فہرست مضامین
- ابرِ سنگ
- انتساب
- سبطِ علی صباؔ اور میں
- یارِ بے پروا
- پیش لفظ
- سید سبطِ علی صباؔ 1980 – 1935
- اپنی باتیں
- قاضی عارف حسین
- نعت و سلام
- تغزّل
- میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں
- ترتیب دے رہا ہوں کتابِ حیات کو
- مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
- خزاں رہی نہ کبھی موسم بہار رہا
- ایک تصویر نظر آتی ہے شہ پاروں میں
- نئے افق پہ ابھرتی صداقتیں دیکھوں
- موسمِ گل کے لیے بارِ گراں چھوڑ گئی
- عمر بھر خون پسینے میں نہائے جاؤ
- ہر اک قدم پہ زخم نئے کھائے کس طرح
- رکے کارواں منزلوں پہ سبھی جا
- گاؤں گاؤں خاموشی، سرد سب الاؤ ہیں
- ایسی مجبوری کہ پچھلا در کھلا رہنے دیا
- جو لوگ اپنے حق کے طلب گار بن گئے
- ہر آدمی خود اپنی ہی جانب نگراں ہے
- ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لئے
- مکینوں کے لیے اک بوجھ لشکر چھوڑ جاتے ہیں
- نکتہ چیں ہیں لوگ میرے گاؤں کے چوپال میں
- ہر طرف عفریت ہیں اور گھاٹیاں ہیں خوں میں تر
- ایک عالم نے کیا جشنِ چراغاں شب کو
- فلک تسخیر کرنا ہے زمیں کی پستیوں سے کیا
- آزادیِ ضمیر کا احساس مر گیا
- کس طرح گاؤں اجڑتے ہیں تباہی دیکھ لی
- بلندیوں سے گرا ہوں میں اپنے سائے پر
- زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
- خوشبو بکھیرتے ہوئے پیکر اڑا دئیے
- لبِ اظہار پہ جب حرفِ گواہی آئے
- حق بات عدالت میں روا ہی نہیں ہوتی
- تاریکیوں کے جسم میں کرنوں کو ڈال دو
- آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اَٹ گئی
- دو چار سبز برگ جو سارے شجر میں ہیں
- ہر صبح پرندوں نے یہ سوچ کے پر کھولے
- ڈرایا روشنیِ فکر سے جہاں نے مجھے
- کھلی فضا میں چلوں اور سر اٹھائے رکھوں
- ہر ایک جنس ہے غائب بھری دکانوں سے
- وہ اپنی بانہوں میں بھینچ لے تو برائی کیسی
- بچے کا ذہن جتنی کتابوں میں بٹ گیا
- لہو میں ڈوب کے تلوار میرے گھر پہنچی
- جہاں کہیں بھی خوں میں نہائے لال مرے
- جو بھی چاہو وہ سزا دو مجھ کو
- نئی فضا میں پرندوں کے پر نکلنے لگے
- میں اپنے گاؤں کے کچے مکاں میں رہ جاؤں
- لبوں میں نام مرا حرفِ واجبی ٹھہرا
- ہمیشہ تیرگی سے برسرِ پیکار رہتا ہوں
- قفس کے ٹوٹ جانے کا ابھی تک دل کو ڈر کیوں ہے
- یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
- دلوں میں دُوریاں اب تک پرانی تلخیوں کی ہیں
- جلتے جلتے بجھ گئی اک موم بتی رات کو
- اس شہر میں اب شورِ سگاں کیوں نہیں اٹھتا
- کھچاؤ کس قدر ان ظلمتوں کی رسیوں میں ہے
- ہر شخص میرے دشمنِ جاں کی صفوں میں ہے
- احساس کی بھٹّی میں جلایا بھی گیا ہوں
- مجھ کو معلوم ہے تا حدِّ نظر کوئی نہیں
- ہر سمت غم کی دھوپ کے پہرے لگا دیئے
- موجِ بلا سے بچ نکلے تو اپنی کشتی ٹوٹ گئی
- زمیں کی اولاد کے لہو سے افق کا آنچل رنگا ہوا ہے
- ہر ایک شخص کو آمادۂ جفا دیکھوں
- تم اپنے بچوں کو آدمیت کے خوں سے رنگیں نصاب دو گے
- کرب کی آگ سرِ شام لگانے آئے
- حالات کے زنداں سے نکل کیوں نہیں سکتا
- برگِ خشک کی صورت پتّیاں لبوں کی ہیں
- نظمیں
- عظیم قائد
- ہم جاگ رہے ہیں
- 1971ء
- ’’سلام آنے لگے‘‘
- زخم
- 14 اگست
- وہ ایک شاعر (اقبال کی نذر)
- نئی حیات
- ’’آرزو ہے‘‘
- گواہ رہنا
- عیدِ محرومی
- ’’راہ میں دیوار نہ بن‘‘
- ’’عید کا دن‘‘
- آج کا دن جمہور کا دن
- تمہیں یاد ہوگا
ابرِ سنگ
سبطِ علی صباؔ
انتساب
صبحِ جمہوریت
اور
نئے مستقبل
کے نام
سبطِ علی صباؔ اور میں
آفتاب اقبال شمیم
سبطِ علی صباؔ سے میری دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب ہم دونوں لڑکپن میں تھے۔ ہنسنے کھیلنے اور آوارہ روی کے ان دنوں میں معلوم نہیں ایسا کیوں ہوا کہ ہم اپنی عمر کے حساب سے شاعری بارے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئے۔ سبطِ علی صباؔ تو گمشدگی کی حد تک فکرِ سخن میں محو رہنے لگا۔ ویسے بھی اس کی وضع قطع اور فطری اُٹھان ہی ایک شاعر جیسی تھی۔ بہت سادہ، بناوٹ سے پاک، دنیا سے بے نیاز، بڑی بڑی شفاف اور روشن آنکھیں، جن پر تیرتی ہوئی ایک خفیف پرت حیرت کی، ہونٹوں پر ایک دل آویز مسکراہٹ، چال راہِ دنیا سے ایسی ہٹی ہوئی کہ راہ کے پتھر بھی گواہی دیں، گفتگو میں دوستداری اور دردمندی، آزاد خیال اور وسیع المشرب۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ’’واہ‘‘ ایک نیم آباد بستی ہوا کرتا تھا اور شہر بننے کے مراحل میں تھا۔ مَیں اس آبادی کی آبادی اور ویرانے کے ویرانے میں عارضی طور پر قیام پذیر تھا۔ سبطِ علی صباؔ ہر روز ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ طے کر کے ہمارے کوارٹر پر آ پہنچتا۔ اس کوارٹر میں ہم چار دوست توصیف تبسم، توصیف حسن، اصغر قادری اور مَیں رہا کرتے تھے۔ کیا بتاؤں کہ اُس میں دوستی اور دلداری کی کیسی کشش تھی۔ اُس کی آمد ہمارے کمروں اور صحن میں ایک خوشگوار ہلچل مچا دیتی تھی۔ بے تکلفی اور حسِ مزاح میں رچی ہوئی گفتگو، شعر و ادب کی باتیں، دن بھر کی وارداتیں، لطیفہ بازی، چائے اور سگریٹ نوشی۔ دن بھر کی تھکن اُتر جاتی تھی۔ چھٹی کے دن وہ اور مَیں باقاعدگی سے حسن ابدال یا ٹیکسلا کے پیدل سفر پر نکل پڑتے۔ یہ ایک لمبی چُپ کا سفر ہوتا تھا جس کے دوران مشقِ سخن جاری رہتی۔ عام دنوں میں شام ’’واہ‘‘ کے فٹ پاتھوں پر گزرتی اور چلتے ہوئے ہاتھ اُٹھا کر آسمان کو چھُو لینے کی تمنا کرتے۔ کبھی کبھی، مہینے کی پہلی تاریخوں میں بسم اللہ ہوٹل یا المائدہ ہوٹل میں جا بیٹھتے۔ راستے میں ’’واہ‘‘ کے یکتا اور بے مثال غزل گو شاعر شاہد نصیر کا گھر پڑتا تھا۔ ہم اُس کی شاعری کے مداح بھی تھے اور زندگی کے بارے میں اُس کے ترقی پسندانہ نقطۂ نظر کے قائل بھی تھے۔ گاہے بہ گاہے اس کے کوارٹر پر گھنٹوں محفل جمتی۔ اُن دنوں اُس کا ایک پرانا دوست چاچا نذیر (ع۔ زباں پہ بارے خدایا یہ کس کا نام آیا) بھی مقیم تھا۔ میں اِس یادگار شخصیت کو پنڈی سے جانتا تھا اور اس کا بڑا معترف تھا۔ اُس کے نوجوان دوست اُسے مُرشد کہتے تھے۔ وہ بطورِ خاص علامہ اقبال کی اُردو اور فارسی شاعری پر ایسا عبور رکھتا تھا کہ سننے والے حیران رہ جاتے تھے۔ ایسا بے تکلف کہ راہ چلتوں سے دوستی کر لیتا اور انہیں گھر پر لا کر اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پلاتا۔ شاہد نصیر کا گھر چائے کا لنگر خانہ تھا۔ ہم اِس شیرینی سے اکثر مستفید ہوتے۔ یہ ہماری ابتدائی تربیت کے دن تھے۔
سبطِ علی صباؔ کی شعر سے وابستگی حیران کُن اور قدرے پریشان کن تھی۔ کوئے سخن کا یہ گم شدہ آدمی مجھے جب بھی ملتا، ایک نئی غزل کے ساتھ ملتا، جو اُسے زبانی یاد ہوتی۔ اُس کی یہ وارفتگی متاثر بھی کرتی اور یہ اندیشہ بھی پیدا کرتی کہ یہ آتشِ شوق کہیں اس کے لیے ضرر کا سبب نہ بن جائے۔ ایک دن میں ’’واہ‘‘ سے پنڈی آ گیا۔ اب ہماری ملاقاتیں کم کم ہونے لگیں۔ اُس نے ’’واہ‘‘ فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی۔ وہ ایک محنت کش کے نو یافتہ شعور کے ساتھ ’’واہ‘‘ کی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصے لینے لگا۔ اب وہ جب بھی پنڈی آتا اُس کے ساتھ حسن ناصر* بھی ہوا کرتا تھا۔ ہمارا موضوعِ گفتگو شاعری ہی ہوا کرتا تھا لیکن اس میں غمِ جہاں کے حوالے بڑھ گئے تھے۔
سبطِ علی صباؔ ایک محنت کش تھا۔ اپنے ہم نصیب زیردستوں کے مسائل اور حالات کو سمجھنے اور دردِ مشترک کے عملی تجربے سے گزرنے کے دوران اُس میں طبقاتی شعور پیدا ہوا جس نے اُس کے شاعری کے ویژن کو یکسر بدل ڈالا۔ وہ تیسری دنیا کے استحصال اور نچلے طبقے کی زبوں حالی کے اسباب کو سمجھنے لگا۔ وہ غزل کی روایت میں رہتے ہوئے غزل کے پامال مضامین سے دست کش ہو کر اُفتادگانِ خاک کے حقیقی مسائل کی نمائندہ غزل کے امکانات کی جستجو کرنے لگا۔ وہ نئے لہجے اور نئی ڈکشن کا متلاشی ہوا۔
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
یہ لاجواب شعر اُس آخری غزل کا تھا جو میں نے عوامی جمہوریہ چین جاتے وقت اُس سے سنی۔ پھر موت نے اُسے آ لیا۔ اُسکے مرنے کی خبر میں نے چین میں یہ سنی جہاں پر میں پیکنگ یونیورسٹی میں بطور اُستاد مقیم تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس صدمے کو سہہ گزرنے کیلئے مجھے نظم لکھنی پڑی۔ یہ نظم، جو اِس کتاب میں بھی شامل ہے، میں نے آنسو تھام کر بے ساختہ ہی کہہ ڈالی۔ ایک دوست کا یہ تحفہ شاید اُسے پسند آیا ہو۔
بہت سال پہلے پروفیسر یوسف حسن نے راولپنڈی میں ایک نئی ادبی انجمن ’’حلقۂ اربابِ غالب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس حلقے کی ہفتہ وار میٹنگز راولپنڈی پریس کلب میں باقاعدگی سے ہوا کرتی تھیں۔ یہ حلقہ ہر سال سبطِ علی صباؔ کی برسی خاصے اہتمام سے مناتا تھا۔ اس موقع پر ’’واہ‘‘ اور پنڈی کے ادب نواز دوستوں کو مدعو کیا جاتا تھا جن کے درمیان اُس کی شخصیت اور شاعری پر تفصیلی گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ’’واہ‘‘ میں بھی سبطِ علی صباؔ کی یاد میں ہر سال حسن ناصر اپنے گھر میں ایک محفلِ شب بیداری کا انعقاد کیا کرتا تھا۔ اس میں شرکت کے لیے دور دور کے شہروں اور قصبات سے احباب آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار تو احمد ندیم قاسمی بھی اس محفل میں شریک ہوئے تھے۔ شب بیداری کا یہ سالہا سال سلسلہ حسن ناصر کی وفات تک جاری رہا۔ سبطِ علی صباؔ میں کوئی ایسا کمال تو تھا کہ وہ اپنے آپ کو منواتا رہا۔ مرنے کے بعد بھی سالہاسال یاد کیا جاتا رہا۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے… اپنے آئیڈیل کے ساتھ کومیٹڈ، شاعری میں اپنے بدن سے روح تک ڈوبا ہوا، اپنی روشن آنکھوں اور دلنواز مسکراہٹ کی ضو میں چلتا ہوا، کشادہ دل، ہمہ مشرب، سادہ سا، معصوم سا سبطِ علی صباؔ۔
28 جون، 2009ء
* حسن ناصر سبطِ علی صباؔ کے بہنوئی تھے اور ’’واہ‘‘ فیکٹری میں اعلیٰ عہدے پر فائز بھی۔ ٭٭٭
یارِ بے پروا
(سبطِ علی صباؔ)
آفتاب اقبال شمیم
مجھے ملنے نہیں آیا
عظیم الشان سناٹے کی اس اقلیم میں
شاید مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا
ایک متحرک خلا کے ساتھ
اک بے انت دُوری کے سفر پر
کیوں نہیں آیا
ہمیشہ کا وہ سیلانی
ذرا اس کو صدا دو
وہ یہیں اس روشنی کی آڑ میں
ان خوشبوؤں کی اوٹ میں شاید چھپا ہو
کیا خبر وہ یارِ بے پروا کسی چاہت کے کُنجِ خواب میں
دبکا ہوا ہو
ہاں صدا دونا!
مجھے تم اس طرح کیوں تک رہے ہو
میں نہیں روؤں گا
میں بالکل نہیں روؤں گا
کیسے مان لوں وہ میرے آنے پر مجھے ملنے نہ آئے
وہ یہیں ہوگا، یہیں ہو گا
مجھے تم کل اِسی رستے پہ اُس کے ساتھ دیکھو گے٭٭٭
پیش لفظ
احمد ندیم قاسمیؔ
سید سبطِ علی مرحوم، خلوص، محبت، ایثار اور فن سے لگن کی تجسیم تھا۔ اپنے عزیزوں، دوستوں اور شاعری کے لیے وہ سراپا سپردگی تھا۔ میں نے ایسے انسان بہت کم دیکھے ہیں جن میں صباؔ کی سی جارحیت اور ملائمت بیک وقت جمع ہوں۔ اس سختی اور نرمی کا ایک متوازن امتزاج اس کی غزلوں میں بھی کارفرما ہے۔ کہیں اس کے ہاں جوشؔ کی سی گھن گرج ہے اور کہیں میرؔ کی سی دردمندی۔ کسی ظلم، بے انصافی، حق کشی اور انسان دشمنی کو وہ کسی بھی صورت میں، کسی بھی شرط پر، کسی بھی مصلحت کے تحت نظر انداز یا معاف نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی غزل جہاں دھرتی کے بیٹوں کے دکھوں، محرومیوں اور شکستِ تمنا کے حادثوں کی ترجمان ہے اور یوں بیسویں صدی کی تیسری چوتھائی کا معاشرتی، تہذیبی اور سیاسی آشوب معلوم ہوتی ہے، وہاں یہ عوام الناس کی بنیادی آزادیاں اور حقوق چھیننے والوں کے نام ایک الٹی میٹم بھی ہے۔
جو لوگ سبطِ علی صباؔ کو جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ خدا کے سوا وہ کسی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جو شدت اور حدّت اس کے مصافحے اور معانقے میں تھی، وہی شدت اور حدّت اس کے مشاہدۂ حیات میں بھی تھی۔ وہ اپنے آنگن سے باہر کی دنیا تک، چار طرف جب چھینا جھپٹی کے مناظر دیکھتا تھا اور زرپرست معاشرے کے پاٹوں میں پسنے والے کروڑوں عوام پر نگاہ ڈالتا تھا، تو ایسا ایسا قیامت کا شعر کہہ جاتا تھا کہ تجربات و محسوسات کی اتنی صداقت اور ساتھ ہی خیال و اظہار کی اتنی ندرت اور جدت سے اُردو غزل ابھی کچھ زیادہ آشنا نہ تھی۔
موت نے اُردو شاعری سے یہ جوہرِ قابل اُس وقت چھین لیا جب اس کی شناخت ہونے لگی تھی اور فن کے مستقبل نے اس کے لیے بانہیں پھیلا دی تھیں۔ سبطِ علی صباؔ کی غزل رواں صدی کی آخری چوتھائی کے ابتدائی برسوں تک محیط ہے اور کچھ اس شان سے محیط ہے کہ کوئی چاہے تو صباؔ کی غزلوں سے اس زمانے کی سماجی اور سیاسی تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ اتنا بیدار، خود نگر، با شعور اور انتہا درجے کا حساس شاعر اگر چند برس اور زندہ رہ جاتا تو اُردو غزل کچھ زیادہ پُر مایہ اور با ثروت ہو جاتی۔ اس کے باوجود آئندہ صدیوں تک اس کے بے لاگ، کھرے اور سچے فن کا نقش نہیں مٹے گا کیونکہ جو چیز دلوں پر منقش ہو جاتی ہے وہ آسانی سے محو نہیں ہو سکتی۔
نوٹ: یہ تحریر ’’طشتِ مراد‘‘ میں شامل تھی۔٭٭٭
سید سبطِ علی صباؔ 1980 – 1935
کاشف بخاری
سبطِ صباؔ 11 نومبر 1935ء کو کوٹلی لوہاراں ضلع (سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد زین العابدین برٹش انڈین آرمی میں ملازم تھے۔ 1936ء سے 1947ء کا زمانہ پنجاب اور ہندوستان کی سیاست میں تیزی سے بدلتی سیاست کا آئینہ دار ہے۔ 1937ء کے انتخابات کے بعد اُبھرنے والی نئی سیاسی صف بندیوں اور جنگِ عظیم دوئم نے یقیناً نوجوان صباؔ پر اثر ڈالا ہو گا۔ صباؔ کے والد 5 سال جرمنی کی قید میں بھی رہے تھے۔ 1947ء کے فسادات اور اتھل پتھل سے تو خصوصاً پنجابی از حد متاثر ہوئے تھے۔ ان فسادات کے وقت صباؔ اک 12 سالہ نوجوان تھے۔ تقسیم کا سب سے مہلک اثر خطہ پنجاب پر پڑا تھا۔ یہ واحد صوبہ تھا کہ جہاں سے مسلم و غیر مسلم پنجابیوں کا واہگہ کے آر پار مکمل انخلاء عمل میں لایا گیا۔ اس کشت و خون کا اثر صباؔ کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد صباؔ کے والد نے فوج کی نوکری چھوڑ دی اور سیالکوٹ میں اپنا کاروبار کرنے لگے۔ شومیِ قسمت ان کا کارخانہ اک سیلاب کی نذر ہو گیا یوں صباؔ کی پڑھائی بھی متاثر ہوئی۔ بعد ازاں صباؔ کے والد کو ’’واہ‘‘ فیکٹری میں ملازمت مل گئی تو صباؔ نے 1953ء سے 1956ء کا زمانہ ’’واہ‘‘ ہی میں گزارا۔ 50ء کی دہائی کے ابتدائی سال معاشی حوالے سے خاصے مشکل تھے اور یہی وہ وقت تھا جب صباؔ نے شاعری بھی شروع کر دی تھی۔ 21 جون 1956ء میں صباؔ نے فوج میں ملازمت کر لی۔ صباؔ سات سال ہی فوج کی نوکری میں رہ پائے اور 21 جون 1963ء کو انہوں نے فوج کی نوکری چھوڑ دی۔ دوران ملازمت ان کا زیادہ تر قیام نوشہرہ چھاؤنی ہی میں رہا، جہاں وہ ’’رسالے‘‘ کے اک سوار کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہاں ان کی ملاقات کلیم جلسیری سے ہوئی جو خود اک پختہ شاعر تھے اور نوشہرہ چھاؤنی میں تمباکو کی دکان چلاتے تھے۔ شاعری میں صباؔ نے پہلے غیض کے تخلص کے ساتھ شعر کہے پھر سال بھر ’’ماضی‘‘ کے تخلص کو استعمال کیا۔ بالآخر صباؔ پر جا کر ثبات آیا۔
1954ء میں صباؔ نے راولپنڈی کے ترقی پسندوں کی اک ادبی تنظیم ’’پارٹیزن آرٹ اینڈ لٹریچر‘‘ میں پہلی بار اپنا کلام سنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ’’واہ‘‘ ادبی سرگرمیاں میں خاصا شہرت کا حامل تھا۔ ’’واہ‘‘ میں ہونے والے مشاعروں میں صوفی غلام مصطفی تبسم، ناصر کاظمی، عبدالحمید عدم، احمد فراز، احسان دانش جیسے اُردو، پنجابی شعراء آتے تھے۔
1963ء ہی میں صباؔ کو واہ فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ 6 مئی 1964ء کو سبطِ علی صباؔ کی شادی قصبہ لکھن وال (جلال پور جٹاں) ضلع گجرات کے سید گلاب شاہ بخاری کی صاحبزادی فضہ خاتون سے ہو گئی۔ سید گلاب شاہ بخاری بھی ان دنوں واہ فیکٹری میں ملازم تھے۔ بہت سے ریٹائر فوجیوں کی طرح صباؔ نے بھی 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔ انہیں تمغہ جنگ اور ستارہ حرب بھی ملا۔
گو صباؔ کے معاشی حالات ناگفتہ بہ تھے مگر انہیں اک ایسی شریک حیات ملی تھی جس نے صباؔ کے راستے کے تمام کانٹے اپنے دامن میں چھپا لیے۔ ٹیکسلا سے حسن ابدال تک پھیلی اس سرکاری کالونی میں کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب صباؔ کسی ادبی محفل میں کلام نہ سنا رہے ہوتے۔ ان حالات میں 7 بچوں (پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں) کو پالنا اور شاعری بھی جاری رکھنا وہ پل صراط تھا جس پر صباؔ قلندری انداز میں چلتے رہے۔
70ء کی دہائی میں صباؔ کی شاعری کو ملک بھر میں متعارف کروانے کا سہرا مشہور ادبی جریدے ’’فنون‘‘ کے سر باندھنا غلط نہیں۔ 1972ء میں فنون کے شمارہ نمبر6 جلد15 میں صباؔ کی غزل چھاپی گئی۔ مختلف ادبی رسالوں میں صباؔ کا کلام چھپتا رہا۔ فنون کے رسالے شمارہ نمبر14 میں صباؔ کی آخری غزل شائع ہوئی۔ یاد رہے، اگست 1980ء میں چھپنے والی یہ غزل صباؔ کے انتقال کے بعد چھپی تھی۔
1989ء میں جب راولپنڈی کے شعبہ اُردو کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے تحقیقی و تنقیدی مقالے لکھنے کی اجازت ملی تو پرویز اختر شاد نے صباؔ پر تفصیلی مقالہ لکھا۔ جہاں اس مقالہ میں صباؔ کے دوستوں، ہمدردوں اور خاندان کا تفصیلی ذکر موجود ہے وہیں اس مقالہ میں صباؔ کی شاعری پر بھی سیر حاصل بحث موجود ہے۔ خوش قسمتی سے یہ مقالہ انٹرنیٹ پر آن لائن موجود ہے اور اسے اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔ www.iqbalcyberlibrary.net۔ اس کتاب کی تیاری میں مَیں نے اس مقالہ سے سیر حاصل استفادہ کیا ہے جس کے لیے پرویز اختر شاد کا مشکور ہوں۔
مقالہ نگار کے مطابق صباؔ کی چھپنے والی پہلی غزل جولائی 1967ء میں ہفت روزہ ’’واہ کاریگر‘‘ کے سالانہ نمبر میں چھپی تھی۔ شاعر تو اک حساس ذہن کی پیداوار ہوتا ہے۔ اردگرد پھیلے ہوئے سماجی سیاسی حالات سے شاعر کا الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں۔ صباؔ کی شاعری میں آپ کو 23 مارچ، 14 اگست، فسادات 1947ء کا ذکر بھی ملے گا اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ اور سقوط ڈھاکہ کا بھی۔ ان کی شاعری میں واقعہ کربلا کا مضبوط استعارہ بھی ہے اور پچھڑے ہوئے طبقات و گروہوں کا دکھ بھی۔ بقول پروفیسر یوسف حسن صباؔ نے 1968ء کی ایوب مخالف تحریک میں بھی حصہ لیا تھا۔ صباؔ ترقی پسند تحریک اور روسی و چینی انقلابات سے حد درجہ متاثر تھے تاہم ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کی طرح ان کے ہاں ترقی پسندی اور پاکستانیت میں کوئی تضاد نہ تھا۔ گو انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں شرکت بھی کی اور اس حوالے سے شاعری بھی کی۔ مگر وہ ’’جنگ‘‘ کو کبھی بھی مسائل کا حل نہیں سمجھتے تھے۔ جنگ اور جنگی جنون کے خلاف ان کے اشعار پاک بھارت سرد جنگ کے مستقبل پر اثرات کی پیش بینی لیے ہوئے ہیں۔
تم اپنے بچوں کو آدمیت کے خوں سے رنگیں نصاب دو گے
تو آنے والی عظیم کل کے حضور میں کیا جواب دو گے
آج اگر ہم اپنے معاشروں پر نظر دوڑائیں تو اس شعر کی سچائی خودبخود سامنے آ جاتی ہے۔ پاک بھارت سرد جنگ کے زیر اثر 80,70 اور 90ء کی دہائیوں میں ہمارے پالیسی سازوں نے جو ’’خون سے رنگین نصاب‘‘ دیا، آج کا پاکستانی نوجوان ذہن اسی کا پَرتو ہے۔ پاک بھارت سرد جنگ سے دونوں ممالک میں بنیاد پرست مضبوط ہوئے۔ آج جب ایک طرف فاٹا، سوات ہے تو دوسری جگہ گجرات اور ممبئی ہے۔ شاعر کے اندیشے حقیقت کا روپ دھارے چنگاڑ رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے پالیسی ساز اگر پالیسیاں بناتے ہوئے شاعروں سے سُو لیتے تو شاید ہمارے خطہ کے حالات مختلف ہوتے۔ 70ء کی دہائی میں کتنے شاعر تھے جن کی مستقبل پر اتنی گہری نظر تھی بس یہی بات صباؔ کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی سیاسی سماجی بصیرت کی پہچان ان کا یہ شعر ہے
دیوار کیا گری مرے خستہ مکاں کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
ذرا سقوط (متحدہ) پاکستان 1971ء اور افغانستان میں بین الاقوامی سرد جنگ کے آغاز کے بعد کا پاکستان ملاحظہ کیجیے تو سمجھ آتی ہے کہ جمہور کے فیصلوں کو روندنے کے بعد جس عفریت میں ہم نے خود کو جھونک ڈالا تھا اس نے ہماری سیاسی سماجی معاشرت کو پراگندگی کی اتھاہ گہرائیوں کی طرف دھکیل دیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کا خاتمہ (5 جولائی 1977ئ) اور بھٹو جیسے عظیم عوامی رہنما کا ’’عدالتی قتل‘‘ ایسے واقعات تھے جس سے شاعر کا لاتعلق رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ صباؔ نے یہ فریضہ بھی خوب ادا کیا۔ سنا ہے ’’نیک روحوں‘‘ سے خدا خود ملنے کا طالب ہوتا ہے۔ بس یوں 14 مئی 1980ء کو صرف 44 سال کی عمر میں صباؔ راہی ملک عدم ہوئے۔ اپنی خداداد شاعری کی وجہ سے صباؔ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ان کی وفات پر احمد ندیم قاسمی نے لکھا ’’سبطِ علی صباؔ کی اچانک موت نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک تو وہ خوبصورت شاعر تھے اور نکھر رہے تھے، دوسرے میرے ساتھ جو ان کا تعلقِ خاطر تھا، وہ بھولنے کی چیز ہی نہیں‘‘۔ جمیل الدین عالی نے صباؔ کی وفات پر اپنے کالم (مطبوعہ جنگ) میں لکھا ’’لاہور سے ایک بڑی دل دوز خبر آئی ہے۔ آج صبح جنگ کے ادبی ایڈیشن پر دیکھی تو باقی مضمون بدلنا پڑا۔ واہ کینٹ میں اک محنت کش جوان شاعر انتقال کر گیا۔ وہ شکیب جلالی کی طرح ایک عجیب و غریب شاعر لگتا ہے۔ اپنی جہالت کا اقرار کہ پہلے اس کا صرف نام ہی سنا تھا اس کے کلام سے واقف نہ تھا… جنہوں نے پیر 27 مئی کا ادبی ایڈیشن پڑھا ہے انہوں نے دیکھ لیا ہو گا کہ اس جواں مرگ کا نام سید سبطِ علی صباؔ تھا۔ وہ مزدوری کرتا تھا۔ اللہ ایسی توفیق سب شعراء کو دے کہ محنت کی کھائیں اور یہ توفیق معاشرے کو بھی دے کہ شاعر کو بیکار اور محض شاعر رکھنے پر اصرار نہ کرے‘‘۔
صباؔ کی موت کے بعد ان کے دوستوں کی کاوشوں سے صباؔ ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جنوری 1986ء کو مجلس تصنیف و تالیف واہ چھاؤنی کے زیرِ اہتمام سبط علی صباؔ کا کلام ’’طشت مراد‘‘ کے نام سے چھپوایا گیا۔ کتاب کا انتساب ’’صبح جمہوریت اور نئے مستقبل کے نام‘‘ رکھا گیا جو آج بھی اتنا ہی بامعنی اور بروقت ہے جتنا آج سے 23 برس قبل۔ صباؔ اپنی کتاب کا نام اَبر سنگ رکھنا چاہتے تھے مگر ان کے چاہنے والوں نے ’’طشت مراد‘‘ کو زیادہ موزوں جانا۔ تاہم صباؔ کی خواہش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اب اس کتاب کو اضافوں کے ساتھ ’’اَبر سنگ‘‘ کے نام سے چھاپا جا رہا ہے۔ امید ہے صباؔ کی خواہش کے احترام میں ان کے دوست اس جسارت کو قبول کریں گے۔ موجودہ کتاب میں صباؔ کی نظموں سمیت بہت سے اشعار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ صباؔ نے مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی تھی مگر ہم نے اس کتاب میں وہی اشعار چھاپے ہیں جن کی تصدیق ان کے خاندان نے بھی کی ہے۔ ان کی شاعری واہ کی محرم کی مجالس کا حصہ تھی۔ تحریری شکل میں تو یہ شاعری نہیں مل سکی لیکن صباؔ کی بہن نجم السحر کے حافظے کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے صباؔ کے کچھ سلام اور مرثیے مجھے سنائے جس کے لیے میں ان کا بھی مشکور ہوں۔ یوں ہمارا مدعا تو یہ ہے کہ صباؔ کا کل کلام منظر عام پر آ سکے۔ یہ ادنیٰ سی کوشش کس قدر کامیاب ہے اس بارے فیصلہ صباؔ کے چاہنے والے اورنقاد ہی کریں گے۔ یہ کتاب صباؔ کے پسماندگان کی کاوشوں کے بنا نہیں چھپ سکتی تھی۔ اب یہ ادبی انجمنوں، اداروں اور میڈیا کا فرض ہے کہ وہ صباؔ کی انمٹ شاعری کو نئی نسل تک لے جائیں۔
22 مئی 2009ء٭٭٭
اپنی باتیں
قاضی عارف حسین
بہرحال آج تین سال بعد مرحوم سبطِ علی صباؔ کا زیرِ نظر مجموعہ کلام اہلِ نظر کے سامنے پیش کرتے ہوئے مجھے ایک دلی طمانیت کا احساس ہو رہا ہے۔ میرے لیے یہ اطمینان کیا کم ہے کہ میں آج اس فرض سے سبکدوش ہو رہا ہوں جو پوری ادبی برادری پر قرض تھا کہ اپنے مجموعے کی اشاعت بھی صباؔ کا ایک خواب تھا۔ اس کی زندگی کی یہ آخری خواہش تھی، آخری تمنا تھی۔ وہ تمنا جو پوری نہ ہو سکی۔ وہ خواہش جو ادھوری رہ گئی۔ وہ خواب جو اس کے بہت سے خوابوں کی طرح تعبیر کو نہ پہنچ سکا۔
ادیب اور شاعر کی زندگی خوابوں سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ خواب دیکھتا ہے، خوابوں میں زندہ رہتا ہے۔ اس سے آپ سب کچھ چھین سکتے ہیں، قلم بھی، کاغذ بھی اور سکونِ قلب بھی۔ اس پر بہت سی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں بات کہنے کی، لکھنے کی، اظہار و اشاعت کی، لیکن جب تک وہ زندہ ہے اور جب تک اس کے حواس قائم ہیں، اس کی سوچ پر پابندی لگانا ممکن نہیں۔ شاعر کی ذات سے اس کے خوابوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔
صباؔ بھی خواب دیکھنے والا شاعر تھا۔ حساس، محبِ وطن اور ایک سچے دل شاعر کی طرح پوری انسانیت سے محبت کرنے والا۔ اس کے خواب محض اپنے اور اپنے خاندان کے لیے نہیں تھے بلکہ پاکستان کے لیے تھے، پورے معاشرے کے لیے تھے، پوری انسانیت کے لیے تھے۔ اس نے حافظ شیرازیؔ، میر تقی میرؔ اور دوسرے زندہ جاوید بڑے شاعروں کی طرح غمِ ذات اور غمِ کائنات کو اس طرح اپنا لیا ہے کہ دوئی کا احساس مٹ جاتا ہے اور اس کے قاری کے سامنے یہ دونوں غم ایک اکائی کی طرح سامنے آتے ہیں۔ ایک ہی غزل کے دو شعر دیکھئے۔
لفظوں میں ڈھال ڈھال کے میں حادثات کو
ترتیب دے رہا ہوں کتابِ حیات کو
گر تم مرے شریکِ سفر ہو تو ساتھ دو
آؤ گلے لگائیں غمِ کائنات کو
اسلام کا پیغام پوری کائنات کے لیے ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے ع
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
صباؔ بھی اقبال کی طرح، ایک سچے مسلمان کی طرح پوری کائنات کو اپنا وطن سمجھتا ہے۔ وہ نفسانفسی اور عدم تحفظ کے اس دور میں سب کے لیے تحفظ، امان اور سکھ چاہتا ہے۔
لبوں پہ پھول کھلیں اور زبان سب کو ملے
وہ گھر بناؤں کہ جس میں امان سب کو ملے
اور اس مقصد کے لیے اس نے ایک نسخہ کیمیا بھی تجویز کر رکھا ہے؎
دنیائے بے ثبات کے دانش کدوں سے کیا
حل مسئلوں کا پوچھ رسالت مآبؐ سے
کوئی ہے؟ جو صباؔ کی پکار پر لبیک کہے:
’’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے‘‘
سبطِ علی صباؔ اپنے ایک عالمی شہرت کے حامل شعر ؎
دیوار کیا گری مرے خستہ مکاں کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
کے حوالے سے دنیائے شاعری اور جہان اُردو میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ یہ شعر اس کی پہچان بن چکا ہے۔ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں یہ شعر اس کی ذاتی زندگی سے متعلق ہے اور سانحۂ مشرقی پاکستان سے اس کا تعلق محض ایک ’’دریافت‘‘ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
صباؔ ایک سچا شاعر ہی نہیں سچا پاکستانی بھی تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں تعصب، نفرت اور گروہی مفادات کا سیلاب پاکستان کی نظریاتی دیواروں کو چاٹتا جا رہا ہے۔ اس نے اپنے شعروں میں اہلِ وطن کو اس صورتحال کی طرف متوجہ کرنے کی امکان بھر کوشش کی تھی۔ اس کی شاعری میں اس احساس کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ اس کی ایک غزل کے یہ دو شعر ملاحظہ کیجئے؎
ہر آدمی خود اپنی ہی جانب نگراں ہے
اب دہر میں، ہر تیر کا رخ سوئے کماں ہے
گرتی ہوئی دیوار کو گرنے سے بچا لو
دیوار کے سائے کے سوا امن کہاں ہے
صباؔ غریب تو چیخ چیخ کر اہلِ وطن کو گرتی ہوئی دیوار کی طرف متوجہ کر رہا تھا مگر ؎
کون سنتا ہے فغانِ درویش
یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ اس کی قبل از وقت پکار کو کسی نے نہیں سنا مگر جب اس نے گری ہوئی دیوار کا نوحہ پڑھا تو سب نے اسے اپنا لیا۔
بہرحال اس کی شاعری پر باتیں تو ہوتی رہیں گی کہ اس مجموعہ کی اشاعت کے بعد اس کی زندگی اور فن پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہوگا جس کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس مجموعہ کو ’’دیرآید درست آید‘‘ تو نہیں کہا جا سکتا کہ صباؔ کا بہت سا کلام ابھی باقی ہے، جو کسی دوسرے موقع پر زیادہ بہتر انداز سے شائع ہوگا۔
یہاں میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کی اشاعت محبِ گرامی جمیل الدین عالیؔ کی تحریک اور بیگم صباؔ کی مدد سے ممکن ہو سکی ہے۔ عالیؔ جی نے مجھے اس کام پر لگایا اور بیگم صباؔ نے فراہمیٔ کلام میں میری مدد کی۔ جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے بھی اس ضمن میں میری حوصلہ افزائی فرمائی جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ بھائی سلطان رشکؔ اور محترم سید ضمیر جعفری نے بھی مجھے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔
برادرم محمد امتیاز عارف نے مسوّدے کی نقل اور دیگر مراحل میں قدم قدم میرا ہاتھ بٹایا۔ بھائی منظور حسین کاتب ہی نہیں شعر و ادب کے خوش ذوق قاری بھی ہیں۔ طشتِ مراد کی کتابت پر انہوں نے خصوصی توجہ دی ہے۔
علی مطہر اشعر، اکمل ارتقائی، احمد جمیل، طفیل کمالزئی، مظفر بٹ، بشیر آذر، غلام رسول، سلیمان عادل، نسیم قریشی، رؤف امیر، اختر نواز، نظیر اختر، ایوب اختر، کمال پاشا راز، سید عارف، ضمیر نفیس، رشید نثار، ساجد زبیری، توقیر علی زئی، عبید الرحمن اعظمی، ظفر اللہ خان، محترم عطا حسین کلیم، جناب اختر ہوشیارپوری، یوسف حسن، آفتاب اقبال شمیم، پروفیسر سجاد شیخ، پروفیسر مسیح الدین احمد صدیقی اور بہت سے دوسرے دوستوں اور بزرگوں نے مختلف مرحلوں میں میری ہمت بندھائی۔ ان سب حضرات کا شکریہ مجھ پر واجب ہے۔
مرحوم نے اپنے مجموعہ کا نام ’’ابرِ سنگ‘‘ تجویز کیا تھا کہ اسے زندگی بھر پتھروں کی بارش کا سامنا رہا۔ لیکن یہ پتھروں کی بارش اس کی آنکھ بند ہوتے ہی ختم ہو گئی۔ اب تو اس کے لیے محبتوں کے پھول ہیں۔ خلوص کے پھول ہیں۔
صباؔ! خلوص و محبت کے پھولوں سے بھرا یہ طشتِ مراد تمہاری نذر ہے…………
30 دسمبر 1985ء٭٭٭
نعت و سلام
o
جاری ہے فیض شہر شریعت کے بابؑ سے
لب خشک ہیں تو مانگ لے کوثر جنابؐ سے
دنیائے بے ثبات کے دانش کدوں سے کیا
حل مسئلوں کا پوچھ رسالت مآبؐ سے
اس اسمِ بے مثال کی رعنائیاں نہ پوچھ
گلشن مہک رہا ہے دمکتے گلاب سے
گنجینۂ علوم میں کوئی کمی نہیں
وابستگی ہے شرط رسالت مآبؐ سے
اہلِ قلم کا اس پہ درود و سلام ہو
نوعِ بشر کو جس نے جگایا ہے خواب سے
مولائے کائناتؐ کا ہے حکم، اس لیے
وابستہ ہو گیا ہوں درِ بوترابؑ سے
در کھل گئے ہیں ذہن کے سبطِ علی صباؔ
مجھ کو متاعِ فکر ملی ہے جنابؐ سے٭٭٭
o
جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا
سکون قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا
حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا
جہاں میں تجھ سا تو کوئی بھی فتح یاب نہ تھا
کچھ اس طرح سے بہتر(72) کا انتخاب کیا
کسی نبی کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا
حسینؑ ابنِ علیؑ کو نہ آفتاب کہو
وہ جب تھا، جب کہ زمانے میں آفتاب نہ تھا٭٭٭
o
مرکزِ اہلِ نظر، سیدِؐ ابرارِ اسلام
منبعِ جود و سخا، مطلعِ انوارِ اسلام
تیرے افکار سے اندھوں نے بصارت پائی
تیرے منشور سے انساں نے ہدایت پائی٭٭٭
o
خدایا دِکھا دے مجھے بھی مدینہ
نہ بھٹکے میری زندگی کا سفینہ
دھڑکتے دلوں سے صدا آ رہی ہے
میں چھوٹی سی بچی دعا مانگتی ہوں
مجھے زندہ رہنے کا آئے قرینہ
اے مضراب فطرت سنائے محمدؐ
مجھے مل گیا ہے جہاں کا خزینہ
(اپنی چھوٹی بیٹی مضراب سحر کے سکول کی تقریب کے لیے لکھی گئی نعت جس میں اسے پہلا انعام ملا۔)٭٭٭
o
کربلا نوں چن لیا رب دی رضا دے واسطے
ہور کی شبیرؑ کر دے لااِلٰہ دے واسطے
دور مقتل دی زمیں تے دھوڑ اُڈدی ویکھ کے
ثانیٔ زہراؑ دعا منگی بھرا دے واسطے
اج تے ابراہیم دا وی خواب سچا ہو گیا
بن گیا اصغرؑ نشانہ حرملہ دے واسطے٭٭٭
o
زیرِ خنجر خوابِ ابراہیمؑ کی تعبیر دیکھ
کربلا میں فاطمہؑ کے شِیر کی تاثیر دیکھ
بربریت سرنگوں ہے، آدمیت سرفراز
آج بھی لہرا رہا ہے پرچمِ شبیرؑ دیکھ٭٭٭
o
تیروں کی بارشیں ہیں مدینہ بھی دور ہے
لختِ دِل رسولؐ تو زخموں سے چور ہے
سن اے یزید تیری حکومت ہے چار دن
شبیرؑ کے نظام کا ہر دِل میں نور ہے٭٭٭
o
جس طرح زندہ ہیں اہلِ کربلا جان وار کر
اس طرح باطل کی کثرت کا سدا انکار کر
بارگاہِ کج کلاہاں میں نہ سر اپنا جھکا
اٹھ کہ اعلانِ حقیقت برسرِ دربار کر
کربلا والوں نے سِکھلایا ہے یہ زریں اصول
کشورِ دِل جیت لیتے ہیں لڑائی ہار کر٭٭٭
o
جبریلِ امیں نے رو کے کہا کہتے ہیں تجھے محبوبِؐ خدا
حق خوب ادا شبیرؑ کیا تلواروں کی جھنکاروں میں
جنت کی فضا میں ماتم کی ہر سمت صدائیں گونج اٹھیں
حورانِ خُلد نے رو کے کہا ہم بھی ہیں تیرے غم خواروں میں
شبیرؑ کے غم میں رو کے صباؔ ہم کیوں نہ گریباں چاک کریں
سیدانیاں سر ننگے جائیں افسوس بھرے بازاروں میں٭٭٭
o
سر تا بہ قدم صاحبِ ایمان ہے شبیرؑ
ہر دور میں انصاف کی میزان ہے شبیرؑ
ہر شخص کو باطل کی اطاعت سے ہے انکار
انسان پہ ہر دم ترا احسان ہے شبیرؑ٭٭٭
o
راہوں میں سارباں کو پانی ملا نہ سایا
بیتاب دھوپ میں ہے زنجیر کا ستایا
زینبؑ کے سر پہ اب تک ہے ریت کربلا کی
رسی نے بازوؤں پہ کالا نشاں بنایا
پردیسیوں کی قبریں وہ تربتِ سکینہؑ
چڑھائے پھول کس نے کس نے دیا جلایا٭٭٭
o
زنجیروں سے آتی ہے صدا سجادؑ بھرے بازاروں میں
سجادؑ تری تعریف سنی قرآن کے تیسوں پاروں میں
شبیرؑ کے غم میں رو کے صباؔ ہم کیوں نہ گریباں چاک کریں
سیدانیاں سر ننگی جائیں، افسوس، بھرے بازاروں میں٭٭٭
o
آیاتِ حق کی چھاؤں میں عصمت کا پھول تھی
زینبؑ کہیں علیؑ تھی کہیں پر رسولؐ تھی
خیبر یزیدیت کا گراتی چلی گئی
عباسؑ کا جلال دکھاتی چلی گئی٭٭٭
o
فاتح شام زینبؑ اونچا مقام تیرا
بھائی امام تیرے بابا امام تیرا
افسوس شامیوں نے شہنائیاں بجائیں
جب قافلہ اجڑ کر پہنچا تھا شام تیرا
رنگ سرخ ہو کے نکلا غیرت سے آنسوؤں کا
سجادؑ نے سنا جب حاکم سے نام تیرا
٭٭٭
o
اے ڈھلتے سورج تو ہی بتا عاشور کے دن کیا کیا دیکھا
بے گور و کفن لاشے دیکھے شبیرؑ کا جلتا گھر دیکھا
سیدانیوں کے بکھرے ہوئے بال اور گود میں کچھ سہمے بچے
ماں دوڑی وہ جھولے تک جا کر اصغرؑ کا جھولا خالی تھا
٭٭٭
o
اجڑے ہوئے گھروں کے صغریٰؑ دئیے جلا کے
کرتی رہی چراغاں روضے پہ مصطفیٰؐ کے
٭٭٭
تغزّل
o
میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں
جب بھی آؤں تری محفل سے اٹھایا جاؤں
ایک ٹوٹا ہوا پتّہ ہوں ٹھکانہ معلوم
جانے کب تک میں فضاؤں میں اڑایا جاؤں
میری تخلیق کا مقصود یہی ہے شاید
آسمانوں سے زمینوں پہ گرایا جاؤں
پھر کوئی موت کی لوری کوئی الجھا ہوا گیت
میں بہت دیر کا جاگا ہوں سلایا جاؤں
اتنا بیزار نہ ہو مجھ سے کہ وہ تارا ہوں
شاخِ مژگاں پہ سرِ شام سجایا جاؤں
جانے کس جرم کی پاداش میں ہر روزصباؔ
ہائے حالات کی سولی پہ چڑھایا جاؤں
٭٭٭
o
ہم نے ہر شخص کو اپنا ہی سمجھ کر چاہا
یہ الگ بات ہمیں کوئی نہ اپنا سمجھے
جانے کس سوچ میں گم جانبِ منزل تھے رواں
جو چلا ساتھ اسے اپنا ہی سایہ سمجھے
٭٭٭
o
لفظوں میں ڈھال ڈھال کے میں حادثات کو
ترتیب دے رہا ہوں کتابِ حیات کو
میرا خلوص پاؤں کی زنجیر بن گیا
میرے بدن میں دفن کرو میری ذات کو
ہر آدمی کا نامۂ اعمال ہے سیاہ
کس کے حضور پیش کروں کاغذات کو
وہ شخص میرے حلقۂ احباب میں رہا
لیکن سمجھ سکا نہ مری نفسیات کو
گر تم مرے شریکِ سفر ہو تو ساتھ دو
آؤ گلے لگائیں غمِ کائنات کو
٭٭٭
o
حجاب میں ہے مگر پھر بھی بے حجاب ہے وہ
مسافرو! رہِ ہستی میں ہم رکاب ہے وہ
٭٭٭
o
مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سفر نیا ہے مگر کشتیاں پرانی ہیں
یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں
ہم اس لیے بھی نئے ہم سفرتلاش کریں
ہمارے ہاتھ میں بیساکھیاں پرانی ہیں
عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نئے ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں
پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں
سفر پسند طبیعت کو خوفِ صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں
٭٭٭
o
خزاں رہی نہ کبھی موسم بہار رہا
چمن تو گردشِ حالات کا شکار رہا
عجیب رنگ ہے اب کے برس بہاروں کا
نہ گل کھلے نہ کوئی نخلِ سایہ دار رہا
عجیب بات ہے ہم نے کسی سے کچھ نہ کہا
ہجومِ غم میں ہمیں دل پہ اختیار رہا
کھلی جو آنکھ تو رخصت ہوئی چمن سے بہار
پھر اس کے بعد بہاروں کا انتظار رہا
غموں کی دھوپ میں مرجھا گئے کنول کیا کیا
چمن سے دور کہیں ابرِ نو بہار رہا
خزاں کا دَور ہو یا موسمِ بہار صباؔ
مثالِ برگِ خزاں دل تو داغ دار رہا
٭٭٭
o
ایک تصویر نظر آتی ہے شہ پاروں میں
مشترک سوچ ہے اس عہد کے فن کاروں میں
لوگ جنگل کی ہواؤں سے ہیں اتنے خائف
کوئی روزن ہی نہیں گاؤں کی دیواروں میں
جس کی پیشانی پہ تحریر تھا محنت کا نصاب
سرِفہرست وہی شخص ہے بے کاروں میں
اور طبقات میں انسان بکھرتے جائیں
مشورے روز ہوا کرتے ہیں زر داروں میں
جب کسی لفظ نے الجھے ہوئے معنی کھولے
رنگ کچھ اور نکھر آیا ہے فن پاروں میں
تشنگی تشنہ زمینوں کی صباؔ مٹ نہ سکی
ہاں مگر بٹ گئی کار ز زمیں داروں میں
٭٭٭
o
نئے افق پہ ابھرتی صداقتیں دیکھوں
زمیں کو چوم رہی ہیں امارتیں دیکھوں
فضا میں سلطنتِ آرزو ہے پرافشاں
میں اپنے جسم کے اندر بغاوتیں دیکھوں
گلوں کو اوڑھ کے نکلے ہیں ابرِ سنگ میں لوگ
گلی گلی میں مہکتی شجاعتیں دیکھوں
پڑوسیوں کے بھی آخر حقوق ہوتے ہیں
اسی حوالے سے گھر کی قیادتیں دیکھوں
شفق لباس، دھنک اوڑھنی، لبوں پہ وفا
میں اس کے چہرے کی گھر گھر شباہتیں دیکھوں
مسودے ہیں مرے ہاتھ میں صباؔ کل کے
زمیں اگلنے لگی ہے امانتیں دیکھوں
٭٭٭
o
موسمِ گل کے لیے بارِ گراں چھوڑ گئی
زرد پتّے جو گلستاں میں خزاں چھوڑ گئی
مجھ کو تنہائی کے احساس سے ڈر لگتا ہے
تو مجھے عمرِ رواں جانے کہاں چھوڑ گئی
ترا احسان ہے اے فصلِ بہاراں مجھ پر
جاتے جاتے مرے ہونٹوں پہ فغاں چھوڑ گئی
یہ شکایت ہے عبث ہم سے تری گردشِ وقت
دیکھ ہم اب بھی وہیں ہیں، تو جہاں چھوڑ گئی
شمع روشن تھی تو محفل میں بھی رونق تھی صباؔ
گل ہوئی شمع تو محفل میں دھواں چھوڑ گئی
٭٭٭
o
ان ثمر بار درختوں کو نظر میں رکھنا
توڑ ڈالے نہ کوئی ڈال زمیں کے بیٹو!
٭٭٭
o
عمر بھر خون پسینے میں نہائے جاؤ
روز پیوند قباؤں میں سجائے جاؤ
چڑھتے سورج کے پجاری ہو، ہوا کے رخ پر
روز خوش رنگ پتنگوں کو اڑائے جاؤ
ڈوب جاؤ کہ کسی شخص کو معلوم نہ ہو
اپنے احساس کو پانی میں بہائے جاؤ
قحط پھولوں کا ہے پت جھڑ کا زمانہ آیا
کاغذی پھولوں سے کمروں کو سجائے جاؤ
اس نئے دور کی تاریخ میں شامل ہو کر
آسمانوں سے ستاروں کو گرائے جاؤ
٭٭٭
o
ہر اک قدم پہ زخم نئے کھائے کس طرح
رندوں کی انجمن میں کوئی جائے کس طرح
صحرا کی وسعتوں میں رہا عمر بھر جو گم
صحرا کی وحشتوں سے وہ گھبرائے کس طرح
جس نے بھی تجھ کو چاہا دیا اس کو تُو نے غم
دنیا ترے فریب کوئی کھائے کس طرح
زنداں پہ تیرگی کے ہیں پہرے لگے ہوئے
پرہول خواب گاہ میں نیند آئے کس طرح
زنجیرِ پا کٹی تو جوانی گزر گئی
ہونٹوں پہ تیرا نام صباؔ لائے کس طرح
٭٭٭
o
وہ تو حلیف بن کے ہی کرتا ہے اپنا وار
ترکش میں اس کے زہر بجھا تیر اور ہے
٭٭٭
o
رکے کارواں منزلوں پہ سبھی جا
رہے دیکھتے ہم نشانِ کفِ پا
ہوا سے کرے گفتگو پہروں تنہا
نہ جانے لگا روگ دل کو ہے کیسا
زمانے نے پوچھا ہوئی نم جو آنکھیں
جلا جب بھی دل تو کسی نے نہ پوچھا
ہمیں ایک تنہا نہیں ہیں جہاں میں
بہت غم زدہ لوگ رہتے ہیں تنہا
ترے بعد شہرِ بتاں میں تو ہم کو
نظر جو بھی آیا وہی اجنبی سا
زمانہ ہوا، دربدر کوچہ کوچہ
لیے پھر رہا ہے صباؔ غم کسی کا
٭٭٭
o
گاؤں گاؤں خاموشی، سرد سب الاؤ ہیں
رہروِ رہِ ہستی کتنے اب پڑاؤ ہیں
رات کی عدالت میں جانے فیصلہ کیا ہو
پھول پھول چہروں پہ ناخنوں کے گھاؤ ہیں
اپنے لاڈلوں سے بھی جھوٹ بولتے رہنا
زندگی کی راہوں میں ہر قدم پہ داؤ ہیں
روشنی کے سوداگر ہر گلی میں آ پہنچے
زندگی کی کرنوں کے آسماں پہ بھاؤ ہیں
چاہتوں کے سب پنچھی اڑ گئے پرائی اور
نفرتوں کے گاؤں میں جسم جسم گھاؤ ہیں
٭٭٭
o
ایسی مجبوری کہ پچھلا در کھلا رہنے دیا
صدر دروازے پہ اک تالا پڑا رہنے دیا
روح کے قیدی پرندے کو رہائی مل گئی
دار کی ٹہنی پہ اک چہرہ ٹنگا رہنے دیا
قتل سے پہلے مرے گھر کی صفائی ہو گئی
شاخِ گل پہ قمریوں کو بے نوا رہنے دیا
بستیوں میں سر پٹکتی آندھیاں چلنے لگیں
کھڑکیوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ رہنے دیا
گل سے عارض پر طمانچوں کے نشاں ملنے لگے
برسرِ دربار ماں کا سر کھلا رہنے دیا
تجربہ گاہِ جہاں میں ہر کھلونا وار کر
آندھیوں کے سامنے روشن دیا رہنے دیا
٭٭٭
o
جو لوگ اپنے حق کے طلب گار بن گئے
اہلِ ستم کی راہ میں دیوار بن گئے
صد شکر اپنے دل کو ترا غم ہوا نصیب
ہم تجھ سے مل کے صاحبِ کردار بن گئے
جب سیلِ درد دل میں ہوا موجزن تو ہم
اظہارِ درد کے لیے فن کار بن گئے
گزرے تو اک جہان کی نظروں میں آ گئے
ٹھہرے تو رونقِ رسن و دار بن گئے
ہم چاہتوں کے زخم چھپائے پھرے صباؔ
یہ زخم دل کے واسطے آزار بن گئے
٭٭٭
o
ہر آدمی خود اپنی ہی جانب نگراں ہے
اب دہر میں ہر تیر کا رخ سوئے کماں ہے
آ مل کے نئے دور کی بنیاد اٹھائیں
تخریب کی تلوار تو گردن پہ رواں ہے
سورج پسِ کہسار جو ڈوبا تو یہ دیکھا
سیلابِ شبِ تار میں غرقاب جہاں ہے
میں بھاگتے لمحوں کی طرف دوڑ رہا ہوں
دریا ہے کہیں رَہ میں کہیں کوہِ گراں ہے
گرتی ہوئی دیوار کو گرنے سے بچا لو
دیوار کے سائے کے سوا امن کہاں ہے
زخموں کو سجائے ہوئے پھرتا ہوں بدن پر
’’گو میری نظر شیفتۂ حُسنِ بتاں ہے‘‘
کیا فکرِ سخن کیجئے حسرتؔ کی زمیں میں
حسرتؔ کا سا انداز صباؔ مجھ میں کہاں ہے
٭٭٭
o
ایک آواز سرِ شام بلاتی ہے مجھے
کون زنجیر کی صورت ہے مرے پاؤں میں
میں نے کب جرمِ محبت سے کیا ہے انکار
میں کہ ڈوبا ہوں ابھی فکر کے دریاؤں میں
٭٭٭
o
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لئے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لئے
ہم نے تو اپنے جسم پر زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لئے
میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لئے
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لئے
ہر حرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لئے
٭٭٭
o
مکینوں کے لیے اک بوجھ لشکر چھوڑ جاتے ہیں
گرا دیتے ہیں دیواریں تو پتھر چھوڑ جاتے ہیں
یہ کم سن پھول سے چہرے زمیں کی گود میں سو کر
گھروں میں گھومتے سایوں کے پیکر چھوڑ جاتے ہیں
سبک رفتار لمحے پھر کبھی واپس نہیں آتے
یہ اَن تھک راہرو، انساں کو اکثر چھوڑ جاتے ہیں
یہ کیسا علم ہے جس کے پجاری تجربے کر کے
کسانوں کے لیے دھرتی کو بنجر چھوڑ جاتے ہیں
شکستہ دل فقط کچھ سانس گن کر ہسپتالوں میں
نئے لوگوں کی خاطر اپنے بستر چھوڑ جاتے ہیں
سگانِ برزنِ قریہ بھی ڈر سے کانپ اٹھتے ہیں
صباؔ جو وحشتیں انسان گھر گھر چھوڑ جاتے ہیں
٭٭٭
o
نکتہ چیں ہیں لوگ میرے گاؤں کے چوپال میں
بچ گیا آفت زدہ خستہ مکاں بھونچال میں
چکھ رہا ہوں آزمائش کی گھڑی کا ذائقہ
اب چراغِ سر، سجے گا اک سنہرے تھال میں
میری پیشانی پہ تیروں نے لکھی ایسی غزل
پھول زخموں کے مہک اٹھے بدن کی ڈھال میں
فکرِ نو کی روشنی ذہنوں میں در آئی ہے کیا
بڑھ گئے بچے، بڑے بوڑھوں سے استدلال میں
دل کو ہے اس شہر کی گلیوں میں جینے کی طلب
نفرتیں رقصاں جہاں ہیں مختلف اشکال میں
چَھٹ گئی گردِ مسافت تو صباؔ عقدہ کھلا
میں اکیلا رہ گیا ہوں شہرِ بد اعمال میں
٭٭٭
o
ہر طرف عفریت ہیں اور گھاٹیاں ہیں خوں میں تر
بیشۂ ہستی کی سب پگڈنڈیاں ہیں خوں میں تر
مسکراتے گاؤں آثارِ قدیمہ بن گئے
لشکری خوش ہیں کہ ان کی وردیاں ہیں خوں میں تر
خون اپنے ہی برادر کا مرے آنگن میں ہے
گردشِ حالات تھم جا انگلیاں ہیں خوں میں تر
میں کہ آدھے جسم کے بارِ گراں سے چور ہوں
رینگتا آخر کہاں تک کہنیاں ہیں خوں میں تر
ذہن تو بچوں کی صورت کچھ سمجھ سکتے نہیں
کیوں ہماری خواہشوں کی تتلیاں ہیں خوں میں تر
خیمہ زن ہوگا کہاں پر کاروانِ فصل گل
ٹہنیاں سوکھی ہوئی ہیں پتّیاں ہیں خوں میں تر
منزلیں گردِ سفر، رختِ سفر آزارِ جاں
گھنٹیاں چپ ہیں کہ آگے بستیاں ہیں خوں میں تر
اجڑی آنکھوں میں صباؔ اب رت جگے آباد ہیں
آئینے کہتے ہیں مجھ سے پتلیاں ہیں خوں میں تر
٭٭٭
o
ایک عالم نے کیا جشنِ چراغاں شب کو
ہم کہاں لے کے پھریں چاک گریباں شب کو
ظلمتیں ڈستی ہیں راہوں میں ہر اک راہرو کو
روٹھ جاتا ہے کہاں مہرِ درخشاں شب کو
دن کو چھپنا ہی پڑا ڈر سے کوئی دیکھ نہ لے
چھانتے پھرتے ہیں ہم خاکِ بیاباں شب کو
تنگ دل لوگ عبث کہتے ہیں کانٹوں کو بُرا
کون پھولوں کا ہوا کرتا ہے نگراں شب کو
کیا خبر تجھ کو صباؔ تیرے چلے جانے کے بعد
پھر بھی آباد رہا گوشۂ زنداں شب کو
٭٭٭
o
ظلمتوں کے دہر میں گاؤں مرا ڈوبا رہا
روشنی کا ایک دریا شہر میں بہتا رہا
٭٭٭
o
فلک تسخیر کرنا ہے زمیں کی پستیوں سے کیا
نئی دنیا بسانی ہے، پرانی بستیوں سے کیا
گریں پتّے زمیں پر یا شجر سے ٹہنیاں ٹوٹیں
ہوا کا کام چلنا ہے ہوا کو ٹہنیوں سے کیا
نیا سورج دکھوں کی دھوپ لے کر روز آتا ہے
اسے انسان کے چہرے پہ بکھری زردیوں سے کیا
لہو جلتا رہے گا کارخانوں میں غریبوں کا
دھواں اٹھتا رہے گا آسماں تک چمنیوں سے کیا
زمیں پر علم کے کالے دھماکے روز ہوتے ہیں
اُگی ہے بھوک کھیتوں میں تو بہتی ندیوں سے کیا
جہاں تن ڈھانپنا انسان کو دشوار ہو جائے
وہاں سبطِ علی تہذیب کی پابندیوں سے کیا
٭٭٭
o
آزادیِ ضمیر کا احساس مر گیا
طشتِ مراد کاغذی پھولوں سے بھر گیا
صندل کی شاخ شاخ سے لپٹے ہوئے تھے سانپ
خوشبو کا زہر ذہن کو مفلوج کر گیا
اس کربلائے عصر میں ہر ماں کے سامنے
بیٹے کا گرم خاک پہ سہرا بکھر گیا
اترا تھا سطحِ آب پہ مرغابیوں کا غول
گولی چلی تو خون سے تالاب بھر گیا
پھولوں پہ تتلیوں کا صباؔ رقص دیکھ کر
جبرِ خزاں کے خوف سے چہرا اتر گیا
٭٭٭
o
تشنہ زمیں کی تشنہ لبی اور بڑھ گئی
برسی سمندروں پہ گھٹا جھومتی ہوئی
٭٭٭
o
کس طرح گاؤں اجڑتے ہیں تباہی دیکھ لی
جنگ میں انسان کے دل کی سیاہی دیکھ لی
آسماں تسخیر کرنا ہے تو ہم بھی ساتھ ہیں
کج کلاہوں کی زمیں پر بادشاہی دیکھ لی
روشنی کی گرد جسموں کو اپاہج کر گئی
تابکاری زہر کی ہر سو تباہی دیکھ لی
جسم پر زخموں کے تمغوں کو سجا کر شہر شہر
وقت کے دیدہ وروں کی کم نگاہی دیکھ لی
نفرتوں کے کنکروں سے جسم چھلنی ہو گیا
ماں نے اپنے لاڈلوں کی خیر خواہی دیکھ لی
گاؤں گاؤں میں صباؔ شامِ غریباں آ گئی
سوگ کی دہلیز پر ہر نَو بیاہی دیکھ لی
٭٭٭
o
بلندیوں سے گرا ہوں میں اپنے سائے پر
فضا میں اڑتا کہاں تک کہ تھے پرائے پر
کرن شعور کو تقسیم کر کے بچوں میں
تمام جگنوؤں نے رات بھر گنوائے پر
کہیں بھی کوئی پرندہ نہیں درختوں میں
پھر اس سکوت میں یہ کس نے پھڑپھڑائے پر
مجھے اڑان سے محروم کر کے لوگوں نے
بڑے قرینے سے اوراق میں سجائے پر
لہو چناب بدن میں رواں، مگر ہم لوگ
اٹھائے پھرتے ہیں بیساکھیاں کرائے پر
وہ مجھ سے نامۂ اعمال مانگتا ہے صباؔ
خود اتفاق نہیں جس کو اپنی رائے پر
٭٭٭
o
زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
شہر کی گلیوں میں اب آوارگی اچھی نہیں
زندہ رہنا ہے تو ہر بہروپئے کے ساتھ چل
مکر کی تیرہ فضا میں سادگی اچھی نہیں
کس نے اذنِ قتل دے کر سادگی سے کہہ دیا
آدمی کی آدمی سے دشمنی اچھی نہیں
جب مرے بچّے مرے وارث ہیں، ان کے جسم میں
سوچتا ہوں حدّتِ خوں کی کمی اچھی نہیں
گوش بر آواز ہیں کمرے کی دیواریں صباؔ
تخلئیے میں خود سے اچھی بات بھی اچھی نہیں
٭٭٭
o
کیوں نخلِ ثمر بار پہ اک بوجھ بنا ہے
اے برگِ خزاں دیدہ ہواؤں میں بکھر جا
٭٭٭
o
خوشبو بکھیرتے ہوئے پیکر اڑا دئیے
آندھی نے شاخِ گل سے گلِ تر اڑا دئیے
اونچی اڑان کے لیے پَر تولنا تھا جرم
میرے ہی ساتھیوں نے مرے پَر اڑا دئیے
سچائیوں کا جن کے سروں میں جنون تھا
ہر شہر یارِ وقت نے وہ سر اڑا دئیے
بارود کے خمار سے وحشت امڈ پڑی
اپنے ہی بھائیوں نے بھرے گھر اڑا دئیے
ہم زندگی کی فلم کے کردار کیا بنے
کچھ حاسدوں نے بیچ کے منظر اڑا دئیے
٭٭٭
o
لبِ اظہار پہ جب حرفِ گواہی آئے
آہنی ہار لئے در پہ سپاہی آئے
وہ کرن بھی تو مرے نام سے منسوب کرو
جس کے لٹنے سے مرے گھر میں سیاہی آئے
میرے ہی عہد میں سورج کی تمازت جاگے
برف کا شہر چٹخنے کی صدا ہی آئے
اتنی پرہول سیاہی کبھی دیکھی تو نہ تھی
شب کی دہلیز پر جلنے کو دیا ہی آئے
رہ روِ منزلِ مقتل ہوں، مرے ساتھ صباؔ
جو بھی آئے وہ کفن اوڑھ کے راہی آئے
٭٭٭
o
اس کی چاہت کو زمانے سے چھپا بھی نہ سکوں
وہ تو خوشبو ہے اسے ہاتھ لگا بھی نہ سکوں
٭٭٭
o
حق بات عدالت میں روا ہی نہیں ہوتی
ماں کے لیے بیٹوں کی گواہی نہیں ہوتی
اس شہر کے لوگوں سے اماں مانگ رہا ہوں
جس شہر میں قاتل کو سزا ہی نہیں ہوتی
یہ کہہ کے زمیں زادیاں گھر سے نکل آئیں
اشراف کے سر پر تو رِدا ہی نہیں ہوتی
مصلوب کوئی جھوٹ پہن کر نہیں ہوتا
سچائی کی مجروح انا ہی نہیں ہوتی
کس طرح کروں زحمتِ مہمان نوازی
بچّوں کے لئے گھر پہ غذا ہی نہیں ہوتی
٭٭٭
o
کھل گیا بھید کہ یہ رشتۂ خوں کچھ بھی نہیں
تو نے بازار میں جب لختِ جگر بیچ دیا
٭٭٭
o
تاریکیوں کے جسم میں کرنوں کو ڈال دو
سورج کو ظلمتوں کی فضا میں اچھال دو
اب فیصلے کو اور کسی دن پہ ٹال دو
گردن میں طوق پاؤں میں زنجیر ڈال دو
گاؤں کے چودھری نے منادی کرائی ہے
ہر سر پھرے کو گاؤں سے باہر نکال دو
تہذیب کا لباس پہن کر گلی گلی
ہر صاحبِ کمال کی پگڑی اچھال دو
ذہنوں پہ جم رہی ہیں تہیں برف کی صباؔ
اس حادثے کو روح کے پیکر میں ڈھال دو
٭٭٭
o
آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اَٹ گئی
دیوار سے لگی تری تصویر پھٹ گئی
لمحوں کی تیز دوڑ میں، میں بھی شریک تھا
میں تھک کے رک گیا تو مری عمر گھٹ گئی
اس زندگی کی جنگ میں ہر اک محاذ پر
میرے مقابلے میں مری ذات ڈٹ گئی
سورج کی برچھیوں سے مرا جسم چھد گیا
زخموں کی سولیوں پہ مری رات کٹ گئی
احساس کی کرن سے لہو گرم ہو گیا
سوچوں کے دائروں میں تری یاد بٹ گئی
٭٭٭
o
تیری آواز کو جب ہم بھی نہ پہچان سکے
تیری آواز کو پہچان لیا ہے دل نے
٭٭٭
o
دو چار سبز برگ جو سارے شجر میں ہیں
ہو خیر ٹہنیوں کی، ہوا کی نظر میں ہیں
ہر اک قبا سے تمغۂ ہجرت اتار دو
ہم لوگ بھائی بھائی ہیں اور اپنے گھر میں ہیں
تیغِ ستم پہ خون سے تحریر ہو گئیں
وہ جرأتیں نہاں جو بدن کی سپر میں ہیں
سُن غور سے گھڑی کی صدا رہ نوردِ زیست
لمحۂ ازل سے جانبِ منزل سفر میں ہیں
تہذیب کے قفس میں ہیں انسان جانور
ہم لوگ قید، دہر کے اس چڑیا گھر میں ہیں
٭٭٭
o
ہر صبح پرندوں نے یہ سوچ کے پر کھولے
اِن آہنی پنجروں کے شاید کوئی در کھولے
ذہنوں پہ تکبّر کے آسیب کا سایہ ہے
اولاد پہ بھی ہم نے اپنے نہ ہنر کھولے
زر دار کے کمرے کی دیوار کے سائے میں
بیٹھے ہیں زمیں زادے کشکولِ نظر کھولے
اس شہر خیانت کے بے مہر مکینوں نے
دیوارِ حفاظت کے دن ڈھلتے ہی در کھولے
ہم سہل پسندوں نے آنکھیں ہی نہیں کھولیں
دھرتی تو ازل سے ہے گنجینۂ زر کھولے
ساون مری آنکھوں سے خوں بن کے برستا ہے
جب کوئی زمیں زادی دربار میں سر کھولے
٭٭٭
o
پھر بربطِ شکستہ کے بجنے لگے ہیں تار
سنتا ہوں میں کسی کی صدا گونجتی ہوئی
مشعل بکف پھریں گے صباؔ شہر شہر ہم
سنتے ہیں ظلمتوں سے فضا ہے گھٹی ہوئی
٭٭٭
o
ڈرایا روشنیِ فکر سے جہاں نے مجھے
مگر بچایا ہے اس ڈر سے میری ماں نے مجھے
بڑی قریب کی وابستگی تھی جس سے مری
پناہ دی نہ گھڑی بھر اسی مکاں نے مجھے
مِرے رفیق تماشا سمجھ کے ہنستے رہے
گلی میں گھیر لیا لشکرِ سگاں نے مجھے
میں اعتماد کی کشتی پہ جب سوار ہوا
ڈبو دیا اسی کشتی کے بادباں نے مجھے
صباؔ درخت سے ٹوٹے ہوئے ثمر کی طرح
زمیں پہ روند دیا گردشِ جہاں نے مجھے
٭٭٭
o
ہم کو غمِ حیات سے انکار کیوں نہ ہو
دل ہے مسرتوں کا طلبگار، کیوں نہ ہو
٭٭٭
o
کھلی فضا میں چلوں اور سر اٹھائے رکھوں
مجھے بھی حق ہے کہ میں اختلافِ رائے رکھوں
اگرچہ زعم ہے اونچی اڑان کا مجھ کو
اڑوں فضاؤں میں اور پنکھ بھی پرائے رکھوں
برس رہی ہے ہر اک سمت کنکروں کی پھوار
میں ایک چھتری سے کس کس کا سر بچائے رکھوں
وہ مجھ کو روز نئی الجھنوں میں الجھائے
میں جس کے واسطے دیوار و در سجائے رکھوں
اسی خیال سے گھر کے کواڑ کھول دئیے
سگانِ شہر سے انسان کو بچائے رکھوں
مرے سماج کی مجھ پر عنایتیں ہیں صباؔ
ہر ایک زخم کو موضوعِ فن بنائے رکھوں
٭٭٭
o
جو وقت کی سولی پر حق بات سدا بولے
اس شخص کے لہجے میں کیونکر نہ خدا بولے
وہ ساعتِ بختاور اِک روز تو ہم دیکھیں
میدانِ عدالت میں ہر سنگِ جفا بولے
٭٭٭
o
ہر ایک جنس ہے غائب بھری دکانوں سے
اتار، رزق زمینوں پہ آسمانوں سے
ترس گئی ہیں یہ آنکھیں گلاب چہروں کو
مریض جسم نکلتے ہیں اَب مکانوں سے
ہمارے بعد کی نسلوں کو اَب وراثت میں
ملیں گے مرثیے افکار کے خزانوں سے
چلی وہ صر صرِ افلاس گاؤں گاؤں میں
کہ لوگ کٹ گئے اپنے بھرے گھرانوں سے
زباں کی گرہیں ابھی کھولنے میں تھے مصروف
حروف روٹھ گئے توتلی زبانوں سے
فراتِ زیست پہ ہر لشکری کا وار صباؔ
ہمیں نے روک لیا بڑھ کے اپنے شانوں سے
٭٭٭
o
وہ اپنی بانہوں میں بھینچ لے تو برائی کیسی
زمین ماں ہے تو ماں سے میری لڑائی کیسی
ہمارے بچے تو ’’ب‘‘ سے بجلی سمجھ نہ پائیں
جدید مکتب میں ہو رہی ہے پڑھائی کیسی
پرانی سیڑھی سے گر کے لوگوں سے کہہ رہا ہوں
گواہ رہنا تمہیں بلندی دکھائی کیسی
ہوا کے جھونکے نے میری آنکھوں کو سبز پا کر
ہری بھری بیل کھڑکیوں سے ہٹائی کیسی
غریب گھر کی ضرورتوں کے مقابلے میں
صباؔ تمہاری مہینے بھر کی کمائی کیسی
٭٭٭
o
دل تو نگر آج بھی ہے دوستو، کل کی طرح
گو بدن پر ہے لباسِ مفلسی پہنا ہوا
٭٭٭
o
بچے کا ذہن جتنی کتابوں میں بٹ گیا
مجبور باپ اتنے عذابوں میں بٹ گیا
اب حقِ ملکیت تو فقط ندّیوں کو ہے
سرسبز کھیت کتنے دوآبوں میں بٹ گیا
مٹی کا جسم تیرنے اترا تھا جھیل میں
جب ڈوبنے لگا تو حبابوں میں بٹ گیا
وہ شہر جو کہ مرکزِ عالم نگاہ تھا
بھونچال آ گیا تو خرابوں میں بٹ گیا
میں نے تو اہلِ قریہ سے پوچھا تھا گھر کا حال
میرا سوال کتنے سوالوں میں بٹ گیا
ننھی سی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر صباؔ
انساں طلسمِ صبر کے خوابوں میں بٹ گیا
٭٭٭
o
لہو میں ڈوب کے تلوار میرے گھر پہنچی
وہ سربلند ہوں دستار میرے گھر پہنچی
پہاڑ کھودا تو جز پتھروں کے کچھ نہ ملا
مرے پسینے کی مہکار میرے گھر پہنچی
شجر نے تند ہواؤں سے دوستی کر لی
شکستہ پتّوں کی بوچھار میرے گھر پہنچی
مرے مکان سے کرنوں کی ڈار ایسی اڑی
ہر اک بلائے پُراسرار میرے گھر پہنچی
مرے پڑوس میں ٹوٹے ظروف شیشوں کے
چہار سمت سے جھنکار میرے گھر پہنچی
پتنگ ٹوٹ کے آنگن کے پیڑ میں الجھی
شریر بچّوں کی یلغار میرے گھر پہنچی
٭٭٭
o
جہاں کہیں بھی خوں میں نہائے لال مرے
میں تو ماں ہوں کھل گئے سر کے بال مرے
میں بھی ایک تناور پیڑ ہوں پاس تو آ
کس نے کہا ہے ٹوٹ چکے ہیں ڈال مرے
اب تو یہی طے ہو کے رہے گا شہزادے
جنگل تیرے، ہنستے ہوئے چوپال مرے
دکھوں کی گٹھری تیرے حوالے کرتا ہوں
خوشحالی کے واپس کر دے سال مرے
میرے آئینے میں عکس ہے غربت کا
لیکن مجھ پر روشن ہیں اعمال مرے
٭٭٭
o
تم اپنے پاؤں پر چلنے کی آرزو تو کرو
تمہیں وہ منزلِ مقصود کی خبر دے گا
٭٭٭
o
جو بھی چاہو وہ سزا دو مجھ کو
جرم تو پہلے بتا دو مجھ کو
کل پکارو گے مسیحا کہہ کر
آج سولی پہ چڑھا دو مجھ کو
اپنی تشہیر سے ڈر لگتا ہے
بامِ شہرت سے گرا دو مجھ کو
تم پکارو تو چلا آؤں گا
ہو مناسب تو صدا دو مجھ کو
رات ڈھل جائے تو دروازے پر
دستکیں دے کے جگا دو مجھ کو
٭٭٭
o
نئی فضا میں پرندوں کے پر نکلنے لگے
مرے پڑوس کے آنگن میں پیڑ پھلنے لگے
طلسمِ تیرہ شبی ٹوٹنے لگا آخر
فصیلِ برف پہ سورج کے تیر چلنے لگے
میں اپنے گھر کے جھروکوں سے جھانکتا ہوں اسے
کہ اس کے بچے نئے پیرہن بدلنے لگے
وہ طفل جو کبھی انگلی پکڑ کے چلتے تھے
اب اعتماد کے زینے کی سمت چلنے لگے
یہ کس نے پھونک دیا صورِ حشر دنیا میں
چہار سمت پہاڑوں کے جسم گلنے لگے
بجھا سکیں نہ پُر آشوب آندھیاں اب کے
ہتھیلیوں پہ سروں کے چراغ جلنے لگے
٭٭٭
o
میں اپنے گاؤں کے کچے مکاں میں رہ جاؤں
یہ آرزو ہے کہ اپنی اَماں میں رہ جاؤں
مرے لکھے کی زباں ممتحن سمجھ نہ سکا
سوال حل بھی کروں امتحاں میں رہ جاؤں
کسی جلے ہوئے خیمے کی چوب کا نیزہ
اچھالنے کے لئے کارواں میں رہ جاؤں
مجھے پکار مری فکر کے حوالے سے
میں لفظ لفظ تری داستاں میں رہ جاؤں
چلوں تو حجلۂ شب سے الاؤ اٹھنے لگے
دہکتے تیر کی صورت کماں میں رہ جاؤں
مجھے تو ذات کی خندق کو پار کرنا ہے
میں ہار مان کے کیسے مکاں میں رہ جاؤں
٭٭٭
o
لبوں میں نام مرا حرفِ واجبی ٹھہرا
میں خاندان میں تمثیلِ مفلسی ٹھہرا
کَلوں کا شور بھی ذہنوں کو بانجھ کر نہ سکا
مقابلے میں سپر بن کے آدمی ٹھہرا
بتاؤ کیسے کروں حادثے کی تاویلیں
ہر ایک زخم ستم کی نشاں دہی ٹھہرا
اجاڑ گاؤں میں کس کو خطوط لکھتے ہو
سکوتِ مرگ کا پہرا گلی گلی ٹھہرا
زباں کی گرہیں کھلیں تو طلسم ابجد کا
درونِ حلقۂ احباب دشمنی ٹھہرا
رموزِ مکتبِ ہستی کسی پہ کھل نہ سکے
بقید زیست ہر ایک شخص مبتدی ٹھہرا
٭٭٭
o
میرے پاؤں میں وہ حالات کی زنجیریں ہیں
چل کے آؤں جو ترے پاس تو آ بھی نہ سکوں
اس کی آواز کی لہروں کے تعاقب میں صباؔ
گرد چہرے پہ جمی ہے کہ ہٹا بھی نہ سکوں
٭٭٭
o
ہمیشہ تیرگی سے برسرِ پیکار رہتا ہوں
تمہارے جگمگاتے شہر کے اس پار رہتا ہوں
کرن جگنو کی دکھلا کر اندھیرے سونپنے والو
تمہاری سوچ کے ہر وار سے ہشیار رہتا ہوں
نوید صبحِ نو لے کر کوئی سورج تو نکلے گا
میں اس کی راہ تکتا رات بھر بیدار رہتا ہوں
فرازِ چرخ سے جب ظلمتوں کا مینہ برستا ہے
جلا کر پستیوں میں مشعلِ کردار رہتا ہوں
لہو انسان کا پی کر جسے آرام ملتا ہے
میں اس عفریت کی آنکھوں میں مثلِ خار رہتا ہوں
٭٭٭
o
تنکے ہوا کے دوش پہ اتنے ہوئے بلند
جیسے کہ پستیوں سے کبھی آشنا نہ تھے
٭٭٭
o
قفس کے ٹوٹ جانے کا ابھی تک دل کو ڈر کیوں ہے
پرندہ اڑ چکا لیکن مقید اس کا پر کیوں ہے
تھکن سے چور ہر رہرو کو جس کی چھاؤں ڈستی ہے
ابھی تک راستے میں رہ نوردو، وہ شجر کیوں ہے
مجھے جس گھر میں اب تک سر چھپانے کی نہیں جرأت
مرے ہی نام سے منسوب لوگوں میں وہ گھر کیوں ہے
میں آدھا جسم لے کر رینگتا پھرتا ہوں سڑکوں پر
بسر اوقات میری غیر کی خیرات پر کیوں ہے
اگر تم خامۂ انصاف کے وارث ہو دنیا میں
فصیلِ جسم پر چہرے کا جھوٹا پوسٹر کیوں ہے
تمہیں تو ظلمتوں سے برسرِپیکار رہنا ہے
تو پھر افکار نو کی روشنی سے اتنا ڈر کیوں ہے
ہماری سمت چلتی ہے سدا محرومیوں کی رو
سبھی انسان ہیں تو زندگانی بارِ سر کیوں ہے
٭٭٭
o
کچھ احسان غمِ دوراں کے کچھ احباب کا حسنِ کرم
بستی بستی، کوچہ کوچہ، پھیل گئی رسوائی دیکھ
غم کی دیمک، طنز کے نشتر، نفرت کی سوغات ملی
کارگہِ ہستی میں اے دل، دولت خوب کمائی دیکھ
٭٭٭
o
یہاں وہاں کہیں آسودگی نہیں ملتی
کلوں کے شہر میں بھی نوکری نہیں ملتی
جو سوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف
اسی کو سر کے لئے اوڑھنی نہیں ملتی
رہِ حیات میں کیا ہو گیا درختوں کو
شجر شجر کوئی ٹہنی ہری نہیں ملتی
غنودگی کا کچھ ایسا طلسم طاری ہے
کوئی بھی آنکھ یہاں جاگتی نہیں ملتی
یہ راز کیا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دینے سے
خدا تو ملتا ہے پیغمبری نہیں ملتی
گزر رہی ہے حسیں وادیوں سے ریل صباؔ
ستم ہے یہ کوئی کھڑکی کھلی نہیں ملتی
٭٭٭
o
دلوں میں دُوریاں اب تک پرانی تلخیوں کی ہیں
مرے پاؤں میں زنجیریں مری مجبوریوں کی ہیں
کسی پتھر کے تکیئے ہی پہ رکھ کر سر کو سو جاؤں
لہو کی ڈوریاں آنکھوںمیں شب بیداریوں کی ہیں
کہیں چہروں کی رعنائی کو فاقے چاٹ جاتے ہیں
کہیں فرمائشیں گھر میں کھنکتی چوڑیوں کی ہیں
بناؤں کون سی تصویر کاغذ پر، کہ آنکھوں میں
ابھی تک صورتیں رقصاں مرے ہم جولیوں کی ہیں
کمر خم کھا گئی جن سے، حریصانِ جہاں دیکھو
لکیریں پشت پر قائم ابھی ان بوریوں کی ہیں
صباؔ اُن انگلیوں سے پوچھ لذّت سوئی چبھنے کی
خریداروں میں تعریفیں کشیدہ کاریوں کی ہیں
٭٭٭
o
جلتے جلتے بجھ گئی اک موم بتی رات کو
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچی رات کو
آندھیوں سے کیا بچاتی پھول کو کانٹوں کی باڑ
صحن میں بکھری ہوئی تھی پتّی پتّی رات کو
کتنا بوسیدہ دریدہ پیرہن ہے زیبِ تن
وہ جو چرخہ کاتتی رہتی ہے لڑکی رات کو
صحن میں اک شور سا، ہر آنکھ ہے حیرت زدہ
چوڑیاں سب توڑ دیں دلہن نے پہلی رات کو
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچّہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
وقت تو ہر ایک در پر دستکیں دیتا رہا
ایک ساعت کے لیے جاگی نہ بستی رات کو
مرغزارِ شاعری میں گم رہا سبطِ علیؔ
سو گئی رہ دیکھتے بیمار بیوی رات کو
٭٭٭
o
اس شہر میں اب شورِ سگاں کیوں نہیں اٹھتا
آباد مکاں ہیں تو دھواں کیوں نہیں اٹھتا
اٹھتے ہیں چمکنے کے لئے ننھّے سے جگنو
سورج! کوئی آشوبِ جہاں کیوں نہیں اٹھتا
زندہ ہے ابھی شہر میں فن تیشہ گری کا
بازو ہیں تو پھر سنگِ گراں کیوں نہیں اٹھتا
کیا رزق فقیروں کا فرشتوں میں بٹے گا
منصف کوئی اس خاک سے یاں کیوں نہیں اٹھتا
تینتیس بہاروں کا ثمر چکھ کے بھی مجھ سے
دو چار قدم رختِ جہاں کیوں نہیں اٹھتا
شہرت کی کمیں گاہوں میں قد ناپنے والو!
تم سے کبھی غیرت کا نشاں کیوں نہیں اٹھتا
رستے میں ابھی ریت کی دیوار کھڑی ہے
راوی ترا سیلابِ جواں کیوں نہیں اٹھتا
٭٭٭
o
کھچاؤ کس قدر ان ظلمتوں کی رسیوں میں ہے
مقید آدمی اپنے دکھوں کے دائروں میں ہے
بدن پر زخم انگاروں کی صورت جلتے رہتے ہیں
مگر پانی کہاں آنکھوں کی سوکھی چھاگلوں میں ہے
بنے ہیں بوجھ سوکھی ٹہنیوں کا دق زدہ پتے
دکھوں کی دائمی دیمک شجر کی سب جڑوں میں ہے
مرے پر کاٹنے والے گرفتاری کا غم ہی کیا
چمن کی خاک کی خوشبو مرے باقی پروں میں ہے
مرے ہی بھائیوں کی سازشوں نے دن یہ دکھلائے
کہ میں بے خانماں دشمن مرا سارے گھروں میں ہے
٭٭٭
o
کیا رنگ آج میں تری تصویر میں بھروں
اپنے لہو سے اپنی قبا ہے رنگی ہوئی
٭٭٭
o
ہر شخص میرے دشمنِ جاں کی صفوں میں ہے
سایہ بھی اب شریک مرے باغیوں میں ہے
پانی کا قحط اب کے بہت ندیّوں میں ہے
بگلوں کے ڈر سے خوف بہت مچھلیوں میں ہے
کیوں نفرتوں کے قہر کی زد میں ہے آدمی
کیسی عداوتوں کی ہوا بستیوں میں ہے
چہرے پہ گرد سر پہ دکھوں کا عظیم بوجھ
معیارِ زندگی تو ابھی پستیوں میں ہے
کس نے سنی ہے درد کی آواز اے صباؔ
محبوس گنبدوں کی صدا گنبدوں میں ہے
٭٭٭
o
نہ آنچلوں کی ہے دھنک، نہ گیسوؤں کی نکہتیں
اجاڑ گاؤں ہو گئے، سہیلیاں بکھر گئیں
٭٭٭
o
احساس کی بھٹّی میں جلایا بھی گیا ہوں
نفرت کی میں سولی پہ چڑھایا بھی گیا ہوں
دل ڈوبتے سورج کی طرح ڈوب رہا ہے
حالات کے دریا میں بہایا بھی گیا ہوں
میں وقت کا یوسف ہوں میرے بھائی ہیں دشمن
افلاس کے زنداں میں گرایا بھی گیا ہوں
بازو مرے کمزور سمجھ کر سرِ محفل
تشہیر کا سامان بنایا بھی گیا ہوں
ہوتی ہیں مرے گھر میں اسی شخص کی باتیں
جس شخص کے ہاتھوں سے ستایا بھی گیا ہوں
٭٭٭
o
مجھ کو معلوم ہے تا حدِّ نظر کوئی نہیں
خاک اڑتی ہے مگر گرمِ سفر کوئی نہیں
تیری جنت کا تصوّر مِرا دشمن نکلا
موجزن دھوپ ہے ہر سمت شجر کوئی نہیں
عمر بھر خون سے سیراب کیا ہے جس کو
ہائے اس پیڑ کی شاخوں میں ثمر کوئی نہیں
دو گھڑی کے لئے فٹ پاتھ پہ رک جانے دو
ہم غریبوں کا بھرے شہر میں گھر کوئی نہیں
نکہتِ گل کو گرفتار کرو تو جانوں
توڑنا شاخ سے پھولوں کا ہنر کوئی نہیں
اس قدر مجھ کو زمانے نے ستایا ہے صباؔ
سربکف پھرتا ہوں اب موت کا ڈر کوئی نہیں
٭٭٭
o
ہر سمت غم کی دھوپ کے پہرے لگا دیئے
کنکر چنے تو راہ میں شیشے بچھا دیئے
محسوس جب ہوا کہ میں ہستی پہ بار ہوں
میں نے کتابِ زیست کے پرزے اڑا دئیے
بجلی کے قمقموں سے منوّر ہیں کوٹھیاں
مٹّی کے سب چراغ ہوا نے بجھا دئیے
ہم زندگی کی فلم کے کردار جب بنے
کچھ حاسدوں نے بیچ کے منظر اڑا دئیے
تنگ آ کے ہم جو بیچنے نکلے وفا صباؔ
بازار نے خلوص کے بھاؤ گرا دئیے
٭٭٭
o
شہر والوں سے حقارت کے سوا کچھ نہ ملا
زندگی، آ تجھے لے جاؤں کسی گاؤں میں
٭٭٭
o
موجِ بلا سے بچ نکلے تو اپنی کشتی ٹوٹ گئی
جرأت ساتھ نباہتی کب تک سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی
امیدوں کا بھولا پنچھی تھک کر جس پر بیٹھ گیا
ظالم اندھی تیز ہوا سے وہ ٹہنی بھی ٹوٹ گئی
زنگ زدہ شمشیر اٹھا کے میں بھی گھر سے نکلا تھا
لیکن رن میں زعمِ انا کی ساری مستی ٹوٹ گئی
اک جھٹکے سے کار رکی تو چیخ فضا میں گونج اٹھی
اک افلاس زدہ بچّے کی ہڈی پسلی ٹوٹ گئی
ذہن ہوئے مفلوج تو ہر اک دل کا گھر ویران ہوا
صدیوں کی تہذیب ہے اپنی پکّی رسی ٹوٹ گئی
٭٭٭
o
زمیں کی اولاد کے لہو سے افق کا آنچل رنگا ہوا ہے
اداس سورج نے زرد چہرہ پہاڑیوں میں چھپا لیا ہے
بموں کے دھرتی میں بیج بو کر زمیں کو کیوں بانجھ کر رہے ہو
زمیں کے بیٹو! عظیم ماں کو بتاؤ کس جرم کی سزا ہے
بدن کے ہر پیڑ کی جڑوں میں دکھوں کی دیمک لگی ہوئی ہے
خزاں کے احسان سے ہر اک سر بہار میں بھی جھکا ہوا ہے
حریص آنکھیں شکار کی جستجو میں ہر اک کو گھورتی ہیں
سنبھل کے چلنا غریب جائی، ہوس کا کیچڑ جگہ جگہ ہے
صباؔ یہ مغرب کے باسیوں سے کہو کہ اب ظلمتیں سمیٹیں
ہمیشہ سچائیوں کا سورج زمیں پہ مشرق سے پھوٹتا ہے
٭٭٭
o
قدم قدم پہ کرو اہتمامِ دار و رسن
رواں ہے قافلۂ شوق امتحاں کے لیے
٭٭٭
o
ہر ایک شخص کو آمادۂ جفا دیکھوں
جدھر بھی دیکھوں ادھر دشتِ کربلا دیکھوں
کسی بھی شکرے کو اب جرأتِ شکار نہ ہو
ڈری ہوئی نہ کہیں کوئی فاختہ دیکھوں
میں اپنے پاؤں پہ چل کر سفر پذیر رہوں
مسافرت میں کھلی آنکھ سے فضا دیکھوں
مری زمین کی خوشبو مرے دماغ میں ہے
میں آسمان کا بے کیف رنگ کیا دیکھوں
٭٭٭
o
طلوعِ صبحِ درخشاں کے چاہنے والو!
چمن تو ایک ہے، سورج ہزار آخر کیوں
٭٭٭
o
تم اپنے بچوں کو آدمیت کے خوں سے رنگیں نصاب دو گے
تو آنے والے عظیم کل کے حضور میں کیا حساب دو گے
کبھی تو اندھی عقیدتوں کے حصار مسمار کر کے دیکھو
بتاؤ صبحِ وطن کو کب تک گہن زدہ آفتاب دو گے
ہم اپنے کچے مکاں کی تاریکیوں میں دم گھٹ کے مر نہ جائیں
نفس نفس اب وبالِ جاں ہے گھٹن کا کب تک عذاب دو گے
تم اپنے کالے علوم کے تجربوں میں گم ہو، بتاؤ کیسے؟
یتیم بچوں کو ماں کی شفقت کے بہتے دریا کا آب دو گے
٭٭٭
o
کرب کی آگ سرِ شام لگانے آئے
میرے احباب مرے دل کو دکھانے آئے
مجھ کو زخموں کی نمائش سے گریزاں پا کر
لوگ ہر روز نئے زخم لگانے آئے
اس نے پر کاٹ کے جب بابِ قفس کھول دیا
مجھ کو اڑنے کے بہت یاد زمانے آئے
کتنے اخلاص کے پیکر ہیں رفیقانِ صباؔ
جب بھی آئے کوئی احسان جتانے آئے
٭٭٭
o
میں فرازِ چرخ سے تارا ہوں اک ٹوٹا ہوا
اس جہاں کی پستیوں میں کھو گیا تو کیا ہوا
٭٭٭
o
حالات کے زنداں سے نکل کیوں نہیں سکتا
زنجیر نہیں ہے تو میں چل کیوں نہیں سکتا
ماں نے مجھے تنہا کہیں چھوڑا ہی نہیں ہے
چشمہ میرے پاؤں سے اُبل کیوں نہیں سکتا
جس شخص نے نفرت سے جلائے مرے خیمے
وہ شخص بھی اس آگ میں جل کیوں نہیں سکتا
وہ رقص کہاں ہے ابھی حدّت کے بھنور میں
خورشید صباؔ وقت پہ ڈھل کیوں نہیں سکتا
٭٭٭
o
ہم پستیوں میں رہ کے ابھی اتنے بلند ہیں
اسرار جانتے ہیں ترے آسمان کے
٭٭٭
o
برگِ خشک کی صورت پتّیاں لبوں کی ہیں
جنگلوں سے کچھ بڑھ کر وحشتیں گھروں کی ہیں
اب متاعِ جاں لے کر کون گھر سے نکلے گا
اِس قمار خانے میں بازیاں سروں کی ہیں
ہم غریب لوگوں کی قسمتیں بدلتیں کیا
آسماں سے قد آور کوٹھیاں بڑوں کی ہیں
کب ہماری پروازیں آسمان تک ہوں گی
ہم قفس نصیبوں کو حسرتیں پروں کی ہیں
٭٭٭
نظمیں
عظیم قائد
ترے اصولوں کی مشعلوں کے جلو میں اپنے قدم بڑھا کر
ہم آنے والی عظیم نسلوں کو منزلوں کا سراغ دیں گے
مٹا کے ساری کدورتیں
مادرِ وطن کی جبیں پہ گیسو سنوار دیں گے
ہمیں خبر ہے عظیم قائد
ترے اصولوں کے پھول جب تک کھلے رہیں گے
چمن چمن فصلِ گل کے خیمے لگے رہیں گے۔
٭٭٭
ہم جاگ رہے ہیں
واللہ حسینؑ ابن علیؑ کے ہیں فدائی
وہ مرد جری ہم ہیں کہ ڈرتی ہے خدائی
سرکارؐ دو عالم کے فدا کار ہیں ہم لوگ
اسلام کے دشمن سے ہماری ہے لڑائی
صد شکر، نگہبانِ حرم جاگ رہے ہیں
کہہ دو یہ زمانے سے کہ ہم جاگ رہے ہیں
٭٭٭
1971ء
صبح آئی لہو میں ڈوبی ہوئی
شام کا رنگ جانے کیا ہوگا
اب نہ جاگے تو موسمِ گل کا
قافلہ دور جا چکا ہوگا
٭٭٭
’’سلام آنے لگے‘‘
1965ء کی جنگ کے حوالے سے
آج پھر قلزمِ ہمت کے شناور جاگے
آج اسلام کے مردانِ دلاور جاگے
اک نئے باب کا تاریخ میں عنواں بن کر
حق پرستوں کے طرفدار غضنفر جاگے
اے وطن تیرے جوانوں نے بڑا کام کیا
ظلم کا امڈا ہوا سیلِ بلا روک دیا
وقت جب آن پڑا تیری حفاظت کے لیے
اپنے ہاتھوں میں صداقت کا علم تھام لیا
جب مجاہد رہِ اسلام میں کام آنے لگے
عرش والوں کے شہیدوں کو سلام آنے لگے
٭٭٭
زخم
دورانِ جنگ چاندنی رات میں ایک سپاہی کے احساسات
سرمئی بادلوں کے آنچل میں
چھپ گیا چاند دل کا داغ لیے
تیرگی کی دراز زلفوں میں
جھلملاتے نجوم ڈوب گئے
دشتِ وحشت کی وسعتوں میں گم
اِک مسافر ہے بے سر و ساماں
بے خبر راستوں سے، منزل دور
ہر قدم پر ہے رہزنوں کا گماں
سوچتا ہے یہ بار بار کہ کب
چاند نکلے گا، روشنی ہو گی
تیرگی کا مزاج پوچھوں گا
اب ضیاء بار چاندنی ہو گی
سرمئی بادلوں کے آنچل سے
چاند نکلا نہ لمحے بھر کے لیے
٭٭٭
14 اگست
وہی یہ دن ہے
کہ جس دن ہمارے پاؤں سے
کٹی وہ آہنی زنجیر جس کی کڑیوں کی
ہم اِک صدی سے فضاؤں میں گونج سنتے تھے
سفر پسند جیالوں کے پاؤں جب بھی اُٹھے
ہر ایک حلقۂ زنجیر تنگ ہونے لگا
ہر ایک سر
ہدفِ خشت و سنگ ہونے لگا
پرائے دیس سے آ کر نحوستوں کے نقیب
مرے وطن کے کسانوں کا خون پیتے رہے
وہ رقصِ مرگ ہوا شہر شہر گلیوں میں
کہ یادگار ابھی تک ہیں سُرخ دیواریں
ہمیں قسم ہے
انہیں سربکف جیالوں کی
کہ ان کی یاد کے بجھنے نہ دیں دلوں سے چراغ
انہی چراغوں کی لو، مرگِ ظلمتِ شب ہے
٭٭٭
وہ ایک شاعر (اقبال کی نذر)
وہ ایک شاعر
سیاہیٔ شب میں جس نے حق کا دیا جلایا
قفس نصیبوں میں جذبۂ حریت جگایا
بتایا جس نے
صحیفۂ زندگی کی حرمت پہ سر کٹانا ہی زندگی ہے
جہاں میں سچائیوں کے ہر سو علم اٹھانا ہی زندگی ہے
سکھایا جس نے
کہ دست کش ہو کے وصلِ لیلائے مصلحت سے
خوشی سے زخمِ فراق کھانا ہی زندگی ہے
وہ ایک شاعر عظیم کردار بن گیا ہے
وہ اپنے افکار کی ضیاء سے
سیاہیٔ شب میں
حرفِ حق کے دئیے کی عظمت جگا رہا ہے
تمام خوابیدہ قافلوں کو جگا رہا ہے
٭٭٭
نئی حیات
(جنگِ ستمبر میں شہید ہونے والے ساتھیوں کے نام)
مرے وطن تری سرسبز کھیتیوں کی خیر
مرے وطن تری چاندی سی ندیوں کی خیر
مرے وطن ترے خوش رنگ منظروں پہ نثار
مرے وطن تیری دھرتی کے باسیوں کی خیر
نویدِ صبحِ بہاراں سنا رہے ہیں ہم
کہ آج یوم شہیداں منا رہے ہیں ہم
دلوں میں آج بھی جذبے شہادتوں کے ہیں
ہمارے ہاتھ میں پرچم صداقتوں کے ہیں
ہر ایک عہد نے پائیں ہدایتیں ہم سے
ہر ایک دور میں مینار عظمتوں کے ہیں
وطن کے نام پہ حرف آ گیا تو جینا کیا
فضا پہ دشمنِ جاں چھا گیا تو جینا کیا
٭٭٭
’’آرزو ہے‘‘
1977ء کے مارشل لاء کے بعد کہی گئی
تو مری زندگی کا حسین خواب ہے!
تیری تعمیر میں فکر کی روشنی
آنگنوں اور دماغوں میں اُترے گی کب
روشنی ہے نشانِ رہ زندگی
روشنی کاسفر ختم ہوتا نہیں
یہ زمیں، آسماں، چاند تارے، وطن
روشنی کے سمندر کی ہیں کشتیاں!
کشتیوں کا مسافر ہی تو ہے
وہ بشر، جس کی میراث ہے روشنی
آج کیوں ظلمتوں کی ہے بانہوں میں جکڑا ہوا
آرزو ہے!
کہ شاخوں پہ چڑیاں چہکتی رہیں
فاختائیں بِلا خوف اُڑتی رہیں
گونگے لفظوں کو اعجازِ معنی ملے
زندگی کا شجر خوب پھولے پھلے
٭٭٭
گواہ رہنا
عظیم ماں!
کہ تیری عظمت پہ حرف آنے سے قبل
تیرے جوان بیٹے… سروں کے پرچم اچھال دیں گے
ہے تیرے بیٹوں کا عہد محکم
کہ ہم رگِ جاں کا خون دے کر
وطن کو اوجِ کمال دیں گے! وطن کو حسنِ جمال دیں گے
عظیم ماں تو گواہ رہنا
٭٭٭
عیدِ محرومی
اے ہلالِ عید تو نے سانحہ دیکھا نہیں
موت کا سیلاب لاشوں کو بہا کر لے گیا
اِک تماشائی کی صورت، آسماں تکتا رہا
مٹ گئی تہذیب ساری بستیاں ویران ہیں
گردشِ افلاک کے انسان پر احسان ہیں
کون جانے کس کا بھائی کس کا بیٹا بہہ گیا
آدمیت حلقۂ ماتم میں ہے نوحہ کناں
اے ہلالِ عید تو بھی سوگواروں کی طرح
کالی کالی بدلیوں کی اوڑھ لے سر پر ردا
(1970ء میں مشرقی پاکستان میں آنے والے سیلاب کے حوالے سے)
٭٭٭
’’راہ میں دیوار نہ بن‘‘
ایک سپاہی جنگ کیلئے گھر سے روانہ ہوتے ہوئے
میری محبوب، مری راہ میں دیوار نہ بن
اِک شمانہ تری زلفوں کی گھنی چھاؤں تلے
میں نے سپنوں کے کئی جال بنے
گیت لکھے
چاندنی رات کی ٹھنڈک میں ڈال کر ترے ہاتھ میں ہاتھ
تجھ سے کئی وعدہ و پیمان کئے
ایک اِک بات مجھے یاد ہے
لیکن کچھ سوچ!
اپنی بلور سی بانہیں مری گردن میں نہ ڈال
وقت نے مجھ کو پکارا ہے مجھے جانے دے
سرحدوں پر ہے لٹیروں کا ہجوم
غازۂ صبحِ چمن لوٹنے کو
٭٭٭
’’عید کا دن‘‘
آ عید کا دن ہے یہ جدائی کا نہیں دن
تنہائی کے احساس سے ڈر لگتا ہے مجھ کو
تنہائی کا احساس مٹانے کے لیے آ
مرہم میرے زخموں پہ لگانے کے لیے آ
تا عمر کبھی ترکِ تعلق نہ کریں گے
تا عمر کا یہ عہد نبھانے کے لیے آ
٭٭٭
آج کا دن جمہور کا دن
ایک صدی
آسیب غلامی چاٹ رہا تھا
انسانوں کے ذہنوں کو
ہر انسان مثالِ برگِ خزاں دیدہ تھا
ظالم تند ہوا کی زد میں
دِلّی اجڑی، اجڑ گیا بنگال
اِک روٹی کی خاطر ماؤں نے اپنے بیچے لال
جلیانوالے باغ میں ہر سو خون کا دریا امڈا
زنداں زنداں شورِ سلاسل
کوچہ کوچہ مقتل ٹھہرا
ہونٹ سلے تھے زخم کھلے تھے
نوحے گھر گھر گونج رہے تھے
لیکن سازِ طرب پر افرنگی سفال درندے جھوم رہے تھے
ساغر کا منہ چوم رہے تھے۔
ماؤں کی آغوش کے پالے، جاگ اٹھے اس تاریکی میں
روشنیوں کے مظہر بن کر
ٹوٹ گئی زنجیرِ غلامی
آج کا دن منشور کا دن ہے
آج کا دن جمہور کا دن ہے
٭٭٭
تمہیں یاد ہوگا
شہدائے ستمبر 65ء کی یاد میں
تمہیں یاد ہوگا
کہ تم نے ایک ایثار کا بابِ زرّیں مرتب کیا تھا
تمہارے لہو سے نگارِ وطن پر شفق کھل اٹھی تھی
شفق صبح امید کی روشنی ہے
اسی روشنی کی تمازت سے بھٹی کی رگ رگ میں غیرت کا
طوفان امڈا
وہ غیرت ہمارے لیے جاگی ہے
تمہیں یاد ہوگا
وہ عظمت کے پیکر جو اپنے سجیلے بدن پر
صداقت کے تمغے سجا کر
شہر اقبال پر اپنی جاں وار کر
روشنیٔ صداقت کی تابہ ابد بن کے تمثیل عالم میں زند ہ رہیں گے
روشنی ہے نشانِ زندگی
روشنی کی قسم!
اپنی راہوں سے دیوارِ نفرت گرادو
سنو ساتھیو
اے مرے غازیو!
٭٭٭
تشکر: جرار جعفری جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید