فہرست مضامین
آنس معین
مظہر فریدی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
آنس معین کی نظم نگاری
آنس کا بنیادی فلسفۂ شاعری تو ایک ہی ہے۔وہی حیات و ممات کی کش مکش،وہی کربِ زیست،وجود و عدم کے اسرار، رموز جاننے کی بے طرح خواہش،جسن کے زنداں سے آزاد ہونے کا مرحلہ،اس ماہی بے آب زندگی میں بسمل کیکی تڑپ سے چھٹکارا اور آخر میں ایک معصوم بچے کی طرح سونے کی تمنا۔
اپنے ہی سانسوں کے جھونکوں سے دیا بجھ جائے گا
جسم کے زنداں کا در کھل جائے گا
ختم ہو جائے گا پھر یہ کرب بھی تنہائی کا
اور میں قطرے کی طرح
وسعتِ دریا میں گم ہو جاؤں گا
ایک بچے کی طرح سوجاؤں گا
قطرہ اپنا بھی وسعت میں ہے دریا لیکن/اسے منظور تنک تابیِ منصور نہیں
"عشق دی منزل دور توں دور اے متاں سمجھیں اوہِے”
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت انساں اس کائنات کی اصل حقیقت ہے۔یہ کائنات اسی حضرت انساں کے لیے تخلیق کی گئی۔یہ مرکز و محورِ کن فکاں ہے۔یہ دستِ قدرت کا آخری بیاں ہے۔یہ احسنِ تقویم کی تصویر ہے۔یہ تخلیقِ زندگی کی آخری لکیر ہے۔آنس بھی ان الوہی انکشافات سے مصحفِ قلب کو منور کیے ہوئے ہے۔وہ زمیں کی حقیقت جانتا ہے۔وہ زندگی کا حدود اربعہ سمجھتا ہے۔وہ ازل و ابد کی حدوں کا شناور ہے۔وہ وجود و عدم کے باریک فرق کا راز دار ہے۔آنس کی زبانی سن لیجیے۔
زمیں توبس ایک نقشِ پا ہے
اور عالموں پہ محیط ہوں میں
کہ دستِ قدرت میں زندگی کی لکیر ہوں میں
ایک حدیث ہے کہ میں نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے(بصورتہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں)۔ایک جگہ آتا ہے کہ ہم نے آدمؑ کوچالیس دنوں میں تخلیق کیا۔یعنی دستِ قدرت نے اس پیکرِ خاکی کو عجب اکرام و احترام بخشا کہ ہر نقش،نقشِ لازوال بنا دیا۔اور آخر میں "احسنِ تقویم”کی مہر بھی ثبت کر دی۔اسے خلیفۃ اللہ بھی کہہ دیا۔اپنی ذات کا مظہر بھی قرار دے دیا۔”اَلْاِنْسَانُ سِرِیْ وَاَنَاسِرُہٗ”کہہ کر تمام راز فاش کر دیے۔
میں تو یہ سمجھتاہوں
اک بیاض ہے چہرہ
اور خطوط چہرے کے
حرف حرف تیرے ہیں
تجربہ بھی تیرا ہے
دستخط بھی تیرے ہیں
سرمد نے کھال کھنچوائی،منصور دار کی زینت(انا الحق)بنا۔میرے ان کھدر کے کپڑوں میں خدا ہے۔جو خدا کی قربت میں پہنچ گئے ۔انھیں پھر اپنے خبر نہیں ملی۔کیوں کہ قطرہ جب جذبِ شوق میں دیا میں گم ہوتا ہے۔ تو دریاب جاتا ہے،اب وہ دوبارہ قطرہ بننا چاہے! وہ اپنی تلاش میں سرگرداں” حسنِ الحق”مین گم رہتا ہے۔یہی اس کی زندگی ہے۔
یہ زندگی بھی عجیب شے ہے
ہر ایک انسان حصولِ منزل کی جستجومیں لگا ہوا ہے
جوسب فصیلیں عبور کر کے
ہر ایک معلوم حد سے آگے نکل گئے ہیں
خود اب وہ اپنی تلاش میں ہیں
آتشِ عشق نے آتشِ شوق کو ہوا دی اور عقل لب بام کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔عشق کی آگ کے ماسوا،عشق نے سب کچھ بھسم کر دیا۔ہر فرد کی معراج مختلف ہے۔”موسیٰ نے کوہِ طور پہ مردے جِلا کے پی”کوہِ طور جل گیا”وَخَرَ مُوسیٰ صَائِقَہ”۔
میں ایک شفاف آئینہ ہوں
کہ جس سے ٹکرا کے ساری کرنیں پلٹ رہی ہیں
تمام رنگوں کی اصلیت کا گواہ ہوں میں
کہ ہر حقیقت
مری نگاہوں سے معتبر ہے
مگر وہ چہرہ
جو میرے چہرے پہ سایہ زن ہے
وجودجس کا مری نظر ہے
میں اس کا چہرہ بھی اس کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں
جب قرب کی ان منزلوں سے آشنائی ہو۔”من توشدی،تومن شدم”کی منزل ہو من و تو،من اورتو کا فرق نہ رہا ہو۔پھر تمام باتیں اور تاویلیں ،حرفِ غلط ہو جایا کرتی ہیں۔اس کا اپنا وجود کائنات کر مرکزِ خاص بن جاتا ہے۔دنیا کی کسی شے میں اس کا جی نہیں لگتا۔لیکن ازل سے ابد تک کا فاصلہ اپنے اندر مسافتِ دنیا رکھتا ہے۔ کوئی اور طریقہ یاراستہ نہیں ہے۔اس لیے اسی راہ گزرسے گزر کر جانا پڑتا ہے۔اگرچہ یہ فاصلہ مختصر ہے(مختصر اس لیے کہ چند روزہ زندگی کرنے کے لیے دنیا میں قیام ضروری ہے۔باقی تو قرب کی وہ منزلیں ہیں کہ جاننے والے جانتے ہیں)۔
خود آگہی بھی عجیب شے ہے
میں تم سے کٹ کر
تمام دنیاسے کٹ گیا ہوں
خود اپنے اندرسمٹ گیا ہوں
تمھارے اور میرے درمیاں جو بھی فاصلہ ہے
وہ اک گواہی ہے قربتوں کی
وہ مختصر ہے
مگر امر ہے
اب اس دنیا میں چوں کہ جی نہیں لگتا۔اس لیے ہر شخص اپنی اپج کے مطابق کچھ کر بیٹھتا ہے۔بعض اوقات پکڑ بھی ہو جاتی ہے۔اور دلدلی دنیا میں اسیر بھی ہو جاتا ہے۔کچھ اس اسیری سے بچنے کے لیے ایساطریقہ استعمال کر بیٹھتے ہیں جو پسندیدہ نہیں ہوتا۔اور لذتِ وصال کے چکر میں ہجر و فراق کے سایوں میں "آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ”کا مظہر بن جاتے ہیں۔
کہ میری طرح یہ ایک سادہ ورق ہے جس پر
لکھا تھا جو کچھ وہ مٹ چکا ہے
حسین یادوں کے گہرے پانی میں
سوچ کا ایک ننھا کنکر
جو میں نے پھینکا تھا۔۔۔۔کھو چکا ہے
وہ دائرے جو بکھر گئے تھے سمٹ چکے ہیں
مگر ابھی تک
لرزتے پانی پہ ایک چہرہ ساکانپتا ہے
اس یاد کے ننھے کنکر نے ‘بات ادھم کہہ دی’کہ وہ خود تو کہیں کھو گیا۔لیکن اپنا وجود گم کر کے بھی وہ سطحِ آب پر ایسی تبدیلی کر گیا کہ چند لمحوں کے لیے پانی اپنی تلاش میں پھرسے سرگرداں ہوا۔اپنے وجودکوسمیٹنے کے لیے پھرسے عرفان ذات کے عمل سے گزرا،اس عمل میں اسے جس بے کلی اور پریشانی کاسامناکرنا پڑا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جواس میں منعکس ہو رہا تھا،کانپتا تھا” لرزتے پانی پہ ایک چہرہ ساکانپتا ہے”۔ اسی خیال کو آنس نے غزل کے ایک شعر میں بھی بیان کیا ہے۔
ہاتھ میں لے کر پتھر جب میں پاس کھڑا تھا ندی کے
کانپ رہا تھا پانی پراک چہرہ سہماسہماسا
اب”گزرا ہوں اس شہرسے خریدار نہیں ہوں”لیکن شہرِ دنیاسے گزر تو ہوا ہے۔اس لیے یہاں کی کچھ چیزیں بھی گفت گو میں در آئی ہیں۔
دانش ور کہلانے والو!
تم کیا جانو!
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
خزاں رسیدہ بازو تھامے
نبض کے اوپر ہاتھ جمائے
ایک صدا پر کان لگائے
دھڑکن سانسیں گننے والو
تم کیا جانو!
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
دانش ور کہلانے والوں کو ایک سوال داغ دیا ہے۔تم کیا جانو!،مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں۔چند علایق کاسہارالے کر تم اندازے لگانے کی کوشش کرتے ہو،اور یہ کوشش بھی ہر بار کام یابی سے ہم کنار نہیں ہوتی۔
٭٭٭
مانوس اجنبی
مظہر فریدی
پہلی بار دیکھا تو،چشمِ آہو کے طلسم کااسیرہوکررہ گیا۔اتنی زندہ آنکھیں،زندگی کی ایسی چمک دمک اور للک بہت کم چہروں پہ سجی آنکھوں میں دیکھی تھی۔1993-94 میں لاہور میں تھا کہ ایک دوست نے کہا کہ ایک دوست کے ہاں جانا ہے،چلو گے۔پوچھا کہاں،تو جواب دیا کہ "محفلِ مسافر” میں،بھائی یہ محفلِ مسافر کیا ہے؟جواب ملا فخر الدین بلے،جو آنس معین کے والد ہیں۔ان کے ہاں ہر مہینے یہ محفل منعقد ہوتی ہے۔آنس معین کا نام آتے ہی ،رہا نہ گیا اور چل پڑا۔دعوت عام کے باوجود،وہاں چنیدہ لوگ تھے۔محفل ختم ہوئی تو "فخرالدین بلے صاحب سے گفت گو کی،اور پوچھا کہ "آنس معین”کی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔کبھی آپ نے بھی کچھ سنا، یا، محسوس کیا؟تو طرح دے گئے اور فرمایا کہ وہ اپنی بہن سے زیادہ قریب تھا،زیادہ بہتر ہے کہ ان سے پوچھ لیں۔ ان سے گفت گو ہوئی جو بارآور ثابت نہ ہوسکی۔البتہ کچھ چیزیں ان سے مل گئیں۔آج انہی صفحات کی مددسے کچھ لکھنے کا قابل ہوا ہوں۔
اس سے پہلے کچھ اپنی گزارشات پیش کروں ۔صاحب علم و فن کے خیالات پیش کر دوں۔1977 میں شعری دنیا میں قدم رکھنے والاآنس،5فروری 1986ءکواس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ گیا۔وادیِ ادب کو سونا کرنے والے نے صرف نو سال شاعری کی۔
* آنس معین کم سِن سقراط ہے۔(شبیرحسن خاں جوش ملیح آبادی، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* فیض احمد فیض نے آنس کی شاعری دیکھ کران جانے خدشے کا اظہار کیا تھا۔اور بے ساختہ ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے کہ:
I am yet to see a more grown up intellectual. )آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
وہ چھوٹی عمر کا بزرگ دانش ور ہے،میں نے ایسا زیرک دانش ور،اس عمر میں نہیں دیکھا۔(فیض احمد فیض، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* مجھے وہ ننھا رومی نظر آتا ہے۔(جابر علی سید، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس نئی سوچوں کاارسطوہے۔(نسیم لیہ، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* میں آنس معین کے ا شعار پڑھ کر دم بخود رہ جاتا ہوں اور رشک کرتا ہوں کہ اس جیسے شعر کہہ سکوں۔(احمد ندیم قاسمی،آوازجرس،ج 2،ش27،لاہور،ص 13)
* آنس کی شاعری چونکا دینے والی ہے۔(رازسنتوکھ سری، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* آنس کا شکیب اور مصطفےٰ زیدی سے موازنہ ،ادبی غلطی ہوگی۔(انور جمال، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* اس کے اشعار جدید شاعری پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔(تنویر صہبائی، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* آنس کو شکیب اور ن م راشد کے حوالے سےسمجھناافسوس ناک ہے۔(محمد فروز شاہ، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* مجھے جواں سال آنس کی موت پر شکیب جلالی بہت یاد آیا۔(انورسدید، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* لہجے کی الگ پہچان کے باعث ،اس کی شاعری زندہ رہے گی۔(عاصی کرنالی، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* اگر وہ چندبرس اور زندہ رہ جاتا تو مجھے یقین ہے کہ اس کا ادبی مرتبہ کیٹس سے کم نہ ہوتا۔(ڈاکٹر وزیر آغا، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین چھوٹی عمر کا اتنا بڑا شاعر نکلا کہ اس کی قد و قامت کا جائزہ لینے کے لیے گردن اٹھا کر دیکھنا پڑے تو اپنی دستارضرورسنبھالنی پڑتی ہے۔(طفیل ہوشیارپوری،اظہاریہ،آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین جدیداسلوب ہی کا نہیں بل کہ منفرد توانا لہجے کا خوب صورت شاعر تھا۔(مسعود ملک، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین نے چھوٹی عمر میں ذات اور کائنات کے اسرارِرموزکوسمجھ کر اتنے رنگوں میں بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔(بیدارسرمدی، گہراب، گوشۂ آنس معین)
* اسے زندگی حرف ناتمام کی صورت نظر آئی اوراس نے اپنے ادھورے پن کا دکھ اپنی موت سے ختم کر لیا۔(مقصود زاہدی، گہراب،گوشۂ آنس معین)
* آنس نے اپنے اندر بسی ہوئی لامتناہی دنیاکاسفریونہی نہیں بل کہ بہ تقاضائے جستجواختیارکیااوراس سفرکے دوران کبھی وہ وجودی مناظر سے ماوراء ہو کر چلا اور کبھی قلزمِ روح میں غوطہ زن ہوا۔(فخر الدین بلے،گہراب،گوشۂ آنس معین)
* آنس معین کی کتابِ شعر بجنسہٖ ایک سمندرہے جس کا ہر ورق ایک موجِ لغت اور گنجینۂ معنی ہے۔وہ اس حیرت کدے تک بہت کم وقت میں پہنچا،جس کی مسافت طے کرتے ہوئے گیانیوں کو صدیاں لگ جاتی ہیں۔(پروفیسرانورجمال، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
* آنس معین کا ہر شعری اظہار بھرپور،ایسامکمل اورایسا spontaneous ہے کہ اسے سوائے ایک تخلیقی معجزے کے کچھ اور نہیں کہاجاسکتا۔اس کے قطعی منفرد اور چونکا دینے والے لہجے میں ایسے اشعار ملتے ہیں کہ ان میں سے ایک شعر بھی کوئی کہہ پائی تو اس کاسر فخر سے بلند ہو جائے۔(اسلم انصاری،آنس معین نمبر، محفل،ایضاً، ص11)
* ڈاکٹر خورشید رضوی نے اس خوف کا اظہار کیا کہ آنس معین کے اندر ایک جوالا مکھی سلگ رہا ہے۔جو خدا نہ کرے کہیں اسے بھسم کر دے۔ (محفل،ایضاً،ص35)
* پروفیسر غلام جیلانی اصغر کے خیال میں لمحہ آنس معین کو قید کیے ہوئے تھا اور وہ اس قیدسےنکلنے کے لیے بے تاب و مضطرب تھا۔ (آنس معین نمبر،محفل،ایضاً،ص35)
"توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا”،آنس آئینہ خانۂ دنیا میں ایک ایسی بے چین روح تھی،جس کے لیے زمان و مکاں کی وسعتیں بے معنی تھیں۔وہ عرفانِ ذات کی اس سرحدپرتھا،جہاں تک پہنچتے پہنچتے سانس اکھڑ جاتی ہے،گیانیوں کا اگیان حرف غلط ہو جاتا ہے۔روایت ہے کہ بو علی قلندر نے بارہ(12) سال پانی میں کھڑے ہو کر عبادت کی ،غیب سے ندا آئی ،میرے بندے کیا چاہتا ہے۔جواب دیا”علی”سناہے تمام عبادت مٹی ہو گئی۔لیکن سیدآنس معین بلے،خانوادۂ چشتیہ کا چشم و چراغ تھا۔ اس آئینہ خانہ میں اسے کیا کچھ نظر آیا،اور وہ کون حالات تھے کہ زیست نے ممات کا لبادہ پہن لیا۔اس سوال کو تو میں حل نہیں کرسکتا۔اس کا کچھ جواب دے سکتے تھے تو ان کے والد،والدہ یا بہن بھائی تھے۔جن کے سامنے اس کی تمام زندگی تھی۔آنس معین کچھ بھی تھا یا نہیں تھا مگر”آنس”ضرور تھا۔ہم لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کے نام دے کر خوش ہوتے ہیں۔
ان آرا میں سے جو کچھ سمجھ میں آتا ہے،وہ کم سِن سقراط ہو،یا ننھا رومی ہو،نئی سوچوں کاارسطوہویاچھوٹی عمر کا بزرگ دانش ور ہو ،وہ ایک ایسا عبقری تھا کہ وقت کی طنابیں اس کے سامنے ہیچ تھیں۔اسرارِ رموز کاایساپارکھ کہ عقل و خرد بے بس نظر آتے ہیں۔ورنہ اس عمر کاایسا شاعر آج تک کسی نے دیکھا ہے؟یہ خوبی غالب میں تھی کہ اس کا پہلا دیوان "گلِ رعنا”جب شائع ہوا تو غالباً ‘غالب’کی عمر 21 سال تھی۔آنس کے مجموعے کا انتظار کرتے آنکھیں ترس گئیں۔خدا جانے کب شائع ہو، یا ہوگا کہ نہیں؟
آنس پر لکھے گئے مضامین میں سے سب سے بہتر مضمون ‘فخرالدین بلے’کاہے۔اس کا مطلب ہے کہ انھیں آنس کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔لیکن "عشق کی ایسی جست”شاید ان کے وہم و گماں میں نہ تھی۔
نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظرجیسی
بدن تھکا بھی نہیں اورسفرتمام ہوا
انھوں نے آنس معین کے ایسے خیالات کو شاعر کا ذہنِ رساخیال کیا۔کم سن سقراط ،جیسے الفاظ سن کر خوش ہوئے۔چھوٹی عمر کا بزرگ دانش ور سمجھتے رہے۔ ننھا رومی اور نئی سوچوں کے ارسطو کو سمجھنے کی کوشش نہ کی۔وہ جوالا مکھی جواس کے شعور و لاشعور میں پک رہا تھا اسے کسی ہم دمِ نرینہ کی تلاش تھی،جو نہ ملا۔وہ کم گو دل میں ہزاروں اندیشے،ارماں اور راز لیے چلتا بنا۔ہم سب منہ دیکھتے رہ گئے۔
فخرالدین بلے نے بھی اپنے مقالے کو مغربی مفکرین کے حوالہ جات سے بھر دیا ہے دوسرے تصوف کے حوالہ جات اور ان سے آنس معین کے اشعار کا تطابق، بعض اوقات سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر میں تصوف پر کتابوں کا وافر ذخیرہ موجود رہا ہوگا۔جس کا مطالعہ آنس نے دل جمعی سے کیا ہوگا۔ لیکن زندگی کا آخری عمل تصوف کی تعلیمات،ذہن عجب مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے؟یا پھر آنس نے منصور بننے کاسوچا اور خود ہی فیصلہ صادر کر دیا؟اس کے علاوہ کیاکہاجاسکتا ہے؟آنس کے بعض افکار نہ صرف چونکا دیتے ہیں بک کہ اندرسے ہلا دیتے ہیں۔چوں کہ ہمارے سامنے چند چیزیں ہیں جن کی بنیاد پرگفت گو ہو رہی ہے۔اس لیے کوئی بات تیقن سے نہیں کہی جاسکتی۔لیکن چند نظمیں یا نظموں کے ٹکڑے ایسےضرورہیں جن میں اس کی روح کی پرواز کون و مکاں کی حدیں پھلانگ گئی ہے۔اور وہ "راز درونِ مے خانہ” کا واقف نظر آتا ہے۔
آنس کی شاعری کو سامنے رکھ کر اس کی شعری جہات اور شخصیت کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔بقول شبیرحسین جعفری آنس کی زندگی کا پہلا شعر یہ تھا:
آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیرخوش بو رہے گی گلاب میں
تحّیر کی وہ دنیا،جسے تسخیرکرنے میں زمانہ لگتا ہے،یہاں پہلے ہی شعر کے انداز سے ظاہر و باہر ہے۔آنس نے شاعری کی ابتدا وہاں سے کی جہاں اکثر شعرا کے دیوان ختم ہو جاتے ہیں۔ایسی اڑان کا یہ اختتام،مجھے کچھ حیرت نہیں ہوئی۔کیوں کہ جب غنچہ پھول بنا،اس کے مصحف سے نہ صرف حسن کے جلوے افروزاں ہوئے بل کہ اس کی روح(خوش بو پھول کی روح ہوتی ہے)آب و گل کی اس دنیا کو مہکانے پر مصر ہوتی ہے۔اسے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ عمل اسے ایک ایسی وادی میں لے جائے گا،جو وادیِ عدم ہے۔لیکن یہ اس کی فطرت ہے اور فطرت تبدیل ہونا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا آنس بھی اپنی روح کو کائناتی تناظر میں قربان کرنے کی جلدی میں تھا۔اس لیے جلد ہی وہ ایک ایسی دنیا کی طرف روانہ ہو گیا۔جس کے اسرارِرموز سے ہم قریباً غافل ہیں۔فنی اعتبارسے دیکھ جائے تو آنس پہلے مصرع میں اپنی بات کہہ چکا ہے۔لیکن شعری پیکر کی مجبوری نے اسے مجبور کر دیا اوراس نے یہ تلازمہ تراشا کہ جیسے خوش بو ‘پابند نہیں رہ سکتی’اسی طرح روح کو مقید رکھنا ناممکن ہے۔
اب آنس کا کلام ترتیب میں نہیں ،کہ کون سی غزل کب کہی گئی اب جو بھی گزارشات ہوں گی،مختلف غزلوں کے تناظر میں ہوں گی۔تا وقتِ کہ ان کا کلام تاریخ وار مرتب ہوکرسامنے آ جائے۔آنس نے جب دیدۂ بینا وا کیے تو عالمِ حیرت سامنے تھا۔تمام عالم اسے "بازیچۂ اطفال”نظر آیا۔تووہ کہہ اٹھا:
جیون کو دکھ،دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے،کس سے کہانی کہتے
چوں کہ ” وا کر دیے ہیں، شوق نے، بندِ نقابِ حسن "آنس نے آئینہ خانۂ حیرت میں جب نگاہ کی تو اسے کئی رنگ اور انگ نظر آئے۔اب جو اس کے دل پر شگاف ہوئے تھے ان میں سب کو شامل کرنے کی لگن میں ،دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔لیکن اسے دنیا محوِ خواب اور مدہوش نظر آئی۔
ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے
(اسداللہ خاں غالب)
آنس کا انداز اتنا نیا اور اچھوتا ہونے کے ساتھ ساتھ روایت کو بھی اس طرح اخذ کرتا ہے کہ شعر بالکل نیا معلوم ہوتا ہے۔گھر میں علوم و فنون کا ایک سرمایہ موجود تھا۔آنس نے اس علم و فن کو حرزِ جاں کر لیا۔اسے بدن کی کٹھالی سے گزارکرایساکندن کیا کہ فارسی اور اردو زبان و ادب کا عطر کشید کر کے رکھ دیا۔لیکن اس خیال میں ب آنس شامل ہوا تو چیزے دگر بن گیا۔لیکن آنس کو اس پربھی افسوس ہوا۔
تیرا لہجہ اپنایا اب ،دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے
جو لوگ لہجہ بدلنے کو معمولی سی چیز یا فن سمجھتے ہیں۔ان کےلیےسوچنے کا مقام ہے کہ لہجہ بدلنے سے سوچ اور پھر لاشعوری طور پر جو فرق پڑتا ہے وہ اہلِ علم جانتے ہیں۔آنس کو خود بھی اس بات کا ادراک تھا کہ وہ ایک نئے طرز کے اسلوبِ شاعری کو رواج دے رہا ہے۔اس نے زندگی،زمان و مکاں اورانسانی روابط کی سائیکی کو اس آسانی سے اشعار میں بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔اس عمر میں زنگی کاایساانوکھا اظہار، سوائے عطائے ربی کے علاوہ کیاکہاجاسکتا ہے۔عملی زندگی میں وہ ادب کا طالب نہیں تھا۔وہ ایک بینکر تھا،لیکن اشعار میں ایسی باریک باتوں کااس سہولت سے اظہاریہ ظاہر کرتا ہے کہ جہاں ظاہری علم نے اس کی رہنمائی کی،وہیں باطنی علم کے خزانوں سے بھی اسے وافر حصہ ملا تھا۔
چپ رہ کر اظہار کیا ہے،کہہ سکتے توآنس
ایک علیحٰدہ طرزسخن کا تجھ کو بانی کہتے
جس معاشرے میں اسے رہنے اور دیکھنے کا موقع ملا تھا۔وہ اس معاشرے کا کھوکھلا پن،تصنع، دکھاوا،ریاکاری، فریب،جھوٹ اور منافقت سے بد ظن تھا۔اس کی روح جو خوش بو تھی،اس تعفن زدہ ماحول میں گھٹ کر رہ گئی۔ممکن ہے وہ کچھ اور دن زندہ رہ جاتا،لیکن ظاہر و باطن کے تضادات اور لوگوں کے رویوں نے اسے وقت سے پہلے آخری فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔تعلقات کو بھی،ریا سمجھتا تھا۔اس لیے کہ:
ہو جائے گی جب تم سے، شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکوگے
یہ الجھی ہوئی ڈورجوسلجھائی ذرا او ر
اب وہ معاشرے کے ان زخم خوردہ حسوں کو سدھانہ اورسہلاناچاہتا ہے۔لیکن لوگ اسے ناسور ماننے کو تیار نہیں ہیں۔اس لیے "وہ الجھی ہوئی ڈورکوباوجوداس کے کہ سلجھاناچاہتا ہے،نہیں سلجھاسکتا”۔اس کربِ مسلسل نے شکستِ ذات میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس لیے وہ کہہ اٹھتا ہے۔ میرے ہاتھوں پہ زخموں کی تعداد تمھارے تصور سے زیادہ ہوگی۔
پتھر ہیں سبھی لوگ ،کریں بات توکس سے؟
اس شہرِ خموشاں میں صدا دیں توکسے دیں؟
ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے؟
سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں توکسے دیں؟
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ!
اورپاس ہے بس ایک ردا دیں توکسے دیں؟
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں،تو تھامے گا بھلا کون؟
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا دیں توکسے دیں؟
بازار میں خوش بو کے خریدار کہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتا، دیں توکسے دیں؟
آپ نے دیکھا،”پتھر دل”لوگ ہیں یا پھر”شہرِ خموشاں "ہے۔اس میں صدا دینا،نقار خانے میں طوطی کی آواز تو ثابت ہوسکتا ہے۔کیوں کہ حقیقت کاسامناکرنے کی ہمت و جرأت مفقود ہے۔اس کے لیے’شاہیں کاتجسس اور چیتے کا جگر’،چاہیے۔اپنی ذات کاسامناکرنے کا دیوانہ پن درکار ہے۔”سرِ بازار می رقصم”کا لا فانی حوصلہ ساتھ ہو۔کیوں کہ اسے جو ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔اس کے لیے اسے اپنے وجود کو کٹھالی سے گزار کر کندن کرنا پڑتا ہے۔خود کو جلتا ہوا دیکھنے کا حوصلہ کس میں اور کتنا ہے۔یہ زبانی نہیں عملی قدم اٹھانے کے بعد دیکھنا ہوگا۔کیوں کہ ہجومِ خلقت میں کوئی تو جو آگے بڑھ کے بِیڑا اٹھا لے۔وجہ بھی خود ہی بیان کر دی ہے”سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں توکسے دیں”۔بے کلی اور بڑھ جاتی ہے۔روح کی پھڑپھڑا ہٹ اور بے خود کیے دیتی ہے۔
آنس تم بھی سامنے رکھ کر آئینہ
زورسے اک آواز لگاؤ ،لوٹ آؤ!
آنس اپنے اندرسمٹ جاتا ہے۔اسے چاروں اور اندھیرا نظر آتا ہے۔ایک گہرا اعصاب شکن سکوت،روح کاسناٹا،جواسے بے کل کیے دیتا ہے۔
باہر بھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریا کے اس پار بھی گہراسناٹاہے
کس سے بولوں ،یہ تو اک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یاپھرگونگابہراسناٹاہے
محوِ خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والابس اک اندھاسناٹاہے
ڈ رنا ہے تو انجانی آوا ز سے ڈ ر نا
یہ توآنس دیکھابھالاسناٹاہے
آنس معین کی شاعری معاشرتی رویوں پر نشتر تو چلاتی ہے۔اور ان ناسوروں کا علاج بھی چاہتا ہے۔لیکن گنگے ،بہرے لوگوں میں وہ کسسے کہے۔اک طرف شورِ شر انگیز ہے۔جس سے سناٹابھی سہم گیا ہے۔اس پر ستم یہ کہ جو دیدۂ بینا ہیں،وہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہیں۔آنس کی شاعری قنوطی نہیں ہے۔ اس کے اشعار زندگی کی للک سے معمور ہیں۔آنس بارہا زیست کی طرف پلٹتا اور لپکتا ہے۔ کہ یہ سناٹاکوئی نئی چیز نہیں۔یہ تواب ہمارے ماحول کا حصہ ہے۔لہٰذااس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہاں ایک بات خوف وخطرسے خالی نہیں ہے کہ”کوئی انجانی آواز”جو محبت کا لبادہ اوڑھ کر نفرتوں کے بیج بو دے۔اس سے احتیاط لازم ہے۔ مایوسیاں آنس پر سوارنہیں ہوتیں،پرآنس انتہائی محتاط شاہ سوار ہے۔وہ وقتی فتح پر یقین نہیں رکھتا۔اسے دائمی فتح سے پیار ہے۔لیکن چاروں اور”اندھاسناٹا”ہونے کی وجہ سے خود میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔اسے کہیں سے کمک نہیں ملتی۔اندر کی روشنی اسے بار بار راستہ دیتی ہے۔
بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری
میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی بس اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
اب اماں ملی تو کہاں ملی "اندھے سناٹے” سے بدن کی "اندھی گلی”میں،باطن جگ مگ تھا،اب گھپ اندھیرے سے ،انسان جب اچانک چکا چوند روشنی میں آتا ہے تو اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔باہر آسیب زدہ ماحول کا ہول،اس قدر شدید تھا کہ اسے روشنی سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔اور وہ اپنے آپ کو اجنبی لگنے لگتا ہے۔وہ اپنے آپ سے ڈر جاتا ہے۔ حالاں کہ ‘وہ تو اندر کی روشنی’ تھی ،جواسے جادہ منزل تک جانے کاراستہ سُجھارہی تھی۔یہیں آنس کو کسی ہم دمِ نرینہ کی کمی کااحساس شدت سے ہوتا ہے۔
اک آشنائے راز ہے حیرت سے وہ بھی گنگ
اک آئینہ ہے وہ بھی مجسم سوال ہے
اب اک آشنا تو ہے!لیکن وہ خود ورطۂ حیرت میں ہے۔اسے آنس کی وجود سے خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔وہ آنس کی اندر کی روشنی کوسمجھ نہیں پاتا۔اور مجسم سوال بن جاتا ہے۔ادھر تحیر کی جستجو نے آنس کو خود بھی”مجسم سوال”بنا رکھا ہے۔کیوں کہ آئینہ تو منعکس کرنے ولا ایک آلہ ہے۔اور آئینے کی سامنے "آنس”، یہ سوال اس کے چہرے پربھی ہے۔
جھیلوں کی طرح سب کے ہی چہروں پہ ہے سکوت
کتنا یہاں پہ کون ہے گہرا نہیں ۔ کھلا!
وہ پھر زندگی کی طرف لوٹتا ہے۔”لیکن” جیسےاک طوفاں سے پہلے کی خاموشی”اندر کی دنیا میں ہل چل مچی ہے۔اندیشوں کے اژدر پھنکار رہے ہیں۔سفینۂ دل میں تلاطم بپا ہے۔لیکن کسی کو بھی دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ کچھ ہونے ولا ہے۔یا تو خوف نے سکتہ کر دیا ہے یا پھر وہ سب بے خبر ہیں۔آنس تھک کے بیٹھ جاتا ہے۔ دوست دشمن کی پہچان نہیں ہوتی۔
ایک چہرہ نگاہوں کے دس زاویے
لوگ شیشہ گری کی دکاں ہو گئے
احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ:
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس آدمی کو دیکھنا سوباردیکھنا
لیکن آنس کا انداز بیاں نہ صرف منفرد ہے بل کہ نئے خیال کو مہمیز بھی لگاتا ہے۔کس کس زاویے سے دیکھیں۔ ہر لمحہ بدلتے چہرے،بدلتے رویے ،اعصاب شل کیے دیتے ہیں۔اب آنس کی پریشانی شروع ہوتی ہے،یہ انساں ہیں یا”شیشہ گری کی دکاں”ہیں۔
کچھ دیر میرے ساتھ تماشا بنے مگر
پھر تم بھی مل گئے تھے تماشائیوں کے ساتھ
اب بات”تم” تک آ گئی ہے۔تم میں بھی ہو سکتاہوں،آپ بھی،اور’تم’وہ بھی ہوسکتا ہے۔جو اردو ادب کا’تم’ہے۔اب” تماشا”بننا کون ساآساں کام ہے؟اور ساتھ دینا،دنیا کا مشکل ترین مرحلہ،جہاں اعصاب چٹک جاتے ہیں،رگیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔اس لیے تو بھرے بازار میں،تماشا بنا کے ،خود تماشائیوں میں شامل ہو گئے۔
جاگ اٹھتے ہیں کتنے اندیشے
ایک مٹی کا گھر بنانے سے
من کی وحشت تو کم نہیں ہوتی
د ر و دیوا ر کے سجانے سے
جب فضاؤں سے ربط بڑھتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے آشیانے سے
اب یہ کیوں اورکیسے ہوا؟اندیشوں نے طوفانِ بلا خیز کی شکل کب اور کیوں اختیار کی؟جواب بھی خود دیا ہے” ایک مٹی کا گھر بنانے سے” ۔اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔جب اس فانی دنیا میں انسان گھر بناتا ہے۔تواس میں دنیا کی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔پھر گھرانہ شروع ہوتا ہے۔اہل و عیال بنتے ہیں۔راستے ،رشتوں میں بدلنے لگتے ہیں۔موت کا خوف جاگزیں ہوتا ہے۔اندیشے سر ابھارتے ہیں۔لیکن جو شخص اس دنیا کو ایک سنہری پنجرہ سمجھتاہو؟وہ اس میں گم نہیں ہوتا۔گھرسجانے سے "من کی وحشت "کم نہیں ہوتی۔جو آزاد فضاؤں کے طائر ہیں۔انھیں آزاد فضا ہی راس آتی ہے۔وہ زیادہ دیر اس قید کو برداشت نہیں کرتے۔اور ان دیکھی، ان سنی دنیاؤں کی لگن انھیں بے خود کرتی ہے،تو وہ خواجہ غلام فریدا رحمت اللہ علیہ کے الفاظ”دنیاکوں چونچی لاڑ آ”کے مصداق اڑ جاتے ہیں۔پھر انھیں اس کا غم نہیں ہوتا کہ آشیاں تھا یا نہ تھا۔ان کا دنیاسے تعلق واجبی سارہ جاتا ہے۔خلق سے بے گانگی انھیں فطرت کے حسن کی طرف متوجہ کرتی ہے۔لیکن فخرِانسانیت یہاں بھی آڑے آتا ہے۔آنس عالمِ ناسوت کے حسن کے پاس جاتا ہے۔حسن کیا ہے؟علامہ محمد اقبال کی نظم”حقیقتِ حسن”سے پوچھتے ہیں۔
خداسے اک روز یہ حسن نے سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
اسے جواب ملا:
شبِ درازِ عدم کافسانہ ہے دنیا
یہاں سے حسن کی سوگواری شروع ہوتی ہے۔مجید امجد نے نظم”حسن” میں حسن کے عجب تیور بیان کیے ہیں۔
جمالِ گل ؟نہیں،بے وجہ ہنس پڑا ہوں میں
نسیمِ صبح ؟نہیں،سانس لے رہا ہوں میں
یہ عشق توہے اک احساسِ بے خودانہ مرا
یہ زندگی توہے اک جذبِ والہانہ مرا
ظہورِ کون و مکاں کا سبب!فقط میں ہوں
نظامِ سلسلۂ روز و شب !فقط میں ہوں
آنس نے ایک اور زاویہ وا کیا ہے۔ایک اورپہلوسے دیکھا ہے۔
گیا تھا مانگنے خوش بو، مَیں پھول سے لیکن پھٹے لباس میں، وہ بھی، گدا لگا مجھ کو
آنس نے’پھٹے لباس’میں دیکھا۔اب آنس تو شاہ کارِ حسن سے اس کا وہ حصہ، جو وہ پوری دنیا میں، بلا تمیز تقسیم کرتا ہے،فیض اٹھانا چاہا۔لیکن جب آنس نے چشمِ بصیرت سے دیکھا تو وہ تو خود کسی درکے سامنے کاسہ لیس تھا۔اشرفِ مخلوق کو وہ مظلوم اور مجبور دکھائی دیا۔آنس کی غیرت نے گوارا نہ کیا،وہ لوٹ آیا۔
ہمارے حسنِ طلب کو لوگ کیا جانیں
شبِ سیاہ میں جگنو اک استعارہ ہے
اترے والی ہے آنس تھکان آنکھوں کی
بہت بڑا ہے افق اور ایک تارہ ہے
جو فرد ایک جگنو کو شبِ سیاہ میں روشنی کااستعارہ کہہ کر،اس کو امید کا پیام برسمجھتا ہے۔یقیناً عام لوگ اس کے ‘حسنِ طلب’ کوسمجھنے سے عاری ہوسکتے ہیں۔ اور "لکڑی جل کوئلہ بھئی اور کوئلہ جل بھیو راکھ”( لکڑی جل کر کوئلہ بنی اور کوئلے ہو گئے راکھ)۔اب ایک تارہ ۔صرف ایک چنگاری اس خاکستر میں ہے۔تا حدِ فریبِ نظر افق کی پہنائیاں ہیں۔لیکن ایک تارہ ہے جو ٹمٹماتا ہے۔اب چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں ہو چلے ہیں۔آنکھوں میں نینس اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ہے صبح کے باطن میں وہی شب کی سیاہی
یہ صبح کا منظر اسی منظر سے اٹھا ہے
اک چیخ سے مجروح نہ ہوگی یہ خموشی
طوفان کبھی جھیل میں کنکرسے اٹھا ہے
"یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحر”ایساکیوں ہوا۔اس کا جواب بھی آنس نے دیا ہے کہ ‘یہ منظر اسی منظر سے اٹھا ہے’۔صبح کا انتظار کرنے والو،تم نے فقط انتظارِ سحر کیا ہے!لیکن اسے اجالنے کا کوئی عمل۔۔۔!تو صبح کے باطن میں بھی شب کی سیاہی در آئی ہے۔اورآنس پکار پکار کے کہہ رہا ہے۔تمھیں بارہا چلا چلا کر خبردار کیا گیا تھا۔ لیکن :
کشتی طوفاں کی طرف بڑھتی رہی
میں پکارتا رہا تیز ہوا کے شور میں
لیکن یہ چیخ گشتِ باز ثابت ہوئی اورجیسے ایک کنکرسے کبھی جھیل میں تلاطم پیدا نہیں ہوتا،میری آواز بھی اک گونج بن کر رہ گئی۔اور اب:
جیسے حاصل ہو صرف لاحاسل
خواب ،تعبیرِ خواب سے نکلے
اک غلط فیصلہ کیا لیکن
عالمِ اضطراب سے، نکلے
کیا عجب ایک دوسراآنس!
ذات کے احتساب سے نکلے
حاصل کچھ نہیں۔لا حاصلی کو خوف آشیاں میں آبساہے۔اس پر بھی آنس نے اطمینان کر لیا۔اورمایوسی کو طاری نہیں ہونے دیا۔لیکن چاروں اور اک مجرم خاموشی نے اسے پھرسے معبدِ ذات میں قید ہونے پر مجبور کر دیا۔
ذرا تو کم ہوئیں تنہائیاں پرندے کی
اب اک خوف بھی اس آشیاں میں رہتا ہے
محبسِ ذات سے ظاہرِ روح نالاں ہے۔اس لیے ‘خوف’سے بھی امید کشید کر لیتی ہے۔کم از کم تنہائی کے عذاب سے چھوٹے۔اب اس کا ہم نشیں اک خوف بھی ہے۔آنس کی شاعری میں بارہا، زندگی کی ہماہمی کی طرف لوٹنے کا ذکر ہے۔اب یاس سے آس کا پیدا ہونا کوئی آسان عمل نہیں،نہ ہی مذاق ہے۔ شاعر اس پربھی راضی ہے،فیصلہ چاہے درست ہویا غلط لیکن”عالمِ اضطراب سے نکلے”یہ روز کی کش مکش، گومگو،’ہے ،نہیں ہے’ کی تلوار،کم سے کم اس سے تونجات ملی۔ آنس پھر ہمکتی زندگی کی طرف لپکتا ہے۔ممکن ہے، اس دوران میں احتسابِ ذات کے عمل سے ،ایک دوسراآنس،سامنے آئے۔ایسے مثبت رویے رکھنے والا شاعر قنوطی یا موجودیت (Existentialismعام طورپراسے وجودیت لکھا جاتا ہے) پرست نہیں ہوسکتا۔آنس میں سادیت نام کو نہیں ہے۔وہ اس دنیا کو ایک ایسی کائنات کے تناظر میں دریافت کرنا چاہتا ہے۔
مرے اندربسی ہوئی ہے اک اور دنیا
مگر تو نے کبھی اتنالمباسفرکیاہے؟
یہ” تو” کوئی اور نہیں ہے۔یہ ‘میں’اور’تو’ہیں۔یہ معاشرہ ہے۔جو اقدار و روایات،آداب و اخلاق سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔جہاں نفس پرستی ہی زندگی ہے۔جہاں خودپرستی ہی روشنی ہے۔جہاں خود نمائی ہی سب خوشی ہے۔ایسے میں آنس کیوں نہ کہے کہ کیاتم نے کسی حضرت انسان کوسمجھنے کی کوشش کی ہے۔خبثِ ذات سے نکلنے سےخوف،اور تعفن کے پھیلنے کے احساس نے،ہرکسی کو دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے۔اور کوئی بھی تو نہیں بولتا کہ:”بادشاہ سلامت آپ کےجسم پر لباس نہیں ہے۔جو بولے،وہ ولد الحرام ٹھہرے یا پھر گردن زدنی ہو۔تا وقتِ کہ ایک بچہ بول پڑتا ہے۔بس پھر کیا تھا،سرگوشیان،چہ میگوئیاں جنم لیتی ہیں۔بادشاہ سلامت سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔بچہ جھوٹ کیوں بولے گا؟
ع کبھی تو بچہ صلیب جتنا بڑا بھی ہوگا
اب آنس کو شدید قحط الرجال کاسامناہے۔وہ بچہ کہاں سے لائے؟لیکن اسے اس بات کااحساس ہے اس لیے تو کہہ اٹھتا ہے” کبھی تو بچہ صلیب جتنا بڑا بھی ہوگا”۔
لیکن مایوس اب بھی نہیں ہے۔
اک سردشام آئے گی تپتی سحرکے بعد
لا حاصلی کا دکھ بھی ہے لمبے سفرکے بعد
اک دائرے میں گھومتی رہتی ہیں سب رتیں
ویرانیاں شجر پہ اگیں گی ثمر کے بعد
رہتا ہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گا میں
جائے اماں اک اور بھی ہوتی ہے گھرکے بعد
اسے امید ہے کہ اب بھی ظلم تا دیر ظلم نہیں رہ سکتا۔یہ جھلسادینے والی دھوپ،یہ جلا دینے والی "تپتی سحر”زیادہ دیر رہنے والی نہیں ہے۔اس کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔اگرچہ لوگ ایک طویل جد و جہد کے بعد تھک چکے ہیں،’لا حاصلی کے سنپولیے بھی لپٹے ہوئے ہیں۔لیکن اسے پھر بھی امید ہے۔کرہ اپنا دائروی چکر مکمل کرنے والا ہے۔اب درختوں پر شجر آئے گا۔اس کے بعد ویرانیوں کی باری ہوسکتی ہے۔لیکن میں مایوس نہیں ہوں اور نہ ہی گھر کے ہونے نہ ہونے کا غم ہے۔ کیوں کہ” جائے اماں اک اور بھی ہوتی ہے گھرکے بعد”۔دل کی گہرائیوں سے پھر ایک کرن پھوٹتی ہے۔
تھامے ہوئے گرتی ہوئی دیوار کو اب تک
شاید مرے ہاتھوں کے سوااوربھی کچھ ہے
میں اکیلا نہیں ہوں یہ’گرتی ہوئی دیوار’ صرف میرے تھامنے سے نہیں رکی،کوئی اور بھی ہے۔جو مرے ساتھ ہے۔عرفانِ ذات آنس کو الہامی طور پر مدد کرتا ہے۔اسے نچلا نہیں بیٹھنے دیتا۔اندر کی روشنی اسے زعمِ ذات میں مبتلا نہیں ہونے دیتی۔اسے اپنی کم زوریوں کا بھی علم ہے۔اور اپنی انتہاؤں کو بھی جانتا ہے۔وہ صرف معاشرے کے رِستے ناسوروں پر نشتر نہیں چلاتا بل کہ اپنامحاسب بھی آپ ہے۔اس لیے خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے یا نمائشِ ذات کی بجائے ،وہ واضح کرتا ہے”کوئی اور ہے،جس نے دیوار کو بھی تھاما ہوا ہے اور مجھے حوصلہ بھی دے رکھا ہے۔
ذراساکھول کے دیکھو تو گھر کا دروازہ
یہ کوئی اور ہی دستک ہے اب ہوا کب ہے
اسے ملے ہو مگر جانتے کہاں ہو تم
خود اپنے آپ پہ آنس ابھی کھلا کب ہے
آنس زمیں کی دھڑکن کومحسوس کرنےوالاحساس فن کار ہے۔فسق فساد نے اور بغض و نفاق نے بد امنی کے طوفاں برپا کر رکھے ہیں۔اعتماد و یقیں کی دیواریں ڈھے چکی ہیں۔لوگ اپنی اپنی جگہ دبکے ہوئے ہیں۔آنس اچانک ایک آوازسنتا ہے۔وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اب یہ تیز ہوا یا طوفان باد و باراں نہیں ہے۔یہ کوئی اور آواز ہے۔ "دستک”کی آواز شاید یہ کوئی پیم بر ہو؟کوئی خوش خبری لایا ہو؟لوگ اس قدر وحشت زدہ تھے کہ آنس کی بات پرکان نہیں دھرے۔اسے سقراط تو کہا مگر”کم سن” کے سابقے کے ساتھ،اسے رومی تو کہا مگر”ننھا”لگا دیا۔اسے ارسطوتوسمجھامگر”نئی سوچوں کا”،اے کاش کہ کوئی اسے آنس سمجھ کراس کا یقیں کر لیتا۔۔۔!؟اس لیے آنس آخر کار بول اٹھا” اسے ملے ہو مگر جانتے کہاں ہو تم”۔اور دلیل بھی ساتھ تھی کہ آنس تو ابھی اپنے آپ پر نہیں کھلا،تم کیسے دعویٰ کرسکتے ہو؟اورساتھ ہی ایک ادق سوال داغ دیا:
دلا سکے گی کوئی صبح کیا یقین مجھے؟
کہ اس زمیں پہ نہ اترے گی رات آج کے بعد
آنے والے دور کی خبریں دینے والو!کیا تم مجھے یقیں دلاسکتے ہو کہ آج کے بعد،یہ رات،یہ ظلمت،یہ اندھیرا،یہ جبر،یہ انسانیت کا ماتم کرنے والے انسانیت کے دشمن ختم ہو جائیں گے۔یا پھر ان کی کایا کلپ ہو جائے گی۔یہ آج کے بعد نسلِ انساں کو کچھ نہ کہیں گے۔کوئی صبح،کوئی روشنی،کوئی امید کی کرن ،کوئی گیانی مجھے اس گومگو کی کیفیت سے چھٹکارہ دلاسکتا ہے۔
باہر بھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریا کے اس پار بھی گہراسناٹاہے
جواب میں ایک مجرم خاموشی اور سناٹا۔آنس جو چند لمحے پہلے ایک جمِ غفیرسے گفت گوکرتاہوامحسوس ہو رہا تھا۔اپنی ذات کے خول میں سمٹ جاتا ہے۔اپنے آپ سےخود کلامی کرنے لگتا ہے۔
اکثر صبحیں وقت سے پہلے آتی ہیں
اسی لیے ہر خواب ادھورا رہتا ہے
شب کے باطن سے وہ اجالا نہیں پھوٹا۔جس اجالے کو دیکھ کر لوگ صبح سمجھ بیٹھے تھے۔وہ صبح نہیں تھی۔لوگوں نے شور مچا دیا۔مری آنکھ کھل گئی اور میرا خواب ادھورا رہ گیا۔
میں دیدہ ور ہوں نظر میں ہوں کائنات لیے
وہ کم نظر ہے جو خود منظروں کی زد میں ہے
آنس پھر کہتا ہے۔عمروں کے بھید مت کھولو۔میری آواز پر کان دھرو۔کیوں کہ زمین و زماں کی وسعتوں نے اپنے رازوں کے در مجھ پر کھول دیے ہیں۔اس لیے جو کچھ میں کہتا ہوں اس پرکان دھرو۔لیکن وہاں کیا تھا؟
اک دھوکاساکیوں ہوتا ہے اب بھی کچھ آوازوں پر
دستک کون دیا کرتا ہے کھلے ہوئے دروازوں پر
کھلے دروازوں پردستک ایک سوال بن جاتا ہے؟آنس نے تو باہا کہا کہ:” میں دیدہ ور ہوں نظر میں ہوں کائنات لیے”اورجس نے اپنے آپ کو منظر میں سجالیا ہے۔ جواس تماشا گہہِ عالم میں خود تماشا بن چکا ہے۔وہ کم نظر ہے۔وہ دیدۂ بینا نہیں رکھتا۔اس کی بات کا اعتبار مت کرنا۔لیکن دورِ جاہلیت کی طرح لوگوں نے اپنے دیوتاؤں کے بتوں کو توڑنا اپنی ہتک اورناکامسئلہ بنا لیا۔نتیجہ سامنے کی بات تھی۔
گرد ہٹی تو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھو گے
اک موہوم ساپردہ لوگو!رہنے دو ان رازوں پر
آنس اس پربھی لوگ کے راز ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔وہ مشورہ دیتا ہے کہ آئینوں کے سامنے نہ آؤ!اگر تیز ہوا یا بارش نے آئینے سے گرد ہٹا دی تواس میں ‘اپنا ہی چہرہ نظر آئے گا’۔جو اک پردہ ہے،اٹھ جائے گا۔
میرے سرکودیکھ کے میرے شانوں پر
شاخ نے گل کا بوجھ اٹھاناسیکھاہے
شاعر یہ سب کچھ یونہی نہیں کہہ رہا ہے۔وہ بار بار حوالے دیتا ہے۔مثالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ظلم یہ ہے کہ کوئی بھی "راز دارِ درونِ مے خانہ” نہیں ہے۔اس لیے فطرت سے مثالیں لاتا ہے۔
یاد ہے آنس پہلے تم خود بکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھراناسیکھاہے
آئینے کا کام ہے،منعکس کرنا،بکھرنا نہیں۔لیکن آنس جو اس بے دل دنیا کے ایسے ہجوم میں گھر چکا ہے جو جدید علوم و فنون کی روشنی سے چکا چوند تو ہے۔لیکن عام حالات کوسمجھنے سے عاری ہے۔
ع ساحل کی آرزو میں بہت سے بھنور ملے
اس لیے وہ بار بار تجربات سے گزرتا ہے۔اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتا ہے۔طوفانوں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ساحل ،ساحل رہتا ہے۔بھنور در بھنور اک سلسلۂ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے شاعر ان تمام کیفیات سے اپنی "ذات کے معبد”میں دست و گریباں ہے۔اسے پھر ایک راستہ سُوجھتا ہے۔
جو نقشِ پاسے نہ ہوں شناسا،کچھ ایسے رستے تلاش کرنا
محبتوں کے سفرمیں آنس نئے جزیرے تلاش کرنا
اس بار وہ "یاد کے ان بے نشاں جزیروں”تک جانا چاہتا ہے جو نقشِ پاسے شناسانہ ہوں۔اور’محبتوں کے نئے جزیرے’تلاش کرنے کی لگن ہے۔مگر’میں پاپن ایسی جلی کوئلہ بھیو نہ راکھ’۔
دیکھ رہا ہوں خالی ہاتھ کی تنہائی
دو راہوں پر اکثر ایسے ہوتا ہے
"کعبہ میرے پیچھے ہے،کلیسامیرے آگے”ایسی صورت میں ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔اور حاصل ،کفِ افسوس’کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔سب سے خوب صورت بات یہ ہے۔شاعر کو شعور و ادراک کی ایسی نعمت عطا ہوئی ہے۔جواسے بتاتی رہتی ہے۔” دو راہوں پر اکثر ایسے ہوتا ہے”۔لیکن کہیں کہیں آنس خود بھی رک جاتا ہے۔شکستوں کے جال نے اس کے وجود کو گھیر رکھا ہے۔کبھی کبھی وہ خود بھی چونک اٹھتا ہے۔اپنے آپ سے ڈر جاتا ہے۔
گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکاں ہو جیسے
انبیاؑ تلمیذ الرحمٰن ہوتے ہیں۔یا پھر چنیدہ اولیا اللہ طاہری تعلیم نہ ہونے کے باوجود باطنی علم سے اس قدر مزین ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتے ہے۔اس کے لیے "حضرت بایزیدبسطامی” کی زندگی اور پانچ سو عیسائی راہبوں سے ن کا مناظرہ دیکھاجاسکتا ہے۔یا پھر”الابریز” کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے۔آنس کو فطرت سے حیران کن صلاحیتیں عطا ہوئیں لیکن نہ ماحول ساز گار ملا نہ کوئی ایساراہبر(مرشد)ملا جو”تھل ماڑوداساراپینڈا” اک نگاسے طے کرا دیتا۔بقول اقبال "عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام”یہ مرحلہ نہیں آسکا۔لہذا بعض اوقات اندر کی روشنی ڈرکاسبب بنی۔اب انہد مرلی نے گنبدِ روح میں جب”سرِکن فکاں”تان چھیڑی توآنس اسے سناٹے کی گونج سمجھ بیٹھا۔اوراسے مادی دنیا کے معاملات میں شامل کر دیا۔کیوں کہ معاشرہ اور ٹوٹتی ہوئی معاشرے کی تنابیں،اس کے سامنے تھیں۔اور کبھی کہہ اٹھتا ہے۔ڈرنا ہو تو انجانی آواز سے ڈرنا”۔آنس اپنے آپ میں واضح نہیں ہے۔وجہ سامنے ہے،باطنی عطا کے ساتھ ساتھ،ظاہری راہنما کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔وہ صرف نبی ہوا کرتا ہے جو دنیاوی علل سے بے نیاز ہوتا ہے۔اب سناٹے کی گونج سے ڈر پیدا ہوا ہے۔اور ظاہری تنہائی کو”وہ خالی مکاں”سمجھ رہا ہے۔یہاں سے آنس کی شخصیت میں شک سرابھارناشروع کرتا ہے۔
عجیب شورسااک جسم و جاں میں رہتا ہے
ہوا کا زور بھی خالی مکاں میں رہتا ہے
آنس کو’وہ سِر’شورمحسوس ہوتا ہے۔اورآنس کے سامنے ایساکوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔جسے وہ پیشوا یا راہبر مان لے۔اس کی تربیت اس انداز سے نہیں ہوئی۔وہ ناز و نعم میں پلا ہے۔وہ سادات گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔اس نے آنکھ کھولی تو دور کے اہم ترین لوگوں نے اسے’کم سن سقراط’ اور’چھوٹی عمر کا بزرگ دانش ور’ کہا۔اسے تو معلوم ہی نہیں ہوا کہ ابھی تو ابتدائے عشق تھی۔یہ دنیا نہ تھی کسی اور دنیا کے راز تھے جو آنس عالمِ ناسوت میں تلاش کرتا رہا۔نتیجہ یہ نکلا کہ بدن اور روح میں فاصلے بڑھنے لگے۔
خالی ہے مکاں پھر بھی دیے جاتے ہودستک
کہ روزنِ دیوارسے اندر نہیں دیکھا
عجب طرح کی مدہوشی کا اثر اور غیر یقینی کہ دروازہ پیٹتے رہے،اس طرف دھیان بھی نہیں گیا کہ مکاں خالی بھی توہوسکتا ہے۔مسلسل دستک اور روزن سے نہ دیکھنا، عجب ذہنی کیفیت کی عکاسی کر رہا ہے۔چوں کہ مکیں جا چکے ہیں۔اور اتنی خاموشی سے گئے ہیں کہ کسی کو کچھ پتا نہیں چلا۔اب خالی مکاں ایک سوال بن کر ابھر رہا ہے۔دوسری طرف:
دستکیں دینے سے پہلے سوچ لو
بند دروازے کے پیچھے کون ہے؟
اس طرح اب دیکھتا ہوں آئینہ
جیسے کوئی خودسے پوچھے۔ کون ہے؟
دستک تودے رہے ہو؟لیکن تم ایک ایسی جگہ پر ہو جو بالکل نئی ہے۔مکاں کس کا ہے؟مکیں کون ہے؟جواب کیا مل سکتا ہے؟اتنی ساری باتوں کا جواب کہاں سے ملے گا؟آپ نے دیکھا جب روح اور بدن میں بعد کی کیفیت اجاگر ہونے لگی۔جب طائرِ روح کو جسد ایک بند پنجرے سے زیادہ کچھ بھی نہ لگا۔تو پہلے یہ احساس پیدا ہوا کہ دستک دے کے دیکھ لیا جائے۔اب شاعراس خوف میں مبتلا ہے کہ:”تیرگی من میں نہ در آئے کہیں”اسے اپنے جسم کے مکاں کے خالی ہونے کا پتا ہی نہیں چلا۔اوردوسرے شعر میں وہ یقیں بھی کھو چکا ہے۔اور کہتا ہے پہلے سوچ لو!بند دروازے کے پیچھے کون ہے؟اپنی ذات کی اک روشن جہاں تھا؟ اب اس کے لیے نادیدہ جزیرہ یا ایک ان جانی دنیا بن گیا ہے۔یہ اس لیے ہوا کہ باہر کو اندر کی طاقت نہیں ملی۔من و تو ایک نہیں ہو سکے۔اور بات ایں جارسید:”آئینہ دیکھتا ہوں اور خود سے سوال کرتا ہوں”جیسے کوئی خودسے پوچھے کون ہے؟”۔
بازار میں خوش بو کے خریدار کہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتا دیں توکسے دیں؟
چپ رہنے کی ہر شخص قسم کھائے ہوئے ہے
ہم زہر بھرا جام بھلا دیں توکسے دیں؟
اب بات حقیقت تک پنچ چکی ہے۔وہ بے رنگ حقیقت جو کائنات کی اصل ہے۔لیکن اہلِ دنیا ظاہری چمک دمک اور ریا و تصنع کے دل دادہ ہیں۔اور میرے پاس ہیں تو پھول مگر بے رنگ ہیں۔ان کون ان بے رنگ پھولوں کو دیکھے گا،خریدنے کا مرحلہ تو بعد کی بات ہے؟منافقت کے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ک ردی ہیں۔طلب کی دلدل نے ہربوالہوس کو جکڑ لیا ہے۔اب ہر طرف بے دست پا ابدان پڑے ہیں۔جو نہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں(جھوٹی انا)،نہ کسی کو بلاتے ہیں کہ چھٹکارے کی کوئی صورت ہو(منافقت)،اب بے رنگ پھولوں کوکوں خریدے؟چوں کہ حرص وہوس،لالچ و خودپرستی نے بدحال کر رکھا ہے۔خود دلدل میں ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ ہم دلدل میں ہیں۔دوسرے بچ جائیں یا بچاؤ کا کوئی طریقہ سوچیں!معلوم اس وقت ہوتا ہے جب ایک آواز کے ساتھ کوئی اور بھی ان میں آن شامل ہوتا ہے۔ہر شخص نے مجرم خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اب سچ کا زہر کون پیئے؟
شور تو یوں اٹھا تھاجیسے اک طوفاں ہو
سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیا ہے
آخری خواہش پوری کر کے جیناکیسا؟
آنس بھی ساحل تک آ کے ڈوب گیا ہے
‘ہر نئے حادثے پہ حیرانی،پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی’عموماً شور کا پیدا ہونا ایک ان ہونی کے ہونے کی خبر ہوتا ہے۔اور یہ شورتاکسی طوفاں کے اٹھنے کامحسوس ہوتا تھا۔لیکن یہ کیا ہوا کہ سناٹے کے طلسم نے اسے بھی نگل لیا۔اور اب یوں خاموشی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔وہ لاشعورجوآنس کو انتہائے مایوس میں بھی نئی منزلوں کی طرف لے جاتا ہے۔وہ کسی نہ کسی تبدیلی کے ذریعے سے اپنا اظہار کرتا ہے۔لیکن ہر بار نا کامیابی اسے ایک ایسی حالت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔جہاں حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
جب کشتی ثابت وسالم تھی،ساحل کی تمناکس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی میں ساحل کی تمنا کون کرے؟
ساحل کی تمناکسے نہیں ہوتی ؟لیکن آخری خواہش کے طور،اگر تمام کوشِ پیہم کا حاصل ‘کفِ افسوس’ہوتوساحل کو قبول کرنا،بھی ‘اک انا کی بات بن جاتی ہے’۔ اس لیے آنس نے بھی ساحل سے پہلے پتوار ڈال دیے۔’اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو’۔امید تو اب بھی تھی کہ ہواؤں کا رخ ابھی اتنا بے یقیں نہیں ہوا تھا۔موسم نے شدت اختیار نہیں کی تھی۔
انا کی دیوار ٹوٹنے میں ہے دیرآنس
وجود میرا ابھی مرے اختیار میں ہے
حوصلے ابھی جواں ہیں۔اپنی ذات پر اب بھی بھروسہ ہے۔وجود پر اختیار بھی باقی ہے۔حالات نہیں بگڑے۔لیکن” ایک اوردریاکاسامنا تھا منیر مجھ کو”
سلجھی تھیں گتھیاں مری دانست میں مگر
حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے اکھڑ گئے
نروان کیا،بس اب تواماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی،جنگل سکڑ گئے
اس بند گھر میں کیسے کہوں کیاطلسم ہے
کھولے تھے جتنے قفل،وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے
آنس کے وجود کے اندر ایک اعصاب شکن جنگ جاری رہی۔اور ہمیشہ آخری لمحوں میں کوئی سوارپیادے کو بچا لیتا تھا۔یہ ایسی کمک تھی،جو آنس کو واضح طورپرسمجھ نہ آسکی۔لیکن وہ لاشعوری طور پر اس کی روشنی میں چلتا بھی رہا۔اور ایک کش مکش مسلسل اس حاصل کا مقدر بھی رہی۔لیکن محبتوں (ظاہری)کے تمام رشتے ایک ایسے معاشرتی دائرے میں قید تھے جواسے کوئی بھی لائحۂ عمل طے کرنے کی مکمل آزادی نہ دے سکے۔نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی عمل مکمل تیقن سے نہیں ہو پایا۔ آنس سمجھتارہاکہ ‘گتھیاں سلجھ رہی ہیں’،لیکن ہوا کیا؟وہ وجود جو پہلے ہی زخم زخم (روحانی کرب) تھا۔ دکھ کی شدت میں اور اضافہ ہو گیا۔شکتیوں کی تلاش یا گیان کی منزل تو خواب و خیال ہونے لگی اب ‘اماں’کے لالے پڑ گئے۔تہذیب نے ہریالی کو نگل لیا۔
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
(مجید امجد)
اور جگہ پھر بھی تنگ رہی ،ایسے بند گھر بنائے گئے کہ ان میں عجب سحرتھا،ایک عجیب طلسماتی فضا تھی۔ گھر کے جتنے تالے کھولے تھے۔وہ سب کے سب ہونٹوں پہ لگ گئے۔کوئی کچھ نہیں بولے گا۔کمرے بڑھ گئے،تعلق کٹ گئے۔ہر فرد اپنی ذات میں انجمن بن گیا۔کسی کوکسی کی حاجت نہ رہی۔آنس نے اپنی شاعری میں اس وقت بے چہرگی کے کرب کو بیان کیا جب کہ یہ لہرا بھی مشرق میں پہنچی ہی نہیں تھی۔ابھی یورپ کے مے خانے اپنی شناخت ڈھونڈ رہے تھے۔اب زباں چپ،کسی کے معاملات میں نہیں بولنا،سچ کوسچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے!اک عجیب معاشرتی تبدیلی واقع ہوئی۔یوں اظہار ،اظہار نہ رہا۔بل کہ جھاگ کوہی دودھ سمجھ کر قبول کرنے کی تربیت ہونے لگی۔اندر کاانساں اپنے "اور اندر”سمٹ گیا۔ اب یقیں کی رفعتوں کو شکوک کی آندھیوں نے گھیرنا شروع کیا۔
توجستجوئے سحرمیں نکلے تواس قدر احتیاط رکھنا
کہ تیری پرچھائیں تک بھی تجھ کو قدم بڑھاتے ہوئے نہ دیکھے
کسی سے بات کرتے ہوئے اندیشوں نے سراٹھانے شروع کیے۔یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی اس راز داری سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ‘دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں’۔اب راز داری کی زمانے لد گئے۔اپنے آپ کوسرکوشی کے انداز میں نصیحت ہونے لگی”جسجوئے سحرمیں نکلے تو۔۔۔۔۔۔تیری پرچھائیں بھی تجھ کو قدم بڑھاتے ہوئے نہ دیکھے”یہ کیفیت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ شاعر ایک ایسی منزل پر آگیا ہے۔کہ اب کسی کو آزمانا یا امتحان میں ڈالنا، ممکن نہیں رہا۔اعتماد و یقیں کے سارے رشتے اپنا بھرم کھو چکے ہیں۔اب جو کچھ بھی کرنا ہے۔اپنے بھروسے اور اپنے بازوؤں کی طاقت سے کرنا ہے۔راز کی حفاظت کرنی ہے۔پھر شاعر پر زندگی کا ایک اور زاویہ ظاہر ہوتا ہے۔
ہزار قمقموں سے جگ مگا اٹھا ہے گھر
جو من میں جھانک کے دیکھوں تو روشنی کم ہے
جگ مگ جگ مگ،نیر و تاباں،روشنی ہی روشنی،لیکن "کاں حرامی چھڑنڑ نہ ڈیندا۔۔۔اوڈھا پیچھاجات مریندا۔۔۔کیتاکم خراب کریندا۔۔۔،آنس نے ایک اور جگہ کہہ رکھا ہے۔
تیرگی من میں نہ در آئے کہیں
آنکھ شب کے درمیاں مت کھولنا
باہر کی چکا چوند نے من کی ظلمت کو دور نہیں کیا؟شکیب جلالی کا ایک شعر بے طرح یاد آ رہا ہے۔آپ بھی سن لیجیے:
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا،اورسائے بہت
لیکن ایک بات دھیان میں رہے۔شاعر نے سادیت کا اظہار اب بھی نہیں کیا۔روشنی توہے مگر کم ہے۔ ‘دھندلے دھندلے ہیں ابھی ترے پیکر کے خطوط’۔
تو بھی کیا مری طرح سےجاگتا ہے رات بھر
تیرے گھر میں بھی کہیں اک آدھ کھلا در تو نہیں
قفل تو کھل گئے،مگر انھیں لگانے کا رواج نہ رہا۔چوں کہ وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے تھے۔وہاں سے کھلتے تو کہیں اور بھی پڑتے۔اس جبر نے شاعر کو بے خوابی کے عذاب میں مبتلا کر دیا۔ایک بار پھر ایک”تو” کا ذکر ہوتا ہے،”شاید ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں’۔خدشات ایک جسے ہیں۔انھیں ایک فرد پر،گھر پر،معاشرے پر یا قوم پر چسپاں کر دیجیے۔کیا تمھیں بھی نیند نہیں آتی؟کیا میری طرح تمھارے گھر کا بھی کوئی دروازہ ایسا تو نہیں جو”در” (کھلا) ہو؟یہ عمر بھر کا رت جگاکس وجہ سے لگ گیا ہے۔پہلے مسائل کیا کم تھے؟کہ اب اک نیاستم۔بہرحال اب شاعر بیک وقت کئی محاذوں پربرسرِ پیکار ہے۔اس کے اندر ایک خوف ناک جنگ جاری ہے؟اسے اندیشہ ہائے من و تو اور کون و مکاں نے گھیر رکھا ہے؟اسے معاشرتی جبر،اور روحانی کرب کا بھی سامناہے۔اب گھر اور رت جگا بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔لیکن وقتی نا کامیابی شاعر کو مضمحل نہیں کرتی، شاعراس سے بھی امید کی کرن کشید کر لیتا ہے۔اور ایک نئی مہم پر جانے کے لیے کمربند ہو جاتا ہے۔
دل کے اندر تو شب نہیں ہوتی
ایک سورج کے ڈوب جانے سے
شب فطرت کا ایک مظہر(Phenomenon) ہے۔سورج کا ڈوبنا بھی کوئی اچنبے کی بات نہیں۔روز ڈوبتا ہے۔اوراس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اب سورج دو بارا نہیں نکلے گا؟یا اب صرف تیرگی کا راج ہو جائے گا؟اور اگر ماہتاب ڈوب بھی گیا ہے توکیا ہوا؟”دل کے اندر تو شب نہیں ہوتی”کیوں کہ :
مرے اندربسی ہوئی ہے ایک دنیا
مگر تو نے کبھی اتنالمباسفرکیاہے
یہ مرحلہ بھی شاعر کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے اور شاعر خود کو ایک اور منزل کی طرف لے جاتا ہے۔
اندر کی دنیاسے ربط بڑھاؤ آنس
باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے
اگرچہ پہلے بھی شاعرکوباہرسے کوئی امداد نہیں ملتی تھی۔لیکن اب تو وہ’کھڑکی’ (ربط کا ذریعہ) بند پڑی ہے۔اس لیے اپنے من کی دنیاسے تعلق مضبوط کرو۔
یہ بوجھ اک صلیب کا میں کس طرح اٹھاؤں گا
اس آگہی کے کرب کو میں کیسے جھیل پاؤں گا
اب شاعر نے آ کر اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔میں صلیب کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا؟(یعنی یہ علم ہونے کے باوجود کہ میں سچاہوں۔لوگ مری بات نہیں مانتے۔ اور پھر بھی صلیب پر لٹکنا،شاعر کہتا ہے۔شاید یہ مجھ سے نہیں ہوسکے گا۔اوراس راز کو”آگہی کے کرب”سے تشبیہ دی ہے۔کہ شاید میں اسے برداشت نہیں کرپاؤں گا۔”کب بارِتبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا”
آنس نے اب تک(جو غزلیات،اشعار اور فردیات جو مرے پاس ہیں)میں خالصتاً تصوف کی کوئی اصطلاح استعمال نہیں کی۔یہ شعوری کوشش ہے یا لاشعوری،تمام کلام سامنے آنے کے بعداس پر کچھ کہاجاسکتا ہے۔ یا پھر فخرالدین بلے(والد گرامی)،ظفر نعیم بلے(بھائی) اور آمنہ (بہن) کا کوئی انٹرویو (مصاحبہ)کہیں شائع ہوا ہو،یا ان سے کیا جائے۔تو کچھ باتیں سامنے آسکتی ہیں۔لیکن آنس اب تھک چکا ہے۔اپنی ذات سے جنگ، معاشرتی اقدار کو کھوکھلا کرتی ہوئی رسمیوں سے جنگ اور بہت سے نادیدہ جال جو ہر فرد کو جکڑے رکھتے ہیں۔شاعر کو بے دست و پا کر چکے ہیں۔اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
شاید ادھورے پن کا ہو دکھ ختم موت سے
اک حرفِ ناتمام کی صورت ہے زندگی
اب زندگی "حرفِ ناتمام”نظر آنے لگی اور ادھورے پن کا دکھ’موت’سے ختم ہونے کی امید پیدا کرنے لگا۔پھر بھی اک”یاد کے بے نشاں جزیروں”سے آتی ہوئی کرن کہیں کس مسارہی تھی۔
ہونٹ پتھر ہو چکے اور بجھ چکی آنکھیں مگر
تیرے اندر کون زندہ ہے اسے بھی ختم کر
پہلے ہونٹوں پہ تالے پڑے،بولنا خواب و خیال ہوا۔اب ہونٹ پتھر ہوئے ‘جنبشِ لب بھی گئی”نکوں کی روشنی بجھ چلی،اب ‘بچا کیا ہے’؟اب کون ہے مجھ میں آ آ کر مجھ کو ڈھونڈتا رکھتا۔یہ کون ہے؟میرے اندر،مجھ سے چھپ کر مجھ کو زندہ رکھے ہوئے؟شاعر آخری فیصلہ صادر کرنے کا نادر شاہی حکم جاری کرتا ہے”اسے بھی ختم کر”۔پر شاعر ایک تہذیب کا نمائندہ ہے۔اخلاق وکردارکاپس دار ہے۔”دور بیٹھا غبارِ میر بھی ان سے”تو لہجے یا چہرے سے ظاہر نہیں ہوتا۔چہرہ اسی طرح پھول سامسکراتاہوا۔اس لیے تو شاعر کو کہنا پڑا:
ہماری مسکراہٹ پرنہ جانا
دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے
اندر کی موت کا اعلان ہو جاتا ہے۔یہ جسم تو تمھارے سامنے ہے۔ایک "قبۂ گور”ہے۔مصحفِ گل کو مسکراہٹ نہیں سمجھو یہ تو”دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے” ہے۔اوراس اعلان کے ساتھ کہ اب یہ اندھیرا جانے کب مٹے گا؟
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندرسے اٹھا ہے
اس بار اندھیرا کا ماخذ اندر ہے باہر نہیں ہے۔سورج کے ڈوبنے کی وجہ سے اندھیرا نہیں ہوا۔اس لیے لوگ ظاہری وجہ ڈھونڈھتے رہیں گے،جب کہ یہ اندھیرا تو رگوں کا اندھیرا ہے۔مین کی تیرگی ہے۔پہلے تواس کا علم بھی مشکل سے ہوتا ہے؟کہ ہربوالہوس اپنے آپ کو گیانی سمجھتا ہے۔اور اپنی کم زوری کا ادراک اور اظہار اوراس کے بعد اعلان اوراس کو ختم کرنے کی کوشش صدیاں لگ جاتی ہیں۔اس لیے شاعر کہہ رہا ہے کہ اب سورج صدیوں کے بعد طلوع ہوگا۔
وہ جوپیاسالگتا تھاسیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے
میرے اپنے اندر ایک بھنورتھاجس میں
میراسب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے
سب کچھ ختم ہو جانے کے بعد بھی شاعر نے ایک سندیسہ دے رکھا ہے(کاش کہ کچھ اور کلام سامنے ہوتا)۔
طلسمِ ذات سے نکلے تو یہ ہوا معلوم
یہ کائنات تو ایک قطرہ ہے بحرِ وجداں کا
‘طلسمِ ذات’سے نکلنے کے بعد معلوم ہوا۔کہ یہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔اک قطرہ تیرے تبسم کا۔اڑ گیا تھا شراب خانے سے ۔حوض کوثر اسے بنا ڈالا۔زاہدوں نے کسی بہانے سے۔ وسیع و عریض کون و مکاں میں کائنات تو”ایک قطرہ ہے بحرِ وجداں کا”جزو کل میں قطرہ سمندرمیں جذب ہو گیا۔اور بھی ذات کی نہیں فقط وجداں کی بات ہوئی ہے۔
اب چند باتیں آنس کی آخری تخلیق پر،جو خوش قسمتی سے غزل ہے۔غزل اظہار بھی ہے پردہ بھی۔ایک شعر میں من و تو کا عالم بیاں بھی ہوسکتا ہے اور ہزارہا تاویلات بھی۔
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
امیدِ سحربھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور
آنس نے واضح کر دیا کہ اب آخری منظر آنے والا ہے۔کہانی کا انجام سامنے ہے۔یہ انجام طے شدہ نہیں تھا، لیکن کہیں اس کھیل میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ آخری منظر چل گیا۔اب ایساکیوں ہو؟یہ کوئی اور بتائے گا۔اور باتیں والی زبانیں گنگ ہو گئیں۔زندگی کاتسلسل برقرار رہے گا۔دیئے جلتے رہیں گے۔کیوں کہ "شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحرہونے تک”۔
٭٭٭
آخری غزل
یہ قرض تو میراہے ، چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور،اشک بہائے گا کوئی اور
کیا پھر یونہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزااب کے بھی پائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
تب ہوگی خبر،کتنی ہے رفتارِ تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور
امیدِ سحربھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور
کب بارِتبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کو یہ اور
٭٭٭
نامکمل نظم
آنس معین
آج میری آنکھوں نے تم کو گرتے دیکھا
میں نے چاہا
تم کو بڑھ کے تھام لوں۔۔۔لیکن
میرے دونوں ہاتھ کسی نے کاٹ دیے تھے
یہ کربِ ذات کی وہ منزل ہے کہ انسان کچھ کرنا بھی چاہے لیکن مجبور اور بے بس ہو۔ ایک ایسی ہستی جو آپ کے لیے زندگی سے بڑھ کر ہو،اور وہ خاک بسر ہونے والی ہو۔آپ اسے تھامنا چاہیں۔اور تھام نہ سکیں۔ خواجہ فرید رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں”گل لاون کوں پھتکن باہیں”کی منزل پر ہوں لیکن ایک نادیدہ ہاتھ،آپ کے ہاتھ نہ رہنے دے۔اس سے زیادہ بے بسی اورکیاہوسکتی ہے؟
آنس معین جدید ادب کا ایک روشن ستارہ ہے جو کہیں آسمان کی وسعتوں میں گم ہے۔لیکن آسمانِ ادب پروہ آج بھی جگ مگا رہا ہے۔کہیں یاد کے بے نشاں جزیروں سے اس کی آواز کی روشنی آ رہی ہے۔اس کی شاعری روحِ عصر کے ایسے مخفی گوشے ،با اندازِ دگر وا کرتی ہے،کہ حیرت ہوتی ہے۔آنس نے خود ہی کہا تھا:
حیرت سے جوتم میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندرنہیں دیکھا
٭٭٭
ماخذ:
http://urduolevel.blogspot.com/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید