FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ادراک

 

 

ابو البیان ظہور احمد فاتح

 

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

انتساب

 

صاحبانِ ادراک کے نام

 

 

 

مے کشی کے نہ سکھا ساقیا انداز مجھے

عیش و آرام سے پیاری ہے تگ و تاز مجھے

 

دل سے بے ساختہ اک آہ نکل جاتی ہے

عمرِ رفتہ جو کبھی دیتی ہے آواز مجھے

 

کیوں نہ محفوظ اسے رکھوں ہمیشہ دل میں

اُس کا غم اصل میں ہے باعثِ اعزاز مجھے

 

اُس کے ہر ناز میں ہیں موت کے سامان بہم

پھر بھی خوش آتا ہے اُس شوخ کا ہر ناز مجھے

 

یہ نیا دور نئے سر کا تمنائی ہے

ہمنشیں دینا ذرا لا کے نیا ساز مجھے

 

میرے غم خواروں پہ ہے نیند ابھی سے طاری

آپ بیتی کا ابھی کرنا ہے آغاز مجھے

 

میں تو ہر شخص کا ہمدرد ہوں فاتح لیکن

ایک بھی مل نہ سکا محرم و ہمراز مجھے

 

 

 

 

 

دور تک دشتِ وفا میں کوئی سایہ بھی نہ تھا

قلزمِ درد محبت کا کنارہ بھی نہ تھا

 

اتنامفلس بھی نہ تھا دل کہ تہی دست کہیں

گوسوا غم کے کوئی اس کا اثاثہ بھی نہ تھا

 

ہم سے کیا پوچھتے ہو دیر و حرم کی بابت

اپنی تقدیر میں تو کوئی خرابہ بھی نہ تھا

 

تجھ سے ظالم سے رہ و رسم ضروری تو نہ تھی

تجھ سا دلدار مگر تیرے علاوہ بھی نہ تھا

 

غور سے دخترِ تہذیب کو دیکھا فاتح

صاف عریاں بھی نہ تھی تن پہ لبادہ بھی نہ تھا

 

 

 

 

 

تشنگی آہ بجھی ہے نہ بجھے گی دل کی

دل تو مر جائے گا حسرت نہ مرے گی دل کی

 

زخمِ دل پھول بنیں داغ تمنا شمعیں

یہ لوازم ہوں تو پھر بزم سجے گی دل کی

 

شوق سے آپ کریں چاک ہمارا سینہ

اب یہاں راکھ فقط راکھ ملے گی دل کی

 

دیکھنا ہجر کی آندھی سے جہاں میں اک دن

صورتِ ریگِ رواں خاک اڑے گی دل کی

 

اس کے اجزا بھی بکھر جائیں گے اک دن فاتح

عمر بھر جاں سے کہاں لاش اٹھے گی دل کی

 

 

 

خود پہ بہتان اگرچہ کئی دھر جاتے ہیں

پھر بھی کوچے میں تِرے شام و سحر جاتے ہیں

 

آزماؤ نہ ہمیں صبر کی حد ہوتی ہے

کہ چھلک پڑتے ہیں ساغر جونہی بھر جاتے ہیں

 

ملکِ الفت کا یہ قانون تمھیں یاد رہے

وہی مجرم ہیں جو تعزیر سے ڈر جاتے ہیں

 

میرے الجھے ہوئے حالات سلجھ سکتے ہیں

جب تِرے کاکلِ پیچاں بھی سنور جاتے ہیں

 

آئینہ ٹوٹ گیا آئینہ گر کا کوئی

عرشِ اعظم کو لئے نالے خبر جاتے ہیں

 

اب ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا ہرگز

ہم تو باندھے ہوئے سامانِ سفر جاتے ہیں

 

لوگ جب سنتے ہیں فاتح تِرے اشعار کبھی

ہاتھ میں تھامے ہوئے قلب و جگر جاتے ہیں

 

 

 

 

 

چشمِ نرگس عارضِ گلگلوں لبِ نوشیں کی خیر

اے سراپا ناز تیرے پیکرِ سیمیں کی خیر

 

بعد میرے اور بھی آئیں گے مرنے کیلئے

عشوۂ قاتل سلامت غمزۂ خونیں کی خیر

 

لب نہ گھس جاتے تمھارے اے ستم پرور ندیم

اوپری دل سے ہی کہہ دیتے اگر سائیں کی خیر

 

اب تو ہم باہر کیے جاتے ہیں کانٹے کی طرح

باغ کی، مالی کی، بلبل کی، گل و گلچیں کی خیر

 

جس کے دم سے آج بھی تازہ ہے رسمِ دوستی

ایسے ہر فریاد کی جئے ایسی ہر شیریں کی خیر

 

کیوں اڑاتے ہو مِرے چاکِ گریباں کا مذاق

عقل والو آپ کے پیراہنِ زریں کی خبر

 

تیرے فاتح کو تو ویرانے ملے، ظلمت ملی

اے خدائے پاک تیرے عالمِ رنگیں کی خبر

 

 

 

 

 

 

زخمِ دل جو تمھیں دکھائے ہیں

کچھ تو اپنے ہیں کچھ پرائے ہیں

 

ہم کسی کو فریب دے نہ سکے

خود ہمیشہ فریب کھائے ہیں

 

باقی سب کچھ لٹا چکے ہیں ہم

چند آنسو ہیں جو بچائے ہیں

 

سازِ دل اس کا توڑ ڈالا گیا

جس نے الفت کے گیت گائے ہیں

 

جوسدا ضَو فشاں رہے فاتح

ہم نے ایسے دیے جلائے ہیں

 

 

 

 

 

وہ زاہدوں کے پاس ہے نہ واعظوں کے پاس

ملتا ہے کچھ خلوص بھی تو میکشوں کے پاس

 

درماں کرے گا درد کا وہ یارِ دل شناس

میری دوائے دل نہیں چارہ گروں کے پاس

 

اک دل ہے اور وہ بھی ہے زخموں سے چور چور

رکھا ہے اور کیا بھلا ہم بے کسوں کے پاس

 

پاؤں فگار، پیرہن ٹکڑے، بدن پہ دھول

ہیں کیسی کیسی ندرتیں اہلِ جنوں کے پاس

 

فاتح نہ ہوں گے آسماں پہ اس قدر نجوم

ہوتے ہیں جتنے درد یا غم عاشقوں کے پاس

 

 

 

کاش دو دن مِری قسمت میں سویرا ہوتا

ختم کچھ تو یہ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوتا

 

پھرتا بے خوف و خطر سانپ بغل میں دابے

کوئی جوگی، کوئی مشاق سپیرا ہوتا

 

لب پہ آتی ہے دعا تیرا مقدس آنچل

دل کی افواج تمنا کا پھریرا ہوتا

 

ذہن میں آیا تصور شبِ تنہائی کا

تُو نے زلفوں کو نہ چہرے پہ بکھیرا ہوتا

 

قلبِ فاتح کی ہمیشہ سے یہی خواہش ہے

سایۂ ابرِ وفا اور گھنیرا ہوتا

 

 

 

آج تک مل نہ سکا تھا جو گلستانوں میں

ہم نے پایا ہے وہ آرام بیابانوں میں

 

باقی ہر چیز ہے موجود نمائش کے لئے

آدمیت ہی کا فقدان ہے انسانوں میں

 

ٹمٹماتا ہے یہاں یوں مِری ہستی کا چراغ

خستہ جاں جیسے پڑا ہو کوئی بے جانوں میں

 

حریت جوشِ جنوں اور بڑھا دیتی ہے

جائے آرام ہے اپنے لئے زندانوں میں

 

عقل والوں کو خوش آتا نہیں فاتح لیکن

دیکھا جاتا ہے بڑی قدر سے دیوانوں میں

 

جاں بخش ہونٹ، عنبریں گیسوئے لئے ہوئے

آدوست میرے درد کی دارو لئے ہوئے

 

ہے جن کا لمس راحتِ جاں میرے واسطے

آ جا وہ نرم گرم سے بازو لئے ہوئے

 

آ، اُس پہ محوِ خواب ہو تیرا سرِجمال

بیٹھا ہوں کتنی دیر سے زانو لئے ہوئے

 

ہائے غمِ فراق بھی کتنا شدید ہے

بیٹھا ہوں کب سے آنکھ میں آنسو لئے ہوئے

 

سودائے دل کا قدر داں ملتا نہیں کہیں

گھوما کیا ہوں میں اِسے ہر سو لئے ہوئے

 

فاتح سخن کے ملک میں کرتا ہوا جہاد

بڑھتا چلوں گا پرچمِ اردو لئے ہوئے

 

 

 

دل کے ارماں مچلتے جاتے ہیں

اور ہم ہاتھ ملتے جاتے ہیں

 

رات کی اِس اجاڑ نگری میں

ایک ہم ہیں کہ چلتے جاتے ہیں

 

حادثوں کی ہوا کے ہوتے ہوئے

دیپ یادوں کے جلتے جاتے ہیں

 

بڑھتی جاتی ہے بیقراری بھی

جس قدر سائے ڈھلتے جاتے ہیں

 

دل کی حالت خراب ہوتی گئی

ہم نے جانا سنبھلتے جاتے ہیں

 

درد پاؤں کا بڑھتا جاتا ہے

خار جوں جوں نکلتے جاتے ہیں

 

ہم تو فاتح ذرا نہیں بدلے

لوگ لیکن بدلتے جاتے ہیں

 

 

 

 

 

 

مثالِ شمع قبرستاں رہے ہیں

ہم اپنے حال پر حیراں رہے ہیں

 

کٹی ہے زندگی تاریکیوں میں

ستارے سامنے رقصاں رہے ہیں

 

نہ آنے دی لبوں تک مسکراہٹ

وفا دارِ غمِ جاناں رہے ہیں

 

نہ آیا راز داں کوئی میسر

ہمیشہ رازِ دل پنہاں رہے ہیں

 

برنگِ قیدیِ زندان فاتح

رہائی کیلئے کوشاں رہے ہیں

 

 

 

 

 

تیرا جہان بند ہے تیری سرشت میں

اس کو نکھارا اس جہانِ سنگ و خشت میں

 

رازِ خدائی صاحبِ کعبہ سے پوچھ لے

ملتا نہیں کلیسا و دیر و کنشت میں

 

مل کے رہے گا کل تجھے اِس کا ثمر ضرور

جو کچھ بھی آج بوئے گا تُو اپنی کشت میں

 

میں آسمانِ نیلگوں کا راز دار ہوں

عرفانِ اہلِ عرش ہے میری سرشت میں

 

پڑھتے ہیں انہماک سے سب اس کو بار بار

فاتح عجب کمال ہے تیری نوشت میں

 

 

 

 

 

ہم نے پیمانۂ صبر اپنا چھلکتے دیکھا

آج مے خانے میں ساغر جو کھنکتے دیکھا

 

کس ادا سے رخ زیبا پہ گرایا آنچل

اپنی جانب جو مجھے شوخ نے تکتے دیکھا

 

مجھ کو ہر بار ہوا یار کے آنے کا گماں

رات کو جب بھی کوئی سایہ سرکتے دیکھا

 

ہنس کے کہنے لگا پڑ جائے نہ دورہ تجھ پر

فرطِ الفت سے جو دل تیرا دھڑکتے دیکھا

 

کارِ الیاس و خضر کرتا تھا کل تک فاتح

دشتِ ظلمت میں اِسے آج بھٹکتے دیکھا

 

 

 

خدا ناراض ہے، دشمن جہاں ہے، تنگ دستی ہے

ہمیں پھر بھی نجانے کیوں مذاقِ بت پرستی ہے

 

ہماری خودفریبی کا یہ عالم ہے جہاں والو

جو دیکھیں جھومتے بادل تو سمجھیں مے برستی ہے

 

یہی اپنی کرامت ہے کہ زندہ پھر بھی رہتے ہیں

اگرچہ رات کی ناگن ہمیں ہر روز ڈستی ہے

 

جسے دیکھو ستم ایجاد ہے، رہزن ہے، قاتل ہے

میں حیراں ہوں خداوندا! یہ کیسی تیری بستی ہے

 

تجھے بیکار کہتے ہیں یہ ناداں لوگ اے فاتح

خود ان کے واسطے ہی کار آمد تیری ہستی ہے

 

 

 

نہایت غور سے ہر طور، ہر اسلوب دیکھا ہے

زمانہ بے وفا ہے ہم نے اس کو خوب دیکھا ہے

 

پرانے لوگ جن اطوار کو اچھا سمجھتے تھے

نئے لوگوں کی نظروں میں انھیں معیوب دیکھا ہے

 

کبھی اہلِ ہنر ہم تھے مگر اب تو یہ حالت ہے

کہ ہر اک عیب اپنے نام سے منسوب دیکھا ہے

 

نہاں پرہیز گاری میں جو لذت ہے، نہیں اس میں

اگرچہ بحرِ عصیاں میں بھی میں نے ڈوب دیکھا ہے

 

گریباں چاک ہے اس کا، نہ چھالے اس کے پاؤں میں

بقربت آج میں نے فاتحِ مجذوب دیکھا ہے

 

 

 

زخم پر زخم کھائے جاتا ہوں

پھر بھی میں مسکرائے جاتا ہوں

 

حسن کے گھر میں روشنی کے لئے

دل کا دیپک جلائے جاتا ہوں

 

غم جہاں سے خریدے جاتا ہوں

راحتیں سب لٹائے جاتا ہوں

 

برق پیہم جلائے جاتی ہے

میں نشیمن بنائے جاتا ہوں

 

شعر کے آئنے میں دنیا کو

سب حقائق دکھائے جاتا ہوں

 

جان و دل تو نثار کر ڈالے

اور کیا میں بچائے جاتا ہوں

 

میں بھی فاتح سخن کی دنیا میں

شہر کیا کیا بسائے جاتا ہوں

 

 

 

 

اُس حسن و ادا کی دیوی کی جس وقت زیارت ہوتی ہے

ہونٹوں پہ تبسم کی شوخی، آنکھوں میں شرارت ہوتی ہے

 

ہر بلبل نغمے گاتی ہے ہر کوئل گیت سناتی ہے

ہر بند کلی کھل جاتی ہے جب اس کی اشارت ہوتی ہے

 

جب دیکھتا ہوں میں قاصد کو، تھامے ہوئے نامۂ شاہد کو

یوں لگتا ہے جیسے زاہد کو جنت کی بشارت ہوتی ہے

 

یہ مذہب و دیں، ایماں، قرآں، بک جاتا ہے بلکہ خود انساں

حیرت ہے مجھے اے اہلِ جہاں، ایسی بھی تجارت ہوتی ہے

 

جس شب شبِ فرقت ہوتی ہے، یوں حاملِ ظلمت ہوتی ہے

بے نور بصیرت ہوتی ہے، بے کار بصارت ہوتی ہے

 

مت روکئے اشک بہانے سے، کیفیتِ درد بتانے سے

سنتے ہیں کہ حال سنانے سے کم غم کی حرارت ہوتی ہے

 

 

 

آ رہی ہے یار کے قدموں کی آہٹ دور سے

اُس کے زریں پیرہن کی سرسراہٹ دور سے

 

ہو رہا ہے آپ کی زلفوں پہ افشاں کا گماں

دیکھ کر تاروں کی دلکش جھلملاہٹ دور سے

 

دوستو سچ سچ کہو بجلی چمکتی ہے کہیں

یا کسی کی دیکھتا ہوں مسکراہٹ دور سے

 

آ رہی ہے ناقۂ محبوب پھر محمل لئے

سن رہا ہوں میں مسلسل بلبلاہٹ دور سے

 

دل یہ کہتا ہے کہ فاتح آج ہے ناراض وہ

دیکھ کر روئے حسیں کی تمتماہٹ دور سے

 

 

 

ہوا نغمے سریلے گا رہی ہے

گھٹا قطراتِ مے برسا رہی ہے

 

یہ کس کی میٹھی آواز آ رہی ہے

دلوں پر بے خودی سی چھا رہی ہے

 

جبیں پر زلف کیا لہرا رہی ہے

سیہ ناگن ہے جو بل کھا رہی ہے

 

خمار آلودہ آنکھیں ہیں کسی کی

کہ نرگس باغ میں سُستا رہی ہے

 

چکوری چاند سے مایوس ہو کر

مِرے محبوب پر للچا رہی ہے

 

یہ شب بھی آج کتنی مہرباں ہے!

مسلسل چاندنی برسا رہی ہے

 

یقیناً یہ نوا فاتح کی ہو گی

دلوں کو اِس قدر جو بھا رہی ہے

 

 

 

پوچھتے کیا ہو مِرے یار کی بابت مجھ سے

یوں نہ ہو تم کو بھی ہو جائے رقابت مجھ سے

 

سامنے اِس کے تو میں بھی نہ زباں کھول سکا

یوں تو سیکھی ہے عنادل نے خطابت مجھ سے

 

آ کے ملنا تو کجا یارِ تغافل پیشہ

تجھ سے تو ہو نہ سکی خط و کتابت مجھ سے

 

میں اگر صبحِ ازل ہوتا بجائے آدم

صاف کہہ دیتا نہیں ہوتی نیابت مجھ سے

 

یوں غم و درد مِرے ساتھ لگے ہیں فاتح

جیسے رکھتے ہوں زمانے سے قرابت مجھ سے

 

 

 

کسی کا ذکر جو ہم بار بار کرتے ہیں

علاجِ تلخیِ لیل و نہار کرتے ہیں

 

تِرے وصال کے خوش کن تصورات لئے

غمِ حیات کو ہم خوشگوار کرتے ہیں

 

یہ جانتے ہیں کہ ایفا نہ کر سکو گے مگر

تمھارے عہد پہ ہم اعتبار کرتے ہیں

 

قصور موت کاہو گا جو بے طلب آئی

کہ ہم تو صرف تِرا انتظار کرتے ہیں

 

وہ لوگ پیچھے نہیں دیکھتے کبھی مُڑ کر

جو راہِ عشق و وفا اختیار کرتے ہیں

 

بہار آئی ہے شاید کہ تیرے دیوانے

قمیصِ نَو کا جدا تار تار کرتے ہیں

 

فقیہہِ شہر سمجھتے ہیں آپ فاتح کو

ہم اِس کو اہلِ جنوں میں شمار کرتے ہیں

 

 

 

 

 

 

چشم کو چشمِ فسوں گر، دل کو پتھر کر دیا

تُو نے مشکل زندگی کو اور دوبھر کر دیا

 

خیر ہو تیری عدالت کی، تِرے انصاف کی

ہر بلند و پست کو تُو نے برابر کر دیا

 

دکھ پہ دکھ اتنے دیے خود خشک آنسو ہو گئے

یوں ستم گر نے علاجِ دیدۂ تر کر دیا

 

ڈھے گیا قصرِ تمنا، بہہ گیا نقدِ سرور

ارضِ جاں کو روز کی بارش نے بنجر کر دیا

 

ناز برداری نے میری کر دیا سرکش تجھے

عاجزی کر کر کے میں نے تجھ کو خود سر کر دیا

 

ذوقِ گل بوسی نے ٹھہرایا تِرے ہونٹوں کو پھول

شوقِ مے نوشی نے ان آنکھوں کو ساغر کر دیا

 

ڈوبنے والا نہیں فاتح کسی طوفاں میں

بحرِ غمِ کا اس کو تو نے یوں شناور کر دیا

 

 

 

 

 

 

ہمارا عشق، ہمارا شباب دیوانہ

رواں دواں ہے پسِ آفتاب دیوانہ

 

جگر کے خون سے تاریخِ سرفروشی میں

رقم کرے گا نیا ایک باب دیوانہ

 

مِری کتاب کے سرپوش پر مصوَّر ہو

دیارِ شوق، شب ماہتاب، دیوانہ

 

نکل پڑے گا یہ تعبیر کے تجسس میں

وہ چاہتے ہیں کہ دیکھے نہ خواب دیوانہ

 

شعور والوں نے بانٹی ہیں نفرتیں کیا کیا

محبتوں کا لکھے گا نصاب دیوانہ

 

زمانہ محوِ تحیر ہے یہ خبر سن کر

کرے گا اہلِ خرد سے خطاب دیوانہ

 

عظیم لوگوں سے فاتح یہ لے گیا بازی

الٹ کے دیر و حرم کے نقاب دیوانہ

 

 

 

 

 

 

فسانہ مختصر میرا نہیں ہے

کوئی آساں سفر میرا نہیں ہے

 

اُسے معلوم ہے جاں ہے لبوں پر

مسیحا بے خبر میرا نہیں ہے

 

میں ایسے باغ کا مالی بنا ہوں

جہاں اک بھی شجر میرا نہیں ہے

 

نقیبِ صبحِ صادق ہوں بجا ہے

مگر نورِ سحر میرا نہیں ہے

 

مِری دانش نہ کیوں مجھ سے خفا ہو

جنوں جب دربدر میرا نہیں ہے

 

گھرا پائے گا جب شعلوں میں اِس کو

وہ کہہ دے گا یہ گھر میرا نہیں ہے

 

مِرا ہر شعر ہے اک نخل فاتح

چمن یہ بے ثمر میرا نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

کاش مل جائے یار کی منزل

تازگی کی، بہار کی منزل

 

حکمِ آوارگی ہوا صادر

یاد جب چند بار کی منزل

 

کاش زائل نہ ہو یہ نقشِ قدم

ہے یہ اک جاں نثار کی منزل

 

پانے والے ہیں تیرے دیوانے

دور تھوڑی ہے دار کی منزل

 

عاصیوں کو پناہ کیا دے گی

ایک پرہیزگار کی منزل

 

وہ تو سردار ہی کہاں ٹھہرا

جس نے سرکی نہ دار کی منزل

 

ہم سے راہیں خفا ہوئیں فاتح

ہم نے جب اختیار کی منزل

 

 

 

 

جو ہے حکمِ زباں بندی، یقیناً ہم نہ بولیں گے، ہمارے لفظ بولیں گے

تمھاری انجمن میں ہم زباں ہرگز نہ کھولیں گے، ہمارے لفظ بولیں گے

 

چمک اٹھیں گے اپنے حرف احساس سعادت سے، نگاہوں کی تمازت سے

ہماری شاعری کو جب وہ چشم و دل میں تو لیں گے، ہمارے لفظ بولیں گے

 

نکھاریں گے جو روئے فن کبھی اشکوں کی شبنم سے، تمھارے ہجر کے غم سے

حسیں یادوں کے گوشے میں نہ ہم جس وقت بولیں گے، ہمارے لفظ بولیں گے

 

ہمارے اشک حل ہو جائیں گے جب روشنائی میں، تِرے سوزِجدائی میں

جو ہم جذبات میں اپنے جگر کا خون گھولیں گے، ہمارے لفظ بولیں گے

 

اثر اِن کا نہیں محدود فاتح چند لفظوں، چند غزلوں، چند نظموں تک

ہمیں ہے ناز دیواں کا ورق جو بھی وہ کھولیں گے، ہمارے لفظ بولیں گے

 

 

 

شوقِ دل، حلفِ وفا، جذبۂ تازہ لے لو

ذوقِ منزل ہے اگر پیار کا رستہ لے لو

 

ہے یقیں ہو گا مجھے درجۂ اوّل حاصل

مجھ سے مضمونِ وفا کا کبھی پرچہ لے لو

 

یوں نہ ٹھکراؤ یہ اخلاص کے سچے موتی

لاج آتی ہے اگر تو پسِ پردہ لے لو

 

کارگر دورِ ملمع میں یہ چربہ ہو گا

اپنے چہرے پہ نیا تم کوئی چہرہ لے لو

 

لینے آیا نہ کوئی کتنی صدائیں دی ہیں

کوئی جوہر، کوئی پتھر، کوئی شیشہ لے لو

 

تم نے سر کرنا ہے میدان اگر دنیا میں

لو قلم ہاتھ میں، تلوار کہ تیشہ لے لو

 

اس کے ہاتھوں کی مہک اس میں بسی ہے فاتح

اپنے محبوب کے مکتوب کا بوسہ لے لو

 

 

 

 

 

 

عشق محبت کھیل نہیں، یہ سہل نہیں، مہ پارہ سوچ

پھر اک بار تجھے کہتا ہوں دوبارہ، سہ بارہ سوچ

 

تیرے مقدر کی تاریکی کم کیا اس سے ہو پائے گی

تیرے ہاتھ اگر آ جائے کوئی چاند ستارہ سوچ

 

غم کی مسافت کے راہی کے پاس ملیں گی کیا سوغاتیں

نذر تجھے کر پائے گا کیا درد کا اک بنجارہ سوچ

 

کاہشِ ہستی، سوزِ محبت، رنج و جدائی، جورِ جہاں

اتنی جفائیں سہہ پائے گا کیا یہ دل بے چارہ سوچ

 

اور کسی جانب مبذول کرا دے میری توجہ کوئی

داغ رہی ہے ذہن کو میرے بن بن کر انگارہ سوچ

 

وصل میں پت جھڑ کے دن بھی ہم خوش اسلوبی سے کاٹیں گے

ہجر میں کیا ہم دیکھ سکیں گے کوئی شوخ نظارہ سوچ

 

دن تو خیر گزر جاتا ہے کارِ جہاں میں جیسے تیسے

ہم کو شب بھر تڑپاتی ہے بن کے سرخ شرارہ سوچ

 

ترکِ تمنا کر کے پیارے، خون وفا کا کر کے پیارے

کیسے تجھ سے ہو پائے گا پیت بغیر گزارہ سوچ

 

پیار بھرا دل توڑا تُو نے چاہت سے منہ موڑا تُو نے

کیسے تُو کر پائے گا اِس غلطی کا کفارہ سوچ

 

ظلم تو یہ ہے فرزانے کو بھی وہ کہتے ہیں دیوانہ

عقل ہے نا پختہ سی جن کی، جن کی ہے ناکارہ سوچ

 

تُو چاہے ہرحسن مآب کرے ہر دم تیری دلداری

فاتح تجھ کو لے ڈوبے گی اک دن یہ آوارہ سوچ

 

 

قطعہ

 

حسنِ اخلاق میں محبوب ادا پیدا کر

سوزِ کردار میں اسلوبِ وفا پیدا کر

لاج اپنی تجھے رکھنا ہے زمانے میں اگر

اپنے اندر صفتِ شرم حیا پیدا کر

 

 

 

 

آپ اپنے کو اپسرا سمجھیں

مجھ کو الفت کا دیوتا سمجھیں

 

باقی سارے جہاں کو بیگانہ

خود کو اک میرا آشنا سمجھیں

 

تُو ملا ہے تو دل ہے گُم گشتہ

کیوں نہ ہم تجھ کو دلربا سمجھیں

 

دیکھیں غازے کو اور افشاں کو

لالہ رخ سمجھیں مہ لقا سمجھیں

 

یار نے کی ہے ابتدائے کرم

لوگ دیکھیں تو انتہا سمجھیں

 

ہے تقاضا یہی محبت کا

اُن کے ہر جور کو وفا سمجھیں

 

اُن کے ہر درد کو حسیں تحفہ

اُن کے ہر غم کو جاں فزا سمجھیں

 

ہے تو سجدہ گہِ وفا میری

نا سمجھ لوگ نقشِ پا سمجھیں

 

جاں سے پیارا ہے داغِ عشق ہمیں

لوگ جتنا بھی بد نما سمجھیں

 

مجھ پہ رکھیں بڑی خوشی سے روا

جو ستم یار نا روا سمجھیں

 

موج کیوں ہے بضد ڈبونے پر

یہ معمہ تو نا خدا سمجھیں

 

عیب میرے نکالنے والے

اپنے تائیں نہ ماورا سمجھیں

 

ہم تو فاتح غریقِ عصیاں ہیں

لوگ ہم کو نہ پارسا سمجھیں

 

 

 

 

 

ہمیں انجامِ الفت بھگتنا تھا

کسی ہمدم نے خنجر گھونپنا تھا

 

یہ دنیا تو مسافت تھی ہماری

عدم آباد ہم نے پہنچنا تھا

 

مِری یہ جان کیسے باقی رہتی

جہاں ہر جان کو حکمِ فنا تھا

 

مجھے رسوا جو ہونا تھا جہاں میں

ابھرنا تھا ابھر کر ڈوبنا تھا

 

یہی تقدیر تھی شاید ہماری

سرِ رہ راہبر نے لوٹنا تھا

 

تم آتے یا نہ آتے اے ستم گر

ہمیں تو رات ساری جاگنا تھا

 

جفائیں تو نہ بھُولے ایک پل بھی

تمھیں عہدِ وفا ہی بھُولنا تھا؟

 

اِسے کیوں استوار اتنا کیا تھا؟

اگر پیمان الفت توڑنا تھا

 

تِرا وہ شہر یاد آتا ہے اکثر

جہاں بیگانہ سا ہر آشنا تھا

 

قریب آیا تو دل آزار نکلا

بظاہر جو بہت من موہنا تھا

 

اُنھیں مانع تھی خوئے بے نیازی

ہمیں روکے ہوئے پاسِ انا تھا

 

بتوں کو پوجتے جیون گنوایا

یہ حسرت ہے خدا کو پوجنا تھا

 

رہی مسکان فاتح کے لبوں پر

اگرچہ غم کا ہر دم سامنا تھا

 

 

 

 

 

 

وہ جنوں مجھ کو ملا فہم و ذکا کے عوض

زہر بیماری میں پیتا ہوں دوا کے عوض

 

حسرت و داغ و الم، رنج و غم و دردِ جگر

مجھ کو کیا کیا نہ ملا اپنی وفا کے عوض

 

لوگ پاگل ہیں جو کہنے لگے پاگل مجھ کو

خواہشِ مرگ جو کی میں نے شفا کے عوض

 

میری بدبختی کا اندازہ لگانا یارو

کہ صنم پوج رہا ہوں میں خدا کے عوض

 

نرم دل تھا میں پڑا سنگ دلوں سے پالا

بادِ صر صر ہی ملی مجھ کو صبا کے عوض

 

اُس نے جب جور و جفا کا مجھے عادی پایا

تو وفا کرنے لگا مجھ سے جفا کے عوض

 

اِس طرح بیم سے پکا ہوا رشتہ میرا

کہ یہی اب مجھے پیاری ہے رجا کے عوض

 

میری دانست میں تو عاشقِ صادق وہ ہے

جان دیتا ہے جو دلبر کی رضا کے عوض

 

تم اگر چاہو میرے ساتھ بھلائی کرنا

بددعا دیجیے گا مجھ کو دعا کے عوض

 

بحرِ ظلمات و حوادث میں ڈبونے کیلئے

گھُپ اندھیرے ہی ملے مجھ کو ضیا کے عوض

 

کیوں نہ مغموم ہمیشہ نظر آئے فاتح

ظلِ غم اس پہ پڑا، ظلِ ہما کے عوض

 

 

 

 

 

والہانہ محبت ہے تجھ سے مجھے یہ بجا ہے مگر میں مکرتا نہیں

ایک تیرا تصور ہے دلبر مِرے، ایک لمحہ بھی دل سے اترتا نہیں

 

شوق سے مجھ پہ ڈھاؤ ہزاروں ستم، اپنی رسوائی کا مت کرو کوئی غم

میں تو چپکے سے سہتا ہوں درد الم، آہ بھرتا نہیں، شکوہ کرتا نہیں

 

یار جس رات تشریف لاتا نہیں، دل تڑپتا ہے تسکین پاتا نہیں

چاندنی چاند اُس شب لٹاتا نہیں، تارا اُس رات کوئی ابھرتا نہیں

 

اب نہ وہ لطفِ غم ہے نہ کیف طرب؟ آج اخلاص بھی ہے زمانہ بدر

آہ ویران ہے آج شہرِ طلب کوئی دشتِ وفا سے گزرتا نہیں

 

اس پہ شبنم کے موتی نچھاور کرو، اس کو نرمی صبا کی میسر کرو

پیار اک پھول ہے اے مِرے دوستو گرم لو میں کبھی یہ نکھرتا نہیں

 

ہم وفا کے فسانے کی تحریر ہیں، ہم کتابِ محبت کی تفسیر ہیں

جادۂ عشق و الفت کے رہگیر ہیں، لوگ مرتے ہیں پر عشق مرتا نہیں

 

انجمن در حقیقت مِری ذات ہے، داغِ دل سے فروزاں مِری رات ہے

موت میری نگاہوں میں اک بات ہے، میں ہوں فاتح کسی سے بھی ڈرتا نہیں

 

وہ سب کے سب ہیں حقیقت میں با ثمر لمحے

تمھارے ساتھ گزارے ہیں جس قدر لمحے

 

خزاؤں میں بھی بہاروں کا پیش خیمہ ہیں

تمھارے لمس کی خوشبو سے بہرہ ور لمحے

 

ہماری زیست کا حاصل قرار پائے ہیں

تمہارے اشک ندامت سے تر بتر لمحے

 

وہ بے قرار نگاہیں، وہ ملتجی نظریں

عجیب لمحے تھے، کتنے تھے پُر اثر لمحے

 

شبِ وصال میں جو تھے کھِلے ہوئے غنچے

فراق میں ہیں وہی صورتِ شرر لمحے

 

چلے بھی آؤ کہ خوشیوں کا اہتمام کریں

اُنھیں یہ کہنا کہ ہوتے نہیں بسر لمحے

 

کس قدر مشکل ہے یا رب دوستوں کا سامنا

اس سے تو آسان تر تھا دشمنوں کا سامنا

 

میں کہ کر سکتا ہوں تیروں، خنجروں کا سامنا

کر نہیں سکتا کسی کے آنسوؤں کا سامنا

 

اک تو قسمت کی لکیریں پُر شکن ہیں اف نصیب!

دوسرے اُن کی جبیں کی سلوٹوں کا سامنا

 

دن کو گردش میں رہا کرتے ہیں مثلِ جام ہم

رات کو ہوتا ہے ظالم رت جگوں گا سامنا

 

کون آ بیٹھے گا ہم سے درد کے ماروں کے پاس

کیا کرے گا کوئی خوش دل غم زدوں کا سامنا

 

قلب ہے تو اس میں لاکھوں درد مستِ رقص ہیں

عقل ہے تو اس کو لاکھوں الجھنوں کا سامنا

 

تہمتیں، رسوائیاں، دشنام، آوازے، مذاق

تیرے پاگل کو ہے کتنے پتھروں کا سامنا

 

خانہ بربادی تو ادنیٰ امتحاں ہے عشق میں

ہے ابھی کرنا ہزاروں مرحلوں کا سامنا

 

یاد آتا ہے بہت اُس دم خدا فاتح ہمیں

جب بھی ہوتا ہے ہمارا اور بتوں کا سامنا

 

 

 

خوش ہے کیوں اے دل یہ ہے گرداب ساحل تو نہیں

سوچتا ہوں تو کہیں مرنے پہ مائل تو نہیں

 

یہ تو بامِ وصل کا زینہ ہے اے جان خیال

ہجر میری کاوشِ پیہم کا حاصل تو نہیں

 

آپ کی آنکھیں برستیں ورنہ ساون کی طرح

آپ کے پہلو میں اک پتھر ہے یہ دل تو نہیں

 

موقع بے موقع چبھو دیتے ہو نشتر طنز کے

دل دکھانا آپ کی فطرت میں داخل تو نہیں

 

صورتِ سیماب ہر ساعت ہے اس کا رنگ ڈھنگ

دیکھ تُو آ کر کہیں یہ تیرا بسمل تو نہیں

 

بزم درویشاں ہے اس میں سب کو اذنِ عام ہے

یہ کسی محبوب یا حاکم کی محفل تو نہیں

 

نا سمجھ لوگو اسے الزام کیوں دیتے ہو تم

دل مِرا قائل ہے، وہ دلدار قاتل تو نہیں

 

اے خدا کس تپتے ویرانے میں آ پہنچا ہوں میں

یہ مِرے خوابوں کی وہ جاں بخش منزل تو نہیں

 

کیوں دیا نذرانۂ دل آپ نے فاتح اُسے

وہ ستم ایجاد اِس نعمت کے قابل تو نہیں

 

 

 

 

 

 

مہکا ہے جس کے پیار کا گلشن یہی تو ہے

دل چاہتا ہے جس کو وہ ساجن یہی تو ہے

 

شرمائے جس کے جسم سے کندن یہی تو ہے

جس سے دیارِ حسن ہے روشن یہی تو ہے

 

دل جس کا ہے خلوص کا مخزن یہی تو ہے

ہم جس پہ وار بیٹھے ہیں تن من یہی تو ہے

 

پہلی نظر میں جو ہمیں گرویدہ کر گیا

وہ حسن، وہ شباب، وہ جوبن یہی تو ہے

 

جس نے شکار کر لیا دل کے عقاب کو

ایماں کی بات ہے وہ تیر افگن یہی تو ہے

 

زندہ رہوں تو کس طرح اس کے بغیر میں

آنکھوں کا نور، قلب کی دھڑکن یہی تو ہے

 

دل چاہے یونہی رات دن دیکھا کریں اِسے

فاتح نگاہِ شوق کا مسکن یہی تو ہے

 

 

 

 

جو بھی ملتا ہے معتبر ہو کر

لوٹ لیتا ہے ہمسفر ہو کر

 

کتنی لمبی تھی داستانِ الم

بن گئی اشک مختصر ہو کر

 

شوق ہے گر حصولِ منزل کا

جادہ پیما ہو بے خطر ہو کر

 

وہ کہ گھر جن کا تھا درِ دولت

آج پھرتے ہیں دربدر ہو کر

 

کافی آزار دے چکے ہیں آپ

دیکھیے اب کہ چارہ گر ہو کر

 

شب نے پھیلائی کس قدر ظلمت

پھر بھی یارو، رہی سحر ہو کر

 

دھوکا دیتے ہیں فاصلے اکثر

دیکھو ہر شئے قریب تر ہو کر

 

یہ بھی کیا کم ستم ظریفی ہے

شر سے بجتے رہیں بشر ہو کر

 

یہ بھی کچھ کم ہنر نہیں فاتح

نام پایا ہے بے ہنر ہو کر

 

 

 

یاد جانے کیا دلایا چودھویں کی رات نے

دل میں اک ہیجان برپا کر دیا جذبات نے

 

بڑھ گیا کچھ اور اس سے درد و سوز و اضطراب

آگ یہ کیسی لگائی تن میں ہے برسات نے

 

میں اگر چاہوں بھی تو آزاد ہو سکتا نہیں

بُن لیا ہے جال سا بیتے ہوئے لمحات نے

 

خود کشی کا شوق تو معصوم پھولوں کو نہ تھا

کر دیا مجبور پر سنگینیِ حالات نے

 

ایک ہم ہیں وسعتِ عالم ہے جن سے شرمسار

ایک وہ ہیں کر لیا ہے جذب جن کو ذات نے

 

خامیاں بھی تیری مجھ کو خوبیاں لگنے لگیں

کتنا دیوانہ بنایا پیار کی بہتات نے

 

کاش فاتح مجھ سے چھن جائے مِرا خبطی دماغ

جینا دوبھر کر دیا ہے گوناگوں خدشات نے

 

 

 

 

 

 

کیوں کرتے ہیں وہ مجھ پہ جفا سوچ رہا ہوں

کیا ہے یہی اندازِ وفا سوچ رہا ہوں

 

کیا مجھ سے ہوئی ایسی خطا سوچ رہا ہوں

کس جرم کی پاتا ہوں سزا سوچ رہا ہوں

 

کچھ لوگ ہیں کیوں مجھ سے خفا سوچ رہا ہوں

فی الاصل ہوں کیا میں ہی برا سوچ رہا ہوں

 

دنیا کو ہے کیوں دشمنی اربابِ وفا سے

کیوں پیڑوں سے برہم ہے ہوا سوچ رہا ہوں

 

یہ اشکِ ندامت ہیں کہ عبرت کا پسینہ

تر کیسے ہوئی گل کی قبا سوچ رہا ہوں

 

یہ حسرت و غم، درد و الم، کاہشِ پیہم

اپنا بھی ہے کیا کوئی خدا سوچ رہا ہوں

 

تسلیم کہ رحمت تیری بے تاب ہے یا رب

کیا مانگوں مگر تجھ سے دعا سوچ رہا ہوں

 

انجان بنا بیٹھا ہے چارہ گرِ مخلص

اب کون کرے دل کی دوا سوچ رہا ہوں

 

مر جانا منظور بھی ہے، جینا بھی گوارا

کس بات میں ہے تیری رضا سوچ رہا ہوں

 

اب کے شبِ ہجراں کی سحر ہو نہ سکے گی

اے ملکۂ امید یہ کیا سوچ رہا ہوں

 

فاتح مجھے قدرت سے ملا ہے دلِ حساس

عادت سے ہوں مجبور سدا سوچ رہا ہوں

 

 

 

 

 

ذرا ہم تشنگی دل کی بجھا لیتے تو کیا ہوتا؟

ہمیں تم اپنے سینے سے لگا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

ہمیشہ اک ہمیں سے ہی نظر تم نے چرائی ہے

جہاں سے بھی کبھی نظریں چرا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

ہمیں موقع عطا ہوتا مقدر آزمانے کا

ہمارا پیار بھی تم آزما لیتے تو کیا ہوتا؟

 

بسا رکھا ہے جیسے رات دن دل میں تمھیں ہم نے

ہمیں تم اس طرح دل میں بسا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

جسے اہلِ زمانہ نام دیتے ہیں تکلف کا

وہ پردہ درمیاں سے ہم ہٹا لیتے تو کیا ہوتا

 

یہی ہوتا دلِ بیتاب کی کچھ آس بندھ جاتی

قسم دوبارہ آ ملنے کی کھا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

اے میرے گلبدن، اے شعلہ رخ تیری بدولت ہی

ذرا ہم انجمن اپنی سجا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

ہمارا یہ دلِ سادہ تمھیں اپنا سمجھتا ہے

ہمیں بھی تم اگر اپنا بنا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

ہمیں جب آہ بھرتے دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں

بڑے بے صبر ہو دل میں دبا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

ہمارے عشق پائیدار کا کچھ تو بھرم رہتا

ابھی کچھ اور ناز ان کے اٹھا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

شکیبائی تِری جاتی رہی کیوں اِس قدر جلدی؟

دلِ وحشی وہ جی بھرکر ستا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

نگارِ برق کو زحمت اٹھانا پڑ گئی یونہی

ہم اپنا آشیاں خود ہی جلا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

یہ آہنگِ سفر اور یہ تجس فوت ہو جاتا

ہم اپنی منزلِ مقصود پا لیتے تو کیا ہوتا؟

 

چلو اچھا ہوا فاتح غموں سے جان ہی چھوٹی

ہمیں وہ آ کے مرنے سے بچا لیتے تو کیا ہوتا

 

 

 

ہم نے کتنے رنج اٹھائے تم کیا جانو؟

جانِ تمنا! درد پرائے تم کیا جانو؟

 

جینا بھی دوبھر تھا مرنا بھی مشکل

ہجر میں کیا کیا لمحے آئے تم کیا جانو؟

 

چارہ سازو! رہنے دو یہ چارہ سازی

ہم نے کیا کیا صدمے پائے تم کیا جانو؟

 

ناصح صاحب تم چاہو میں بھولوں ان کو

ہر دم ان کی یاد ستائے تم کیا جانو؟

تم تو اپنے ہی مطلب کے رسیا ہو

کوئی مرتا ہے مر جائے تم کیا جانو؟

 

دل کو جلانے کی ہوتی ہے مشق عموماً

کیوں پیتی ہے دنیا چائے تم کیا جانو؟

 

کر تو لی تیاری تم نے جانے کی

کتنے غم کے بادل چھائے تم کیا جانو؟

 

غیر تو آخر غیر تھے ان کا ذکر ہی کیا

اپنوں نے جو زخم لگائے تم کیا جانو؟

 

تم تو دھوپ کی حدت سے محفوظ رہے

کتنے دلکش ہیں یہ سائے تم کیا جانو؟

 

ہم نے دنیا پر کیا کیا احسان کیے

کیا کیا ظلم جہاں نے ڈھائے تم کیا جانو؟

 

اب دنیا میں سب کچھ دھوکا لگتا ہے

ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے تم کیا جانو؟

 

جو فاتح کی غزلیں سن کر طاری ہے

وہ کیفیت ہائے ہائے تم کیا جانو؟

 

 

 

دردِ فرقت کا کچھ مداوا کر

غم کی شدت کا کچھ مداوا کر

 

یا لگا لے مجھے گلے یا پھر

میری چاہت کا کچھ مداوا کر

 

ہو نہ حیراں مثالِ آئینہ

میری حیرت کا کچھ مداوا کر

 

لاج رکھ لے میری توجہ کی

اپنی غفلت کا کچھ مداوا کر

 

کر منور میرے مقدر کو

میری قسمت کا کچھ مداوا کر

 

یا مجھے صبر و استقامت دے

یا مصیبت کا کچھ مداوا کر

 

یا زمانے کو نیک دل کر دے

یا شرافت کا کچھ مداوا کر

 

جو ہے برپا ہمارے سینے میں

اس قیامت کا کچھ مداوا کر

 

ہے مئے عشق تلخ تر پھر بھی

اِس کی لذت کا کچھ مداوا کر

 

دل کو محرومِ شوق کر یا پھر

میری عسرت کا کچھ مداوا کر

 

اپنی یادوں سے، اپنے جلووں سے

وقتِ فرصت کا کچھ مداوا کر

 

رات دن بے قرار ہے فاتح

اِس کی کلفت کا کچھ مداوا کر

 

 

 

 

 

تھا کون بے وفا ذرا خود ہی بتائیے

برباد کون ہو گیا خود ہی بتایئے

 

مجرم تھا کون پیار کا خود ہی بتایئے

کس کو مگر ملی سزا خود ہی بتایئے

 

کس دل نشیں نے شہرِ دل ویران کر دیا؟

اے دلنواز، دلربا خود ہی بتایئے

 

خود کو خیالِ یار میں کس نے بھُلا دیا

اے خود پسند، خودستا خود ہی بتایئے

 

بد عہد کون، وعدہ فراموش کون تھا؟

الفت میں کون مر مٹا؟ خود ہی بتایئے

 

کس کو وفورِ عشق نے دیوانہ کر دیا؟

پھرتا ہے کون خستہ پا؟ خود ہی بتایئے

 

تھا کون سنگ دل، کسے دنیا کا خوف تھا؟

اے کج خیال و کج ادا خود ہی بتایئے

 

کیا دے سکی ہے زندگی غم کے سوا مجھے؟

مانگوں نہ موت کی دعا خود ہی بتایئے؟

 

کیا ہاتھ آ گیا کسی مفلس کو لوٹ کر؟

دل توڑنے سے کیا ملا؟ خود ہی بتایئے

 

فاتح کہ جس کا ہر سخن تھا زعفران زار

کتنا ہے درد آشنا؟ خود ہی بتایئے

 

 

 

کسی کا پیار مِری زندگی کا حاصل ہے

یہ دکھ، یہ درد، یہ کاہش اسی کا حاصل ہے

 

یہ اضطراب مسلسل یہ بیقراریِ دل

نہیں یہ عشق تو کس بے کلی کا حاصل ہے

 

صلہ وفا کا ہے اک سوزِ جاوداں یارو

غمِ مدام، غمِ عاشقی کا حاصل ہے

 

یہ داغ داغ محبت یہ زخم زخم خلوص

تجھے بتاؤں تِری دوستی کا حاصل ہے

 

تِرا قصور نہیں ہے کہ یاس کی ظلمت

مِرے نصیب کی تیرہ شبی کا حاصل ہے

 

جنوں نے نام دیا جس کو بے نیازی کا

یہ رنج تِری اُسی بے رخی کا حاصل ہے

 

یہ میرا گریۂ پیہم، یہ حالِ بے تابی

مِرے خلوص، مِری سادگی کا حاصل ہے

 

چھپا لیا ہے اسے میں نے دامنِ دل میں

جو ایک راز تِری خامشی کا حاصل ہے

 

جو تیرے قرب کے نسبت سے یاد گار بنا

وہ وقتِ سعد مِری بندگی کا حاصل ہے

 

کیا ہے جس کو لبِ یار نے ادا فاتح

وہی تو شعر مِری شاعری کا حاصل ہے

 

 

 

 

 

لگے جب چوٹ سی دل پر مجھے تم یاد آتے ہو

جگر پر جب چلے خنجر مجھے تم یاد آتے ہو

 

قسم ہے جان و دل کی میں جہاں جاؤں، جہاں بیٹھوں

مِرے جاناں، مِرے دلبر مجھے تم یاد آتے ہو

 

نہیں ہے جب تمھارے دل میں میری یاد کا پرتو

مِرے محبوب کیوں اکثر مجھے تم یاد آتے ہو؟

 

تمھی ہمدرد ہو میرے، تمھی غمخوار ہو میرے

جو غم ہو روح کے اندر مجھے تم یاد آتے ہو

 

وہ نشہ دیدۂ مے گوں کا، مستی حسنِ رنگیں کی

لبوں سے جب لگے ساغر مجھے تم یاد آتے ہو

 

فراغت میں کروں دن بھر جتن میں تم سے ملنے کے

نہ آئے نیند تو شب بھر مجھے تم یاد آتے ہو

 

تمھی ہو چارہ گر میرے، تمھی میرے مسیحا ہو

بنا دیں جب الم پتھر مجھے تم یاد آتے ہو

 

مِری ویران آنکھوں کی تمھی ہو روشنی فاتح

کہیں کھاتا ہوں جب ٹھوکر مجھے تم یاد آتے ہو

 

 

 

 

 

نظر نظر سے ملاؤں اگر برا نہ لگے

تمھارے دل میں سماؤں اگر برا نہ لگے

 

مِرے حسین ستم گر، کبھی خموشی سے

تمھاری سوچ میں آؤں اگر برا نہ لگے

 

کروں بضد یہ گزارش ذرا ٹھہر جاؤ

تمھارے تھام کے پاؤں اگر برا نہ لگے

 

تمھاری سنگدلی سے گلہ نہیں لیکن

میں تم سے پیار جتاؤں اگر برا نہ لگے

 

تمھاری دید کو میں بیقرار ہوں کب سے

خوشی کے اشک بہاؤں اگر برا نہ لگے

 

حضورِ حسن میں کچھ یوں خراج پیش کروں

متاعِ شوق لٹاؤں اگر برا نہ لگے

 

یہ آرزو ہے تمھیں میں بیٹھا کے پہلو میں

حدیثِ عشق سناؤں اگر برا نہ لگے

 

نجانے کیوں ہے یقیں سا تمھارے ملنے کا

غریب خانہ سجاؤں اگر برا نہ لگے

 

اے میرے اجنبی ساتھی، تمھیں محبت سے

میں دوست کہہ کے بلاؤں اگر برا نہ لگے

 

میں اپنے ذہن میں، دل میں، جگر میں، آنکھوں میں

تمھارا حسن بساؤں اگر برا نہ لگے

 

اے میرے غنچہ دہن، عالمِ تصور میں

تمھیں گلے سے لگاؤں اگر برا نہ لگے

 

لگا گئے ہیں جو یارانِ مہربان فاتح

کبھی وہ زخم دکھاؤں اگر برا نہ لگے

 

 

 

 

 

اہلِ وفا اداس وفا سوگوار ہے

عشق و نیاز حسن و ادا سوگوار ہے

 

گلشن میں فصلِ گل میں بھی بت جھڑکا راج ہے

شبنم ہے اشک اشک صبا سوگوار ہے

 

افسردگی سی چہرۂ صحرا سے ہے عیاں

ماتم کناں ہے رعد، گھٹا سوگوار ہے

 

رہتی تھیں جس کے لب پہ سدا مسکراہٹیں

میں دیکھتا ہوں آج بڑا سوگوار ہے

 

ماحول پر محیط ہے حزن و ملال سا

کیا حادثہ ہوا کہ فضا سوگوار ہے

 

پہنا ہے کائنات نے پیراہنِ الم

سچ پوچھیے تو ارض و سما سوگوار ہے

 

یوں چور چور ہو گیا ہے دل کا آئینہ

محسوس ہو رہا ہے خدا سوگوار ہے

 

ہوتا ہے رنگ و بو سے بھی اظہارِ درد و رنج

ہر گل ہے سوگوار، حنا سوگوار ہے

 

روئے نہ کیوں کہ چاند بھی غم سے نڈھال ہے

کیوں سسکیاں نہ لے کہ ہوا سوگوار ہے

 

سورج ملول ہے مہ و انجم اداس ہیں

دیپک ہے غم سے چور ضیا سوگوار ہے

 

فاتح تِری نوائیں بھی مغموم آج ہیں

کچھ یوں جہانِ کرب و بلا سوگوار ہے

 

 

 

 

 

کتنے ہی درد و غم میرے دامن میں بھر گیا؟

وہ کون تھا جو مجھ کو پریشان کر گیا؟

 

لایا تھا کتنی راحتیں، کتنی مسرتیں!

کتنے ہی رنج دے کے وہ ظالم مکر گیا

 

یہ کیا کہ اور بڑھ گئیں کچھ تیرہ بختیاں

سمجھے تو تھے کہ اپنا مقدر سنور گیا

 

پوشیدہ منزلیں مجھے دینے لگیں سدا

جب بھی کبھی تھکا ہوا میں اپنے گھر گیا

 

کیا پوچھتا ہے تُو مِری بزمِ الم کا حال

خندہ بلب جو آیا وہ با چشمِ تر گیا

 

میں نے سمجھ لیا جسے بھی یارِ با وفا

مجھ کو تباہیوں کی وہ دے کے خبر گیا

 

دینا اے دوستو مِری دیوانگی کی داد

شامِ سیہ سے مانگنے نورِ سحر گیا

 

اک بھی نہ قدر داں ملا سارے جہان میں

اپنی متاعِ فن لئے میں در بدر گیا

 

آتی ہے قبرِ سرمد و منصور سے صدا

عاشق نہیں جو اہلِ زمانہ سے ڈر گیا

 

نکلے تھے گھر سے ہم تِرے جلوے سمیٹنے

شیرازۂ حیات ہی اپنا بکھر گیا

 

فاتح تھا جس کا نام تھا جو پیکرِ خلوص

کہتے ہیں لوگ آج وہ انسان مرگیا

 

 

 

 

 

مِری نوائیں، مِری وفائیں، مِری محبت بھلا نہ دینا

کہیں یہ اپنی خلوص و لطف و کرم کی عادت بھلا نہ دینا

 

غمِ جدائی ہو، دردِ فرقت ہو، سوز ہجراں ہو، چاہے کچھ ہو

لبوں پہ آہ و فغاں نہ لانا، رموزِ الفت بھلا نہ دینا

 

ہمارے مابین دوریوں سے نہ فرق ہو دل کی قربتوں میں

یہ سرمئی شام یاد رکھنا، یہ کیفِ قربت بھلا نہ دینا

 

بہت جتائے گی پیار دنیا مگر سمجھنا فریب اس کو

ہے میرا بے لوث پیارسچا یہ میری چاہت بھلا نہ دینا

 

کبھی وفا کا نہ خون کرنا اٹھا کے شمشیرِ بدگمانی

کسی کی بے چینیاں کہیں ہو کے محوِ راحت بھلا نہ دینا

 

نہ ہونے دینا محیط اس پر کبھی غموں کے مہیب سائے

یہ گھر تو ہے تیرے میرے دم سے مثال جنت بھلا نہ دینا

 

وہ فاتحِ بے نوا کہ ہے عشق تیرا سب کائنات جس کی

اسے کہیں ہو کے محوِ دنیا اے ماہ طلعت بھلا نہ دینا

 

 

 

 

 

کریں دل کو صراحی، چشم کو پیمانہ کر ڈالیں

نہ جانے ہم تمھارے عشق میں کیا کیا نہ کر ڈالیں

 

نہ اتنے رنج دے ہم کو نہ ڈھا اتنے ستم ہم پر

کہیں ہم خود کو وقفِ نشۂ صہبا نہ کر ڈالیں

 

بلا کی جاذبیت ہے تمھاری ان اداؤں میں

تمھاری شوخیاں دل کو مِرے شیدا نہ کر ڈالیں

 

گرا دے اپنے چہرے پر نقابیں اے حسیں پیکر

نگاہیں روئے زیبا کو تِرے میلا نہ کر ڈالیں

 

الٰہی مسکراہٹ سے بھرم رہ جائے الفت کا

کہیں بیتاب نظریں پیار کو رسوا نہ کر ڈالیں

 

جدا جن کیلئے ہم ہو گئے ہیں اک زمانے سے

یہ ڈر ہے ایک دن وہ بھی ہیں تنہا نہ کر ڈالیں

 

مدد کر اے شکیبائی کہ گھبرا کر یہ دیوانے

غمِ جاناں میں آنکھوں کو کہیں دریا نہ کر ڈالیں

 

ہمیں پابند رکھ ہر دم کہ مجبورِ جنوں ہو کر

سرِ بزمِ جہاں محشر کوئی برپا نہ کر ڈالیں

 

ہوس کیشوں کو لاحق ہے ابھی سے فکر، دل والے

جہاں میں جنسِ الفت کو کہیں سستا نہ کر ڈالیں

 

سنا ہے آج آیا چاہتا ہے چارہ گر اپنا

بتا اے بے خودی زخموں کو ہم گہرا نہ کر ڈالیں

 

 

 

 

اُس دستِ حنائی سے اک جام نہیں لوں گا

جب تک نہ ہیٹں زلفیں آرام نہیں لوں گا

 

میں عمر گزاروں گا ہر وقت تڑپنے میں

تسکین کا یاروں سے پیغام نہیں لوں گا

 

دکھ درد زمانے کے ہنس ہنس کے سہوں گا میں

اب گریہ و زاری سے میں کام نہیں لوں گا

 

مر جاؤں گا تشنہ میں دے دوں گا میں جاں اپنی

لیکن کبھی احساں کا انعام نہیں لوں گا

 

فاتح میرے پہلو میں جب یار نہیں ہو گا

وہ صبح نہیں لوں گا، وہ شام نہیں لوں گا

 

 

 

 

 

راحتیں جاں فزا ہزاروں ہیں

روح کو ابتلا ہزاروں ہیں

 

سی چکے ہیں لبوں کو ہم ورنہ

دل میں محشر بپا ہزاروں ہیں

 

تُو نے اک درد بھی نہیں بانٹا

دکھ تو اے بے وفا ہزاروں ہیں

 

تجھ میں جو بات ہے کہاں ان میں

شہر میں دلربا ہزاروں ہیں

 

اک تو ہوتا خلوص کا پیکر

حسن کے دیوتا ہزاروں ہیں

 

ایک محرم ہمیں نہیں ملتا

آپ کے آشنا ہزاروں ہیں

 

دل بھی دارالامان ہے جس میں

خواہشیں نا رسا ہزاروں ہیں

 

کوئی آواز کیوں نہیں آتی

پھول تو لب کشا ہزاروں ہیں

 

دوستو! کچھ مفر نہیں ممکن

عذر ہائے قضا ہزاروں ہیں

 

راہ کی ہے خبر یہاں کس کو

آج کل رہنما ہزاروں ہیں

 

کوئی کیا پاسدار حق بھی ہے

کفر کے ہمنوا ہزاروں ہیں

 

گر نہ جانیں تو اک خدا بھی نہیں

مان لیں تو خدا ہزاروں ہیں

 

آپ سا ہے مگر کہاں فاتح

یوں تو نغمہ سرا ہزاروں ہیں

 

 

 

 

کیا سے کیا ہو گیا

 

کبھی تھا باغ میرا، فصلِ گل میری، صبا میری

مِری مشتاق تھی شبنم، تمنائی گھٹا میری

عنادل معترف میرے ثنا خواں تھی حنا میری

چمن کا غنچہ غنچہ چاہتا تھا بس رضا میری

میں شاداں تھا کہ پاتی تھی سکوں ہر دم انا میری

جسے میں چاہتا تھا وہ مِرے درپن میں رہتا تھا

مِرا رشکِ قمر دلبر مِرے آنگن میں رہتا تھا

دلِ پُر آرزو الطاف کے گلشن میں رہتا تھا

نہالِ شوق لہراتا ہوا گلشن میں رہتا تھا

سرِبزمِ جہاں معیار ٹھہری تھی ادا میری

مگر اب انقلابِ وقت نے یہ دن دکھایا ہے

نہ وہ راحت کی مایا ہے نہ وہ زلفوں کی چھایا ہے

جسے میں ہم نفس اپنا سمجھتا تھا پرایا ہے

مکینِ دل نے قصرِ دل بصد تدبیر ڈھایا ہے

مگر وہ بے خطا ہے اور ساری ہے خطا میری

فسانہ بن گئیں اب تو وہ شامیں، وہ ملاقاتیں

وہ میری پیار کی باتیں، وہ اُس کی رسِ بھری باتیں

کہاں وہ ناز، وہ انداز، وہ مسکان، وہ گھاتیں

کہاں وہ قرب کے لمحے! کہاں وہ چاندنی راتیں!

یہی لگتا ہے جیسے مجھ سے قسمت ہے خفا میری

نہ دن کو چین آتا ہے نہ میں راتوں کو سوتا ہوں

الم جب حد سے بڑھتا ہے تو میں چھپ چھپ کے روتا ہوں

میں اپنے گریۂ خوں رنگ سے دامن بھگوتا ہوں

کسی کو کیا خبر کیوں حال سے بے حال ہوتا ہوں

مِری ہر سانس کہتی ہے یہی ہے انتہا میری

مرض الفت کا اک دن کام اپنا کر ہی جائے گا

کہ خاموشی سے بیمارِ محبت مر ہی جائے گا

یہی کہتے رہو تم زخم اک دن بھر ہی جائے گا

مگر فاتح یہ اپنا غم دمِ محشر ہی جائے گا

سنے گا داد رس دن یقیناً التجا میری

 

 

 

زمانہ مطلب پرست ہے، لوگ بے وفا ہیں، خیال رکھنا

یہ چاند چہرے، سراب صورت ہیں، کج ادا ہیں، خیال رکھنا

 

جنھیں ستاتے ہیں اہل دنیا، جو لٹ رہے ہیں، جو لٹ چکے ہیں

وہی ہیں مخلص، وہی مروت کے دیوتا ہیں خیال رکھنا

 

تم اپنا دامن بچا کے رکھنا، کہیں کسی سے الجھ نہ جائے

چمن میں گل بے لحاظ ہیں، خار نا سزا ہیں خیال رکھنا

 

ہمارے دل کی طرح انھیں بھی نہ بے خیالی میں توڑ دینا

تمھارے وعدے کسی کے جیون کا آسرا ہیں خیال رکھنا

 

تجھے قسم ہے تِری روش کی اے گردشِ وقت دھیرے دھیرے

یہی تو لمحے ہماری ہستی کا مدعا ہیں خیال رکھنا

 

بچھڑ گئے تو نہ پا سکیں گے کبھی یہ پھر گردِ کارواں بھی

مسافرِ شب شکستہ دل ہیں شکستہ پا ہیں خیال رکھنا

 

تمھاری بے اعتنائیاں ان کی جان لے لیں نہ اے مسیحا

مریضِ دل غم نصیب ہیں، درد آشنا ہیں خیال کھنا

 

کرا دیا اب انہیں جو خاموش پھر نہ بولیں گے زندگی بھر

کہ بعد مدت کے تیرے دیوانے لب کشا ہیں خیال رکھنا

 

جہاں میں اکثر فریب دیتی ہیں صورتیں ہوشیار رہنا

نظر جو آتے ہیں پارسا سے وہ نار سا ہیں خیال رکھنا

 

تم اپنی تدبیر کو ہی اے ہم صفیر سب کچھ سمجھ نہ لینا

امورِ عالم حقیقتاً تابعِ قضا ہیں خیال رکھنا

 

اُنھیں بصد اشتیاق سننا، انھیں بصد اہتمام پڑھنا

سخن ہمارے مثالِ جامِ جہاں نما ہیں خیال رکھنا

 

جو ٹیس اٹھتی ہے دل سے فاتح وہ شعر کا روپ دھارتی ہے

ہماری باتیں کسی تصنع سے ماورا ہیں خیال رکھنا

 

 

 

جو مجھ سے بصد صدقِ دل کر چکے ہو وہ قسمیں، وہ وعدے، فراموش کر دو

بھلا دو کہ تم ہی مِرے چارہ گر ہو، مِرے زخم گہرے، فراموش کر دو

 

ارے دیکھتے کیا ہو آؤ مِرے ہاں جگر میں سماؤ، نظر میں سماؤ

لگا لو گلے سے مجھے بے تکلف، مِرے سارے رتبے فراموش کر دو

 

تمھارا بدلنا بھی لازم ہے جاناں، کہ امروز بدلا ہوا ہے زمانہ

نکالو نئی راہ فردا کی تم بھی وہ ماضی کے رستے فراموش کر دو

 

نہ بیتے دنوں کو تصور میں لاؤ شبِ وصل کو عالمِ خواب سمجھو

وہ پر کیف صبحیں، وہ رنگیں شامیں، وہ جاں بخش لمحے، فراموش کر دو

 

اچانک اگر سامنا ہو بھی جائے گزر جاؤ چپ چاپ نظر یں چرائے

نہ تھا مجھ کو تم سے کبھی پیار جیسے مِرا پیار ایسے فراموش کر دو

 

نہ دہراؤ وہ دلنشیں داستانیں وہ مرغانِ دل اور اُن کی اڑانیں

کرو یاد فاتح بچپن کی باتیں، لڑکپن کے قصے فراموش کر دو

جنھیں حاصلِ زندگی جانتے ہو وہ سپنے سہانے فراموش کر دو

نہیں چاہیے مجھ کو تعبیر اُن کی وہ سب خواب سچے فراموش کر دو

 

ابھی ہے ذرا دور گردابِ الفت کھرچ ڈالو دل سے نقوشِ محبت

ابھی وقت ہے لوٹ جانا ہے ممکن وفا کے تقاضے فراموش کر دو

 

نہ لاؤ خیالوں میں ٹھنڈی پھواریں نہ گزری ہوئی پیار کی وہ بہاریں

گلوں کی وہ بھینی مہک بھول جاؤ میں صبا کے وہ جھونکے فراموش کر دو

 

نہ ظاہر کسی بات سے بے کلی ہو جگر چاہے چھلنی ہو لب پر ہنسی ہو

وہ دل توڑنے والا کہتا ہے مجھ سے وہ چوٹیں، وہ صدمے فراموش کر دو

 

کرو خود کو تیار بڑھتے ہوئے غم کے طوفاں کی خاطر، مِرے ہمنشینو

وہ راحت کے موسم، وہ پل پل تبسم، وہ خوشیوں کے میلے فراموش کر دو

 

حزیں دیکھ اُس کو نہ دینا دلاسے یہ کہہ دینا فاتح مرے دلربا سے

مِری غزلیں، نظمیں، مِرے مست نغمے، مِرے گیت دوہے، فراموش کر دو

 

 

 

 

 

یادرکھنا جب ہوئے تجھ سے جدا مر جائیں گے

ہم تِرے زنداں سے جب ہوں گے رہا مر جائیں گے

 

اس نے فرمایا کہ خوش رہنا ہمارے بعد بھی

روتے روتے ہم نے دھیرے سے کہا مر جائیں گے

 

مسکرائیں گی بہاریں کب ہمارے دشت میں

رات دن ہم سہتے سہتے رنج کیا مر جائیں گے

 

اپنے من میں کوچ کا کوئی ارادہ ہی نہیں

تیرے گلشن میں ہی اے جانِ صبا مر جائیں گے

 

صاحبو! بے حد ضروری ہے کہ اس دن سے ڈرو

دیویاں مر جائیں گی جب دیوتا مر جائیں گی

 

یہ جہاں فانی ہے، فانی اس کی ہر مخلوق ہے

پارسا مر جائیں گے سب ناپارسا مر جائیں گے

 

کیا کہا تم نے کہ ہے خاموش رہنا بھی محال

یہ بھی ہے امکان ہو کر لب کشا مر جائیں گے

 

موت سے دو چار کر سکتا نہیں ہم کو حریف

جب بھی پہنچے گا ہمیں حکمِ قضا مر جائیں گے

 

شمع کو مصلوب کرنے کاتو کچھ امکاں نہیں

بات اتنی ہے پتنگے بے خطا مر جائیں گے

 

جانتے پہلے تو دیتے ہم نہ بھولے سے دعا

دے رہے ہیں جن کو جینے کی دعا مر جائیں گے

 

اس طرح فاتح جو تیری بے رخی جاری رہی

دیکھنا اک دن تِرے غم آشنا مر جائیں گے

 

 

 

تِرے تخیل میں جی رہا ہوں، تِرے تصور میں جی رہا ہوں

جو آخری میل سے ملا تھا، اسی تاثر میں جی رہا ہوں

 

یہی بہاؤ، یہی روا رو، حوالہ ہے میری زندی کا

اِسی تسلسل میں جی رہا ہوں، اِسی تواتر میں جی رہا ہوں

 

حضور کوئی گلہ نہیں ہے، خدا ہے شاہد انا نہیں ہے

تِری رفاقت سے جو ملا ہے اسی تفاخر میں جی رہا ہوں

 

نہ یاس و حسرت سے آشنا ہوں، نہ رنج و حرماں میں مبتلا ہوں

اگر ہوں زندہ تو تیرے پیغام کے تناظر میں جی رہا ہوں

 

نہیں محبت کسی نظر میں، نہیں صداقت کسی خبر میں

یہی تو میرا کمال ہے جواِسی تکدر میں جی رہا ہوں

 

عجیب فاتح مِرا جہاں ہے، نہ کوئی محرم نہ راز داں ہے

اسی تعجب میں جی رہا ہوں اسی تحیر میں جی رہا ہوں

 

 

 

یہاں آشناؤں میں زندہ رہوں گا

وہاں اپسراؤں میں زندہ رہوں گا

 

پہن لوں گا سبزے کا ملبوس اخضر

گلوں کی قباؤں میں زندہ ہوں گا

 

مِرا داستانوں میں ہو گا حوالہ

وفا کی کتھاؤں میں زندہ رہوں گا

 

نیا روپ دھاریں گے گل ریز میرے

برستی گھٹاؤں میں زندہ رہوں گا

 

کبھی بین بن کر کبھی گیت بن کر

تمھاری صداؤں میں زندہ رہوں گا

 

مِرا کیا بگاڑے گی یہ دھوپ غم کی

محبت کی چھاؤں میں زندہ رہوں گا

 

اگرچہ نہ دوں گا دکھائی کسی کو

دلوں کی فضاؤں میں زندہ رہوں گا

 

کرے گی امر مجھ کو چاہت کسی کی

کسی کی وفاؤں میں زندہ رہوں گا

 

نہیں میں فراموش ہونے کا ہرگز

کسی کی دعاؤں میں زندہ رہوں گا

 

مجھے کب کوئی مار سکتا ہے فاتح

میں اپنی نواؤں میں زندہ رہوں گا

 

 

 

 

 

غم کی وادی رنج کی برسات پاگل کر گئی

ذہن کو سنگینیِ حالات پاگل کر گئی

 

کس قدر زیرک تھا انساں، کتنا دانش مند تھا

آدمی کو شدتِ جذبات پاگل کر گئی

 

معترف ہیں اپنے بیگانے میری دانائی کے

تیری چاہت اور تیری ذات پاگل کر گئی

 

اِس قدر ناداں نہ تھے یہ ایسے دیوانے نہ تھے

دل جلوں کو یورشِ حالات پاگل کر گئی

 

ہر ادا توبہ شکن تھی ہر روش ایماں ربا

شوخ کی فاتح ہمیں ہر گھات پاگل کر گئی

 

 

 

 

 

میرے محبوبِ نظر، اتنے پریشاں کیوں ہو

کس الم کا ہے اثر، اتنے پریشاں کیوں ہو

 

ہر پریشانی تمھاری دل و جاں پر لے لوں

کاش! ہو جائے خبر، اتنے پریشاں کیوں ہو

 

بولو کس دکھ نے کیا رونے پہ مجبور تمھیں

کس لئے نین ہیں تر اتنے پریشاں کیوں ہو

 

ہم نے مانا کہ شبِ ہجر ہے تاریک بہت

ہونے والی ہے سحر، اتنے پریشاں کیوں ہو

 

ایک عرصے سے رہا بند جو تم پر ساجن

کھلنے والا ہے وہ در اتنے پریشاں کیوں ہو

 

فلسفہ راحت و لذت کا بھلا ڈالا ہے

نیہوڑائے ہوئے سر اتنے پریشاں کیوں ہو

 

ہم جو ہیں، جان بھی دے دیں گے تمھاری خاطر

ہے تمھیں کس کا خطر، اتنے پریشاں کیوں ہو

 

حوصلہ ملتا ارادوں کو تمھارے دم سے

تم کہ تھے جانِ سفر اتنے پریشاں کیوں ہو

 

اتنا سنگینیِ حالات پہ گھبرانا کیا

تم کہ رکھتے ہو جگر اتنے پریشاں کیوں ہو

 

تم دکھا سکتے ہو ایسے میں کرشمہ کوئی

اے مِرے اہلِ ہنر اتنے پریشاں کیوں ہو

 

دیکھو دل میں کوئی اندیشہ نہ رہنے پائے

تم تو فاتح تھے نڈر، اتنے پریشاں کیوں ہو

 

 

 

ہمیں تھا جس کا شدید خدشہ، وہی ہوا ناں

وہ کر گیا دل کو ریزہ ریزہ، وہی ہوا ناں

 

بڑا خطرناک آدمی جو ہمیں لگا تھا

کیا ہے اس نے خراب و خستہ، وہی ہوا ناں

 

وہی تباہی، وہی دل و جاں کی بیقراری

برا رہا پیار کا نتیجہ، وہی ہوا ناں

 

جو اصل مجرم تھے بچ گئے ہیں بفیض دولت

ہوا ہے اک بے خطا پہ پرچہ، وہی ہوا ناں

 

ستم وہ ڈھائے گئے کہ توبہ، ہزار توبہ

تھا اُن سے جور و جفا کا خطرہ، وہی ہوا ناں

 

تجھے تھی امیدِ خیر ناحق صنم سے اپنے

لیا نہیں اس نے تیرا تحفہ، وہی ہوا ناں

 

جہاں میں رسوائی ہو گئی ہے محبتوں کی

بھڑک اٹھا ہے طلب کا شعلہ، وہی ہوا ناں

 

اُنہیں بھی چاہت نے سخت بے چین کر دیا ہے

ہمیں بھی کافی ہوا ہے صدمہ، وہی ہوا ناں

 

تمھارا فاتح جو شان و شوکت سے رہ رہا تھا

وہ آج پھرتا ہے پا برہنہ، وہی ہوا ناں

 

 

 

بڑا دلنشیں روح کا رابطہ ہے

یہ در اصل سب سے بڑا رابطہ ہے

 

پیامی بہت ہیں تمھارے ہمارے

عجب رابط ہے، گھنا رابطہ ہے

 

کبھی ٹوٹتی ہی نہیں دل کی دل سے

رہا اپنا قائم سدا رابطہ ہے

 

اسے توڑنے پر تلا ہے زمانہ

کسی سے جو اپنا ذرا رابطہ ہے

 

ہلا ڈالتی ہے جو عرشِ بریں کو

ہماری وہ آہِ رسا رابطہ ہے

 

کوئی کچا دھاگہ نہیں یہ مِری جاں

محبت بڑا دل کشا رابطہ ہے

 

خدا کی مدد کھینچنے کا ذریعہ

دعا رابطہ ہے، وفا رابطہ ہے

 

پرانے روابط بھی ہیں یاد لیکن

بہت معتبر گو نیا رابط ہے

 

بجا دوستی کے ہیں سارے روابط

سخن رابطہ ہے، نوا رابط ہے

 

ابھی رابطے دونوں باقی ہیں فاتح

فنا رابط ہے، بقا رابط ہے

 

 

 

 

 

تو ہمیں سوچتا ہم تجھے سوچتے

کاش اک دوسرے کے لئے سوچتے

 

بے نتیجہ رہیں ساری سوچیں مِری

کٹ گئی زندگی سوچتے سوچتے

 

یوں نہ ہوتے تباہی کے اس موڑ پر

صرف اپنے اگر فائدے سوچتے

 

اہلِ انصاف ہوتے اگر تم ذرا

ذات سے اپنی رہ کے پرے سوچتے

 

ہم تمھیں سوچتے سوچتے تھک گئے

تم نہ ہوتے اگر ہم کسے سوچتے

 

 

 

 

 

ہمیشہ ساتھ چلیں گے، قرار پایا تھا

جو دکھ ہیں مل کے سہیں گے، قرار پایا تھا

 

قدم بڑھائیں گے آگے رہِ محبت میں

کبھی نہ پیچھے ہیٹں گے، قرار پایا تھا

 

رہِ وفا میں کھرا پن کبھی نہ چھوڑیں گے

منافقت سے بچیں گے، قرار پایا تھا

 

ہمیشہ نیکی ہی اپنا شعار ٹھہرے گی

بدی کا ساتھ نہ دیں گے، قرار پایا تھا

 

جئیں گے ہم تو جئیں گے تلاشِ جاناں میں

اسی لگن میں مریں گے، قرار پایا تھا

 

پڑاؤ منزلِ مقصود پہ ہی ڈالیں گے

نہ درمیاں میں رکیں گے، قرار پایا تھا

 

نہ لب پہ لائیں گے فاتح! کبھی گلہ شکوہ

جفائیں سہہ کے ہنسیں گے قرار پایا تھا

 

 

 

ہم پر چسپاں

کتنے بہتاں

 

درد کا درماں

کر دو جاناں

 

ذہن پریشاں

آنکھیں ویراں

 

نائب یزداں

اچھا انساں

نین ہیں گریاں

صورت باراں

 

یار ہمارا

نیر تاباں

 

دل بے دل ہے

جان ہے بے جاں

 

وطن ہے اپنا

غیرت کنعاں

 

بڑھتا جائے

من کا طوفاں

 

ہجر میں جلنا

موت کا امکاں

دل میں کتنے

درد ہیں پنہاں

 

آپ کا فاتح

فاتحِ میداں

 

 

 

تِرے زاویے کئی اور بھی

مِرے آئینے کئی اور بھی

 

میں کہاں کہاں رہوں منتظر

تِرے راستے کئی اور بھی

 

تجھے محض ایک ملال ہے

مِرے سانحے کئی اور بھی

 

مجھے ایک درد بہت نہیں

مجھے رنج دے کئی اور بھی

 

مجھے ایک ذات کا آسرا

تِرے آسرے کئی اور بھی

 

نہیں سوز و ساز فقط یہاں

ہیں یہاں مزے کئی اور بھی

 

ہے خمارِ شوق بچا ہوا

تھے مجھے نشے کئی اور بھی

 

نہیں تین چار شکایتیں

ہیں مغالطے کئی اور بھی

 

تمھیں چند زخم دکھا سکا

لگے آبلے کئی اور بھی

 

نہیں صرف سادہ مزاج تم

یہاں لٹ گئے کئی اور بھی

 

تِرے ایک رنگ میں کھو گئے

تِرے روپ تھے کئی اور بھی

 

نہیں ایک شمع یہاں بجھی

دیئے دل بجھے کئی اور بھی

 

نہیں ایک فاتح بے نوا

یہاں مر مٹے کئی اور بھی

 

 

 

 

 

نہ کوئی بات سنے گا، ہمیں امید نہ تھی

خلوص مہنگا پڑے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

اِسی خطا پہ کہ رکھتے ہیں خامۂ صادق

ہمارا ہاتھ کٹے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

زہے یہ ناز، یہ تو قیر کہ سرِ مقتل

ہمارا سرہی سجے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

سنا تو تھا کہ وفا کا سفر مبارک ہے

نہ پاس کچھ بھی بچے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

ہمیں جو ایک مسیحا نفس نے بخشا ہے

وہ سوز جینے نہ دے گا ہمیں امید نہ تھی

 

وہ ایک شخص بنایا تھا ہم قدم جس کو

ہمیں تباہ کرے گا ہمیں امید نہ تھی

 

کئے تھے اتنے جتن جس کے قرب کی خاطر

وہ دور جا کے بسے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

ہمارا مقصدِ ہستی تھا جس کو اپنانا

ہمارا ہو نہ سکے گا ہمیں امید نہ تھی

 

خیال تھا کہ اڑائیں گے لوگ اپنی ہنسی

جنوں میں رنگ جمے گا ہمیں امید نہ تھی

 

یہ سوچتے تھے کہ وقتی ہے بارشِ گریہ

نہ نِیر سَیل تھمے گا ہمیں امید نہ تھی

 

برا کہا تھا جو غیروں نے کچھ ملال نہ تھا

خراب تو بھی کہے گا ہمیں امید نہ تھی

 

سبق دیا تھا ہمیں جس نے حق بیانی کا

ہمارے ہونٹ سئے گا ہمیں امید نہ تھی

 

وہ ہم سفر ہے ہمارا، ہمیں تھی خوش فہمی

قدم نہ اس کا اٹھے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

جگر کے پار اترتے ہیں صورتِ نشتر

توایسے شعر کہے گا ہمیں امید نہ تھی

 

عزیز ہم کو رہیں کامیابیاں جس کی

وہ شخص ہم سے جلے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

وہ غم کہ صورتِ درِ یتیم ہے فاتح

ہمارے ہاتھ لگے گا، ہمیں امید نہ تھی

 

 

 

 

 

ہمیں بنا کے رزقِ ریگ زار، وہ چلا گیا

تھا کوہ زاد، سوئے کوہسار، وہ چلا گیا

 

تھا معتبر مگر نہ قول کوئی بھی نبھا سکا

ہمیں تھا جس پہ اتنا اعتبار، وہ چلا گیا

 

جنونِ شوق میں لگا تھا بے مثال آدمی

ملا وہ ہمسفر تو دشت پار، وہ چلا گیا

 

وہ خوش لباس شخص تھا مگر نجانے کیا ہوا

قبا کو اپنی کر کے تار تار، وہ چلا گیا

 

اب اس کے بعد جیسے دور نفرتوں کا آ گیا

جو انجمن میں بانٹتا تھا پیار، وہ چلا گیا

 

بلا لیا تھا ہم نے چارہ ساز جان کر جسے

لگا کے دل پہ زخم بے شمار، وہ چلا گیا

 

عجیب شخص تھا کہ خود تو پتجھڑوں کی زد میں تھا

ہمیں دکھا کے رنگِ نو بہار، وہ چلا گیا

 

وہ امتحان لے رہا تھا کیا ہمارے زہد کا

ذرا نگاہیں کر کے ہم سے چار، وہ چلا گیا

 

کریں گے ناز کس کی دوستی پہ کس کے پیار پر

ہمیں تھا جس پہ اتنا افتخار، وہ چلا گیا

 

اجڑ رہا ہے آج گلشنِ خلوص، دوستو!

لگا تھا مہر کا جو پاسدار وہ چلا گیا

 

بغیر اس کے زیست ہے حقیر سی، فقیر سی

بنا تھا جو حیات کا وقار، وہ چلا گیا

 

اب اس کے بعد کون حرفِ زر فشاں لٹائے گا

قلم تھا جس کے پاس زرنگار، وہ چلا گیا

 

اسے بتایئے گا آئے جب وہ فاتحِ غزل

یہاں جو تھا تمھارا جاں نثار وہ چلا گیا

 

 

 

 

 

ہے محبت اک سفر بربادیوں کا سوچ لو

فیصلہ کرنے سے پہلے پھر ذرا سا سوچ لو

 

اس ڈگر پر جب چلے کوئی نہیں رہتا قرار

عشق و سرمستی کا رسوائی ہے گہنا سوچ لو

 

روگ لگ جائے گا من میں، سوز بھڑکائے گا آگ

نین جھیلوں سے بہیں گے اشک دریا سوچ لو

 

دل ستائے گا تمھیں کچھ بھی نہ بھائے گا تمہیں

ٹوٹ کر دنیا سے رہ جاؤ گے تنہا سوچ لو

 

پھر غموں کی دھند چھا جائے گی دل کے چار سو

یہ خوشی ہے چند گھڑیوں کا تماشا سوچ لو

 

تم کو صبح و شام پھر دل کی خلش تڑپائے گی

ہو نہ پائے گا غمِ جاں کا مداوا سوچ لو

 

چاہتوں کے پنتھ مشکل بھی ہیں ناہموار بھی

مشورہ میرا بھی ہے فاتح خدارا سوچ لو

 

 

 

 

 

کڑے دنوں میں وہ دلدار ساتھ چھوڑ گیا

بہت عزیز تھا جو یار ساتھ چھوڑ گیا

 

رہا شریک سفر میرا روزِ روشن تک

وہ درمیانِ شبِ تار ساتھ چھوڑ گیا

 

وہی اداسی وہی غم وہی ہے تنہائی

بنا تھا جو مرا غمخوار ساتھ چھوڑ گیا

 

تو ایسے شخص کی خاطر ہے کیوں حزیں اے دل

جو توڑ کر سبھی اقرار ساتھ چھوڑ گیا

 

وہ طوطا چشم تھا ظالم تھا بے مروت تھا

جو کر کے پیار کا انکار ساتھ چھوڑ گیا

 

اُسے تلاش تھی شاید کسی تونگر کی

مجھے سمجھ کے وہ نادار ساتھ چھوڑ گیا

 

میں بار بار مناتا رہا اسے فاتح

وہ نا سپاس تھا ہر بار ساتھ چھوڑ گیا

 

 

 

 

 

ہم نے کیا کیا عذاب دیکھے ہیں

رنج و غم بے حساب دیکھے ہیں

 

سرد آہوں کی آندھیاں پائیں

آنسوؤں کے چناب دیکھے ہیں

 

تھا ہمیں ذوق شوق چشموں کا

ہم نے اکثر سراب دیکھے ہیں

 

دشمنی کے فشار میں رہ کر

دوستی کے نصاب دیکھے ہیں

 

ہم نے سوچا تِرے حوالے سے

تیری نسبت سے خواب دیکھے ہیں

 

سامنے اُس پری شمائل کے

گلبدن آب آب دیکھے ہیں

 

مستیِ حسن و عشق میں سرشار

کاروانِ شباب دیکھے ہیں

 

روشنی روشنی ارے توبہ

مہ جبیں بے حجاب دیکھے ہیں

 

رنگ و نگہت کے قافلے دیکھے

لالہ رخ بے نقاب دیکھے ہیں

 

ہم نے شانہ بشانہ خوشیوں کے

حادثے ہم رکاب دیکھے ہیں

 

گردشِ وقت کا بھروسہ کیا

روز و شب انقلاب دیکھے ہیں

 

توڑ نظروں کے سحر کا نہ ملا

کتنے افراسیاب دیکھے ہیں

 

خود بھی ہم بے مثال تھے فاتح

لوگ بھی لاجواب دیکھے ہیں

 

 

 

 

 

صلے میں چاہت کے بے وفا نے مِری طرف بھیج دی تباہی

میں پھر بھی ناخوش نہیں، سمجھتا ہوں تحفۂ دوستی تباہی

 

میں اہلِ الفت ہوں اہلِ اخلاص ہوں توجہ کا ملتجی ہوں

گراں گزرتی ہے وہ بھی مجھ کو اگر کرے بے رخی تباہی

 

تُو میرا محبوب، میرا مطلوب ہے تجھے یہ خبر ہے ساجن

وصال تیرا کمال میرا تِری جدائی مِری تباہی

 

نہ حرف آئے گا تجھ پہ کوئی نہ شکوہ تقدیر کا کروں گا

گلے لگا لوں گا خامشی سے، تِری عطا کی ہوئی تباہی

 

یہی ہے اک فرق تو ہے موقع شناس انسان میں ہوں سادہ

تجھے ودیعت ہوئیں فتوحات اور مجھ کو ملی تباہی

 

وطن میں پردیس میں ذرا فرق میرے معمول میں نہ آیا

وہی اندھیرا، وہی اداسی، وہی خرابی، وہی تباہی

 

زمانہ مجھ سے یہ پوچھتا ہے تجھے محبت نے کیا دیا ہے

مجھے ملے میں غم و مصائب ملی ہے دیوانگی تباہی

 

کوئی بھی آساں نہیں ہے منزل جہاں میں جینا ہوا ہے مشکل

مذاق نقصاں وقار کا ہے غرور ہے روح کی تباہی

 

قصور دوراں کا بھی نہیں ہے، قصور جاناں کا بھی نہیں ہے

مِری ولادت سے پیشتر ہی مِرا مقدر بنی تباہی

 

نہیں مجھے کوئی خوف اس کا کہ یہ مروت کا لازمہ ہے

مِری شناسا ہے یہ پرانی نہیں کوئی اجنبی تباہی

 

وہ دیکھ کر میرا حال فاتح وفور عبرت سے کہہ اٹھے ہیں

مذاق سمجھے تھے ہم تو فاتح یہ عشق ہے واقعی تباہی

 

 

 

 

 

عمر بھر ہم رہے منتظر منتظر

اک صنم کے لئے منتظر منتظر

 

بعد مدت کے گزرے وہاں سے جو ہم

تو لگے راستے منتظر منتظر

 

تو نے اپنائی ہے کیا ادا جانِ من

دوستوں سے پرے منتظر منتظر

 

ایک دن بھی توجہ نہ کی شوخ نے

ہم رہے یار کے منتظر منتظر

 

ایک آشا رہی آخری عمر تک

زندگی بھر لگے منتظر منتظر

 

دل میں جتنی تڑپ ہو کسی کے لئے

تُو دکھائی نہ دے منتظر منتظر

 

پھر بھی فاتح نہ درشن عطا ہو سکے

ہم سدا رہ گئے منتظر منتظر

 

 

 

 

 

بہت بے رحم ہے موسم جدائی کا انھیں کہنا

خدارا اب دکھا جاؤ رخِ زیبا انھیں کہنا

 

تمھیں جن سے گلہ تھا خود سری کا، خود پسندی کا

تمھارے رنگ میں رنگے ہیں وہ سر تا پا انھیں کہنا

 

یہ مشکل دن گزر جائیں گے سکھ رت آ ہی جائے گی

ہمیشہ وقت اک جیسا نہیں رہتا انھیں کہنا

 

محبت کرنے والوں نے کبھی راہِ محبت میں

زیان و سود کی نسبت نہیں سوچا انھیں کہنا

 

اگر چاہت میں ناکامی ہوئی ہم جان دے دیں گے

سمایا ہے ہمارے سر میں یہ سودا انھیں کہنا

 

یہ ممکن ہے کہ اب تم بھی نہ درماں کر سکو اس کا

سمندر سے بھی ہے زخمِ جگر گہرا انہیں کہنا

 

یہ بہتر ہے انا کے خول سے باہر نکل آئیں

غمِ ہجراں ہمیں جینے نہیں دے گا انہیں کہنا

 

خطا پہلی عموماً بخش دی جاتی ہے دنیا میں

اگر ہو درگزر تو جرم ہے پہلا انہیں کہنا

 

اتر آئے ہو جن کے خوف سے ترکِ مراسم پر

یہی رسوائیاں ہیں پیار کا گہنا انہیں کہنا

 

ہماری تو یہ خواہش ہے کہ تم راضی رہو ہم سے

زمانے کی ہمیں کوئی نہیں پروا انھیں کہنا

 

بہت کچھ اہلِ دنیا اہلِ دل سے کہتے آئے ہیں

نہیں ہیں مورد الزام ہم تنہا انہیں کہنا

 

یہ سچ ہے، تلخ گو ہے، شوخ ہے، خود دار ہے فاتح

مگر یہ شخص دل کا تو نہیں کھوٹا انہیں کہنا

 

 

 

 

 

چاہت کے یہ دن رات فراموش نہ کرنا

یہ عہد، یہ جذبات فراموش نہ کرنا

 

ہے آپ کو فرقت کے شب و روز کی سوگند

یہ وصل کے لمحات فراموش نہ کرنا

 

دل میں غمِ دنیا کو جگہ دینے سے پہلے

تکمیلِ غمِ ذات فراموش نہ کرنا

 

مسکان رہے کھیلتی ہونٹوں پہ تمھارے

اشکوں کی یہ برسات فراموش نہ کرنا

 

چاہیے تمھیں ہر عشرتِ ہستی ہو میسر

سنگینیِ حالات فراموش نہ کرنا

 

ممکن ہے کہ حاصل ہو محبت میں خوشی بھی

اندیشۂ صدمات فراموش نہ کرنا

 

اقوالِ مشاہیر بھی ازبر رہیں لیکن

قرآن کی آیات فراموش نہ کرنا

 

جس منصبِ عالی پہ بھی فائز رہو فاتح

اپنی کبھی اوقات فراموش نہ کرنا

 

 

 

 

 

جس کو مِری تذلیل کا احساس نہیں تھا

وہ اور نہ تھا کوئی مِرے دل کا مکیں تھا

 

برساتا رہا مجھ پہ وہ نفرت کے شرارے

جو میری نظر میں مِری چاہت کا امیں تھا

 

معلوم نہ تھا دل میں وہ رکھتا ہے کدورت

جب ہاتھ ملایا تھا تو با خندہ جبیں تھا

 

جس شخص کے ہونٹوں پہ مچلتا تھا تبسم

اس بار ملا تھا تو وہ کس درجہ حزیں تھا

 

لے آئیں مجھے تیری عنایات یہاں تک

میں ورنہ کہاں لائقِ فردوسِ بریں تھا

 

در آتا بھلا کیسے کوئی غیر تخیل

دل میں میرے بیٹھا ہوا اک پردہ نشیں تھا

 

ہے اب بھی تصور میں مِرے چاند کا چہرہ

تھا رات کا فرزند مگر کتنا حسیں تھا

 

ہر جرم لیا جاں پہ بلا شرکتِ غیرے

گوپاس مِرے حیلۂ ابلیسِ لعیں تھا

 

ہاں اس لئے میں زندہ رہا موت کے منہ میں

تُو لوٹ کے آئے گا مجھے اس کا یقیں تھا

 

اس وقت بھی میں حق کا طرف دار تھا فاتح

جس وقت کا حاکم بھی مِرے حق میں نہیں تھا

 

 

 

اس قدر شدت سے اے جانِ وفا سوچا نہ کر

زرد پڑ جائے نہ چہرہ چاند سا سوچا نہ کر

 

ہے تیرے ہی دم قدم سے میرے گلشن کی بہار

بے دھڑک آ جایا کر جانِ صبا سوچا نہ کر

 

کر لیا کر اپنے آرام و سکوں کا بھی خیال

اپنے دیوانے کے بارے میں سدا سوچا نہ کرنا

 

کیوں خیالِ غیر آئے درمیانِ دوستاں

کیا کہیں گے یہ جہاں والے ذرا سوچا نہ کر

 

رکھ لیا ہے بحرِ الفت میں قدم تو خوف کیا

ہو گا اپنے پیار کا انجام کیا سوچا نہ کر

 

تیرا آ جانا ہی کافی ہے اے میرے چارہ ساز

اور درماں کوئی میرے درد کا سوچا نہ کر

 

ہو سکے تو روز اذنِ دید بخشا کر مجھے

کچھ علاجِ زخمِ دل اس کے سوا سوچا نہ کرنا

 

دیکھ ہم دونوں محبت میں شریک جرم ہیں

کون ہے معصوم کس کی ہے خطا سوچا نہ کر

 

یہ تو فاتح فیصلے ہیں گردشِ ایام کے

لوگ بن جاتے ہیں کیوں نا آشا سوچا نہ کر

 

 

 

بہت مشکل محبت کا سفر ہے جاگتے رہنا

کٹھن بے حد وفا کی رہ گزر ہے جاگتے رہنا

 

چلا ہے کچھ نیا اس راستے پر کارواں اپنا

کمیں گاہوں سے بالکل بے خبر ہے جاگتے رہنا

 

رہے ہو جادہ پیما سارا دن جس کی تمنا میں

وہ منزل صبح کی دہلیز پر ہے جاگتے رہنا

 

ہمیں اس رات بھی ہر حال میں بیدار رہنا ہے

اگرچہ ساتھیو دشوار تر ہے جاگتے رہنا

 

اسے پانے کی راحت میں کہیں غافل نہ ہو جانا

خزانہ سانپ کے زیرِ اثر ہے جاگتے رہنا

 

سحر دم آفتیں ٹل جائیں گی خطرات کم ہوں گے

سمجھنا یوں کہ ہونے کو سحر ہے جاگتے رہنا

 

جو آنکھیں مند گئیں منظر سہانے روٹھ جائیں گے

وہ فاتح سامنے ساجن کا در ہے جاگتے رہنا

 

 

 

ہمیں تیرے لئے اے نامہ بر ہے جاگتے رہنا

ہماری آس کی روشن سحر ہے جاگتے رہنا

 

کمربستہ ہے شب خوں مار نے پر تم اگر سوئے

عدو رکھے ہوئے تم پر نظر ہے جاگتے رہنا

 

تمھارے عشق سے نسبت ہے میری بے قراری کو

تمھاری چاہتوں کا ہی ثمر ہے جاگتے رہنا

 

ہمیں ان رت جگوں پر ناز ہے فنکار ہیں ہم بھی

کسے معلوم اک نازک ہنر ہے جاگتے رہنا

 

ذرا بھی بند کیں آنکھیں تو جیون ہار بیٹھو گئے

مسافت یہ نہایت پر خطر ہے جاگتے رہنا

 

سدا بے خواب رہنے سے بدن بے تاب ہو تو ہو

ہمیں ہر حال میں فاتح مگر ہے جاگتے رہنا

 

بارہا ڈوب گئے تارے ابھرنے والے

ہم نہیں چرخِ مصائب سے اترنے والے

 

ایک تجھ ہی سے ہیں وابستہ بہاریں اس کی

بن کے بیگانہ مِرے گھر سے گزرنے والے

 

آ بھی جاؤ کہ امیدوں کے حسیں شیش محل

کرچیاں بن کے فضا میں ہیں بکھرنے والے

 

موت کے بعد بھی آنکھوں کے دریچے وا ہیں

دیکھ اے عہدِ وفا کر کے مکرنے والے

 

یہ تِرے پاس جو بیٹھے ہیں تماشا ئی ہیں

مر گئے کب سے تِرے نام پہ مرنے والے

 

کیوں نہ اکسیر ہو کتنا ہی یہ مرہم تیرا

چارہ گر زخم ہمارے نہیں بھرنے والے

 

زلفِ پُر پیچ و پریشاں بھی سنور جاتی ہے

پر نہیں گیسوئے حالات سنورنے والے

 

ہم تو مشتاق ہیں آغوش میں لے لے آ کر

ناصحو! اور ہیں وہ موت سے ڈرنے والے

 

مطمئن دل ہو تو دنیا سے نہ ڈریئے فاتح

لوگ تو ویسے بھی ہیں تہمتیں دھرنے والے

 

 

 

وقفِ گناہ جب مِرے شام و سحر نہ تھے

پوشیدہ چشمِ دہر سے میرے ہنر نہ تھے

 

دنیا میں اہلِ علم و ہنر دب کے رہ گئے

آگے بڑھے جو صاحبِ فکر و نظر نہ تھے

 

کاوش کے باوجود ہم محروم رہ گئے

منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

 

اس میں تھی مصلحت کہ ہم خاموش رہ گئے

ورنہ تِرے فریب سے ہم بے خبر نہ تھے

 

صد حیف آج بن گئے ہمدرد و رہنما

وہ لوگ جو کسی طرح بھی معتبر نہ تھے

 

افسوس دستِ مرگ نے ان کو اچک لیا

اہلِ جہاں کے واسطے جو دردِ سر نہ تھے

 

سمجھا تھا زندگی کو میں پھولوں کی سیج ہے

جب رنج و درد و غم مِرے پیشِ نظر نہ تھے

 

جتنے دیئے ہیں دکھ ہمیں تیرے جہان نے

اتنے گناہ گار ہم اے داد ور نہ تھے

 

آتے ہیں خوب یاد وہ ایامِ زندگی

آلامِ روز گار جب دردِ جگر نہ تھے

 

احسان کر کے آپ نے نادم کیا ہمیں

ہم داد کے تو مستحق اے داد گر نہ تھے

 

روشن جہاں تھا جلوۂ حسنِ حبیب سے

جب اس کے حسن میں ڈھلے شمس و قمر نہ تھے

 

چھانا ہے اس نے کائنات ممکنات کو

مرغِ خیال کے اگرچہ بال و پر نہ تھے

 

فاتح تِرا فسانۂ غم کون سن سکا

کتنے تھے ایسے لوگ جو با چشمِ تر نہ تھے

 

 

 

 

 

چلو یارو صراطِ عشق پر آہستہ آہستہ

کہ طے ہوتا ہے یہ مشکل سفر آہستہ آہستہ

 

حضورِ حسن میں تیزی نہیں چلتی، نہیں چلتی

پیام ان کو سنانا نامہ بر آہستہ آہستہ

 

انھیں بوچھاڑ سے نفرت ہے رم جھم ان کو بھاتی ہے

بہا آنسو مگر اے چشمِ تر آہستہ آہستہ

 

نہ ہو تو اس قدر مایوس اے میرے دلِ ناداں

مِرے حالات جائیں گے سنور آہستہ آہستہ

 

مجھے بخشا ہے جو غم آپ نے اس غم کی برکت سے

ہوئے جاتے ہیں سب غم بے اثر آہستہ آہستہ

 

یقیناً گوش دل سے آپ نے بھی سن لیا ہو گا

پکارا جب کسی نے رات بھر آہستہ آہستہ

 

شرابِ وصل سے مجھ کو نہ رکھ محروم اے ساقی

بڑھا جاتا ہے میرا دردِ سر آہستہ آہستہ

 

فقط اک خوگرِ جور و جفا ہی رہ گیا باقی

چھٹے سب سے تِرے دیوار و در آہستہ آہستہ

 

یہ مر مر کر مِرا جینا یہ جی جی کر مِرا مرنا

ہوا جاتا ہوں یونہی میں امر آہستہ آہستہ

 

تِرے ناراض ہو جانے کا ڈر جب سے تسلط ہے

ہوئے اس دل سے رخصت سارے ڈر آہستہ آہستہ

 

کسی آزاد کو یکسر جکڑ لینا نہیں اچھا

اگر پابند کرنا ہے تو کر آہستہ آہستہ

 

کوئی شاداں، کوئی گریاں، کوئی حیراں نہ ہو جائے

مجھے بے شک برا کہئے مگر آہستہ آہستہ

 

اسیرِ حلقۂ گیسو ہوئے ہیں جب سے ہم فاتح

ملی ہے خاک میں سب کر و فر آہستہ آہستہ

 

 

 

 

 

جب نہیں ہے خود مجھے گردن کٹانے سے گریز

آپ کیوں کرتے ہیں پھر خنجر چلانے سے گریز

 

ہر گھڑی رہتا ہوں میں جب آپ ہی کا منتظر

آپ کیوں کرتے ہیں میرے پاس آنے سے گریز

 

کتنے دلکش ہیں یہ گل ہائے تبسم آپ کے

میرے مرقد پر نہ کرنا مسکرانے سے گریز

 

یہ وہ شیشہ ہے اگر ٹوٹے تو جڑ سکتا نہیں

کیجئے ہر دم کسی کا دل دکھانے سے گریز

 

جوش میں ہے آج شوقِ وصل اے جانِ وفا

آپ کو کرنا پڑے گا جلد جانے سے گریز

 

آزما لینا بھی اچھا ہے مگر چند ایک بار

کیجئے لیکن مکرر آزمانے سے گریز

 

آدمی کو چاہیے احسان ہی کرتا رہے

جتنا ممکن ہو کرے ناحق ستانے سے گریز

 

دل کسی کا توڑنا اچھا نہیں ہے دوستو

جتنا ممکن ہو کرے ناحق ستانے سے گریز

 

صاحبِ ہمت ہیں جو کرتے ہیں اصلاحِ جہاں

پست ہمت ہیں جو کرتے ہیں زمانے سے گریز

 

در حقیقت منع کرتا ہے انھیں ان کا غرور

وہ جو کرتے ہیں مجھے فاتح بلانے سے گریز

 

 

 

 

 

کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ میں رویا نہیں

اشک نے لیکن ابھی تک داغِ دل دھویا نہیں

 

ہو رہے ہیں ہر قدم پر اب مِرے پاؤں فگار

میں نے رستے میں سوا کانٹوں کے کچھ بویا نہیں

 

کون ہے جس کو مِری بربادیوں کا غم نہیں

کون ہے جو سن کے میرا حالِ غم رویا نہیں

 

کیوں تجھے حیرت ہے میری کاوشِ تسکین پر

کون ہے جو دہر میں آرام کا جویا نہیں

 

وہ مزے لے لے کے مجھ کو گالیاں دیتا رہا

میں نے ٹوکا تو کہا میں آپ سے گویا نہیں

 

کون ہے جو بچ سکا دنیا کے ظالم ہاتھ سے

کون ہے جس نے جہاں میں کچھ نہ کچھ کھویا نہیں

 

پوچھتے ہو حال کیا تم فاتحِ بیمار کا

آنکھ جس دن سے لگی ہے چین سے سویا نہیں

 

 

 

دیتا ہوں جان میں تِری غفلت کے باوجود

مجھ سے خفا ہے تو مِری الفت کے باوجود

 

قلبِ غنی بسیط ہے قلت کے باوجود

ہے قلبِ شوم تنگ تر کثرت کے باوجود

 

آتا ہوں میں تو گردش دوراں کو ٹال کر

ملتا نہیں ہے تو مگر فرصت کے باوجود

 

اندیشۂ فراق یا یادِ فراق ہے

آیا نہیں سکوں تِری قربت کے باوجود

 

کیا پوچھتے ہو میں تو وہ سائل ہوں اے ندیم

خوئے طلب نہیں جسے حاجت کے باوجود

 

کانٹے کی اک چبھن پہ تم یوں چیخنے لگے

میں چپ ہوں دل کے درد کی شدت کے باوجود

 

ہے پہنچنا اگر سرِ منزل تو دوستو

پیہم قدم بڑھاؤ ہر دقت کے باوجود

 

دینا مِرے خدا مِری محنت کشی کی داد

کاٹی ہے زندگی بری قسمت کے باوجود

 

ملبوس چاک چاک ہے دل زخم زخم ہے

فاتح میں ہنس رہا ہوں اس حالت کے باوجود

 

 

 

جسے میں اپنا انیس و رفیق سمجھا تھا

وہ شخص بھی مِرے جذباتِ دل سے کھیلا تھا

 

وہ شخص جس کی عنایات صَرفِ غیر ہوئیں

کبھی وہ میرے لئے بھی اداس ہوتا تھا

 

جسے فسردہ نہ کرتی تھیں محفلیں غم کی

وہ آج بزمِ طرب میں ملول بیٹھا تھا

 

حواس باختہ تُو نے اسے قرار دیا

جو دلنواز تصور میں تیرے ڈوبا تھا

 

تِری نگاہ کے نشتر نہ پا سکے اس کو

تِرے خیال سے بھی میرا زخم گہرا تھا

 

مریضِ عشق تڑپتا تھا کس تسلسل سے

نہ آپ دیکھنے آئے عجب تماشا تھا

 

یہ سچ ہے ظلم و ستم بے حساب تھا تیرا

میں چپ رہا کہ وفا کا یہی تقاضا تھا

 

خدا کا شکر ہے پھر بھی نہ ہم ہوئے رسوا

بتوں سے اپنا تعلق بڑا پرانا تھا

 

کی اس نے اشک فشانی بھی، غنچہ باری بھی

مِرے مزار پہ فاتح یہ کون آیا تھا

 

 

 

التماسِ وصال کر بیٹھے

کتنا مشکل سوال کر بیٹھے

 

بے مروت سے دوستی کر کے

اپنا جیون وبال کر بیٹھے

 

یوں بھی ہم بے مثال انساں تھے

کام بھی بے مثال کر بیٹھے

 

کارنامہ عظیم ہے یہ بھی

شانِ رفتہ بحال کر بیٹھے

شمع کو چھوڑ آئے پروانے

تم جو گھونگھٹ نکال کر بیٹھے

 

ہم نہیں جانتے کہ بھولے سے

تم بھی کیا کیا کمال کر بیٹھے

 

زیست مشکل ہے مہ جبیں سے کہو

اپنا دامن سنبھال کر بیٹھے

 

جو سمجھتے تھے نرم دل خود کو

کتنے گل پائے مال کر بیٹھے

 

خود بھی ہلکان ہو گئے فاتح

اور انھیں بھی نڈھال کر بیٹھے

 

 

 

اڑتے پتے تھے ہم دونوں

یکجا ٹھہرے تھے ہم دونوں

 

دنیا کی پروا کیا کرتے

عشق میں ڈوبے تھے ہم دونوں

 

چل نہیں پائے پریم نگر میں

شاید کھوٹے تھے ہم دونوں

 

مر گئے لیکن ہار نہ مانی

شوق میں سچے تھے ہم دونوں

 

کوئی مناتا تو من جاتے

مفت میں روٹھے تھے ہم دونوں

 

دنیا نے دیوانہ جانا

یاد میں کھوئے تھے ہم دونوں

 

پہلی بار شبِ فرقت میں

کیسے تڑپے تھے ہم دونوں

 

بعد ملن کے ہجر تھا فاتح

ملنے آئے تھے ہم دونوں

 

 

 

 

 

جنونِ شوق کی جولانیاں مجھے دے دے

اتھاہ دریا کی طغیانیاں مجھے دے دے

 

اجالنی ہے جو تو نے شب حیات مِری

تو اپنی زلف کی تابانیاں مجھے دے دے

 

شعور اپنا لٹا دوں میں تیرے قدموں پر

جو تیرے پاس ہیں نادانیاں مجھے دے دے

 

یہ دل ہے تجھ سے طلب گار ایک تحفے کا

تو اپنی ساری پریشانیاں مجھے دے دے

 

اے میرے دوست نہیں کچھ گلہ مجھے تجھ سے

تمام اپنی پشیمانیاں مجھے دے دے

 

تیرے بغیر مجھے زندگی لگے مشکل

تو چاہے جتنی بھی آسانیاں مجھے دے دے

 

سخن کے لعل و جواہر فدا کروں تجھ پر

تو اپنے جلوؤں کی ارزانیاں مجھے دے دے

 

وہاں سے گزروں تو فاتح یہ دشت کہتا ہے

کہ اپنی آنکھوں کی ویرانیاں مجھے دے دے

 

 

 

 

 

جہاں بھی تم ہوئے میری محبت کھینچ لائے گی

تمھیں میری وفا میری مروت کھینچ لائے گی

 

کہیں تم پھنس گئے جب چکروں میں اہلِ دنیا کے

وہاں سے بھی میری بے لوث الفت کھینچ لائے گی

 

جہاں اہلِ جہاں راہیں تیری مسدود کر دیں گے

پکڑ کر تیرا بازو میری چاہت کھینچ لائے گی

 

بطورِ خاص جب درشن کرانے تم نہ آؤ گے

تمھیں کوئی طلب کوئی ضرورت کھینچ لائے گی

 

ہلا دوں گا میں بھر کے سرد آہیں آسمانوں کو

نہ تم جب یونہی آؤ گے تو حاجت کھینچ لائے گی

 

مجھے ہے عشقِ صادق پر بھروسہ، ایک دن تجھ کو

مِری محفل، مِرے فن کی ریاضیت کھینچ لائے گی

 

مجھے کامل یقیں ہے ایک دن جانِ غزل تم کو

مِری پرسوز دیرینہ رفاقت کھینچ لائے گی

 

تمھیں بے چین کر دے گی ہماری آرزو فاتح

ہمارے سچے جذبے کی تمازت کھینچ لائے گئی

 

 

 

 

 

تم روح کے مہماں ہو کیوں مجھ سے گریزاں ہو

محبوب دل و جاں ہو کیوں مجھ سے گریزاں ہو

 

جیون ہے کٹھن تم بن تفریق ہے نا ممکن

ساقی ہو نگہباں ہو کیوں مجھ سے گریزاں ہو

 

تم سے ہے بقا اپنی، گل اپنے، صبا اپنی

رشکِ چمنستاں ہو کیوں مجھ سے گریزاں ہو

 

اے پیکرِ زیبائی ہے تم سے ہی رعنائی

تم جانِ بہاراں ہو کیوں مجھ سے گریزاں ہو

 

کر لے گا زمانہ کیا کرتے ہو بہانہ کیا

دنیا سے ہراساں ہو کیوں مجھ سے گریزاں ہو

 

مرغوب مجھے تم ہو، مطلوب مجھے تم ہو

تم ہی مِرے جاناں ہو کیوں مجھ سے گریزاں ہو

 

کچھ بھی وہ نہیں بولے پوچھا ہے بہت ان سے

کیوں مجھ سے گریزاں ہو، کیوں مجھ سے گریزاں ہو

 

 

 

 

 

محبت میں سب کچھ لٹا ؤ تو مانیں

ہماری طرح دکھ اٹھاؤ تو مانیں

 

تمھاری تمنا میں ہم کھو چکے ہیں

ہمارا کہیں کھوج پاؤ تو مانیں

 

جہاں سے ہے جس کا چھپانا ضروری

وہی بات سب کو بتاؤ تو مانیں

 

تمھارے لئے ہم سجاتے رہے ہیں

ہمارے لئے گھر سجاؤ تو مانیں

 

ہماری وفا سے گریزاں رہے ہو

رقیبوں سے دامن بچاؤ تو مانیں

 

تمھیں داد صبر و تحمل کی ہم دیں

ستم سہہ کے تم مسکراؤ تو مانیں

 

بتوں کے لئے سر جھکاتے رہے ہو

خدا کے لئے سرجھکاؤ تو مانیں

 

سرِ انجمن روز فاتح کی صورت

غزل تم بھی تازہ سناؤ تو مانیں

 

 

 

دنیا کے حادثات نے بے تاب کر دیا

غم کی سیاہ رات نے بیتاب کر دیا

 

پہلے تو التفات نے بیتاب کر دیا

پھر ترکِ التفات نے بیتاب کر دیا

 

کچھ ان کے واقعات نے بیتاب کر دیا

کچھ دل کی واردات نے بیتاب کر دیا

 

ہم عرفِ عام میں جسے کہتے ہیں زندگی

اس نقشِ بے ثبات بیتاب کر دیا

 

ہنگامۂ حیات کو سمجھے تھے خوشگوار

ہنگامۂ حیات نے بیتاب کر دیا

 

خواہش کریں گے ہم دلِ بے خواہشات کی

گر دل کی خواہشات نے بیتاب کر دیا

 

تھا اپنے دل کی پختگی پر ناز کس قدر

اک چہل، ایک گھات نے بیتاب کر دیا

 

اک وہ کہ جن کی مٹھی میں رہتی تھی کائنات

اک ہم کہ کائنات نے بیتاب کر دیا

 

تسلیم کس طرح کرے فاتح تمھیں جہاں

جب تم کو ایک مات نے بیتاب کر دیا

 

مِرے لالہ رخ مِرے مہ جبیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

تو ہے میرے حال پہ کیوں حزیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

مِری زندگی کو جوڈس گیا دیا زخم جس نے نیا نیا

کوئی سانپ تھا تہِ آستیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

مِرے حال پر مِری قال پر وہ جو معترض رہا عمر بھر

تھا کوئی مخالفِ نکتہ چیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

وہ رفیق ہے کہ رقیب ہے وہ مِرا ہی اپنا نصیب ہے

یہ نصیب نے ہی سزائیں دیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

میں ترا سپاس گزار ہوں میں وفا کا آئینہ دار ہوں

مِرے ہم نفس دمِ واپسی مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

تِرے دم سے میری بہار ہے مِری زیست کا بھی نکھار ہے

مِری بزمِ ذات کے ہمنشیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

تِری چاہتوں کا امین ہوں تِری الفتوں کا رہین ہوں

تِرے پیار کا مجھے ہے یقیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

میں تِرے خلوص کا قدر داں تِری دوستی ہے مِرا جہاں

مِرے مہرباں مِرے ناز نیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

اجی تُو کہ فاتحِ شوق ہے مِرا ذوق ہے مِرا طوق ہے

مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں، مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں

 

 

 

 

ہے دل میں درد غضب کا مِرے قریب رہو

اے میرے رشکِ مسیحا مِرے قریب رہو

 

تمھاری دید سے من کو سکون ملتا ہے

لئے یہ چہرۂ زیبا مِرے قریب رہو

 

ہے میری آنکھوں کی ٹھنڈک تمھاری صورت میں

نہ جاؤ حسنِ سراپا میرے قریب رہو

 

تمھاری ذات مِری کائنات ٹھہری ہے

خدارا گوہرِ یکتا مِرے قریب رہو

 

کہیں ہلاک نہ کر دے یہ روگ فرقت کا

دوا ہے قرب تمھارا میرے قریب رہو

 

پھراس کے بعد چلے جانا کون روکے گا

ہے التجا کہ ذرا سا مِرے قریب رہو

 

تمھارا قرب طبیعتِ بحال کرتا ہے

مریض کا ہے تقاضا مِرے قریب رہو

 

تمھاری سخت ضرورت ہے اے مِرے فاتح

تڑپ رہا ہوں اکیلا مِرے قریب رہو

 

ایمان ہے توشہ مِرا

احسان ہے ترکہ مِرا

 

اے مہ جبیں تیرے بناں

کٹتا نہیں لحظہ مِرا

 

ہو اذن تو بھیجوں تجھے

میرا سخن تحفہ مِرا

 

تو ہی ذرا تسکین دے

تھمتا نہیں گریہ میرا

 

تم سے بچھڑ جاؤں گا جب

سمجھو گے تب رتبہ مِرا

 

مدھم ہے میری روشنی

ہے منجمد سلفہ مِرا

 

دانش مِری جاگیر ہے

عرفان ہے ورثہ مِرا

 

ناحق منایا ہے برا

بے جا نہ تھا شکوہ مِرا

 

فاتح انوکھی ہے خبر

لوگوں کو ہے صدمہ مِرا

 

 

 

ہمارا حال مت پوچھو ہمارا حال نازک ہے

نگاہِ غورسے دیکھو ہمارا حال نازک ہے

 

انھیں اپنی ہی مستی خود پر ستی سے نہیں فرصت

ذرا پروا نہیں ہے جو ہمارا حال نازک ہے

 

نہیں کوئی گلہ شکوہ نہ لب پر ہے کوئی نالہ

ہمیں بس اتنا کہنے دو ہمارا حال نازک ہے

 

اے بابا آسماں، اے ماں زمیں، ہم بھی ہیں صدمے میں؟

ہمارے حال پر بھی رو ہمارا حال نازک ہے

 

سنو تیمار دارِ محترم رہنا نہیں غافل

عیادت گر نہ جانا سو ہمارا حال نازک ہے

 

بایں احوال بھی ہم یاد کرتے ہیں تمھیں ساجن

تمھارے منتظر ہیں گو ہمارا حال نازک ہے

 

گزرتے ہیں انھیں حالات سے ہر گاہ دل والے

خبر ہے تم کو دل والو ہمارا حال نازک ہے

 

ہماری بات کا تم کیوں یقیں کرتے نہیں آخر؟

مسیحاؤ یقیں مانو ہمارا حال نازک ہے

 

ہمارا حال سن کر مسکرا کروہ لگے کہنے

عموماً تم یہ کہتے ہو ہمارا حال نازک ہے

 

ہیں کب سے ملتجی ہم اپنے چارہ ساز سے فاتح

ہمارا حال دیکھو تو ہمارا حال نازک ہے

 

 

 

آلام کا جہاں ہوں مجھے بھول جائیے

غم ناک داستاں ہوں مجھے بھول جایئے

 

درویش نیم جاں ہوں مجھے بھول جایئے

محرومِ آشیاں ہوں مجھے بھول جایئے

 

دل کا سکوں نہ دھویئے میرے خیال میں

مغموم سی فغاں ہوں مجھے بھول جایئے

 

صد شکر کامیابیاں حاصل ہوئیں تمھیں

میں سعیِ رائے گاں ہوں مجھے بھول جایئے

 

کرتے ہو جب بھی یاد بڑھاتے ہو دردِ دل

میں یونہی شادماں ہوں مجھے بھول جایئے

 

فاتح کہیں تمھیں بھی پریشان کر نہ دوں

الجھا ہوا بیاں ہوں مجھے بھول جایئے

 

ہو نہیں سکتا کہ تیرے حال پر چھوڑوں تجھے

کب یہ ممکن ہے کہ میں برباد ہونے دوں تجھے

 

اب کے تنہائی کے لمحے بھی مجھے ملتے نہیں

دل تو کہتا ہے اکیلے بیٹھ کرسوچوں تجھے

 

کارِ دنیاسے ذرا ملتی نہیں فرصت مجھے

جی تو چاہیے میں تصور میں رکھوں پہروں تجھے

 

کون کہتا ہے ملا ہے مجھ کو آسانی سے تُو

میں نے مانگا ہے خدائے پاک سے برسوں تجھے

 

اس قدر بڑھتی گئی ہے فتنہ سامانی تِری

میں نے چاہت کا دلایا ہے یقیں جوں جوں تجھے

 

تو ستارے کی طرح مجھ سے کھڑا ہے دور کیوں

پاس آ میرے کہ مصحف کی طرح پڑھ لوں تجھے

 

مت خفا ہونا جو سپنے میں گلے تجھ سے ملوں

درگزر کرنا نگاہوں سے اگر چوموں تجھے

 

اک طرف تو ہے کہ مجھ سے تجھ کو دلچسپی نہیں

اک طرف میں ہوں کہ بڑھ کے جان سے چاہوں تجھے

 

خَلق نے فاتح کبھی مجنوں، کبھی رانجھا کہا

یاد رکھنا ہے حدیثِ شوق میں صدیوں تجھے

 

 

 

عجب آوارۂ منزل تھا راہوں سے الجھ بیٹھا

انوکھا آبلہ پا تھا جو کانٹوں سے الجھ بیٹھا

 

وہ اک انسان جس کے خواب ہی سارا اثاثہ تھے

نجانے کیا اسے سوجھی کہ خوابوں سے الجھ بیٹھا

 

وہ راتیں جواسے آغوش میں اپنی چھپاتی تھیں

وہ ناشکرا انھی ہمدرد راتوں سے الجھ بیٹھا

 

جسے دیتے تھے طعنے بزدلی کے شہر کے باسی

وہی جوشِ جنوں میں تند موجوں سے الجھ بیٹھا

 

سلیقہ عالمِ مادی کا بھی جس کو نہ تھا بالکل

جو شامت آ گئی اُس کی تو روحوں سے الجھ بیٹھا

 

لئے جاتی ہے پھر سے بے قراری تجھ کو گھیرے میں

دلِ پُر آرزو تُو کس کی یادوں سے الجھ بیٹھا

 

تمھارا فائدہ کیا ہے جو میرا چاند غائب ہے

یہ کہہ کر ایک وحشی چاند تاروں سے الجھ بیٹھا

 

وہ جس پر منکشف ہوتا نہیں ہے بھید اپنا بھی

وہ دیوانہ زمانے بھرکے رازوں سے الجھ بیٹھا

 

وہ تسخیرِ جہاں کا ولولہ خاطر میں رکھتا ہے

تماشا یہ ہوا وہ اپنے سانسوں سے الجھ بیٹھا

 

سفر سالوں کا طے کیا ہو سکے گا ایسے ناداں سے

ذراسی دیر میں جو چند لمحوں سے الجھ بیٹھا

 

وہ فاتح کیا بنے گا آ گیا جو پیار کی زدمیں

جو خوشبوؤں میں کھو بیٹھا، جو رنگوں سے الجھ بیٹھا

 

 

 

 

 

بڑا کیف ہے تِرے شوق میں، بڑا لطف ہے تِری چاہ میں

یہی چاہے جی کہ جھکائے سرمیں کھڑا رہوں تِری راہ میں

 

اسے میں کمال تِرا کہوں تِرا اعتبارِ وفا کہوں

جو ملے تجھے کوئی آرزو مِرے دل کے شہرِ تباہ میں

 

جو سکوں غریب کے گھر میں ہے وہ کہاں خزائنِ زر میں ہے

نہ وہ چین قصر و زیر میں ہے، نہ وہ سکھ نشیمنِ شاہ میں

 

میں ازل سے خستہ و خوار ہوں تِرے راستے کا غبار ہوں

ہو کھڑا مقابلِ کوہ میں یہ سکت کہاں پرِ کاہ میں

 

کوئی انتہا ہے عیوب کی کوئی حد ہے میرے زنوب کی

ہے تمام حسنِ نظر تِرا کہ جچا ہوں تیری نگاہ میں

 

تِرے خال خال پہ میں فدا، تِرے بال بال پہ میں فدا

وہ جو تجھ میں حسن و جمال ہے، وہ نہ مہر میں ہے، نہ ماہ میں

 

مِرے دل، یہ کیسا مقام ہے یہ مِری سحر ہے کہ شام ہے؟

نہ سکون پاؤں ثواب میں، نہ سرور پاؤں گناہ میں

 

مِرا عشق معجز و دیر پا تِرا حسن فاتح و دل کشا

کوئی ربط و ضبط ضرور ہے تِری آہ میں، تِری واہ میں

 

 

 

 

مضمراتِ شوق

 

محبت ایک جذبہ ہے

ہزاروں نام ہیں جس کے

اگر بے نام رہ جائے

تواس کے حق میں بہتر ہے

 

اگر اظہار پا جائے

ملن دشوار ہے اس کا

اگر تشنہ یہ رہ جائے

تو بیڑا پار ہے اس کا

 

محبت اک مسرت ہے

مسرت بھی ہے جو پل کی

محبت ایک فرحت ہے

ہے فرحت ایک دو پل کی

 

محبت ایک نوحہ ہے

محبت ایک ماتم ہے

محبت ایک مرثیہ

محبت قصۂ غم ہے

 

محبت ایک غنچہ ہے

جو ہرساعت مہکتا ہے

محبت اک ستارہ ہے

جو روز و شب چمکتا ہے

 

محبت ایک رعنائی

محبت ہے حسیں موسم

محبت اک عجب دنیا

محبت مختلف عالم

 

محبت ایک نغمہ ہے

دھنیں مخصوص ہیں جس کی

بہت کم اس کے گاہک ہیں

ریاضت ہے کڑی اس کی

 

محبت ایک شعلہ ہے

جواز خود ہی بھڑکتا ہے

محبت ایک انگارہ

دلوں میں جو دھکتا ہے

 

محبت ہے جوانی کی

محبت میں جوانی ہے

یہ جیون کا تسلسل ہے

یہ دریا کی روانی ہے

 

محبت اک فسانہ ہے

بڑی غمگیں کہانی ہے

نہیں یہ عارضی جذبہ

محبت جاودانی ہے

 

محبت ایک رشتہ ہے

بہت انمول ناطہ ہے

اُسے فاتح بناتا ہے

جسے یہ راس آتا ہے

 

 

 

آپ کو خاص مسیحا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

زہر کو عین مداوا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

 

طفل تسلی دینے والا، جھوٹے وعدے کرنے والا

اس کو قول کا پکا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

 

کتنی خوش فہمی تھی ہم کو اُن کی نہ کو ہاں گردانا

وہ کیا بولے ہم کیا سمجھے ساری بھول ہاری تھی

 

پیت کو نیک نصیبی جانا ناصح کو تخریبی جانا

دانائی کو سودا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

 

اور کسی کا پیار تھا دل میں تیری چاہت سے بھی پہلے

دوجے کو ہم پہلا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

 

من گھائل تھا ہم خنداں تھے، حالت پر اپنی حیراں تھے

آہ تھی جس کو آہا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

 

پیار کو ایک ضرورت جانا دوری کو بھی قربت جانا

پاگل من کو دانا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

 

ہم سادہ تھے فاتح دھوکا کھا گئے گوری رنگت سے

اک بے درد کو اپنا سمجھے ساری بھول ہماری تھی

 

 

 

 

 

رفیقوں کو، رقیبوں کو شریکِ راز کرنا تھا

ہمیں ہی سنگ دل تو نے نظر انداز کرنا تھا

 

یہ اتنی نفرتیں آئیں کہاں سے تیرے لہجے میں

محبت کے لئے تُو نے درِ دل باز کرنا تھا

 

یہی شاید ہمارا مقصدِ تخلیق ٹھہرا تھا

مٹا کے اپنی مستی کو تمھیں ممتاز کرنا تھا

 

ہمیں جس نے ستایا ہے، رلایا ہے، مٹایا ہے

اسی کے نام ہم نے شعر کا اعجاز کرنا تھا

 

وہ جس کی راہ کے کانٹے ہٹائے میں نے پلکوں سے

مِرے حالات کواس شخص نے ناساز کرنا تھا

 

یہ کیا کہ ناشناسائی میں بدلی ہے شناسائی

ہمیں تو ایک زریں دور کا آغاز کرنا تھا

 

ہمارے گیت پھر مقبول ہو جاتے زمانے میں

ذرا اس غیرتِ زہرہ کو ہم آواز کرنا تھا

 

خمارِ عشق میں خود کو فدا کر کے، فنا کر کے

تِرے فاتح نے خود کو لائقِ اعزاز کرنا تھا

 

 

 

صنم تِرے بغیر ہیں نظر نظر اداسیاں

یہاں وہاں غم و الم اِدھر اُدھر اداسیاں

 

کہیں نہ جب سکوں ملا تو میرے دل میں آ رہیں

کہ اپنے قدردان سے ہیں با خبر اداسیاں

 

تِرے فقیر، تیرے شہرسے چلے ہی جائیں گے

گوارا ہو نہ پائیں گی مہیب تراداسیاں

 

شگفتہ گل بھی آج کل فسردگی کی زد میں ہیں

چمن میں جائیں تو ملیں شجر شجر اداسیاں

 

کسی ستم شعار کی عطا ہیں سو قبول کیں

یہ شام شام ظلمتیں سحر سحر اداسیاں

 

زمین و آسماں پہ بندھ گیا ہے رنج کا سماں

یہ کون دان کر گیا ہے اس قدر اداسیاں

 

اداسیوں کے بیج تُو نے میرے دل میں بوئے ہیں

یہ کیسے عام ہو گئیں نگر نگر اداسیاں؟

 

یہ جیت کیسی جیت ہے یہ جیت ہے کہ ہار ہے

مِرے تمام تر خلوص کا ثمر اداسیاں

 

یہ کس کی ہیں نوازشات فاتحِ غم و الم

لئے ہوئے جگر میں ہے بشر بشر اداسیاں

 

 

 

ہیں کیوں گل پریشاں مجھے سوچنے دو

چمن کیوں ہے ویراں مجھے سوچنے دو

 

خزاں کا تسلط گوارا نہیں ہے

مفادِ گلستاں مجھے سوچنے دو

 

محبت قوی ہے تمھاری کہ میری

ذراسا مِری جاں مجھے سوچنے دو

 

اگر فکر کی تم کو عادت نہیں ہے

ذرا یارِ ناداں مجھے سوچنے دو

 

تدبر وظیفہ مِری زندگی کا

کرو مجھ پہ احساں مجھے سوچنے دو

 

اگر ایک امکان گم ہو گیا ہے

نیا کوئی امکاں مجھے سوچنے دو

 

مبارک تمھیں یہ خوشی کے ترانے

رہو تم غزل خواں مجھے سوچنے دو

 

بہت مضطرب کر دیا اس نے فاتح

غمِ دل کا درماں مجھے سوچنے دو

 

 

 

 

 

جادۂ الفت پہ اپنا ہمسفر کوئی تو ہو

ہم جسے اپنا کہیں وہ خوش نظر کوئی تو ہو

 

جس پہ جاتی ہے نظر، بے رحم ہے، بیکار ہے

جس کو رہبر کہہ سکیں وہ معتبر کوئی تو ہو

 

روبرو دنیا کے ہرگز سرنگوں ہونا نہیں

سامنے حالات کے سینہ سپر کوئی تو ہو

 

دیدۂ نمناک تیرا حوصلہ افزا رہا

میرے حالِ زار پر بھی آنکھ تر کوئی تو ہو

 

زندہ رکھ سکتا نہیں تو دفن ہی کر دے مجھے

میری آہوں کا ستم گر پر اثر کوئی تو ہو

 

ہر طرف پھیلی ہوئی ہے رنج کی آکاش بیل

صاف غم کی لوط بوٹی سے شجر کوئی تو ہو

 

ایک عرصے سے مِری ہر شام ہے شامِ فراق

جو اسے ہمراہ لائے وہ سحر کوئی تو ہو

 

میں ہی تنہا کیوں بھٹکتا ہوں تِرے سنسار میں

کوئی تو مجھ سا ہو مجنوں دربدر کوئی تو ہو

 

ہے سدامجھ پر نظر دنیا کے ہر گرداب کی

جو کرے تجھ کو پریشاں وہ بھنور کوئی تو ہو

 

اس لئے شاید مجھے بخشے ہیں اس نے رت جگے

جاگنے والا جہاں میں رات بھر کوئی تو ہو

 

لوگ کہتے ہیں کہ تنہا شیر بھی اچھا نہیں

تیرے فاتح سا یہاں اہلِ ہنر کوئی تو ہو

 

 

 

 

 

وہ حسیں خواب، وہ راتیں مجھے واپس کر دے

مِرے دلبر، مِری نیندیں مجھے واپس کر دے

 

ایک لغزش کی بہت میں نے سزا پائی ہے

مِری جنت، مِری حوریں مجھے واپس کر دے

 

دے نہ زر تار کفن، گنبدِ تربت نہ بنا

مِرے قاتل، مِری سانسیں مجھے واپس کر دے

 

تِری محفل کے تصنع میں جو دم توڑ گئیں

مِری آشاؤں کی لاشیں مجھے واپس کر دے

 

مِری آہوں، مِرے اشکوں کی قسم ہے تجھ کو

مِری ہنستی ہوئی آنکھیں مجھے واپس کر دے

 

تِرے ماحول کا میں ساتھ نہیں دے سکتا

مِرے ارماں، مِری سوچیں مجھے واپس کر دے

 

تِرے رنگین شب و روز مبارک تجھ کو

مِری صبحیں، مِری شامیں مجھے واپس کر دے

 

تو مِری منزلِ مقصود نہیں تو نہ سہی

مِری الجھی ہوئی راہیں مجھے واپس کر دے

 

تِری تنویر اگر میرے مقدر میں نہیں

مِری بجھتی ہوئی شمعیں مجھے واپس کر دے

 

مجھ سے گر پیار نہیں تو ہے گزارش فاتح

مِرے فوٹو میری غزلیں مجھے واپس کر دے

 

 

 

 

 

مِرا ہے دعویٰ کہ پیار تیرا مِرے جگر میں بسا ہوا ہے

کتاب دل پر لہو کی بوندوں سے نام تیرا لکھا ہوا ہے

 

جنابِ ناصح یہ مشورہ خوب ہے نہ ہو دل میں کوئی مہماں

مگراسے کس طرح نکالیں جو من میں پہلے چھپا ہوا ہے

 

جچے گی اس میں نہ کوئی مورت، نہ کوئی تصویر، کوئی صورت

ہمارے آئینۂ نظر میں تِرا سراپا سجا ہوا ہے

 

چلو تمھیں تجربہ نہیں تھا چلو ہمیں بھی خبر نہیں تھی

مگر کہو کوئی ہے زمانے کے ظلم سے جو بچا ہوا ہے

 

یہ دل لگی دل کولے گئی ہے بہم ہیں بربادیوں کے ساماں

کوئی ہنسی کھیل میں مگن ہے، کوئی تماشا بنا ہوا ہے

 

طویل عرصے سے منتظر تھا سنوں کبھی میں تِری زباں سے

جو کلمۂ شوق اتنی مشکل سے تیرے لب سے ادا ہوا ہے

 

کسی کی نا مہربانیوں سے حدیقۂ دل اجڑ گیا تھا

ہوا ہے اب مہربان کوئی تو گلشنِ جاں ہرا ہوا ہے

 

خوشی سے بہتر سکوں سے بڑھ کر عجیب سرشاریاں ہیں اس میں

عجیب غم ہے ہمیں تِری بارگاہ سے جو عطا ہوا ہے

 

کہیں شکایت، کہیں سعادت نصیب ہی کے معاملے ہیں

کسی پہ الزامِ قتل آیا کوئی شہیدِ وفا ہوا ہے

 

ہے سب کا انداز اپنا اپنا کوئی ہے محتاط کوئی غافل

کسی کو پروا نہیں کسی کی کسی کو دھڑکا لگا ہوا ہے

 

یہ جرمِ اخلاص کا صلہ ہے جواب ہے یہ محبتوں کا

دیئے تھے چاہت سے پھول جس کو یہ زخم اس کا دیا ہوا ہے

 

سنائی میں نے غزل تو وہ ناشناس بے درد ہنس کے بولا

مجھے جہاں تک ہے یاد فاتح یہ گیت میرا سنا ہوا ہے

٭٭٭

تشکر: ناشر ناصر ملک، اردو سخن جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل