FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین [show]

اثاثۂ شب

 

 

 

               رفیق  سندیلوی

 

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لئے

ندائے غیب کو جاتا ہوں بہرے کان لئے

 

میں بڑھ رہا ہوں کسی رعدِ ابر کی جانب

بدن کو ترک کئے اور اپنی جان لئے

 

یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے

بس ایک خواب لیا اور چند شمع دان لئے

 

میں سطحِ  آب پہ اپنے قدم جما لوں گا

بدن کی آگ لئے اور کسی کا دھیان لئے

 

میں چل پڑوں گا ستاروں کی روشنی لے کر

کسی وجود کے مرکز کو درمیان لئے

 

پرندے میرا بدن دیکھتے تھے حیرت سے

میں اڑ رہا تھا خلا میں عجیب شان لئے

 

قلیل وقت میں یوں میں نے ارتکاز کیا

بس اک جہان کے اندر کئی جہان لئے

 

ابھی تو مجھ سے میری سانس بھی تھی نامانوس

کہ دستِ  مرگ نے نیزے بدن پہ تان لئے

 

زمیں کھڑی ہے کئی لاکھ نوری سالوں سے

کسی حیاتِ  مسلسل کی داستان لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کسی دن میری فطرت کا زمیں کو علم ہوگا

میں کیا ہوں اس حقیقت کا زمیں کو علم ہوگا

 

کئی شکلوں میں بکھرا ہے یہ میرا جسم خاکی

میرے اعضا کی وحدت کا زمیں کو علم ہوگا

 

ڈبو دے گا انہیں جو ایستادہ ہیں ازل سے

کبھی پانی کی طاقت کا زمیں کو علم ہوگا

 

مجھے کیا علم کہ لمحۂ حاضر میں کیا ہے

بُری اور نیک ساعت کا زمیں کو علم ہوگا

 

مرے قلبِ جنوں انگیز کو دے گی توازن

برودت اور حدت کا زمیں کو علم ہوگا

 

کہاں کس خاک میں روپوش ہے کوئی خزانہ

زمیں کی تہ کی حالت کا زمیں کو علم ہوگا

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی بھی دل میرے دل سے یوں دل لگی نہ کرے

میرا وجود تو خود سے بھی دوستی نہ کرے

 

زمانے بھر سے الگ ہے تمہاری ناز و ادا

کوئی کرن تیرے جلوؤں کی ہمسری نہ کرے

 

تیرے نصیب کے آنسو بھی مجھ کو مل جائیں

خدا کبھی تیری آنکھوں کو شبنمی نہ کرے

٭٭٭

 

 

 

زمیں بارہ ستونوں پر کھڑی تھی اور میں بھی

گلوئے شب میں تاروں کی لڑی تھی اور میں بھی

 

گڑا تھا اس کا چہرہ اور خنجر قلبِ مہ میں

وجودِ شمس میں برچھی گڑی تھی اور میں بھی

 

سماتے کس طرح ہم دونوں اِس چودہ طبق میں

ہوا اپنی جسامت سے بڑی تھی اور میں بھی

 

گرا تھا ایک ہی ساعت میں وہ بھی مشتری سے

افق سے کاسنی مٹی جھڑی تھی اور میں بھی

 

جسے خالی سمجھ کر وہ زمیں پر لوٹ آیا

اُسی گنبد میں اِک میت پڑی تھی اور میں بھی

٭٭٭

 

 

 

اُسے شوقِ غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا

مرے نجمِ آب! مجھے بتا وہ کہاں گیا

 

جو لکیر پانی پہ نقش تھی، وہ کہاں گئی

جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا

 

کہاں ٹوٹے میری طنابِ جسم کے حوصلے

جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا

 

جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی، کدھر گئی

وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں گیا

 

گئے کس جہت کو تکونِ خواب کے زاویے

جو رُکا تھا آنکھ میں دائرہ وہ کہاں گیا

 

ابھی عکس اُس کا ابھر رہا تھا کہ دفعتہً

مرے آئینے سے بچھڑ گیا وہ کہاں گیا

 

کہاں گم ہوئیں وہ زبان و کام کی لذتیں

جو پھلوں میں ہوتا تھا ذائقہ وہ کہاں گیا

٭٭٭

 

 

 

 

عجب اِک سایۂ لاہوت میں تحلیل ہوگی

فسونِ حشر سے ہیئت مری تبدیل ہوگی

 

کئے جائیں گے میرے جسم میں نوری اضافے

کسی روشن ستارے پر مری تکمیل ہوگی

 

دیا جائے گا غسلِ اولیں میرے بدن کو

طلسمی باغ ہوگا اُس کے اندر جھیل ہوگی

 

کبھی پہنچے گا حسِ سامعہ تک حرفِ خفتہ

کبھی آوازِ نامعلوم کی ترسیل ہوگی

 

کبھی عقدے کھلیں گے اساطیری زمیں کے

کبھی اس داستانِ کہنہ کی تاویل ہوگی

٭٭٭

 

 

 

حجرۂ کشف و کرامت میں رکھا ہے میں نے

جسم تقویم کی حالت میں رکھا ہے میں نے

 

سانس کی چھت بھی کسی ثانیے گر سکتی ہے

دل کی ہر اینٹ کو عجلت میں رکھا ہے میں نے

 

سدرۂ  غیب تلک میری رسائی تھی کہاں

جو قدم رکھا ہے وحشت میں رکھا ہے میں نے

٭٭٭

 

 

 

میں خود کو لا مکاں سے ڈھونڈ لوں گا

ستارہ،کہکشاں سے ڈھونڈ لوں گا

 

مقامِ نجمِ گریہ بھی کسی دن

میں اُصطرلابِ جاں سے ڈھونڈ لوں گا

 

فلک کا آخری بے نور زینہ

چراغِ خاک داں سے ڈھونڈ لوں گا

 

کسی شب میں طوافِ خواب کر کے

بدن کو درمیاں سے ڈھونڈ لوں گا

٭٭٭

 

 

 

نیند کے آبِ رواں کو مات دینے آؤں گا

اے شبِ نا خواب تیرا ساتھ دینے آؤں گا

 

جب ستارے نقطۂ  انفاس پر بُجھ جائیں گے

میں خدا کو جان بھی اُس رات دینے آؤں گا

 

نُور کی موجیں مرے ہمراہ ہوں گی اور میں

رات کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینے آؤں گا

 

آسماں کے نیلے گنبد سے نکل کر ایک دن

میں زمیں کو قُرمزی خیرات دینے آؤں گا

 

بند ہو جائیں گے جب سارے دریچے کشف کے

اُس گھڑی میں چند امکانات دینے آؤں گا

٭٭٭

 

 

 

فلک کے روزنوں سے جھانک کر سورج نے دیکھا

اِدھر شب مر رہی تھی اور اُدھر سورج نے دیکھا

 

کہیں پانی کی آنکھوں نے زیارت کی ہوا کی

کہیں حبسِ افق کو خاک پر سورج نے دیکھا

 

کہیں صحرا نے دیکھا ریت کے ذروں کا سجدہ

کہیں جھُکتا ہوا کرنوں کا سر سورج نے دیکھا

 

کہیں دریا میں دیکھا زلزلہ پیلی کرن نے

کہیں خاکی پہاڑوں میں بھنور سورج نے دیکھا

 

چلی آتی تھیں پچھم سے کئی کالی بلائیں

مدارِ آسماں میں گھوم کر سورج نے دیکھا

 

کہیں چوتھے طبق میں بُجھ رہے تھے کچھ ستارے

فضا میں اک اندھیرے کا نگر سورج نے دیکھا

 

جہاں بارہ ستونوں پر زمینِ دل کھڑی تھی

وہاں پر خواہشوں کا مستقر سورج نے دیکھا

٭٭٭

 

 

 

اُطاقِ نفس میں اِک مشعلِ تمنا ہو

بدن بھڑکتی ہوئی لو سے جگمگاتا ہو

 

میں بحرِ خواب میں اِک کشتیِ وجود بنوں

ہوائے شب سے مرا بادبان کھلتا ہو

 

نظر مدار پہ پڑتی ہو اور لمحوں میں

ستارہ ٹوٹ کے قدموں میں آن گرتا ہو

 

سیاہ شب کی اُڑن طشتری سے دیکھوں تو

چراغ لے کے کوئی ٹھیکری پہ بیٹھا ہو

٭٭٭

 

 

 

میں اِک پہاڑی تلے دبا ہوں کسے خبر ہے

بڑی اذیت میں مبتلا ہوں کسے خبر ہے

 

کسے خبر ہے کہ میرا ہر عکس گم ہُوا ہے

میں ایک خم دار آئینہ ہوں کسے خبر ہے

 

کسی کو کیا علم ہے کہ میں کس مدار میں ہوں

میں ایک بے انت فاصلہ ہوں کسے خبر ہے

 

عجب شب و روز کا تصادم ہوا ہے مجھ میں

میں اِک ستارہ ہوں یا ہَوا ہوں کسے خبر ہے

 

عجیب بے رنگ دھند مجھ میں ہے ایستادہ

میں وسط شب میں کہیں کھڑا ہوں کسے خبر ہے

٭٭٭

 

 

 

سمندر میں ہوں اور کوئی کنارا نہیں مِل رہا

بہت دن ہوئے تیرا میرا ستارہ نہیں مِل رہا

 

نہیں مِل رہی اِس زمیں پر مجھے کوئی روشن لکیر

فلک پر کسی سمت دمدار تارہ نہیں مِل رہا

 

پسِ کوہ بھی میں عبادات میں تجھ کو بھولا نہیں

اسی واسطے میری سوچوں کو دھارا نہیں مِل رہا

 

پریشان ہوں میں تنِ خاکداں چھوڑنے کے لیے

مگر روح کو کوئی غیبی اِشارہ نہیں مِل رہا

 

نہیں دے رہا کوئی معذور لمحے کو بیساکھیاں

دمِ پا بریدہ کو کوئی سہارا نہیں مِل رہا

٭٭٭

 

 

محراب کا چراغ ہوں یا پھول ہوں ابھی

اک مشکبوئے نور کا مقتول ہوں ابھی

 

اب تک گِرا نہیں ہوں کسی بھی پہاڑ پر

میں رقصِ صاعقات میں مشغول ہوں ابھی

 

مجھ سے نہیں ہوئیں ابھی آمیزشیں الگ

خاکستری سے رنگ کا محلول ہوں ابھی

 

آندھی کی طرح چھایا نہیں آسمان پر

کم تر ہَوا کا ساتھ ہے اور دھُول ہوں ابھی

 

اِک رات لکھا جاؤں گا لوحِ وجود پر

میں کتبۂ خیال پہ منقول ہوں ابھی

٭٭٭

 

 

 

 

میں فرشِ کُہر پہ اپنے قدم نہیں رکھتا

وجود خشک ہی رکھتا ہوں ، نم نہیں رکھتا

 

نشاطِ عکس سے پہلے ہی ٹوٹ جاتا ہے

وہ آئینہ جو تب و تابِ غم نہیں رکھتا

 

اڑائے رکھتا ہوں صد ہا جہات میں خود کو

میں اپنے جسم کی مٹی بہم نہیں رکھتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بہت ہے میرے لیے زباں اور قطبی تارا

بس اک صدا ، ایک شمع داں اور قطبی تارا

 

جہاں سیہ رات ڈوبتی تھی اُسی جگہ پر

جھکا تھا پانی پہ آسماں اور قطبی تارا

 

میں اپنی سانسوں کی نجم گاہ میں دیکھتا تھا

کوئی اساطیری کہکشاں اور قطبی تارا

 

کبھی تو میدانِ خواب میں بھی پڑاؤ کرتا

سنہری اُونٹوں کا کارواں اور قطبی تارا

 

کھلے کسی رات سطحِ آب جو اس پر بھی

بدن کی کشتی کا بادباں اور قطبی تارا

 

کبھی تو اک زور کے چھناکے ٹوٹ جائے

یہ فرشِ خاکی، یہ آسماں اور قطبی تارا

٭٭٭

 

 

 

خطا ہونے لگے تھے رعد سے اوسان میرے

عجب شورِ قیامت میں گھرے تھے کان میرے

 

فضا میں ایک لحظے کے لیے جب برق چمکی

اندھیری رات سے طے ہو گئے پیمان میرے

 

لہو جمنے کے نقطے پر جو پہنچا

اُلٹ ڈالے ہوا نے مجھ پہ آتش دان میرے

 

میں مٹی، آگ اور پانی کی صورت منتشر تھا

پھر اک دن سب عناصر ہو گئے یکجان میرے

٭٭٭

 

 

 

 

مرا پاؤں زیرِ زمین ہے، پسِ آسماں مرا ہاتھ ہے

کہیں بیچ میں مرا جسم ہے، کہیں درمیاں مرا ہاتھ ہے

 

یہ نجوم ہیں مری انگلیاں ، یہ افق ہیں میری ہتھیلیاں

مری پور پور ہے روشنی، کفِ کہکشاں مرا ہاتھ ہے

 

مرے جبر میں لطافتیں ، مرے قدر میں ہیں کثافتیں

کبھی خالقِ شبِ تار ہے، کبھی ضو فشاں مرا ہاتھ ہے

 

کسی بحرِ خواب کی سطح پر مجھے تیرنا ہے تمام شب

مری آنکھ کشتیِ جسم ہے، مرا بادباں مرا ہاتھ ہے

 

ابھی حرف لمس وصال کے کسی منطقے پہ رُکا نہیں

ابھی گنگ میرا وجود ہے، ابھی بے زباں مرا ہاتھ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سرحدِ مرگ سے اب واپسی ناممکن ہے

اور آگے کی طرف جانا بھی ناممکن ہے

 

اب تو جو فہم میں آ جائے غنیمت ہے وہی

آگہی خوابِ پریشان کی نا ممکن ہے

 

صبح ہوتے ہی میں جاگ اٹھوں گا ، امکان نہیں

نیند شب ڈھلتے ہی آ جائے گی ناممکن ہے

 

سینکڑوں رنگ کی بارش ہو مسلسل مجھ پر

جسم ہو جائے مرا قرمزی نا ممکن ہے

 

میری خواہش ہے میں آواز کو ہیئت دے دوں

اور آواز کی صورت گری ناممکن ہے

٭٭٭

 

 

اپنی قامت اپنے قد سے باہر آ

پانی ہے تو جزر و مد سے باہر آ

 

برگ و بار میں چھپ کر یوں آواز نہ دے

ڈائن ہے تو اِس برگد سے باہر آ

 

دیواروں کو اوڑھ ازل کے اندر رہ

چاروں موسم توڑ ابد سے باہر آ

٭٭٭

 

 

 

 

کوتاہیاں تو سارے جہاں کی پکڑ سکا

لیکن وہ اپنے گھر کی نہ چوری پکڑ سکا

 

بازو کٹے تو پھر نہ مرا جنگ جو کبھی

میدانِ کارزار میں برچھی پکڑ سکا

 

بچے اداس بیٹھے ہیں جالوں کے سامنے

پھر آج ماہی گیر نہ مچھلی پکڑ سکا

 

ظالم مہاجنوں نے کھڑی فصل بیچ دی

دہقان ہاتھ میں نہ درانتی پکڑ سکا

 

ماں باپ میرے ہوں گے پریشاں بہت رفیق

گر میں نہ آج شام کی گاڑی پکڑ سکا

٭٭٭

 

 

ابھی تو طے نہ ہوا تھا مرا سفر آدھا

وہ لے گیا ہے مرا جسم کاٹ کر آدھا

 

رہا نہ شاملِ محنت جو ایک چوتھائی

وہی شجر سے اتارے گا اب ثمر آدھا

 

گرا کے سانجھ کی دیوار اپنے آنگن میں

ملا لیا ہے پڑوسی نے میرا گھر آدھا

 

تری گلی سے گزرتے ہیں تیرے دشمن بھی

کھلا نہ چھوڑ گیا کر مکاں کا در آدھا

 

کچھ ایسے خوف سے چڑیا اڑی صنوبر سے

الجھ کے ٹوٹ گیا ٹہنیوں میں پر آدھا

٭٭٭

 

 

روشنی خوگرِ زنجیر نہیں ہو سکتی

فاختہ ظلم کی تصویر نہیں ہو سکتی

 

جس کی اینٹوں میں تعصّب کا لہو شامل ہو

وہ عمارت کبھی تعمیر نہیں ہو سکتی

 

جب تلک کرب کے زندان سے آزاد نہ ہوں

ماؤں کے دودھ میں تاثیر نہیں ہو سکتی

 

چند مٹّی کے کھلونے ہوں ،یہ ہو سکتا ہے

دستِ اطفال میں شمشیر نہیں ہو سکتی

 

بام و در شہر کے جلتے ہوں ،لہو بہتا ہو

یہ مرے خواب کی تعبیر نہیں ہو سکتی

٭٭٭

 

 

 

 

ہجومِ شہر میں کیا ڈھونڈیں گمشدہ چہرے

ہوئے ہیں اپنے خدوخال سے جدا چہرے

 

بہت کرو تو یہ گندم کی فصل لے جاؤ

کہ ہم خراج میں کرتے نہیں ادا چہرے

 

یہ المّیہ ہے میرے زشت رُو قبیلے کا

ذرا سا حسن ملا ،بن گئے خدا چہرے

 

لکھا تھا دیس نکالا انہیں کی قسمت میں

جو اپنے شہر کی مٹّی پہ تھے فدا چہرے

 

محل دریچے میں آئی نہ کوئی شہزادی

صدائیں دیتے رہے رات بھر گدا چہرے

٭٭٭

 

 

اگر ہواؤں کی سازش کا احتمال نہیں

سحر سے پہلے چراغوں کو پھر زوال نہیں

 

ہر اک شاخ ہے مدہوش سبز پتوں میں

خزاں رتوں کا کسی پیڑ کو خیال نہیں

 

میں کس طرح تجھے تعظیم دوں عدالت میں

کہ تیرے چہرے پہ انصاف کا جلال نہیں

 

تُو مستحق ہی نہیں میرے ساتھ چلنے کا

کہ تیرے زادِ سفر میں انا کی ڈھال نہیں

 

ہمارے بیٹوں کو وہ قتل کر نہیں سکتا

ہم اُس کے شہر کر باسی ہیں یرغمال نہیں

٭٭٭

 

 

 

دلوں میں رکھتی ہیں خدشہ قدیم دیواریں

گرا دے اب کے نہ باد نسیم دیواریں

 

بنا رہے تھے مکیں ہجرتوں کے منصوبے

نگر میں نوحہ کناں تھیں یتیم دیواریں

 

کھلے محل مین اقامت کا اب جواز نہ ڈھونڈ

حساب مانگ رہی ہیں سلیم دیواریں

 

بنا رکھی ہیں نگر کے تمام بونوں نے

گھروں کے گرد لحیم و شحیم دیواریں

 

میں اپنے گھر میں بھی آہستہ بولتا ہوں رفیق

کہ میری بات نہ سن لیں غنیم دیواریں

٭٭٭

 

 

 

 

اٹھائے پھرتا کہاں تک ترے نشیلے ہاتھ

خود اپنے جسم پہ تھے بوجھ میرے ڈھیلے ہاتھ

 

عجب نہیں کہ یہ رسم حنا بھی اٹھ جائے

حنوط کر کے رکھو دلہنوں کے پیلے ہاتھ

 

سدا محیط رہیں بستیوں پہ خشک رتیں

کسی بھی سر پہ نہ رکھے ہوا نے گیلے ہاتھ

 

گرا زمین پہ پرچم تو علم تک نہ ہوا

محاذ جنگ پہ گنتے رہے قبیلے ہاتھ

 

افق پہ آج کوئی چودویں کا چاند نہیں

بلا رہے ہیں کسے پانیوں کے نیلے ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

خیمہ خواب کی طنابیں کھول

قافلہ جا چکا ہے آنکھیں کھول

 

اے زمیں میرا خیر مقدم کر

تیرا بیٹا ہوں اپنی بانہیں کھول

 

ڈوب جائیں نہ پھول کی نبضیں

اے خدا موسموں کی سانسیں کھول

 

فاش کر بھید دو جہانوں کے

مجھ پر سر بستہ کائناتیں کھول

 

پڑ نہ جائے نگر میں رسم سکوت

قفل لب توڑ دے زبانیں کھول

٭٭٭

 

 

 

 

گزند اور نہ پہنچا بس ایک سر ہی کٹا

بڑے حساب سے خنجر عدو نے پھینکا تھا

 

وہ اسم لمس کہ جس کی رسائی تجھ تک تھی

مرے وجود کی لکنت میں کس طرح رکتا

 

اماں پرست ہوں خنجر زنی کا درس نہ دو

میں اپنے ہاتھ لہو میں ڈبو نہیں سکتا

 

میں چاہے اپنے ثمر دار پیڑ کاٹ بھی دوں

وہ میرے صحن میں پتھر ضرور پھینکے گا

 

خلا نوردو مجھے چاند پر نہ لے جاؤ

میں اس اداس زمیں کا ہوں آخری بیٹا

 

سزائے موت ہی دے دو جلا وطن نہ کرو

دیار غیر میں مجھ سے جیا نہ جائے گا

 

مرے چراغ جلے ہیں کچھ ایسی شرطوں پر

کہ ساری روشنی اس کی مگر دھواں میرا

٭٭٭

 

 

 

 

مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

چوپال پہ بوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر

 

معلوم ہوا ہے یہ پرندوں کی زبانی

تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

 

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں

خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر

 

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھپے ہوں

تو شہر اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

 

کیا خوب لڑکپن تھا کہ ساون کے دنوں میں

تسکین ملا کرتی تھی بارش میں نہا کر

 

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دعا کر

 

ترتیب ترے حسن کی مٹ جائے گی اک دن

دیوانے کی باتوں کو نہ بے ربط کہا کر

 

تحریر کا یہ آخری رشتہ بھی گیا ٹوٹ

کتنا ہوں میں تنہا ترے مکتوب جلا کر

 

آتی ہیں بہت رات کو رونے کی صدائیں

ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

 

وہ قحط ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ

جگنو کو لئے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر

٭٭٭

 

 

 

لشکر تھا جن کے کھوج میں وہ گام اور تھے

جنگل میں جو چھپے تھے سیہ فام اور تھے

 

میت کا دکھ نہیں تھا کسی بھی مکین کو

بستی میں جو مچے تھے وہ کہرام اور تھے

 

خواجہ سرا کا ماتھا پسینے میں غرق تھا

اب جو حرم میں آئے تھے خدام اور تھے

 

درپیش تھی جو حج کی مسافت وہ اور تھی

باندھے تھے جو سروں پہ وہ احرام اور تھے

 

نقشہ تھا سب کے ذہن میں پچھلے محاذ کا

دشمن نے جو کئے تھے وہ اقدام اور تھے

٭٭٭

 

 

 

فصیلِ ذہن پہ سوچوں کا بھوت ہو جیسے

بدن کی بارہ دری میں سکوت ہو جیسے

 

بکھرے جسم میں قائم ہیں اس طرح آنکھیں

کسی محاذ پہ تنہا سپوت ہو جیسے

 

کچھ ایسے پیر زنِ وقت نے مجھے کاتا

مرا وجود بھی تکلے پہ سوت ہو جیسے

 

یہ کس کے ہجر میں بن باس لینے نکلے ہیں

تمام شہر کے تن پر بھبھوت ہو جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

محاذوں پر اترنے کا ارادہ بھول سکتا ہے

کنیزیں ساتھ ہوں تو شہزادہ بھول سکتا ہے

 

غنیمت ہے کہ میرا نام بھولا ہے فقط اس کو

وگرنہ وہ تو اس سے بھی زیادہ بھول سکتا ہے

 

اسے کچھ دن تواتر سے کسی زنداں میں لے جاؤ

اسی صورت وہ اپنا گھر کشادہ بھول سکتا ہے

 

تم اس کے کاغذی میثاق سے دھوکہ نہ کھا لینا

وہ بستی کو اماں دینے کا وعدہ بھول سکتا ہے

 

سواروں میں اگر تم سب غذا تقسیم کر دو گے

تو پھر جنگی اصولوں کو پیادہ بھول سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

کبھی زخمی کروں پاؤں کبھی سر پھوڑ کر دیکھوں

میں اپنا رخ کسی جنگل کی جانب موڑ کر دیکھوں

 

سمادھی ہی لگا لوں اب کہیں ویران قبروں پر

یہ دنیا ترک کر دوں اور سب کچھ چھوڑ کر دیکھوں

 

مجھے گھیرے میں لے رکھا ہے اشیا و مظاہر نے

کبھی موقع ملے تو اس کڑے کو توڑ کر دیکھوں

 

اڑا دوں سبز پتوں میں چھپی خواہش کی سب چڑیاں

کبھی دل کے شجر کو زور سے جھنجھوڑ کر دیکھوں

 

عدم تکمیل کے دکھ سے بچا لوں اپنی سوچوں کو

جہاں سے سلسلہ ٹوٹے وہیں سے جوڑ کر دیکھو

٭٭٭

 

 

 

محل سے شاہ نے دیکھا ہی تھا جلال سمیت

ہجوم سہم گیا اپنے اشتعال سمیت

 

یہ گورکن نے کہا لے کے آخری ہچکی

اتار دینا مجھے قبر میں کدال سمیت

 

برہنہ جسم کھڑی ہے ندی میں شہزادی

لباس لے گئے بندر اٹھا کے شال سمیت

 

سنیں جو کونج کی کرلاہٹیں فضاؤں میں

سپاہی گر گئے خندق میں اپنی ڈھال سمیت

 

بھڑکتی آگ نے مندر کو گھیر رکھا تھا

پجاری لوٹ گیا گھر گلوں کے تھال سمیت

٭٭٭

 

 

 

اپنی ہتھیلیوں پہ نہ رنگِ حنا سجا

بستی کے زرد چہرے لہو سے بنا سجا

 

پتھر کی صحبتوں میں رہائش پذیر ہو

پھر اس کے بعد جسم پہ شیشہ قبا سجا

 

پاتال کے چراغ کی صورت ہے گو وجود

اے رات میرے سر پہ بھی تاجِ ہوا سجا

 

شاید کہ لوٹ آئے بصارت گلاب کی

بے آنکھ موسموں میں کوئی آئینہ سجا

 

سر سبز گھاس ہی کو نہ ہموار کر رفیق

جو اَٹ گیا ہے دھول میں وہ راستہ سجا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ کسی آنکھ کو پرنم نہیں ہونے دیتا

کوئی مر جائے تو ماتم نہیں ہونے دیتا

 

پاؤں میں باندھنے دیتا تو ہے پازیب مگر

وہ کسی صحن میں چھم چھم نہیں ہونے دیتا

 

گو لڑائی میں ہمیں فتحِ مبیں حاصل ہو

پھر بھی اونچا کوئی پرچم نہیں ہونے دیتا

 

علم دشمن ہے زمیندار مرے گاؤں کا

مدرسہ کوئی بھی قائم نہیں ہونے دیتا

٭٭٭

 

 

 

گمشدہ بچے کے پیچھے اک خلا رہ جائے گا

صحن میں خالی پنگھوڑا،جھولتا رہ جائے گا

 

کشتیوں میں سب براتی ڈوب کر مر جائیں گے

اور ہوا کے ساتھ ساحل چیختا رہ جائے گا

 

فاصلہ خرگوش اب کے طے کرے گا جاگ کر

راستے کے بیچ کچھوا رینگتا رہ جائے گا

 

فیصلے میں اس قدر تاخیر برتی جائے گی

عمر بھر ملزم کٹہرے میں کھڑا رہ جائے گا

 

اجنبی کنبہ مجھے بے دخل کر دے گا رفیق

صرف میرا نام تختی پر لکھا رہ جائے گا

٭٭٭

 

 

 

کسی کے جبر کا دل میں خیال کیا کرتا

تمام شہر تھا دشمن ،بلال کیا کرتا

 

برس رہے تھے خلاؤں سے آتشیں نیزے

بدن پہ اوڑھ کے کاغذ کی ڈھال کیا کرتا

 

نگر کے سارے پرندے ہی پر شکستہ تھے

میں نصب کر کے فضاؤ ں میں جال کیا کرتا

 

سبھی مکان مقفل تھے میری بستی کے

کسی کے در پہ بھکاری سوال کیا کرتا

 

مکین اپنے ہی ترکے سے لا تعلق تھے

پرائے گھر کی کوئی دیکھ بھال کیا کرتا

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی پروں میں اڑانوں کا زور زندہ ہے

اداس چاند سے کہ دو چکور زندہ ہے

 

میں اپنے گھر کی صداؤں کو مار بیٹھا ہوں

مگر پڑوس میں لوگو ں کا شور زندہ ہے

 

دلہن نے یاس کے عالم میں خود کشی کر لی

جہیز جس نے چرایا وہ چور زندہ ہے

 

گلی میں شور بپا ہے مکیں کے مرنے کا

مگر وہ دفن ہے ملبے میں اور زندہ ہے

 

خدا کا شکر کہ فالج زدہ زمانے میں

میں مرتعش ہوں مری پور پور زندہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چمن پہ جو بھی تھے نافذ اصول اس کے تھے

تمام کانٹے ہمارے تھے ،پھول اس کے تھے

 

جہاں بھی جاتا وہاں اس کی بادشاہی تھی

تمام سمتیں سبھی عرض و طول اس کے تھے

 

میں احتجاج بھی کرتا تو کس طرح کرتا

نگر میں فیصلے سب کو قبول اس کے تھے

 

وہ جو بھی علم سکھاتا وہی غنیمت تھا

کہ سب نصاب تھے اسکے سکول اس کے تھے

 

لگا دی اس نے مرے قہقہوں پہ پابندی

وہ خود اداس تھا ،تیور ملول اس کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

آئینوں میں عکس بن کر ٹوٹتے رہ جائیں گے

تجھ سے ہم بچھڑے تو خود کو ڈھونڈتے رہ جائیں گے

 

رینگتے والے مسافت کاٹ لیں گے رینگ کر

ہم اڑانوں کے لئے پر تولتے رہ جائیں گے

 

ڈھونڈ ہی لیں گے مہم جو سبز پتھر برف سے

ہاتھ ہم انگیٹھیوں پر تاپتے رہ جائیں گے

 

دستکیں تو لوٹ جائیں گی ہوا کے ساتھ ہی

کھڑکیوں میں گنگ چہرے جھانکتے رہ جائیں گے

 

پڑھنے والے پڑھتے جائیں گے کتابیں اور ہم

کاغذوں کی کرچیوں کو جوڑتے رہ جائیں گے

 

وقت شعلہ زن رہا تو ہم انا پرور رفیق

تشنگی کی سولیوں پر جھولتے رہ جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

بک گئی دیوار تو پھر در کا سودا کر دیا

رفتہ رفتہ اُس نے سارے گھر کا سودا کر دیا

 

اپنے اپنے نام کی باہر لگا کر تختیاں

باغیوں نے شہر کے اندر کا سودا کر دیا

 

خیمۂ دشمن میں اپنی جان بخشی کے لئے

اک سپہ سالار نے لشکر کا سودا کر دیا

 

آشیانے ہی کے اندر بد گماں صیاد نے

طائرِ کمسن کے بال و پر کا سودا کر دیا

 

پہلے تو مفرور کو جائے اماں دی اور پھر

قافلے والوں نے اُس کے سر کا سودا کر دیا

٭٭٭

 

 

 

چھم چھم کرتی اتری نیند خلاؤ ں سے

ہاتھ میں کنگن گھنگھرو باندھے پاؤں سے

 

پاؤں کہاں تھے پتھر فرش پہ پڑتے تھے

رات اٹھا تھا اتنا شور کھڑاؤں سے

 

عطر میں بھیگی شام گلی میں پھیل گئی

زلف دریچے کھل گئے تیز ہواؤں سے

 

پیڑوں سے پھنکار سنائی دیتی ہے

اب کے موسم برسے سانپ گھٹاؤں سے

 

لگتا ہے ایجاب کے موسم بیت گئے

بوجھل ہو گئی میری اوک دعاؤں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

انا کو خود پر سوار میں نے نہیں کیا تھا

تمہارے پیچھے سے وار میں نے نہیں کیا تھا

 

وہ خود گرا تھا لہو فروشی کی پستیوں میں

اسے نحیف و نزار میں نے نہیں کیا تھا

 

پکے ہوئے پھل ہی توڑے تھے میں نے ٹہنیوں سے

شجر کو بے برگ و بار میں نے نہیں کیا تھا

 

نشانہ باندھا تھا آشیانوں کی سمت لیکن

کوئی پرندہ شکار میں نے نہیں کیا تھا

 

کچھ اس قدر تھے حواس گم سم کہ وقتِ ہجرت

بلکتے بچوں کو پیار میں نے نہیں کیا تھا

 

مرے مسائل تو خود بخود ہی سلجھ گئے تھے

کہیں بھی سوچ و بچار میں نے نہیں کیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

بریدہ پیڑ کی شاخوں پہ پھل نہیں ہوتے

دلاسے ہی تو مسا ئل کا حل نہیں ہوتے

 

تلاشِ نو ہی میں رہتی ہے روز و شب دنیا

جو پھول آج ہوں گلداں میں کل نہیں ہوتے

 

گداگروں کی تو عادت ہے دستکیں دینا

سخیِ شہر کے ماتھے پہ بل نہیں ہوتے

 

جمی ہے برف زمیں پر تو اتنا خوف نہ کھا

جو پاؤں چلنے کے عادی ہوں شل نہیں ہوتے

٭٭٭

 

 

 

اڑتے ہوئے جگنو کو ستارا نہیں لکھا

میں نے کبھی دیوار پہ نعرا نہیں لکھا

 

اک بار جسے ذہن کے کاغذ سے مٹا دوں

وہ نام کبھی میں نے دوبارا نہیں لکھا

 

ہم لوگ جو دھرتی کے لئے قتل ہوئے تھے

کتبوں پہ بھی اب نام ہمارا نہیں لکھا

 

القاب مجھے اس نے بھی خط میں نہیں لکھے

میں نے بھی اسے جان سے پیارا نہیں لکھا

٭٭٭

 

 

 

خلقت کا احتجاج تو کم کر دیا گیا

اک بے گناہ کے سر کو قلم کر دیا گیا

 

پچھلے برس جلائی گئیں صرف کھڑکیاں

اب کے تمام گھر ہی بھسم کر دیا گیا

 

اس خوف سے کہ بچوں کی نشوونما نہ ہو

بستی کے سارے دودھ کو سم کر دیا گیا

 

وہ کھیت جو یتیم کسانوں کا رزق تھا

کشت زمیندار میں ضم کر دیا گیا

 

چاہی ہے جب بھی داد رسی کوتوال سے

اک خط بنام شاہ رقم کر دیا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

چارپائی پر دراز اک گنگ پیکر سوچنا

گولیوں کے شور میں خندق کے اندر سوچنا

 

اے سپہ سالار تجھ کو خوں بہا کر کیا ملا

اس محاذ جنگ سے واپس پلٹ کر سوچنا

 

معتدل آب و ہوا تھی نیتیں بھی ٹھیک تھیں

ہو گئے کیوں گاؤں کے سب کھیت بنجر سوچنا

 

یہ تعارف ہے ہمارے عہد کے انسان کا

کالروں میں پھول رکھنا دل میں پتھر سوچنا

 

بن گئی ہے کچھ مہینوں سے مری عادت رفیق

سارا دن بے فکر رہنا ا ور شب بھر سوچ

٭٭٭

 

 

 

واپس نہ آئے پھول سے جسموں کو چیر کے

جھوٹے تھے کتنے ربط کمانوں سے تیر کے

 

کھڑکی میں طشت تھامے ہوئے تھا کسی کا ہاتھ

ٹوٹے پڑے تھے کاسے گلی میں فقیر کے

 

کٹ جائے خیر ہی سے نیابت کا مرحلہ

شہزادگاں سے جلتے ہیں بیٹے وزیر کے

 

سوچو تو بے جواز تھیں کھیڑوں سے نفرتیں

کیدو نے سارے خواب بکھیرے تھے ہیر کے

 

کاغذ پہ ثبت کوئی تو ایسا پیام تھا

دشمن نے پاؤں کاٹ دئے ہیں سفیر کے

٭٭٭

 

 

 

 

گل ہی نہیں صلیب پہ سارا چمن چڑھا

کن فرقتوں کی بھینٹ مرا تن بدن چڑھا

 

جو جیتے جی برہنہ ہیں ان کو لباس دے

قبروں پہ چادروں کے نہ رنگیں کفن چڑھا

 

مر جائے یوں نہ ہو ترے اندر کا آدمی

سوچوں کی سیڑھیوں پہ نہ اتنی گھٹن چڑھا

 

سرما کی رات گھر کے دریچے نہ بند کر

نخل بدن پہ چاند کی پہلی کرن چڑھا

٭٭٭

 

 

 

اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا

وہ اندھا داؤ پر ابکے میری آنکھیں لگا دے گا

 

مسلسل اجنبی چاپیں اگر گلیوں میں اتریں گی

وہ گھر کی کھڑکیوں پہ اور بھی میخیں لگا دے گا

 

فصیل سنگ کی تعمیر پر جتنا بھی پہرا ہو

کسی کونے میں کوئی کانچ کی اینٹیں لگا دے گا

 

میں اس زرخیز موسم میں بھی خالی ہا تھ لوٹا تو

وہ کھیتوں میں قلم کر کے میری با نہیں لگا دے گا

 

وہ پھر کہ دے گا سورج سے سوا نیزے پہ آنے کو

کٹے پیڑوں پہ پہلے موم کی بیلیں لگا دے گا

٭٭٭

 

 

 

اس دھرتی پر ایسے آدم بھینٹ چڑھے

جیسے سورج قبر پہ ریشم بھینٹ چڑھے

 

تب جا کر اک بیج تناور پیڑ ہوا

مٹی پر جب لاکھوں موسم بھینٹ چڑھے

 

ایک سپاہی زنداں سے کیا چھوٹا ہے

بستی کے سب کالے پرچم بھینٹ چڑھے

 

ہر فرعون کے وارث کی یہ خواہش ہے

پتھر کے تابوت پہ ریشم بھینٹ چڑھے

 

کون جنازے دیکھ کے گھر سے نکلا ہے

کس جنگل میں کتنے گوتم بھینٹ چڑھے

٭٭٭

 

 

 

 

کھا جائیں نہ چیلیں ہی بیابان میں آنکھیں

رکھ لینا حفاطت سے قلم دان میں آنکھیں

 

خوشبو کی طرح پھیلی ہے کمرے میں بصارت

شب چھوڑ گیا کون یہ گل دان میں آنکھیں

 

نا بینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی

جو نسل دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں

 

کس طرز کی کاٹیں گئیں فصلیں کہ نئے سال

گودام میں بازو ہیں تو کھلیان میں آنکھیں

 

گو میرے قدم شہر کی حد چھوڑ چکے ہیں

پھرتی ہیں ابھی تک ترے دالان میں آنکھیں

٭٭٭

 

 

 

سرحدِ مرگ     سے  اب   واپسی   ناممکن  ہے

اور آگے کی    طرف جانا   بھی      ناممکن ہے

 

اب  تو   جو فہم   میں  آ جائے  غنیمت   ہے وہی

آگہی     خوابِ پریشان     کی    نا ممکن     ہے

 

صبح ہوتے ہی میں جاگ اٹھوں گا ، امکان نہیں

نیند     شب ڈھلتے   ہی آ جائے گی   ناممکن ہے

 

سینکڑوں  رنگ کی  بارش ہو   مسلسل  مجھ پر

جسم  ہو  جائے  مرا قرمزی     نا ممکن     ہے

 

میری   خواہش  ہے  میں  آواز کو ہیئت دے دوں

اور  آواز  کی    صورت گری    ناممکن      ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بہت ہے   میرے لیے   زباں    اور    قطبی تارا

بس اک صدا  ، ایک شمع داں  اور    قطبی تارا

 

جہاں   سیہ رات    ڈوبتی  تھی    اُسی   جگہ پر

جھکا تھا   پانی  پہ   آسماں    اور    قطبی تارا

 

میں اپنی سانسوں کی نجم گاہ میں   دیکھتا تھا

کوئی       اساطیری کہکشاں   اور    قطبی تارا

 

کبھی تو   میدانِ خواب  میں  بھی   پڑاؤ   کرتا

سنہری اُونٹوں   کا   کارواں   اور    قطبی تارا

 

کھلے  کسی  رات  سطحِ آب   جو   اس پر بھی

بدن  کی   کشتی    کا  بادباں   اور    قطبی تارا

 

کبھی تو      اک زور کے   چھناکے ٹوٹ جائے

یہ فرشِ خاکی،    یہ آسماں    اور    قطبی تارا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میں کہ ہوں استادہ اس تاریک محور پر جہاں

گر رہی ہیں خاکِ دل پر آسمانی بجلیاں

 

دیکھتا کیا ہوں کہ رقصِ خواب میں ہیں میرے گرد

سالمے،بادل،کرے،اجرام اور آتش فشاں

 

منسلک ہیں اک شبیہِ تیرہ و تاریک سے

چاند کی بالائی چھت پر ارغوانی بدلیاں

 

گُم ہوا ہے پانیوں میں سانسوں کا چراغ

اور مٹی کی دبازت میں ستارے کا نشاں

 

بازوؤں کے دائرے میں اک پہاڑی کا وجود

اور دھرا ہے آنکھ کے کونے میں بحرِ بیکراں

 

جسم پر اوڑھے ہوئے ہوں میں نمی کا اک غلاف

اور مجھے گھیرے ہوئے ہے حلقۂ  سیارگاں

٭٭٭

 

 

میں ہوا کو منجمد کر دوں تو کیسے سانس لُوں

ریت پر گِر جاؤں اور پھر اُکھڑے اُکھڑے سانس لُوں

 

کب تلک روکے رکھوں میں پانیوں کی تہہ میں سانس

کیوں نہ اک دن سطحِ دریا سے نکل کے سانس لُوں

 

قلۂ  کہسار پر میں رکھ تو دوں زریں چراغ

لیکن اتنی شرط ہے کہ اُس کے بدلے سانس لُوں

 

خواب کے متروک گُنبد سے نکل کر ایک دن

اپنی آنکھیں کھول دُوں اور لمبے لمبے سانس لُوں

٭٭٭

 

 

 

برہنہ کر کے سحر، شب کو بے ردا کر کے

میں کوہِ جسم سے اُترا ہوں یاترا کر کے

 

غروبِ مہر کی ساعت، یہ آبِ بے تحریم

بہت ہی خوش ہے مرے عکس کو فنا کر کے

 

کہاں یہ جسم، کہاں الف لیل کا رستہ

میں تھک گیا ہوں سفر ایک رات کا کر کے

 

قریب تر ہے وہ ساعت کہ میں بھی دیکھوں گا

یہ جسم و جان کے حصے جدا جدا کر کے

٭٭٭

 

 

 

کچھ روز میں اس خاک کے پردے میں رہوں گا

پھر دُور کسی نور کے ہالے میں رہوں گا

 

رکھوں گا کبھی دھوپ کی چوٹی پہ رہائش

پانی کی طرح ابر کے ٹکڑے میں رہوں گا

 

یہ شب بھی گزر جائے گی تاروں سے بچھڑ کر

یہ شب بھی میں کہسار کے درے میں رہوں گا

 

سورج کی طرح موت مرے سر پہ رہے گی

میں شام تلک جان کے خطرے میں رہوں گا

 

اُبھرے گی مرے ذہن کے خلیوں سے نئی شکل

کب تک میں کسی برف کے ملبے میں رہوں گا

٭٭٭

 

 

 

کئی قیدیوں کی نجات ہوں، میں چراغ ہوں

میں کنارِ بحرِ حیات ہوں ، میں چراغ ہوں

 

مجھے دیکھ اے کھُلے آسمان کے آئنے

کئی قرنوں سے ترے ساتھ ہوں ، میں چراغ ہوں

 

مجھے حکم ہے کہ میں تھام رکھوں یہ کائنات

کہ میں ایک نیلمیں ہاتھ ہوں میں چراغ ہوں

 

مجھے ڈھونڈتے ہیں طویل کوہ کے سلسلے

میں سدا کی چاندنی رات ہوں ، میں چراغ ہوں

 

میں ہی گھومتا ہوں مدارِ خواب میں رات دن

میں ستارۂ  شبِ ذات ہوں، میں چراغ ہوں

٭٭٭

 

 

 

فلک کی درزوں کے بیچ پتھر لگا رہا تھا

میں ربِ  اکبر کے گرد چکر لگا رہا تھا

 

کسی گرفتِ شعاع میں میرا جسم لینے

مرے تعاقب میں چاند شب بھر لگا رہا تھا

 

سکوتِ شب تھا,بنی تھیں فرشِ  سفید لہریں

میں سطحِ  دریا پہ اپنا بستر لگا رہا تھا

٭٭٭

 

ماخذ:

http://rafiqsandeelvi.blogspot.com/

http://www.freeurdupoetry.com/Urdu-Poetry-Of-Rafiq-Sandeelvi

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید