کسی بات کا اس اعتبار سے ذکر کہ وہ ابھی سینہ بہ سینہ ہے اس معنی میں ہوتا ہے کہ اس کا حال کچھ خاص لوگوں ہی کو معلوم ہے سب کو نہیں۔ ابھی تک ہے یہ راز سینہ بہ سینہ ہے۔

 

(۳۶) سینہ سپر ہونا۔

سینہ سپر کے معنی ہیں مقابلہ کے لئے تیار ہونا یا مقابلہ کرنا سپر ڈھال کو کہتے ہیں تیغ یعنی تلوار کے ساتھ ڈھال کا ہونا ضروری تھا کہ تلوار کا وار ڈھال پر ہی روکا جاتا تھا اور جب آدمی غیر معمولی طور پر اپنی بہادری کو ظاہر کرتا تھا تو وہ خود یا اس کے بارے میں کوئی دوسرا شخص یہ کہتا تھا کہ وہ ہمیشہ سینہ سپر رہے ہیں اس سے ایک زمانہ کی تہذیبی فضاء کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی معاشرتی کا ذہن اور اُس کے ساتھ زبان اظہارِ حقیقت کے کیا معنی رہے ہیں۔

 

(۳۷) سینہ زوری کرنا۔

زور زبردستی کرنے کو کہتے ہیں یہ بھی ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ اور بیشتر غیر ضروری طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی کو سینہ زوری کہا جاتا ہے۔

 

(۳۸) سینے سے لگانا۔

اظہارِ محبت کرنا اپنوں کی طرح پیش آنا اور اچھا سلوک کرنا اس لئے کہ انسان ملتا ہے باتیں کرتا ہے معاملہ کرتا ہے مگر ہر ایک کو اپنے سینہ سے نہیں لگاتا دل سے قریب نہیں کرتا سینہ سے لگا نے کے مفہوم میں دل سے قریب کرنا اور دل میں جگہ دینا شامل ہے۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’ش‘‘

 

 (۱) شاخ در شاخ ہونا۔

کئی پہلو نکلنا یا نکالنا شاخ دراصل کوئی معاملہ مسئلہ یا مقدمہ بھی ہوتا ہے درخت کی ڈالی یا شاخ تو اپنی جگہ ہوتی ہی ہے اور شاخ کا یہ انداز قدرتی طور پر ہوتا ہے کہ شاخ میں سے شاخ نکلتی رہتی ہے اور ایک پہلو کے مقابلہ میں یا اُس کے علاوہ کوئی دوسرا پہلو سامنے آتا رہتا ہے ہمارے سماجی معاملات ہوں یا گھریلو مسائل کاروبار سے متعلق کوئی بات ہو یا اس کا تعلق انتظامی امور سے ہو شاخ در شاخ ہوتے رہتے ہیں بات میں سے بات اور  نکتہ میں سے نکتہ ہماری عام گفتگو میں بھی نکلتا رہتا ہے۔

 

(۲) شاخِ زعفران۔

زعفران ایک خوشبودار شے ہوتی ہے جس کا اپنا پودا بھی ہوتا ہے اور  کشمیر میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ زعفران کا کھیت دیکھ کر ہنسی آتی ہے اسی لئے جو آدمی خوش مزاج ہوتا ہے اور ہنسنے ہنسانے کی باتیں کرتا رہتا ہے اُسے شاخِ زعفران کہا جاتا ہے۔

 

(۳) شاخسانہ نکالنا یا نکلنا۔

کسی بات کے ایسے پہلو یا نتیجے نکلنا جو پہلے سے نظر میں نہ ہوں شاخسانے نکلنا یا نکالنا کہا جاتا ہے اور ہماری معاشرتی زندگی میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور لوگوں کو اس کا شوق ہوتا ہے کہ وہ نئے نئے نتیجے نکالتے رہتے ہیں اور اُس میں لوگوں کو لطف آتا ہے آخر بات کا بتنگڑ بنانا بھی تو ہمارے معاشرے کا ایک سماجی رو یہ ہوتا ہے اسی طرح شاخسانے نکالنا ہمارے معاشرے کا خاص انداز ہے سورج کا ڈھنگ ہے۔

 

(۴) شادیِ مرگ ہونا۔

اتنی خوشی ہونا کہ آدمی کی حرکت قلب بند ہو جائے کہ اس پر موت طاری ہو جائے انسان ایک جذباتی جاندار ہے وہ ایک وقت میں اتنا ناراض ہوتا ہے کہ دوسرے کا خون کر جاتا ہے یہاں تک کہ خون کو پی لیتا ہے جگر چبا لیتا ہے آدمی کی بوٹیاں چیل کوَّے کو کھلا دیتا ہے اتنا مہربان ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے عشق کرتا ہے تو جنگل جنگل صحرا صحرا بھٹکتا ہے بقولِ فراقؔ۔

؂ پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے

وہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے

انسان کی جذباتیت کا ایک پہلو جو محاورہ بن گیا وہ یہ بھی ہے کہ اپنی غیر معمولی حیثیت کے زیر اثر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس لمحہ پر مر مٹتا ہے اس محاورے میں ایک طرح سے انسان کے جذبات اور حسّیات پر روشنی ڈالی گئی ہے جواس کے معاشرتی روشوں پر اثرانداز ہونے والی سچائی ہے۔

 

(۵) شامت آنا، شامت سر پر کھیلنا، یا شامت اعمال ہونا

ہر عمل اپنا نتیجہ رکھتا ہے اگر عمل اچھا ہو گا تو نتیجے بھی اچھے ہوں گے اگر عمل خراب ہو گا تو نتائج بھی برے نکلیں گے یہ ہماری سماجی مذہبی اور تہذیبی سوچ ہے۔ اسی لئے برے عمل کے نتیجے کو شامت آنا کہتے ہیں اور  اردو میں شامت کے معنی ہی برے نتیجے کے ہیں کسی مصیبت کے پھنسے کو شامت آنا کہتے ہیں غالبؔ کا شعر ہے۔

؂ گدا سمجھ کے وہ چُپ تھا مری جو شامت آئی

اٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے

 

(۶) شاہ عبَّاس کا عَلم ٹوٹنا۔

تعزیہ داری اور مجالسِ محرم کا ایک نہایت اہم مرحلہ ’’عَلم‘‘ نکالنا ہوتا ہے یہ محرم کی سات تاریخ کی رسم ہے اس تاریخ کو محرم کے ’’عَلم‘‘ اٹھائے جاتے ہیں ان میں ایک خاص ’’عَلم‘‘ وہ ہوتا ہے جس میں اوپر کی طرف ایک چھوٹی سی مُشک لٹکی ہوتی ہے یہ حضرت عباس کا’’ عَلم‘‘ ہوتا ہے مشک اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضرت عباس کا علم ہے جو سقّہ حَرم کہلاتے تھے اور کربلا میں جب اہلِ بیت پر پانی بند کیا گیا تھا تو وہی دریائے فرات سے پانی مشک بھرکر لائے تھے اور دشمنوں کا مقابلہ کیا تھا۔

حضرت عباس کا ’’عَلم‘‘ خاص طور پر احترام کا مستحق قرار دیا جاتا ہے اور حضرت عباس کی درگاہ واقع لکھنؤ پر ’’عَلم‘‘ چڑھانا شیعوں کے یہاں ایک مذہبی رسم بھی ہے جو منت کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔

حضرت عباس حضرت اِمام حسین کے چھوٹے بھائی تھے مگر ان کی ماں دوسری تھیں حضرت عباس حضرت امام حسین کے بڑے وفادار اور اہلِ بیت کے نہایت ہی فداکار تھے حضرت عباسؑ کے’’ عَلم‘‘ کے ساتھ ٹوٹنے کا محاورہ بھی آتا ہے جو ایک بددعا ہے اور بدترین سزا خیال کی جاتی ہے جسے ہم کہتے ہیں جھوٹے پر خدا کی مار پڑے۔

 

(۷) شرع میں رخنہ ڈالنا،شرع پر چلنا۔

شرع سے مُراد ہے شریعت اسلامی دستور اور قانون اور مذہبی قانون اسی لئے اُس کا احترام بہت کیا جاتا ہے اور ذرا سی بات اِدھر اُدھر ہو جاتی ہے تو اُسے مولویوں کی نظر میں بِدعت کہا جاتا ہے اور مذہب پسند طبقہ اسے شرع میں رخنہ ڈالنا کہتا ہے ’’رخنے ڈالنا‘‘ خود بھی محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں اڑچنیں پیدا کرنا رکاوٹیں کھڑی کرنا اس سے ہمارے معاشرتی طبقہ کے ذہنی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کن باتوں پر زور دیتے ہیں اور کن رویوں کو کس طرح سمجھتے ہیں اور پھِر کنِ الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہیں الفاظ کا چناؤ ذہنی رویوں کا پتہ دیتا ہے۔

محاورے میں الفاظ کی جو نشست ہوتی ہے اُسے بدلا نہیں جاتا وہ روزمرہ کے دائرے میں آ جاتی ہے جس کا تربیتی ڈھانچہ توڑنے کے اہلِ زبان اجازت نہیں دیتے وہ ہمیشہ جوں کا توں رہتا ہے یہ محاورے کی ادبی اور سماجی اعتبار سے ایک خاص اہمیت ہوتی ہے شرع پر چلنا ایک دوسری صورت ہے یعنی قانونِ شریعت کی پابندی کرنا جس کو ہم اپنے سماجی رویوں میں بڑی اہمیت دیتے ہیں۔

 

(۸) شرم سے پانی پانی ہونا۔

ہمارے ہاں جن محاوروں کی خاص تہذیبی اہمیت ہے اُن میں اظہارِ ندامت کرنے سے متعلق محاورے بھی ہیں اِس سے معاشرے کے عمل و ردِ عمل کا پتہ چلتا ہے ایک عجیب بات یہ ہے اور اس سے سوسائٹی کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہماری زبان میں شکر یہ سے متعلق محاورے کیا ہوتے شکر یہ کا لفظ بھی قصبات اور دیہات کی سطح پر موجود نہیں ہے ہندی میں بیشک ابھاری ہونا کہتے ہیں مگر دیہات  و قصبات کی سطح پراس لفظ کی پہنچ بھی نہیں ہے اس کے مقابلہ میں اظہارِ شرمندگی کے لئے ایک بہت پرکشش اور بامعنی محاورہ آتا ہے اور وہ ہے شرم سے پانی پانی ہونا۔

 

(۹) شوشہ اُٹھانا، شوشہ نکالنا۔

یہ تحریر و نگارش کی ایک اِصطلاح ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں حرف کی شکل کو ایک ایسی صورت دینا جو اِملا کے اعتبار سے زیادہ واضح اور زیادہ صحیح ہو اُردُو رسم الخط میں فنِّ کتابت کی بہت سی نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے اس میں شوشہ لگانا اور شوشہ دینا بھی شامل ہے اس سے اُردُو میں جو محاورہ بنا ہے اس کی سماجی اہمیت بہت ہے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں اعتراض کرتے ہیں اور نئے پہلو نکالتے ہیں اسی کو شوشہ نکالنا بھی کہا جاتا ہے۔ شوشہ نکالنا بات چیت سے تعلق رکھتا ہے اور شوشہ لگانا تحریر سے مطلب اعتراض کرنا اور کمزوریاں دکھانا ہوتا ہے۔ تحریر یا تقریر کی اصطلاح یا  تصحیح پیش نظر نہیں ہوتی جس سے ہمارے معاشرتی رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔

 

(۱۰)شِکار ہونا، شِکار کرنا۔

شِکار انسان کا قدیم پیشہ ہے اِسی کے سہارے اُس نے ہزارہا برس پہاڑوں اور جنگلوں میں گزارے ہیں وہ جانوروں کا شکار کرتا تھا اور انہی سے اپنا پیٹ پالتا تھا اُن کے پروں سے اپنے بدن کو سجاتا تھا اُن کی ہڈیوں سے اپنے لئے زیور اور ہتھیار تیار کرتا تھا اور اُن کی کھال پہنتا تھا۔

انسان کی قدیم تاریخ اُس کے شکار کی تاریخ ہے اور  اُس کے تمدّن میں جانور طرح طرح سے شریک تھے اب سے کچھ دنوں پہلے تک بھی شکار کا شوق بہت تھا۔ شکار پارٹیاں نکلتی تھیں نشانہ باز ساتھ ہوتے تھے اور شکار تقسیم کیا جاتا تھا اور تحفتاً بھیجا جاتا تھا تاریخ میں بادشاہوں کے شکار کا ذکر آتا تھا اور  اس میں کیا کچھ اہتمام ہوتا تھا اس کا بھی ہماری سماجی زندگی میں شکار جن جن اعتبارات سے حوالہ بتا رہا ہے اسی کا اثر زبان اور محاورات پربھی مُرتب ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ شکار کرنا اور شکار ہو جانا ایک خاص محاورہ بن گیا جس کے معنی ہیں فریب دینا اور فریب میں آ جانا بہرحال یہ بھی ہماری سماجی زندگی ہے کہ ہم طرح طرح سے فریب دیتے ہیں۔ اور فریب میں آ بھی جاتے ہیں۔

 

(۱۱) شکل بگاڑنا، شکل بنانا ،شکل سے بیزار ہونا۔

شکل یعنی صورت ہماری تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے اسی لئے کہ آدمی اپنی شکل و صورت سے پہچانا جاتا ہے اور ہم دوسروں سے متعلق اپنے جس عمل ورد عمل کا اظہار کرتے ہیں اس میں صورت شامل رہتی ہے فنِ تصویر اور فنِ شاعری میں صورت کی اہمیت بنیادی ہے اور وہ اِن فنون کی جس میں بُت تراشی بھی شامل ہے ایک اساسی علامت ہے۔

حیدرآباد والے صورت کے ساتھ اُجاڑ کا لفظ لاتے ہیں اُجاڑ صورت کہتے ہیں یہ وہی منحوس صورت ہے جس کے لئے ہم اپنے محاورے میں کہتے ہیں کہ اس کی شکل میں نحوست برستی ہے۔ غالبؔ کا ایک مشہور شعر ہے۔

؂ چاہتے ہیں خوب روُیوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیئے

مُنہ دیکھنا مُنہ دکھانا منہ دکھائی جیسی رسمیں اور محاورے بھی ہمارے ہاں بھی طنز و مزاح کے طور پر بھی صورت شکل کا حوالہ اکثر آتا ہے اور اُس معنی میں شکل سے متعلق محاورے یا محاوراتی اندازِ بیان ہماری زبان اور شاعری کے نہایت اہم حوالوں میں سے ہے۔

 

(۱۲) شکم پرور، شِکم سیر، شکم پُوری۔

پیٹ سے متعلق مختلف محاورات میں آنے والے الفاظ ہیں جس میں بنیادی علامت شِکم ہے۔ یعنی پیٹ بھرنا ہر جاندار کا ضروری ہے کہ اسی پر اُس کی زندگی کا مدار ہے۔ پیٹ کا تعلق تخلیق سے بھی ہے اور ہم’’ حمل‘‘ سے لیکر بچے کی پرورش تک بدن کی جن علامتوں کو سامنے رکھتے ہیں ان میں پیٹ بہت اہم ذہنی حوالوں کا درجہ رکھتا ہے پیٹ سے ہونا پیٹ رہنا جیسے محاورے شِکم ناگزیر طور پر شریک رہتا ہے اسی لئے کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ شِکم سیر ہو کر کھایا یا شِکم سیر ہوا۔

شِکم ’’پوری‘‘ کا مفہوم اس سے تھوڑا مختلف ہے یعنی صرف پیٹ بھرنا اچھی طرح یا بُری طرح اچھی چیزوں سے یا بُری چیزوں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت کھاتے ہیں اور خود غرضانہ انداز سے دوسروں سے چھین کریا ان کا حق مار کر کھاتے ہیں ایسے لوگ شکم پرور کہلاتے ہیں۔ اور زندگی بھر شکم پروری کرتے رہتے ہیں اگر ہم اِن محاورات پر غور کریں اور اُن کے معنی اور معنویت کو اپنی سماجی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معمولی محاورے ہمیں کس طرح سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں یا اُس کی دعوت دیتے ہیں۔

 

(۱۳) شگُون کرنا، شگون ہونا۔

شگُون ہمارے ہندوستانی معاشرے کا ایک اہم سماجی رو یہ ہے ہم ہر بات سے شگُون لینے کے عادی ہیں ’’کو ا‘‘ بولا ’’بلی‘‘ سامنے آ گئی صبح صبح ہی کسی ایسے شخص کی شکل دیکھی جو ہمارے معاشرے میں منحوس سمجھا جاتا ہے اُردُو کا ایک شعر ہے جو شگون لینے کی روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

؂ جس جگہ بیٹھے ہیں با دیدۂ غم اٹھّے ہیں

آج کس شخص کا منہ دیکھ کے ہم اٹھّے ہیں

اس طرح سے شگون لینا یا شگون ہونا خوشی غم کسی کام کرنے کے ارادے سے گہرا تعلق رکھتا ہے ہم استخارہ کرتے ہیں فال نکالتے ہیں یہاں تک کہ دیوانِ حافظ سے فَال نکالتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ایشیائی مزاج شگون لینے اور  شگون دیکھنے سے کیا رشتہ رکھتا ہے۔

ہندوؤں میں شبھ گھڑی شادی کرنے سے پہلے دیکھی جاتی ہے مغل حکومت کے زمانہ میں بھی اس طرح کا رواج موجود تھا یہاں تک کہ جشنِ نو روز منانے کے سلسلے میں وہ نجومیوں سے پوچھتے تھے اور لباس کا رنگ طے کرتے تھے۔

؂ اڑتی سی ایک خبر ہے زبانی طُیور کی

غالبؔ کا یہ مصرعہ اُردُو کے اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

(۱۴)شگوفہ چھوڑنا، شگوفہ کھِلنا۔

شگوفہ’’ کلی‘‘ کو کہتے ہیں ’’ کلی‘‘ کی پھول کے مقابلہ میں الگ اپنی پرکشش صورت اور ایک دل آویز سیرت ہوتی ہے جس کی اپنی خوبیوں کو اہلِ فن اور  اصحاب فکر کی نگاہوں نے سراہا ہے۔

شاعروں نے طرح طرح سے اس کی خاموشی دل کشی اور پُر اسراریت کو اپنے شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کیا ہے سنسکرت اور پراکرتوں میں اس کا ذکر کنول کے ادھ کھلے  یا بنِ کھِلے پھولوں کی تصویر کشی کے ساتھ آیا ہے۔

فارسی میں خاص طور پر گلاب کی کلی کے ساتھ اردو میں گلاب کے علاوہ چمبیلی کے مختلف رنگ رکھنے والے پھلوں کی کلیوں اور  اُن کے چٹکنے کے ساتھ اس کے حسین عکس پیش کئے گئے ہیں یہ بھی ہماری تہذیب کا ایک علامتی پہلو ہے۔

اُردو میں شگوفہ کے ساتھ ایک دلچسپ محاورہ بھی ہے یعنی شگوفہ چھوڑنا یعنی ایسی دلچسپ بات کہنا کہ جو محفل کو پر مسرت  بنا دے اور اس میں کوئی ایسا پہلو بھی ہو جو دلچسپ جھوٹ کا درجہ رکھتا ہو۔ اِس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی میں محفل نشینی کے انداز و ادا کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور گفتگو کے اس معاشرتی اسلوب کو بھی جس میں شگوفہ چھوڑنا آتا ہے ہم سب دلچسپ گفتگو نہیں کر پاتے لیکن دلچسپ گفتگو سے لطف لیتے ہیں جو ہمارے تہذیبی رویوں میں سے ہے۔

 

 

 

(۱۵) شہد سا میٹھا، شہد لگا کر چاٹو، شہد لگا کے الگ ہو جانا۔

شہد ہماری مشرقی تہذیب میں ایک عجیب و غریب شے ہے کہ وہ پھولوں کا اپنا ایک ایسا جز ہے جس کو بے حد قیمتی کہا جا سکتا ہے یہ دوا ہے بلکہ ایک سطح پر امرِت  ہے یہ زہر کا تریاق ہے اور اصلی شہد میں جس شے کو بھی رکھا جائے گا وہ عام حالت میں صدیوں تک گلنے سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے گی۔

ہماری سماجی زندگی میں شہد’’ تہذیبی‘‘ رویوں میں داخل ہے اس میں مہذب رو یہ آتے ہیں اور بعض ایسے رو یہ بھی جو لائق تحسین نہیں ہوتے مثلاً کسی آدمی کے پاس کوئی شہادت نامہ ہے مگر اس سے فائدہ کوئی نہیں ایسے موقع پر بطورِ طنز  و مزاح یہ کہتے ہیں کہ اب اُسے شہد لگاؤ اور  چاٹو یعنی اس تلخی کو برداشت کرو کہ تمہارے ساتھ یہ دھوکہ ہوا ہے انگلی کو شہد میں بھگو لینا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔

 

(۱۶) شیخ چلی۔

مسلمانوں کے اپنے معاشرے کا محاورہ ہے اور  اس کے معنی ہیں ایک خاص طرح کا سماجی کردار مُلَّا نصیر الدین کے نام سے بھی اسی طرح کا ایک کردار ترکوں میں موجود ہے اور  وہیں سے یہ مسلمان کلچر میں آیا ہے اس طرح کا کردار بُوجھ بجھکڑ کی صورت میں بھی موجود ہے کہ وہ حد درجہ ذہین ہے اور بیوقوف ہے ہماری داستانوں میں بھی اس طرح کے کردار آ گئے ہیں۔ ’’ فسانہ آزاد‘‘ میں فوجی کا کردار اسی طرح کا کردار ہے’’ شیخ چلی‘‘ جس کا مثالی نمونہ ہے۔

 

(۱۷) شیخی بگھارنا، شیخی کِرکری ہونا، شیخی مارنا، شیخی میں آنا۔

’’شیخ ‘‘عرب میں سردار قبیلہ کو کہتے تھے یا پھر بہت معزز آدمی کو ہندوستان میں شیخ کا تصور شعبہ کے سربراہ سے متعلق ہے جیسے شیخ الادب، شیخ الامنطق، شیخ الحدیث، شیخ الجامع، کسی کالج یا یونیورسٹی کے صدرِ اعلیٰ کو بھی کہتے ہیں علاوہ بریں شیخ الہند، شیخ السلام، اور شیخ العرب، بھی کہا جاتا ہے یہ بھی خطابات ہیں۔

ہندوستان میں شیخ سید مغل اور پٹھان چار اونچی ذات ہیں جو سماجی زندگی میں بھی اپنے اثرات رکھتی ہیں اور ان سے کچھ سماجی رو یہ وابستہ ہو گئے ہیں مثلاً شیخ کے ساتھ لوگوں نے شیخی بگھارنا شیخی کا اظہار کرنا شیخی مارنا، شیخی میں آنا جیسے محاورے بھی اپنے معاشرتی تجربوں اور خیالوں کی روشنی میں پیدا کر دیئے ہیں اور ہمارے سماجی رو یہ اس کے دائرہ میں آتے ہیں مثلاً وہ اپنے خاندان کے بارے میں بہت شیخی مارتا ہے بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے یا اپنے معاملہ میں بہت شیخی بگھارتا ہے بات وہی ہے کہ شیخی جتانا‘ ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے اِس طرح کے فقرہ اُس کے خلاف ایک ردِ عمل ہے۔

 

 

 

(۱۸)شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔

شیر پھاڑ کھانے والا جانور ہے جو بہادر بھی ہے اور  بے انتہا سفّاک بھی بکری بھیڑ ہرن جیسے جانور اُس کی خوراک ہیں وہ جب بھی اُن کو دیکھتا ہے اُن پر حملہ کر کے اُن کو اٹھا لے جاتا ہے اور ان کا خون پی لیتا ہے جتنا گوشت خود کھانا چاہتا ہے کھا لیتا ہے باقی دوسرے جانوروں کے لئے چھوڑ جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ صورت بھی ممکن نہیں کہ شیر اور بکری ایک ساتھ رہیں اور ایک گھاٹ پانی پئیں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ کا رعب و داب اور اُس کے انتظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ کوئی ظالم کسی کمزور اور مظلوم کونہ ستا سکے۔ یہ آئیڈیل ہے جو صدیوں سے ہمارے ذہنوں میں رچا بسا چلا آ رہا ہے اور اسی سے یہ محاورہ بنا ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔

 

(۱۹) شیش محل کا کتا۔

شیش محل اُمراء کے محلات میں ہوتا بھی تھا کہ کسی خاص حصے میں چھوٹے بڑے شیشے لگا کر آراستگی کی جاتی تھی اور یہ بہت پسند کی جانے والی چیز تھی۔  شیش محل میں ایک ہی شے یا شخص ہزار شکلوں میں نظر آتا تھا یہ بھی لوگوں کو بہت اچھا لگتا تھا۔ مگر ’’کُتَّے‘‘ کی مصیبت یہ ہے کہ وہ محلّے میں کسی غیر کتے کو نہیں دیکھ سکتے بے طرح اس کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اپنی حدوں سے باہر نکال کر دم لیتے ہیں اب شیش محل میں ایک کتے کو اپنے چاروں طرف کُتے ہی کُتے نظر آتے ہیں

وہ اُن کو بھگانا چاہتا ہے تو وہ سارے اُسے بھگاتے ہیں ایک طلِسم بندی میں بند جا تا ہے یہیں سے ایک دلچسپ محاورہ بن گیا شیش محل کا کتا ہونا وہ ایک شاعرانہ محاورہ ہے اور داستانوں کی فضاء کو پیش کرتا ہے۔

 

(۲۰) شیشے میں اُتارنا۔

شیشہ آئینہ کو بھی کہتے ہیں اور شراب کے اُس برتن کو بھی جس سے شرابِ جام میں اُنڈیلی جاتی ہے اس کے علاوہ شیشے کا ایک طِلِسمی  تصور بھی ہے کہ پریوں کو شیشے میں قید کیا جاتا ہے اسی سے محاورہ پیدا ہوا ہے اگر کسی آدمی سے معاملہ کرنا مشکل ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس مشکل پر قابو پا لیا جاتا ہے تو اسے شیشے میں اتارنا کہتے ہیں داستانوں میں پریوں کے کردار آتے ہیں پریاں کسی کے قابو میں نہیں آتیں مگر کسی نہ کسی ترکیب اور طریقہ سے انہیں بھی قابو میں کیا جاتا ہے تو اسے کہتے ہیں شیشے میں ’’پری کو اُتار لیا ‘‘یعنی اُسے قابو میں کر لیا  جو قابو میں نہیں آتا۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ طلِسماتی کہانیوں کا ہمارے ذہن زبان اور ادب میں جو اثر ہے اسے ہم اپنے محاورات میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

زبان کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کا دخل ہوتا ہے ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے اور وہیں سے پھر اُس سوچ یا اس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں اور وہ محاورات کے سانچے میں کچھ ڈھلتے ہیں اور ایک طرح سے Preserveہو جاتے ہیں۔

 

(۲۱) شیطان اُٹھانا، شیطانی لشکر، شیطان سر پر اُٹھانا، شیطان کا کان میں پھُونک دینا، شیطان کی آنت شیطان کی خالہ، شیطان کی ڈور، شیطان کے کان بہرے، شیطان ہونا، شیطان ہو جانا۔

’’شیطان ‘‘بُرائی کا ایک علامتی نشان ہے جو قوموں کی نفسیات میں شریک رہا ہے خیر اور شر بھلائی اور بُرائی معاشرہ میں مختلف اعتبارات سے موجود رہی ہے اسی کا ایک نتیجہ شیطان کا تصور بھی ہے کہ وہ بُرائیوں کا مجسمہ ہے اور  بد اعمالی کا دیوتا خیر کا خداوند یزدانِ پاک ہے اور بُرائی کا سرچشمہ شیطان کی ذات ہے۔

اب آدمی جو بھی بُرائی کرے گا اُس کی ذمہ داری شیطان پر ڈال دی جائے گی اور کسی نہ کسی رشتے کو شیطان ہی کو سامنے رکھا جائے گا اگر کوئی بے طرح غصہ کرتا ہے تو یہ کہیں گے کہ شیطان اُس کے سرپر سوار ہے اُس کے سر چڑھا ہے اگر کوئی آدمی بُرا ہو گا تو کہیں گے کہ وہ تو شیطان ہیں اگر کسی سے کوئی برائی وجود میں آتی ہے تو کہتے ہیں کہ شیطان موجود ہے اس نے کروائی ہے یہ برائی کروا دی اگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس برائی کا ذمہ دار آدمی ہے تو کہتے ہیں کہ آدمی کا شیطان آدمی ہے یعنی برائی کی ہر نسبت شیطان کی طرف جاتی ہے کہ انسان کی یہ ایک فطرت اور مزاج ہے کہ وہ ذمہ دار خود ہوتا ہے لیکن اُسے تسلیم نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ کسی دوسرے کے سر ڈالتا ہے یہ ہمارا سماجی رو یہ آئے دن ہمارے سامنے آتا رہتا ہے اتنی فلسفیانہ طور پر شیطان کے وجود پر جنم دیا اور شیطان سے نسبت کے ساتھ بہت سی بُرائیوں کو پیش کیا جس کی نسبت اُسے اپنے سے کرنی چاہیے تھی وہ دوسروں سے کر دی مذہبوں نے بھی اپنے طور پر اس تصور کو ایسی سوچ اور  Approachمیں داخل کر لیا۔

 

(۲۲) شین قاف۔

اُردُو زبان اپنے لب و لہجہ اور مختلف لفظوں کے تلفظ کے اعتبار سے ایک ایسی زبان ہے جس کو مختلف لوگ بولتے اور الگ الگ بولیوں والے اپنی سماجی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ایسے حروف موجود ہیں جس کا تلفظ ہمارے عام لوگ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ جیسے ث،  ذ، ص،  ض، ظ، ع، غ اور  ف۔

اس لئے کہ یہ حُروف ہماری دیسی زبانوں میں موجود ہی نہیں اس پر بھی’’ شین‘‘ کو چھوٹے ’’س‘‘ سے بدل دینا اور ’’قاف‘‘ کو چھوٹے ’’کاف ‘‘سے اور مُنشی ‘کو ’’منسی‘‘ کہنا اور قلم کو ’’کلم‘‘ کہنا بہت بُرا لگتا ہے اسی لئے جب کوئی شخص بولتے وقت شین قاف کی دُرستگی کا خیال رکھتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا ’’شین قاف‘‘ درست ہے یہ زبان لفظیات اور تلفظ سے متعلق ہمارا ایک تہذیبی معیار ہے مگر اُردُو سوسائٹی کا ہر زبان والے کا نہیں کہ وہ ’’شین قاف ‘‘کی درستگی پر زور دیتے ہیں اور اسی لئے شین قاف دُرست ہونا ایک محاورہ ہے۔

***

 

 

 

 

ردیف ’’ص‘‘

 

 (۱)صاحب سلامت۔

سلام ہمارے تہذیبی رویوں اور  رسموں کا ایک بہت اہم حصّہ ہے ہم بڑوں کو بھی سلام کرتے ہیں برابر والوں کو بھی اور اپنے سے چھوٹوں کو بھی بادشاہوں کو سلام بہت سادہ طریقہ پر نہیں کیا جاتا۔ وہاں سات بار زمین بوس ہو کر  کورنش بجا لاتے ہیں جسے درباری سلام کہہ سکتے ہیں ۔مُجرا اربابِ نِشاط کا سلام ہوتا ہے۔

ہم سلام مُجرا ایک ساتھ بھی کہتے ہیں اور اُسے محاورے کے طور پر استعمال کرتے ہیں آداب اُمراء کا سلام ہے اور تسلیمات اُس کے ساتھ جُڑا رہتا ہے السلام علیکم گویا برابری کا سلام ہے چھوٹا طبقہ باقاعدہ سلام نہیں کر سکتا وہ’’ صاحب‘‘ سلامت‘‘ کہتا ہے ہمارے معاشرے میں جو اونچ نیچ ہے۔ اُس کا اثر سلام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔

’’صاحب ‘‘کا لفظ مالک کے معنی میں آتا ہے ہم اُس کو احترام کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ سکھّوں میں ’’ صاحب‘‘ کے وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں شریف کے ہیں اسی لئے وہ گرودارا صاحب کہتے ہیں عام طور پر صاحب انگریزوں کو صاحب کہتے رہے ہیں اِس سے پہلے بیگمات اور شہزادیوں کے لئے بھی صاحب کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے۔ غالبؔ کے زمانے میں گھرکی خواتین کو بھی ’’صاحب‘‘ لوگ کہا کرتے تھے اب یہ ایک طرح کا محاورہ ہے۔

 

(۲) صاحبِ نسبت ہونا۔

صوفیانہ اِصطلاح ہے اور اُس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو فلاں صوفی خانوادے سے نسبت ہے اس کو وہاں سے رُوحانی فیض پہنچا ہے اسی لئے فارسی میں یہ مصرعہ کہا گیا جو بہت شہرت رکھتا ہے۔

؂ گرچہ خو ردیم  نسبتے است بزرگ

اگرچہ ہم چھوٹے ہیں لیکن ہماری نسبت بڑی ہے اس معنی میں صاحب نسبت ہونا ایک سطح پر محاورہ بھی ہے۔

 

(۳) صاف اُڑانا، صاف انکار کرنا،صاف جواب دینا، صاف نکل جانا۔

ہماری سماجی عادتوں کمزوریوں یا برائیوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم جس بات کو سننا یا جاننا نہیں چاہتے اُس کی اُن دیکھی کرتے ہیں جیسے ہم نے سنا ہی نہیں یا ہمارے علم میں ہے۔ نہیں اور یہ سب کچھ جان کر ہوتا ہے ہم دانستہ انجان بنتے ہیں اِس سے ہم اپنے سماجی رویوں کے مطالعہ میں مدد لے سکتے ہیں۔

صاف نکل جانا بھی اسی مفہوم سے قریب تر اِس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے یعنی ذمہ داریوں سے بچ نکلنا اور  یہی ہمارا معاشرتی مزاج بھی ہے۔

 

(۴) صبح خیز،صبح خیزے، صبح خیز ہونا۔

صبح کو اٹھنے والا صبح خیز کہلاتا ہے یہ عبادت کی غر ض سے ہوتا ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صبح کی عبادت میں زیادہ لطف اور  رُوحانی کیف ہوتا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو لفظی ترکیب اتنی نیکیوں کی طرف اِشارہ کر رہی تھی اسی سے صبح کے ابتدائی حصّے میں چوری چکاری کرنے والے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو قافلوں کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ قافلے عرب میں رات کے وقت سفر کرتے تھے اور صبح کے قریب یہ سو جاتے تھے اسی وقت اس طرح کے چوری چکاری کرنے والے مصروفِ عمل ہوتے تھے اسے ہمارے ادیبوں نے بھی استعمال کیا ہے۔

فسانہ عجائب میں ایک سے زیادہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں صبح خیز دراصل ’’صبح خیزے‘‘ ہی ہے اور اپنے خاص مفہوم کے ساتھ ہے۔

 

(۵) صبح شام کرنا۔

اُردُو کے ایسے محاورات ہیں جو بہت سی پریشانیوں ذہنی تکلیفوں اور کرب و اضطراب کے عالم کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اُن میں ’’ صبح و شام ‘‘ہونا بھی ہے یہ ایسے مریض کے لئے کہا جاتا ہے۔ جس کی زندگی توقعات ختم ہو چکی ہوں اور یہ کہنا مشکل ہو کہ اب یہ صبح سے شام یا شام سے صبح کرے گا یا نہیں ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں کہ اس کی تو ’’صبح شام ‘‘ہو رہی ہے یا بڑھاپے کے بعد جب زندگی کے خاتمہ کا وقت آتا ہے تو میرؔ کے الفاظ میں اِس طرح کہا جاتا ہے۔

؂ صبح پیری شام ہونے آئی میر

تو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا

غالب نے صبح کرنا شام کا اسی اِضطراب اور بے چینی کے عالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔

کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا

 

(۶) صبر پڑنا، صبر لینا، صَبر کا پھل میٹھا، صبر بڑی چیز ہے۔

’’صبر‘‘ عربی لفظ ہے مگر ہماری زبان میں کچھ اِس طرح داخل ہے کہ وہ اُس کے بنیادی الفاظ میں شامل کیا جا سکتا ہے اِسے ہم اِس بات سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ صبر کرنا صبر سے کھانا بے صبر ہونا  یا  صبر و شکر کرنا ہماری اخلاقیاتی فکر کا ا یک جُز بنا ہوا نظر آتا ہے۔

معاشرے میں چاہے وہ گھریلو معاشرہ ہے یا سرکار و دربار بازار سے تعلق رکھتا ہو معاملات کی اونچ نیچ اور دیانت کے ساتھ بددیانتی ہمارے معاشرے کا ایک مزاج اور ہمارے معاملات کا ایک جُز بن گیا ہے اس پر ہم لڑتے جھگڑتے ہیں من مٹُاؤ پیدا ہوتا ہے اگر یہ صورت مستقل طور پر رہے تو زندگی میں ذرا بھی تواضع باقی نہ رہے اسی لئے صبر کرنے کی بات کی جاتی ہے صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ صبر بڑی چیز ہے یا صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یا اللہ کو’’ صبر‘‘ بہت پسند ہے یہ سب باتیں ہماری نفسیاتی تسکین کے لئے ہوتی ہیں اور جو آدمی بے صبرے پن کا اظہار کرتا ہے اس پر ہم کسی نہ کسی طرح معترض ہوتے ہیں قرآن نے خود بھی ایک موقع پر کہا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 

(۷) صحبت اٹھانا، صحبت داری ، صحبت گرم ہونا، صحبت نہ رہنا۔

صحبت اچھے بُرے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے کو کہتے ہیں اُس میں بڑے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور برابر والے بھی پڑھے لکھے بھی اور غیر پڑھے لکھے بھی اپنے بھی بیگانے بھی۔

انسان صرف کتابوں سے نہیں سیکھتا اپنے گھرکے ماحول سے بھی سیکھتا ہے اور اُس سے زیادہ اچھے لوگوں کی صحبت اٹھاتا ہے تب سیکھتا ہے اسی لئے کچھ زمانے پہلے تک ایسے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جو اچھے لوگوں کی صحبت اٹھائے ہوئے ہوتے تھے اور اسی صورت حال کی طرف صحبت کے متعلق ہماری زبان کے محاورے اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اِس معنی میں محاورہ ہماری سوچ اور تہذیبی صورت حال کا ایک Miniature(چھوٹا سا مرقع) ہے جو ایک وسیع تر پس منظر کی طرف ہمارے ذہن کو مائل کرتا ہے۔

 

(۸) صحنک سے اُٹھ جانا،غائب ہو جانا، بے تعلق قرار دیا جانا۔

ہماری دیہاتی زبان میں صحنک ایک برتن ہے جو عام برتنوں سے بڑا ہوتا ہے ویسے ہماری زبان میں ’’صحن ‘‘آنگن کو کہتے ہیں گھرکے ساتھ وہ انگنائی کے معنی میں آتا ہے اور کسی بڑی عمارت کے ساتھ کھلے ہوئے حصّے کے معنی میں جیسے جامع مسجد کا صحن کہا جائے یعنی صحن Courtyardاُردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ اَری اُٹھ جاؤں گی میں صحنک سے

اس کے معنی ہیں کہ میں تو کہیں کی نہ رہوں گی۔

 

(۹)صلِ علیٰ کہنا۔

بعض محاورے خاص مسلمان کلچر سے رشتہ رکھتے ہیں ، ان میں صلِ علیٰ کہنا بھی ہے یعنی اُن پر ہزار سلام اسی لئے مسلم معاشرے میں صل علیٰ محمدؐ کہا جاتا ہے یعنی ہزار درود و سلام اسی لئے جب کسی کی تہہ دل سے تحسین کی جاتی ہے اور اُسے بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ تو اُسے صلِ اللہ کہا جاتا ہے۔ غالبؔ کا شعر ہے۔

؂ دیکھئے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ

اس کی ہر بات پہ ہم صلِّ اللہ کہتے ہیں

نام خدا کہنے کے معنی بھی یہی ہیں اور ایک خاص کلچر کے اظہار سے تعلق رکھتے ہیں۔

 

(۱۰) صلُّواتیں سُنانا۔

صلوات سُنانا برا بھلا کہنے کے معنی میں آتا ہے جب کہ’’ صلات‘‘ کے معنی ہیں نماز اور صلوٰۃ کے معنی ہیں درود لیکن زبان کیا کیا رنگ اختیار کرتی ہے اُس کا اندازہ اِس سے ہوتا ہے کہ صلوٰۃ جو اچھے سے اچھے معنی میں آتا ہے اُس کو بُرے معنی میں اور  بے تکلف استعمال کیا جاتا ہے۔ ا س سے ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ کلچر جس میں مذہبی روایت بھی شامل ہے ہماری زبان کو متاثر کرتا ہے اور اِس کا ادبی علمی اور عوامی کردار اس سے متعین ہوتا ہے لیکن زمانہ اور زندگی ذہن اور  زبان اسے جگہ جگہ اس طرح بھی متاثر کرتے ہیں کہ ا ُس کا رخ بدل جاتا ہے اور  زبان کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔

 

(۱۱) صندل کے چھاپے منہ پر لگنا، صندل کی سی تختی، صندل گھُنا۔

صندل دراصل ’’چندن‘‘ ہے جو ایک خوشبودار لکڑی ہوتی ہے اس کے درخت جنوبی ہندوستان میں پیدا ہوتے ہیں اور ہندو کلچر سے اُن کا خاص تعلق ہے جنوبی ہندوستان کے لوگ پنڈت اپنے ماتھوں  پر قشقہ لگاتے ہیں یہ صندل گھِس کر لگایا جاتا ہے مہا کوی کالی داس کے زمانے میں عورتیں اپنے بدن کی سجاوٹ کے لئے اور اُس کو خوشبودار بنانے کی غرض سے اُس پر چندن لگاتی تھیں۔ چندن کی لکڑیوں سے بعض خوبصورت آرٹیکل تیار کئے جاتے تھے ا بٹن میں بھی چندن شامل کیا جاتا تھا اس طرح ہمارے کلچر سے ’’چندن ‘‘کا صدیوں سے ایک گہرا رشتہ رہا ہے۔

’’چندن‘‘ کے چھاپے منہ پر لگانا اپنے کردار کی خوبیوں کو ظاہر کرنا ہے اور سرخ روئی کا نشان ہے اِس کے علاوہ صندل کی تختی بھی خوبصورتی اور  وجود کی پاکیزگی کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورات کو تراشنے میں ہماری زبان کے بولنے والوں نے کس حد تک شاعرانہ طریقہ رسائی کو اپنے سامنے رکھا ہے۔ بعض محاورے انتہائی مبالغہ آمیز صورتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے آگ کھانا اور  انگارے ’’اُگلنا‘‘، بعض محاورے اِس کے مقابلہ میں سماجی تلخیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اسی پس منظر میں اُن کے معنی اور معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے بعض محاوروں سے زندگی کی خوشگواریاں ظاہر ہوتی ہیں جیسے زہر بجھے ہوئے تیروں مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے تیروں کے مقابلہ میں شیر و شکر ہونا۔ شہد جیسے میٹھے بول کہہ کر خوشی کا اظہار کرنا۔ اسی طرح صندل کی تختی ’’صندل ‘‘کا چھاپہ شاعرانہ تشبیہات اور استعاروں کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمارے طریقہ فکر اور  طرزِ اظہار کے مختلف سلیقوں کو محاورے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اگرچہ محاوروں پر اس رشتے سے کم نظر ڈالی گئی ہے۔

 

(۱۲)صُورت حرام۔

صُورت پر بہت سے محاورے ہیں جیسے یہ صُورت اور ’’مسور کی دال‘‘ یا اُجاڑ صورت یا پھر صورت حرام صورت کے ساتھ اُجاڑ منحوس یا ’’حرام‘‘  کا لفظ استعمال کرنا ذہنی تلخیوں کا اظہار ہے۔ صورت پر پھٹکار برستی ہے اس محاورے سے بھی اسی صورتِ حال کا اظہار ہوتا ہے شیطان کی سی ’’تھوپڑی‘‘ بیل جیسا منہ وغیرہ محاورات اسی جذبہ کا اظہار ہیں کہ کوئی شخص دوسرے سے اُس حد تک ناراض ہو کہ اِس کی شکل سے بیزار ہونا اُس کے رو یہ میں شامل ہو جائے۔

 

 

ردیف ’’ض‘‘.

 

 (۱)ضِد باندھنا، ضد پوری کرنا، ضد بحث میں پڑنا یا ضدی ہونا، ضد چڑھنا۔

ہمارے ہاں کے بہت عام لفظوں اور زبان پر آنے والے کلمات میں سے ہیں اور اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ضد‘‘ ہٹ دھرمی اور بلاوجہ کسی رو یہ کو اپنانا اور اُس پر اڑ جانا ہمارے معاشرے کی عام کمزوری یا عیب داری ہے۔ ہم معاملات کو سمجھنے کے بجائے اور مناسب لفظوں میں اظہار خیال نہ کرتے ہوئے ’’بد گوئی،بدکلامی‘‘ اور بد اندیشی اختیار کرتے ہیں۔ اس سے تلخیاں بڑھتی ہیں اور غلط طور پر غیر دانش مندانہ رو یہ سامنے آتا ہے ہم بچوں کی سی ’’ضد‘‘ کا محاورہ بھی اختیار کرتے ہیں جو ایک صورتِ حال کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے پس منظر میں عقل و شعور کی کمی کا اظہار ہوتا ہے۔

ضِد بحث میں پڑنا بھی خواہ مخواہ کی باتوں پر زور دینے اور غیر ضروری دلائل کو سامنے لانے ہی کا نتیجہ ہوتا ہے اور بات سلجھنے کے بجائے اُلجھتی ہی چلی جاتی ہے اور ہماری سماجی گرہیں اور  سماجی الجھنیں اِس سے اور بڑھتی ہیں۔

 

(۲) ضرب اُٹھانا، ضرب لگانا، ضرب پہنچانا اور  ضرب پہنچنا۔

یہ محاورے عام طور پر تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کے سلسلے میں کام آتے ہیں کہ عربی زبان میں ضرب کے معنی مارنے کے ہیں لیکن ضرب المثل یا ضرب المثال ایک علمی اِصطلاح ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ فِقرہ اب بار بار استعمال ہوتا ہے اور ایک مثالی صورت بن کر رہ گیا ہے۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’ط‘‘

 

 (۱)طاق بھرنا، طاق پر رکھا رہنا، طاق پر رکھنا، طاق ہونا

’’طاق بھرنا‘‘ دراصل کوئی محاورہ نہیں ہے ایک ہندوانہ رسم ہے جو مسلمانوں میں بھی آ گئی ہے۔ اور اُس کا شمار یہ کہیے کہ ہماری ملکی رسموں میں ہوتا ہے مسجد کے طاق بھرے جائیں یا مندر کے مطلب اظہارِ عقیدت ہوتا ہے۔

چیزوں کی بھینٹ دینا قدیم زمانے سے انسانی معاشرے کی ایک رسم رہی ہے۔ اِس میں چوڑیاں چڑھانا چوٹیاں شاخوں میں باندھ دینا بالوں کو بھینٹ دینا زیورات بھینٹ کرنا اور مٹھائیاں چڑھانا یا روپے پیسہ چڑھاوے کے طور پر نظر کرنا ہماری عمومی رسموں میں شامل ہے یہاں تک کہ ہم دریاؤں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں پانی کے تالابوں اور کھیتوں کو بھی بھینٹ دیتے ہیں اسی طرح مندروں مسجدوں کے طاق بھرے جاتے ہیں۔ چراغ چڑھائے جاتے ہیں تیل دیا جاتا ہے یہ زیادہ تر عورتوں کی رسمیں ہیں ’’طاق بھرنا‘‘ تو یہ کہتے ہیں کہ خالصتاً نسوانی رسم ہے۔

طاق پر رکھنا اس سے بالکل مختلف ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں بھُول جانا دھیان نہ دینا۔ ہمارے یہاں چیزوں کو رکھنے جس میں پیسے بھی شامل ہیں چھوٹے بڑے طاق ہی کام میں آتے تھے اور اُن پر رکھ کر کبھی گھرکے لوگ بھول بھی جاتے تھے یہیں سے طاق پر رکھنے کا محاورہ بھول جانے اور فراموش کر دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ طاق محل کو بھی کہتے ہیں اور  ایک (Single)عدد کو بھی جیسے ایک تین پانچ سات اور  نو یہیں سے ’’طاق‘‘ ہونے کا محاورہ بنا کہ وہ اپنے اپنے کام میں ماہر اور اپنی ہنر مندی میں طاق ہے یعنی بے جوڑ ہے منفرد ہے۔

 

(۲) طالع چمکنا۔

علمِ نجوم میں ستاروں کا رشتہ انسان کی قسمت سے بھی جُڑا رہتا ہے اور اسی کے مطابق جنم پتری تیار کی جاتی ہے۔ جس میں پیدائش کے وقت جو ستارے مل رہے ہوتے ہیں اُن کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور آئندہ زندگی پر جُو اس کے اثرات ہونے والے ہیں اُن کی طرف اشارے کئے جاتے ہیں۔

’’طالع‘‘ کے معنی ہیں طلوع ہونا، نکلنا اب کسی کی پیدائش کے وقت جو ستارے نکل رہے ہوتے ہیں وہی اِس کے طالع کہلاتے ہیں۔ جو قسمت کے ستارے ہوتے ہیں یہ مبارک بھی ہو سکتے ہیں اور نہ مبارک بھی اسی لئے طالع مسعود اور نا مسعود کہلاتے ہیں اُردو میں جو لوگ ادبی زبان بولتے ہیں وہ اِن لفظوں کا استعمال بھی کرتے ہیں اور یہ ہمارے تہذیبی ماحول کا ایک حصّہ ہے۔ اور ہماری سوچ کا ایک انداز ہے۔

 

 

 

(۳) طباق سا منہ ہونا۔

ہم چہرے کو انسان کے حُسن خوبصورتی اور  بدصورتی کے سلسلے میں بڑی اہمیت دیتے ہیں کبھی پھول کہتے ہیں کبھی چاند کہتے ہیں کبھی ٹکیاں سا منہ قرار دیتے ہیں کبھی آئینہ رخ کہتے ہیں ایسی لڑکیاں یا عورتیں جن کے چہرے بہت گول ہوتے اور  جن کے نقش و نگار نسبتاً بڑے چہرے مقابلہ میں ہلکے ہوتے ہیں اُن کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ طباق سے منہ والی لڑکی یا عورت ہیں۔

جب لڑکیوں کو بہت تھوڑی عمر میں پردہ کروا دیا جاتا تھا اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ طباق سا منہ ہو گیا اب تک اس کو پردہ کیوں نہیں کروایا گیا یہ بھی سماجی رو یہ ہے جو قصبوں چھوٹے شہروں میں اب تک دیکھنے کو ملتا ہے اور  ہماری معاشرتی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔

 

 (۴) طباقی کتّا۔

ہمارے ہاں ہندوؤں میں جس تھالی میں کھایا جاتا ہے اُس کو کتّے کے چاٹنے کے لئے رکھ دیا جا تا ہے اب تو ایسا نہیں ہوتا لیکن اس کا ایک عام دستور ضرور رہا ہے جو کتا یہ کام کرتا تھا اور اُسے طباقو کتا کہتے تھے جو گویا سماج کی طرف سے ایسے کرداروں کا ایک طنز کا درجہ رکھتا تھا ایسی عورتیں بھی’’ طباقو‘‘ کہلاتی تھیں جن کو اِدھر اُدھر کھانے پینے کا لالچ ہوتا تھا۔

 

(۵) طبقہ اُلٹ جانا۔

ہماری مذہبی فکر ہویا فلسفہ اور سائنس سے متعلق ہو دونوں میں آسمان و زمین کے طبقات داخل ہیں اور  اُن کا ذکر موقع بہ موقع آتا رہتا ہے خود قرآن نے آسمان کو سات طبقوں سے وابستہ کیا ہے۔ زمین کے بھی طبقے ہیں اور زمین و آسمان کے طبقے ملا کر چودہ طبق کہا جاتا اور ہمارے ہاں محاورہ بھی ہے چودہ طبق روشن ہو گئے سماجی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی ہم طبقات کی تقسیم کے قائل ہیں مثلاً پڑھے لکھے لوگوں کا طبقہ کاریگروں کا طبقہ جس میں مزدور اور کم درجہ کے دستکار سبھی شریک ہیں۔

امیروں کا طبقہ سیاست پسندوں کا طبقہ ہم نے اہلِ شعر و ادب اور اصحابِ فلسفہ و تصوف کو بھی طبقات میں تقسیم کیا ہے اور  طبقاۃ الصوفیہ ’’طبقاۃ الشعراء‘‘ ’’طبقاۃ الملکہ‘‘ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ طبقہ اور  طبقات ہماری معاشرتی زندگی میں کس طرح داخل رہے ہیں یہ محاورے بھی اسی کی طرف اشارے کرتے ہیں طبقہ الٹ جانا چودہ طبق روشن ہونا وہاں طبق بھی ہے اور سبق بھی طبقہ الٹ جانا یعنی زمین کا اُلٹ پلٹ ہونا یا طبقاتی تقسیم کا درہم برہم ہو جانا زمین سے آسمان کا روشن ہو جانا اور مراد ہوتی ہے کہ اور کچھ نظر نہیں آیا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

 

(۶) طبیعت آنا، طبیعت الجھنا، طبیعت بگڑنا، طبیعت بھر جانا، طبیعت لگنا۔

طبیعت عربی لفظ ہے اور اُس سے مراد ہے انسان کی اپنی مزاجی کیفیت ’’دل‘‘ اور ’’جی‘‘ توجہ وغیرہ مثلاً طبیعت لگنے کے وہی معنی ہیں جوجی لگنے کے ہیں اور طبیعت آنا دل آنے یا عشق ہو جانے کو کہتے ہیں طبیعت لہرانا بھی دل کے خوش ہونے اور والہانہ کیفیت پیدا ہو جانے کے لئے کہا جاتا ہے عالمِ فطرت کو بھی طبیعت سے نسبت دی جاتی ہے اور طبیعیات عالمِ فطرت کے عمل کو کہتے ہیں۔ اُس پر اگر نظر رکھی جائے تو لفظوں کے ساتھ کیا گیا مفہوم وابستہ ہوتے ہیں۔ اور خود محاورے میں پہنچ کر اُن کے معنی میں کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس معنی میں اگر دیکھا جائے تو لفظ کے لغوی معنی سے لے کر شعری،شعوری ادبی اور محاوراتی معنی تک بہت بڑا فرق آ جاتا ہے۔

 

(۷) طرارے بھرنا، طرارا آنا۔

طرارے ’’ہرن ‘‘کی دوڑ کو کہتے ہیں اور ہرنوں ہی کے سلسلے میں یہ محاورہ آتا بھی ہے اور ہم اسے کہانیوں عام گفتگو یا شعر و شاعری میں سنتے اور دیکھتے ہیں کہ ذرا سی دیر میں ’’ہرن‘‘ طرارے بھرنے لگا اُس کے مقابلے میں طرارا آنا غصّہ آنے کے معنی میں آتا ہے کہ ذرا سی بات پر اُسے تو ’’طرارا‘‘ آ جاتا ہے غصّہ آنا تو ایک بات ہے لیکن طرارا آنا زبان کا حُسن ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ محاورہ تشبیہہ اور استعارہ زبان میں کیا لطف پیدا کرتے ہیں اور اُس کا ہماری سماجیات سے کیا رشتہ ہے۔

 

(۸) طرح دار، طرح ڈالنا، طرح دار ہونا طرح دینا،طرح نکالنا۔

’’طرح‘‘ کے معنی ہیں طرزِ انداز اور ادا ہماری ادبی اور سماجی زندگی میں ’’ طرح داری‘‘ کے معنی ہوتے ہیں خاص انداز رکھنا معشوق طرح داری ہمارے ادیبوں کے یہاں اب سے پہلے بہت آتا تھا۔ طرح ڈالنا کے معنی ہوتے ہیں کسی اندازِ ادا کو اختیار کرنا اور اُسے رواج دینا۔ شاعری میں جب کوئی مصرعہ غزل لکھنے کے لئے مشاعروں کے سلسلے میں دیا جاتا ہے تو اسے طرح دینا یا طرح ہونا کہتے ہیں طرح دینے کے معنی نظر انداز کر دینے کے بھی ہوتے ہیں طرح نکالنا بھی کسی نئے اسلوب کو رواج دینے کو کہتے ہیں۔

 

(۹) طُرفتہ العین میں۔

طُرفۃ العین پلک جھپکنے کو کہتے ہیں یہ عربی لفظ ہے اور اِس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کوئی کام آناً فاناً میں بھی ہو جاتا ہے یا جی چاہتا ہے کہ یہ کام گھڑی کی سیت (ساعت میں ) ہو جائے۔ طرفۃالعین عربی کا لفظ اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔

 

(۱۰) طرفہ معجون۔

عجیب قسم کی طبیعت یا سوچ کا عجیب و غریب انداز یا  پھر ایسی تحریر جس میں فکری الجھاؤ ہوں۔ طرفہ معجون یا طرفہ معجون مرکب کہلاتی ہے معجون جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک طبّی نسخہ کے مطابق تیار کردہ دوا کو کہتے ہیں جس میں شہد اور دوسری بعض جڑی بوٹیاں کوٹ کر ڈالی جاتی ہیں جیسے معجون’’ سورنجان‘‘ یا معجون فلاسفہ یہ محاورے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم علم و فن کی کن کن باتوں سے محاورہ پیدا کرنے میں فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ محاورہ کسی ایک کا نہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے سب کے لئے ہوتا ہے اور سب کی طرف سے ہوتا ہے۔

 

(۱۱) طشت از بام ہونا، طشت چوکی۔

ہمارے یہاں محاوروں کی طرف ایک بڑی تعداد تو وہ ہے جو ہماری اپنی بھاشا یا قریبی علاقوں کی بھاشاؤں سے ہماری زبان میں منتقل ہوئے ہیں۔ کچھ محاورے وہ بھی ہیں جو فارسی سے آئے ہیں یہ ایک فطری عمل ہے کہ ہم نے ایک خاص دور میں فارسی ادب اور زبان سے گہرے اثرات قبول کئے ہیں۔ طشت از بام ہونا۔ انہی میں سے ایک محاورہ ہے جو فارسی کے ادبی اور لسانی اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اُس کے معنی ہیں راز فاش ہونا اور سب کو خبر ہو جانا ہے یہ ہماری سماجی نفسیات کا بھی ایک حصّہ ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ خوامخواہ ہماری برائیوں کا ذکر اور اُن کی شہرت پھیلے یوں بھی معاشرے کا یہ ایک مزاج ہے کہ نیکیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا اور برائیوں کو بُری طرح پھیلاتے ہیں اُن کو’’ طشت از بام‘‘ کرتے ہیں یہ بات اچھی نہیں غلط ہے مگر ہمارا سماجی رو یہ نہیں کچھ ایسا ہی ہے۔

عام طور پر ہمارے مہذب گھروں میں ایک چوکی رہتی تھی اور اُس پر بیٹھ کر وضو کرنا اور  وضو کے پانی کو ایک طشت میں جمع کرنے کی گھریلو روش ایک خوبی تصور کی جاتی تھی اسی لئے طشت چوکی بچھے رہنے کا ذکر آتا تھا۔ مگر اِسے کوئی محاورہ قرار دینا مشکل ہے اگرچہ مخزن المحاورات میں اِسے محاورہ قرار دیا گیا ہے۔

 

(۱۲) طفلِ مکتب ہونا۔

طفلِ بچہ کو کہتے ہیں اور مکتب ابتدائی درجہ کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں قرآن کا کوئی سپارہ یا  بھر پورا قرآن پاک بچے پڑھتے ہیں بہرحال یہ بہت ابتدائی تعلیم کی منزل ہوتی ہے عمر بھی اس وقت بچپن کی منزل سے گزر رہی ہوتی ہے بڑی عمر کے لڑکے اِس میں داخل نہیں ہوتے اسی لئے جب کسی کو یہ کہنا ہوتا ہے کہ وہ عقل اور علمِ کے اعتبار سے بہت ہی ابتدائی سطح کا آدمی ہے تو اُسے طفلِ مکتب کہا جاتا ہے اور جس آدمی کو جس عالم یا مولوی کو کچھ نہیں آتا وہ ملائے مکتبی کہلا تا ہے۔

 

(۱۳) طنطنہ دکھانا۔

تناؤ کی کیفیت ہوتی ہے اور اِس میں غصہ بہادری اور بڑائی کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور اِسی لئے اِسے طنطنہ کہتے ہیں اور اُس میں کہنے والے کی طرف سے ایک طنز چھُپا ہوتا ہے کہ وہ بہت طنطنہ دکھلاتے ہیں یہ بھی ایک طرح سے ہمارے سماجی عمل اور  رویوں پر ایک تنقید ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ایک اہم بات ہے۔

 

 (۱۴) طور بے طور ہونا۔

طور طریقہ کو کہا جاتا ہے اسی لئے طور بے طور کہتے ہیں اور اِس سے مُراد سلیقہ ہوتا ہے اچھا ڈھنگ ہوتا ہے اب اگر کسی وجہ سے بے ڈھنگا پن پیدا ہو جاتا ہے اور بات بے تُکی نظر آتی ہے۔ تو اُسے طور بے طور ہونا کہتے ہیں ہم اِس محاورے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ معاشرہ ہمارے انسانی رویوں جو معاشرتی رو یہ بن جاتے ہیں کس طرح نظر رکھتا ہے اور گفتگو کی جاتی ہے۔

 

(۱۵) طُوطی بولنا۔

’’طوطی‘‘ ایران کا ایک پرندہ ہے جس کی آواز بہت خوبصورت ہوتی ہے وہ طوطے کی طرح کہانیوں کا ایک کردار بن جاتا ہے جب موسم بہار آتا ہے تو ایران کے پرندے اور خاص طور پر ’’طوطی‘‘ بہت خوش آوازی سے بولتا ہے اور بہار کے آنے کا اعلان کرتا ہے وقت آتا ہے اور اُس کی شہرت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اُس کا طوطی بول رہا ہے یعنی اُس کی زندگی میں بہار آئی ہوئی ہے۔

 

(۱۶)طوفان اُٹھانا، طوفان اُٹھنا۔

غیر صورتِ حال کا پیدا ہو جانا جس میں کسی فرد یا کسی جماعت کا عمل شریک ہو اور وہ دانستہ عمل ہو جھُوٹ بول کر فریب دیکر سازشیں کر کے جو پریشان کُن صورت حال پیدا کی جاتی ہے اُس کو طوفان کھڑا کرنا ’’طوفان اٹھانا‘‘ کہتے ہیں کہ صاحب اُس نے طوفان اُٹھا دیا ہنگامہ برپا کر دیا۔

عام پبلک کے پاس زبان ہوتی ہے ذہن نہیں ہوتا کہ وہ صحیح فیصلہ کر سکے اسی لئے وہ ہنگامہ بڑھتا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ بہت اہم محاورہ ہے اور سماج کی نفسیات اور عمل ورد عمل کی نشاندہی کرتا ہے طوفان آنا غیر معمولی صورتِ حال ہے لیکن اُس کا رشتہ سماجی عمل سے نہیں ہے۔

 

(۱۷) طومار باندھنا۔

کسی بات کو کسی خاص غرض کے تحت آگے بڑھانا اور اُس پر زور دیتے رہنا ’’طومار‘‘ باندھنے کے ذیل میں آتا ہے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے تو خواہ مخواہ الزامات یا پھر تعریفوں کا طومار باندھ دیا۔

 

(۱۸) طویلے کی بلا بند رکے سر پڑنا۔

کسی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈال دینا اور یہ کام بدنیتی سے یا اِرادے کے طور پر کرنا ’’طویلہ‘‘ ایک خاص اِصطلاحی لفظ ہے اور گھُڑ سال کو ’’طویلہ‘‘ کہتے ہیں امیروں راجاؤں اور بادشاہوں کے ساتھ گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی جہاں وہ باندھے اور  رکھے جاتے تھے۔ اُس کو طویلہ کہتے تھے ہندوستان میں ’’گھڑسال‘‘ کہتے ہیں۔

اِس سے متعلق اگر اچھی بُری کوئی بات ہوتی تھی اُس کا بندر سے کوئی رشتہ نہیں لیکن لوگوں کا رو یہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اس کا الزام اُس کے سرپر رکھ دیا اسی سے یہ محاورہ بن گیا کہ’ ’طویلے‘‘ کی بلا بند کے سرپر یعنی ذمہ دار کوئی اور ہے اور کسی دوسرے کو اُس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں اِس کو بھی سماجی نفسیات اور طریقہ فکر و عمل کا ایک نمونہ کہنا چاہئیے۔

***

 

 

ردیف ’’ظ‘‘

 

 (۱) ظاہرداری کرنا، ظاہر داری برتنا۔

کسی عمل میں ظاہری اور اُوپری خوبصورتی برتنا جس کا کوئی تعلق دلی خواہش سے نہ ہو اِس طرح کا رو یہ سماج کے بہت سے لوگوں میں ملتا ہے کہ وہ اُوپرے دل سے بہت کچھ کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اُن کا دل و دماغ اپنی نیکی اور نیک خواہشوں کے ساتھ اُس میں شریک نہیں ہوتا۔ اس کو ظاہر داری برتنا کہتے ہیں۔

مولوی نذیر احمد نے اپنے ناول میں ظاہردار بیگ کا کردار کچھ اسی انداز سے تراشا ہے کہ وہ بظاہر بہت کچھ ہے اور حقیقت میں کچھ بھی نہیں۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’ع‘‘

 

 (۱)عاقبت بگاڑنا، عاقبت کاتو شہ۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ موجودہ زندگی کے بعد ایک اور  زندگی آئے گی جس کو وہ عاقبت کہتے ہیں اُس کے لئے ہم کو یہیں تیاری کرنی چاہیے اور تیاری یہ ہے کہ ہم نیکی کریں خدا سے ڈریں اور اُس کے بندوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اِسی کو عاقبت کو توشہ کہا جاتا ہے اور جب انسان کا عمل خراب ہوتا ہے اُس کا ایمان ڈانوا ڈول ہوتا ہے یا دوسرے اُس کے ساتھ اتنا برا سلوک کرتے ہیں کہ اُس کے نتیجہ میں وہ خود برا ہو جاتا ہے تو اُسے عاقبت بگاڑنا کہتے ہیں۔

مسلمانوں میں عاقبت یا آخرت کا تصوّر بہت اہمیت رکھتا ہے اور وہ اکثر اسی حوالہ سے سوچتے ہیں اب اُن کا عمل کس حد تک اِس کے حق میں ہوتا ہے یا اُس کے خلاف یہ ایک الگ بات ہے۔

 

(۲) عُبور دریائے شور کرنا۔

انگریزوں کے زمانہ میں ایک سزا تھی جس کو کالے پانی بھیجنا بھی کہتے تھے اور جزائر انڈمان نِکوبار بھیجنے کو ’’کالا پانی ‘‘بھیجنا کہتے تھے۔

 

(۳) عقل جاتی رہنا، عقل چرنے جانا، عقل چکر میں پڑنا، عقل کا پودا، عقل کا دشمن

آدمی سارے کام عقل سے کرتا ہے عقل جتنی کم ہوتی ہے اتنا ہی پریشانی بڑھتی ہے اور کام خراب ہوتا ہے دوسروں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ عقل خراب ہو جاتی ہے آدمی غلط سوچنے پر پڑ جاتا ہے یا کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اِسی کو کہتے ہیں کہ عقل چکر میں پڑ گئی یا عقل کو چکر میں ڈال دیا۔ عقل جاتی رہنے کے معنی بھی یہی ہیں اور جب طنز کے طور پر کسی کی بے عقلی کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا تمہاری عقل چر نے گئی ہے یا تمہاری عقل کو گدھے چر گئے ہیں۔

اِس سے ہم سماجی عمل اور  ردِ عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور اُن باتوں کو جان سکتے ہیں جو کم عقل لوگوں کو پیش آتی ہیں جن لوگوں کو عقل بالکل نہیں ہوتی اُن کے لئے طنز کے طور پر کہا جا تا ہے کہ وہ تو عقل کے پورے ہیں یعنی اُن کو عقل بالکل نہیں اور جو لوگ جان جان کر عقل کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور بُرے نتیجہ بھگتے ہیں اُن کو عقل کا دشمن کہا جاتا ہے۔

 

(۴) عقل کا پتلا۔

اب اس کے مقابلہ میں جن لوگوں کو عقل زیادہ ہوتی ہے تو اُن کی تعریف کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو  عقل کا پتلا ہے۔

 

(۵) عقل کا چراغ گل ہو جانا، عقل کے گھوڑے دوڑانا۔

اب جو لوگ عقل سے بالکل کام نہیں لیتے اور بیوقوفیاں کرتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ اُن کی عقل کا چراغ گل ہو گیا اور جو شخص عقل کی باتیں سوچتا رہتا ہے وہ گویا عقل کے گھوڑے دوڑاتا رہتا ہے ہمارے وسطی زمانہ میں گھوڑے کی بڑی اہمیت تھی۔ اسی لئے گھوڑے پر بہت سے محاورے بھی ہیں۔ اس سے ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے محاوروں میں زیادہ تر اُن باتوں کا حوالہ آتا ہے اور اُن چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ہماری زندگی میں داخل تھیں اور اُن سے کوئی اچھا بُرا اثر ہمارے ذہنوں پر پڑتا تھا اِس دورِ زِندگی اور اُس زمانے کی تصویر کسی نہ کسی حدیث سے ہمارے سامنے آتی تھی۔ عقل کی دُم بھی ہونا اس کی طرف اشارہ کرنے والا محاورہ ہے کہ عقل بالکل نہیں ہے یا اُن کی عقل گُدی کے پیچھے ہے جو عقل سے متعلق ایک اور محاورہ ہے اور اُس کے نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

 

(۶)عِلّت لگانا، علت لگا لینا، علت میں پڑنا۔

عِلّت محاورہ میں عیب داری کو کہتے ہیں کوئی بھی ایسا سماجی کام یا برائی ہو سکتی ہے جو آدمی کو اپنے پیچ و پیچاک میں اُلجھا دیتی ہے یہ اُس کے لئے کہتے ہیں کہ اس نے تو اپنے ساتھ یہ علت لگا رکھی ہے یاوہ اُس عِلت میں پڑا ہوا ہے یا پھر کون یہ علت اپنے ساتھ لگائے علت کو مختصر طور پر لت بھی کہتے ہیں مثلاً اُسے شراب پینے کی لت لگی ہوئی ہے یا وہ جُوئے بازی کی لت میں پڑا ہوا ہے یا اُس کو مقدمہ بازی کی لت تھی یہ علت یا برائی کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔

 

(۷) عمر بھر کی روٹیاں سیدھی کر لینا۔

ہمارے معاشرے میں نکمے اور کم ہمت لوگ بہت ہوتے ہیں اور جسے اخلاقی توازن کہتے ہیں وہ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر انفرادی اور اجتماعی رویوں میں مفقود ہے۔ اسی لئے لوگ کوئی ایسا حیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ جیسے بھی ہو اچھا بُرا غلط اور صحیح مگر اُن کی گزر ہو جائے اسی کو روٹیاں سیدھی کرنا تو ایسے لوگوں کے لئے اور بھی بڑی بات ہے اب وہ فریب سے ہویا بے غیرتی سے جو بھی حربہ کام آئے۔

 

(۸) عمر پٹہ لکھوانا۔

دستاویز لکھوانے کو کہتے ہیں اب عمر بھر کے لئے تو کوئی دستاویز معقول سطح پر لکھی نہیں جا سکتی اسی لئے جس کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں اُن کے لئے طنزیہ طور پر کہتے ہیں کہ کیا عمر بھر کا پٹہ لکھوا کر لائے ہو جو تمہارا کام برابر ہوتا رہے۔

 

(۹) عمر کا پیمانہ بھر جانا یا لبریز ہو جانا۔

جب آدمی کی عمر ختم ہو جاتی ہے تو اسے عمر کا پیمانہ بھر جانا یا لبریز ہو جانا کہتے ہیں یہ اس وقت کی ایک اہم بات ہے جب وقت کو پیمانوں سے ناپا جاتا تھا کہ کٹورے میں ایک باریک سا سُوراخ کر دیا جاتا تھا اس سے پانی رس رس کر کٹورے میں بھرتا رہتا تھا یہاں تک کہ وہ وہ کٹورا یا پیمانہ لبریز ہو جاتا تھا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ اتنا وقت گزر گیا اس سے زندگی کو ایک پیمانہ قرار دیکر یہ محاورہ بنا یا گیا کہ عمر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اِس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ محاورے کس طرح بنتے ہیں اور اُن کے پس منظر میں کیا سچائیاں موجود ہیں اور ان کے معنی اور معنویت کیا ہے۔

 

(۱۰) عمل بیٹھ جانا یا عمل پڑھنا۔

ہمارے ہاں معاشرے میں حسن عقیدت کے طور پر یہ بھی خیال پایا جاتا ہے کہ فلاں عمل پڑھنے سے اور ایک خاص وقت پر اس کو بار بار پڑھنے سے وہ کام بن جاتے ہیں جو بظاہر بہت مشکل ہوتے ہیں یا ہوتے نظر ہی نہیں آتے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بعض عمل پڑھنے میں کیسی غلطی یا خرابی کی وجہ سے اُلٹ جاتے ہیں اور عمل پڑھنے والا کسی نہ کسی تکلیف یا نقصان کا شکار ہو جاتا ہے اب تو اس کا رواج کچھ کم ہو گیا پہلے یہ باتیں اکثر سننے میں آتی تھیں اور لوگ عمل پڑھتے نظر آتے تھے۔

 

(۱۱) عُنقا ہو جانا یا ہونا۔

آدمی شروع ہی سے پرندوں سے دلچسپی لیتا رہا ہے یہاں تک کہ اُس نے کہانیاں اور داستانیں گھڑ کر اس طرح کے کردار پرندوں میں بھی پیدا کر دیئے جو واقع نہیں ہیں مگر اپنے طور پر عجیب و غریب کردار ہیں جیسے رخ اور سیمرغ  پرندے جو بہت بڑے ہیں اور جن کے بارے میں خیال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پنجوں میں ہاتھیوں کو لیکر اڑ جاتے ہیں ایسے پرندے بھی فرض کئے گئے جو گیت گاتے ہیں اور اُن سے گیت اُن کے اپنے وجود کو جلا کر بھسم کر دیتے ہیں اور پھر وہ اپنی راکھ سے جنم لیتے ہیں۔

’’ققنس‘‘ اسی طرح کا ایک فرضی پرندہ ہے ’’ہما ‘‘کے نام سے ایک ایسے فرضی پرندہ کا تصور بھی ہو جاتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم مصری شہنشاہ (فرعون) اپنے سرپر ایک پرندہ نشان بنائے رکھتے ہیں غالباً ہما اب بھی اس کا تصوّر ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ لڑکوں کا نام ہمایوں اور لڑکیوں کے نام ظلِ ہما رکھے جاتے ہیں ’’ عنقا‘‘ ایک ایسا پرندہ ہے جس کا تصور چین میں خاص طور پر پایا جاتا ہے کہ وہ ہے بھی اور نہیں بھی اسی لئے جو چیز غائب ہو جاتی ہے اس کو محاورے کے طور پر کہتے ہیں وہ تو عنقا ہو رہی ہے یعنی کہیں ملتی ہی نہیں۔

 

(۱۲) عیب جُوئی کرنا، عیب ڈھونڈنا، عیب لگانا۔

ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم آدمی کی خو بیاں نہیں دیکھتے اس کی نیکیوں پر نظر نہیں کرتے بلکہ خواہ مخواہ بھی اس کے کردار میں طرح طرح کے عیب نکالتے ہیں۔ اور کوشش یہ رہتی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو عیب تلاش کئے جائیں یا عیب تراشے جائیں اور جو خرابیاں یا خامیاں کسی میں نہ ہوں وہ کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر نکالی جائیں یہ ہمارے معاشرے کاوہ غیر انسانی اور غیر تہذیبی رو یہ ہے جو بہت عام ہے اور غالبؔ کے اس مصرعہ میں اسی سچائی کی طرف اشارہ ہے۔

؂ ہوتی آئی ہے‘ کہ اچھوّں کو بُرا کہتے ہیں

سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان اور اپنے ادب کا مطالعہ اِس نقطہ سے کیا ہی نہیں کہ ہماری کن کِن باتوں کی طرف ہمارے اشعار ہماری کہاوتوں اور ہمارے محاوروں میں موجود ہیں۔

 

(۱۳) عیش کے بندے عیشی بندے (عیش اُڑانے والے)۔

ہمارے معاشرے میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ عیش پسند ہویا نہ ہو مگر آرام پسند ضرور ہوتے ہیں اسی لئے ہمارے ہاں آرام کرنے یا ہونے پر بہت محاورے موجود ہیں اور اسی طرح عیش کرنے پر بھی کہ وہ تو عیش کر رہے ہیں۔ عیش اُڑا رہے ہیں ایسے ہی لوگ جوہر حالت میں مطمئن رہتے ہیں اور خوش نظر آتے ہیں وہ’’ عیشی بندے‘‘ کہلاتے ہیں یعنی انہیں تو ہر حالت میں عیش کرنا ہے کچھ ہویا نہ ہو۔

 

(۱۴)عین غین ہونا، یا عین میں ہونا۔

یہ دو الگ الگ محاورے ہیں اور ان کے معنی ہیں اِدھر اُدھر کی بیکار کی باتیں سوچنا اور ذرا سی دیر میں اپنی توجہ بدل دینا غیر سنجیدہ لوگوں کا یہی رو یہ ہوتا ہے ’’عین‘‘ آنکھ کو کہتے ہیں اور ’’غین‘‘ کے معنی ہیں غائب ہو جانا ذرا سی دیر میں توجہ بدل جانا اور آدمی کا موجود ہوتے ہوئے ذہنی طور پر غائب ہو جانا عین غین ہونا کہلاتا ہے۔ عین میں ہونا جوں کا توں بالکل وہی اور  اُسی جیسا ہونا عین مین ہونا ہے وہ تو عین مین ایسا ہی تھا اور اسی طرح لگ رہا تھا یہ بھی ہی کے معنی بھی یہی ہیں یعنی بالکل اُس جیسا سی سے یہ عین مین کا محاورہ بھی بنا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے عربی الفاظ کو اپنے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اور اپنی زبان میں صرف عربی لفظ داخل نہیں کئے محاورہ بھی تراشے ہیں۔

***

 

 

 

ردیف ’’غ‘‘

 

 (۱) غار ت ہونا، غارت کرنا۔

ہمارے ہاں وسطی عہد میں راہ زنی اور غارت گری بھی مختلف علاقوں اور  گروہوں نے بطورِ پیشہ اختیار کر لی اسی لئے ہمارے ہاں جرائم پیشہ کا لفظ آتا ہے اور اس سے مراد وہ لوگ وہ ذاتیں اور قبائلی گروہ ہوتے ہیں جو طرح طرح کے جرائم میں اُلجھے ہوئے نظر آتے ہیں اُن کے غول کے غول کبھی غارت گری کرتے ہوئے آتے تھے شہروں اور بستیوں پر ٹوٹ پڑتے تھے یہاں تک کہ رات کو پچاس وپچاس کوس تک کسی بستی میں چراغ نہیں جلتا تھا کہ لوٹ مار کرنے والے نہ آ جائیں اِس محاورے میں اسی صورتِ حال کی طرف اشارہ ہے یہ لفظ دراصل غارت گر ہے جیسے مغربی یوپی کے لوگ غارت غور کہتے ہیں۔ زکا حرف ل میں بدل جاتا ہے اس اعتبار سے یہ غارت غول ہو گیا۔ اور محاورہ بن گیا۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بعض محاورے اس وقت کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہیں اور تاریخی سچائیوں کو اپنے اندر سمیٹے رہتے ہیں۔

 

(۲) غازی مرد۔

’’غزوہ‘‘ اُس جنگ کو کہتے ہیں جس میں حضورؐ نے شرکت فرمائی ہوئی تھی جیسے غزوۂ بدر، غزوۂ خندق اور  غزوۂ احد رفتہ رفتہ یہ تصور ایسی جنگوں کا ترجمان بن گیا جو مذہبی مقاصد کے لئے ہوتی ہیں یا ظاہر کی جاتی ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے غازی کہلاتے ہیں اسی لئے غازی کا لفظ مسلمانوں میں بہت بہادر اور مذہبی جنگ میں حصّہ لینے والے کے لئے آتا ہے اور اپنے نام میں بھی احترام کے طور پر اس کو شامل کیا جاتا ہے یا دوسرے شامل کرتے ہیں جیسے غازی مصطفی کمال پاشا یا غازی امام اللہ خان وغیرہ غازی مرد کہنا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں بہادر آدمی مذہب کے لئے لڑنے والا انسان اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسلم کلچر رکھنے والا خاص محاورہ ہے۔

 

(۳) غائب غُلّہ کر دینا، غتر ابود کرنا۔

ہمارے عام محاورات میں سے ہے جب آدمی کسی بات یا کسی سچائی کو چھُپانا چاہتا ہے تو اُس پر طرح طرح سے پردہ ڈالتا ہے اور اِدھر اُدھر کے مسائل میں یا باتوں میں اصل بات کو اُلجھاتا ہے۔ اور اس طرح سچ پر پردے ڈال دیتا ہے تو وہ اُسے غائب غلہ کر دینا کہتے ہیں اور یہ گویا عام آدمی کا طرز عمل ہوتا ہے جو وہ سچائی کو چھُپانے کے لئے اختیار کرتا ہے اس میں سب ہی شریک نظر آتے ہیں۔ ’’غترآلود‘‘ کرنا بھی غائب غلہ کر دینے کے معنی ہی میں آتا ہے۔

 

(۴) غپ شپ کرنا۔

ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو باتیں کرنے اور باتیں بنانے کا شوق ہوتا ہے ہم چاہے دوکانوں کے پھٹے پر بیٹھ کر باتیں کریں یا کسی پارک میں یا بیٹھک میں یا چوپال میں جب لوگ بیٹھ کر باتیں کریں گے تو ادھر ادھر کی ضروری اور غیر ضروری باتیں بھی ہوں گی قصے کہانیاں لطیفہ چٹکلے حکایتیں روایتیں شعر و شاعری اخبار اشتہار سبھی کچھ تو اس میں آ جائے گا اور کام کی باتیں بہت کم ہوں گی اسی کوغپ شپ کرنا کہتے ہیں اور غپ شب لڑانا بھی اور  نچلی سطح پر اتر کر گپ بازی کرنا یا گپ مارنا بھی گپ کے ساتھ گپ ہانکنا بھی آتا ہے اس سے ہم سماج کی نچلی سطح پر بات چیت اور ہنسی مذاق کا جو ڈھنگ ہوتا ہے اُسے بھی سمجھ سکتے ہیں۔

 

(۵) غٹ پٹ ہو جانا۔

غٹ پٹ دراصل گٹ پٹ ہے جو خود ایک محاورہ ہے اور یہ انگریزوں کی آمد کے زمانے میں رائج ہوا تھا یعنی انگریزی کے بول ’’بولنا‘‘ اور اسی انداز کو اختیار کرنا’’ گٹ پٹ کرنا‘‘ کہلاتا تھا اس کو عوام نے غٹ پٹ بنا لیا جبکہ ٹ اور غ ایک ساتھ نہیں آتے مگر ہمارے ہاں پانی پینے کے ساتھ غٹ غٹ کرنا آتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے اور اسی امر کی طرف ایک اشارہ ہے کہ تلفظ کس طرح بدلتا ہے اور خاص طور پر ایسے الفاظ میں جو عوام کے درمیان پہنچتے ہیں اور وہ انہیں اپنے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔

 

(۶) غدر مچانا۔

’’غدر مچنا ‘‘بھی اسی مفہوم میں شامل ہے غدر غداری کو کہتے ہیں لیکن اردو میں اس کا مفہوم کچھ اور بھی ہے اور وہی زیادہ درپیش نظر رہتا ہے یعنی بدنظمی چھین جھپٹ اور کوئی انتظام نہ رہنا۔ ۱۸۵۷ء میں جو یہاں کچھ ہفتوں کے لئے بدنظمی دیکھنے کو ملی تھی اور تاریخ کا ایک حصّہ بن گئی وہ ہماری زبان کے اس محاورے میں بدل گئی اب جب بھی یہ کہتے ہیں کہ اس گروہ یا اس گروہ نے بدنظمی بد انتظامی Lawless لالیس کو پیدا کر دیا اس کو یہ کہتے ہیں کہ غدر پھیلا دیا غدر مچا دیا  ایسا ۱۹۷۴؁ء میں بھی ہوا تھا اور تاریخ میں اس کی بہت مثالیں مل جاتی ہیں۔

محاورے کچھ تاریخی واقعات سے متعلق ہیں کچھ سماجی رویوں سے کچھ خاص طرح کے اداروں سے جب محاوروں کی لفظیات اور پس منظر پر غور کیا جاتا ہے تب یہ سچائیاں سامنے آتی ہیں۔

 

(۷) غرض کا باؤلا، (اپنی غرض باؤلی ہوتی ہے)

ہمارے ہاں جو بھی سماجی صورت حال رہی ہے وہ ایک کے بعد دوسرے پر اثرانداز ہوتی رہی اور انسانی بحیثیت ایک فرد اور ایک خاندان کا رکن ہونے کی صورت میں خود غرضی اختیار کرتا رہا۔ پیسے کا معاملہ ہو یا زمین جائداد کا یا حقوق و فرائض کا خود غرض افراد اپنی مقصد براری کے لئے دوسروں پر ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں اور خود ذمہ داریوں سے بچنا چاہتے ہیں اور اس طرح کا رو یہ اختیار کرتے ہیں کہ جیسے انہیں خود کچھ پتہ نہیں۔ اِسی طرح جب کسی سے غرض وابستہ ہوتی ہے تو صحیح  و سفارش سے خوشامد درآمد سے یا پھر زور زبردستی سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ باؤلا نہیں ہے بلکہ اپنی غرض کا باؤلا ہے اور جیسے بھی ہو اپنا کام نکالنا چاہتا ہے کہ اس کے افعال اس طرح اپنے مسائل کو حل کرتے ہیں اور بظاہر سیدھے سادھے مگر اپنی غرض کے پیچھے باؤلے بنا رہنا چاہتے ہیں۔ ’’ غرض کے یار‘‘ بھی یہی مفہوم رکھتا ہے۔

 

(۸) غرّہ بتانا،غرّہ کرنا۔

ویسے تو چاند رات کو غرّہ کہتے ہیں لیکن اُردو محاورات میں ’’غرّہ‘‘ بہ معنی غرور و تکبر بھی آتا ہے کہ وہ اپنے خاندان اپنی ملازمت یا اپنی تعلیم و شہرت پر بہت غرور کرتا ہے یا پھر غرہ بتاتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں اِدھر اُدھر کے بہانے کرنا۔

؂ چاند ہوتا ہے تو وہ غرّہ بتا تا ہے مجھے

یہ مصرعہ اسی محاورے کو پیش کرتا ہے اِس سے ہم اپنے معاشرے کے مزاج کو جان سکتے ہیں کہ عام طور پر لوگوں کا رو یہ دوسروں کے ساتھ کیا رہتا ہے۔

(۹) غسل کی حاجت ہونا۔

یہ ایک خاص طرح کا محاورہ اور اِس سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ مذہبی طور پر بد خواب ہونے یا عورت سے ہمبستر ہونے کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے اس طرح کا مسئلہ دوسری قوموں میں بھی موجود ہو سکتا ہے لیکن مسلمانوں میں خاص طور پر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر ایسی کوئی صورت ہو تو پاکی حاصل کرنے کے لئے غسل کر لیا جائے۔

 

(۱۰) غش ہونا، یا غش کھا کر گِر جانا۔

یہ کمزوری میں ہو سکتا ہے اور کچھ خاص حالات میں جیسے خون کو دیکھ کر طبیعت پر غشی طاری ہونا یا کسی خوفناک منظر سے غیر معمولی تاثر لینا یا پھر کسی کے حُسن و جمال پر بے طرح عاشق ہو جانا۔ اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہنا جسے غش ہونا کہتے ہیں اور کمزوری کے باعث ہوش کھو دینا غش آ جانا کہلاتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں غشی طاری ہونا۔

 

(۱۱) غصّہ پینا، غصّہ تھوک دینا،غصّہ دلانا، غصہ آنا۔

ہماری انسانی عادتوں فطری کمزوریوں اور سماجی رویوں میں جو بات بطورِ خاص شامل رہتی ہے وہ بغض و نفرت حقارت بھی ہے اور اُن کے پس منظر میں موجود ہے غصہ میں آدمی کو اپنے اوپر قابو نہیں رہتا وہ شدید جذباتی عمل اور  ردِ عمل کا شکار رہتا ہے اُس کی نفسیات میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ غصّہ میں آدمی خودکشی بھی کر لیتا ہے اور دوسرے کو قتل بھی کر دیتا ہے۔

’’جگر‘‘ چبانا اور خون پینے کا عمل بھی غصّہ ہی کا اظہار ہے اسی لئے ہمارے یہاں غصہ کو کم کرنے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے ذرا غم کھا ٹھنڈا پانی پی غصّہ تھام یہ محاورہ گلزارِ نسیم میں غصّہ تھامنے سے متعلق شعر اس طرح آیا ہے۔

؂ تھمتا نہیں غصہ تھا منے سے

چل دُور ہو میرے سامنے سے

اسی میں اس طرح کے محاورے شامل ہیں غصہ تھوک دو یا غصہ پی جاؤ اگر دیکھا جائے تو ان محاوروں میں جذبات کے لحاظ سے غصّہ کا آنا بھی شامل ہے۔

چرنجی لال نے غصہ میں بھُوت بن جانا محاورہ بھی دیا ہے مگر اس کا استعمال عام نہیں ہے ہاں سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ شدید غصّہ کی حالت میں آدمی آدمی نہیں رہتا بھوت بنا ہوا نظر آتا ہے۔

 

(۱۲)غضب آنا یا ٹوٹنا، غضب توڑنا، غضب میں پڑنا، غضب ہونا۔

غضب غیر معمولی غصّہ کو بھی کہتے ہیں اور غضب ناک ہونا بولتے ہیں اور جب کوئی بیحد پریشان کُن اور  تباہ کرنے والی صورت پیش آتی ہے تو اس کو قہر نازل ہونا یا غضب آنا کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ دلی میں نادر شاہ درانی کیا آیا یہ کہئے کہ غضب آ گیا ویسے بھی غضب کا استعمال اُردو زبان میں غیر معمولی صورت حال کے لئے بہت ہوتا ہے کیا غضب کا گانا تھا کیا غضب کی آواز پائی ہے یا کیا غضب کا حافظہ ہے۔

غضب توڑنا یا غضب ٹوٹنا یا غضب ڈھانا یہ بہت عام ہیں اقبالؔ نے اپنے شعر میں غضب کیا محاورہ استعمال کیا ہے۔

؂ تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں

 

(۱۳) غُلام کرنا یا غُلام بنانا۔

غلام کا لفظ انسان یا گروہِ انسانی کے لئے توہین آمیز ہے اور دوسری قوموں کی ماتحتی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انسانوں کو غلام بنا کر خرید و فروخت کرنے کا رواج بھی رہا ہے اور صدیوں تک رہا ہے زر خرید غلام ہونا بھی اسی کی طرف ایک اشارہ ہے حضرت یوسف ؑ بھی غلام بنائے گئے اور مصر کے بازار میں بیچے گئے تھے غلام بنا کر رکھنا کسی شخص کو نوکروں سے بدتر درجہ دینا ہے اور یہ کہنا وہ تو ان کی مرضی کا غلام ہے اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی کوئی خواہش یا خوشی نہیں ہے۔

جس طرح مختلف اشیاء اور بھیڑ بکریوں ہاتھی گھوڑوں کے بازار لگتے تھے اسی طرح عورتوں مردوں اور بچوں کے لئے بھی بازار لگتے تھے اب یہ الگ بات ہے کہ تاریخ میں وہ وقت بھی آیا جب غلاموں نے بادشاہت کی اقبالؔ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔

 

؂ جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی

 

جواہر لال نے ایک موقع پر لکھا ہے

"There is none to defendslavery now a days But great Plato held that it was necessary.”

اِس کا ترجمہ یہ ہے آج کوئی غلامی کی حمایت نہیں کرتا لیکن عظیم’’ افلاطون‘‘ یہ سمجھتا تھا کہ یہ ضروری ہے اسی وجہ سے ہمارے ہاں غلام غلامی اور اسی کے ساتھ کنیزوں باندیوں کے متعلق بہت محاورے موجود ہیں۔

غلام خرید ے بھی جاتے تھے اور تحفہ کے طور پر پیش کئے جاتے تھے کنیزوں اور باندیوں کے ساتھ ساتھ بھی یہی صورت بھی ’’رومی تہذیب‘‘ میں تو غلاموں کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوتا تھا ان کی بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلائی جاتی تھیں۔ انہیں وحشی جانوروں سے لڑایا جاتا تھا۔ سُولی جیسی سخت سزا بھی رومیوں ہی کی ایجاد ہے اپنے غلاموں کے ساتھ اُن کی بدسلوکی اور ظالمانہ رو یہ تاریخ کی المناک کہانیوں میں سے ہے۔

 

(۱۴) غُلام مال۔

جو چیز بہت سستی مگر مضبوط اور  پائیدار ہوتی تھی وہ غلام مال کہلاتی تھی امیروں کے محل میں کچھ خاص راستہ غلام گردش کہلاتے تھے۔ اب بھی کہتے ہیں ماضی کی غلام گردشوں سے گزرتے ہوئے یعنی اُن حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران جو تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں اور غلاموں نیز باندیوں سے متعلق ہیں۔

 

(۱۵) غُلامی کا خط لکھنا(خطِ غلامی لکھ دینا)۔

اُس وقت کہتے ہیں جب آدمی کوئی شرط ہار جاتا ہے کہ خط کے معنی ہیں یہاں تحریر یا دستاویز کہ اگر میں شرط ہار گیا یا میری بات غلط ثابت ہوئی تومیں خط غلامی لکھ دوں گا یا آپ کا غلام ہو جاؤں گا ہمارے معاشرے میں تو بات یہاں تک آتی تھی کہ دیکھو اگر تم شرط ہا ر گئے یا تمہارا جھوٹ ثابت ہو گیا تو تم کان ناک دیکر آؤ گے یا تمہارے کان کاٹے جائیں گے یا ناک یعنی تم بے عزت ہو جاؤ گے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بات کی پچ کیسے نبھائی جاتی تھی یا اُس پر زور دیا جاتا تھا قبائل معاشرے میں یہ باتیں زیادہ دور دراز انداز میں یا دعووں کے ساتھ کی جاتی تھی اور اس طرح ہمارے یہ محاورے ایک خاص دور کے ذہن و کردار کو پیش کرتے ہیں۔

 

(۱۶) غلامی میں دیتا ہوں، یا غلامی میں دینا۔

ہمارے ہاں گفتگو کے جو آداب ہیں اور سوچنے کا جو ڈھنگ ہے اُس کے مطابق انکساری برتنا آدابِ گفتگو کا حصّہ ہے جب کسی لڑکے کا رشتہ بھیجا جاتا ہے تو لڑکی والوں کے احترام کے خیال سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو آپ کی غلامی دینا چاہتا ہوں یعنی یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رشتہ داری کو قبول کر لیں اب یہ الگ بات ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ جس کو کنیز یا باندی بنا کر دیا جاتا ہے سسُرال میں مشکل ہی سے کوئی اچھا سلوک ہوتا ہے اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کہنے اور کرنے میں بہت فرق رہتا ہے اسی لئے ہم دوسروں پر اعتبار نہیں کرتے اور بات کو پلٹنا بھی ہم سماجی طور پر کوئی عیب خیال نہیں کرتے۔

 

 (۱۷) غم غلط کرنا۔

آدمی جب غموں سے گزرتا ہے تو ایک سے زیادہ تعیناتی اور سماجی تجربوں سے بھی گزرتا ہے۔ جس میں اُس کے حالات وخیالات شامل رہتے ہیں مثلاً کوئی اُسے خواری کرنے والا مل جائے اور اُس کے غموں میں شریک ہو جائے یہ بھی ہوتا ہے اور یہ آدمی کے اپنے حوصلہ اپنی ہمت عقل و شعور یا کسی خیال عقیدہ کے مطابق ہوتا ہے کہ وہ غموں پر صبر کرے جسے غم کھا نا کہتے ہیں جب دوسرے یہ کہتے ہیں یہ صبر کرنے اور ہمت سے کام لے۔

اُس کے مقابلہ میں جب آدمی اپنے غم کے احساس کو کم کرنے کے لئے سیر و تفریح کرتا ہے یا آج کل کے حالات میں زیادہ ٹی وی دیکھتا ہے یا کچھ لوگ پڑھنے لکھنے سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تو اُسے غم غلط کرنا کہتے ہیں یعنی وہ اسطرح اپنے غم کے احساس کو اِدھر اُدھر کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ سماج کا ایک اچھا رو یہ ہوتا ہے بشرطیکہ آدمی کوئی دوسرا غم نہ خرید لے اور کسی نئی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائے مثلاً لوگ جوئے شراب تماش بینی اور یار باشی کے عادی ہو جاتے ہیں۔

 

(۱۸) غوزیں لڑانا۔

ہمارے ہاں بہت سے محاورے باتیں کرنے کے ڈھنگ اور  رویوں سے متعلق ہیں باتیں سب کرتے ہیں لیکن باتیں کرنا سب کو نہیں آتا اس میں موقع و محل کی مناسبت دیکھنا بھی شامل ہے۔ جو عام طور پر لوگ نہیں دیکھتے خواہ مخواہ کی باتیں کرنا اپنوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا یا اپنی بہادری اور بڑائی کے طرح طرح سے موقع بہ موقع پہلو نکالنا یہ سب ہماری سماجی عادتوں میں شامل ہے۔ ایسی باتوں کو ڈینگ مارنا بھی کہتے ہیں اور ڈینگ ہانکنا بھی اس کے لئے ’’چرنجی لال‘‘ نے ایک محاورہ غوزیں مارنا بھی شامل کیا ہے جو اجنبی محاورہ ہے ممکن ہے یہ غزوہ مارنا سے نکلا ہوا اور اس کا مطلب ہو بہت سی لڑائیوں معرکوں میں حصہ لینے اور کامیاب ہونے کا ذکر کرنا ہے۔

اس سے سماج کے اس رو یہ کا پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس حد تک اُوٹ پٹانگ باتیں کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور گپ شپ ہانکنے میں اس حد تک یقین ہوتا ہے کہ اس کی برائی پر کبھی اس کی توجہ نہیں جاتی۔

 

(۱۹) غیرت سے مر جانا، یا غیرت کھا کے ڈوب مرنا۔

غیرت شرافت پر مبنی ہے جس کے تحت آدمی نقصان اُٹھا لیتا ہے تکلیفیں برداشت کر لیتا ہے۔ اور کبھی شکایت بھی نہیں کرتا اور اگر اس سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو حیاء و شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے بلکہ ایک طرح سے ڈوب مرتا ہے کہ پھر کسی کو منہ نہیں دکھلا سکتا ہمارے ہاں لوگ طعنہ بھی دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر غیرت ہو تو ڈوب مر یا کوئی غیرت مند ہوتا تو ڈوب مرتا۔

اِ س سے ہم سماج میں کن باتوں کو اہمیت دی جاتی رہی ہے اُس کا اندازہ کر سکتے ہیں آدمی کوئی بات اپنی عملی زندگی میں شامل کرتا ہو یا نہ رکھتا ہو اُس پر زور ضرور دیتا ہے۔

 

 

 

(۲۰) غیر حالت ہو جانا، یا (حالت غیر ہو جانا)

اِس کے معنی ہوتے ہیں کہ حالت بہت خراب ہو گئی اور اس سے مزید ہمارے اور معاشرے کی اس نفسیات کا علم ہوتا ہے کہ وہ غیر کوکس برے اور کتنے بڑے معنی میں استعمال کرتے ہیں کہ اگر کسی مرضی کسی تکلیف کسی پریشانی کی وجہ سے حالت خراب ہوتی ہے تو اُسے خراب کہنے کے بجائے غیر ہونا کہتے ہیں۔

***

 

 

 

 

ردیف ’’ف‘‘

 

 (۱) فاتحہ پڑھنا۔

جب کسی مرے ہوئے شخص کو یاد کیا جاتا ہے تو دُعا کے ساتھ یا د کیا جاتا ہے۔ ’’الحمد‘‘ جو سورہ فاتحہ کہلاتی ہے اور چاروں قل پڑھ کر مرنے والے کی رُوح کو ثواب پہنچایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں فاتحہ دینے کا بھی رواج ہے اور ایسے موقع پر بعض عزیزوں کو بُلایا بھی جاتا ہے۔ اور فاتحہ کا  کھانا پکتا ہے غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن سماج میں اس کا ایک دوسرا تصور بھی ابھر آیا اور وہ ہے اظہارِ بے تعلقی کرنا اور ایک طرح سے لَعنت بھیجنا کہ اس پر فاتحہ پڑھ لو یعنی اس ذکر کو ختم کر لو اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مقدس معنی کس طرح سماجی رو یہ کے ساتھ غیر متبرک معنی میں بدل جاتے ہیں صلواۃ بھی اسی کی ایک مثال ہے کہ اس کے معنی درُود  و سلام کے ہیں لیکن ہمارے اپنے محاورے میں لعنت و ملامت کے ہو گئے ہیں۔

 

(۲) فاختہ اُڑانا۔

فاختہ ایک پرندہ ہے جو آبادیوں میں رہتا ہے لیکن پالا نہیں جاتا آدمی اس سے بہت کم مانوس ہوتا ہے ہمارے ہاں کبوتر پالے بھی جاتے ہیں اور اُڑائے بھی جاتے ہیں شہروں قصبوں میں کبوتر اُڑانے کا رواج عام ہے۔ فاختہ کوئی نہیں اڑاتا مگر خلیل خاں ایک فرضی کردار ہے جو حماقت کی باتیں کرتے ہیں اور حماقت کی باتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ فاختہ اڑاتے ہیں اس طرح سے فاختہ اُڑانا بے وقوفی کا عمل ہے اور محاورے میں اسی کی طرف اشارہ ہوتا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کے محاورے خاص حاص کرداروں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔

 

(۳) فارسی کی ٹانگ توڑنا۔

زبان کے معاملہ میں شہری آبادی کا ایک خاص رو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے محاورے اور  روزمرہ پر زور دیتے ہیں اور دوسروں کی بولی کو ٹکسال باہر قرار دیتے ہیں۔ میر تقی میرؔ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میرؔ کے کلام کے لئے جامع مسجد کی سیڑھیاں ہیں یا محاورۂ اہلِ دہلی ہے۔

انشاؔء اللہ خاں نے دہلی کے کچھ خاص محلے کی زبان کو مستند قرار دیا ہے اس سے زبان کے معاملہ میں اہلِ دہلی کی رائے اور ترجیحات کا پتہ چلتا ہے فارسی والے بھی ایسا ہی سوچتے تھے اور خاص طور پر ہم اردُو والوں میں غالبؔ کو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے فارسی والوں کو بُرا سمجھتے ہیں اور اہلِ زبان کے مقابلے میں بہت کم تر درجہ دیتے ہیں یہی وہ ماحول ہے جب عام فارسی جاننے والوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ فارسی کی ٹانگ توڑتے ہیں۔

 

(۴) فارغ خطی لکھوانا۔

اِس کو عام لوگ اپنے لب و لہجہ میں فارخطی بھی کہتے ہیں اور یہ ایسی دستاویز ی تحریر کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ کسی کو آزاد کر دیا جاتا ہے۔ وہ چاہے قرض کی ادائیگی سے متعلق ہویا نکاح و شادی بیاہ کے بارے میں۔ اِس سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ اُس کی ذمہ داری اب کوئی نہیں رہی ہے اِسی کو فارغ خطی لکھنا کہتے ہیں۔

 

(۵) فاقہ مستی ہونا۔

ہندوستان میں غربت و افلاس بہت ہے مغلوں کے آخری دور میں یہ صورتِ حال اور بھی زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کُن رہی ہے اکثر خاندانوں میں فاقہ ہوتے تھے اور لوگ انہی کے عادی ہو جاتے تھے اور اسی حالت کو فاقہ مستی کہا جاتا ہے۔ ایک سطح پر عیشِ امروز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 

(۶) فردِ باطل ہونا، یا فرد باطِل قرار دیا جاتا۔

’’فرد‘‘ دستاویزی تحریر کو بھی کہا جا تا ہے اس میں صلح نامہ کی شرطیں بھی ہو سکتی ہیں اور کوئی ضروری حساب کتاب بھی اب یہ ظاہر ہے کہ معاشرے میں جو بددیانتی موجود ہے اُس کے باعث یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی جعلی دستاویز تیار کر لی جائے یا کسی صحیح تحریر کو فرد باطل قرار دیا جائے یعنی جھوٹی دستاویز۔

 

(۷)فرزندِ نا خلف۔

ہمارے خاندانوں میں ماں با پ یا باپ دادا کی  وِراثت کے حق دار بیٹے ہوتے ہیں لڑکیاں اپنا حصہ لے سکتی ہیں لیکن ایسا بھی دشوار ہو رہا ہے کہ وہ معاف کر دیتی ہیں شادی بیاہ یا دوسرے خوشی کے موقعوں اپنا حق یا نیگ وصول کرتی ہیں جب کہ اصولی طور پر یہ حق اپنی جگہ پر قائم ہوتا اور نیگ کی حیثیت اخلاقی اور  رسماً ہوتی ہے شرعی نہیں۔

 

(۸)فرشتے خاں۔

سماج کا ایک خاص کردار کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جواپنے آپ کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ بڑی چیز رکھتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ واسطے میں لوگ اپنے کئی رشتے دار عزیز یا پڑوسی کو اس طرح کا کردار ثابت کرانا چاہتے ہیں کہ وہ تو اپنے آپ کو بہت فرشتہ خاں سمجھتا ہے یہ کردار یا اِس طرح کی مصنوعی کردار کے ایک خاص سطح پر نفسیاتی رو یہ کی نشاندہی کرتی ہے۔

 

(۹)فرشتے دکھائی دینا۔

ویسے تو فرشتہ استعارے کے طور پر ایک نیک اور بھلے آدمی کو کہتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی اپنے سادہ پن کی وجہ سے کسی بڑے آدمی کے بارے میں اچھا خیال رکھتا ہو تو طنز کے طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آ پ کو تو سب ہی فرشتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں اِس طرح کے خیالات بھی رائج رہے ہیں کہ موت سے پہلے فرشتے دکھائی دیتے ہیں یا قربانی کے جانور کو فرشتے چھُریاں دکھاتے رہتے ہیں اِس طرح کے خیالات اور توہمات ہماری سماجی زندگی میں موقع بہ موقع کا ر فرما  نظر آتے ہیں۔

 

(۰۱)فرشتے کے پر جلنا۔

فرشتہ ایک غیبی مخلوق ہے ہم بہت سی ایسی مخلوقات کے قائل ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں وہ غیبی قوتوں کی علامتیں ہیں جن کو ہم نے ایک وجود کے ساتھ مانا ہے اُن میں دیوی دیوتا بھی ہیں اور فرشتے بھی مسلمان یہود اور عیسائی قومیں چار ایسے فرشتوں کی قائل ہیں جو خُدا کے بہت مُقرب فرشتے ہیں اُن میں جبریلؑ ہیں جبریلؑ خدا کا پیغام لے کر انبیاء اور  رسولؐ کے پاس آتے ہیں۔ ’’میکائیل رزق پہنچانے والا فرشتہ ہے ‘‘عزرائیل موت کا فرشتہ ہے اور اسرافیل قیامت کا۔ ہم فرشتوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اور حضرت کہہ اُن کو یاد کرتے ہیں۔

عرب جو فرشتوں کا تصور رکھتے ہیں اس میں پربھی لگے ہوتے ہیں یعنی وہ پرندوں کی طرح ’’پروں ‘‘کے ساتھ اُڑ سکتے ہیں یہاں سے وہاں جا سکتے ہیں اسی لئے فرشتے اُن کے نزدیک بازوؤں والے ہیں۔

ہندوستان میں دیوی دیوتاؤں کے ’’پر‘‘ نہیں ہیں اسی لئے فرشتوں کے پر گننا شاید یہاں کا محاورہ بھی نہیں۔ بعد اس کے یہ کہ فلاں آدمی تو اتنا عقلمند اور غیر معمولی طور پر لائق ہے کہ جو فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے یہ اُن کے ’پر‘ گِن لیتا ہے یہ  نظر داری اور خبرداری کی بہت ہی غیر معمولی صُورت ہے  مگر اس میں اظہار طنز کے طور پرکیا جاتا ہے۔

فرشتے کے ’’پر‘‘ کا  تصور کرتے ہوئے ایک دو محاورہ اور بھی ہیں مثلاً وہاں فرشتہ پر نہیں مار سکتا یعنی اتنی پردہ داری یا پابندی اور پہرہ داری ہے کہ فرشتہ بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے۔ اسی سے ملتا جلتا یہ محاورہ بھی ہے کہ وہاں جانے میں تو فرشتوں کے پر جلتے ہیں اور غالباً اس محاورہ کی بنیاد یہ خیال ہے جو فارسی کے ایک شعر میں آیا ہے کہ معراج کی شب میں جبرائیلؑ حضور اکرم ؐکے ساتھ تھے اور  سدرۃ المنتہیٰ تک ساتھ رہے لیکن یہاں پہنچ کر انہوں نے اپنا ساتھ اس لئے نہیں دیا کہ اس سے آگے جانا ان کے لئے سوئے ادب تھا۔

؂ اگر یکسرے مُوئے برتر پَرم

فروغ تجلی بسوزد پرم

اگرمیں ایک سرِمُو بھی اور آگے بڑھوں تو تجلیات کا فروغ میرے پاؤں کو جلا دے گا

یہاں صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض محاورے اپنی بنیادی فکر کے اعتبار سے ہندوستان سے باہر کی تہذیبی فضاء اور عقائد و اعمال سے نسبت رکھتے ہیں کہ جس طرح اُردُو زبان میں الفاظ اور تصورات میں بین ایشیائی عناصر کو جمع کیا ہے اسی طرح اُن کا عکس محاورات میں بھی آتا ہے۔

نیزیہ کہ محاورہ تجربہ سے بھی پیدا ہوتا ہے ہمارے سماجی شعور سے اور تہذیبی روایتوں سے بھی اور جس طرح شعر لطیفے اور فنونِ لطیفہ کے مختلف نمونے ہیں جو ہمیں تاریخ کے مختلف مرحلوں سلسلوں اور جہتوں سے واقف کرتے ہیں۔

 

(۱۱) فر ش سے عرش تک۔

یہ فارسی ترکیب ہے اور ایک طرح کے محاوراتی معنی رکھتی ہے فرش زمین اور عرش آسمان درمیان میں وہ تمام مادی دنیا یا مختلف عناصر سے متعلق وہ ماحول جو خلاء میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فرش سے عرش تک کہ تمام اَسرار منکشف ہو گئے تو اُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اِس دنیا میں افق سے تابہ افق جو چکھ ہے و ہ ایک بھید بھری دنیا ہے۔ اور وہ سب بھید منکشف ہو گئے ہیں اکثر صوفیاء کے ذکر میں اِس صورت حال کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ویسے یہ کوئی محاورہ نہیں ہے بیان کا ایک خاص شاعرانہ اسلوب اور صوفیانہ طرزِ ادا ہے۔

 

(۱۲) فرشی حقّہ۔

یہ بھی محاورہ نہیں ہے بلکہ ایک اصطلاح ہے ایسے حقے کو فرشی حقہ کہتے ہیں جس کا وہ حصّہ جس میں پانی بھرا رہتا ہے فرش پر ٹِکا رہتا ہے اِس کے مقابلہ میں پیچواں ایک دوسری طرح کا حقہ ہوتا ہے جس کی نالی بہت لمبی ہوتی ہے اور پیچ  در پیچ رہتی ہے اس کو فرش سے اُٹھا کر محفل میں اِدھر اُدھر گھمایا بھی جا سکتا ہے۔ یہی صورت فرشی سلام کی بھی ہے کہ بہت جھک کریا زمین کو چھُو کر جو سلام پیش کیا جاتا ہے اُسے فرشی سلام کہتے ہیں یہ بھی محاورے کے بجائے ایک اصطلاح ہے۔ معاشرتی اور تہذیبی اِصطلاح ہے۔

 

(۱۳) فرعونِ بے سمان۔

مسلمانوں میں بعض ایسے کرداروں کا بھی روایتی طور پر بطورِ محاورہ یا کسی شعر میں بطورِ تلمیح استعمال ہوتا رہتا ہے اُن میں سے افلاطون ایک کردار ہے جو اپنے زمانے کا بہت بڑا فلسفی طبیب اور ماہرِ اخلاقیات تھا یہ’’ ارسطو‘‘ کا اُستاد بھی تھا اسی لئے علمی کتابوں میں اِس کا ذکر بطورِ فلسفی اور حکیم آتا ہے ایک اردو محاورے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا افلاطون بنا ہوا ہے یعنی اپنے آپ کو بہت عقل مند سمجھتا ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا کسی کی بات نہیں مانتا یہی صورت ’’فرعون‘‘ کے ساتھ ہے۔

وہ مِصر کا بادشاہ تھا اور  مِصر کے بادشاہ ہوں کو اُن کے لقب کے طور پر فرعون کہا جاتا تھا ہم فرعون کا ذکر حضرت موسی کے زمانے میں جو فرعون تھا اُس کے حوالے سے کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تو بہت بڑا بادشاہ تھا اس کے پاس ساز و سامان بہت تھا۔ لاؤ لشکر بہت تھا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے رو یہ میں فرعونیت رکھتے ہیں بہت سفّاک بے باک اور بے رحم ہوتے ہیں یا خود پسند ہوتے ہیں وہ’’ فرعون‘‘ بے سامان کہلاتے ہیں یہ گویا تاریخی اور  روایتی تصورات کے ساتھ اپنے سماجی کردار کو سمجھنے کی کوشش ہے اور اُس پر کمینٹ ہے۔

 

(۱۴) فرنٹ ہو جانا۔

فرنٹ انگریزی لفظ ہے اور اُس کے معنی ہیں سامنے ہونا، اسی لئے جب فوج اپنے مقابل سے لڑتی ہے تو اُسے فرنٹ پر دشمن کا مقابلہ کرنا کہا جاتا ہے۔

اُردُو میں محاورہ کے طور پر یہ لفظ آیا تو اُس کے معنی دوسرے ہو گئے یعنی وہ مخالف ہو گیا اور ہمارا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گیا ویسے فرنٹ کا لفظ قصباتی یا دیہاتی زبان میں نہیں آتا لیکن محاورہ میں شامل ہو کر یہ بہت سے ایسے گھروں میں پہنچ گیا جو انگریزی سے بالکل ہی ناواقف ہیں اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ لفظوں کو اپنانے پھیلانے اور محفوظ کرنے میں محاورہ ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔

(۱۵) فراٹے بھرنا۔

دوڑنے کا وہ خاص انداز ہے جو ہرِنوں کے دوڑنے سے تعلق رکھتا ہے اسی لئے جب کوئی جانور بہت تیز دوڑتا ہے تو اُسے فراٹے بھرنا کہتے ہیں۔ اب دوڑنا ایک محاوراتی لفظ خود بھی ہے۔ آدمی ایک معاملہ میں تیز دوڑتا ہے یعنی تیزی سے آگے بڑھتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اُس کا ذہن تو ہرنوں کی طرح فراٹے بھرنے لگا۔ یہاں پھر ذہن اِس طرح منتقل ہوتا ہے کہ انسان اپنے مُشاہدے کو زندگی میں تجربے اور  تجزیے سے گزارتا تھا تو اسے کبھی شعر میں لا تا تھا کبھی کہانی میں کبھی لطیفے کے طور پر اور کبھی اُسے محاورے میں لاتا تھا اور یہاں پہنچ کر اُس کا مشاہدہ ایک ذہنی رو یہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور سماجی حیثیت میں بدل دیتا ہے۔

 

(۱۶) فساد کی جڑ۔

’’فساد‘‘ کے معنی اُردُو میں دنگا کرنا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں دنگا فساد کرنا فتنہ پھیلانا خواہ مخواہ جھگڑوں کا سلسلہ شروع کرنا۔ یہ گھریلو سطح پر  ہو کنبے قبیلے کی سطح پر ہو یا پھر عالمی سطح پر قرآن میں فتنہ پھیلانے یا فساد کے اسباب پیدا کرنے کو قتل سے زیادہ شدید بات بتلایا ہے۔

عام طور پر سماج میں بدنظمی کھینچا تانی باہمی کشمکش یا ہنگامے پیدا کرنے کو فساد برپا کرنا کہا جاتا ہے اور جو بات  جو لوگ اس کا سبب ہوتے ہیں انہیں یا اُس بات کو سبب قرار دیا جاتا ہے اس سے ہم معاشرے کے مزاج اُس کے عمل اور  ردِ عمل یا پھر اصل سبب یا

بنیاد کو دریافت کرنے کی کوشش یا صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔

 

(۱۷) فقرہ بازی کرنا فقرہ کہنا۔

بعض لوگ محفل نشینی کے باعث یونہی بے بنیاد بے تکی غیر سنجیدہ موقع بے موقع فقرے کسنے کی عادت ڈال لیتے ہیں اُسے فقرہ اڑانا بھی کہتے ہیں فقرے اُچھالنا بھی اور بعض موقعوں پر اس کی صورت فقرہ تراشی کی بھی ہو جاتی ہے فقرہ لگا نا بھی ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے موقع و محل کے لحاظ سے تھوڑا فرق بھی ہو سکتا ہے لیکن سماجی رو یہ کے لحاظ سے اس کے مزاج و معیار اور مقصدیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

 

(۱۸) فقیر کر دینا، فقیری لٹکا، فقیری نسخہ۔

فقیر کے معنی بہت غریب اور بھوکے ننگے آدمی کے بھی ہیں اور ایسے شخص کے بھی جس نے درویشی اختیار کر لی مگر زیادہ تر محاوروں میں فقیر کر دینا فقیر ہو جانا بے سہار اور  پیسے ٹکے کے لحاظ سے بالکل خالی ہاتھ ہو جانا ہے۔

بھُوکے ننگے فقیر ایک ساتھ استعمال ہوتا ہے اب کسی شہزادے یا شہزادی یا بڑے آدمی کا اپنے آپ کو فقیر لکھنا عاجزی و انکساری ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے اس محاورے کے دو رخ جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سماج زبان کا استعمال کن کن معنی اور پہلوؤں سے کرتا ہے۔  اور کس طرح سوچ کی سطح بدل جاتی ہے۔

فقیر کا لٹکا ایسے کسی شوق کو کہتے ہیں جو عام طور پر اُن فقیروں میں آ جاتا ہے جو دھُونی  رمائے پیتے ہیں اور اِس طرح نشہ کرتے ہیں۔

 

(۱۹) فلک سیر ہونا، فلک بوس ہونا۔

آسمان پر چڑھنا، آسمان کی سیر کرنا، آسمانوں کو چھونا دراصل آسمان پر ہونا یہی سب محاورے فلک سے متعلق بھی ہیں مثلاً فلک بود میں پہاڑ یا عمارتیں فلک ایک کردار کے طور پر بھی اُردو شاعری میں آتا ہے آسمان کو بُرا کہا جا تا ہے دشمن قرار دیا جاتا ہے اسی طرح فلک کو بھی انسان کی عافیت کا دشمن کہا جاتا ہے۔

 

(۲۰) فنا فی اللہ ہونا۔

صوفیوں کی اصطلاح ہے اُردو میں ہی قریب قریب اسی معنی میں رائج ہے ’’فنا فی اللہ‘‘ یعنی اللہ کی مرضی اُس کی خواہش اور اُس کی محبت میں خودی کے تصور سے گزر جانا اور اُس مادّی دنیا اور اس کے علائق سے انکار کر دینا اور یہ کہنا کہ اللہ کے سوا یہاں کوئی موجود ہی نہیں ہے اور  جب اس صورتِ حال کو پہنچ کرنا اس میں گم ہو کر آدمی حقیقت وجود کو تسلیم کرتا ہے تو وہ گویا اب بقایا اللہ کو جان رہا ہے یعنی اب میں اللہ کے تصوّر اور اُس کی حقیقتِ عالی کے افراد کے ساتھ جی رہا ہوں میرا اپنا کوئی وجود نہیں یہ محاورہ ایک طرح سے خانقاہی ماحول اور  اہلِ خانقاہ کے فلسفیانہ رُوحانی تصورات کی ترجمانی ہے۔

 

(۲۱) فوجداری۔

قانون کی ایک اصطلاح ہے مقصد فوج رکھنا نہیں ہے جواس کے لفظی معنی ہیں بلکہ قانون کی نگاہ میں جُرم کرنا اور مجرمانہ کار روائیوں میں حصّہ لینا ہے مثلاً مار پیٹ قتل و غارت چوری ڈکیتی وغیرہ اس کو انگریزی میں Criminalکیس کہتے ہیں کہ فوجداری کیس بن گیا یا  فوجداری کے سپرد کر دیا یا  فوجداری میں چلا گیا اس کے مقابلہ میں جو کیس ہوتے ہیں اور مالیات سے متعلق ہوتے ہیں وہ دیوانی کے کیس کہلاتے ہیں اور کس کی نوعیت کے پیش نظر اُسے دیوانی یا  فوجداری میں منتقل کیا جاتا رہے۔

 

(۲۲) فی نکالنا۔

یہ عجیب و غریب محاورہ ہے ’’فی ‘‘عربی کا لفظ ہے اور اُس کے معنی ہیں میں فنا فی اللہ میں فی اسی معنی میں ہے لیکن محاورے میں فی نکالنا اعتراض کرنے کو کہتے ہیں یا اختلاف رائے کی سی صورت کو پیدا کرنے کے معنی میں یہ محاورہ آتا ہے جیسے وہ تو ہر بات میں فی نکالتے ہیں۔

اس لفظ کی عربی اصلیت اور اُردو میں اِس کے مرادی یا محاوراتی معنی پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لفظ کے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے تک اُس کی ظاہر ہیئت اور معنوی توسیعات میں کتنی بڑی تبدیلیاں آ جاتی ہیں اور بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔

 

(۲۳) فِٹ ہونا۔ (Fit)

انگریزی کا لفظ ہے لیکن اُردو میں ایک سے زیادہ معنی میں استعمال ہوتا ہے فٹ ہونا اور  فٹ کرنا اور فٹ نظر آنا اُس کی بہت نمایاں مثالیں ہیں۔

***

 

 

 

 

ردیف ’’ق‘‘

 

 (۱) قابو چڑھنا، قابو میں آنا، قابو میں کرنا۔

یہ سب محاورات قریب قریب ایک ہی معنی میں آتے ہیں اور فارسی سے ماخوذ ہیں فارسی میں ’’قابو یا فتن‘‘ یا قابو حاصل کردن یا شدن کہتے ہیں اور مطلب ہوتا ہے تسلّط پانا یہ اچھے خاصے وسیع دائرہ میں اور  وسیع تر مفہوم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔

بڑی مشکل سے حالات پر قابو پایا سو تدبیریں کیں تب وہ قابو چڑھا وغیرہ وغیرہ اُس کے مقابلہ کا محاورہ ہے قابو ہونا ہے چاہیے غصّہ کے باعث ہو چاہے غم کے چاہے کمزوری کے دل کے ساتھ بھی بے قابو کا لفظ آتا ہے جیسے میرا دل بے قابو ہو گیا یہ محاورے سماجی رشتوں اور جذباتی اُتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ کہ آدمی اپنے جذبے اپنے احساس اور ذہنی عمل ردِ عمل کو کس طرح پیش کرتا ہے۔

 

(۲) قارورہ ملنا، یا قارورہ دیکھنا۔

یہ محاورہ ایک طبی اِصطلاح بھی ہے یعنی بیماری کے عالم میں بیمار کے اپنے پیشاب یا  قارورے کو اِس اعتبار سے دیکھنا کہ اس کا معائنہ کرنا اور یہ دیکھنا کہ بیماری کیا ہے کتنی ہے اب یہ باتیں مشین کے ذریعہ ہوتی ہیں پہلے طبیب کی نظر ہی کام کر جاتی تھی۔ وہاں سے آگے بڑھ کر یہ محاورہ میں آئی تو یہ محاورہ بنا کہ ان کا قارورہ نہیں ملتا یعنی مزاج نہیں ملتا طبیعتیں نہیں ملتیں۔ اِس سے ایک بار پھر یہ بات ذہن کی سطح پر ابھرتی ہے کہ ایک فن کے محاورے لفظیات زبان کے مختلف استعمال اور موقع و محل کے لحاظ سے کس حد تک بدلتی ہے۔

 

(۳) قاضی، قاضی الحاجات قاضی قِدوہ، قاضی گِلہ نہ کر سکا۔

’’قاضی‘‘ ایک ایسے آفیسر کو کہتے ہیں جو نکاح خوانی کا رجسٹر رکھتا ہے اور نکاح پڑھاتا ہے اور اس کا ریکارڈ اُس کے پاس رہتا ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں قاضی کو کچھ خاص طرح کے قانونی اختیارات بھی حاصل تھے اور کچھ مقدمات کا فیصلہ بھی اس کے اختیارات کی حدود میں ہوتا تھا ایک بڑا قاضی ہوتا تھا جو قاضی القضاۃ کہلاتا تھا محاورے قاضیوں سے متعلق عجیب و غریب ہیں مثلاً قاضی قدوہ ہونا،جونپور کا قاضی ہونا یہ روایتاً مشہور ہو گئے اور اب نمونے کے طور پر کہا جاتا ہے اور  اُس میں طنز شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑے خاندان اور بہت بڑی چیز سمجھتا ہے۔

یہی معاملہ جونپور کے قاضی کا ہے کہ وہ اپنی مکاری میں مشہور ہو گیا اسی طرح یہ کہاوت کہ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی اسی طرح قاضی تو کوئی گلہ نہیں کرتا وہ تو نکاح پڑھا دیتا ہے باقی معاملات سے اُسے کیا واسطہ قاضی کا پیادہ معمولی سپاہی کہ وہ کونسا قاضی کا پیادہ ہے یعنی قاضی کے پیادے کی بھی ایک زمانے میں بڑی اہمیت ہوتی تھی آخر تو وہ قاضی کا بھیجا ہوا شہ نہ ادنی درجہ کا سپاہی ہوتا تھا۔

اسی طرح قاضی ’’ماری حلال‘‘ یعنی کوئی چیز ذبح کئے بغیر مر جائے تو وہ جائز نہیں رہ جاتی مگر قاضی اگر کہہ دے تو وہ بھی جائز ہو گئی یہ سماج کی طرف سے قاضی کے کردار پر پھبتیاں ہیں۔

 

(۴) قافیہ تنگ ہونا، یا قافیہ بندی کرنا۔

یہ محاورہ شاعری کی اِصطلاح ہے اور  اُس کے معنی یہ ہیں کہ شعر میں قافیہ ردیف کی پابندی کی جا رہی ہے اب شعر اچھا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے اسی طرح قافیہ تنگ ہونا ایسے قافیہ کے استعمال کو کہتے ہیں جس کے قافیہ بہت مشکل ہوں یا نہ ملتے ہوں جیسے شاخ شاخ کا قافیہ مشکل سے ملتا ہے اور مشکل ہی سے اُسے باندھا جا سکتا یہ ایسے موقع کو سماجی محاورے کے طور پر کہتے ہیں کہ قافیہ تنگ ہے اور جب کوئی دوسرے آدمی کو ستاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اُس نے قافیہ تنگ کر رکھا ہے وہ بیچارہ کچھ کہہ نہیں پاتا۔

 

(۵) قائل معقول کرنا۔

اِس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی بات صرف منوائی نہ جائے اور غیر ضروری طور پر زور نہ دیا جائے بلکہ دلیلیں ثبوت و شواہد پیش کئے جائیں تاکہ دوسرا ذہنی طور پر اور دل سے مطمئن ہو جائے اور دل سے کسی بات کو تسلیم کر لے ہمارے معاشرے کا یہ عام رو یہ نہیں ہے اسی لئے اِس محاورے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ خواہ مخواہ کی باتوں پر زور نہ دیا جائے۔

قائل معقول دونوں عربی لفظ ہیں لیکن اُردو میں محاورے کے طور پر ذیل میں آیا ہے۔ اور اِس سے اُردو زبان کی قوتِ آخذہ (جذب کرنے کی قوت) کا پتہ چلتا ہے۔

 

(۶) قبالے لے ڈالنا، قبالے لے لینا۔

’’قبالا‘‘ دستاویز کو کہتے ہیں اور قبالا لکھوانے کے معنی ہیں کسی زمین و جائداد مکان یا دوکان کے کاغذ لکھوا لینا اِس کو محاورے کے طور پر قبالے لینا بھی کہتے ہیں جس کے معنی ہوتے ہیں قانونی طور پر قبضہ حاصل کر لینا مگر اس سے مراد لی جاتی ہے فریب دغا دھوکہ اور مکاری سے قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور یہیں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معاشرہ جب بددیانتی پر مائل ہوتا ہے تو کیا کیا مکاریاں اور جعل سازیاں کرتا ہے۔

 

(۷)قبر کھودنا۔

قبر کھودنا  قبر تیار کرنے کو کہتے ہیں جو قومیں اپنے مردوں کو دفن کرتی ہیں انہی میں قبر تیار کرنے کا رواج بھی ہے لیکن قبر کھودنا محاورے کے طور پر دوسرے معنی میں آتا ہے یعنی تباہی و بربادی کا سامان کرنا وہ اپنے لئے ہو خاندان کے لئے ہو یا بہت سے لوگوں کے لئے ہو۔ طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اُس نے تو اپنی یا اپنے خاندان کی قبر کھود دی یعنی اُن کے مفاد کو سخت نقصان پہنچا اور تباہی کا سامان کر دیا یہ محاورہ بھی معاشرے پر اس کی غلط روشوں اور  کارکردگیوں کے اعتبار سے ایک طنز یا طنز یہ تبصرہ کا درجہ رکھتا ہے۔

 

(۸) قبر کے مُردے اُکھاڑنا۔

مسلمانوں کے ہاں ایک مرتبہ دفن کرنے کے بعد دوبارہ قبر نہیں کھودی جاتی لیکن محاورتاً جب ہم قبر کے مردے اکھاڑنا کہتے ہیں تو اس سے معاملات کو سامنے لا رہے ہیں بقول شخص خاندانی جھگڑے ساری عمر بھی نہیں سمٹتے لیکن ہم اپنی نفسیاتی مجبوریوں کے تحت یہ ضرور چاہتے ہیں کہ اُن پر پردے پڑے رہیں اور پچھلی باتوں کو نہ دہرایا جائے اس میں خاندانی رشتوں پر چھائیاں پڑتی ہیں اسی لئے اس طرح کی باتوں کونہ پسندیدہ طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو قبر کے مردے اُکھاڑتے ہیں یعنی پرانی باتوں کو بار بار دہراتے ہیں۔

 

(۹) قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا، یا قبر کے کنارے ہونا۔

اُن دونوں محاوروں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی موت سے قریب ہونا یا اُس عمر کو پہنچ جانا جس کے بعد آدمی خود کو زندگی سے دور اور موت سے قریب سمجھتا ہے اسی لئے اپنے لئے خود بھی کہتا ہے کہ ہم تو قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیں اور دوسرا بھی کبھی کبھی طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیں پھر بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ہمارے معاشرے میں طعنہ دینا اور طنز کرنا بہت عام ہے قریب قریب ہر بات کو طعنے اور طنز کے طور پر استعمال کرتے ہیں یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

 

(۱۰) قبلہ حاجات،قبلہ گاہ، قبلہ گاہی۔

قبلہ مسلم کلچر میں ایک بے حد اہم علامت ہے مذہبی اعتبار سے اور تہذیبی لحاظ سے بھی مسلمان قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے ہیں اپنے لئے قابلِ احترام لوگوں کے لئے قبلہ و کعبہ کہتے ہیں اِس کے علاوہ اپنے مردے قبلہ رُخ دفن کرتے ہیں دعائیں بھی قبلہ رخ ہو کر مانگتے ہیں قبلہ کی طرف ہاتھ اٹھا کر قسم کھاتے ہیں اس سے قبلے کی مذہبی اور تہذیبی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس کے ذریعہ اُن کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اس پر محاورتاً قبلہ حاجات کہتے ہیں فارسی کا ایک شعر ہے جس میں روپے پیسے کے لئے کہا گیا ہے۔

(ترجمہ) اے سونے چاندی کے سکّوں تم خدا نہیں ہو لیکن  خدا کی قسم تم عیبوں کو چھپانے والے اور حاجتوں کو پورا کرنے والے ہو۔

اِس سے معلوم ہوا کہ قاضی الحاجات دولت اور زر زمین کو بھی کہتے ہیں اُردو کا محاورہ اسی کی طرف اِشارہ کرتا ہے قبلہ گاہ اور قبلہ گاہی نیز قبلہ متمنداں (امیدوار ان کا قبلہ)۔

 

 

 

(۱۱) قحط پڑ جانا۔

غلّہ کی کمی اور خوراک کے طور پر کام آنے والی اشیاء کا فقدان قحط کہلاتا ہے ہمدردی خلوص اور اپنائیت کے جذبہ میں جب بہت کمی آ جاتی ہے تو اُسے قحط غمِ الفت بھی کہتے ہیں اور اُس سے بے مروتی اور بے توجہی مراد لیتے ہیں۔

 

(۱۲) قد نکالنا۔

بچوں کا قد کے اعتبار سے بڑا ہونا محاورتاً قد نکالنا کہا جاتا ہے اور ہمارے خوبصورت محاورات میں سے ہے اور ہمارا معاشرہ محاورے تراشنے یا کلمات کو خوبصورت محاورہ میں ڈھالنے کی صلاحیتوں کا یہاں اظہار ہوتا ہے یہ ایسے ہی محاورات میں سے ہے۔

 

(۱۳) قدم اٹھا کر چلنا،قدم بڑھانا، قدم بہ قدم چلنا، قدم بوس ہونا، قدم چومنا۔

’’قدم‘‘ آدمی کے پیر کو کہتے ہیں اور انسان کی زندگی کے بیشتر کام یا اُس کے قدموں سے متعلق ہیں یا ہاتھوں سے اسی لئے ہاتھ یا قدم علامت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے قدم شریف قدم رسولؐ حضرتِ آدمؑ کے قدم کا نشان مہاتما گوتم بدھ کے قدموں کے نشانات جو مذہبی علامتیں ہیں اور مقدس نقوش  و آثار میں شمار ہوتے ہیں۔ زندگی کے مختلف اعمال اور اقدامات کو ہم لفظی محاوروں سے ظاہر کرتے ہیں مثلاً قدم بڑھانا، قدم رکھنا قدم اٹھانا، قدم ملانا نشان قدم چراغِ نقش قدم وغیرہ یہ سب ہمارے چلنے پھرنے اور عمل و رد عمل کی نشاندہی کرنے والے محاورے ہیں واپسی کے لئے اٹھنے والے قدم بھی ہیں اسی ذیل میں آتے ہیں اور قدم چومنا قدموں کو بوسہ دینا قدموں کی خاک ہونا قدموں کے احترام کو ظاہر کرنے والے محاورے ہیں جو سماج کے اندازِ نظر اور طرزِ عمل کی نمایندگی کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ جیسے قدم باہر نکالنا، قدم قدم جانا، قدم گاڑنا، قدم مارنا، وغیرہ وغیرہ۔

 

(۱۴)قرآن اُٹھانا، قرآن رکھنا، قرآن پر ہاتھ رکھنا، قرآن کا جامہ پہننا، قرآن ہد یہ کرنا۔

قرآن کتاب اللہ کو کہتے ہیں اور مسلمان اسے آسمانی صحیفہ جانتے ہیں قرآن حفظ کرنے کا بھی مسلمانوں میں ایک زمانے سے رواج ہے۔ ناظرہ پڑھنا تو بہت سے مسلمان اپنا فرض سمجھتے ہیں اور حفظ نہیں کر سکتے تو ناظرہ پڑھتے ہیں بیمار کو قرآن کی ہوا دیتے ہیں اس کا ثواب پہنچاتے ہیں جب قسم کھانا ہوتا ہے تو یہ ظاہر کرنے کے لئے وہ خدا رسول کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا رہے ہیں قرآن پر ہاتھ رکھتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کا احترام مسلمان فرقے کے ذہن میں کس طرح رہتا ہے قرآن سے متعلق زیادہ تر محاورے مسلمانوں عقیدے اور مذہبی طرز عمل سے تعلق رکھتے ہیں  اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محاورے عام ہیں لیکن بعض محاورے وہ بھی ہیں جو کسی خاص طبقے کی مذہبی تہذیبی یا کاروباری زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔

 

 

 

(۱۵) قرحہ پڑ جانا۔

فنِ طب کی اصطلاح ہے اور اُس کے معنی ہوتے ہیں زخم پڑ جانا جو ایک صورت سے جسمانی تکلیف ہوتی ہے۔

 

(۱۶) قرعہ ڈالنا، قرعہ پڑنا، قرعہ پھینکنا۔

یہ چوسر کھیل سے متعلق ایک اصطلاحی لفظ ہے قرعہ دراصل پانسہ کو کہتے ہیں اور کھیلتے وقت پانسہ ہی پھینکا جاتا ہے اور اُس سے فال کے طور پر بھی کچھ باتیں اخذ کی جاتی ہیں قرعہ اندازی جھگڑے معاملہ میں فیصلہ کرنا یا فیصلہ پر پہنچنا ممکن ہو جاتا ہے کہ اگر زیادہ امیدوار ہوں جس کے حق میں قرعہ نکل آتا ہے اسی کو حق دیدیا جاتا ہے یا اُس کا نمبر آ جاتا ہے۔

 

(۱۷) قرض اُتارنا، قرض لینا قرض اٹھانا، قرض دینا، قرضِ حسنہ وغیرہ۔

ہماری سوسائٹی میں شخصی طور پر قرض لینے کا رو یہ عام ہے۔ بنئے کا سودا تنا ہوتا ہے کہ اس سے قرض لیکر اور وہ بھی کسی چیز رہن رکھ کر اتنا ہو جاتا ہے کہ وہ چیز ہی بیچنی پڑتی ہے اور قرض ادا نہیں ہوتا ایسے عالم میں عزیز رشتہ داروں یا جان پہچان کے لوگوں ہی سے قرض لیا جاتا ہے قرض اٹھانا۔ قرض دینا اسی سلسلہ کے محاورات ہیں۔

بعض لوگ یہ سوچ اور  ذہن میں رکھ کر کسی کو قرض دیتے ہیں کہ یہ واپس نہیں بھی کرے گا توہم یہ سمجھ لیں گے کہ ہم نے اُس کی مدد کی اس کو قرضِ حسنہ کہتے ہیں مگر اِس کا رواج آج کی سوسائٹی میں بہت کم ہے اس لئے کہ قرض لینے والے کی نیت یہ ہوتی بھی نہیں کہ واقعتاً قرض ادا کرے گا یا نہیں پس کہتا ہے کہ میرا ارادہ قرض ادا کرنے کا ہے بہرحال ہمارے سماجی تعلقات کو پرکھنے کا ایک پیمانہ قرض بھی ہے۔

 

(۱۸) قرقی بٹھانا،قُرقی بھیجنا۔

جب کوئی شخص قرض ادا نہیں کر پاتا  تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ اُس کی زمین و جائداد سے اسے وصول کیا جاتا ہے سرکار اپنا قرض اسی طرح وصول کرتی ہے اور  املاک کو قرق کروا لیتی ہے۔ اسی سلسلے میں قرقی آنا، قرق ہونا، قرقی بیٹھنا وغیرہ محاورے استعمال ہوتے ہیں اور اس ذریعہ سے بھی ہم اپنے سماج کی اسٹڈی (Study)کر سکتے ہیں۔

ہمارے یہاں ایک لفظ نا دہندہ ہے (نہ دینے والا) یہ ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے جو قرض نہ دیں اُس کی واپسی کا خیال نہ رکھیں آخر لڑائی جھگڑے اور قرقی کی نوبت نہ آئے۔

 

(۱۹) قسمت اُلٹ جانا، قسمت بازی، قسمت پھرنا، قسمت کا پھیر، قسمت کا دھنی، قسمت کا لکھا وغیرہ وغیرہ۔

قومیں تقدیر کو مانتی رہی ہیں اور تقدیر کے معنی ہوتے ہیں غیبی علم غیب کا فیصلہ غیبی قوت کی کارفرمائی اس کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں ایکStructureSuper ذہنی سطح پر ہمیشہ موجود رہتا ہے اور ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آدمی کی عقل بھی ناقص ہے اور اُس کا کیا دھرا بھی کام نہیں آتا اور ہوتا وہی ہے جو قدرت والا چاہتا ہے۔

حالات کی ناسازگاریوں اور شخصی طور پر نارسائیوں میں گھری ہوئی کوئی انسانی زندگی مجبوراً یہی سوچتی ہے یا سوچ سکتی ہے مشرقی قوموں کی سطح عام طور سے یہی رہتی ہے کہ جو تقدیر کا لکھا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس کو مان کر چلنے میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ آدمی پھر دوسرے کے عمل اور سلسلہ عمل و رد عمل کو سمجھنے سے بھی قاصر رہتا ہے اور پورے معاملہ کو تقدیر کے سپرد کرتا ہے اور اپنے مذہبی نظام فکر سے وابستہ کر لیتا ہے۔

قسمت کے کھیل، قسمت کا دھنی، قسمت کی یاوری بدقسمتی وغیرہ وغیرہ جو محاورے یا محاوراتی انداز کی ترکیبیں اردو میں رائج ہیں

وہ سب اپنی نظام فکر کا نتیجہ ہیں جہاں تک تقدیری معاملات کو غیر ضروری تعمیم سے گزارا گیا ہے۔ (Over simplification)

 

(۲۰) قصائی کا پلاّ قصائی کے کھونٹے باندھنا، قصائی کی نظر دیکھنا۔

’’قصابی‘‘ مسلمانوں میں ایک قوم کا پیشہ ہے وہ جانور کاٹتی اور  اُن کا گوشت بیچتی ہے ظاہر ہے کہ قصائی کی نظر یا اس کے گھر پر ہونا ایک مخالف دشمن یا قاتل کے قبضے میں ہونا ہے وہ اگر دیکھے گا تو سخت اور کرخت نظر سے دیکھے گا سلوک کرے گا تو برا سلوک کرے گا جو گائے یا بکری قصائی کے کھونٹے بندھی ہو گی اس کو تو کٹ ہی جانا ہے ایسی صورت میں جو آدمی ہر طرح نقصان میں ہوتا ہے اور جسے کبھی بھی قتل کیا جا سکتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قصائی کے کھونٹے بندھا ہے اس سے معاشرے میں جو ظالمانہ سلوک ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے اس کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔

 

(۲۱) قصّہ پاک کرنا،قصبہ پاک ہونا، قصہ مختصر ہونا۔ قصّہ در قصہ ہونا

قصہ کہانی کا ہماری زندگی سے گہرا رشتہ ہے اور دیکھا جائے تو ہمارا پورا کلچر قصوں کہانیوں میں سمیٹا ہوا ہے کہانی مختصر بھی ہوتی ہے قصّہ در قصہ بھی داستان در داستان بھی کہیں کہیں قصّہ کو مختصر کر دیا جاتا ہے اور کہیں وہ رام کہانی بن جاتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ قصہ کا اپنے مختلف اسالیب کے ساتھ ہمارے ذہن ہماری زندگی اور ہماری زبان سے کیا رشتہ ہے اسی کو ہم قصے کے بارے میں جو مختلف محاورے ہیں ان کے لفظ و معنی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

قصّہ پاک ہونا یعنی بات ختم ہوئی قصہ سمٹ گیا جھگڑا ختم ہوا اور بات ایک طرف ہو گئی قصّہ کو تاہ کر دیا گیا یا قصّہ کو تاہ ہوا۔

 

 

 

(۲۲) قضا ادا کرنا، قضا پڑھنا، قضا عند اللہ، قضا و قدر، قضائے الہی، قضائے عمری۔

’’قضا‘‘ کا لفظ عربی ہے اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہماری زبان میں شامل ہے یا ہم قضا و قدر بولتے ہیں تو اس سے تقدیر کا فیصلہ مراد لیتے ہیں۔ جس سے انسان کے اپنے ارادے کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ قضائے الہی سے رشتہ ہوتا ہے یعنی خدا کی مرضی وہ مرضی جس کا تعلق کسی کے دکھ بھرے واقعہ سے ہو جیسے موت حادثہ۔ قضائے عمری اُن نمازوں کو کہتے ہیں جو زندگی میں قضا ہوئی ہوں اور  رات کو آدمی ادا کرنا چاہتا ہو نماز کا وقت گزر جاتا ہے اور نماز ادا نہیں کی گئی ہو تو اسے قضا ہونا کہتے ہیں روزوں کے ساتھ بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے روزہ اگر نہیں رکھا گیا تو اسے روزہ قضا ہونا کہتے ہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان محاوروں کا رشتہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور اعمال سے ہے۔ یعنی سماج کے ایک خاص طبقے سے ہے اور اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جو باتیں سماج کی نفسیات کا حصّہ بن جاتی ہیں وہ محاوروں میں بدل جاتی ہیں۔

 

(۲۳) قلعی کھل جانا، قلعی کھولنا۔

ہمارے سماج میں بات کو چھپانا اور دوسرے انداز سے پیش کرنا جس میں نمود و نمائش ہو اس کے ملمع کاری کہتے ہیں اسی کو قلعی کرنا سمجھ لیں اسی لئے جب بات کھل جاتی ہے اور مکّاری کا رو یہ ظاہر ہو جاتا ہے تو اسے قلعی کھلنا کہتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا آدمی بات کو کھولتا اور ملمع کاری کو ظاہر کرتا ہے تو قلعی کھولنا یا قلعی اتارنا بھی کہا جاتا ہے یعنی اصل حقیقت کھول کر سامنے رکھ دینا۔

 

(۲۴) قلم بنانا، قلم اُٹھا کر لکھنا، قلم پھیرنا، قلم چلانا، قلمدان دینا۔

تحریر نگارش تصویر حکومت کی نشانی ہے جب ہم’’ قلم رو‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد ہوتی ہے زیرِ حکم اور زیر حکومت اسی لئے قلم رو ہند کہلاتا ہے قلم مذہبی اور تہذیبی علامتوں میں سے بھی ہے کہ خدا نے قلم کے ذریعہ انسان کو تعلیم دی چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ ہم نے انسان کو قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور  وہ باتیں سکھلائیں جو وہ نہیں جانتا تھا لوح محفوظ کا تصور بھی قلم ہی سے وابستہ ہے یعنی وہ مقدس تختی جس پر قدرت کے قلم نے تمام دنیا کی تقدیر لکھ دی جو ازل سے ابد تک کے لئے ہے قرآن نے اپنے احکامات کے لئے کہا ہے کہ وہ لکھ دیئے گئے اس کا تعلق بھی قلم سے ہے۔

’’بھوج پتر‘‘ مٹی کی تختیاں یا لکڑی کی تختیاں بھی تحریر کے لئے کام آتی رہیں کاغذ کی ایجاد سے پہلے انہی تختیوں اور ’’بھوج پتروں ‘‘ پہ لکھا جاتا تھا جن کو آج بھی میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے تحریر قلم کے ہی ذریعہ ممکن ہے اور تصویر بھی قلم بیشک الگ الگ ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں قلم کے بہت سے محاوراتی الفاظ اور کلمات ہیں جیسے قلم اٹھانے کی ضرورت قلم برداشتہ لکھنا قلم چلانا قلم توڑ دینا یا قلم کی زبان میں کہنا اس سے ہم قلم کی تہذیبی تاریخ کو بھی جان سکتے ہیں۔ اور پڑھنے لکھنے کے معاملہ میں قلم کی اہمیت کو بھی اور تحریر کی خوبی اور خوبصورتی کا ذکر بھی قلم کے رشتہ سے کیا جاتا ہے جیسے خوش قلم مرصع رقم جس کے معنی ہوتے ہیں خوش قطعی اور خوبصورت تحریر کو کہتے ہیں۔

 

(۲۵) قل ہو اللہ پڑھنا، قل ہونا۔

’’قل ‘‘قرآن پاک کا لفظ ہے اور ’’قل ہونا‘‘ یا قل ہو اللہ پڑھا جانا اُردو کے محاورات میں سے ہے۔ قل ہونا دراصل قل پڑھا جانا ہی اور قل پڑھے جانے کے معنی ہیں فاتحہ کی دعائے خیر۔ ذوق نے اپنے ایک مصرعہ میں کہا ہے۔

؂ لا سا قیا پیالہ تے توبہ کا  قُل ہوا

یعنی توبہ ختم ہوئی اور ہم نے توبہ ہی کا ارادہ ترک کر دیا اب تو پینا پلانا ہی رہ گیا آنتوں کا قل ہو اللہ پڑھنا بھوگ لگنا ہے چونکہ بھوک کے وقت پیٹ میں آنتیں ایک خاص طرح کی حرکت کرتی ہیں ان کی آواز کو’ ’قراقر ‘‘کہتے ہیں اسی کو قل ہوا اللہ پڑھنا کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلم معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم نے فارسی و عربی سے بھی اپنے خاص ماحول کے مطابق محاورات اخذ کئے ہیں۔

 

(۲۶) قہر توڑنا، قہر کی نظر دیکھنا، قہر نازل ہونا، قہر ٹوٹ پڑنا۔

قہر غصّہ کوکہا جاتا ہے اور یہ لفظ مہر کے مقابلہ میں آتا ہے مہر محبت کو کہتے ہیں مسلمانوں میں لڑکیوں کا بھی اور لڑکوں کا نام مہر پر رکھا جاتا ہے قہر غضب ناک ہونا ہے اسی لئے جب کوئی غیر معمولی مصیبت آتی ہے تو اس  کو قہر الٰہی یا قہر آسمانی کہتے ہیں کوستے وقت بھی کہا جاتا ہے کہ تم پر قہر الٰہی نازل ہو یا خدا کا قہر ٹوٹ پڑے۔

ظاہر ہے آندھی طوفان سیلاب زلزلہ اولے برسنا سب ہی نقصان اور تکلیف کا باعث ہوتے ہیں اسی کو قہر الٰہی یا قہرِ آسمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 

(۲۷) قیامت آنا، قیامت اٹھانا، قیامت توڑنا، قیامت ہونا، قیامت کا منظر، قیامت کی گھڑی۔

قیامت مسلمانوں کے عقائد کا ایک اہم جُز ہے جس کو حشر برپا ہونا کہتے ہیں قرآن نے اس کو ساعت بھی کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ گھڑی کب آئے گی اس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔

قیامت کے تصوّر کے ساتھ ایک طرف تو یہ خیال وابستہ ہے کہ قیامت آنے پر ہر شے تہس نہس ہو جائے گی پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے زمین آسمان تہہ و بالا ہو جائیں گے اسی کے ساتھ مسلمانوں میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ قیامت کا دن ایک لاکھ برس کا ہو گا۔ اور اُس دن تمام انسانوں کے اعمال کا حساب کتاب ہو گا انہیں سزا اور جزا دی جائے گی اسی لئے انگریزی میں اسے Day ofjudgmentکہتے ہیں یعنی یوم الحساب جب کوئی بات کسی انسانی گروہ طبقہ قوم یا ملت کی نفسیات میں داخل ہو جاتی ہے تو اس کو محاوروں میں ڈھال لیا جاتا ہے مثلاً قیامت آنا، مصیبت نازل ہونا، قیامت گزرنا پریشانیوں میں بے طرح مبتلا ہونا اسی طرح قیامت برپا ہونا ہر بات کو اُلٹ پلٹ ہو جانا اس معنی میں قیامت کا تصور اور اس سے متعلق دوسری کسی زبان میں کم ہی نظر آتے ہیں۔

فارسی میں ایک دو محاورے مل جائیں تو دل مل جائیں یہ ہمارے اپنے معاشرے کی بات ہے اور اس سے تہذیب ومعاشرت کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

 

 (۲۸) قید لگانا،قید میں رکھنا، قید میں عائد کرنا

’’قید‘‘ ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حوالہ رہا ہے اور آج بھی ہے ہم دوسروں کو کسی بھی وجہ سے اپنا پابند اور محکوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں مثلاً غلام بنانا، باندی بنانا، نوکر کے آگے چاکر رکھنا ایک ایک بات سے انسان کی امتیاز پسندی ظاہر ہوتی ہے صدیوں تک محکوموں کے بارے میں جو قاعدہ قانون بناتے رہے وہ بھی اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آدمی مجرموں کو بھی قید میں ڈالتا ہے قید میں رکھتا ہے اور سزا کے طور پر اُن سے بدسلوکی کرتا ہے یہ بات اگر ایک حد تک جائز بھی ہو سکتی ہے تو اس کی اپنی کچھ اخلاقی حدیں ضرور ہونی چاہئیں لیکن وہ حدیں باقی نہیں رہیں اور اس طرح کے تصورات عام ہو گئے کہ اس نے قید میں ڈال رکھا ہے قیدی بنا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس سے سماج کے تاریخی اور تہذیبی رویوں کا بھی پتہ چلتا ہے اور قاعدہ قانون کی روش پربھی روشنی پڑتی ہے۔

 

***


 

ردیف ’’ک‘‘

 

 (۱) کاٹ چھانٹ کرنا۔

کاٹنا کم کرنا درست کرنا، تبدیلی کرنا جیسے معنی میں آتا ہے لیکن سماجی طور پر اُس کے مفہوم میں خاص طرح کی کتر بیونت شامل رہتی یہ کہ آدمی بات کہتے وقت دانستہ طور پر اپنی طرف سے کوئی بات بڑھا دی کوئی کم کر دی کسی کا رخ بدل دیا خود لب و لہجہ میں تبدیلی آنے سے بھی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو کاٹ چھانٹ کے عمل میں ذہنی جذباتی اور سماجی رو یہ شامل ہو جاتے ہیں۔

 

(۲) کاٹ کرنا۔

ہم عام طور سے گروہ بندی یا ذہنی گروہ بندی کا شکار رہتے ہیں جس کے حامی اس کی بے جا حمایت کرتے ہیں اور جس سے اختلاف ہوتا ہے اُس کی ناروا مخالفت (ناجائز) کرتے ہیں اسی کو کاٹ کرنا کہتے ہیں کہ وہ اس کی بات کی کاٹ کرتا ہے اس محاورے سے ہمارے تہذیبی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ ہم سچائی اور اچھائی پر اتنی  نظر نہیں رکھتے جتنی ہماری طبیعت اپنے اور غیریت کی طرف مائل رہتی ہے یہ سیاست میں تو ہوتا ہی ہماری گھریلو زندگی اور آئینی معاملات میں اس کو زیادہ دخل ہے۔

 

(۳) کاٹ کھانا، کاٹ کھانے کو دوڑنا۔

کاٹ کھانا ڈنک مارنے کو بھی کہتے ہیں اور دانتوں سے کانٹے یا زخم پہنچانے کو بھی ایک طرف بچھو یا سانپ کا کاٹنا ہے دوسری طرف کتے کا کاٹنا ہے یا اُن تجربوں کی روشنی میں سماجی طور پر دوسروں کے بُرے ردِ عمل یا رو یہ کو بھی ہم کاٹ کھانا کہتے ہیں اور کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے اس کے جارحانہ رو یہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سماج میں بہت لوگوں کا رو یہ کچھ اسی طرح کا ہوتا یہ جسے معقول رو یہ نہیں کہا جا سکتا محاورے میں اس کی طرف اشارہ کر کے صورتِ حال کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

 

(۴) کاٹو تو خون نہیں یا لہو نہیں (بدن میں )

انسان کی صحت و عافیت کا دارومدار جسمانی صحت و تندرستی پر ہوتا ہے اور تندرستی لوگوں میں خون کے دوڑنے پھرنے کے عمل سے وابستہ ہے انسان کبھی کبھی خون کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور اسی نسبت سے کمزوری کا بھی کبھی کبھار ایک دم سے کوئی بات ایسی ہوتی ہے کہ آدمی کا خُون خشک ہو جاتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ڈر خوف دہشت انتہائی غمناک حالت کے باعث اس کے بدن میں خون نہیں رہا ایسے ہی موقع پر یہ کہتے ہیں کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ یہ گویا محاورے میں ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ فکر شامل کرنا ہے۔

 

(۵) کاٹھ کا الو، کاٹھ کا گھوڑا، کٹھ پتلی۔

الو ایک چکوتری کی نسل کا جا نور ہوتا ہے یہ عام طور پر دن میں نہیں نکلتا رات ہی کے وقت اپنے آشیانہ سے باہر آتا ہے منحوس سمجھا جاتا ہے معلوم نہیں کیوں بے وقوف بھی خیال کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہندو مایتھولوجی میں وہ لکشمی کی سواری بھی ہے اسی لئے جب کسی کو ہم بیوقوف سمجھتے ہیں تو اسے الو کہتے ہیں

اور اسی سے’’ الو‘‘ بنانے کا محاورہ بھی نکلا ہے جو آدمی بہت بیوقوف سمجھا جاتا ہے وہ کاٹھ کا’’ الو‘‘ کہلاتا ہے یعنی اُلو بھی وہ جو لکڑی سے گھڑا گیا ہو تراشا گیا ہو کسی زندہ شے کو لکڑی یا کاٹھ سے نسبت دینا اسے انتہائی گیا گزرا قرار دینا ہے جیسے کاٹھ کا گھوڑا کہ بس وہ ہوتا ہے مگر دراصل نہیں ہوتا اس کے مقابلہ میں کل کا گھوڑا انتہائی چُست و چالاک ہوتا ہے اس معنی میں سماج کا عقل ہوش مندی اور بیوقوفی کے معاملہ میں کیا ردِ عمل ہو گا کٹھ پتلی لکڑی کی گڑیا ہوتی جسے تماشہ کے طور پر طرح طرح سے ناچتے اور حرکتیں کرتے ہوئے دکھلا یا جاتا ہے اسی لئے کٹھ پتلی کا ناچ بھی کہتے ہیں اور  رو یہ رہتا ہے اس کو مذکورہ محاوروں سے سمجھا جاتا ہے۔

 

(۶) کاٹے نہیں کٹتا۔

مشکل وقت گزارنا بہت کٹھن ہوتا ہے اس میں جدائی میں گزاری جانے والی ساعتیں اور  گھڑیاں زنجیر کے حلقہ بن جاتے ہیں جو کاٹے نہیں کٹتے ایک گیت ہے۔

؂ دکھ کے دن کاٹے نہیں کٹتے

کاٹنا ایک محنت طلب اور تکلیف دہ صورت ہوتی ہے اس میں لکڑیاں کاٹنا بھی ہے لوہا کاٹنا پتھر کاٹنا بھی ہے اور  دکھ کے دن گزارنا بھی یہ محاورے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور احساس کی اس شدت کو ظاہر کرتے ہیں جو دکھوں کو سہنے اور جُدائی کے دن رات گزارنے میں آدمی محسوس کرتا ہے۔

 

(۷) کاجل کی کوٹھری۔

کاجل آنکھوں کے لئے وجہ زینت ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں بظاہر اچھی اور  در حقیقت بُرے نتائج کی طرف لانے والی ہوتی ہیں ان کو محاورے کے طور پر کاجل کی کوٹھری سے تشبیہہ دیتے ہیں ممکن ہے آنکھوں میں زیادہ کاجل لگانے کو بھی مذاق کے طور پر کاجل کی کوٹھری بنا دینا کہتے ہیں محاوروں میں جو شاعرانہ انداز نظر پایا جاتا ہے اس کی ایک مثال یہ محاورہ بھی ہے اور خوبصورت مثال ہے۔

 

(۸) کاجُو بھوجُو۔

ہمارا معاشرہ مضبوطی اور پائداری کو پسند کرتا ہے اور اُس کے مقابلہ میں کمزور چیز اس کے نزدیک قابلِ قدر اور لائقِ تحسین نہیں ہوتی اسی لئے اسے ایک ایسی لفظی ترکیب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس سے اس کی کمزوری اور ناپائداری ظاہر ہوتی ہو کہ وہ تو خود ہی کا جو بھوجو سا ہے وہ کیا کام دے گا اور کس کام آئے گا محاورہ بھی اکثر ایک Commentہوتا ہے اور اس میں ہمارے معاشرہ کا مشاہدہ چھپا ہوا ہے۔

 

(۹) کاٹا چھنی۔

آپسی اختلاف اور ذہنی کشمکش کو کاٹا چھنی کہتے ہیں جس میں آدمی ایک دوسرے پر اعتراض اور  الزام وارد کرتا رہتا ہے یہ سماج کا ایک رو یہ ہوتا ہے گھریلو جھگڑوں میں یہ بات اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ خواہ مخواہ بلا ضرورت ایک دوسرے پر فقرہ کسے جاتے ہیں جملے اُچھالے جاتے ہیں بات اور  بے بات اختلاف کا کوئی پہلو سامنے لایا جاتا ہے جس کی وجہ سے گھریلو جھگڑے بھی ختم ہونے میں نہیں آتے بنیادی مسئلہ اگر کوئی ہوتا بھی ہے تو وہ سامنے نہیں رہتا اِدھر اُدھر کی باتیں دل و دماغ کو گھیرے رہتی ہیں اور یہی جھگڑوں کے ختم نہ ہونے کی بڑی وجہ ہوتی ہے۔

کٹاکش ہندی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں طنز کرنا اعتراض کرنا اسی سے ہمارے یہاں کٹا چھنی محاورہ بنا ہے کج بحثی کج فہمی کٹ حجتی ہماری عام سماجی روش ہے یہ بھی اسی سلسلہ کی باتیں ہیں جو سماجی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

 

(۱۰) کارخانہ الٰہی، کارخانہ پھیلانا، کارِ خیر۔

’’کار‘‘ کام کو کہتے ہیں اور خوشی کی تقریب کو بھی ہمارے یہاں کار کہا جاتا ہے آدمی اپنے لئے جو کام کرتا ہے اور اُسے پیشہ کے طور پر اختیار کرتا ہے اُسے کاروبار کہتے ہیں ۔ دستکاری یا صنعت کاری یا  پھر سادہ کاری کے لئے جو کوئی خاص مرکز قائم کیا جاتا ہے اسے کارخانہ کہتے ہیں زمین و آسمان اور  ان کے درمیان جو کچھ ہے جتنا کچھ ہے اُسے کارخانہ الہی کہا جاتا ہے اور انہی کے مقابلہ میں ایک اور محاورہ آتا ہے جسے شیطان کی کار گاہ  کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے یہ محاورہ ممکن ہے انگریزی کے محاورے Devils workshop کا ترجمہ ہو یہ بھی ممکن ہے (شیطان کی کار گاہ) ہم کہتے ہیں کہ اس کا ذہن تو شیطان کی کارگاہ ہے اس کا Directانگریزی ترجمہ ہو گا His mind is a devils work shopاس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان دوسری زبانوں سے جو استفادہ کیا ہے اس میں انگریزی زبان بھی شامل ہے۔

 

(۱۱) کاغذ، کاغذ سیاہ کرنا، کاغذ کا پٹا باز، کاغذی آدمی، کاغذی پیرہن، کاغذ کی کشتی، کاغذ کی ناؤ، کاغذ لکھ دینا، کاغذ تیار کرنا، کاغذ کا پیٹ بھرنا۔

کاغذ ہماری سب سے بڑی تہذیبی ایجاد ہے انسان کا ذہن تقدیر سے زیادہ تحریر کے سہارے آگے بڑھتا ہے اور تحریر کا سب سے بڑا وسیلہ ہمارے پاس کاغذ اور قلم ہے۔ کاغذ کی ایجاد سے پہلے تحریریں مٹی کی تختیوں اور لکڑی کی پٹیوں پر لکھی جاتی تھیں مگر کاغذ کی ایجاد کے بعد صورت حال بدل گئی اور بڑے پیمانہ پر تحریریں کاغذ پر لکھی جانے لگیں بیاضیں کتابیں اور دفتر تیار ہونے لگے جو معاہدہ یا تحریری وعدہ ہوتا ہے وہ بھی کاغذ پر ہی لکھا جاتا ہے ’’شقہ ہو‘‘ یا رقعہ یا عام خط پتر سب کا تعلق تحریر سے ہے قانونی مسئلہ میں لکھا پڑھی ہوتی ہے اس کو کاغذ لکھ دینا بھی کہتے ہیں اور اس سے متعلق ہمارے یہاں بہت سے محاورات موجود ہیں۔

عدالتی کاغذات کو دستاویزیں کہا جاتا ہے بادشاہی احکامات فرامین کہلاتے ہیں عام تحریریں کاغذ کرنے کاغذ لکھنے اور کاغذ تیار کرنے کے انداز میں بھی زیر گفتگو آتی ہیں۔

کاغذ نرم  و نازک ہوتا ہے پھٹ جاتا ہے گل جاتا ہے جل جاتا ہے اس لئے ناپائداری کو بھی کاغذ کے سلسلے میں کئی محاورے آتے ہیں جیسے کاغذ کی ناؤ کاغذ جیسی کایا کاغذ کا پرزہ کاغذی پیرہن، تحریر اور کاغذ کی نسبت سے بھی کئی محاورے آتے ہیں جیسے کاغذ کالے کرنا کاغذ سیاہ کرنا کاغذ کا پیٹ بھرنا کہ جو چاہا وہ لکھ کر دیا  کاغذ کا پیٹ بھر گیا صفحہ کے صفحہ کالے ہو گئے کاغذ کے پھول بھی خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ان میں رنگ ہوتے ہیں نزکائی،اور نرمائی  تو ہوتی ہے مگر اپنی خوشبو نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ نرم چھلکے والے باداموں کو کاغذی بادام کہا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاغذ سے ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری زبان اور ہمارے زمانہ کا کیا کیا رشتہ ہے اور کس کس طرح ہے۔

 

(۱۲) کالا،کالا آدمی، کالا پہاڑ، کالا توا، کالا خون، کالا منہ، کالا منہ ہونا، کالا لباس، کالا منہ نیلے ہاتھ پاؤں، کالک کا ٹیکا لگانا، کالا دھن، کالی کوٹھری،کالا سانپ، کالا سمندر، کالی بلا، کالی بھینس، کالی زبان، کالی رات کرنا۔

’’کالا‘‘ رات کا رنگ بھی ہوتا ہے حیثیتوں کا رنگ بھی آنکھوں کی پتلیاں کالی ہوتی ہیں اور ایشیائی عورتوں کے بال کالے ہوتے ہیں بڑھاپے میں البتہ کالے بالوں کا رنگ سفید ہو جاتا ہے خون سفید ہونا کالے خون کے مقابلہ میں ایک الگ محاورہ ہے اور کالا خون بیجار اور  برے خون کی علامت ہے کالے بول جب کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بری باتیں ہوتی ہیں کالی مالی، موت کی دیوی کو کہتے ہیں۔ جیسے کالے بھینسے کی قربانی یا بھینٹ پیش کی جاتی ہے۔

انگریزوں کے مقابلہ میں ہندوستانی کالے آدمی کہلاتے ہیں اسی لئے یہ محاورہ استعمال ہونے لگا ہے۔ کہ وہ کالے آدمی سے بات نہیں کرتے کالا پانی انگریزوں کے زمانہ میں انڈمان نکوبار کے جزیروں کو کہتے تھے ان جزیروں میں بھیجنے کی جس کو سزا دی جاتی تھی اسے کالا پانی دیا جاتا تھا اور وہاں بھیج دیا جاتا تھا۔ مجرموں کو تنگ کوٹھریوں میں رکھا جاتا تھا جن میں روشنی و ہوا  کا بھی کوئی انتظام نہ ہوتا تھا اُسے کال کوٹھری کہتے تھے۔ ’’ کالا لباس‘‘ غم کا لباس ہے شیعوں کے ہاں غمِ حسین منانے کی غرض سے محرم میں شیعہ کالا لباس پہنتے ہیں روسیاہی بدنامی کو کہا جاتا ہے کالا منہ نیلے ہاتھ پیر ممکن ہے یہ کسی زمانہ میں سزا کے طور پر کیا جاتا ہو کہ آدمی کے ہاتھ پاؤں نیلے کر دیئے جائیں اور  اسے بستی سے نکال دیا جائے ویسے نیلا رنگ اَمر ہونے کی علامت بھی ہے۔ اسی لئے شیو جی کو نیل کنٹھ کہتے ہیں۔ بعض میلے ٹھیلوں کے موقع پر یا  پھر عرس کی تقریب کے سلسلہ میں جو چھڑیاں گاڑی جاتی ہیں وہ بھی نیلی ہوتی ہیں۔ مدراس کے قریب سمندر گہرے نیلے رنگ کا ہے اسی لئے ہندوؤں میں دیوتاؤں کا رنگ روپ نیلا رکھا جاتا ہے نیلا گنڈا بیماریوں اور بری نظر کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے بطور تعویذ گلے میں باندھا جاتا ہے۔

جس کو بدصورت عورت ظاہر کرنا مقصود ہوتا اُسے کالی بھینس کہتے ہیں اور اگر اس کا رنگ بہت کالا ہوتا ہے تو اس کو کالی بلی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے کالا دیو بدصورت ہونے کے علاوہ بد ہیئت بھی ہوتا ہے یہ کردار داستانوں میں پیش کیا جاتا رہا ہے کسی کالی پیلی گئی گزری لڑکی کی ہو کلچڑی کہتے ہیں جیسے منحوس قرار دینا ہوتا ہے اسے کل موہا یا کل موہی کہہ کر یا د کیا جاتا ہے۔

جو رات بے چینی تکلیف اور انتظار میں گزاری جاتی ہے اسے رات کا لی کرنا کہتے ہیں بہت کالے رنگ کو بھورے کے رنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اسے کالا بھونگ کہتے ہیں بہت کالے رنگ والا آدمی کالا بھجنگ کہلاتا ہے وہ بھی مشہور ہے کہ کالے سانپ پر بجلی گرتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ذہنی طور پر ہم اپنی زندگی میں کالے رنگ سے کیا کیا باتیں منسوب کی ہیں۔ بچے ایک گیت گاتے ہیں اس میں آتا ہے۔

؂ کالا کالا گِر گیا

اماں ماریں گی

اسی میں کالی ہانڈی سرپر رکھنے کے محاورے کو بھی شامل کیجئے کہ وہ بدنامی مول لینے کو کہتے ہیں کہ مفت میں یہ کالی ہانڈی کون اپنے سرپر رکھے کالا اکھشر بھینس برابر ایسا آدمی جو بالکل جاہل ہوتا ہے اور کوئی حرف پڑھ ہی نہیں سکتا اس کے لئے کہا جاتا ہے اس کے واسطے کہا جاتا ہے کہ کالا اکھشر بھینس برابر ہے کالا کلوٹا بھی کا لے ہی کے سلسلے میں ایک محاوراتی کلمہ ہے۔

 

(۱۳) کام بگڑنا، کام آنا، کام پڑنا، کام کا ہونا، کام پے لگانا، کام چلانا، کام تمام کرنا، کام چڑھانا یا لگانا، کام چمکنا، کام دینا، کام سے جاتے رہنا، کام سے کام، اپنے کام سے کام رہنا، کام میں کام نکالنا، کام میں لانا، کام ہو جانا۔

’’کام‘‘ کے معنی ہندی زبان میں جذبہ انبساط کے بھی ہیں فارسی میں غرض کے ہیں لیکن اردو میں صبح سے شام تک آدمی کی جو مشغولیات رہتی ہیں ان کو کام کہتے ہیں اور وہ طرح طرح کے ہوتے ہیں انہی سے محاورے بھی نکلے ہیں جیسے کام بنانا، یا کام بننا، کام پڑنا وغیرہ اسی میں کام نکالنا بھی ہے کامی آدمی ہونا بھی ہے۔

 

(۱۴) کان اُڑے جانا، پھٹے جانا، کان کھول کر سننا، کان بند کرنا، کان اینٹھنا، اکھاڑنا، کان پھوڑنا، کان بھرنا، کان پر جوں رینگنا، کان کا کچا ہونا، کان پڑی آواز سنائی نہ دینا، کان پکڑ کے اُٹھا دینا، کان پھوٹ جانا۔

اگر دیکھا جائے تو یہ سب محاورے سننے توجہ دینے اور توجہ نہ دینے سے متعلق ہیں جب بہت شور ہوتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی کان پھٹے جاتے ہیں جب کوئی دوسروں کی راز کی باتیں سننا چاہتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کن سنیاں لے رہا ہے۔ اگر سننا نہیں چاہتا اور کوئی اثر سننے کا نہیں لیتا تو کہتے ہیں اُس کے کان پر جوں نہیں رینگتی یا جوں نہیں چلتی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک کان سنتا دوسرے کان اُڑا دیتا ہے جب کوئی کسی کے خلاف اچھی بُری باتیں کہتا ہے اور مطلب ورغلانا ہوتا ہے تو ایسے کان بھرنا کہتے ہیں زیور پہننے کے لئے کان کی پاپڑی (بنا گوشت) اور دوسرے بیرونی حصہ میں جو شگاف پیدا کئے جاتے ہیں اُن کو کان بندھنا اور یہ پیشہ کرنے والے کو کندھا کہا جاتا ہے جو آدمی دوسروں کی باتوں پر جلدی سے یقین کر لیتا ہے اور سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیتا اسے کان کا کچا کہتے ہیں اور جب کوئی بات سنتے سنتے طبیعت اوب جاتی ہے تب یہ کہتے ہیں کہ سنتے سنتے کان پک گئے کان کی بیماری کا نام کھیڑ ہے کنپھیڑ نکلنا کہتے ہیں کنکوا دہلی میں گڈی یا پتنگ کو کہتے ہیں اور محاورے کے طور پر بولا جاتا ہے کہ وہ تو کنکوے اڑاتا ہے یعنی ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہے۔

 

(۱۵) کانٹا نکالنا، کانٹا چبھنا، کانٹوں پر لوٹنا، کانٹوں کا بچھونا، کانٹوں کی بیل، کانٹے بچھانا۔

کانٹا ترازو کو بھی کہتے ہیں اسی سے کانٹے کی قول بنا ہے لیکن جو کانٹا چُبھتا ہے وہ ہماری زبان اور  زندگی میں بہت سے محاورات کا یہ کہیے کہ جنم داتا ہے۔ مثلاً کانٹا چبھنا تکلیف پہنچنا کاٹا لگنا کوئی ایسی تکلیف جو مسلسل چُبھن کا احساس پیدا کرے۔

کانٹوں پر لوٹنا بہت بے آرامی اور بیچینی سے رات یا وقت گزارنا ہے کانٹے بچھانا کسی کے لئے عملی دشواریاں پیدا کرنا ہے۔ اس نے تو ہمیشہ میری راہ میں کانٹے بچھائے یا پھر مشکلات سے بھری زندگی کو کانٹوں کا بچھونا کہلاتا ہے کہ اس طرح کی ملازمت تو کانٹوں کا بچھونا ہوتی ہے۔ بیل خوبصورت چیز ہے لیکن اگر خوبصورتی کے ساتھ اس میں تکلیفوں کے پہلو موجود ہوں تو اسے کانٹوں کی بیل کہتے ہیں۔ دوسروں کے راستہ سے مشکلات دور کرنے کو کانٹے ہٹانا کہتے ہیں اور کانٹے چبھنے سے بھی یہی مراد لیتے ہیں۔

کانٹوں کا تاج جو چیز بظاہر عزت کی ہو تکلیفیں جڑی ہوئی ہوں تو اسے کانٹوں کا تاج کہتے ہیں یہ سماج کی طرف سے گویا ایک گہرا طنز ہے کان کھڑے ہونا کسی بات یا خطرہ کا احساس ہونا ہے یہ سن کر تو اس کے کان کھڑے ہو گئے بعض جانور خطرے کے موقع پر کان کھڑے کر لیتے ہیں ممکن ہے کہ یہ محاورہ ایسے ہی کسی موقع یا واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

 

(۱۶) کتے کی موت مرنا۔

بہت بری حالت میں جان دینا اور اسی نسبت سے کتّے کا کفن اس کپڑے کو کہتے ہیں جو بہت خراب ہو بدرو ہو رہا ہو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں روایتی طور پر کتے کو کتنا برا سمجھا جاتا ہے کہ اس سے وابستگی کو سماج بہت بے عزتی کی نظر سے دیکھتا ہے اسی لئے کہتے ہیں بلی کی زندگی ہونا بری زندگی کو کہتے ہیں کتے کی طرح بھونکنا بھی بری طرح ناراض ہونے اور بک بک کرنے کے لئے کہا جاتا ہے دھوبی کے کتے کے ساتھ ایک اور محاورہ وابستہ ہے اور  بے انتہا نکمے پن کو ظاہر کرتا ہے۔

دھوبی کا کتا گھرکا  نا گھاٹ کا ۔کتا بہت وفادار ہوتا ہے مگر اس کی وفاداری کا ذکر بھی اچھے الفاظ میں نہیں ہوتا کتے کی طرح وفاداری کا پٹا گلے میں ہونا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔

 

(۱۷) کچا ساتھ ہونا یا کچا کنبہ ہونا۔

جب کسی آدمی کا اپنا کنبہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر مشتمل ہوتا ہے کہ اُس کا کچا ساتھ ہے یعنی اس کے بچے اس لائق نہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں یہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کوئی آدمی شدید بیمار ہو جائے یا مر جائے اور اس کے بچے چھوٹے ہوں تو خاص طور پر کہتے ہیں کہ اس کاتو کچا ساتھ ہے۔

’’کچا دھاگا ‘‘یعنی کمزور رشتہ ہمارے سماج میں اکثر اس تعلق کے لئے کہا جاتا ہے جسے ہم جب چاہتے ہیں توڑ کے پھینک دیتے ہیں۔ اسی نئے یہ بھی لوگوں کو کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ یہ رشتہ کوئی کچا دھا گا نہیں ہے کہ جب چاہا توڑ کے پھینک دیا اس سے ہم اپنے سماجی رشتوں کا ذہن اور  زندگی سے ان کے تعلق کا احساس کر سکتے ہیں۔

 

 

 

(۱۸)کچا کرنا، کچا ہونا، کچیا جانا۔

کچا کرنا شرمندہ کرنے کو کہا جاتا ہے اور کچا ہونا شرمندہ ہو جانے کو کہتے ہیں کہ میں اس کے سامنے بہت کچا ہوا اور  اس سے ہماری زندگی اور ذہن کا رشتہ محاورہ کی لسانی اور معاشرتی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے اور زبان میں موقع و محل کے لحاظ سے لفظ کس طرح اپنے معنی بدلتے ہیں اس پر محاورات کا استعمال اور لفظ و معنی کا چناؤ غیر معمولی طور پر اہم ہو جاتا ہے۔

 

(۱۹) کچہری لگانا، کچہری کے کتے

یہ محاورہ انگریزوں کے آنے کے بعد رائج ہوئے ہیں اس لئے کہ کچہری کا تصور انہوں نے ہم کو دیا ہے کچہری میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو کم درجہ کے ہوتے ہیں اور  رشوتیں لے لے کر اپنا کا م چلاتے ہیں یہی کچہری کے کتے کہلاتے ہیں کچہری کے چکر لگانا ان لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ جو روز کسی نہ کسی سلسلہ سے کچہری میں آتے جاتے رہتے ہیں اور ان میں جھوٹے گواہ بھی ہوتے ہیں مقدمہ باز بھی اور گئے گزرے وکیل بھی۔

کچہری لگانا گویا کچہری کا سا ماحول پیدا کرنا ہے اور اپنے گواہوں اور وکیلوں کو ادھر ادھر منع کرنا ’’کچہری لگانا ہوا‘‘۔ ویسے یہ بندر کی حکایت سے ماخوذ محاورہ بھی ہو سکتا ہے۔

 

(۲۰) کرکری کرنا، کرکرا دینا۔

بے عزتی کرنا یا بے عزتی ہونا اس کے معنی عزت میں کمی آنے اور  وقار باقی نہ رہنے کے ہیں کوئی چیز اگر ریت یا مٹی کی وجہ سے کچھ خراب ہو جاتی ہے تو اسے کرکرا ہونا کہتے ہیں۔ کھانے پینے کی کوئی بھی شے ہو سکتی ہے۔

 

(۲۱) کروٹ بدلنا۔

اِدھر سے اُدھر کروٹ لینا ایک عام حرکت ہے لیکن محاورہ میں پہنچ کر اس کے معنی دوسرے ہو جاتے ہیں اور اس میں انقلاب رونما ہونے کا تصور آ جاتا ہے اسی لئے انقلابِ زمانہ کو بھی کروٹ بدلنا کہتے ہیں۔

 

(۲۲) کشیدہ خاطر رہنا یا ہونا، کشیدہ کاڑھنا۔

ایک گونہ ناراضگی کو شکر رنجی کہتے ہیں اور اگر اس میں ایک طرح کا تناؤ یا کھچاؤ پیدا ہو جائے تو اس کو کشیدہ خاطر کہتے ہیں یا پھر کشیدگی سے تعبیر کرتے ہیں قد کے ساتھ بھی کشیدہ آتا ہے وہاں اس سے مر اد لمبا قد ہوتا ہے۔ اس کو کشیدہ کاری بھی کہتے ہیں اور یعنی پھول پتی کاڑھنا دہلی میں اس کا بہت رواج رہا ہے۔

(۲۳) کفِ دست میدان ہونا، (چٹیل میدان)۔

جس میں جھاڑیاں ہریالی یا درخت بالکل نہ ہوں تو اسے کفِ دست میدان ہونا کہتے ہیں یہ ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ بیان ہے کہ جسے ہتھیلی میں کچھ نہیں ہوتا ایسا ہی اس زمین کے ٹکڑے میں کوئی چیز نہیں ہوتی بس دور تک میدان ہی میدان ہوتا ہے۔

 

(۲۴) کفرانِ نعمت، کفر توڑنا، کفر بکنا، کفر کا کلمہ بولنا۔

’’کفر ‘‘اسلام کے مقابلہ میں بے دینی اور گمراہی خیال کیا جاتا ہے اسی لئے مسلمانوں کے عام طبقہ میں کفر کا استعمال بے دینی اور لامذہبی کے معنی میں آتا ہے اور وہ ایسے کلمات کو جنہیں مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں کفر کی باتیں کافرانہ خیالات’’ کفر بکنا‘‘ اور کافر ہو جانا کہتے ہیں اگر آدمی خدا کی نعمت کا اچھے عمل کا اچھے خیالات کا قدردان نہیں ہوتا تو اس کو کفرانِ نعمت کہا جاتا ہے۔ صوفیوں کے ہاں کفر کے معنی دوسرے کے ہیں وہ کفر کو عین ایمان تصور کرتے ہیں کفر کے کلمات بولنا عام مفہوم میں آتا ہے یعنی کافروں جیسی باتیں کرنا۔

 

(۲۵) کلام اللہ اٹھانا۔

قرآنِ پاک کو کہتے ہیں اور قرآن کو درمیان میں رکھ کر قسم کھانا گویا اپنی سچائی و نیکی کا اظہار کرنا ہے قرآن اٹھانا بھی اسی معنی میں آتا ہے اور مسلمان کلچر کے اس رو یہ کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ قرآن کو سب سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ کلام اللہ کی قسم کھاتے ہیں حلف اٹھانا بھی قرآن کو درمیان میں رکھ کر قسم کھانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔

 

(۲۶) کلمہ، کلمہ کا شریک، کلمۂ گو،کلمے کی انگلی، (انگشتِ شہادت)۔

کلمہ بھی مسلم کلچر کی خاص علامتوں میں سے ہے کلمہ پڑھنے کے معنی مسلمان ہو جانے کے بھی ہیں کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا یہاں کلمہ سے مراد کلمۂ توحید ہے یعنی خدا کی وحدانیت کا اقرار کرنا اور اُس کے سچے رسول کی صداقت پر گواہی دینا کلمہ پڑھ کر ثواب بھی پہنچایا جاتا ہے اور  اُس کا ثواب مرنے والے کی روح کو پہنچایا جاتا ہے یہ باتیں مسلمانوں کے کلچر اور ان کی مذہبی اور تہذیبی نفسیات میں داخل ہے۔

کلمہ کا شریک مسلمان آپس میں کہتے ہیں کہ ہم کلمہ کے شریک بھائی ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو دُودھ شریک بھائی یا بہن قرار دیا جاتا ہے اور چیزوں کی شرکت کلچر کے اعتبار سے بڑے معنی نہیں رکھتی کلمہ گو ہونا کلمہ پڑھنا ہے جس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ وہ بہت تعریف کرتا ہے اور دوسرے یہ ہیں کہ وہ مسلمان ہے اور کلمہ پر یقین رکھتا ہے۔

کلمہ کی انگلی داہنے ہاتھ کی پہلی انگلی کو انگشت شہادت کہتے ہیں اور اس کا ترجمہ کلمہ کی انگلی بھی کہا ہے مسلمان نماز پڑھتے وقت جب حضورؐ کا نام آتا ہے تو شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ نماز میں کلمہ کو دہرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی مالک و مختار نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسولؐ ہیں یہ اس وقت شہادت کی انگلی اوپر اٹھائی جاتی ہے جواس گواہی کا نشان بن جاتی ہے۔ یہی کلمہ کی انگلی بھی ہے۔

 

(۲۷) کلنک لگنا، کلنگ کا ٹیکا لگانا۔

یہاں کل کے معنی ہیں کالا اور انک کے معنی ہیں نشان ’’کالا نشان ‘‘چہرہ پر لگانا بدنامی اور  رُسوائی کا اشتہار لگا دینا ہے کلنک کا ٹیکا لگانا یا لگنا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ ہمارے محاوروں میں جو سماجی رو یہ اور  رسمیں موجود رہی ہیں کلنک کا ٹیکا انہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دل میں بے عزتی ہے آبروئی یا رسوائی کا کوئی پہلو موجود ہوتا ہے۔

 

(۲۸) کُلھیا میں گڑ پھوڑنا۔

اصل میں ہمارے سماج کی شاعری ہے جو محاورے میں کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتی ہے جیسے ہتھیلی پر سرسوں جمانا، ناممکن سی بات ہوتی ہے اسی طرح ’’کلیا میں گڑ پھوڑنا‘‘ بھی کوئی ایسی بات کرنا یا اس کی طرف اشارہ ہے۔

 

(۲۹) کلیجہ اُچھلنا، کلیجہ بڑھ جانا، کلیجہ پھٹنا، کلیجہ ٹوٹنا، کلیجہ تھام کریا  مسوس کر رہ جانا، کلیجہ ٹھنڈا ہونا، کلیجہ جلانا، کلیجہ چھلنی ہونا، کلیجہ دھڑکنا، کلیجہ دھک سے ہو جانا، کلیجہ میں رکھنا، کلیجہ پھوٹنا وغیرہ۔

کلیجہ ہماری عام زبان میں ’’جگر‘‘ کو کہتے ہیں جسے انگریزی میں Leverکہا جاتا ہے یہ نہایت اہم عضو ہے کہ یہی خون بناتا ہے اور اسی کے خراب ہونے سے صحت تباہ ہو جاتی ہے اب یہ عجیب بات ہے کہ پیٹ کے بارے میں بہت سے محاورات ہیں اسی طرح کلیجہ کے بارے میں بھی ہے جس کے ساتھ دل کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے اور طرح طرح سے کلیجہ کے ساتھ نئے مفہوم معنی تسلیاں اور دعائیں وابستہ کی جاتی ہیں کلیجہ ہونا ہمت و حوصلہ کے لئے کہا جاتا ہے کلیجہ پکڑ کر رہ جانا کسی بری خبر سانحہ اور  حادثہ کا ردِ عمل ہوتا ہے اور عورتیں عام طور پر کہتی ہیں کہ کلیجہ پکڑ کر رہ گیا یعنی ایسی حالت میں صبر کرنا مشکل ہے کلیجہ ہاتھ میں لینا تسلی و تشفی کرنا عمل کے لئے کہا جاتا ہے کلیجہ تھامنے کے معنی بھی یہی ہیں اس میں غم زدہ آدمی کی اپنی کوشش بھی شامل ہوتی ہے کلیجہ بھوننا دل جلانے کو کہتے ہیں کہ اس نے میرا کلیجہ بھون کر رکھ دیا۔

کلیجہ کی بوٹی اپنی اولاد کو کہتے ہیں ویسے عورتیں اپنے سے کم عمر بہنوں بھتیجوں، بھانجیوں اور اپنی بچیوں کو بھی کہتی ہیں کلیجہ منہ کو آنا بہت دکھ بھری حالت کا اظہار کرنا ہے جس کا دُکھ ناقابلِ اظہار ہو۔ کلیجہ مسوس کر رہ جانا دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے کو کہتے ہیں یہ دل کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور غم زدگی اور تکلیف دہ حالت میں صبر کرنا اس کے مفہوم میں شامل ہے کلیجہ ٹھنڈا ہونا کسی کی طرف اطمینان اور تسلی ہونا جیسے اللہ پاک تمہاری آس اولاد کی طرف سے تمہارا کلیجہ ٹھنڈا رکھے کلیجہ میں ٹھنڈک پڑنا کبھی سکون ہونے اور اطمینان میسر آنے ہی کے لئے کہا جاتا ہے یا آرزو پوری ہونے کے لئے کہتے ہیں جس میں آدمی کی ایرشا(مرضی) شامل رہتی ہے۔

کلیجہ چھلنی ہونے کے معنی کلیجہ میں زخم پڑ جانا اور نہ خوشی کا حدسے بڑھنا ہوتا ہے کلیجہ دھک سے رہ جانا کوئی ایسی خبر سننا  جو انتہائی حیرانی اور تکلیف کا سبب ہو کہ یہ بات سن کر تو میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا کلیجہ کا بلیوں ’’اُچھلنا‘‘ خوف و خطرہ کا شدید احساس ہونا۔  یہاں کلیجہ سے مراد دل ہوتا ہے کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہونا بھی اسی مفہوم میں آتا ہے کہ دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کلیجہ کی ٹھنڈک ہونا باعثِ راحت ہونے کو کہتے ہیں کلیجہ کی بوٹیاں صدقہ کے طور پر چیل کوؤں کو کھلانا بے رحمی کا سلوک کرنا سخت سزا دینا اور بہت کم درجہ بلکہ ذلیل سطح کا سلوک کرنا رومیوں میں یہ رواج رہا ہے جس کا عکس  ہمارے اس محاورے میں آیا ہے۔

اگر ہم اس پر غور کریں اور محاورے کے مختلف پہلو اپنے مفہوم اور معنی کے اعتبار سے ہمارے پیش نظر رہیں تو پتہ چلتا ہے کہ محاورے کا زبان کے رشتہ سے ہماری تہذیب اور تاریخ سے کیا تعلق ہے اور کس طرح ہمارے محاورے میں ہمارے فکری رو یہ ذہنی رشتہ اور جذباتی تعلقات ابھرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

اسی ضمن میں ان محاوروں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے کلیجہ کی پھانس ہونا کلیجہ پر گھونسا مارنا کلیجہ پر سانپ لوٹنا کلیجے پر ہاتھ دھر کے دیکھنا کلیجے سے دھُواں اٹھنا وغیرہ وغیرہ۔

 

(۳۰) کمر باندھنا، کمر پکڑ کے اُٹھنا، کمر ٹوٹنا، کمر توڑنا، کمر سیدھی کرنا، کمر کا ڈھیلا۔ کمر کا مضبوط، کمر کھولنا وغیرہ۔

کمر انسان کے بدن کی بناوٹ اور کساوٹ میں ایک خاص کردار ادا کرتی ہے انسان کمر کے سہارے پر ہی سیدھا کھڑا ہو سکتا ہے اس کا کشیدہ قامت ہونا بھی اس کی کمر پر بھی  منحصر ہے کمر کا پتلا ہونا بدن کی خوبصورتی اور موزونیت میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے وہ چاہے کمر پر اُٹھا یا جائے یا سرپر کمر اس میں شامل رہتی ہے کمر سے متعلق محاورے اُردو میں بہت ہیں اور یہ ہماری تہذیبی روش معاشرتی تقاضوں اور آپسی رویوں پر روشنی ڈالتے ہیں کمر کسنا کمر باندھنا تیار ہونے کے معنی میں آتا ہے کمر سیدھی کرنا تھوڑا سا آرام کرنا ہے جس سے راحت کا احساس پیدا ہو۔ کمر کا ڈھیلا جسمانی کمزوری اس لئے کہ کمر اگر ڈھیلی ہو گی تو کام کرنے میں بھی باقاعدگی اور پھرتیلا پن نہیں آ سکتا کمر مضبوط کرنا اس کے خلاف ایک عمل ہے یعنی پکا ارادہ کرنا کہ ہم ایسا کریں گے کمر ٹوٹنا اس کے مقابلہ میں بالکل مایوس ہونا اور احساسِ محرومی کا شکار ہو جانا ہے کمر توڑنا دوسرے کو مایوس کر دینا اس کے سلسلے سے کچھ اور محاورے ہیں جیسے کمر کھولنا جب آدمی active life کو ختم کر دیتا ہے اور ایک ریٹائرڈ آدمی جیسی زندگی گزارتا ہے تو اسے کمر کھولنا کہتے ہیں۔

 

(۳۱) کنارہ کرنا، کنارہ کشی کرنا۔

الگ ہونا بے تعلقی ظاہر کرنا اکثر عورتیں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ بی بی کنارہ کرو یعنی تعلق کم کرو کبھی لوگ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اُس نے کنارہ کشی اختیار کر لی یہ سماجی رو یہ ہے اور اس معنی میں کہ دوری یا علیحدگی اختیار کرو مرد عام طور سے کنارہ کشی کہتے ہیں عورتیں کنارہ کرنا اور یہ معاشرتی اندازِ نظر   پیش کرنے والا نہایت اہم محاورہ ہے کنارہ بغل کو بھی کہتے ہیں اور اسی سے ہم کنار ہونا محاورہ بنا ہے بے کنارہ ہونے کے معنی سمندر کی طرح ہوتے ہیں جو اِدھر سے اُدھر تک پھیلے ہوئے ہیں جس کا کوئی کنارہ ہی نہ ہو اقبالؔ کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ یا مجھے ہم کِنار کریا مجھے بے کِنار کر

 

 

 

(۳۲) کنارے کنارے چلنا، کنارے لگانا، کنارے لگنا، کنارے ہو جانا۔

اکثر راستہ دریاؤں کے ساتھ طے کیا جاتا تھا اس لئے کہ جنگل زیادہ تھے ان میں راستہ نہیں ملتا ریگستانوں صحراؤں اور دشت و کوہ میں بھی راستہ کی تلاش ممکن ہوتی ہے سڑکیں پہلے نہیں تھیں بیٹائیں تھیں اسی لئے دریا کے کنارے کنارے راستہ طے کرنا آسان ہوتا تھا یہ گویا اِس دور زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے جب انسان دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلتا تھا اور وہیں حضرت خضر سے ملاقات ہوئی تھی جو پانی کے دیوتا ہیں۔

کنارے لگنا اچھے معنی میں بھی آتا ہے یعنی ناؤ اپنا سفر طے کر کے کنارے آ لگی اور سفر ختم کرنے کی وجہ سے اسے زندگی ختم کرنے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تو کنارے لگ گئے کنارے لگانا ختم کرنے کو بھی کہتے ہیں اور یہ ایک سے زیادہ معنی میں آتا ہے کہ ایک ایک کر کے سب سارے لگ گئے کنارے ہو جانا الگ ہو جانا کنارے کا درخت ہونا ایک الگ محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اب عمر کا کوئی بھروسہ نہیں کنارے پر کھڑا ہوا درخت ہے کبھی بھی کنارے کے ڈھے جائے کے ساتھ خود ہی گر پڑے گا۔

 

(۳۳) کن انکھیوں سے دیکھنا۔

دیکھنے کا عمل بھی عجیب و غریب ہے اس سے اپنائیت جھلکتی ہے اور اجنبیت بھی اپنے پن کا اظہار بھی ہوتا ہے اور غیریت کا بھی اسی لئے دیکھنے کے عمل کو گھورنے سے ظاہر کیا جاتا ہے آنکھیں لڑانے سے اور آنکھیں دکھا جھپکانے مٹکانے سے تعبیر کیا جاتا ہے آنکھیں پھاڑنا پھاڑ کر دیکھنا اور طرح کا عمل ہے آنکھیں چرانا کچھ اور ہے آنکھ لگنا اس سے مختلف صورت ہے آنکھ لگ جانا نہ لگنے کے مقابل میں ایک اور  صورت حال کو پیش کرتا ہے آنکھیں پھیر لینا ایک اور عمل ہے اسی طرح آنکھوں میں سمانا الگ ہے آنکھوں میں پھرنا الگ ہے آنکھوں دیکھا ہونا ایک الگ تجربہ ہے نہ آنکھوں سے دیکھنا نہ کانوں سے سنا ایک اور تجربہ ہے مڑ مڑ کر دیکھنا دیکھنے کا ایک الگ ا انداز ہے کن انکھیوں سے دیکھنا اور عمل ہے۔ اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دیکھنے کی روش دیکھنے کے انداز اور اسلوب کے بارے میں ہمارا معاشرہ کس کس طرح سوچتا اور الگ الگ باتوں کو سمجھتا رہا ہے اور  اُسے محاورات میں محفوظ کر دیا۔

 

(۳۴) کندہ نا تراش۔

کندہ لکڑی کے ٹکڑے کو کہتے ہیں اور جب اس کے ساتھ نا تراش مل گیا تو اس کے معنی انگھڑ کے ہو گئے یعنی ایک ایسا شخص جس میں تمیز تہذیب نہ سیکھی ہو اس سے ہم سماج کا تہذیب و شائستگی کے بارے میں نقطہ نظر معلوم کر سکتے ہیں اس طرح کے لوگ سماج میں ملتے رہے ہیں جنہیں کندہ نا تراش کہا جا سکتا ہے یعنی غیر مہذب جن کی تربیت نہ ہوئی ہو۔

 

 

 

(۳۵) کنگھی چوٹی۔

زیبائش آرائش بناؤ سنگھار جو عورتوں کا شوق اور  اُن کی ضرورت ہوتی ہے اسی کو کنگھی چوٹی کہتے ہیں اور اس کا تعلق بہرحال اپنے معاشرے سے ہے مغربی معاشرہ میں چوٹی ہوتی ہی نہیں۔

 

(۳۶) کنواں کھودنا، کنوؤں میں بانس ڈالنا، کنوئیں میں جھانکنا، کنوؤں میں جھکانا۔

کنواں کھودنا پانی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے لیکن شیر کو یا ہاتھی کو زندہ پکڑنے یا  گرفتار کرنے کے لئے بھی کنواں کھودا جاتا ہے اور اس پر گھانس پھونس ڈال دیا جاتا ہے  اور جب شیر یا  ہاتھی وہاں سے گزرتا ہے تو اس کنویں یا گڈھ میں جا گرتا ہے اور پھر اس کو پلے ہوئے شیروں یا ہاتھیوں کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔

کنوؤں میں بانس ڈالنا، تلاش کرنے کو کہتے ہیں کہ تمہاری تلاش میں توہم نے کنویں میں بانس ڈلوا دیئے کنویں جھانکنا یا جھُکانا بھی تلاش کرنا ہے مگر اچھے معنی میں نہیں ہے اب کنویں باقی نہیں ہیں بیشتر کنویں بند ہو چکے ہیں دہلی میں لال کنواں، ڈھولا کنواں اندرا کنواں اس کی مثالیں ہیں پتھر والا بھی کبھی کنواں ہی تھا کھاری باولی اور حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ سے متعلق باولی بھی بڑے کنویں ہیں کھاری باولی اب نہیں ہے مگر بستی حضرت نظام کی باولی  موجود ہے اور گزرے زمانے کی یاد دلاتی ہے۔

 

(۳۷) کوٹھے والیاں۔

کوٹھا ایک خاص معنی میں بالا خانہ کو کہتے ہیں اور بالا خانہ بھی اپنا ایک اصطلاحی مفہوم رکھتا ہے۔ یعنی طوائف کی رہائش گاہ طوائف گانے والی عورت کو کہتے تھے۔ جس کو رقص کا فن بھی آتا تھا۔ گانے بجائے اور  رقص کے ساتھ اپنے موسیقی کے فن کو پیش کرنے کا کام ڈومنیاں بھی کرتی تھیں۔ مگر وہ عورتوں کی محفلوں میں گاتی بجاتی تھیں۔ ویسے ڈومنی کا اصطلاحی لفظ طوائف کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا درگاہ قلی خان سر سالار جنگ اول نے عہد محمد شاہی میں جو دہلی کا سفر کیا تھا اس کی روداد مرقع دہلی نام کی کتاب میں ملتی ہے انہوں نے دہلی کی اس وقت کی طوائفوں کو ڈومنی کہا۔

طوائفیں بڑی مالدار اور ڈیرہ دار بھی ہوتی تھیں۔ ڈیرہ دار طوائفیں وہ طوائفیں کہلاتی تھیں جن کے پاس نو عمر لڑکیاں بھی ہوتی تھیں اور ان کے لئے رقص و سرود کا کام بھی کرتی تھیں اُن کو نوچنا کہتے تھے انگریز جب ہندوستان میں آئے اور انہوں نے طوائفوں سے ذہنی رابطہ پیدا کیا تو وہ انہیں لال بی بی کہہ کے پکارتے تھے۔

طوائف کے کوٹھے پران کے درجہ کے مطابق اُمراء اور صاحب ثروت لوگ جاتے تھے۔ بادشاہوں کی بھی طوائفیں محبوب شخصیتیں ہوتی تھیں طوائف کے کوٹھے کی تہذیب اُردو شاعری اور ادبی شعور پر بہت اثرانداز ہوئی ہے داغ ؔ کی شاعری میں تو اس کی بے طرح جھلکیاں ملتی ہیں عام زبان میں طوائف کو کوٹھے والی کہتے ہیں۔

 

(۳۸) کوچہ گردی کرنا۔

کوچہ گلی محلے کو کہتے ہیں اور طوائف کے کوٹھے کو بھی کوچہ کہا جاتا ہے اسی لئے جب ہم کوچہ گردی ایک خاص مفہوم کو ذہن میں رکھ کر کہتے ہیں تو اس سے مراد طوائف کے کوٹھے پر آنا جانا ہے۔ اسی لئے اقبالؔ نے فرنگیوں کے لئے کوچہ گرد کا لفظ استعمال کیا گلی کوچہ دہلی کی زبان میں عام استعمال میں آتا ہے۔

 


 

(۳۹) کودوں دلانا، کودوں۔

مشرقی یوپی میں ایک بہت معمولی قسم کا اناج ہوتا ہے اس کو کودوں کہتے ہیں پہلے زمانہ میں پیسے کی کمی تھی اس لئے چیزوں کے بدلہ میں اناج دیا جاتا تھا دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک یہ سسٹم کافی رائج تھا اور اب بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے کودوں بہت کم درجہ کا اناج ہے اس لئے کودوں دے کر پڑھنا اس کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں دیا مفت پڑھے ہیں۔ یہ وہی بات ہوئی جس کا اظہار ہم کوڑیوں کے حوالہ سے بھی کرتے ہیں کوڑیوں کے مول خریدنا، یعنی جو چیز بہت سستی مل جائے اُسے کوڑیوں کے مول سے نسبت دی جاتی ہے کوڑیاں بھی سکے یا پیسے ٹکے کے طور پر چلتی تھیں۔ اور دوسری جنگِ عظیم تک چلتی رہیں۔

یہ محاورے اس دور زندگی کی یاد دلاتے ہیں جب پیسے پاس ہونا بڑی بات تھی اور اسی سے یہ محاورہ بھی نکلا ہے پیسہ دیکھا ہے یا پیسے کامنہ نہ دیکھو پیسہ پانی کی طرح نہ بہاؤ یا پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے۔ پیسے پیسے کو محتاج ہو نا بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے اور اس سے ہماری سماجی حیثیت کا بھی تعین ہوتا ہے اور سماج میں پیسے کی اہمیت کا بھی۔

 

(۴۰) کورا کورا بر تن کورا رکھنا۔ کورا رہ جانا۔ کورا سر۔ کورے بال رکھنا۔ کورے استرے سے سر مُونڈنا، کوڑا کرنا۔ کوڑا مارنا۔

کورا ایسی کسی شے یا برتن کو کہتے ہیں جس کا استعمال ابھی نہ کیا گیا ہو کہ وہ تو ابھی تک بالکل کورا ہے جو لوگ پڑھے لکھے یا عقل مند نہیں ہوتے ان کو بھی کورا کہہ کر یاد کیا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں بالکل ہی کورے ہیں دہلی میں کورا رکھنا بھی محاورہ ہے جس سے مراد ہے کسی شے کو اٹھا کر رکھنا۔ کسی شے کا استعمال نہ کرنا اور اسے حفاظت سے رکھے رہنا کورا سر اور کورے بال دہلی والوں کا خاص محاورہ ہے اور  اس کے معنی ہوتے ہیں کہ سر میں تیل نہ لگانا  سنگھار  پٹار کے بغیر رہنا۔

جس کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا کورے استرے سے سر مونڈنا یعنی بری طرح سر مونڈائی کرنا بیوقوف بنانا الٹے استرے سے حجامت بنانا یا کھنڈے استرے سے سر مونڈنا بھی قریب قریب اسی معنی میں آتا ہے۔

جہاں تک کورے برتن کی بات ہے ہمارے گھریلو معاشرے میں وہ تعریف کے لائق بات ہے نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے۔

؂ واہ کیا بات کورے برتن کی

کوڑا مارنا یا کوڑے لگانا سزا دینا اور  کوڑوں سے مارنے کی طرف اشارہ کرتا ہے قبائلی زندگی اور قدیم عرب میں یہ سزا بہت عام تھی دہلی میں گھوڑے کو کوڑا لگانا جس معنی میں آتا ہے اسی معنی میں کوڑے کرنا بھی آتا ہے۔

 

(۴۱) کوڑی کے تین تین بکنا۔ کوڑی کے کام کا نہیں۔ کوڑیوں کے بھاؤ بھی مہنگا ہے۔

کوڑی کے تین تین بکنا، بہت سستا ہونا، جس کی گویا کوئی قیمت ہی نہیں یعنی اس کی قیمت تو ایک کوڑی بھی نہیں ہے یہ اس میں بھی مہنگا ہے یہ بھی کسی شے کو انتہائی کم قیمت قرار دینا ہے مغربی یوپی میں کوڑی کوڑی کو ’’ڈ‘‘ سے لکھا جانا ہے دہل میں ’’ر‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

 

(۴۲) کولھو کا بیل، کولھو کاٹ کر موگری بنانا، کولھو کے بیل کی طرح پلِنا۔

کولھوں کا بیل آنکھیں بند کئے ایک ہی دائرہ میں چکر لگاتا رہتا ہے اسی لئے جہاں سے چلتا ہے وہیں کھڑا ہوتا ہے یعنی اس کے سفر کی کوئی منزل نہیں ہوتی اسی لئے مولانا حالیؔ نے ایک موقع پر کہا تھا یہ کولھو کے کچھ بیل سے کم نہیں ہے۔ جہاں سے چلے تھے وہیں کے وہیں ہیں۔

کولھو کاٹ کا موگری بنانا یہ دہلی کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں کسی بڑی چیز کو قربان کر کے چھوٹی چیز حاصل کرنا جو بہرحال بیوقوفی کی علامت ہے اور نفع نقصان کو نہ سمجھنا ہے۔ اسی لئے اسے ایک گہرا طنز خیال کیا جاتا ہے۔

 

(۴۳) کولھو میں پلوا دینا۔

بے حد شدید اور عبرت ناک سزا ہے پہلے زمانہ میں سزائیں بہت سخت تھیں مثلاً سولی دینے کی سزا آنکھیں نکلوانے کی سزا بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلانے کی سزا اسی طرح پہلے زمانہ میں زندہ انسانوں کو کولھوؤں میں ڈال دینے اور  پھر اُن چیزوں کی طرح جو کولھو میں ڈال کر پلوائی جاتی تھیں انسان کے وجود کو ریزہ ریزہ کر دینے کی سزا یہ آج بھی محاورے کی صورت میں اپنے بے حد تکلیف دہ احساسات کے ساتھ زندہ ہے اور ہماری تاریخ کے بہت المناک واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ محاوروں میں کس طرح تاریخی حقائق کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیا ہے ایک چھوٹا جملہ محاورے کی شکل میں تاریخ کا مرقع ہوتا ہے۔

 

(۴۴) کوہِ قاف،قاف سے قاف تک۔

پہاڑوں کا وہ سلسلہ جو قاف کی شکل میں پایا جاتا ہے پہاڑوں کا ہماری تاریخ تہذیب اور انسانی معاشرہ کے ارتقاء سے خاص خاص مراحل سے تعلق رکھتے ہیں کوہ قاف،قاف کی شکل کے پہاڑی سلسلہ کو کہتے ہیں جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ شمالی ایران کا وہ علاقہ ہے جو آگے جا کر جنوب مشرقی روس سے مل جاتا ہے اسی کا مشہور شہر آرمینیا ہے اس پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بھی کہا گیا ہے اور  کوہِ قاف کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ سونے کا ایک پہاڑ ہے جو تمام روئے زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ اسی معنی میں ’’قاف تا قاف‘‘ کا مفہوم یہ ہوا کہ کوہِ قاف کے ایک کنارے سے لیکر دوسرے کنارے تک جس میں ساری دنیا آ جاتی ہے۔

کوہِ قاف کی عورتیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں یا سمجھی جاتی تھیں اسی لئے حسین عورتوں کو کوہِ قاف کی پریاں کہتے تھے اور ہماری کہانی و داستانوں میں ان کا ذکر بطور خاص آتا تھا یہ گویا ایک وقت میں کوہِ قاف سے متعلق ہمارے تصورات تھے اور اس کی خوبصورت عورتوں کے بارے میں ہمارے خواب و خیال جس طرح ہندوی کلچر میں اپسرائیں ہوتی ہیں اسی طرح فارسی واردو میں روایتی حسن اور نسوانی کشش کو اور سماج کی ذہنی تصویروں کا مرقع ہماری نظر میں پھر جاتا ہے۔

 

 

 

(۴۵) کوئی کسی کی قبر میں نہیں جائے گا یا نہیں سوئے گا۔

قبر ہماری تہذیب میں موت سے متعلق اپنے خیالات و سوالات کی ایک علامت ہے خاک لحد مزار سنگِ لحد لوحِ مزار کفن کافور وغیرہ موت کی رسومات سے متعلق ہیں اور  ہزاروں برس کی روایت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔

احرامِ مصر بھی مقبرہ ہیں اور تاج محل بھی مقبرہ ہے بنیادی طور پر قبر کی روایت سے متعلق ہیں قبروں پر جا کر ہم پھُول چڑھا تے ہیں خوشبو دار چیز جلاتے ہیں ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ فاتحہ درود مردے کو پہنچتی ہے قبر میں جو راحت یا عذاب ہوتا ہے وہ مُردے کے اپنے اعمال کے مطابق ہوتا ہے یہیں سے یہ محاورے پیدا ہوا ہے کہ کوئی کسی کی قبر میں نہ سوئے گا یعنی دنیا میں جو خود کرے گا قبر میں ثواب یا عذاب الہی کا نتیجہ ہو گا۔

ہر ایک کے اپنے اعمال قبر میں اس کے ساتھ ہوں گے یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس کے اعمال اس کے ساتھ اور میرے اعمال میرے ساتھ اُس سے مراد قبر ہی ہے جہاں مسلمانوں کے عام عقیدہ کے مطابق انسان کا اعمال نامہ اس کے ساتھ ہو گا نیکی بھی اور بدی بھی۔

 

(۴۶) کوئی نہیں پوچھتا کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں۔

دانت انسان کے چہرہ مہرہ میں خاص کردار ادا کرتے ہیں اور اُن سے بہت سے محاورات وابستہ ہیں لیکن یہ محاورہ ایک خاص طرح کا سماجی محاورہ ہے کہ ہر آدمی ایک دوسرے سے بے تعلق ہے اور کوئی کسی کے ذاتی معاملہ یا مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ یہ پوچھے کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں بہت سے مسائل غیر ضروری بھی ہوتے ہیں انہیں کوئی دوسرا کیوں چھیڑے اور غیر ضروری طور پر دوسروں کے معاملات میں دخل دے۔

 

(۴۷) کھڑے گھاٹ دھُلوانا۔

دھوبیوں کا محاورہ ہے اور ایسے طبقہ کے لئے ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرے کپڑے ابھی دھو دو مجھے کہیں جانا ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے پاس اور کپڑے نہیں ہیں نئے کپڑوں کا تو سوال ہی نہیں اس لئے کہ دھوبی کے گھرکے کپڑے بھی غنیمت ہوتے ہیں دھُلے ہوئے اور انہی کے لئے درمیانی طبقہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دھوبی کے گھرکے ہیں اِس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری معاشرتی زندگی کس طرح ہمارے محاوروں میں جھلکتی ہے۔

 

(۴۸) کھوٹا پیسہ یا کھوٹا بیٹا وقت پر کام آتا ہے۔

یہ محاورہ ہماری سماجی فکر کی بہترین نمائندگی کرتا ہے پیسہ ہونا یوں بھی مشکل ہوتا ہے اور پہلے زمانہ میں تو پیسہ کا میسر آنا بڑی بات تھی اِسی طرح بیٹا ہونا چاہے وہ نالائق ہی کیوں نہ ہو سکون کا باعث ہوتا تھا اور آدمی کا جی چاہتا تھا کہ وہ اس کی بھی تعریف کرے اسی لئے یہ محاورہ رائج ہوا کہ یہ کھوٹا پیسہ اور کھوٹا بیٹا ہی وقت پر کام آتے ہیں۔

 

(۴۹) کھونٹے کے بل کودنا، کھونٹے سے باندھنا۔

یہ بہت اہم محاورات میں سے ہے اور  اس گھریلو زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں جانور یا مویشی زندگی میں داخل رہتے ہیں اسی لئے کھونٹے سے بندھنا یا باندھنا کا محاورہ رائج ہوا۔ اگر جانور کو کھونٹے سے نہیں باندھا جائے گا تو وہ کہیں بھی اِدھر اُدھر نکل جائے گا اور کوئی اس کو پکڑ لے گا۔

علاوہ بریں کھونٹے سے لگنا بھی محاورہ ہے اور وہ بھی جانور کی وفاداری کے معنی میں آتا ہے کہ جب جانور جنگل باہر سے گھر یا گھرکی طرف آتے ہیں تو وہیں جا کر کھڑے ہوتے ہیں جہاں اِن کا کھونٹا ہوتا ہے۔

یہاں سے ایک اور محاورہ پیدا ہوا کہ جانور کو اپنے کھونٹے کا بڑا سہارا ہوتا ہے اور وہ اسی سہارے پر کودتا یا اُچھلتا ہے جیسے کوئی آدمی اپنے سرپرست یا خاندان کے بزرگ کے بل بوتے پر غلطیاں بھی کر جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ میرے بڑے اس کو نمٹا لیں گے اور مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچنے گی اس کے مقابلہ میں قصائی کے کھونٹے سے بندھنے کے معنی تکلیف اٹھانے اور چھری تلے جانے کے ہیں۔ ایک محاورہ بھی اسی سلسلہ کا ہے کہ تم کہیں بھی کھلے بندھے نہیں ہو یعنی تم نے اچھا بُرا وقت نہیں دیکھا۔

 

(۵۰) کھیل اُڑ کر منہ میں نہیں گئی۔

یعنی کھانے پینے کو کچھ بھی دیکھا اور کوئی تجربہ یا ذہنی تربیت حاصل نہیں کی۔

 

(۵۱) کیل کایا کیلی کا کھٹکا نہیں۔

یہاں کسی بات کا خوف و ڈر یا اندیشہ نہیں ہے یعنی محفوظ جگہ اُس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ محاورہ ذیل میں بہت عام ہے۔

٭٭٭٭٭٭

 

تشکر: کتاب گھر ڈاٹ کام،

پروف ریڈنگ اور  ای بک کی تشکیل: محمد شمشاد خان، اعجاز عبید