فہرست مضامین
- آسماں کشتی بنے گا
- رفیق سندیلوی
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- اس ای بک میں پہلے سے موجود برقی کتاب ’اثاثۂ شب‘ میں شامل غزلیں شامل نہیں ہیں)
- فسونِ خواب نے آنکھوں کو پتھر کر دیا تھا
- بھیانک رات تھی، منحوس سپنے آرہے تھے
- نہیں ،اس وقت میرے پاس کوئی شے نہیں تھی
- کسی کے لمس سے پہلے بدن غبار کیا
- بارش کی دیوار کے پیچھے پھرتا تھا
- کہاں پر ہیں مرے دیوار و در پانی نے سوچا
- ہم آسمان کی زمام تھامے گزر رہے تھے
- کسی منطقے سے مرا گزر نہیں ہو رہا
- ارض و سما تبدیل کرے گا جادہ میرا
- جسم کے تاریک لشکر سے بچائے گا مجھے
- کمر سے بوجھ قبرستان کا اُترے کسی دن
- میں رات کے بے درخت رستے پہ آ گیا تھا
- عجیب خطۂ تعبیر خواب کو دوں گا
- کسی آزمائش و امتحاں میں پڑا رہا
- سیاہ رات ہو ،ہر شے کو نیند آئی ہو
- دل کے زیریں طبقے میں تاریکی تھی
- بدن کے خاکداں میں اور کیا رکھا ہوا ہے
- آسمانی دائروں، مخروط ٹیلوں میں کہیں
- جو آسماں پر شہابِ ثاقب ابھر رہا ہے مرے لئے ہے
- آشنائے لمسِ عزرائیل ہو جائیں گے ہم
- افق اور آنکھ کے مابین سورج ٹانک دوں گا
- پسِ وجد سایۂ مہ نہیں مرا جسم تھا
- سحر تک اُس پہاڑی کے عقب میں رو کے آتا ہوں
- طلوعِ ماہِ مناجات سے نَفَس چمکے
- خلا چپو ,ستارا رات کا مانجھی بنے گا
- کسی نقشِ جسم کو راہ دے مرے آئینے
- مجھ کو آنا تھا سو میں بھی آ گیا آتے ہوئے
- ابھی تو طے نہ ہوا تھا مرا سفر آدھا
- اپنی قامت اپنے قد سے باہر آ
- بدن کو لا کیا تھا فرض میں نے
- کوتاہیاں تو سارے جہاں کی پکڑ سکا
- رفیق سندیلوی
آسماں کشتی بنے گا
رفیق سندیلوی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
اس ای بک میں پہلے سے موجود برقی کتاب ’اثاثۂ شب‘ میں شامل غزلیں شامل نہیں ہیں)
فسونِ خواب نے آنکھوں کو پتھر کر دیا تھا
اور اک تارہ حفاظت پر مقرر کر دیا تھا
مجھے سیرابی ء لب ناموافق پڑ گئی تھی
کسی پانی نے میرا جسم بنجر کر دیا تھا
طلسمی دھوپ نے اک مرکزِ عصرِ رواں میں
مرے قد اور سائے کو برابر کر دیا تھا
زمیں بے شکل تھی لیکن اُسے ہموار کر کے
مرے پاؤں کی گردش نے مدور کر دیا تھا
پڑا تھا میں زمیں پر خاک کے لوندے کی صورت
اڑا کر آندھیوں نے مجھ کو بے گھر کر دیا تھا
٭٭٭
بھیانک رات تھی، منحوس سپنے آرہے تھے
فضا میں اُلوؤں کے غول اُڑتے آرہے تھے
جلوسِ ابر ماتم کر رہا تھا اور سر پہ
ستارے تعزیہ شب کا اٹھائے آرہے تھے
کبھی ٹکتی نہیں تھیں ایک پل مشعل پہ آنکھیں
کبھی پلکوں پہ مہرِ گرم رکھے آرہے تھے
میں ہفت افلاک کی ڈھلواں چھتوں پر اُڑ رہا تھا
مرے رستے میں بادل اور تارے آرہے تھے
کسی دستِ طلسمی نے مری کشتی الٹ دی
بدن مغلوب تھا،پانی میں غوطے آرہے تھے
٭٭٭
نہیں ،اس وقت میرے پاس کوئی شے نہیں تھی
فقط اک خواب تھا اور ایک صبحِ نیلمیں تھی
ستارے بجھ رہے تھے جا نمازِ جسم و جاں پر
مگر اک کشف کی مشعل نَفَس میں جاگزیں تھی
کسی کو علم ہی کیا تھا،مری شمعِ مسافت
زمیں جس منطقے پر ختم ہوتی تھی،وہیں تھی
بظاہر سب کے سوکھے جسم جل تھل ہو گئے تھے
مگر وہ اک فریبِ آب تھا بارش نہیں تھی
مجھے بھی موت کا یہ تجربہ کرنا تھا اک دن
خوشی سے جان دے دی تھی کہ جانِ اولیں تھی
٭٭٭
کسی کے لمس سے پہلے بدن غبار کیا
پھر اُس کے بعد جنوں کی ندی کو پار کیا
انہیں بگاڑ دیا جو صفوں کے ربط میں تھیں
جو چیزیں بکھری ہوئی تھیں انہیں قطار کیا
بنی تھین پردہ ء جا ں پر ہزار ہا شکلیں
خبر نہیں کسے چھوڑا کسے شمار کیا
اندھیری شب میں تغیر پذیر تھی ہر شے
بس ایک جسم ہی تھا جس پہ انحصار کیا
مرے مکانِ جسد پہ مری حکومت تھی
کہ خود ہی غلبہ کیا خود ہی وا گذار کیا
وجودِ خاک تھا ،دریا سے جنگ کی میں نے
کہ سطحِ آب کو میدانِ کار زار کیا
کشش نے کھینچ لیا تھا زمین پر مجھ کو
سو گرتے گرتے بھی میں نے خلا شکار کیا
٭٭٭
بارش کی دیوار کے پیچھے پھرتا تھا
سورج سر پہ ایندھن لادے پھرتا تھا
سبز حرارت دوڑ رہی تھی پانی میں
موسم برف کے کپڑے پہنے پھرتا تھا
بیٹھ گیا تھا چاند زمیں کے پاؤں میں
اوجِ خلا سے ناطہ توڑے پھرتا تھا
دور، کُرے پر شور مچا تھا آندھی کا
بادل کان مںر انگلی ڈالے پھرتا تھا
قوسِ قزح کا آبی خطہ آنکھوں میں
رنگوں کا دوشالہ اوڑھے پھرتا تھا
جاگ رہا تھا سایہ دھوپ کی مٹھی میں
برف کا تودہ آنکھیں موندے پھرتا تھا
سرخ بگولے پیچھے پیچھے پھرتے تھے
قطبی تارا آگے آگے پھرتا تھا
٭٭٭
جنوں کی آخری حد کیا ہے مجھ کو کیا معلوم
میں آشنائے بدن اور دست و پا معلوم
بھڑک رہی ہے مرے گرد اک طلسمی لَو
رکھا ہُوا ہے سرہانے چراغِ نا معلوم
فشارِ خاک میں ہوں اور ارتکازِ آب
کہاں کہاں مجھے لے جائے گا خدا معلوم
میں روک دوں گا کسی روز دھڑکنیں دل کی
کروں گا مر کے کبھی راز موت کا معلوم
اندھیری رات نے پوچھا مرے بدن کا پتہ
نہیں تھا عِلم مجھے ، پھر بھی کہ دیا معلوم
٭٭٭
کہاں پر ہیں مرے دیوار و در پانی نے سوچا
تھمے گا کن نشیبوں میں سفر پانی نے سوچا
کہاں تک ابر کے زنداں میں ٹھہریں گے مرے پاؤں
لپٹ کر آسماں سے رات بھر پانی نے سوچا
کبھی لہروں کو سوتا چھوڑ کر دریا سے نکلوں
قدم رکھوں کبھی صحراؤں پر پانی نے سوچا
ابھی کرنا ہے ماتم کشتیء غرقاب کا بھی
پٹخنا ہے ابھی ساحل پہ سر پانی نے سوچا
زمیں کے تین حصوں پر ہے میری حکمرانی
بنے گا خاکداں کب تک سپر پانی نے سوچا
کبھی یلغار کر دوں شب کے کالے بازوؤں پر
بجھا ڈالوں کبھی شمعِ سحر پانی نے سوچا
٭٭٭
ہم آسمان کی زمام تھامے گزر رہے تھے
فرشتے جب شانۂ زمیں پر اُتر رہے تھے
ہِمیں نے براق موسموں میں وجود پایا
ہِمیں نجس رُت میں دھول بن کر بکھر رہے تھے
سماوی پتھر کہیں دہانوں پہ رُک نہ جائیں
ہم ارضی غاروں کی سمت جانے سے ڈر رہے تھے
کبھی جنم لے رہے تھے آوازِ آئینہ میں
کبھی زنگارِ صدا کی باہوں میں مر رہے تھے
چھپے رہے تھے کبھی اندھیرے کی برجیوں میں
کبھی سرِ عام کنگرۂ نور پر رہے تھے
کبھی پھلوں سے جھکی رہی تھیں ہماری شاخیں
کبھی سرے سے درختِ جاں بے ثمر رہے تھے
جہاں مَیں آبِ سیاہ میں غرق ہو رہا تھا
اُسی جگہ سے سفید ٹیلے ابھر رہے تھے
٭٭٭
کسی منطقے سے مرا گزر نہیں ہو رہا
کئی کوس چل کے کھُلا ، سفر نہیں ہو رہا
کوئی آسماں نہیں بن رہا مرا ہم قدم
کوئی خاکداں مرا مستقر نہیں ہو رہا
یہ عجیب شب ہے کہ ہو رہی ہے طویل تر
یہ عجیب دن ہے کہ مختصر نہیں ہو رہا
کوئی جنگ ہے جو نہیں بدن سے نہیں لڑی گئی
کوئی معرکہ ہے جو مجھ سے سر نہیں ہو رہا
٭٭٭
ارض و سما تبدیل کرے گا جادہ میرا
سورج،شب اور پانی سے ہے وعدہ میرا
پیڑ،ستارے،عورت، دودھ اور میٹھی نیندیں
چھن سکتا ہے مجھ سے رزق کشادہ میرا
سات طبق،چھ جہتیں ،چاروں کھونٹ عمامہ
اور ستارہ چوغہ ، چاند لبادہ میرا
کچھ میدان سے باہر ، کچھ میدان میں ہوگا
نصف بدن اسوار اور نصف پیادہ میرا
ساری جنسوں ، سب اعداد کا موجد ہوں میں
جفت اور طاق ہیں میرے نر اور مادہ میرا
٭٭٭
جسم کے تاریک لشکر سے بچائے گا مجھے
اک ستارہ رات کے شر سے بچائے گا مجھے
میرے پہرے پر مقرر ہوگا باہر سے بدن
اور مرا یہ نفس اندر سے بچائے گا مجھے
مجھ کو صحرا سے بچائے گی اسی صحرا کی ریت
اور یہی پانی سمندر سے بچائے گا مجھے
موت جس ساعت مجھے آنی ہوئی آ جائے گی
کون زہر آلود خنجر سے بچائے گا مجھے
یہ پناہِ بام و در بزدل کرے گی اور بھی
اک کھلا میدان ہی ڈر سے بچائے گا مجھے
٭٭٭
کمر سے بوجھ قبرستان کا اُترے کسی دن
کہ اب چھلکا مری پہچان کا اُترے کسی دن
کبھی اترا نہیں جو مسندِ آبِ رواں سے
زمیں پر پاؤں اس انسان کا اُترے کسی دن
کبھی دروازۂ مرگِ بدن سے میں بھی گزروں
مرے سر سے بھی صدقہ جان کا اُترے کسی دن
کسی دن جفت ساعت میں دُعا کا ہاتھ تھامے
ہیولا سا مرے مہمان کا اُترے کسی دن
نکل آئے کبھی پھر بیچ میں سے خاک چہرہ
بنفشی رنگ میرے دھیان کا اُترے کسی دن
کبھی میں جذب کے عالم میں ہو جاؤں برہنہ
لبادہ پھر مرے وجدان کا اُترے کسی دن
٭٭٭
میں رات کے بے درخت رستے پہ آ گیا تھا
مرا ستارہ زمیں کے نقطے پہ آ گیا تھا
لکھی تھی پانی کی موت میری۔اسی لئے تو
جہاز سے میں نکل کے عرشے پہ آ گیا تھا
بدل رہا تھا نظامِ شمسی مدارِ جاں میں
لہو کا خورشید ڈیڑھ نیزے پہ آ گیا تھا
مجھے ٹھکانہ نیںا ملا تھا کسی طبق پر
میں تھک کے خاکی بدن کے ٹیلے پہ آ گیا تھا
مری صدا گھوم کر عطارد پہ آ گئی تھی
اُبھر کے وہ بھی زحل کے پردے پہ آ گیا تھا
جمے ہوئے تھے مرے قدم آسماں کے سر پر
زمین کا بوجھ میرے کندھے پہ آ گیا تھا
٭٭٭
عجیب خطۂ تعبیر خواب کو دوں گا
میں ایک خاک کی جاگیر خواب کو دوں گا
میں کاٹ دوں گا اندھیرے میں اُس شبیہ کا ہاتھ
کسی طلسم کی شمشیر خواب کو دوں گا
رکھوں گا ایک طلائی ستارے کی بنیاد
اور ایک وعدۂ تعمیر خواب کو دوں گا
بدن سے پھوٹے گی لذت ،مٹھاس اور خوشبو
شراب و عورت و انجیر خواب کو دوں گا
میں جیت لوں گا کسی رات چاند کا میدان
اور ایک جرأت تسخیر خواب کو دوں گا
٭٭٭
کسی آزمائش و امتحاں میں پڑا رہا
میں سیاہیء شبِ خاکداں میں پڑا رہا
میں کہ علمِ غیب نہ جانتا تھا مگر یہ دل
کسی آبِ کشفِ رواں دواں میں پڑا رہا
کوئی سالمہ تھا جنون کا مرا خواب بھی
سو اسی لئے مری چشمِ جاں میں پڑا رہا
مری شش جہات میں کوئی آخری حد نہ تھی
میں وسیع تھا، سرِ لا مکاں میں پڑا رہا
٭٭٭
سیاہ رات ہو ،ہر شے کو نیند آئی ہو
مرے وجود کی تقریبِ رونمائی ہو
رکھا گیا ہو ہر اک خواب کو قرینے سے
زمینِ حجلۂ ادراک کی صفائی ہو
اس اعتکافِ تمنا کی سرد رات کے بعد
میں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے ،ساعتِ موجود
مجھے قدیم زمانے میں کھینچ لائی ہو
نکل پڑوں میں کوئی مشعلِ فسوں لے کر
قیام گاہِ ابد تک مری رسائی ہو
میں اُس کے وار کو سانسوں کی ڈھال پر روکوں
سوارِ مرگ سے گھمسان کی لڑائی ہو
٭٭٭
دل کے زیریں طبقے میں تاریکی تھی
سب سے روشن تارے میں تاریکی تھی
شب کی تھیلی بھری ہوئی تھی کرنوں سے
دل کے خالی بستے میں تاریکی تھی
جس میں چھپ کر مَیں صدیوں سے بیٹھا تھا
اس کہسار کے درے میں تاریکی تھی
جسم و خلا میں سانس اور تارے غائب تھے
شام اور موت کے سائے میں تاریکی تھی
سبز شعاعیں پھوٹ رہی تھیں ٹاپوں سے
اور سوار کے رستے میں تاریکی تھی
تیر رہا تھا سورج خواب کے پانی میں
آنکھ کے آخری حصے میں تاریکی تھی
٭٭٭
بدن کے خاکداں میں اور کیا رکھا ہوا ہے
اندھیری رات کا اندوختہ رکھا ہوا ہے
کسی دن عنصرِ خاکی سے نکلوں گا دبے پاؤں
کہ میں نے بھی ارادہ موت کا رکھا ہوا ہے
بجھا ہے جسم لیکن جسم کی محراب اندر
جلا کر اک چراغِ لامسہ رکھا ہوا ہے
زمینِ خواب ہوں اور میں نے اپنے آئینے میں
نہیں معلوم کس کا عکسِ پا رکھا ہوا ہے
ستارہ رات کا ہوں اور مَیں نے گھومنے کو
خلا میں کھینچ کر اک دائرہ رکھا ہوا ہے
٭٭٭
آسمانی دائروں، مخروط ٹیلوں میں کہیں
بٹ گیا ہوں میں فضا کے چار طبقوں میں کہیں
ڈولتی پھرتی ہے میری کشتیِ یک دو نَفَس
عمر کے دریاؤں کی شہ زور موجوں میں کہیں
پارہ پارہ ہو گیا میرے جسد کا آئینہ
کائناتِ شش جہت میں چار کھونٹوں میں کہیں
ڈھونڈتا ہے کوئی مجھ کو چاند کی مشعل لئے
میں چھپا ہوں رات کے بے نور پردوں میں کہیں
بیضوی شکلوں میں پھرتے ہیں بگولے میرے گِرد
اور میں تنہا کھڑا ہوں سرد خطوں میں میں کہیں
٭٭٭
جو آسماں پر شہابِ ثاقب ابھر رہا ہے مرے لئے ہے
چراغ جو خاکداں کے پانی میں مر رہا ہے مرے لئے ہے
وہ میرا جگنو تھا جو زمیں کے ستونِ آخر سے منسلک تھا
فصیلِ اول سے جو شرارہ گزر رہا ہے مرے لئے ہے
بھری ہے سورج نے جست میرے لئے خلاؤں کی وسعتوں میں
جو چاند دیوارِ کہکشاں سے اُتر رہا ہے مرے لئے ہے
مرے لئے ہی دھرا ہے دن کی مسافرت پر تھکن کا قطرہ
قیامِ شب میں جو بحرِ ہمت بپھر رہا ہے مرے لئے ہے
ہوا کی بالائی تہ کا نیلا سکوت ہے میرے واسطے ہی
جو رعد بن کر زمیں کی چھت پر اتر رہا ہے مرے لئے ہے
٭٭٭
آشنائے لمسِ عزرائیل ہو جائیں گے ہم
غیر مرئی شکل میں تبدیل ہو جائیں گے ہم
پیچھے ہٹتا جائے گا آواز کا بحرِ نشور
گونگے بہرے پانیوں کی جھیل ہو جائیں گے ہم
جائیں گے ہم خال و خد سے اک ہیولے کی طرف
پھر ہوا کے جسم میں تحلیل ہو جائیں گے ہم
جب رہائی پائیں گے خاکستری اشکال سے
رفتہ رفتہ روئے آبِ نیل ہو جائیں گے ہم
ختم ہو جائے گا پھر ابلاغ کا سارا فسوں
جب سماعت گاہ تک ترسیل ہو جائیں گے ہم
٭٭٭
افق اور آنکھ کے مابین سورج ٹانک دوں گا
میں کہرے میں بھی اس کے خال و خد پہچان لوں گا
ستارے، کشتیاں اور اونٹ میرے ساتھ ہوں گے
میں راتوں رات دریا کے کنارے جا لگوں گا
خمیرِ آب و آتش ہوگا میری دسترس میں
بگولے گوندھ لوں گا،سُرمئی بادل بُنوں گا
مرے چو گرد ہو گا شام کے سایوں کا منظر
افق کی روشنی کا سرخ چہرہ چوم لوں گا
٭٭٭
پسِ وجد سایۂ مہ نہیں مرا جسم تھا
کسی خانقاہ کی سر زمیں مرا جسم تھا
کوئی دیکھتا مرے خال و خد کی برہنگی
شبِ یک نفس میں بڑا حسیں مرا جسم تھا
مرے جسم میں بھی کہیں کہیں مری روح تھی
مری روح میں بھی کہیں کہیں مرا جسم تھا
کوئی ایک رنگِ وجود ہو تو یقین ہو
کبھی قرمزی ،کبھی نیلمیں مرا جسم تھا
مگر ایک رات کا ذکر ہے کہ مدار میں
کسی روشنی کے بہت قریں مرا جسم تھا
٭٭٭
سحر تک اُس پہاڑی کے عقب میں رو کے آتا ہوں
میں نقطہ ہائے گریہ پر اکٹھا ہو کے آتا ہوں
اُدھر رستے میں چوتھے کوس پر تالاب پڑتا ہے
میں خاک اور خون سے لتھڑی رکابیں دھو کے آتا ہوں
یہاں اک دشت میں فرعون کا اہرام بنتا ہے
میں اپنی پشت پر چوکور پتھر ڈھو کے آتا ہوں
ابھی کچھ بازیابی کا عمل معکوس لگتا ہے
میں جب بھی ڈھونڈنے جاتا ہوں خود کو کھو کے آتا ہوں
جہاں پرچھائیں تک پڑتی نہیں ہے خاک زادوں کی
اُسی خالی کُرے پر سات موسم سو کے آتا ہوں
٭٭٭
طلوعِ ماہِ مناجات سے نَفَس چمکے
اندھیری شب میں مرے جسم کا کلس چمکے
چھٹیںفضاؤں سے نا ممکنات کے بادل
کوئی ستارۂ امکان اِس برس چمکے
اب انتظار کا اک پل بھی ہے گراں مجھ کو
جسے چمکنا ہے اِس آسماں پہ بس چکمے
اچانک ایک شعاعِ سفر ہویدا ہو
سوار زین کَسے ، دیدۂ فرس چمکے
٭٭٭
خلا چپو ,ستارا رات کا مانجھی بنے گا
زمیں پانی بنے گی آسماں کشتی بنے گا
بندھے جائیں گے پھر چودہ طبق کے ہاتھ پاؤں
کوئی کالا سمندر بان کی رسی بنے گا
سجے گی روشنی سے خاک کی نازک کلائی
کبھی یہ دب اکبر کانچ کی چوڑی بنے گا
پھریں گے معرفت کی تنگنائے میں ستارے
ولی سورج بنے گا ,مشتری صوفی بنے گا
بنفشی رنگ ہوں اور جس کے اندر رتجگے ہوں
ہوا کا پیرہن اس آنکھ کی وردی بنے گا
جہاں گرتا رہا ہے بے حسی کا سرد پانی
اسی مٹی کے خلیوں سے کوئی باغی بنے گا
شکستہ پاؤں پر کھل جائیں گے اسرار سارے
سفر تالا بنے گا,راستہ کنجی بنے گا
٭٭٭
کسی نقشِ جسم کو راہ دے مرے آئینے
کبھی خود کو اذنِ گناہ دے مرے آئینے
میں زنگارِ درد میں عمر اپنی گزار دوں
مجھے سسکیاں ،مجھے آہ دے مرے آیئنے
کہاں قتلِِ عکس روا ہوا،کہاں خوں بہا
کوئی چشم دید گواہ دے مرے آئینے
مرے آئینے میں فصیلِ شامِ سیاہ ہوں
مجھے سورجوں کی سپاہ دے مرے آئینے
میں کیاں تلک کسی سنگِ شب میں چھپا رہوں
مجھے اپنے گھر میں پناہ دے مرے آئینے
٭٭٭
مجھ کو آنا تھا سو میں بھی آ گیا آتے ہوئے
رک سکتا نہیں کسی سے حادثہ آتے ہوئے
اک کُرہ ایسا ہے میرے جسم میں کھ اس طرف
شہ رگ سے لوٹ جاتی ہے ہوا آتے ہوئے
اک با برکت ستارہ ٹھیر جاتا ہے کہیں
اور رک جاتی ہے ہونٹوں پر دعا آتے ہوئے
ایک صوتی لہر گردِ خواب سے اٹھتی ہوئی
دشتِ شب سے کچھ سوارِِ بے صدا آتے ہوئے
مجھ کو جانے دے کسی صبحِ مسافت کی طرف
میں دعا کی روشنی لے آؤں گا آتے ہوئے
٭٭٭
ابھی تو طے نہ ہوا تھا مرا سفر آدھا
وہ لے گیا ہے مرا جسم کاٹ کر آدھا
رہا نہ شاملِ محنت جو ایک چوتھائی
وہی شجر سے اتارے گا اب ثمر آدھا
گرا کے سانجھ کی دیوار اپنے آنگن میں
ملا لیا ہے پڑوسی نے میرا گھر آدھا
تری گلی سے گزرتے ہیں تیرے دشمن بھی
کھلا نہ چھوڑ گیا کر مکاں کا در آدھا
کچھ ایسے خوف سے چڑیا اڑی صنوبر سے
الجھ کے ٹوٹ گیا ٹہنیوں میں پر آدھا
٭٭٭
اپنی قامت اپنے قد سے باہر آ
پانی ہے تو جزر و مد سے باہر آ
برگ و بار میں چھپ کر یوں آواز نہ دے
ڈائن ہے تو اِس برگد سے باہر آ
دیواروں کو اوڑھ ازل کے اندر رہ
چاروں موسم توڑ ابد سے باہر آ
گھر میں خندق کھود کے کب تک بیٹھے گا
لڑنا ہے تو پھر سرحد سے باہر آ
میرے وار سے کوئی کم ہی بچتا ہے
دشمن زادے میری زد سے باہر آ
ہری صدائیں تیرا رستا تکتی ہیں
خاموشی کی زرد لحد سے باہر آ
٭٭٭
بدن کو لا کیا تھا فرض میں نے
جنوں میں کیا کیا تھا فرض میں نے
کفِ خاکی پہ رکھ کر ایک قطرہ
اُسے دریا کیا تھا فرض میں نے
اُچھالی تھی خلا میں ایک مشعل
اور اک تارا کیا تھا فرض میں نے
شبِ نا گفت میں ہر ایک شے کو
کوئی قصہ کیا تھا فرض میں نے
جو میرے اور افق کے درمیاں تھا
اسے پردہ کیا تھا فرض میں نے
٭٭٭
کوتاہیاں تو سارے جہاں کی پکڑ سکا
لیکن وہ اپنے گھر کی نہ چوری پکڑ سکا
بازو کٹے تو پھر نہ مرا جنگ جو کبھی
میدانِ کارزار میں برچھی پکڑ سکا
بچے اداس بیٹھے ہیں جالوں کے سامنے
پھر آج ماہی گیر نہ مچھلی پکڑ سکا
ظالم مہاجنوں نے کھڑی فصل بیچ دی
دہقان ہاتھ میں نہ درانتی پکڑ سکا
ماں باپ میرے ہوں گے پریشاں بہت رفیق
گر میں نہ آج شام کی گاڑی پکڑ سکا
٭٭٭
ماخذ:
http://www.freeurdupoetry.com/?q=Urdu-Poetry-Of-Rafiq-Sandeelvi
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبد