FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

رنگ کے روپ ہزار

 

 

               ادا جعفری

انتخاب: شاہدہ حسن

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

               ماخذ: پاکستانی ادب کے معمار: ادا جعفری: شخصیت اور فن از شاہدہ حسن

 

 

 

 

 

 

 

 

منظوم دیباچہ ’’میں ساز ڈھونڈھتی رہی‘‘

 

زندگی تیرے لیے خواب سہی، گیت سہی

نقرئی گیتوں کی زرکار سجیلی کرنیں

نور برساتی رہیں تیرے شبستانوں میں

زندگی ٹھوکریں کھاتی رہی طوفانوں میں

تو کہاں سوچتی خوابوں کی سجل بانہوں میں

کیوں ڈھلکنے سے بھی معذور رہا کرتے ہیں

وہی آنسو جنہیں مبہم سا سہارا نہ ملا

کسی دامن، کسی آنچل کا کنارا نہ ملا

کیسے محبوب تمناؤں کی کومل کلیاں

آگ اور خون کے عفریت نکل جاتے ہیں

کیسے تہذیب کے معیار بدل جاتے ہیں

تو کہاں سنتی وہ بے باک نوائی جس کو

لوریاں دے کے سلایا ہے نہاں خانوں میں

انہیں روندی ہوئی ٹھکرائی ہوئی راہوں میں

کتنی نوخیز امیدوں کے سجیلے سپنے

کتنی معصوم امیدوں کے لجیلے سپنے

چند دانوں کے عوض، بکتے رہے بکتے رہے

بربریت کے ستم سہتے رہے سہتے رہے

زندگی میرے لیے خواب نہ تھی، گیت نہ تھی

٭٭٭

 

 

 

رنگ کے روپ ہزار

 

کہیں سچا اجلا رنگ

کہیں پھیکا پھیکا روپ

کہیں چھاؤں رہے کہیں دھوپ

کبھی زلفوں جیسا

جیون بھر کے اندھیاروں کا رنگ

کبھی چاندی جیسی لٹ اور کرنوں جیسا رنگ

کوئی جس کا بھاؤ نہ مول

یہی سوکھے ہونٹوں ٹوٹے پھوٹے بول

یہی رنگ رچے ہے ارمانوں کے تول

کہیں آنکھیں ساون بھادوں

کہیں جیٹھ اساڑھ کی پیاس

کہیں پروائی کی بھینی بھینی پھوار

کہیں اوس بنے کہیں آس

کہیں رنگ جمے اور خوب جمے

کہیں بدلے سو سو بھیس

کبھی اپنا گاؤں کا گاؤں

کبھی گھر آنگن پردیس

رہے رنگ کے روپ ہزار

٭٭٭

 

 

 

 

بچوں کے نام

 

(اقتباس)

 

نہیں

میرے بچو!

جدائی تو عفریت ہے

سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے

اس کو نزدیک آنے نہ دو

تم مجھے دیکھ لو

کس یقیں اور کتنے تحمل سے میں

روز ہر روزن در کے آگے

حصار دعا کھینچ دوں

تم مری آنکھ میں اعتبار نگہ کی طرح

فاصلے، دوریاں کچھ نہیں

تم مرے پاس ہو، میں تمہارے قریں

تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں

ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں

ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں

ہے یہاں جیسے دیپک کی لو

اور وہاں روشنی

نہیں

میرے بچو!

جدائی تو عفریت ہے

سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے

اس کو نزدیک آنے نہ دو

تم مجھے دیکھ لو

کس یقیں اور کتنے تحمل سے میں

روز ہر روزن در کے آگے

حصار دعا کھینچ دوں

تم مری آنکھ میں اعتبار نگہ کی طرح

فاصلے، دوریاں کچھ نہیں

تم مرے پاس ہو، میں تمہارے قریں

تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں

ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں

ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں

ہے یہاں جیسے دیپک کی لو

اور وہاں روشنی

٭٭٭

 

 

 

 

سلسلے

 

تمام لمحے

جو نسل انساں کو چھو کے گزرے

گئی رتوں کی امانتیں بھی

نئے دنوں کی بشارتیں بھی

کبھی تمناؤں کی شبنمی ردائیں

کبھی دعاؤں کے سبز آنچل

جو ابن آدم کے راز داں ہیں

جو بنت حوا کی داستاں ہیں

گلوں کی صورت

مثال خوشبو

ہماری میراث ہیں ازل سے

وہ سب شگوفے

جو کھل چکے ہیں، جو کھل رہے ہیں

کسی کی یادوں، کسی کی باتوں سے مل رہے ہیں

وصال و ہجراں کے سب تقاضے

مزاج جاناں کے رمز سارے

ہمارے پیمانہ جنوں سے چھلک رہے ہیں

ہمارے نغموں میں اپنی پلکیں جھپک رہے ہیں

وہ سب صحیفے، صداقتوں کے جو ترجماں ہیں

ہمارے لفظوں کے آئنوں میں

ان آیتوں کی گواہیاں ہیں

وہ سارے الفاظ جو ابھی تک

کسی زمیں پر کسی زباں میں لکھے گئے ہیں

ہمارے خوابوں کے سلسلے ہیں

وہ سارے جذبے

وہ سارے رشتے

خلوص جاں کے، نزول غم کے

تمام پیماں

تمام پیکاں

ہمارے دل کی پناہ گاہوں میں آ بسے ہیں

ہماری آنکھوں کے معبدوں میں سجے ہوئے ہیں

وفائیں خود اپنی نامہ بر ہیں

صداقتوں کے سخن امر ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

الفتح

 

ابھی کل کی بات ہے ہم نوا

میرے پاس میری نگاہ تھی

جو وقار تھی، جو پناہ تھی

وہ نگاہ کشت فسون جاں

ترے درد سے مرے درد تک

وہی رنگ تھا وہی روپ تھا

کبھی زخم زخم پہ نوحہ خواں

کبھی بس تجاہل عارفاں

جو کلی کلی کی نسیم تھی

جو رحیم تھی، جو کریم تھی

وہ سفیر جاں، وہ خبیر دل

ترا آئنہ، مرا آئنہ

وہ نگاہ تیری نگاہ تھی

وہ نگاہ میری نگاہ تھی

یہ مسافران برہنہ پا

اسی اک نگاہ کی ہیں جھلک

وہیں ہیں لباس شعاع میں

جہاں راکھ اٹھی تھی پلک پلک

یہ مثیل ذرہ ناتواں

جو زمیں کی کوکھ سے پھوٹ کر

بہ جمال غم، بہ فسون جاں

بہ کرشمہ ہائے جنون جاں

بہ ہوائے رنج نمو رہا

ہے دراز درد کا سلسلہ

یہ مسافران برہنہ پا

یہ بلا کشان خجستہ پا

یہی طالبان نگار صبح

یہی وارثان شرار صبح

پے کوہسار افق بڑھے

لب جوئبار شفق چلے

٭٭٭

 

 

 

 

اجنبی

ساحل بحر پہ تنہا بھی ہوں آزردہ بھی

کس قدر خوش ہوں کہ ہو جاتی ہوں افسردہ بھی

یوں نہیں تھا کہ مجھے رہ میں اجالا نہ ملا

کیسے کہہ دوں کہ محبت کو سہارا نہ ملا

وہ جزیرے جو تمہیں دور نظر آتے ہیں

جو ہمہ رنگ، ہمہ نور نظر آتے ہیں

میرے شہکار، مرے خواب، مرے ارماں ہیں

میری تشکیل کی کرنیں ہیں کہ تاب افشاں ہیں

میں جو کردار بھی ہوں، خالق افسانہ بھی

آج اپنے ہی خد و خال نہ پہچان سکی

برگ گل کی وہ فصیلیں ہیں کہ جی ہانپ گیا

رشتہ نکہت گل بھی مجھے زنجیر بنا

یہ مرے دل کا حسیں خواب کہ تعبیر بنا

٭٭٭

 

 

 

 

سواد شب

 

(اقتباس)

لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے

آج کی رات ہے تاریک، مسافت بھی کڑی

جیسے سینے پہ کوئی برف کی سل آن پڑی

اب نہ دیدار کا مژدہ، نہ جدائی کی گھڑی

اک خلش سی ہے جسے نام کوئی دے نہ سکوں

نہ رفاقت، نہ مروت، نہ محبت نہ جنوں

کچھ تو ہو گرمی محفل کا بہانہ ساتھی

جی بہل جائے گا زخموں کی نمائش ہی سہی

بارش سنگ سے ہر پیکر گل زخمی ہے

کہیں آدرش ہے گھائل، کہیں دل زخمی ہے

سوچتی ہوں کہ کہوں بھی تو بھلا کس سے کہوں

ان میں وہ سنگ ملامت بھی تو شامل ہوں گے

جس کی زد پر سبھی اپنے ہیں کوئی غیر نہیں

پھول سے ہاتھ میں پتھر کی خراشیں ہی گنوں

درد چمکا ہے اندھیرے میں تو جی ٹھہرا ہے

لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

آج کی رات کتنی تنہا ہے

 

آج کی رات کتنی تنہا ہے

ہم بھی تنہا ہیں، دل بھی تنہا ہے

قطرہ قطرہ بجھی ہے آنکھوں میں

درد کی آنچ روشنی کی طرح

منجمد تیرگی ہے چار طرف

آج کس در سے مانگنے جائیں

زخم احساس، زندگی کی طرح

غم ہی ہوتا تو غم گسار آتے

ہجر کی رات ہم گزار آتے

٭٭٭

 

 

 

 

ہم نے بھلا کس سے کہا

 

کرتے رہے ہم عمر بھر

کس رہ گزر کی جستجو

آنکھوں سے کیوں اوجھل ہوا

منسوب جس کے نام تھی

ہر روشنی، ہر آرزو

سفاک تھی موج بلا

مرگ تمنا عام تھی

چپ چاپ ہم کس کے لیے

تھامے رہے جلتے دیے

دیکھو کہ پھر صیقل ہوئے

شہر وفا کے آئینے

آتی رتوں کی آہٹیں

بہتے دنوں کے نقش پا

دیکھو کہ وہ آرام جاں

ہم پر ہوا پھر مہرباں

ہم نے بھلا کس سے کہا!!!

٭٭٭

 

 

 

 

تم نے ایسا کیوں سوچا تھا

تم نے ایسا کیوں سوچا تھا

خوابوں کی مالا ٹوٹی تو

خالی ہاتھوں لاج آئے گی

گونگی ہو جائیں گی آنکھیں

گیت سے خوشبو کترائے گی

رنگت پھیکی پڑ جائے گی

خوابوں کی مالا ٹوٹی تو

تم نے ایسا کیوں سوچا تھا

آرزوؤں کے راج دو محلے

بن جائیں گے ریت گھروندے

چاند کی کشتی کیوں اترے گی

شبنم جلوؤں کو ترسے گی

خوابوں کی مالا ٹوٹی تو

تم نے ایسا کیوں سوچا تھا

تم تو میرے پاس ہو اب تک

موتی میری جھولی میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سانجھ سویرے

بھگی بھیگی پلکوں والی

جتنی آنکھیں ہیں میری ہیں

دکھ کی فصلیں کاٹنے والے

جتنے ہاتھ ہیں میرے ہیں

شاخ سے ٹوٹی کچی کلیاں

الجھی الجھی لٹ بھی میری

دھجی دھجی آنچل بھی

کالی رات کی چادر اوڑھے

اجلے دن کا رستہ دیکھ رہی ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بستیاں ویراں نہیں

 

نہیں، یہ بستیاں ویراں نہیں

اب بھی یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں

یہ وہ ہیں جو کبھی

زخم وفا، بازار تک آنے نہیں دیتے

یہاں کچھ خواب ہیں

جو سانس لیتے ہیں

جوان خوابوں کو تم دیکھو تو ڈر جاؤ

فلک آثار بام و در

یہاں وقعت نہیں رکھتے

کلاہ و زر یہاں قیمت نہیں رکھتے

یہ جتنے لوگ ہیں

بے نام ہیں، بے لاگ ہیں

بے ساختہ جینے کے طالب ہیں

یہ دل کے بوجھ کا احوال

اپنے حرف، خود لکھنے کے طالب ہیں

اجالے کی سخی کرنوں کو

زنداں سے رہائی دو

٭٭٭

 

 

 

 

خالی ہاتھ

جب اس کے ساتھ تھی

میں اس وسیع کائنات میں

نفس نفس، قدم قدم

نظر نظر امیر تھی

اور اب

غبار روز و شب کے جال میں اسیر ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

نور کے نام

 

(اقتباس)

تم اب میرے سرہانے موتیا کے پھول

رکھنا بھول جاتے ہو

سویرا ہو تو کیسے ہو

اجالا، اب مرے دل تک نہیں آتا

دھنک کے رنگ آنچل سے پھسل کر گر چکے ہیں

مسافر خواب کو رستہ مرے گھر کا نہیں ملتا

کوئی شیریں نوا طائر

کسی رت کا سندیسہ اب نہیں لاتا

تو کیا سب آئینے ٹوٹے

تو کیا اب یہ زمین و آسماں بدلے

یہ سناٹا، اندھیرا اور تنہائی

یہ ویرانی

تمہارے بس میں تھا کار مسیحائی

نہ جانے تم کہاں ہو!!

٭٭٭

 

 

 

 

دوسرا قدم

 

یہ شوخ لال اوڑھنی

یہ مامتا کی چھاؤں میں

گلاب سے الجھ گئی

نگہ سے پھوٹتی کرن

لبوں پہ کھیلتی ہنسی

یہ میرے گھر کی چاندنی

مرے سحر کی روشنی

جمال شہر آبرو

غرور حرف آرزو

یہ پارۂ جگر مرا

فسانہ دگر مرا

ہے مستجاب ہر دعا

مری نظر، مری نوا

ہر ایک خواب دل ربا

امر ہوا، امر ہوا

چراغ ہاتھ ہاتھ ہے

تسلسل حیات ہے

وہ با مراد ہو گئے

جو مر کے بھی نہ مٹ سکے

٭٭٭

 

 

 

اپنے بیٹے عزمی کے نام

 

(اقتباس)

 

وداع کی گھڑی سہی

ذرا سنبھل

ذرا قدم بچا کے چل

کہ چبھ نہ جائیں تیرے پھول جیسے پاؤں میں

ان آئینوں کی کرچیاں

جنہیں کسی نے اشک اور کسی نے حرف آرزو کہا

کسی نے کاسہ دعا

کہ میرے پاس تیری نذر کے لیے

کچھ اور تھا بھی کیا

یہ آنسوؤں کے روپ میں

گئی رتوں کے آئنوں کی کرچیاں

پلک سے تھم نہ پائیں گی

ترے سفر کے راستوں میں آئیں گی

وداع کی گھڑی سہی

ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل

میں اپنے دل کے بت کدے میں

یہ چراغ آئنے سنوار لوں

ان آئینوں میں تیرا حسن بے مثال ہے

ان آئنوں میں میری آرزو کے لمحے لمحے کا جمال ہے

وداع کی گھڑی سہی

ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل

ذرا قدم بچا کے چل

٭٭٭

 

 

 

 

اس کو نزدیک آنے نہ دو

 

 

نہیں

میرے بچو!

جدائی تو عفریت ہے

سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے

اس کو نزدیک آنے نہ دو

تم مجھے دیکھ لو

کسی یقیں اور کتنے تحمل سے میں

روز ہر روزن ور کے آگے

حصار دعا کھینچ دوں

تم مری آنکھ میں اعتبار نگہ کی طرح

فاصلے دوریاں کچھ نہیں

تم مرے پاس ہو میں تمہارے قریں

تم تو خود اپنی دھرتی کا چہرہ ہو

آواز ہو

تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں

ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں

ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں

اور گل مہر کی مہرباں چھاؤں بھی

اور دیوار پر جاگتا بولتا لمس کا یہ نشاں

ہے یہاں جیسے دیپک کی لو

اور وہاں روشنی

میں تو جس آئینے میں بھی چاہوں

تمہیں دیکھ لوں

موتیا کی کلی جب بھی چٹکی ہے

اس میں تمہاری ہنسی گھل گئی

اور چمپا کی خوشبو میں لہجے کی دھیمی مہک تل گئی

دیکھ لو کس طرح

کہر آلود موسم کی سختی سے بچتی رہی

یاد کی بھیگتی چاندنی میں

میں اب بھی بہاروں سے لے کر

ردائے صبا اوڑھ لوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

شجر نازاں

شجر گل بار اور نازاں

نمو کے راز سے سرشار، خود حیراں

شجر سایہ فگن، گل بار اور نازاں

ابھی کل تک بس اک کونپل کی صورت تھا

جو میرے لمس کی کرنوں سے

ہر رنگت کا خواہاں تھا

غم خود آشنائی کی ہر اک لذت

نمو کی دل ربا وحشت کا خواہاں تھا

اسیر شش جہت نے اس گھڑی جس سمت بھی دیکھا

وہ میری ہی نگاہیں تھیں

مرے ان ناتواں ہاتھوں میں تھیں

جتنی پناہیں تھیں

جو آنسو تھا وہ شبنم سا

وہ لمحہ تھا، بشارت تھا

شجر سایہ فگن گل بار اور نازاں

وہ کل بھی تھا مرے ہر خواب کا عنواں

وہ اب بھی ہے مری تکمیل کا ساماں

جہاں تک اس کی خوشبو ہے وہاں میں ہوں

مرے عامر!

یہ میری اور تمہاری ہی کہانی ہے

گھنا سایہ وہیں تک ہے جہاں تم ہو

گھنیری چھاؤں مل جائے

تو موسم کی تمازت ہار جاتی ہے

دلوں میں پھول کھل جائیں

تو ویرانوں کی شدت ہار جاتی ہے

(اقتباس)

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

(اقتباس)

وہ کم عمری تھی

نادانی کے دن تھے

اور میں نے وقت کے ساحر سے

پوچھا تھا پتا اپنا

پھر اس جادو کے لمحے نے

نہ جانے کیا کہا مجھ سے

نہ جانے کیا سنا میں نے

کہ میں اب تک سفر میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

شہر درد

 

 

ساتھ بے شک تمہارا نہیں دے سکی

میں کبھی نقش پا کی صفت پیچھے پیچھے چلی

تاکہ مسلی ہوئی پنکھڑیاں چن سکوں

جو تمہارے ہی قدموں تلے آ کے روندی گئیں

پیرہن تار تار، انگلیاں خونچکاں

اپنا مسلک مگر بر تر از جسم و جاں

کند ہوتے نہیں درد احساس کے نیشتر

دل کو پھر بھی نہیں خواہش درگزر

جو خطا آج بھی مجھ سے سرزد ہوئی

اس خطا سے مجھے آج تک پیار ہے

ان رہوں میں کوئی میں اکیلی نہیں

اور آشفتہ سرساتھ ہیں

وہ جو غیروں کے پتھراؤ پر ہنس پڑے

اور اپنوں کے پھولوں سے زخمی ہوئے

اقتباس

٭٭٭

 

 

 

 

اس تضاد شب و روز میں

 

 

زندگی رقص آئینہ گر

اور میں آئینہ

صرف پرچھائیاں اور میں

میری مانوس تنہائیاں اور میں

ذات کی ریشمیں، نرم آغوش میں

موت کا سا سکوں

جیسے اک ساغر واژ گوں

جیسے پلکوں کی موہوم سی جنبش بے زباں

گھاس کی سبز پتی

کسی پھولوں کی پنکھڑی کی طرح ناتواں

خواب پروائیاں

اور میں،

عکس، تصویر، تفسیر تشہیر بھی

اپنے پیروں کی زنجیر بھی

نظم مزید آگے بڑھتی ہے تو ادا کہتی ہیں :

زہر احساس نس نس میں شعلہ فشاں ہو تو پھر

میرے مغرور فن کا ہر اک معجزہ

جرأت آگہی

جاگ اٹھے

شہر جاں میں کوئی رنگ مدھم نہیں

وحشت شوق کو زاد رہ کے لیے

سلسبیل نگہ کم نہیں

اور میں اس تضاد شب و روز میں

جتنے رنگوں کی پہچان ہوں

ان کو پہچان لوں

پھر مرے روبرو

رقص آئینہ گر آئینہ!

٭٭٭

 

 

 

 

نوجوان نسل کے نام

 

(اقتباس)

 

مرے بچو!

تم آنے والے موسم کی دعا ہو

تمہیں ورثے میں ہم نے کیا دیا

کیا دے سکے ہیں

گزر گاہوں پہ بہتا خوں

ہوائیں شعلہ ساماں

خوف اور نفرت سے آلودہ

مرے بچو!

محبت اور قیادت کے سبھی منظر تمہارے منتظر ہیں

کہ تم اس سر زمیں

اس آسماں کی آبرو ہو

جنہیں کھلنا ہے

ان پھولوں کی خوشبو ہو

٭٭٭

 

 

 

 

سترہ دن بعد

 

صدیاں لمحوں میں گزر جاتی ہیں قوموں کے لیے

اور کبھی ایک ہی لمحے کا فسوں

بے کراں ہوتا ہے، آفاق پہ چھا جاتا ہے

قوم کو رسم و رہ درد سکھا جاتا ہے

مجھ سے پوچھو تو وہ بس ایک ہی لمحہ تھا کہ جب

اک جری قوم نے جینے کی قسم کھائی تھی

ایک ملت کے مقدر کا ستارا جاگا

پاک مٹی کا نصیبہ جاگا

پاک مٹی گل و گلزار بنی

تیرگی چھائی تھی ہر سمت مگر چھٹ ہی گئی

رات بھاری مرے بیمار پہ تھی کٹ ہی گئی

اور شفق میرے شہیدوں کے لہو سے رنگیں

صبح کے ریشمیں آنچل پہ صبا ٹانک گئی

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی پیماں نہیں

 

آج دامن کشاں کوئی پیماں نہیں

زخم جاں سے بھی گھر میں چراغاں نہیں

شہر دل کے لیے کوئی فرماں نہیں

آج ہر مہرباں ہاتھ ہے خونچکاں

پیار کے گیت، ہونٹوں پہ ہیں منجمد

آج حسن و صداقت کو کیا ہو گا

میرے ریحان و سروو سمن کیا ہوئے

وہ جمال و وقار چمن کیا ہوئے

آج کھیتوں میں نفرت کی فصلیں اگیں

میرے اپنے درختوں کی شاخیں صلیبیں بنیں

میرے بچوں کو کیسی امانت ملی

خوں میں لتھڑا ہوا یہ سیہ پیرہن

میری نسلوں کو میری وراثت ملی

٭٭٭

 

 

 

 

 

غزالاں تم تو واقف ہو

 

 

محبت پا بہ جولاں تھی

وفا صحرا گزیدہ

زندگی پیمان گم گشتہ

تمنا مہر بر لب حرف خاموشی تہی کیسہ

نہ جانے کون بسمل تھا

نہ جانے کون قاتل تھا

یہاں تو رہزن و رہبر یہی دل تھا

جو مونس تھی

تو بس سفاک تنہائی

بگولوں کی ردا اوڑھے ہوئے

اک دیدۂ بے خواب سے سرو چراغاں تک

انہیں بے آس ہاتھوں کی

دعائے برگزیدہ سے جمال روئے تاباں تک

۔۔۔۔ لہو کے رنگ سے گل رنگ صحرا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

سلسلے

 

 

وہ سب صحیفے

صداقتوں کے جو ترجماں ہیں

ان آیتوں کی گواہیاں ہیں

وہ سارے الفاظ جو ابھی تک

کسی زمیں پر

کسی زباں میں لکھے گئے ہیں

ہمارے خوابوں کے سلسلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خسارہ

 

 

روزنوں سے قدموں تک

مکڑیوں کے جالے ہیں

گرد سے اٹے پیکر

بے چراغ آنکھوں سے

دیکھنا بھی کب چاہیں

ورنہ ہر زمانے میں

آئینہ تو دل بھی ہے

ہر طرف اندھیرے ہوں

آدمی کے اندر بھی خوش نما اجالے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

رسم تعارف

 

تیسرے سرشار جلووں کی درگاہ میں

ہم اندھیری رتوں کے سفیران درد آئے ہیں

رات کے درد سے تو بھی آگاہ ہے

تیرے ماتھے پہ بھی گرد ہی گرد تھی

تیری جھولی میں بھی راکھ ہی راکھ تھی

آنچلوں کی دھنک بجھ گئی

عارضوں کی شفق بجھ گئی

تو نے جھیلیں کڑے وقت کی زہر افشانیاں

جنگ اور موت کی قہر سامانیاں

تیرا ہیروشیما

زخم سا زخم تھا

اے نگار حیات آشنا!

رات بھی کٹ گئی

گرد بھی چھٹ گئی

زخم بھی بھر گئے

تیری کرنوں کا رقص صبا زندہ ہے

تیرے پھولوں کا رنگ حنا زندہ ہے

تیری گلیوں میں اے وادی مہرباں

زندگی سے ہمارا تعارف ہوا!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

تضاد رنگ

 

تری سحر بھی گل عذار و لالہ زار

مری سحر بھی میرے عکس خواب سے لہو لہو

شفق نہاد رنگ ہے

افق سواد رنگ ہے

یہ اتصال رنگ بھی، مگر تضاد رنگ ہے

تری سحر کے پاس میرے دن کی روشنی نہیں

(اقتباس)

٭٭٭

 

 

 

 

زخم تماشا

 

اقتباس

 

سورج ابھرا تو جبینوں سے کرن بھی پھوٹی

دھوپ چمکی ہے تو آنگن میں اجالا امڈا

اور کچھ دور۔۔۔ بہت دور نہیں

شوخ رنگین اجالوں کے قریں

کتنے گہرے ہیں دھوئیں کے بادل

ارض کشمیر سے وتنام تلک

امن کے خواب سے نیپام تلک

ماند پڑتی ہوئی چہروں کی جلا یاد آئی

دیس پردیس کے زخموں کی حنا یاد آئی

٭٭٭

 

 

 

 

صدیوں کا سفر

 

مرا حصہ، بس اک محدود جلوہ ہے

یہ آنکھیں وسعت افلاک کی

رعنائیوں کی داد کیسے دیں

کہ میں نے آسماں کو

روزن زنداں سے دیکھا ہے!!

٭٭٭

 

 

 

 

سفر باقی ہے

 

 

بتائیں کیا

ہمارے زخم زخم کے گلاب

ماہ و آفتاب

سب گواہ ہیں

کہ ہم نے کیا نہیں سہا

صعوبتوں کے درمیاں، ہمارے ساتھ اک یقیں رہا

گواہ یہ زمین اور زماں رہے

نہ آج سوگوار ہیں

نہ کل ہی نوحہ خواں رہے

شرر جو کل لہو میں تھے

وہ آج بھی لہو میں ہیں

ہمارے خواب سانس لے رہے ہیں آج بھی

کوئی دیا بجھا نہیں

کہ ہم ا بھی تھکے نہیں

کہ ہم کبھی تھکے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

شگوفے

آج سے پہلے بھی پھوٹے ہوں گے

یہ شگوفے یہ لجیلے لپنے

یہ بہاروں کے سجیلے سپنے

اسی شوخی اسی رعنائی سے

یہی لہجہ یہی لہجے کی کھنک

یہ سجاوٹ یہ سجاوٹ کی جھمک

یہ نگاہیں یہ نگاہوں کی جھجک

اسی معصوم و برنائی سے

شکوہ بیگانہ نگاہی کا لیے

شاخ میں پہلے بھی پھوٹے ہوں گے

یہ شگوفے یہ لجیلے سپنے

٭٭٭

 

 

 

 

بیزاری

 

زیست اک خواب طرب ناک و فسوں ساز سہی

رس بھرے نغموں کی اک دل نشیں آواز سہی

فرش مخمل بھی زر و سیم کی جھنکار بھی ہے

جنت دید بھی ہے عشرت گفتار بھی ہے

چشم سرشار کا اعجاز سہی–

قہر ہے اف، یہ تسلسل یہ تواتر، یہ جمود

یہ خموشی، یہ تسلی، یہ گراں بار سکوت

شوق کو رخصت پرواز نہیں

رفعت روح کا دربار نہیں

جسم آسودہ سہی روح مگر ہے بے تاب

ایک بے نام تغیر کے لیے–

(اقتباس)

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100024.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید