فہرست مضامین
- اذیّت
- انتساب!
- وہ میں اور اذیّت
- افتخار فلک ؔ ایک گراں مایہ صد سرمایہ شاعر
- نئے خطوں کی کھوج ۔۔
- افتخار فلکؔ۔ ایک سخت کوش شاعر
- ایک سب آگ، ایک سب پانی
- نادِ علی ؑ
- روا روی میں اُٹھ گیا مرا قلم، برادرم
- بساطِ خورشیدِ جاں سے آگے اُتار مجھ کو
- اَسرار و آثار ٹھکانے لگتے ہیں
- خالی گھر کا خالی کمرا
- سانحہ پیشِ نظر ہے دیکھئے!
- وقفِ رنج و ملال مت کریو
- اَدب سکھاتا ہے بے حیائی سُنی سُنائی
- سرسبز ہو رہے تھے مرے سامنے درخت
- دل کے نگار خانہ سے باہر رکھا ہوا
- اک خدا مر گیا دوسرا بچ گیا
- پکڑ کر ہاتھ تیرا ناچتا ہوں
- شجر پہ بیٹھے ہوئے پرندے اُڑا رہی ہے
- لگے ہاتھوں خدائی استعارہ ہاتھ لگ جائے
- عزّتیں دور دَھرو، جام بھرو!
- وُجودِ خاک اُٹھاؤ دھمال کرتے چلو
- دل نئے رنج اُٹھانے سے گیا، پھر تو گیا
- عشق رنگ و نور کا مینار ہے
- دَم بہ دَم دل لگی، دَم بہ دَم معذرت
- مَیں خود پسندی میں مبتلا ہوں ، بہت بُرا ہوں
- جھپٹ کر آسمانوں سے قضائیں نوچ کھاتی ہیں
- مجھے شیشہ دِکھایا جا رہا ہے
- شبیہِ حُجرۂ وَحشت بنا کے لایا تھا
- مَیں بھُول جاؤں نہ رکھ رکھاؤ، نئے خداؤ!
- کافروں اور باغیوں میں آ گیا
- فضائے جان و دل بہتر ہوئی ہے
- ہَرے پیڑوں کو ڈھانے آ گئی ہے
- اے زمانے بتا، کیا ہوئی خودکشی
- قیس کے نام کی تختیاں رہ گئیں
- مَیں درِ جاناں پہ پیہم سر نِگوں جاتا رہا
- زندگی کا ذائقہ چکھتا رہا
- حضور! شُہرت کی آب کاری میں لگ گیا ہوں
- ہوا نے سانحہ روکا ہوا ہے
- دل یہ کہتا ہے آبگینوں سے
- شہوتِ لمس کا اِستعارہ بدن
- آج تو زہر بھی لگا پانی
- روشنی آنکھوں پہ باندھوں تو ہَرا ہو جاؤں
- کربلا نقش ہے سینوں میں تمازت کیسی
- آپ برہم نہ یوں ہوا کیجے
- ہماری حیرت وہ آئنہ ہے خدائے حیرت
- دشت کی سروری مُبارک ہو
- کچھ آوارہ یاروں میں آ بیٹھا ہوں
- دامِ اِبہام میں آیا تو خجل ہی ہو گا
- ناز و ادائے یار کی ساری بہار جھُوٹ
- اَنا زادوں سے نسبت ہے، اذیّت ہے
- آبلہ پائی کا جب اِمکان تھا
- کُوزہ گر کا ہاتھ بَٹانے والا ہوں
- آساں نہیں ہے جادۂ حیرت عُبورنا
- کئی لوگوں نے صُحبت کی، محبت کی
- Related
اذیّت
افتخار فلکؔ کاظمی
رضینا قسمۃ الجبار فینا
لنا علم و للاعداءِ مال،
و ان المال یفنی عن قریب
و ان العلم باق لا یزال،
ترجمہ:
میں اللہ کی تقسیم پر راضی ہوں ‘ جس نے میرے حصے میں علم اور دشمنوں کے حصے میں مال رکھ دیا ہے۔ اور بالیقین مال و دولت عنقریب فنا ہونے والا ہے اور علم ہمیشہ باقی رہے گا۔
(مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ)
انتساب!
اُس کے نام
جسے
میرا ہونے میں آسانی ہو
ترے بدن پہ محبت کے گُل کھِلاؤں گا
تُو میرے عقد میں آنے کا فیصلہ کر لے
افسردگیِ طبع تجھے مان گئے ہم
ہم جان سے جاتے ہیں مگر تُو نہیں جاتی
ظاہر پہ چھڑکتے ہیں مسرّت کا بہت عِطر
باطن سے اُداسی کی مگر بُو نہیں جاتی
(خورشید رضوی)
وہ میں اور اذیّت
قریۂ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن وہ منحنی سی جسامت رکھنے والا کسی پردۂ ناآشنائی سے وارد ہو کر میرے سامنے اپنے صغرِ سنی کے اذیّت ناک ، تلخ حقائق اور پور پور کرب میں ڈوبی کتھائیں لے کے وارد ہو گا …… اور چھوٹتے ہی کہے گا۔
؎مرے تعاقب میں نامرادی کا جن لگا ہے
ہزار سالوں سے گھر پڑا ہوں ‘ بہت بُرا ہوں
میں اور وہ بہت مختلف ہیں۔ میں کہ حُسن کا رَسیا ہوں مگر وہ اپنے شبابِ طفولیت ہی میں حسن پر تہمتیں لگانے والا اور حسینوں پر کھلے عام رائیگانی ٔ زیست کے فتوے لگانے والا ……میں بہت ہنسنے والا اور وہ اپنے ہونٹوں کے کناروں پر اداسیوں کی زہریلی بوندیں سجائے لفظوں کی پھوار سے نوحہ نُما قہقہے لگانے والا …… مگر اس سب اختلاف کے باوجود مجھے اس سے اتفاق کرنا پڑا۔
ع مگر وہ ہونٹ چباتے ہوئے نہیں ڈرتا
میں نے ایک دن اسے کہا کہ تم کیوں موت کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہو کبھی زندگی کی محبوبہ کا ہاتھ تھام کے کسی حسین شام کو وادیِ محبت کی سیر کرا آؤ ناں اسے …… وہ برانگیختہ ہوا …… ساتھ ہی اس کے منہ سے حرفوں ، لفظوں ، شعروں کی ایسی رنگین تھوکیں نکلیں کہ میرے قرب و جوار کی فضائیں صفحوں میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر اس ظالم کے کہے ہوئے شبد مجھے سنائی دینے کے ساتھ ساتھ دکھائی بھی دینے لگے۔
؎نمک حرامی کروں گا دنیا کو چھوڑ دوں گا
تری محبت پہ تھوکتا ہوں ، بہت بُرا ہوں
…
؎زندگی سرسبز پیڑوں کی دھمال
موت سورج کے گلے کا ہار ہے
اس کے ساتھ چند ساعتیں گزار لوں تو ایسے ایسے واہیات خیال خود بخود جنم لینے لگتے ہیں کہ زندگی ایسی بانجھ داشتہ کو جو قدم قدم پر رنگین فرمائشیں کرتی ہے آگے بڑھ کر چٹاخ سے تھپڑ رسید کر ڈالوں …… اسی لئے میں اس سے کم ملنے کی کوشش کرتا …… مگر وہ خود منہ اٹھائے چلا جاتا تو اپنے پیچھے اور میرے سامنے اپنے سوالات چھوڑ جاتا۔ معمّے حل کرنے کے لئے میں ہی بچا ہوں کیا۔
؎میں اس سے پہلے کہ خودکشی کو حیات بخشوں
مری محبت سے جاں چھڑاؤ، نئے خداؤ!
چائے پیتے ہوئے یکدم مجھے خیال آیا کہ وہ تو اپنے کپ کو ہونٹ بھی واجبی سے انداز میں لگاتا ہے …… مگر چائے کی چسکی اس کی سوچ کی طرح گہری کیوں محسوس ہوتی ہے۔ اس نے شاید ٹیلی پیتھی (Telepathy) سیکھ رکھی ہے کہ فوراً ہی بول اٹھا ’’اگر آدم زاد اذیّت کے الاؤ میں سے گزر کر خیال کی دنیا سے ہوتا ہوا Geniuness کا کُلنک ماتھے پر لگا لے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے ‘‘۔
؎زندگی کا ذائقہ چکھتا رہا
میں اسے بے فائدہ چکھتا رہا
قہقہوں کے شور میں اک مسخرہ
منہ چھپائے حادثہ چکھتا رہا
اکثر مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ جنس سے سہما ہوا ، تیقّن اور گمان کی لڑائی سے اکتایا ہوا یہ بے ضرر سی سٹار (Sea Star)وقت کے سمندر سے باہر کی دنیا کی طرف نکلنا چاہتا ہے…… جہاں مذہب نام کے دہکتے انگارے انسانوں پر نہ اچھالے جائیں ، جہاں خدا کو اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے واسطے کھلونا نہ بنایا جائے ، جہاں پیغمبرانہ معجزے کی بجائے انسانی محبت کی کرامتیں مگر اس کی ایسی بے وقت سوچوں پر تو مجھے ہنسی آ گئی۔
؎اک خدا مر گیا دوسرا بچ گیا
میرا مطلب ہے جھوٹا خدا بچ گیا
سات رنگوں سے بنتا رہا یہ جہاں
رنگ آخر میں صرف اک ہرا بچ گیا
اس کا اور میرا ساتھ قائم رہا تو لگتا ہے کہ یا میں اسے وادیِ اذیّت سے شہرِ راحت کی طرف کھینچ آؤں گا یا ایک دن میں کسی آگہی کے اُبلتے ہوئے چشمے پر سے نکلتی ہوئی کم مائیگی کی آگ سے کھیلتا ہوا …چلاتا ہوا … افتخار کو گالیاں بَکتا ہوا کہہ رہا ہوں گا …… مجھے کیوں اپنے جیسا بنا دیا ……
؎میں نفسیاتی ضیافتوں کا شکار ہو کر
ترے تقرّب کی آبیاری میں لگ گیا ہوں
خیر …… سفر آغاز کر بیٹھے ہیں …… اس کے مشاہدے، اس کے تجربے ، اس کی نفسیاتی اُلجھنیں اور اس کی اذیّت ان سب کو میں نے اَپنا لیا …… اور اگلے صفحات پر بکھری پڑی ساری اذیتیں …… آپ بھی اپنے حلق سے اُتار لیجئے کہ اسی میں ہماری بقا ہے …… جاتے جاتے اس اذیّتی کا ایک اور قہقہہ دیکھئے جو کہ سابقہ اذیّتیوں کا مریدِ خاص ہے۔
؎میرؔ سے ، جونؔ سے نسبت کا اثر ہے صاحب
میں اگر شعر سناتا ہوں تو حیرت کیسی؟؟
قاضی راشد ؔمحمود
25 اکتوبر2014 ء
افتخار فلک ؔ ایک گراں مایہ صد سرمایہ شاعر
شاعری اور موسیقی دنیا کی مادری زبانیں ہیں۔ ایک خاص تہذیب کی حامل ، ان کی اثر پذیری انسانی جذبات کی تشہیر کا باعث ہے۔ موسیقی ایک خاص کیفیت تو پیدا کرتی ہے لیکن اس کے نقوش دیر پا نہیں ہوتے جذبات میں ایک ہلچل پیدا کرتی ہے۔ کسی نئی خاص حقیقت کی بازیافت نہیں کرتی۔ شاعری چونکہ خالص تخلیقی عمل ہے ، اس کا سفر نئے منطقوں اور جہانوں کی طرف ہوتا ہے۔ اس کی فعالیت عدم کو وجود اور معدوم کو ظاہر کرتی ہے ، اس کی مسافت معلوم سے نامعلوم اور نامعلوم سے معلوم کی طرف ہے ، انسانی باطن کے گوشوں کو منوّر کرتی اور انسان کے لاکھوں برس کے سفر کا منظر نامہ مرتّب کرتی ہے۔ افتخار فلکؔ بھی ایسا مسافر ہے جو غزل کی ہفت اقلیم کا سیاح اور ممکنہ امکانات کی تراش خراش میں مصروف و مگن ہے۔
اردو شاعری میں غزل نے کئی منازل طے کی ہیں۔ اس میں ہر سطح پر تجربات ہوئے ، اس کے خد و خال بدلنے کی سعیِ ناکام بھی کی گئی لیکن اس نے اپنا سراپا برقرار رکھا۔ ہر دور میں جوان اور نیا خون اس کے لئے آبِ حیات ثابت ہوا۔ غزل کے لئے اس حوصلے اور ہمّت کی ضرورت ہے ، بقول افتخار:
؎نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا
یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا
افتخار فلکؔ جس ثابت قدمی ، حوصلے اور ہمّت سے غزل کے جادے پر رواں دواں ہے منزل یابی اس کا مقدّر ہے۔ اس کا سفر مشکل اور طویل ہے اس میں کئی دشت ، کئی وادیاں ، کئی گھاٹیاں ، بہت سے النگ اور موڑ ہیں جن سے گزرتے ہوئے زندگی گزر جاتی ہے اور کبھی ایک پل میں یہ سفر طے ہوتا ہے اور کسی نئے جہان میں آدمی جا پہنچتا ہے جہاں کوئی رستہ ، کوئی نقشِ پا رہنما نہیں ہوتا۔ اکیلے اور تنہا اسے تسخیر کرنا پڑتا ہے۔ سہولت پسند لوگ بنے بنائے راستوں پر روز کے معمول کی طرح آتے جاتے ہیں مگر با شعور شاعر کے لئے باعثِ اذیّت ہے۔ افتخار خود کہتا ہے۔
؎فلکؔ تجھ سے کہا تھا ناں محبت میں
اذیّت ہے، اذیّت ہے، اذیّت ہے
افتخار فلکؔ کو اپنے اکیلے پن اور تنہا سفر کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسی لئے وہ اپنی تخلیق میں اکلاپے کا ذکر کرتا ہے۔ اس سفر میں کوئی ساتھ نہیں رہتا ایک مکمل تنہائی کا فراواں احساس آدمی کو گھائل کرتا رہتا ہے اور شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
؎دونوں اک جیسے لگتے ہیں
میں اور میرا خالی کمرا
مجھ سے لپٹا رویا گھنٹوں
آہیں بھرتا خالی کمرا
یہ تنہائی اصل میں درویشی سے عبارت ہے جس میں آدمی اپنے باطن کو اور احساس کو ہر قسم کی یاد اور آلودگی سے پاکیزہ کر لیتا ہے اور ایک خالی پن کا تجربہ کرتا ہے جس میں روح لطیف ہو کر انسانی بدن کو چھونے کی قوت حاصل کر لیتی ہے۔ یہ تجربہ صوفی بھی کرتا ہے لیکن بعض اوقات صوفی حقیقت کو سامنے پا کر دیوانہ ہو جاتا ہے جب کہ شاعر اسے اپنے احساس کی کٹھالی میں پگھلا کر شعر کا روپ دیتا ہے۔
؎پڑا تھا ایک کمرے کی کسی خوشحال دنیا میں
بُرا ہو بدحواسی کا سہولت سے نکل آیا
افتخار فلکؔ ابھی نوجوان ہے ، مزاج میں سنجیدگی ہے۔ اس کے سامنے پوری کائنات کھلی پڑی ہے وہ جب چاہتا ہے ، جہاں سے چاہتا ہے ایک قاش تراش کر ہمارے سامنے دھر دیتا ہے۔ داد و دہش سے بے نیاز اپنے کام میں مگن اور مست ہے۔ اپنے سفر میں کہیں بھی کسی بھی طرح اپنے فن کی قربانی کو تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عمروں میں ممتاز مقام پر کھڑا ہے۔ اس کے ہمراہ اس کی اپنی فکر اور سوچیں ہیں جن سے وہ نئے نئے چراغ اُجالتا ہے اور اپنا راستہ منور کرتا جاتا ہے۔
افتخار فلکؔ کی شاعری خوشبو بھرا جادہ ہے جس پر قاری بھی چلتے ہوئے مشکبار ہو تا ہے۔ خداوندِ متعال اس کے سفر کی حدود کو لامحدود کرے اور دلوں تک رسوخ دے۔ آخر میں اس کے چند اشعار سنا کر اجازت چاہتا ہوں۔
؎سارہؔ، ثروتؔ، شکیبؔ اور میرے لئے
لا کوئی مدھ بھری مذہبی خودکشی
…
؎سرسبز ہو رہے تھے مرے سامنے درخت
پلکیں بھگو رہے تھے مرے سامنے درخت
…
؎دیکھا ہے آج میں نے بڑے انہماک سے
بیدار ہو رہے تھے مرے سامنے درخت
…
؎یہ کیسی عارفانہ موت آئی
زمیں چادر چڑھانے آ گئی ہے
…
؎مرے تعاقب میں نامرادی کا جن لگا ہے
ہزار سالوں سے گھر پڑا ہوں ، بہت بُرا ہوں
…
؎درخت میرے خلاف کچھ بھی نہیں سنیں گے
میں گرچہ مدّت سے بَک رہا ہوں ، بہت بُرا ہوں
…
؎میں اس سے پہلے کہ خودکشی کو حیات بخشوں
مری محبت سے جاں چھڑاؤ، نئے خداؤ!
…
توقیرؔ عباس، لاہور
29 اکتوبر2014ء
نئے خطوں کی کھوج ۔۔
افتخار فلکؔ عصرِ حاضر کے ان نوجوان شعراء میں شامل ہیں جو کلیشے مضامین کے علاقوں سے نکل کر نئے خطوں کی کھوج میں ہیں۔ تازگی کی تلاش کرتے یہ تازہ دم دستے صرف لسانی لیفٹ رائٹ پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اپنے دائیں بائیں سے نئے مضامین اٹھاتے اور انہیں اپنے انداز سے شعر کے قالب میں ڈھالتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ بھی بعید نہیں ہوتا کہ رہوارِ سخن بنجر علاقوں میں جا نکلے اور میٹھے رسیلے پھلوں کی جگہ کنکر پتھر ہاتھ لگیں۔ افتخار فلکؔ کو یقیناً اس اَمر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ غزل کی ہزار مذمتوں کے باوجود نہ اس کے قبولِ عام میں کوئی کمی آئی ہے نہ کشش میں ، بلکہ اس کا قبولِ عام ہی اس کی کشش کا باعث ہے۔ افتخار فلکؔ نئے پن کی تلاش میں اگر دور افکار بعید از قیاس مضامین سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے تو ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے ان سے وسیع تر امکانات کی توقع کی جا سکتی ہے۔
افتخار فلکؔ کی شعری وجاہت ان کی استقامت اور ریاضت پر منحصر ہے۔ مطالعہ کے رفیع الشّان آفاق، اپنا فرومایہ شعر رَد کرنے کی ہمّتِ عالی اور تلازمات کا دائرہ مکمل کرنے کی مشقّت ، وہ اوصافِ چُنیدہ ہیں جن سے روشنی کشید کر کے افتخار فلکؔ غزل میں اپنی منفرد اور الگ کہکشاں ترتیب دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
کیوں کہ سفر کی ابتدا میں ہی ان کے پاس ایسے جھلملاتے ستارے موجود ہیں۔
؎اگر کَہیں تو تماش بینوں میں بانٹ دیں ہم
ہمارے کشکول میں پڑی ہے دوائے حیرت
؎سرسبز ہو رہے تھے مرے سامنے درخت
پلکیں بھگو رہے تھے مرے سامنے درخت
حمیدہ ؔ شاہین، لاہور
31 اگست2014 ء
افتخار فلکؔ۔ ایک سخت کوش شاعر
کائنات کے سب سے بڑے عالم نے کہا تھا ’’دنیا کی ہر چیز کا سننا اس کے دیکھنے سے بڑھ کر ہے‘‘ اور اس بات کا احساس مجھے اپنے اور برادر افتخار فلکؔ کے تعلق میں بڑی شدت سے ہوا۔ میں نے ابھی تک فلکؔ کو نہیں دیکھا مگر میں نے انہیں پڑھنے کی طرح پڑھا اور سننے کی طرح سنا ہے۔ میرے لئے تو افتخار فلکؔ کاظمی اپنے لفظوں کے جیسے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو کیا انسان اپنے لفظوں کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ کیا انسان اپنی معرفت کی منزل پر اپنے لفظوں کے جُز کوئی اور معیار رکھتا ہے ؟
بابِ علم کے پاس آ کر ایک شخص نے اپنے نام و نسب کے ذریعہ سے اپنا تعارف کروانے کا ارادہ کیا تو بابِ علم نے فرمایا’’ ارے کلام کرو تا کہ پہچانے جاؤ‘‘۔ پس میں نے فلک ؔ کو ان کے لفظوں کے ذریعے پہچانا اور لفظ کہتے ہیں کہ موصوف رعایتوں اور عام روایتوں سے بے زار ایک سخت کوش قسم کے شاعر ہیں۔ یہ شعر و قوافی کی کوئی نئی دنیا دریافت نہیں بلکہ ایجاد کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی غزل کسی معرکے سے کم نہیں۔ جب بھی غزل کہتے ہیں ایسا لگتا ہے کوئی مہم سر کی ہو …… ایک اور بات جو ہے وہ یہ کہ یہ اکثر کسی نئے تجربے کی فکر میں ہوتے ہیں اور زیادہ تر اپنے تجربات کی بنیاد پر ہی شعر کہتے ہیں۔ شعر و سخن کے لئے ان کا انتخاب کردہ راستہ گو کہ دشوار ہے بلکہ دشوار تر ہے۔ مگر مجھے ان کے عزم پر مکمل اعتماد ہے کہ اگر کہیں لڑکھڑا بھی گئے تو سنبھل جائیں گے اور سنبھل جانے کے بعد مزید وقار کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے یادگار نقوش چھوڑیں گے۔ ان کے آثار یعنی ان کے لفظ انہیں ظرفِ زمانہ سے بیگانہ کر دیں گے اور ہر آن ان کا ظہور ہوتا رہے گا۔ کیونکہ لفظ مسلسل سفر کرتے ہیں اور ان کے سفر کی نہایت خدائے لا نہایت ہی جانتا ہے۔
عادل ؔمختار، جمبر خورد
2 اکتوبر 2014 ء
ایک سب آگ، ایک سب پانی
دس سال قبل جب میں نے پہلا شعر کہا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرا یہ شغلِ بے کار و بے میل آنے والے دنوں میں میرا جنون بن جائے گا اور ایسا جنون جس کے لئے میں نہ صرف اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دوں گا بلکہ لفظوں سے اتنا گہرا تعلق قائم ہو جائے گا کہ اپنے مستقبل کو داؤ پر لگاتے ہوئے عَلمِ بغاوت لہراتے ہوئے اپنی زندگی کے تین چار قیمتی سال لاہور اور فیصل آباد کی فیکٹریوں اور کارخانوں کے نام کر دوں گا۔ جس کا لمحہ لمحہ مجھے اتنا سخت جان بنا دے گا کہ چار چار مہینوں تک گھر والوں کی یاد سے بالکل بے گانہ اپنے کام میں لگا رہوں گا۔۔۔۔ اور جب کبھی گھر والوں سے بات ہو گی تو انہیں اپنے کام کی سختی اور وہاں کے گھٹن زدہ ماحول سے مکمل طور پر نا آشنا رکھوں گا۔
میرے یہ دس سال جہاں ایک طرف میرے ادبی سفر کے لئے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں میرا زرِ اصل ہیں وہیں دوسری طرف زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں کا سفر نامہ بھی۔۔۔۔۔ اس عرصۂ حیات میں سینکڑوں خوبرو و بد نُما لوگوں سے سے ملنے اور ہمکلام ہونے کا موقع ملا۔ کئی خوبصورت دوست بنے ، کئی نازک ادا نظروں نے مست و بے کیف کیا، کئی شعراء کی سخن آرائی درونِ دل سرسبزی و شادابی کا باعث بنی، کئی دل موہ لینے والی آوازوں نے اپنا پرستار کیا۔
مگر روحانی طور پر میں بہت بے آرامی اور اکلاپے کا شکار رہا۔ یاد رہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کالونی مل (لاہور) میں زندگی کے حد درجہ مشکل دن گزار رہا تھا۔ پھر وہیں ایک پڑھے لکھے مخلص دوست کے توسط سے نفسیات ، فلسفہ، تصوف اور جنسیات کے حوالے سے کافی نایاب اور ضخیم کتب پڑھنے کا موقع میسّر آیا جو سَستی تفریح کے ساتھ ساتھ میرے لئے حقیقی طور پر ذہنی بیداری کا باعث بنا۔
اس مطالعہ نے شعوری و لاشعوری طور پر مجھے یکسر بدل کے رکھ دیا۔ پس یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ ’’علم سے آدمی کے دل کی وحشت اور دیوانگی دور ہوتی ہے‘‘۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! آج میں جو کچھ بھی ہوں اور جس مقام پر بھی ہوں اس میں میرے والدِ محترم مجاہد حسین شاہ کی سرپرستانہ ، مشفقانہ شخصیت و تربیت ، میری پہلی چاہت (میری ماں ) کی بے انت، بے مول اور گنگناتی ، سرسراتی دعاؤں کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ میری بہنوں اور بھائیوں خاص طور پر عمار علی کاظمی اور ابوذر علی کاظمی کا حیرت انگیز حد تک ذوقِ شعر فہمی میرے لئے کسی خوبصورت تحفے سے کم نہیں۔۔۔۔۔
با ذوق لنگوٹیا یاروں میں صابر حسین، سید مہران شہزاد شاہ اور وسیم سجاد شاہ کی صحبتِ دلبرانہ بھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھول سکتا۔ بالخصوص وسیم ایسا رُومان پسند، روشن سواد، سُبک رُوح، سخن ور و سخن شناس دوست کا میرے حلقۂ احباب میں موجود ہونا میرے لئے فخر کی بات ہے۔ یقین مانیے سراپا محبت ہے وہ شخص۔ وسیم اور میں نے اکٹھے شعر کہنا شروع کیا اور صرف یہی نہیں بلکہ شہرِ محسن ڈیرہ غازیخان (جسے میں شہرِ بے وفا کہتا ہوں ) میں گریجوایشن کے دوران ہم دونوں کا ایک ساتھ گزرا وقت کسی الف لیلہ کی کہانیوں سے کم دلچسپ نہیں۔ وہ دن جتنے رنگین اور بے تکلّفانہ ہیں اس سے کہیں زیادہ اندوہناک بھی۔۔۔۔۔ مگر یہ کہانی پھر سہی!!!
قاضی راشدؔ محمود نہ صرف میرے محسن ہیں بلکہ ایسے دوستوں میں سے ہیں جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ سوچتا ہوں اگر ان ایسا ہمہ دان، یارِ مہربان، جی دار اور دلربا شخص میرے حلقۂ احباب میں نہ ہوتا تو شاید میرا کلام یوں کتابی شکل میں آپ تک کبھی نہ پہنچ پاتا۔ ان کی محبتوں کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔
ہم عصروں اور ادبی دوستوں میں نعیم رضا ؔبھٹی واحد ایسا مخلص ، دیرینہ اور بے تکلّف دوست ہے جس پر مجھے بہت مان ہے۔ میں جتنا اس کے قریب ہوں وہ اس سے کہیں زیادہ میرے قریب ہے۔ میں خود اپنے بارے میں اتنا نہیں جانتا اور سوچتا جتنا وہ میرے متعلق جانتا اور سوچتا ہے۔ بھٹی محبتی آدمی ہے ، یاروں کا یار ہے اوراس حوالے سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ہر مشکل موقع پر نہ صرف میرا ساتھ دیا بلکہ میری رہنمائی بھی کی۔ کتاب کے حوالے سے جتنے مفید مشورے مجھے بھٹی نے دیے اتنے تو شاید میری کتاب میں اشعار بھی نہیں۔ دیرینہ وضع داری اور بے تکلّفانہ تعلق داری کے باوجود میں اس کی برادرانہ شفقتوں اور دوستانہ محبتوں پر اس کا بے حد ممنون ہوں۔ خدائے حسن و محبت اس کے ظاہری اور باطنی حسن میں مزید اضافہ فرمائے۔۔۔۔۔
تہمینہ سیّد (لاہور )، ماہ نور ؔخانزادہ، نگہت ؔعائشہ ، اسحاق محسن ؔ(کراچی )، ظفر اقبال، جاوید اقبال، چُٹکی، نشاط ؔ اور ثاقب کا شکرگزار ہوں جن کی محبتیں ہمیشہ میرے ہم قدم رہیں اور مجھے کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیا۔
اپنے سینئرز میں جناب قاسم رازؔ ، کاشفؔ مجید اور دامن ؔ انصاری کا بے حد ممنون ہوں جن کی حوصلہ افزائی نے نہ صرف میرے کلام کو اعتبار کی سَند عطا کی بلکہ گاہے بہ گاہے ان صاحبانِ علم کی رہنمائی نے کلام میں زبان و بیان کے حوالے سے موجود اسقام کی نشاندہی کر کے مجھ کم علم پر احسانِ عظیم کیا جس کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔
جہاں تک کتاب کے نام اور کلام کا معاملہ ہے اسے سراسر میری اذیت و انفرادیت پسندی سمجھا جائے ، رہا اشعار کے حوالے سے آپ کی پسند و ناپسند کا معاملہ تو بقول محسنؔ نقوی شہید ’’خدا کرے آپ کو اس کے اشعار پسند آ جائیں اور اگر کوئی شعر آپ کے معیار پر پورا نہ اُترے تو بھی میں معذرت خواہی کا عادی نہیں کیونکہ مجھے شعر کہنے اور آپ کو اپنی رائے دینے کا مکمل حق پہنچتا ہے‘‘۔
افتخار فلکؔ کاظمی
0347-4490992
ہفتہ، 8 نومبر 2014 ء
مرا تصوّف، مرا عقیدہ، تری محبت
سخی! محبت زدہ عقیدہ تری محبت
نمازِ مغرب قضا ہوئی تو ضمیر بولا!
کہ ہائے غافل! ترا عقیدہ، تری محبت
مری عقیدت سبھی عقیدوں سے ایک جیسی
مگر ہے سب سے جُدا عقیدہ تری محبت
تری قسم دے کے کہہ رہا ہوں مرے لئے تو
فنا صدی کا بقا عقیدہ، تری محبت
تری عطا پہ میں خوش ہوں میرے کریم مولا!
ہے لَا اِلٰہ جَڑا عقیدہ تری محبت
ذلیل دنیا نے ساتھ چھوڑا تو کام آئے
قَدم، قَدم پر ترا عقیدہ تری محبت
٭٭٭
خدائے مہرباں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
جہاں ، جہاں ، جہاں کھُلا، صراطِ مُستقیم سے
میں چل پڑا تو حد ہوئی، ہر اک جگہ مدد ہوئی
قدیم آسماں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
نظر کی پیش گوئیاں ہیں آج بھی عُروج پر
عُروج، جاں بہ جاں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
ترا حُصول انتہائے معرفت ہے یا خدا!
فرازِ کُن فکاں کھُلا، صراطِ مُستقیم سے
بسر کیا گیا یہاں حیاتِ بے ثبات کو
ثبات بعد ازاں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
بُتوں کو چھوڑنا پڑا، مجھے یہ کھولنا پڑا
خدائے دِلبراں کھُلا صراطِ مُستقیم سے
٭٭٭
مُحسنِ دو جہاں آپؐ کی ذات ہے
ہادیِ قلب و جاں آپؐ کی ذات ہے
میں تو کچھ بھی نہیں یا نبیؐ! یا نبیؐ!
مجھ پہ دستِ اَماں آپؐ کی ذات ہے
کاٹ کھاتا مجھے تِیرگی کا چلن
شُکر ہے ضو فشاں آپؐ کی ذات ہے
مجھ سے بیمار کی وجہِ آسودگی
اور کوئی کہاں ، آپؐ کی ذات ہے
شاہِ طیبہ تجھے کیا لکھوں ، کیا کہوں ؟
میرے فن کی زباں ، آپؐ کی ذات ہے!
٭٭٭
ظاہر مقامِ داد ہے سر کو جھُکائیے
ہر داد با مُراد ہے سر کو جھُکائیے
مقبولِ عام ہوں گے سبھی سانحے مگر
یہ کربلا کی یاد ہے، سر کو جھُکائیے
چودہ سَو سال بعد بھی زندہ ہے اُس کا نام
شبّیرؑ زندہ باد ہے سر کو جھُکائیے
گویا کہ مست اَلست ہے دل لَا اِلٰہ میں
ہاں ! ہاں ! یہی جہاد ہے، سر کو جھُکائیے
اکبرؑ بھی اور قاسمؑ و غازیؑ بھی چل بسے
آشوبِ غم سواد ہے سر کو جھُکائیے
اک عالمِ مُراد ہے جس کے طواف میں
اصغرؑ نصیب زاد ہے سر کو جھُکائیے
٭٭٭
نادِ علی ؑ
مدارِ نارسائی سے اُٹھا کر خاک کر ڈالو
چلو ایسا کرو، اے ساکنانِ شب
مری ششدر ہتھیلی سے
مہکتی یاد کے کنکر
بہکتی سوچ کے سجدے
ٹہلتی رات کا خُطبہ
سسکتے عجز کا نوحہ
لپکتے ضعف کی شہوت
دھمکتے وجد کی وَحشت
کسی مثبت عقیدے کی نشانی دے کے لے جاؤ
مگر میری شرائط کی اطاعت، تم پہ لازم ہے
کہ اوّل تو…………
تمہیں وقتِ وداع نادِ علی ؑ کا وِرد کرنا ہے
پھر اُس کے بعد جب چاہو …… جہاں چاہو
مری گروی پڑی سانسیں ، سحر ہونے سے پہلے ہی
خدائی راز داروں میں
’’برابر بانٹ دینا تم‘‘
٭٭٭
روا روی میں اُٹھ گیا مرا قلم، برادرم
کروں گا داستاں کوئی نئی رقم، برادرم
جُلوسِ دلبراں چلا زمین کانپنے لگی
شعورِ عشق نے کہا اُٹھا عَلم، برادرم
خدا کرے زمین پر زمین زاد خوش رہیں
خدا کرے، خدا کا ہو نیا جنم، برادرم
بُرے ہیں ، بے ضمیر ہیں یہی کہا ناں ! آپ نے
تو پھر اُٹھیں کریں ہمارا سر قلم، برادرم
گلہ ضرور کیجئے مگر خفا نہ جائیے
ہماری بات تو سنیں برادرم، برادرم!!
٭٭٭
بساطِ خورشیدِ جاں سے آگے اُتار مجھ کو
کہ دشتِ سود و زیاں سے آگے اُتار مجھ کو
پڑاؤ میرا یہیں کہیں ہے میں جانتا ہوں
کہ بے نشاں کے نشاں سے آگے اُتار مجھ کو
کسے خبر ہے کہاں کہاں سے یہ چھیل ڈالے
بدن کے کوہِ گراں سے آگے اُتار مجھ کو
میں ارتقا کی اک ایک حد کو پھلانگ جاؤں
کبھی تو اس کہکشاں سے آگے اُتار مجھ کو
عجب نہیں ہے کہ عشق کی موت مارا جاؤں
تُو کوچۂ مہ وشاں سے آگے اُتار مجھ کو
میں دوستوں کی عنایتوں سے ڈرا ہوا ہوں
فلکؔ صفِ دشمناں سے آگے اُتار مجھ کو
٭٭٭
مُنہ دِکھائی میں آنکھیں بھی دے دوں اگر
حُسن کا قرض پھر بھی اُترنا نہیں
اَسرار و آثار ٹھکانے لگتے ہیں
جب گونگے اشجار ٹھکانے لگتے ہیں
دیواروں کو خواب سنانے والے لوگ
آنکھوں کے اُس پار ٹھکانے لگتے ہیں
آزادی آسان کہاں ہے، پہلے تو
لاشوں کے انبار ٹھکانے لگتے ہیں
ہائے محبت! تیری خاطر جیتے جی
کیسے کیسے یار ٹھکانے لگتے ہیں
لوگ تامّل میں مر جاتے ہیں لیکن
ہم ایسے بے کار ٹھکانے لگتے ہیں
٭٭٭
خالی گھر کا خالی کمرا
گونگا، بہرا خالی کمرا
زندانوں سے بھی بد تر ہے
تیرا، میرا خالی کمرا
ایک عزیز بچا ہے میرا
وہ بھی تنہا، خالی کمرا
تیری یاد نے چُوما مجھ کو
جب بھی کھولا خالی کمرا
تم کو اکثر یاد آئے گا
باتیں کرتا خالی کمرا
مجھ سے لپٹا رویا گھنٹوں
آہیں بھرتا خالی کمرا
دونوں اک جیسے لگتے ہیں
میں اور میرا خالی کمرا
یار فلکؔ! اک بات کہوں مَیں
خوب ہے تیرا خالی کمرا
٭٭٭
سانحہ پیشِ نظر ہے دیکھئے!
شہر سارا دربدر ہے دیکھئے!
بات میری مانیے، ضد چھوڑیے!
عشق کارِ معتبر ہے دیکھئے!
میں زکوٰۃِ عمر دینے چل پڑا
کون میرا ہمسفر ہے دیکھئے!
ساتھ ہے تیری محبت جانِ مَن
کس قَدر ہے، کس قَدر ہے دیکھئے!
قتل کرنے کا سلیقہ سیکھ لیں
یہ گُلو ہے، یہ تَبر ہے دیکھئے!
پہلے درویشی کو چھوڑا، خیر سے
اب محبت داؤ پر ہے دیکھئے!
جایئے صحرا میں ہو کے مطمئن
قیس بھی جانِ جگر ہے دیکھئے!
تخلیہ در تخلیہ در تخلیہ
کچھ اِدھر ہے کچھ اُدھر ہے دیکھئے!
٭٭٭
اِستخارہ کیجئے راستے شکاریے
دشت، دشت گھومیے آبلے شکاریے
دل پہ حکمرانی کا ایک ہی طریقہ ہے
مسکرا کے ماریے، مار کے شکاریے
روک ٹوک ہوتی ہے، روک ٹوک چھوڑیے
ہونٹ کاٹ کھایئے، ذائقے شکاریے
احترام کاہے کا، احتیاط کس لئے؟
خود غرض خداؤں کو ہانکیے، شکاریے
جانے کتنے سال سے منتظر ہوں با خدا
ہاتھ پاؤں باندھیے، آیئے شکاریے!
کوئی فائدہ نہیں حجتی لڑائی کا
بحث کو سمیٹیے! فاصلے شکاریے
٭٭٭
صَدائے خُدائے اَزل سُن رہا ہوں
مَیں ناصر علی سے غزل سُن رہا ہوں (۱)
(۱) جدید لہجے کے عمدہ شاعر برادرم ناصر ؔ علی،لاہور
وقفِ رنج و ملال مت کریو
دل ابھی پائمال مت کریو
زخم دامن سمیٹ لیتے ہیں
دیکھیو! تم دھمال مت کریو
کریو دشمن کو لاجواب تو یوں
اُس سے کوئی سُوال مت کریو
میں ابھی بزدلوں میں بیٹھا ہوں
میرا گِریہ بحال مت کریو
دھیرے دھیرے ہی چھوڑیو ہم کو
ایک دَم انتقال مت کریو
٭٭٭
اَدب سکھاتا ہے بے حیائی سُنی سُنائی
یہ آگ کس نے یہاں لگائی سُنی سُنائی؟
ہَرا نہ ہونے کا دکھ ہے مجھ کو حریص دنیا
اسی کو کہتے ہیں جگ ہنسائی سُنی سُنائی
وہ موت سے، مستقل مزاجی سے لڑ رہے ہیں
پسند جس جس کو مات آئی سُنی سُنائی
ہمیں رویّوں کی مار مارا گیا ہے ورنہ
کہاں یہ ہم نے شکست کھائی سُنی سُنائی
فراقِ دیدہ سمجھ کے مجھ سے ملا کرو تم
مری محبت ہے ابتدائی سُنی سُنائی
٭٭٭
تُجھے رونا پڑے گا ہر خوشی پر
تری آنکھوں کا پانی مَر گیا ہے
سرسبز ہو رہے تھے مرے سامنے درخت
پلکیں بھگو رہے تھے مرے سامنے درخت
گلشن بہار و بخت سے مہکا دیا گیا
جب ہوش کھو رہے تھے مرے سامنے درخت
دیکھا ہے میں نے آج بڑے انہماک سے
بیدار ہو رہے تھے مرے سامنے درخت
اس خوابِ دل گداز کی تعبیر تو بتا
کل شام رو رہے تھے مرے سامنے درخت
پنچھی تمام رات مجھے گھورتے رہے
جنگل میں سو رہے تھے مرے سامنے درخت
٭٭٭
دل کے نگار خانہ سے باہر رکھا ہوا
اچّھا نہیں ہے خواب کا منظر رکھا ہوا
بے رنگ ہو کے گر پڑا فوراً چراغِ حُسن
تھا میں نے عشق ہاتھ کے اوپر رکھا ہوا
خطرہ ہے جم نہ جائے کہیں ضبط کا غبار
ہے دل کو ہم نے اس لئے اندر رکھا ہوا
کب ہو گئے فگار مرے ہاتھ کیا خبر
پہلو میں اس نے تھا کہیں خنجر رکھا ہوا
اس احتیاط سے تمہیں چاہا کہ اے فلکؔ!
اب تک زباں پہ چپ کا ہے پتھّر رکھا ہوا
٭٭٭
بزرگوں سے یہی اک بات سُنتا آ رہا ہوں مَیں
جہاں دستار گِر جائے وہاں سَر بھی نہیں بچتے
نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا
یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا
مرے وسیلے سے جتنے بھی پیڑ روئے ہیں
انہیں میں ہِیر سناتے ہوئے نہیں ڈرتا
حضور! آپ ہی روکیں کہ میں تو پاگل ہوں
کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے نہیں ڈرتا
ہزار بار بتایا کہ بد شگونی ہے______ !
مگر وہ ہونٹ چباتے ہوئے نہیں ڈرتا
میں پیٹ کاٹ کے زندہ ہوں اور ڈرتا ہوں
تُو فن کو بیچ کے کھاتے ہوئے نہیں ڈرتا؟
عجیب شوقِ طبیعت ہے افتخار فلکؔ
کوئی بھی آنکھ لَڑاتے ہوئے نہیں ڈرتا
٭٭٭
اک خدا مر گیا دوسرا بچ گیا
میرا مطلب ہے تیرا خدا بچ گیا
سات رنگوں سے بنتا رہا یہ جہاں
رنگ آخر میں صرف اک ہرا بچ گیا
بچ بچاؤ میں کچھ بھی نہیں بچ سکا
کارواں لُٹ گیا رہنما بچ گیا
میں مصیبت میں تھا دوستو! دشمنو!
نام مُرشد کا جونہی لیا، بچ گیا
میری تدفین میں دیر مت کیجیؤ!
میرے پیچھے مرا نقشِ پا بچ گیا
معجزہ یہ نہیں جان بخشی ہوئی
سچ تو یہ ہے ترا آسرا بچ گیا
٭٭٭
مَیں ترے ہونٹ چُوم لیتا ہوں
جب مجھے ذائقہ بدلنا ہو
پکڑ کر ہاتھ تیرا ناچتا ہوں
میں اک پاؤں پہ پورا ناچتا ہوں
خدائے حُسن کو چھونے سے پہلے
میں کمرے میں اکیلا ناچتا ہوں
فرشتے آسماں سے جھانکتے ہیں
میں رنج و غم میں ایسا ناچتا ہوں
خدا جانے میں کتنا تھک چکا ہوں
خدا جانے میں کیسا ناچتا ہوں ؟
مرا بھی ذکر محفل میں ہوا تھا
سنا ہے میں بھی اچّھا ناچتا ہوں !!
٭٭٭
شجر پہ بیٹھے ہوئے پرندے اُڑا رہی ہے
ہوا درختوں کو ناچ گانا سِکھا رہی ہے
بڑے بزرگوں سے سُن رکھا ہے زمین زادی
مسافرانِ عدم کی حیرت بڑھا رہی ہے
ہماری قبروں پہ رونے والا کوئی نہیں ہے
ہماری قبروں کو دھوپ تکیہ بنا رہی ہے
مری قیادت میں اُڑنے والی اک ایک تتلی
مری اجازت سے باغباں کو ستا رہی ہے
سَفید جوڑے میں سج سنور کر وہ شاہزادی
خدائے حُسن و جمال کا دل لُبھا رہی ہے
زمیں خموشی سے چل رہی ہے فلکؔ اُٹھائے
مگر یہ ہجرت قَدم قَدم پر رُلا رہی ہے
٭٭٭
پیڑوں کو آوازے کَسنا آتا ہے
باقی سارا کام پرندے کرتے ہیں
لگے ہاتھوں خدائی استعارہ ہاتھ لگ جائے
فرازِ آدمیّت کا ستارا ہاتھ لگ جائے
کئی عشّاق پیڑوں کی طبیعت صاف ہو جائے
پرندوں کے پَروں کو گر ہمارا ہاتھ لگ جائے
مجھے کوزہ گری کا فن ودیعت ہو رہا ہو جب
دعا کیجے اُسی لمحے یہ گارا ہاتھ لگ جائے
غزل سے نعت کی جانب مَسافت کا وسیلہ ہو
وِلائے پنجتن کا گر سہارا ہاتھ لگ جائے
میں اک دم شاد ہو جاؤں نویدِ زندگی پاؤں
مجھے قسمت سے گر جاناں تمہارا ہاتھ لگ جائے
فلکؔ محجور ہونے تک حریمِ ناز کا نقشہ
مرے ہر اک حواری کے دوبارہ ہاتھ لگ جائے
٭٭٭
عزّتیں دور دَھرو، جام بھرو!
اے مرے چارہ گرو! جام بھرو!
بَرسرِ عام کہیں ، خاک نشیں
عشق کی موت مَرو، جام بھرو!
ہوش بے ہوش رکھو، خوب پیو!
بے خودی عام کرو، جام بھرو!
جام میں جام مِلے، عام مِلے
بس یہی کام کرو! جام بھرو!
آج تو ایسا کرو، محتسبو!
جام پہ جام بھرو، جام بھرو!
٭٭٭
رات کافی دیر تک روتا رہا
اور آخر کار مَیں بھی مَر گیا
وُجودِ خاک اُٹھاؤ دھمال کرتے چلو
کسی کے ہاتھ نہ آؤ دھمال کرتے چلو
زمیں کا قرض چُکاؤ، دھمال کرتے چلو
بَقا کا جشن مَناؤ دھمال کرتے چلو
پرندے شور کریں گے دھمال ڈالیں گے
خلا میں پیڑ اُگاؤ دھمال کرتے چلو
متاعِ ہجر ضروری ہے بانکپن کے لئے
چراغِ وصل بُجھاؤ دھمال کرتے چلو
میں بن چُکا ہوں مکمل مگر ادھورا ہوں
گھُماؤ چاک، گھُماؤ دھمال کرتے چلو
یہ بارگاہِ محبت سے ہو کے آئے ہیں
اِنہیں دھمال سِکھاؤ دھمال کرتے چلو
کسی کے پاؤں میں آئے تو ظلم ڈھائیں گے
زمیں سے اشک اُٹھاؤ، دھمال کرتے چلو
٭٭٭
مجنوں بہشت چھوڑ کے آئے گا جشن میں
دشتِ بزرگوار سجانے کی دیر ہے
دل نئے رنج اُٹھانے سے گیا، پھر تو گیا
حالتِ زار سُنانے سے گیا، پھر تو گیا
روک لو! روک لو مجھ کو کہ ابھی ہوش میں ہوں
میں گر اِس بار بہانے سے گیا، پھر تو گیا
عشق مفرور پرندہ ہے اِسے باندھ کے رکھ
پیڑ کے شور مچانے سے گیا، پھر تو گیا
مسئلہ دشت نَوردی کا ابھی چھیڑیں گے
قیس لیلیٰ کو بُلانے سے گیا، پھر تو گیا
ہاں میں کافر ہوں محبت کا طرفدار ہوں مَیں
تُو بھی یہ ظرف دِکھانے سے گیا’ پھر تو گیا
میں ترے پاؤں پڑوں ، ہاتھ چھوؤں ، سینے لگوں
تِیر اگر اب کے نشانے سے گیا، پھر تو گیا
دشمنِ جان اگر طیش میں آ کے بھی فلکؔ
اب ترا خون بہانے سے گیا، پھر تو گیا
٭٭٭
عشق رنگ و نور کا مینار ہے
اور عقل و آگہی پہ بار ہے
وصل تکمیلِ فغاں ہے دوستاں !
ہجر رقصِ نیزہ و تلوار ہے
آنکھ پردوں میں چھُپا قاتل کوئی
دل حریصِ خواب گاہِ یار ہے
شور کا شَر کَھولتا گہرا کنواں
چپ دعائے بخت کا اظہار ہے
رات تہذیبِ نظر کی کافری
دن کہیں لیٹا ہوا بیمار ہے
جسم کاغذ پر لکھا حرفِ غَلط
رُوح کوئی خارجی کردار ہے
زندگی سرسبز پیڑوں کی دھمال
موت سورج کے گلے کا ہار ہے
جیت جشنِ دلفریبی ہے فلکؔ!
ہار تو بس ہار، ہاں بس ہار ہے
٭٭٭
زمیں پہ حبسِ عظیم اُگنے سے پیش تر بھی
ہوا کے ہاتھوں میں سبز پیڑوں کی گردنیں تھیں
دَم بہ دَم دل لگی، دَم بہ دَم معذرت
ہم سے ہو گا نہیں یہ سِتم، معذرت
رقص فرما ہیں یاں شیخ بھی، رِند بھی
اے خدا! اے خدا! محترم، معذرت
ہاتھ باندھے ہوئے تھے اَنا نے اگر
کیسے لکھتا مرا پھر قَلم معذرت!
سر پِھرے عشق سے سامنا ہے مرا
زندگی تجھ سے اب ہر قَدم معذرت
صاحبا! دِلبرا! اک نظر اس طرف
اب نہ ہو گی مری آنکھ نَم، معذرت!
چال کوئی بھی جب کارگر نہ ہوئی
یاد آئی مجھے ایک دَم معذرت
شب بخیر آج کوئی نہ بولے مجھے
آج کی رات ہے پُر اَلم، معذرت
سب مَداری ہیں کوئی معزز نہیں
حاکم و اہلِ دیں یک قلم معذرت!
٭٭٭
٭ ڈاکٹر افتخار مغل ( مرحوم )کی نذر
روکنا، چھیڑنا، کھینچنا، چُومنا
کیا غضب ہیں محبت کے ظلم و سِتم
مَیں خود پسندی میں مبتلا ہوں ، بہت بُرا ہوں
سکوتِ شب کو کھٹک رہا ہوں ، بہت بُرا ہوں
مرے تعاقب میں نامُرادی کا جِن لگا ہے
ہزار سالوں سے گھر پڑا ہوں ، بہت بُرا ہوں
کئی حَسینوں نے معذرت کے خطوط بھیجے
مگر مَیں پھر بھی لگا ہوا ہوں ، بہت بُرا ہوں
نَمک حرامی کروں گا دنیا کو چھوڑ دوں گا
تری محبت پہ تھوکتا ہوں ، بہت بُرا ہوں
تمام حُوریں مری محبت سے باز آئیں
میں جنّتی ہوں مگر بُرا ہوں ، بہت بُرا ہوں
درخت میرے خلاف کچھ بھی نہیں سُنیں گے
مَیں گرچہ مُدّت سے بَک رہا ہوں ، بہت بُرا ہوں
مرے حواری! مری محبت کو عام کریو
میں ربِّ غربت پہ مر مِٹا ہوں ، بہت بُرا ہوں
فلکؔ نے رستہ دکھا دیا تو چلے چلیں گے
اِسی بہانے تو لا پتا ہوں ، بہت بُرا ہوں
٭٭٭
جھپٹ کر آسمانوں سے قضائیں نوچ کھاتی ہیں
شِکستہ دل دُعاؤں کو، دُعائیں نوچ کھاتی ہیں
نہیں یہ دل نہیں میرا کوئی بے کار سی شے ہے
جسے ہر شوخ چنچل کی ادائیں نوچ کھاتی ہیں
یہ کس نے کر دیے تعویذ پھر اس بِن بیاہی پر
کہ اکثر اِس محبت کو جفائیں نوچ کھاتی ہیں
مرے بس میں نہیں ورنہ اُنہیں مَیں قتل کر ڈالوں
کہ جن بے دَم چراغوں کو ہوائیں نوچ کھاتی ہیں
مجھے معلوم ہے کیونکر خموشی مات کھاتی ہے
کہ چُپ جب حَد سے بڑھ جائے صدائیں نوچ کھاتی ہیں
مری امّاں یہ کہتی ہیں زمیں کو چھوڑ جائیں جو
فلکؔ پر اُن پرندوں کو ہوائیں نوچ کھاتی ہیں
٭٭٭
مجھے شیشہ دِکھایا جا رہا ہے
مرے قد کو گھٹایا جا رہا ہے
مرا ویران مَے خانہ گِرا کر
مجھے مسجد میں لایا جا رہا ہے
مَیں باغی ہو گیا ہوں اس لئے بھی
مجھے پارا پِلایا جا رہا ہے
نجانے کس خوشی میں شہر کے سب
ملنگوں کو نَچایا جا رہا ہے
بتا اے جوتشی! کس کس حسیں کو
مرے پیچھے لگایا جا رہا ہے
یہ کیسا فائدہ ہے جس کی خاطر
ہمیں خود سے لڑایا جا رہا ہے
چراغاں کا بہانہ کر کے یارو!
مرے گھر کو جلایا جا رہا ہے
٭٭٭
ہاں مگر کام ہوتا رہا دیر تک
ہاتھ روکے تو محنت تھکن بَن گئی
شبیہِ حُجرۂ وَحشت بنا کے لایا تھا
پھر اُس کے بعد پرندے نے گھر بنایا تھا
لہو کا رنگ یقینا سَفید ہے بھائی!
کہ اُس ذلیل نے ماں پر بھی ہاتھ اُٹھایا تھا
ہَوا سے باندھ کے بَن میں گھسیٹ لایا ہوں
مرے چِراغ نے تیرا مذاق اُڑایا تھا
مَیں سینہ تان کے نکلا تھا جانبِ مقتل
کئی ہزار دعاؤں کا مجھ پہ سایا تھا
یہاں پہ رقص کا مطلب ہے زندگی پیارے!
کہ اس جگہ مرے مُرشد نے سر جھُکایا تھا
مرے پڑوس میں رہتی ہے وہ پری پیکر
سُنا ہے جس نے محبت میں زہر کھایا تھا
حیا فروش محلّے کی عورتوں نے مجھے
تمہارے نام سے چھیڑا تھا، ورغلایا تھا
مجھے تو آج بھی لگتا ہے مَیں پرندہ ہوں
کہ مجھ پہ بانجھ درختوں نے حق جتایا تھا
٭٭٭
مَیں بھُول جاؤں نہ رکھ رکھاؤ، نئے خداؤ!
مرے رقیبوں کو ڈھونڈ لاؤ، نئے خداؤ!
مری حماقت پہ قہقہے کیوں لگا رہے ہو؟
قفس ہے اپنا نیا پڑاؤ، نئے خداؤ!
مَیں کُوفیوں کی طرح نہیں ہوں کہ چھوڑ جاؤں
مری محبت ہے سبز ہے ناؤ، نئے خداؤ!
غریبِ شہرِ اَجل کی خاطر نئے سُروں میں
بھَجن پُرانا کوئی سُناؤ، نئے خداؤ!
خدا پرستوں کو بیچنے میں بَقا ہے سب کی
ہمیں بھی بیچو، شَرَف کماؤ، نئے خداؤ!
نئے خداؤں کا انتخاب آج ہو رہا ہے
بتاؤ کیسے کریں چُناؤ، نئے خداؤ!
مَیں اِس سے پہلے کہ خودکشی کو حیات بخشوں
مری محبت سے جاں چھُڑاؤ، نئے خداؤ!
٭٭٭
کافروں اور باغیوں میں آ گیا
ذکر میرا شاعروں میں آ گیا
روکتے ہیں یار مجھ کو عشق سے
مَیں یہ کیسے پاگلوں میں آ گیا؟
زخم کھاتا، خاک اُڑاتا ایک دن
مَیں بھی تیرے عاشقوں میں آ گیا
تُو نے میری سَمت دیکھا اور پھر
نام تیرا قاتلوں میں آ گیا
یار! مجنوں کو اچانک کیا ہوا؟
چائے پینے کالجوں میں آ گیا!!
امن کا اجلاس جاری تھا ابھی
خوف اُڑ کر کِھڑکیوں میں آ گیا
٭٭٭
فضائے جان و دل بہتر ہوئی ہے
مرے کمرے میں گہری خامشی ہے
بہت سادہ، بہت معصوم ہے وہ
اُسے میری محبت جانتی ہے
مرے پاؤں ہری شاخوں سے باندھو
مری آنکھوں نے دنیا دیکھ لی ہے
چراغوں کی صفیں سیدھی کراؤ
اندھیری شب ابھی سو کر اُٹھی ہے
کسی طوفان کی آمد ہے پیارے
مجھے میری چَھٹی حِس کہہ رہی ہے
قَد و قَامت قیامت ہے سُنا ہے
مجھے مِلنے کی جلدی ہو رہی ہے
خدا، عورت، کتابیں ، گھر، پرندے
مری پانچوں سے گہری دوستی ہے
٭٭٭
وقت کی مُردہ مثالیں دے رہے تھے آدمی
اور مَیں جھُوٹی دلیلیں بَک رہا تھا جوش میں
ہَرے پیڑوں کو ڈھانے آ گئی ہے
ہَوا، آنکھیں دِکھانے آ گئی ہے
یہ کیسی عارفانہ موت آئی
زمیں چادر چَڑھانے آ گئی ہے
پرندے، بَن سنور کر جا رہے ہیں
یہ دنیا کس دہانے آ گئی ہے
نمازِ حق ادا کرتے ہیں ، آؤ!
اذاں ہم کو بُلانے آ گئی ہے
محبت اِستخارہ کر چُکی جب
ہمیں کیوں آزمانے آ گئی ہے؟
جنابِ من! اُٹھیں اور اُٹھ کے دیکھیں
شبِ ہجراں رُلانے آ گئی ہے
رِدائے میرؔ اُوڑھے سو گئے کیا؟
غزل تم کو جگانے آ گئی ہے
٭٭٭
اے زمانے بتا، کیا ہوئی خودکشی
زہر کیسا لگا، ہو چکی خودکشی؟
سُرخروئی کے درجے کو پہنچی ہوئی
ہائے! ہائے! مری آخری خودکشی
ایک بھی کام دل سے نہیں ہو سکا
زندگی، شاعری، کافری، خودکشی
بھوک نے چاٹ لی وقفۂ شور میں
برتنوں میں سجائی گئی خودکشی
چار بچّوں کی ماں کیا کرے گی، جسے
کم سِنی میں ملی کاغذی خودکشی
سارہؔ، ثروتؔ، شکیبؔ اور میرے لئے
لا کوئی مدھ بھری مذہبی خودکشی
عشق نے جو کیا حال، مت پوچھیے
کر گئے ہوش میں شیخ جی خودکشی
روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں
روز کرتا ہوں مَیں داخلی خودکشی
پیڑ، پودے فلکؔ چیخنے لگ گئے
سب پرندوں نے جب سوچ لی خودکشی
٭٭٭
قیس کے نام کی تختیاں رہ گئیں
دشت میں عشق کی ہچکیاں رہ گئیں
سب دکانوں پہ وحشت کی تجویز پر
تِیر، چاقو، تَبر، برچھیاں رہ گئیں
مَیں میاں بخشؒ سے مل کے رویا بہت
میرے سینے میں کچھ کافیاں رہ گئیں
روزِ اوّل سے مَیں خُوبرو تھا، مجھے
مصر میں ڈھونڈتی لڑکیاں رہ گئیں
فَن قلندر بناتا رہا، مُرشدی!
عِلم کے ہاتھ میں ڈِگریاں رہ گئیں
خود پرستی کے متروک اَبواب میں
تیرے قصّے، مری مستیاں رہ گئیں
کوئی بھی وقت پر گھر نہیں جا سکا
سب دَھری کی دَھری تیزیاں رہ گئیں
منہ پہ چیچک کے دانوں کی بہتات تھی
گھر میں محفوظ یوں بیٹیاں رہ گئیں
٭٭٭
بیعتِ جام و سُبو کرنے لگے وہ لوگ بھی
کل جو فتوے دے رہے تھے منبر و محراب سے
مَیں درِ جاناں پہ پیہم سر نِگوں جاتا رہا
خدشۂ تحقیر بڑھتے ہی جُنوں جاتا رہا
کب، کہاں ، کیسے لڑائی میں مَرا وہ سُورما
راز کھُلتے ہی طبیعت کا فُسوں جاتا رہا
مَیں تحفّظ کی ضمانت کس طرح دیتا اُسے
وہ خلافِ حالِ دل شہرِ دروں جاتا رہا
نیند کے سب دَر کھُلے تھے اور مَیں جاگا کیا
یار اِس بے چارگی پر کیا کہوں ؟ جاتا رہا!
شاہزادی نے فَقط اک پھول مانگا اور مَیں
جسم سے باندھے ہوئے گُل گوں نا گوں جاتا رہا
امن کے تجویز کردہ اِنتہائی کُفر پر
مذہبی شدّت پسندوں کا سکوں جاتا رہا
٭٭٭
زندگی کا ذائقہ چکھتا رہا
مَیں اُسے بے فائدہ چکھتا رہا
اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھ کر
رات بھر مَیں تخلیہ چکھتا رہا
شعر کہنے کی ہوس میں دوستو!
مَیں ردیف و قافیہ چکھتا رہا
تیرے پاؤں کے نشاں رہبر بنے
کارواں یہ معجزہ چکھتا رہا
بال کھولے تُو سنورتی رہ گئی
تیری صورت آئنہ چکھتا رہا
ماں تمہاری یاد میں بوڑھی ہوئی
باپ پیہم عارضہ چکھتا رہا
قہقہوں کے شور میں اک مسخرہ
منہ چھُپائے حادثہ چکھتا رہا
٭٭٭
حضور! شُہرت کی آب کاری میں لگ گیا ہوں
کہ کارِ بے کار و بے قراری میں لگ گیا ہوں
مَیں نفسیاتی ضیافتوں کا شکار ہو کر
ترے تقرّب کی آبیاری میں لگ گیا ہوں
مُشاہداتی نجاستوں سے بچا اے مولا!
مَیں میرؔ صاحب کی جانکاری میں لگ گیا ہوں
یہ خاکساری مجھے گوارا نہیں پرندو!
مرے مُریدو! مَیں دنیاداری میں لگ گیا ہوں
زمیں کی ساری غلیظ رسموں سے ہاتھ کر کے
زہے فراغت کہ شرمساری میں لگ گیا ہوں
غریب ہوتی ہوئی محبت مجھے منا لے
برائے وَحشت مَیں اشکباری میں لگ گیا ہوں
٭٭٭
ہوا نے سانحہ روکا ہوا ہے
چِراغِ شب طمانچے کھا رہا ہے
جسے مَیں یاد کر کے رو رہا ہوں
اُسے تیرا خدا بھی جانتا ہے
محبت انتقاماً مر گئی کیوں ؟
دعائے مغفرت کی اِلتجا ہے
کوئی ظلِّ الٰہی کو بتائے
عدو، ملکہ کا دیوانہ ہوا ہے
نمازیں پڑھنے والوں کا رویّہ
محلّے کی مساجد میں پڑا ہے
فلکؔ زادوں کی نیندیں اُڑ رہی ہیں
مرے ہاتھوں میں سورج آ گیا ہے
صدائے لمس سُنتے ہی فلکؔ نے
مرے ہونٹوں کو میٹھا کر دیا ہے
٭٭٭
بستر پہ سِلوٹوں کے نشاں پڑ گئے مگر
بندِ قُبائے یار نہیں کھُل سکا ابھی
دل یہ کہتا ہے آبگینوں سے
بچ کے رہنا ذرا حَسینوں سے
پھر کوئی سانپ نہ نکل آئے
خوف کھاتا ہوں آستینوں سے
میرے مَسلک میں عشق جائز ہے
عشق بھی بوریا نشینوں سے
آج کیسے مَیں رو پڑا یارو!
مَیں تو چُپ تھا کئی مہینوں سے
رنج و غم کے علاج سے پہلے
مِل رہا ہوں تماش بینوں سے
میرے قائم ؑ زمیں پہ اُتریں گے____!
خون ٹپکے گا جب جبینوں سے
٭٭٭
شہوتِ لمس کا اِستعارہ بدن
جو بدن بن گیا نَین تارا بدن
رات کی سُرمئی شال اُوڑھے ہوئے
سو گیا آج سارے کا سارا بدن
بابِ ادراک سے شہرِ عرفان تک
کھینچ لایا ہے مجھ کو تمہارا بدن
رات چُپ چاپ منزل کی جانب بڑھی
یار جب بھی بدن میں اُتارا بدن
میری بانہوں میں آتے ہی بے خود ہوا
رقص کرنے لگا وہ کنوارا بدن
تیرے ماتھے کا بوسہ بھی نہ لے سکا
آج ایسی خوشی سے مَیں ہارا بدن
٭٭٭
آج تو زہر بھی لگا پانی
اے مرے رہنما! پِلا پانی
گھر کے دالان سے گزرتے ہوئے
عکس اپنا گِرا گیا پانی
اب مرے چار سُو پرندے ہیں
آنکھ سے اِس قدر بَہا پانی
جب کسی پیڑ نے دُہائی دی
دشت نے چیخ کر کہا، پانی!
ہاں مری آخری ضرورت ہے
ٹھنڈا، میٹھا، ہَرا بَھرا پانی
اب کوئی معجزہ نہیں ہو گا
کرتبی! شوق سے بَنا پانی
خیمۂ تشنگی میں بچّوں کو
دور سے دیکھتا رہا، پانی
٭٭٭
روشنی آنکھوں پہ باندھوں تو ہَرا ہو جاؤں
یا کہیں بیٹھ کے رو لوں تو ہَرا ہو جاؤں
دشت کی دست درازی سے پریشاں ہو کر
پیڑ کے سائے میں بیٹھوں تو ہَرا ہو جاؤں
سبز تعویز اُتارے ہوئے مدّت گُزری
اب ترے حُکم سے پہنوں تو ہَرا ہو جاؤں
رات آفات کے جنگل میں گُزاری مَیں نے
دن ترے ساتھ گُزاروں تو ہَرا ہو جاؤں
ہجر میں اور تو کچھ بھی نہیں ہوتا مجھ سے
مَیں تری یاد میں ناچوں تو ہَرا ہو جاؤں
موت کی مشق مَشقّت سے مُبرّا ہے فلک ؔ
بسترِ مرگ پہ لیٹوں تو ہَرا ہو جاؤں
٭٭٭
جب اداکار محبت کی طلب ہوتی ہے
ہم کہانی سے نکلتے ہیں اَداکاری سے
ایسے پیڑوں کو بَھلا کون وَلی کہتا ہے
حیرتی ہو کے جو مِلتے ہیں اَداکاری سے
کربلا نقش ہے سینوں میں تمازت کیسی
صاحبا! خاک نشینوں کو فراغت کیسی
مَیں نہ عیسیٰ نہ مسیحائی کے فَن میں یکتا
پھر یہ کم بخت مرے نام کی شہرت کیسی؟
میرؔ سے، جونؔ سے نسبت کا اثر ہے صاحب!
مَیں اگر شعر سناتا ہوں تو حیرت کیسی؟
اِس سے صحرا کی جَلالت میں کمی آتی ہے
ساتھ لائے ہو مرے یار یہ وَحشت کیسی؟
مذہبِ حُسن و محبت کے عزا خانوں پر
مَے کشو! جام اُٹھانے کی اجازت کیسی؟
مَیں فلکؔ زاد، بَلا نوش تری مرضی پر
آسماں چھوڑ کے آتا ہوں تو بِدعت کیسی؟
٭٭٭
آپ برہم نہ یوں ہوا کیجے
مُسکرا کر ہمیں مِلا کیجے
خوبصورت اَگر دِکھائی دیں
ہم پہ پتھّر اُٹھا لیا کیجے
حُسن حیرت کا پیش خیمہ ہے
اِس عقیدے پہ سَر دھُنا کیجے
ہم تکلّف کو بھول جاتے ہیں
آپ بھی دل ذرا بڑا کیجے
یہ ہے دنیا یہاں شکاری ہیں
اپنے اَندر ہی اَب اُڑا کیجے
سب درختوں پہ بُور آنے لگے
یار! ایسی کوئی دُعا کیجے
بات کرنا اَگر نہیں آتا
خامشی کو ہَرا بَھرا کیجے
٭٭٭
ہماری حیرت وہ آئنہ ہے خدائے حیرت
جسے ضروری نہیں ہے کوئی ادائے حیرت
اگر کَہیں تو تماش بینوں میں بانٹ دیں ہم
ہمارے کشکول میں پڑی ہے دوائے حیرت
دھمال کرنے کو تم عقیدت سمجھ رہے ہو
نہیں او بھائی نہیں ! یہ ہے اِبتدائے حیرت
شگفتگی نامُراد ٹھہرے تو نوچ ڈالیں
مرے قبیلے کے پست فطرت ردائے حیرت
سُنا ہے مجھ سے کلام کرنے کو آ رہے ہیں
درخت سارے، پرند بوڑھے برائے حیرت
نمودِ شامِ وصال تیری نَزاکتوں سے
مہک رہی ہے کئی دنوں سے فضائے حیرت
جنہیں قدامت پسند ہونے پہ فخر ہے وہ
بتاؤ، کیسے کریں گے آخر دُعائے حیرت؟
٭٭٭
دشت کی سروری مُبارک ہو
آپ کو نوکری مُبارک ہو
خوف کھاویں گے اب تو دشمن بھی
سانپ سے دوستی مُبارک ہو
قافلہ آسماں سے گزرے گا
رہنما! رہبری مُبارک ہو
یار! کیا دِلرُبا خبر دی ہے
خیر ہو! پیشگی مُبارک ہو
مشکلیں ٹَل گئیں قرینے سے
اَلمدد یا علیؑ مُبارک ہو
٭٭٭
کچھ آوارہ یاروں میں آ بیٹھا ہوں
اپنے چاند ستاروں میں آ بیٹھا ہوں
آتے جاتے دیکھ رہے ہیں لوگ مجھے
بیزاری! بازاروں میں آ بیٹھا ہوں
سیکھ رہا ہوں سارے گُر مکّاری کے
کچھ دن سے زر داروں میں آ بیٹھا ہوں
دِل کی کالک دھُل جائے گی لمحوں میں
مولاؑ کے حُب داروں میں آ بیٹھا ہوں
موت مری تصویر اُٹھائے پِھرتی ہے
جب سے مَیں بیماروں میں آ بیٹھا ہوں
مَیں جنگل میں رہنے والا سبز نظر
عُریانی کے غاروں میں آ بیٹھا ہوں
٭٭٭
رَد ہوئے ہر جگہ تب کہیں جا کے ہم
عشق زادوں کی صُحبت کے لائق ہوئے
دامِ اِبہام میں آیا تو خجل ہی ہو گا
حُسن، احرام میں آیا تو خجل ہی ہو گا
عشق صاحب سے کہو ہوش میں آئے ورنہ
چشمِ الہام میں آیا تو خجل ہی ہو گا
کھینچ نہ وصل کا چلّہ اے مرے جذبِ کمال!
خِلقتِ عام میں آیا تو خجل ہی ہو گا
یہ جو ہر سَمت تباہی کا ہے موجب پانی
کُوفہ و شام میں آیا تو خجل ہی ہو گا
میرے مَصرف میں نہیں ہجر کا لمحہ کوئی
اور اگر دام میں آیا تو خجل ہی ہو گا
٭٭٭
ناز و ادائے یار کی ساری بہار جھُوٹ
تیرِ نظر کا زخم مرے دل فِگار جھُوٹ
جھُوٹے تحفّظات سے اے یار بچ بچا!
باقی خدا ہے اور سبھی اختیار جھُوٹ
سب کچھ سرابِ ذات ہے کچھ بھی تو سچ نہیں
رنگ و نظر کی مَستیاں قول و قرار جھُوٹ
خوں چُوستی زمین ترا آسماں فنا!
ہاں جھُوٹ ہے تُو جھُوٹ ، ترے سب سَوار جھُوٹ
میرا وُجود خاک، مرا فَن غَلط سَلط
ہر لفظ بے نمود مرا اِفتخارؔ جھُوٹ
٭٭٭
اَنا زادوں سے نسبت ہے، اذیّت ہے
یہاں جتنی سہولت ہے، اذیّت ہے
خِرد مندی اِسی میں ہے، اُٹھا لے جا!
تُجھے میری ضرورت ہے، اذیّت ہے
ترے پیچھے چلے جانا، چلے آنا
بڑی کافر طبیعت ہے، اذیّت ہے
بَلا کا بدگماں ہے وہ، مگر پھر بھی
مجھے اُس سے محبت ہے، اذیّت ہے
اُٹھا کر پھینک دے ساری کتابوں کو
اگر اُن میں نصیحت ہے، اذیّت ہے
ابھی باہر پڑا رہنے دے سردی میں
ابھی مجھ میں تمازت ہے، اذیّت ہے
فلکؔ! تجھ سے کہا تھا ناں محبت میں
اذیّت ہے، اذیّت ہے، اذیّت ہے!
٭٭٭
آبلہ پائی کا جب اِمکان تھا
اُن دِنوں مَیں صاحبِ ایمان تھا
اَور پھر اک دن محبت ہو گئی
وہ پریشاں اور مَیں حیران تھا
سخت سردی پڑ رہی تھی اُن دِنوں
جب اُسے چھُونا بہت آسان تھا
میرا کمرا یُوں تو خالی تھا مگر
میری جَلوت کا وہی سامان تھا
مَیں بَھلا اِنسان کیسے بَن گیا؟
ماں تو کہتی ہے کہ تُو شیطان تھا
٭٭٭
مَنصبِ رقص سنبھالو کہ اِسی مَنصب سے
ہم نے وَحشت کے مُعلّم کو ذرا رام کیا
کُوزہ گر کا ہاتھ بَٹانے والا ہوں
مَیں سَت رنگی پھول بنانے والا ہوں
دُشمن کو بے کار سمجھنے والوں کو
دُشمن کے اَوصاف بَتانے والا ہوں
چاک گریباں دیوانوں کی دعوت پر
وَحشت کی تحریک چَلانے والا ہوں
ایک اذیّت زندہ رہنے والی ہے
مَیں جس کو تحریر میں لانے والا ہوں
گھر کی دیواروں سے کہنا سو جائیں
مَیں پہرے پر خواب بِٹھانے والا ہوں
ہے کوئی ایسا جو میری اِمداد کرے
مَیں شہروں میں اَمن اُگانے والا ہوں
٭٭٭
آساں نہیں ہے جادۂ حیرت عُبورنا
حیراں ہوئے بغیر اِسے مَت عُبورنا
میرے خلاف کوئی بھی بَکتا رہے مگر
سیکھا ہے مَیں نے سرحدِ وَحشت عُبورنا
صد آفریں ! خیال تو اچّھا ہے واقعی
آنکھوں کو بند کر کے محبت عُبورنا
آوارگانِ عشق! ذرا احتیاط سے
لذّت کے بعد لذّتِ شہوت عُبورنا
تعمیرِ ماہ و سال میں تاخیر کے بغیر
کس کو رَوا ہے عرصۂ مُہلت عُبورنا؟
جُزوِ بدن بَنے گا تو باہَر بھی آئے گا
یہ زخم تھوڑی دیر سے حضرت! عُبورنا
٭٭٭
کئی لوگوں نے صُحبت کی، محبت کی
مگر ہم نے عبادت کی، محبت کی
جواں مَرگی کی خواہش میں مَرے تم پر
جواں عُمری میں جرأت کی، محبت کی
قریبِ مرگ پہنچے تو حَسینوں نے
غضب ڈھایا، قیامت کی، محبت کی
وِصالِ یار پر آنسو نکل آئے
روایت سے بغاوت کی، محبت کی
تُجھے ہم داد دیتے ہیں فلکؔ صاحب!
زبردستی محبت کی، محبت کی!!
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید