FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

احکام و مسائل

حصہ اول

فہرست مضامین

(نماز، عیدین، قربانی، ازدواج، وراثت اور میت کے احکام)

ابو محمد عبدالستارالحماد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

نماز کے مسائل

ہمارے والد محترم دو دن تک بے ہوش رہے، اس دوران انہیں کسی چیز کا شعور نہیں تھا، کیا فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری ہے، کتاب و سنت کے مطابق وضاحت کریں ۔ (نور خاں ۔ میانوالی)

جو شخص بے ہوش رہا اور اسے کسی چیز کا شعور نہیں تھا تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے، البتہ جن عبادات کا تعلق اس کے مال سے ہے وہ ادا کرنا ہوں گی اور بدنی عبادتیں مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ ایسے شخص سے ساقط ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر ایک دن رات بے ہوشی طاری رہی تو انہوں نے اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا نہیں دی تھی۔ (مصنف عبدالرزاق ص479ج2) البتہ بے ہوش آدمی کے مال سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی، اس کی ادائیگی ضروری ہے، ہمارے نزدیک اگر بے ہوشی بغیر سبب کے ہو تو بدنی عبادات ساقط ہو جاتی ہیں اور اگر اس کا کوئی سبب ہو مثلاً شراب نوشی یا بھنگ وغیرہ کے استعمال سے بے ہوشی طاری ہو تو اس قسم کی بے ہوشی میں نمازیں ساقط نہیں ہوں گی۔ بلکہ اس دوران فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری ہے، سوئے ہوئے انسان کو بے ہوش قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سوئے ہوئے انسان میں ادراک ہوتا ہے اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو سکتا ہے لیکن بے ہوش انسان میں ادراک نہیں ہوتا کہ اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا، سوئے ہوئے انسان کے متعلق ارشاد نبوی ہے : ’’ جو شخص نماز بھول جائے یا اس سے سویا رہے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے جب یاد آئے تو پڑھ لے۔ “ (صحیح بخاری، الواقیت : 597)

اس لئے بے ہوش انسان سے نماز ساقط ہے اور سوئے ہوئے کے ذمے واجب الاداء ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 32 جلد نمبر 39      28 رجب تا 4 شعبان 1429 ھ      02 تا 08 اگست 2008

 

کیا دوران نماز کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانا ضروری ہے ؟ اس کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی وضاحت وارد ہے۔ (منیر احمد۔ گجرات)

احادیث میں صف بندی کا معیار یہ ہے کہ صف میں کھڑے ہوئے نمازیوں کے ٹخنے ایک دوسرے کے برابر ہوں صرف انگلیوں کے کناروں کا ملنا کافی نہیں ہے، ٹخنے ملانے سے صفوں میں برابری بھی آتی ہے اور درمیان میں آنے والا خلا بھی پر ہو جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابر کرو، خلا کو پر کرو، اپنے بھائیوں کے لئے نرم ہو جاؤ، شیطان کے لئے صف میں خالی جگہیں نہ چھوڑو، جس نے صف کو ملایا اللہ اس سے ملائے گا اور جس نے صف کو کاٹا اس سے تعلق کاٹ لے گا۔ (ابوداؤد، الصلوٰۃ : 666)

ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ مل جاؤ اور برابر ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد ص 268 ج3)

نمازیوں کے پاؤں مختلف ہوتے ہیں ، کسی کا پاؤں لمبا ہوتا ہے اور کسی کا چھوٹا ہوتا ہے لہٰذا صفوں کی درستی اور برابری ٹخنوں ہی سے ہو سکتی ہے صحابہ کرام کا عمل حدیث میں آیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ٹخنوں کے ساتھ ٹخنے ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہم میں سے ایک آدمی دوسرے کے ٹخنے کے ساتھ اپنا ٹخنا ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ (صحیح بخاری، تعلیقاً)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا کندھا دوسرے کے کندھے کے ساتھ اور اپنا قدم دوسرے کے قدم کے ساتھ ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ (صحیح بخاری، الاذان : 725)

واضح رہے کہ ٹخنے سے ٹخنا ملانا صرف کھڑے ہونے کی حالت میں ہے ہر نمازی کو چاہئیے کہ وہ قیام اور رکوع کی حالت میں اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ لگا دے تا کہ صفیں سیدھی اور برابر ہو جائیں اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ساری نماز میں ایک دوسرے کے ٹخنے آپس میں چمٹے رہیں ، ہمارے ہاں اس سلسلہ میں کچھ غلو بھی کیا جاتا ہے کہ ٹخنے سے ٹخنا ملانے کے لئے حد سے زیادہ پاؤں کھول دئیے جاتے ہیں ۔ اس وجہ سے پاؤں پھیل جاتے ہیں کہ ساتھی کے کندھوں کے درمیان بہت فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے، ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ صف بندی میں مقصود یہ ہے کہ نمازیوں کے کندھے اور ٹخنے برابر ہوں اس طرح یہ بھی تفریط کی ایک صورت ہے کہ ہم دوران نماز صرف پاؤں کی انگلیاں ملاتے ہیں اور ٹخنوں کو ملانے کی زحمت نہیں کرتے، صف بندی کا تقاضا یہ ہے کہ صفیں سیدھی اور برابر ہوں اور صفیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوں ، کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنا ملا ہوا ہو، اس کے لئے اپنے وجود کے مطابق پاؤں کھولنا چاہئیے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 32 جلد نمبر 39      28 رجب تا 4 شعبان 1429 ھ      02 تا 08 اگست 2008 ء

 

بعض نمازی، نماز کے دوران اپنا سر کھجلاتے اور انگلیاں چٹخاتے رہتے ہیں ، نماز میں ایسی حرکات کی کیا حیثیت ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں ۔ (محمد اکرم بھٹی۔ شورکوٹ)

دوران نماز انگلیوں کے پٹاخے نکالنا اور اپنا سر کھجلانے سے نماز باطل تو نہیں ہوتی، البتہ ایسے فضول کام نمازی کے شایان شان نہیں ہیں ، ایسی حرکات سے دوسروں کو بھی تشویش ہوتی ہے،

دوران نماز حرکات کئی ایک اقسام پر ہیں ۔

اگر کسی حرکت پر نمازی کا کوئی فعل واجب موقوف ہو تو ایسی حرکت ضروری ہے مثلاً دوران نماز اگر پتہ چل جائے کہ اس کے رومال پر نجاست لگی ہے تو نمازی کے لئے اس طرح کے نجاست آلود رومال کو اتارنا ضروری ہے، اس کے لئے حرکت کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز نجاست آلود جوتا اتار دیا تھا جبکہ آپ نماز جاری رکھے ہوئے تھے۔

اگر کسی حرکت پر نماز کا کمال اور موقوف ہو تو ایسی حرکت مسنون ہے مثلاً اگر دوران نماز صف میں خلل آ جائے تو اس خلا کو پر کرنا اور صف کے قریب ہونا، ایسی حرکت مسنون ہے، بعض اوقات ساتھ والے نمازی کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ایسی صورت میں حرکت کر کے خلا کو پر کر دیا جائے۔

جس حرکت کی نماز میں ضرورت نہ ہو اور نہ ہی اس پر نماز کا کمال موقوف ہو ایسی حرکت مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، مثلاً دوران نماز بلا ضرورت اپنے سر کو کھجلانا یا انگلیوں کو چٹخارنا، اسی طرح اپنی ناک میں انگلی ڈالنا، یہ سب ناپسندیدہ اور مکروہ حرکات ہیں ۔

اگر کوئی نمازی دوران نماز بے فائدہ اور فضول حرکت کو جاری رکھے اور اسے مسلسل کرتا رہے تو ایسی حرکت حرام اور ناجائز ہے۔ مثلاً قیام کی حالت میں کوئی فضول حرکت شروع کی اور پھر رکوع اور سجدہ کی حالت میں بھی اسے جاری رکھے حتیٰ کہ نماز کی صورت ہی ختم ہو جائے، ایسی حرکت حرام ہے اور اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے، ایسی حرکات سے نمازی کو احتراز کرنا چاہئیے۔

اگر کوئی ضرورت پیش آ جائے اور ضرورت کے مطابق حرکت کرے تو ایسی حرکت مباح ہے مثلاً سر میں کھجلی ہو تو بقدر ضرورت کھجلی کرنے کے لئے حرکت کرے یا آنکھوں پر رومال گر جائے تو اسے دور کرنے کے لئے حرکت کرے تو ایسا کرنا مباح اور جائز ہے۔

بہرحال دوران نماز بلا ضرورت حرکات کرنا جائز نہیں ہے اور ایسا کرنا نمازی کے خشوع کے بھی منافی ہے۔ لہٰذا ایسے افعال اور ایسی حرکات سے احتراز کرنا چاہئیے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 32 جلد نمبر 39      28 رجب تا 4 شعبان 1429 ھ      02 تا 08 اگست 2008 ء

 

میری بیوی بے نماز اور نافرمان ہے، کیا اس وجہ سے میں اسے طلاق دے سکتا ہوں ؟ نیز بتائیں کہ کن کن حالات میں بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے۔ (عبدالحمید۔ لاہور)

نکاح صرف پیاس بجھانے اور افزائش نسل کا ذریعہ نہیں بلکہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو باہمی محبت و یگانگت اور ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے سکون ہوتا ہے اور دونوں میں ایک دوسرے کے لئے اس قدر کشش رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کر سکون حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ جب مرد دیکھے کہ بیوی میرے لئے جسمانی یا ذہنی سکون کا ذریعہ نہیں بلکہ روح کو بے چین کرنے کا باعث ہے تو پھر نکاح کے بندھن کو کھول دینے پر غور ہو سکتا ہے، سکون و اطمینان کے فقدان کا باعث بیوی کی طرف سے نشوزو نافرمان ہونا ہے۔ جو طلاق کے لئے تمہید بنتا ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، اگر نہ سمجھیں تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو پھر بھی نہ سمجھیں تو انہیں مارو پھر وہ اگر تمہاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ “ (النساء : 34)

نشوز کا لغوی معنی اٹھان اور ابھار کے ہیں ، اصطلاحی طور پر نشوز سرکشی کو کہتے ہیں مثلاً :

عورت، اپنے خاوند کو اپنا ہمسر یا اپنے سے کمتر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لئے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو یا اس کی اطاعت کے بجائے اس سے سرکشی اور کج روی کرتی ہو، خندہ پیشانی سے پیش آنے کے بجائے بدخلقی اور پھوہڑ پن کا مظاہرہ کرتی ہو، بات بات پر ضد کرتی ہو، ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو۔ یہ تمام باتیں نشوز کے معنی میں داخل ہیں .

ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدامات کرنے کی اجازت دی ہے۔

1      اسے نرمی سے سمجھایا جائے کہ اس کے موجودہ رویہ کا انجام برا ہو سکتا ہے۔

2      اگر وہ اس کا اثر قبول نہ کرے تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے۔

3      اگر وہ سرد جنگ کو نہیں چھوڑتی تو اسے ہلکی پھلکی مار دی جائے، اس مار کی چند شرائط ہیں کہ اس مار سے ہڈی پسلی نہ ٹوٹے اور چہرے پر نہ مارے، اگر یہ تمام حربے ناکام ہو جائیں تو طلاق سے قبل فریقین اپنے اپنے ثالث مقرر کریں جو اصلاح کی کوشش کریں ۔ اگر اس طرح اصلاح نہ ہو سکے تو آخری حربہ طلاق دینے کا ہے۔ صورت مسؤلہ میں اگر بیوی بے نماز یا نافرمان ہے تو مذکورہ بالا اقدامات سے اصلاح کی جائے بصورت دیگر طلاق دے کر اسے فارغ کر دیا جائے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 14 جلد نمبر 39      20 رجب تا 26 رجب 1429 ھ      29 مارچ تا 4 اپریل 2008 ء

مسجد میں بآواز بلند قرآن مجید کی تلاوت کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے جبکہ اس کی تلاوت دوسرے نمازیوں کے لئے تشویش کا باعث ہو، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ (عبدالودود۔ ملتان)

جب مسجد میں لوگ نماز پڑھ رہے ہوں اور قرآن کی تلاوت ان نمازیوں کے لئے خلل کا باعث ہو تو ایسی حالت میں بآواز بلند تلاوت کرانا حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے چنانچہ آپ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لائے جبکہ لوگ اس طرح نماز پڑھ رہے تھے کہ تلاوت کرتے وقت ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں تو آپ نے فرمایا : ’’ بے شک نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہئیے کہ وہ اپنے رب سے کیا سرگوشی کر رہا ہے اور کوئی کسی سے بڑھ کر بلند آواز میں تلاوت نہ کرے۔ “ (ابوداؤد، الصلوٰۃ : 1332) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازیوں کے پاس بآواز بلند قرآن پاک کی تلاوت کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا نمازیوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29

جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

 

کچھ لوگ مسجد میں آتے ہیں تو جماعت کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں ، کیا اس طرح تحیۃ المسجد کی دو رکعات ترک کر دینا جائز ہے۔ (ابوبکر۔ فیصل آباد)

تحیۃ المسجد کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت ادا کئے بغیر وہ نہ بیٹھے، اس حدیث کے پیش نظر نمازی کو تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہئے، اگر اس نے جماعت سے پہلے سنت وغیرہ پڑھ لی ہیں تو تحیۃ المسجد اس سے ادا ہو جائے گا، اگر جماعت کے لئے تھوڑا سا وقت باقی ہو کہ اس میں تحیۃ المسجد ادا نہ کیا جا سکتا ہو تو مسجد میں آ کر کھڑے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر معلوم نہ ہو کہ امام کب آئے گا تو تحیۃ المسجد شروع کر دے پھر اگر امام آ جائے اور جماعت کے لئے اقامت کہہ دی جائے تو تحیۃ المسجد کو ختم کر کے جماعت میں شامل ہو جائے بصورت دیگر اسے پورا کرے، بہرحال مسجد میں آنے کے بعد اگر دو رکعت ادا کرنے کا وقت ہو تو کھڑے رہنا اچھا نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ دو رکعت پڑھ کر با وقار طریقہ سے بیٹھ جائے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29

جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

اگر کپڑوں کو قربانی کا خون اور اس کا پیشاب لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز پڑھی جا سکتی ہے ؟ (محمد دین۔ شاہ کوٹ)

قربانی کو ذبح کرتے وقت جو خون تیزی سے نکلتا ہے جسے دم مسفوح کہا جاتا ہے اگر یہ خون کپڑوں کو لگا ہوا ہے تو اس کی موجودگی میں نماز نہیں ہوتی ہے کیونکہ قرآن کریم نے اسے حرام کہا ہے، اس کے علاوہ اگر خون لگا ہے تو اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، اسی طرح جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پلید نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا تھا جبکہ وہ مدینہ کی آب و ہوا سے بیمار ہو گئے تھے۔ (صحیح بخاری، الوضوء : 333)

اگر یہ حرام یا نجس ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بطور دوا استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ کیونکہ حرام چیزوں میں شفا نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جنہیں تم پر حرام کیا ہے۔ “ (ابوداؤد، الطب : 3870) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو اونٹوں کا پیشاب پینے کا کہا تھا انہیں اس سے شفا ہوئی جو کہ اس کی حلت اور طہارت کے لئے کافی ہے۔ اس لئے اگر کپڑوں کو قربانی کا پیشاب وغیرہ لگا ہو تو اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 2 جلد نمبر 39      25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ      5 تا 11 جنوری 2008 ء

ہوائی جہاز میں فرض نماز کے متعلق شریعت میں کیا ہدایات ہیں ؟ کیا نماز مؤخر کر دی جائے یا اسے دوران سفر ہی پڑھ لیا جائے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں ۔ (قاری حبیب اللہ بسمل۔ فیصل آباد)

نماز میں دو چیزیں انتہائی ضروری ہیں ، ایک قبلہ رخ ہونا اور دوسرا قیام۔ سواری پر نماز پڑھنے سے یہ دونوں چیزیں تقریباً مشکل ہوتی ہیں ۔ البتہ دوران جنگ، استقبال قبلہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے، اس طرح سفر میں نوافل سواری پر پڑھے جا سکتے ہیں ، البتہ ان دونوں صورتوں میں بھی تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے، دوران سفر نوافل پڑھنے کے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کرتے، جب دوران سفر نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی کو قبلہ رخ کر لیتے پھر اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد جس طرف بھی سواری منہ کر لیتی آپ نماز جاری رکھتے تھے۔ (ابوداود، الصلوٰۃ : 1225)

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر فرض نماز نہیں پڑھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر نفل پڑھ لیتے تھے جس طرف بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا رخ ہوتا اور اس پر وتر بھی پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ “ (صحیح البخاری، الوتر : 999) ان احادیث میں صراحت ہے کہ سواری پر نوافل پڑھنے کی گنجائش ہے ہاں اگر سواری ایسی ہو جس میں استقبال قبلہ اور قیام کی سہولت ہے تو اس سواری پر فرض نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ ٹرین میں نماز کے لئے جگہ مخصوص ہوتی ہے، ہوائی جہاز میں بھی ایسا ممکن ہے، اس بناء پر ہوائی جہاز میں نماز پڑھنے کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے۔

٭ ہوائی جہاز میں نفل نماز اپنی سیٹ پر بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ ابتداء کرتے وقت اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو، اس کے بعد اس کا رخ کسی بھی طرف ہو جائے۔ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کر سکتا ہے۔

٭ فرض نماز ہوائی جہاز میں نہ پڑھے الا یہ کہ ساری نماز قبلہ رخ ہو کر ادا کرنا ممکن ہو اور قیام، رکوع و سجود بھی ممکن ہو۔ ان کی ادائیگی اگر نہ ہو سکے تو ہوائی جہاز میں فرض نہ پڑھے۔

اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو نماز کو موخر کر دے اور ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد اسے زمین پر ادا کرے تا کہ استقبال قبلہ اور قیام، رکوع و سجود کو صحیح طور پر ادا کر سکے، اگر ہوائی جہاز سے اترنے سے پہلے نماز کا وقت کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اسے دوسری نماز کے ساتھ جمع کر کے ادا کرے اور نماز کی شرائط، ارکان اور واجبات جس قدر ممکن ہوا ادا کرے مثلاً اگر ہوائی جہاز غروب آفتاب سے تھوڑی دیر پہلے پرواز شروع کرے اور فضا میں ہی سورج غروب ہو جائے تو وہ نماز مغرب جہاز سے اترنے کے بعد ادا کرے اور اگر مغرب کا وقت ختم ہو جانے کا اندیشہ ہو تو جہاز سے اترنے کے بعد مغرب کی نماز عشاء کی نماز کے ساتھ جمع کر کے پڑھ لے، واضح رہے کہ ہوائی جہاز میں مسافر کی نماز قصر ہو گی یعنی چار رکعت والی نماز کی صرف دو رکعات ادا کرنا ہوں گی، کیونکہ ہوائی جہاز کا سفر اتنا ضرور ہوتا ہے جس میں نماز قصر ادا کی جاتی ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 10 جلد نمبر 39      22 تا 28 صفر 1429 ھ      1 تا 7 مارچ 2008 ء

نماز فجر کے بعد سجدہ تلاوت کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ جبکہ نماز فجر کے بعد سجدہ کرنے کی ممانعت حدیث سے ثابت ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں ۔ (حبیب الرحمن خلیق۔ فیصل آباد)

سجدہ تلاوت کے لئے نماز کی شرائط نہیں ہیں ، علماء سلف میں سے کسی نے اسے نماز نہیں کہا ہے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ سجدہ تلاوت چونکہ نماز نہیں ہے اس لئے اس کے لئے شروط نماز مقرر نہیں کی جائیں گی، بلکہ بغیر وضو کے بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اس کی دلیل ہے۔ (مجموعہ الفتاویٰ ص 165، ج23)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا حوالہ امام بخاری نے دیا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، سجود القرآن: 1071 تعلیقاً)

اسی طرح نماز فجر کے بعد سجدہ تلاوت کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، اس سلسلہ میں ایک روایت بھی کی جاتی ہے کہ حضرت ابوتمیمہ بیان کہتے ہیں : میں نماز فجر کے بعد مدینہ طیبہ میں وعظ کرتا تھا، اس دوران آیت سجدہ پڑھنے پر میں سجدہ بھی کرتا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مجھے ایسا کرنے سے منع کرتے تھے لیکن میں باز نہیں آتا تھا، دو تین دفعہ ایسا ہوا آخر انہوں نے حدیث بیان کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھتا رہا ہوں ۔ وہ نماز فجر کے بعد سجدہ نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جاتا۔ (ابوداود، ابواب السجود: 1415)

اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے شارح سنن ابی داؤد علامہ شمس الحق عظیم آبادی کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام کے ہاں اوقات مکروہ میں سجدہ تلاوت جائز نہیں ہے لیکن ظاہر حکم یہ ہے اوقات مکروہ سجدہ تلاوت کیا جا سکتا ہے کیونکہ سجدہ تلاوت نماز نہیں اور جن روایات میں اوقات مکروہ میں سجدہ کی ممانعت ہے اس سے مراد سجدہ تلاوت نہیں بلکہ سجدہ نماز ہے۔ (عون المعبود ص 533 ج 1)

اس کے علاوہ مذکورہ حدیث کی سند کے متعلق علامہ منذری لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی ابوالبحر البکراوی، عبدالرحمن بن عثمان ہے، جس کی موجودگی میں یہ حدیث قابل حجت نہیں رہتی۔ (مختصر ابی داؤد ص 120 ج 2) اس بناء پر نماز فجر کے بعد سجدہ تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسے بلا وضو بھی کیا جا سکتا ہے۔

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 9 جلد نمبر 39      15 تا 21 صفر 1429 ھ      23 فروری تا 29 فروری 2008 ء

 

میں نماز کے بعد آیت الکرسی اور معوذتین پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک مارتا ہوں پھر ان ہاتھوں کو تمام بدن پر پھیرتا ہوں ، لیکن مجھے ایک ساتھی نے کہا ہے کہ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں ۔ (ابوبکر صدیق۔ میرپور خاص)

نماز کے بعد آیت الکرسی اور معوذتین پڑھ کر مروجہ عمل میری نظر سے نہیں گزرا، البتہ سوتے وقت ایسا کرنا مسنون ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب اپنے بستر پر جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اکٹھا کرتے، سورہ


¿ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر ان میں پھونک مارتے پھر انہیں حسب استطاعت تمام بدن پر پھیرتے، اس کا آغاز اپنے سر سے کرتے پھر چہرے پر پھر جسم کے اگلے حصہ پر اس عمل کو تین مرتبہ کرتے۔ (صحیح بخاری، فضائل قرآن: 5017)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ہی سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپ خود موذتین پڑھ کر دم کرتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ تکلیف ہو گئی تو میں معوذتین پڑھتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر اس میں پھونک مارتی پھر اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرتی تا کہ ان سورتوں کی برکت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہو۔ (بخاری، فضائل قرآن: 5016)

اس لئے دم کر کے اپنے ہاتھوں پر پھونک مارنے، پھر انہیں جسم پر پھیرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کیونکہ قرآنی آیات پڑھنے سے انسان کی پھونک میں برکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہی برکت تمام جسم کو مس کرتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ آفات و بلیات سے محفوظ رکھتا ہے لیکن آج کل عاملین حضرات نے دم کرنے کا ایک نیا طریقہ رائج کیا ہے کہ موبائل اور فون میں پھونک مارتے ہیں اور بیمار کو پہلے سے تلقین کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے موبائل یا رسیور کو متاثرہ جگہ پر رکھ لے، قبل ازیں ایک یہ بھی طریقہ رائج تھا کہ سپیکر میں کچھ پڑھ کر پھونک ماری جاتی اور مریدین کو پہلے سے کہہ دیا جاتا کہ وہ پانی سے بھری ہوئی بوتلوں کے ڈھکن اتار دیں تا کہ سپیکر یا فون کے ذریعے وہ برکت پانی میں حلول کر جائے۔ ہمارے نزدیک ایسا دم محل نظر ہے اور اس قسم کے روحانی علاج سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 9 جلد نمبر 39      15 تا 21 صفر 1429 ھ      23 فروری تا 29 فروری 2008 ء

 

جرابوں پر مسح کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، کیا ان کے لئے موٹا یا باریک ہونے کی شرط ہے یا نہیں ؟ آج کل سردی کا موسم ہے اکثر لوگ جرابوں پر مسح کرتے ہیں لیکن کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ موجودہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے۔ ہم لوگ بہت فکر مند ہیں کہ ہماری وہ نمازیں جو ہم نے جرابوں پر مسح کر کے ادا کی ہیں ، وہ کہیں ضائع نہ ہو جائیں ۔ براہ کرم اس کی وضاحت کر دیں ۔ (احمد حسن، اکوڑہ خٹک)

دین اسلام کی بنیاد سہولت پر ہے اور شریعت کے تمام احکام میں اس قدر سہولت رکھی گئی ہے کہ مزید رعایت کا تصور بھی نہیں ہو سکتا، اس لئے دین اسلام رحمت اور دلوں کی تسکین کا باعث ہے آج کل سخت سردی کے دنوں میں جرابوں پر مسح کی سہولت بھی اسی نوعیت کی ہے،

جرابوں پر مسح کے متعلق چند ایک احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی مہم کے لئے ایک فوجی دستہ بھیجا، جنہیں سردی سے بہت تکلیف ہوئی، جب وہ واپس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے سخت سردی کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایسے حالات میں بگڑی اور جرابوں پر مسح کر لیا کریں ۔ (مسند امام احمد ص 278 ج5)

اس حدیث کے پیش نظر سردی کے موسم میں جرابوں پر مسح کی رخصت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔ (مسند امام احمد ص252 ج4)

اس حدیث کے پیش نظر متعدد صحابہ کرام جرابوں اور جوتوں پر مسح کرنے کے قائل اور فاعل ہیں ، علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانہ میں کوئی بھی ان کا مخالف ظاہر نہیں ہوا، لہٰذا یہ اجماع کی مانند ہی ہے۔ (المغنی ص374 ج1)

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں نیز جوتوں پر مسح کیا۔ (ابن ماجہ، الطہارہ، 560)

اس کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری حدیث مروی ہے جو صریح الدلالۃ اور صحیح الاسناد ہے، حضرت ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک دفعہ بے وضو ہوئے تو انہوں نے اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر انہوں نے اونی جرابوں پر مسح کیا، میں نے کہا ان پر مسح کرنا جائز ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’ ہاں “ یہ بھی موزے ہیں ، لیکن یہ چمڑے کے بجائے اون کے ہیں ۔ (الکنیٰ والاسماء ص 181ج1) بہرحال ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جرابوں پر مسح جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت بھی نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 9 جلد نمبر 39      15 تا 21 صفر 1429 ھ      23 فروری تا 29 فروری 2008 ء

 

مولانا عبدالسلام …. کی کتاب، تعلیم الاسلام، میں لکھا ہے کہ اڑتالیس سے کم مسافت پر نماز قصر پڑھنا جائز نہیں ہے، جبکہ اہلحدیث حضرات نو میل مسافت پر قصر کر لینے کے قائل ہیں ، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں ۔ (بشیر احمد بشر۔ بدوملہی)

اس موقف کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اے اہل مکہ! چار …. یعنی اڑتالیس میل سے کم مسافت پر قصر نہ کرو اور چار برید مکہ سے عسفان تک کا فاصلہ ہے۔ (بیہقی ص137 ج 3)

اس حدیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ اڑتالیس میل سے کم مسافت پر قصر کرنا جائز نہیں ہے لیکن مذکورہ حدیث کو محققین نے مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ (بلوغ المرام حدیث نمبر 249)

نیز اس کی سند میں ایک راوی عبدالوہاب بن مجاھد کو متروک قرار دیا گیا ہے۔ (میزان الاعتدال ص 682 ج2) اس بناء پر یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر کسی نے کم از کم نو میل کی مسافت پر کہیں جانا ہو تو اپنے شہر یا گاؤں کی حدود سے باہر نکل کر نماز قصر ادا کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین میل یا تین فرسخ سفر کے لئے نکلتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔ (مسند امام احمد ص 136 ج 3)

اس روایت میں راوی حدیث شعبہ کو شک ہوا ہے تاہم علماء نے تین فرسخ والی روایت کو احوط قرار دیا ہے اور ایک فرسخ تین میل کا …. ہے اس طرح تین فرسخ نو میل کے ہوں گے، اس کی مزید وضاحت دوسری روایت میں ہے کہ راوی حدیث حضرت یحییٰ بن یزید ہنائی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ کتنی مسافت پر نماز قصر کی جا سکتی ہے تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ سفر کے لئے نکلتے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین: 691)

اس حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے سائل کو بطور جواب یہ حوالہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی مسافت پر قصر کرتے تھے، بہرحال اس سلسلہ میں ہمار موقف یہ ہے کہ اگر منزل مقصود نو میل یا اس سے زائد مسافت پر ہے تو مسافر اپنے شہر یا گاؤں کی حدود تجاوز کرنے کے بعد نماز قصر پڑھ سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 8 جلد نمبر 39      08 تا 14 صفر 1429 ھ      16 فروری تا 22 فروری 2008 ء

 

ہم نے گزشتہ دنوں ظہر کی نماز با جماعت ادا کی، امام صاحب پہلی رکعت میں ایک سجدہ کر کے کھڑے ہو گئے، بعد میں انہوں نے سجدہ سہو کر دیا اور کہا سجدہ رہ جانے کی تلافی سجدہ سہو کرنے سے ہو جاتی ہے، کیا ایسا کرنا شرعاً درست ہے، وضاحت کریں ۔ (بشیر احمد بشر۔ بدوملہی)

نماز میں کمی، بیشی اور شک پڑنے سے سجدہ سہو کرنا ہوتا ہے، اگر کوئی کمی ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے مثلاً اگر رکعت رہ گئی ہے تو اسے ادا کرنا ہو گا پھر سجدہ سہو کیا جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا، یاد آنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متروکہ رکعت ادا کی، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد دو سجدے کئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا۔ (صحیح بخاری، السھو: 1226) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے پہلے متروکہ نماز ادا کی پھر سلام پھیرا، اس کے بعد اللہ اکبر کہا اور دو سجدے بطور سہو کئے (صحیح بخاری، الصلوٰۃ: 482)

جو رکعت ایک سجدہ کے ساتھ پڑھی گئی اور ایک سجدہ رہ گیا وہ رکعت نہیں ہے کیونکہ رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے ہوتے ہیں ، یاد آنے پر پوری ایک رکعت کا اعادہ ضروری تھا، اس رکعت کو پڑھنے کے بعد پھر سجدے سہو کرنا تھے نماز میں جو ایک سجدہ رہ گیا اس کی تلافی صرف سجدہ سہو سے نہیں ہو گی بلکہ پوری رکعت ادا کر کے سجدہ سہو کرنا چاہئے تھا۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7 جلد نمبر 39      01 تا 07 صفر 1429 ھ      9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

میری بیوی حاملہ تھی، اسے چار ماہ کے بعد خون آنا شروع ہو گیا، اس خون کا شرعاً کیا حکم ہے آیا یہ خون نماز کے لئے رکاوٹ کا باعث ہے یا نہیں ؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں ۔ (عبداللہ عمر۔ ملتان)

ولادت کے بعد آنے والے خون کو نفاس کہا جاتا ہے جو خون حیض کی طرح نجس ہے۔ ان ایام میں نماز روزہ ادا نہیں ہوتا بلکہ ان دنوں نمازیں معاف ہوتی ہیں البتہ روزوں کی قضا ضروری ہے۔ دوران حمل جاری ہونے والا خون نفاس نہیں ۔ اسی طرح چار ماہ سے قبل اگر اسقاط ہو جائے تو وہ بھی نفاس شمار نہیں ہو گا۔ ایسی عورت پر استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے، یعنی وہ ان دنوں کی نماز روزہ کا اہتمام کرے گی، نیز اسے ہر نماز کے لئے نیا وضو کرنا ہو گا۔ ایک وضو سے متعدد نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7 جلد نمبر 39      01 تا 07 صفر 1429 ھ      9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

میرا خاوند نماز نہیں پڑھتا، اسے بار بار کہتی ہوں لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، حتیٰ کہ وہ عیدین کی نماز بھی پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، ایسے بے نماز کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں ۔ (ام عبداللہ۔ مظفر گڑھ)

جو آدمی نماز نہیں پڑھتا۔ بار بار توجہ دلانے کے باوجود نماز کے قریب نہیں جاتا حتیٰ کہ عیدین کی نماز بھی نہیں پڑھتا گویا اس کے نامہ اعمال میں نماز نامی کوئی چیز نہیں ہے ایسا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس کے ساتھ رہنا سہنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعمال میں سے نماز کے سوا اور کسی چیز کے ترک کو کفر نہیں خیال کرتے تھے۔ (ترمذی، الایمان: 2622)

اس کے متعلق دیگر بہت سی احادیث ہیں ، جن میں ترک نماز پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے ہاں اگر کوئی کبھی کبار نماز چھوڑ دیتا ہے لیکن ترک نماز کی کھٹک دل میں محسوس کرتا رہتا ہے، اس کے متعلق اکثر علماء کچھ نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن صورت مسؤلہ میں جس بے نماز کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے لاعلموں کے نکاح میں نہ دیں جو نماز نہیں پڑھتے حتیٰ کہ نماز عیدین کے بھی قریب نہیں جاتے۔ اس مسئلہ میں وہ کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کا لحاظ نہ کریں ۔ اگر اس سلسلہ میں ہم نے نرمی دکھائی تو عند اللہ باز پرس ہو گی۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

میں نے ایک دن صبح کی نماز پڑھی، نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ مجھ پر غسل واجب تھا، اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ کیا اپنی نماز کو دوبارہ پڑھوں یا میرے ذمے فرض پہلی نماز سے ہی ادا ہو جائے گا۔ (عبدالمتین۔ لاہور)

نماز کے لئے بدن اور جگہ کی طہارت ضروری اور شرط ہے، اگر کسی انسان کو نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو کہ وہ بڑی یا چھوٹی ناپاکی میں مبتلا تھا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ناپاکی سے طہارت حاصل کرے اور اگر بے وضو تھا تو وضو کرے پھر وہ دوبارہ نماز پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز بھی قبول نہیں کرتا۔ “ (سنن نسائی، الطھارة: 139)

اس حدیث کے پیش نظر اس انسان کو غسل کر کے دوبارہ نماز پڑھنا چاہئے جس نے ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھ لی ہے۔ اس حالت میں پڑھی ہوئی نماز کافی نہیں ہو گی اور نہ ہی اس سے فرض کی ادائیگی ممکن ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

کیا نماز میں قرآن سے دیکھ کر قرأت کی جا سکتی ہے ؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں ۔ (ابو عبدالحمید۔ بہاولنگر)

ایسا کرنا جائز ہے لیکن اس کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے۔ احادیث میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام ذکوان، قرآن دیکھ کر ان کی امامت کراتا تھا۔ (صحیح بخاری تعلیقا کتاب الاذان باب امامۃ العبد والمولی قبل حدیث 692)۔ اس سے متعلق حدیث کو حافظ ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری ص692، ج 2)

کچھ لوگ اس کو منع کہتے ہیں کہ ایسا کرنا عمل کثیر ہے جو نماز میں درست نہیں ۔ لیکن عمل کثیر اگر نماز کی ضرورت کے لئے ہو تو علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی کہ نماز میں بچہ کو اٹھایا جا سکتا ہے تو قرآن اٹھانے میں کیا قباحت ہے ؟ البتہ قرآن یاد کر کے پڑھنا ہی افضل ہے کیونکہ امت کا متواتر عمل یہی ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 2 جلد نمبر 39      25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ      5 تا 11 جنوری 2008 ء

 

اگر امام درمیانی تشہد بیٹھے بغیر کھڑا ہو جائے تو کیا مقتدیوں کو بھی کھڑا ہو جانا چاہیئے یا وہ اپنا تشہد مکمل کر لیں اور اگر امام سیدھا کھڑا ہو کر پھر بیٹھ جائے تو اس صورت میں سجدہ سہو کرنا پڑے گا یا نہیں ، نیز اگر امام آخری تشہد میں جلدی سلام پھیر دے تو کیا مقتدی حضرات بھی اس کے ساتھ سلام پھیر دیں یا وہ اپنا تشہد مکمل کر کے سلام پھیریں ؟

اگر امام دو رکعت پڑھنے کے بعد تشہد پڑھے بغیر کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں ۔

1. بالکل سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے اسے خود یاد آ جائے یا مقتدیوں کے یاد دلانے پر وہ بیٹھ جاتا تو اس صورت میں کوئی سجدہ سہو نہیں ہے۔

2. اگر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے تو اسے یاد آنے یا مقتدیوں کے یاد دلانے پر نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ اسی حالت میں نماز مکمل کر کے آخر میں دو سجدے سہو کے طور پر کرے، اس صورت میں مقتدی حضرات بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور آخر میں سجدہ سہو میں شریک ہوں گے۔

حدیث میں ہے کہ اگر امام دو رکعت میں بیٹھے کی بجائے کھڑا ہو جائے تو اگر سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو بیٹھ جائے اور اپنی نماز مکمل کر لے اور اگر سیدھا کھڑا ہو گیا تو یاد آنے پر مت بیٹھے بلکہ آخر میں دو سجدے سہو کے طور پر کر دے۔(ابوداؤد، الصلوۃ:1036)

اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام ابوداؤد نے لکھا ہے کہ میری اس کتاب میں جابر جعفی سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے تاہم علامہ البانی مرحوم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔اگر امام سیدھا کھڑا ہونے کے بعد پھر بیٹھ گیا تو اس صورت میں بھی سجدہ سہو کرنا ہوں گے اور مقتدی بھی اس میں سجدہ سہو میں شریک ہوں گے۔

اگر امام نے اس قدر جلدی سلا پھیر دیا ہے کہ مقتدی حضرات تشہد اور درود نہیں پڑھ سکے تو انہیں تشہد اور درود پڑھ کر سلام پھیرنا چاہیئے اور اگر انہوں نے تشہد اور درود پڑھ لیا ہے لیکن دیگر ادعیہ وغیرہ نہیں پڑھ سکے تو اس صورت میں مقتدی حضرات کو امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دینا چاہیئے کیونکہ حدیث میں ہے : امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ (صحیح بخاری، الصلاۃ: 689)

پہلی صورت میں امام کے ساتھ ہی مقتدیوں کو سلام پھیرنا چاہیئے بلکہ ان کا تشہد مکمل نہیں ہوا تھا اور اس کا مکمل کرنا ضروری تھا جبکہ دوسری صورت میں مقتدی حضرات تشہد اور درود پڑھ چکے ہیں لہٰذا انہیں امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دینا چاہیئے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 1 جلد نمبر 39      24 ذوالحجہ 1428 ھ      4 جنوری 2008 ء

 

عیدین کے مسائل

اگر نماز عید مسجد میں ادا کی جائے تو کیا امام منبر پر کھڑا ہو کر عید کا خطبہ دے سکتا ہے یا خطبہ عید کے لئے منبر مشروع نہیں ہے۔ وضاحت کریں ۔ (ابو عبداللہ بن حنظلہ۔ لاہور)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ عیدین کی نماز آبادی کے باہر عیدگاہ میں پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن عیدگاہ کی طرف باہر نکلتے تھے۔ (صحیح بخاری، عیدین : 956) لیکن کسی عذر کی وجہ سے مسجد میں عیدین کا ادا کرنا صحیح ہے۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ اگر بارش وغیرہ کا عذر ہو تو نماز عید مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے۔ (بیہقی ص 310 : ج3)

پھر یہ قاعدہ ہے کہ ضروریات، ممنوع کاموں کو جائز اور صباح کر دیتی ہیں ، لیکن خطبہ عید کے لئے منبر مشروع نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا استعمال ثابت نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید کی ادائیگی کے بعد اپنا رخ پھیرتے اور لوگوں کے بالمقابل کھڑے ہو جاتے، باقی تمام لوگ اپنی صفحوں میں بیٹھے رہتے، آپ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، اس کے بعد گھر واپس تشریف لاتے۔ (صحیح بخاری، عیدین : 956)

امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ ’’ عیدگاہ کی طرف منبر کے بغیر جانا ” اس روایت میں صراحت ہے کہ سب سے پہلے مردان بن حکم نے عیدگاہ میں منبر رکھوایا۔ اس بناء پر ہمارا رجحان ہے کہ خطبہ عید کے لئے منبر کا استعمال مشروع نہیں ہے خواہ نماز عید مسجد میں ہی ادا کی جائے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47 جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

 

اگر کوئی شخص نماز عید میں بحالت تشہد ملے تو اسے کیا کرنا چاہئے یا اس کی نماز عید رہ جائے تو کیا اسے قضاء کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے ؟ وضاحت کریں ۔ (محمد سلیمان : لیاقت آباد کراچی)

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو۔ (صحیح بخاری، الاذان : 636)

یہ حکم مطلق ہے کہ امام کے ساتھ جتنی نماز ملے وہ پڑھ لینا چاہئے اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لینا چاہئے۔ اس بناء پر جو شخص نماز عید کے لئے بحالت تشہد شامل ہوا ہے اسے چاہئے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو جائے اور نماز عید کے طریقہ کے مطابق دو رکعت نماز ادا کر لے جیسا کہ امام ابن قدامہ فرماتے ہیں ۔

’’ اگر آدمی امام کو تشہد میں پائے تو اس کے ساتھ بیٹھ جائے، اور جب امام سلام پھیر لے تو کھڑا ہو جائے اور دو رکعت ادا کر لے اور ان رکعات میں تکبیرات بھی کہے (مغنی ص 275 : ج3)

جس کی نماز عید رہ جائے وہ اس کی قضا اسی طرح ادا کرے جس طرح نماز عید پڑھی جاتی ہے یعنی وہ دو رکعت ادا کرے اور اس میں اس طرح تکبیریں اور ذکر کرے جیسے نماز عید میں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی افتاء کمیٹی کا فتویٰ حسب ذیل ہے۔

’’ نماز عیدین کی ادائیگی فرض کفایہ ہے اگر اتنے افراد پڑھ لیں جو کافی ہوں تو باقی افراد سے اس کا گناہ ساقط ہو جاتا ہے…. اور جس کی یہ نماز فوت ہو جائے اور وہ اس کی قضا دینا چاہے تو اس کے لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خطبہ کے بغیر نماز عید کے طریقہ کے مطابق اسے ادا کر لے (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ ص 306 : ج8)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47 جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

 

بعض لوگ عیدگاہ میں نماز عید سے پہلے اشراق کی نماز پڑھتے ہیں ، اس کی شرعی حقیقت کیا ہے ؟ کیا عید گاہ میں نفل پڑھے جا سکتے ہیں (محمد حسین ….جہلم)

عیدگاہ میں کسی قسم کے نفل نہیں پڑھنے چاہئیں ، صرف نماز عید کی ادائیگی پر اس سے پہلے یا بعد میں نفل پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے روز دو رکعت نماز پڑھائی، ان سے پہلے اور بعد کوئی نفل نہیں پڑھے (صحیح بخاری، العیدین : 989)

اکثر آئمہ کرام کا فتویٰ ہے کہ عیدگاہ میں امام اور مقتدی دونوں کو نفل پڑھنا مکروہ ہیں ، البتہ عیدگاہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر آ کر دو رکعت پڑھی جا سکتی ہیں جبکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید سے قبل کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے، البتہ گھر آ کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے (ابن ماجہ، اقامۃ الصلوۃ : 1293)

اس لئے عیدگاہ میں نماز اشراق کا اہتمام صحیح نہیں ہے (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47 جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

 

عید گاہ میں منبر لے جانے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اگر مسجد میں عید پڑھنے کا اہتمام کیا جائے تو کیا ایسی صورت میں منبر استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں ، کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں ۔ (عبدالوحید۔ کراچی)

سنت یہ ہے کہ عیدین کی نماز کھلے میدان میں ادا کی جائے، کھلے میدان میں عیدین کی نماز ادا کرنے سے دین کے شعائر کا اظہار ہوتا ہے نیز اسلام اور اہل اسلام کا رعب طاری ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی روایت میں نہیں آیا کہ آپ نے عذر کے بغیر مسجد میں عیدین کی نماز ادا کی ہو، کھلے میدان میں منبر کے بغیر عیدین کا خطبہ دیا جائے چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے : ’’ عید گاہ کی طرف منبر کے بغیر جانا۔ “

پھر آپ نے ایک حدیث سے اس عنوان کو ثابت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید کی ادائیگی کے بعد اپنا رخ پھیرتے اور لوگوں کے بالمقابل کھڑے ہو جاتے۔ (صحیح بخاری، العیدین : 956)

یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ عید کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر استعمال نہیں کیا، البتہ ابن حبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر خطبہ عید ارشاد فرمایا (الاحسان ص 65 ج7) علامہ ہیثمی نے اس روایت کے رجال کو ’’ صحیح کے رجال “ کہا ہے۔ (مجمع الزوائد ص 205 ج 2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سواری پر بیٹھ کر خطبہ دیا جا سکتا ہے، عید گاہ میں منبر لے جانا، مروانی سنت ہے چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیدین کے متعلق معاملہ اس طرح برقرار رہا حتیٰ کہ میں ایک دفعہ مروان کے ہمراہ عید گاہ گیا تو میں نے وہاں ایک منبر بنا ہوا دیکھا جسے کثیر بن صلت نے تیار کیا تھا، مروان نماز پڑھنے سے قبل اس پر چڑھنے لگا تو میں نے اس کے کپڑے پکڑ کر نیچے کھینچنا چاہا لیکن وہ مجھ پر غالب آ گیا اور منبر پر چڑھ کر نماز عید سے پہلے خطبہ دینے لگا، میں نے اسے کہا کہ تم لوگوں نے دینی معاملات کو تبدیل کر دیا ہے۔ (صحیح بخاری، العیدین : 956) بہرحال عیدگاہ میں منبر لے جانا مسنون نہیں ہے اگر کسی مجبوری کی وجہ سے مسجد میں نماز عید پڑھنا پڑھے تو سنت کی پاسداری کرتے ہوئے منبر کو استعمال نہ کیا جائے، منبر کے بغیر ہی خطبہ دیا جائے، البتہ سہارے کے لئے کسی چیز کو استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لیا تھا،

حدیث کے الفاظ یہ ہیں :

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی اور پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، تقویٰ کا حکم دیا اور اطاعت کرنے کی تلقین کی۔ “ (صحیح مسلم، العیدین : 885)

بہرحال عیدین کی نماز کھلے میدان میں ادا کی جائے اور خطبہ کے لئے منبر استعمال نہ کیا جائے، اگر کسی مجبوری کے پیش نظر مسجد میں نماز عید ادا کرنا پڑے تو بھی منبر استعمال نہ کیا جائے تا کہ سنت کی خلاف ورزی نہ ہو۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 32 جلد نمبر 39      28 رجب تا 4 شعبان 1429 ھ      02 تا 08 اگست 2008 ء

 

کیا عید کے دن عورتوں کو وعظ و نصیحت کرنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا مشترکہ وعظ و نصیحت ہی کافی ہے، سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو وعظ و نصیحت کا خصوصی اہتمام کرتے تھے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں ۔ (ام مریم : پتوکی)

امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’ امام کا عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا ‘‘ اور اس کے تحت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کی نماز پڑھی پھر خطبہ دیا، جب آپ خطبہ سے فارغ ہوئے تو عورتوں کی طرف آئے اور انہیں وعظ و نصیحت فرمائی (صحیح بخاری : عیدین : 978)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو الگ وعظ و نصیحت کرنے کا اہتمام اس لئے فرمایا کہ ان تک پہلے وعظ کی آواز نہیں پہنچی تھی۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی حرامت ہے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی پھر آپ نے خطبہ دیا، آپ کو خیال آیا کہ عورتوں تک آواز نہیں پہنچ پائی، اس لئے آپ ان کے پاس آئے انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا (صحیح مسلم، صلوۃ العیدین : 884)

لیکن آج کل لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مردوں کے ساتھ ہی عورتوں تک بھی خطبہ کی آواز پہنچ جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں بچوں کی وجہ سے شور و غل اتنا ہوتا ہے کہ نہ خود سنتی ہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی ان کا شور تشویش کا باعث ہوتا ہے۔ بہر حال دورِ حاضر میں سپیکر نے اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے لہذا عورتوں کی طرف الگ وعظ و نصیحت کے لئے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر بجلی کی بندش یا سپیکر کی خرابی کی وجہ سے عورتوں تک خطبہ کی آواز نہ پہنچ سکی ہو تو انہیں وعظ و نصیحت کرنے کا خصوصی اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے خصوصی پردہ کا اہتمام کرنا ہو گا۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47 جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

 

اگر کوئی شخص نماز عید میں بحالت تشہد ملے تو اسے کیا کرنا چاہئے یا اس کی نماز عید رہ جائے تو کیا اسے قضاء کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے ؟ وضاحت کریں ۔ (محمد سلیمان : لیاقت آباد کراچی)

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو۔ (صحیح بخاری، الاذان : 636)

یہ حکم مطلق ہے کہ امام کے ساتھ جتنی نماز ملے وہ پڑھ لینا چاہئے اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لینا چاہئے۔ اس بناء پر جو شخص نماز عید کے لئے بحالت تشہد شامل ہوا ہے اسے چاہئے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو جائے اور نماز عید کے طریقہ کے مطابق دو رکعت نماز ادا کر لے جیسا کہ امام ابن قدامہ فرماتے ہیں ۔

’’ اگر آدمی امام کو تشہد میں پائے تو اس کے ساتھ بیٹھ جائے، اور جب امام سلام پھیر لے تو کھڑا ہو جائے اور دو رکعت ادا کر لے اور ان رکعات میں تکبیرات بھی کہے (مغنی ص 275 : ج3)

جس کی نماز عید رہ جائے وہ اس کی قضا اسی طرح ادا کرے جس طرح نماز عید پڑھی جاتی ہے یعنی وہ دو رکعت ادا کرے اور اس میں اس طرح تکبیریں اور ذکر کرے جیسے نماز عید میں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی افتاء کمیٹی کا فتویٰ حسب ذیل ہے۔

’’ نماز عیدین کی ادائیگی فرض کفایہ ہے اگر اتنے افراد پڑھ لیں جو کافی ہوں تو باقی افراد سے اس کا گناہ ساقط ہو جاتا ہے…. اور جس کی یہ نماز فوت ہو جائے اور وہ اس کی قضا دینا چاہے تو اس کے لئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خطبہ کے بغیر نماز عید کے طریقہ کے مطابق اسے ادا کر لے (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ ص 306 : ج8)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47 جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

 

بچوں کو عیدگاہ لے جانے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ عورتوں کے بچے ہوتے ہیں وہ نماز عید اور خطبہ عید میں خلل کا باعث بنتے ہیں ۔ براہ کرم بچوں کے متعلق نماز عید کے حوالہ سے شرعی ہدایات کیا ہیں ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔ (حافظ اقبال۔ سیالکوٹ)

امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں طور قائم کیا ہے ’’ بچوں کو عیدگاہ لے جانا “ (صحیح بخاری، عیدین باب نمبر 16)

اس عنوان کے تحت بخاری حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے آپ نے کہا کہ میں عیدالفطر یا عیدالاضحی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلا، آپ نے نماز عید پڑھی پھر عورتوں کی طرف آئے اور انہیں وعظ و نصیحت فرمائی پھر صدقہ کرنے کا حکم دیا (صحیح بخاری، العیدین : 975)

حالانکہ اس حدیث میں بچوں کو عیدگاہ میں لے جانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ دراصل امام بخاری بہت برے فقیہہ اور روشن دماغ رکھنے والے ہیں ۔ آپ نے اس حدیث کے ایک طرق کی طرف اشارہ کیا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ آیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ باہر جایا کرتے تھے تو انہوں نے جواب دیا ’’ ہاں “ اگر صغر سنی کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے میرا مرتبہ و مقام نہ ہوتا تو مجھے آپ اپنے ساتھ کیوں لے جاتے، اس کے بعد آپ نے مذکورہ حدیث بیان فرمائی (صحیح بخاری، الاذان : 863)

امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ خود ابن عباس رضی اللہ عنہ اس وقت چھوٹی عمر کے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عیدگاہ گئے، اس سے بچوں کا عیدگاہ جانا ثابت ہوتا ہے، لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بچوں کو چند شرائط کے ساتھ عیدگاہ لے جانا جائز ہے جو حسب ذیل ہیں ۔

1۔ و ہ بچے سن شعور کو پہنچ چکے ہوں کیونکہ سات سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو نماز پڑھنے کے متعلق کہا ہے، اس عمر میں بچہ سمجھدار اور صاحب شعور ہو جاتا ہے۔

2۔ عیدگاہ لانے سے پہلے ان کی تربیت کرنا ضروری ہے کہ عید اور عیدگاہ کے آداب کیا ہیں ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ عیدگاہ میں اودھم مچاتے رہیں اور انہیں کوئی باز پرس کرنے والا نہ ہو۔

3۔ چھوٹے شیر خوار بچوں کو عیدگاہ لے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود ماؤں اور دیگر خواتین و حضرات کی پریشانی کا باعث بنتے ہیں ۔

4۔ شرارتی اور بے عقل بچوں کو بھی گھر میں رہنے دیا جائے۔ کیونکہ شرارتی بچوں کو دیکھ کر سنجیدہ بچے بھی اچھل کود میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔

5۔ بچے ماں کے بجائے باپ کے ساتھ ہوں تاکہ بوقت ضرورت ان پر کنٹرول کرنا آسان ہو تاکہ عید گاہ میں دوسروں کی نماز کی خراب نہ کر سکیں ۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47 جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

 

کیا خواتین کو تکبیرات عید کہنا چاہئے ؟ پردہ داری کا لحاظ رکھتے ہوئے اس مسئلہ کی وضاحت کریں نیز تکبیرات کے الفاظ بھی ذکر کریں (ام کلثوم ….جڑانوالہ)

تکبیرات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ عید کے موقع پر اللہ کی عطا کردہ ہدایت کے مطابق تکبیریں کہو (البقرہ : 185)

اس آیت کریمہ کے مطابق تکبیرات کہنے کا حکم ہے۔ روایات میں ان کے مختلف الفاظ ہیں ۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں ۔

اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر کبیرا (بیہقی ص 316 : ج3)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے درج ذیل الفاظ کو بیان کیا ہے۔

اللہ اکبر، اللہ اکبر ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر و للہ الحمد (مصنف ابن ابی شیبہ ص 488 : ج1)

اس سلسلہ میں تشدد اور سختی نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ آج کل کچھ حضرات نے شور و غل کیا ہے۔ عورتوں کو بھی اپنی پردہ داری کے مطابق تکبیرات کہنے کا حکم ہے، وہ اس قدر تو بلند آواز سے تکبیرات نہ کہیں کہ مردوں کو ان کی آواز سنائی دے بہرحال اپنی ساتھ والی عورتیں اس کی آواز کو ضرور سنیں ، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا جاتا تھا ہم عید کے دن حائضہ عورتوں کو نکالیں تاکہ وہ بھی تکبیرات کہنے میں لوگوں کے ساتھ شریک ہوں ۔ (صحیح بخاری، العیدین : 91)

حضرت ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہ دسویں تاریخ کو تکبیرات کہتی تھیں اور دیگر خواتین بھی ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیرات کہا کرتی تھیں (صحیح بخاری تعلیقا، کتاب العیدین باب نمبر 12)

بہر حال عورتوں کو چاہئے کہ وہ بھی تکبیرات کہیں لیکن اپنی آواز کہ مردوں کی آواز سے پست رکھیں ۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 47 جلد نمبر 38      26 ذیقعدۃ تا 2 ذوالحجہ 1427 ھ      8 تا 14 دسمبر 2007 ء

 

قربانی کے مسائل

ذبح شدہ جانور کے پیٹ سے اگر کوئی مردہ بچہ برآمد ہو تو کیا وہ حلال ہے یا حرام، کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ (محمد علی۔ سلونی جھال)

اسلامی شریعت کے مطابق ذبح شدہ جانور کے پیٹ سے جو مردہ بچہ برآمد ہو وہ حلال ہے اگر کوئی چاہے تو اسے استعمال میں لا سکتا ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ ماں کے ذبح کرنے سے اس کے پیٹ کا بچہ از خود ذبح ہو جاتا ہے۔ “ (مسند امام احمد ص 31 ج 3) اگرچہ بعض فقہاء نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ بچہ مردہ ہے اور مردہ حرام ہوتا ہے، حالانکہ جس ذات نے مردار کو حرام کیا ہے، اس نے ذبح شدہ جانور کے پیٹ سے برآمد ہونے والے بچے کو مچھلی اور ٹڈی کی طرح خاص کر دیا ہے، جس طرح مچھلی اور ٹڈی کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں وہ ذبح کے بغیر ہی حلال ہیں ، اسی طرح ماں کے پیٹ کا بچہ بھی از خود ذبح ہے اور حلال ہے، ہمارے رجحان کے مطابق اسے مردار کہنا درست نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کا جزو بدن ہے اور جانور کے ہر جزو کو ذبح نہیں کیا جاتا۔ بہرحال ذبح شدہ جانور کے پیٹ سے اگر بچہ برآمد ہو تو وہ حلال ہے اور اس کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ ہاں اگر کسی کا دل اسے استعمال کرنے پر آمادہ نہ ہو تو الگ بات ہے لیکن اسے حرام کہنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 33 جلد نمبر 39      5 شعبان تا 11 شعبان 1429      9 تا 15 اگست 2008 ء

 

قرآن و حدیث کی روشنی میں اونٹ ذبح کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ تفصیل سے بیان کریں ، ہمارے ہاں اس کے متعلق کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ (قاری حبیب اللہ بسمل۔ فیصل آباد)

اونٹ کو ذبح نہیں کیا جاتا بلکہ اسے نحر کیا جاتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ کر اسے تین ٹانگوں پر کھڑا کر دیا جائے پھر کوئی تیز دھار آلہ مثلاً چھری، چاقو، نیزہ یا برچھی اس کی گردن میں ماری جائے، جب خون بہنے کے بعد وہ ایک طرف گر جائے تو اس کی کھال اتار کر گوشت بنا لیا جائے، چھری مارتے وقت ذبح کرنے کی دعا پڑھ لی جائے۔ نحر کرنے کے بعد اس کی گردن پر دوبارہ چھری چلانے کی ضرورت نہیں ہے،

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کی غرض سے بٹھا رکھا تھا، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ اس کا گھٹنا باندھ کر اسے کھڑا کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت ہے۔ “ (صحیح بخاری، الحج : 1713)

اس طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اونٹ کی بائیں ٹانگ باندھ کر اسے نحر کرتے تھے اور وہ اپنی باقی ٹانگوں پر کھڑا ہوتا تھا۔ (ابوداؤد، المناسک : 1767)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں وضاحت ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تریسٹھ اونٹ نحر کئے۔ آپ ان کی گردنوں میں اپنے ہاتھ سے چھوٹا نیزہ مارتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحج : 1218)

اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’ ہم نے تمہارے لئے اونٹوں کو اللہ کی نشانیاں بنا دیا ہے، ان میں تمہارے لئے خیر و برکت ہے، انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو پھر جب ان کے پہلو زمین پر لگ جائیں تو اسے کھاؤ۔ (الحج : 36) اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کو کھڑے کھڑے نحر کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 2 جلد نمبر 39      25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ      5 تا 11 جنوری 2008 ء

 

اونٹ کی قربانی میں کتنے آدمی شریک ہو سکتے ہیں ؟ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اونٹ میں گائے کی طرح سات ہی حصہ دار ہو سکتے ہیں ۔ (بشیر احمد۔ پتوکی)

اونٹ کی قربانی میں دس افراد جبکہ گائے کی قربانی میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمراہ میں تھے تو قربانی کا وقت آ گیا، ہم اونٹ میں دس آدمی اور گائے میں سات آدمی شریک ہوئے۔ (ابن ماجہ : الاضحی، 3131)

اس سلسلہ میں ایک دوسری حدیث بھی مروی ہے : حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے، مال غنیمت کے طور پر بکریاں اور اونٹ ہمارے ہاتھ لگے، لوگوں نے جلدی جلدی انہیں ذبح کر کے ہانڈیاں چڑھا دیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا پھر آپ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دے کر انہیں تقسیم کیا۔ (صحیح بخاری، الشرکہ : 2807)

البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ گائے سات آدمیوں کی طرف سے اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے قربان کیا جائے۔ “ (ابوداؤد، الضحایا : 2808)

اس کے متعلق علماء کا موقف ہے کہ ان کا تعلق ھدی سے ہے یعنی ان سے مراد وہ قربانی ہے جو حج کے موقع پر کی جاتی ہے، اس موقع پر ایک اونٹ میں صرف سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں ۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، صاحب استطاعت اونٹ میں سات اور مالی لحاظ سے کچھ کمزور حضرات اونٹ میں دس شریک ہو سکتے ہیں ۔

اکیلا آدمی بھی اونٹ اور گائے کی قربانی کر سکتا ہے۔ بہرحال اونٹ میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں ، اسے سفر کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ نیز اگر استطاعت ہو تو سات آدمی بھی شریک ہو سکتے ہیں ۔ البتہ ھدی کے اونٹ میں سات افراد ہی شریک ہوں گے (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 2 جلد نمبر 39      25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ      5 تا 11 جنوری 2008 ء

 

اگر کپڑوں کو قربانی کا خون اور اس کا پیشاب لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز پڑھی جا سکتی ہے ؟ (محمد دین۔ شاہ کوٹ)

قربانی کو ذبح کرتے وقت جو خون تیزی سے نکلتا ہے جسے دم مسفوح کہا جاتا ہے اگر یہ خون کپڑوں کو لگا ہوا ہے تو اس کی موجودگی میں نماز نہیں ہوتی ہے کیونکہ قرآن کریم نے اسے حرام کہا ہے، اس کے علاوہ اگر خون لگا ہے تو اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، اسی طرح جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پلید نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا تھا جبکہ وہ مدینہ کی آب و ہوا سے بیمار ہو گئے تھے۔ (صحیح بخاری، الوضوء : 333)

اگر یہ حرام یا نجس ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بطور دوا استعمال کرنے کی اجازت نہ دیتے۔ کیونکہ حرام چیزوں میں شفا نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جنہیں تم پر حرام کیا ہے۔ “ (ابوداؤد، الطب : 3870) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو اونٹوں کا پیشاب پینے کا کہا تھا انہیں اس سے شفا ہوئی جو کہ اس کی حلت اور طہارت کے لئے کافی ہے۔ اس لئے اگر کپڑوں کو قربانی کا پیشاب وغیرہ لگا ہو تو اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 2 جلد نمبر 39      25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ      5 تا 11 جنوری 2008 ء

 

قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا قربانی کرنا سنت ہے یا واجب ؟ اس کے متعلق دلائل کے ساتھ ہمیں آگاہ کریں ۔ (محمد ابراہیم۔ گوجرانوالہ)

قربانی کے متعلق اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ سنت موکدہ ہے، واجب یا فرض نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں اس پر دوام فرمایا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری، الاضاحی : 5553)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری بطور قربانی ذبح کرتا تھا۔ “ (جامع ترمذی، الاضاحی : 1505)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لوگو! بے شک ہر اہل خانہ پر ہر سال قربانی کرنا مشروع ہے۔ “ (ابن ماجہ، الاضاحی : 3125)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی ہے کہ قربانی سنت اور مسلمانوں کے ہاں معروف امر ہے، امام بخاری نے ان کا موقف اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ (صحیح بخاری، الاضاحی۔ قبل از حدیث : 5545)

امام ترمذی فرماتے ہیں کہ قربانی واجب نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ اہل علم کے نزدیک اس پر عمل کرنا مستحب ہے امام سفیان ثوری اور امام ابن مبارک بھی اسی کے قائل ہیں ۔ (ترمذی، الاضاحی) امام ابن قدامہ نے بھی اہل علم کا یہی موقف نقل کیا ہے۔ (مغنی ص 260، ج 13)

البتہ قربانی کرنے کی سخت تاکید ضرور ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ کہ جس شخص کے پاس وسعت و طاقت ہو پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ “ (ابن ماجہ، الاضاحی : 3123)

البتہ مندرجہ ذیل صورتوں میں قربانی واجب ہو جاتی ہے :

1 حج تمتع یا حج قران کرنے والے پر قربانی کرنا واجب ہے، یہ قربانی حدود حرم میں ہونی چاہیے، کسی دوسری جگہ پر قربانی کرنا صحیح نہیں ہے۔

2 اگر کسی شخص نے حالت احرام میں کوئی جانور شکار کر لیا تو اس پر فدیہ کے طور پر قربانی کرنا ضروری ہو جاتی ہے۔ (سورہ المائدہ : 95) میں اس کی صراحت ہے۔

3 اگر کسی شخص نے نذر کے ذریعے اپنے آپ پر قربانی عائد کر لی ہو تو اسے ادا کرنا بھی ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کہ جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس نذر کو پورا کرے۔ “ (صحیح بخاری، الایمان والنذور : 6696)

4 کسی جانور کے لئے نیت کر لی جائے کہ یہ اللہ کے لئے ہے یا قربانی کے لئے ہے تو پھر اسے اللہ کے لئے ذبح کرنا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ یہ جانور وقف ہو جاتا ہے جسے نہ تو فروخت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ھبہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں وراثت جاری ہوتی ہے بلکہ اسے اللہ کے لئے ذبح ہی کرنا ہو گا۔ (صحیح مسلم، الوصیۃ : 4664)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48 جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

 

ہمارے گاؤں میں کچھ لوگ بھینس کی قربانی کرتے ہیں ، اس کے متعلق وضاحت کریں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں ۔ (عبدالحمید۔ گگو منڈی)

قرآن کریم میں ہے کہ ایسے جانوروں کی قربانی کی جائے جو ’’ بھیمة الانعام “ ہیں یعنی مویشی قسم کے چوپائے ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں ۔ “ (الحج : 24)

قرآنی اصطلاح میں لفظ ’’ الانعام “ میں چار قسم کے نر اور مادہ جانور شامل ہیں :

اونٹ نر و مادہ، گائے نر و مادہ، بھیڑ نر و مادہ، بکری نر و مادہ۔ اس کی تفصیل بھی سورۃ الانعام میں موجود ہے اس بناء پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کے لئے انہی جانوروں میں سے انتخاب کیا جائے اور بھینس کی قربانی سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بھینس کی قربانی کرنا ثابت نہیں ہے۔ جو لوگ اس کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں اور بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں ان کا موقف ہے کہ لغوی اعتبار سے بھینس لفظ بقر میں شامل ہے، اس لئے اس کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ بعض حضرات نے تو اس حد تک غلو کیا ہے کہ بھینس کی قربانی گائے کی قربانی سے افضل ہے۔ لیکن ہم اسے صحیح نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور تقریر سے گائے کی قربانی ثابت ہے لہٰذا قربانی کے طور پر بھینس کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔ بہرحال اس مسئلہ کو باہمی نزاع کا باعث نہ بنایا جائے اور اس کے حرام اور ناجائز ہونے پر اصرار کرنا بھی مناسب نہیں ہے، ہمارا موقف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے پیش نظر صرف اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی قربانی دی جائے، بھینس کی قربانی سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48 جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

 

جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہوں ، کیا کسی طریقہ سے وہ قربانی کا ثواب حاصل کر سکتا ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں اس سے آگاہ کریں ۔ (عبداللہ فہیم۔ مانگا منڈی)

جس شخص کا قربانی دینے کا ارادہ نہ ہو، اس کے لئے بال یا ناخن کاٹنے کی ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ قربانی کا ثواب لینا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عید کے دن بال اور ناخن کاٹ لے اور زیر ناف بال صاف کر لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا : ’’ کہ تم عید کے دن اپنے بال اور ناخن تراش لو، اپنی مونچھیں کاٹ لو اور زیر ناف بال صاف کر لو اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ تیری مکمل قربانی ہو جائے گی۔ “ (مستدرک حاکم 223 ج 4)

اگرچہ اس روایت کے متعلق کچھ محدثین نے کلام کی ہے تاہم یہ حسن درجہ کی حدیث ہے اور قابل استدلال ہے۔ واضح رہے کہ جس شخص نے قربانی کرنی ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو جائے تو اپنے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹے چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔ “ (صحیح مسلم، الاضاحی : 3655) اور بال یا ناخن نہ کاٹنے کی پابندی قربانی کرنے تک ہے۔ (مسند امام احمد ص301، ج6)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48 جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

 

میرے والد محترم حج پر گئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے وہاں قربانی نہیں کرنا تم نے میری طرف سے ادھر پاکستان میں قربانی کرنا ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ (عبدالحمید۔ راولپنڈی)

باہر سے جو لوگ حج کرنے کے لئے جاتے ہیں وہ حج تمتع کرتے ہیں یعنی عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھا جاتا ہے، اس درمیانی عرصہ میں جو احرام کی پابندیوں سے آزادی ملتی ہے، اس کے عوض قربانی دی جاتی ہے یہ قربانی ہماری اس قربانی سے مختلف ہوتی ہے جو لوگ عیدالاضحی کے موقع پر کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے وہ قربانی کرے جو اسے میسر ہو۔ “ اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو تین (3) روزے ایام حج میں اور سات (7) گھر پہنچ کر رکھے، یہ مکمل دس (10) روزے ہو جائیں گے یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جو مسجد حرام کے باشندے نہ ہوں ۔ “ (البقرہ : 196)

اس سے معلوم ہوا کہ جو تمتع کرنے والے پر قربانی لازم ہے یعنی ایک بکری یا گائے اور اونٹ جس میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں ، اگر کسی کو قربانی میسر نہ آ سکے تو وہ دس (10) روزے رکھ لے تین روزے تو نویں ذوالحجہ تک اور باقی سات روزے حج سے فارغ ہو کر اپنے گھر پہنچنے کے بعد رکھ لے۔ یہ ضابطہ ان لوگوں کے لئے ہے کہ جو باہر سے حج کرنے کے لئے جاتے ہیں البتہ جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں وہ صرف حج کا احرام باندھ کر حج کریں گے اور ان پر قربانی ضروری نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں حج کرنے والے کو وہاں حدود حرم میں ہی قربانی کرنا ہو گی، یہ قربانی اس قربانی سے مختلف ہے جو عیدالاضحی کے وقت کی جاتی ہے، ان دونوں قسم کی قربانی میں کئی ایک وجوہ سے فرق ہے جسے ہم پہلے کسی فتویٰ میں بیان کر چکے ہیں ۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48 جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

 

میں نے حج کے لئے حکومت کی حج سکیم میں رقم جمع کرائی تھی۔ قرعہ اندازی میں میرا نام نہیں آیا جس کی وجہ سے میری رقم مجھے واپس مل گئی ہے، اب کیا مجھے اس سے زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے یا نہیں ، قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔

زکوٰۃ، دین اسلام کا تیسرا رکن ہے، صاحب استطاعت انسان پر زکوٰۃ فرض ہے،

فرضیت زکوٰۃ کی تین شرائط حسب ذیل ہیں :

 1.     وہ رقم ضروریات سے زائد ہو۔ اگر کوئی ضرورت کے لئے رکھی ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

 2.     وہ رقم نصاب کو پہنچ جائے، اگر نصاب سے کم سرمایہ ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے زکوٰۃ کا نصاب سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی ہے۔

 3.     اس زائد از ضرورت رقم پر سال گزر جائے۔ سال سے پہلے پہلے کسی قسم کی رقم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل نے وہ رقم حج کے لئے رکھی تھی بلکہ وہ حکومت کی حج اسکیم میں جمع کرا دی تھی، اب اگر قرعہ اندازی میں نام نہیں نکلا تو اس سے ضرورت ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کا مصرف بدستور قائم ہے کہ اسے حج کے لئے استعمال کرنا ہے، اس لئے حج کے لئے مختص کی جانے والی رقم میں زکوٰۃ نہیں ہے ہاں اگر کوئی اس سے زکوٰۃ دینا چاہے تو اس کار خیر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7 جلد نمبر 39      01 تا 07 صفر 1429 ھ      9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

میرے ایک دوست نے گھر سے احرام باندھ لیا اور عمرہ کی نیت کر لی، لیکن ائیرپورٹ پر جا کر پتہ چلا کہ ابھی کاغذات کی تکمیل نہیں ہوئی، اب اسے کیا کرنا چاہیے ؟ اگر وہ احرام اتار دے تو اس پر کیا فدیہ ہے ؟ (عبدالمحسن۔ کراچی)

اگر کسی کو کوئی رکاوٹ کا اندیشہ ہو تو وہ مشروط احرام باندھ سکتا ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی رکاوٹ آ گئی تو احرام اتار دے، اس پر کوئی فدیہ وغیرہ نہیں ہو گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں حج کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں تو آپ نے فرمایا : ’’ کہ تجھے حج کرنا چاہیے مگر مشروط احرام باندھ لے کہ میرا احرام کھولنے کی وہی جگہ ہو گی جہاں اللہ روک لے گا۔ “ (مسند امام احمد ص 164 ج 6) اس صورت میں احرام کھول دینے پر کوئی فدیہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر احرام مشروط نہ تھا اور راستہ میں کوئی رکاوٹ سامنے آ گئی جیسا کہ صورت مسؤلہ میں ہے تو اسی صورت میں احرام کھول دیا جائے اور فدیہ کے طور پر قربانی ذبح کی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اگر تم روک دئیے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو۔ “ (البقرہ : 196)

جمہور اہل علم کا یہی فیصلہ ہے کہ جہاں احرام کھولا گیا ہے وہیں قربانی کر دی جائے۔ البتہ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ قربانی صرف حرم میں ہی ذبح کی جائے گی، لیکن جمہور کا موقف راجح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ قربانی کا جانور ذبح کر دیا تھا جہاں آپ کے سامنے رکاوٹ آئی تھی۔ اس طرح کے آدمی کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ سال وہ حج یا عمرہ کر لے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا گیا تو آپ نے اپنا احرام کھول کر اپنا سر منڈوا لیا اور اپنی قربانی کو وہیں ذبح کر دیا پھر آئندہ سال عمرہ کیا۔ “ (صحیح بخاری،العمرۃ : 1809) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جس شخص کا پاؤں توڑ دیا جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ احرام سے باہر آ گیا، اب اسے آئندہ سال حج کرنا لازمی ہے۔ (ابوداؤد، المناسک : 1862) صورت مسؤلہ میں عمرہ کرنے والے کو چاہیے کہ وہ ایسے حالات میں اپنا احرام کھول دے اور قربانی کا جانور بکری وغیرہ بطور فدیہ ذبح کرے اور آئندہ سال یا اسی سال موقع ملنے پر عمرہ کرے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48 جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

 

عمرہ سے فراغت کے بعد مرد حضرات حلق یا قصر کرتے ہیں ، خواتین کے لیے کیا حکم ہے ؟ اپنے عمرہ سے کیسے فارغ ہوں گی ؟ (ام عطیہ۔ خانیوال)

عمرہ سے فراغت کے بعد مرد حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر کو منڈوا لیں یا اپنے بالوں کو چھوٹا کرائیں ، البتہ بال منڈوانا، ترشوانے سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والے کے لئے دو مرتبہ دعا فرمائی ہے اور ترشوانے والوں کے لئے تیسری مرتبہ فرمایا : ’’ کہ ترشوانے والوں کے لئے بھی۔ “ (صحیح بخاری، الحج : 1728)

لیکن خواتین کے لئے بالوں کو منڈوانا جائز نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بالوں کا کچھ حصہ کاٹ لیں گی چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کہ عورتوں کے لئے بال منڈوانا نہیں بلکہ صرف بال ترشوانا ہے۔ “ (ابوداؤد، المناسک : 1984) اس حدیث کے پیش نظر علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ خواتین کچھ بال ترشوائیں گی جیسا کہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے۔ (فتح الباری ص 390 ج4) امام ابن قدامہ نے لکھا ہے : ’’ کہ عورتوں کو انگلیوں کے اوپر والے پوروں کے برابر بال ترشوا لینے چاہئیں ۔ “ (مغنی ص 310 ج 5) یہ خدمت عورتیں یا ان کا کوئی محرم بجا لائے، خود بھی پچھلے حصے سے کاٹ سکتی ہیں ۔ تمام بالوں سے تھوڑے تھوڑے بال لینا ضروری نہیں ہے صرف چٹیا کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ لئے جائیں اس سے کام چل جائے گا۔ بال ترشوا لینے کے بعد محرم پر پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں ، اس کے بعد آزادی سے جو کرنا چاہیں کر سکتی ہیں ۔ واضح رہے کہ عورتوں کا کوئی احرام نہیں ہے بلکہ تمام کپڑوں میں ہی احرام کی نیت کر لینا کافی ہے۔ واللہ اعلم۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 48 جلد نمبر 38      3 تا 9 ذوالحجہ 1427 ھ      15 تا 21 دسمبر 2007 ء

 

ازدواجی زندگی کے مسائل

میرے بھائی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، عقیقہ کے موقع پر مجھے والدین نے دعوت دی، لیکن اس دن میرے خاوند کسی کام کی وجہ سے مصروف تھے، اس لئے ہم اس دن دعوت میں شریک نہ ہوسکے، میرے والد محترم اس بات پر میرے خاوند سے بہت ناراض ہوئے اور مجھے ان سے علیحدگی اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں جبکہ میرے اپنے خاوند سے تعلقات بہت اچھے ہیں اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ، اب مجھے کیا کرنا چاہئے، بہت پریشان ہوں ، ایک طرف خاوند ہیں تو دوسری طرف میرے والد محترم ہیں دونوں کا کہا ماننا ضروری ہے۔ (صفیہ بیگم۔ شاہدرہ)

صورت مسؤلہ میں والد محترم کا رویہ عدل و انصاف کے منافی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے معاملہ میں تو انہیں بہت بردباری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا، وجہ نزاع بھی اتنی بڑی نہیں ہے کہ لڑکی کو خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے بلکہ اسے مجبور کیا جائے، ایسے حالات میں لڑکی کا اپنے والد محترم کی بات مان کر گھر بیٹھ رہنا یا اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، جس سے ہمیں اجتناب کرنا چاہئے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو، اس کی بجا آوری کے لئے کسی کی بات کو نہ مانا جائے بلکہ اس کا انکار کر دیا جائے۔ “ (مسند امام احمد ص 66 ج 5)

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جب کسی کو نافرمانی کا حکم دیا جائے تو ایسے حالات میں کس کی بات کو نہ سنا جائے اور نہ ہی اس کی بات کو مانا جائے۔ (صحیح بخاری، الانعام : 7144)

ہمارے رجحان کے مطابق ایسے حالات میں والد محترم کی بات کو نہ مانا جائے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری اور اطاعت گذاری کی جائے ویسے بھی شادی کے بعد عورت اپنے خاوند کا کہا ماننے کی پابند ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

’’ اگر میں نے کسی کو حکم دینا ہوتا کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ “ (ابوداؤد، النکاح : 2140)

ایک روایت کے مطابق اس کی وجہ بایں الفاظ بیان فرمائی کہ خاوند کا عورت پر بہت بڑا حق ہے۔ (السنن الکبریٰ للنسائی عشرۃ النساء : 9147)

شریعت کی نظر میں شوہر کی اطاعت کا حق والدین کی اطاعت سے بڑھ کر، سیدنا حصین رضی اللہ عنہ کی پھوپھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کس کام کے لئے حاضر ہوئی، جب وہ اپنے کام کے لئے حاضر ہوئی، جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم شوہر والی ہو ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے پوچھا کیا تو اس کی خدمت کرتی ہے ؟ وہ کہنے لگی میں حسب استطاعت اس کی خدمت بجا لاتی ہوں ، پھر آپ نے فرمایا تم نے اس امر پر غور کرنا ہے کہ خاوند کا مقام و مرتبہ تیرے مقابلہ میں کس قدر بلند ہے وہ تیرے لئے جنت ہے یا دوزخ ہے۔ (مسند امام احمد ص 341 ج4)

اس حدیث سے خاوند کے مرتبے اور مقام کا پتہ چلتا ہے کہ اس کی اطاعت، فرمانبرداری اور خدمت گذاری سے جنت حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ اس کی نافرمانی اور خدمت سے پہلو تہی دوزخ کا باعث ہے، لڑکی کو چاہئیے کہ وہ نرمی کے ساتھ اپنے گھر کی آبادی کا احساس دلائے اور بلاوجہ ضد اور ہٹ دھرمی کے انجام سے آگاہ کرے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 34 جلد نمبر 39      12 شعبان تا 18 شعبان 1429      16 تا 22 اگست 2008 ء

 

اسلام میں نکاح کے وقت گواہوں کی کیا حیثیت ہے۔ کیا گواہوں کے بغیر نکاح صحیح ہے ؟ اگر ہو سکتا ہے تو عورت کے انکار اور سرپرست کے دھوکہ سے غلط بیانی کا سدباب کیا ہے۔ (محمد صدیق)

نکاح کے وقت جس طرح سرپرست کی اجازت اور عورت کی رضا مندی ضروری ہے، اسی طرح اظہار رضا مندی کے وقت کم از کم دو گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ آئندہ اگر کوئی تنازعہ کھڑا ہو تو دونوں گواہ اپنا کردار ادا کر سکیں ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سرپرست اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ (دارقطنی ص 225، ج2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ’’ دو دیانت دار گواہ “ کے الفاظ ہیں ۔ (بیہقی ص 125 ج 7) گواہوں میں عدالت بھی شرط ہے کہ وہ اچھے کردار کے حامل اور بہترین اخلاق سے متصف ہوں ، اسی طرح سرپرست کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ لڑکی کے لئے خیر خواہی کے جذبات رکھنے والا ہو جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ دو عادل گواہ اور خیر خواہ سرپرست کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ (مسند امام احمد ص 250ج1) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے موقوف صحیح قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل ص239 ج 6)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک معاملہ لایا گیا جس میں نکاح کے وقت صرف ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھے تو انہوں نے فرمایا یہ خفیہ نکاح ہے، میں اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ اگر میں وہاں شریک ہوتا تو انہیں رجم کی سزا دیتا۔ (مؤطا امام مالک ص 535ج 1)

اگر کوئی غلط بیانی کرتا ہے تو عورت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئیے بہرحال ہمارے نزدیک نکاح کے وقت کم از کم دو عادل اور امانت دار گواہوں کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 14 جلد نمبر 39      20 رجب تا 26 رجب 1429 ھ      29 مارچ تا 4 اپریل 2008 ء

 

میری بیوی بے نماز اور نافرمان ہے، کیا اس وجہ سے میں اسے طلاق دے سکتا ہوں ؟ نیز بتائیں کہ کن کن حالات میں بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے۔ (عبدالحمید۔ لاہور)

نکاح صرف پیاس بجھانے اور افزائش نسل کا ذریعہ نہیں بلکہ شریعت میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو باہمی محبت و یگانگت اور ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے سکون ہوتا ہے اور دونوں میں ایک دوسرے کے لئے اس قدر کشش رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کر سکون حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ جب مرد دیکھے کہ بیوی میرے لئے جسمانی یا ذہنی سکون کا ذریعہ نہیں بلکہ روح کو بے چین کرنے کا باعث ہے تو پھر نکاح کے بندھن کو کھول دینے پر غور ہو سکتا ہے، سکون و اطمینان کے فقدان کا باعث بیوی کی طرف سے نشوز و نافرمان ہونا ہے۔ جو طلاق کے لئے تمہید بنتا ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’ اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، اگر نہ سمجھیں تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو پھر بھی نہ سمجھیں تو انہیں مارو پھر وہ اگر تمہاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ “ (النساء : 34)

نشوز کا لغوی معنی اٹھان اور ابھار کے ہیں ، اصطلاحی طور پر نشوز سرکشی کو کہتے ہیں مثلاً :

عورت، اپنے خاوند کو اپنا ہمسر یا اپنے سے کمتر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لئے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو یا اس کی اطاعت کے بجائے اس سے سرکشی اور کج روی کرتی ہو، خندہ پیشانی سے پیش آنے کے بجائے بد خلقی اور پھوہڑ پن کا مظاہرہ کرتی ہو، بات بات پر ضد کرتی ہو، ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو۔ یہ تمام باتیں نشوز کے معنی میں داخل ہیں .

ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدامات کرنے کی اجازت دی ہے۔

1      اسے نرمی سے سمجھایا جائے کہ اس کے موجودہ رویہ کا انجام برا ہو سکتا ہے۔

2      اگر وہ اس کا اثر قبول نہ کرے تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے۔

3      اگر وہ سرد جنگ کو نہیں چھوڑتی تو اسے ہلکی پھلکی مار دی جائے، اس مار کی چند شرائط ہیں کہ اس مار سے ہڈی پسلی نہ ٹوٹے اور چہرے پر نہ مارے، اگر یہ تمام حربے ناکام ہو جائیں تو طلاق سے قبل فریقین اپنے اپنے ثالث مقرر کریں جو اصلاح کی کوشش کریں ۔ اگر اس طرح اصلاح نہ ہو سکے تو آخری حربہ طلاق دینے کا ہے۔ صورت مسؤلہ میں اگر بیوی بے نماز یا نافرمان ہے تو مذکورہ بالا اقدامات سے اصلاح کی جائے بصورت دیگر طلاق دے کر اسے فارغ کر دیا جائے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 14 جلد نمبر 39      20 رجب تا 26 رجب 1429 ھ      29 مارچ تا 4 اپریل 2008 ء

 

ایک عورت کا خاوند کسی حادثہ میں فوت ہو گیا، اہل خانہ نے دوران عدت ہی اس کی منگنی کر دی اور اسے سونے کی انگوٹھی پہنا دی، کیا کتاب و سنت کی رو سے ایسا کرنا صحیح ہے۔ (عبدالعلی۔ میانوالی)

جو عورت اپنے خاوند کی وفات کے بعد عدت گزار رہی ہو، اسے اشارہ کے ساتھ تو پیغام نکاح دیا جا سکتا ہے لیکن کھلے طور پر دو ٹوک الفاظ میں اسے پیغام دینا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ایسی بیواؤں کو اگر تم اشارہ کے ساتھ پیغام نکاح دے دو یا یہ بات اپنے دل میں چھپائے رکھو دونوں صورتوں میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (البقرہ : 235)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ عدت گزارنے والی بیوی کو اشارہ کے ساتھ تو پیغام نکاح دیا جا سکتا ہے مگر واضح الفاظ میں پیغام دینا ناجائز ہے مثلاً اسے یوں کہا جائے کہ میرا بھی نکاح کرنے کا ارادہ ہے، اس طرح پیغام دینے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ کوئی دوسرا اس سے پہلے کوئی پیغام نہ دے دے۔ البتہ جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو اسے اشارہ سے بھی کوئی ایسی بات کہنا حرام ہے، صورت مسؤلہ میں ایک بیوہ جو اپنے عدت کے ایام گزار رہی تھی اسے پیغام نکاح سے بالاتر ہو کر اس کی منگنی کر دی گئی ہے پھر اسے نشانی کے طور پر منگنی کی انگوٹھی بھی پہنا دی گئی ہے، اس طرح دو گناہ کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

1    دوران عدت پیغام نکاح واضح طور پر دے دیا گیا ہے جو شرعاً حرام ہے۔

2     اسے دوران عدت سونے کی انگوٹھی پہنائی گئی حالانکہ عدت کے دن زینت اس کے لئے حرام تھی۔ اب یہ کام ہو چکے ہیں ، سونے کی انگوٹھی کو اتار دیا جائے اور منگنی کرنے کے گناہ سے استغفار کیا جائے، یہ کوئی ایسا گناہ نہیں جس کے ارتکاب پر کوئی کفارہ ہوتا ہو، اس سے توبہ اور استغفار کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29 جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

 

میں ایک لڑکی سے شادی کرنے کا خواہش مند ہوں تو کیا براہ راست اس سے گفتگو کر سکتا ہوں ، میرا اس سے شادی کا پیغام کس طرح ممکن ہے، اس سلسلہ میں میری راہنمائی کریں۔ (عبدالغفور۔ فیصل آباد)

ہمارے ہاں مشرقی روایات کے مطابق لڑکے کے سرپرست ہی پیغام شادی دیتے ہیں یعنی والدین کے ذریعے ہی منگنی وغیرہ کا پروگرام طے ہوتا ہے کوئی لڑکا براہ راست ایسا کام نہیں کرتا اور نہ ہی لڑکی سے بات چیت کرنے کا مجاز ہے۔ اجنبی عورت سے بات چیت کرنے کے کچھ شرعی آداب حسب ذیل ہےں ، اگر کوئی دوسرا پیغام نکاح دینے کے لئے موجود نہ ہو تو ان آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

1     مرد، عورت تک اس کے محرم یا اپنی محرم عورت کے ذریعے بات پہنچائے۔

2     اگر ایسا ممکن ہو تو ان کی یہ گفتگو خلوت و تنہائی کے بغیر ہو نیز یہ کلام مباح اور جائز موضوع سے خارج نہ ہو۔

3     فتنہ وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو اگر اس طرح کی کلام سے لذت حاصل کرنے لگیں تو ایسا کرنا حرام ہے۔

4     عورت کی طرف گفتگو میں نرم لہجہ اختیار نہ کیا جائے اور وہ مکمل پردے میں ہو۔

5     یہ گفتگو ضرورت سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے۔

بہرحال ایسے موقع پر ضروری ہے کہ فتنہ میں مبتلا کر دینے والے اسباب سے احتراز کیا جائے اور انتہائی احتیاط سے کام لیا جائے اور اپنے مقصد کو ہر اس طریقہ سے حل کیا جا سکتا ہے جو لڑکی کے پاس جانے کے علاوہ ہو، بہرحال اس سلسلہ میں ہر اس کام سے پرہیز کیا جائے جو حرام کام کی طرف لے جانے والا ہو یا حرام کے قریب کرنے والا ہو۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29 جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

 

میری بیوی حمل کے آخری مرحلہ میں ہے، کیا اس حالت میں اس سے ہم بستری کرنا جائز ہے، کتاب و سنت کے مطابق میری راہنمائی کریں ۔ (عبدالسلام۔ خوشاب)

انسان، دوران حمل اپنی بیوی سے جب چاہے ہم بستری کر سکتا ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن اگر ایسا کرنے سے کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو تو یہ فعل حرام ہے۔ اگر نقصان کا اندیشہ نہیں البتہ تکلیف اور مشقت ہو تو اس صورت میں بہتر ہے کہ ہم بستری نہ کی جائے کیونکہ بیوی کو مشقت میں ڈالنا حسن معاشرت کے خلاف ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ اور ان عورتوں سے احسن انداز میں معاشرت اختیار کرو۔ (النساء : 11)

بہرحال صورت مسؤلہ میں دوران حمل آدمی اپنی بیوی سے ہم بستری کر سکتا ہے بشرطیکہ کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہ ہو اور اگر اس سے بیوی تکلیف محسوس کرے تو بھی اس سے اجتناب بہتر ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29 جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

 

میں نے ایک لڑکی سے منگنی کی ہے، لیکن میں اسے کئی مرتبہ طلاق دے چکا ہوں لیکن میں اس سے شادی کا خواہشمند بھی ہوں ، کیا ایسے حالات میں میرا اس سے نکاح ہو سکتا ہے۔ (ایک سائل۔ اوکاڑہ)

عقد نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی کیونکہ طلاق دینا شوہر کا حق ہے۔ منگنی کرنے سے انسان شوہر نہیں بن جاتا بلکہ نکاح سے شوہر بنتا ہے۔ وہ منگیتر جس کے ساتھ ابھی عقد نکاح نہیں ہوا وہ اس کی بیوی نہیں اور نہ وہ اس کا شوہر ہے اس لئے ایسے حالات میں دی ہوئی طلاق بھی صحیح نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’ طلاق دینے کا حق صرف اسی کو ہے جس نے پنڈلی کو تھام رکھا ہو۔ “ (بیہقی) پنڈلی کو تھامنے والا اس کا شوہر ہے اور اسے ہی طلاق دینے کا حق ہے۔ اس لئے منگنی کی صورت میں طلاق صحیح نہیں ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’ طلاق، صرف نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے۔ “ (ابن ماجہ : الطلاق : 2048)

صورت مسؤلہ میں عقد نکاح نہیں ہوا بلکہ صرف منگنی ہوئی ہے، اس لئے منگنی کے دوران طلاق دینا حماقت ہے اور اس قسم کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ، اگر واقعی منگنی کرنے والا لڑکی سے شادی کا خواہشمند ہے تو شرعاً اسے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن اسے اپنے ذہن کو صاف کرنا ہو گا اور خلوص نیت سے اسے نبھانے کا عزم کرنا ہو گا۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29 جلد نمبر 39      07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ      12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

 

میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو نے اس بچے کو آئندہ مارا تو تجھے طلاق ہے، جبکہ وہ حاملہ تھی چنانچہ میرے کہنے کے تیسرے دن اس نے بچے کو مارا اور شام کے وقت بچے کو جنم دیا، اب میرے لئے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ کیا میں اس سے رجوع کر سکتا ہوں ۔ (طاھر محمود۔ قصور)

طلاق کو کسی کام کے ساتھ مشروط کر دینے کو طلاق معلق کہا جاتا ہے، اگر کام کرنے سے پہلے وہ اس شرط کو ختم کر دے تو اسے یہ حق حاصل ہے کیونکہ جو شخص کوئی شرط عائد کر سکتا ہے وہ اس شرط کو ختم کرنے کا بھی مجاز ہے لیکن اگر وہ شرط کو برقرار رکھتا ہے تو بیوی کے وہ کام کرنے کے ساتھ طلاق واقع ہو جائے گی، پھر اسے دوران عدت رجوع کا حق حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور ان کے خاوند اس مدت میں ان سے رجوع کرنے کے زیادہ حقدار ہیں ، بشرطیکہ وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں ۔ “ (البقرہ : 228)

یعنی رجوع کر کے بیوی کو تنگ کرنا مقصود نہ ہو بلکہ اسے گھر میں آباد کرنے کا ارادہ ہو تو اسے رجوع کرنے کا شریعت نے حق دیا ہے۔ صورت مسؤلہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو مشروط طلاق دی اور وہ شرط پوری ہو گئی اس لئے یہ ایک طلاق شمار ہو گئی، پھر اس کو دوران عدت رجوع کرنے کا حق تھا لیکن اتفاق سے اپنے بچے کو جنم دے دیا۔ اب اس کی عدت بھی پوری ہو چکی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ “ (الطلاق : 4)

عدت کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے، اب تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے، بشرطیکہ مطلقہ بیوی نکاح پر آمادہ ہو اور اس کا سرپرست بھی اس کی اجازت دے نیز حق مہر بھی نیا ہو گا اس کے ساتھ گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ان چار شرائط کے ساتھ اب نیا نکاح ہو سکتا ہے۔ تجدید نکاح کی رعایت بھی پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے البتہ تیسری طلاق کے بعد کسی صورت میں رجوع نہیں ہو سکتا، مسئلہ کی وضاحت کے بعد ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ طلاق کو مذاق خیال نہ کیا جائے بلکہ اس کا تصور لاتے ہوئے خوب سوچ و بچار کر لیا جائے کہ اس کا انجام کیا ہو گا، خاوند، بچوں اور بیوی کے لئے کیا کیا مشکلات پیدا ہوں گی، یہ کوئی بجلی کا بلب نہیں ہے کہ ایک کے خراب ہونے کے بعد دوسرا لگا لیا جائے، نکاح ایک زندگی کا بندھن ہے، جو زندگی میں ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ بہرحال طلاق دینے سے پہلے اس کے نتائج پر نہایت سنجیدگی سے غور کر لینا چاہئیے تا کہ اس کے بعد ندامت و شرمساری اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ واللہ اعلم

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 28 جلد نمبر 39      30 جمادی الثانی تا 06 رجب 1429 ھ      05 جون تا 11 جولائی 2008 ء

 

فون یا انٹرنیٹ پر نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیا جائے، آج کل بکثرت ایسے نکاح ہوتے ہیں ۔ (بشیر احمد۔ فیصل آباد)

نکاح کے لئے ایجاب و قبول رکن کی حیثیت رکھتا ہے، ایجاب لڑکی والوں کی طرف سے پیشکش ہوتی ہے جبکہ قبول لڑکے والے اس پیش کش کو قبول کر لیتے ہیں ، یہ معاہدہ خود زوجین بھی سرانجام دے سکتے ہیں اور ان کے نمائندے بھی یہ کام کر سکتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ میں تمہاری شادی فلاں عورت سے کرا دوں ؟ اس نے کہا ’’ ہاں “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کہا کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تیری شادی فلاں مرد سے کرا دوں تو اس نے بھی ہاں کہا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی شادی کرا دی۔ (ابوداؤد، النکاح : 1924)

پھر نکاح کے لئے مزید چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے، عورت کی رضا مندی، سرپرست کی اجازت، حق مہر کا تعین اور گواہوں کی موجودگی، اگر مذکور ارکان و واجبات اور شرائط نکاح کے موقع پر موجود ہوں تو نکاح صحیح ہے بصورت دیگر نکاح درست نہیں ہو گا۔ فون یا انٹرنیٹ پر نکاح کی صورت میں اگر لڑکی والے اس بات کی شہادت دیں کہ واقعی وہی آدمی ہے جس سے ہم اپنی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتے ہیں ، تو نکاح خواں زوجین ایجاب و قبول گواہوں کی موجودگی میں کرا دیتا ہے تو اس قسم کا نکاح درست ہے۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ دولہا میاں خود موجود نہیں ہوتا لیکن اس کی آواز سنی جاتی ہے، جسے اس کے رشتہ دار اور لڑکی کے سرپرست، گواہ وغیرہ سب پہنچاتے ہیں ۔ اس قسم کے نکاح میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے بشرطیکہ مذکورہ بالا ارکان و شرائط موجود ہوں ۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 10 جلد نمبر 39      22 تا 28 صفر 1429 ھ      1 تا 7 مارچ 2008 ء

 

جدید طبی انکشافات کے پیش نظر شادی کے متعلق یہ فلسفہ بیان کیا جاتا ہے کہ رشتہ داروں میں شادی کرنے سے موروثی بیماریاں بچوں میں منتقل ہو جاتی ہیں ، اس لئے خونی رشتہ داروں میں شادی کرنا نامناسب خیال کیا جاتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں ۔ (احمد محمود۔ شارجہ)

ہمارے معاشرہ میں شادی و نکاح کے لئے برادری سسٹم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے بلکہ اس سسٹم کی بت کی طرح پوجا کی جاتی ہے، شاید مذکورہ جدید طبی فلسفہ اسی بت پرستی کا رد عمل ہو، بہرحال قرآن و حدیث میں اس فلسفہ کو کوئی اہمیت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے سلسلہ میں درج ذیل معیار کی نشاندہی کی ہے،

چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ عورت سے چار اسباب کی بناء پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے۔ لہٰذا تم دیندار خاتون سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو اگر ایسا نہ کرو تو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔ “ (صحیح بخاری، النکاح: 5090)

دیندار کے ساتھ ساتھ اگر خاندان میں سے ہو تو صلہ رحمی ہو گی، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم جدید طب کے انکشافات کی وجہ سے قطع رحمی کر لیتے ہیں ، کیا اس جدید طب موروثی بیماریوں کا علاج نہیں ہے، اگر ہے تو اسے کیوں نہیں اختیار کیا جاتا۔ بہرحال شریعت نے اس کو کوئی حیثیت نہیں دی ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جگر گوشہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ ا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا تھا اسے آج کل کی زبان میں کزن میرج کہا جاتا ہے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ ا کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خونی رشتہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہماری طرح شبہات میں مبتلا نہیں ہوئے۔ بہرحال ہمارے نزدیک اس طرح کی سوچ رکھنا قطع رحمی کو ترویج دینا ہے، اگر اس طرح کا کوئی اندیشہ ہو تو سدباب کے طور پر جدید طب سے استفادہ کرنا چاہیے اور اس کے علاج کے لئے کوئی اقدام کرنا چاہیے لیکن قطع رحمی کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 9 جلد نمبر 39      15 تا 21 صفر 1429 ھ      23 فروری تا 29 فروری 2008 ء

 

میری لڑکی کو سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا ہے جبکہ وہ پانچ ماہ کی حاملہ ہے اور دھمکی بھی دی ہے کہ ہم نے صرف بچہ حاصل کرنا ہے، اس کے بعد ہم نے اسے طلاق دے دینی ہے، کیا اس صورت میں بچی کا حمل ضائع کیا جا سکتا ہے تا کہ اس کا آگے نکاح کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ (بشری۔ مانسہرہ)

جواب دین اسلام میں جذبات میں آ کر کسی قسم کے فیصلے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، اگر پانچ ماہ کی حاملہ بچی کو سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا ہے تو اس صورت حال کے پیش نظر ہمیں کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس کی شریعت نے ہمیں اجازت نہیں دی ہے۔ خاندان میں جو صاحب بصیرت اور عقلمند حضرات ہیں ، انہیں درمیان میں لا کر حالات کا جائزہ لیا جائے، اگر بچی کا کوئی قصور ہے تو اسے سمجھایا جائے، اگر سسرال والے قصور وار ہیں تو انہیں اپنے موقف اور رویے پر نظر ثانی کرنے کے لئے کہا جائے، اس طرح کے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے صلح اور مل بیٹھنے میں خیر و برکت رکھی ہے۔ ایک موہوم صورت پر بنیاد رکھ کر اتنا بڑا اقدام نہ کیا جائے جس کے متعلق ہمیں قیامت کے دن باز پرس ہو۔ اسلام، ہمیں ایسے حالات میں حمل ضائع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، خاص طور پر جب چار ماہ سے زائد مدت کا حمل ہو اور اس میں روح پڑ چکی ہو تو اسے ضائع کرنا قتل ناحق کے مترادف ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت حال سامنے آ جائے کہ وہ حمل بچی کے لئے جان لیوا ثابت ہونے کا اندیشہ ہو اور کوئی تجربہ کار، سمجھ دار ڈاکٹر کی رپورٹ پر اعتماد کرنے پر اسے ضائع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن صورت مسؤلہ میں اسے ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس موقع پر ہم سائلہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ صبر سے کام لے، مامتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے، برادری کے ذریعے اس مسئلہ پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 8 جلد نمبر 39      08 تا 14 صفر 1429 ھ      16 فروری تا 22 فروری 2008 ء

 

کیا بیوی بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع لینے کی مجاز ہے؟ وہ کونسے حالات ہیں جن کی بناء پر خلع لینا جائز ہے، کیا خلع لینے کے لئے عورت کو اپنے والدین سے اجازت لینا ضروری ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب کتاب و سنت کی روشنی میں دیں ۔ (ابوعبدالرحمن۔ جلالپور جٹاں )

خلع، عورت کی طرف سے علیحدگی اختیار کرنے کا نام ہے، عورت کو چاہیے کہ کسی معقول وجہ کی بناء پر اپنے خاوند سے علیحدگی کا مطالبہ کرے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جو عورت کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔ “ (مسند امام احمد، ص 277، ج 5)

اس حدیث کی بناء پر عورت کو بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود وہ بلاوجہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ وہ ایسا کرنے میں گنہگار ہو گی۔

وہ حالات جن کے پیش نظر وہ خلع لینے میں حق بجانب ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں :

1۔ شکل و صورت، سیرت و کردار یا دینی اقدار کے متعلق اپنے خاوند کو ناپسند کرے۔

2۔ عمر میں بڑا ہونے، کمزور ہونے یا قوت برداشت سے باہر ہونے میں بھی وہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

یا اس طرح کی کوئی بھی وجہ ہو جسکی بناء پر وہ حقوق کی ادائیگی نہ کر سکتی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’ اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان پر (خلع میں ) کوئی گناہ نہیں ہے۔ “ (البقرہ : 229)

حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی جمیلہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ میں اپنے خاوند ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے خلق و کردار اور دینی اقدار کے متعلق کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن میں اسے برداشت نہیں کر سکتی ہو، میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ اسلام میں رہتے ہوئے کفر ان نعمت کا ارتکاب کروں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں اسے خلع لینے کی اجازت دی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ حق مہر میں دیا ہوا باغ واپس کر دے۔ (صحیح بخاری، الطلاق : 5275, 5273)

واضح رہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کی شکل و صورت پسند نہ تھی جیسا کہ بعض دیگر روایات میں اس کی صراحت موجود ہے، چونکہ یہ عورت کا ایک ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اس لئے اگر وہ عقلمند اور صاحب بصیرت ہو تو اسے خلع لینے کے لئے اپنے والدین سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، ہاں اگر ناسمجھ یا کم عمر یا واجبی سی فہم و بصیرت کی حامل ہو تو والدین یا اپنے بھائیوں سے اجازت لے اور اس اقدام پر ان سے مشورہ کر لے تا کہ آئندہ زندگی میں اس کے لئے کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 5 جلد نمبر 39      16 تا 22 محرم الحرام 1429 ھ      26 تا 1 فروری 2008 ء

 

میرا جب نکاح ہوا تو میری ہونے والی بیوی حالت حیض میں تھی، مجھے کسی نے کہا ہے کہ اس حالت میں نکاح نہیں ہوتا کیا اب مجھے تجدید نکاح کرنا چاہیے، اس کے متعلق میری پریشانی دور کریں ۔ (ابو عکاشہ۔ سیالکوٹ)

عقود و معاملات میں اصل جواز و حلت ہے الا یہ کہ حرمت پر کوئی دلیل قائم ہو، حالت حیض میں نکاح کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں ہے، کتاب و سنت، اقوال صحابہ اور اجماع امت میں کوئی ایسی دلیل ہمیں دستیاب نہیں ہو سکی قیاس صحیح سے بھی اسے حرام قرار نہیں دیا جا سکتا، کسی بھی اہل علم نے اسے حرام قرار دیا یا نہ پسند کیا ہو، ایسا کہیں بھی منقول نہیں ہے، البتہ بعض فقہاء نے حالت حیض میں لڑکی کی رخصتی کو مکروہ ضرور کہا ہے، مبادا خاوند اس سے ہم بستری کر کے گنہگار ہو۔

دراصل بعض لوگ حالت حیض میں نکاح کے حکم کو حالت حیض میں طلاق کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں ۔ حالانکہ ان دونوں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں جس کی بناء پر ایک کو دوسرے پر قیاس کیا جا سکے۔ ہمارے رجحان کی بناء پر حالت حیض میں نکاح بالاتفاق صحیح ہے البتہ خاوند کو اس حالت میں اس کے پاس جانے سے اجتناب کرنا ہو گا، البتہ اس حالت میں طلاق دینا بالاتفاق حرام ہے، اگرچہ اس حالت میں طلاق دینے سے شریعت کی خلاف ورزی کے باوجود طلاق ہو جائے گی جیسا کہ ہم کسی سابقہ فتویٰ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔

بہرحال ایسی حالت کا عقد نکاح جو حالت حیض میں ہو صحیح اور جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کی حرمت پر کتاب و سنت، اقوال صحابہ، قیاس صحیح اور اجماع میں کوئی دلیل نہیں ہے معاملات میں اصل حلت و جواز ہونے کی بناء پر ایسا نکاح صحیح اور جائز ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 5 جلد نمبر 39      16 تا 22 محرم الحرام 1429 ھ      26 تا 1 فروری 2008 ء

 

ہمارے ایک عزیز نے اپنی بیوی کو طلاق دی جبکہ وہ تین ماہ کی حاملہ تھی، طلاق کے بعد والدین نے اسقاط حمل کرا دیا، اس کے بعد اسے دو دفعہ حیض بھی آ چکا ہے، اب دونوں میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے شرعاً کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں ۔ (عبدالمنان۔ صادق آباد)

مختلف حالات کے پیش نظر طلاق یافتہ بیوی کی عدت تین حیض یا وضع حمل یا نوے دن ہے۔ صورت مسؤلہ میں بیوی، طلاق کے وقت حمل سے تھی۔ جس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے لیکن اس کے والدین نے اس کا حمل گرا کر اپنے ذمے قتل ناحق کا جرم لیا ہے جو ہمارے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، انہیں اس سنگین جرم پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا چاہئے۔

ہم لوگ اپنی اولاد سے خیر خواہی کے جوش میں اللہ کی حدود کو فراموش کر دیتے ہیں ۔ جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں ہوا ہے ہمارے نزدیک میاں بیوی اب بھی رجوع کر سکتے ہیں ۔ لیکن اس رجوع کے لئے تجدید نکاح کرنا ہو گا، جس کے لئے بیوی کی رضا مندی، سرپرست کی اجازت، حق مہر کی ازسر نو تعیین، گواہوں کی موجودگی اور بنیادی شرائط ہیں ۔

ہم اسقاط حمل کو وضع حمل تو شمار نہیں کرتے تاہم طلاق ملنے کے بعد اسقاط حمل کی مدت کو عدت میں ضرور شمار کیا جائے جو کم از کم ایک ماہ سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے، اسقاط کے بعد اسے دو مرتبہ حیض بھی آ چکا ہے، اس طرح پہلی مدت اور دو حیض ملا کر وہ اپنی عدت ختم کر چکی ہے، عدت کے بعد نکاح خود بخود ختم ہو جاتا ہے، ایسے حالات میں تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اپنے پہلے خاوندوں سے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ بنو، جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہوں ۔ “ (البقرہ: 232)

ہمارے رجحان کے مطابق میاں بیوی رجوع کر سکتے ہیں لیکن یہ رجوع تجدید نکاح کے بغیر نہیں ہو گا، آئندہ اس قسم کے حالات نہ پیدا ہونے دئیے جائیں ۔ نیز والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں ، اولاد سے محبت کرتے ہوئے اللہ کے غضب کو نہ دعوت دی جائے اللہ تعالیٰ ہمیں صالح عمل کرنے کی توفیق دے۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

ایک عورت اپنے خاوند سے خلع لیتی ہے، پھر رجوع کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے، کیا خلع کے بعد رجوع ہو سکتا ہے؟ نیز زندگی میں کتنی مرتبہ عورت کو خلع لینے کا حق ہے؟ طلاق کے لئے تو تین کی تحدید ہے، خلع کی تحدید بھی ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں ۔ (عبدالغفور۔ نارنگ منڈی)

میاں بیوی کے لئے دو قسم کی علیحدگی ایسی ہے کہ وہ عام حالات میں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنے کے اہل نہیں رہتے، ایک تو وقفہ وقفہ سے تین طلاق دینا، اس صورت میں وہ صلح نہیں کر سکتے ہاں اگر تیسری طلاق کے بعد بیوی کسی دوسرے شخص سے اس کے گھر آباد ہونے کا ارادہ لے کر نکاح کرتی ہے پھر وہ فوت ہو جاتا ہے یا اسے طلاق دے دیتا ہے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ دوسری وہ علیحدگی جو لعان کے بعد عمل میں آئے تو ایسے میاں بیوی زندگی میں کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے، البتہ خلع کے بعد بیوی اگر موقف سے دستبردار ہو جاتی ہے تو نئے نکاح سے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں ، لیکن خلع کے بعد نکاح کرنے کی صورت میں پھر دوبارہ خلع کا پروگرام بنانا اللہ کی شریعت کو کھلونا بنانے کے مترادف ہے،

ہمارے رجحان کے مطابق خلع بھی ایک قسم کی طلاق ہے بلکہ طلاق سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ کیونکہ ایک یا دو طلاق کے بعد دوران عدت تجدید نکاح کے بغیر رجوع کیا جا سکتا ہے، لیکن خلع کے بعد تو تجدید نکاح کے بغیر رجوع ممکن ہی نہیں ہے، اس لئے عورت کو زیادہ سے زیادہ زندگی میں دو دفعہ خلع لینے کا حق ہے جس کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے وہ بھی تجدید نکاح کے ساتھ لیکن تیسری دفعہ خلع لینے کے بعد ہمیشہ کے لئے معاملہ ختم ہو جائے گا، اگرچہ قرون اولی میں اس قسم کا کوئی واقعہ ہماری نظر سے نہیں گزرا تاہم دیگر اشباہ و نظائر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا یہ رجحان ہے کہ طلاق کی طرح خلع کی تعداد بھی مقرر ہونا چاہئے جو زیادہ سے زیادہ تین ہے، تین دفعہ خلع لینے کے بعد معاملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہونا چاہئے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

وراثت کے مسائل

ایک آدمی فوت ہوا ہے اس کی نقدی رقم اسی ہزار روپیہ ہے، پس ماندگان میں بیوی، ایک لڑکی اور تین لڑکے ہیں ، دس ہزار روپیہ کیسے تقسیم ہو گا۔ (عبداللطیف۔ وہاڑی)

صورت مسؤلہ میں بیوی کو 1/8 ملے گا کیونکہ مرنے والے کی اولاد زندہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اگر مرنے والے کی اولاد ہو تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔ “ (النساء : 12) باقی ترکہ اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک لڑکے کو لڑکی سے دگنا حصہ ملے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق تاکیدی حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا۔ “ (النساء : 11) صورت مسؤلہ میں جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں ایک حصہ بیوہ کو اور باقی اولاد میں اس طرح تقسیم کیے جائے کہ دو حصے ایک لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دیا جائے چنانچہ کل جائیداد اسی ہزار ہے اور اگر اس کے آٹھ حصے کئے جائیں تو ایک حصہ دس ہزار کا ہو گا۔ بیوہ کو دس ہزار دیا جائے پھر ہر لڑکے کو بیس بیس ہزار روپیہ اور لڑکی کو دس ہزار روپیہ دے دیا جائے۔ بیوی کا حصہ : -/10000 لڑکی کا حصہ : -/10000 ہر ایک لڑکے کا حصہ : -/20000 روپے (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 10 جلد نمبر 39      22 تا 28 صفر 1429 ھ      1 تا 7 مارچ 2008 ء

 

عمر علی لا ولد فوت ہوا ہے۔ پسماندگان میں اس کی والدہ، تین مادری بھائی، حقیقی چچا کی اولاد اور پدری چچا موجود ہے، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی۔ (غلام الٰہی۔ عبدالحکیم)

جواب بشرط صحت سوال، عمر علی جو لا ولد ہوا ہے، اس کی والدہ کو اس کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے چھٹا حصہ ملے گا کیونکہ اس کے متعدد بھائی زندہ موجود ہیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اگر سب کے بہن بھائی (متعدد) ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ “ (النسائ:11)

تین مادری بھائیوں کو کل ترکہ سے ایک تہائی ملے گا اور وہ سب اس حصہ میں برابر کے شریک ہوں گے فرمان الٰہی ہے۔ ’’ اور اگر (مادری) بہن بھائی زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔ (النسائ:12)

ماں کا چھٹا حصہ اور مادری بھائیوں کا ایک تہائی حصہ نکال کر باقی جائیداد کا مالک مرحوم کا پدری چچا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کے حصے دے کر جو جائیداد باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کے لئے ہے۔ (صحیح بخاری، الفرائض:6736)

صورت مسؤلہ میں شب کے مذکر قریبی رشتہ دار اس کے پدری چچا ہیں ، حقیقی چچا کی اولاد اس سے محروم ہو گی کیونکہ پدری چچا کے مقابلہ میں حقیقی چچا کی اولاد کا تعلق دور کا ہے، اس لئے ان کی موجودگی میں حقیقی چچا کی اولاد کو کچھ نہیں ملے گا۔ سہولت کے پیش نظر جائیداد کے بارہ حصے کر لئے جائیں ، پھر درج ذیل تفصیل کے مطابق اسے تقسیم کر دیا جائے۔

ماں کا حصہ:        12 کا 6/1 =2

مادری بھائیوں کا حصہ:       12 کا 3/1 =4

میزان:  6

باقی:     12+6+6 باقی 6 حصے پدری و حقیقی چچا کے ہیں ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 8 جلد نمبر 39    08 تا 14 صفر 1429 ھ      16 فروری تا 22 فروری 2008 ء

 

ہمارا بھائی فوت ہوا ہے، اس کے والدین، بیوی ایک بیٹا اور دو بھائی زندہ ہیں ، اس کی جائیداد کیونکر تقسیم ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں ہمارا مسئلہ حل فرمائیں ۔ (عبدالغفور۔ لاہور)

والدین میں ہر ایک کو چھٹا، چھٹا حصہ، بیوی کو آٹھواں اور باقی بیٹے کو ملے گا، اس صورت میں بھائی محروم ہیں ، کل جائیداد کے چوبیس حصے کر لئے جائیں ، پھر درج ذیل تفصیل سے اسے تقسیم کر لیا جائے۔

1۔ والد چھٹا حصہ : 4

2۔ والدہ چھٹا حصہ : 4

3۔ بیوی آٹھواں حصہ : 3

4۔ بیٹا۔ باقی ماندہ : 13

5۔ بھائی : محروم

بیٹے کو عصبہ کی حیثیت سے دیا جائے گا، اس کی موجودگی میں بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 5 جلد نمبر 39      16 تا 22 محرم الحرام 1429 ھ      26 تا 1 فروری 2008 ء

 

میرے بیٹے نے میری اجازت کے بغیر میرا مکان چوری چھپے اپنے نام ہبہ کروا لیا تھا، وہ اس کے نام منتقل بھی ہو چکا ہے، اب میرا بیٹا فوت ہو چکا ہے، اس کے پس ماندگان میں والد، اس کی بیوی، پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہیں ۔ اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟ اگر میں قانونی طور پر اپنا مکان واپس لے لوں تو پھر اس مکان کی کیا پوزیشن ہو گی؟

مرحوم نے سائل کی اجازت کے بغیر جو مکان اپنے نام ہبہ کرایا ہے وہ ناجائز ہے، اگر سائل اسے اپنی خوشی سے معاف کر دیتا ہے تو اس کی جملہ جائیداد کو درج ذیل طریقہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

والد کا چھٹا حصہ، بیوی کا آٹھواں حصہ اور باقی جائیداد، اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم ہو گی کہ ایک لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دوگنا حصہ ملے گا آسانی کے لئے اس کی جائیداد کے دو سو چونسٹھ (264) حصے بنا لئے جائیں ۔

والد کا حصہ: 264٪6=44

بیوی کا حصہ: 264٪8=33       باقی: 264- (44+33) =187

ہر ایک لڑکے کا حصہ: 34   (لڑکوں کا مجموعی حصہ، 34×5=170)

لڑکی کا حصہ: 17

کل حصے: 44+33+170+17=264

اگر سائل اسے معاف نہیں کرتا تو مکان کے علاوہ دیگر جائیداد کو درج بالا تفصیل کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔ مکان کا مالک خود سائل ہے جو بعد میں موجود ورثاء کو ملے گا، اس سے وصیت کے ذریعے غیر ورثاء مثلاً نواسوں وغیرہ کو دیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

ایک چیز کے متعلق دو شخص دعوے دار ہیں اور دونوں کے پاس شواہد موجود ہیں ، ایسے حالات میں شرعی فیصلہ کیسے کیا جائے گا۔ (عبدالودود۔ احمد آباد)

اگر ایک چیز کے متعلق دو دعویدار ہوں اور دونوں کے پاس شواہد ہوں یا دونوں اپنا دعویٰ ثابت نہ کر سکتے ہوں تو ایسی صورت میں فقہاء کے دو موقف ہیں ، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے : دونوں کے پاس دلائل ہوں یا نہ ہوں ، فیصلے کی صورت یہ ہو گی کہ جس چیز کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے اسے دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا جائے گا، اس کی دلیل حسب ذیل واقعہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دو آدمیوں نے ایک اونٹ کے متعلق دعویٰ کیا پھر اس پر دونوں نے دو، دو گواہ پیش کر دئیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔ (ابوداؤد، القضاء : 3615) اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ ایک چیز کا دعویٰ کرنے والے دونوں آدمیوں کے پاس نہ تو کوئی ثبوت تھا اور نہ ہی وہ کوئی گواہ پیش کر سکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔ (مسند امام احمد ص405ج 4) لیکن ان دونوں روایات کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل ص376، 277 ج 8)

اس سلسلہ میں دوسرا موقف یہ ہے کہ مدعیان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی۔ جس کے نام قرعہ نکل آئے گا وہ قسم اٹھا کر وہ چیز لے لے گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معاملہ میں ایک قوم پر قسم پیش کی تو وہ فوراً قسم اٹھانے کے لئے تیار ہو گئے۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے تا کہ جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم اٹھا کر اس چیز کا حقدار بن جائے۔ (صحیح بخاری، الشہادات : 2674) اس مؤقف کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ دو آدمی ایک چیز کے متعلق جھگڑ پڑے ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قسم دینے کے لئے قرعہ اندازی کر لیں ۔ (ابوداؤد، القضاء : 3616)

اس کی صورت بھی یہ ہے کہ ایک چیز کے متعلق دو آدمی دعویدار ہیں لیکن وہ چیز کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی اس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو ایسے حالات میں ان دونوں کے درمیان قرعہ اندازی کی جائے گی پھر جس کے نام قرعہ نکل آئے وہ قسم کے ذریعے اس چیز کا حقدار ہو گا۔ ہمارے رجحان کے مطابق آخری مؤقف صحیح ہے اور صحیح احادیث کے عین مطابق ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 33 جلد نمبر 39     5 شعبان تا 11 شعبان 1429    9 تا 15 اگست 2008 ء

 

آج کل عدالتوں میں دولت اور مال کی بنیاد پر گواہ مل جاتے ہیں ، وہ پیسہ لے کر گواہی دیتے ہیں ، اس قسم کی گواہی سے جو فیصلہ ہو گا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا شریعت میں ایسی گواہی دینے کی کوئی گنجائش ہے۔ (محمد عبدہ۔ سمہ سٹہ)

انسان نے جس چیز کے متعلق گواہی دینا ہو اس کے بارے میں ضروری ہے کہ وہ یقینی معلومات رکھتا ہو یا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، ظن و تخمین کی بنیاد پر یا دیکھے بغیر کسی چیز کی گواہی دینا جھوٹی گواہی ہے جس کی شریعت نے بہت مذمت کی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا :

’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ “ (صحیح بخاری، الشہادات : 2653)

اللہ تعالیٰ نے جھوٹی گواہی سے اجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔ (الحج : 30) پھر خود کو گواہی کے لئے پیش کرنا جبکہ اس سے کسی نے گواہی کا مطالبہ نہ کیا ہو، ایسا قرب قیامت کے وقت ہو گا۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر ان لوگوں کا جو ان کے قریب ہیں …. پھر ان کے بعد ایسے برے لوگ پید اہو جائیں گے جو گواہی دیں گے لیکن ان سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہو گا وہ خائن ہوں گے امین نہیں ہوں گے وہ نذر مانیں گے لیکن اپنی نذر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو جائے گا۔ (صحیح بخاری، الرقاق : 6328)

صورت مسؤلہ میں جس قسم کی گواہی کا ذکر ہے، مذکورہ حدیث میں اسی کا بیان ہے گویا حدیث میں اس قسم کے گواہوں کا ذکر کیا گیا ہے، اس گواہی کی بنیاد پر جو فیصلہ ہو گا شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جس شخص کے حق میں اس قسم کی گواہی کو بنیاد بنا کر فیصلہ کیا جائے، وہ شخص اپنے لئے فیصلہ شدہ چیز کو حلال خیال نہ کرے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں تو صرف ایک انسان ہوں ، تم لوگ میرے پاس اپنے جھگڑے لے کر آتے ہو اور تم میں سے کوئی اپنے دلائل بڑی خوبی اور چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے، اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں ، اسی بنیاد پر اگر میں کوئی چیز اس کے بھائی کے حق میں سے دوں تو میں اس کے لئے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ۔ “ (صحیح بخاری، المظالم : 2458)

بہرحال صورت مسؤلہ میں بیان کردہ گواہی کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس بنیاد پر کیا ہوا فیصلہ بھی انتہائی مخدوش ہے۔ اور جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اسے وہ چیز لینا حلال نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 33 جلد نمبر 39      5 شعبان تا 11 شعبان 1429    9 تا 15 اگست 2008 ء

ہمارے ہاں آڑھتی حضرات کا یہ طریقہ ہے کہ زمیندار ان سے رقم لے لیتے ہیں اور فصل کے موقع پر پیداوار دینے کا وعدہ کرتے ہیں ، اس طرح آڑھتی حضرات ایک لاکھ روپے دے کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ کما لیتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے ؟ کتاب و سنت کا حوالہ دیں ۔ (احمد عبدالستار۔ حیدر آباد)

کسی چیز کی آئندہ ادائیگی کے وعدے پر اس کی نقد قیمت وصول کرنا جائز ہے۔ شرعی طور پر اسے بیع سلم اور بیع سلف کہا جاتا ہے، اس طرح کی خرید و فروخت جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس طرح کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط ہیں ۔ جو چیز بطور قیمت ادا کی جا رہی ہے اس کی مقدار معلوم ہو اور اسے مجلس عقد میں ادا کر دیا جائے، نیز جو چیز آئندہ لینی ہو اس کا ایسا وصف بیان کیا جائے جس سے اس کی مقدار اور نوع ممتاز ہو جائے تا کہ دھوکے اور تنازعہ کا امکان نہ رہے نیز ادائیگی کی مدت معلوم ہونا چاہئیے، اس کے لئے تاریخ طے کر لی جائے،

صحیح بخاری میں ہے :

’’ جو شخص کسی بھی چیز میں بیع سلم کرنا چاہے وہ مقررہ وزن اور مقررہ مدت ٹھہرا کر کرے۔ “ (صحیح مسلم، السلم : 224)

بہرحال اس قسم کی خرید و فروخت کے لئے ضروری ہے کہ جنس معین ہو، ماپ یا وزن بھی معلوم ہو، بھاؤ بھی طے ہو اور ادائیگی کی تاریخ بھی معین ہو۔ دراصل اس قسم کی خرید و فروخت اشیاء کے معدوم ہونے کی وجہ سے ناجائز تھی لیکن اقتصادی مصالح کے پیش نظر لوگوں کے لئے نرمی کرتے ہوئے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، معاملہ طے کرتے وقت اس چیز کا موجود ہونا لازمی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ اس قسم کی خرید و فروخت کرتے تھے تو لوگوں نے ان سے دریافت کیا آیا اس وقت ان کے پاس کھیتی موجود ہوتی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان سے اس کے متعلق نہیں پوچھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، السلم : 2255)

صورت مسؤلہ میں اگر آڑھتی حضرات زمیندار سے خرید و فروخت کا معاملہ کرتے ہیں کہ انہیں پیشگی رقم دے کر آئندہ جنس لینے کا اہتمام کرتے ہوں اور اس کا بھاؤ، تاریخ ادائیگی، جنس اور نوع نیز بھاؤ کا تعین کر لیا جائے تو جائز ہے اور اگر روپیہ دے کر آئندہ فصل کے موقع پر ان سے روپیہ ہی لینا ہے تو ایسا کرنا سود ہے جو بہت سنگین جرم ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 14 جلد نمبر 39 20 رجب تا 26 رجب 1429 ھ      29 مارچ تا 4 اپریل 2008 ء

 

میں نے حج کے لئے حکومت کی حج سکیم میں رقم جمع کرائی تھی۔ قرعہ اندازی میں میرا نام نہیں آیا جس کی وجہ سے میری رقم مجھے واپس مل گئی ہے، اب کیا مجھے اس سے زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے یا نہیں ، قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔

زکوٰۃ، دین اسلام کا تیسرا رکن ہے، صاحب استطاعت انسان پر زکوٰۃ فرض ہے،

فرضیت زکوٰۃ کی تین شرائط حسب ذیل ہیں :

 1.     وہ رقم ضروریات سے زائد ہو۔ اگر کوئی ضرورت کے لئے رکھی ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔

 2.     وہ رقم نصاب کو پہنچ جائے، اگر نصاب سے کم سرمایہ ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے زکوٰۃ کا نصاب سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی ہے۔

 3.     اس زائد از ضرورت رقم پر سال گزر جائے۔ سال سے پہلے پہلے کسی قسم کی رقم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل نے وہ رقم حج کے لئے رکھی تھی بلکہ وہ حکومت کی حج اسکیم میں جمع کرا دی تھی، اب اگر قرعہ اندازی میں نام نہیں نکلا تو اس سے ضرورت ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کا مصرف بدستور قائم ہے کہ اسے حج کے لئے استعمال کرنا ہے، اس لئے حج کے لئے مختص کی جانے والی رقم میں زکوٰۃ نہیں ہے ہاں اگر کوئی اس سے زکوٰۃ دینا چاہے تو اس کارخیر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7 جلد نمبر 39      01 تا 07 صفر 1429 ھ      9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

میرے بیٹے نے میری اجازت کے بغیر میرا مکان چوری چھپے اپنے نام ہبہ کروا لیا تھا، وہ اس کے نام منتقل بھی ہو چکا ہے، اب میرا بیٹا فوت ہو چکا ہے، اس کے پس ماندگان میں والد، اس کی بیوی، پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہیں ۔ اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟ اگر میں قانونی طور پر اپنا مکان واپس لے لوں تو پھر اس مکان کی کیا پوزیشن ہو گی؟

مرحوم نے سائل کی اجازت کے بغیر جو مکان اپنے نام ہبہ کرایا ہے وہ ناجائز ہے، اگر سائل اسے اپنی خوشی سے معاف کر دیتا ہے تو اس کی جملہ جائیداد کو درج ذیل طریقہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

والد کا چھٹا حصہ، بیوی کا آٹھواں حصہ اور باقی جائیداد، اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم ہو گی کہ ایک لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دوگنا حصہ ملے گا آسانی کے لئے اس کی جائیداد کے دو سو چونسٹھ (264) حصے بنا لئے جائیں ۔

والد کا حصہ: 264٪6=44

بیوی کا حصہ: 264٪8=33       باقی: 264- (44+33) =187

ہر ایک لڑکے کا حصہ: 34   (لڑکوں کا مجموعی حصہ، 34×5=170)

لڑکی کا حصہ: 17

کل حصے: 44+33+170+17=264

اگر سائل اسے معاف نہیں کرتا تو مکان کے علاوہ دیگر جائیداد کو درج بالا تفصیل کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔ مکان کا مالک خود سائل ہے جو بعد میں موجود ورثاء کو ملے گا، اس سے وصیت کے ذریعے غیر ورثاء مثلاً نواسوں وغیرہ کو دیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

معاملت کے احکام

ایک آدمی نے چوری کی، سامان کے مالک نے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا، کیا وہ عدالت میں جانے کے بعد چور کو معاف کر سکتا ہے تا کہ اس سے حد ساقط ہو جائے، قرآن و سنت اس معاملہ میں ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں ۔ (ابوعکرمہ۔ ملتان)

اللہ تعالیٰ خود معاف کرنے والا ہے اور معافی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے لیکن چوری کے معاملات عدالت میں جانے سے پہلے پہلے معاف ہوتے ہیں ۔ جب کوئی معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو مالک کو معاف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آپس میں حدود معاف کر دو اور جس حد کا معاملہ میرے پاس آ جائے تو وہ واجب ہو جائے گی۔ “ (ابوداؤد، الحدود: 4376)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو جس کی چوری ہوئی تھی، اس نے کہا میں نے یہ چیز اسے ھبہ کر دی ہے تو آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لانے سے پہلے تو نے ایسا کام کیوں نہ کیا۔ “ (مستدرک حاکم ص 380 ج 4)

اگرچہ کچھ ائمہ کرام کا موقف ہے کہ عدالت میں جانے کے بعد بھی اگر مالک معاف کر دے تو حد ساقط ہو جائے گی لیکن مذکورہ احادیث سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے، لہٰذا عدالت میں پہنچنے سے پہلے پہلے معاف کر دینے کا حق ہے، اس کے بعد وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39      9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ      19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

میرے ایک دوست نے مجھ سے کچھ رقم کا مطالبہ ہے اور کیا ہے کہ میں آپ کو کاروبار میں تو شریک نہیں کر سکتا البتہ ہر چھ ماہ بعد کل رقم کا پانچ فیصد ادا کرتا رہوں گا، کیا میرے لئے جائز ہے کہ طے شدہ منافع کے عوض میں اسے کاروبار کے لئے کچھ رقم دوں ، کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں ، کیا ایسا کرنا سود تو نہیں ہے ؟ (محمد اکرم بھٹی۔ لاہور)

کاروبار کی کئی ایک صورتیں رائج ہیں ، ایک یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کو سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا اس سرمایہ سے کاروبار کرتا ہے، پھر ایک خاص شرح کے مطابق منافع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ، کاروبار کی اس شکل کو مضاربت کہتے ہیں ، اسکے جواز میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن صورت مسؤلہ میں کاروبار کی جو صورت بیان کی گئی ہے اس میں اور بنک کے سود میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ بنک میں صارفین کو رقم جمع کرانے کے بعد ایک طے شدہ شرح کے مطابق سود دیتا ہے جسے منافع کا نام دیتے ہیں ۔ کسی چیز کا نام بدل دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل جاتی، جس آدمی نے رقم فراہم کی ہے اسے چاہئیے کہ کاروبار کے نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہو لیکن دی ہوئی رقم پر ایک خاص شرح کے مطابق ’’ نفع “ لینا خالص سود ہے۔ مثلاً اگر اس نے مبلغ پچاس ہزار روپیہ دیا ہے اور طے پایا ہے کہ چھ ماہ بعد اس رقم پر پانچ فیصد ’’ نفع “ دیا جائے گا، اس طرح چھ ماہ بعد پچاس ہزار کے ساتھ پانچ ہزار مزید شامل ہو جائے گا، اب اس کاروبار میں اور بنک کے سود میں کیا فرق ہے۔ ہمارے نزدیک اس انداز سے اپنی رقم پر خاص شرح فی صد کے اعتبار سے نفع لینا خالص سود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام کہا ہے۔ “ (البقرہ : 275) نیز فرمایا : ’’ اگر تم اس کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ اور اسکے رسول کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر اس سے توبہ کر لو تو تم صرف اپنے اصل زر کے حقدار ہو۔ (البقرہ : 279) بہرحال تجارت اور سود میں بہت فرق ہے، دو چیزیں تو بہت نمایاں ہیں ۔

1     سود میں طے شدہ شرح کے مطابق منافع یقینی ہوتا ہے جبکہ تجارت میں نفع کے ساتھ نقصان کا بھی احتمال ہوتا ہے۔

2     مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس میں مفاد مشترکہ ہوتا ہے جبکہ تجارتی سود میں سودخور کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ صورت مسؤلہ میں طے شدہ شرح کے مطابق نفع لینا صریح سود ہے ایک مسلمان شخص کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 28 جلد نمبر 39      30 جمادی الثانی تا 06 رجب 1429 ھ      05 جون تا 11 جولائی 2008 ء

 

ایک تنگ دست آدمی، کسی مالدار دوست سے دوسروں میں تقسیم کرنے کے لئے زکوٰۃ وصول کرتا ہے تو کیا اسے زکوٰۃ خود استعمال کرنے کی شرعاً اجازت ہے، براہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا جواب دیا جائے۔ (عبدالوکیل ہاشمی۔ خانپور)

وکیل کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مال زکوٰۃ کو اپنے لئے استعمال کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوست کو بتائے کہ وہ خود اس کا محتاج ہے اگر وہ اجازت دے تو اپنے استعمال میں لائے اگر وہ اجازت نہ دے تو اسے آگے تقسیم کر دے، اس کی اجازت کے بغیر مال زکوٰۃ کو خود استعمال کرنا حرام اور خلاف امانت ہے، اگر اس نے دوست کی اجازت کے بغیر مال زکوٰۃ تقسیم کے بجائے خود استعمال کر لیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے اس کی ادائیگی کرے اور اسے دوسرے غرباء میں تقسیم کرے، بعض لوگ ایسے بھی سامنے آتے ہیں کہ لوگ انہیں محتاج سمجھ کر زکوٰۃ دیتے ہیں ، حالانکہ اس کے پاس مال زکوٰۃ اس قدر جمع ہو چکا ہے کہ وہ تنگ دستی کے دائرہ سے نکل چکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے غنی کر دیا ہے لیکن لوگ اسے حقیر سمجھ کر زکوٰۃ بدستور دیتے رہتے ہیں اور وہ بھی حسب معمول وصول کرتا ہے اور اسے اپنے استعمال میں لاتا ہے اور یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ میں نے لوگوں سے نہیں مانگا، یہ تو اللہ کا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنچایا ہے، ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے غنی کر دیا ہو اس کے لئے زکوٰۃ وصول کرنا حرام ہے، بہرحال صورت مسلہ میں آدمی کو وضاحت کر دینا چاہیے کہ میں خود زکوٰۃ کا حقدار ہوں ، اگر وہ اجازت دے تو مال زکوٰۃ اپنے لئے رکھ لے بصورت دیگر اسے فقراء میں تقسیم کر دے۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 10 جلد نمبر 39      22 تا 28 صفر 1429 ھ      1 تا 7 مارچ 2008 ء

 

میں نے کسی سے قرض وصول کرنا ہے، اس نے میرے پاس اپنا مکان رکھا ہے جس کی مالیت تقریباً دس لاکھ ہے، جبکہ قرض پانچ لاکھ ہے، کیا میں اس گروی شدہ مکان کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہوں ۔ (عبدالحکیم۔ راولپنڈی)

اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں ہے تو کسی حالت میں اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا اور اگر وہ ایسی چیز ہے جو خرچے کی محتاج ہے تو خرچ کے عوض اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رہن رکھے ہوئے جانور پر اخراجات کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ بھی پیا جا سکتا ہے اور جو شخص سواری کرتا ہے یا دودھ پیتا ہے وہی اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ (صحیح بخاری، الرھن : 2512)

اس حدیث کی بناء پر مکان، پلاٹ اور زمین وغیرہ خرچے کی محتاج نہیں ہے، بس چیزوں کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، ہاں اگر وہ اجازت دے دے تو اسے اپنے استعمال میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ گروی رکھی ہوئی چیز کا اصل مالک تو وہی ہے جس نے قرض لیا ہے اور اس کے منافع کا بھی وہی مالک ہے کسی دوسرے کے لئے اس کے منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود اس کی اجازت دے دے تو جس کے پاس گروی رکھا گیا ہے وہ اسے استعمال کر سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی صورت یہ ہونا چاہیے کہ اگر مکان کا ماہانہ کرایہ پانچ ہزار ہے تو سال کے بعد ساٹھ ہزار اس کے قرض سے منہا کر دیا جائے، اس طرح دونوں کو فائدہ ہو گا، قرض لینے کا بوجھ بھی ہلکا ہو گا اور دینے والے کو ایک سہولت میسر ہو گی، بہرحال صورت مسلہ میں ہمارے نزدیک یہی صورت ہونا چاہیے کہ مکان کا کرایہ طے کر لیا جائے اور گروی شدہ مکان میں رہائش رکھ لی جائے، جب قرض کی ادائیگی ہو تو قرض سے اتنی رقم منہا کر دی جائے جس قدر اس نے مکان کو استعمال کیا ہے اور معروف طریقہ کے مطابق اس کا کرایہ اس صورت میں ادا کیا جائے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 10 جلد نمبر 39      22 تا 28 صفر 1429 ھ      1 تا 7 مارچ 2008 ء

 

ہمارے پلاٹوں کی خرید و فروخت اس طرح کی جاتی ہے کہ صرف بیعانہ کی ادائیگی کر کے پلاٹ کو آگے بیچ دیا جاتا ہے اور اصل مالک تیسرے آدمی کے نام رجسٹری کرا دیتا ہے، جس نے بیعانہ ادا کیا ہوتا ہے وہ صرف بیعانہ کی ادائیگی پر اس سے نفع کما لیتا ہے کیا اس صورت میں یہ کاروبار جائز ہے۔ (عبدالحکیم۔ منڈی نارووال)

کاروبار کی ذکر کردہ صورت شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ شریعت نے ایسی چیز کی خرید و فروخت سے منع کیا ہے جو فروخت کرتے وقت اس کے پاس موجود نہ ہو یا اس کی ملکیت نہ ہو جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو چیز تیرے پاس نہیں اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ۔ (مسند امام احمد ص 187 ج 2)

اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس ایک شخص آتا ہے۔ وہ مجھ سے کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے، میں سودا کر لیتا ہوں اور وہ چیز اسے بازار سے خرید کر دے دیتا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو چیز تمہارے پاس موجود نہیں اسے فروخت نہ کرو۔ “ (ابوداؤد، البیوع: 3503)

اس حدیث میں وضاحت ہے کہ کسی ایسی چیز کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے جو فروخت کے وقت بائع کی ملکیت نہ ہو اس طرح اگر کسی نے کوئی چیز خریدی ہے تو جب تک اس پر قبضہ نہ ہو جائے اسے آگے کسی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے قبضے میں لینے سے پہلے آگے فروخت نہ کرو۔ (مسند امام احمد ص403 ج3)

اسی طرح حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کردہ سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا گیا ہے حتیٰ کہ تجار حضرات اسے اپنے گھروں میں لے جائیں ، یعنی اس پر قبضہ کرنے کے بعد اسے آگے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ (مستدرک حاکم ص 40 ج 2)

صورت مسؤلہ میں خریدار، مالک کو پلاٹ کا زر بیعانہ ادا کرتا ہے، جو صرف اعتماد کی علامت ہے کہ میں اس کا خریدار ہوں ، آپ اسے آگے فروخت نہ کریں ، پھر طے شدہ مدت پر پوری رقم ادا کر کے اسے خریدا جاتا ہے اور اس کی رجسٹری یا انتقال سے اس کی ملکیت میں آتا ہے، جب تک وہ پلاٹ، خریدار کی ملکیت نہیں ہوتا اور وہ اس پر قبضہ نہیں کر لیتا وہ اسے آگے فروخت کرنے کا مجاز نہیں ہے، اس لئے پیش کردہ صورت میں صرف بیعانہ ادا کر کے اسے آگے فروخت کر دینا شرعاً جائز نہیں ہے، پہلے وہ اس پلاٹ کو اپنے نام کرائے اور اس پر قبضہ کر کے پھر اسے آگے فروخت کرے، اس طرح فیکٹری سے کھل بنولہ خریدا جاتا ہے۔ رقم ادا کر کے اس پر قبضہ نہیں کیا جاتا بلکہ فیکٹری میں رہنے دیا جاتا ہے مالک سے صرف پرچی یا رسید لی جاتی ہے، خریدار اس پرچی کو ایک تیسرے آدمی کو فروخت کر دیتا ہے اس طرح اس رسید کی ہی خرید و فروخت ہوتی رہتی ہے، جبکہ اصل مال فیکٹری میں پڑا ہے، اسے نہ کسی نے دیکھا اور نہ ہی اس پر قبضہ کیا، اس کاروبار، احادیث بالا کی روشنی میں ناجائز ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 8 جلد نمبر 39    08 تا 14 صفر 1429 ھ      16 فروری تا 22 فروری 2008 ء

 

ہمارے گھر میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخراجات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں ، ایسے حالات میں مجھے شرعاً اجازت ہے کہ میں گھریلو اخراجات کے لئے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پیسے نکالو ں ؟ (ایک خاتون …. ملتان)

نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے اور تنگدست اللہ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے (الطلاق : 7)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بات کی تلقین فرمائی ہے حدیث میں ہے: ’’بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات کو پورا کرے اگر وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتا ہے یا بخل سے کام لے کر پورے ادا نہیں کرتا تو بیوی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے خاوند کی آمدن سے انہیں پورا کرسکتی ہے جیسا کہ

حضرت ھند بنت عتبہ رضی اللہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خاوند کے متعلق شکایت کی کہ میرا خاوند ابو سفیان رضی اللہ عنہ گھریلو اخراجات پورے طور پر ادا نہیں کرتا تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اس کی آمدن سے اتنی رقم اس کی اجازت کے بغیر لے لوں جس سے گھر کا نظام چل سکے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ہاں ! اس کے مال سے اس کی اجازت ے بغیر اتنا لے سکتی ہو جس سے معروف طریقہ کے مطابق تیرے اور تیری اولاد کی گزر اوقات ہو سکے یعنی گھر کا نظام چل سکے (صحیح بخاری التفات:5364)

امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :

اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اسکے مال سے اس قدر لے لے جس سے معروف طریقہ کے مطابق اہل خانہ کا گزرا ہو سکے“

مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر اگر خاوند گھریلو اخراجات کی ادائیگی میں کنجوسی کرتا ہے تو بیوی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اتنی رقم لے سکتی ہے جس سے گھر کا نظام چل سکے لیکن یہ اجازت صرف ضروریات کے لئے ہے فضولیات کے نہیں نیز اگر ایسا کرنے سے بیوی خاوند کے درمیان اختلاف اور تعلقات کے کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے تو اس طریقہ سے اخراجات پورے نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ

بیوی خاوند کے تعلقات کی استواری مقدم ہے، اس بات کا فیصلہ بیوی خود کر سکتی ہے کہ ایسا کرنے سے تعلقات تو خراب نہیں ہوں گے، بہرحال ایسے حالات میں ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیوی کو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر رقم لینے کی شرعاً اجازت ہے جس سے معروف طریقہ کے مطابق گزر اوقات ہو سکے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 1 جلد نمبر 39      24 ذوالحجہ 1428 ھ      4 جنوری 2008 ء

 

میت کے مسائل

کیا خاوند اپنی فوت شدہ بیوی کو غسل دے سکتا ہے ؟ کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا حکم ہے، راہنمائی فرمائیں ۔ (عبدالحمید بن علی محمد۔ پتوکی)

بہتر ہے کہ سمجھدار اور تجربہ کار عورتیں ، مرنے والی عورت کو غسل دیں ، پردہ داری کا یہی تقاضا ہے تاہم اگر کوئی مجبوری ہے یا بیوی نے خاوند کو وصیت کی ہے تو خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔ قرون اولیٰ میں اس کی متعدد مثالیں بھی ملتی ہیں ، اس کے متعلق چند دلائل حسب ذیل ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جنازہ سے واپس آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سر میں شدید درد تھا، آپ اپنا سر پکڑ کر ’’ ہائے میرے سر میں درد “ کہہ رہی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے ہائے وائے کرنے کی فکر کیوں لاحق ہے اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور تجھے اپنے ہاتھوں سے کفن پہناؤں گا، پھر میں تیرا جنازہ پڑھوں گا اور خود تجھے دفن کروں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تسلی دے رہے تھے۔ (مسند امام احمد ص 228 ج 6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی مرنے والی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، سیدنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو خود غسل دیا تھا جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ (بیہقی ص 397 ج 4)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو آپ نے مجھے غسل دینا ہے۔ (دارقطنی ص 77 ج 7) چنانچہ اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا۔ (بیہقی ص 396 ج 3) اس طرح بیوی اپنے مرنے والے شوہر کو غسل دے سکتی ہے، مرنے کے بعد وہ اس کے لئے اجنبی نہیں بن جاتا کہ وہ اسے غسل نہ دے یا اس کا چہرہ نہ دیکھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’ اگر ہمیں پہلے اس چیز کا علم ہوتا جو بعد میں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت ہونے کے بعد ان کی بیویاں ہی غسل دیتیں ۔ (ابن ماجہ : الجنائز : 1464) درج بالا سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد بیوی، خاوند کے لئے اور خاوند اپنی بیوی کے لئے اجنبی نہیں ہو جاتے کہ وہ ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے یا بوقت ضرورت ایک دوسرے کو غسل نہیں دے سکتے، شرعی طور پر مرنے کے بعد بیوی کو اس کا خاوند غسل دے سکتا ہے، اس طرح بیوی، اپنے فوت شدہ شوہر کو غسل دی سکتی ہے، بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو اور وہاں کوئی دوسرا غسل دینے والا نہ ہو۔

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 28 جلد نمبر 39      30 جمادی الثانی تا 06 رجب 1429 ھ      05 جون تا 11 جولائی 2008 ء

 

ہفت روزہ ایک معاصر جریدہ میں ایک فتویٰ شائع ہوا ہے کہ میت کی تعزیت کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا کی جا سکتی ہے، اس کے لئے دو حدیثیں پیش کی ہیں ، کیا واقعی ایسے موقع پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے جبکہ ہم اہل حدیث حضرات کا عمل اس کے خلاف ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں ۔ معاصر ہفت روزہ کی فوٹو سٹیٹ ارسال کی جا رہی ہے۔ (قاری محمد ہارون۔ ہفت روزہ اہل حدیث۔ لاہور)

ہمارے ہاں عام طور پر یہ رواج پایا جاتا ہے کہ کسی آدمی کی وفات کے موقع پر لوگ گلیوں میں دریاں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں پھر مرنے والے کے لئے فاتحہ خوانی ہوتی ہے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ، تعزیت کے موقع پر اس انداز سے بیٹھنا خود محل نظر ہے پھر موجودہ طریقے کے مطابق ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ اس سلسلہ میں صریح نہیں ہیں ، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

1     جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمناک ہوئے، مسجد میں بیٹھے اور آپ کے چہرہ پر غم اور افسوس کے اثرات نمایاں تھے، آپ تین دن ان کے اہل خانہ کے پاس نہیں گئے، تین دن کے بعد ان کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا آج کے بعد میرے بھائی پر کسی نے رونا نہیں ہے، میرے بھائی کے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ۔ انہیں لایا گیا تو وہ چوزوں کی طرح تھے، آپ نے فرمایا حجامت کرنے والے کو بلاؤ جب وہ آیا تو آپ نے اسے بچوں کے سر مونڈنے کا حکم دیا پھر آپ نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے لئے دعا فرمائی۔ (مسند امام احمد ص 204 ج 1)

اس حدیث کو تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے سلسلہ میں بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے حالانکہ یہ تعزیت کا موقع نہیں ہے کیونکہ تعزیت صرف تین دن کے لئے ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن کے بعد حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ہیں ، بچوں کی خبر گیری کی اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، یہ حدیث تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی قطعاً دلیل نہیں ہے، ہمارے ہاں باعث نزاع وہ دعا ہے جو تعزیت کے موقع پر عام اجتماع میں ہاتھ اٹھا کر کی جاتی ہے، مذکورہ حدیث اس کے متعلق صریح نہیں ہے۔

2     غزوہ اوطاس کے موقع پر حضرت ابوعامر عبید رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! ابوعامر عبید رضی اللہ عنہ کو معاف کر دے۔ (صحیح بخاری، المغازی : 4323)

اس حدیث کو بھی تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعامر رضی اللہ عنہ کی وصیت پر عمل کیا ہے، اصل واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابو عامر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام عرض کرنا اور انہیں کہنا کہ میرے لئے مغفرت کی دعا کریں ، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا ابو عامر رضی اللہ عنہ کا پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے پہلے پانی منگوایا، وضو کیا پھر ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔ ’’ اے اللہ ! ابو عامر عبید کو معاف کر دے اور قیامت کے دن اسے بے شمار لوگوں پر برتری عطا فرما۔ “ (صحیح بخاری، المغازی : 4323)

اس روایت میں کوئی تعزیت کا موقع نہیں ہے بلکہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کرنا، آپ نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی، اس حدیث سے تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے۔ واللہ اعلم

ماخذ:  ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 28 جلد نمبر 39      30 جمادی الثانی تا 06 رجب 1429 ھ      05 جون تا 11 جولائی 2008 ء

٭٭٭

 

مآخذ:

http://www.ahlehadith.com/categorylist56e6.php?cid=22

http://www.ahlehadith.com/categorylist50b2.php?cid=30

http://www.ahlehadith.com/categorylist6101.php?cid=31

http://www.ahlehadith.com/categorylist8b97.php?cid=40

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید