فہرست مضامین
سہ ماہی
ادب سلسلہ
اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ
جلد :۱ شمارہ: ۱
اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵
حصہ دوم
مدیر
محمد سلیم (علیگ)
مدیر اعزازی
تبسم فاطمہ
E-mail: adabsilsila@gmail.com
ناول
روحزن — رحمن عباس
باب دوم : مجھے بھی رہ نہ ملے گی جو لوٹنا چاہوں
جماعت کی کھولی ایک پرانے طرز کی تین منزلہ عمارت میں گراؤنڈ فلور پر واقع تھی۔ عمارت کے سبھی مکین پگڑی سسٹم پر پانچ دہائیوں سے قیام پذیر تھے۔ بلڈنگ کا مالک صلاح الدین میمن ایک خاندانی تاجر اور دین دار آدمی تھا۔ عمارت خستہ حال تھی لیکن مکین عمارت کی تعمیر نو کے لیے تیار نہیں تھے۔ عمارت کے تاریک دیوان سے جب اَسراراپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلا تو مئی کی تیز دھوپ میں پل بھر کے لیے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
اَسرارکے ساتھ دو اور لڑکے پہلی بار ممبئی آئے تھے۔ تینوں کی زندگی کا یہ ایک یاد گار لمحہ تھا۔ کھولی سے باہر آتے ہی تینوں گویا مجسمے میں بدل گئے۔ ارد گرد کی عمارتوں، کھڑکیوں، کھڑکیوں پر لگے پردوں، سڑک، سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اور لوگوں کے ملبوسات کو دیکھتے رہے۔ فٹ پاتھ اور کنارۂ سڑک تا حدِ نظر باکڑے (چھابڑے ) نظر آئے۔ اُن کے سامنے جو باکڑا (چھابڑا) تھا اُس پر بچوں کے کپڑے، ٹوپیاں، مصلے، مسواک، آب زم زم، تسبیحات، مسنون دعاؤں کی کتابیں، رحل اور قرآن کے چند نسخے رکھے ہوئے تھے۔ باکڑے کے نیچے ایک کالے رنگ کا کتا سو رہا تھا۔ اَسرارنے کتے کو دیکھا۔ کتے کا آدھا جسم فٹ پاتھ کے کنارے پر جمع گندے پانی میں تھا۔ کتے کی آنکھیں بند تھیں اور ناک کے پاس ایک موٹی سی مکھی ایک مٹھائی کے ٹکڑے پر السی گدھے کی طرح بیٹھ کر کتے کی ناک کو دیکھ رہی تھی۔ کتے کی ناک مکھی کے لیے یقیناً ایک سرنگ تھی۔ ممبئی بھی بعض اوقات نو واردان کو سرنگ لگتی ہے۔ فٹ پاتھ پر اَسرارکو تین چار بڑے بل نظر آئے۔ کتے نے اچانک اپنی دم زورسے ہلا کر ایک چوہے کو بھگایا جو دم پر لگے کچرے کو کھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چوہا فوراً ایک بل میں گھس گیا۔ چوہا ایک بل میں گھسا اوراُسی لمحے دو چوہے لڑتے ہوئے ایک دوسرے بل سے باہر نکلے اور کتے کو عبور کر کے ایک نالے میں گھس گئے۔ مکھی شور سن کر اڑ گئی لیکن اپنی ذات میں گم کتا ٹس سے مِس نہیں ہوا۔ شاید یہ اُس کا روز مرہ کا معمول تھا۔ فٹ پاتھ پر زندگی گزارتے ہوئے اب وہ چوہوں کی گستاخیوں پر اُن کی سرزنش کرنے کے تادیبی جذبے سے بھی بلند ہو چکا تھا۔ اَسرارکی چندھیائی ہوئی آنکھیں تیز دھوپ کی مناسب سے ایڈجسٹ ہوئیں تو اُس نے دیکھا کہ فٹ پاتھ سے لگ کر عطریات کی تین چار دکانیں ہیں۔ اِن دکانوں پر عربی رسم الخط میں بورڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک دکان کا نام ’خالص عطریات جمیل الآسام ‘ تھا۔ دکان کھلی تھی۔ چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مختلف اشکال کی شیشیوں میں عطر رکھا ہوا تھا۔
’کہاں کھو گیا بے۔ ‘ محمد علی نے اسرارکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور پھر جملہ مکمل کیا’ چلو، ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے۔ ‘
وہ لوگ بمشکل ایک منٹ چلے ہوں گے کہ مینارہ مسجد نے اُن کے قدم روک لیے۔ سلیم گھارے نے مینارہ مسجد کے بارے میں دو چار جملے ادا کیے اور بتایا کہ ماہِ رمضان میں کس طرح یہ علاقہ پر رونق ہو جاتا ہے۔ راستے پر پیر رکھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ ۔ سلیم گھارے کی باتیں سبھی دھیان سے سن رہے تھے۔ قاسم دلوی نے پوچھا:’جب راستے پر پیر رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہوتی ہے، تو پیر کدھر رکھتے ہیں ؟‘ سب ہنس پڑے۔ سلیم چپ رہا۔ پھر وہ بھی مسکرایا۔ محمد علی نے اُس دوران نکڑ کی پان پٹی سے تین چار پان بنوا لیے۔ مینارہ مسجد کے نقش و نگار اور پر پیچ کاریگری نے اَسرارکو متاثر کیا۔ دیر تک وہ مینارہ مسجد کو دیکھتا رہا۔ ابھی اَسرارکو یہ پتہ نہیں تھا کہ جس عمارت کو وہ حیرانی سے دیکھ رہا ہے اُس عمارت کے میناروں نے شہر کی کتنی بہاروں اور حبس زدہ راتوں کو ایسی ہی حیرانی اور استعجاب سے دیکھا ہے۔ عظیم الشان جلسے اور جلوس دیکھے ہیں۔ افرا تفری اور سیاسی ہنگامہ آرائی دیکھی ہے۔ مسلک اور مذہب کی مسابقت دیکھی ہے۔ اِن میناروں نے پولیس کی وردی میں ملبوس اُن افراد کو بھی دیکھا ہے جنھوں نے ’ عمر علی عثمان لنگی کٹ بیکری‘ میں فسادات کے دوران قتل عام کیا تھا لیکن جن کا جرم سپریم کورٹ میں بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ مینارہ مسجد کے میناروں نے ممبئی فسادات کے چند ماہ بعد رات کے آخری پہر، بلکہ کاذب کے وقت امام مہجور البخاری المعروف بہ ہجر غلمان کو قریب کی ایک سڑک پر اپنے معتقدین کے ذریعے آر ڈی ایکس کے بکس رکھواتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ راز کوئی نہیں جان سکا کہ یہ کام امام مہجور البخاری المعروف بہ ہجر غلمان نے کس کے اشارے پر کیا تھا۔ یہ معمہ اس وقت کچھ دیر کے لیے زیر بحث رہا جب چند برسوں بعد ایک دن مینارہ مسجد سے چند کلو میٹر دور بڑی سفاکی سے اُس کا قتل ہوا۔ مینارہ مسجد کے مینار اسرارکو بڑے پُر اسرارلگے۔ اُسے ایسا لگا ان پُر شکوہ میناروں کے چھجوں اور مخروطی خانوں میں بہت ممکن ہے جنات اور اُن کے کنبے رہتے ہوں۔ اسرارکو ابھی اِس بات کا علم نہیں تھا کہ مینارہ مسجد کے اطراف کے علاقے میں کتنی بار قیامتیں گزری ہیں اور اِن قیامتوں نے اِن میناروں کو کتنی بار شرمندہ اور مغموم کیا ہے۔ اِن میناروں نے وہ دن بھی دیکھا ہے جب ہزاروں مسلمان سلمان ولد منصور الحلاج عرف کتاب الطواسین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہاں پہنچے تو پولیس نے یکایک فائرنگ شروع کر دی تھی۔ درجن بھر نوجوان موت کی تاریک سرنگ میں گر گئے تھے۔ مینارہ مسجد کے فٹ پاتھ کے نیچے سے بہنے والی نالیوں میں عمر علی عثمان لنگی کٹ بیکری میں قتل کیے گئے افراد اور سلمان ولد منصور الحلاج عرف کتاب الطواسین کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ یہ خون خرابہ ریاست کی پولیس کی فائرنگ کا شاخسانہ تھا جس میں گولیوں کے ساتھ نفرت بھی شامل تھی۔ خون گٹر کے گندے پانی میں مل کر بظاہر اپنا رنگ کھو دیتا ہے لیکن تازہ خون کی مہک کو جنات اور دیو سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی محمد علی روڈ کے نواح میں معصوم لوگوں کا خون بہتا ہے اور زیرِ زمین نالیوں کے پانی میں مل کر یہ خون ممبا دیوی کے مندر کے اطراف کی نالیوں سے ہوتا ہوا سمندر کی طرف بڑھتا ہے، مندر کے صحن میں دیو اور راکھشس تانڈو کرتے ہیں۔ بہت ممکن ہے یہ خون پینے والے راکھشس، اُس راکھشس ونش سے تعلق رکھتے ہوں جن کو ممبا دیوی نے شکست دی تھی۔ یہ تانڈو ممبا دیوی کی مایوسی میں اضافہ کرنے کی نیت سے کیا جا تا ہے۔ ہر بار تانڈو کرنے کے بعد یہ دیو اور راکھشس ممبا دیوی کے مندر کے باہر کی نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ زیر زمین نالیوں کی بے شمار چھوٹی بڑی سرنگیں پار کر کے محمد علی روڈ سے بہہ کر آنے والے خون کو گندے پانی سے علیحدہ کر کے پی لیتے ہیں۔ پانی میں جتنی چیزیں محلول ہوتی ہیں راکھشس اُن کو کشید کر کے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خون پینے کے بعد یہ دوبارہ ممبا دیوی کے مندر کے سامنے آ کر رقص کرتے ہیں۔ یہ رقص ممبا دیوی کے غضب کو بڑھاتا ہے لیکن چونکہ ممبا دیوی نے برہما سے وعدہ کیا ہے کہ ممبئی کے ساتوں جزیرے جب تک اپنی اصلی حالت میں رہیں گے وہ راکھشس پر جاتی پر حملہ آور نہیں ہو گی، اِس لیے پی کر چپ ہو جاتی ہے۔ برہما نے جب ممبا کو یہ بتایا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب چالیس دن اور چالیس راتیں ممبئی میں بارش ہو گی۔ ساتوں جزیرے ڈوب جائیں گے۔ سب کچھ فنا ہو جائے گا۔ تاریخ بھی مٹ جائے گی۔ اِس واقعے کے چالیس سال بعد ساتوں جزیرے دوبارہ سمندر سے ابھریں گے اور تب وہ سات نہیں بلکہ ایک جزیرہ بن کر ابھر یں گے۔ اُس جزیرے پر گجراتم دیشم کالعدم نامی ایک راکھشس اپنی حکومت قائم کرے گا۔ یہ حکومت جب قتل و غارت گری کا ننگا ناچ کرنے لگے گی تب ایک دن ممبا کے مندر کی دیواریں جو شہر کے غرقاب ہونے کے باوجود محفوظ رہ گئی تھیں از خود مسمارہو جائیں گی اور تب۔ ممبا دیوی کو اس راکھشس گجراتم دیشم کالعدم سے جنگ کر کے اسے شکست دینا ہو گی۔ ممبا کو برہما نے اُس فیصلہ کن جنگ کی بشارت دے دی تھی لیکن یہ نہیں بتایا کہ اُس جنگ کا انجام کیا ہو گا۔ شاید اِسی لیے ممبا دیوی کے چہرے پر جہاں تیج اور غضب ہے وہیں احساسِ فکر مندی کی جھلک بھی ہے۔
٭٭
محمد علی ونو نے سلیم گھارے کو پان پیش کیا۔ سلیم گھارے نے پان منہ میں ڈالا۔ تھوڑا اضافی چونا جو پان والے نے پان کے ساتھ دیا تھا، انگلی سے لے کر زبان پر لگایا۔
وہ لوگ آگے بڑھے۔
’محمد علی روڈ ‘پر کاریں، ٹیکسیاں، بسیں رینگ رہی تھیں۔ بہت آہستہ۔ لوگ ان گاڑیوں کے سامنے سے دوڑ کر راستہ عبور کر رہے تھے۔ ہارن بج رہے تھے۔
لب سڑک کچھ لوگ زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ جے جے فلائی اوور کے نیچے دو ہتھ گاڑی والے اپنی گاڑیوں پر بیٹھے بیڑی پھونک رہے تھے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور ایک بوہری عورت کے ساتھ جھگڑا کر رہا تھا۔ بوہری عورت کے سامنے ایک لنگڑا آدمی جس کے سر پر سبز رنگ کی ٹوپی تھی بوہری عورت سے بھیک کی امید لگائے کھڑا تھا۔ گویا جھگڑا ختم ہوتے ہی بھکا ری کی مراد پوری ہو جائے گی۔ ممبئی میں بھکاری بھی کس قدر پر امید دکھائی دیتے ہیں۔ اَسرارکو بھکاری کے گلے میں سبز، سرخ اور چمکدار نیلے رنگ کی مالائیں اچھی لگیں۔ ابھی بوہری عورت کا جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک نو عمر لڑکی بھی وہاں آ گئی اور بھکاری لنگڑے کی دیکھا دیکھی عورت کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگی۔ لنگڑے بھکاری کے لیے نوعمر لڑکی کی مداخلت ناگوار تھی۔ اُس نے بیساکھی اٹھائی اور لڑکی کے کولہوں پر ماری۔ نو عمر لڑکی فوراً وہاں سے بھاگی لیکن سڑک پار کرنے سے پہلے لڑکی نے لنگڑے کو تین چار گالیاں دیں جو ٹریفک کے شور میں دب گئیں۔ کسی نے اِس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اسرارنے جے جے فلائی اوور کو تا دیر دیکھا۔ تیز دھوپ میں جے جے فلائی اوور سویا ہوا اینا کونڈا دکھائی دے رہا تھا۔
محمد علی روڈ پر عمر علی عثمان مٹھائی والا کی دکان کے سامنے لذیذ مٹھائیوں کی مہک ہوا میں تحلیل تھی۔ نان خطائی کے ٹوکروں پر ان کی نظر پڑی۔ ایک لڑکا جس نے لنگی اور بنیان پہن رکھا تھا۔ وہ سر پر مٹھائی کی ٹرے لیے آیا اور دکان میں داخل ہوا۔ مٹھائی کی تازہ مہک نے قاسم دلوی کو سب سے زیادہ متوجہ کیا۔ اُس نے فوراً لنگی بنیان پہنے ہوئے لڑکے سے پوچھا:’ کونسی مٹائی ہے ؟‘
’افلاطون۔ ‘ لڑکے نے کہا۔
محمد علی نے قاسم سے پوچھا:’ کھانے کا ہے کیا تریکو؟‘
قاسم کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے محمد علی نے آدھا کلو افلاطون خرید کر نوواردان کو پیش کی۔ پان کی پیک ایک طرف تھوکنے کے بعد محمد علی نے یہاں کی مٹھائیوں کی کچھ خاص قسموں پر اپنی معلومات کا مظاہرہ کیا۔ سلیم گھارے نے اُس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ڈم ڈم کی مٹھائی بھی لذیذ ہوتی ہے۔ ابھی وہ مٹھائی کھا ہی رہے تھے کہ تین چار چھوٹے بچے ہاتھ پھیلائے مٹھائی میں اپنا حصہ مانگنے لگے۔ ایک لڑکے نے صرف پتلون پہن رکھی تھی۔ سب سے بڑے لڑکے نے ایک پھٹی ہوئی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ سلیم گھارے نے فٹ پاتھ پر پان کی پیک تھوکی اور ان کی طرف دیکھ کر کہا :’ کیا رے کام دھندا نہیں ہے، چل ہٹ؟‘
’چل ہٹ‘ سن کر چھوٹے لڑکے نے بڑی عاجزی سے اپنا سیدھا ہاتھ منہ کی طرف کرتے ہوئے اشارتاً کہنا چاہا کہ اسے بھوک لگی ہے۔
محمد علی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا:’ ابے سالے تو ادھرچ پیچھے کی فٹ پاتھ پر رہتا ہے نا‘۔
لڑکے نے محمد علی کو گھور کر دیکھا۔ محمد علی نے نو واردان کو بتایا کہ یہ سب چرسی ہیں۔ بھیک مانگ کر کھاتے ہیں اور نشے میں غرق رہتے ہیں۔ محمد علی کی باتیں سن کر تینوں چرسی وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔ سڑک پر ٹریفک بدستور تھا۔ چرچ گیٹ کی طرف جانے والی دو بسیں آئیں۔ افلاطون ابھی وہ کھا ہی رہے تھے کہ سلیم گھارے نے کہا:’ بس خالی ہے پکڑ لیتے ہیں۔ ‘
وہ ایک بس میں سوار ہو گئے۔ بس کے دوسرے منزلے پر سیٹیں خالی تھیں۔ وہ بیٹھ گئے۔ اسراراور محمد علی آگے کی سیٹ پر ایک ساتھ بیٹھ گئے۔ دونوں کا گاؤں ایک تھا لیکن یہ اُن کی پہلی ملاقات تھی۔ تعارفی نوعیت کی باتیں ہوئیں۔ محمد علی نے اَسرارکو بتایا کہ وہ ہیروں کے ایک تاجر کے یہاں ملازمت کرتا ہے اور اگر وہ چاہے تو اپنے سیٹھ سے اس کے لیے بات کر سکتا ہے۔ اَسرارنے کہا وہ قاسم دلوی سے بات کرے گا پھر کوئی فیصلہ کرے گا۔ بس حج ہاؤس کے پاس پہنچی۔ عمارت پر قرآن کی آیات کندہ دیکھ کر اَسرارکو پہلے خوشی ہوئی پھر حیرانی ہوئی۔ اُس نے محمد علی سے کہا:’اتنی اونچی مسجد؟‘
محمد علی نے مسکراتے ہوئے کہا:’ارے یہ حج ہاؤس ہے۔ ‘
’حج ہاؤس مطلب؟ حج کے لیے تو سعودی عرب جا تے ہیں نا۔ ‘ قاسم دلوی نے کہا۔
’ایڑے وہ تو پوری دنیا کو معلوم ہے، حج کے لیے سعودی جانا پڑتا ہے، لیکن اِدھر سے انتظام ہوتا ہے۔ ‘ محمد علی نے جواب دیا۔
اَسرارخاموشی سے حج ہاؤس کی عمارت کی شان و شوکت دیکھتا رہا۔ اِتنی خوب صورت عمارت اُس نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ محمد علی نے اُسے چرچ گیٹ اسٹیشن، انجمن اسلام اور ٹائمز آف انڈیا کی عمارتیں دکھائیں اور ان کے بارے میں مختصراً بتایا۔ اَسرار، محمد علی کی معلومات سے متاثر ہوا۔ چرچ گیٹ اسٹیشن کے سامنے کے سگنل کو پار کرنے کے بعد جو ممبئی اَسرارکے سامنے تھی وہ مینارہ مسجد کے فٹ پاتھ اور عمر علی عثمان سلیمان مٹھائی والے کی دکان کے سامنے دکھائی دینے والی ممبئی سے بہت مختلف تھی۔ اُس نے محمد علی سے کوئی سوال نہیں کیا اور خاموشی سے آنکھوں کو خیرہ اور دل کو مبہوت کرنے والی ممبئی کو دیکھتا رہا۔
تاج ہوٹل سے کچھ فاصلے پر وہ بس سے اترے۔
گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر نوواردان شہر نے تاج ہوٹل کو اِس محبت سے دیکھا گویا اپنی یادداشت میں محفوظ کر لینا چاہتے ہوں۔ اُس شاندار عمارت کو دیکھنے کے بعد اُن سب میں ایک احساسِ کمتری پیدا ہواجس نے عمارت کے شکوہ میں اضافہ کیا اور اُس کا رعب، اُن کے دلوں پر قائم کیا۔ آج وہ جہاں کھڑے ہو کر تاج کو دیکھ رہے تھے ٹھیک اِسی مقام سے پانچ سال بعد ہندوستان اور دنیا کا میڈیا تاج ہوٹل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی رپورٹنگ کرنے والا تھا۔ یہ سارے دوست کئی برسوں تک تاج ہوٹل اور گیٹ وے آف انڈیا کے اِس یاد گار سفر کو یاد کرنے والے تھے۔
ٹھیک سات سال بعد جولائی مہینے کے آخری دنوں میں ایک اتوار کی دوپہر کو جماعت کی کھولی میں محمد علی نے خواب میں اسرارکو دیکھا۔ دیر تک دونوں نے معمولات زندگی پر باتیں کیں۔ خواب میں اَسرارکسی دوسری مملکت کا شہری تھا۔ اَسرارنے اسے تاج ہوٹل پر ہوئے بہیمانہ حملے کی تفصیل سنانا چاہی تواُس نے انتہائی مغموم لہجے میں کہا:’اب میں وہاں نہیں ہوں جہاں دہشت گرد رہتے ہیں، اِس لیے میں اُن باتوں کو جان کر کیا کروں گا۔ ‘ محمد علی اُس کی یہ بات سن کر اُداس ہو گیا۔ حالتِ خواب میں ہی اُسے یاد آیا کہ اَسرارکس دنیا میں ہے۔ دل شکستہ محمد علی کی آنکھیں کھل گئیں۔ اُس نے اپنی آنکھوں میں پانی کے چند قطرے محسوس کیے۔ اسے اَسرارکی شدید کمی کا احساس ہوا۔ وہ اٹھا اور ٹیکسی کر کے حاجی علی درگاہ پرگیا۔ درگاہ کے صحن میں ایک کونے میں بیٹھ کروہ اَسرارکو یاد کرتا رہا۔ دیر تک روتا رہا۔
٭٭
سلیم گھارے نے اُنھیں گیٹ وے آف انڈیا کی تاریخ بتائی اور آئس کریم کھلائی۔
آئس کریم کھانے کے بعد سلیم نے انھیں بتایا کہ آج ایک سرپرائزبھی ہے۔ سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا :’کیا کیا کیا؟‘
سلیم نے مسکراتے ہوئے کہا:’اِنَّ اللہ معَ الصّابرین۔ ‘
’نہیں نہیں نہیں۔ ۔ ۔ ‘ صبر ببر گئی کھڈے میں، جلدی بتاؤ۔ ‘ قاسم دلوی نے کہا۔
’اسلم بھائی شاید شام میں کھانے کی دعوت دینے والے ہوں گے۔ ‘ اسلم دھامسکرنے کہا۔
’ کھانا کھولی میں ویسے بھی بن جائے گا۔ ‘ سلیم گھارے نے کہا۔
’پھر پکچر بتانے کا ارادہ ہے کیا؟‘ سلیمان ونو نے پوچھا۔
’یار بچے لوگ پہلی بار ممبئی گھوم رے لے ہیں، چلو بتا بھی ڈالو۔ ‘ محمد علی ونو نے سلیمان ونو کے سوال پر اسلم کے رد عمل سے پیشتر کہا۔
’چلو، آؤ سب میرے ساتھ۔ ‘ سلیم گھارے نے کہا۔ وہ سب اُس کے پیچھے پیچھے گیٹ وے آف انڈیا کے عقبی حصے کی طرف گئے۔ جہاں سے سمندر میں کنکریٹ کی سیڑھیاں اترتی تھیں۔
سلیم گھارے کے ایک رفیق دیرینہ کی چار پانچ فیری بوٹ ٹورسٹوں کوسمندر کی سیر کرایا کرتی تھیں۔ سلیم نے سمندر کی سیر کا انتظام کر رکھا تھا۔ وہ سب بوٹ پر سوار ہو گئے۔ جب بوٹ کھچا کھچ بھر گئی تو سفر شروع ہوا۔ اب وہ سمندر کی ڈولتی ہوئی سطح سے تیز دھوپ میں چمکتی ہوئی ممبئی کا دیدار کر رہے تھے۔ ممبئی بظاہر اُن سے دور ہو رہا تھا۔ ساحلی پٹی سے گہرے سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے شہر کو دیکھنا ایک منفرد تجربہ تھا۔ تاج ہوٹل کی عمارت کے محراب و گنبدوں کو اپنی آنکھوں کے دائرے میں رفتہ رفتہ سمٹتے ہوئے دیکھنے کا احساس نیا تھا۔ سمندر کی لہروں کو چھو کر آنے والی ہواؤں میں ٹھنڈک اور نمک شامل تھا۔ گرمی کی شدّت میں کمی محسوس ہوئی۔ سمندرکی موجوں کو دیکھ کر اَسرارکے دل میں اُداسی نے کروٹ لی۔ اِس کروٹ نے اُس کی نظروں کے سامنے سمندر کو ایک بھنور نما میں بدل دیا۔ بھنور نما ایک چھوٹا سا دائرہ تھا لیکن اِس دائرے میں پانی کا رنگ سرخ تھا، بلکہ یہ پانی نہیں تازہ لہو تھا۔ تازہ لہو صرف گردش نہیں کر رہا تھا بلکہ دوران گردش لہو میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے بھنور بن رہے تھے۔ ہر بھنور میں اسے اپنے والد کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ تین چار منٹ اُس کی آنکھوں میں یہ بھنور رقص کرتے رہے۔ اُس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ ڈِرل مشین سے اپنے دیدوں میں چھید کرے تا کہ وہاں جمع لہو فوارہ بن کر اُبل پڑے۔ کبھی کبھی یکایک اپنے لہو میں تر بتر ہونے کی خواہش اُس کے دل میں پناہ گزین ہو جاتی تھی۔ حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ جمیلہ مِس نے اِس خواہش کو رفتہ رفتہ زائل کر دیا تھا۔ اُس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں۔ مسکرایا۔ اُس کی آنکھوں میں اب جمیلہ مِس تھی۔ اُس
کے ساتھ ایک چھوٹا سا سمندر کا سفر اُس کے تہہ خانۂ دل میں کہیں محفوظ تھا۔ وہ تازہ ہو گیا۔
٭٭
برسات کی رات جو کچھ ہوا تھا اُس کے بعد جمیلہ مِس کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت یکایک بدل گئی تھی۔ ہر دو سرے تیسرے دن جمیلہ مِس اُسے کیمیا، حیاتیات اور الجبرا کی گنجلک اصطلاحات آسان زبان میں سمجھایا کرتی تھی۔ مِس نے سائنس کی نصابی کتاب کا باب : ’’حیاتی دور اور ہمارے جین کا خاکہ‘‘ دلچسپی سے پڑھایا تھا۔ ماہواری، بار آوری اور بالیدگی کی اصطلاحات کو تفصیل سے سمجھاتے ہوئے فوطے، بولی تناسلی نلی، منوی کیسہ، غدود قدامیہ اور عضو تناسل جیسے مشکل الفاظ کو سہل زبان میں سمجھاتے ہوئے اُن کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ بیضہ دان، قاذف نلی، رحم اور اندام نہانی پر بھی کتاب میں درج جملوں کی وضاحت کی تھی۔ دوسری طرف درسی کتاب میں اندام نہانی اور عضوِ تناسل کے افعال کے بارے میں جو باتیں لکھی ہوئی تھیں اُن سے عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ کتاب میں اندام نہانی کے افعال کے بارے میں تحریر تھا :’ ماہواری کے بہنے کا راستہ، منویے کے گزرنے کا راستہ اور بچے کی پیدائش کی جگہ۔ جبکہ تناسل کا فعل :’ بار آوری کے مقام پر منووں کو پہچانا۔ ‘ لکھا ہوا تھا۔ جمیلہ مِس نے کہا کہ یہ باتیں اہمیت رکھتی ہیں لیکن اعضا محض مذکورہ افعال کے لیے نہیں ہیں بلکہ وہ جذبۂ عشق کے اظہار کا وسیلہ بھی ہیں۔ جسم، روح اور جذبات کے درمیان پل کا رول ادا کرتے ہیں۔
٭٭
ایک دن مِس نے اُس سے کہا کہ وہ سمندر کی سیر کرنا چاہتی ہے اور یہ دیکھنا چاہتی ہے : مچھلیاں کس طرح شکار کی جاتی ہیں ؟‘
’مچھلیاں خود پھنستی ہیں۔ ‘ فوراً اُس کی زبان سے ادا ہوا تھا۔
جمیلہ مِس نے دزدیدہ نگاہی سے اُس کی طرف دیکھا۔
اسے احساس ہوا کہ اِس جملے میں وہ معنی بھی پوشیدہ ہیں جس کا اظہار اس کا مقصد نہیں تھا۔ وہ اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہتا تھا کہ مِس نے کہا:’موسم بھی تو ویسا عاشقانہ منگتا ہے نا۔ ‘ جمیلہ نے بڑی متانت اور شوخی کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنی بات کہی تھی۔
وہ مسکرایا۔ جمیلہ مِس بھی مسکرائی۔
اِس کے باوجود اُس نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ در اصل وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔ جمیلہ اس کے غیر ضروری استدلال سے لطف لیتی رہی۔ اُس کے زانو پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے اُس نے مِس کو سمندر کی بہت ساری خصوصیات کے بارے میں بتایا جن کا تعلق مچھلیوں کے شکار سے تھا۔ اَسرارنے بتایا کہ اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے کئی برسوں تک اُس کے باپ نے بطور ’تانڈیل ‘ (خلاصی )دوسرے لوگوں کی کشتیوں پر ملازمت کی تھی۔ سمندر کی موجوں، حرکات اور پانی کی حرارت سے وہ اِس بات کا اندازہ لگا لیتے تھے کہ کونسی مچھلیاں کہاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ سمندر کے بارے میں اَسرارکی معلومات سے جمیلہ مِس کے اشتیاق میں اضافہ ہوا۔ اَسرارنے کہا سمندر کی سیر کا جلدی انتظام کرے گا۔ اُس نے یہ بات اپنی ماں کو بتائی اور ماں سے کہا وہ چچا سے بات کر ے۔ چچا نے گزشتہ تین سال سے جماعت میں وقت لگانا شروع کیا تھا۔ رشتے داروں اور محلے میں بڑی محترم شخصیت بن گئے تھے۔ اَسرارکی والدہ نے اُن سے بات کی وہ، بخوشی راضی ہو گئے۔
ایک ہفتے بعد سنیچر کی شام جمیلہ، اسرار، اُس کی ماں، چچا اور دو ملازمین لانچ پرسوار ہو گئے۔ ایندھن پر چلنے والی یہ لانچ سال بھر پہلے اَسرارکے چچا نے بینک لون پر خریدی تھی۔ پرانے طرز کی اِس لانچ کو کشتی کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔ کشتی میں ایک کیبن تھا جس میں پانچ چھ لوگ قیام کر سکتے تھے۔ کیبن سے لگ کر ایک کھڑکی نما دروازہ تھا جس سے مزدور تہہ خانے میں ضروری سامان لاد چکے تھے۔ کشتی کا سامنے کا مخروطی حصہ خاصا ابھرا ہوا تھا۔ درمیان میں اتنی جگہ تھی کہ پندرہ بیس لوگ کھڑے رہ سکتے تھے۔ آج مچھلیوں کے شکار کے بجائے سیرو تفریح مقصود تھا۔ کھانے پینے کا انتظام کیا گیا تھا۔ کیبن کے سامنے کھڑے ہو کر جمیلہ مس، اسرارکے چچا اوراُس کی ماں باتیں کرنے لگے۔ اسرارکیبن میں بیٹھ گیا تھا۔ جیٹی سے کشتی آزاد ہوئی۔
کشتی میں بیٹھ کر رتناگیری کے ساحل پر صدیوں پہلے تعمیر کردہ قلعے کو دیکھنا مِس جمیلہ کے لیے بیش قیمت تجربہ تھا۔ قلعہ ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ سمندر کی سمت سے پہاڑ پر چڑھنا تقریباً ناممکن تھا۔ پہاڑ کے نیچے ایک سرنگ سی دکھائی دیتی تھی ممکن ہے کسی زمانے میں قلعے سے فرار ہونے کا کوئی خفیہ راستہ یہاں سے نکلتا ہو۔ قلعے کی دیوار سے لگ کر کھڑے ہو کر اگر نیچے سمندر کو دیکھیں تو سمندر نیلے اور سبز مائل رنگ کی ایک خوبصورت طشتری دکھائی دیتا ہے۔ بائیں جانب گہری سرخ مٹی کی چادر بچھی ہے۔ برسات میں گہری سرخ مٹی کی چادر سبز گھاس کے لہلہاتے کھیت میں بدل جاتی ہے۔ قلعے پر جمیلہ مِس کئی بار گھوم چکی تھی۔ ایک مرتبہ اَسرارکے ساتھ چار پانچ گھنٹے وہ قلعے کی ایک مخدوش دیوار کے سائے تلے وقت گزار چکی تھی۔ اب وہ اس قلعے کو بالکل مختلف سمت سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسرت اور حیرانی کی آمیزش تھی۔ کشتی نے موڑ کاٹا تو روشنی کا مینار سورج کے روبرو کھڑا دکھائی دیا۔ سورج کی سرخ کرنیں لائٹ ہاؤس کے ایک سرے پر منجمد ہو کر مُنعکِس ہو رہی تھیں۔ مِس جمیلہ کی نظر جب لائٹ ہاؤس سے پریشاں ہوتی ہوئی سورج کی مرتعش لہروں پر پڑی تو چندھیا گئی۔ اُس نے اپنے بیگ سے دھوپ کا چشمہ نکال کر پہن لیا۔ اَسرارکی ماں کو مِس جمیلہ کا چشمہ پسند آیا۔ اُس نے اَسرارکے چچا کی طرف مڑ کر کہا:’ میڈم پر چشمہ اچھا دکتا ہے۔ ‘
’میڈم بھی اچی دکتی ہے۔ ‘ اسرارکے چچا کہتے کہتے رک گئے۔ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور کہا :’ سبحان اللہ۔ ‘
اسرارکی ماں مسکراتے ہوئے کیبن کی طرف چلی گئی۔ ملازم کیبن کے پیچھے بیٹھے تمباکو کا شوق فرماتے ہوئے گپ مار رہے تھے۔ کشتی راجیوڑے کی ساحلی پٹی میں داخل ہوئی۔ اَسرارکی ماں تھرماس اور پلاسٹک کے کپ لیے کیبن سے باہر آئی۔ اَسرار بسکٹ کے پیکٹ لے آیا۔ راجیوڑا ایک قدیم بستی تھی۔ یہاں سمندر ایک کھاڑی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ پانی گدلا دکھائی دیتا تھا۔ راجیوڑا میں بیشتر لوگ مچھلی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ان میں ایسے لوگوں کی کثرت تھی جو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر کیکڑے پکڑا کرتے تھے۔ ڈھلوان پہاڑیوں پر چھوٹے چھوٹے مکانات کا سلسلہ کھاڑی سے دلکش لگتا تھا۔ دوسری طرف ایک بہت چھوٹا سا جزیرہ نما تھا جس میں سمندری جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اَسرارکی ماں نے تھرماس سے چائے انڈیلی، اَسرارنے ایک پلیٹ میں بسکٹ نکالے۔ سورج کا سرخ گولا سمندر کے سینے کے قریب آ گیا تھا چنانچہ جزیرہ نما کی گہری سبز جھاڑیاں سرخ زرد کرنوں سے چمک رہی تھیں۔ ہوا میں خنکی اور نمک تھا۔ تازہ معتدل ہوا میں چائے مزہ دے گئی۔ سب چائے پیتے ہوئے راجیوڑے اور آس پاس کے علاقوں کی باتیں کرتے رہے۔ اَسرارکے چچا نے جمیلہ مِس کو بتایا کہ راجیوڑے کے چند بزرگوں سے روایت ہے کہ یہ بستی ایک صحابی نے بسائی تھی جو رسول اقدسؐ کی وفات کے بعد دین کو عام کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ اَسرارنے فوراً مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انگریزی کے معلم عباس دھامسکرنے بتایا تھا کہ جو عربی بزرگ ہندستان کے ساحلی علاقوں میں آ کر بسے وہ در اصل مکہ و مدینہ کی سیاسی کشمکش سے دل برداشتہ لوگ تھے۔ اسرارنے جمیلہ مِس کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا کہ دھامسکر سر نے بتایا تھا کہ رسولؐ کے انتقال کے بعد مکہ میں اقتدار کے لیے خون خرابا ہوا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اُس نفرت کے ماحول میں رہنا نہیں چاہتے تھے۔ اَسرارکے چچا تذبذب کا شکار تھے۔ انھوں نے فوراً کہا :’ وہاں خون خرابا کیسے ہو سکتا ہے ؟ ‘
جمیلہ مِس نے پچھلے سال مئی کی چھٹیوں میں ’ تاریخِ اسلام ‘ کے عنوان سے ایک کتاب پڑھی تھی۔ اُس نے اسرارکے چچا کے سوال کے جواب میں کہا :’ تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے :’پہلے تیس پینتس سال بہت خون خراباہوا۔ ‘
اسرارکے چچا کے لیے مِس جمیلہ کا یہ بیان حیران کن تھا۔ مِس جمیلہ ذہین معلمہ کے طور پر مشہور تھی اور ذمے دار تصّور کی جاتی تھی۔ وہ خاموش ہو گئے۔ مچھلیوں کی مختلف اقسام کے بارے میں بات کرتے رہے لیکن یہ بات اُن کے دل میں کانٹے کی طرح بس گئی تھی چنانچہ چند روز بعد معبد مورفو کی جامع مسجد کے مفتی سے انھوں نے اِس بابت سوال کیا۔ جامع مسجد کے مفتی ازہر یونیورسٹی سے فارغ تھے اور ایک علمی شخصیت کے طور پر پہچا نے جاتے تھے۔ انھوں نے جواب دیا :’کہ بھئی جو کچھ ہوا اسے خون خرابا کہنا لوگوں کو مناسب نہیں لگتا۔ اس لیے حق اور باطل کی لڑائی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ ورنہ سچ یہی ہے کہ خون خرابا تو ہوا تھا۔ ‘
سورج کا سرخ زرد گولا اب سمندر کے سینے پر لیٹ گیا تھا۔ راجیوڑے کی کھاڑی کا ایک طواف کرنے کے بعد کشتی دوبارہ سمندر کی طرف مڑ گئی تھی۔ اب کشتی سورج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ آسمان پر بادل نہیں تھے۔ پرندوں کے غول اپنے آشیانوں کی طرف مراجعت کر رہے تھے۔ جزیرہ نما پر یکایک سیکڑوں ہنس آ کر بیٹھ گئے تھے۔ ان کے علاوہ بھورے رنگ کے بے شمار پرندے تھے جن کے پھدکنے اور شور مچانے سے ماحول میں ایک دل پذیری پیدا ہو گئی تھی۔
٭٭
اسرارایک طرف کھڑے ہو کر جزیرہ نما کو دیکھ رہا تھا۔
یاد کی لہروں میں وہ اُس جزیرہ نما تک بہہ گیا تھا کہ یہاں ممبئی کے سمندر سے کچھ دور ایک چھوٹے سے جزیرہ نما پراس کی نظر گئی۔ یاد کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ سلیم گھارے نے اُس کی طرف ایک وڑا پاؤ بڑھایا۔ وہ مسکرایا۔ وہ اِس خیال پر مسکرایا کہ کس آسانی سے وہ ماضی میں بہہ جا تا ہے۔ کشتی، ممبئی ڈاک یارڈ کے مقابل جنوب مغرب کی سمت سے ایک چکر کاٹ کر دوبارہ گیٹ وے آف انڈیا کی طرف مڑ گئی۔ ڈاک یارڈ کے آس پاس عالیشان تجارتی جہاز لنگر انداز تھے۔ محمد علی نے ایک پان منہ میں رکھا۔ ’یہ سمجھا آنکھ مارے گا تو اِس کو بھی دے گی۔ ‘ اسلم دھامسکرنے اونچی آواز میں کہا۔
’یہ چھوکرے تو سالے ایکدم اکسپرٹ ہیں۔ میں سمجھ رہا تھا ابھی بچکنڈے ہیں۔ ‘ سلیم گھارے نے محمد علی سے کہا۔
’اسلم بھائی، کھانے کھجانے میں اکسپرٹ رہناچ پڑتا ہے۔ نہیں تو آئٹم لوگ رفو چکر سمجھو۔ ‘ محمد علی نے سلیم گھارے سے کہا۔ سلیم سمجھ گیا کہ یہ بات محمد علی اسے اِس لیے بھی بتا رہا ہے کہ چند مہینوں پہلے اُس کے سیٹھ کی بیوی نے دو تین بار اُسے سیٹھ کی غیر موجودگی میں گھر پر بلایا تھا لیکن اپنی شرافت کی وجہ سے وہ صرف ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہ گیا۔ سیٹھ کی بیوی شاید شریفانہ باتوں سے زیادہ مرعوب نہیں ہوئی۔ اُس نے چند ہفتوں بعد ایک دوسرے ملازم کو گھر میں صاف صفائی کے لیے بلا یا۔ دوسرا ملازم نہ صرف چالاک تھا بلکہ عورتوں کی فطرت اوراقسام کا خاصا تجربہ بھی رکھتا تھا۔ دوسرے دن باقی ماندہ کام پورا کرنے وہ دوبارہ سیٹھ کے گھر گیا اور وہ کام بھی اُس نے کیا جس کے لیے میڈم کا جی مچل رہا تھا۔ محمد علی کو دوسرے ملازم نے رازدارانہ انداز میں بتایا تھا :’ سیٹھ کی عورت اُن عورتوں میں سے ہے جو کبھی خود دعوت نہیں دے گی۔ جب تو آگے بڑھے گا تو روکنے کی ایکٹنگ کرے گی۔ بولے گی یہ سب گناہ ہے۔ غلط ہے۔ ایسا کرنا اپنے مذہب میں منع ہے۔ وہ بولے گی اللہ کے واسطے ایسا مت کرو۔ قسم دے گی۔ لیکن یہ سب کچھ وہ ایسے اسٹائل میں بولے گی کہ تو ایکدم ٹائٹ ہو جائے گا۔ ا س کا اسٹائل بھیگی ہوئی گھاس میں بھی آگ لگا سکتا ہے۔ ‘ اس تفصیل کے بعد اُس نے محمد علی کو یہ بھی بتایا کہ سیٹھ کی عورت نے اپنا کام ہونے کے بعد اُس سے کہا تھا :’میں لٹ گئی، جذبات میں بہہ گئی۔ ‘
محمد علی نے پوچھا :’ پھر تو نے کیا کہا۔ ‘
’ارے یار میرے کو اُس کا اسٹائل سمجھ میں آ گیا تھا، میں نے ڈائرک بولا: ’واپس کب ملتے ہیں۔ ‘
’تو وہ کیا بولی؟‘
’موقع دیکھ کر میں فون کروں گی۔ ‘
’ارے سالا! ابھی تووہ بول رہی تھی لٹ گئی۔ ‘
’ناٹک یار۔ ہر عورت کا اسٹائل ہوتا ہے۔ شکار سب کو کرنے کا رہتا ہے۔ لیکن سیفٹی کے ساتھ۔ ‘
’سیفٹی مطلب؟‘
’مطلب کام بھی ہو، مزہ بھی ہو اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ ‘ دوسرے ملازم نے محمد علی کو سمجھایا۔
’تو سالا ایکسپرٹ ہو گیا ہے۔ ‘
’ تو کیا کم ایکسپرٹ ہے۔ بھیننی کو پھانس رکھا ہے۔ سالے تیرا مال تو ایکدم کنولا ہے۔ ‘ محمد علی اپنے دوست کے راست حملے پر پہلے مسکرایا۔ پھر اس نے کہا:’ وہ میرے سے پیار کرتی ہے۔ ‘
دوست نے بہت زور دار قہقہہ لگایا تھا۔
اس قہقہے میں تہہ داری تھی۔ محمد علی بھی اُس کے ساتھ قہقہے لگاتا رہا۔ دونوں بہت دیر تک ہنستے رہے اور اُن کی زبان سے اُس وقت ایک لفظ ادا ہوتا رہا۔ ’پیار…پیار…پیار…اور پھر قہقہہ۔ محمد علی کے گمان میں بھی اُس وقت یہ بات نہیں تھی کہ چند مہینوں بعد پیار کی ایک نئی تعبیر اُس کی سامنے آئے گی۔ ایک ایسی تعبیر جواس کی سابقہ زندگی کے داغ اُس کے دل میں دوبارہ ابھارے گی اور اُس کی موجودہ زندگی کی بے راہ روی کو نشان زَد کرے گی۔ پچھلے چند برسوں میں دس بارہ عورتوں کے ساتھ اُس کے قلیل مدتی تعلقات قائم ہوئے، جنھیں رضاکارانہ جنسی رشتہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ چھ سات مہینوں سے جماعت کی کھولی والی عمارت کے تیسرے منزلے پر رہنے والی ایک شیعہ لڑکی اُس پر فریفتہ تھی۔ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ ماں کپڑوں کا کاروبار کرتی تھی۔ سورت سے کپڑے لا کر ممبئی میں فروخت کیا کرتی تھی۔ کاروبار کے سلسلے میں مہینے پندرہ دن میں اُسے سورت جانا پڑتا تھا۔ جب وہ سورت چلی جاتی تو لڑکی محمد علی کو بلا لیتی تھی۔ بیشتر اوقات وہ ممبئی نمبر ۸ میں واقع ریڈ لائٹ ایریا بھی ہو آتا تھا جہاں ایک لڑکی سے اُس کی بے تکلفی تھی۔
٭٭
ایک عرصے کے بعد محمد علی نے سلیم گھارے کو سیٹھ کی عورت اور اُن کے مشترکہ دوست کے جسمانی مراسم کے بارے میں بتایا تو اُسے بہت ملال ہوا تھا۔ ملال دوست کی کامیابی پر نہیں بلکہ اپنی نا کار کردگی پر ہوا تھا۔ مذکورہ پس منظر میں محمد علی کا جملہ ’اسلم بھائی، کھانے کھجانے میں ایکسپرٹ رہنا پڑتا ہے۔ نہیں تو آئٹم رفو چکر سمجھو۔ ‘ سلیم گھارے کے لیے آموختہ سے کم نہیں تھا۔
’صحیح ہے باس۔ ‘ بالآخر اسلم گھارے نے سر تسلیم خم کیا۔
اِسی دوران ایک لڑکا گردن میں کیمرہ لٹکائے ہوئے اُن کے قریب آیا اور گیٹ وے آف انڈیا کے مقابل یا تاج ہوٹل کے سامنے تصویریں کھنچوانے کی ضد کرنے لگا۔ اِس قِماش کے کیمرہ والے اکثر لوگوں کو زچ کرتے ہیں اور مُصر ہوتے ہیں کہ اُن کے کیمرے سے تصویر کھنچوائی جائے۔ یہ اُن کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ کیمرے والا سو روپے پر راضی ہو گیا۔ سب نے ایک تصویر گیٹ وے آف انڈیا اور ایک تاج ہوٹل کے پس منظر میں اتروائی۔ چند منٹوں میں تصویریں اُن کے ہاتھ میں تھیں۔ سب خوش تھے، خاص کر نوواردان شہر کہ یہ تصویر یں ممبئی میں اُن کے پہلے دن کی یادگار تھیں۔
غروبِ آفتاب سے کچھ منٹ پہلے گیٹ وے آف انڈیا پر لوگ اِس قدر جمع ہو گئے کہ اندیشہ تھا اگر نوواردان اِس بھیڑ میں کھو گئے تو تلاش کرنا مشکل ہو گا چنانچہ محمد علی نے کہا کہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں۔ وہ تاج ہوٹل کے سامنے سے ہوتے ہوئے فصیل سمندر سے نیچے، پانی کو دیوار سے ٹکراتے ہوئے دیکھتے ہوئے بائیں طرف بڑھنے لگے۔ وہاں بھیڑ نسبتاً کم تھی۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رک گئے۔ سمندر کے کنارے کی دیوار پر بیٹھ کر سمندر میں تیرتی ہوئی بوٹس کو دیکھنے لگے۔ اُن کے اطراف چند غیر ملکی ٹورسٹ بھی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ دو چار پری چہرہ مغربی عورتیں دکھائی دیں۔ ایک دودھ سی سفید جلد والی لڑکی شارٹ پہن کر وہیں سامنے کھڑے ہو کر سمندر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اُس سڈول ٹانگوں میں، سفید چمک دار جلد اور سنہری زلف سے زیادہ کشش تھی۔ سب کے دلوں کی دھڑکن اُسے دیکھ کر کسی نہ کسی درجہ پر متاثر تھی لیکن ایک نظر اُس کو دیکھنے کے بعد وہ یہاں وہاں دیکھنے کی اداکاری کر کے اِس تاثّر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پری چہرہ مغربی حور نے اُن کے اندر ایک احساس بے مائے گی پیدا کر دیا ہے۔ اُسی وقت دو چکنی صورت لڑکے اُن کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔
چکنی صورت والے لڑکوں کو قریب کھڑا دیکھ کر محمد علی نے کہا :’ چلو، اب تھوڑی دیر چہل قدمی کرتے ہیں۔ ‘
وہ سب کالا گھوڑا تک پیدل چلتے آئے۔
تاج ہوٹل سے کالا گھوڑا تک پیدل آتے آتے آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چکا چوند نے اُنھیں بے حد مرعوب کیا تھا۔ ممبئی اُنھیں ایک ناقابلِ تسخیر شہر لگنے لگا۔ یہاں دولت، حسن اور شہوت کا ایک سمندر تھا جسے وہ صرف ساحل پر کھڑے ہو کر دیکھ سکتے تھے۔ محمد علی نے نوواردان کے اصر ار پر اُنھیں چکنی صورت والے اُن لڑکوں کے بارے میں بتایا جو تاج ہوٹل کے مقابل قریب آ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ محمد علی نے بتایا کہ ’ یہ لوگ دھندا کرتے ہیں لیکن بہت سارے پھُوکٹ میں بھی دیتے ہیں ؟‘
قاسم دلوی نے مزید ایک احمقانہ سوال کیا:’ پھُوکٹ میں کیا دیتے ہیں ؟‘
محمد علی مسکرایا اور جہانگیر آرٹ گیلری کے سامنے استادہ مجسمے کو دیکھنے لگا۔ سلیم گھارے بھی سوچ میں پڑ گیا کہ محمد علی اس سوال پر کیا جواب دے گا۔ اسلم دھامسکرنے ان دونوں کے چہروں کے رنگ کو بھانپتے ہوئے قاسم دلوی سے مخاطب ہو کر کہا :’ جو جنت میں حوریں نہیں دے سکتیں۔ ‘
سب دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔ قاسم بھی ہنستا رہا۔ یہ لمحہ بڑا خوشگوار تھا۔ اُن کے دلوں میں کوئی دوسرا خیال نہیں تھا۔ وہ جی کھول کر اسلم دھامسکر کے برجستہ جملے پر قہقہے لگا تے رہے۔
جماعت کی کھولی پر وہ رات ساڑھے دس بجے پہنچے۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد محمد علی، اسراراور اسلم دھامسکر کھولی سے باہر نکلے۔ گیارہ بج رہے تھے۔ کھولی کی بلڈنگ کی دکانیں بند ہو گئی تھیں۔ ایک دکان کی دہلیز پر وہ بیٹھ گئے۔ راستے پر اب بھی بھیڑ تھی۔ صبح جب وہ کھولی سے باہر نکلے تھے اُس وقت باکڑے کم تھے لیکن اب باکڑے زیادہ تھے جن پر شربت، سموسے، بھجیے، کباب، چکن تکہ، ٹوپیاں، کپڑے اور کوسمیٹکس فروخت ہو رہا تھا۔ باکڑوں کے گرد خریدار کم دکھائی دے رہے تھے لیکن مسکین، بد حال بوڑھے، بچے اور گندے کپڑوں میں ملبوس بھکا ری زیادہ تھے۔ ایک بدحال، غلاظت میں لپٹا ہوا ادھیڑ عمر آدمی ایک بند باکڑے کے پاس راستے پر بیٹھا تھا۔ اُس کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ دنیا و مافیہا سے ماورا کسی دوسری خلقت میں سانس لے رہا تھا۔ وہ خلا میں دیکھتے ہوئے سرگوشی کر رہا تھا۔
یکایک باکڑے کے پاس بیٹھا وہ غین آدمی کھڑا ہو گیا اور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھائے اور یک بارگی اس نے کہا :’حق اللہ‘
آس پاس کے باکڑے والے ہنس کر دوبارہ اپنے کام میں لگ گئے۔ ایک باکڑے سے ایک پٹھان چکن تکہ خرید رہا تو اُس نے مڑ کر بدحال ادھیڑ عمر والے کی طرف دیکھا اور کہا :’ گانڈو کا بچہ ! چرس، سر میں گھس گیا کیا؟‘
پٹھان کے جملے پر چکن تکہ بنانے والا مسکرایا۔
’ روز کا ناٹک ہے۔ صبح جب اترے گی، تو بولے گا جنات لوگ سے رات بھر بات کرتا رہا۔ ‘ چکن تکہ والے نے بوٹیوں کو آنچ بتاتے ہوئے کہا۔
’جنات لوگ کو بھی سالا چرس پلاتا ہو گا۔ ‘ پٹھان نے بذلہ سنجی سے کام لیا۔
’حق اللہ‘ کا نعرہ بلند کرنے کے بعد غین آدمی دوبارہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا تھا۔ محمد علی نے اسراراور اسلم کو بتایا کہ اِس علاقے میں چرس اور دوسری منشیات پینے اور بیچنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ایسے لوگوں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ اِسی دوران ایک دس بارہ سال کا لڑکا کہیں سے آیا اور کھچڑا فروخت کرنے والے کے باکڑے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ ایک ہاتھ آگے کر کے لڑکے نے کہا:’ صبح سے بھوکا ہوں۔ ‘
بھاگ بھینڈ چود۔ ‘ غصّے میں باکڑے والے نے کہا۔
اَسرارنے فوراً محمد علی سے پوچھا۔ ’اس بھکاری کو باکڑے والے نے گالی کیوں دی؟ـ‘
’وہ بھکاری تو ہے لیکن بہت کمینہ بھکاری ہے۔ ابھی کہیں سے وائٹنر کا بندوبست کر کے نشے میں دھٹ، فٹ پاتھ پر گرا پڑا رہے گا۔ اس گلی میں ایسوں سے سبھی واقف ہیں۔ البتہ شاپنگ کرنے کے لیے آنے والے یا مسافر ان کو دو پانچ روپے دے دیتے ہیں۔ ‘ علی نے مزید بتایا کس طرح وائٹنر اور اس میں ملائے جانے والا محلول ’رو مال نشہ‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چرس اور افیم مہنگی ہے، اِس لیے نادار نشہ باز وائٹنر سے کام چلا تے ہیں۔ قاسم نے علی کی باتیں سننے کے بعد بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا:’ اللہ سب کا خیال رکھتا ہے۔ ‘
قاسم کی معصومانہ حماقت پر علی کی زبان سے برجستہ ادا ہوا :’ اللہ پاک کیا اتنا۔ ۔ ۔ ہے۔ ‘
’اگر اللہ ان کو نہیں دیتا ہے تو کون دیتا ہے۔ دینے والا تو صرف اللہ ہے۔ ‘ قاسم نے اپنے دفاع میں کہا۔
’اللہ نے عقل بھی دی ہے، سمجھا۔ ‘ علی نے کہا۔
اَسرارنے اس دوران محمد علی کی بات کاٹ کر اُسے یاد دلایا کے وہ ملازمت کے بارے میں کچھ بتانے والا تھا۔ محمد علی نے ہاتھی چھاپ تمباکو کا پیکٹ نکالا، چونے کی ڈبیا سے تھوڑا سا چونا انگوٹھے کے ناخن سے نکالا۔ دائیں ہاتھ پر چونا اور تمباکو مل کر منہ میں ایک طرف رکھا اور اپنی ملازمت کے بارے میں بتانے لگا۔
محمد علی ونو نے بتایا کہ اُس کا سیٹھ نقلی ہیروں کا بہت بڑا تاجر ہے۔ ہیرے چین سے لائے جاتے ہیں۔ ایک پل کے لیے وہ رکا، تمباکو کا تھوک اُس نے نگل لیا اور بتایا کہ ’ کیوبک زرکونیا ‘نامی پتھر، نقلی ہیروں کی سب سے مقبول قسم ہوتی ہے اور یہ اصل ہیرے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اُس نے اَسرارکی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے دوبارہ اپنی بات دہرائی کہ کیوبک زر کونیا کو CZ کہتے ہیں اس کی چمک دمک اور سختی اصل کے برابر ہوتی ہے۔ اَسرارنے گردن ہلائی۔ محمد علی نے بتایا کہ CZڈائمنڈ اصلی ڈائمنڈ سے اتنا مشابہ ہوتا ہے کہ آسانی سے لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ اصلی اور نقلی کا فرق صرف تجربہ کار اور کہنہ مشق پارکھ کر سکتا ہے۔ قاسم بھی اس کی باتوں کودلچسپی سے سننے لگا۔ محمد علی نے اپنی معلومات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ CZ کے بعد موئزونائٹ پتھر اصلی ہیرے کا دوسرا متبادل ہے۔ وہ لوگ دھوکا کھاتے ہیں جو کم قیمت پر ہیرے خریدنے کا لالچ رکھتے ہیں۔ اَسرارکی زبان سے ’اچھا‘ ادا ہوا۔ محمد علی نے ایک پل اُس کی طرف دیکھا پھر کہنے لگا کہ اُس کے سیٹھ کا کہنا ہے کہ جعلی ہیرے اپنی مشابہت کے باوجود اصل ہیرے کی اہمیت کم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہر اصلی ہیرے کی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے اور اُس سے ایسی غائبانہ لہریں خارج ہوتی ہیں جو براہِ راست دل پر اثر کرتی ہیں۔ ہیرے کی اپنی روح ہوتی ہے۔ اصلی ہیرے کی تعریف کرنے کے بعد محمد علی نے بتایا کہ نقلی ہیرے کی پہچان کرنے کے بہت سارے آسان طریقے ہیں۔ قاسم کو اصلی سے زیادہ نقلی ہیروں کو پہچاننے کا طریقہ جاننے میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ اُس نے کہا :’بتاؤ، بتاؤ ‘۔ اُس نے منہ میں جمع تھوک ایک طرف جھک کر اگل دیا اور پھر کہا کہ ڈائمنڈ کو اخبار پر رکھ کر عبارت پڑھی جائے۔ اگر وہ کیوبک زرکونیا ہوا تو عبارت پڑھنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی، تاہم اصل ہیرے کی صورت میں پڑھنا بہت مشکل ہو گا۔ اسرار، محمد علی کی معلومات سے متاثر تھا۔ اُس کی آنکھوں میں تجسس دیکھ کر محمد علی نے کہا کہ اصلی ہیرے پر بھاپ تین سیکنڈ سے زیادہ نہیں ٹھہرتی۔ نقلی جواہر اپنے حجم اور چمک دار رنگوں سے پکڑ لیے جاتے ہیں۔ البتہ موئزونائٹ اور زرکونیا کچھ ایسے پتھر ہیں جو اصل ہیروں کی طرح شیشہ کاٹنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قاسم نے محمد علی کو ٹوکتے ہوئے کہا :’علی بھائی سولڈ ہے آپ کی معلومات۔ علی مسکرایا اور اُس نے اپنی بات جاری رکھی۔ علی نے بتایا کہ اصلی ہیرے کی ایک پہچان اُس کا سائز ہے۔ عموماً مارکیٹ میں ہیروں کا وزن سینٹ سے شروع ہوتا ہے، اُس کا میزان قیراط میں بھی ہوتا ہے۔ بڑے ہیروں کا وزن پاؤ قیراط سے ڈیڑھ قیراط تک ہوتا ہے۔ ڈیڑھ قیراط کا مطلب ہے ہیرے کا سائز مکئی کے دانے کے برابر ہوتا ہے۔ زیادہ وزن اور بڑے سائز کے ہیرے کم اور بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ چنانچہ پیش کیا جانے والا ہیرا اگر مکئی کے دانے سے بڑا ہو تو پھر محتاط ہو جانا چاہیے۔
ہیروں کے بارے میں محمد علی کی معلومات سے اَسراراور قاسم نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ انھوں نے جی ہی جی میں یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ ہیروں کی پالش کا کام سیکھیں گے۔ اُنھیں احساس ہو گیا تھا کہ محمد علی کی نگرانی میں یہ ہنر سیکھنا آسان ہو گا۔ فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا غین آدمی دوبارہ کھڑا ہوا۔ آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھا کر اُس نے چند منٹ سرگوشی کی اور فٹ پاتھ پر چڑھ کر ایک بند دکان کی دہلیز پر لیٹ گیا۔ بہت سارے باکڑے والے اپنا سامان سمیٹ چکے تھے۔ سڑک پر اب لوگوں کی آمدو رفت بہت کم ہو گئی تھی۔ فٹ پاتھ کچرے کا ڈھیر تھا جس پر چوہے، گھونس اور کاکروچ رینگ رہے تھے۔ چند کتے کچرے میں بکھری مرغی کی ہڈیاں چبا رہے تھے۔
محمد علی نے اپنے سیٹھ کی فیاضی کی تعریف کی اور بتایا وہ ملازمین کے ساتھ گھر کے افراد جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ کوئی مصیبت آن پڑے تو مدد بھی کرتا ہے۔
رات قریب ساڑھے بارہ بجے اُن کی باتیں ختم ہوئیں۔
٭٭٭
انکشافات کی بھول بھلیاں — اقبال خورشید
اپنے افسانوں کے عشق میں مبتلا ہونے کے نو ماہ بعد اُس پر ایک انکشاف ہوا، جس نے اس کی زندگی بدل دی۔
نو ماہ قبل، جب وہ اِس انکشاف کے روبرو ہوا تھا کہ وہ اپنے لکھے افسانوں کے سحر میں مبتلا ہو چکا ہے، تب اُس نے سوچا تھا کہ اس کی زندگی بدل گئی ہے، مگر بعد کے انکشاف نے گزشتہ انکشاف کو بے وقعت کر دیا۔
اس کہانی کا آغاز اُس کی تحریر کردہ اُس کہانی سے ہوا، جس نے پہلی بار عرفان شیخ ولد کامران شیخ، مذہب؛ اسلام، قومیت؛ پاکستانی، مسکن؛ ناظم آباد نمبر دو، شناختی نشانی؛ ماتھے پر چوٹ کا نشان، کو یہ احساس دلایا کہ وہ کوشش کے باوجود اُس کہانی کے کردار، پلاٹ اور واقعات کے ماخذ تک نہیں پہنچ پا رہا۔
وہ ان دھاگوں سے لاعلم تھا، جن سے وہ افسانہ بُنا گیا۔
عنوان تھا: ’’ایک غافل کہانی‘‘، یہ ایک پاگل کی بپتا تھی، جو ’’رقاص کی آتما ‘‘ سے کچھ عرصے قبل لکھی گئی۔ اور ’’رقاص کی آتما ‘‘ وہ کہانی تھی، جس نے بعد میں ’’آصف دادا کی کھیر ‘‘ کو جنم دیا۔
تو واقعہ یوں ہے کہ ایک گرم صبح، قبض اور اپنی بیوی کی بدزبانی سے پریشان عرفان شیخ جب پسینے میں شرابور دفتر پہنچا، اور اِس خوش خبری سے حاملہ ہوا کہ آج باس کی عدم موجودگی کے طفیل اسے کسی بد تہذیب شخص کو فون کر کے قائل کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی ماں، بیوی یا داشتہ کا بیمہ کروا لے، تو اس نے اپنے بکھرے افسانوں کو یکجا کرنے کا فیصلہ کیا کہ کبھی نہ کبھی تو انھیں کتابی شکل دینی تھی، یا پھر گمنام فکشن نگاروں کی مانند قبر میں ساتھ لے جانا تھا۔ اور دونوں ہی صورتوں میں لازم تھا کہ انھیں یکجا کیا جائے۔
پہلے نظر ’’ایک اسٹیٹ ایجنٹ کی مٹرگشت‘‘ پر پڑی۔ پھر ’’جمعدار کی بیٹی‘‘، پھر ’’روتے کتے کا بدن‘‘ اور پھر ’’ایک غافل کہانی‘‘۔
اس نے ’’ایک غافل کہانی‘‘ کو پڑھنے کا فیصلہ کیا کہ ایک عرصے سے اُ سے نہیں پڑھا تھا۔ یہ ایک ایسے کردار سے متعلق تھی، جو برسوں پہلے تحریر کردہ اپنی ایک کہانی دوبارہ تحریر کرتا ہے، تاکہ اسے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔
اس نے قلم ہاتھ میں رکھا کہ حسب ضرورت تبدیلیاں کر سکے کہ وہ آخری وقت تک کہانی کو جوتوں کی طرح چمکانے کا قائل تھا۔ مگر اس روز ضرورت پیش نہیں آئی۔ وہ ایک ہی ہلے میں پوری کہانی پڑھ گیا۔ اور اختتامی منظر میں وہی تجسس محسوس کیا، جو اس وقت کیا تھا، جب اس نے یہ منظر لکھا تھا۔
اختتامی منظر میں ایک شخص اپنے باس کی گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے اس سڑک سے گزرتا ہے، جس سے وہ روز ہی گزرتا ہے۔ ۔ ۔ اس گلی میں داخل ہوتا ہے، جس میں وہ روز ہی داخل ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اس گھر کی دہلیز عبور کرتا ہے، جسے وہ روز ہی عبور کرتا ہے۔ ۔ ۔ اور پھر اس بیڈروم تک پہنچتا ہے، جس تک وہ روز ہی پہنچتا ہے۔ اور پھر۔ ۔ ۔
سسپنس اور تھرلر سے بھرپور اس کہانی کو پڑھ کر اس نے وہ خوشی محسوس کی، جو اسے فقط اس کے پسندیدہ ادیب عطا کیا کرتے تھے۔ تو اس نے اپنا کاندھا تھپکا۔ اس لہر کو پسند کیا، جو کہیں نیچے سے اٹھتی تھی۔ اور پھر اچانک۔ ۔ ۔ بالکل اچانک احساس ہوا کہ وہ اس کہانی کے کسی کردار، کسی واقعے، کسی منظر کے ماخذ کا علم نہیں رکھتا۔
وہ نہیں جانتا کہ وہ کیوں، کیسے، کب، کہاں اس کے تخیل میں داخل ہوئے۔ نہیں جانتا کہ مرکزی کردار کی تشکیل کے سمے اس کے ذہن میں کون سا رشتے دار تھا۔ واقعات کس فلم، ڈرامے یا خبر سے اُچکے۔ اسلوب کس کا پکڑا تھا۔
وہ اپنی دیگر کہانیوں کے ماخذات کا علم رکھتا تھا۔ ’’رقاص کی آتما‘‘ عماد آتنک وادی کی کہانی، جس سے اسکول کے زمانے میں مڈبھیڑ ہوئی۔ بدمعاشوں کا بادشاہ، آصف دادا بھی ان ہی زمانوں میں، اپنی گلی میں جھاڑو دیتا تھا۔ ’’روتے کتے کا بدن‘‘ لسانی فسادات کی دین۔ ’’تو ہی تو‘‘ کے پیچھے شہرت کی للک میں ہانپتے ایک شاعر کی موت کا المیہ۔ مگر ’’ ایک غافل کہانی ‘‘کے پیچھے کیا تھا؟
پیچھے کیا تھا۔ ۔ ۔ یہ وہ سوال تھا، جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔
اس لاعلمی نے، اور لاعلمی نعمت ہے، انشورنس پالیسیاں بیچ کر پیٹ پالنے والے اس شخص کو اپنی کہانیوں سے عشق پر اُکسایا۔
اس نے سگریٹ سلگائی۔ کہانی دوبارہ پڑھی۔ دوبارہ کاندھا تھپکا۔ وہ واقعی اس کی جڑوں کی گہرائی سے لاعلم تھا۔ اور یہ بَڑھیا تھا۔
اس نے دیگر افسانے بھی نکالے۔ ایک ایک کر کے پڑھنے لگا۔ اسے مزہ آ رہا تھا۔
موبائل اسکرین پر بیوی کا نمبر جھلملایا، مگر اس نے فون ریسیو نہیں کیا۔ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ سے کوئی اپنے بیٹے کے ختنہ کی خوش خبری لے کر آیا۔ چائے والے نے اطلاع دی کہ پے رول ہیڈ اپنے ابا سے محروم ہو گئے ہیں۔ ایڈمن آفیسرکارڈ لہراتا آیا کہ وہ اپنے بھائی کی بیوہ سے بیاہ رچا رہا ہے۔ ریسیپشنسٹ نے گریہ کیا کہ وہ بانجھ ہے۔ اس کے ساتھی نے ہم جنس پرست ہونے کا اعتراف کیا۔ خاکروب نے ان آوازوں کا چرچا کیا، جو بیت الخلا میں سنائی دیتی ہیں، مگر اس نے۔ ۔ ۔ عرفان شیخ نے قطعی توجہ نہیں دی۔
وہ اپنی تحریروں کے عشق میں مبتلا ہو چکا تھا۔ اور شادی کے بارہ برس بعد پہلی بار وہ تسکین محسوس کر رہا تھا، جو شادی سے پہلے کیا کرتا تھا۔
اور چاہتا تھا کہ اس اس کینڈل کو خوب اچھالا جائے۔
٭٭
’’تم افسانہ نگار لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہو، تم کمینوں کو جیل ہو جانی چاہیے۔ ‘‘
یہ الفاظ زاہد کمپیوٹر والے کے تھے۔ ہاتھ میں وسکی کا گلاس تھا۔ وہ بوتل اپنی کھٹارا گاڑی کی ڈِکی میں چھپا کر لایا تھا کہ جگہ جگہ ناکے لگے تھے۔ پر اب سیر ہو کر پی رہا تھا کہ اُسے یقین تھا کہ یہ کچی نہیں۔ اور پھر آج رات وہ گھر نہیں لوٹنے والا۔ اس کی حاملہ بیوی اپنی ماں کے ہاں گئی تھی۔
’’اور جیل میں تم کو کتوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ ‘‘ کمپیوٹر والے نے ایک فحش اشارہ کیا۔
عرفان شیخ شراب کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ زاہد کو وہ اپنے افسانوں ’’رقاص کی آتما‘‘ اور ’’آصف دادا کی کھیر‘‘ میں بطور کردار برت چکا تھا، بلکہ Black comedy اور Wit کے چکر میں اچھی خاصی درگت بنا چکا تھا۔ زاہد نے کبھی برا نہیں مانا۔ بلکہ یوں ظاہر کیا، جیسے وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے، تاہم آج، جب وہ نشے میں تھا، خود کو کھو کر بدھ بن گیا تھا، اس نے سچ اگل دیا۔
’’تم سالے شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے ہو۔ ‘‘
عرفان شیخ نے کہنا چاہا کہ جن جرائد میں اس کے افسانے شائع ہوتے ہیں، ان کی سرکولیشن محدود ہے۔ اور پھر جن چھوٹے بڑے ادیبوں تک پہنچتے ہیں، ان کی اکثریت صرف اپنی تخلیقات پڑھنے میں دل چسپی رکھتی ہے۔ اور پھر زاہد ایسا شریف بھی نہیں، تو پگڑیاں اچھالنے والا الزام بکواس۔ ۔ ۔
’’تم نے میرے متعلق صرف بکواس لکھی۔ ‘‘ کمپیوٹر والے نے کہا۔ ’’کبھی اُس زاہد کو پیش نہیں کیا، جو حساس انسان ہے۔ ‘‘
اس نے گلاس خالی کیا، اور سگریٹ سلگا لی۔ باہر رات تھی۔
زاہد کو بھول کر عرفان بیتے چند ماہ کے بارے میں سوچنے لگا، جو سرمستی کے ماہ تھے کہ وہ روز بروز اپنے لکھے ہوئے کے عشق میں دھنستا جا رہا تھا۔ اپنی تحریریں اس کا سانس بن گئیں۔ اور اس نے اورحان اور مارکیز کو پڑھنا چھوڑ دیا۔
ایک دبی نشست میں اس نے اپنے اس انوکھے تجربہ کی جانب، جسے وہ الہامی کہنا چاہتا تھا، مگر اجتناب برتا، اشارہ کیا۔ مگر جیسے ہی چائے کا اشارہ ہوا، سامعین کی توجہ بھٹک گئی۔
کچھ معاصر ادیبوں سے بھی بات کی، مگر انھوں نے یہ کہہ کر مایوس کیا کہ ایسا تو ہر تخلیق کار کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس نے تجریدی انداز میں اس کا اظہار فیس بک پر کیا، تو ایک صاحب نے اس اسٹیٹس پر یوں تبصرہ کیا: ’’وزیر اعظم پر خوب طنز کر رہے ہو میاں، کیا کپتان کی پارٹی میں چلے گئے ؟‘‘
دوسرے نے کہا: ’’اپوزیشن لیڈر کی ٹانگ کھینچنا بند کرو۔ تم تو شریفوں کے چمچے بن گئے ہو۔ ‘‘
ایک کہنے لگا؛ جب سے سو الفاظ کی کہانیاں مقبول ہوئی ہیں، ہر کوئی جگت بازی میں لگ گیا ہے۔
یہ اُس کا دوست بھیم تھا، جو اس کے ناول ’’ویگن میں جتا گھوڑا‘‘ کا مرکزی کردار بھی تھا، جس نے اس کی بات کو چاہے سمجھا نہ ہو، مگر توجہ سے سنا ضرور۔ اور ظاہر کیا کہ وہ سمجھ گیا ہے۔
تو چند ماہ سے عرفان شیخ کا اپنی تحریروں سے جاری معاشقہ جاری تھا، پرکسی نے اِسے اہم نہیں گردانا۔ لوگوں کو تو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ پچھلی بار کی طرح کہیں اس بار بھی مارشل لا رات ڈھلے نہ اتر آئے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بار مرد مومن دن میں نازل ہو، تاکہ حلوائی کی دکان کھلی ہو، تاکہ وہ مٹھائی بانٹ سکیں۔
’’مٹھائی ہے کیا؟‘‘ زاہد نے پوچھا۔ ’’نشے میں میٹھا اچھا لگتا ہے۔ ‘‘
اس نے وہ ڈبا آگے بڑھا دیا، جو آج صبح ریسپشنسٹ نے دیا تھا کہ اس میں کچھ ٹھہر گیا تھا۔
کمپیوٹر والے نے مٹھائی منہ میں ڈالی۔ نیم وا آنکھوں سے آسمان کی سمت دیکھا۔ پھر فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’تم سالے خدا بننا چاہتے ہو۔ کردار کو مخلوق بنا لیتے ہو۔ اس کا ریپ کرتے ہو۔ یو باسٹرڈز۔ ‘‘
عرفان شیخ چونکا۔ اس نے اس سے ملتی جلتی بات کبھی نہ کبھی سوچی تو تھی، مگر کسی کے منہ سے سنی نہیں تھی۔ اور اس سمے ایک ایسا شخص، جو نشے میں دھت تھا، عظیم بدھ کے مانند خود کو مٹا چکا تھا، آکاش سے کلام کر رہا تھا۔
’’تم کتے کے بچے جبر و قدر کے فلسفے سے کھیلتے ہو، ہیں ناں ؟ کردار کی تقدیر تمھارے ہاتھ۔ ہر فیصلہ تمھارا۔ اور الزام کردار پر۔ لوگ کہتے ہیں، بیدی کا فلاں کردار اچھا تھا، منٹو کا فلاں کردار شاطر اور عصمت کا فلاں کردار رذیل ؛ بل شٹ۔ یہ سب تو تم لوگوں کی حرام پائی ہے۔ اور مٹھائی ہے کیا؟‘‘
عرفان نے وہ ڈبا آگے کر دیا، جو اُس دفتری ساتھی نے دیا تھا، جو ہم جنس پرست تھا، مگر گھر والوں کے اصرار پر اپنی ایک کزن سے شادی کرنے جا رہا تھا۔
کمپیوٹر والے نے برفی کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔ بازو کی مچھلیاں پھلائیں۔ سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اسے پھندا لگا۔ کھانستے کھانستے وہ ہنسنے لگا۔
’’ویسے یار، اگر تمھارے کرداروں کو اس کمینے پن کا پتہ ہوتا، تو تم سے پین چھین کر خود اپنی کہانی لکھتے۔ اپنی مرضی کی کہانی۔ جیسی زندگی چاہتے، ویسی جیتے۔ یہ کردار بھی ہماری طرح ہی ہیں۔ سالے ہم بھی تقدیر کے قیدی ہیں۔ اگر میں۔ ۔ ۔ ‘‘
اور شراب اپنا اثر کھونے لگی۔
’’اگر میں خود اپنی کہانی لکھتا۔ ۔ ۔ تو کبھی اپنی بیوی کو حاملہ نہ ہونے دیتا۔ ۔ ۔ سالا تیسرا بچہ۔ ۔ ۔ تیسرا۔ ۔ ۔ اتنی مہنگائی۔ ۔ ۔ بجلی اور گیس کے بل۔ ۔ ۔ اسے منع بھی کیا تھا، مگر اس کتیا کو تو بچہ چاہیے۔ ۔ ۔ اور میری ساس۔ سالے اتنے دھماکے ہوتے ہیں، وہ اڑ کیوں نہیں جاتی۔ ۔ ۔ میں نے تو منع کیا تھا۔ اگر میں نے اپنی تقدیر لکھی ہوتی، تو میں کبھی۔ ۔ ۔ ‘‘
کمپیوٹر والے کا نشہ تیزی سے اتر رہا تھا۔ اب وہ مزید بدھ نہیں رہا تھا۔ ایک نیچ انسان کا روپ دھار چکا تھا۔ اور اس نیچ انسان نے اپنی کہانیوں کے عشق میں مبتلا کہانی کار کو ایک انکشاف کے روبرو لا کھڑا کیا۔
انکشاف کہ اگر کردار خود اپنی کہانی لکھے، تو وہ غم کی دھول سے پاک ہو گی،
اس میں کرب کا کُب نہیں ہو گا،
اور اس میں ناکامی کی بنجر زمین نہیں ہو گی۔
ہو گی تو اس کی مرضی کی تقدیر، جو ہر رات جوڑے میں خوشیاں جنے گی۔
اور پھر خوشیوں کا وہ جوڑا آپس میں اختلاط کرے گا،
اور پھر اس سے مزید جوڑے پیدا ہوں گے۔
اور پھر وہ اختلاط کریں گے۔ اور پھر مزید جوڑے۔ اور پھر مزید اختلاط۔ اور مزید جوڑے۔ اور مزید خوشیاں۔
وہ فرط جذبات سے کھڑا ہو گیا، اور گلاس زمین پر دے مارا۔
’’میں اپنی کہانی خود لکھوں گا۔ ‘‘
زاہد کمپیوٹر والے نے الٹی کر دی۔ اور زمین پر گر کر خراٹے لینے لگا۔
٭٭٭
اس انکشاف کے بعد کہ وہ اپنی جیون کہانی خود لکھ سکتا ہے، اس نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔
زاہد کے خراٹوں کے درمیان، اور قے کی کھٹی بو کے بیچ اُسی حبس زدہ رات کا آغاز کر دیا۔
تو اُس نے اگلے روز کی کتھا لکھی۔ اور قبض، اور بیوی کی بدزبانی، اور ٹریفک جام سے پاک ایک روشن صبح قلم بند کی۔
اگلے روز کی کہانی، جس میں انشورنس پالیسی خریدنے والے میز کے سامنے قطار لگائے کھڑے ہیں۔ اور اُس نے اپنے باس کو منظر کیا، جو اس کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔ ۔ ۔ اور مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کی کَسی ہوئی لڑکی اُسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ ۔ ۔ اور سیکڑوں قارئین اس کے افسانوں کے سحر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اور اس کا باس اُس کی پیٹھ۔ ۔ ۔
اس نے سب کچھ منظر کیا۔ ایک زرد ڈائری میں، جو اس رجسٹر جیسی نہیں تھی، جو کبیر مہدی کا تھا۔
جب وہ سویا، تو قبض تھا، اور بیوی کا منہ ٹیڑھا تھا، اور بچے نے بستر گیلا کر دیا تھا، مگر جب وہ بیدار ہوا۔ ۔ ۔ معجزہ ہو چکا تھا۔
کمرے میں ایک لطیف مہک کا بسیرا تھا۔ بچہ اسکول یونیفارم میں کسی فرشتے کی مانند تھا۔ اور بیوی گلابی گاؤن میں بھلی لگتی تھی۔ اور چائے خوش ذائقہ اور ٹوسٹ کرارے تھے۔ اور موسم میں نئے پن کی چٹخ تھی۔ اور سڑکوں پر مویشیوں کا گوبر نہیں تھا۔ تمام سگنلز سبز تھے۔ دفتر کا اے سی کام کر رہا تھا۔ باس کھلکھلا رہا تھا۔ انشورنس پالیسیاں دھڑا دھڑا بک رہی تھیں۔ کَسی ہوئی لڑکی اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ قارئین کے سائبیریا اور لیبیاسے خطوط آ رہے تھے۔ ۔ ۔
اس کے ہاتھ جادوئی نسخہ لگ گیا۔ اور یہ سب اس انکشاف کے باعث ہوا، جو کمپیوٹر والے کے وسیلے سے اس تک آیا۔ جو کل رات خود کو بھلا بیٹھا تھا۔ اور بدھ بن گیا تھا۔
کَسی ہوئی لڑکی کے ساتھ شام کی چائے پینے کے بعد وہ گھر لوٹا، جس کی سجاوٹ میں تازگی تھی، اور بیوی کی لپ اسٹک میں اسٹرابری کی خوشبو تھی۔ اور چکن کڑاہی میں کوئلے کی مہک تھی۔ اور۔ ۔ ۔
اور پھر وہ زرد ڈائری لے کر بیٹھ گیا کہ اس کے ہاتھ طلسماتی نسخہ لگ گیا تھا۔ آج کی پڑیا کام کر گئی۔ اور اسے کل کی پڑیا تیار کرنی تھی۔
تو اس نے ایک اور خوش گوار صبح قلم بند کی۔ اور اِس بار بوندا باندی کا اضافہ کر دیا۔ اور دفتر میں ایک اور شاندار دن منظر کیا، جس میں بونس کی خوش بو تھی۔ اور کَسی ہوئی دوشیزہ تھی۔ اور پاک بھارت میچ تھا۔ اور۔ ۔ ایک رشتے دار، جو مرتے سمے اپنی جائداد اس کے نام چھوڑ گیا۔
تو جب وہ سویا، تو سب اچھا تھا۔ مگر جب وہ جاگا۔ ۔ ۔ تو سب، بہت سے کچھ زیادہ اچھا تھا کہ بوندا باندی ہو رہی تھی کہ دفتر میں ہر کوئی اسے ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ باس نے بونس کا وعدہ کر لیا تھا کہ لڑکی نے اظہار محبت کر دیا تھا کہ۔ ۔ ۔ اسے ایک فون کال موصول ہوئی۔ ۔ ۔ ہاں، ایک دور پرے کا رشتہ دار مر گیا۔ اپنا مکان اس کے نام کر گیا۔
تو یوں عرفان شیخ، ولد کامران شیخ تقدیر کے جبر سے آزاد ہو گیا۔
اب وہ اپنی تقدیر، اپنی کہانی خود لکھ رہا تھا۔
ایک ناول، جس کا مرکزی کردار وہ خود تھا۔
ناول، جو غم کی دھول سے پاک تھا۔ جس میں کرب کا کُب نہیں تھا۔ جس میں خوشیاں جنی جا رہی تھیں۔ مسلسل۔ کیونکہ وہ مسلسل لکھ رہا تھا۔ ہر رات۔
بطور مصنف اسے ادراک تھا کہ عام قارئین کے لیے یہ بیکار کہانی ہے کہ اِس میں کوئی موڑ نہیں، کوئی لوچ نہیں، نیا پن نہیں، دوئی نہیں۔ تضادات نہیں۔ بس خوشی ہی خوشی ہے۔ کامرانی ہی کامرانی۔ شادمانی ہی شادمانی۔
تو قارئین کے لیے یہ دو کوڑی کی کہانی تھی، مگر اس کے لیے تو یہ ’’وار اینڈ پیس‘‘ سے بھی بڑا ناول تھا۔ ’’تنہائی کے سو سال ‘‘سے زیادہ شاندار۔ ’’اور ڈان بہتا رہا ‘‘ کا بہاؤ اس کے آگے کیا بیچتا تھا۔
وہ مسلسل لکھ رہا تھا۔ ہر رات۔
ایک شریف مرد کی طرح اُس نے اپنی جنسی تسکین کا سامان کیا۔ وہ کَسی ہوئی لڑکی کو بستر تک لے گیا۔ اور پھر دفتر کی اس لڑکی کے ساتھ بھی ہم بستری کی، جو کَسی ہوئی تو نہ تھی، پر اچھی تھی۔ اور اس لڑکی سے صحبت کی، جو در حقیقت ایک عورت تھی۔
ان ہم بستریوں میں محبت کا فقدان تھا۔ تو اس نے اپنی بیوی کی سمت توجہ مرکوز کی۔ اور اپنی زرد ڈائری میں روز بروز درج ہونے والی کہانی میں، مرکزی کردار کی بیوی کے جسمانی خد و خال میں، صرف بہتری کی نیت سے کچھ تبدیلیاں کیں۔ تو عورت کی رنگت کچھ نکھر گئی۔ اور بال کچھ چمکنے لگے۔ اور پھٹی ایڑیوں کا تدارک ہوا۔ اور سینہ کچھ بڑھا دیا۔ اور پیٹ کچھ کم کیا۔ اور۔ ۔ ۔
اور اگلی صبح، عرفان شیخ کے ناول کے کردار عرفان شیخ کی بیوی گزشتہ رات کے مقابلے میں زیادہ چٹخارے دار دکھائی دیتی تھی۔ اور پھر اس کی اپنے شوہر کو انگیخت کرنے کی صلاحیت، جو اس میں بہ درجہ اتم نہیں تھی، بلکہ ناول نگار کی دین تھی، بڑھتی گئی۔
اور اب اس نے توجہ معاشی استحکام پر مرکوز کی۔ تو عرفان شیخ نے اپنے کردار عرفان شیخ کو دفتر میں ترقی پا کر اپنے باس کی کرسی سنبھالتے دیکھا، اور اُسے لکھا۔ اور پھر اسے جیا۔
اور اس نے خود کو نئی گاڑی میں گھومتے دیکھا۔ اور اسے لکھا۔ اور پھر اُسے جیا۔
تو اس کے پرائز بانڈز نکلے۔ لاٹریاں جیتیں۔ سٹے اور جوئے سے دولت کمائی۔ مگر جلد وہ تھک گیا کہ اس کے عضو میں ایک شریف النفس اسکول ٹیچر کا خون تھا۔ اور یہ دولت نہیں تھی، جس کی وہ کم عمری میں، جب اُس سے بد فعلی کی گئی، سپنے دیکھا کرتا تھا، بلکہ یہ شہرت تھی، جس کا وہ خواہش مند تھا۔
تو اس بار، جب اس نے اپنے کردار عرفان شیخ کی کہانی لکھی، جسے اب وہ تقدیر لکھنے کا عمل کہنے لگا تھا، اور ایسا کہتے ہوئے کچھ تکبر محسوس کرتا تھا۔ ۔ ۔ تو اب جو اس نے اگلے روز کی کہانی لکھی، تو اپنے کردار کو ایسی فون کال موصول کرتے منظر کیا، جس کی دوسری طرف ایک ڈراما پروڈیوسر تھا، جو اُس کے افسانے ’’ایک اسٹیٹ ایجنٹ کی مٹرگشت‘‘ پر ڈراما بنانا چاہتا تھا۔
اور اگلے روز ایسا ہی ہوا۔
اور پھر اس نے منظر کیا؛ اُس کا افسانہ ’’روتے کتے کا بدن‘‘ نصاب میں شامل کر لیا گیا ہے۔
اور اگلے روز ایسا ہی ہوا۔
اس کے افسانے اسٹیج پر پیش کیے جانے لگے۔ اور وہ ریڈیو سے نشر ہوئے۔ اور کئی جرائد نے اس کے گوشے شائع کیے۔
لاہور کے ایک بڑے پبلشر نے فون کیا، جو اُس کا مجموعہ شائع کرنا چاہتا تھا۔ اور پھر ایک پاکستانی فلم ساز نے ’’ایک غافل کہانی‘‘ کو فلمانے کا فیصلہ کیا۔ انڈیا میں بیٹھے وشال بھاردواج کو ’’آصف دادا کی کھیر‘‘ بھا گئی۔ کرسٹوفر نولن نے ’’ تو ہی تو‘‘ کے حقوق مانگ لیے۔
تو وہ روز اپنی تقدیر لکھتا، اور روز اسے جیتا۔ تو اس نے خود کو ادبی ایوارڈز وصول کرتے منظر کیا۔ اور پھر ایوارڈ وصول کیے۔
اور خود کو تمغۂ امتیاز پاتے دیکھا، اور پھر وہ اعزاز پایا۔
اور اس کی کتابوں کے انگریزی تراجم ہوئے۔ اور اس کا یادگاری ٹکٹ جاری ہوا۔
تو سب مست تھا۔ وہ فلم اسٹارز، بیوروکریٹس، سیاست دانوں، اسمگلروں، دہشت گردوں، خود کش بمباروں کے ساتھ لنچ کر رہا تھا۔ ثانیہ مرزا کے ساتھ ٹینس کھیل رہا تھا۔ اور مودی جی کے ساتھ جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور حامد کرزئی کو چٹکلے سنا رہا تھا کہ زاہد کمپیوٹر والا اس کی زندگی میں داخل ہوا۔ ۔ ۔
٭٭٭٭
’’بھائی، تیری تو نکل پڑی۔ ‘‘
اس نے وسکی کی بوتل لہرائی۔ اور گلے لگ کر عربوں کی طرح اس کے گالوں پر بوسے دیے۔ اور اناڑی پن میں گال گیلے کر دیے۔
انھوں نے کئی پیگ چڑھائے۔ بہت سی مٹھائی کھائی۔ قہقہے لگائے۔ اور خود کو بدھ سمجھنے لگے۔
وہ زاہد سے مل کر خوش تھا۔ اُسی کے انکشاف نے تو اس کی زندگی بدلی تھی۔ اُسے اپنی تقدیر لکھنا سکھایا تھا۔
تو وہ خوش تھا۔ اور جام پر جام پی رہا تھا۔
اور جب بوتل خالی ہو گئی، اور وہ بہت تھک گئے، اور رات بہت ہو گئی، تب ادھر ادھر کی بک بک میں زاہد نے اپنے پیارے دوست سے شکوہ کیا کہ اس نے بہت دنوں سے کوئی کہانی نہیں لکھی۔
جب اس نے مسکراتے ہوئے اپنے افسانوں پر بننے والے ڈراموں کا تذکرہ کیا، ان فلموں کا بتایا، جو فلور پر جانے والی ہیں، تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔
’’شیدے، وہ تو سب پرانے افسانے ہیں۔ وہی، جس میں مَیں اور تو ہیں۔ وہ سارے تیرا بھائی پڑھ چکا۔ جانییی ی، نئی کہانی کدھر ہےے ےے ہہ ہ۔ ‘‘
’’ابھی لکھ لیں گے۔ ‘‘ وہ مسکرایا کہ وہ پُر اعتماد تھا کہ جب وہ تقدیر لکھ سکتا تھا، تو کہانی کا کیا ہے۔
’’نہیں جانی، اب تو پہلے والا عرفان نہیں رہا۔ ‘‘ زاہد، جو بدھ تھا، سب جانتا تھا۔
اسے تھوڑا ناگوار گزرا۔ ’’آج یہیں رُک۔ صبح ایک شاہکار تیرے سامنے ہو گا۔ ‘‘
’’کار۔ ۔ کار۔ ۔ ۔ ۔ اوہ یاد آیا۔ یار وہ سی این جی ڈلوانی تھی۔ گھر جانا تھا ناں۔ وہ۔ ۔ ۔ ‘‘
زاہد نے الٹی کی، اور وہیں سو گیا۔
عرفان نے نشے کو الوداع کہا۔ لکھنے کی میز تک گیا، جہاں وہ روز اپنی تقدیر لکھا کرتا تھا۔ مگر آج اس نے زرد ڈائری کو ہاتھ نہیں لگایا کہ آج اُسے تقدیر نہیں، ایک کہانی لکھنی تھی۔ اس نے قلم تھاما، سفید ورق سامنے رکھا، جھکا، اور سفید ہو گیا۔ ۔ ۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا لکھے۔
اُس نے سگریٹ سلگائی۔ بجھائی۔ چائے بنائی۔ پی۔ مگر موضوع ہاتھ نہیں آیا کہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے وہ کسی ایسے واقعے، تجربے سے گزرا ہی نہیں تھا، جو کہانی کا موضوع بن سکتا۔
کوئی معاشی مسئلہ نہیں۔ بے قیمتی کا المیہ نہیں۔ جنسی نا آسودگی نہیں۔ ناکامی نہیں۔ غم نہیں، کرب نہیں، اندیشہ نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں، جس کی مدد سے وہ اپنے افسانے ’’ایک علیل دن کی قلیل روداد‘‘ جیسی زوردار کہانی لکھ سکتا۔ اس کے پاس تو فقط خوشی تھی۔ اور خوشی سے کوئی کہانی نہیں بُنی جا سکتی تھی۔ مسرت کہانیاں نہیں جنتی۔
تو کوئی موضوع نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ تھک گیا۔ اوربستر پر چلا گیا۔ خود کو کوسا کہ اگر وہ گزشتہ رات، آج کی تقدیر لکھتے ہوئے، خود کو ایک کہانی لکھتے ہوئے بھی تصویر کر لیتا، تو یہ نوبت نہ آتی۔ اور عہد کیا کہ اگلے روز وہ ایسا ضرور کرے گا۔ اور سو گیا۔
اور یوں ان ڈیڑھ برس میں پہلی بار وہ اگلے روز کی کہانی لکھنا، جسے وہ تقدیر لکھنا کہا کرتا، بھول گیا۔
اور یوں ڈیڑھ برس بعد اس مصنف کے ہاتھ، جو سب کی تقدیر لکھا کرتا تھا، ایک موقع آ گیا۔ ۔
اگلی صبح، ایک پریشان کن صبح تھی۔ موسم گرم۔ دیواروں کے رنگ پھیکے۔ بیوی کا منہ ٹیڑھا۔ ٹنکی میں پانی نہیں۔ اور قبض۔
دفتر جاتے ہوئے راستے میں ٹائر پنکچر ہوا۔ چوکیدار نے سلام نہیں کیا۔ کمرے کا اے سی خراب۔ مالکان نے ڈاؤن سائزنگ کا عندیہ دے دیا۔ کَسی ہوئی لڑکی نے توجہ نہیں دی۔
وہ آج کی تقدیر لکھنا بھول گیا تھا، اور سب کی تقدیریں لکھنے والے کے ہاتھ ایک موقع آ گیا۔
وشال بھاردواج کی ای میل آئی۔ اُس نے فلم بنانے کا منصوبہ ملتوی کر دیا تھا۔ کرسٹوفر نولن کسی اور پراجیکٹ میں جٹ گیا۔ اس کے ناولٹ کا مترجم بیمار پڑ گیا۔ جس وزیر کے ساتھ آج ڈنر تھا، وہ دھرنے پر بیٹھ گیا۔ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔
حقیقی مصنف کے ہاتھ ایک موقع آ گیا تھا۔
واپسی میں وہ ٹریفک جام میں پھنسا۔ پولیس والے نے چالان کیا۔ گاڑی کھمبے سے ٹکرا گئی۔ ڈکیت نے موبائل چھین لیا۔ وہ منہ لٹکائے گھر پہنچا، تو پتہ چلا کہ کئی گھنٹوں سے لائٹ نہیں۔ جنریٹر چلنے سے انکاری۔ گیس کا پریشر کم۔ بیوی نے سسر ال جانے کے معاملے پر خوب جھگڑا کیا۔ بچے نے اُسے وہ گالی دی، جو اُس نے تازہ تازہ اسکول میں سیکھی تھی۔
اصل مصنف اس کا جیون رتھ سنبھالے ہوئے تھا۔
عرفان شیخ ولد کامران شیخ جب منحوسیت سے نڈھال سوفے پر ڈھیر ہوا، تو دو خیالات ایک ساتھ نازل ہوئے۔
پہلا خیال؛ اب اس کے پاس وہ سارا مواد ہے، جس کی مدد سے وہ ایک چست کہانی لکھ سکتا ہے۔
اور دوسرا کہ اسے فوراً زرد ڈائری تک پہنچنا چاہیے، تاکہ اپنے کل کی کہانی لکھ سکے کہ اسی کوتاہی کے باعث یہ سارے عذاب نازل ہوئے تھے۔
تو وہ اسٹڈی کی سمت دوڑا۔ وہاں بھی بدقسمتی منتظر۔ بیوی نے صفائی کروائی، تو کتابوں کی ترتیب بدل دی۔
وہ سفید ورق، جس پر اس نے کل ایک کہانی لکھنے کی سعی کی تھی، سامنے دھرا تھا، اور کہہ رہا تھا کہ وہ کچھ لکھے۔ مگر اُسے سفید نہیں، زرد رنگ کی تلاش تھی، جو گم ہو گیا تھا۔
اس نے کتنے ہی شیلف کھنگالے۔ کتنی ہی کتابیں زمین پر گرائیں۔ کتنے ہی قلم توڑے۔ کتنے ہی ورق پھاڑے، تب کہیں جا کر وہ زرد ڈائری ایش ٹرے کے نیچے بچھے اخبار کے نیچے نظر آئی۔
وہ خوشی سے کھل اٹھا۔ جھک کر ڈائری اٹھائی۔ جھکتے ہوئے کمر میں جھٹکا آیا۔ درد سہتے ہوئے ڈائری کھولی۔ قلم کی تلاش میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ وہاں فقط ٹوٹے ہوئے قلم تھے، جو اس نے خود توڑے تھے۔
تقدیر لکھنے والے مصنف کے حملے گھاتک تھے۔
عرفان شیخ کے سینے میں درد اٹھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ بدقسمتی پھنکارنے لگی۔
اچانک لفافے چاک کرنے والی چھری نظر آئی۔ اس نے کند چھری پوری قوت سے انگلی پر پھیری۔ خون کی باریک سی لکیر۔ اس نے انگلی ڈائری کے ورق پر رکھ دی، اور مرتے ہوئے فاتح کی مانند مسکرایا۔
اب وہ اپنی تقدیر لکھ سکتا تھا۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ لکھتا، زمین لرزنے لگی۔ ۔ ۔ چھت گر گئی۔ ۔ ۔ دیواریں ڈھے گئیں۔ ۔ ۔ اور اپنے وقت کا عظیم ترین افسانہ نگار۲ئ۷ شدت کے زلزلے کی لپیٹ میں آ گیا۔
وہ اپنی تقدیر نہیں لکھ سکا۔ ۔ ۔ تقدیر لکھنے والا مصنف جیت گیا۔
٭٭
مصنف نے، اُس مصنف نے، جس نے افسانہ نگار، عرفان شیخ کا کردار تشکیل دیا، اور اُسے خود کو ایک کردار کی شکل دے کر زرد ڈائری میں ایک کہانی لکھنے پر مائل کیا، اور پھر ایک لرزش کروائی، اور پھر قدرت کے ہاتھوں نیست و نابود کروا دیا۔ ۔ ۔ گہرا سانس لیا۔
مصنف نے۔ ۔ ۔ اصل مصنف نے۔ ۔ ۔ قلم رکھ کر انگڑائی لی۔ وہ خوش تھا کہ کہانی مکمل ہوئی۔ وہ چہل قدمی کے لیے نکل گیا۔ لوٹنے کے بعد چائے بنائی۔ کچھ دیر ٹی وی دیکھا۔ چند گھنٹوں بعد اپنی لکھی کہانی پڑھنی شروع کی، اس ارادے سے کہ ضروری رد و بدل کر سکے کہ وہ بھی اپنے کردار عرفان شیخ کی مانند کہانی کو آخری وقت تک مانجھنے پر یقین رکھتا تھا۔
کہانی پڑھتے ہوئے کچھ حصوں کو اس نے قلم زد کیا۔ کچھ تبدیلیاں کیں۔
دو ہفتے بعد اس نے یہ کہانی پھر پڑھی۔ اور تب۔ ۔ ۔ وہ اس سے لطف اندوز ہوا، ٹھیک ویسے، جیسے وہ اپنے من پسند ادیبوں کی کہانیوں سے ہوا کرتا تھا۔
ایک ماہ بعد فیصلہ کیا کہ کہانی کسی جریدے کو بھیج دی جائے۔ اس نے کہانی پڑھی۔ اور تب، یک دم احساس ہوا کہ وہ اس کے کردار اور واقعات کے ماخذ سے لاعلم ہے۔ نہیں جانتا کہ یہ اس کے تخیل میں کب، کہاں، کیسے اور کیوں کر داخل ہوئے۔
وہ اس کی جڑوں سے لاعلم تھا۔ اور یہ بَڑھیا تھا۔
اس نے پہلی بار اپنی تحریر کردہ کہانیوں کے لیے ایک خاص قسم کی کشش محسوس کی۔ کشش، جو اپنی تحریر کردہ چند اور کہانیاں پڑھنے کے بعد شدت اختیار کرنے لگی۔
اور تب اس پر انکشاف ہوا کہ وہ اپنی کہانیوں کے عشق میں مبتلا ہو چکا ہے۔
اور تب ایک اور انکشاف ہوا کہ وہ اپنی کہانی خود لکھ سکتا ہے۔ ۔ ۔
اور تب۔ ۔ ۔
٭٭٭
آشا — اسلم جمشید پوری
وہ خصوصی طور پر آسمان سے نہیں اتری تھی۔ اسی گاؤں میں پیدا ہوئی۔ بڑی ہوئی اور اب گاؤں کی پہچان بنی ہوئی تھی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ گاؤں کی پہلی لڑکی تھی جس نے ظلم سہا اور آہستہ آ ہستہ خود کو ظلم کے خلاف کھڑا بھی کیا۔ ۔ وہ عام سی لڑکی تھی۔
وہ، ماتا دین اور شربتی کی اکلو تی اولاد تھی۔ بچپن ہی سے وہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی لیکن نین نقش ایسے کہ چہرے پر، کشش اور بھولپن ہمیشہ طاری رہتا۔ دس با رہ سال کی عمر تک تو وہ توتلی بھی تھی۔ زیادہ تر لوگ اسے سننے کے لیے بے سبب بھی چھیڑتے۔
’’کہاں دالی ہے لڑ تی؟‘‘ گاؤں کے چاچا ایشر نے اسے چھیڑا۔
’’ کہیں نا دالی، بت‘‘اس کے جواب پر لوگ ہنس پڑے۔
’’ الے کوٗ دانت پھار لیے ہو؟‘‘ وہ تھو ڑا طیش میں آ گئی۔
ایشر چاچا، را مو، جو گندر، مو ہن سب مزید ہنسنے لگے۔
’’ میں تھمالی چھکایت کلوں گی۔ بابا چھے ‘‘ وہ ان کی ہنسی سے تنگ آتے ہوئے بو لی۔
’’ دا بول دے، بابا چھوٗ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
رامو اس کی نقل کرتے ہوئے بو لا تو سب ایک بار پھر ہنس پڑے۔ اتنے میں ماتا دین وہاں آ گیا۔ ماتا دین بھنگی تھا۔ اسے ویسے بھی گاؤں کے لوگ بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اکثر تو اس سے دور دور ہی رہتے۔ ماتا دین بڑا محنتی اور ایماندار تھا۔ وہ گاؤں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ اس کی بیوی شربتی بھی گاؤں میں کام کیا کرتی تھی۔ دونوں نے اپنی بیٹی کو بڑے جتن سے پا لا تھا۔ وہ دونوں اپنی بیٹی کو، اپنے کام سے دور رکھنا چا ہتے تھے اور اسے پڑھا نا بھی چا ہتے تھے۔ بڑی منت سماجت کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کا نام گاؤں کے اسکول میں لکھوا دیا تھا۔ آشا، ہاں یہی نام تھا اس کا۔ آشا اسکول جانے لگی تھی۔ عمر میں تو وہ سات آ ٹھ سال کی ہو گی جب اسے اسکول میں بٹھایا گیا۔ اپنی کلاس میں وہ سب سے بڑی تھی۔
’’ بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیتھو۔ یہ سب مدے تنگ کر لے ہیں۔ ‘‘ آشا نے ماتا دین کو دیکھ کر آواز لگائی۔ ماتا دین نے چاچا البشر اور دوسرے لڑکوں سے نر می سے کہا۔
’’ اسے تنگ نہ کرو، جاؤ اپنا کام کرو۔ ‘‘
اور سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ آشا محنت کرنا جانتی تھی۔ اسکول میں بھی وہ خوب دل لگا کر پڑھتی۔ لیکن دوسرے بچے اسے دھتکارتے رہتے۔ کبھی کبھی تو استاد بھی اس کے خلاف ہو جاتے۔
’’ سل، دیتھو، یہ مندو(منجو) مجھے تنگ کل لئی ہے۔ ‘‘
اس نے منجو نامی اپنی کلاس میٹ کی شکایت ٹیچر سے کی۔ منجو گاؤں کے مکھیا کی بیٹی تھی۔ مکھیا کا گاؤں پر راج تھا۔ اس کے دو ہٹے کٹے بیٹے تھے، پھر چار پانچ مشٹنڈے بھی ہر وقت بیٹھک پر پہرہ دیتے رہتے تھے۔ مکھیا گری راج برہمن تھا اور اس کے پاس قریب سو بیگھے زمین تھی۔ اتنی زمین تو گاؤں کے اور بھی کئی لو گوں کے پاس تھی، مگر گری راج دبنگ قسم کا آدمی تھا۔ وہ کئی بار سے الیکشن جیت رہا تھا۔ گاؤں کے آدھے سے زیادہ لوگ اس کے ووٹر تھے۔ باقی ماندہ، غریب، مزدور اور کمین، اس کے رعب داب کے آگے آواز تک نہیں نکال سکتے تھے۔ ماتا دین تو بے چا رہ غریب گاؤں کی گندگی صاف کرنے کا کام کرتا تھا۔ کام کے بدلے لوگ اسے اناج دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چیز اور دیتے تھے نفرت، حقارت اور پھٹکار۔ ماتا دین اور اس کی بیوی شربتی ایسی ہی بے عزتی، نفرت اور حقارت کے نوالے اپنے پیٹ میں اتار اتار کر زندگی گذار رہے تھے، مکھیا تو اسے اکثر ذلیل کرتا رہتا تھا۔
’’ کیوں بے ماتا دین، دو دن سے صفائی کے لیے نہیں آیا۔ کہاں مر گیا تھا۔ ‘‘
’’ سرکار، میں شربتی کے گاؤں چلا گیا تھا، کچھ کام تھا۔ ‘‘
’’ بتایا کیوں نہیں۔ یہ کام کون کرے گا تیرا باپ۔ ‘‘
’’ ہمیں کریں گے سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور وہ مکھیا کے گھر کے ٹائلٹ اور باتھ روم صاف کر کے ہی گھر وا پس جاتا۔ گاؤں میں اب ترقی ہونے لگی تھی۔ گاؤں کی سڑ کیں بھی اچھی ہو گئی تھیں، کھیتی بھی اب بیلوں کے بجائے ٹریکٹر اور دوسری مشینوں سے ہونے لگی تھی۔ گاؤں کے مکھیا اور اس جیسے امیر گھروں میں نیا فیشن آ گیا تھا۔ موٹر سائیکلیں، کاریں، کولر وغیرہ لگ گئے تھے۔ ٹائلٹ اور باتھ روم بن گئے تھے۔ اب دیر سویر مردوں، عورتوں کو جنگل جانا نہیں پڑ تا تھا۔ لیکن گاؤں کی تقریباً نصف سے زیادہ آ بادی آج بھی سو سال پیچھے ہی تھی۔ گاؤں میں ایک ہی اسکول تھا۔ اسکول کے لیے بھی گری راج ہی نے سرکار کو زمین دی تھی۔ اسکول کے ما سٹر بھی مکھیا کو سلا می مارتے تھے۔ مکھیا کی بیٹی منجو اور آشا ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں۔ منجو کا اسکول میں سکہ چلتا تھا۔ وہ سب پر سوا ری کرتی تھی۔ ماسٹر بھی اسے کبھی کچھ نہیں کہتے۔ بچے بھی اس کی شکایت ما سٹر سے کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ وہ آ شا کو اکثر چھیڑ تی رہتی تھی۔ ایک بار آ شا نے جب منجو کی شکایت ماسٹر سے کی تو منجو کو بہت غصہ آیا۔ اسنے ما سٹر کے سامنے ہی آشا کی چٹیا پکڑ کر اسے زمین پر گرا دیا۔ آشا کو اس اچا نک حملے کی امید نہیں تھی۔ وہ گر تو گئی پر اٹھتے ہی اس نے منجو کے بال پکڑ لیے۔ اس سے قبل کے منجو، آ شا کے قابو میں آ جا تی، ماسٹر نے منجو کو بچا لیا اور آشا کو پکڑ لیا۔ آشا کے ما سٹر کی گرفت میں آ تے ہی منجو نے آشا کو ایک زبردست گھو نسہ رسید کر دیا۔ آشا کی ناک سے خون نکل آیا۔ ما سٹر نے بیچ بچاؤ کراتے ہوئے آشا کو ڈانٹا۔
’’ تم بے کار میں لڑنے لگتی ہو___‘‘
’’ سل اس نے میلی لبل توڑ دی تھی اور یہ مجھے دھولتی رہتی ہے۔ ‘‘ (اور یہ مجھے گھورتی رہتی ہے )
’’ مجھے منجو نے بتایا تم نے اسے گا لی دی تھی۔ ‘‘
’’ اب آئندہ اگر کسی سے بھی لڑیں خاص کر منجو سے تو تمہارا نام کاٹ دیا جائے گا۔ ‘‘
آشا ہکّا بکّا سی ما سٹر کو دیکھ رہی تھی۔ ایک تو اس کی غلطی نہیں تھی۔ دوسرے اسی کو ما را بھی گیا اور ما سٹر کی ڈانٹ بھی اسی کے حصے میں۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے ؟ اسے پتہ نہیں تھا کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے ؟ کون بڑا ہے، کون چھوٹا؟ اس کے بابا اور ماتا کو گاؤں میں سب برا کیوں سمجھتے ہیں ؟ آشا ان باتوں سے بے خبر تھی۔ اسے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ مکھیا کیا ہوتا ہے ؟ کیوں ہوتا ہے ؟ پھر منجو کیوں اس کو ہمیشہ برا سمجھتی ہے۔ اس سے دور دور رہتی ہے۔
گھر آ کر جب اس نے اپنی ماں سے سب کچھ بتایا تو شربتی نے اسے سمجھایا۔
’’ بیٹا تم اپنے کام سے کام رکھو۔ ‘‘
’’ وہ مدے ما لتی ہے۔ میں بھی اُتھے ما لوں گی۔ ‘‘
’’ نہیں بیٹا، اس کے پاپا مکھیا ہیں۔ ان کے پاس طاقت ہے ‘‘
’’ میلے پاپا بھی تا کت ول ہیں۔ میں بھی تم نہیں ہوں۔ مجھ میں بھی تا کت ہے۔ ‘‘
وہ بے چا ری وہی سوچ اور کہہ رہی تھی، جو جانتی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ طاقت کیا ہو تی ہے۔ گاؤں کا مکھیا یا پردھان کتنا طاقت ور ہوتا ہے۔ اسے علم ہی نہیں تھا۔ شر بتی نے اپنی بیٹی کو لپٹا لیا اور بے تحاشہ پیار کرنے لگی۔ اس کے زخم کو اپنے دو پٹے سے صاف کرنے لگی۔ ۔ بیٹی کو پیار کرتے کرتے شربتی کا پاؤں ماضی کے آنگن میں جا پھسلا۔
٭٭
گر می کے دن تھے۔ دن میں لو چلتی تھی۔ راتیں بھی گرم تھیں۔ ایسے میں گیہوں کے کٹائی کے دن بھی آ گئے۔ دن دن بھر تپتی دو پہر میں کھیت کا ٹنا آسان کام نہ تھا۔ ماتا دین، اس کے بابا طوطا رام، شربتی اور ان کی اکلو تی بیٹی آشا۔ ماتا دین اور طوطا رام تو پو پھٹنے سے پہلے ہی کھیتوں میں پہنچ جاتے اور کٹائی شروع کر دیتے۔ شربتی، سورج نکلنے کے بعد گھر کا کام کاج نپٹا کے اور کھانا تیار کر کے آشا کو گود میں لے کر کھیت پر جاتی تو اسے پیڑ کی چھاؤں میں بٹھا دیتی۔ وہ کھیلتی رہتی اور سب کھیت کاٹنے میں مصروف ہو جاتے۔ مکھیا کے کھیت میں کام کرتے یہ ان کی تیسری پیڑھی تھی۔ بارہ مہینہ، تیسوں دن کام۔ کبھی کھیت کی جتائی تو کبھی بوا ئی___کبھی سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں پانی لگانا، فصل کاٹنا، اناج نکالنا۔ کام تھا کہ ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔ اسی کام اور کھیت میں ماتا دین کے دادا، ان کے بھائی اور ماتا دین کے چاچا اور بابا نے عمریں کھپا دیں تھیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر کام تھا کہ قابو میں ہی نہیں آتا تھا۔ کبھی کبھی ماتا دین سر پکڑ کر سو چا کرتا، بھگوان کا بھی کیا نیائے ہے۔ ؟ہمیں نسل درنسل دوسروں کی غلامی اور مزدوری، اور مکھیا کے خاندان کو نسلوں سے نوابی اور عیش___ ہے بھگوان یہ کیا ہے ؟ کیا ہم اور ہماری نسلیں اسی پر کار دوسروں کے گھر اور کھیت پر کام کرتے کرتے مٹی میں مل جائیں گے۔ کیا ہماری نسل میں کوئی پڑھا لکھا نہیں ہو گا۔ ؟
’’ارے ماتا دین، کہاں کھو گیا۔ دیکھ تیری مانگ تو پیچھے رہ گئی۔ ‘‘
اور ماتا دین سوچ کی بستی سے باہر آ جاتا۔ جلدی جلدی اپنے حصے کی مانگ پو ری کرتا۔ سر کا پسینہ خود راہ بناتے، پورے جسم کا سفر طے کرتے کرتے تا نگوں تک پہنچ جاتا۔ سورج دیوتا کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے بادلوں میں منہ چھپا لے۔ ہمیشہ آگ برسا تا رہتا۔ وہ اور شربتی تھو دی دیر سستا نے کے لیے پیڑ کے نیچے بچی کے پاس چلے گئے تھے۔ طوطا رام کام کرتے رہے۔ ماتا دین نے کمر سیدھی کرنے کو خود کو زمین سے ملا دیا تھا۔ پیڑ کی چھاؤں، ہلکی ہلکی پچھوا ہوا، ویسے تو ہوا گرم تھی لیکن پیڑ کے نیچے آ رام پہنچا رہی تھی، ماتا دین کو نیند آ گئی تھی۔
ماتا دین خواب کی حسین وادیوں میں تھا۔ وہ گاؤں کا مکھیا تھا۔ اس کی بڑی سی بیٹھک پر مجمع لگا ہے۔ گاؤں کے امیر اور رئیس بیٹھے ہیں۔ گری راج بھی ایک کونے میں بیٹھا ہے۔ ماتا دین نے گری راج کو پکارا۔
’’ گری راج___وہاں کیوں بیٹھا ہے۔ ادھر آ۔ ‘‘
’’ جی سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
گری راج کے پاس آنے پر ماتا دین نے اپنا داہنا پاؤں اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔
’’ لے داب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور گری راج پاؤں دابنے لگا تھا۔
’’ اور گری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل سے تم گھر کا کام بھی سنبھال لو۔ میری ما لش کا کام تم خود کرو گے۔ اپنے بیٹوں کو بھی لگا لینا۔ ‘‘
’’ جی حضور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ اور اپنی لوگائی کو بھی مالکن کی کھدمت کے لئے بھیج دینا۔ ‘‘
گری راج کی گردن ہل ہل کر جی کہہ رہی تھی۔
اچانک ایک زور کی آواز ہو ئی۔ ماتا دین درد سے بلبلاتا ہوا جاگ پڑا تھا۔ مکھیا کے آدمی ادھر آ گئے تھے اور ان میں سے ایک نے اس کے بہت زور کی لات ماری تھی۔
’’ کیوں بے حرام خور، کام چھوڑ کے مزے سے سو رہا ہے۔ ‘‘
بے چا رہ درد سے کراہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
’’ حرام کی توڑ تا ہے اور اپنی لو گائی کو بھی آرام کراتا ہے۔ ‘‘
’’ معاپھ کر دو۔ جرا سی آنکھ لگ گئی تھی۔ ‘‘ ماتا دین گڑ گڑا یا۔
اس سے قبل کے مکھیا کے دوسرے آدمی کی لات ماتا دین کے جسم کو چاٹتی، شربتی بیچ میں آ گئی اور گڑ گڑا تے ہوئے بولی۔
’’ ہجور گلطی ہو گئی۔ ہم ابھی کام پر جا رہے ہیں۔ ‘‘
اور شربتی نے جلدی سے آشا کو اٹھا یا، ماتا دین کا ہاتھ پکڑا اور چلچلاتی دھوپ میں بابا طوطا رام کی طرف چل پڑی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ماتا دین سے پہلے طوطا رام اور ان کے پتا جی بھی اسی طرح کی زندگی گذار چکے تھے۔ ہر وقت کام ہی کام۔ کام کے بد لے بس، با سی اور بچا کھچا، کھانا___لیکن محنت کے بعد تو یہ کھانا بھی ایسا ہی لگتا جیسے من و سلویٰ ہو۔ ایسے ہی بے شر می کے لقمے تہہ در تہہ اپنے پیٹوں میں اتار کر ماتا دین کی پو ری نسل پہلے جوان، پھر بوڑھی اور پھر اپنی انتم یا ترا تک پہنچی تھی۔
’’ ماں، او ماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھا نا دو نا، بھوت لدی ہے۔ ‘‘
آشا کے جملوں نے شربتی کو ماضی کے آنگن سے نکال کر حال کے کمرے میں لا دیا۔ آج جب اس کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تو اسے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا۔ اسے بھگوان پر بھی غصہ آیا۔
ہے بھگوان تو نے ہمیں، اتنا چھوٹا کیوں بنایا۔ ہمیں بھی برہمن بنا دیتا تو تیرا کیا بگڑ جاتا۔ دنیا ہمیں بھنگی کہتی ہے۔ زبردستی کام کرواتی ہے۔ مزدوری بھی پو ری نہیں دیتے۔ اوپر سے نفرت کرتے ہیں۔ حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ہے بھگوان کیا ہمارا خون اور ان کا خون الگ ہے۔ کیا ہماری کا ٹھی اور ان کی کا ٹھی میں فرق ہے۔ ہے بھگوان میں نے بہت سہہ لیا۔ تو نے نیچ ذات میں پیدا کیا، میں کچھ نہیں بو لی۔ تو نے ماتا دین سے بیاہ دیا، جس کے گھر کوئی سکھ نہیں ملا، میں کچھ نہیں بو لی۔ اپنی نظروں سے پتی کو جوتوں سے پٹتے دیکھا، میں کچھ نہیں بو لی۔ لیکن آج میری بیٹی کو مارا گیا ہے۔ اب حد ہو گئی ہے اب میں بولوں گی۔ میں اپنی بیٹی کی بے عزتی نہیں سہہ سکتی۔ میں اپنی بیٹی کو غلام نہیں بننے دوں گی۔ اسے پڑھاؤں گی، لکھاؤں گی۔ یہ پڑھ لکھ کر بڑی بنے گی۔ کسی کے گھر بے گار نہیں کرے گی۔ ایک دن لوگ میری بیٹی کے آ گے پیچھے گھومیں گے۔
آشا کی دو بارہ آواز پر وہ وا پس ہوئی اور اسے کھانے کو دیا۔
اگلے دن شربتی، آشا کو چھوڑنے اسکول گئی تو ما سٹر سے الجھ گئی۔
’’ ماسٹر صاحب! کل آپ نے میری بیٹی کو پٹوا یا۔ ‘‘
’’ ارے شربتی، تجھے پتہ ہے تو کیا بول رہی ہے۔ مکھیا کی بیٹی ہے وہ۔ ‘‘
’’ ہاں ! ہاں ! مجھے پتہ ہے پر میری بیٹی کا کوئی کسور ہو تب نا__‘‘
شر بتی اپنا احتجاج درج کرا کے جا چکی تھی۔ اسے وہ دن بھی یاد آ رہا تھا جب اس نے آشا کے داخلے کے لیے ماسٹر سے بات کی تھی۔ پہلے تو ماسٹر نے منع ہی کر دیا تھا۔ پھر جب اس نے ماسٹر کی خوشا مد کی تو وہ تیار ہوا۔ لیکن مکھیا سے پوچھنے کے بعد داخلہ لینے کی بات کی اور ایک دن جب مکھیا اسکول میں آئے تو ما سٹر نے آشا کے داخلے کی بات رکھی۔
’’ہا۔ ہا۔ ۔ ۔ بھئی واہ۔ اب یہ بھی پڑھیں گے۔ چلو یہ بھی کر لو۔ ما سٹر کر لو بھئی داخلہ۔ پڑھ کر کیا کریں گے۔ ہم بھی دیکھیں گے۔ کرنا تو ہماری غلامی ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
مکھیا کے لہجے میں تمسخر اور حقارت تھی۔
شربتی کو اس سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ تو آشا کا داخلہ چاہتی تھی بس۔ شروع شروع تو آشا کواسکول میں بڑی پریشانی ہو ئی۔ ایک تو اس کا توتلہ لہجہ، دوسرے سب کچھ نیا نیا۔ پھر کچھ دنوں بعد آشا کا دل پڑھائی میں لگنے لگا تھا۔
٭٭
وقت گذرتا گیا۔ چار پانچ سال کیسے ہوا ہوئے، پتہ نہیں چلا۔ اب آشا جوانی کی دہلیز پر پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کا رنگ سانولا ضرور تھا مگر چہرے کی ساخت غضب کی تھی۔ آنکھیں بڑی حسین تھیں۔ ایک کشش تھی اس کی آنکھوں میں گو یا کوئی مقناطیسی قوت بھری ہو۔ قد بھی اچھا تھا۔ کھلے بال جب ہوا کے دوش پر لہراتے تو نہ جانے کتنے دلوں پر بجلی گرتی۔ گاؤں میں آشا کے چرچے ہونے لگے تھے۔ گاؤں کے آوا رہ لڑکے اسے دیکھ کر آ ہیں بھرتے۔ لیکن مجال ہے کسی کی جو اس سے کچھ کہہ دے۔ آشا مضبوط قوت ارادی کی لڑکی تھی۔ وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف لڑنے کو تیار ہو جاتی تھی۔ بچپن سے جوانی تک بہت سے واقعات تھے جب آشا نے دوسروں کی مدد کی۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے بچا نا اور دبے کچلوں کی مدد کرنا، اس کا شوق تھا۔ وہ کبھی کسی سے ڈرتی نہیں تھی۔ ایک بار وہ اسکول سے لوٹ رہی تھی۔ اس نے دیکھا راستے میں گاؤں کے دو آوارہ لڑکے، اس کی چچا زاد بہن مینا کو پریشان کر رہے تھے۔ آشا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہ ان لڑکوں میں سے ایک سے بھڑ گئی۔ اس نے اس پر گھونسوں کی با رش کر دی۔ دوسرا لڑکا بھیڑ جمع ہو تے دیکھ رفو چکر ہو لیا تھا۔
شربتی کو بیٹی کی جوانی سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ جانتی تھی زمانہ کتنا خراب ہے۔ دوسرے نچلے ذات کی عورتوں اور لڑکیوں کو تو لوگ مالِ مفت سمجھتے ہیں۔ اسے اپنی جوانی یاد آ گئی تھی۔ جب وہ جوانی کی دہلیز پر تھی تو اس کے گاؤں کے پردھان کے بیٹے کی نظر اس پر پڑی تھی۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ ہر وقت اس کے پیچھے پیچھے رہا کرتا۔ شربتی، پردھان کے گھر کام کاج کے لیے جاتی تھی۔ اپنا بہت خیال رکھتی لیکن طاقت کے آ گے سب بے سود ہوتا ہے۔ پردھان کے بیٹے نے ایک دن اس کا منہ دبا کر اپنے کمرے میں بند کر لیا۔ وہ رو تی رہی اور اس کی قسمت اس پر ہنستی رہی۔ طاقت کے نشے نے اس کے چپے چپے پر تباہی مچائی تھی۔ اسے تو کچھ بھی ہوش نہیں تھا۔ ہوش آنے پر وہ بے سدھ سی پڑی تھی۔ پردھان کا لڑکا سامنے تھا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔
’’ کسی سے کہا تو تجھے اور تیرے خاندان کو خاک میں ملا دوں گا۔ ‘‘
اور شربتی نے اس معاملے کو اپنے گناہ کی طرح چھپا لیا تھا۔ اسے پتہ تھا پردھان اور اس کے بیٹے کتنے طاقت ور ہیں۔ کچھ مہینوں بعد اس کی شادی ماتا دین سے ہوئی تو وہ مرسینا گاؤں سے فراد پور آ گئی تھی۔ غریبی، بے بسی اور بے غیرتی اس سے چمٹی یوں چلی آئی تھیں گو یا وہ اس کے جہیز کا حصہ ہوں۔ ماتا دین کے گھر کے لوگ بھی مزدور پیشہ تھے اور مکھیا گری راج کے یہاں کام کرتے تھے۔ شادی کے کچھ دن بعد ہی شربتی کو بھی مکھیا کے گھر کام کاج کے لیے جانا پڑا تھا۔ نیا ہمیشہ نیا ہوتا ہے، وہ بھی نئی نویلی دلہن ہی تو تھی۔ اس پر بھی دلکشی سوار تھی۔ جو بن پھوٹا پڑ رہا تھا۔ مکھیا نے اسے ایک بار دیکھا، تو دیکھتا ہی رہ گیا۔
’’ ماتا دین تیری جورو تو بڑی شاندار لگے ہے۔ تو نے بتایا نہیں تیرا، وواہ کب ہوا؟‘‘
ماتا دین شرماتا ہوا اپنے اندر سمایا جا رہا تھا
’’ جی سرکار، بس پچھلے ہفتے ہی تو ہوا ہے۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے آج رات اسے یہیں چھوڑ دو۔ مالکن کی خدمت کے لیے۔ ‘‘
ماتا دین نے تو روبوٹ کی طرح ہر حکم پر سر ہلانا سیکھا تھا۔ کیا کرتا۔ شربتی اسے التجا بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ مگر سب بے سود تھا۔
اور وہ رات مالکن کے بجائے، اسے مالک کی خدمت کرنی پڑی۔ غم، غصہ اور جنون اس کے اندر ابال مار رہا تھا۔ پر کیا کرتی۔ بڑے لوگوں سے ٹکرا نا، خود ریزہ ریزہ ہو جانا ہے۔ یہ تو دنیا میں نہ جانے کب سے چلے آ رہے سلسلے ہیں، غریب بے چارہ مجبور و بے کس ہوتا ہے۔ صحیح کہا ہے کہ غریب کی جورو سب کی جورو ہو تی ہے۔ اگلے دن جب وہ گھر پہنچی تو ماتا دین نے پو چھا۔
’’ مالکن کی کھدمت کی نا تم نے۔ ‘‘
’’ ہاں مالک نے خوب کھدمت لی ہے۔ ‘‘
بے چا رہ ماتا دین سمجھتے ہوئے بھی نا سمجھ بن گیا تھا کہ یہی چا رہ تھا وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ مالک کی خدمت کیا ہوتی ہے۔ مالکن کی خدمت تو بہانا ہوتا ہے۔ مکھیا اس سے قبل بھی اس کی برادری کی کئی بہوؤں، بیٹیوں سے خدمت لے چکا تھا۔ ماتا دین کے دل میں کبھی کبھی بہت جوش آ تا۔ غصے کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا، ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ جاتیں۔ جی چاہتا مکھیا کے کئی ہزار ٹکڑے کر دے اور با ہر میدان میں چیل کوؤں کے آ گے ڈال دے۔
وقت دبے قدموں پرواز کرتا رہا۔ شربتی ایک بچی کی ماں بنی۔ بچی کا نام آشا رکھا۔ آشا تھی تو سانولی لیکن چہرہ بہت دلکش تھا۔ آشا، ماتا دین، بابا طوطا رام اور شربتی کے کاندھوں، کاندھوں بڑی ہو تی گئی۔ شروع شروع میں اسے تتلا ہٹ نے کا فی پریشان کیا بعد میں وہ بھی گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو گئی۔
٭٭
آشا جب سولہ سال کی ہوئی تو اس کی جوانی کے چرچے گاؤں میں پھیل گئے تھے۔ اس نے دسویں کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ پر اب آگے کی پڑھائی کی بات تھی۔ آشا چاہتی تھی آ گے پڑھے۔ لیکن ماتا دین اس کا بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ اسی دوران یہ ہوا کہ گاؤں کے پنڈت مدن کا لڑکا چندر موہن اس کی طرف بڑھنے لگا۔ آشا کا دل بھی چندر موہن کے لیے دھڑکنے لگا۔ دونوں اسکول، گھر، کھیت، کھلیان میں چھپے چو ری ملنے لگے۔
’’ آشا۔ ‘‘
’’ ہوں۔ ‘‘
’’تم بہت خوبصورت ہو۔ ‘‘
’’ جھوٹے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مجھے پتہ ہے میں کتنی خو بصورت ہوں۔ ‘‘ آشا چندر مو ہن کو ٹکا سا جواب دیتی۔
’’ آشا، خوبصورتی صرف رنگ کی نہیں ہو تی۔ خوبصورتی من کی ہو تی ہے۔ پھر رنگ ہے ہی کیا، اصل تو نین نقش ہو تے ہیں، بناوٹ ہو تی ہے، روپ ہوتا ہے اور اس میں تم لا جواب ہو۔ پھر تمہارا نام، لاکھوں کروڑوں میں ایک ہے۔ ‘‘ چندر مو ہن حسن کے دریا کو عبور کر رہا تھا۔
’’ اچھا۔ کیا ہے میرے نام میں۔ ‘‘ آشا مزے لیتی ہوئی بو لی۔
’’ آشا۔ یعنی امید، بھرو سہ، قرار۔ ایک ایسی امید تمہارے نام میں چھپی ہے کہ نا امیدیں رفو چکر ہو جاتی ہیں۔ جگ کی آشا ہو تم۔ نراشا کے اندھیارے میں ایک کرن ہو تم، ایک روشنی ہو، نراش لوگوں کے لیے۔ جہاں ناکامی اپنے جھنڈے گاڑ دیتی ہے، جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آ تا وہاں تم ایک روشنی بن کر آ تی ہو۔ تم سنسار کی ناکا می، نا مرادی، مایوسی، نا امیدی اور کم ہمتی کے لیے را ستہ بن جاتی ہو۔ آشا یعنی نراشا کے ایک یگ کا خاتمہ۔ آشا یعنی نئے یگ کی شروعات۔
’’اچھا بابا بس کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم تو کویتا لکھنے لگے۔ ‘‘
اور پھر دو بے چین روحیں، فا صلے برداشت نہ کر سکیں۔ ان کے اس وصال سے موسم تبدیل ہو گیا، ہوا مہک گئی۔ چرند پرند مست ہو کر جھو منے لگے۔
٭٭
مکھیا کی بیٹھک پر مجمع لگا تھا۔ ایک تازہ مسئلہ زیر بحث تھا۔
’’ مکھیا جی۔ ماتا دین کی لڑکی اور پنڈت مدن کے لڑکے میں جبر دست اشک چل رہا ہے ‘‘ گاؤں کے ایک ادھیڑ کنور سین نے بتایا۔
’’اوہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈیا کے پر نکل آئے ہیں۔ ‘‘
’’ سرکار دونوں اکثر ادھر ادھر دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتے رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ جاؤ ماتا دین کو بلا لاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مکھیا کے حکم پر اس کے مشٹنڈوں میں سے ایک، ماتا دین کے گھر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں ماتا دین ہاتھ جوڑے حا ضر تھا۔
’’ ہاں بھئی ماتا دین، ہم کیا سن رہے ہیں، تیری لونڈیا پنڈت کے لڑکے سے عشق لڑا رہی ہے۔ ‘‘
’’ سرکار ہم سمجھا دیں گے اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ ہاں اسے سمجھا دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ تو ہمیں جانتا ہے۔ ‘‘
’’ جی سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
ماتا دین نے گھر آ کر شربتی کو سب کچھ بتایا۔ شربتی دونوں کے معاملات سے وا قف تھی۔ اسے چندر موہن اچھا لگتا تھا۔ لیکن وہ معاملے کے انجام سے بھی ڈرتی تھی۔ اس نے کئی بار آشا کو سمجھایا تھا۔
’’ آشا۔ بیٹا تمہارا یہ خواب پو را نہیں ہو پائے گا۔ ایسے خواب مت دیکھو۔ ‘‘
’’ ماں، چندر موہن کچھ دن بعد با ہر پڑھنے چلا جائے گا۔ میں بھی چلی جاؤں گی۔ پھر ہر خواب پو را ہو گا۔ ‘‘
آشا کے حوصلوں کے آ گے شربتی جھک جاتی تھی۔ وہ چندر موہن سے بھی بات کر چکی تھی۔ چندر مو ہن اٹل تھا۔ وہ تو سماج سے لڑ جانے کو بھی تیار تھا۔ شربتی نے مکھیا وا لی بات بھی دونوں کو بتا دی تھی۔ دونوں نے جلد ہی گاؤں چھوڑنے اور شہر جا کر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
٭٭
ایک دن شام کا وقت تھا۔ آشا اور چندر مو ہن گاؤں کے با ہر کھیت میں گھوم گھوم کر باتیں کر رہے تھے۔ مکا، جوار اور باجرے کے کھیت اب بھرے بھرے لگنے لگے تھے۔ پورے علاقے میں ایک خوشبو سی پھیلی ہوئی تھی۔ موسم سہانا تھا۔ گرمی رخصت ہو رہی تھی اور برسات کی آمد آمد تھی۔ دو ایک بار بارش ہو چکی تھی۔ آسمان پر بادل کے چھوٹے موٹے ٹکڑے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ چاند آہستہ آہستہ روشن ہو رہا تھا، چندر موہن آشا کے پاس تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا گویا چندر موہن چاند ہے اور وہ چاندنی اور چندر مو ہن سے نکلتے ہوئے، وہ سارے سنسار پر چھائی ہوئی ہے۔ سب کو دودھیا کر رہی ہے۔ وہ چندر مو ہن کو پا کر بہت خوش تھی۔ اس کی اندھیری زندگی میں چندر نے جو چاندنی پھیلائی تھی، وہ اسے منور اور مخمور کیے ہوئے تھی۔ ڈھلتی سہانی شام کا مدھم ہوتا اجالا رات سے گلے ملنے کو بے تاب تھا۔ پرندے اپنے ٹھکانوں کی جانب لوٹ چکے تھے۔ ہوا بھی رکی رکی سی تھی۔ کھیتوں پر خاموشی کی ایک چادر سی بچھی تھی۔ گاؤں کے راستے پر اکا دکا بیل گاڑی اور کسان آ تے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ چندر موہن آج زیادہ ہی رو مانی ہو رہا تھا۔ آشا آؤ، اپنے چاند میں سماجاؤ اور آشا نے، نہیں چاندنی نے، خود کو چاند میں سمو دیا تھا۔ ابھی کوئی پل ہی گذرا ہو گا کہ اچانک منظر بدل گیا۔ ایک برق رفتار گاڑی وہاں آ کر رکی۔ بریک کی آواز نے سناٹے کے تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ گاڑی میں سے چار پانچ ہٹے کٹے غنڈہ نما لڑکے اترے اور عجیب تیوروں سے دونوں کی جانب بڑھنے لگے۔ چندر موہن اور آشا کی زندگی پر اچانک کثیف با دلوں کے سائے لہرا نے لگے۔ دونوں نے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ وہ لوگ قریب آئے تو پتہ چلا ان میں دو مکھیا کے بیٹے اور باقی ان کے ساتھی تھے۔ دونوں خطرہ بھانپتے ہوئے ایک طرف کو بھاگنے لگے لیکن وہ کہتے ہیں نا بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ان لوگوں نے دونوں کو گھیر لیا۔ دو تو چندر موہن پر ایسے جھپٹے، جیسے چیل اپنے شکار پر لپکتی ہے، دونوں نے چندر مو ہن کو لاتوں اور گھونسوں کی زد پر لے لیا۔ اس سے قبل کہ آشا کی چیخیں خاموشی کا قتل کرتیں، باقی لڑکوں نے آشا کو دبوچ کر اس کا منہ دبا دیا اور شا ہرا سے دور ایک گنے کے کھیت کی طرف لے گئے۔ چندر موہن کو بے ہوشی کی حا لت میں چھوڑ کر وہ بھی مشن میں شامل ہو گئے۔ آشا آسانی سے ہار ماننے وا لی نہیں تھی۔ اس نے پو ری طاقت لگا کر ایک لڑکے کے لات ماری۔ دوسرے کے ہاتھ میں کاٹ لیا۔ مگر تعداد پھر بھی اہم ہو تی ہے اور پھر مرد کے مقابلے صنفِ نازک۔ آشا بھی مشٹنڈوں کے گھونسوں اور تھپڑوں کے آ کے زیر ہو گئی تھی اور پھر چاروں پانچوں نے آشا کی آشاؤں کو نراشا میں بدلنا شروع کر دیا۔ ہوس کا شیطان اپنا سفر طے کرتا رہا۔ آشا روندی جاتی رہی بالآخر وہ بے ہوش ہو گئی۔ کافی دیر بعد کسی کسان نے انہیں نیم مردہ حا لت میں دیکھ کر شور مچا نا شروع کیا۔ سارا گاؤں، کھیتوں کی طرف دوڑ پڑا۔ ماتا دین اور شربتی کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔ آشا مردہ حا لت میں بے سدھ سی پڑی تھی۔ کچھ ہی دوری پر پنڈت مدن کا لڑکا چندر موہن بھی زخم خوردہ، مردہ سا پڑا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے دونوں کو گاڑی میں ڈال کر شہر کے سرکاری اسپتال میں داخل کرا دیا۔ پو لیس بھی حر کت میں آ گئی تھی۔ شربتی کو ہوش نہیں تھا۔ اس کا سب کچھ خاک میں مل گیا تھا۔ ہوش آنے پراس نے پولیس چوکی پر رپورٹ لکھوا دی تھی۔ رپورٹ تو بے نام تھی۔ لیکن سب کو شک بلکہ یقین تھا کہ یہ کام مکھیا کے بیٹوں کا ہی ہے۔ پو لیس نے چھان بین شروع کر دی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ پو لیس کپتان پچھلے ہفتے ہی بدلا تھا۔ اس نے سارے تھانوں کی پولیس کو ٹائٹ کر دیا تھا۔ معاملہ دبانے کی بھی کوششیں جاری تھیں۔ لیکن بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی تھی۔ اگلے دن اخبارات کی سرخی پر بھی آشا کے زخم اور چندر مو ہن کے خون کے قطرے نظر آ رہے تھے۔ مکھیا اور اس کے بیٹے گھر چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ پو لیس نے دن رات محنت کر کے ایک مجرم کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس نے تھرڈ ڈگری سے گذرتے ہوئے سب کچھ بتا دیا تھا کہ کس طرح مکھیا اور اس کے بیٹوں نے آشا کے ساتھ اس گھنونے کھیل کا منصوبہ بنایا تھا۔
شربتی اتنی ٹوٹ چکی تھی کہ اب کچھ بچا نہیں تھا۔ آشا زیر علاج تھی۔ شربتی نے ٹھان لیا تھا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ وہ اپنی لڑائی لڑ رہی تھی۔ گاؤں کے اس کی برادری کے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ سب ایک ہو گئے تھے آس پاس کے گاؤں کے دلت بھی ساتھ آ گئے تھے اور ایک طاقت بن چکے تھے۔ آہستہ آ ہستہ معاملہ تحریک بنتا جا رہا تھا۔ پولیس پر دباؤ بڑھنے لگا تھا اور پھر ایک دن سارے مجرم گرفتار ہو کر جیل چلے گئے تھے۔
٭٭
اِدھر آشا اور چندر مو ہن صحت مند ہو کر شہر ہی میں پڑھنے لگے تھے۔ آشا نے گرلز کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور ہوسٹل میں رہنے لگی تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ پہلے وہ تعلیم حا صل کرے گی پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو کر سماج میں پھیلے درندوں سے لڑے گی۔ چندر موہن نے انجینئرنگ کالج جوائن کر لیا تھا۔ دونوں کی کبھی کبھار ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ مکھیا کے تیور ڈھیلے پڑ نے لگے تھے۔ اس نے ماتا دین اور شربتی پر سمجھوتے کا دباؤ بنایا۔ لالچ بھی دیا۔ جب کوئی ترکیب کام نہ آئی تو دھمکیاں دیں۔ یہی نہیں ایک بار عدالت میں تاریخ کے وقت شربتی پر قاتلانہ حملہ بھی کروا یا گیا۔ وہ تو شربتی کی زندگی تھی، جو وہ بچ گئی۔
وقت مسکراتا ہوا فراد پور سے گذرتا گیا۔ آشا نے کسی طرح گریجویشن کر لیا تھا، بی ایڈ بھی مکمل کر چکی تھی۔ اسی دوران پردھانی کے الیکشن آ گئے۔ فراد پور گاؤں ایس سی ایس ٹی کے لیے ریزرو کر دیا گیا تھا۔
ماتا دین کی برادری کے لوگوں نے میٹنگ کی۔
’’ بھئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب بہت ہو گیا اب ہم اور اپمان نہیں سہیں گے۔ چناؤ سر پر ہیں۔ سیٹ بھی ریزرو ہو گئی ہے۔ ہمیں اپنا امیدوار کھڑا کرنا ہے۔ مشورہ دو کسے کھڑا کیا جائے۔ ‘‘
بابا لکھی رام نے برادری کی میٹنگ میں جب شروعات کی تو سب میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کئی نام آئے پر اتفاق نہیں ہو پایا۔
’’ کوئی یوا نام ہو____‘‘ دھرم جاٹو بو لا
’’ارے، آشا کو کھڑا کرو۔ وہ پڑھی لکھی بھی ہے __
’’ہاں ! ہاں !‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔
’’ پر وہ تو شہر میں ہے۔ کیا وہ تیار ہو جائے گی‘‘ ایک آواز ابھری۔
’’ ہاں کیوں نہیں ہم منا لیں گے اسے ‘‘ ایک بزرگ نے بات سنبھالی۔
آشا کے سامنے جب بات آئی تو اس نے بہت غور کیا۔ اسے لگا اب اس کے مشن کا صحیح وقت آ گیا ہے۔ اس نے برادری وا لوں کی آشا کو پو را کرنے کے لیے حا می بھر لی۔ فراد پور گاؤں میں تقریباً دو ہزار ووٹ تھے۔ 700 سے زیادہ دلت ووٹ تھے جب کہ برہمن، پنڈت، گو جر ووٹ بھی آٹھ سو کے آس پاس تھے۔ مسلمان بھی ایک آدھ سو تھے۔ مالی، کمہار اور گڑریے ملا کر دو ہزار بائیس ووٹ بنتے تھے۔ مکھیا کے زیر اثر برہمن، پنڈت اور گو جر تو تھے ہی۔ رعب داب کی وجہ سے ما لی گو جر، کمہار اور مسلمان بھی اسے ووٹ دیتے تھے۔ پر اس بر نقشہ بدل چکا تھا۔ دلتوں کے ساتھ مسلمان بھی آ گئے تھے۔ مالی، کمہار بھی بھی مکھیا سے پریشان تھے۔ گوجر اور پنڈت برادری کے کیچھ لوگ اندر اندر مکھیا کو ہرانا چاہتے تھے۔ گاؤں میں دو ہی امیدوار کھڑے ہوئے۔ مکھیا نے اپنے امید وار کے لیے بہت کوششیں کیں، بڑی زور آزمائی ہو تی رہی۔ الیکشن کے دن خون خرابے کے بھی مواقع تھے لیکن چپے چپے پر موجود پو لیس نے حالات پر قابو رکھا۔ ریزلٹ آ تے ہی آشا کا پرچم بلند ہو گیا تھا۔ مکھیا کے ارمانوں اور آشاؤں کو آشا نے نراشا کے اندھیرے میں بدل دیا تھا۔ اب سیاسی طاقت پسماندہ لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔ ریاست میں بھی، اقتدار میں تبدیل ہوئی تھی اور دلت حمایت والی سرکار، حکومت میں آ گئی تھی۔
٭٭
شربتی، ماتا دین اور اس کی برادری کے لوگوں میں نیا جوش آ گیا تھا۔ دوسری طرف مقدمات میں الجھتے الجھتے مکھیا گری راج کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔ پہلے بیٹوں اور اس کے ساتھیوں کو عمر قید ہوئی پھر زمینیں بکنی شروع ہو گئیں۔ دن بہ دن مکھیا کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔
آشا نے گاؤں کو ہر طرح سے سدھارنے کی کوشش کی تھی۔ اسکول کو خوب فروغ دیا۔ لڑکیوں کا الگ سے ایک اسکول بھی بنوایا۔ فراد پور آس پاس کے ضلعوں میں بھی مشہور ہو گیا تھا۔ لوگ اسے آشا کے نام سے پہچانتے تھے۔ بہت دنوں بعد، ایک دن آشا کی چندر موہن سے ملاقات ہوئی۔
’’تم، آج بھی آشا بن کر سب کو موہ رہی ہو۔ ‘‘
’’شاعری نہیں کرو، یہ بتاؤ یہ چاند آج کل کس کے آنگن میں چمک رہا ہے۔ ‘‘
‘‘کہیں نہیں۔ اسے آج بھی آنگن کی تلاش ہے۔ اور اسی تلاش میں چاند، اپنی چاندنی تک آیا ہے۔ ‘‘
’’اوہ یہ بات ہے۔ ‘‘آشا کے چہرے پر خوشی کے ہلکے سے سائے تھے۔
’’میں اپنے بابا سے مشورہ کروں گی‘‘
’’کیوں یہ تو تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔ ‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔ لیکن ہم لوگ ابھی اتنے ایڈوانس نہیں ہے۔ ‘‘
اب آشا صرف ماتا دین کی بیٹی نہیں تھی، بلکہ پوری برادری کی بیٹی اور شان تھی، جس کی شادی برادری کے لئے بہت اہم تھی۔ اسی لئے ماتا دین نے برادری کے بزرگوں کے سامنے آشا اور چندر مو ہن کی شادی کی بات رکھی تو برادری کے لوگوں میں ابال آ گیا تھا۔ فوراً ایک میٹنگ رکھی گئی۔ برادری کے ایک بزرگ نے کہا
’’آشا ہماری شان ہے۔ آن اور بان ہے اس کی شادی غیر برادری میں کیسے ہو سکتی ہے ‘‘
سب خاموش ہو گئے تھے۔ ایک پڑھے لکھے نو جوان نے کہا۔
’’ آشا پڑھی لکھی ہے۔ شادی میں اس کی مرضی شامل ہونی چاہیے۔ ‘‘
بہت دیر کے بحث و مباحثے کے بعد برادری نے ماتا دین کو سمجھا دیا تھا کہ برادری برادری ہوتی ہے اور اس سے باہر جانا نہ صرف برادری سے غداری ہے بلکہ صدیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔
اور آشا کے آکاش پر سیاہ کثیف بادلوں نے چاند اور چاندنی کے درمیان ہمیشہ کے لئے دیوار اُٹھا دی تھی۔
٭٭٭
پشپ گرام کا اتہاس — ابرار مجیب
پشپ گرام چندرلیکھا پہاڑیوں کی گود میں جنگل کے چھور پر آباد تھا۔ گرام سے کوس بھر دوری پر سوگندھا ندی بہتی تھی۔ یہ گرام بہت سارے گراموں کی طرح کنبہ، برادری پر مبنی تھا اور ہر آدمی دوسرے آدمی کا سمبندھی تھا۔ گھر ہی کتنے تھے، یہی کوئی پچاس، ساٹھ، پورے گاؤں کی مشترکہ زمین تھی اور ہر آدمی اور عورت کی ذمہ داری متعین تھی۔ کچھ لوگ گاؤں کی زمین پر ہل چلانے، بیج بونے اور فصل کاٹنے کے ذمہ دار تھے، کچھ فصلوں کی دونی کرنے، اناج یکجا کرنے اور اسے مشترکہ گودام میں حفاظت سے رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ کچھ لوگ اناج کا بٹوارہ کرنے پر مامور تھے۔ کچھ جانوروں کا اور ان کے چارے کا خیال رکھتے تھے۔ ہر گھر ایک خاندان کی شکل میں تھا اور سارے خاندان ایک مشترکہ وراثت اور مشترکہ اجداد سے وابستہ تھے۔ پشپ گرام ایک خوشحال گاؤں تھا۔
پشپ گرام میں جیون ویدک ریت کے مطابق گزارنے کا رواج تھا۔ زندگی کے پہلے پچیس سال ودیارتھی، پچیس سے پچاس سال گرہستھ یعنی شادی بیاہ کر کے خانگی زندگی، پچاس سے پچھتر سال وان پرست یعنی دنیا میں ادھر سے ادھر گھومنا اور موکش کے لیے علم حاصل کرنا اور پچھتر سے سو سال سنیاس یعنی ترک دنیا۔ چندرلیکھا پہاڑیوں کی چوٹی جو گاؤں کے کمل کنڈ کی طرف تھی ودیارتھیوں کے گروکل کے لیے وقف تھی اور گروراج کے ساتھ دوسرے گرودیو بھی شکشا دیتے تھے۔ لوگ معصوم تھے، زندگی خوشگوار تھی، نہ چھل نہ کپٹ، نہ دویش نہ راگ۔ پشپ گرام اپنے نام کے مطابق پھولوں کی نگری تھی۔ راستوں کے دونوں طرف طرح طرح کے پھولوں کے پودے مسکراتے تھے۔ گاؤں کے کنارے کنول کنڈ تھا جس میں گلابی کنول اور کنول کی کلیاں کھلی تھیں۔ یہ کنڈ گاؤں کی عورتوں کے لیے تھا، اسی طرح ایک کنڈ گاؤں سے باہر مردوں کے لیے بھی بنایا گیا تھا۔
گؤدھولی کا وقت تھا، دور کھیتوں کی طرف سے جانوروں کی واپسی ہو رہی تھی۔ فضا میں ہلکی دھند تھی۔ جانوروں اور چرواہوں کے قافلے کے ساتھ دو اجنبی بھی پشپ گرام میں داخل ہوئے۔ ایک عورت، دودھ اور سیندور کی آمیزش سے بنا ہوا اس کا رنگ، اوپر سے سیاہ ساری میں ملبوس، سرکے آنچل سے جھانکتے اس کے گھنگھریالے کیس نم لگ رہے تھے جیسے ابھی ابھی نہا کر آئی ہو۔ آنکھیں چمکیلی کہ کوئی نظریں نہ ملا سکے، پلکیں لانبی لانبی، بدن کا ہر ایک انگ جاگتا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا پورا بدن سانسیں لے رہا ہو۔ اس کے ساتھ ایک مرد تھا، سر پر بھاری پگڑی، آنکھوں میں کچھ ایسی بات تھی جس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ بہت گھاگ قسم کا آدمی ہے۔ مونچھیں بہت بڑی اور گھنی جس نے اوپری ہونٹ کو پوری طرح سے ڈھک لیا تھا۔ ان دونوں کے ساتھ ان کا سامان بھی تھا ایک گدھے پر۔ پشپ گرام کے لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ عورت بہت شرمائی لجائی سی تھی اور مرد بار بار لوگوں کو پرنام کر رہا تھا۔
گاؤں کے پروہت کے پوچھنے پر عورت تو خاموش رہی لیکن مرد نے بتایا کہ وہ بہت دکھیارے ہیں۔ یہ اس کی بیٹی ہے، اسوروں کے حملے میں ان کا گاؤں تباہ ہو گیا، ان لوگوں نے گاؤں کی کنیاؤں کو اٹھا لیا، مردوں کو مار دیا، ہم باپ بیٹی کسی طرح سے جان بچا کر نکل آئے، دس دن کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔
لوگوں کو ان دکھیاروں کی بپتا سن کر بہت دکھ ہوا۔ پشپ گرام کے ذمہ دار لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا اور باپ بیٹی کو کنول کنڈ کے پاس وہ مکان رہنے کے لیے دے دیا جسے گاؤں والے اتیتھی گرہ (مہمان خانہ) کہتے تھے۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام اس طرح کیا گیا کہ ہر گھر سے ان مہمانوں کو باری باری کھانا مہیا کرایا جائے۔ مہمان دوچار روز تو لوگوں کا کھانا کھاتے رہے لیکن ایک دن انہوں نے پروہت سے کہا کہ وہ بھکاریوں کی طرح دان پن پر گزارہ نہیں کر سکتے، انہیں بھی پشپ گرام میں کچھ کام دیا جائے، لوگوں نے مشورہ کیا، یہ گاؤں کی روایت کے خلاف بات تھی کہ کسی مہمان کو گاؤں کا انگ بنایا جائے۔ گاؤں تو سمبندھیوں پر مشتمل تھا۔ ان لوگوں کو کس بنیاد پر گاؤں کے کاموں میں حصہ دیا جاتا ؟ بہت سوچ وچار کیا گیا، ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آریہ ہیں، ان لوگوں نے کہا ہاں وہ آریہ ہیں۔ گاؤں والوں کو اس سے یہ اطمینان ہو گیا کہ چلو سمبندھی نہیں لیکن آریہ تو ہیں اور آریہ آریہ کہیں نہ کہیں سے سمبندھی ہوہی جاتے ہیں کیونکہ آریوں کے پوروج تو ایک ہی ہیں۔ آخر میں اس سندر استری کو اناج گھر میں اناج صاف کرنے کا کام دے دیا گیا اور اس کے باپ کو جانوروں کو چارا کھلانے کا۔
اس کے چند دنوں بعد ہی ودیارتھی مہیندر شرون نے ایک سپنا دیکھا۔ آدھی رات کی بیلا، چندرما پورے تیج کے ساتھ آکاش پر چمک رہا تھا۔ چاندنی پورے کنڈ پر بکھری ہوئی ہے۔ پانی پر تیرتے کنول اور کنول کی کلیاں۔ کنول کے سبز پتے زمرد کی طرح چمک رہے ہیں۔ اس کنڈ میں ایک ادبھت سندری نہا رہی ہے۔ کیا یہ امرپالیکا ہے، سپنے میں اس نے سوچا، امر پالیکا جس نے بدھ کو ساون دان دیا تھا کہ بھکشو ساون میں وشرام کر سکیں۔ نہیں، پھر یہ کون ہے۔ مہیندر شرون دیکھتا ہے کہ وہ ایک سیاہ گھوڑے پر سوار کمل کنڈ کے کنارے آ کھڑا ہوا ہے۔ سندری نے نہاتے نہاتے اسے پلٹ کر دیکھا، اس کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی، اس چمک سے اسے ڈر لگا، اس نے اپنی آنکھیں ہٹا لیں مگر اسے محسوس ہوتا رہا کہ اس سندری کی چمکتی آنکھیں اس کے شریر پر دوڑ رہی ہیں۔ دوڑتے دوڑے وہ آنکھیں اسے اپنے شریر کے خاص انگ پر ٹھہرتی محسوس ہوئیں۔ اسے اچانک لگا کہ شریر سے سارا لہو نچوڑا جا رہا ہو اور وہ پتھر کا بنتا جا رہا ہو۔ ودیارتھی جیون میں اسے پہلی بار ایسا تجربہ ہوا تھا۔ اس نے ہمت کر کے کنڈ کی طرف دیکھا تو وہ اب تک کھڑی اپنے نینوں سے اسے نچوڑ رہی تھی۔ پھر اس نے ایک ڈبکی لگائی اور جب ابھری تو کمل کنڈ کا شفاف پانی دھیرے دھیرے سرخ ہونے لگا، جیسے کہیں سے اس میں لہو گھل رہا ہو۔ سندری کا ایک ہاتھ نیچے گیا اور جب باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بچے کا شریر تھا، ایک مردہ بچے کا شریر جس کی آنکھیں غائب تھی۔ مہیندر شرون کی آنکھیں کھلیں تو وہ حیران و پریشان تھا۔ اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔
اس دن مہیندر شرون گروکل سے پڑھ کر گھر پہنچا تو گھر میں ماتا اور بہنیں اس نئی عورت کی باتیں کر رہی تھیں۔ ماتا جی اناج گھر میں کام کرنے والی عورتوں کے کاموں کا بٹوارہ کرتی تھیں۔ وہ بتا رہی تھیں کہ یہ عورت جس کا نام کنک لتا ہے بہت پیاری ہے۔ اس کے مکھ سے پھول جھڑتے ہیں۔ باتوں سے سگندھ آتی ہے۔ بڑھ بڑھ کر سب کے کام خود کرتی ہے۔ ساری کامگار عورتیں اس سے بہت خوش ہیں۔ کنک لتا پشپ مالا بھی بہت اچھی بناتی ہے اور گیت اتنی سندرتا سے گاتی ہے کہ آدمی مدہوش ہو جائے۔ ایک دن اناج گھر میں کنک لتا نے اپنے ہی گیت کے بول پر نرتیہ بھی کیا۔ سب عورتیں منتر مگدھ رہ گئیں۔ اناج گھر کے سامنے کھلیان میں دونی کرتے مردوں نے بھی اس کے گیت کے سریلے بول سنے اور شاید اس کے نرتیہ کو بھی دیکھا، یہ محسوس کر کے کنک لتا تھوڑا شرما گئی۔ مہیندر شرون کی بہنوں نے ماتاجی سے فرمائش کی کہ وہ بھی کنک لتا کا گیت سنیں گی اور اس کا نرتیہ بھی دیکھیں گی۔ ماتا نے کہا، یہ تو ہماری پرمپرا نہیں لیکن کسی چندرماشی کی رات گھر پر اس کو بلاتی ہوں۔
مہیندر شرون نے اس رات بھی وہی کنول کنڈ دیکھا اور وہی سپنا، پھر یہ سپنا جیسے اس سے چمٹ کر رہ گیا۔ وہ گرو کے آشرم میں علم سیکھ رہا تھا، لیکن اس سپنے کو دیکھنے کے بعد اس کا من ویدوں کے فلسفہ اور آریہ بھٹ کے سوریہ سدھانتوں سے اچٹ گیا تھا۔ وہ چرک کے آیوروید کا گیان حاصل کر کے لوگوں کے دکھوں کو دور کرنا چاہتا تھا لیکن اب اس کا من کسی کام میں نہیں لگتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی چمکے لیے نین اور لٹکتا ہوا مردہ بچہ تھا جس کی آنکھیں غائب تھیں۔
ماتا جی نے چندر ماشی کی رات کنک لتا کا سواگت گھر کے آنگن میں کیا۔ آنگن میں کے لیے کے پیڑ لگائے گئے تھے اور کنول کے پھولوں کو لتاؤں میں پرو کر پورے اُسارے کو سجایا گیا تھا۔ کنک لتا اس روز پشپوں کے زیور سے سجی تھی لیکن اس کے گلے میں موٹے منکوں کی مالا تھی۔ اس کی چمکیلی آنکھوں میں گہری لالی نظر آ رہی تھی۔ گیندے کے پھولوں کے رنگ کی ساری اور کالی انگیا میں وہ کسی اپسرا کی طرح لگ رہی تھی۔ گاؤں کی عورتوں کو پہلے ہی دعوت دے دی گئی تھی کہ کنک لتا آج ایک انوکھا گیت گائے گی اور نرتیہ بھی پیش کرے گی۔ گاؤں کی عورتیں اور بالائیں آنگن میں جمع تھیں، مردوں کو اس محفل میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن کنک لتا کے کلا پردرشن کی خبر مردوں کو بھی مل چکی تھی، کچھ اتاؤلے لوگوں نے گھر کے آس پاس پیڑوں کو پہلے ہی سے اپنا ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ کنک لتا کی کلا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کچھ متوالے ودیارتھی بھی ہوشیاری سے ایسی جگہوں کو ڈھونڈ چکے تھے جہاں سے آنگن کا نظارہ کیا جا سکے۔
ماحول بنا ہوا تھا، آکاش پر چندرما پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ کنک لتا نے چاروں طرف ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ پیڑوں اور کونے کھدروں میں چھپے ہوئے پرشوں کو لگا کہ کنک لتا کی آنکھیں ان کی آنکھوں سے چار ہو رہی ہیں۔ اس کے ہونٹوں پر مدھر مسکان تھی۔ مہیندر شرون بھی ایک خاص جگہ سے کنک لتا کو دیکھ رہا تھا، اسے بھی محسوس ہوا کنک لتا صرف اور صرف اسی کو دیکھ کر مسکائی، آنگن میں عورتیں اور بالائیں بھی دم سادھے منتظر تھیں۔ ایک سناٹا سا طاری ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ کنک لتا اپنے گیت کی تان چھیڑے، اچانک فضا میں کسی الو کی تیز چیخ گونجی اور ساتھ ہی سیاروں کے ایک جھنڈ نے کھیتوں میں آسمان کو سر پر اٹھا لیا۔ کنک لتا اس سے بے نیاز اٹھی اور ایک ہاتھ کی ہتھیلی کان پر رکھ دوسرے ہاتھ کو ہوا میں پھیلا کر گیت کا مکھڑا گانے لگی۔ سارے لوگ منتر مگدھ سے کنک لتا کی آواز کے رس میں کھو گئے۔ گیت کے ساتھ ساتھ کنک لتا نے ٹھمکنا شروع کیا، گیت کے بول تیز ہوتے گئے، اور کنک لتا کے رقص کی رفتار بھی تیز ہوتی گئی۔ رات ڈھل گئی، پیڑ پر چڑھے ایک دو لوگ رقص اور گیت میں اس قدر منہمک تھے کہ نیچے گر پڑے۔ کنک لتا کا گیت اور رقص ختم ہوا، اس کے ساتھ ہی سبھوں کو لگا جیسے وہ مدہوشی کے عالم سے نکل آئے ہوں۔ دور کھیتوں میں سیاروں نے دوبارہ چیخنا شروع کر دیا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کنک لتا کے نرتیہ اور گیت کے دوران سیار خاموش ہو گئے تھے یا مسلسل چیخ رہے تھے اور لوگ اس بے مثال نرتیہ اور سریلے گیت میں اتنا مگن تھے کہ انہیں سیاروں کی آوازیں سنائی ہی نہیں دے رہی تھیں۔
چند دن گزرے کہ بھورے بھور گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ کنول کنڈ کے گرد سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں گرام سیوک کی بیوی کی لاش ملی۔ نہ جانے پشپ گرام کا اتہاس کتنا پرانا تھا، لیکن اس گاؤں کے لوگوں کے ذہن میں قتل تو دور کی بات ہے، کسی کے گمبھیر روپ میں گھائل ہونے کا واقعہ بھی نہیں تھا۔ یہ گاؤں تو امن و شانتی کا گہوارہ تھا۔ سارا گاؤں ہی ایک خاندان تھا۔ ہتیا اور وہ بھی پشپ گرام میں۔ اور ایک عورت کی ہتیا؟ لوگ حیران تھے، پریشان تھے۔ لوگ گرام سیوک کے گھر کی طرف دوڑے لیکن وہ تو گھر میں تھا ہی نہیں۔ کدھر گیا، کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اس کا چھوٹا سا بچہ جس کا چند دنوں پہلے منڈن ہوا تھا گھر کے اُسارے پر بلک بلک کر رو رہا تھا۔ مہندر شرون بھی گرام سیوک کے گھر گیا۔ سب ایکدوسرے سے گرام سیوک کے بارے میں پوچھ رہے تھے لیکن کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ مہیندر شرون وہاں سے کنول کنڈ کی طرف بڑھ گیا۔ کنول کنڈ کے پاس کنک لتا کے گھر کے سامنے اس کا باپ چارپائی بچھائے حقہ پی رہا تھا۔ اس نے ایک نظر مہندر شرون کو دیکھا اور پھر حقہ کا کش لگانے میں مشغول ہو گیا۔ سامنے کھڑکی سے لگ کر کنک لتا کھڑی ہوئی تھی، مہیندرشرون کی جب اس سے نظریں ملیں تو وہ مسکرائی۔ اس کی آنکھوں کی مخصوص چمک ویسے ہی تھی۔ مہندر شرون کو اپنے بدن میں سہرن محسوس ہوئی، وہ نظریں جھکا کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
کافی دن گزر گئے اس واقعہ کو، گرام سیوک کا کچھ پتہ نہ چلا کدھر گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اسی نے اپنی پتنی کا قتل کیا ہو گا۔ مگر کیوں، یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اس کے بچے کو بوڑھی دائی کے حوالے کر دیا گیا جو بے ماں باپ کے بچوں کو گرام سمیتی کے حکم پر پالتی تھی۔ خود دائی بھی اس کام میں خوشی محسوس کرتی تھی۔
مہیندر شرون نے کافی دنوں کے بعد اس رات ایک دوسرا خواب دیکھا۔ وہ ایک ویرانے میں چلا جا رہا تھا، زمیں دور دور تک سنسان اور بنجر تھی۔ وہ ایک سیاہ گھوڑے پر سوار تھا۔ دور اسے پرچھائیاں نظر آ رہی تھیں۔ وہ تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا۔ جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں پرچھائیاں تھیں تو اسے پرچھائیوں کی جگہ ایک شخص نظر آیا جو نیچے جھکا ہوا کچھ کھا رہا تھا۔ جب مہیندر شرون نے غور سے دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹ گئیں، وہ تو کسی عورت کے جسم کو اپنے دانتوں سے بھنبھوڑ رہا تھا۔ اس کے منہ کے کناروں سے خون بہہ رہا تھا۔ مہیندر شرون خواب میں حیران ہوا کہ وہ کوئی اور نہیں گرام سیوک ہے لیکن یہ کیا اس نے تو سیاہ ساری پہنی ہوئی اور اپنے سینے پر سرخ چولی باندھی ہوئی تھی۔ وہ کھڑا ہوا اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہرا کر ایک گیت الاپنے لگا، ساتھ ہی ساتھ نرتیہ بھی کرنے لگا۔ ناچتے ناچتے وہ مہیندر شرون کے نزدیک آ گیا اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے گوشت کے ٹکڑے کو اس کی طرف بڑھا دیا۔ ایک چیخ اس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئی اور آنکھیں کھل گئیں۔
اس کے بعد تو گاؤں میں عجیب و غریب واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
گاؤں کے گرہستھ اپنے کاموں سے جی چرانے لگے، اکثر لوگوں کو کنول کنڈ کے اطراف چکراتے ہوئے دیکھا جانے لگا۔ گاؤں کی عورتوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی۔ ایک روز گاؤں کی کچھ عورتیں کنک لتا کے گھر کے پاس جمع ہو گئیں۔ کنک لتا کا باپ چارپائی پر بیٹھا حقہ پیتا رہا۔ کنک لتا کھڑکی سے لگی مسکراتی رہی۔ اس نے عورتوں کو اندر آنگن میں بلایا۔ عورتیں پتہ نہیں کنک لتا سے کیا کہنے آئی تھیں۔ لیکن کنک لتا نے جب ان کو بٹھا کر کمہار کے تازہ کٹوروں میں شربت پلایا تو یہ عورتیں سب بھول گئیں۔ کنک لتا نے مکان کو بہت سجالیا تھا۔ زندگی کی آسائش کا سارا سامان نظر آ رہا تھا۔ کنک لتا کے گلے میں موٹے منکوں کی مالا تو وہی تھی لیکن باقی سارے سورن آبھوشن (سونے کے زیور) اس کے شریر پر سجے اس کی سندرتا کو چار چاند لگا رہے تھے۔ عورتیں کچھ دیر بیٹھی رہیں پھر سورن لتا کو دھنیہ واد دے کر چلی آئیں۔
پشپ گرام میں لوگوں کا اپنی ذمہ داریوں سے موہ بھنگ کیا ہوا، گاؤں کا انتظام ہی چرمرانے لگا۔ جانور دبلے ہونے لگے، گائیں کم دودھ دینے لگیں۔ کھیتوں میں بیج بونے کا وقت گزر گیا اور لوگ یوں ہی بیٹھے رہے۔ پشپ گرام کے راستوں کے کنارے لگے پھولوں کے پودوں کو جنگلی لتاؤں نے نگل لیا۔ اس کے ساتھ ہی گاؤں میں عجیب و غریب واقعات کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہر دوسرے، تیسرے دن کوئی سہاگن مر جاتی، کیسے مرتی یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔ لوگ کبھی کسی عورت کو کسی پیڑ سے لٹکا ہوا پاتے، کسی کو بستر پر ہی مردہ پاتے، اس طرح کہ اس کا جسم نیلا پڑ چکا ہوتا۔ کوئی خود ہی اپنے ہاتھوں کی رگ کاٹ لیتی۔ عورتیں ایک ایک کر کے مر رہی تھیں۔ اور مہیندر شرون بہت پریشان تھا۔
پشپ گرام کی رونق دھیرے دھیرے ختم ہوتی جا رہی تھی۔ کنول کنڈ میں کنول کی جگہ جل کنبھی نے لے لی تھی۔ سارے کنڈ کو جل کنبھیوں نے ڈھک لیا تھا۔ کھیت ویران اور اجڑے ہوئے تھے۔ گاؤں میں اکا دکا عورتیں نظر آ جاتیں تو آ جاتیں۔ بہت ساری سہاگنیں پراسرار طور پر مرگئی تھیں۔ لیکن ان کے شوہر لاپروا نظر آتے تھے۔ اناج گھر میں اناج کم ہونے لگا۔ اناج کی تقسیم میں افراتفری نظر آنے لگی۔ کنک لتا نے اب ماتا جی کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ ماتا جی ایک روز اناج گھر سے واپس آئیں تو تھکن سے نڈھال تھیں۔ سیدھے چارپائی پر گر پڑیں اور ایسی گریں کہ دوبارہ اٹھ نہ سکیں، چارپائی ہی سے سٹ کر رہ گئیں۔ گرام ادھیکش نے مردوں سے صلاح کی اور سب نے ایک زبان ہو کر کنک لتا کو اناج گھر کی پرمکھ سیویکا بنا دیا۔ گاؤں کی بچی کھچی عورتوں کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا لیکن گرام ادھیکش کے فیصلے کو بدلنا ناممکن تھا۔ عورتیں کیا کرتیں۔ گاؤں کے اناج گھر کا اختیار در اصل پورے گاؤں پر ادھیکار کے برابر تھا۔ اب گاؤں کے بھوجن کی کنجی کنک لتا کے ہاتھ میں تھی۔
مہندر شرون اپنے خوابوں سے مسلسل ہراساں اور تکلیف میں تھا۔ دن بھر سوچتا کیا کرے، یہ خوفناک سپنے اسے کیوں آتے ہیں، ان سے چھٹکارہ پانے کا کیا طریقہ ہے۔ کیا ان سپنوں میں کوئی بھید ہے۔ کیا یہ سپنے کیول مجھے ہی آتے ہیں یا کوئی اور بھی ہے جو ایسے سپنے دیکھتا ہے۔ ایک دن اس نے گرو دیو کو اپنے سپنوں کے بارے میں بتایا۔
دھیان کے کمرے میں بیٹھے گرو نے پوچھا۔ ’’یہ سپنے کب سے آ رہے ہیں تجھے ؟‘‘
’’کچھ یاد نہیں گرودیو، ہاں ایک بات یاد آتی ہے، ہمارے گاؤں میں اسوروں کی ستائی ایک استری آئی تھی اس دن، کنک لتا۔ ‘‘
’’اسور!‘‘ گرو دیو نے گہرائی سے کہا اور دھیان میں مگن ہو گئے۔ ’’ہے بالک کیا تم نے اسوروں کو دیکھا ہے ؟‘‘
’’نہیں گرودیو۔ ‘‘
’’اسور اتہاس (تاریخ ) بھی نہیں جانتے، تمہیں گیان نہیں کہ تمس کیا ہے، چھل کیا ہے۔ ‘‘
’’ستیہ وچن گرو دیو۔ ‘‘مہیندر شرون نے شردھا سے سرجھکالیا۔
تب گرو دیو نے اسوروں کا اتہاس بتایا۔ ’’ہے بالک جب ہمارے پوروج(اجداد) اتر کی طرف سے اس دھرتی پر لوہا لے کر آئے، لوہا جو کاٹتا تھا، مارتا تھا، لوہا جو لہو کو پیتا تھا، وہ پہلی بار ہمارے پوروج لے کر آئے۔ یہاں اسوروں کے بڑے بڑے نگر تھے اور نگر کے چاروں اور پور (قلعے کی دیواریں ) تھے۔ ہمارے پوروج میں گرج اور چمک کے دیوتا اندر نے اسوروں کے دیوتا شیش ناگ کا سر کچلا اور پوروں کو توڑ ڈالا۔ ‘‘ گرو دیو رکے اور اوپر کی اور دیکھنے لگے۔ ’’اندر اور ان کے ساتھیوں نے گھوڑوں پر سوار ہو کر لوہ کا استعمال کیا اور اس دھرتی پر موجود اسوروں کو ختم کرنے لگے۔ اسوروں کے نگر ویران ہو گئے، یہ نگر سندر شلپ کلا کا نمونہ تھے۔ یہاں سڑکیں تھیں، دو منزلہ، تین منزلہ مکان تھے۔ نالیاں تھیں، حمام تھے۔ ہمارے پوروج گھمکڑ تھے، کسی ایک جگہ ٹکتے ہی نہیں تھے، گھوڑوں پر سوار اپنے جانوروں اور پریوار جنوں کے ساتھ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ آسورہمارے پوروجوں کے خوف سے دکشن کی اور گھنے جنگلوں میں چلے گئے اور وہاں انہیں تمس کی پراپتی ہوئی۔ ‘‘
’’تمس۔ ‘‘میں سمجھا نہیں گرودیو
’’تمس یعنی اندھکار۔ انہوں نے اندھکار کی جے کی اور تامسی ہو گئے۔ انہوں دیوتا تمس کی پوجا ارچنا کی، انہیں اپنے وش میں کیا اور اپنے بھیتر راکشس کے گن پراپت کیے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ چھل کیا ؟‘‘
’’ہاں گرودیو، پرنتو میرا گیان ادھورا ہے۔ ‘‘
’’چھل، یعنی دھوکا، چھل سے چھنال شبد نکلا ہے بالک۔ ‘‘
’’میں سمجھا نہیں گرودیو، چھنال ؟؟‘‘
’’اس سے زیادہ گیان دینے کی مجھے آ گیا نہیں بالک، اب جاؤ اور اپنے پرشنوں کا جواب خود تلاش کرو۔ ‘‘اتنا کہہ کر گرو دیو نے آنکھیں بند کر لیں اور دھیان مگن ہو گئے۔
مہیندر شرون دکھی من سے اٹھ کر چلا آیا اسے گرودیو کی باتوں میں چھپے بھیدوں کا ارتھ سمجھ میں نہ آیا۔ ابھی تو اس نے اپنشد کا پاٹھ بھی شروع نہیں کیا تھا، پھر اتنے گہرے فلسفہ تک اس کی رسائی کیسے ہوتی۔ چندرلیکھا پہاڑی پر بنے گروکل سے نکل کر مہیندر شرون نے نیچے دیکھا، سندھیا اب اترنے والی تھی، پشپ گرام پر ایک سناٹا طاری تھا، دور تک پھیلے جنگل کے درخت کسی سوگ میں سر جھکائے کھڑے تھے۔ کمل کنڈ جو جل کنبھی سے ڈھک چکا تھا گہرا سبز نظر آ رہا تھا۔ مہیندر شرون کو ہوا میں ایک ناگوار بو پھیلی محسوس ہوئی، جیسے کچھ سڑ رہا ہو۔ یہ بو کمل کنڈ ہی کی طرف سے آ رہی تھی، شاید یہ میرا بھرم ہو، مہیندرشرون نے خود سے کہا کیونکہ کمل کنڈ کے اس طرف کنک لتا کے دوار پر بڑی چہل پہل تھی۔ پشپ گرام کے کئی گرہستھ اور ودیارتھی وہاں جمع تھے۔
مہیندر شرون جب کنک لتا کے دروازے کے پاس پہنچا تو ایک عجیب نظارہ تھا وہاں، پشپ گرام کے گرہستھوں اور طالب علموں کے علاوہ گاؤں کی بہت سی عورتیں بھی جمع تھیں۔ گرہستھ اپنی بیویوں کو ڈانٹ رہے تھے لیکن سہاگنیں بہت بے چین تھیں۔ وہ بار بار کنک لتا کی طرف ہاتھ اٹھاتیں اور اپنے سینے پر مارتیں جیسے ماتم کر رہی ہوں۔ کنک لتا لوگوں کی بھیڑ میں بہت معصومیت کے ساتھ حیران آنکھوں سے ان عورتوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا باپ ان باتوں سے بے پروا سر جھکائے حقہ پینے میں مصروف تھا۔ کنک لتا کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں اور ان میں ایک عجیب سی سرخی کی آمیزش تھی۔ اس نے اپنے ہونٹوں کو بھینچ رکھا تھا۔ گاؤں کی بالائیں کنک لتا کے گرد جمع تھیں اور اسے ہمدردی اور دکھ بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سہاگنوں کی حرکتوں سے گرہستھوں کے اندر غصے کا لاوا پھوٹنے کے لیے بے تاب ہو۔ وہ بار بار اپنی بیویوں کو دھکیل کر کنک لتا سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سہاگنیں کنک لتا کو جان سے مارنے کے درپے نظر آ رہی تھیں۔ گاؤں کے طالب علم بھی کنک لتا کے آس پاس اور بالاؤں کے اردگرد کھڑے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے دلوں میں بھی کنک لتا کے لیے ہمدردی کے جذبات ہیں۔ مہہندرشرون یہ دیکھ کر حیران بھی ہوا اور پریشان بھی کہ اس کی تینوں کنواری بہنیں کنک لتا کو بڑے پیار سے، بڑی کرونا سے دیکھ رہی ہیں۔ ان کی انگیا نمایاں ہے اورساری کا آنچل زمین پر گرا ہوا ہے۔ شرون نے آنکھوں کے اشارے سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سود وہ اس کی باتوں کو سمجھ کر بھی انجان بنتی رہیں۔ مہیندر شرون بہت اداس ہو گیا، سہاگنوں کی بھیڑ میں اچانک ایک عورت گر پڑی، مہیندر شرون نے دیکھا وہ گربھ وتی(حاملہ) تھی، اسے گرتے دیکھ کنک لتا بہت تیزی سے اس کے پاس دوڑی اور اسے سہارا دے کر اس چارپائی تک لے آئی جس پر اس کا باپ ساری دنیا سے بے خبر حقہ پی رہا تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تو کنک لتا نے اس گربھ وتی سہاگن کو چارپائی پر لٹا دیا۔ اس کی آنکھوں سے پانی کے کچھ قطرے ٹپک کر عورت کی پیشانی پر پڑے اور آنکھوں کی لالی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ مہیندر شرون کو ایسا لگا جیسے وہ ایک سحر کی کیفیت میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ گاؤں کے کنوارے نوجوانوں کی طرف اس نے ایک کشش محسوس کی اور اس کا جسم اس طرف کھینچنے لگا، تبھی اس کی نظر دور گروکل کے مندر کے کلش پر لہراتے جھنڈے پر پڑی اور ایک ہیولا بھی نظر آیا، یہ گرو دیو تھے۔ مہیندر شرون کو لگا کہ جس مقناطیسی عمل کے تحت وہ کھنچ رہا تھا اس کے تار ٹوٹ رہے ہیں، اس نے اپنے سر کو جھٹکا اور لوگوں کی بھیڑ کو چیرتا ہوا تیر کی طرح گروکل کی طرف بھاگنے لگا۔ گرو کل میں جب وہ دھیان کے کمرے میں داخل ہوا تو گرو نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا، ان کے مکھ پر چنتا اور دکھ کے بادل تیر رہے تھے۔
’’آج انتم پورن ماشی ہے مہیندرشرون، یہ تمہارا مضبوط ارادہ اور گرو بھگتی ہے کہ تم ادھر چلے آئے۔ ‘‘گرودیون ے گہرا سانس لیا۔
’’انتم پورن ماشی، یہ کیسے ممکن ہے گرودیو؟پورن ماشی تو ہر ماہ ہوتی ہے۔ پورا چندرما اگتا ہے، چاندنی کا پرکاش پھیلتا ہے۔ ‘‘
’’چندرما اوشیہ نکلا کرے گا بالک، پرنتو تمس کے مکھ سے۔ ‘‘
’’تمسَ!‘‘
’’ہاں کل سے تامسی یُگ کی شروعات ہو گی۔ ایک نہ ختم ہونے والا اندھکار۔ تمہیں اس اندھکارسے لڑنا ہے۔ ‘‘
’’درشن (فلسفہ)کی اتنی گہری باتیں مجھے ابھی سمجھ میں نہیں آتیں گرو دیو، ابھی میں نے اپنشد کا پاٹھ شروع نہیں کیا ہے۔ ‘‘
’’تمس کو سمجھنے کے لیے تمہیں اتھرووید کا پاٹھ کرنا چاہئے۔ تمس، چھل اور چھنال کی ساری بھوشیہ وانی(پیشن گوئی)اس کتاب میں موجود ہے۔ ‘‘
’’اتھرووید کے منتروں کا پاٹھ کرتے ہوئے مجھے بہت بھئے (ڈر)محسوس ہوا گرو دیو اور میں نے ناسکوں (چپٹی ناک والوں )کے بارے میں گیان پراپت کرنا تیاگ دیا۔ ‘‘
’’اگر تم نے گیان پراپت کیا ہوتا تو تمہیں اپنے پرشنوں کا اتر سپنے کی پہلی بھور کو مل گیا ہوتا۔ اب تمس ہی تمس ہے۔ ‘‘اتنا کہہ کر گرو دیو خاموش ہو گئے۔ مہیندر شرون ودیارتھی وشرام گھر کی اور نکل گیا۔ کھلے میں اس نے آکاش کی اور دیکھا، چندرما پورے تیج کے ساتھ چمک رہا تھا لیکن ہوا ٹھہری ہوئی تھی اور سارا سنسار خاموشی کے گربھ میں دم سادھے پڑا ہوا تھا۔ تبھی ایک عورت کی چیخ نے ماحول کے کلیجے کو چیر دیا۔ مہیندر شرون ودیارتھی وشرام گھر سے گھبرا کر باہر نکلا اور نیچے کمل کنڈ کی طرف دیکھا تو ایک عجیب نظارہ نظر آیا، اگنی کی لپلپاتی زبانیں ہر طرف روشن تھیں۔ اور بہت سی پرچھائیاں متحرک۔ وہ تیزی سے نیچے اترا اور کمل کنڈ کے پاس پہنچا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ آدھی رات کا سمے، چندرما سروں پر چمک رہا تھا اور یہاں پشپ گرام کے گرہستھ، ودیارتھی اور کنواری بالائیں ہاتھوں میں مشعل لیے کھڑی تھیں۔ ساری بالاؤں کے جسم کا اوپری حصہ عریاں تھا۔ ان کے درمیان کنک لتا پوری نروستر(ننگی )، آنکھیں بند کیے گربھ وتی استری کی جانگھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھی۔ یہ گربھ وتی زور زور سے چیخ رہی تھی۔ دور اس بھیڑ سے پرے چند سہاگنوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا گاؤں سہاگنوں سے خالی ہو چکا ہے اور اب صرف یہی ایک گربھ وتی بچی ہے۔
اچانک گربھ وتی نے فلک شگاف چیخ ماری اور اس کی گردن ایک طرف لڑھک گئی۔ کنک لتا نے اس جانگھوں کے درمیان سے اپنا ایک ہاتھ نکالا اور بلند کیا، اس کے ہاتھوں میں وہی بچہ تھاجسے مہیندر شرون نے اپنے سپنے میں دیکھا تھا۔ وہی مردہ بچہ جس کی آنکھوں کی جگہ دو غار تھے۔ کنک لتا نے بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بلند کیا اور کھڑی ہو گئی۔ وہ آگے آگے چل رہی تھی اور اس کے پیچھے پیچھے گرہستھوں، ودیارتھیوں، اور آدھ ننگی بالاؤں کی ٹولی۔ فضا میں اچانک کنک لتا کی سریلی آواز میں ایک بھیانک گیت کے بول ابھرے اور لوگوں پر ایک جنونی کیفیت طاری ہو گئی۔ سب پاگلوں کی طرح ناچتے ہوئے گاؤں سے باہر جانے والے راستے کی طرف بڑھنے لگے۔
دھیرے دھیرے یہ بھیڑ بہت دور سایوں میں بدل گئی، لیکن پھیلی ہوئی چاندنی میں ان سایوں کے درمیان سے تاریکی کا دھواں ابھرا اور دھیرے دھیرے پوری کائنات پر پھیل گیا۔
پسپ گرام کے راستوں پر ناگ پھنی کے پودے اُگ آئے جس میں سیاہ پھول کھلتے ہیں۔ آتے جاتے راہ گیر دیکھتے ہیں کہ ایک ادھیڑ ہوتا ہوا جٹا دھاری ان پودے کو لوہے سے کاٹتا رہتا ہے۔ لیکن تامسی پھول ختم نہیں ہوتے۔
٭٭٭
پیچاک — شاہد جمیل احمد
(پاکستان)
دریا، کنارا، دور تک چھوٹے اور درمیانے پیڑوں کے جھُنڈ اور پھر ایک بڑا درخت- درخت کا بھی کوئی نام نہیں، اِسے بس ہم اس کی چھایا اور داڑھی سے پہچانتے ہیں۔ جب ہم درخت کی داڑھی دیکھتے ہیں تو کبھی اپنی چھاتی کے بالوں کو دیکھتے ہیں، کبھی اپنی بغلوں کو اور کبھی اپنی ٹانگوں کے بیچ وہ سامنے لمبا چلا آ رہا ہے جس کا جانور کی کھال کا ستر پوش چھال کا ازار بند ٹوٹنے کی وجہ سے اُس کے گھٹنے پر جھُول رہا ہے مگر اُسے اس کی کوئی پروا نہیں۔ پھر ایک دم میں اپنے ستر کی طرف دیکھتا ہوں، وہاں تو کچھ بھی نہیں !میرا مطلب ہے کہ ستر پوش سِرے سے ہے ہی نہیں۔ لمبے سے میری ملاقات اِسی جنگل میں کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے ایک دم چیتے کی سی لپک سے اپنے دفاع کے لیے ایک پودے کی قدرے موٹی شاخ توڑنے کی کوشش کی مگر بے سود- پھر میں نے خود ڈرتے ہوئے اُسے دونوں ہاتھ کے اشارے سے شانت رہنے کی تاکید کی اور وہ ادھ ٹوٹی شاخ کو چھوڑ کر میرے ساتھ چلنے لگا۔ اُس رات اِس درخت تلے رات بسر کرنے والے ہم دو تھے۔ کبھی میری کچھ پل کو آنکھ لگ جاتی تو وہ جاگتا رہتا اور جب اُسے گہری اونگھ آتی تو میں جاگنے لگتا۔ جب ہم دونوں سو جاتے تو درخت پر بیٹھے بن مانس چپکے سے ہمارے پاس آتے اور ہمیں زور کی دو ہتھڑ مار قلقاریاں کرتے واپس درخت پر چڑھ جاتے۔ کچھ دن تو ہم لوگ اکٹھے خوراک کی تلاش میں نکلتے اور جیسے ہی کوئی کچا پکا پھل پھول یا بے ضر ر کیڑا مکوڑا نظر آتا اُس پر ایک دم پِل پڑتے اور جو کبھی اُس کے ہاتھ لگ جاتا اور کبھی میرے۔ پھر ایک صبح ہم نے بغیر آپس میں کچھ بولے اور اشارہ کیے اپنے راستے جدا کر لیے مگر شام ہوتے ہی ہم لوگ اپنے درخت تلے آ جاتے۔
ایک دن لمبا اپنے ساتھ ایک چھوٹے کو بھی لے آیا۔ لمبے نے مجھے اشارے سے بتایا کہ چھوٹا اُسے جنگل کی اُس سمت ملا جس جانب سورج غروب ہوتا ہے۔ چھوٹا لمبے کو دیکھتے ہی چوپائے کی طرح چھلانگیں لگاتا آناً فاناً درخت پر چڑھ گیا۔ پہلے تو لمبا سمجھا کہ وہ بھی کوئی بن مانس ہے مگر پھر غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ بن مانسوں سے ذرا مختلف ہے اور شکل و شباہت میں اُس سے زیادہ ملتا ہے۔ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے چھوٹے کو درخت سے نیچے اُترنے کو کہا، درخت سے اُترنے کے بعد بھی وہ اس کے ساتھ ساتھ مگر کچھ فاصلے پر کبھی چوپایوں کی طرح اور کبھی دو پایوں کی طرح چلتا جا رہا تھا- درخت تلے پہنچ کر جب اُس نے مجھے وہاں پہلے سے موجود پایا تووہ ایک دم ڈر گیا۔ جب اُس نے ایک جانب کچھ پتھر پڑے ہوئے دیکھے اور تنکوں میں سلگتی آگ کو دیکھا تو اور بھی خوف زدہ ہوا۔ میں نے اور لمبے نے ہاتھوں سے بے شمار اشارے کر کے اُسے سمجھایا کہ ہم اُس کے دشمن نہیں۔ اب ہمیں رات کے وقت یہ سہولت ہو گئی کہ ہم میں سے کم از کم دو لوگ آسانی سے سوسکتے تھے۔ ویسے بھی جیسے جیسے ہماری تعداد بڑھ رہی تھی ویسے ویسے درخت کے بن مانس کم ہوتے جا رہے تھے۔ چھوٹا بھی صبح سویرے اپنی خوراک تلاش کرنے کے لیے جنگل میں نکل جاتا۔ اُسے بن مانسوں کے بیچ بھاگنے اور ان کی خوراک چھیننے میں زیادہ مزہ آتا تھا۔ شام کو مگر ہم تینوں پھر درخت تلے آ جاتے۔
پھر ایک دن میری ملاقات موٹے سے ہو گئی۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے اپنے موٹے موٹے بازوؤں میں بھر کر کم گہری کھائی میں پھینک دیا۔ اُس نے اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پاس کھڑے پتّانما تنے کے ایک پودے کی دو تین ایسی ضربیں لگائیں کہ تنا خود ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اُس نے ایک بار پھر مجھ پر حملہ کرنے کے لیے کوئی چیز اٹھائی ہی تھی کہ میری آنکھوں کی لجاجت اُس کی آنکھوں میں اُتر گئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے پتّے اور گارا ملی کھائی سے نکالا اور میرے ساتھ چلنے لگا۔ میں اُسے درخت کے پاس لے آیا۔ پہلے تو وہ دو اور لوگوں کو وہاں موجود پا کر کچھ ٹھٹکا اور شاید اُس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم تینوں مل کر اُس سے بدلہ لیں گے مگر پھر میں نے بلکہ ہم سب نے دائیں بائیں اپنے سر ہلا کر اُسے یقین دلایا کہ ہماری اُس سے کوئی عداوت نہیں۔ اب تو ہم سب لوگ کبھی کبھی کوئی چھوٹا جانور بھی پکڑ لاتے اور کھال سمیت آگ پر بھُون لیتے۔ موٹے کو جانور کھانے کا بہت شوق تھا۔ کبھی کبھی تو وہ صبح ایک جانور کو پکڑتا اور پھر سارا دن اُسے جلانے اور کھانے میں صرف کر دیتا۔اُس نے جانوروں کو چیرنے پھاڑنے اور کاٹنے کے لیے طرح طرح کے پتلے نوکیلے اور تیز دھار پتھر بھی جمع کر لیے تھے۔پھر ایک دن موٹے کو پتہ نہیں کیا سوجھا کہ اُس نے شام کو ہمارے لوٹنے تک چوڑے ہرے پتّوں اور درخت کی چھال سے ہم سب کے لباس تیار کئے۔ ہم سب نے یہ لباس پہنے اور گول دائرے میں ایک دوسرے کے پیچھے گھوم کر اور جھوم کر خوشی کا اظہار کیا-
جہاں تک دُبلے کا معاملہ ہے تو وہ مجھے ہی ملا تھا۔ وہ نہیں ملا تھا بلکہ اُس کی چیخ ملی تھی۔جنگل کی دریا والی سمت اُس کی چیخوں سے گونج رہی تھی۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ شاید کچھ لوگ اُسے لکڑی کے بھالوں سے مار رہے ہیں مگر پھر آہستہ آہستہ درختوں کی اُوٹ سے دیکھا کہ اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دریا میں تیرتی درخت کی جڑوں کو پکڑا ہوا ہے اور اُس کی ٹانگیں پانی کے بہاؤ سے دور کھنچی ہوئی ہیں۔ وہ تو پانی میں بہہ ہی جاتا اگر میری نظر اُس پر نہ پڑتی اور قریب ہی سے موٹا میری چیخوں کی آوازسن کر نہ آ جاتا۔ ہم سب میں دُبلا ہی وہ پہلا شخص تھا جسے ہم سے شروع میں خطرہ محسوس نہ ہوا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ پہلے ہی موت کے منہ سے واپس آیا تھا اور ہم لوگوں نے ہی اُس کی جان بچائی تھی۔ دُبلا ہم سب میں عادت کا اچھا تھا۔ نہ تو وہ ہم لوگوں کی طرح کھانے کی کسی چیز پر بُری طرح جھپٹتا تھا اور نہ دوسروں کے ہاتھ سے چھین کر کھاتا۔ یُوں لگتا تھا جیسے اُسے زیادہ کھانے کا کوئی لالچ ہی نہیں تھا۔اگر آسانی سے اُسے کچھ مل جاتا تو کھا لیتا اور اگر نہ ملتا تو نہ کھاتا۔اُسے دیکھ کر تو ہم لوگوں کو بھی شرم آنے لگی تھی۔د بلے کی شرافت، کمزوری اور تعاون کو مد نظر رکھتے ہوئے موٹے نے اُسے اپنے ساتھ رکھ لیا۔ وہ اُس کے لئے لکڑیاں اور سُوکھی گھاس پھُوس جمع کرتا، اُسے آگ جلا کر دیتا اور جانور پکڑنے میں ہر طرح سے اُس کی مدد کرتا۔
کافی عرصہ جنگل میں اکٹھے رہنے کے بعد ہم لوگ ایک دوسرے کے اشارے، کنائے اور دُم دُما دُم، چھِک چھِکا چھِک یعنی زبان کافی حد تک سمجھنے لگے تھے۔ ہم سب لوگوں کی بِپتا ایک جیسی تھی اور ہم لوگ یہاں خوشی سے نہیں آئے تھے بلکہ ہمیں ہماری بستیوں اور گروہوں سے کھدیڑا گیا تھا۔ میری کہانی جو میں نے اپنے دیگر ساتھیوں کو سمجھائی وہ یہ تھی کہ میرے پاس کچھ بکریاں تھیں جن کی بھُٹینوں میں ہر وقت دودھ بھرا رہتا۔ میرے گروہ کے بڑے نے ایک ایک کر کے میری ساری بکریاں چھین لیں اور جب آخری بکری چھیننے لگا تو میں نے ہائے کلاپ شروع کر دیا۔ بڑے کے ساتھیوں نے مجھ پر لاتوں گھونسوں اور لاٹھیوں کی ایسی بارش کی کہ میں بے ہوش ہو گیا- جب ہوش آیا تو قافلہ مجھے مردہ ہونے کا یقین کر کے اگلے پڑاؤ کی طرف بڑھ چکا تھا- لمبے کی بپتا مجھ سے بھی دردناک تھی۔ لمبے کی لمبی بیوی اور چھوٹی بچی تھی۔ اس کے گروہ کے سردار کو وہ دونوں پسند آ گئیں۔ لمبی کو اُس نے اپنے لئے اور چھوٹی کو اپنے بیٹے کے لیے ہمیشہ کے لیے رکھ لیا۔ جب لمبے نے آہ و بکا کی تو سردار کے لوگ اُس کے ہاتھ پیر باندھ کر اُسے دریا برد کر آئے۔
چھوٹے نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اُس کے پاس کچھ اناج جمع ہو گیا تھا۔ ہر سال وہ اُس اناج کے بیج دریا کنارے بو دیتا اور پھر پہلے سے کہیں زیادہ اناج حاصل کرتا۔ اُس کی بستی کے سرکردہ لوگوں کو اُس کے دانوں کی وجہ سے اُس سے عناد ہو گیا اور نہ صرف یہ کہ اُس کے دانے چھن گئے بلکہ اُسے اُس کے ساحل، بستی اور دریا کے پانی سے محروم کر دیا گیا۔موٹے کو اُس کی چمکتی کھال والی کالی بھینس لے بیٹھی- وہ اتنا دودھ دیتی کہ اگر کچھ دیر اس کا دودھ نہ دوہا جاتا تو اُس کے تھنوں سے دود ھ رسنے لگتا۔ زور اور نے تو اُس سے اُس کی بھینس چھینی تھی لیکن وہ اپنی بھینس کے بغیر رہ بھی تو نہیں سکتا تھا۔ دُشمن کو ہنس ہنس کر اپنی بھینس کا دودھ دوہتے اور پیتے دیکھ کر ایک دن اُس نے خود ہی اپنے قبیلے سے ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کر لی- دبلے کو دور پار کے دریائی کناروں اورساحلوں سے قیمتی پتھر، موتی اور گھونگے تلاش کرنے میں مہارت تھی۔ اُس کے پاس جب کافی قیمتی پتھر جمع ہو گئے تو اُس نے انہیں اناج اور دودھ کے بدلے اپنی بستی کے لوگوں سے تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ دُرّے والی کو خبر ہوئی تو اُس نے اپنے مرد سے کہہ کر نہ صرف یہ کہ دُبلے کے تمام قیمتی پتھر چھین لئے بلکہ اُسے ادھ مُوا کر کے گروہ چھوڑنے کا حکم بھی دے دیا۔
پھر یونہی ہمیں جنگل میں رہتے کافی وقت گزر گیا۔ ہم لوگ یہاں رہ تو رہے تھے مگر اُداس اور پریشان۔ ہمیں ہماری بستیوں، لوگوں، جانوروں، جوڑوں اور بچوں کی یادستاتی۔ ہم لوگ واپس جانا چاہتے تھے مگر اس کے لیے ہمارے پاس طاقت نہ تھی۔ اب جبکہ ہم لوگ تعداد میں زیادہ تھے اور رات کے وقت سہولت سے سو بھی سکتے تھے مگر ہمیں نیند نہ آتی۔ رات دن ہم لوگوں کو واپسی کی فکر لاحق تھی۔ ہم لوگ اپنی بستی اور اپنے لوگوں میں و اپس جانے کے راستے اور جواز سوچنے لگے۔ ایک دن لمبے نے ہمارے دماغوں پر پڑے پردوں میں ارتعاش برپا کر دیا۔ کہنے لگا میرے سر پر یہ جو آسمان ہے اِس کے اُس پار کوئی رہتا ہے۔ اُس کی بات سن کر پہلے تو ہم لوگ ہنسے، پھر ہم نے اُسے مذاق میں کہا کہ چونکہ تو لمبا ہے اس لیے تیرا سر آسمان سے جا لگا ہو گا اور تو نے اپنے ہاتھوں سے آسمان کی چا در ہٹا کر اس کے پیچھے کسی کو جھانک کر دیکھا ہو گا- لمبا مگر سنجیدہ تھا، کہنے لگا وہاں کوئی ہے اور یہ وہی ہے جو اچھے کو جزا اور بُرے کو سزا دینے پر قادر ہے۔ پھر وہ اِسی خیال میں گُم رہنے لگا- ہمیں نہ صرف یہ کہ اب اُس سے ڈر لگنے لگا تھا بلکہ اُسے خود سے برتر سمجھنے لگے تھے۔ ہمیں یُوں لگتا تھا جیسے اُس نے گوہرِ مُراد پا لیا ہو۔ اب اُسے اُس کی بستی میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اُس کے پاس اپنے گروہ کو بتانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور تھا۔ پھر ایک رات جب آسمان پر صبح سے کچھ دیر پہلے بڑا ستارہ طلوع ہو چکا تھا تو ہمیں چھوٹے کی دبی دبی رونے کی آوازوں نے بیدار کر دیا۔ جب قریب جا کر دیکھا تو اُس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔بڑی تسلی و تشفی کے بعد اُس نے بتایا کہ بڑے ستارے سے روشنی کا ایک گولہ نمودار ہوا اور اس کے سینے میں آ کر جذب ہو گیا۔ اُس کے بعد چھوٹا ہر رات بڑے ستارے کے آگے سربسجود رہنے لگا۔
کچھ ہی دِنوں میں موٹا بھی جانوروں کا گوشت کھانا بھول گیا۔ ہر وقت درختوں کی لمبی چھال پر گول گول گانٹھیں باندھتا رہتا اور منہ میں کچھ بڑبڑاتا جاتا۔ ہم ابھی سوئے ہوتے کہ جانوراُس کی خوراک کے لیے اُس کے سامنے پڑا ہوتا۔ دبلا پورے دو دن اور دو رات ہم میں سے کسی کو نظر نہیں آیا۔ دو دن بعد ملا تو بہت خوش نظر آ رہا تھا- ہم نے پوچھا تو کہنے لگا مجھے کئی دنوں سے کوئی غیبی طاقت مٹی کی اپنے جیسی مورت بنانے کو کہہ رہی ہے اور میں وہی بنا کر آ رہا ہوں۔ یہ مُورت میرے اور جو اس پر یقین کرے گا اُس کے اچھے بُرے کی ذمے دار ہو گی۔ اب صرف میں رہ گیا تھا، مگر مجھے تو ان سب سے پیش تر ہی بڑے درخت کی داڑھی سے لٹکتی عجیب و غریب شکلیں دکھائی دیتی تھیں جو پل میں ظاہر ہوتیں اور پل میں غائب۔
بلاد الرافدین، دریائے فرات، بڑ کا درخت اور وہ پانچ نحیف جو اپنی نئی زندگی کے لیے اپنی بستیوں اور گروہوں میں واپس جانے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ وہ دن اور آج کا دن، پوری انسانیت ادیان، مافوق الفطرت، جادو، بت پرستی اور ستارہ پرستی ایسے تصورات کے پیچاک میں پھنسی ہے۔
٭٭٭
آخری دعا — حمیدہ رضوی
گولی لگتے ہی ایک لمحہ کو اسے محسوس ہوا کہ وہ بینائی کھو چکا ہے۔ اس نے ہاتھ اپنی آنکھوں کے سامنے کر کے دیکھا۔ اس میں گولی لگی تھی۔ مگر وہ اس کو بھول کر بینائی سے فکرمند ہو گیا۔ آخر یہ کیا ہوا؟ اس نے غم کی بہتات سے بیہوش ہوتے ہوئے زمین پر دہرایا۔
’’مثل ان اندھیروں کے جو گہرے سمندر کی تہہ میں جسے او پر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ پھر سیاہ بادل بھی جھک آئیں، ایسے میں جب اپنا ہاتھ نکالے تو (قربت کے باوجود اسے بھی نہ دیکھ پائے جسے اللہ نے روشنی نہیں دی اس کے لیے کوئی روشنی نہیں۔ ‘‘ (سورہ نور آیت ۴۰) تو کیا مجھ سے روشنی چھین لی گئی؟
تو کیا؟ پھر میں ٹھکانے تک کیسے پہنچوں گا؟ اگر میری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ وہ پڑا رہا۔ یا بیہوش ہو گیا۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو روشنی نظر آئی۔ سامنے کی پہاڑی پہ سورج کی آخری کرنیں دم توڑ رہی تھیں۔ چنانچہ ایک اور دن مر گیا۔ پھر اس نے لیٹے لیٹے شکرانے کے نفل پڑھے، پھر شفق احمر کے ظاہر ہوتے ہی مغرب پڑھی، پھر کروٹ لی۔ لیٹ لیٹ جنیز خون سے تر تھی۔ اس نے پگڑی ٹانگ کو کس کر باندھنے کے لیے استعمال کی، پھر قریبی درخت سے ایک مضبوط شاخ توڑ کر بیساکھی بنائی۔ یہ پاکستان کی زمین ہے اور خبیث غیر ملکی کتے بو سونگھتے پھر رہے ہیں۔ گھر کے بھیدی، افوہ… قیامت کا سماں ہے۔ وہ دھیرے دھیرے ٹھکانے کی طرف رواں رہا۔ گاؤں والوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ بلاوجہ بے گناہوں کو مروا یا جا رہا ہے۔ اور لوگوں کو تنگ کر کے انتقام پہ ابھارا جا رہا ہے۔ مثلاً میں … مجھے کسی سے دشمنی نہیں۔ میں کسی کو نقصان نہیں پہچانا چاہتا۔ میں … جمال الدین افغانی کا پوتا… جس کے والد امریکہ میں رہتے ہیں ننیہال پاکستان میں … ددھیال کابل میں ہے … رشتے دار دنیا بھر میں ہیں۔ اعلیٰ تعلیم میں نے آکسفورڈ میں حاصل کی ہے۔ اور پرائی آگ میں ڈھکیل دیا گیا ہوں۔ اس نے ایک ٹیلے پہ بیٹھ کر تھوڑا سا پانی پیا اور نیچے وادی اور شادی اور عورت اور لاشیں سب کے بارے میں سوچا۔ ہڈیوں میں برودت بڑھتی جا رہی تھی۔ درجۂ حرارت اعشاریہ پانچ سے بھی کم معلوم ہوتا ہے۔ شاید حاجی بابا پہنچ چکا ہو تو وہ میری گولی نکال دے گا۔ میرا اندازہ ہے بمباری کرنے والا جہاز بھی گر گیا ہے۔ آخری دھماکہ اسی کا تھا۔ یہاں سے افغانستان کی زمین دس میل کہیں کہیں صرف دو میل ہے۔ مگر یہ غیر ملکی یہاں ایسے گھومتے ہیں جیسے ان کا سسرال ہے۔ اصل سسرال میں تو انہیں کوئی جوتے بھی نہیں مارتا ہو گا۔ وہ بارڈر کے دونوں طرف بارودی سرنگیں بچھا دیتے ہیں۔ کتنے معصوم شہری ہاتھ پیر سے معذور ہو چکے ہیں۔ پہاڑی کے عین اوپر محرم کا چاندیوں ماتم کناں لگ رہا ہے جیسے نیچے وادی میں جشن شادی محفل عزا میں بدل چکا ہو۔ حاجی گل آ کر چوکیداری کا کام سنبھال لے تو پھر ہی میں جا کر دیکھ سکوں گا کہ اصل نقصان کتنا ہوا؟ اس نے دور بین آنکھوں سے لگائی، غارتیں چار سوگز کے فاصلے پر ہے۔ مگر ایک ٹانگ سے اس اونچے نیچے راستے کو صرف رینگ کر طے کیا جا سکتا ہے۔ وہ سستانے کو بیٹھ گیا۔ اب تھوڑی تھوڑی برف گرنی شروع ہو گئی تھی۔ چالیس برس قبل آکسفورڈ کی پروفیسری اور الزبتھ کے ساتھ شاندار زندگی کی حسین شاموں میں کہ باہر برف پڑ رہی ہے اور ہم گرم کمروں میں بیٹھے خشک میوے، سوکھے پھل کھا رہے ہیں۔ تب میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ۹ محرم کی شام کو یوں گھسٹتا ہوا ایک غار کی طرف جا رہا ہوں گا۔ اور صرف امید ہے کہ پہنچ جاؤں گا یقین نہیں۔
آخر کو وہ غار آ گئی۔ وہ اس کے دہانے پر رینگ کر داخل ہوا اور غار کے اندرونی حصے میں جا کر دم لیا۔ وہ کسی قسم کی بجلی یا بیٹری کی چیزیں استعمال نہیں کرتے تھے مبادا امریکی فوج اعلیٰ ترین آلات سے ان کے وجود کی خبر لگا لے۔ اس نے موم بتی جلائی۔ غار کے کونے میں سے کھانے کے سامان کا تھیلا اٹھایا۔ اس میں چند بسکٹ اور ایک روٹی تھی۔ حاجی بابا کے آنے سے پہلے کچھ نہیں کھاؤں گا۔ اور اگر برف زیادہ گری اور راستے بند ہو گئے۔ تو زندگی رہی تو رزق بھی پہنچ جائے گا۔ پھر اس غار میں جمع لکڑیوں کے جھاڑ کو اپنے گدے کے قریب جلایا کہ گرمی پہنچ سکے۔ حاجی گل بابا کے گدھے پہ بیٹھ کر میں وادی میں پہنچ جاؤں گا۔ عموماً وہ مغرب کے قریب پہنچ جاتا ہے۔
وقت انسان کو کیسے پٹخیاں دیتا ہے ؟ اورانسان ’’انہ کان ظلوماً جہولا‘‘ یہ مجھے اس وقت نہیں معلوم تھا۔ جب مجھے والد نے ایٹن میں اے لیول کرنے بھیجا اور اس وقت بھی جب کہ میں آکسفورڈ میں ڈگری کر رہا تھا۔ میں خود پسندی کی بہت اونچی ہواؤں اور فضاؤں میں اڑ رہا تھا۔ فرسٹ کلاس میں ڈگری، پھر انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کسی بھی شخص کے لیے معراج ہے۔
وقت انسان کو بدلتا ہے یا انسان وقت کو؟ میرا بچپن اور جوانی ناز و نعمت میں گزرا۔ مگر جو محبت و قربت مشرقی معاشرت میں ملتی ہے اس کا وجود نہیں تھا۔ والد باہر والدہ کابل میں اور بہنیں پشاور ہوٹل میں رہتیں اور پڑھتیں۔ پھر ان کی شادیاں ہوئیں۔ میں شریک نہ ہو سکا۔ میری شادی ہوئی، ابا آ گئے، امی کو نہیں لائے۔ میں الزبتھ کو ۱۹۶۹ میں رشتہ داروں سے ملانے لایا تھا۔ پھر نہ الزبتھ نے کبھی کہا اور نہ ہی میرا دل چاہا آنے کا۔
یہ ویتنام کی جنگ کا زمانہ تھا۔ چین اور روس ان کے معاون تھے۔ مگر آج جو ہمارے معاون ہیں خونی درندے ہیں۔ ہمارے معاون ہمارے خون سے پل رہے ہیں کیونکہ گھر کے بھیدی ہیں۔
آکسفورڈ میں … میں صرف ایک دانشور تھا۔ دانش گاہ کی رونق تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ دانش کا سودا گر تھا۔ اوردوسرے انگریز دانشوروں کی طرح بوکھلایا ہوا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نئے نظریات برطانیہ سے باہر پیدا ہو رہے ہیں۔ جیسے زندگی کی آخری حقیقت اور وجہ یہی تھی۔ جولیا کرسٹوا، رواراہ، نیطشے، بیگل، ڈریڈا، ایڈورڈ، سعید… میں بالکل انگریزوں کی طرح سوچتا۔ میرا اپنا سفید رنگ… نیلی آنکھیں … بیوی انگریز ارسٹو کریٹ… انگریزی رہن سہن… ماضی سے مکمل علیحدگی… میں اکیلا ایسا نہیں تھا۔ بے نظیر، بن لادن، اور بہتیرے جو اپنے اپنے ملک میں جا کر ایک ہی وفاداری یاد رکھتے ہیں … اپنی ذات سے وفاداری… اور ذات کی مغرب سے وفاداری۔
میرا نیوز (پی ایچ ڈی میں ) ایچ ڈی ٹامس کہتا تھا ’’چیزوں کو قریب سے جانچو۔ دورسے مناظر بدل جاتے ہیں اور کم نگاہی دور کے منظر حسین بنا دیتی ہے۔ ‘‘ میں نے ایک دن اس سے کہا تھا ’’برطانیہ کی درسگاہیں آزاد فکری رویے کی نمائندہ ہیں، یہاں سے انسانی ذہانت اور غور و فکر کے سوتے پھوٹتے ہیں اور علم کی اس روشنی سے دنیا مستفید ہوتی ہے۔ ‘‘
’’تم بتاؤ میرے بچے ساختیات کے نظریۂ تنقید سے تمہارے ادب کو کیا فائدہ ہوا؟ اور یہ جو فیمینزم اور ڈریڈا میں نوک جھونک چل رہی ہے اس سے تمہاری معاشرت نے کیا سیکھا؟ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ساختیات بے ٹانگوں کا گھوڑا ہے اور ماڈرنزم… ابلاغ کو اور دیانت دارانہ سوچ کو مفلوج کرنے کی کوشش ہے۔ عالمی سازش‘‘ مجھے ہنسی آ جاتی… ’’تم طلسمی دنیا کی باتیں کرتے ہو ٹامس۔ ‘‘
’’نہیں تم لوگ طلسمی دنیا میں بستے ہو دوڑ میں حصہ لینے والے گھوڑوں کی طرح تمہاری آنکھوں کے گرد اندھیاری (Blinkers) لگا دی جاتی ہیں۔ ‘‘
میرے موضوع کا تعلق بھی تو استعماری ادب سے تھا۔ ایک دفعہ جدے دیت کے بارے میں اس نے ایسی بات کی کہ جب بھی یاد آتی ہے ہنسی آتی ہے۔
’’ایلیٹ کے ذریعہ انگریزی ادب میں جدے دیت کا ناجائز بچہ پیدا کروایا گیا اور پرورش بھی اسی کے سپرد ہوئی۔ پھر دنیا بھر کے بہترین اذہان کے ذریعہ تجریدیت اور جدے دیت پھیلائی گئی۔ دنیا بھر کے اظہار و خیال کو سانپ سونگھ گیا۔ جانوروں کی زبان اور جدے دیت کی زبان ایک ہو جائے گی۔ اکثر زبانیں مفلوج ہو جائیں گی اور مر جائیں گی۔ تم دیکھنا ادیب اظہار کے ابلاغ کے بجائے لقوہ زدہ انسان کی طرح نہ سمجھے جانے والے الفاظ بولیں گے۔ اور اس کے نتائج شروع ہو چکے ہیں۔ اس میں انگریزی کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ دوسری زبانوں کا نقصان ہو گا۔ ‘‘
’’میرے بچے حقیقی دانشور وہ ہے جو ادارتی، حکومتی دہشت گردی کو پہچانے اور تعلیمی انتظامیہ کی طرف سے دیئے گئے مجہول منصب و فرائض کو مسترد کر دے۔ ‘‘
Bruce Robin نے بھی یہی کہا ہے۔ ’’دانشور یا مقید ہوتا ہے یا بک جاتا ہے۔ ‘‘
’’تمہیں ایک دن میری باتیں سمجھ میں آئیں گی۔ میں نہ مقید ہونا چاہتا تھا نہ بکنا چاہتا تھا۔ تو میں وہیں کا وہیں ہوں اور اب وہ اور قریب ہو گیا جیسے دیواروں کے کان ہوں اور وہ دیکھ رہا ہے۔ یہ جو فری میسن اور شیطان کے پجاری ہیں اور قدامت پرست یہ سب یونیورسٹیوں کے بہترین دماغ ہیں۔ اسلام کو مٹانے اور دنیا کو فکری غلام بنانے کے منصوبے اور جال برطانیہ اور امریکہ کے دانشوروں کے بہترین دماغ تیار کرتے ہیں۔ اسلام پہ رکیک حملے اور پھر ان کے خلاف احتجاج دونوں ان کے منصوبوں میں شامل ہیں۔ یہ ان کی پہلی ذمہ داری ہے۔ پڑھانا تو تیسرے چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ اذہان کی فکری نہج تیار کر کے ترتیب دی جاتی ہے۔ نئی نئی فکروں کے پیچھے مغربی پروفیسروں کا خلاق ذہن ہوتا ہے۔ مقصدیت… سیاست کی استعماریت… اور یہ جو نیا شیطان ہے … ڈریڈا صہیونی دور اندیشی کا نشان… ساری دنیا کو توڑ پھوڑ کر، صرف ایک زبان، ایک تہذیب… کوئی مذہب نہیں، کوئی خدا نہیں۔ تم یقین نہیں کرو گے، یہ جو سعودی عرب اتنی سعادت مندی سے امریکہ یعنی صرف اپنے طور کا اسلام مسلط کرنے کی مہم چلا رہا ہے وہ بھی اسی صہیونی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ یہ بظاہر معصوم ادبی نظریے سے اپنے زہر کی کاشت کرتے ہیں جو مقابل کو ہنستے ہنستے ڈھیر کر دیتا ہے۔ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آئے۔ یہ مسلمان تو ناک سے آگے دیکھتے نہیں، میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ کون کون فری میسن ہے اور… مگر نہیں راز داری کا عہد توڑنے والوں کو ضرور کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے اس لیے چھوڑو‘‘ ملازم کو اس نے گھنٹی بجا کر کافی لانے کو کہا… باہر باد و باراں کا طوفان زوروں پر تھا۔
’’جاؤ اڑ جاؤ کھلی فضا میں ‘‘… اس نے کافی کا گھونٹ لے کر کہا۔
میں گھر آیا تو الزبتھ کا منہ پھولا ہوا تھا اسے میرا ٹامس سے ملنا جلنا پسند نہیں تھا۔
ایک دن میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا، الزبتھ کچھ لکھ رہی تھی، میں نے اسے آواز دی لزی ڈارلنگ! یہ سنو اس نے کیا لکھا ہے ؟
’’روشن خیال، روشن فکر، روشن دماغ، روشن مذہب (اور آج کے پاکستان کے حساب سے روشن آمریت) اس روشن خیالی کے پروجیکٹ نے نئے انداز کی نو آبادیت اور نئی استعماریت سے ایک خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے۔ یہ ایک غلیظ نظریہ ہے ان دانش گاہوں کی فکری اور اظہار کی آزادی ایک منصوبہ ہے اور یہ درسگاہیں ایک بڑا کچرا خانہ ہیں۔ ‘‘ اس نے برا سا منہ بنایا اور کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ سوائے اس کے۔ ’’تم بدل رہے ہو۔ ‘‘
میں نے آئینہ دیکھا۔ کیا یہ صحیح ہے ؟
شاید وہ صحیح کہہ رہی تھی۔
شاید اسی لیے آج میں نے ان کی ’’ان النفس با لنفس والعین بالعین والانف بالانف‘‘ کے مطابق کہا ’’تو رات میں بھی تو ہے … کیوں نہیں ’’والجروح قصاص‘‘ اور یہ بن لادن… کیا شاندار سوٹ پہن کر گھومتا… بے حد دلکش شخصیت، نرم لہجہ کا، مہمان نواز لڑکیاں مری جاتی تھیں اس پر۔ پھر امریکہ نے اس کو احمق بنایا اور وہ کیا سے کیا ہو گیا؟‘‘
Bormoby Rojerson نے 12.2003 کے اخبار میں اپنے پورٹریٹ کالم میں صحیح لکھا تھا۔ اگر بن لادن نے محمدؐ کے اخلاق، لباس اور ظاہر میں سنت کی پیروی کی تھی تو ان کی تکمیلی شخصیت کی بھی پیروی کی ہوتی؟ یعنی تدبر، تفکر، دوراندیشی، رعب و دبدبے کے ساتھ منکسر المزاجی دوراندیشی کا سبق بھی سیکھا ہوتا تو اس کے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہوتیں جن کے لیے وجدان اور ایقان کے ساتھ عقلیت درکار ہوتی ہے۔ بن لادن ان سے عاری تھا اس لیے اس نے گاؤ دم ترقی کی وہ پیرو سے زیرو ہو گیا۔ صحیح ہے، صرف دولت کی شان اور اسلحے سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلیں گی۔ رسول اللہﷺ کی زندگی سامنے ہے۔ قائدانہ صلاحیت کے لیے فکری سوجھ بوجھ اور حکمت درکار ہے۔ قرآن میں تو ہے ’’اللہ جسے چاہتا ہے حکمت دیتا ہے۔ ‘‘ البقرہ (۲۶۹)
آگ بجھ چکی تھی اس نے کفایت سے لکڑیاں ڈالیں ممکن ہے لکڑیاں رہ جائیں اور ٹامس کی نرس نے مجھے بلانے کے لیے فون کیا تو میں پریشان ہو گیا۔ بہر حال عجیب سا موسم تھا۔ الزبتھ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے کہا ’’میں ذرا باہر جا رہا ہوں۔ ‘‘ ٹامس کی نرس مجھے اس کے کمرے میں لے گئی۔ وہ خاموش لیٹا تھا۔ میں نے قریب جا کر اسے آواز دی اس نے آنکھیں کھولیں اورمسکرایا۔
مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات کروں ؟ اس نے ہاتھ بڑھایا، میں نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ڈاکٹر بھی موجود تھا۔ پھر وہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ میں اس کی تجہیز و تکفین سے واپس آیا تو الزبتھ کے تبصرہ نے مجھے دکھ دیا۔ اس کو میں اپنے باپ کی طرح عزت دیتا تھا اور وہ کہہ رہی تھی ’’خس کم جہاں پاک تم اس بائیں بازو کے نیم پاگل کے لیے بلا وجہ اداس ہو رہے ہو۔ وہ غدار تھا۔ ‘‘ وہ چلا کر بولی۔ ’’مجھے اس کی تحریر و تقریر میں کبھی کسی بازو کا سراغ نہیں لگا اور غدار تو بہت اضافی لفظ ہے۔ تم بھی اس کے لیے غدار ہو سکتی ہو۔ آزاد فکری رویہ کو تم غداری کہتی ہو۔ اور آزادی فکر و عمل کا پروپیگنڈہ کرتے تمہارا منہ نہیں سوکھتا‘‘ میں غصہ میں مطالعہ کے کمرے میں چلا گیا۔ یہ ہماری پر امن زندگی کا پہلا جھگڑا تھا۔ اور اس دن مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ میرے اور اس کے درمیان خلیج ہے۔ ہم دو ہیں، ایک نہیں۔ جیسے میں نے اس دن تک سوچا تھا۔
’’ہم مسلمان جذبات و عقل کے اندھے، کم بین، خود غرض اور اقتدار کے لیے کسی کے بھی جوتے چاٹ سکتے ہیں۔ ‘‘ مجھے اس دن کا احساس ہوا۔
جب شعور بیدار ہوتا ہے تو خود احتسابی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ آگاہی اذیت ہے۔ وہ دن اور لمحہ تو میں بھول ہی نہیں سکتا۔ وہ اپنی اماں سے فون پہ کہہ رہی تھی۔
’’ہر عورت کے لیے بچے پیدا کرنا ضروری نہیں ہے۔ میں بغیر بچے کے اپنے آپ میں مکمل ہوں۔
آپ کو نانی بننے کا شوق ہے مگر کبھی سوچا کہ میرے بچے دو رنگے ہوں گے یعنی ہاف کاسٹ دوغلے۔ ‘‘
’’ہاں صحیح… وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے اور سفید مگر مجھے نہیں چاہئیں دوسری نسل کے بچے ‘‘ میں ہال سے دبے قدموں باہر واپس چلا گیا۔ بغیر کچھ کہے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ میں سن رہا ہوں۔
Trinity college کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس دن بہت کچھ سوچا۔ کاش ابا زندہ ہوتے تو میں پوچھتا کہ مجھے انگریز بنانے میں آپ نے مجھے تنہا اور لا وارث کر دیا۔ آپ تو جمال الدین افغانی کے … کیوں ؟ پھر میں نے خود سے کہا ’’سید حسنین! تم کن جنجالوں میں پڑ گئے ؟ اگرچہ پرکٹ گئے ہیں مگر تیار رہو۔ اور پر نکلتے ہی اڑ جاؤ۔ کہاں … کیسے ؟ یہ مجھے نہیں معلوم… بقول ایڈورڈ سعید… تم نے عوامی مسائل سے غفلت اور روگردانی کی اور تعلیمی اداروں سے نادانستہ ساز باز میں زندگی کے قیمتی دس برس کھو دیئے۔ ویسے بھی اے ڈی ٹامس کے بغیر آکسفورڈ۔ آکسفورڈ نہیں لگتا تھا۔ اس نے غار کے سوراخ سے باہر جھانکا۔ برف تیزی سے گر رہی تھی۔ ’’پانی ختم ہو رہا ہے ٹزنگ میں گولی نہ لگی ہوتی تو میں برف لا کر پگھلا لیتا۔ خیر… دیکھتے ہیں اس برف باری میں اب تو کسی کے آنے کی امید بیکار ہے۔ ممکن ہے وہ سمجھ رہے ہوں میں برف باری دیکھ کر واپس آ گیا ہوں تو۔ اس سال میں نے ان دو چیزوں کو خیر باد کہا جن سے میں نے ٹوٹ کر پیار کیا تھا… الزبتھ اور آکسفورڈ کی پروفیسر شپ۔ ‘‘
میں میڈیا میں ایک بہت بڑے اخبار سے منسلک ہو گیا۔ خیال تھا کہ یہاں زیادہ فکری آزادی ہے مگر… صہیونی عفریت کا طاقتور ان دیکھا پنجہ ہر جگہ خون نچوڑنے آ جاتا ہے اس کا اندازہ ہوا۔ جب میں نے ’’The case of Israel‘‘ کے فرنچ مصنف آر۔ گراؤڈی کا انٹرویو کیا۔ کیونکہ فرانس میں یہودی لابی نے اس کی زندگی تلخ کر دی تھی۔
اس نے بڑی بہادری سے معقولیت پر مبنی اور مدلل بات چیت کی۔ آخری سوال تھا۔
’’سنا ہے آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ کیا یہ صحیح ہے ؟‘‘ اس کے اثبات پہ مجھے قہقہے لگانے کا دل چاہا۔ میرا اسلام کا علم بس یہی تھا کہ جو دنیا بھر میں مسلمان ہیں وہی اسلام ہے میرے اس تبصرے پہ وہ خفا نہیں ہوا کہ ’’وہ اسلام پہ چلنے والے میرا مطلب ہے مسلمان ناکام ترین لوگ کیوں ہیں۔ ؟‘‘ پھر میں نے سوال کیا۔ اس نے کہا ’’اسلام میں اور مسلمانوں میں کوئی چیز مشترک نہیں اس لیے وہ ناکام ہیں۔ ‘‘ پھر وہ اپنے ٹھہرے ہوئے انداز میں بولتا رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ… آج وہ ہوتا تو اس سے کہتا تمہاری باتیں صحیح ہیں۔ ہم بے عمل ہیں۔ ہاں اور پھر اس کا انٹرویو ٹی وی کے سرکاری چینل پہ آنے سے روک دیا گیا۔ اخبار میں نہیں چھاپنے دیا گیا۔ تب استعفیٰ دے کر میں آزاد صحافی بن گیا۔ اس وقت مجھے صہیونیوں کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ تب گراؤڈی نے کہا تھا ’’حق تو رب کی طرف سے تمہارے سامنے ہے یعنی قرآن… کہ جو چاہے مان لے اور جو چاہے مسترد کر دے۔ ‘‘ تو مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ سورہ کہف کی آیت نمبر ۲۰ پڑھ رہا ہے۔ وقت انسان کو سکھاتا ہے … میں سمجھا تھا یہ اس کا خیال ہے۔
میں شاید ۱۹۸۵ میں کسی کام سے پشاور آیا جب جنرل ضیاء الحق امریکن سیاست کی گود میں کلکاریاں مار رہے تھے۔ اسی سال میری ملاقات زینب عباسی سے ہوئی وہ ہمارے قبیلے کی تھی اور کولمبیا نیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئی تھی۔ اس کا دینی علم مجھ سے بہت زیادہ تھا۔ پھر ہماری شادی ہو گئی۔ یہ طے تھا کہ وہ زیادہ پاکستان میں رہے گی۔ صحافی ہونے کی حیثیت سے میں گھومتا ہی رہتا تھا۔ وہ گرمیاں برطانیہ میں ہی گزارنا چاہتی تھی۔ ۱۹۸۰ کی گرمیوں میں میری جڑواں بچیاں ہوئیں۔ وقت گزرتا رہا ایک دفعہ میری بن لادن سے پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ روس کے خلاف جہاد کا نگران، امریکہ کا چہیتا۔ میں نے اس سے پوچھا تھا۔ یہ بتاؤ امریکہ کو جہاد سے کیا لینا دینا۔ تم نے کبھی سوچا ہے کہ تم نے اپنا ملک بچانے کے لیے پاکستان کو برباد کیا ہے۔ منشیات، جرائم، قتل و غارتگری۔ اسلحے کی فراوانی، یہ تمہارے امریکن جہاد کی دین ہے۔ تم امریکہ کے پٹھو ہو۔ ‘‘
وہ ہنسا نہیں صرف گہری سنجیدگی سے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا ’’تمہیں کیا پتہ میرا کیا پروگرام ہے ؟ اپنے پروگراموں میں تم نے ان مردوں، عیاش شیخوں اور سلطانوں کے بارے میں سوچا ہے جو حرم سجاتے ہیں، کنیزیں رکھتے ہیں، معصوم بچوں کو اونٹ کی دوڑ میں استعمال کر کے مفلوج کر دیتے یا ختم کر دیتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ان کے والدین مفلس اور مدقوق ہیں۔ کیا جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد نہیں ؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’’تم وہ جہاد کرو… سمجھے … میں اسے گہری سوچ میں ڈوبا چھوڑ کر آ گیا تھا۔ پھر اس نے تھوڑی لکڑیاں اور آگ میں ڈالیں۔ سوراخ سے جھانکا تو لگا… نو محرم کے چاند کی روشنی میں بھی سوگواری ہے اور سناٹا پکارتا پھر رہا ہے۔ قریب سے الو کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ عجیب آواز سے بول رہا تھا۔ وادی میں موت سرسرارہی ہو گی۔ شاید حاجی گل ابھی تک نہیں آیا۔
آخر مسلمان یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ بغیر کسی فکری تنظیم اور قائدانہ تدبر اور منطقی رویے کے جہاد کے نام اور نعرۂ تکبیر سے سب کچھ ہو سکتا ہے ؟ یہ ٹھپ دار دینداری، یہ اقتدار کی ہوس یہ کور بینی۔ یاسر عرفات کی طرح اپنے لوگوں کی لاش پہ محل بنانے کا عمل۔ اس سے تو آرچ بشپ میکاریولس بہتر تھا۔
’’کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے ‘‘ (الفرقان ۴۳) وہ معصوم چہرے بھی مجھے کہاں بھولتے ہیں جو جانے کن خوابوں کے سہارے چلے آئے تھے۔ ایوان ریڈلے کی طرح میں بھی گیا تھا۔ افغانستان رپورٹ لینے تو رابورا کے مدرسے کے بچے جو گیس اور پانی سے تہ خانوں میں مارے گئے تھے۔ ان کی خبر لینی تھی۔ کئی عزیز تھے۔ ان پہاڑوں میں چھپتا، راتوں کو چلتا، دن کو چھپ جاتا، وہیں جوانوں کے ایک جتھے سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔ میں نے ہاتھ اٹھائے وہ مجھے پکڑ کر لے گئے۔ وہ سب ایک کھنڈر نما عمارت میں چھپے ہوئے تھے جو بمباری سے تباہ ہو چکی تھی۔ ان میں ایک افغان اور سب غیر ملکی تھے۔ زیادہ تر برطانوی شہری تھے۔ باہر دور تک تاریکی کا سمندر تھا۔ اور موت کا سناٹا بین کر رہا تھا۔ میں نے انہیں بتایا تھا کہ ’’میں تو صرف صحافی ہوں مگر تم لوگ یہاں مرنے کو کیوں آ گئے ؟ جن امریکیوں نے پہلے تمہیں جہاد کے لیے بھرتی کیا آج وہ تمہاری بیخ کنی کر رہے ہیں۔ پہلے امریکیوں کے لیے جہاد کرنا اور پھر امریکہ کے خلاف جہاد کرنا قرآن کے کس حکم کے مطابق ہے ؟‘‘ چند میرے شاگرد رہ چکے تھے۔ چند بہت اچھی پوسٹ پہ تھے۔ ’’تم مجھے سمجھاؤ۔ کیا تم نے اپنے دین کی تکمیل کر لی ہے ؟ کیا تم نے لوگوں کے حقوق پورے کر لیے ہیں ؟ کیا تم سے افغان حکومت نے کہا تھا کہ وہ اپنی جنگ نہیں لڑ سکتے ؟ وہ زنخے ہو چکے ہیں ؟ تم آ جاؤ ہمیں بچانے کے لیے۔ راشد، جمشید تم بتاؤ۔ وہ سعودی لڑکا شکل سے انگریز برطانوی لگتا… حاملہ بیوی اور تین بچوں کو چھوڑ کر تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ بیوی بچے خیرات پہ پل رہے ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟‘‘ میں نے ان کوسمجھایا۔ ’’میں واپس جا رہا ہوں، چلو سب نکل چلیں واپس۔ اور کریم بخش تم اپنی نابینا ماں کو کس پہ چھوڑ کر آئے ؟ کیا تم پراس کا کوئی حق نہیں ؟‘‘ وہ خاموشی سے پگھلتی موم بتی کی نیم جان روشنی میں مجھے دیکھتے رہے۔ ’’جسے چلنا ہے میرے ساتھ چلے۔ جسے نہیں جانا صبح سے پہلے یہاں سے چلا جائے۔ ‘‘ صبح میری آنکھ کھلی تو وہ سب جا چکے تھے۔ میں تنہا پاکستان گیا۔ اور پھر واپس برطانیہ۔ رمضان کا مہینہ تھا زینب نہیں آئی تھی۔ میں اپنے بنگلے میں بیٹھا ان سب کے بارے میں اکثر سوچتا۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک کو چھوڑ کر سب گرفتار ہو گئے اور جانوروں کی طرح زنجیروں میں امریکہ لے جائے گئے۔ پھر برطانیہ میں پھر پکڑ دھکڑ ہوئی اور پاکستان میں ہزاروں معصوم لوگ دشمن کے ہاتھوں بیچ دیئے گئے۔ ہم دوسروں کے گھر کا کچرا صاف کرنے گئے تھے اور کچرا بن گئے۔ اور مجھے خون خرابے سے کوئی دلچسپی نہیں مجھے لگتا ہے جہاد کے لفظ کی انہوں نے مٹی پلید کی ہے اسلام کو اور بدنام کیا۔ استغفار… استغفار۔ ۱۹۹۱ میں زینب مجھے ایڈورڈ سعید سے ملوانے لے گئی تھی۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی میں اس کا استاد تھا۔ لندن میں فلسطینیوں نے یہ سیمنار منعقد کیا تھا۔ ’’اس نے کہا ہماری ناکامی کی وجہ ہماری نہ ختم ہونے والی تکرار ہے۔ اپنی آواز کو سنتے رہنے کا جنونی شوق ہے۔ ہم عقلیت سے دور ہیں اور تدبر، تفکر اور معقولیت کو سننے کا یارا نہیں۔ اس لیے اجتماعی مقصد میں قدم قدم ناکام ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ‘‘ مسلمان نہ ہونے کے باوجود وہ ایک مخلص دانشور اپنی اعلیٰ فکر و نظر کی وجہ سے میدان میں ڈٹا رہا تھا۔ افسوس ہم مسلمان… بڑ ہانکنے میں ماہر… بے حس اور ٹھس ہیں۔ کم بینی کی حد تک… اقتدار کی ہوس نے ہم سے وہ حر کی قوت چھین لی ہے جو وقت کی قدر کرنے کے لیے درکار ہے، جو حالات کا رخ بدلتی ہے۔ کاش… ہم نے ایران سے سیکھا ہوتا جبکہ مسلمانوں میں بعض فوجیں چوڑیاں دشمن کے ہاتھوں سے پہن کر آ گئیں۔ بعض فوجوں کی بہادری کی معراج اپنے لوگوں کو دشمن کے ہاتھوں بیچنے سے عیاں ہو گئی۔ اور بعض کی بہادری کے جوہر اپنی بہنوں کو تہہ تیغ کر کے کھلے۔ جبکہ اسلام کا حکم ہے دشمن کی خواتین پہ بھی زیادتی نہ کرو۔ ہے نا مزے کی بات… کاش… اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تیل دینے کے بجائے دور اندیشی، نظم، حکمت اور عقل سلیم دیتا۔ امن کی شعبدہ بازی میں طاقت کے بل بوتے پہ قومیں گروی رکھی جاتی ہیں، رکھی گئی ہیں اور وہ قومیں خوش باش جوتے چاٹ رہی ہیں۔ روشن فکری زندہ باد۔ اپنی عمر کے پندرہ سال میں نطشے، ہیگل ہائی ڈیگا، رورٹی اور ڈریڈا کا کچرا طلباء کے دماغ میں الٹتا رہا۔ سب شیطانوں یہودیوں کے سگے۔ اسی لیے جب بچوں نے اے لیول کے بعد دو سال کا بریک لینے اور پاکستان جا کر علم دین حاصل کرنے کا شوق ظاہر کیا تو میں نے منع نہیں کیا۔ ایک ہی شے حقیقت نہیں۔ جس مجذوب فرنگی کو اقبال مقام کبریا سکھانا چاہتے تھے، اس کے اوپر ڈریڈا نے پھبتی کسی۔ کہ وہ آخری ماورائیت کا یقین رکھنے والا تھا۔ بہرحال انہی فضول خیالات سے بچنے کو میں نے بچوں کو بھیج دیا تھا۔ دوسرارخ بھی دیکھنا چاہئے فکر کا۔ کیا حقیقت معروضی و مجرد ہے ؟ یا ہر شے اضافی ہیولا ہے۔
میں اونچی چٹان پہ بیٹھا سوچ رہا تھا اور دریائے سوات کی لہریں ٹکرا کر طوفان اٹھا رہی تھیں۔ میرے اندر کا طوفان اس سے بھی شدید تھا۔ پل پہ سے سیاحوں کا کارواں گزر رہا تھا۔ دریا کے ساتھ بنے ہوٹلوں سے روشنیاں چھن کر آ رہی تھیں۔ میں قریب قدموں کی آہٹ سن کر دبک گیا۔ ’’اجنبی دریا چڑھ رہا ہے تب پانی اوپر تک آ جاتا ہے۔ ‘‘ میں چپ ہی رہا۔ شاید جاسوس ہو حکومت کا۔ بچوں کا کھوج لگانے والے بھی تو… قریب مسجد سے اذان مغرب کی آواز آئی۔ کسی نے بہت قریب سے سر گوشی کی ’’اجنبی آؤ جماعت سے نماز پڑھ لیں۔ ‘‘
ہاں، پھر تم میری مخبری کرو۔ اور جامعہ حفصہ کی بچیوں کی طرح میں بھی تو ایک سیلانی ہوں۔ آؤ ادھر اس راستے سے اوپر چلیں۔ ہمیں کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔
نماز کے بعد میں اس کی کوٹھری میں بیٹھ گیا جو دریا سے پانچ منٹ کے فاصلے پہ پہاڑوں میں تھی۔ اس نے چائے بنائی اور کہانی سنائی۔
’’میں فوجی ڈاکٹر رحمت خان، عرف حاجی گل، مدرسے کے محاصرے میں تھا۔ جان بوجھ کر محاصرہ کو طول دیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ختم کر سکیں۔ دوسری طرف سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ ایمبولنس آتی تھی۔ لاشوں کو بھرکے دوسرے راستے سے جا کر کہیں اور کھڑی کی جاتی تھیں اور لاشیں راتوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کر دی جاتی تھیں۔ اسلحہ خود فوجیوں نے لے جا کر رکھا تھا۔ وہاں کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ اور جتنے فوجی مرے، وہ اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں سے مرے۔ کیونکہ مرنے والے فوجی مزید خون خرابے کے خلاف تھے۔ اور… جا کر بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ کوئی مجبوری نہیں تھی مذاکرات کے مابین۔ بیرونی آقاؤں کا حکم تھا… صلح نہ کراؤ خواتین اس خوش فہمی میں رہیں کہ روشن پاکستان کی روشن حکومت نے خواتین کی آزادی کا بل پاس کیا ہے۔ پھر اس آزادی کا اظہار جرم کیسے ہو گیا؟ آزادی کے لیے برطانیہ میں ایک خاتون رہنما نے خود کو بادشاہ کے گھوڑے کے آگے گرایا تھا اور مر گئی تھی کہ بادشاہ کی توجہ ان کی آزادی کی طرف مبذول ہو۔ آقاؤں نے تو اپنی عورتوں پہ بمباری نہیں کی تھی۔ اس لیے امریکی جہاد کے غازی بردارو… میری بیٹی اور بیوی وہیں سے غائب ہو گئیں۔ ہم تو بیس جولائی کو واپس برطانیہ جانے والے تھے۔ بیوی صرف بچیوں کو لینے گئی تھی۔ میں جہاں بھی سراغ لینے جاتا ہوں، پولیس کے کتے میری بو سونگھتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں۔ طرح طرح کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ میری کار دھماکے سے اڑا دی گئی۔ آخری دھمکی ہے کہ وہ امریکہ کو جعلی ثبوت بھجوا دیں گے کہ میں القاعدہ کا کرتا دھرتا ہوں۔ باقی عمر امریکہ کی پنجرے والی جیل میں سڑوں گا۔ اس دن میں نے قسم کھائی کہ ان کی تلاش ترک کر کے ’’النفس بالنفس… والجروح قصاص‘‘ اور میں … رحمت خان نے کھانا اس کے آگے رکھتے ہوئے کہا ’’میری کہانی… جولائی کے واقعے کے ایک ماہ بعد… مجھے نروس بریک ڈاؤن ہوا۔ چھ ماہ ہسپتال میں رہا۔ علاج کا کہہ کر انہوں نے میرے وارثوں کے حوالے کیا جو دور کا ایک بھتیجا ہے۔ فوجی وردی جب سے نظروں سے دور ہوئی، میں ٹھیک ہونا شروع ہو گیا۔ اب میں اپنے لوگوں کی مدد کرتا ہوں، کسی کو راہ دکھا دی، کسی کے بچے کو پڑھا دیا، کسی کا علاج کر دیا۔ ‘‘
دریا بہ دریا جو بجو صحرا بصحرا کو بکو… زینب میری جستجو کیا صادق نہیں تھی۔ مگر تم یہاں کیسے آ گئیں ؟ وہ مسکرائی اس کے خوبصورت گالوں پہ گڑھے سے نمایاں ہوئے جو مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ بچیاں کہاں ہیں ؟ اس نے جواب نہیں دیا۔ ساری بات تمہارے نام میں تھی زینب… کبھی تمہیں لگا حضرت زینبؓ کے حوالے سے تم اس کرب دینی کی وارث ہو جو حضرت زینب کو ملا تھا یہ شہادت گہ ایمان میں قدم رکھنا ہے۔ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا۔ وہ ایک ٹک دیکھتی رہی پھراس نے گھبرا کر غار کے دہانے کی طرف دیکھا۔ میں نے بندوق تان لی کوئی بھڑا تھا۔ تم میری نشانے کی زد پر ہو۔ اس نے انگریزی میں کہا۔ ممکن ہے جاسوس ہو۔ اس نے گھگھیا کر کہا۔ میں صرف سردی سے بچنے کی جگہ چاہتا ہوں۔ دیکھو میرا ایک ہاتھ زخمی ہے اور ایک خالی… مجھے مارنا نہیں … میں خود ہی مر رہا ہوں۔ مجھے اندر آ جانے دو… بہت اذیت میں ہوں۔ وہ پوری طرح سیدھا بیٹھ گیا۔ اچھا اندر آ جاؤ۔ ہاتھ اٹھائے … کون ہو تم؟
میں جم اینڈرسن۔ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ اور ساتھ ہی دھڑ سے گر گیا۔ اس کا چہرہ موم بتی کی روشنی میں واضح تھا۔ خوبصورت نوجوان… بائیس سے چوبیس برس کی عمر… برطانوی ایئرفورس کی وردی خون میں لتھڑی ہوئی… وہ کسمسایا۔ کچھ کہا جو ہذیان لگا۔ مگر پھر غورسے سنا۔ وہ کہہ رہا تھا۔
’’مم… میں نے ان سے کہا تھا کہ نیچے شہری آبادی ہے۔ مگر انہیں در و دیوار بھی دشمن نظر آتے ہیں۔ انہوں نے حکم دیا بم گر ادو۔ واپسی پہ قریبی پہاڑی سے کسی نے راکٹ مارا۔ میں۔ میں صحیح سالم نکل آیا تھا۔ جہاز سے۔ مگر بارودی سرنگ پہ پیر پڑا اور اڑ گیا۔ یہ سرنگیں بھی ہماری فوجوں نے دہشت گردوں کے لیے بچھائی ہیں۔ ماں … میں ایک پیر اور جھلسے ہاتھ کے ساتھ جینا نہیں چاہتا۔ پانی…‘‘
حسنین افغانی اپنی تکلیف بھول کر اس کی طرف لپکا۔ اسے گھسیٹ کر آگ کے قریب کیا۔ تکیہ کی جگہ اپنا جائے نماز والا تھیلا رکھا۔ زخمی لرز رہا تھا۔ اس کا سرد ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تاکہ اس کی کپکپی کم ہو۔ اپنا کمبل، چادر چغہ اس نے سب کچھ اسے اڑھا دیا۔ وہ بے چارہ بری طرح کانپ رہا تھا۔ ’’کاش میں اسے کچھ کھلا سکتا۔ ‘‘ پھر اس نے تھرماس میں جھانکا تھوڑی سی کافی تھی۔ اور میرے حلق میں بھی کانٹے پڑ رہے تھے۔ ’’مگر نہیں ‘‘ اس نے جم کی طرف دیکھا۔ ’’چلو بیٹا۔ میں مسلمان ہوں اور تمہاری خاطر میرا فرض ہے۔ لہذا یہ لو‘‘ اس نے باقی ماندہ آخری آدھا کپ تھرماس کے ڈھکنے میں نکال کر اس کے سر کو سہارادیا اور کپ اس کے منہ سے لگا دیا۔ کافی ختم کر کے اس نے سوال کیا ’’تم کون ہو؟‘‘ میں سید حسنین افغانی ہوں۔ ‘‘
اس نے کافی ختم کر کے نقاہت سے کہا ’’تمہارا نام کچھ ہو… میرے خیال میں تو تم فرشتے ہو۔ انتہائی اذیت میں باہر میں نے دعا کی تھی… اے خدا… مجھے تنہا اس ٹھنڈ میں مرنے نہ دے۔ تو فرشتہ بھیج جو میری زندگی کے آخری لمحوں میں میرے ساتھ ہو۔ ‘‘ حسنین نے محبت سے اس کی طرف دیکھا۔ ایک ایسی محبت جو… جو غرض، رنگ ونسل اور مذہبی تعصبات سے ماورا ہے۔ پھر اس نے جم کو اور لپیٹ دیا کہ اسے آرام ملے۔ اور خود سے مخاطب ہوا۔
’’حسنین افغانی۔ الزبتھ کے ساتھ شاندار بنگلے اور شاندار عہدے کے ساتھ رہتے ہوئے تم نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ تمہارا انجام اس کسمپرسی میں ہو گا مگر۔ اللہ میرے ساتھ ہے۔ ‘‘ پھر اس نے جم کی طرف دیکھا۔ وہ کراہ رہا تھا۔ ’’ماما مجھے گلے سے لگاؤ… اگرچہ ایک فرشتہ میرے پاس ہے۔ ماما… ماما… اگر الزبتھ سے میرا بیٹا ہوتا تو اس عمر کا ہی ہوتا۔
حسنین نے غار کے منہ کو پھر سے بند کیا جو جم کی آمد سے کھل گیا تھا۔ اور ننھے سے سوراخ سے باہر کا جائزہ لیا۔ نویں محرم کی چاندنی کفن کے کپڑے کی طرح پھیلی تھی۔ اس کا دل دکھ گیا۔ میری بیٹیاں، میری بیوی، جم اور میں … کاش میں اس کے لیے کچھ کر سکتا ا۔ وہ تو میں زخمی ہوں … میں ٹھیک ہوتا اور گاؤں مدد کے لیے جاتا تو بھی۔ میرے اپنے فوجی مجھے مار ڈالنا ضروری سمجھتے۔ کسی مرتے ہوئے انسان کو بچانے کو وہ ضروری نہیں سمجھتے سیاست کی بازی گری میں انسانی زندگی کی کیا قدر؟ بیچارہ… اچھا ہوا یہ اپنے فوجیوں کی بچھائی بارودی سرنگ سے زخمی ہوا۔ ورنہ میں خود کو معاف نہ کرتا۔ مگر میرا کیا لینا دینا؟ میں نے تو چیونٹی کو بھی قتل نہیں کیا۔ سوائے آج چند گھنٹوں قبل کے حادثے کے۔ وہ لنگڑاتا ہوا جم کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے دل سے لگا لیا۔ پانی… پانی… وہ کراہا۔
حسنین نے پانی کی بوتل اٹھا کر دیکھی۔ بوتل میں تھوڑا سا پانی تھا۔ وہ خود پیاسا تھا مگر… ’’میں ایک مرتے ہوئے جوان کی آخری خواہش پوری کروں گا…‘‘ اس نے پانی جم کے منہ میں قطرہ قطرہ ٹپکانا شروع کر دیا۔ کہ دیر تک اس کا حلق تر رہے۔ مجھے اب بھی سردی لگ رہی ہے۔
جتنے کپڑے، چادر، کمبل، جائے نماز موجود تھے، اس نے سب جم کے اوپر اڑھا دیے اور خود بھی اس کے ساتھ گھس کر بیٹھ گیا۔ کہ شاید اس کے اپنے جسم کی گرمی جم کو سکون دے۔
’’میں تمہیں لوری سناؤں ؟ وہی جو میں اپنی بیٹیوں کو سناتا تھا‘‘، ’’کچھ سناؤ جس سے میری اذیت میں کمی ہو۔ ‘‘ اس نے خلاف توقع شعور کے ساتھ جواب دیا۔
وہ سوچنے لگا۔ موم بتی چوتھائی رہ گئی ہے۔ لکڑیاں جلانے کے لیے اس سے بھی کم۔ رات ابھی چوتھائی گزری ہے۔ میں اشارے سے نماز پڑھوں گا۔ عشاء کی۔ پھر تمہیں یسین سناؤں گا۔ پھر ڈائری کا آخری صفحہ مکمل کروں گا۔ اس سے آگے مجھے معلوم نہیں۔ اس نے یہی کیا جم کے چہرے پہ سکون چھا گیا۔ چلو تمہیں نیند آ گئی۔
یسین کا فائدہ رہا۔ اس نے موم بتی قریب کر کے پتھر پہ رکھی اور ڈائری لکھنے لگا۔
’’میں نے اپنی بیوی اور بچی کی تلاش میں دھکے کھائے، ذلتیں اٹھائیں، مگر ہمیشہ خون خرابے کی مخالفت کی۔ لوگ اب میری بات سمجھنے لگے تھے اور مذاکرات کے لیے بھی تیار تھے۔ مگر ڈوبتے سورج نے آج جو کچھ دیکھا وہ امن کی تقدیر کو بگاڑ گیا اور ہم سب کو اذیت کے جہنم میں جھونک گیا۔ نیچے گاؤں میں شادی سب سے اونچی پہاڑی پہ پہرہ دے رہا تھا جس کے بالکل نیچے وادی ہے۔ بل کھاتی سڑک ہے، ایک گاؤں ہے جو یہاں سے نظر آ رہا تھا۔ کھانا پک رہا تھا۔ لوگ اچھے کپڑوں میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ اسی لمحہ بل کھاتی سڑک پہ ایک فوجی ٹرک نمودار ہوا اس میں پاکستانی اور یورپین فوجی تھے۔ وہ اتر کر دوربینوں سے گاؤں کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے فون سے یا وائرلیس سے کسی سے کچھ کہا اور ٹرک کے گرد جھاڑیوں میں کھڑے ہو گئے۔ ایک جہاز آیا اور اس نے دو تین بم گرائے۔ میں نے دور بین سے گاؤں کی طرف دیکھا۔ اب وہاں صرف لاشیں تھیں اور خون تھا۔ مسرت کی جگہ آہ زاری اور نیند کی جگہ بین تھا۔ میں نے پھر سڑک کی طرف دیکھا۔ وہ فوجی ٹرک میں بیٹھ رہے تھے۔ میری نگرانی میں خون ہوا تھا۔ ‘‘
’جزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا‘‘ میرے اوپر فرض ہو چکا تھا۔ میں نے تھیلے سے گرینیڈ نکالا جو صرف ہنگامی دفاع کے لیے تھا۔ پن نکال کر دو گرینیڈ فوجی ٹرک میں پھینک دیئے۔ دو دھماکے ہوئے۔ فوجی ٹرک کے پرخچے اڑ گئے۔ اور اب میرے دل کے بھی… اس کے بعد افغانستان کے باڈر کے قریب ایک دھماکہ ہوا۔ میں گھبرا کر ایک دم کھڑا ہوا۔
اور ان میں کسی نے تاک کر گولی ماری۔ اور جم گواہ ہو گا قیامت کے دن۔ میں نے اسے زخمی نہیں کیا اور انہوں نے میری پورے قبیلے کو بھون ڈالا۔ یہ انصاف نہیں۔ اوہو۔ موم بتی تمام ہوئی۔
جم! دیکھا میری دعا کا کرشمہ۔ اب میں اپنے سکون کے لیے بھی وہی دعا پڑھوں گا۔ جم کے ساتھ وہ بھی ایک پتھر پر سر رکھ کر نیم دراز ہو گیا۔
’’اے کائنات کے رب! میری بیوی بچے کہیں بھی ہوں انہیں موت اور شہادت کے آغوش میں لے لے۔ انہیں ہر استحصال سے بچا، اور میرا ہر گناہ معاف… گرینیڈ پھینکنے کا بھی… وہ ایک اضطراری عمل تھا۔ اورفساد فی الارض کرنے والوں کو ہلاکت میں ڈال۔ یہ میری آخری دعا ہے۔ اور وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو کہتا ہے، ہو جا ’’کن‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے پس تعریف ہے اس کی جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف سب لوٹائے جائیں گے۔ ‘‘
’’سورہ یٰسین آخری آیت، ‘‘
تین دنوں بعد جب بارش ہوئی اور برف صاف ہوئی تو حاجی گل کچھ دوستوں کے ساتھ حسنین افغانی کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچے۔ تینوں نے مل کر پتھر کو دھکا دیا… وہ دم بخود رہ گئے۔ دو زخمی لاشیں … ایک افغانی… اور ایک انگریز۔ برطانوی فوجی… اس کا اکلوتا ہاتھ حسنین کے ہاتھوں میں اور حسنین کے سینے پہ تھا۔ جس کے چہرے پہ ملکوتی حسن وسکون تھا، شفقت تھی۔ ڈائری اور قلم موم بتی کے قریب رکھے تھے۔ اور موم بتی پگھل کر تمام ہو چکی تھی۔ آگ را کھ تھی۔ وہ روتے رہے … روتے رہے … شاید ابھی گردش زمانہ ہمیں بہت رلائے گی۔
داغ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی
ایک شمع رہ گئی تھی، سو وہ بھی خموش تھی
٭٭٭
صحرا میں نہیں رہنا —تبسم فاطمہ
وہ سامنے کھڑا ہے لیکن اسے نظریں ملاتے ہوئے بھی پریشانی ہو رہی ہے۔ کھلی کھڑکی سے دھوپ کی شعاعیں اندر تک آ رہی ہیں۔ وہ ایک ٹک باہر کے مناظر میں الجھا رہا۔ لیکن میں جانتی تھی، اس کی آنکھیں کچھ بھی نہیں دیکھ رہی ہوں گی۔ ممکن ہے، اس کے وجود میں ایک آندھی چل رہی ہو۔ مرد کے وجود میں اکثر مرد ہونے کی آندھی چلتی ہے۔ اور خاص کر ایسے موقعوں پر جب اسے احساس ہو کہ اس کی مردانگی کو کسی حد تک کچل دیا گیا ہو۔ اور یہ بھی احساس ہو کہ کچلنے کی کوشش اس ذات کے ذریعہ کی گئی ہو، جس سے کبھی اس قسم کی کوئی توقع اس نے نہیں رکھی ہو۔ وہ اب بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جیسے کسی فیصلے پر پہنچنے کا خواہشمند ہو۔ اچانک وہ پلٹا اور میری طرف دیکھا۔
’تم نہیں جانتی، زندگی کتنی مشکل ہے۔ ‘
’میں اسے آسان بنانا بھی جانتی ہوں۔ ‘
’اوہ۔ ‘ اس نے زیر لب مسکرانے کی کوشش کی—’ نہیں تم نہیں جانتی۔ تم سب کچھ کھیل سمجھ رہی ہو۔ یہ زندگی اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ راستے میں بہت کانٹے ہیں۔ ‘
’مجھے کانٹوں سے کھیلنا پسند ہے۔ میں دوبارہ مسکرائی۔ بچپن میں بھی یہی کرتی تھی۔ ‘
’تو تم نے فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘ اس بار اس کی آواز کمزور تھی… آزاد ہونا ایک احساس ہے۔ فیصلہ نہیں۔ ‘
’اوہ…‘ وہ بہت آہستہ سے بولا۔ مگر اس بار وہ ٹھہرا نہیں۔ دیکھتے دیکھتے وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
اب میں کمرے میں اکیلی تھی۔ اور یہ لمحہ ایسا تھا جب میں گنگنا سکتی تھی۔ رقص کر سکتی تھی۔ باہر دھوپ چھٹکی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے کچھ فاصلے پر سرو قد درختوں کی قطار تھی۔ ان درختوں پر بہار آئی ہوئی تھی۔ اس سے قبل کبھی میں نے قدرت کے لازوال حسن کو اس طرح آنکھوں میں بسا کر نہیں دیکھا تھا، قدرت آزاد ہے۔ اور میں بھی۔ میں یہ سوچنے سے قاصر تھی کہ انسان اپنے لیے ایک گھٹن بھرا پنجرہ لے کر کیوں آتا ہے ؟ یہ کیسی آزادی ہے کہ ساری زندگی ایک چہار دیواری کے اندر ایک ایسے آدمی کے ساتھ بسرکی جائے جس سے نہ خیال ملتے ہوں، نہ معیار۔ اور وہ ہر وقت ساتھ میں پنجرہ لیے گھومتا رہتا ہو… زیادہ اڑان مت بھرو۔ پنجرے میں آ جاؤ۔ یہ ٹی وی دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ میرے دوست آنے والے ہیں۔ چلو پنجرہ سنبھالو۔ تم جاب کرو گی؟ نہیں تم پنجرے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہو۔
میں نے کئی بار پنجرہ توڑنا چاہا۔ لیکن پھر خود کو سمجھایا۔ ابھی کھیل دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی تماشہ بھی دیکھنا چاہئے۔ اور سب سے زیادہ مزہ تو اس بات میں ہے کہ خود کو خاموشی سے تماشہ بناؤ۔ پھر سامنے والا اپنی اصلیت، اپنی اوقات میں آ جاتا ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ پتھر سے زیادہ سخت الفاظ ہوتے ہیں۔ اور مرد، عورت کے لیے ساری زندگی پتھر اکٹھا کرتا رہتا ہے۔ اور پھر ایک ایک کر کے صحیح وقت کے انتظار میں یہ پتھر اس کی طرف اچھالتا جاتا ہے۔ مگر اس کی بد قسمتی تھی کہ میں ان عورتوں سے الگ تھی۔ وہ عورتیں جو باہر کی میز پر، یا فیس بک پر باتیں کرتے ہوئے عالمانہ انداز اختیار کر جاتی تھیں۔ مگر گھر کی سطح پر ان کے اندر ایک ڈرپوک عورت موجود ہوتی تھی۔ ایک ایسی عورت، جس کے سامنے مرد پنجرہ لیے کھڑا رہتا تھا۔ میں سوچتی تھی کیا یہ خودکشی نہیں ہے ؟ اپنے لیے ایک ایسے قید خانے کا انتخاب کرنا، جہاں مہذب دنیا سے کوئی روشنی نہیں آتی۔ مرد اکیلا اس روشنی کا حقدار ہوتا ہے۔ اور وہ بڑی محنت سے عورت کو اس قید خانے کا قیدی بنا لیتا ہے۔ اور سمجھدار تعلیم یافتہ عورتیں بھی ہنستے ہنستے اس خودکشی نما موت کو گلے سے لگا لیتی ہیں۔ فیس بک کی بڑی سی دنیا میں صالحہ ملی تھی۔ انقلابی نظمیں لکھنے والی۔ لیکن وہ اپنے پروفائل میں اپنی تصویر لگاتے ہوئے خوف محسوس کرتی تھی۔ میں نے پوچھا تو سہم گئی۔
’تصویر نہیں دے سکتی۔ ‘
’لیکن کیوں ؟‘
’میری شادی ہو رہی ہے۔ ‘
’مبارکباد، تم نے لڑکے کو دیکھا ہو گا؟‘
’نہیں۔ ‘
’کیوں۔ ‘
صالحہ نے بتایا… یہ زندگی اس کی ہے ہی نہیں۔ دوسروں کے اشاروں پر چلنا ہی ہماری تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔
’پھر جو تم لکھتی ہو اس سے فائدہ۔ ؟‘
’فائدہ ہے نا… کچھ دیر کے لیے اس عورت کو زندہ کر لینا، جس کے بارے میں جانتی ہوں کہ کچھ دنوں بعد ہی اس عورت کی ہر خواہش کا گلہ گھونٹ دیا جائے گی۔ وہ زندہ رہے گی مگر موت سے بدتر۔ ‘
پہلی بار صالحہ پر غصہ آیا تھا۔ یہ کیسی زندگی ہے۔ کیا میں ایسی زندگی کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔ کیا دنیا کے تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ فیس بک پر ہی پاکستان کی ملیحہ ٹکرائی تھی۔ کہانیاں لکھتی تھی۔ ایک شوہر تھا۔ دو پیارے بچے۔ مگر اپنی بغاوت کی آنچ میں اندر اندر ہی سلگتی یا مرتی تھی، نہ صالحہ کے پاس زندہ رہنے کا کوئی جواز تھا اور نہ ملیحہ کے پاس۔ جو بھی ملتا وہ ایک نقلی چہرے یا ماسک کے ساتھ۔ مجھے یہ ماسک قبول نہیں تھا۔ میں اس نقلی چہرے کے ساتھ ایک پوری زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ اور اس لیے میں آزادی کی بات کرتی تھی ملیحہ اور صالحہ کو حیرت ہوتی تھی۔ آزادی ہم عورتوں کے پاس ہے کہاں ؟
میں ان باتوں کو نہیں مانتی تھی۔ مجھے حبس بھرے ماحول یا گھٹن بھری زندگی کا غلام بننا منظور نہیں تھا۔ میں جھوٹی اور نقلی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی گزارنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے شادی کے بعد بھی میں نے اپنی آزادی میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ اور میں جانتی تھی، میری آزادی کی روشنی کے درمیان وہ پہلے دن سے سلگتا رہا ہے۔ یہ شادی لو میرج نہیں تھی۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ شادی سے پہلے تک کوئی ایسا لڑکا سامنے نہیں آیا جو میرے مزاج و معیار کے مطابق ہو۔ اس لیے جب شادی کی باتیں زیادہ طول کھینچنے لگیں تو میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
’جہاں مرضی۔ کر دیجئے۔ وہ میرے ساتھ جی سکے گا تو یہ اس کی خوش نصیبی ہو گی۔ ‘
اماں میرے ان تیوروں سے واقف تھیں۔ وہ اکثر میری باتوں پر خاموش رہنا ہی پسند کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ خاموش طبیعت واقع ہوئی تھیں۔ میں ایک این جی او سے وابستہ تھی اور کاشف بینک میں اعلی عہدے پر تھے۔ کچھ ہی دن میں وہ میرے مزاج سے واقف ہو گئے۔ جبکہ شروعات میں انہوں نے دباؤ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن جلد ہی کاشف کو اس بات کا احساس ہو گیا، یہ لڑکی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ بھڑ کے چھٹے میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔
مجھے اس بات کا احساس تھا کہ بینک کے حساب کتاب میں الجھے اس شخص کے ساتھ میری شادی نہیں سمجھوتہ ہوا ہے۔ وہ بہار کے رہنے والے تھے۔ لیکن نوکری دلی کی تھی۔ ساؤتھ ایکس میں ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ مجھے اکثر اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ دو غلط لوگوں کو ایک گھر میں اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ اور ان دو لوگوں کے درمیان مزاج و معیار کی ایک دیوار حائل ہے، اس دیوار کو توڑا نہیں جا سکتا۔ میں مزاجاً صفائی پسند تھی اور اس کی طبیعت میں بکھراؤ۔ اسے کافی پسند تھی۔ مجھے چائے اچھی لگتی تھی۔ وہ پیور ویجیٹیرین تھا۔ مجھے نان ویج کے بغیر کھانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ دقیانوسی واقعہ ہوا تھا اور مجھے جبراً برداشت کر رہا تھا۔ میں آزاد تھی اور اپنی آزادی کے لیے کبھی ہار مونیم کبھی کتابوں کا سہارا لیتی۔ اس کے مزاج میں رومانیت یا موسیقی کو قطعی دخل نہیں تھا۔ میں اکثر سوچتی تھی۔ میں ساتھ کیوں ہوں۔ پھر خیال آتا کہ چلو… میں آزاد تو ہوں۔ میں نے دوسروں کی طرح مرد ذات کی بندشوں اور غلامی کی فضا میں سانس نہیں لے سکتی۔ اور یہ بات وہ بھی محسوس کر رہا تھا۔ بلکہ پہلے دن سے ہی محسوس کرنے لگا تھا— میں اچانک محسوس کرنے لگی تھی کہ اس میں تبدیلی آ رہی ہے۔ جیسے اس دن ہارمونیم کی آواز پر وہ سہما سا کمرے میں آیا اور اس نے بتایا۔
’تم واقعی اچھا بجا لیتی ہو۔ ‘
ایک دن اس نے میرے بنائے ہوئے نان ویج کی بھی تعریف کی۔ اور اس نے بتایا…
’کالج کے دنوں میں ایک بار اس نے قربانی ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اس کے بعد اس نے نان ویج سے توبہ کر لی۔ ‘
ایک بار تو حد ہو گئی۔ جب اس نے سرہانے سے میری کتاب اٹھا لی۔ کیا پڑھ رہی ہو… یہ قرۃ العین حیدر کا ناول چاندنی بیگم تھا۔ اس نے دو ایک صفحہ کی ورق گردانی کی۔ پھر آہستہ سے بولا۔
’میں نے نام سنا ہے۔ شاید انہیں گیان پیٹھ بھی ملا ہے۔ ‘
میں پوری طاقت سے مسکرائی تھی۔ پھر میں نے اس کی طرف دیکھا…
’کاشف۔ کیا تم بدل رہے ہو؟
’نہیں۔ ‘
’کیا تمہاری زندگی میں کوئی لڑکی آ گئی ہے …‘
’نہیں۔ ‘
’آ گئی ہے تو کوئی مصیبت نہیں ہے۔ انجوائے کرو۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں …‘
میری آنکھیں اس کے چہرے پر جی ہوئی تھیں۔ وہ کھڑکی کی طرف دیکھ رہا ہے۔
’مان لو… کوئی آ جاتا ہے … تو؟‘
’تو کیا… تمہاری زندگی ہے۔ اپنی زندگی پر اتنا بوجھ کیوں رکھتے ہو؟‘
’تم ایکسیپٹ کر لو گی؟‘
’کسی کو یہ سوچ کر چاہو گے کہ میں ایکسیپٹ کروں گی یا نہیں ؟‘
وہ دوسری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ آہستہ سے بولا… ’نہیں کوئی نہیں ہے …‘ مگر میں اسے منتشر دیکھ رہی تھی۔ جسے اس نے ہارمونیم تھام لیا… موسیقی کی بھدی تان گونجی تو اس نے ہارمونیم کنارے رکھ دیا… پھر تکیہ پر سر رکھ دیا۔
’کبھی کبھی کچھ زیادہ طلب ہوتی ہے …‘
’سیکس کی؟‘
’ہاں۔ ‘
مجھے اس پر رحم آ رہا تھا۔ ’یہ طلب تو فطری ہے۔ ‘
وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ طلب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مجھے ہر جگہ عورت نظر آتی ہے … جیسے یہ کتاب… چاندنی بیگم… اور وہ ہارمونیم۔ ایک لمحہ کے لیے لگا کہ وہ ہار مونیم نہیں عورت ہے … عورت کا بدن…‘
حقیقت یہ ہے کہ پہلی بار مجھے اس پر رحم آیا تھا۔ وہ مجھے کسی معصوم بلی کی طرح نظر آ رہا تھا۔ جو طلب نہیں، کسی شہنشاہ کے سامنے ایک معمولی سی فریاد لے کر کھڑا ہو… نظر جھکائے۔ مگر میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہ دبو کس لڑکی کے پیار میں الجھ گیا ہے اور ممکن ہے اقرار کے لیے ایک شوہر ہونے کا احساس اس کے وجود پر حاوی ہو۔ یا ہو سکتا ہے، اس کے اندر ہمت کی کمی ہو۔ لیکن سچ یہ تھا کہ کاشف میں تبدیلی آ رہی تھی۔ اور یہ طلب اچانک اس رات ایک دھماکہ کر گئی تھی۔ جب ہلتے ہوئے بستر کے ساتھ میں نے اچانک لائٹ آن کر دیا تھا۔ میں نے اسے گھبراتے ہوئے دیکھا۔ وہ پائجامہ سمیٹ رہا تھا۔ میں زور سے چیخی۔
’تم بھیگے ہوئے ہو…‘
اس میں نظر ملانے کی ہمت نہیں تھی۔
’تم بھیگے ہوئے ہو… اورسچ یہ ہے کہ یہ میں نہیں تھی۔ ‘
’ہاں۔ ‘ وہ ابھی بھی چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایک ایسے چور کی طرح، جس کی چوری اچانک پکڑ لی گئی ہو…
’تو یہ ہے تمہاری طلب؟‘
’وہ خاموش تھا۔ ‘
’کیا تم جرم محسوس کر رہے ہو؟‘
’پتہ نہیں۔ ‘
’نہیں معلوم کرو۔ اگر جرم محسوس کر رہے ہو تو کیوں ؟ کوئی کام جرم کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ ‘
اس بار اس نے وحشت بھری نظروں کے ساتھ میری طرف دیکھا میری آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھی۔ مردوں کے قانون میں یہ کیسے جائز ہے کہ کسی کے ساتھ بھی—؟ اس کے اجازت کے بغیر بھی—؟ مان لو۔ یہ وہی لڑکی ہے، جس سے تم ملتے ہو۔ اگر تم اس کو پروپوز کرتے تو کیا وہ تمہاری بات مان لیتی…؟‘
’نہیں۔ ‘ وہ آہستہ سے بولا… ’پتہ نہیں۔ ‘
’تم لوگ کتنی آسانی سے یہ جرم کر لیتے ہو۔ اور کرتے چلے جاتے ہو۔ یہ محض بھیگنا نہیں ہے۔ ایک ان دیکھے تصور کا بلاتکار ہے۔ ‘
میں دیر تک بولتی رہی۔ اس درمیان اتنا ہوا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور اٹھ کر باتھ روم کا دروازہ بند کر لیا۔ میں نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ اس وقت دماغ میں آندھی چل رہی تھی۔ میں جانتی تھی کہ کسی بھی مرد کے لیے یہ ایک معمولی سی بات تھی۔ پان کھایا، پیک تھوک دیا۔ اس واقعہ میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ مجھے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں تیز رفتار دنیا کے جغرافیہ اور ترقی سے واقف نہیں تھی۔ یہاں کیا نہیں ہوتا۔ لیکن کاشف ایک ایسا مرد تھا، جس کے ساتھ میں ساؤتھ ایکس کے اس فلیٹ میں رہ رہی تھی۔ یہ لیو ان ریلیشن شپ نہیں تھا۔ باقاعدہ شادی ہوئی تھی۔ یہ شادی سمجھوتہ سہی، مگر اس رات، اس کے بھیگنے تک کے عمل میں ایک عورت اس کے ساتھ تھی۔ اور وہ ہر رنگ میں اس کے ساتھ تھی۔
ایک لمحہ کے لیے احساس ہوا، میں قطرہ نما کمرے میں ہوں۔ چاروں طرف قطرے ہی قطرے … پانی کی بوندیں … ان پانی کی بوندوں کے درمیان میں ہوں … قطروں سے ایک عجیب سی آواز پیدا ہو رہی ہے۔ ان آوازوں میں عجیب سی سسکیاں ہیں۔ اور یہ قطرے ٹھہرے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ متواتر ہل رہے ہیں … ان قطروں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا ہے … میں تیز بدبو محسوس کر رہی ہوں …
میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر تیز آواز میں چیختی ہوں …آنکھیں کھل گئی ہیں … سامنے والی دیوار میں کائی جم گئی ہے۔ کچھ دھبے سے ابھرے ہیں۔ اندر سے آواز آتی ہے … تم پاگل ہو گئی ہو۔ کیا انسانی نفسیات کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے، جو کاشف نے کیا ہے — تم اس دنیا میں ہو، جہاں مرد عورتوں میں ناجائز رشتوں کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ اور آج کے گھٹن آلودہ معاشرے میں ایسے رشتہ مسلسل ایک نئی تاریخ بنا رہے ہیں۔ اور پھر زمانہ تو اس سے بھی برا ہے۔ مرد، مردوں سے، اور عورت، عورت سے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ اور کاشف نے کیا ہی کیا ہے ؟
میں اتنی خوفزدہ کیوں ہوں … اتنی پاگل کیوں ہو گئی ہوں … میں تو آزادی کی بات کرتی تھی۔ کیا میں اس کی آزادی پر پہرہ بٹھا رہی ہوں۔ ؟
ایک لق و دق صحرا ہے میں بھاگ رہی ہوں … مجھے اس صحرا میں نہیں رہنا… نہیں جینا مجھے۔ پر شور ہوا کی موسیقی گونج رہی ہے۔ صحرا سائیں سائیں کر رہا ہے۔ میں حواس باختہ بھاگ رہی ہوں … مگر میں کس سے بھاگ رہی ہوں۔ خود سے —؟ انسانی نفسیات سے —؟ یا پھر اس الجھے الجھے رشتہ سے —؟ جس کی ایک کڑی میں ہوں۔
دھوپ چھجے تک آ گئی ہے … وہ دیوار کا سہارا لیے کھڑا ہے۔ میری آنکھیں خلا میں دیکھ رہی ہیں …
کیا یہ قدرتی ہے … نیچرل ہے …؟
ہاں …
کیا تم ایسا پہلے بھی کرتے رہے ہو…؟
ہاں …
کسی ایک کے ساتھ…؟ ہوا کے جھونکے اچانک سرد ہو گئے ہیں۔ میں دانتوں کو بجتے ہوئے محسوس کر رہی ہوں …
نہیں۔
یعنی بہت سی عورتیں …
ہاں۔ وہ اچانک میری طرح مڑا۔ اس کا چہرہ سرخ ہے۔ جبڑے بھنچ گئے ہیں۔ وہ زور سے چیخا… بند کرو بکواس… اسے جملے نہیں مل رہے ہیں … یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے … میں کوئی پہلا مرد نہیں ہوں …‘
’لیکن یہ مرد میرے ساتھ رہتا ہے۔ اور اپنی تھکن میں غیر عورتوں کو شامل کرتا رہتا ہے۔ کیا تم اس کے بعد بھی چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ رہوں …؟ کیا یہ سچ مچ قدرتی ہے …؟ یہ قدرتی ہونے کا فسانہ بنا لیا ہے تم لوگوں نے —؟ اپنی تسلی کر لی ہے۔
’تمہاری مرضی، تمہیں جو سوچنا ہے سوچو… ہم شاید ایک بیکار کی بات کو طول دے رہے ہیں۔ تم شاید میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ ‘
چھجے سے دھوپ غائب ہے۔ اب خالی چھت رہ گئی ہے … دھوپ کی جگہ بادلوں نے لے لی ہے … اب بادل بھی نہیں ہیں … وہی بہت سے قطرے۔ قطرے در قطرے … میں ایک بار پھر ان قطروں کی گرفت میں ہوں۔ میرا جسم ہلکا لگ رہا ہے … سیڑھیوں سے نیچے اتری تو اچانک چونک گئی۔ کوئی ہارمونیم بجا رہا تھا۔ لیکن ہارمونیم سے بے سری موسیقی کی طرح خوبصورت نغمے گونجتے ہوئے محسوس ہوئے۔
میں کمرے میں آئی تو اچانک چونک گئی۔ وہ بستر پر تکیے کے سہارے لیٹا ہاتھوں میں ہارمونیم لیے تھا۔ چاندنی بیگم کی کتاب اس کے پاس پڑی تھی۔ اور وہ آنکھیں بند کیے ہارمونیم بجانے میں مصروف تھا…
٭٭٭
پنجرے میں قید نیند — نورین علی حق
کافی کوششوں کے باوجود مجھے نیند نہیں آئی۔
نصف شب گزر چکی ہے۔ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کمروں میں سو رہے ہیں۔ آباء و اجداد کی پیروی میں ہم آج بھی عشاء کے بعد عشائیہ کرتے ہیں اس کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کے ہو جاتے ہیں۔
رات کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، شاید میری نینداس کے اعداد و شمار پر مامور کر دی گئی ہے، بستر پر کروٹیں بدل بدل کر تھک چکا ہوں، چاہتا ہوں کہ اٹھ کر بجلی جلادوں۔ مگر ایسا کرنا اخلاقی تقاضے کے خلاف ہے۔ میرے بازو میں لیٹی ہوئی یہ عورت، جس کے منہ سے خراٹوں کی نکلتی ہوئی آوازیں، اس وقت مجھ پر خاصی ناگوار گزر رہی ہیں۔ وہ دن دن بھر میرے اور میرے بچوں کے کام کرتے ہوئے تھک جاتی ہے اور بستر پر آ کر نڈھال پڑ جاتی ہے۔ عرصے تک مجھے اس کی تھکن کا احساس ہی نہیں ہوا۔ بس اس کی ہڈیاں نچوڑنا اور پسلیاں توڑنا ہی میرا محبوب مشغلہ تھا۔ ان دنوں میرے رویوں میں تبدیلی آتی جا رہی ہے یا شاید میں اس سے اکتا چکا ہوں یا میری جسمانی و نفسانی خواہشات دم توڑ رہی ہیں۔
اس کے خراٹے مسلسل جاری ہیں۔ وہ نیند کی وادی میں سیر کر رہی ہے اور میں گم گشتۂ راہ اونٹ کی طرح سخت ترین اندھیری رات میں صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔ کالی، سیاہ ترین رات میں عجیب و غریب خوف ناک اور دل کو دہلا دینے والی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ میں ان آوازوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ بھاگنا چاہتا ہوں، دور بہت دور بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ میں نے جو آوازیں برسوں کے طویل عرصے میں وقفے وقفے سے سنی ہیں، وہ آپس میں خلط ملط ہو رہی ہیں۔ مخلوط آوازیں کسی سیال کی طرح میرے کانوں کے اندر پہنچ کر مجھے ناقابل برداشت حد تک تکلیف پہنچا رہی ہیں۔ میرا جسم پسینے سے شرابور ہو رہا ہے، میں نے خوف کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دی ہیں، اندھیرے کمرے میں ہر طرف سیاہ سایے منڈلا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں۔ طرح طرح کی ڈراونی آوازیں نکال رہے ہیں۔ میں انہیں تاریکی میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ وہ میری طرف لپک رہے ہیں۔ ان کے بڑھے ہوئے ناخن، منہ سے باہر کو لٹکتی زبانیں، چوکور، سہ کور اور نہ جانے کن کن انداز کے ان کے چہرے، مجھے ڈرا رہے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھیں بھینچ لی ہیں۔ آنکھیں بند کر کے چادر میں منہ چھپا لینے کے بعد ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی آوازیں زیادہ کرخت، زیادہ دردناک، کچھ زیادہ ہی ڈراؤنی ہوتی جا رہی ہیں۔ میں اپنے بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ گویا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر آفت سے بچنا چاہتا ہوں۔ نیند کی دیوی مجھ سے ناراض ہے، میں اس کی منتیں اور سماجتیں کر رہا ہوں۔ دل کیا تھاہ گہرائیوں سے اسے پکار رہا ہوں۔ میرے پاس اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ وہ غائب ہے یا شاید ان سایوں نے اسے اغوا کر لیا ہے۔
میں ان آوازوں کو سن کر انہیں سمجھنا چاہتا ہوں۔ بند کمرے میں ان کے داخل ہونے کا راستہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں پریشان ہوں۔ آوازیں پوری طرح سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں۔ بستر کے اندر پڑے پڑے حبس کا احساس ہو رہا ہے۔ زبان خشک ہو کرتا لو سے چپک گئی ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں، بول نہیں پا رہا ہوں۔ میری بیوی سورہی ہے۔ میں اسے جگانا چاہتا ہوں مگر وہ مجھے نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر طرف سایے ہی سایے منڈلا رہے ہیں۔ دیواروں پر، روشن دانوں پر، کمرے کی کھڑکیوں پر، چھت کی دیواروں سے بھی چپکے ہوئے ہیں، کبھی ہنس رہے ہیں، کبھی رو رہے ہیں۔ ان کی ہنسی اور رونے کے درمیان میری بیوی کے خراٹے سخت ترین اندھیری رات میں ہونے والی موسلادھار بارش کے درمیان گرجنے والی بجلی کا کام کر رہے ہیں۔
میں اپنے دونوں ہاتھوں کو ادھر ادھر مار رہا ہوں۔ دونوں پیروں کو پٹک رہا ہوں۔ کانوں کے پردوں کو پھاڑ دینے کی حد تک آوازیں بلند اور صاف ہو گئی ہیں البتہ ان آوازوں کے جنگل میں چند ہی آوازوں کو میں سمجھ پا رہا ہوں۔ انتقام۔ انتقام۔ انتقام۔
ہر طرف سایے ہی سایے ہیں، ہر سایے کو مجھ سے شکایت ہے۔ وہ مجھ سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ سایے میرے ذریعہ کی گئی نا انصافیوں کو چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں۔ ڈراؤنی آوازوں کے ساتھ میری طرف لپک رہے ہیں۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’ہاتھ، پیر کیوں چلا رہے ہو؟‘‘
میری بیوی جاگ چکی ہے، حیرت زدہ مجھے دیکھ رہی ہے، اٹھ کر بیٹھتے ہی اس نے اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں میرے چہرے کو ڈال لیا، کبھی بغور دیکھ رہی ہے۔ کبھی اپنے نرم ملائم ہاتھوں سے میرا پسینہ پوچھ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے ترحم کا دریا موجزن ہے۔ اس کے آنسو باہر نکلنے سے پہلے ہی میں بول پڑا ہوں۔
’’کچھ نہیں ہوا۔ ‘‘
’’کیسے کچھ نہیں ہوا۔ خواب دیکھ رہے تھے ؟‘‘
’’ نہیں بابا۔ ‘‘ کچھ سوچتے ہوئے میں نے جواب۔
’’تو پھر نیند میں ڈر گئے ؟‘‘
میں خاموش ہوں۔ مجھ میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ رویہ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ اس کے جاگنے سے تھوڑی ڈھارس تو بندھی ہے، مگر اس کے پھر سے سوجانے کے بعد کے خطرات میرے ذہن پر منڈلا رہے ہیں، وہ میرے بدبو دار پسینے کو اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے خشک کر رہی ہے۔ اضطراری کیفیت میں ہے۔ ہر طرف اپنے ہاتھ پھیرتی جا رہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کے ڈوپٹے کا پلو ہے، جس سے وہ اپنے سر، بال، کاندھوں اور ہاتھوں کو ڈھک کر اکثر اپنی عبادتوں میں مصروف رہتی ہے۔ اس کا ڈوپٹہ میرے بدبو دار پسینے سے اٹ گیا ہے۔ میرے بدبو دار جسم کے بدبو دار پسینے سے تر اپنے ڈوپٹے کے پلو کو وہ اپنے داہنے ہاتھ میں لیے رونی سی آواز میں کہہ رہی ہے۔
’’آخر کیا ہو گیا تمہیں۔ اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو؟‘‘
’’نہیں، نہیں۔ ۔ ‘‘
میری آواز مجھے بہت دور سے آتی محسوس ہو رہی ہے جنگل کے درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان سے یا دور پانی کی لہروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ بیوی کے جگنے کے بعد خوف ناک سایے میرے ارد گرد خاموش کھڑے ایک دوسرے کو کچھ اشارے کر رہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں، میری کیفیت دِگرگوں ہے۔ بیوی کی موجودگی کی وجہ سے مجھ میں تھوڑی ہمت تو ہے مگر وہ میری آنکھوں سے دور نہیں ہو رہے ہیں۔ بیوی بستر سے اٹھ چکی ہے۔ بجلی کے کھٹکوں کے بورڈ کی طرف بڑھ رہی ہے، شاید بجلی جلا کر مجھے دیکھنا چاہتی ہے۔ میری حالت کا اندازہ لگانا چاہتی ہے۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ میرے اندر ایک بار پھر سراسیمگی پھیلتی جا رہی ہے۔ خاموش سایے میرے قریب آتے جا رہے ہیں۔ کالے، سخت سیاہ سایے میرے جانے پہچانے چہروں میں تبدیل ہو رہے ہیں، ان کے چہروں کے تاثرات بھی بدل رہے ہیں۔ ایک منظر آتا ہے۔ پھر غائب ہو جاتا ہے۔ دوسرا منظر آتا ہے پھر وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ کبھی انسان کبھی سایہ کبھی چہرہ کبھی سیاہی۔ میں سوچ رہا ہوں یہ کون سا منظر ہے، یہ کون سا عالم ہے، ماضی کے دریچے وا ہونا چاہتے ہیں اور میں ماضی کو بالکل نہیں دیکھنا چاہتا۔
بیوی نے زیرو پاو رکا بلب آن کر دیا ہے۔ بلب کی مدھم روشنی میں مجھے دیکھ رہی ہے اور میں اس کے ساتھ تمام سایوں کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ دائیں بائیں، اوپر نیچے۔ آگے، پیچھے، ہر طرف سایے ہیں، وہ بلب آن ہوتے ہی اپنے وجود میں سمٹتے جا رہے ہیں، ان کے دیو ہیکل اجسام چھوٹے ہو رہے ہیں، چھوٹا ہوتے ہوتے نقطوں اور چھوٹے چھوٹے ذروں میں تبدیل ہو کر خلا میں گھوم رہے ہیں۔ میری بیوی مجھے غور سے دیکھ رہی ہے۔ ایک آندھی چلی ہے۔ گردو غبار سے میرا بستر اور خود میں اٹ گیا ہوں۔ دیو ہیکل اجسام سے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہونے والے سایے ناک، کان اور آنکھوں کے ذریعہ میرے پھیپھڑوں اور نہ جانے کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ زور سے اپنے چہرے پر رکھ لیے ہیں۔ ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں کو بند کر رہا ہوں اور سایے کسی نہ کسی سوراخ سے میرے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ سایوں کا تانڈو کچھ کم ہو گیا ہے۔ پریشان سی بیوی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی ہے۔
’’تمہارا چہرہ سرخ ہو رہا ہے، بہت زیادہ ڈر گئے ہو۔ کیا پتہ خواب میں کیا دیکھا۔ اب بتاؤ گے بھی نہیں۔ چلو کوئی نہیں۔ ‘‘
وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی ہے، اس کا غم اس کی مسکراہٹ پر غالب ہے۔ میں بھی مسکرانے کی اداکاری کر رہا ہوں۔ اس نے میرے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیا ہے۔ میرے چہرے پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر رہی ہے۔ میں نے کوئی رد عمل نہیں کیا۔ بس خالی خالی نگاہوں سے کبھی اسے اور کبھی چھت کو گھورتا رہا، وہ میری ناک، تھوڑی، ہونٹوں، کانوں کی لوؤں اور میرے رخساروں سے کھیلتی رہی۔ میرے چہرے پر ذرا شادابی لوٹی تو اس نے میرے سر کو دبانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگی۔ کافی دیر تک میرے سر کو دبانے کے بعد اس نے اپنے ایک پیر کو سیدھا کر لیا۔ پھر تھوڑی دیر تک مجھے دیکھتی رہی۔ شاید میری حالت کا اندازہ لگا رہی ہے۔ میرے اندر کی گھٹن اور چہرے سے خوف کے آثار کم ہونے لگے ہیں۔ میرا چہرہ پرسکون نظر آ رہا ہے۔ مجھے غنودگی آ رہی ہے۔ بہت سنبھل کراس نے میرے سر کو تکئے پر رکھ دیا۔ شاید اسے بھی نیند آ رہی ہے۔ اس کے باوجود میری دل بستگی کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ یا یوں کہیے کہ اپنے فرائض ادا کر رہی ہے، جس کی تعلیم اسے ماں کی گود سے ملنی شروع ہو گئی تھی۔ تکئے پر سرجاتے ہی میں چونک گیا ہوں۔ اس نے جلدی میں اپنے دونوں پیر سیدھے کیے۔ اس کے پیر میرے پیٹ اور رانوں سے مس کرتے ہوئے نیچے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ اپنے پیروں کے ناخنوں سے میرے پیروں کو کھرچ رہی ہے۔ ہم دائیں کروٹ لیٹے ہوئے ہیں۔ درمیان میں فاصلہ نہیں ہے۔ اس کا بایاں ہاتھ میری پشت پر ہے۔ ذرا دیر اس نے اپنے ہاتھ سے میری پیٹھ سہلائی پھر اس کا ہاتھ میرے سر کے پچھلے حصہ سے جا لگا اور کہنی میری پیٹھ پر ٹکی رہی۔ میری سانسیں اس کی سانسوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ اس نے میرے بائیں رخسار پر اپنا داہنا رخسار رکھ کر چادر تان لی۔ ہم دونوں چادر کے اندر ہیں۔
’’ اب کیسا لگ رہا ہے ؟ ٹھیک ہو؟”
’’ہوں۔ ۔ ۔ ٹھیک ہوں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’پھر آواز اتنی غم زدہ کیوں ہے ؟ ‘‘
اس نے میرے رخسار سے اپنا چہرہ ہٹا لیا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا رہی ہے۔ اپنی ناک میری ناک سے ٹکرا رہی ہے۔
’’آج کتنے اچھے لگ رہے ہو، ہمیشہ اسی طرح معصوم اور شریف بن کر رہا کرو۔ عرصے بعد رات کو بھی تم انسان ہو۔ ‘‘
اس کے گرم گرم بوسے، سے میرے دل کی دنیا بدل رہی ہے۔ کوئی اور رات ہوتی تو اس کے اظہار محبت کا جواب اس سے زیادہ ٹوٹ کر میں دیتا۔
’’تمہیں یاد ہے نینی تال کی وہ رات، تم نے مجھے کتنا پریشان کیا تھا، ساری رات جگانے کے باوجود صبح ہی صبح اٹھ کر تیار ہو گئے تھے ‘‘۔
میں نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجالی اور آنکھوں سے اس کے سوال کا جواب دیا۔ وہ بھی مسکرارتی رہی، اس نے اپنے رخسار کو ایک بار پھر میرے رخسار پر رکھ دیا اور شرماتی ہوئی ناز و ادا کے ساتھ میرے کان میں کہا ’’ بہت اچھے ہو تم۔ ‘‘
جواباً مسکراتے ہوئے میں نے اس کے رخسار کا بوسہ لیا اور چہرے کو اپنی جگہ لے آیا۔ اپنا اوراس کا ماضی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کے جذبات، محبت، جاں نثاری کی حد تک عشق کا غلبہ، گھریلو ذمہ داریوں کی خوش اسلوبی کے ساتھ ادائیگی، میری چھوٹی بڑی خواہشات اور ضروریات کا خیال رکھنا وہ اب تک اپنے ضروری کاموں سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
وہ اپنی رومیں بولتی جا رہی ہے۔ نینی تال کے ہوٹل، ہوٹل کا کھانا، ناشتہ، وہاں کی جھیلیں، کھائیاں، جنگلات سب اس کے ذہن پر نقش ہیں۔
’’کتنا مزہ آیا تھا۔ وہاں بوٹ میں گھومنے میں، دور تک پانی ہی پانی، تا حد نظر پہاڑوں کا سلسلہ، جھیل کے کنارے کنارے اور پہاڑوں پر عجیب و غریب اور دلکش انداز میں بنے ہوئے گھر۔ دیکھنے میں ہی آنکھوں کو کتنا سکون ملتا ہے اوردوسری طرف گھنے جنگل۔ میرے روکنے کے باوجود تم بوٹ کو لوگوں کی نگاہوں سے دور لیے جا رہے تھے۔ اللہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم……تم تو واقعی شروع کے بے غیرت ہو۔ میں نے جب ایسے ویسے کاموں سے روکا تو تم چڑھ گئے۔ لیکن برہمی کا اظہار نہیں کیا۔ ہنسنے اور کھیلنے کے انداز میں جھیل کا پانی ہاتھ میں لے کر مجھ پر ڈالتے رہے۔ تمہیں شرم بھی نہیں آ رہی تھی کہ میں بھیگ رہی ہوں۔ ‘‘
سفرنامہ سن کر میں ہاں ہوں کر رہا ہوں۔ غنودگی اس پر حاوی ہوتی جا رہی ہے اور وہ سفرنامہ سنائے جا رہی ہے۔ میری پیٹھ کھل گئی ہے۔ اس نے چادر درست کی اور پھر سے ہم دونوں چادر کے اندر ہیں۔ ہمارے چہرے کھلے ہوئے ہیں۔ زیرو پاور کا بلب کمرے میں ہلکی اور ملگجی روشنی کا احساس کرا رہا ہے۔
میں اس کے اور اپنے ماضی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکاہوں۔ وہ جب سے مجھے ملی ہے، ایک پجارن کی طرح بے لوث مجھے پوجے جا رہی ہے۔ اسے مجھ پر ناقابل یقین حد تک یقین ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک وہ میرے ساتھ ہے۔ ورنہ میرا رویہ اس کے ساتھ ہمیشہ منافقانہ رہا۔ وہ ایک مشرقی عورت ہے۔ گھر سے باہر میں کیا کر رہا ہوں۔ اسے کبھی کوئی مطلب نہیں رہا اور میں ہمیشہ لا وارث جانوروں کی طرح کسی بھی کھیت میں منہ مارنے کی کوششیں کرتا رہا۔ مجھ سے عمر میں بڑی ہو یا چھوٹی، اسٹوڈینٹ ہو یا شاپ کیپر، پڑوسی ہو یا رشتے کی بھابھی یا راہ چلتی ہوئی کوئی ادھیڑ عمر عورت۔ کوئی میری آنکھوں سے بچ نہیں سکی۔ نظر نہ آنے والا انچ ٹیپ ہمیشہ میری آنکھوں کی پتلیوں میں تیار رہتا ہے اور طرفہ تماشا یہ کہ میرے پاس اچھی خاصی داڑھی بھی ہے، سراورداڑھی میں گنے چنے بال ہوں گے، جو کالے رہ گئے ہیں۔ میں خود کو مذہب کا ٹھیکیدار بھی بزعم خود مانتا ہوں۔ اپنے اعمال کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے نصوص سے دلائل بھی اکٹھا کر لیتا ہوں۔ کبھی تعلیم و تعلم کے پیشے سے وابستہ نہیں رہا۔ آباء و اجداد کی کتابیں اور بیاضیں پڑھ کر ترغیب ملی اور مطالعے کے شوق نے پڑھنے لکھنے کی طرف مائل کر دیا۔
وہ نینی تال کی کہانی سناتے سناتے میرے نامکمل اور ادھورے جواب سے اکتا کر تھک کر سوچکی ہے۔ میں اس کے چہرے کو بغور دیکھ رہا ہوں۔ اس کی سانسیں ذرا تیز تیز چل رہی ہیں، خراٹے کی آواز ابھی نہیں آ رہی ہے۔ میں پھر سے خوف محسوس کر رہا ہوں۔ دل ہی دل میں دعا کر رہا ہوں کہ یہ خراٹے نہ بھرے۔ میں آنکھوں کی پتلیاں ادھر ادھر گھما رہا ہوں۔ میرے وجود کے اندر عجیب سی اینٹھن ہو رہی ہے۔ میرے پیٹ، سینہ اور آنتوں میں کچھ پھنساہوا ہے، شاید وہ سایے آہستہ آہستہ باہر آ رہے ہیں، جو تھوڑی دیر پہلے میرے اندر چلے گئے تھے۔ میری بیوی نے کروٹ بدل لی ہے اور بے خبر سورہی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اسے پھر سے جگادوں۔ مگر میری حالت ابتر ہے۔ میں جمائیاں لے رہا ہوں، سونا چاہتا ہوں مگر نیند نہیں آ رہی ہے۔ بار بار چھینک رہا ہوں۔ میری ناک میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہے۔ کانوں میں انگلیاں ڈال رہا ہوں، انہیں کھینچ رہا ہوں، سرپرہاتھ پھیر رہا ہوں۔ دل کی گہرائیوں سے نیند کو پکار رہا ہوں۔ بستر پر پڑے پڑے اکتاہٹ ہو رہی ہے اورسایوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ میں چت لیٹ کر چھت کو تاک رہا ہوں۔ میرے اوپرسیلنگ فین کے پاس ایک سایہ پنجرے میں میری نیند کو قید کیے ہوئے ہے۔ وہ میرے چہرے کے بالکل اوپر پنجرے کوزورزورسے ہلا رہا ہے، میں دیکھ رہا ہوں۔ میری نیند پنجرے میں قید ہے اور پنجرے کے اندر جھٹکے کھا رہی ہے، لہولہان ہو رہی ہے۔ میں اپنا داہنا ہاتھ اس کی طرف بار بار اٹھا رہا ہوں، میرے اٹھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر سایہ قہقہہ لگا رہا ہے۔ مجھے چڑا رہا ہے۔ آواز یں بلند کر رہا ہے۔ لو…لے لو اپنی نیند اور زورزورسے پنجرے کو جھٹکے دے رہا ہے۔ اس کے ساتھی بھی تالیاں مار رہے ہیں اور ٹھٹھا کر رہے ہیں۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی مکروہ ترین آوازیں نکال رہے ہیں، بار بار اپنے چہروں کے تاثرات بدل رہے ہیں۔ میں ان کی یہ حرکت دیکھ کر غصے سے پاگل ہو رہا ہوں۔ سایے کو پکڑ کر زبردستی اپنی نیند کو چھین لینا چاہتا ہوں۔ لیکن میرے پاس خاموشی اورسراسیمگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بیوی کروٹیں بدلتے ہوئے مجھ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ میں پھر سے پسینے پسینے ہو چکا ہوں۔ آدھے سر میں درد ہو رہا ہے۔ بار بار جمائی آ رہی ہے۔ آنکھوں میں چبھن ہو رہی ہے۔ بستر پر کروٹیں بدل بدل کر عاجز آ چکا ہوں اور کمرے میں سایوں کا تانڈو بڑھتا جا رہا ہے۔ میرے بدبودارپسینے سے میرابستربھیگ رہا ہے۔ میری بدبو خود میرے لیے پریشانی کاسبب بن رہی ہے۔
میں اکتا کر اپنے کمرے سے نکل گیا ہوں۔ صحن کی کھڑکی سے سڑک کو دیکھ رہا ہوں۔ سڑک پر ھو کا عالم ہے۔ آسمان پر چاند ستارے کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اسٹریٹ لائٹ جلی ہوئی ہے، جس سے دھندلی اور پیلی روشنی نکل رہی ہے۔ فضا خاصی مغموم ہے۔ صحن میں بھی رکنے کا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ یہاں بھی ہر طرف سایے ہیں۔ وہ سایہ اب بھی اپنے ہاتھ میں پنجرہ لیے میرے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ میری طرف پنجرے کو بڑھا رہا ہے اور پھر اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ میں پنجرے کی طرف لپک رہا ہوں اور سایہ مجھ سے دور بھاگ رہا ہے۔ میں اس کے پیچھے دوڑ رہا ہوں۔ وہ آگے پیچھے، دائیں بائیں، مجھے گھمائے جا رہا ہے اور میں اس کا تعاقب کر رہا ہوں۔ میں الٹے سیدھے جملے ادا کر رہوں، چیخ چیخ کرسایوں کو گالیاں دے رہا ہوں۔ نیند کو حاصل نہ کر پانے کے قلق اورشکست خوردگی کے احساس کے ساتھ میں اس ہال میں آ گیا ہوں، جہاں خصوصی تقریبات ہوتی ہیں اور مہمانوں کے لیے بھی وہی مخصوص ہے۔ ہال میں ایک روحانی محفل سجی ہوئی ہے۔ لوگوں کا ازدحام ہے، ہارمونیم اور دَف کی تھاپ کے ساتھ توری صورت کے بلہاری نجام، سب سکھین میں چنر موری میلی، دیکھ ہنسیں نر ناری، سب سکھین میں چنر موری میلی، میلی میلی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ میں نے ہال کا دروازہ اندر سے بند کر لیا ہے۔ غورسے محفل میں شریک لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ میرے جانے پہچانے چہرے ہیں۔ ان پر وجد و حال طاری ہے۔ مسندنشیں کو دیکھ رہا ہوں۔ وہاں کوئی اور نہیں، کلف کیے ہوئے کرتے پاجامے، صدری اور ٹوپی میں ملبوس خود میں ہوں۔ محفل میں موجود میرے چہرے پر روحانیت ہے۔ ہال کے دروازے کے سمت مخالف میں قد آدم شیشہ ہے۔ اپنے روحانی چہرے کو دیکھنے کے بعد میری نظر شیشے پر چلی گئی ہے۔ شیشے میں نظر آنے والا میں، محفل میں موجودمسندنشیں سے بالکل مختلف ہے۔ شیشے میں، میں دیکھ رہا ہوں، میرے داہنے ہاتھ کی آستین، ہاتھ سے باہر ہے، بائیں ہاتھ کی آستین کہنی تک چڑھی ہوئی ہے۔ کرتے کے بٹن کھلے ہوئے ہیں، داڑھی اورسرکے بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہیں، ایک پائنچہ میرے پیرسے باہر نکلا ہوا ہے۔ دوسراپنڈلی تک چڑھا ہوا ہے۔ میری حالت بد تر ہے۔ شیشے میں میراسراپا ایک پاگل کی طرح اور گندگی میں اٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کسی نے میرا ایک بازو پکڑ کر اپنی طرف مخاطب کیا ہے۔ میں اس کی طرف مڑ گیا ہوں۔ میری نظروں کے سامنے وہ سایہ ہے، جس کے ہاتھ میں پنجرہ ہے، اس میں میری نیند قید ہے۔ وہ شیشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔ تمہاری کون سے تصویر حقیقی ہے، شیشے والی یا محفل والی۔ یک بہ یک میری نگاہیں اپنے قدموں پر ٹک گئی ہیں۔ میں اپنے داہنے پیر کے ناخن سے زمین کھرچ رہا ہوں اور قدموں کو دیکھے جا رہا ہوں۔ اس نے پھر کہا ہے۔ ’’خاموش کیوں ہو، بتاؤ اپنی حقیقت۔ ‘‘ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا ہے، زور زور سے بے خودی کے عالم میں چیخ رہا ہوں۔ میرے منہ سے کانپتی بلکتی ھاھاھاھا، ھوھوھو کی آوازیں نکل رہی ہیں۔ چوں یک جرعہ رسید ازوے بہ حافظ۔ ہمہ عقل و خرد بیکار دیدم کی آواز فضا کو مرتعش کر رہی ہے۔ ایک مخصوص دھن میں سب سکھین میں چنر موری میلی، اب کی بہارے چنر موری رنگ دے کی تکرار میرے کانوں سے ٹکرا رہی ہے، میں ایک ہاتھ کی پشت کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر تیز تیز مار رہا ہوں اور بلند ہوتی آوازوں کو دہراتا جا رہا ہوں۔ کبھی ہاتھوں کو سر سے اوپر اٹھا رہا ہوں، کبھی چہرے پر مار رہا ہوں اور کبھی ایک کی ہتھیلی پر دوسری کی پشت مار رہا ہوں۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کوزورزورسے کھینچتے ہوئے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے ہیں، گریہ و زاری کر رہا ہوں۔ میرا جسم ہچکولے کھا رہا ہے۔ سب سکھین میں، سب سکھین میں، سب سکھین میں چنر موری میلی۔
٭٭٭
تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ، جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید