فہرست مضامین
ادا جعفری کا جہان شعر
شاہدہ حسن
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ماخذ: پاکستانی ادب کے معمار: ادا جعفری: شخصیت اور فن از شاہدہ حسن
نظم
وہ کم عمری تھی
نادانی کے دن تھے
اور میں نے وقت کے ساحر سے
پوچھا تھا پتا اپنا
پھر اس جادو کے لمحے نے
نہ جانے کیا کہا مجھ سے
نہ جانے کیا سنا میں نے
کہ میں اب تک سفر میں ہوں
ادا جعفری کی ابتدائی شعری کاوشیں جو1940ء کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالے "رومان ” مرزا ادیب کے ” ادب لطیف” مولانا تاجور کے ” شاہکار” اور غیر منقسم ہندوستان کے دیگر جرائد کے ذریعے سامنے آئیں۔ ان میں اس عہد کی عام نسائی شاعری سے ایک واضح انحراف موجود تھا اور دیگر شاعرات کے اسالیب، موضوعات اور طرز احساس کے برعکس ایک جداگانہ اور انفرادی رنگ نمایاں تھا۔ ان سے قبل شاعرات اصناف سخن میں زیادہ تر قدیم غزل اور دیگر مروجہ ہیئتوں تک محدود تھیں اور کسی فکری اور ہیئتی اجتہاد سے کام لینے کی صلاحیت ان میں نظر نہ آتی تھی۔ ادا جعفری کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ترقی پسند موضوعات اور نظم کے پیرائے کو اپنا کر شاعری کے جدید تجربات کی طرف خواتین کو متوجہ کرنے کا کام کیا۔
اپنے اولین شعری مجموعے ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” کا پیش لفظ انہوں نے منظوم قلم بند کیا اور نظم کی شاعرہ کے طور پر ابھریں۔ اس نظم میں قدیم اور جدید رویے کے تقابل کا موضوع چھیڑ کر وہ اپنے طرز احساس اور نظریہ فن کی صراحت یوں کرتی ہیں :
زندگی تیرے لیے خواب سہی، گیت سہی
نقرئی گیتوں کی زرکار سجیلی کرنیں
نور برساتی رہیں تیرے شبستانوں میں
زندگی ٹھوکریں کھاتی رہی طوفانوں میں
تو کہاں سوچتی خوابوں کی سجل بانہوں میں
کیوں ڈھلکنے سے بھی معذور رہا کرتے ہیں
وہی آنسو جنہیں مبہم سا سہارا نہ ملا
کسی دامن، کسی آنچل کا کنارا نہ ملا
کیسے محبوب تمناؤں کی کومل کلیاں
آگ اور خون کے عفریت نکل جاتے ہیں
کیسے تہذیب کے معیار بدل جاتے ہیں
تو کہاں سنتی وہ بے باک نوائی جس کو
لوریاں دے کے سلایا ہے نہاں خانوں میں
انہیں روندی ہوئی ٹھکرائی ہوئی راہوں میں
کتنی نوخیز امیدوں کے سجیلے سپنے
کتنی معصوم امیدوں کے لجیلے سپنے
چند دانوں کے عوض، بکتے رہے بکتے رہے
بربریت کے ستم سہتے رہے سہتے رہے
زندگی میرے لیے خواب نہ تھی، گیت نہ تھی
اس مجموعے میں شامل ابتدائی شاعری کے یہ نمونے ہی ہمیں ایک ایسے وجود کا احساس دلا رہے ہیں جو ” باطنی کشمکش” کی زد پہ آیا ہوا ہو اور خود اپنے آپ سے سوالات اٹھا رہا ہو۔
نظم ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” کا آخری ٹکڑا کچھ یوں ہے:
” میں ساز ڈھونڈتی رہی”
کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظام نو کی آہٹیں
بہار بیت ہی چکی، خزاں بھی بیت جائے گی
مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی
وہ میری آرزو کی ناؤ کھے سکے گا یا نہیں
نظام نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں ؟؟
یہ اسلوب، جدید شاعری کی سمت ادا جعفری کا پہلا قدم تھا۔
ممتاز ادیب قاضی عبدالغفار نے ادا جعفری کے پہلے شعری مجموعے ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” کے دیباچے میں اس عہد کی ادبی اور فکری صورت حال کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ ساتھ ادا جعفری (جو اس وقت ادا بدایونی کے نام سے معروف تھیں ) کی شعری شخصیت پر اثر انداز ہونے والے تمام عوامل کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لکھنے والی دیگر با شعور اہل قلم خواتین کے ساتھ ادا بدایونی کو بھی عہد جدید کے ان قلم کاروں میں شمار کیا ہے جو اپنی تحریروں کے ذریعے مطالبہ حقوق انسانیت کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔
1940ء سے 1950ء تک کے عرصے میں پاک و ہند کی تحریک کا پر آشوب ماحول بھی ذہن و احساس کی سطح پر ادا جعفری کو متاثر کر رہا تھا۔ ایک جانب بر عظیم میں برطانوی سامراج سے چھٹکارے کی آخری جنگ جاری تھی تو دوسری طرف تقسیم ہند کے ذریعے مسلمانوں کے تہذیبی اور نظریاتی تشخص کو تحفظ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔ عالمی پس منظر یہ تھا کہ آمریت اور سامراجی استبداد کے خلاف ہر سطح پر شدید رد عمل سامنے آ رہا تھا۔ مغرب میں برطانیہ کے اقتدار کا کبھی نہ ڈوبنے والا سورج، افق کی پہنائیوں میں گم ہوتا جا رہا تھا اور مشرق کی سر زمین پر چین کی عظمت و سربلندی کی صبح روشن طلوع ہو رہی تھی۔ ان ساری تبدیلیوں نے فکری اور سماجی سطح پر ادب و زندگی کے تعلق سے نت نئی جہتوں کو متعارف کرایا تھا۔ ترقی پسند تحریک کا واضح میلان اشتراکیت کی طرف تھا۔ یعنی یہ کہ ادب کو سیاسی اور سماجی نظام کے تابع ہونا چاہیے۔ انتہا پسند اور اعتدال پسند ادیبوں اور شاعروں کے دو واضح گروپ سامنے آئے تھے۔ ن م راشد اور میرا جی کا جدید شعری اسلوب، جوش کی سیاہی، اختر شیرانی کی رومانی، احسان دانش کی سماجی اور حفیظ جالندھری کی اسلامی اور تاریخی نظمیں مختلف حلقوں میں مقبول و معروف تھیں۔ فراق، فیض، اختر الایمان، مجید امجد، مجروح سلطان پوری، ساغر، عدم، مجاز، جذبی، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری یہ سارے نام شعری افق پر اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ دمک رہے تھے۔
ایک اہم فکری منبع علامہ اقبال کے شعری سرمائے کی صورت میں میسر تھا اور اگرچہ اب اقبال خود بقید حیات نہ تھے، ان کی منفرد شاعری اپنی بھرپور انقلاب انگیز اثر پذیری کے ساتھ، دلوں کو فتح کر چکی تھی۔ ان درجنوں شعری اسالیب اور نظریات حیات کے درمیان ادا جعفری کے لیے کسی خاص رنگ پر نگاہیں ٹھہرا دینا، ممکن ہی نہ تھا۔ ان کی ابتدائی شاعری کے خام مواد میں ہمیں ایک متجسس اور متلاشی شعری وجود کا احساس ملتا ہے جو اپنے پیش روؤں کے طرز اظہار سے استفادہ کرتے ہوئے، اپنی راہ تراشنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” میں شامل شاعری میں زندگی کے جمالیاتی رخ سے ایک بے ساختہ کشش اور رومان و حسن کی دنیا سے فطری لگاؤ کے با وصف، تخیل اور محسوسات کے رنگ تو نمایاں ہوئے ہیں مگر ان کا اپنا شعری لہجہ متعین نہیں ہو پایا ہے۔
جناب قاضی عبدالغفار کے تجزیے کی رو سے:
” ان نظموں میں اقبال، جگر اور فانی کے طرز فکر کے علاوہ، منظر نگاری اور ترنم کی خصوصیات اجاگر ہوئی ہیں۔ کہیں جگر کے تغزل کا رنگ ہے تو کہیں فانی کے طرز بیان کے اثرات۔ مگر یاس اور مایوسی کے دوش بدوش امید اور ایک بے محابا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے اور بیزاری اور یاس کے پردے میں ایک جذبہ طلب اور پیغام عمل کی نوید ملتی ہے۔”
اقبال کے زیر اثر قومی اور ملی مسائل کے حوالے سے بھی ادا نے اپنے شعور و تجزیے سے کام لے کر اپنی نظموں کے لیے نئے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اختلاف، انحراف اور انکار کی صلاحیت، ان کی شخصیت میں بالکل ابتدا ہی میں نمایاں ہو چکی تھی اور انہی خصوصیات سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اپنے استاد جناب عبدالستار سے جناب اثر لکھنوی کی ایک رباعی کے معنی اور مفاہیم کی صراحت کے سلسلے میں اختلاف رائے سے کام لیا تھا۔ گویا یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ علم و شعور کی راہوں پر آنکھیں موند کر چلنے کی خواہش نہیں رکھتیں بلکہ اپنے ذاتی مشاہدے، تجربے اور ادراک و شعور سے کام لینا چاہتی ہیں۔ اپنی شعر گوئی کے حوالے سے ادا لکھتی ہیں :
” مجھے احساس ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں جہاں عورت کی اپنی کوئی حقیقت نہیں تھی، میرا احتجاج بھی بلند آہنگ نہیں تھا۔ اسے احتجاج کہوں بھی یا نہیں، بہرحال نسل در نسل منتقل ہونے والی فرسودہ روایات سے انحراف یقیناً کہا جا سکتا ہے۔ اونچی آواز میں بات کرنا میرا مزاج نہیں اور سب دیواریں مسمار کرنا میں نے کبھی چاہا بھی نہیں۔ مگر میں نے عورت کو مجبوری اور محکومی کی زندگی بسر کرتے دیکھا تھا اور اس دکھ کو سہا بھی میری شاعری اسی دکھ کے نام تھی۔”
اس تجزیے کے پس منظر میں ان کی کلیات” موسم موسم” جس میں ان کے پانچ شعری مجموعے اور غیر مطبوعہ کلام پر مشتمل حصہ بہ عنوان ” سفر باقی ہے” شامل ہے (یعنی 1950ء سے لے کر 2002ء تک کی ان کی تمام شعری کاوشیں ) بطور خاص لائق مطالعہ ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ادا جعفری کی شاعری، بلند آہنگی، سرکشی، غصے اور احتجاج کے بجائے، مدھم مدھم سرگوشی اور خود کلامی کی کیفیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ان کے بیانیہ لہجے میں قدیم و جدید لفظیات کے امتزاج سے ایک ایسا شعری اسلوب وجود میں آیا ہے جو خاص ادا جعفری کی پہچان بن گیا ہے۔ اس پہچان کو انہوں نے اپنے طویل شعری سفر میں مستقل برقرار رکھا ہے۔ ” میں ساز ڈھونڈتی رہی ” سے ” حرف شناسائی” اور” سفر باقی ہے” تک تمام شعری پیرایوں میں ایک پر سوز لب و لہجہ غم ذات اور غم کائنات سے مانوس و آشنا اور زندگی کے جمالیاتی رنگوں سے مسرتیں کشید کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ شعری اسلوب رومان و حقیقت کی تلخیوں اور شیرینیوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی لب و لہجے، شعری آہنگ، لسانیات و لفظیات اور اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے متنوع موضوعات کے حوالے سے اپنے محسوسات کو رقم کیا ہے اور پھر گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ شعور و آگہی، درد مندی، نسائی بصیرت اور اجتماعی انسانی مقاصد سے ان کی تازہ تر قربتوں نے اس لہجے میں تیقن اور امید آفرینی کی خصوصیات کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے دسمبر1998ء کے سال نامہ ” نگار پاکستان” کے ” ادا جعفری نمبر” میں اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے:
” آج سے چند سال قبل میں نے ایک محفل میں ادا جعفری کو اردو شاعری کی خاتون اول قرار دیا تھا اور یہ میں نے انہیں معنوں میں کہا تھا جن معنوں میں محمد حسین آزاد نے ” آب حیات”میں ولی دکنی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہنے کا مطلب آزاد کے نزدیک صرف یہ تھا کہ ولی اردو کے پہلے ایسے بلند مرتبہ شاعر ہیں جن کا نام بہ اعتبار فکر و فن، قابل قدر اور معتبر ہے، اسی طرح ادا جعفری اقلیم اردو شاعری کی خاتون اول ہیں کیونکہ ان کی شاعری نے بیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں بہ اعتبار رہنمائی و اثر پذیری، اردو کی خواتین شعراء کے حق میں وہی کردار ادا کیا ہے جو اٹھارویں صدی میں ولی دکنی نے عام شعراء کے حق میں ادا کیا تھا۔”
اس شناخت کے تعین کا ایک خوش گوار پہلو یہ ہے کہ برصغیر کے روایتی معاشرے میں عورت کے ذہنی اور باطنی وجود کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ اگرچہ بہت تاخیر سے اس کا اظہار کیا گیا مگر بالآخر ایک ایسا سماجی اور فکری رویہ ظہور پذیر ہوا جس میں روشن خیالی، ترقی پسندی اور عصری آگہی کے نئے تقاضوں کے مطابق خواتین قلم کاروں کی تحریروں کی اہمیت کو تسلیم کر لیا گیا۔
ادا جعفری کی تربیت کا آغاز اگرچہ قدیم طرز کی دینی اور تہذیبی روایات کے گھٹے ہوئے ماحول میں ہوا تھا مگر پھر زندگی نے انہیں ایک ایسے سفر پر روانہ کر دیا جہاں افق در افق، نئی دنیا کے مشاہدوں، تجربوں اور رنگا رنگی نے ان کے وژن میں ایک وسعت پیدا کر دی۔ اور ان کے اندر سانس لیتی حساس عورت، اپنے جیسی دیگر قلم کار خواتین کی تخلیقات میں بھی جرأت اظہار اور روایت شکنی سے پیدا ہونے والی تازگی کو پنپتے اور پھلتے پھولتے دیکھنے کی آرزو مند نظر آنے لگی۔
وہ لکھتی ہیں :
” تازہ وار دان بساط سخن کے کلام میں معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج پوری توانائی کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اگرچہ معاشرتی زندگی میں انقلاب تو نہیں آیا مگر دیکھتے دیکھتے وقت نے ثابت کر دیا اور معاشرہ اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہو گیا کہ عورت نہ تو ذہنی طور پر پس ماندہ ہے نہ حسیاتی لحاظ سے مفلس۔ میرا لہجہ بلند آہنگ آج بھی نہیں مگر مجھے خواتین کی شاعری میں احتجاج کی بے جھجک، بے تامل اونچی آواز بہت اچھی لگتی ہے۔”
ادا جعفری کا دوسرا شعری مجموعہ ” شہر درد” طویل عرصے کے فرق کے ساتھ یعنی پہلے شعری مجموعے کی اشاعت کے سترہ سال بعد1967ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کی بیشتر نظمیں 1965ء سے 1967ء تک گویا دو ڈھائی سال کے عرصے میں کہی گئی ہیں۔ یہ عملی زندگی کے سفاک تقاضوں میں گم ہو جانے والی زود حس شاعرہ کے لیے اپنے باطنی وجود کی از سر نو دریافت کا مرحلہ تھا۔ ادا لکھتی ہیں :
” اس طویل خاموشی کی اصل وجہ میں خود بھی نہیں جانتی۔ یا شاید یہ وجہ ہو کہ ان دنوں مامتا کے جذبے سے پہلی بار متعارف ہوئی تھی، جھولی میں اتنے پھول تھے کہ نظر اٹھا کر کسی اور سمت دیکھنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ لیکن اجلے اجلے دھندلکوں کی طرح خود فراموشی کتنی ہی دل فریب کیوں نہ ہو، شکر ہے کہ دائمی نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہ بہت طویل عرصہ تھا اور بڑی نامانوس مسافت تھی۔ دشت بے آب و گیاہ بھی اور خیاباں خیاباں گل و سمن بھی۔ اپنے بچوں اور اپنے گھر میں بہت خوش بھی رہی اور تمام وقت ایک احساس محرومی بھی دل میں چبھتا رہتا تھا۔ پھر میرا کھویا ہوا قلم مجھے واپس مل گیا اور بھرپور اجالوں کی تمنا ” شہر درد” تک لے آئی۔”
ادا جعفری اور جناب نور الحسن جعفری کے قریبی احباب میں جناب مختار زمن کا ذکر بطور خاص آتا ہے۔ انہوں نے ادا جعفری کے حوالے سے لکھا ہے:
” ادا جعفری کو اپنے دین، اپنے کلچر، اپنی ملت اور اپنے وطن پاکستان سے شدید محبت ہے، جس کا ثبوت ان کے چاروں مجموعوں میں ملتا ہے۔
1965ء کی پاک و ہند جنگ اور میجر ضیاء الدین عباسی کی شہادت نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میجر عباسی ان کے شوہر سے قربت رکھتے تھے۔ ان کی سناؤنی سنی تو ادا تڑپ اٹھیں۔ سر فخر سے بلند بھی ہو گیا کہ ہمارے خاندان کے ایک چشم و چراغ نے وطن کے لیے جان قربان کر دی ہے۔ ادا نے ” میرے شہید” کے عنوان سے نظم لکھی۔ اسی سلسلے کی نظمیں "خاک وطن کو سلام” اور ” سترہ دن بعد” بھی ہیں۔ یہ نظمیں احساس دلا رہی ہیں کہ وطن دوستی کا موضوع ان کا ایک محبوب موضوع ہے اور اس کے حوالے سے وہ بارہا اپنے محسوسات کو پیش کرتی رہی ہیں۔”
” شہر درد” کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا:
” ادا جعفری نے درد کا جو شہر تخلیق کیا ہے۔ اس شہر کی دیواریں اب ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ عالم گیر ہیں اور اس درد میں حزن و یاس کا عنصر بہت کم اور عزم و استقلال کا دخل بہت زیادہ ہے۔”
” شہر درد” میں غزلیں بھی شامل ہیں اور نظمیں بھی مگر اب داخلی زندگی کے تذبذب اور اضطراب میں ایک ٹھہراؤ کا احساس ہوتا ہے اور زندگی کے نئے تقاضوں سے آنکھیں ملانے سے پیدا ہونے والی جرأت بھی لہجے میں نمودار ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی مشہور زمانہ غزل بھی اسی مجموعے میں شامل ہے جسے پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک امانت علی خاں مرحوم نے گایا ہے۔ اس غزل میں اظہار کی تازگی نمایاں ہے:
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبہ ناکام ہی آئے
” شہر درد” میں شامل غزلوں میں ادا کا انفرادی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ یہاں لفظیات اور طرز اظہار میں ایک باطنی اداسی کسی در پردہ دکھ کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے:
حائل رہی ہے راہ میں دیوار برگ گل
پلٹے ہیں شہر درد سے دست تہی لیے
ایک قطرہ شبنم، چند ادھ کھلی کلیاں
دیکھیے تو کافی ہے زندگی کا سرمایا
اک کرن تبسم کی زاد راہ بن جاتی
اور دل نے کیا مانگا اور ہم نے کیا چاہا
کیا جانیے کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں
تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
قسمت کے کھلونے ہیں اجالا کہ اندھیرا
دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں
سچ کو زہر کہتے ہیں
زہر پی لیا، ہم نے
راہ میں کہاں چھوڑا
دل سا رہنما ہم نے
برگ گل سے کیوں پوچھا
گھر کا راستہ ہم نے
کر لیا ہے کس دل سے
اپنا سامنا ہم نے
گویا” شہر درد” میں وہ حقیقت پسندی کی طرف بڑھی ہیں۔ یہ شعور، جسم و جاں پر بہت کچھ جھیل جانے کے بعد، خود بہ خود حاصل ہو جاتا ہے۔
گماں بھی کر نہ سکے تھے سحر کے متوالے
نظر فریب ضیا کھا گئی تو کیا ہو گا
” شہر درد” کا آغاز اس اعتراف سے ہوا ہے:
” شہر درد”
ساتھ بے شک تمہارا نہیں دے سکی
میں کبھی نقش پا کی صفت پیچھے پیچھے چلی
تاکہ مسلی ہوئی پنکھڑیاں چن سکوں
جو تمہارے ہی قدموں تلے آ کے روندی گئیں
پیرہن تار تار، انگلیاں خونچکاں
اپنا مسلک مگر بر تر از جسم و جاں
کند ہوتے نہیں درد احساس کے نیشتر
دل کو پھر بھی نہیں خواہش درگزر
جو خطا آج بھی مجھ سے سرزد ہوئی
اس خطا سے مجھے آج تک پیار ہے
ان رہوں میں کوئی میں اکیلی نہیں
اور آشفتہ سرساتھ ہیں
وہ جو غیروں کے پتھراؤ پر ہنس پڑے
اور اپنوں کے پھولوں سے زخمی ہوئے
یہ لہجہ، ایک نیا لہجہ ہے۔ ادا جعفری کی پیشرو شاعرہ ز خ ش (زاہدہ خاتون شیروانی) جو ان کی پیدائش سے تقریباً تین برس قبل انتقال کر چکی تھیں اور ہمیشہ گوشہ گم نامی میں رہی تھیں، انہوں نے بھی اپنے عہد (یعنی 1894ء سے1923ء) کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے گہرے شعور کے ساتھ اپنے شعری اظہار کو بامعنی اور منفرد بناتے ہوئے جب اپنے زمانے کے مزدوروں اور کسانوں کی ابتری اور استحصال کی تصویر کشی کی تھی تو ان کا انداز یہ تھا:
کارخانے میں جو بارود کے بم آ کے پھٹا
جل گیا پیکر بے جرم و خطائے مزدور
گر تناقص نہ ہو مزدور و قبا میں تو کہوں
کہ تن چوب پہ ڈھیلی ہے قبائے مزدور
گلہ برف دسمبر میں ہے سر کے اوپر
فرش آتش ہے مئی میں تہ پائے مزدور
کل جہاں اس کے لیے جیل ہے پھانسی گھر ہے
خاص کر ہند تو دوزخ ہے برائے مزدور
یہ لہجہ، یہ لفظیات اور یہ اسلوب ادا جعفری سے مختلف سہی مگر اس میں ز خ ش کے سماجی شعور اور اپنے عہد کے حالات پر ان کے بصیرت افروز رد عمل کا اظہار ملتا ہے۔ ادا جعفری کے موضوعات اور محسوسات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ان کے تخلیقی عمل کی بنیاد بھی یہی شعور زندگی ہے۔
اپنے وطن اور اپنی دھرتی سے ادا جعفری کی شدید انسیت بھی ان کے دلی جذبوں کی ترجمان ہے۔ 1948ء میں ادا جعفری جب پاکستان ہجرت کر کے آئیں تو یہ ان کی ازدواجی زندگی کے آغاز کا زمانہ تھا۔ ان کی شعری شخصیت بھی اپنی شناخت کے معتبر حوالوں کے ساتھ سامنے آ چکی تھی۔ ایک نئے ملک میں زندگی کی تازہ بہاروں میں اپنے حصے کے پھول چننے کی آرزو دل کو گھیرے ہوئے تھی اور نئی فضاؤں اور نئی ہواؤں میں نئے خوابوں کی تکمیل کا اہتمام ہو رہا تھا۔ ایسے میں پاکستان کی سر زمین سے نظریاتی اور جذباتی سطح پر ایک گہری وابستگی کا احساس ان کی ذات کا تشخص قرار پاتا ہے۔
” شہر درد” میں شامل کئی نظمیں اپنے وطن اور اپنی دھرتی سے شدید انسیت کے اظہار کے طور پر لکھی گئی ہیں۔ اگرچہ یہ منظوم جذبات، ایک سادہ پیرائے میں پیش کیے گئے ہیں اور ان میں ادا جعفری کی شعری زبان ان کے مانوس آہنگ کے ساتھ استعمال ہوئی ہے مگر ان میں ایک خلوص اظہار موجود ہے جسے وہ اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ 1965ء کے پاک بھارت معرکے کے حوالے سے نظم ” سترہ دن بعد” کی یہ لائنیں :
” سترہ دن بعد”
صدیاں لمحوں میں گزر جاتی ہیں قوموں کے لیے
اور کبھی ایک ہی لمحے کا فسوں
بے کراں ہوتا ہے، آفاق پہ چھا جاتا ہے
قوم کو رسم و رہ درد سکھا جاتا ہے
مجھ سے پوچھو تو وہ بس ایک ہی لمحہ تھا کہ جب
اک جری قوم نے جینے کی قسم کھائی تھی
ایک ملت کے مقدر کا ستارا جاگا
پاک مٹی کا نصیبہ جاگا
پاک مٹی گل و گلزار بنی
تیرگی چھائی تھی ہر سمت مگر چھٹ ہی گئی
رات بھاری مرے بیمار پہ تھی کٹ ہی گئی
اور شفق میرے شہیدوں کے لہو سے رنگیں
صبح کے ریشمیں آنچل پہ صبا ٹانک گئی
ادا جعفری کے شعری اظہار پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حنیف فوق نے لکھا ہے:
” ادا جعفری نے ہماری تہذیبی شائستگی سے اپنی شاعری کا دامن باندھا ہے۔ شائستگی، دل آویزی اور صدا آفرینی کی یہ مرکب خصوصیت ان کے شعری اور تخلیقی جوہر کا تعین کرتی ہے اور اردو شاعری میں ان کی انفرادی پہچان کو مستحکم بناتی ہے۔ یقیناً وہ شاعرات میں ایک نئے سلسلہ شعور و کیفیت کی ارزیابی میں پیش رو کی حیثیت رکھتی ہیں۔”
پھر اسی نکتے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
” ادا جعفری نے اپنی شاعری کے شہر درد میں، گھر کی خوشبو، ماحول کی تربیت اور روایت کے تہذیبی مزاج سے کام لیا ہے اور احتجاج کی راہوں پر آگے بڑھتے ہوئے بھی وہ باد صبا کی اس خوشبو کی پابند رہی ہیں جس میں گزشتہ فصل بہار کی بوئے یاسمن باقی ہے۔ وہ اپنے طبقہ نسواں کے تشخص کی مختلف حیثیتوں کو ” شہر بانو بھی مرا نام رہا، مریم بھی” کہہ کر ظاہر کرتی ہیں لیکن ان کی شاعری اپنے عہد کی صداقتوں، خوابوں اور امیدوں کی شاعری بھی رہی ہے۔”
ڈاکٹر حنیف فوق کے اس تجزیے کے مطابق ہر قلم کار، اپنی مخصوص صنف کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ، اپنی مجموعی حیثیت میں ایک انسانی وجود کا نمائندہ بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی تحریروں کی روح میں موجود، اس کی شخصیت کے عمومی اور خصوصی گوشوں کو پہچاننا بھی از حد ضروری ہوتا ہے۔
اس تعلق سے ادا جعفری نے نہ صرف اپنی صنف کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف زاویوں اور مختلف جہتوں سے ایک عورت کے نفسیاتی رد عمل کو قلم بند کیا ہے بلکہ اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر عام انسانی فضائے حیات اور مسائل کائنات سے بھی خود کو ہم رشتہ رکھتے ہوئے اپنے شعور کو شعری زبان عطا کی ہے۔ جذبوں اور فکر سے آراستہ ان کی کئی نظموں میں مسائل حیات سے انسان کے آنکھیں ملانے کی جرأت کا اظہار ملتا ہے۔ بعض موضوعات انہوں نے دہرائے بھی ہیں۔ مثلاً اختر الایمان کی نظم کی ایک مشہور لائن ہے:
آپ ہوں میں نہیں انسان سے مایوس ابھی
ادا جعفری نے اپنی نظم ” ماں ” میں کہا:
آخر انسان ہے، انسان سے مایوس نہ ہو
اس نظم کے موضوع” ماں ” کے تحت انہوں نے احترام حیات اور انسانی معاشرے کی بقا اور خوش حالی کی آرزوؤں کے حوالے سے دیکھے ہوئے اپنے خوابوں کو قلم بند کیا ہے۔
میں کہ تقدیس وفا، عفت و ناموس حیات
میرے انفاس سے روشن ہوا فانوس حیات
حرف آغاز بھی میں، نقطہ انجام بھی میں
کل کی امید بھی میں، آج پیغام بھی میں
کوئی کونپل نئی پھوٹی تو یہ جانا میں نے
دے دیا دہر کو جینے کا سندیسہ میں نے
میرا مذہب کہ محبت بھی ہے، امید بھی ہے
پھر یہ کیسی مرے انداز میں محرومی ہے
نظم کے اختتامی حصے میں کہتی ہیں :
آج یہ سوچ کے حیران ہوں، آزردہ ہوں
اپنی تخلیق پہ نازاں ہوں کہ شرمندہ ہوں
آگے کچھ دیکھنا چاہوں بھی تو وہم آتا ہے
اور سرگوشیاں کرتا ہے یہ ممتا کا جنوں
کٹ ہی جائے گا شب تار کا اک روز فسوں
1966ء میں لکھی ہوئی اس نظم میں انسان کے مستقبل کے بارے میں یہ امید و آرزو، اور پھر ایک انسان سے دوسرے انسان کے پر اعتماد تعلق کی فیض یابی کو جس طرح ادا جعفری نے اپنا موضوع بنایا ہے، وہ ایک ایسا بنیادی موضوع ہے جو ان کی بعد کی شاعری میں بھی ایک ” ماں ” کے جذبہ مسلسل اور اولاد کے تعلق سے ساری انسانیت سے اس کی غیر مشروط محبت کے طور پر ابھرا ہے۔
یہ مری گود میں مچلی ہوئی ننھی سی کرن
اک نئی صبح کا پیغام حسیں ہے کہ نہیں
سے لے کر 1973ء میں اپنی بیٹی صبیحہ اقبال کی رخصتی پر لکھی ہوئی ان کی نظم گدازی دل اور مامتا کے جذبات کی تجسیم کی کامیاب مثالیں ہیں۔
اسی تسلسل میں اپنے بیٹوں عزمی اور عامر کی وطن سے دوری کے حوالے سے بھی ان سے منظوم جذبات میں ہمیں ضبط نفس، بردباری، تمکنت اور باہمی رشتوں کے بخشے ہوئے اعتماد کا حسن جھلکتا نظر آتا ہے:
گھنا سا یا وہیں تک ہے
جہاں تم ہو
گھنیری چھاؤں مل جائے
تو موسم کی تمازت ہار جاتی ہے
دلوں میں پھول کھل جائیں
تو ویرانوں کی شدت ہار جاتی ہے
مرے بچے
مجھے جب دیکھنا جب سوچنا چاہو
تو بس اپنی طرف دیکھو
تمہارے لب پہ جو حرف صداقت ہے، یہی میں ہوں
تمہارے دل میں جو ناز جسارت ہے، یہی میں ہوں
نگاہوں میں جو اک طرز عبادت ہے، یہی میں ہوں
” مامتا ” کا ہمہ گیر احساس ادا جعفری کی شخصیت کی پہچان رہا ہے۔ زندگانی کے اس سفر میں جب ان کے عزیز ترین بچے ان کی نگاہوں سے دور ہو کر پردیس جابسے تو جذباتی طور پر وہ ان سے اور قریب ہو گئیں :
نہیں
میرے بچو!
جدائی تو عفریت ہے
سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے
اس کو نزدیک آنے نہ دو
تم مجھے دیکھ لو
کس یقیں اور کتنے تحمل سے میں
روز ہر روزن در کے آگے
حصار دعا کھینچ دوں
تم مری آنکھ میں اعتبار نگہ کی طرح
فاصلے، دوریاں کچھ نہیں
تم مرے پاس ہو، میں تمہارے قریں
تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں
ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں
ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں
ہے یہاں جیسے دیپک کی لو
اور وہاں روشنی
(” ساز سخن بہانہ ہے” )
ادا جعفری کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا ہے:
” شہر درد” کے بعد ادا جعفری کی شاعری کے دیگر مجموعوں ” غزالاں تم تو واقف ہو” (مطبوعہ1974ئ) اور ” ساز سخن بہانہ ہے” (مطبوعہ 1982ئ) میں فن کارانہ صناعیوں کے ساتھ ساتھ عصری شعور و آگہی کا وہی تموج نظر آتا ہے جس کی ایک پختہ کار فن کار سے توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ مجموعے مشرق کی صالح روایت کے ترجمان و پاسبان بھی ہیں اور مغرب کی مثبت اقدار حیات کے داعی و پاس دار بھی۔ ان میں طرز کہیں پہ اڑنے یا آئین نو سے ڈرنے کی کیفیت کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ نہ کلاسیکیت کی سخت گیری کہیں نظر آتی ہے، نہ جدیدیت کی انتہا پسندی۔ بلکہ قدیم و جدید نے ایک دوسرے میں پیوست ہو کر ایک نئے اسلوب شعری کو جنم دیا ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری مزید رقم طراز ہیں :
” کلاسیکیت ہو یا جدیدیت، اگر زندگی کی حسن آفرینی و کار کشائی میں مددگار ہوں تو ممدوح و مسعود، ورنہ ان میں سے ہر ایک مکروہ و مردود، زندگی اور فن کے باب میں یہی وہ نقطہ نظر اور راسخ عقیدہ ہے جو ادا جعفری کو آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پیچھے لے گیا اور انہوں نے راجا رام نرائن موزوں کے جس شعر کے ابتدائی ٹکڑے کو اپنے مجموعہ کلام کا عنوان بنایا، وہ ہے:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
یہ شعر ادا جعفری کے ذہن میں بے سبب نہیں آیا۔ ایک الم ناک تاریخی سانحے کے تلازم خیال نے انہیں اس کی یاد دلائی ہے۔ اس شعر کا تعلق پلاسی کی جنگ آزادی اور نواب سراج الدولہ کی شکست و شہادت سے ہے۔ راجا رام نرائن کو جب سراج الدولہ کی شہادت کی خبر ملی تو بے ساختہ یہ شعر نازل ہو گیا۔ یہاں ” مجنوں ” اور” دوانہ” کے الفاظ استعارہ ہیں سراج الدولہ کا اور ” ویرانہ” استعارہ ہے عظیم آباد کی تباہی اور اس پر بیرونی سامراج کے قدم جمانے کا۔”
ادا جعفری نے بھی اس شعر کے استعاراتی پس منظر کے ساتھ سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کے المیے کے تعلق سے اپنے دلی جذبات رقم کیے ہیں۔ نظم ” کوئی پیماں نہیں ” میں جو1971ء میں لکھی گئی یہ احساسات یوں بیان ہوئے ہیں :
کوئی پیماں نہیں
آج دامن کشاں کوئی پیماں نہیں
زخم جاں سے بھی گھر میں چراغاں نہیں
شہر دل کے لیے کوئی فرماں نہیں
آج ہر مہرباں ہاتھ ہے خونچکاں
پیار کے گیت، ہونٹوں پہ ہیں منجمد
آج حسن و صداقت کو کیا ہو گا
میرے ریحان و سروو سمن کیا ہوئے
وہ جمال و وقار چمن کیا ہوئے
آج کھیتوں میں نفرت کی فصلیں اگیں
میرے اپنے درختوں کی شاخیں صلیبیں بنیں
میرے بچوں کو کیسی امانت ملی
خوں میں لتھڑا ہوا یہ سیہ پیرہن
میری نسلوں کو میری وراثت ملی
اور پھر ایک اور نظم بہ عنوان ” غزالاں تم تو واقف ہو” میں یہ شعری ظہار:
” غزالاں تم تو واقف ہو”
محبت پا بہ جولاں تھی
وفا صحرا گزیدہ
زندگی پیمان گم گشتہ
تمنا مہر بر لب حرف خاموشی تہی کیسہ
نہ جانے کون بسمل تھا
نہ جانے کون قاتل تھا
یہاں تو رہزن و رہبر یہی دل تھا
جو مونس تھی
تو بس سفاک تنہائی
بگولوں کی ردا اوڑھے ہوئے
اک دیدۂ بے خواب سے سرو چراغاں تک
انہیں بے آس ہاتھوں کی
دعائے برگزیدہ سے جمال روئے تاباں تک
۔۔۔۔ لہو کے رنگ سے گل رنگ صحرا تھا
اس اسلوب شعری سے ادا جعفری کے انداز فکر و فن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اپنی درد مند طبیعت کے با وصف وہ خود کو ہر جبر اور ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور پاتی ہیں۔ اور یہی احتجاج ان کے شعری اظہار کا ایک طاقت ور محرک بھی ہے، مگر وہ یاس اور بے دلی کی نفی کرتے ہوئے ہر بار امیدوں، آرزوؤں اور تمناؤں کی ایک نئی دنیا ترتیب دے لیتی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں بدی پر نیکی، تیرگی پر روشنی اور نا آسودگیوں اور محرومیوں پر مستقل کی تاب ناکیاں اور روشن ضمیریاں، فتح مند قرار پاتی ہیں۔
جناب سحر انصاری نے اپنے مضمون ” ادا جعفری: ایک مطالعہ” میں اظہار خیال کیا ہے:
” ادا جعفری کی شاعری مجموعی طور پر اقدار حیات اور انسان دوستی کی شاعری ہے۔ اور ان کے پہلے شعری مجموعے سے لے کر ” ساز سخن بہانہ ہے” تک ان کے اس مسلک شاعری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ زندگی کی صداقتوں کو شعری پیکروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں اور اس ضمن میں انتہا پسندی کا شکار کبھی نہیں ہوئیں۔ ادا کی شاعری میں زندگی کے کئی روپ اور زاویے ہیں جن میں بنیادی حیثیت انسان کو حاصل ہے۔ ادا نے عالمی سطح پر آنے والے انقلابات سے تازگی اعتماد اور حوصلہ حاصل کیا ہے۔ اب وہ خود کو ایک وسیع تر انسانیت کا حصہ محسوس کرتی ہیں۔ ” ساز سخن بہانہ ہے” کی ایک نظم” سلسلے” کے یہ مصرعے دیکھیے:
” سلسلے”
” وہ سب صحیفے
صداقتوں کے جو ترجماں ہیں
ان آیتوں کی گواہیاں ہیں
وہ سارے الفاظ جو ابھی تک
کسی زمیں پر
کسی زباں میں لکھے گئے ہیں
ہمارے خوابوں کے سلسلے ہیں ”
اور یہی وہ احساست ہیں جن کے با وصف، رجائیت، توانائی اور امید آفرینی کے عناصر ان کی شعری علامتوں کا حصہ بن چکے ہیں۔”
جناب ادیب سہیل رقم طراز ہیں :
” اگر آپ ادا جعفری کی شاعری کا شروع سے آخر تک جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان کی تمام تر شاعری ان کے اس شعر کے مصداق ایک حرف آرزو سے عبارت ہے:
میں دشت زندگی میں کھلے سر نہیں رہی
اک حرف آرزو کی ردا مل گئی مجھے
اسی حرف آرزو نے ان کے شعروں میں جستجو، دروں بینی، ملائمت، نکتہ رسی اور حرارت داخل کر دی ہے۔ یہی شعر وسیع تناظر اختیار کر کے نظم "ساز سخن بہانہ ہے” بن گیا ہے اس نظم کا آخری حصہ ہے:
میں بے قرار وخستہ تن
بس اک شرار عشق، میرا پیرہن
مرا نصیب ایک حرف آرزو
وہ ایک حرف آرزو
تمام عمر سو طرح لکھوں
جناب محسن بھوپالی نے ” اردو کی عہد آفریں شاعرہ” کے عنوان کے تحت لکھا ہے:
” ادا جعفری اپنے پورے تخلیقی عہد میں اپنے ماحول اور اپنے گرد و پیش سے غافل نہیں رہی ہیں۔ بیشتر نظمیں اور بالخصوص عالمی تناظر میں ان کی نظم ” مسجد اقصیٰ” اور وطن پر گزرنے والے کڑے روز و شب کے پس منظر میں کہی گئی ان کی دیگر نظمیں، ان کے سیاسی اور معاشرتی شعور کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی غزلوں میں بھی جا بجا ایسے اشعار نظر آتے ہیں جو ان کے احساس کی تازگی، شعور کی پختگی اور مضبوط فنی گرفت کے مظہر ہیں :
جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیں آتا گیا
اتنی اتنی زندگی میں دل کشی بڑھتی گئی
بڑے تاباں، بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
اس عہد خود سپاس کا پوچھو ہو ماجرا
مصروف آپ اپنی پذیرائیوں میں تھا
گرہ کشائی شبنم کی داد کیا دیں گل
ہنسی کے ساتھ ہی آنکھوں میں اشک بھر آئے
کیا بوجھ تھا کہ جس کو اٹھائے ہوئے تھے لوگ
مڑ کر کسی کی سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہ تھیں ادا
کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مسافر خلاؤں میں
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی
ادا جعفری کی غزلیہ شاعری میں، ان کے لسانی رویوں کے توسط سے ہم ان کی شاعری کے ارتقائی سفر کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جو جدید شعری اسالیب میں شامل نہیں مگر ادا جعفری نے اپنی غزلوں میں انہیں بارہا برتا ہے۔ ان کے یہاں پوچھو ہو، چلے ہے، لگے ہے، کہیو جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ الفاظ ان کے ثقافتی پس منظر اور ان کے داخلی آہنگ کی ابتدائی صورت گری کے دیرپا اثرات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
اک وحشت جاں ہے کبھی صحرا کبھی زنداں
اک عالم دل ہے کہ بہاراں سا لگے ہے
کچھ سوچ کے کہنا کہ ہمیں حرف تسلی
تازہ ہو اگر زخم تو پیکاں سا لگے ہے
دل کے لیے بس آنکھ کا معیار بہت ہے
جو سکہ جاں ہے سر بازار چلے ہے
اک جنبش مژگاں کی اجازت بھی نہیں ہے
دل ساتھ چلا ہے کہ ستم گار چلے ہے
شوق آشفتہ سراں، دیدۂ تر مانگے ہے
ہے وہ کافر جو شب غم کی سحر مانگے ہے
رنگ گل، روئے سحر، بوئے صبا کی سوگند
ہر تماشا مرا انداز نظر مانگے ہے
خاصی تعداد ایسی تراکیب اور لفظیات کی بھی ہیں جنہیں وہ تکرار کے ساتھ استعمال کرتی رہی ہیں۔ مثلاً لہولہان انگلیاں، زہر احساس، نگاہ بے سکوں، جمال سحر، دھجی دھجی آنچل، دیوار شب، کڑی مسافت، مگر بحیثیت مجموعی ان کی غزلیں ذاتی کیفیتوں اور محسوساتی اور فکری زاویوں کو پیش کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
مزید چند اشعار:
خون دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید
جادۂ تمنا سے دار کی بلندی تک
جانے والے جا پہنچے، فاصلہ ہی کتنا تھا
تم آشنائے دل تھے کہو تم نے کیا کیا
ہم تو حصار انجمن گل کے ہو رہے
ہر لمحہ اک صدی سا گزارا ہے کرب سے
دل کو ندامت نفس رائیگاں نہیں
جس کسی لفظ میں پائی ہے صداقت کی مہک
میں نے اس لفظ کے قدموں میں جبیں رکھ دی ہے
نہ جانے لوگ کہاں تھے زمانہ تھا کہ نہیں
زمیں پہ میں تھی فلک پر بس اک ستارہ تھا
صحیفہ حیات میں جہاں جہاں لکھی گئی
لکھی گئی حدیث جاں جراحتوں کے درمیاں
اب اس کے خال و خد کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث
نگہ جھپک جھپک گئی ارادتوں کے درمیاں
ادا جعفری کی شخصیت میں، اپنی ذات کے وقار کو قائم رکھنے کی آرزو نے، ایک فطری ضبط اور دیرپا اختیار پیدا کر دیا ہے۔ مگر کبھی کبھی دکھ کے بے ساختہ اظہار کی خواہش بھی سر اٹھاتی ہے:
زد پہ آندھی کے دیا کانپ رہا ہو جیسے
تھک کے افسردہ و ویران گزر گاہوں میں
آخری عہد وفا ہانپ رہا ہو جیسے
اور یہ آنسو ہے کہ آنکھوں سے ڈھلکتا ہی نہیں
ہائے یہ ساغر لبریز چھلکتا ہی نہیں
ادا جعفری اپنی سوچ کی ترجمانی میں جس شائستگی اور تہذیب کا لحاظ رکھتی ہیں، وہ اسی دیرینہ روایت کی مظہر ہے جس کی پاس داری ان کی تربیت میں ہمیشہ سے شامل رہی ہے:
نازک تھے کہیں رنگ گل و بوئے سمن سے
جذبات کہ آداب کے سانچے میں ڈھلے ہیں
ان کی شاعری ایک بہتر زندگانی اور ایک خوش تر نظام حیات کی آرزومندی سے عبارت ہے۔ اس احساس کا اظہار انہوں نے یہ کہہ کر کیا ہے۔
شبنم سے رہ گزار سحر کا پتا کروں
مٹی سے رنگ و بو کے خزانے تراش لوں
اس راہ میں اپنے عہد کے تازہ تر فکری تقاضوں کو سمجھنے اور اپنے شعری اظہار کو زندگی کی صداقتوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے انہوں نے راہ سخن میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لیا ہے:
بہت دنوں تو ہواؤں کا ہم نے رخ دیکھا
بڑے دنوں میں متاع قلم کو پہچانے
دراصل تخلیق کے اس سفر میں ادا جعفری اپنے احساس غم کی نمو پذیری سے زندگی اور اس کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں :
کچھ بت بنا لیے ہیں، چٹانیں تراش کر
دل بھی بہانہ ساز ہے، غم بھی بہانہ ساز
سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی ادا
اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز
ڈاکٹر اسلم فرخی، ادا جعفری کے شعری اظہار کے تعلق سے اپنی ایک تحریر میں رقم طراز ہیں :
” 1967ء میں وہ یادگار نظم ” مسجد اقصیٰ” شائع ہوئی جس نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اردو ادب میں مسجدوں کے حوالے سے دو شعری شہ کار وجود میں آئے ہیں۔ علامہ اقبال کی نظم ” مسجد قرطبہ” فلسفیانہ اساس میں ڈوبی ہوئی، زمان و مکاں کے اسرار ہویدا کرنے والی، سطوت ماضی کی بازیافت اور مستقبل کا ایک خوف ناک نظارہ پیش کرتی ہوئی۔ مگر "مسجد اقصیٰ” ذاتی جذبات واردات سے لبریز وہ فریاد ہے جسے سن کر عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں۔ ایسی پر اثر اور سراپا آرزو نظمیں ہمارے ادب میں خال خال ہیں جن میں فریاد، آرزو، تقاضا سبھی کچھ موجود ہو۔ ادا جعفری کے یہاں جس نسائی حسیت کی جھلک ابتدا سے ملتی ہے، وہ اس نظم میں اپنے عروج پر آ گئی ہے۔”
ڈاکٹر اسلم رخی کے اس تجزیے کی روشنی میں ” مسجد اقصیٰ” کی مجموعی فضا میں ایک باطنی خلوص اظہار پاتا نظر آتا ہے۔ ادا جعفری نے اپنی نظریاتی اور روحانی وابستگی کے ساتھ، مسجد اقصیٰ کے سانحے کے حوالے سے، اسلامی معاشرے کی عظمت رفتہ کے پس منظر میں جس کرب باطنی کو رقم کیا ہے، وہ ذاتی اور اجتماعی سطحوں پر، حقیقت حال کا غماز ہے۔ اس نظم میں مسلمانوں سے تخاطب کا انداز یہ ہے:
تم تو خورشید بکف تھے سر بازار وفا
کیوں حریف نگہ چشم تماشا نہ ہوئے
کس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھوکر
تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے
اس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوم نہ تھی
اس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوم نہ تھی
محترم ہے مجھے اس خاک کا ذرہ ذرہ
ہے یہاں سرور کونین کے سجدے کا نشاں
اور پھر نظم کے آخری حصے میں کہتی ہیں :
تم نے کچھ قبلہ اول کے نگہباں سنا؟
حرمت سجدہ گہ شاہ کا فرمان سنا؟
زندگی مرگ عزیزاں کو تو سہ جاتی ہے
مرگ ناموس مگر ہے وہ دہکتی بھٹی
جس میں جل جائے تو خاکستر دل بھی نہ ملے
اس نظم میں جس طرح ادا جعفری نے ” مرگ ناموس” کو ملت اسلامیہ کی افتادگی اور زبوں حالی کا اصل سبب قرار دیا ہے۔ یقیناً اسی ادراک کو ڈاکٹر اسلم فرخی نے ادا کے نسائی شعور کا نقطہ عروج قرار دیا ہے۔
جناب احمد ہمدانی نے ادا جعفری کی شاعری کو ان کی شخصیت کی کلیت کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
” ادا جذبوں کو یک رخے انداز سے دیکھنے کی قائل نہیں۔ اس کے برعکس اپنے احساس کی دھوپ چھاؤں میں بیٹھی، وہ زندگی کی تمازتوں اور ٹھنڈکوں کے خدوخال ابھارتی رہتی ہیں۔ ان خدوخال میں ادا جعفری کی اپنی شخصیت کی سالمیت خود بخود نمایاں ہو جاتی ہے۔”
احمد ہمدانی کے اس انداز فکر کو ادا جعفری کے فنی اظہار کی مختلف جہتوں کے حوالے سے سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک مثبت رخ تو یہ ہے کہ ادا زندگی کی اصل قوت، انسانی وجود کی باطنی قوت کو قرار دیتی ہیں جو سپاہیوں اور گھپ اندھیروں میں بھی، کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی روزن سے ایک کرن کو داخل کر کے انسانی بینائی کو بحال کر دیتی ہے۔ اور منظروں کو ہویدا کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ادا اسی کو زندگی کرنے کا حقیقی مثبت رویہ سمجھتی ہیں اور اس کے برعکس ہر رویے کو انسانی زندگی کے لیے خسارہ قرار دیتی ہیں۔” حرف شناسائی” میں شامل ایک مختصر نظم ” خسارہ” میں کہتی ہیں :
” خسارہ”
روزنوں سے قدموں تک
مکڑیوں کے جالے ہیں
گرد سے اٹے پیکر
بے چراغ آنکھوں سے
دیکھنا بھی کب چاہیں
ورنہ ہر زمانے میں
آئینہ تو دل بھی ہے
ہر طرف اندھیرے ہوں
آدمی کے اندر بھی خوش نما اجالے ہیں
اسی طرح ادا جعفری زندگی کی رنگارنگی اور بو قلمونی پر بھی یقین رکھتی ہیں اور انسانی احساسات کے ہزار ہا رنگوں میں سے منفرد اور اچھوتے رنگوں کو اجاگر کر دینے کے ہنر ہی کو تخلیقی اور شعری اظہار کی اساس قرار دیتی ہیں۔ ان کے شعری مجموعے” غزالاں تم تو واقف ہو” میں شامل ان کی ایک نظم ” رنگ کے روپ ہزار” کی استعاراتی فضا قابل توجہ ہے:
” رنگ کے روپ ہزار”
کہیں سچا اجلا رنگ
کہیں پھیکا پھیکا روپ
کہیں چھاؤں رہے کہیں دھوپ
کبھی زلفوں جیسا
جیون بھر کے اندھیاروں کا رنگ
کبھی چاندی جیسی لٹ اور کرنوں جیسا رنگ
کوئی جس کا بھاؤ نہ مول
یہی سوکھے ہونٹوں ٹوٹے پھوٹے بول
یہی رنگ رچے ہے ارمانوں کے تول
کہیں آنکھیں ساون بھادوں
کہیں جیٹھ اساڑھ کی پیاس
کہیں پروائی کی بھینی بھینی پھوار
کہیں اوس بنے کہیں آس
کہیں رنگ جمے اور خوب جمے
کہیں بدلے سو سو بھیس
کبھی اپنا گاؤں کا گاؤں
کبھی گھر آنگن پردیس
رہے رنگ کے روپ ہزار
ادا جعفری کے شعری مجموعے ” غزالاں تم تو واقف ہو” میں ان کی پانچ نظمیں ایسی بھی شامل ہیں جنہیں انہوں نے ” سفر نامہ” کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ یہ منظوم سفر نامے بنکاک، ٹوکیو، واشنگٹن اور استنبول کے سفر کے محسوسات اور تاثرات ہیں جو 1968ء سے 1969ء کے دوران قلم بند کیے گئے ہیں۔
ان منظوم سفر ناموں میں ادا جعفری نے دنیا کی مختلف معاشرتوں اور مختلف سرزمینوں پر پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں اس قوم کی مجموعی نفسیات کا تجزیہ کیا ہے اور ان اقدار پر بطور خاص نگاہ رکھی ہے جنہیں رد یا قبول کرنے کی صورت میں، ان معاشروں کی تشکیل و ارتقا پر مخصوص اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ٹوکیو کے سفر میں انہوں نے جاپانی قوم کی اس خوئے تعمیر اور آرزوئے زندگی کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو خود ان کے اپنے وجود میں زندگی کی تازہ لہر دوڑا گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور لوگوں تک پہنچنے، ان سے متعارف ہونے اور انہیں قریب سے دیکھنے کے سبب، انہیں ایک ہمہ گیر عالمی معاشرے کے افراد کے طور پر قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور خود اپنے دل میں ایک ایسی وسعت آ جاتی ہے جو طبقاتی، نسلی اور گروہی تفریق کو مٹا کر، تمام انسانوں کو ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے انسانی وجود کے طور پر قبول کرنے کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ ادا جعفری نے ان منظوم سفر ناموں میں انسان دوستی کے اسی احساس کے ساتھ اپنے مشاہدے قلم بند کیے ہیں اور قوموں کی تاریخ میں اندھیروں اور اجالوں کی جنگ کے دوران جتنے بھی نصیحت آموز لمحات امر ہو جاتے ہیں، انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ٹوکیو کے سفر کے حوالے سے اپنی نظم ” رسم تعارف” کے ایک حصے میں وہ لکھتی ہیں :
” رسم تعارف”
تیسرے سرشار جلووں کی درگاہ میں
ہم اندھیری رتوں کے سفیران درد آئے ہیں
رات کے درد سے تو بھی آگاہ ہے
تیرے ماتھے پہ بھی گرد ہی گرد تھی
تیری جھولی میں بھی راکھ ہی راکھ تھی
آنچلوں کی دھنک بجھ گئی
عارضوں کی شفق بجھ گئی
تو نے جھیلیں کڑے وقت کی زہر افشانیاں
جنگ اور موت کی قہر سامانیاں
تیرا ہیروشیما
زخم سا زخم تھا
اے نگار حیات آشنا!
رات بھی کٹ گئی
گرد بھی چھٹ گئی
زخم بھی بھر گئے
تیری کرنوں کا رقص صبا زندہ ہے
تیرے پھولوں کا رنگ حنا زندہ ہے
تیری گلیوں میں اے وادی مہرباں
زندگی سے ہمارا تعارف ہوا!!
” تضاد رنگ” اور” زخم تماشا” بھی تاثراتی نظمیں ہیں جو واشنگٹن کے سفر سے متعلق ان کی دلی کیفیات کی ترجمان ہیں۔ زندگی کے متضاد رنگوں کو محسوس کرتے ہوئے وہ دو مختلف معاشروں کی جدوجہد آزادی اور جمہوری اقدار پر ان کے ایقان کے پس منظر میں ان کے شب و روز کے معیارات میں موجود فرق کو اجاگر کرتی ہیں :
تری سحر بھی گل عذار و لالہ زار
مری سحر بھی میرے عکس خواب سے لہو لہو
شفق نہاد رنگ ہے
افق سواد رنگ ہے
یہ اتصال رنگ بھی، مگر تضاد رنگ ہے
تری سحر کے پاس میرے دن کی روشنی نہیں
” زخم تماشا” میں بھی وہ ایک ترقی یافتہ انسانی معاشرے کی فضاؤں میں اپنی موجودگی کا احساس اس انداز میں دلاتی ہیں کہ ایک درد آشنا دل اور ایک انسان دوست رویہ، ان کی پہچان بن جاتا ہے، واشنگٹن کی بلند و بالا عمارتوں کے درمیان جہاں چمکتی دھوپ اور امڈتے اجالوں کی فراوانی ہے۔۔۔۔وہیں کہیں انہیں جنگ کی آگ میں جھلستے اور دھوئیں کے گہرے بادلوں میں گھرے ان شہروں کی یاد آنے لگتی ہے جہاں طاقت کی حکمرانی نے نفرتوں کے بیج بوئے اور زخموں کے ڈھیر لگائے ہیں۔
سورج ابھرا تو جبینوں سے کرن بھی پھوٹی
دھوپ چمکی ہے تو آنگن میں اجالا امڈا
اور کچھ دور۔۔۔ بہت دور نہیں
شوخ رنگین اجالوں کے قریں
کتنے گہرے ہیں دھوئیں کے بادل
ارض کشمیر سے وتنام تلک
امن کے خواب سے نیپام تلک
ماند پڑتی ہوئی چہروں کی جلا یاد آئی
دیس پردیس کے زخموں کی حنا یاد آئی
ادا جعفری کے پانچویں شعری مجموعے ” حرف شناسائی” میں ایک مختصر سی نظم ہے ” صدیوں کا سفر”
” صدیوں کا سفر”
مرا حصہ، بس اک محدود جلوہ ہے
یہ آنکھیں وسعت افلاک کی
رعنائیوں کی داد کیسے دیں
کہ میں نے آسماں کو
روزن زنداں سے دیکھا ہے!!
اس مختصر میں ان کا انکسار و اعجاز اس امر کا مظہر ہے کہ ادب و شعر کی دنیا میں ادا جعفری بلند و بانگ دعووں کے ساتھ شامل نہیں رہی ہیں۔
انہیں علم ہے کہ حیات کے بحر بے کراں میں ایک فرد کی حیثیت محض ایک قطرۂ آب کی ہوتی ہے جو کل میں جزو بن کر اس طرح شامل رہتا ہے کہ اسی میں اس کی شناخت کا راز بھی پوشیدہ ہے اور اس کی بقا کا راز بھی۔ کیوں کہ یہ جلوہ گاہ کائنات بے کراں اور لا محدود ہے اور اس کے مشاہدات و تجربات اتنے گوناگوں ہیں کہ مشاہدہ کرنے والی آنکھیں ان سب وسعتوں کو گرفت میں لے ہی نہیں سکتیں۔ ادا جعفری نے بھی اپنی شعری کائنات کے جن تجربوں اور مشاہدات کو قلم بند کیا ہے اور جس کے لیے اپنی عمر عزیز کے بہت سے لمحات کا کرب سہا ہے، وہ انہیں صدیوں کے برابر محسوس ہوتے رہے ہیں اور ان پر یہ احساس غالب رہا ہے کہ وہ ان بے کراں وسعتوں کو محض ایک روزن زنداں سے دیکھتی رہی ہیں۔
اپنے تخلیقی لمحوں کے انبساط کو انہوں نے اس شعر میں لکھا ہے:
نزول شعر کی ساعت جمال خواب کی لو
کہ جیسے سلطنت جاوداں ملے ہے مجھے
اسی طرح” حرف شناسائی” میں شامل ایک غزل کے اشعار بھی اس کیفیت کو پیش کرتی ہیں :
ہمیں خود سے بھی ملنا تھا، کسی ہم راز سے پہلے
کوئی آواز سننا تھی، کسی آواز سے پہلے
یہ جو بے ساختہ پن ہے یہی تو اصل راحت ہے
پروں کو دیکھنا واجب نہیں پرواز سے پہلے
ابھی تو خواب چہرے سب دعا کی رہ گزر میں تھے
کہانی ختم کیسے ہو گئی آغاز سے پہلے
ادا جعفری کی کلیات” موسم موسم” میں ” سفر باقی ہے” کے عنوان سے ان کے غیر مطبوعہ کلام کا منتخب حصہ بھی شامل ہے۔ اس نام میں ایک رجائی پہلو ہے۔ اور اس حصے میں شامل ان کی شعری تخلیقات میں بھی یہی آرزومندی اور امید آفرینی نمایاں ہے۔
حرف بھر روشنی بچا رکھوں
اک دیا آفتاب سا رکھوں
آنکھ اجالے تلاش کرتی ہے
اک ستارے کو جاگتا رکھوں
تند خو، سر پھری ہواؤں سے
درد سا کوئی سلسلہ رکھوں
میں حساب و شمار کیا رکھتی
تجھ سوا اپنے پاس کیا رکھوں
زندگی شعر ہے نہ افسانہ
کیا لکھوں اور کیا اٹھا رکھوں
اسی مجموعے میں شامل ایک اور نظم بہ عنوان ” سفر باقی ہے” میں بھی یہی رجائیت موجود ہے جو زندگی اور اس کی پیہم نمو پر، ان کے یقین کی مظہر ہے۔
” سفر باقی ہے”
بتائیں کیا
ہمارے زخم زخم کے گلاب
ماہ و آفتاب
سب گواہ ہیں
کہ ہم نے کیا نہیں سہا
صعوبتوں کے درمیاں، ہمارے ساتھ اک یقیں رہا
گواہ یہ زمین اور زماں رہے
نہ آج سوگوار ہیں
نہ کل ہی نوحہ خواں رہے
شرر جو کل لہو میں تھے
وہ آج بھی لہو میں ہیں
ہمارے خواب سانس لے رہے ہیں آج بھی
کوئی دیا بجھا نہیں
کہ ہم ا بھی تھکے نہیں
کہ ہم کبھی تھکے نہیں
٭٭٭
ماخذ:
http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100024.txt
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید