فہرست مضامین
- آدھی رات کا سورج
- شہیدوں کی شاہراہ
- مستقبل نما ماضی نما
- میڈرڈ، دو کشتیوں کا مسافر
- ہسپانوی شہزادی کی مہم جوئی
- قریش کا پردیسی عقاب
- عبدالرحمٰن اول کی اندلس آمد
- اندلس میں عظیم الشان اموی سلطنت کی داغ بیل
- اے حرمِ قرطبہ
- معبد۔۔ کلیسا۔۔ مسجد۔۔ کلیسا
- اندلس کا طوطیِ ہزار داستان
- ابنِ فرناس کی پرواز اور مدینہ الزہرا
- خوابوں خیالوں کا شہر
- اندلس کا شہرِ رومان، اشبیلیہ
- اشبیلیہ کا البیلا بادشاہ
- کیسی بلندی کیسی پستی
آدھی رات کا سورج
زیف سید
شہیدوں کی شاہراہ
آج میرا پیرس میں دوسرا اور آخری دن تھا۔ اگرچہ کل سارا دن پھرکی کی طرح ادھر ادھر گھومتا پھرتا رہا تھا اس لیے رات شدید تھکان تھی۔ مگر اس کے باوجود صبح سویرے اٹھنا پڑا کیوں کہ مجھے جنوبی فرانس جانے کے لیے ٹرین پکڑنا تھی۔ رائل فرومنٹین ہوٹل کی دلِ کنجوس سے بھی تنگ لفٹ سے جب میں اتر کر استقبالیے پر پہنچا تو میرے نام استقبالیہ خاتون کا پیغام موجود تھا۔ بے حد ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ میں اپنا سوٹ کیس ہوٹل ہی میں چھوڑ کر جا سکتا ہوں اور یہ کہ سپین سے واپسی پر میرے لیے اسی ہوٹل میں بکنگ ہو چکی ہے۔
چوں کہ ناشتہ ہوٹل کے کرائے ہی میں شامل تھا، اس لیے کرنا ضروری تھا، لیکن مالٹے کے کھٹے جوس، چند لمبوتری فرانسیسی ڈبل روٹیوں اور کسیلی کافی کے سوا ناشتے کی میز پر کچھ نہیں تھا۔ سفید ایپرن باندھے ہوئے شفیق باور چن نے مجھے ناشتے کی خوبیوں پر شستہ فرانسیسی میں لیکچر دیا لیکن ظاہر ہے کہ اپنے پلے کوئی بات نہیں پڑی۔
جب میں ٹیکسی لے کر مونت پارنیس ٹرین سٹیشن پہنچا تو لشکتی چمچماتی ٹی وی جی ٹرین جنوبی فرانس کے شہر بوردو جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ اب کہا نہیں جا سکتا کہ عام طور پر اس روٹ پر زیادہ مسافر سفر نہیں کرتے یا اتفاق سے وہ ہفتے کا کوئی ایسا دن جب زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں ہوتی، کہ ٹرین زیادہ تر خالی پڑی تھی۔ میں نے اپنے لیے ایک سیٹ کا انتخاب کیا اور چند لمحوں بعد ٹرین چل دی۔
ٹی وی جی بلٹ ٹرین ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار تین سو کلومیٹر فی گھنٹا ہے ، اس لیے یہ پلک جھپکتے ہی پیرس کی حدوں سے نکل گئی۔ میرے سامنے ایک بظاہر مفلوک الحال سا خاندان بیٹھا ہوا تھا، تین بچے ، ایک درمیانی عمر کی خاتون اور ایک بڑی عمر کی محترمہ۔ انداز سے وہ مجھے جپسی معلوم ہوئے۔ جپسیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ایک ہزار سال قبل پنجاب کے میدانوں سے ہجرت کر کے یورپ میں جا آباد ہوئے تھے ، اور ان کی زبان میں اب بھی پنجابی اور سرائیکی زبانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ میں نے اس لالچ میں ان کی گفتگو غور سے سننے کی کوشش کی کہ شاید کوئی شناسا لفظ کان میں پڑ جائے لیکن اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی۔
میری منزل پوئٹیرز کا ننھا منا شہر تھا، جو پیرس سے کوئی ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ راستے میں تین سٹیشن پڑے لیکن اس کے باوجود ٹرین گھنے جنگلوں، سرسبز کھیتوں اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں سے ہوتی ہوئی ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اندر پوئیٹیرز پہنچ گئی۔
پوئیٹیرز بہت پرانا شہر ہے۔ اس کی بنیاد رومی سلطنت کے آغاز سے بھی پہلے پڑ چکی تھی۔ رومی دور میں بڑی شاہراہ کے قریب ہونے کی وجہ سے شہر کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ اس زمانے کی کئی یادگاریں شہر میں موجود ہیں۔ شہر کی گلیاں تنگ اور اونچے نیچے پتھر کی بنی ہوئی ہیں۔ گلیوں میں سیاحوں کی سہولت کے لیے نیلی، پیلی اور سرخ رنگ کی راہ نما پٹیاں بنائی گئی ہیں جن پر چلتے ہوئے آپ شہر کی اہم عمارتیں اور دل چسپی کے دوسرے مقامات باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔
غالباً پوئیٹیرز کی سب سے اہم تاریخی عمارت نوٹرے ڈیم کا کیتھیڈرل ہے۔ اسی کا زیادہ مشہور ہم نام بھائی پیرس میں ہے ، لیکن گاتھک انداز میں بنایا گیا ہلکے بھورے رنگ کا یہ کلیسا بھی بہت رعب دار اور پر تمکنت ہے۔ اسے بارھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مجھے کلیسا کی بیرونی دیواروں اور مخروطی محرابوں کے ارد گرد بنائے گئے ابھرواں سنگ تراشی کے نمونوں نے بے حد متاثر کیا، جن میں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آخری عشائیے تک کی داستان تصویری شکل میں پیش کی گئی ہے۔ ان مجسموں کو دیکھ کر مجھے بچپن میں جنگ اخبار میں شائع ہونے والی ٹارزن کی تصویری یا کامک کہانیاں یاد آ گئیں جن کے خالق ہر ہفتے کہانی کو اس قدر سنسنی خیز موڑ پر چھوڑ دیتے تھے کہ اگلی قسط کے انتظار میں ہفتہ کاٹنا دوبھر ہو جاتا تھا۔
لیکن میں نے اتنا کشٹ پوئیٹیرز کا کلیسا دیکھنے کے لیے نہیں اٹھایا تھا، اس لیے ہوٹل میں سامان رکھ، ہاتھ منھ دھو اور کپڑے بدل کر میں باہر نکل آیا۔ اسی اثنا میں ہوٹل والے کے عملے نے فون کر کے ٹیکسی منگوا لی تھی۔ چھوٹی سی رینو ٹیکسی میں سیاہ فام ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر میں شہر کے شمال مشرق کی طرف روانہ ہو گیا۔ میری منزل بیس کلومیٹر دور ایک جگہ تھی۔ راستے میں ایک بے حد دل کش نیلگوں جھیل نظر آئی لیکن میں کوشش کے باوجود اس کا نام نہیں دیکھ سکا۔
آدھے گھنٹے کے بعد ٹیکسی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنی ہوئی ایک عمارت کے سامنے کھڑی تھی، جس کے بائیں طرف ایک چھوٹی ندی بہتی ہے جو کئی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں منقلب ہو جاتی ہے ، جب کہ دائیں طرف اونچی نیچی زمین پر ہرے بھرے کھیتوں کے بعد ایک چھوٹی سی بستی ہے جس کے ساتھ ساتھ ایک دریا کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے۔
یہ وہ مقام ہے جسے فرانسیسی میں موسائی بتائل Moussais-la-Bataille اور عربی میں بلاط الشہدا کہتے ہیں۔
میں ٹیکسی سے اتر آیا۔ مئی کا مہینہ ہے ، لیکن پھر بھی ہلکی سی خنکی کا احساس ہو رہا ہے۔ آسمان کسی بچے کی آبی رنگوں سے بنائی ہوئی تصویر کے مانند بے حد نیلا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دور سڑک سے کسی گاڑی کی آواز کے باوجود فضا گمبھیر سکوت کی تہوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ میں گہرا سانس لے کر کچھ سننے کی کوشش کرتا ہوں۔ خاموشی، بے کراں خاموشی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد مجھے مدھم مدھم سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ غور سے سننے کی کوشش کرتا ہوں تو آوازیں کچھ کچھ واضح ہونا شروع ہوتی ہیں، جیسے ریڈیو کی سوئی گھما کر سٹیشن کی نشریات صاف ہو جاتی ہیں۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹیں، آپس میں ٹکراتی ہوئی تلواروں، نیزوں اور بھالوں کی کھنک، تیروں کی سنسناہٹ، یلغار کرتے ہوئے دستوں کے پر
حقیقٹہوا (ترندعون اور ثمود و ھکھوں گا۔
کون ہیں، تو کیا جواب دوں،جوش نعرے ، زخمیوں کی فریادیں۔
رفتہ رفتہ پہاڑی پر بنی عمارتیں تحلیل ہو جاتی ہیں، دامن میں لپٹی ہوئی سڑک غائب ہو جاتی ہے ، دائیں ہاتھ پر بنا گاؤں روپوش ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس جگہ گھنا جنگل اُگ آتا ہے۔
نیچے پہاڑی کے دونوں جانب پھیلے میدان میں تا حدِ نگاہ سیاہ رنگ کے خیمے نصب ہیں، جن کے آگے میدان میں قِطاروں میں گھڑ سوار ہاتھوں میں بھالے تھامے ترتیب سے کھڑے ہیں۔ پہاڑی پر درختوں کے اندر بھی بے حد ہل چل کا سماں ہے ، جہاں سے چڑھائی شروع ہوتی ہے وہاں، ہاتھوں میں لکڑی کی ڈھالیں سنبھالے ، شانے سے شانہ، قدم سے قدم ملائے سپاہیوں کی قطاریں ایستادہ ہیں، جو دور کسی ہزار پا کی طرح نظر آ رہی ہیں۔
گھڑ سواروں کی قطاروں میں سے ایک درمیانی عمر کا شخص اپنے سیاہ شامی گھوڑے کو ایڑ لگا کر لشکر کے بائیں طرف لے گیا۔ اس کا تمام بدن زنجیر دار زرہ بکتر میں ملفوف ہے اور سر پر آہنی خود ہے جس نے چہرے کے ایک حصے کو بھی ڈھانپ رکھا ہے۔ آنکھیں بے حد نمایاں اور چمکیلی ہیں جن میں عزم کی سختی جھلکتی ہے۔ یہ عبدالرحمٰن ابن عبداللہ الغافقی ہے۔
30 ہزار گرم و سرد چشیدہ سواروں پر مشتمل اس کی فوج کا دریا رومیوں کی بنائی ہوئی نیم پختہ شاہ راہ پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا ’ارض الکبیر‘ پر بڑھا چلا جا رہا ہے کہ یکایک اس کا راستا جنگل میں کھڑی فرنگی ہزار پا نے روک دیا ہے۔
الغافقی کی فوج فوج کا بیشتر سواروں پر مشتمل ہے۔ ہر سوار سر سے پیروں تک زرہ بکتر میں غرق ہے۔ عرب کمان داروں کی زرہِ بکتر باریک زنجیروں پر مشتمل ہیں، جو تلوار کا وار اُچٹنے کے لیے بے حد کارگر ہیں۔ جری بربر سورماؤں کے ہاتھ میں لمبے نیزے ہیں۔ یہ دشمنوں کی صفیں پلٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
دوسری طرف فرنجی فوج کا غالب حصہ پیادہ سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ اور ویسے بھی یہ بات ہے سنہ 732ء کی۔ اس وقت یورپ میں بھاری کیولری مفقود ہے ، جس کی وجہ ایک بہت سادہ اور بظاہر معمولی نظر آنے والی چیز گھوڑے کی رکاب کا نہ ہونا ہے۔ بغیر رکاب کے گھڑ سوار فوجی میدانِ جنگ میں آسانی سے پینترا بدلنے اور دشمن پر موثر حملہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کا ذکر آتے ہی ذہن میں زرہ پوش نائٹ کا خیال آتا ہے ، لیکن کم لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ یہ نائٹ دراصل عربوں نے یورپ میں متعارف کروایا تھا۔
الغافقی کے لیے فرانس نیا علاقہ نہیں تھا، گیارہ برس پیشتر وہ طولوس (Toulouse) کے معرکے میں السمح ابن المالک کی کمان میں لڑ چکا تھا۔ اس لڑائی میں اموی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ خود السمح میدانِ جنگ میں آنے والے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا تھا، لیکن اب الغافقی اپنے سپہ سالار کا بدلہ لینے 30 ہزار سواروں پر مشتمل فوج لے کر آن پہنچا ہے۔
الغافقی کے مدِ مقابل فرنجی فوج کی کمان چارلز مارٹل کے ہاتھ میں ہے ، جس نے ہر صورت میں اپنی سرزمین کو عربوں سے بچانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔
لیکن جو بات الغافقی اور چارلز مارٹل دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گی وہ یہ تھی کہ کچھ دیر بعد چھڑنے والی جنگ کو نہ صرف عہد ساز بلکہ تاریخ ساز قرار دیا جائے گا۔ الغافقی اور چارلز مارٹل نہیں جانتے تھے کہ اکتوبر کی اس سرد شام کے ایک ہزار برس بعد تاریخ دان ایڈورڈ گبن اس جنگ کے بارے میں لکھے گا کہ اس جنگ میں فتح عربوں کو :
پولینڈ کے میدانوں اور سکاٹ لینڈ کے پہاڑی درّوں تک لے جاتی۔ دریائے رائن نیل یا فرات سے زیادہ گہرا نہیں ہے۔ عرب بحری بیڑا بغیر لڑے ہوئے ٹیمز کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ آج آکسفرڈ یونیورسٹی میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی۔‘
تھوڑی آگے بڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سیاحوں کی سہولت کے فرانسیسی حکومت نے معلوماتی بورڈ نصب کر رکھے ہیں۔ یہیں زمین پر شطرنج کی طرز کے 64 خانے بنے ہیں جن کے اندر نہ صرف اس کارزار کی با تصویر تفصیلات رقم ہیں، بلکہ اسلام اور اسلامی تاریخ کے بارے میں معلومات درج کی گئی ہیں۔ بساط کے بیچوں بیچ ایک جھنڈا نصب کیا گیا ہے جس پر 732 کے ہندسے درج ہیں۔ معلوم نہیں اس جگہ کے بنانے والوں کو یہ معلوم تھا کہ نہیں کہ شطرنج ہندوستانیوں کی ایجاد سہی لیکن اسے عربوں ہی نے یورپ میں متعارف کروایا تھا۔
اور مئی کی اس چمکتی سہ پہر سے 1276 برس پہلے اسی جگہ تقریباً اسی وقت صدیوں پرانی شاہ راہِ روم پر سیلِ بلا کی مانند بڑھتی ہوئی زبردست فوج ظفر موج کو دیکھ کر الغافقی کی چھاتی فخر سے چوڑی ہو گئی۔ اس نے دل میں سوچا، کون ہے جو اس طوفانِ بلاخیز کے سامنے میدان میں ٹھہر سکے ؟
طورس کا سونے چاندی سے مالامال شہر صرف پچاس میل کے فاصلے پر تھا، جب کہ پیرس بھی دو سو میل سے زیادہ دور نہیں تھا کہ الغافقی کے جاسوسوں نے اسے رومی شاہ راہ کے بائیں طرف پہاڑی پر واقع جنگل میں فرانسیسی فوج کے اجتماع کی اطلاع دی۔
لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اس زمانے کا فرانس ایک اکائی نہیں تھا بلکہ فقیر کی گدڑی کی طرح چھوٹی چھوٹی اکثر باہم متحارب ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن کا سلسلہ ہسپانیہ کی سرحد سے لے کر انگلش چینل تک چلا گیا تھا۔ ان ریاستوں کے سردار پلک جھپکتے میں وفاداریاں، ہمدردیاں اور دشمنیاں تبدیل کرتے رہتے تھے۔
عبدالرحمٰن الغافقی یمن میں پیدا ہوا تھا۔ سپہ گری گھٹی میں پڑی تھی۔ اس نے برق رفتاری سے منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے ذاتی لیاقت اور فنونِ حرب میں مہارت کی بنا پر اموی اربابِ اختیار کی نظروں میں اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔ جب شمالی افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کے سپین پر چڑھائی کے ایک برس بعد خود ایک بڑی فوج لے کر 712ء میں سپین کا رخ کیا تو عبدالرحمٰن اس فوج کا حصہ تھا۔ جب 721ء میں طولوس کے باہر السمح شدید زخمی ہو گیا تو اس نے عبدالرحمٰن ہی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ چوں کہ اموی خلفا کے دستور کے مطابق فوج کا سپہ سالار ہی علاقے کا امیر ہوتا تھا، اس لیے عبدالرحمٰن جب بچی کھچی فوج لے کر قرطبہ لوٹا تو وہ اندلس کا امیر بن گیا۔
تاہم اس زمانے میں اندلس شمالی افریقہ کے گورنر کے ماتحت تھا جو عبدالرحمٰن کو پسند نہیں کرتا تھا، اس لیے اس نے اس عہدے پر ابن سہیم الکلبی کو تعینات کر کے عبدالرحمٰن کو جنوب مغربی فرانس کے علاقے ناربون کا امیر مقرر کر دیا جو اس زمانے میں اندلس کا چھوٹا سا صوبہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گورنر کو عبدالرحمٰن کی یہ عادت پسند نہیں تھی کہ وہ میدانِ جنگ میں دشمن کے زخمی سپاہیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا۔ عبدالرحمٰن کو ایک شرف یہ بھی حاصل تھا کہ وہ خلیفۂ دوم عمر فاروق کے صاحب زادے سے بے حد قریب تھا۔ اس کے علاوہ وہ پرہیزگاری اور ایمان داری کے ساتھ ساتھ شجاعت اور جنگی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ہر دل عزیز تھا۔
دو برس قبل خود اموی خلیفہ ہشام ابن عبدالملک نے الغافقی کو اندلس کا امیر مقرر کیا تھا۔ اس کے ذمے وہ کام پورا کرنا تھا جو السمح نے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ الغافقی نے اس مہم کے لیے خاص طور پر اپنے آبائی وطن یمن سے وفادار کمان دار منگوائے تھے ، جن کی بہادری اور جنگی لیاقت پر اسے کامل بھروسا تھا۔
عبدالرحمٰن الغافقی نے اپنی فوج کو فرانسیسی فوج کے بالمقابل پہاڑی کے دامن میں صف بندی کا حکم دے دیا۔ اس نے دیکھا کہ فرانسیسی فوجی پیادہ درختوں کے قریب سینے سے لے کر گھٹنوں تک آتی ہوئی بھاری چوبی ڈھالیں اٹھائے ، قدیم رومی انداز میں مربع کی شکل میں کلہاڑیاں اور تلواریں سونتے صفیں باندھے تیار کھڑے ہیں۔اگرچہ گھنے درختوں کی وجہ سے دشمن کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا، لیکن الغافقی پھر بھی زیادہ فکر مند نہیں تھا، بھلا گھڑ سوار اور پیادہ فوج کا کیا مقابلہ؟ الغافقی کے نیزہ بردار برق رفتار گھڑ سوار پل بھر میں پیادہ فوجیں کی صفیں الٹنے کے فن میں طاق تھے۔
فرانسیسی جرنیل چارلز مارٹل کو شاید آکسفرڈ یونیورسٹی کے میناروں کی اتنی فکر نہ ہو لیکن وہ یہ بات یقیناً جانتا تھا کہ اس مسلم فوج کا راستا روکنا بہت ضروری ہے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ 21 برس پیشتر طارق بن زیاد کی فوج نے صرف ایک برس کے اندر اندر پونے پانچ لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط جزیرہ نما آئیبریا کو روند دیا تھا۔ سوائے راڈرک کے ساتھ ایک معرکے کے بقیہ جزیرہ نما نے بغیر لڑے مسلمانوں کی بالا دستی کو قبول کر لیا تھا۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مسلمانوں نے تاریخ کے پلک جھپکتے ہی سنکیانگ اور پنجاب سے لے کر مغرب میں بحرِ اوقیانوس تک اپنے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
چارلز مارٹل اور اس کی فوج مسلسل بیس سال سے فرانس اور شمالی سپین کی راج واڑوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھے۔ باراں دیدہ جرنیل کو اچھی طرح سے علم تھا کہ کھلے میدان میں عرب فوج کا مقابلہ کرنا خودکشی کے مترادف ہے ، اسی لیے اس نے رومی شاہ راہ سے گریز کرتے ہوئے اپنی فوجیں اس پہاڑی پر پھیلے جنگل پر مرکوز کر لی تھیں۔ یہاں اس کی فوج اونچائی پر تھی، چناں چہ مسلمان گھڑ سوار یلغار نہیں کر سکتے تھے۔ مزید یہ کہ اس نے اپنے دستے جنگل کے اندر پھیلا رکھے تھے ، جس سے ایک تو اس کی فوج کی تعداد کا درست اندازہ لگانا مشکل تھا، دوسرے درختوں کے اندر گھوڑے بالکل بے اثر ہو گئے تھے۔
الغافقی نے چارلز کی حکمتِ عملی بھانپ لیا تھا، اس لیے اس نے جنگ کے پہلے چار دن تک معمولی جھڑپوں ہی پر اکتفا کی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سردیوں کا موسم تیزی سے بڑھا چلا آ رہا تھا،ادھر خوراک کے ذخیرے بھی اتنی ہی سرعت سے ختم ہو رہے تھے ، ساتھ ہی ساتھ رمضان کی آمد آمد تھی۔ الغافقی اپنے دارالحکومت قرطبہ سے ایک ہزار میل دور تھا، اس لیے اس جنگ کو لامتناہی طول دینا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔
چناں چہ جنگ کے چوتھے روز 25 اکتوبر بہ مطابق یکم کو الغافقی نے بھرپور حملہ کرنے کی ٹھان لی۔ صبح پو پھٹتے ہی اس نے صفوں کو ترتیب دینے کا حکم صادر کر دیا۔ میمنہ نے دائیں طرف سے پیش قدمی شروع کی اور میسرہ نے بائیں جانب سے۔ قلب طرفین سے تھوڑا پیچھے رہا۔ یہ عربوں کی مشہور و معروف ہلالی تشکیل تھی، جس کے ذریعے انھوں نے ماضی میں غنیم کے بھاری لشکروں کو درمیان میں گھیر کر درانتی کی طرح کاٹ ڈالا تھا۔
ان ہراول دستوں کے پیچھے پیادہ فوج بھی حرکت میں آ گئی۔ یہ سپر انداز دستے مقدمہ کہلاتے تھے۔ ان کے عقب میں مقاتلہ تھا۔ لوہے کے بھاری خود پہنے اور زنجیر دار زرہوں میں ملبوس ان دستوں کا کام یہ تھا کہ جب گھڑ سوار دشمن کی صفیں توڑ دیں تو یہ جا کر بچی کھچی پیادہ سپاہ کو درہم برہم کر دیں۔
تھوڑی ہی دیر میں ایسا تاریخ ساز معرکہ بپا ہونے والا تھا جس پر دنیا بھر کے مستقبل کا انحصار تھا۔
مستقبل نما ماضی نما
پوئیٹیرز کے اس تاریخی میدانِ کارزار سے چند میل دور حکومتِ فرانس نے امریکہ کے ڈزنی ورلڈ کی طرز پر فیوچروسکوپ یا مستقبل نما بنایا ہے۔ اس کے اندر کسی قسم کی جدتیں رکھی گئی ہیں۔ ان میں تھری ڈی سینما سب سے زیادہ مقبول ہے۔ ایک قسم کی تھری ڈی فلم میں زمین پر لاکھوں برس بعد رونما ہونے والی حیاتیاتی اور جغرافیائی تبدیلیوں کی بے حد دل چسپ انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ دیکھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس فرضی ماحول کے اندر پہنچ گیا ہے۔
اسی مستقبل نما کے اندر میں نے سوچا کہ اگر یہاں کوئی ماضی نما بھی ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا کہ انسان کم از کم اس علاقے میں پیش آنے والے اہم واقعات ہی کو دیکھ لیتا۔ تاہم کتابیں اسی قسم کے ماضی بین آلے کا کام سرانجام دیتی ہیں جن کی مدد سے ہم تیرہ صدیوں کی گرد کی موٹی تہہ صاف کر کے کچھ دھندلی دھندلی تصویریں اخذ کر کے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 25 اکتوبر 732ء یا یکم رمضان کو وہاں کیا معرکہ پیش آیا ہو گا۔
مسلمان فوج نے بھرپور حملہ شروع کر دیا،لیکن چارلز کے دو دھاری کلہاڑی بردار فوجی اپنی مربع رومی ترتیب میں ڈھال سے ڈھال ملائے میدان میں ڈٹے رہے۔ جوں ہی گھڑ سوار یلغار کر کے صفیں توڑنے کی کوشش کرتے ، فرانسیسی دوبارہ اپنی ترتیب برقرار کر لیتے۔754ء میں قرطبہ میں لکھی جانے والی ایک کتاب کے مطابق فرانسیسی سپاہ برف کی سلوں کی مانند کھڑی رہیں جو کسی طرح پگھلنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
732ء میں پیغمبرِ اسلام کے وصال کے ٹھیک ایک سو برس کے اندر اندر مسلمان دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن چکے تھے۔ اموی خلافت کی سرحدیں مشرق میں پنجاب، شمال میں سنکیانگ اور مغرب میں بحرِ اوقیانوس کے پانیوں تک پھیل چکی تھیں۔ ہسپانیہ میں بھی قدم جمائے انھیں 21 برس گزر چکے تھے۔ اس تمام عرصے میں کی جانے والی فتوحات میں مسلمان فوج کی تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہوا کرتی تھی۔ فوج کا بیشتر حصہ شہ سواروں پر مبنی ہوتا، جو برق رفتاری سے منزلوں پر منزلیں مار کر غنیم کو ششدر کر دیا کرتا تھا۔
سوار کے مقابلے پر پیادہ سپاہی کی کچھ زیادہ حیثیت نہیں ہوتی۔ ایک تو سوار زمین سے دو ڈھائی گز بلندی سے حملہ آور ہوتا ہے ، پھر اس کے نیزے یا تلوار کی کاٹ میں گھوڑے کی رفتار کا مومینٹم بھی شامل ہوتا ہے۔ اور اگر وار خالی بھی جائے تو وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر پیادے کی زد سے دور جا کر دوبارہ دھاوا بول سکتا ہے۔
لیکن چارلز مارٹل یہ ساری باتیں اچھی طرح سے جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ منتشر پیادہ فوج گھڑ سواروں کے مقابلے پر گاجر مولی کی طرح کٹ جائے گی۔ لیکن اگر یہی پیادہ فوجی نظم و ضبط کے ساتھ اکائی کی طرح میدان میں ڈٹ جائیں، تو بڑے سے بڑے شہ سوار لشکر کو بھی جوکھم میں ڈال سکتے ہیں۔ چارلز مارٹل کی فوج گذشتہ دو عشروں سے مسلسل حالتِ جنگ میں تھی۔ اس کے تجربہ کار فوجیوں نے رومیوں کی ایجاد کردہ ایک ہزار سال پرانی جنگی تشکیلات کو نئی زندگی دی تھی۔ ہر سپاہی کے پاس بھاری لکڑی کی مضبوط ڈھال ہوا کرتی تھی، جس پر تلوار، تیر یا نیزہ بے اثر تھے۔ سر پر مخروطی خود تھا جس کی ایک آہنی دھار اوپری ہونٹ تک آتی تھی، مقصد یہ تھا کہ ناک تلوار کے وار سے بچی رہے۔ لیکن اس فوج کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا زبردست نظم و ضبط تھا۔
چارلز مارٹل کی فوج رن میں یوں ڈٹی رہی کہ عرب شہ سواروں کو اس کے اندر گھسنے کے لیے کوئی رخنہ، کوئی درز نہیں مل رہی تھی۔ مسلم گھڑ سوار بار بار یلغار کرتے ، لیکن ہر بار فرنجی سپاہی انھیں یوں پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے جیسے سمندر کی پرشور لہریں سنگلاخ ساحل سے سر پٹک کر رہ جاتی ہیں۔
ایک دو دفعہ مسلم دستے برف کی سل کو کاٹ کر مربع کے اندر بھی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ، لیکن مارٹل کے سپاہیوں نے ہر بار دائیں بائیں سے بڑھ کر دراڑ کو پر کر دیا اور صورتِ حال جوں کی توں رہی۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ فرنجیوں کا مثالی نظم و نسق مسلم گھڑ سواروں کے بے پایاں جوش و خروش کا کہاں تک مقابلہ کرتا، لیکن اس موقعے پر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے جنگ کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیا۔ گھمسان کے رن کے دوران موقع بھانپ کر چارلز کے حلیف ڈیوک آف یوڈز نے گھڑ سواروں کے مختصر رسالے کے ساتھ مسلمان فوج کے عقب پر حملہ کر دیا۔پوئیٹیرز کے آس پاس کا علاقہ یوڈز کی عمل داری میں آتا تھا اس لیے اسے مقامی جغرافیے کا بہتر علم تھا، اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ایسے رخ سے حملہ کیا جہاں سے مسلم فوج کی اس کی توقع نہیں تھی۔
مسلمانوں نے فرانس کے وسط تک پہنچتے پہنچتے کئی شہر فتح کیے تھے اور ان فتوحات کا مالِ غنیمت لشکر کے عقب میں جمع تھا۔ یہیں خیموں میں فوجیوں کی بیویاں اور بچے بھی تھے۔ جب برسرِ پیکار مسلم سپاہیوں میں یہ افواہ پھیلی کہ دشمن نے عقب پر حملہ کر دیا ہے تو ان میں سراسیمگی پھیل گئی۔ کئی دستے اپنی ترتیب توڑ کو عقب کی طرف بھاگے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مالِ غنیمت بڑی حد تک سلامت ہے لیکن اسی افراتفری کا فائدہ اٹھا کر چارلز اور اس کے اتحادیوں نے اپنی دفاعی تشکیل چھوڑ کر پوری شدت سے دھاوا بول دیا۔
الغافقی نے دستوں کے انتشار سے پریشان ہو کر جو پلٹنے کی کوشش کی تو فرانسیسی سپاہیوں کے نرغے میں آ گیا۔ الغافقی تجربہ کار جرنیل تھا،اور زرہ بکتر میں لپٹا ہوا تھا، لیکن بدقسمتی سے دشمن کے نیزے کے وار کر کے اس کا گھوڑا گر گیا، اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے مسلم فوج کا سپہ سالار دلیری سے لڑتے ہوئے میدان میں کام آ گیا۔ اس کی ہلاکت کی خبر نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور مسلمان فوجیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ لیکن اسی اثنا میں رات کا اندھیرا پھیل گیا اور جنگ دوسرے دن کے لیے موقوف کر دی گئی۔
صبح سویرے چارلز مارٹل نے اٹھ کر مسلم خیموں کی طرف دیکھا تو اس کا دل ڈوبنے لگا، افق پر جہاں تک نظر جاتی تھی، مسلم سپاہیوں کے سیاہ خیمے نصب تھے۔ چارلز خوب سمجھتا تھا کہ کل کی فتح عارضی تھی اور مسلمان آج زخمی شیر کی طرح لڑیں گے۔
سورج افق سے بالشت بھر اوپر آ گیا، لیکن مسلم خیام سے کوئی حرکت تو کجا، کسی قسم کی آواز تک نہیں آ رہی تھی۔ نہ گھوڑوں یا بار برداری کے جانوروں کی ہنہناہٹ، نہ صدائے اذاں، نہ عربی، بربر، فارسی یا قسطیلی زبان میں کسی سپاہی کے بولنے کی آواز، کچھ بھی نہیں۔ چارلز مارٹل کا ماتھا ٹھنکا۔ یقیناً یہ کوئی جال ہے۔ جوں ہی اس کی فوج ڈھلوان اور جنگل کی پناہ چھوڑے گی، عرب فوج اس پر ٹوٹ پڑے گی۔ اس نے چند مخبر بھجوا کر جائزہ لینا چاہا۔کیا خبر مسلم فوج دریا کے دوسرے کنارے پر درختوں کی آڑ میں گھات لگائے بیٹھی ہو۔ مخبروں نے دور دور کا علاقہ چھان مارا، اونچے درختوں اور ٹیلوں پر چڑھ کر دیکھ لیا۔
مسلم فوج رات کی تاریکی میں اپنا مالِ غنیمت اٹھا کر پسپائی اختیار کر چکی تھی۔برف کی سلوں نے عرب کشور کشائی کے شعلوں کو بجھا دیا تھا۔
چارلز کا خدشہ درست تھا، یہ واقعی شاطرانہ چال تھی، جو بے حد کارگر ثابت ہوئی۔ چال یہ تھی کہ کھڑے خیمے دیکھ کر عیسائی فوج انتظار کرے گی اور اموی فوج کو آسانی سے دور نکلنے کا موقع مل جائے گا۔
تاریخ دان پیغمبرِ معکوس ہوتا ہے ، اور مستقبل کے بجائے ماضی کے بارے میں پیش گوئیاں کرتا ہے۔ ایسے ہی چند تاریخ دانوں نے الغافقی کی کئی مہلک غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس نے اپنے دشمن کی طاقت کا اندازہ لگانے یا اس کی نقل و حرکت کا سراغ لگانے کی زحمت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ چارلز مارٹل اپنی مرضی کا میدانِ جنگ منتخب کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور تو اور ، الغافقی کو اپنے مدِ مقابل عیسائی سپاہ سالار کا نام تک معلوم نہیں تھا۔
ایک اور بڑی غلطی اس نے یہ کی کہ اپنی فوجی برتری کے زعم میں اس نے آزمودہ روایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے اپنا نائب مقرر نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے قتل کی رات جب مسلم سرداروں کا اجلاس ہوا تو اس میں عربوں، شامیوں، بربروں اور اندلسیوں میں نئے سپہ سالار کے انتخاب کے مسئلے پر اس قدر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے کہ خود مسلم فوج کے مختلف دھڑوں میں تلوار سونتنے کی نوبت آتے آتے بچی۔ چناں چہ ایسے حالات میں انھوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اب تک جو مالِ غنیمت مل چکا ہے ، اسی اکتفا کرتے ہوئے واپسی کا راستا اختیار کر لیا جائے۔
جدید و قدیم تاریخ دانوں کی اکثریت اس پسپائی کو تاریخ کا عظیم فیصلہ کن لمحہ سمجھتی ہے۔ مسلمان مورخ اسے معرکۂ بلاط الشہدا کہتے ہیں۔ بلاط کا مطلب ہے پختہ فرش اور اس سے مراد وہ رومی شاہراہ ہے جس پر یہ جنگ لڑی گئی۔اس پکی سڑک پر کتنے مسلمان فوجیوں کو خون بہا، اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم جدید مؤرخین کا خیال ہے کہ اس جنگ میں ان کی ایک تہائی تعدا د میدان میں کھیت رہی۔
مغربی مفکروں میں گبن کا اقتباس آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔ بیلجیئم کے مورخ Goderfroid Kurth کا خیال ہے کہ اس جنگ کو لازماً تاریخ ساز واقعات میں سے ایک قرار دینا ہو گا، یہ وہ جنگ تھی جس پر اس بات کا انحصار تھا کہ آیا یورپ عیسائی رہے یا اسلام تمام براعظم میں سرایت کر جائے۔
جرمن فوجی مورخ Hans Delbruck کہتے ہیں کہ تمام دنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ اہم جنگ نہیں لڑی گئی۔ اور تو اور ہٹلر تک نے خیال آرائی کی ہے کہ اگر مارٹل کو شکست ہو جاتی تو یورپ کا مذہب اسلام ہوتا۔
اس جنگ کے بعد چارلز مارٹل کو موقع مل گیا کہ وہ ایک طاقت ور فرانسیسی سلطنت کی بنیاد رکھ سکے۔ یہی سلطنت مارٹل کے پوتے شارلمین کو ورثے ملی تھی جسے اس نے جِلا بخش کر یورپ کی شان دار ترین سلطنتوں میں سے ایک بنا ڈالا۔
تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تمام مغربی دانش ور اس جنگ کے مدح سرا ہیں۔ مذہب اور قومیت کی جذباتی حدوں سے بالاتر ہو کر ان محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر اس دن عبدالرحمٰن الغافقی کی فوجیں مارٹل کی شاطرانہ چالوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتیں تو تمام کا تمام مغرب صحیح معنوں میں عالم گیر ثقافت کا حصہ بن جاتا۔ ایسا مغرب جو کم از کم پانچ صدیوں بعد تک گھٹا ٹوپ اندھیرے میں غرق رہا، وہ بہت پہلے علم و دانش کی کرنوں سے منور ہو جاتا۔
فرانسیسی محققین Jean Henri-Roy اور Jean Deviosse نے مسلم فتح سے یورپ کو پہنچنے والے ممکنہ ثمرات کا تخمینہ پیش کیا ہے : فلکیات، ٹرگنامیٹری، عرب ہندسے ، یونانی فلسفہ۔ ان دونوں ماہرین نے حساب لگایا ہے کہ اگر اس دن عرب بالادست رہتے تو آج یورپ 267 برس زیادہ ترقی یافتہ ہوتا۔
ظاہر ہے کہ یورپ میں یہ ساری چیزیں پہنچی ضرور لیکن تھوڑی تاخیر سے۔ اور ان کی ترسیل براستہ اندلس ہوئی، جو میری اگلی منزل تھا۔
میڈرڈ، دو کشتیوں کا مسافر
میڈرڈ جانے والا جہاز چھوٹتے چھوٹتے بچا۔ ہوا یوں کہ پیرس کے چارلز ڈیگال ایرپورٹ پر جب میں گیٹ نمبر 25 کے آگے بیٹھا میڈرڈ کی فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا تو کسی وجہ سے انتظامیہ نے گیٹ نمبر بدل دیا۔ ظاہر ہے کہ فرانسیسی زبان میں اس امر کی اطلاع کئی بار دی گئی ہو گی۔
آخر جب پرواز میں چند منٹ رہ گئے تو مجھے لاؤڈ سپیکر پر طویل فرانسیسی اعلان کے درمیان اپنا نام سنائی دیا۔ میں بھاگم بھاگ کاؤنٹر پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ میری پرواز کا گیٹ اب 29 ہو گیا ہے اور جہاز فقط میری ہی راہ تک رہا ہے۔
جب جہاز میڈرڈ کے برجاس ہوائی اڈے پر اترا تو پورا شہر بادلوں میں لپٹا ہوا تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ چوں کہ فرانس اور سپین دونوں یورپی یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے گویا ایک ہی ملک ہیں، اس لیے کسٹم اور امیگریشن کے مراحل سے نہیں گزرنا پڑا۔
برجاس امریکی ہوائی اڈوں کی نسبت بہت سادہ اور کم پر تکلف لگا۔ ایک ہی لمبی قطار میں کاؤنٹر لگے ہوئے ہیں۔ زیرِ زمین ریل کا اڈا ایرپورٹ کے دوسرے سرے پر تھا، جہاں تک پہنچتے پہنچتے بیس منٹ لگ گئے۔ لیکن وہاں یہ مسئلہ آڑے آ گیا کہ ریل کا ٹکٹ کیسے خریدا جائے ، ایک تو کرائے کا اندازہ نہیں، اور دوسرے ٹکٹ مشین پر ہدایات صرف ہسپانوی زبان میں درج ہیں۔ خیر ایک نوجوان سے بات کی تو اس نے کہا کہ دو یورو لگیں گے اور مجھ سے رقم لے کر مجھے گلابی رنگ کا چھوٹا سا ٹکٹ مشین سے نکال کر تھما دیا اور ساتھ ہی میڈرڈ کے ریلوے نظام کا چھوٹا نقشہ بھی دے دیا۔
آپ جب بھی زیرِ زمین ریل سے سفر کرتے ہیں تو یہ سوال درپیش آتا ہے کہ جس پلیٹ فارم پر آپ کھڑے ہیں، وہاں آپ کی منزل کی طرف جانے والی ٹرین آئے گی، یا وہاں سے آنے والی؟ اس مشکل کا آسان حل یہ ہے کہ آپ نقشے میں معلوم کریں کہ آپ جس ریل پر سفر کرنا چاہتے ہیں اس کا آخری سٹیشن کون سا ہے۔ یہی آخری سٹیشن ریل کی پیشانی پر لکھا ہوتا ہے۔
لیکن میرا مسئلہ یہ تھا کہ جہاں میں نے جانا تھا وہاں ایک ریل نہیں جاتی تھی، بلکہ تین ریلیں تبدیل کرنا پڑتی تھیں۔ ایک مہرباں صورت ہسپانوی بوڑھے نے با محاور ہ سپینش میں تفصیل سے سمجھایا کہ مجھے کن راستوں سے ہو کر جانا ہے۔ لیکن میں جب بھی اجازت مانگنے کی کوشش کرتا وہ پھر راستا روک کر اپنا آموختہ دہرانے لگتا۔ بڑی مشکل سے اس پیرِ تسمہ پا کو ’گراسیاس‘ کہہ کر جان چھڑائی اور جیبی نقشے کو خضرِ راہ بنا کر ایک ٹرین میں سوار ہو گیا۔
نئی ٹیکنالوجی کے فوائد۔ میں نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہی انٹرنیٹ کے ذریعے ہوٹل انفانتا مرسیدیس میں بکنگ کروا لی تھی اور یہ بھی معلوم کر رکھا تھا کہ اس کے قریب ترین زیرِ زمین ریلوے سٹیشن تیتوان پڑتا ہے۔ وہاں پہنچ کر باہر نکلا تو بارش میں شدت آ چکی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہوٹل یہاں سے کتنی دور ہے ، اس لیے ٹیکسی لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ٹیکسی والے نے کوئی پندرہ منٹ بعد ہوٹل پہنچا دیا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں معلوم ہوا کہ ہوٹل سٹیشن سے صرف پانچ منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ اب یہ سوال سائنس سے تعلق رکھتا ہے کہ آیا ٹیکسی ڈرائیور نے عمداً لمبا راستا اختیار کیا تھا یا پھر اسے اس شارٹ کٹ کا پتا ہی نہیں تھا۔
الفانتا مرسیدس پنج ستارہ ہوٹل تو نہیں تھا لیکن پھر بھی پیرس والے ہوٹل سے کہیں بہتر تھا اور کرایہ بھی پیرس کی بہ نسبت تقریباً آدھا تھا۔ پیرس کے ہوٹل کی لفٹ اس قدر تنگ تھی کہ جب میں اس کے اندر داخل ہوا تو یہ پریشانی لاحق ہو گئی تھی کہ میرا بیگ اور سوٹ کیس کیسے اس میں سوار کیے جائیں اور یہ چیزیں ٹھونس ٹھنسا کر رکھ بھی دی جائیں تو پھر لفٹ کا دروازہ کیوں کر بند کیا جائے۔
کمرے میں سامان رکھ کے اور جلدی جلدی کپڑے بدل کر میں باہر آیا اور کاؤنٹر پر کھڑے نوجوان سے راستا پوچھ کر ایک بار پھر تیتوان سٹیشن پہنچ گیا۔ نقشے میں دیکھ کر میں نے پورتو دل سول نامی سٹیشن کا انتخاب کیا۔ اس کا مطلب ہسپانوی زبان میں ہے ’سورج دروازہ۔‘
ٹرین میں میرے فوراً بعد تین فن کار داخل ہو گئے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ، اکارڈین، گٹار اور جھانجھن بجا بجا کر ایک لوک ہسپانوی گانا شروع کر دیا۔ میرے آس پاس بیٹھے مسافر بھی اس فی البدیہہ لائیو پرفارمنس سے بے گانہ نہ رہ سکے اور تالیاں بجا بجا کر تھاپ دینے لگے۔ لیکن یہ محفلِ موسیقی تھوڑی دیر ہی جاری رہ سکی۔ جوں ہی ٹرین رکی، تینوں فن کار اپنا اسباب سمیٹ کر اور شائقین سے داد اور نقدی وصول کر کے سامنے سے آنے والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔
سول میڈرڈ کا دل ہے۔ آپ اسے پاکستانی شہروں کا صدر سمجھیے۔ یہاں کی تمام عمارات صدیوں پرانی ہیں اور وسیع چوک میں پتھر اور اینٹیں نصب ہیں۔ جگہ جگہ لوگ ٹولیاں میں کھڑے تیز آواز میں محوِ گفتگو ہیں۔ ویسے بھی ہسپانوی بولنے میں اچھی خاصی تیز رفتار اور بے تکلف سی زبان ہے۔ اس میں وہ تکلف اور رکھ رکھاؤ سنائی نہیں دیتا جو فرانسیسی کا خاصہ ہے۔
سپین کو کچھ عرصہ پہلے تک یورپ کا مردِ غریب کہا جاتا تھا۔ لیکن اب یورپی معیشت میں شامل ہونے کے بعد یہاں کے رنگ ڈھنگ بدل گئے ہیں۔ سورج دروازے کی سولھویں اور سترھویں صدی کی ہلکی سبز اور مٹیالی گلابی عمارتوں اور خمیدہ محرابوں پر اور ازمنۂ وسطیٰ کے چرچوں کے سائے تلے یورو اکانومی کے نیون سائن چمچما تے ہیں اور تنگ و تیرہ سنگی گلیوں میں نئی تراش کے سوٹوں میں ملبوس نوجوان ہاتھوں میں بلیک بیری لیے محوِ گفتگو نظر آتے ہیں۔
لیکن انہی گلیوں میں مکانوں کے آگے بنے تھڑوں پر گہرے رنگوں والے فراکوں میں ملبوس عمر رسیدہ خواتین بے نیازی سے بیٹھی پائی جاتی ہے۔ان کے چہرے پر ایسی معصومیت پائی جاتی ہے جس کے لیے انسان کو محنت نہیں کرنا پڑتی بلکہ جو لمبی عمر کے بعد خود بخود چہرے پر نمودار ہو جاتی ہے۔
میڈرڈ شہر کا مرکز ضرور قدیم ہے ، لیکن 50 لاکھ کی آبادی والے میڈرڈ شہر کے مضافات میں جنونی رفتار سے تعمیرات ہو رہی ہیں۔ جہاں تک نظر جاتی ہے ، کرینیں زرد کیکڑوں کی طرح عمارتوں کے ڈھانچوں پر جھکی نظر آتی ہیں۔ میڈرڈ کے دو چہرے ہیں اور دونوں کے درمیان اس قدر تفاوت ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دو مختلف شہر ایک دوسرے کے اندر واقع ہیں۔ اس لحاظ سے میڈرڈ دو کشتیوں کا سوار نظر آتا ہے۔
پہلی دنیا کے کسی بھی شہر کو دیکھنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ ’ہاپ آن ہاپ آف‘ بس کا ٹکٹ خرید لیں۔ اس قسم کی بسیں شہر کے تمام اہم مقامات کا طواف کرتی ہوئی دائرے میں سفر کرتی ہیں۔ راستے میں آپ جہاں چاہیں، اتر سکتے ہیں اور دس پندرہ منٹ بعد آنے والی اسی کمپنی کی دوسری بس میں سوار ہو سکتے ہیں۔ بس میں کئی زبانوں میں معلوماتی کمنٹری نشر ہوتی ہے ، جس کی ٹائمنگ حیران کن حد تک برجستہ ہوتی ہے۔ مثلاً ’ اس وقت آپ کو دائیں طرف جو سنگین دیوار نظر آ رہی ہے یہ شاہی محل کا مغربی گوشہ جسے فلپ ثانی نے تعمیر کروایا تھا۔‘ ’سامنے جو باغ نظر آ رہا ہے اگر آپ اچک کر اس کے اندر دیکھیں تو مشہور افسانوی کردار ڈان کیخوتے اور اس کے ملازم سانچو پانزو کے مجسمے نظر آئیں گے ،‘ وغیرہ۔
میں بھی ایسی ہی ایک بس میں سوار ہو گیا۔ اگرچہ بس ڈبل ڈیکر تھی اور اس کا اوپر والا حصہ کھلا تھا، لیکن پھوار کی وجہ سے اندر بیٹھنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی۔ کچھ ہی دور جانے کے بعد مجھے پراڈو عجائب گھر کا نشان نظر آ گیا اور میں فوراً بس سے اتر گیا۔ یہ عجائب گھر یورپی مصوری کے عمدہ ترین شاہ کاروں کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ میوزیم کے اندر ایک تاریک گوشے میں سپین کے عظیم مصور فرانسسکو گویا کی تصاویر کی خصوصی نمائش جاری تھی۔ گویا کے علاوہ یہاں ویلاسکوئس، ٹشن، رافیل، کاراواجیو اور دوسرے اساتذہ کی تصاویر موجود ہیں۔
اسی میوزیم میں ویلاسکوئس کی مشہورِ زمانہ تصویر ’دی میڈز آف آنر‘ موجود ہے۔ 1985ء میں لندن کے ایک رسالے میں شائع ہونے والے سروے کے مطابق اس تصویر کو دنیا کی عظیم ترین پینٹنگ قرار دیا گیا تھا۔ بڑے سائز کی اس روغنی پینٹنگ میں شاہی خاندان کے کئی افراد بھی موجود ہیں لیکن سب سے نمایاں خود مصور ہے ، جیسے اسے اپنی عظمت کا بھرپور احساس ہو۔
کئی دن بعد تولیدو میں البرتو نامی گائیڈ نے اسی تصویر کے بارے میں بتایا کہ یہ تکنیکی لحاظ سے دنیا کی تین عظیم ترین تصاویر میں سے ایک ہے۔ لیکن خیر، البرتو کا ذکرِ خیر بعد میں آئے گا۔
میڈرڈ پرانا شہر ہے۔ نویں صدی عیسوی میں اندلس کے امیر محمد اول نے دریائے منزاناریس کے کنارے پر محل تعمیر کروایا۔ یہاں آباد ہونے والے مسلمانوں نے اس جگہ کو ’المجریط‘ کا نام دیا، جس کا مطلب ہے ’پانی کا منبع۔‘ بعد میں مجریط بگڑ کر میڈرڈ بن گیا۔ میرے پاس ایک نقشہ تھا جس میں ’دیوارِ عرب‘ نامی ایک جگہ کا ذکر تھا جو میڈرڈ میں اس دور کی مسلمانوں کی واحد یادگار ہے۔ بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر میں اس جگہ تک پہنچا تو بڑی مایوسی ہوئی کہ نویں صدی کے وسط میں تعمیر کردہ صرف ایک اکھڑی دیوار اور چند شکستہ محرابیں ہی باقی ہیں، جو زبانِ حال سے اپنی بدحالی کا رونا رو رہی ہیں۔ ایک دیوار پر ہسپانوی زبان میں ’پارک محمد اول‘ ضرور لکھا ہے ، لیکن اس کے علاوہ اس تاریخی مقام کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ان کھنڈروں کے بالکل اوپر اونچائی پر ایک زبردست اور پر ہیبت چرچ تعمیر کیا گیا ہے ، جس کے دبدبے کے سامنے سارا علاقہ سہما سہما سا لگتا ہے۔
سیاحتی بس میں گھومتے گھومتے پورے میڈرڈ کا طواف کر کے واپس سورج دروازے پر آ پہنچا۔ شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے اور بھوک کے مارے برا حال تھا۔ پچھلے دو دن سے فش برگر کھا کھا کر طبیعت اوب گئی تھی اور اب دل کرتا تھا کہ کوئی دیسی سا کھانا کھایا جائے۔ میں اندازاً ایک پر رونق گلی میں چلتا گیا کہ کہیں کوئی انڈین ریستوران مل جائے تو بات بن جائے۔اس گلی میں دکانوں کی عمارات صدیوں پرانی لیکن ان کی آرائش اور سامانِ فروخت بے حد فیشن ایبل تھے۔
کچھ دور دو انڈین لڑکے کھڑے اشتہار بانٹے ہوئے ملے ، معلوم ہوا کہ یہ ’تاج محل ریستوران‘ کی تشہیری مہم چلا رہے ہیں۔ اندھے کو کیا چاہیئے ، ان سے پتا لے کر میں سیدھا ریستوران پہنچ گیا۔ ویسے بھی یورپ یا امریکہ کے کسی چھوٹے سے چھوٹے قصبے میں اور کچھ ہو نہ ہو، ایک عدد انڈین ریستوران ضرور پایا جاتا ہے۔ جس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے ، ایک تو یہ کہ بھارتی دنیا کے ہر خطے میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اور دوسرے یہ کہ مغرب میں بھارتی کھانے مقبول ہو رہے ہیں۔
اس چھوٹے سے لیکن قرینے سے سجے ’تاج محل مغل ریستوران‘ کی دالِ ماش اور گرما گرم چپاتیوں کا ذائقہ اب بھی یاد ہے۔
اگلی صبح قرطبہ کا سفر درپیش تھا۔ قرطبہ۔۔۔ جو کبھی کائنات کا مرکز تھا۔ قرطبہ، کتابوں کا شہر، علم و فنون کا مرکز۔ قرطبہ، دنیا کے ماتھے کا جھومر۔
ہسپانوی شہزادی کی مہم جوئی
739ء
دمشق کے باہر رصافہ کے مقام پر اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا دربار لگا ہوا ہے۔خلیفہ کی سلطنت فرانس کی سرحدیں سے لے کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں، جس کا اظہار دربار کے شان و شکوہ اور وقار سے ہو رہا ہے۔ سنگِ مرمر کے عالی شان ستونوں پر نازک حریری پردے لہرا رہے ہیں جن پر سونے کے تاروں سے کڑھائی کی گئی ہے۔ تخت نشین خلیفہ کے پیچھے مسلح خواجہ سرا ہاتھ باندھے مستعد کھڑے ہیں۔ ایک طرف تمام اعلیٰ عمال اور سردار حسبِ مراتب ایستادہ ہیں جب کہ خلیفہ کے دائیں ہاتھ پر اموی خاندان کے سرکردہ عمائد اور شہزادے موجود ہیں۔ انھی میں ولی عہد ولید بن یزید ثانی بھی ہے۔ قطار کے آخر میں ایک سرخ بالوں والا لڑکا مودب اور با ملاحظہ کھڑا ہے۔ یہ خلیفہ کے دوسرے بیٹے عبدالملک کا چشم و چراغ ہے۔
حاجب اعلان کرتا ہے :
’ہسپانوی شہزادی سارہ قُوطیہ باریابی کی طلب گار ہیں۔‘
خلیفہ کے سر کا خفیف سا اشارہ پا کر حاجب الٹے قدموں باہر چلا جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعد شہزادی اور اس کے بھائیوں کو لے کر خدمتِ عالیہ میں پیش کرتا ہے۔ ہسپانوی شہزادی کی عمر بہ مشکل پندرہ برس ہے ، لیکن اس کی آنکھوں میں اعتماد کی چمک ہے۔ یہ شہزادی ہزاروں میل کا سفر انتہائی پرخطر اور دشوار گزار سفر طے کر کے امیر المومنین کی خدمت میں فریادی بن کر حاضر ہوئی ہے۔ ایسا جوکھم کا سفر جس کا تصور کر کے ہی بڑے بڑوں پر لرزہ طاری ہو جائے۔
اس نے اس طویل سفر کا آغاز ہسپانوی شہر اشبیلیہ سے کیا تھا۔ اپنے دو کم سن بھائیوں کو لے کر وہ کشتی کے ذریعے دریائے کبیر کے راستے بحیرۂ اوقیانوس کے دہانے تک پہنچی، جہاں سے اس نے نسبتاً بڑی کشتی میں بیٹھ کر بحیرۂ روم کا سفر اختیار کیا اور آبنائے جبرالٹر سے ہوتی ہوئی قدیم فلسطینی بندرگاہ عسقلان تک پہنچ گئی۔ وہاں سے دارالخلافہ دمشق تک پونے دو سو میل کی بقیہ مسافت خشکی کے راستے طے ہوئی۔
اس سفر کے دوران کتنی بار بحری قزاقوں کا خطرہ لاحق ہوا، کتنی بار کشتی طوفانی موجوں میں گھر گئی، ارضِ فلسطین سے گزرتے ہوئے کتنی ایسی خستہ حال سراؤں میں قیام کرنا پڑا جہاں شہزادی کی دمکتی رنگت، بھورے بال اور نامانوس لباس اور نشست برخاست دیکھ کر دوسرے مسافر شک میں مبتلا ہوئے۔ وہ تو بھلا ہو شہزادی کے دو وفادار عرب ملازموں کا، جو ایسے ہر موقعے پر سینہ سپر ہو گئے ورنہ اس زمانے میں کسی عورت کے لیے اتنا لمبا سفر کرنا ناممکن تھا۔
امیر المومنین نے ہاتھ اٹھا کر شہزادی کا خیر مقدم کیا اور اجازت دی کہ وہ اپنی درخواست پیش کرے۔ سائلہ مترجم کے ذریعے معروض گذار ہوئی کہ وہ سلطنتِ ہسپانیہ کے آخری وزی گاتھک بادشاہ وتیزا کی پوتی ہے۔ طارق بن زیاد کے جبل الطارق پر اترنے سے ایک برس قبل بادشاہ کا جلاوطن بھتیجا راڈرک اٹلی سے لشکر لے کر حملہ آور ہوا اور وتیزا کو اس کی راج دھانی طلیطلہ سے معزول کر کے اندھا کر دیا اور قرطبہ کے زندان میں ڈال دیا۔
اگرچہ اگلے ہی برس طارق بن زیاد نے راڈرک کی افواج کو شکستِ فاش دے کر تمام ہسپانیہ پر اموی پرچم لہرا دیا، لیکن اکثر علاقوں میں اس نے اور بعد میں ہسپانیہ میں اترنے والے شمالی افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر نے اکثر علاقوں میں ہسپانوی سرداروں ہی کو برقرار رکھا۔سارہ کے والد اشبیلیہ کے امیر تھے ، لیکن ان کے انتقال کے بعد سارہ کے چچا ارطوباس نے اپنے بھائی کی تمام جائیداد پر قبضہ کر کے سارہ کو بے دخل کر دیا۔ اگرچہ اموی عمال نے حکم جاری کیا تھا کہ اسلامی قانون کے تحت بیٹی کو باپ کی جائیداد وراثت میں مل سکتی ہے ، لیکن اس دوران اسلامی سلطنت کا دُور افتادہ ہسپانوی صوبہ اس قدر بد نظمی کا شکار تھا کہ ہر مہینے کہیں نہ کہیں بغاوت سر اٹھا لیتی تھی۔ ادھر خود خلافتِ بنو امیہ عباسیوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار، خارجیوں کے فتنے اور بربروں کی شورش جیسے دوسرے کئی مسائل میں الجھی رہی کہ اس حکم پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
اب سارہ ، جس نے رضا و رغبت سے مذہبِ اسلام قبول کر لیا ہے ، خود اپنی عرضی لے کر خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہے اور چاہتی ہے کہ اسلامی قانون کی تحت بیٹی کو اس کے باپ کی جائیداد میں حصہ دیا جائے۔
خلیفہ المومنین ہشام بن عبدالملک سارہ کی جرات اور حوصلہ مندی سے بے حد متاثر ہوا۔ اس نے فوراً شمالی افریقہ کے امیر حنطلہ ابن صفوان قلبی کے نام فرمان بھیجا کہ سارہ کی تمام جائیداد فی الفور اس کے حوالے کی جائے اور اس سلسلے میں اس کی ہر ممکن مدد کی جائے۔
خلیفہ نے مزید عنایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارہ کی شادی اپنے درباری عیسیٰ ابنِ مزاحم سے بھی کروا دی۔ یہ جوڑا اکٹھے اشبیلیہ پہنچا، جہاں شاہی فرمان کے مطابق اندلس کے امیر ابو خطاب قلبی نے تمام ضروری کارروائی پہلے ہی مکمل کر دی تھی۔
سارہ اور عیسیٰ کے دو بیٹے ہوئے ، ابراہیم اور اسحٰق۔ سارہ کی کہانی ہم تک ابراہیم کے پوتے ابو بکر ابن قُوطیہ کے ذریعے پہنچی ہے ، جو فخر سے اپنے نام کے ساتھ ابنِ قوطیہ لکھتا تھا، جس کا مطلب ہے ’گاتھک عورت کا بیٹا۔‘
755ء میں عیسیٰ کا انتقال ہو گیا اور سارہ ایک بار پھر بے یار و مدد گار رہ گئی۔ لیکن اسی دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے الاندلس کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ سارہ نے سنا کہ قرطبہ میں ایک نوجوان اموی شہزادے نے آ کر امارت کا دعویٰ کر دیا ہے۔ سارہ نے سولہ برس قبل دمشق کے دربار میں کئی اموی شہزادوں کو دیکھا تھا، اس لیے وہ دوبارہ وہی عرضی لے قرطبہ پہنچ گئی۔ وہاں جا کر اس نے دیکھا کہ ہشام بن عبدالملک کے دربار میں اس نے جس سرخ بالوں والے دبلے پتلے آٹھ سالہ بچے کو خلیفہ کے دائیں جانب قطار کے آخر میں ہاتھ باندھے اور نظریں جھکائے کھڑا دیکھا تھا، اس کا نام عبدالرحمٰن تھا اور وہ خلیفہ کے بیٹے معاویہ کا فرزندِ ارجمند تھا۔ اب وہی عبدالرحمٰن تاریخ کے عجیب و غریب پھیر کے تحت قرطبہ پہنچ کر وہاں کا امیر بن گیا تھا۔ عبدالرحمٰن کی داستان رونگٹے کھڑے کر دینے والی سنسنی خیزی اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی ڈرامائی صورتِ حال کی وجہ سے کسی جاسوسی ناول سے کم نہیں ہے۔
قریش کا پردیسی عقاب
سارہ قوطیہ کو دیکھتے ہی میری تمام پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ سترہ برس قبل وہ رصافہ میں میرے دادا خلیفہ المومنین ہشام عبدالملک کے دربار میں پیش ہوئی تھی تو خلد آشیانی نے اس کے ساتھ شفقت و ہم دردی کا برتاؤ کیا تھا۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا لیکن مجھے خاص طور پر اس کی شادی کی تقریبات یاد ہیں جو بڑی دھوم دھام سے منائی گئی تھیں اور ان میں تمام اموی خانوادے نے حصہ لیا تھا۔
میرے صحرا نورد اموی اجداد کو دمشق کے قدیمی شہر کی بھیڑ بھاڑ پسند نہیں تھی اس لیے انھوں نے صحرا میں رصافہ کے مقام پر ٹھکانا بنا لیا تھا جہاں ہمارے خاندان کے تمام افراد اکٹھے رہتے تھے۔ صحرا کے بیچوں بیچ بلند دیواروں کی پناہ میں گھرا ہوا یہ نخلستان ہماری چھوٹی سی دنیا تھی۔
یہاں ویسے تو دنیا جہان کی آسائشیں مہیا تھیں لیکن میری عمر کے سبھی اموی شہزادوں کو سخت محنت و مشقت بھی کرنا پڑتی تھی۔ ہماری تعلیم کے لیے سلطنت کے اعلیٰ ترین اتالیق مقرر کیے گئے تھے ، جو ہمیں صرف و نحو سے لے کر جغرافیہ اور ریاضی اور امورِ سیاست اور کاروبارِ ریاست جیسے مضامین پڑھاتے تھے۔ سہ پہر کے بعد تیر اندازی، شمشیر زنی اور گھڑ سواری کی تربیت دی جاتی تھی۔ دادا محترم اگرچہ مذہب کے بڑے پابند اور سخت گیر مشہور تھے ، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ علوم و فنون میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ دوسری زبانوں سے علمی کتابوں کو عربی میں منتقل کرنے کا سلسلہ انھی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار خود آ کر ہماری تعلیم و تربیت کا جائزہ لیا کرتے تھے اور اچھی کارکردگی دکھانے والے بچوں میں تحائف بانٹا کرتے تھے۔
لیکن اسی دوران اس وسیع مملکت کے کئی حصوں میں بدامنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ ایرانیوں کی سازشیں، علویوں کا فتنہ، بربروں کی شورش اور سب سے بڑھ کر عباسیوں کی ریشہ دوانیوں نے خلافت کی بنیادیں کھوکھلی کرنی شروع کر دی تھیں۔ جنت مکانی ہشام بن عبدالملک کے دور کے بعد تو جیسے فتنوں کے کواڑ کھل گئے۔ یکے بعد دیگرے میرے کئی چچا اقتدار میں آئے لیکن ان میں سے بعض تو صرف چند ماہ ہی مسندِ خلافت پر فائز رہ پائے۔ بالآخر میرے عم زاد اور دمشق کے آخری اموی خلیفہ مروان ثانی نے یوں تو کئی برس حکومت کی لیکن ان کے عہد میں عباسیوں نے خلافت کے مشرقی صوبے ہتھیانا شروع کر دیے تھے۔
اور پھر وہ دن آ گیا جو میری یادداشت میں پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہو کر رہ گیا ہے۔ مجھے آج بھی ایسے لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ میں اس وقت انیس برس کا تھا اور اس دن رصافہ میں خیمے میں بیٹھا ہوا اپنے بیٹے کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ اچانک باہر سے شور و غل سنائی دیا۔ میں نے خیمے سے باہر نکل کر دیکھا کہ تمام شاہی گاؤں میں زبردست کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ کچھ آگے گیا تو مجھے دشمن دستوں کے لہراتے ہوئے سیاہ پھریرے نظر آ گئے۔ اس اثنا میں میرا تیرہ سالہ بھائی یحییٰ دوڑتا ہوا میری طرف آیا، ’بھائی، بھاگو، یہ سیاہ پرچم بنو عباس کے ہیں۔‘اگرچہ مجھے معلوم تھا کہ اقتدار کی ریت ہمارے خانوادے کے ہاتھوں سے پھسلتی چلی جا رہی ہے لیکن اختتام یوں یک لخت سر پر آ جائے گا، اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔
سوچنے سمجھنے کا وقت نہیں تھا، میں فوراً خیمے کے اندر گیا، کچھ جواہر اور دینار لے کر پٹکے میں اڑسے ، اپنے بیٹے کو اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور بھائی کے ساتھ بھاگتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ میری بہنیں اوپر مکان میں موجود تھیں، جاتے جاتے میں ان کو بتاتا گیا کہ میں مشرق کا رخ کر رہا ہوں اور مصر پہنچ کر انھیں اپنی خیریت کی اطلاع دوں گا۔ وہ چیختی چلاتی رہ گئیں۔
اس محشر کے عالم میں میرے ذہن میں یہی آیا کہ کسی طرح افریقیہ کا رخ کیا جائے۔ بیچ میں ہزاروں میل کا فاصلہ حائل تھا اور میں جانتا تھا کہ اس سفر میں مجھے خون کے دریا عبور کرنا پڑیں گے ، کیوں کہ آج کے واقعات سے ظاہر تھا کہ خلافتِ بنو امیہ کا چراغ گل ہو چکا ہے۔ ایسے میں وفادار صوبے دار اور عمال یوں وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں جیسے صحرا کے ریتلے ٹیلے ہوا سے جگہ بدلتے رہتے ہیں۔
دور سے زخمیوں کی فریادیں سنائی دے رہی تھیں، جلتے ہوئے مکانوں اور خیموں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ عباسی خاص طور پر میری تلاش میں ہوں گے ، کیوں کہ میں خلافت کے متوقع ولی عہدوں میں سے ایک تھا۔ ہم دیوار سے کود کر رصافہ کے عقب میں پہنچ گئے۔ شاہی اصطبل کی طرف جانے کا موقع نہیں تھا۔ ہم دیواروں اور درختوں کی اوٹ لیتے ، لوگوں سے بچتے بچاتے رصافہ کی حدود سے نکل گئے۔
اسی دوران میرا وفادار ملازم بدر بھی ہمارے ساتھ ہو لیا۔ اس نے بتایا کہ اموی خاندان کے تمام مردوں اور لڑکوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے ، اور عباسی شکاری کتوں کی طرح میری تلاش میں ہیں۔ صورتِ حال کی سنگینی اب کھل کر سامنے آ گئی تھی۔ کہاں چند لمحے قبل میں شاہی احاطے میں خوابوں خیالوں جیسی حسین زندگی بسر کر رہا تھا، اور اب یکا یک بنو امیہ کا واحد بالغ فرزند بچ جانے کے ناطے مجھے نہ صرف اپنی جان بچانی تھی، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے تیرہ سالہ بھائی اور کم سن بیٹے کی زندگیوں کی بھاری ذمے بھی مجھ پر عائد ہو گئی تھی۔
ہم بھاگتے بھاگتے فرات کے کنارے ایک مکان کے قریب پہنچے۔ گھر کا مالک مجھے جانتا تھا کیوں کہ میں اور میرے عم زاد اکثر شام کے وقت گھڑ سواری کرتے ہوئے اس علاقے سے گزرا کرتے تھے۔ اس نے ہمیں یوں بے بدحواسی کی حالت میں دیکھا تو بڑا حیران ہوا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ دینار لے کر ہمیں تین گھوڑے اور اشیائے خورد و نوش دے دے تاکہ ہم اپنا طویل سفر جاری رکھ سکیں۔ اس نے کہا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں، میں بنو امیہ کا نمک خوار ہوں، میرے بس میں جو بھی ہو گا، آپ کی خاطر کروں گا۔
اس نے ہمیں اپنے گھر کے ایک کمرے میں بٹھا دیا اور خود اندر چلا گیا۔ اب اسے چھٹی حس کہیں یا کچھ اور کہ مجھے اس کا خلوص مصنوعی معلوم ہوا۔ میں نے دروازے کی درز سے آنکھ لگا کر دیکھا کہ وہ بیرونی دروازے پر کھڑا اپنے غلام کو کچھ ہدایات دے رہا ہے۔ غلام فوراً گھوڑے کو سرپٹ بھگا کر وہاں سے ہوا ہو گیا۔ میرا ماتھا ٹھنکا، میں نے بدر سے کہا کہ یہ شخص ناقابلِ اعتبار ہے اور اس نے انعام کے لالچ میں اپنے غلام کو مخبری کے لیے عباسیوں کے پاس بھیج دیا ہے۔
ہم فوراً اس غدار کے مکان سے نکل بھاگے ، وہ بھی گھر سے باہر آ گیا اور ہمارے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے مکارانہ لجاجت سے ہمیں رکنے کی صدائیں لگانے لگا۔ لیکن میں نے افق پر عباسی گھوڑوں کے سموں سے اٹھتی ہوئے گرد کے بادل دیکھ لیے تھے ، اس لیے اپنے بیٹے کو اٹھائے اٹھائے ، بھائی اور نوکر کے ساتھ درختوں کے ایک جھنڈ میں گھس گیا۔ اسی دوران ہمارے خون کا پیاسا عباسی دستہ اس شخص کے مکان تک پہنچ گیا۔ درختوں کے جھنڈ کے دوسری طرف دریائے فرات تھا، کل اور آج کی بارش کی وجہ سے دریا طغیانی پر آیا ہوا تھا اور اس کا مٹیالا پانی شراٹے لیتا ہوا بہہ رہا تھا۔
کوئی اور صورت نہیں تھی، میں نے بیٹے کو بازوؤں میں اٹھایا اور خدا کا نام لے کر پانی میں چھلانگ لگا دی۔ بیٹا ڈر کے مارے میری گردن سے چمٹ گیا اور زور زور سے چلانے لگا۔ بدر نے یحییٰ کو سنبھالا لیکن پانی بہت جوش میں تھا، ان دونوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ غوطے کھانے لگے۔ اسی دوران عباسی دستہ دریا کے کنارے پر پہنچ گیا تھا۔ ان کے سردار نے آوازیں دینا شروع کر دیں، ’واپس آ جاؤ، ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے ، دریا طغیانی میں ہے ، تم ڈوب جاؤ گے۔‘
صاف ظاہر تھا کہ یہ عباسیوں کی چال ہے لیکن یحییٰ میرے اور بدر کے چیخنے چلانے کے باوجود غوطے کھاتے کھاتے کنارے پر آ گیا۔ میں نے اور بدر نے دوسرے کنارے پر پہنچ کر دیکھا، درندوں نے میرے معصوم بھائی کی گردن اڑا کر اس کا سر تھیلے میں ڈال لیا تھا تاکہ عباسیوں کے سرغنہ عبداللہ سفاح کو پیش کر کے بھاری انعام و اکرام حاصل کیا جا سکے۔ میں اور بدر قریبی کھیتوں میں گھس گئے اور اس وقت تک بھاگتے رہے جب تک تھکن سے نڈھال ہو کرڈھے نہیں گئے۔
عبدالرحمٰن اول کی اندلس آمد
میری مرحومہ ماں راحہ کا تعلق بربر قبیلے نفیزہ سے تھا۔ اسی سے مجھے ورثے میں سرخ بال ملے تھے ، لیکن یہ بال اب میرے لیے وبال بن گئے تھے ، کیوں کہ ان کی وجہ سے مجھے دور سے پہچانا جا سکتا تھا۔ اوپر سے چھوٹے بچے کا ساتھ، جو ایک طرف تو میری شناخت کروا سکتا تھا دوسری طرف اس کی دیکھ بھال پلِ صراط پر چلنے کے مترادف تھی۔ اگرچہ اس کی ماں اسے جنم دینے کے کچھ ہی مہینوں بعد دنیا سے رخصت ہو گئی تھی لیکن رصافہ میں سینکڑوں کنیزیں اس کی خدمت پر مامور تھیں۔ مجھے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اس عمر کے بچے کیا کھاتے اور کیا پیتے ہیں۔ لیکن جاں نثار بدر سائے کی طرح میرے ساتھ تھا، اس نے ان معاملات میں میری رہنمائی کی، ورنہ اس کے بغیر ان کٹھن مراحل سے گزرنا ممکن نہیں تھا۔
رات ایک کھیت میں آدھے سوتے ، آدھے جاگتے گزاری۔ ہر لمحے یہی دھڑکا تھا کہ عباسی اب پہنچے کہ تب پہنچے۔ صبح سویرے میں نے بدر کو کچھ رقم دے کر بھیجا کہ کہیں سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لائے۔ اس نے واپس آتے آتے سہ پہر کر دی۔ خبر یہ تھی کہ میرے سر کی بھاری قیمت مقرر کر دی گئی ہے اور خوں خوار سپاہی ہر طرف شکاری کتوں کی طرح میری بو سونگھتے پھر رہے ہیں اور تمام شاہراہوں پر مخبر بٹھا دیے گئے ہیں۔
اگلے روز ہم نے ایک بار پھر مغرب کا سفر اختیار کیا۔ میں نے اپنے بال صافے میں چھپا لیے تھے تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔ کسی بھی مصروف راستے سے سفر کرنا ناممکن ہو گیا تھا، اس لیے ہم معروف گزر گاہوں سے پہلو بچاتے ، بستیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ، لشٹم پشٹم مغرب کی سمت چلتے رہے۔ دن کی روشنی ہمارے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی، اس لیے ہم رات بھر پہاڑوں، دشتوں اور ویرانوں میں چلتے رہتے ، اور پو پھٹتے ہی کہیں اوٹ دیکھ کر پڑ رہتے۔ کسی آبادی کے آثار دکھائی دیتے تو بدر جا کر کھانے پینے کی چیزیں خرید لاتا۔ کئی دن کے بعد وہ ایک قصبے سے دو گھوڑے خریدنے میں کامیاب ہو گیا، جس سے سفر میں سہولت پیدا ہو گئی۔
مصر کی سرزمین پر پہنچتے پہنچتے ہمیں چار ماہ لگ گئے۔ قاہرہ کے باہر ایک خستہ حال سرائے میں رک کر میں نے بدر کو سن گن لینے کے لیے شہر بھیجا۔ اس نے واپس آ کر نہایت مایوس کن خبریں سنائیں۔ مصر کے صوبے دار کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میں وہاں کا رخ کر سکتا ہوں، اس لیے اس نے پہرے داروں کو ہوشیار کر دیا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ میں نظر آؤں تو میرا سر عباسی خلیفہ عبداللہ السفاح کو بھجوا کر بھاری مراعات حاصل کی جا سکیں۔
بدر نے بتایا کہ میری بہنیں بھی یہیں آئی ہوئی ہیں۔ میں نے رصافہ سے نکلتے وقت انھیں بتایا تھا کہ میں مصر کا رخ کروں گا۔ اگرچہ میرا قاہرہ جانا بے حد مخدوش تھا، لیکن بہنوں سے ملنا بھی اتنا ہی ضروری تھا۔ میں نے اپنے بالوں میں خضاب لگا کر انھیں سیاہ کیا اور بدوؤں کا سا حلیہ بنا کر اس مکان پر پہنچ گیا تھا جہاں میری وہ ٹھہری ہوئی تھیں۔
بہنیں مجھے دیکھ کر دیر تک روتی رہیں۔ تمام خانوادۂ بنو امیہ کا صفایا ہو چکا تھا اور ہماری 92 سالہ خلافت تتر بتر ہو چکی تھی۔ ظالم عباسیوں نے امیہ خاندان کے شیرخوار بچوں تک کو نہیں بخشا تھا تا کہ ان میں سے کوئی بڑا ہو کر ان کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ السفاح، جس کے نام کا مطلب ہی خون ریز ہے ، ہمارے خاندان کی دشمنی میں اس حد تک آگے چلا گیا تھا کہ اس نے میرے اجداد کی قبریں تک کھود کر ہڈیاں جلا کر راکھ کر ڈالی تھیں۔ تاہم عرب روایات کے تحت سفاح نے خواتین کو ضرر نہیں پہنچایا تھا اور انھیں اجازت دی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں جانا چاہیں، جا سکتی ہیں۔
اگرچہ بہنوں سے مل کر میرا سینہ چھلنی ہو گیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ دل میں نئے سرے سے اس بات کی لگن پیدا ہو گئی تھی کہ مجھے ہر حال میں حوصلہ برقرار رکھنا ہے ، اور اپنے بکھرے ہوئے خاندان کو مجتمع رکھنا ہے۔ خاندان کا واحد وارث ہونے کے باعث میرے کندھوں پر بنو امیہ کی وراثت کا بھاری بوجھ آ گیا تھا اور مجھے ہر حال میں اس امانت کا پاس رکھنا تھا۔
میں نے اپنا بیٹا بہنوں کے حوالے کیا اور بدر کو لے کر آگے چل پڑا۔
برقہ (موجودہ لیبیا) کے صوبے دار عبدالرحمٰن ابنِ حبیب الفہری پر ہمارے خاندان نے خصوصی عنایات کی تھیں اور اسے گوشۂ گمنامی سے نکال کر برقہ جیسے متمول صوبے کا امیر تعینات کیا تھا۔ وہ دمشق میں دربارِ خلافت میں آیا کرتا تھا، جہاں وہ وقت بے وقت مرتے دم تک خاندانِ بنو امیہ کا ادنیٰ غلام بن کر رہنے کی قسمیں کھاتا رہتا تھا۔ ایک بار اس نے میرے سامنے کہا تھا کہ کاش مجھے کوئی ایسا موقع ملے کہ میں اس خاندان کے احسان اتار سکوں۔
احسان اتارنے کا اس سے بہتر موقع اور کیا ہو سکتا تھا؟ چناں میں بدر کو لے کر منزلوں پر منزلیں مارتا برقہ پہنچ گیا۔ لیکن میں جوں ہی اس کے دربار میں پہنچا، اس نے فوراً مجھے ہتھ کڑیاں پہنا دیں۔ انجام سرپر آ کھڑا ہوا تھا، لیکن ابنِ حبیب کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ اس نے ایک یہودی کاہن کو دربار میں بلا لیا اور اس سے پوچھا کہ تم نے کچھ عرصہ قبل ایک لڑکے کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ وہ مستقبل کا عالی شان بادشاہ بنے گا، جلدی سے بتاؤ کہ کیا یہ وہی لڑکا ہے ، تاکہ میں اس کا سر اڑا دوں۔ کاہن خاصی دیر تک میرے چہرے کو غور سے تکتا رہا، پھر اس نے اپنی کتابوں میں کچھ دیر تک حساب کتاب کیا۔ آخر اس نے ابنِ حبیب کو مخاطب کر کے ایک عجیب سی بات کہی:
’اگر تم اسے قتل کر دو گے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ لڑکا نہیں ہے جس کے بارے میں نے پیشن گوئی کی تھی۔ اور اگر تم اسے چھوڑ دو گے ، تو ممکن ہے کہ یہ وہی ہو اور آگے چل کر ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھے۔‘
یہ سن کر ابنِ حبیب اس حد تک تذبذب کا شکار ہوا کہ اس کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت مختل ہو گئی۔ آخر اس نے شش و پنج کے عالم میں مجھے آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔
میں مسرت اور مایوسی کے ملے جلے جذبات دل میں لیے شہر سے باہر نکل آیا۔ قریب ہی ایک بربر قبیلے نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ اس قبیلے کے سردار ابو قرہ نے مجھے سراسیمگی کے عالم میں دیکھ کر شفقت کا برتاؤ کیا اور مجھے اونٹنی کا دودھ پینے کے لیے دیا۔ ابھی دودھ کا پیالہ میرے ہونٹوں سے ہٹا نہیں تھا کہ گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں۔ میں نے ابو قرہ کو بتا دیا کہ یہ میرے دشمن ہیں جو مجھے پکڑنے آئے ہیں۔ ابو قرہ کی مہربان بیوی تکفہ نے مجھے اپنے خیمے میں کپڑوں تلے چھپا دیا۔ تھوڑی دیر میں گھڑ سوار قبیلے کے اندر پہنچ گئے اور خیمہ خیمہ تلاشی لینے لگے۔ ابوقرہ اور اس کے قبیلے کے دوسرے افراد نے صاف انکار کر دیا کہ یہاں کوئی اجنبی آیا ہے۔ چند سپاہی اس خیمے کے اندر بھی آ گئے جہاں میں چھپا ہوا تھا لیکن تکفہ نے اس قدر شور مچایا اور کہ وہ سرسری طور پر ادھر ادھر دیکھ کر چل دیے۔ تکفہ اور ابو قرہ کا احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔
برقہ کی زمین مجھ پر تنگ ہو چکی تھی۔ اس لیے میں وہاں سے نکل کر کئی مہینوں کے جاں گسل صحرائی سفر کے بعد بنی رستم کے علاقے تہارت پہنچ گیا۔ میں نے اپنا نام بدل لیا تھا اور اب میں غائف المنصور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تہارت میں مجھے خوش قسمتی سے مرحومہ ماں راحہ کا قبیلہ نفیزہ مل گیا۔ میرے ننھیالیوں نے میرا خیر مقدم کیا اور میرے وہاں قیام کے دوران مجھے ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی۔
لیکن آرام کرنا میرے منصوبوں میں شامل نہیں تھا۔ جوں ہی مجھے کسی حد تک سلامتی کا احساس ہوا، میں نے گھوم پھر کر آس پاس کے علاقوں میں بسے ہوئے بربر قبیلوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا، تاکہ ان کے سرداروں سے واقفیت پیدا کر سکوں۔ میرے بربر خون کا مجھے بہت فائدہ ہوا اور ہر جگہ سے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اب مجھے نام چھپانے کی بھی ضرورت نہیں تھی چناں چہ میں نے اپنی اصل شناخت ظاہر کر دی۔
یہیں مجھے اندلس کے حالات و واقعات کا مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ ویسے بھی مراقش اور اندلس کے درمیان صرف چند میل کی سمندری پٹی ہی حائل ہے ، جہاں سے لوگ روزانہ آتے جاتے تھے۔
اندلس بری طرح سے اتھل پتھل کا شکار تھا۔ اگرچہ مسلمانوں کو طارق بن زیادہ کی فتح کے بعد وہاں اسلامی حکومت قائم کیے ہوئے 45 برس گزر چکے تھے ، لیکن اس تمام عرصے میں حکمران اس قدر خلفشار کی حالت میں رہے کہ کسی امیر کو ایک سال گزارنا بھی مشکل سے نصیب ہوتا تھا، عرب بہ مقابلہ عرب، عرب بہ مقابلہ بربر اور بربر بہ مقابلہ بربر، غرض چومکھی جنگ جاری تھی۔ اندلس کے دو امیر السمح اور الغافقی بلادِ فرانس میں لڑتے ہوئے مارے گئے تھے ، جن کی وجہ سے یہ مملکت مزید انتشار میں گھر گئی تھی۔
اندلس کا امیر یوسف الفہری تھا، اسے بھی میرے عم زاد خلیفہ مروان نے یہاں کا امیر مقرر کیا تھا، لیکن جوں ہی اموی تخت الٹا گیا، اس نے السفاح سے وفاداری ظاہر کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ تاہم اس کے باوجود مجھے بتایا گیا کہ اندلس کے بہت سے مقامی صوبے دار اور عمال اب بھی بنو امیہ ہی کا دم بھرتے ہیں۔ ویسے بھی اندلس دمشق سے اتنی دور تھا کہ وہاں کی خبریں یہاں پہنچتے پہنچتے برسوں لگ جاتے تھے۔ یہاں کے لوگوں کے اپنے مسائل تھے ، انھیں خلافت کی آویزشوں اور چپقلشوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔
مزید برآں، بربروں کے ساتھ بھی الفہری کا رویہ بہت خراب تھا۔ میں نے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے اندلس کے بربروں اور عربوں سے رابطے شروع کر دیے۔ اکثر امرا کی طرف سے مجھے حوصلہ افزا جوابات ملے۔ لیکن بہت سی باتیں فقط خط و کتابت سے طے نہیں ہو سکتی تھیں، اس لیے میں نے قابلِ اعتماد ملازم بدر کو اندلس بھیج دیا تاکہ وہ ان امرا کے ساتھ مذاکرات کر کے ان کے خیالات اور نیتیں جان سکے۔ میں نے اپنی شاہی مہر بھی بدر کو دے دی تھی تاکہ وہ باضابطہ طور پر میری طرف سے معاہدے کر سکے۔ مجھے خاص طور پر فوجی کمان دار ابو عثمان عبیداللہ کی حمایت کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے آبا خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفان کی ملازمت میں رہ چکے تھے ، اس لیے مجھے امید تھی کہ وہ میرا ساتھ دے گا۔
میں نے بدر کے انتظار میں بحیرۂ روم کے کنارے مغیلہ کے مقام پر ڈیرے ڈال دیے۔ اور پھر وہ دن آ گیا جب مجھے اس کی کشتی کا پھڑپھڑاتا ہوا سفید بادبان نظر آ گیا۔ وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ دو اندلسی سردار بھی تھے۔ ان دونوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں جلد از جلد اندلس پہنچ جاؤں تو وہ اس کا تخت حاصل کرنے میں میری ہر ممکن مدد کریں گے۔
دیر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور ویسے بھی مجھے کوئی لمبی چوڑی تیاری نہیں کرنا تھی، اس لیے انھی کشتیوں میں بیٹھ کر سوئے اندلس چل پڑا۔
ہوا موافق تھی، ہماری کشتی ہوا کے زور پر بحیرۂ روم کے نیلے پانیوں پر سرزمینِ اندلس کی طرف پھسلتی چلی گئی۔ دور سے مالقہ شہر کے آثار نظر آ رہے تھے۔شہر کے دائیں بائیں پہاڑیاں سبزے اور درختوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ میں نے زیادہ تر عمر شام کے صحرائی میدانوں یا پھر افریقہ کے بے آب و گیاہ دشتوں میں گزاری تھی۔ رصافہ سے بھاگے ہوئے مجھے پانچ برس گزر چکے تھے ، لیکن اس دوران ملنے والی صعوبتوں سے میری ہمت ماند پڑنے کی بجائے دل میں بھڑکتی آگ تیز تر ہو گئی تھی۔
میں چھوٹی سی کشتی میں بیٹھا اندلس کی جانب رواں دواں،عالمِ حیرت میں ادھر ادھر بکھرے قدرتی جلووں کو اپنی آنکھوں میں سموتا رہا۔ تاریخ کے پہیے نے مجھے اس مقام تک تو پہنچا تو دیا تھا، لیکن اس سے آگے میری تقدیر میں کیا لکھا تھا، یہ میں نہیں جانتا تھا۔
اندلس میں عظیم الشان اموی سلطنت کی داغ بیل
ہم چند گھنٹوں کے اندر اندر اندلس کے ساحلی شہر مالقہ کے قریب واقع قصبے المونیکار پر اتر گئے۔ سورج ڈھل رہا تھا، میں نے کشتی سے اترتے ہی ساحل کی ریت پر نمازِ مغرب ادا کی۔ یہیں ابو عثمان اور اس کا داماد ابنِ خالد میرے استقبال کے لیے موجود تھے ، انھوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
یہ سال 756 کے بہار کا موسم تھا۔ ہر طرف اندلس کا قدرتی حسن جوبن پر تھا۔ میرے خدشات کے بادل رفتہ رفتہ چھٹنے لگے۔ راتوں رات مالقہ اور اس کے نواحی قصبوں اور دیہات میں میری آمد کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ صبح سویرے ہی مختلف وفود آنا شروع ہو گئے جن کا ہر فرد میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشتاق تھا۔ کچھ ہی دیر بعد مراقش سے ایک ہزار بربر سپاہیوں پر مشتمل دستہ بھی آ پہنچا۔
چند دن مالقہ میں ٹھہر کر ہم نے قرطبہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔اس دوران میرے ارد گرد ایک اچھا خاصا لشکر اکٹھا ہو گیا تھا۔ جس سے ایک طرف تو میری حوصلہ افزائی ہوئی، لیکن دوسری طرف ان کے لیے خوراک مہیا کرنے کا مسئلہ اکٹھا ہو گیا۔ اس مقصد کے لیے بھاری خزانے اور رسد کی ضرورت تھی، جس سے ہم بالکل عاری تھے۔ اندلس گذشتہ کئی برسوں سے قحط سالی کی زد میں تھا جس سے خوراک میں مزید کمی واقع ہو گئی تھی۔ میرے سپاہی راستے میں جڑی بوٹیاں اور پتے ابال کر کھاتے رہے ، لیکن اس کے باوجود ان کے جوش و جذبے میں کمی نہیں آئی۔
چند ہی دن بعد ہم اشبیلیہ پہنچ گئے۔ شہر کے دروازے میرے لیے کھول دیے گئے اور ہر طرف سے ’عبدالرحمٰن ابنِ معاویہ زندہ باد‘ کے نعرے سنائی دینے لگے۔
میرے لشکر میں ہر لمحے اضافہ ہو رہا تھا اور ملک کے طول و عرض سے فوجی آ آ کر شامل ہو رہے تھے۔ جہاں یہ بات میرے لیے بے حد مسرت کا باعث تھی، وہیں لشکریوں کی روز افزوں تعداد سے رسد اور وسائل کا مسئلہ بھی مزید شدت پکڑ گیا تھا۔ میں خود تمام لشکر میں گھوم پھر کر سپاہیوں کی ہمت بندھائے رکھنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔
اندلس کا امیر یوسف الفہری نو برس سے اندلس کے تخت پر براجمان تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ آسانی سے دست بردار نہیں ہو گا۔ہم نے اشبیلیہ سے نکل کر دریائے الکبیر کے ساتھ ساتھ قرطبہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ جب ہم مسارہ کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ الفہری وہاں اپنی فوج لے کر خم ٹھونک کر مقابلے کے لیے تیار کھڑا ہوا ہے۔
اس کی فوج کیل کانٹے سے لیس تھی۔ ان کے پاس خوراک کے بھی بے پناہ ذخیرے موجود تھے۔ اس کے فوجی ہمارے سپاہیوں کی حالتِ زار سے خوب واقف تھے ، وہ ہمارے لشکر کے عین سامنے قطاروں میں بکرے پکاتے اور ہمارے فاقہ کش سپاہیوں کو دکھا دکھا کر ان کی بھنی ہوئی رانیں کھاتے تھے۔
مئی کا وسط آ چکا تھا، عیدِ قرباں کا دن تھا، کہ لڑائی کا آغاز ہوا۔اب تک کسی نے مجھے میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اس لیے مجھے علم تھا کہ کئی سرداروں کے دلوں میں میری حربی صلاحیتوں کی بابت شکوک و شبہات موج زن ہیں۔
ایک اندلسی امیر نے سواری کے لیے مجھے سفید رنگ کا ایک شان دار عربی گھوڑا دیا تھا،لیکن جب میں اس پر سوار ہو کر لشکر کی صفوں کا معائنہ کرنے نکلا تو مجھے سرگوشیاں سنائی دیں۔ بعض یمنی سردار کہہ رہے تھے کہ میں نے یہ برق رفتار گھوڑا اس لیے حاصل کیا ہے کہ اگر پسپائی اختیار کرنی پڑے تو میدانِ جنگ سے فرار ہونے میں سہولت ہو۔
لڑائی شروع ہونے سے عین پہلے اس قسم کی بدگمانیاں بے حد خطرناک ثابت ہو سکتی تھیں۔ مجھے فوری طور پران کا سدِ باب کرنا تھا، چناں چہ میں اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر یمنیوں کے سردار ابوالصباح کے پاس چلا گیا اور اس سے شکایتاً کہا کہ ’پتا نہیں یہ کس قسم کا گھوڑا ہے ، کہ میرے قابو ہی میں نہیں آ رہا۔ ایسا کرو کہ تم اسے لے لو۔‘یہ کہہ کر میں گھوڑے سے اتر آیا اور ایک مفلوک الحال سپاہی کا خچر لے کر اس پر سوار ہو گیا۔ واپس آتے ہوئے میں نے مڑ کر دیکھا۔ میرے اس غیر متوقع اقدام سے یمنیوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔
جنگ کا طبل بجا۔ میں اپنا خچر سب سے اگلی صف میں لے گیا۔ یلغار کے وقت میں پہلی قطار میں پیش پیش تھا، تاکہ اگر کسی کو میری جنگی مہارت پر شک ہے تو وہ زائل ہو جائے۔ الفہری کا سپہ سالار ابو سامل بڑی بے جگری سے لڑا، لیکن ہماری فوج کے زبردست جذبے کے سامنے اس کی پیش نہ گئی۔ شام ہوتے ہوتے ہماری شان دار فتح مکمل ہو چکی تھی۔ الفہری کی فوج ایسی تتر بتر ہوئی کہ جس سردار کا جدھر منھ اٹھا، وہ ادھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔ خود الفہری چند فوجیوں کے ساتھ میریدا کی طرف فرار ہو گیا۔
اب میرے لیے اندلس کے دارالحکومت قرطبہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی تھی۔ تاہم میں نے قرطبہ کی دیواروں کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور تین دن تک اپنے لشکر کے ساتھ وہیں مقیم رہا تاکہ الفہری کے خاندان کی خواتین آرام سے وہاں سے نکل جائیں۔ اس کے علاوہ میں نے تمام دشمن سپاہیوں کے لیے مکمل معافی کا اعلان بھی کیا۔
قر طبہ کی عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی مسائل کم نہیں ہوئے اور ابو سامل اور الفہری کی طرف سے شورش کا سلسلہ جاری رہا، لیکن اب تاریخ کا دھارا میرے حق میں مڑ چکا تھا، اور یہ فتنے میرے لیے معمولی دردِ سر سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ میرے جرنیلوں نے یکے بعد دیگرے تمام باغیوں کا صفایا کر دیا۔
تاہم جب عباسیوں کو میری کامیابیوں کی خبر ملی تو انھیں سخت تشویش لاحق ہو گئی۔السفاح کے بعد تخت سنبھالنے والے خلیفہ ابوجعفر المنصور نے شمالی افریقہ کے والی ابنِ مغیث کو لکھا کہ وہ میری سرکوبی کے لیے ایک بحری بیڑا لے کر فوراً اندلس پر چڑھائی کر دے تاکہ اسے بھی عباسی خلافت میں شامل کیا جا سکے۔ ابن مغیث نے 763ء میں ایک بڑی فوج اکٹھی کی اور اندلس پر چڑھ دوڑا۔
لیکن اب میں وہ بے یار و مددگار مفرور نہیں تھا جو عباسیوں کے ڈر سے زمین کے طول و عرض میں چھپتا پھرتا تھا۔ اب میں ایک بڑی سلطنت کا حکمران تھا، عباسی ایک بار تو کامیاب ہو گئے تھے لیکن اب وہ مجھ سے اتنی آسانی سے یہ سب کچھ نہیں چھین سکتے تھے۔ جب ابو مغیث کی فوج اشبیلیہ کے قریب خیمہ زن ہوئی تو میرے دستوں نے اس پر ایک رات اس قدر اچانک شب خون مارا کہ انھیں سنبھلنے کا موقع نہیں مل سکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام جارح فوج کا صفایا کر دیا گیا۔ مرنے والوں میں خود ابومغیث اور اس کے تمام سرکردہ سردار شامل تھے۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ عباسیوں کو انھی کی زبان میں جواب دیا جائے۔ میں نے ان تمام سرداروں کے سر سیاہ عباسی پرچموں میں لپیٹ کر مکہ بھجوا دیے جہاں عباسی خلیفہ المنصور حج کرنے کے لیے گیا ہوا تھا۔
مجھے بتایا گیا کہ جب المنصور نے یہ سر دیکھے تو وہ تھرا اٹھا اور اس کے منھ سے نکلا، ’شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمارے درمیان سمندر حائل کر رکھا ہے۔‘ منصور ہی نے مجھے ’صقرِ قریش‘، یعنی ’قریش کا عقاب‘ کا خطاب دیا تھا۔
تمام دشمنوں کی طرف سے اطمینان ہونے کے بعد میں نے اپنی توجہ انتظامی اور ریاستی امور پر مرکوز کر دیں اور ان تمام مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جن کی وجہ سے اندلس اتنے عرصے سے بدنظمی کا شکار تھا۔ اموی خلافت میں امورِ سلطنت کی تربیت اس سلسلے میں میرے بہت کام آئی۔ میں نے ملک کے طول و عرض میں سڑکیں بنوائیں، نہریں نکلوائیں اور قرطبہ کے قریب جو رومی آب ریز نہریں شکست و ریخت کا شکار ہو چکی تھیں، ان کی مرمت کروائی۔
تمام اسلامی دنیا کی خلافت نہ سہی، دمشق میں رصافہ کے محلات نہ سہی، لیکن میں بنو امیہ کی راکھ سے سرزمینِ یورپ پر ایک نئی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اگرچہ میں نے اپنے بیٹے سلیمان کو قرطبہ بلا لیا تھا، لیکن میری بہنیں اتنا طویل سفر نہیں کر سکیں اور میں انھیں دوبارہ دیکھنے سے محروم رہا۔ تاہم ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ تمام اسلامی دنیا سے اموی خاندان کے افراد ، وفاداروں اور ہم دردوں نے جوق در جوق اندلس کا رخ کرنا شروع کر دیا، جن سے مجھے میرے کاروبارِ سلطنت میں بہت مدد ملی۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار وطن کی یاد ستاتی تھی، اور میں شاعری کے ذریعے دل کا غبار کسی حد تک دور کر لیا کرتا تھا۔
میں نے دمشق کے باہر رصافہ کے محلات کی طرز پر قرطبہ سے باہر رصافہ ہی کے نام سے محل بنوایا اور اس میں شام کی یاد میں کھجور کے درخت لگوائے۔ انھی میں سے ایک درخت کو دیکھ میں نے نظم لکھی تھی:
میری آنکھوں کا نور ہے تو
میرے دل کا سرور ہے تو
اپنی وادی سے دور ہوں میں
میرے لیے نخل طور ہے تو
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں ناصبور ہے تو
غربت کی ہوا میں بارور ہو
ساقی تیرا نم سحر ہو
عالم کا عجیب ہے نظارہ
دامان نگہ ہے پارہ پارہ
ہمت کو شناور ی مبارک
پیدا نہیں بحر کا کنارہ
ہے سوز دروں سے زندگانی
اٹھتا نہیں خاک سے شرارہ
صبح غربت میں اور چمکا
ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
اے حرمِ قرطبہ
میں گیارہ مئی 2008ء کی ایک چمکیلی سہ پہر عبدالرحمٰن کی سنہ 786ء میں تعمیر کردہ مسجدِ قرطبہ کے احاطے میں کھڑا تھا جو دنیا بھر میں اسلامی طرزِ تعمیر کے اعلیٰ ترین شاہ کاروں میں سے ایک ہے۔ میرے اور حرمِ قرطبہ کے درمیان صرف ایک دیوار کی دوری حائل تھی۔اس وقت دل کی کیفیت کچھ عجیب سی تھی، اعصاب پر سنسنی سی چھائی ہوئی تھی، ہاتھ پاؤں پھولے جاتے تھے۔
میرے ذہن میں ایک دھندلی سی شبیہ تو ضرور موجود تھی۔ میں نے علامہ اقبال کی مسجد کے اندر مصلا بچھا کر نماز پڑھتے ہوئے دھندلی سی تصویر بھی دیکھ رکھی تھی، مستنصر حسین تارڑ کے بیان کردہ واقعات بھی نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے ، لیکن میں ٹھیک ٹھیک نہیں جانتا تھا کہ اس بھاری بھوری دیوار کے پیچھے کیسا منظر میرا استقبال کرے گا۔
لیکن ہم شاید وقت سے تھوڑا پہلے قرطبہ پہنچ گئے ہیں۔ میں یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ میڈرڈ سے یہاں تک پہنچا کیسے۔
میڈرڈ سے قرطبہ کاچار سو کلومیٹر کا سفر صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا۔ گذشتہ رات میں اپنا پرانا ہوٹل چھوڑ کر ہوٹل فلوریدا نورتے میں منتقل ہو چکا تھا، جو کہ نسبتاً بہتر ہوٹل تھا۔
ٹور بس اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوئی۔ ٹور گائیڈ صاحب کا نامِ نامی ڈان ہوان تھا۔ یہ انگریزی تو بول لیتے تھے ، لیکن ایک طرف تو محاور ے میں لغزش کر جاتے تھے تو دوسری طرف تلفظ کے بھی کچھ مسائل تھے۔ مثال کے طور پر یہ جہاں انگریزی کا حرف H آتا، یہ اسے خ کی طرح بولتے تھے ، مثلاً ہوٹل کو خوتل اور ہاؤس کو خاؤس کہتے تھے۔
انگریزی کا مسئلہ پورے سپین میں آڑے آتا رہا۔ سوائے میڈرڈ میں ایک خاتون فارماسسٹ کے ، میں نے پورے ملک میں کسی کو گزارے کے قابل انگریزی بھی بولتے ہوئے نہیں پایا۔ کہتے ہیں کہ شاید غیور قوموں کی یہی نشانی ہے۔
دوسری خوبی ڈان ہوان صاحب میں یہ تھی کہ بہت بولتے تھے اور مسلسل بولتے تھے۔ میڈرڈ سے انھوں نے مائیک ہاتھ میں تھام کر جو لندھور بن سعدان کی داستان چھیڑی ہے تو جب تک بس منزلِ مقصود تک پہنچ کر رک نہیں گئی، ان کی گل افشانیِ گفتار جاری رہی۔
میڈرڈ سے باہر نکلنے کے لیے ایک سرنگ کا سہارا لینا پڑا۔ گائیڈ صاحب فرمانے لگے کہ یہ سرنگ ساٹھ کلومیٹر طویل ہے اور اسے صرف چار سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ شہر کے گرداگرد رنگ روڈ کا سا کام کرتی ہے۔ میڈرڈ سے باہر آ کر بس نے کھلی فضا میں سانس لیا۔ اب مضافات کا آغاز ہو چکا تھا، اور یہاں ہر طرف وہی تعمیرات کا سلسلہ نظر آ رہا تھا جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔
دو گھنٹے بھر کے میدانی سفر کے بعد پہاڑیاں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سڑک پہاڑیوں سے لپٹتی ہوئی اوپر چڑھی، اور پھر دوسری طرف جا کر جیسے لپٹی تھی، ویسے ہی ادھڑتی چلی گئی۔
سپین کا آسمان، فراخ، وسیع، کسی گنبد کی طرح منظر پر چھایا ہوا لگتا ہے۔ میں نے یہ آسمان کبھی بھی مکمل نیلا نہیں دیکھا، جگہ جگہ اون کے رنگ برنگے گولوں کی طرح بادل بکھرے ہوتے ہیں۔
موٹر وے نما سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک بات متوجہ کرتی ہے کہ سڑک کے آس پاس بد ہئیت ہورڈنگ نظر نہیں آتے جن کی سستی اشتہاریت نے پاکستان کی شاہراہوں کے اطراف میں بکھرا حسن ڈھانپ لیا ہے۔ تاہم کبھی کبھی کسی ٹیلے پر، یا کسی موڑ پر ایک کالے رنگ کا بیل نما بورڈ ضرور نظر آتا ہے۔ گائیڈ نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہ ایک مشہور ہسپانوی شراب کے اشتہاری بورڈ تھے ، لیکن پھر حکومت نے بل بورڈوں پر پابندی لگا دی، کیوں کہ اس کے خیال میں ان سے ڈرائیوروں کے دھیان میں خلل پڑتا تھا۔ لیکن چوں کہ بیل بل فائیٹنگ کی وجہ سے سپین کی قومی علامت بن گیا ہے ، اس لیے حکومت نے یہ بیل رہنے دیے ، تاہم ان پر کسی قسم کی عبارت رقم نہیں ہے۔
سڑک کے اطراف میں دیکھتے دیکھتے یکایک ایک منظر نے چونکا کے رکھ دیا۔ ایک طرف سبز رنگ کے معلوماتی بورڈ پر خوش نما عربی ثلث خط میں شہروں کے نام اور فاصلے تحریر تھے۔ اور پھر یہ بورڈ جگہ جگہ نظر آنے لگے۔
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ؟
ڈان ہوان نے بتایا کہ اس علاقے سے مراکش جانے والے تارکینِ وطن اور سیاح بڑی تعداد میں گزرتے ہیں اور انھی کی سہولت کی خاطر اس علاقے میں عربی بورڈ نصب کیے گئے ہیں۔
راستے میں ایک جگہ رک کر کھانا کھایا گیا۔ میرے ہمراہی سیاحوں کی اکثریت کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا، کولمبیا، چلی، برازیل، ارجنٹینا۔ چوں کہ سپین نے ان ملکوں پر حکومت کی ہے اور ان لوگوں کی زبان بھی ہسپانوی ہی ہے ، اس لیے انھیں سپین میں خاص کشش یا اپنایت محسوس ہوتی ہے۔ البتہ ایک عدد نوجوان مسلمان جوڑا بھی اس قافلے میں شامل تھا۔ عثمان کا تعلق لبنان سے تھا لیکن وہ ترکِ وطن کر کے آسٹریلیا جا بسے تھے ، اور شین وارن کے لہجے میں انگریزی بولتے تھے۔ ان کی اہلیہ بھی عرب آسٹریلین تھیں۔ تعارف کے وقت جب لوگوں کو شک گزرا کہ شاید یہ شادی شدہ نہیں ہیں تو رافعہ نے نہ صرف مٹھی کھول کر انگوٹھی دکھا دی بلکہ فوراً پرس سے اپنے ایک سالہ بیٹے کی تصویر بھی نکال کر میز پر رکھ دی، جسے وہ اس کی دادی کی نگرانی میں میلبرن میں چھوڑ آئی تھی۔
میری خاص دوستی نیول اور ان کی بیگم سلویا سے ہو گئی، کیوں کہ یہ بس میں میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ دونوں بھی آسٹریلوی تھے اور ریٹائر ہونے کے بعد اب جہاں گردی پر نکلے تھے ، جس میں انھیں پانچ براعظموں کا سفر کرنا تھا۔
مغربی ملکوں میں حلال کھانے کا بڑا مسئلہ درپیش آتا ہے۔ اس لیے ایسے مواقع پر سبزی، مچھلی اور آلو کے قتلوں ہی پر اکتفا کرنا پڑتی ہے۔ میری فرمائش پر ارجنٹینا کی ایمیلیا نے ہسپانوی زبان میں چند کارآمد الفاظ لکھ کر دیے۔
مچھلی: پِسکادو
آلو: پَتاتا
سبزی: وَردوُرا
میں نے ان سے کہا کہ میں ارجنٹینا میں ایک شخص کو جانتا ہوں۔۔۔ عالمی شہرت یافتہ کہانی نویس خورخے بورخیس کو۔ وہ بے حد حیران ہوئیں کہ تمھیں تو ہسپانوی زبان نہیں آتی، پھر بورخیس کو کیسے پڑھ رکھا ہے۔ میں نے بتایا کہ بورخیس پاکستان کے ادبی حلقوں کا محبوب ادیب ہے۔ ویسے بات سوچنے والی ہے ، کہاں لاطینی امریکہ اور کہاں اردو زبان، لیکن ادب نے ان قطبین کو ایک دھاگے میں باندھ رکھا ہے۔
کچھ ہی دیر بعد بس ایک وادی میں اترنے لگی۔ دور سے ایک مٹیالے دریا کے نشیب میں بکھرا ہوا سوادِ شہر ہویدا ہونے لگا۔ یہ قرطبہ ہے ، جسے ایک زمانے میں دنیا کے ماتھے کا جھومر کہا جاتا تھا۔
مسجدِ قرطبہ دریائے کبیر سے تھوڑی دور اونچائی پر تعمیر کی گئی ہے۔ بیرونی قلعہ نما سنگی دیوار سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے عظیم مسجد واقع ہے۔ طویل دیوار کے گرد گھوم کر ہم مالٹے کے درختوں سے بھرے صحن میں پہنچ گئے ،جہاں ایک مقامی راہبر ہمارے لیے چشم بہ راہ تھا۔ سپین میں قانون یہ ہے کہ جہاں بھی جائیں، وہیں کے مقامی گائیڈ کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ چناں چہ ایسے موقعوں پر ڈان ہوان صاحب ایک کونے میں کھڑے ہو کر سگریٹ سلگا لیتے تھے ، اور ان کے چہرے سے ایک ایسی حسرت ٹپکنے لگتی تھی جیسے سٹیج پر بیٹھے ہوئے جغادری شاعر کسی اناڑی کے کلام پر سامعین کی بے محابا داد و تحسین سے زخمی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔
تو آج میں اسی صحن میں یوں حیرت و حسرت کا مارا کھڑا تھا جیسے کوئی طویل سفر طے کرنے کے بعد کوئے جاناں تک پہنچے اور وہاں پہنچ کر ٹھٹک جائے ، اور اس میں ایک قدم آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہو۔ رعب، دبدبے ، بے کلی، اشتیاق اور تجسس جیسے ملے جلے جذبات کی خودرو بیلیں میرے پیروں سے لپٹ لپٹ گئیں، اور میں اپنی جگہ پر کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
راہبر کے ٹہوکا دینے پر میں چونکا۔ وہ میری تلاش میں مسجد سے واپس آ گیا تھا۔ اس نے سرزنش کی کہ مسجد کے اندر بہت سے سیاح بھٹک جاتے ہیں اور نتیجتاً اپنی بس سے رہ جاتے ہیں اور انھیں باقی ماندہ سفر ٹرین میں بیٹھ کر طے کرنا پڑتا ہے۔
میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔
دروازے کے اندر قدم رکھا۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی، لیکن کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ اندر داخل ہوتے ہی گھپ اندھیرے نے یوں لپیٹ میں لے لیا تھا جیسے گرمیوں میں ایر کنڈیشنڈ کمرے سے باہر نکلیں تو گرم ہوا کا تھپیڑا منھ پر آ لگتا ہے۔
ہم باہر کی بھڑکیلی دھوپ سے گزر کر اندر داخل ہوئے تھے ، اس لیے آنکھوں کو اندر کی تاریکی سے راہ و رسم پیدا کرنے میں وقت لگ گیا۔ چند منٹوں کے انتظار کے بعد کہیں جا کر مسجد کے در و دیوار نے گویا شرماتے ، لجاتے ہوئے ، دھیرے دھیرے اپنے چہرے سے اندھیرے کی نقاب سرکانا شروع کر دی۔
آج تقریباً تین مہینے بعد مجھے ٹھیک ٹھیک بیان کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے کہ اندھیرے کی دھند چھٹنے کے بعد میں نے وہ منظر کیسا پایا۔ جب آپ کوئی عظیم ادبی شاہ کار پہلی بار پڑھتے ہیں، کوئی معرکہ آرا سمفنی پہلی بار سنتے ہیں، کسی دیو قامت رہنما سے پہلی بار ملتے ہیں، تو ان لمحات کے جگنوؤں کو لفظوں کی مٹھی میں کیسے بند کر سکتے ہیں؟
شاید علامہ اقبال کو بھی یہی مسئلہ لاحق تھا کہ ان جیسے قادر الکلام شاعر نے بھی مسجدِ قرطبہ پر طویل نظم لکھتے ہوئے مسجد کے بارے صرف دو سطریں لکھی ہیں:
تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
لیکن اقبال آخر اقبال ہیں، دو سطروں میں بھی بنیادی بات بیان کر گئے ہیں۔ واقعی سرخ اور سفید اینٹوں سے بنی ہوئی دہری محرابوں کندھوں پر اٹھائے ہوئے پتھر سے تراشے ہوئے ستون نخلستان کا سا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں تک نظر جاتی ہے ، انھی ستونوں کی فصل کھڑی نظر آتی ہے۔ راہبر نے بتایا کہ مسجد کے کل ایک ہزار ستون تھے ، جو اب کے بیچوں بیچ کلیسا کی تعمیر کے بعد صرف آٹھ سو رہ گئے ہیں۔ لیکن یہ آٹھ سو ستون بھی اتنا پراسرار بصری دھوکا دیتے ہیں کہ لگتا ہے ان کی قطاریں لامتناہی ہیں۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت۔ اسلامی آرٹ میں یہ جلوہ گری جگہ جگہ نظر آتی ہے۔
مجھے معلوم تھا کہ مسجد کے بیچوں بیچ ایک بھاری بھرکم جسامت کا کلیسا تعمیر کیا گیا ہے ، لیکن مسجد کے دالان کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اس کے اندر خاصی دیر تک گھومنے کے بعد بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کلیسا کہاں ہے ، کس طرف کو ہے ، کدھر ہے۔
میرے گروہ کے علاوہ مسجد میں رجنوں سیاحوں کی ٹولیوں ستونوں کے جنگل میں اپنے اپنے راہبروں کا مستعدی سے دامن تھامے ادھر سے ادھر آ جا رہی تھیں جیسے چوزے مرغی کے پیچھے پیچھے گرتے پڑتے دوڑتے پھرتے ہیں۔ ہر طرف کیمروں کے فلیش ٹمٹما رہے تھے ، اور بھانت بھانت کی بولیاں کانوں میں پڑ رہی تھیں، ہسپانوی، انگریزی، جاپانی، اطالوی، فرانسیسی، عربی۔
جب مسجد بنی تھی تو اس کے مہندسوں اور معماروں نے مٹی، چونے ، پتھر، اور اینٹ گارے کے علاوہ تعمیر کا ایک عنصر روشنی بھی رکھا تھا جس کی موجیں مسجد کی دو منزلہ سفید و سرخ محرابوں، ستونوں اور چوبی چھت پر نفیس نقش و نگار اور فرش پر بچھے قالینوں کو شرابور کر کے ان کے رنگوں کو چمکا دیتی تھیں۔ مسجد کے سامنے دیوار نہیں تھی اور نمازی صحن میں بنے حوض میں وضو بنا کر سیدھے مسجد میں داخل ہو جاتے تھے اور یوں صحن میں ایستادہ کھجور کے درخت اور مسجد کے اندر پھیلا ہوا نخلستان ہم آہنگ ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن عیسائیوں نے قرطبہ فتح کرنے کے بعد جہاں مسجد کے قلب میں کلیسا تعمیر کیا، وہیں صحن اور دالان کے درمیان موجود محرابوں کو پاٹ کر مسجد کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔
غالباً اس کی وجہ تہذیبی فرق ہے۔ مسلم فنِ تعمیر میں وسعت، کشادگی اور فراخی کا پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے ، جس میں روشنی اور ہوا سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے پر کلیساؤں میں تنگی اور گھٹن زیادہ صاف نظر آتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ گرجاؤں میں اکثر اوقات روشنی کو محض رنگین شیشوں کی بلند و بالا کھڑکیوں ہی سے چھن کر اندر آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یا پھر شاید اس کی وجہ موسمی فرق ہو۔ مسلمان تہذیب گرم علاقوں میں پھلی پھولی، جہاں کھلی اور ہوا دار عمارتیں بنانا قدرتی تھا۔ اس کے مقابلے پر یورپ کے یخ بستہ موسم تنگ و تیرہ عمارتوں ہی کی اجازت دیتے ہوں گے۔
اسی تہذیبی آویزش کا خمیازہ مسجدِ قرطبہ کو بھگتنا پڑا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ آج کے سیکیولر سپین میں اس تاریخی غلطی کا ازالہ کر کے مسجد کو اس کا چھنا ہوا نور لوٹا دیا جائے ؟
شاید نہیں، کیوں کہ مسجد کا انتظام و انصرام کلیسا کے کٹر پادریوں کے ہاتھ میں ہے۔ 2004ء میں قرطبہ میں بسنے والے مسلمانوں نے عیسائیوں کے مذہبی مرکز ویٹیکن سے درخواست کی تھی کہ انھیں مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن ویٹیکن نے اس عرضی کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ مسجد نہیں بلکہ کلیسا ہے اور مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ تاریخ کو تسلیم کریں۔
مسجد کے اندر محافظ گھومتے رہتے ہیں اور اگر کوئی وہاں نماز پڑھنے کی کوشش کرے تو اسے روک دیتے ہیں۔ جارج اور ویل کی زبان میں ان محافظوں کو "نماز پولیس” کہا جا سکتا ہے۔ معلوم نہیں حضرت علامہ ان محافظوں کی آنکھ بچا کر کیسے نہ صرف نماز پڑھنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ انھیں ایک عدد فوٹوگرافر بھی میسر آ گیا جس نے فٹافٹ تصویر بھی بنا لی! قیاس کہتا ہے کہ 1933ء میں آج کی طرح کے برق رفتار کیمرے میسر نہیں ہوں گے اور تصویر لینے میں خاصا وقت لگ جاتا ہو گا۔
1623ء میں سپین سے آخری مسلمان کو بھی نکال باہر کر دیا گیا تھا (تفصیل اگلی قسطوں میں آئے گی) لیکن اب وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خود قرطبہ میں پانچ سو کے قریب مسلمان موجود ہیں جو ایک عارضی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔
مسجد کے منتظمین اس کی سیر کے لیے مہنگے ٹکٹ بھی جاری کرتے ہیں، جن کے ساتھ ایک معلوماتی بروشر بھی دیا جاتا ہے۔ میں نے مسجد سے واپسی پر یہ بروشر دیکھا تو اس کا ایک ایک لفظ تعصب کی سیاہی سے لتھڑا ہوا پایا۔ بروشر کے سرورق پر مسجد کا کوئی منظر نہیں بلکہ اس کے اندر موجود کلیسا کی تصویر ہے۔ نیز بروشر کی پیشانی پر "دی کیتھیڈرل آف کورڈوبا” لکھا ہوا ہے ، حالاں کہ دنیا بھر میں، بہ شمول قرطبہ کے باشندوں کے ، اس عمارت کو "مَسکیتا” (Mesquita) یعنی "مسجد”کہا جاتا ہے۔ بروشر کے اندر جگہ جگہ قرطبہ کے مسلمان حکمرانوں کی تسلیم شدہ روا داری Convivencia کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ڈان ہوان صاحب قرطبہ ہی کے رہنے والے ہیں اور وہ بس میں سارا دن قرطبہ کی عظمت اور اس کے سیکیولر معاشرے کی عظمت کے گن گاتے رہے تھے۔ ان کی آواز میں اس وقت تاسف کی پرچھائیاں لہرانے لگی تھیں جب انھوں نے ذکر کیا تھا کہ قرطبہ دو صدیوں تک دنیا کا مرکز تھا اور آج جو مقام لندن، پیرس اور نیویارک کو حاصل ہے ، وہی مقام اس وقت قرطبہ کی جھولی میں تھا۔ میں نے بس میں واپس آنے کے بعد یہ بروشر دکھایا تو انھوں نے بڑبڑاتے ہوئے پادریوں کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی کی شان میں بے نقط قصیدہ شروع کر دیا۔
مقامی راہبر نے بتایا کہ اپنے عروج کے زمانے میں یہ مسجد صرف نماز پڑھنے کے لیے مخصوص نہیں تھی، بلکہ بیک وقت کمیونٹی سنٹر، عدالت، کانفرنس ہال، آڈیٹوریم اور دانش گاہ کا درجہ رکھتی تھی۔
میں سوچنے لگا کہ کسی زمانے میں اسی مسجد کے اندر کسی مخصوص ستون کے نیچے بیٹھ کر ابنِ رشد اپنے شاگردوں کو یونانی فلسفے کا درس دیتے ہوں گے ، کسی اور ستون سے کمر ٹیک لگا کر ابنِ حزم اپنی تازہ ترین نظم سامعین کے گوش گزار کر رہے ہوں گے تو کسی قریبی جھنڈ میں بغداد کے مدینہ الحکمت سے آنے والی کسی تہلکہ خیز کتاب کا احوال بیان کیا جا رہا ہو گا۔ اور یہیں کسی ستون کے نیچے ابن العربی متحیر پرستاروں کے گھیرے میں اپنی روحانی وارداتوں کا احوال بیان کرتے ہوں گے۔ کیا عجب کسی ستون کے تنے پر اب تک ان کی انگلیوں کے نشان پائے جاتے ہوں؟
معبد۔۔ کلیسا۔۔ مسجد۔۔ کلیسا
قریش کے جلاوطن عقاب نے بھی مسجدِ قرطبہ کے صحن میں یہیں کہیں کھڑے ہو کر اپنی اس تخلیق کو فخر سے دیکھا ہو گا۔
عبدالرحمٰن اول نے مسجد کی تعمیر کا کام اپنی زندگی کے آخری برسوں میں شروع کیا تھا۔ گویا وہ اپنی ساری زندگی کی جدوجہد کا نچوڑ اس مسجد کی شکل میں دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔ مشہور مستشرق اور اسلامی فنون کے ماہر ٹائٹس برک ہارٹ کا خیال ہے کہ مسجد کے نقشے میں عبدالرحمٰن کا ہاتھ بھی تھا۔ جس طرح وہ پردیسی شہزادہ اپنے محل میں کھجور کا درخت لگا کر اس سے وطن بدری کا دکھ بانٹتا تھا، ویسے ہی اس نے مسجد کی تعمیر میں شام کی ہمیشہ کے لیے گم گشتہ یادوں اور چھنی ہوئی اموی روایت کی بازیافت کی کوشش کی ہے۔
قرطبہ قدیم شہر ہے۔ مسجد کے مقام پر رومیوں کا معبد تھا، جب وزی گوتھ قرطبہ کے حکمران بن گئے تو انھوں نے معبد ڈھا کر اس کی جگہ کلیسا تعمیر کیا۔ عبدالرحمٰن نے کلیسا کے پادریوں سے 80 ہزار درہم میں کلیسا خرید لیا اور اس پر مسجد کی بنیاد رکھی۔ مسجد کا قبلہ درست نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ معماروں نے غلطی سے قبلہ اسی طرف رکھا جس طرف دمشق کی اموی مسجد کا قبلہ تھا، حالاں کہ یہاں قبلہ جنوب مشرق کی طرف ہونا چاہیئے تھا۔
عبدالرحمٰن اس مسجد کی شکل میں اپنی نشانی، اپنا دستخط روئے زمین پر چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس نے یقیناً اس کے نقشے پر کافی غور و خوض کیا ہو گا۔ اس نے دمشق میں اپنے دادا ہشام کے بھائی خلیفہ الولید کی تعمیر عظیم مسجد بھی دیکھی تھی، اور یروشلم میں واقع قبہ الصخرہ (ڈوم آف دی راک) بھی، جو اسلامی تعمیر کے اولین نمونوں میں سے ایک ہے۔ عبدالرحمٰن اور اس کے مہندسوں نے ان دونوں مساجد سے استفادہ بھی کیا ہے اور ان کے آرٹ کو کئی قدم آگے بھی بڑھایا ہے۔
مسجدِ قرطبہ کی دہری محرابیں دمشق کی مسجد کی یاد دلاتی ہیں، تاہم زیریں محرابوں کی ساخت اور بنت قرطبی معماروں کی تخلیق ہے ، جو دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔ مسجد کی تعمیراتی جدت یہ ہے کہ اس میں چھت اونچی کرنے کے لیے دہری محرابیں استعمال کی گئی ہیں کیوں کہ واحد محراب بھاری چھت کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔ اوپری محراب نچلی کی نسبت زیادہ بڑی ہے اور ان دونوں کا بوجھ ایک ہزار پتلے اور نازک اندام ستونوں کی قطاروں پر ہے۔
اگرچہ مسجد کی تعمیر میں رومی کھنڈرات سے نکالے گئے ستون اور محرابیں استعمال کی گئیں، اور مسجد کی مرکزی محراب بنانے کے لیے قسطنطنیہ کے عیسائی بادشاہ نے کاریگر اور پچی کاری کا سامان بھیجا، لیکن اس کے باوجود مسجد بنیادی طور پر اموی طرزِ تعمیر کا شاہ کار ہے۔
مسجد کی محرابوں میں سفید اور سرخ اینٹیں لگائی گئی ہیں جن کی دھاریاں مسجد کے مجموعی نقشے سے یوں ہم آہنگ ہو جاتی ہیں، جیسے سنگِ مرمر، سنگِ خارا اور سنگِ مردار سے بنے ہوئے سڈول ستون شانوں پر قوسِ قزح اٹھائے ہوئے ہیں۔
دوسری جدت مقصورہ کے گنبد کی ساخت میں روا رکھی گئی ہے ، جو مشرق و مغرب میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔ مہندسوں کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ گول گنبد کو کیسے مربع دیواروں کے ساتھ مربوط کیا جائے کہ گنبد کی گولائی بہ تدریج دیواروں میں ضم ہو جائے جو دیکھنے میں بھی خوش نما لگے اور انجینیئرنگ کے تقاضوں کے بھی مطابق ہو۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک ہشت پہلو شکل دریافت کی جو رفتہ رفتہ گنبد میں مدغم ہو جاتی ہے اور دیکھنے میں بھی بے حد حسین و جمیل لگتی ہے۔ آرٹ اور فنکشن کا اس سے عمدہ امتزاج ڈھونڈنا مشکل ہے۔
مسجد کی محراب بھی دنیا بھر کے طرزِ تعمیر کے اعلیٰ ترین فن پاروں میں سے ایک ہے ، جس کے نمونے پر بعد میں آنے والی صدیوں میں دنیا بھر کی مسجدوں میں محرابیں تعمیر کی گئیں۔ یہ محراب ہشام نے تعمیر کروائی تھی۔ اندلس میں اموی خلافت کے آخری دور میں طاقت ور وزیر المنصور نے مسجد کی توسیع کی۔ اس نے شمال میں واقع عیسائیوں کے انتہائی مقدس مقام سینتیاگو کامپوستیلا کو فتح کر کے وہاں کے بڑے کلیسا سے گھنٹیاں اتروا لیں اور انھیں عیسائی زائرین کے کندھوں پر لدوا کر قرطبہ لے آیا اور انھیں شمع دان بنوا کر مسجدِ قرطبہ میں نصب کروا دیا۔ جب 1236ء میں عیسائی حکمران فرڈیننڈ ثالث نے قرطبہ فتح کیا تو اس نے مسجد سے گھنٹیاں اتروا کر اس بار مسلمانوں کے کندھوں پر سوار کروا کر واپس سینتیاگو بھجوا دیں۔
فرڈیننڈ نے مسجد کو نہیں چھیڑا، تاہم 1523ء میں کارلوس پنجم نے مسجد کے بیچوں بیچ کلیسا بنانے کا حکم صادر کر دیا۔ اس مقصد کے لیے 63 ستون مسمار کر دیے گئے۔ مشہور ہے کہ جب کارلوس نے مکمل شدہ کلیسا دیکھا تو غم و غصے سے چلا اٹھا اور کہنے لگا کہ جو تم نے بنایا ہے وہ کہیں بھی بنایا جا سکتا تھا، لیکن تم نے جو توڑا ہے وہ دنیا میں اس کا کوئی مثل نہیں تھا۔
ہمیں اس روایت پر یقین کرنے میں ذرا مشکل پیش آ رہی ہے ، کیوں کہ اسی کارلوس نے بعد میں الحمرا کے ایک حصے کو منہدم کروا کر وہاں اپنا گراں ڈیل محل تعمیر کروایا، جو الحمرا کے نرم و نازک، ریشمیں، مخملیں محلات کے بیچ میں ٹاٹ کا پیوند لگتا ہے۔
مسجد میں چلتے چلتے ہم ایک دیوار کے قریب پہنچے جہاں ایسی ٹائلیں نصب کی گئی ہیں جن پر معماروں نے اپنے اپنے نام کچے پلاسٹر پر لکھے ہیں۔ یہاں ہر طرح کے اسلامی نام نظر آتے ہیں، قاسم، احسان، مسعود۔ میں خاصی دیر تک اس دیوار کے آگے کھڑا ان ناموں کو تکتا اور ان معماروں کے بارے میں سوچتا رہا۔
آخر ہمارا راہبر ہمارے گروپ کو ہنکا کر مرکزی کلیسا کی طرف لے گیا۔ میں یقین سے کہہ نہیں سکتا کہ یہ میرا تعصب ہے یا کچھ اور ، لیکن مجھے مسجد کے پراسرار، گہرے حسن کے اندر یہ شوخ و شنگ اور زرق برق کلیسا ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی خاموش، پرسکون ہال میں شرارتاً تیز موسیقی چھیڑ دی جائے۔ لیکن خیر، ایک لحاظ سے کلیسا کا احسان مند بھی ہونا ناگزیر ہے۔ اگر مسجد کے بیچ میں یہ کلیسا نہ ہوتا تو مسجد بھی قائم نہ رہ پاتی۔ قرطبہ میں ہزار سے زیادہ مسجدیں تھیں، ان میں سے صرف یہی باقی بچی ہے۔
ہم جب کلیسا میں پہنچے تو وہاں عبادت کے آنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو رہا تھا۔ اور لوگ لکڑی کی بینچوں پر بیٹھے وعظ شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ اس موقعے پر راہبر ہمیں خاموش رہنے کی تلقین کرتا ہوا مسجد کی بیرونی دیوار کی طرف لے گیا۔ وہاں اس نے اسلامی معاشرے میں مسجد کی اہمیت اور مرکزیت پر اپنا وعظ شروع کر دیا۔ اس نے سامعین کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں اسلام کا قبلہ یروشلم کی طرف تھا لیکن بعد میں اسے مکہ کی طرف موڑ دیا گیا۔
اس موقعے پر لبنانی رافعہ بول پڑی کہ ہاں، اس لیے کہ وہاں پیغمبرِ اسلام دفن ہیں۔ اسے ٹوکنا ضروری تھا، اس لیے میں نے کہا کہ ایک تو قبلے کا حضورِ پاک کے روضہ مبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے ، دوسری بات یہ کہ ان کا روضہ مکے میں نہیں بلکہ مدینے میں ہے۔ اس کا خاوند اس بات سے تھوڑا کھسیانا ہو گیا اور بیوی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تم نے مجھے شرمندہ کر دیا ہے۔
مسجدِ قرطبہ جہاں ایک طرف مسلمانوں کے عروج کا مرقع ہے ، وہیں اس کے در و دیوار ان کے زوال کی داستان بھی بیان کرتے ہیں۔ اس لیے مسجد سے واپسی پر بہت دیر تک دل کے افق پر خوشی اور پچھتاوے کا جھٹپٹا چھایا رہتا ہے۔
اندلس کا طوطیِ ہزار داستان
لیفہ المومنین ہارون رشید نے اپنی چمکیلی سیاہ آنکھیں مجھ پر مرکوز کر دیں: ‘زریاب، تم نے اپنے استاد موسیقارِ اعلیٰ اسحٰق بن ابراہیم موصلی سے فنِ موسیقی میں اب تک کیا سیکھا ہے ؟ ‘
میں اس طرح براہِ راست مخاطب کیے جانے پر چونک گیا اور ایک ثانیے کو اوپر دیکھ کر نظریں دوبارہ اپنے پیروں کے انگوٹھوں پر جما دیں۔
’خلیفہ المومنین، میں نے بساط بھر کوشش کی ہے کہ میرے شوق اور لگن کی سرزمین استادِ عالی مقام کے بارانِ علم سے سیراب ہو سکے۔‘
’بہت خوب، تو پھر دیر کس بات کی ہے۔ ہم مشتاق ہیں کہ تم سے کوئی مشہور اور مقبول نغمہ سنیں۔‘
عباسی دربار میں اس وقت جعفر برمکی اور ابونواس بھی موجود تھے۔ خلیفہ کی بات سن کر وہ بھی ہمہ تن گوش ہو گئے۔
’اے خلیفۂ وقت، جو دوسرے گلو کار گا سکتے ہیں، وہ میں بھی گا سکتا ہوں، لیکن میرے پاس کچھ ایسی دھنیں بھی ہیں، جو صرف آپ جیسے قدردانوں ہی کی محفل کو زیب دیتی ہیں۔ ‘
اس بات سے خلیفہ کا اشتیاق بڑھ گیا۔ انھوں نے استاد اسحٰق سے کہا، ’اسحٰق اپنا عود زریاب کو دے دو تاکہ ذرا ہم بھی سنیں وہ کون سی دھنیں ہیں جو زریاب نے اپنے سینے میں چھپا کر رکھی ہیں۔’
میں نے نظریں نیچی ہی رکھیں۔’ اگر خلیفہ المومنین چاہتے ہیں کہ میں استاد کے انداز میں گاؤں تو میں ان کا عود بجا سکتا ہوں۔ لیکن میری دھنوں کے لیے میرا اپنا عود زیادہ مناسب رہے گا۔ اگر اجازت ہو تو لے آؤں؟
خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے اجازت عطا ہوتے ہی میں باہر چلا گیا۔ میں نے صبح خلیفہ کے دربارِ دُربار میں باریابی سے قبل اپنا عود محل کے صدر دروازے پر دربانوں کے پاس رکھوا دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب میں اپنا عود لے کر واپس آ گیا تو استادِ باراں دیدہ اور خلیفہ دونوں نے بھانپ لیا کہ میرے عود میں عام رواج کے بر خلاف چار کے بجائے پانچ تار تھے اور ان کو بجانے کے لیے عام طور استعمال کی جانے والے لکڑی کے مضراب کی بجائے میرے ہاتھ میں عقاب کا پنجہ تھا۔
میں نے عود کے تار چھیڑ دیے۔ یہ لمحہ زندگی کا ماحصل تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس کی تیاری کے لیے میں سال ہا سال دماغ کے تیل کے ساتھ ساتھ جگر کا خون بھی جلایا تھا۔ خلیفہ کے حضور اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی خواہش کرۂ ارض کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی اس عظیم سلطنت میں بسنے والے ہر فن کار کے دل میں موج زن تھی، اب قسمت سے مجھے یہ موقع نصیب ہوا تھا، اور میں اس دورانیے کے ایک ایک ثانیے کو کشید کر کے اسے اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔
میری تمنا تھی کہ میں اپنا خونِ جگر نچوڑ کر خلیفہ کے دربار کی فضا میں لوبان کی خوشبو کی طرح بکھیر دوں۔
کچھ دیر تک تو میں آواز سے ساز ملاتا رہا، پھر میں نے گانا شروع کیا اور بتدریج تان اونچی کرتا چلا گیا۔ میری کوشش تھی کہ ساز و آواز میں اس قدر ہم آہنگی ہو کہ یوں لگے دونوں آوازیں یا تو میرے گلے سے نکل رہی ہیں، یا پھر میرے پنچ تارا عود سے۔
خلیفہ محویت کے عالم میں اور استادِ محترم حیرت کی کیفیت میں سنتے رہے۔ وہ تو جب میں گانا ختم کر کے کورنش بجا لایا تو ان کے چونکنے سے مجھے احساس ہوا کہ وہ کتنی محویت کے عالم سے سن رہے تھے۔ تمام فنونِ لطیفہ میں سب سے تجریدی فن موسیقی ہے ، کیوں کہ اس میں صرف آواز کی بے رنگ، غیر مرئی مدد سے سامعین کے ذہن کے پردے میں جذبات، تاثرات اور کیفیات کا نقش بنایا جاتا ہے۔
میں اٹھ کھڑا ہوا اور اجازت لے کر دربار سے باہر آ گیا۔ استاد اسحٰق موصلی بھی لپک کر میرے پیچھے ہو لیے۔ مجھے ان کے تیور بہت جارحانہ لگے :
‘تمھاری یہ جرات کہ تم مجھے بھرے دربار میں یوں دھوکا دو؟’
‘دھوکا؟ استادِ محترم، میں آپ کو دھوکا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔’
’تم نے یہ دھنیں اور یہ ساز مجھے سے چھپا کر کیوں رکھے تھے ؟‘
’استادِ مکرم، چراغ سے چراغ جلتا ہے ، میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ آپ ہی سے سیکھا ہے ، اس اکتساب میں اگر میں کچھ اختراع کی ہے تو اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے ؟ ‘
‘دیکھو زریاب،ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اب یا تو تم بغداد میں رہو گے یا میں۔ دربار کے موسیقارِ اعلیٰ کا یہ مقام میں نے زندگی بھر کی ریاضت سے حاصل کیا ہے ، اور میں اسے کسی قیمت پر ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا، چاہے اس کے لیے مجھے کوئی بھی ناخوش گوار قدم اٹھانا پڑے۔’
‘استادِ محترم، آخر میرا قصور کیا ہے ؟’
‘تمھارا قصور یہ ہے کہ تم میدانِ موسیقی میں اسحٰق موصلی سے آگے بڑھنے کے لیے پر تول رہے ہو، اور میں یہ مقام اپنے سگے بیٹے کے لیے بھی چھوڑنے کا روادار نہیں۔ سنو، میں تمھارے سامنے دو راستے رکھ رہا ہوں۔ اگر تم یہیں رہو تو میں تمھیں ہر صورت میں راستے سے ہٹا دوں گا چاہے مجھے اس کے عوض جو بھی بھگتنا پڑے۔ دوسرا راستا یہ ہے کہ کل سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے بغداد چھوڑ دو۔ میں تمھیں اتنی رقم دے دوں گا کہ تمھیں کئی برس تک روزی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بولو، تمھیں کیا منظور ہے ؟’
میں رات بھر کروٹیں بدل بدل کر استاد کی تجاویز کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتار ہا۔ لیکن میرے پاس کوئی چارا نہیں تھا۔ میں بغداد میں رہ کر خلیفہ کے چہیتے اور منھ چڑھے درباری سے چپقلش مول نہیں لے سکتا تھا۔ چناں چہ میں نے استاد سے اشرفیوں کی تھیلی وصول کی اور پو پھٹنے سے قبل مغرب کی سمت جانے والے پہلے قافلے کے ہم رکاب ہو گیا۔
میرا اصل نام ابوالحسن ابن نافع تھا، لیکن غالباً میری سیاہ رنگت اور آواز کی وجہ سے مجھے زریاب کہا جاتا تھا۔ زریاب عربی میں ایک کالے ، لیکن خوش الحان پرندے کا نام ہے۔
بغداد سے نکل کر میں مصر پہنچا اور پھر دشت و قریہ کی خاک چھانتا ، چھوٹے بڑے امیروں اور سرداروں کے ہاں قسمت آزمائی کرتے کرتے بالآخر تیونس کے دربار سے وابستہ ہو گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد دل وہاں سے بھی اکتا گیا۔ کہاں بغداد کی زرق برق زندگی کی رنگا رنگیاں اور کہاں یہ مضافاتی صحرائی رجواڑے۔
یہیں میں نے بحیرۂ روم کے پار اندلس میں آباد کی جانے والی عالی شان اموی سلطنت کے چرچے سنے۔ میں نے کچھ دوستوں کے ذریعے سن گن لینے کی کوشش کی تو مجھے بے حد حوصلہ افزا رد عمل ملا۔ میں نے اندلسی حکمران الحکم اول کی خدمت میں معروض گزار ہوا کہ میں ان کے دربار سے وابستہ ہونا چاہتا ہوں۔ الحکم پہلے اندلس کے پہلے اموی امیر عبدالرحمٰن الداخل کے پوتے تھے۔
امیر الحکم نے مجھے لکھا کہ میں جتنی جلد ممکن ہو سکے ، قرطبہ پہنچ جاؤں، جہاں وہ مجھے اپنا درباری موسیقار مقرر کر دیں گے۔ میں نے فوراً زادِ راہ اکٹھا کیا اور افتاں و خیزاں اندلس جا پہنچا۔ لیکن وائے قسمت، میں ایک مہینے کے جان جوکھم والے سفر کے بعد ابھی قرطبہ کے قریب ہی پہنچا تھا کہ خبر ملی، امیرالحکم دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں۔ میں نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور واپسی کی تیاری کرنے لگا۔ جب مربی ہی نہ رہا تو پھر قرطبہ جانے سے کیا حاصل؟
لیکن خدا بھلا کرے ، نئے امیر عبدالرحمٰن ثانی کے یہودی درباری موسیقار ابوالنصر منصور کا، جس نے نئے امیر کے سامنے میری اتنی تعریفیں کیں کہ انھوں نے کمال مہربانی سے اپنا نمائندہ بھیج کر مجھ سے قرطبہ آنے کے لیے کہا۔
جب میں 822ء میں قر طبہ کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا تو میری شہرت کے افسانے مجھ سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ اور کیوں نہ ہو، بغداد اس زمانے میں دنیا کا علمی اور ثقافتی گڑھ تھا اور میں اسی بغداد کا نمائندہ تھا۔ امیرِ اندلس کے امرا نے فصیلِ شہر سے باہر آ کر میرا استقبال کیا۔
قرطبہ میں مجھے جو عزت اور مرتبہ ملا، میں اس کا میں بغداد میں صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔ امیر نے مجھے سنے بغیر ہی موسیقارِ اعلیٰ کے رتبے پر فائز کر دیا۔ اور جب انھوں نے مجھے سنا، تو پھر وہ کسی اور گلوکار کو نہیں سنتے تھے۔ قرطبہ میں قدم جمانے کے بعد میں پہلا کام کیا کہ یہاں موسیقی کی تربیت کا ادارہ قائم کر دیا، جس میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین کو بھی اس فن کی تعلیم دی جاتی تھی۔
لیکن اندلسی دربار میں میرا کردار صرف موسیقی تک ہی محدود نہیں تھا۔ جلد ہی میں ایک لحاظ سے ثقافت کے وزیر کے طور پر کام کرنے لگا۔ میں نے قرطبہ میں دیکھا کہ یہاں دولت کی تو فراوانی ہے لیکن نشست و برخاست، رہن سہن اور بود و باش میں وہ نفاست اور رکھ رکھاؤ نہیں ہے ، جو میں بغداد کے شاہی دربار اور امرا و روسا کے ہاں دیکھتا چلا آیا تھا۔ چناں چہ میں نے قرطبہ کی اموی سلطنت کو جدید ثقافتی خطوط پر آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔
قرطبہ کی مٹی بے حد زرخیز تھی، بس اسے ذرا سے نم کی ضرورت تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے فیشن کے ضمن میں میری ہر بات کو حرفِ آخر سمجھا جانے لگا۔
سب سے پہلے تو میں نے خورد و نوش پر توجہ دی۔ میں نے دیکھا کہ ہر طرح کا کھانا بغیر کسی خاص ترتیب یا قرینے کے تناول کر لیا جاتا ہے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ کھانے میں سب سے پہلے یخنی پیش کی جائے گی، اس کے بعد اصل کھانے کی باری آئے گی، اس کے بعد شیرینی اور آخر میں خشک میوے یا پھل۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ترتیب نہ صرف اندلس کے طول و عرض میں رائج ہو گئی بلکہ کچھ برسوں کے بعد معلوم ہوا کہ ارضِ کبیر یعنی یورپ میں بھی کھانے کے ان آداب نے قبولِ عام کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔
میں نے دیکھا کہ لوگ مجھ سے اس قدر عقیدت اور محبت رکھتے تھے کہ جو لباس میں پہنتا، وہ راتوں رات قرطبہ بھر میں مقبول ہو جاتا۔ میں نے اس خوش گوار صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر موسم کے لحاظ سے لباس اور اس کا رنگ منتخب کرنے کے چلن کو فروغ دیا۔ گرمیوں میں سفید یا ہلکے رنگوں کے کپڑے اور سردیوں میں شوخ رنگوں کے بھاری روئی دار لبادے۔ اس کے علاوہ میں نے موقعے کی مناسبت سے کپڑے تبدیل کرنے کی طرح بھی ڈالی ورنہ اس زمانے میں اندلسی تاریخ دان البکری کے بقول
‘شمال میں بسنے والے عیسائیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک بار پہننے کے بعد کپڑے کبھی نہیں اتارتے ، حتیٰ کہ وہ چیتھڑا چیتھڑا ہو کر ان کے جسموں سے گر جاتے ہیں۔’
میں نے بالوں کی نئی تراش بھی متعارف کروائی جو راتوں رات مقبولِ عام و خواص ہو گئی۔ مجھے الکیمیا میں تھوڑا بہت درک تھا، اسی سے فائدہ اٹھا کر میں نے اہلِ اندلس کو سب سے پہلا بوکُش اور دانتوں کے منجن کا استعمال سکھایا۔
زریاب نے ٹوتھ پیسٹ بھی متعارف کروایا تھا۔ اس کے ٹوتھ پیسٹ کا نسخہ محفوظ نہیں رہ سکا، تاہم تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ نہ صرف دانتوں کی خوب صفائی کرتا تھا بلکہ خوش ذائقہ بھی تھا۔
اس عہد ساز نابغۂ روزگار کا انتقال 857ء میں ہوا۔ لیکن اپنے مرتے مرتے وہ قرطبہ کو نہ صرف اندلس کا بلکہ تمام یورپ کا ثقافتی اور تمدنی مرکز بنا گیا۔ اس نے اپنی نفاست، اعلیٰ ذوق اور شائستگی سے جس تہذیب کی بنیاد رکھی، وہ عبدالرحمن ثالث کے عہد تک رشکِ بغداد و دمشق بن گئی۔
جلد ہی دورِ ظلمات میں گھرے ہوئے یورپ بھر سے علم و فن کے پروانے قرطبہ کا رخ کرنے لگے ، اور اس خیرہ کن تہذیب کی شمع کی روشنی سے فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے تاریک گوشے منور ہونے لگے۔ وہ شمع، جس کو منور کرنے میں ایک اہم کردار زریاب بھی تھا۔
موسیقی کی بات کریں تو مشہور مستشرق ٹائٹس برک ہارٹ کے مطابق یہ زریاب ہی تھا جس نے فارسی انداز یورپ میں متعارف کروایا جو آگے چل کر جدید فلیمنکو کی بنیاد بنا۔ اس موضوع پر آنے والی قسطوں میں تفصیلی بحث کی جائے گی۔
میں نے شاہی محل کے قریب خواتین کے لیے مشاطگی کا سکول بھی کھولا جس میں بالوں کی نئی نئی تراش، ابروؤں کو سنوارنے ، غیر ضروری بالوں کو بال صفا سے ختم کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ترین خوشبویات اور عطریات اور نت نئی حسن افزا مصنوعات کے استعمال کی تربیت دی جاتی تھی۔
عبدالرحمن ثانی مجھے بے حد عزیز رکھتا تھا اور وہ مجھ سے انتظامی اور سیاسی امور میں بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ میرے ہی مشورے پر امیرِ اندلس نے دوسرے ملکوں سے علما و فضلا، شعرا و ادبا اور دانش وروں کو قرطبہ بلایا۔ حتیٰ کہ اس دور میں ہندوستان تک سے ماہرینِ نجوم اندلس گئے۔ جس سے بہت جلد قرطبہ یورپ کا سب سے متمدن شہر بن گیا۔
ابنِ فرناس کی پرواز اور مدینہ الزہرا
مسجدِ قرطبہ سے کسی قدر نشیب میں بہتے ہوئے دریائے کبیر کے کنارے کنارے چلتے ہوئے ایک جدید طرز کا پل نظر آتا ہے۔ یہ پل دور سے دیکھنے میں پرندے کے پروں کی طرح نظر آتا ہے۔ معلوم نہیں اسے کس میٹریل سے تعمیر کیا گیا ہے لیکن بظاہر یہ بہت ہلکا پھلکا اور لچکیلا معلوم ہوتا ہے۔
یہ ابن فرناس پل ہے۔ لیکن ابنِ فرناس کون تھا اور سپین کی حکومت نے کسی گم نام عرب کے نام پر ایک بے حد جدید پل کا نام کیوں رکھا، اور پل کی شکل پرکی مانند کیوں ہے ؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں ایک جگ پیچھے جانا پڑے گا۔ آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ اطالوی مصور لیوناردو داونچی وہ پہلا شخص ہے جس نے گلائیڈر بنایا تھا۔ لیکن تاریخ کے اور اق سے گرد جھاڑنے سے پتا چلتا ہے کہ قرطبہ کے باسی ابنِ فرناس نے داونچی سے کوئی پانچ سو برس قبل ہی گلائیڈر کا تجربہ کر دکھایا تھا۔
عباس ابنِ فرناس 810ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس زمانے کے عام چلن کے مطابق وہ کئی علوم کا ماہر تھا، طبیعات، طب، فلکیات، ریاضی۔ عین ممکن ہے کہ 822ء میں زریاب کے قرطبہ میں براجمان ہونے کے بعد ابنِ فرناس نے اس کا شہرہ سنا ہو، کیوں کہ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ موسیقی پڑھنے کے لیے قرطبہ آیا تھا۔ قرینِ قیاس ہے کہ نوجوان ابنِ فرناس نے زریاب سے موسیقی کا درس لیا ہو۔ لیکن ابنِ فرناس کی اصل دل چسپی سائنس میں تھی۔ وہ پرندوں کے پروں کا بغور مشاہدہ کیا کرتا تھا اور اس کا یہ قول مشہور ہے کہ انسانی ذہن نے آج تک ایسی کوئی چیز ایجاد نہیں کی جو پیچیدگی میں پرکا مقابلہ کر سکے۔
875ء کے قریب ابنِ فرناس نے ایک ایسا گلائیڈر تیارکیا جس میں لکڑی کے ڈھانچے میں پرندوں کے پر نصب کیے گئے تھے۔ وہ یہ گلائیڈر لے کر ایک قریبی پہاڑی پر واقع برج کے اوپر چڑھ گیا۔ عینی شاہدین نے آگے کا احوال کچھ یوں بیان کیا ہے :
ابنِ فرناس نے قرطبہ کے باسیوں کو اپنی پرواز کا نظارہ کرنے کے لیے دعوت دی اور جب اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہو گیا تو اس نے انھیں مخاطب ہو کر کہا:
’اب میں آپ لوگوں سے رخصت چاہتا ہوں۔ میں ان پروں کو پرندوں کی طرح اوپر نیچے حرکت دے کر اوپر اٹھوں گا۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق عمل میں آیا تو میں کچھ دیر تک پرواز کرنے کے بعد آپ کے درمیان لوٹ آؤں گا۔ ‘
ہجوم میں کئی لوگوں کا خیال تھا کہ ابنِ فرناس کا دماغ چل گیا ہے۔ کچھ لوگ تو اس کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش کا شکار تھے۔
تاریخ دان ابن مقری لکھتا ہے کہ ابنِ فرناس چھلانگ لگانے کے بعد خاصے فاصلے تک پرندوں کی طرح پرواز کرتا رہا۔ لیکن جب اس نے واپس اسی جگہ اترنے کی کوشش کی جہاں سے پرواز شروع کی تھی تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور نیچے گر گیا۔ بعد میں اس نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے دم کا خیال نہیں رکھا تھا، اور پرندے دم کی مدد سے مڑتے ہیں۔
اس حادثے میں ابنِ فرناس کی کمر زخمی ہو گئی جس کے باعث وہ مزید تجربات کرنے کے قابل نہیں رہا۔ تاہم اس کے تجربے کی داستان کو یورپ کے دوسرے علاقوں تک پھیلنے میں دیر نہیں لگی۔ ایک سو برس بعد انگلستان میں ایک شخص نے جسم سے پر باندھ کر اڑنے کی کوشش کی اور ایک فرلانگ تک پرواز کرنے کے بعد گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا۔ حتیٰ کہ فرانسس بیکن تک نے اس نمونے کا گلائیڈر بنایا تھا۔ تاہم سب سے زیادہ شہرت داونچی کے گلائیڈر کو حاصل ہوئی۔
شہرِ گم گشتہ
ابنِ فرناس کے پل سے پہلے ہی ایک سڑک دائیں ہاتھ کو گھوم جاتی ہے۔ بورڈ پر لکھا ہوا ہے ، مدینہ الزہرا۔ چند کلومیٹر کے بعد ایک پہاڑی کے اوپر چند کھنڈرات نظر آتے ہیں، جنھیں دیکھ کر موہن جودڑو کے ٹیلے کی یاد آتی ہے۔ چند ٹوٹی ہوئی محرابیں، جن پر مسجدِ قرطبہ کی طرز کی سفید و سرخ اینٹیں سجائی ہوئی ہیں۔ بے کراں آسمان کے تلے کچھ بلند و پست ٹوٹی پھوٹی دیواریں، اور اکا دکا کھجور کے درخت۔ دور کچھ کھیت، اور ایک طرف موجوں مارتا ہوا قرطبہ شہر۔
ان کھنڈرات کو دیکھ کریہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ وہ شہر ہے ایک زمانے میں جس کی آب و تاب دیکھ کر یورپ کے سفیروں اور مندوبین کی آنکھیں چکاچوند اور دماغ ماؤف ہو جاتے تھے۔
مدینہ الزہرا عبدالرحمٰن ثالث نے تعمیر کروایا تھا۔ لیکن پھر 1010ء میں شمالی افریقہ سے آنے والے بربروں نے اسے تاخت و تاراج کر دیا۔ یہ بربر کٹر مذہبی تھے اور انھیں مدینہ الزہرا کی زبردست شان و شوکت اسلامی روایات کے منافی، اسراف اور لہو و لعب نظر آتی تھی۔ چناں چہ انھوں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ رفتہ رفتہ یہاں مٹی قدم جماتی گئی اور دو صدیوں بعد اس کا نام و نشان بھی زمین تلے دب گیا۔
شہرِ دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
مدینہ الزہرا کی شان و شوکت کے قصے دیومالائی کہانیاں لگتے ہیں۔ ایک صدی قبل تو اسے محض عرب مورخوں کے زرخیز تخیل کی پیداوار سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر نو صدیوں تک خاک تلے دبے رہنے کے بعد 1910ء میں مدینہ الزہرا کی کھدائی شروع ہوئی۔ اب تک صرف دس فی صد شہرکی کھدائی ہو سکی ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ مکمل کھدائی میں مزید سو برس لگیں گے۔
ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے سامنے یہ مخمصہ تھا کہ کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی اشیا کو کیسے محفوظ رکھا جائے ، کیوں کہ کسی عجائب گھر میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ وہ شہر بھر سے نکلے ہوئے آثار کو سمو سکتا۔ آخر فیصلہ کیا گیا کہ مدینہ الزہرا کو باز تعمیر کیا جائے گا اور جو چیز جہاں سے نکلی ہے ، اسے تحقیق کے بعد اسی صورت میں نصب کر دیا جائے گا جس صورت میں وہ شہر کے ابتدائی نقشے میں موجود تھی۔
ظاہر ہے کہ یہ انتہائی محنت طلب کام ہے اور اس میں بسا اوقات ماہرین کو اندازوں اور تخمینوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اب تک کی پیش رفت انتہائی متاثر کن ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے عشروں میں مدینہ الزہرا کے اصل شان و شکوہ کو کسی حد تک بحال کر دیا جائے گا۔
ابھی اس جگہ سے 90 فی صد کھدائی ہونا باقی ہے۔ لیکن دنیا کے کسی بھی شہر کی طرح قرطبہ بھی ہر سمت میں پھوڑے کی پھول رہا ہے۔ تعمیراتی ادارے مدینہ الزہرا کی زمین کے اوپر رہائشی بستیاں تعمیر کرتے چلے جا رہے ہیں۔ سپین کی حکومت نے 1995ء میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت اس علاقے میں ہر قسم کی تعمیرات ممنوع قرار پائی تھیں، لیکن نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں ڈھائی سو سے زیادہ غیر قانونی مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں، جن کی وجہ سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ شاید مکمل شہر کبھی بھی بازیاب نہ کروایا جا سکے۔
لگتا ہے لینڈ مافیا سپین میں بھی موجود ہے۔
خوابوں خیالوں کا شہر
میرا نام کاؤنٹ گونزالز ہے اور میرا تعلق شمالی سپین کی ریاست نوارے سے ہے۔ مجھے ایک وفد لے کر قرطبہ کے خلیفہ عبدالرحمٰن ثالث کی خدمت میں قرطبہ پیش ہونا تھا۔ چناں چہ میں 949ء میں اپنے وفد کے ہمراہ جزیرہ نما آئبیریا کے وسط میں واقع اموی خلافت کے مرکز قرطبہ پہنچا۔ صدر دروازے کے باہر ہمارا استقبال کیا گیا۔
سب سے پہلے تو ہمیں مسجدِ قرطبہ کی سیر کرائی گئی۔ مسجد کی عظمت و شکوہ اور اس کے اندر گہما گہی دیکھ کر جو قصے سنے تھے ان پر کچھ کچھ یقین آنے لگا۔ اس کے بعد ہمیں قرطبہ کی گلیوں اور بازاروں سے گزارا گیا جہاں ریشم، اطلس، جواہرات کی زرق برق دکانوں کے ساتھ ساتھ کتابوں کی بھی سینکڑوں دکانیں تھیں۔ آخر یہ قرطبہ تھا جو اپنی علوم و فنون، شعر و ادب اور ریاضی و فلکیات کے لیے مشہور تھا۔
اس وقت قرطبہ کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی، جو اس دور کے لندن، پیرس اور روم کی مشترکہ آبادیوں سے بھی زیادہ تھی۔ دنیا میں صرف بغداد اور قسطنطنیہ دو ایسے شہر تھے جو شان و شوکت میں قرطبہ کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لیکن خلیفہ سے ملنے کے لیے ہمیں پانچ میل دور نئے بسائے گئے شہر مدینہ الزہرا جانا تھا۔
قرطبہ سے لے کر مدینہ الزہرا تک سڑک کے دونوں اطراف چمکیلی زرہ بکتریں پہنے سپاہی قطار اندر قطار کھڑے تھے ، جن کے ہاتھوں میں بے نیام تلواریں تھیں۔ اس فوج ظفر موج کی شمشیر ہائے آب دار کے سائے سائے ہوتے ہوئے ہمارا وفد مدینہ الزہر ا کے صدر دروازے تک پہنچا جس کی وسعت اور عظمت بیان سے باہر ہے۔ دروازے کی چھت پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے کاٹ کر مسجدِ قرطبہ کی آرائشی محرابوں کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ اور دروازہ اس قدر بڑا تھا کہ اس سے رتھوں کی قطاریں باآسانی گزر سکتی تھیں۔
دروازے سے اندر کا منظر مبہوت کر دینے والا تھا۔ شاہی شہر ایک پہاڑی کے اوپر پھیلا ہوا تھا۔ سورج کی کرنیں شہر کی عمارتوں کے دروازوں پر لگی چاندی کی کنڈیوں سے منعکس ہوتی تھیں۔ ہم اپنے محافظوں کے جلو میں ہرے اور نیلے رنگ کی ٹائلوں سے بنی سڑک پر چلتے گئے جس کے دونوں اطراف سنگِ مرمر کی دیواریں تھیں۔
شاہی محل سے پہلے گزوں تک کم خواب کے قالین بچھے ہوئے تھے جس کے باہر سرخ ریشم میں ملبوس ، سروں پر جڑاؤ پگڑیاں باندھے ، سونے کے قبضوں والی تلواریں باندھے ہوئے درباری گھوم پھر رہے تھے۔
ایک عالی شان کمرے میں بلند کرسیوں پر ریشم و کم خواب میں ملبوس شہر کے عمائد اس شاہانہ کروفر سے بیٹھے تھے کہ ہمارے وفد کے بعض ارکان خلیفہ سمجھ کر ان کے آگے جھک گئے۔ لیکن ہمارے راہ بر نے آواز لگائی، ’سر اٹھائیے ، کہ یہ تو خلیفہ کے ملازموں کے ملازم ہیں۔‘
اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ سفیروں کے بڑے استقبالیہ ہال میں پہنچ کر پوری ہو گئی۔ اس عظیم الشان ہال کے اوپر چھت نہیں تھی۔منقش مرمریں دیواروں پر لٹکے ہوئے ریشمی پردے ہوا میں ہولے ہولے جھول رہے تھے۔ فرش پر بچھے قالینوں پر ایسے خوش نما نقش بنے ہوئے تھے کہ ان پر چلتے ہوئے بے ادبی کا احساس ہوتا تھا۔
ہال کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا طشت پارے سے بھرا پڑا تھا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جب ہوا کے جھونکے سے پارے کی سطح مرتعش ہوئی تو ہال کی چھت اور دیواروں پر جڑے قیمتی پتھروں اور شیشوں سے بننے والے عکس میں رنگوں اور روشنیوں کا بھونچال آ گیا، جس نے ہماری آنکھیں چکا چوند کر دیں۔
ہال بالکل خالی تھا۔ ہال سے گزر کر آگے پہنچے تو وہاں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے فرش پر ریت بچھی ہوئی تھی۔ کمرے کے بیچوں بیچ پیوند لگی گدڑی اوڑھے ہوئے ایک شخص بیٹھا تھا جس نے چولہے میں آگ جلا رکھی تھی اور وہ اس میں پھونکیں مار کر شعلے بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک رحل پر قرآن رکھا ہوا تھا اور قریب ہی ایک تلوار پڑی تھی۔
یہ اندلس کی تاریخ کا سب سے عظیم شہنشاہ خلیفہ المومنین عبدالرحمن ثالث تھا۔
*****
عبدالرحمن ثالث کا دور اندلس کی تاریخ کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔ عرب مصنفین اس کی تعریف میں پروپیگنڈے کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے انچاس سالہ اقتدار میں اس نے اندلس کو ایک مستحکم اور خوش حال ریاست بنانے میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اعتماد اور تیقن کی ایک روشن مثال 929ء کے جنوری کے ایک جمعے دن دیکھنے میں آئی جب مسجدِ قرطبہ میں نماز پڑھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں نمازیوں کے مجمعے نے خطبے میں خلیفہ بغداد کی بجائے عبدالرحمن ثالث کا نام سنا۔ اس سے پہلے اگرچہ اندلس خود مختار تھا اور اس کے تعلقات عباسیوں سے مخاصمانہ تھے ، لیکن اس کے باوجود اندلس کی حیثیت خلافتِ عباسیہ کا ایک صوبے کی سی تھی، اور اس کے حکمران امیر کہلاتے تھے۔
لیکن عبدالرحمن ثالث کے نام سے خطبہ جاری ہونے کا مطلب یہ تھا کہ اندلس اب مکمل طور پر عباسیوں کے تسلط سے آزاد ہو چکا ہے اور یہ کہ امتِ اسلامیہ صرف بغداد ہی میں مرکوز نہیں۔ خلافت کا وہ حق جو عبدالرحمن اول اپنے خون میں لے کر قرطبہ پہنچا تھا، اب نسل در نسل عبدالرحمن ثالث کو منتقل ہو چکا تھا، جس کی اس نے برسرِ منبر تشہیر کروا کے دنیا کو باور کرانا چاہا کہ اب اندلس بغداد کی اس سپر پاور کو آنکھیں دکھانے کے قابل ہو چکا ہے۔
لیکن عبدالرحمن جانتا تھا کہ کھوکھلے دعووں سے کچھ نہیں بنتا۔ بغداد کا ہم پلہ بننے کے لیے فوجی طاقت کے علاوہ علوم و فنون میں بھی ترقی کی ضرورت ہے۔ چناں چہ خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ قرطبہ کے نواح میں ایک نئے شہر کی تعمیر تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے عباسیوں نے پرانا دارالحکومت ترک کے بغداد کے مقام پر نیا شہر بسایا تھا، ویسے ہی عبدالرحمن نے اپنی خلافت کا اعلان نئے دار الخلافے سے کیا۔
لیکن عبدالرحمن ایک عام دارالخلافہ نہیں بسانا چاہتا تھا، اس سلسلے میں اس کے عزائم کا سر آسمان سے ٹکراتا تھا۔ چند برسوں کی منصوبہ بندی، نقشہ سازی اور مناسب محلِ وقوع کی چھان بین کے بعد 936ءمیں مدینہ الزہرا پر کام شروع ہو گیا۔ یہ بات مشہور ہے کہ شہر کا نام خلیفہ کی محبوب ملکہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ گو یا آپ کو اس کو بڑے پیمانے پر تاج محل بھی سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن جدید دور کے بعض ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ زہرا کا مطلب’ کھلتا ہوا پھول’ ہے۔ شہرکے قریب ایک پہاڑی پر انتہائی خوش بودار پھولوں کے قطعات دور تک پھیلے ہوئے تھے ، جسے جبل الوردت یا پھولوں کا پہاڑ کہا جاتا تھا۔
مدینہ الزہرا پہاڑی پر بسایا گیا تھا، اس کے تین درجے تھے ، سب سے عام شہریوں اور سپاہ کے گھروں تھے۔ ان سے ایک منزل کی اونچائی پر انتظامیہ کے دفاتر اور رﺅسا اور درباریوں کے محلات تھے ، جب کہ سب سے اوپر شاہی محل ‘دارالملک’ تھا۔ تاریخ دان المقری لکھتا ہے کہ شہر کے اندر باغات لگائے گئے تھے جن کے اندر مختلف ممالک سے نایاب درخت لا کر اگائے گئے تھے۔ باغات اور شہر کے لیے بہت دور سے رومی طرز کے ستونوں پرقائم نہروں کے ذریعے پانی لایا گیا تھا۔
لیکن مدینہ الزہرا صرف تعمیراتی عجوبہ ہی نہیں تھا۔ یہیں علم و فنون کے چشمے پھوٹتے تھے۔ ازمنۂ وسطیٰ کے مشہور ترین سرجن الزہراوی نے یہیں بیٹھ کر اپنے جراحی کے آلات بنائے تھے جو بیسویں صدی تک مغرب میں استعمال ہوتے تھے۔ اندلس کا سب سے بڑا شاعر ابنِ حزم مدینہ الزہرا کے محلات ہی میں پلا بڑھا تھا۔
جیسا کہ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے ، مادی اور ثقافتی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک اسے معیشت کی مضبوط پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ دسویں صدی عیسوی کے اندلس کے اس خیرہ کن جاہ و جلال کی اصل ملک کی دولت مندی تھی۔ عربوں نے مشرقِ وسطیٰ کے صحراؤں میں پانی کو مسخر کرنے کے طریقے سیکھے تھے ،وہ آب پاشی کی یہ جدید ترین ٹیکنالوجی ساتھ لے کر آئے تھے جس نے جزیرہ نما ہسپانیہ کی سرزمین کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ وہ علاقے جہاں بارشیں سالوں بعد ہوتی تھی، نہری جال کی مدد سے سونا اگلنے لگیں۔ چناں چہ آج بھی ہسپانوی زبان عربی کی زرعی اصطلاحات سے مالامال ہے۔
قرطبہ کو دسویں صدی عیسوی میں اس وقت عروج حاصل ہوا جب بغداد ہارون رشید اور مامون رشید کا سنہرا دور دیکھ چکا تھا۔ قرطبہ کی علمی اور ادبی سرگرمیوں کی گہما گہی کی ایک بڑی وجہ اس کے باشندوں کی علم دوستی تھی۔ قرطبہ اس وقت بالکل ایسے ہی دنیا کا مرکز تھا، جیسے نویں صدی میں بغداد ، انیسویں صدی میں پیرس اور بیسویں صدی میں لندن دنیا کے مرکز تھے۔ سترھویں صدی کا عرب تاریخ داں المقری لکھتا ہے :
‘قرطبہ چار چیزوں میں دنیا بھر سے آگے تھا، الزہرا کے شاہی محلات، دریائے الکبیر پر تعمیر کردہ پل، مسجدِ قرطبہ اور ان سب سے بڑھ کر علم و فضل۔’
اس علم و فضل فراوانی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے آٹھویں صدی کے وسط ہی میں چینیوں سے کاغذ بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ ویلنسیا کے ساحلی شہر کے قریب جیٹی وا کے مقام پر کاغذ بنانے کا کارخانہ قائم کیا تھا جہاں کپاس سے کاغذ بنایا جاتا تھا۔ چمڑے کو تحریر کے قابل بنانا بے حد وقت طلب اور مہنگا مشغلہ تھا۔چناں چہ اکثر اوقات پہلے سے موجود چمڑے پر لکھی گئی کتابوں کو دھو کر ان پر نئی کتابیں تحریر کی جاتی تھیں۔
اس سلسلے میں 2007ءایک چونکا دینے والی خبر آئی کہ یونانی مفکر ارشمیدس نے ریاضی کی ایک شاخ کیلکیولس دو ہزار سال قبل ہی دریافت کر لی تھی۔ عام طور پر نیوٹن اور لائبنز کو اس علم کا بانی سمجھا جاتا ہے ، جنھوں نے سترہویں صدی میں الگ الگ اس بے حد مشکل علم کو دریافت کیا تھا۔
ہوا یوں کہ قسطنطنیہ کے تیرھویں صدی کے ایک راہب کو کہیں سے ارشمیدس کی وہ کتاب ملی جس میں کیلکیولس کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔ راہب نے اپریل 1229ء چمڑے پر لکھی ہوئی اس کتاب کی روشنائی کو دھو کر اس پر نئے سرے سے مذہبی دعائیں لکھ ڈالیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ کتاب پہلے مل جاتی تو عملِ ریاضی آج کے مقابلے پر پانچ سو برس زیادہ ترقی یافتہ ہوتا۔
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے
مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے
جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا
عبدالرحمن ثالث کا جانشین خلیفہ حکم ثانی بھی علم و دانش کا دل دادہ تھا۔اس کے ذاتی کتب خانے میں چار لاکھ سے چھ لاکھ کتابیں موجود تھیں۔اس کے مقابلے پر سوئٹزلینڈ میں واقع بقیہ یورپ کے سے بڑے کتب میں صرف چار سو کتابیں تھیں جو بھیڑ یا بکری کی کھال پر لکھی گئی تھیں، قرطبہ کی صرف ایک لائبریری میں چار لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔
لائبریری کا کیٹلاگ چوالیس جلدوں پر محیط تھا۔ حکم ثانی نے کتابوں کے ایجنٹ مقرر کر رکھے تھے جو دنیا بھر سے ا س کے لیے کتابیں خرید کر لاتے تھے۔ کتب خانہ صرف خلیفہ تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے استفادہ کرنے کے لیے ہر کسی کو صلائے عام تھی۔ خلیفہ نادار طلبا کو وظائف بھی فراہم کیا کرتا تھا۔
یہ وہ معاشرہ تھا جہاں مسلم، عیسائی اور یہودی نہ صرف ساتھ ساتھ رہتے تھے ، بلکہ ہر دو اہلِ کتاب کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ عبدالرحمن کا وزیر ایک یہودی ہسدائی بن شپروُت تھا، جس کا شمار یہودی تاریخ کے عظیم ترین دانش وروں میں کیا جاتا ہے۔ ہسدائی نہ صرف داخلی امورِ سلطنت میں اہم کردار ادا کرتا تھا، بلکہ اسے وزیرِ خارجہ کی حیثیت بھی حاصل تھی۔
بالکل جیسے عبدالرحمن نے بغداد کے ساتھ تعلقات توڑ کر اپنی تازہ بستی بسالی تھی، ویسے ہی ہسدائی نے بھی یہودیت کا مرکز بابل سے اندلس منتقل کر دیا اور اب یہودیوں کے تمام مذہبی معاملات، تہواروں کی تواریخ کا تعین اور قانونی مسائل کی توجیہ و تعبیر قرطبہ سے ہونے لگی۔
ہسدائی نے سن رکھا تھا کہ وسطیٰ ایشیا میں یہودیوں کی ایک طاقت ور سلطنت آباد ہے جس کا نام خَضر ہے۔ اس نے خضر کے بادشاہ کے نام خطوط لکھے جن میں اس نے اندلس کی عظمت کے گن گائے ہیں:
جنابِ والا:
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ ہماری سرزمین مقدس عبرانی میں سیفرارید کہلاتی ہے ، جب کہ اس کے اسماعیلی باسی(یعنی مسلمان) اسے اندلس کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کی سلطنت کا نام قرطبہ ہے۔یہ غلے ، شرابوں اور خالص مٹی کی سرزمین ہے۔ یہاں پودوں کی بہتات ہے اور یہ ملک ہر طرح کی مٹھاس کی جنت ہے۔ اس کے باغوں میں ہر قسم کا پھل اگتا ہے۔ یہاں ایسے درخت ہیں جس کے پتو ں میں ریشم کا کیٹرا پلتا ہے۔ ہم اپنی سرزمین کے پہاڑوں سے سونے ، چاندی، تانبے ، لوہے ، قلعی، سرمہ، بلور اور سنگِ مرمر نکالتے ہیں۔ہمارے بادشاہ کا خزانہ سونے ، چاندی اور جواہرات سے لبالب ہے اور اس کی فوج کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ایسی فوج پہلے کبھی دیکھی یا سنی نہیں گئی۔ جب دوسرے ملکوں کے والی ہمارے بادشاہ کی شان و شوکت کے بارے میں سنتے ہیں تو اس کی خدمت میں نذرانے پیش کرتے ہیں۔
اس وقت کون کہہ سکتا تھا اس عروس البلاد، اس زیورِ دنیا کی شان و شوکت کے اندر ہی اس کی خرابی مضمر ہے جو چند عشروں کے اندر اندر اسے جلا کر راکھ کر ڈالے گی؟
اندلس کا شہرِ رومان، اشبیلیہ
قرطبہ سے اگلا مرحلہ اشبیلیہ کا درپیش تھا، جو یہاں سے کوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بس میں ہر مسافر کی اپنی اپنی جگہ مخصوص تھی۔ میں بھی بس میں داخل ہو کر ڈائری میں اپنے تاثرات لکھنے بیٹھ گیا۔ طویل سفر کے بعد آس پاس کے کچھ مسافروں سے جان پہچان ہو گئی تھی۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ میرے سامنے والی سیٹ پر براجمان برازیلی سیاح خاتون جوزیفائن بڑی حیرت اور اشتیاق سے میری تحریر دیکھ رہی ہے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ کہنے لگی کہ مجھے بڑی حیرت ہے کہ کوئی دائیں سے بائیں کیسے لکھ سکتا ہے۔ میں نے پہلی بار کسی کو اس قسم کی تحریر لکھتے دیکھا ہے۔ آخر یہ کون سی زبان ہے ؟
میں نے بتایا۔ کہنے لگی کہ معمول کی تحریر کی بجائے دائیں سے بائیں لکھنا تھوڑا غیر فطری اور عجیب سا لگتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ غیر فطری تو بائیں سے دائیں لکھنا ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر لوگ دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں۔ جب دائیں ہاتھ سے لکھنے والا انگریزی یا بائیں سے دائیں طرف لکھی جانے والی کوئی اور زبان لکھتا ہے تو وہ اپنے ہاتھ کو کاغذ کے دائیں طرف سے بائیں طرف لے کے جاتا ہے ، پھر وہاں سے واپس دائیں طرف لے کر آتا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے پر اردو لکھنے والا دائیں طرف ہی سے شروع کرتا ہے ، جو ظاہر ہے ، زیادہ فطری عمل ہے۔
ابھی اشبیلیہ خاصی دور تھا۔ میں بیٹھا ہوا اس شہرِ قدیم کے بارے میں سوچنے لگا۔ اشبیلیہ، جنوبی سپین کا ثقافتی اور تہذیبی گڑھ۔ فلیمنکو رقص و موسیقی کا مرکز۔ سارہ قوطیہ، ابن العربی، ابنِ رشد اور شاعرِ دل نواز المعتمد کا شہر۔ ابنِ خلدون اسی شہر میں سفیر بن کر آئے تھے اور یہیں سے کولمبس نے نئی دنیا دریافت کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔
ایسا شہر جس کا دبدبہ آپ کے دل کو دھیرے دھیرے گرفت میں لے لیتا ہے ، اور آپ شہر کی حدود میں داخل ہونے سے قبل مرعوبیت کے احساس تلے دبے ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری بس جس اشبیلیہ میں داخل ہوئی، وہ بہت صاف ستھرا اور نیا نکور شہر تھا۔ سڑک کے دونوں طرف خوب صورت رہائشی عمارتیں بنی ہوئی تھیں، جن کے نیچے جدید ساز و سامان سے بھری ہوئی دکانیں چمچما رہی تھیں۔ یہ نظارہ میری توقعات سے اس قدر مختلف تھا کہ مجھے گائیڈ ڈان ہوان سے تصدیق کرنا پڑی کہ واقعی یہی اشبیلیہ یا سیویا (Seville) ہے۔
یہاں پر ایک گھپلا یہ ہوا کہ ہمارے ٹور کو دو مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا۔ انگریزی بولنے والے تمام سیاح دوسرے ہوٹل میں چلے گئے ، جب کہ میرے گروپ میں صرف ہسپانوی بولنے والے آئے۔ ڈان ہوان سے گلہ کیا تو وہ کہنے لگا کہ ہوٹلوں کی بکنگ بہت پہلے ہی سے ہو چکی ہے اور اب اس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
دریائے الکبیر کے دونوں کناروں پر پھیلے ہوئے اس قدیم شہر کا بنیادی رنگ بھورا اور خاکستری ہے کیوں کہ شہر کی اکثر تعمیرات اسی رنگ کی نظر آئیں۔ اشبیلیہ صوبۂ اندلوسیا (اندلس) کا سب سے بڑا شہر ہے۔ آج سے 12 سو سال پہلے سارہ قوطیہ یہیں سے کشتی میں سوار ہو کر اموی خلیفہ ہشام کے دربار میں عرضی لے کر پہنچی تھی، اس وقت بھی، بلکہ اس سے بھی بہت پہلے ، اشبیلیہ تمام علاقے میں ممتاز شہر تھا۔
711ء میں شمالی افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر نے اپنے جرنیل طارق بن زیاد کو سات ہزار بربر فوجیوں پر مشتمل دستے کے ساتھ سپین پر چڑھائی کے لیے بھیجا۔ اس کے ٹھیک ایک برس بعد وہ خود بھی 18 ہزار فوجی لے کر سپین کے ساحل پر اترا۔ یہاں اس نے اپنے مقامی راہبروں سے کہا کہ وہ اپنے ماتحت طارق بن زیاد کے نقشِ قدم پر چلنا پسند نہیں کرتا، اس لیے اسے کوئی اور راستا دکھایا جائے۔ چناں چہ گاتھک امرا نے کہا کہ ہم جان بوجھ کر طارق کو نسبتاً غیر آباد علاقے سے لے گئے تھے ، جب کہ آپ کو ہم ایسے راستے سے لے جائیں گے جہاں ایسا شہر آباد ہے جو شان و شوکت میں اپنی مثال آپ ہے۔
تاریخ دان المقری لکھتا ہے کہ اس وقت اشبیلیہ تمام اندلس میں سب سے اہم شہر تھا۔ گوتھوں کے آنے سے قبل یہ اندلس کا دارالحکومت تھا۔ اگرچہ گوتھ بعد میں اپنا پایۂ تخت طلیطلہ (تولیدو) لے گئے ، تاہم اشبیلیہ بدستور مذہبی مرکز رہا۔
گوتھوں نے موسیٰ بن نصیر سے آسانی سے ہار نہیں مانی اور قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔ بالآخر دو مہینوں کے محاصرے کے بعد کہیں جا کر موسیٰ بن نصیر پر اس شہر کے دروازے کھلے۔ مسلمانوں کو شہر پر قبضہ دلانے میں یہودیوں نے اہم کردار ادا کیا تھا، کیوں کہ وہ عیسائیوں کے مظالم سے نالاں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے دور میں یہودیوں نے بہت ترقی کی اور وہ اہم عہدوں پر فائز ہوتے رہے۔
اس شہر کی ایک اور وجہِ شہرت مشہور رومانوی کردار ڈان ہوان ہے۔ ڈان ہوان خواتین کو گرویدہ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ دنیا کے کئی عظیم تخلیق کاروں نے اس ’مرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے ‘ کی زندہ تصویر کے ہوش ربا حالاتِ کو قلم بند کیا ہے۔ انگریزی کے شاعر لارڈ بائرن نے اس پر طویل نظم لکھی، موتسارت نے اسے سمفنی کا موضوع بنایا، جب کہ برنارڈ شا اور پشکن سمیت درجنوں چھوٹے بڑے ادیب و شاعر اس کردار سے متاثر ہوئے۔
اس وقت شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے ، اس لیے گائیڈ۔۔۔ اتفاق دیکھیے کہ اس کا نام بھی ڈان ہوان تھا۔۔۔ کل صبح ملنے کی نوید دے کر رخصت ہو گیا۔ لیکن مجھے ایک اور مہم کا سامنا تھا۔ ہوا یوں کہ واشنگٹن سے چلتے وقت میں اپنے لیپ ٹاپ کا چارجر ساتھ رکھنا بھول گیا تھا۔ تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ دن تو کام چلایا لیکن اب اس کی بیٹری بالکل جواب دے چکی تھی۔ میں نے راستے میں ایک الیکٹرانکس کی دکان کا بورڈ دیکھا تھا، چناں ہوٹل کے کمرے میں سامان رکھ کر فوراً باہر نکل آیا۔
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہسپانوی زبان کے معاملے میں بہت کٹر ہیں، اور اکثر لوگ انگریزی سے بالکل نابلد ہیں۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ کمپیوٹروں کی دکان پر بیٹھے ہوئے نوجوان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ’لیپ ٹاپ‘ کس چڑیا کو کہتے ہیں۔ جب جدید حروفِ تہجی ایجاد نہیں ہوئے تھے تو مصر اور بابل میں تصویری رسم الخط رائج تھا۔ جس چیز کا ذکر کرنا ہوتا تھا، اس کا نام لکھنے کی بجائے تصویر بنا دی جاتی تھی۔ چناں چہ میں نے بھی اس قدیم روایت کا احیا کرتے ہوئے کاغذ پر لیپ ٹاپ کا نقشہ کھینچا، پھر اس کی تار اور اور چارجر بنائے اور آخر میں بیٹری بنا کر اس کے اندر چارج کی قلیل مقدار بھی بجلی کی علامت سے ظاہر کر دی۔
لیکن وہ نوجوان مجھ سے دو ہاتھ آگے نکلا۔ اس نے اس دقیانوسی طرزِ ابلا غ پر اکتفا کرنے کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کو ترجیح دی اور اپنے کمپیوٹر پر ہسپانوی زبان میں ایک فقرہ ٹائپ کیا اور پھر ایک مشینی مترجم سافٹ ویر کے ذریعے اسے انگریزی میں منتقل کر کے مانیٹر میرے سامنے کر دیا۔ لکھا تھا کہ لیپ ٹاپ کا ماڈل کون سا ہے اور کتنے وولٹ کا چارجر درکار ہے ؟ میں نے انگریزی میں ٹائپ کیا تو سافٹ ویر نے اسے ہسپانوی میں ترجمہ کر دیا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ان ذولسانی مذاکرات کا نتیجہ مثبت نہ نکل سکا کیوں اس کی اطلاع کے مطابق اس کی دکان تو کجا، پورے اشبیلیہ میں اس قسم کا چارجر ملنے کا امکان نہیں تھا۔
اس مہم سے بے نیلِ مرام واپس ہوا۔ ہوٹل نسبتاً اونچائی پر بنا تھا، جہاں سے شہر کی دور تک پھیلی ہوئی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔ مئی کا مہینا تھا اور اگرچہ گرمی اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن فضا پر حبس چھایا ہوا تھا۔ ابھی خواہش تو تھی کہ ذرا شہر کا ایک چکر لگایا جائے لیکن تمام دن کے سفر کے بعد اپنی بیٹری بھی ڈاؤن ہونے کے قریب تھی، اس لیے واپس اپنے کمرے کا رخ کیا۔
اگلے دن سب سے پہلی منزل ہیرالدا تھی۔ یہ اشبیلیہ میں مسلمانوں کی سب سے اہم مسجد کا مینا ر ہے۔ بلکہ یوں کہیئے کہ اس شہر میں موجود سینکڑوں مساجد کی یہ واحد نشانی بچی ہے۔ یہ مینار ایک بہت بڑی مسجد کا حصہ تھا جسے افریقہ سے آنے والے الموحد حکمران ابو یعقوب یوسف نے تعمیر کروایا تھا۔ ہیرالدا اپنے زمانے میں دنیا کا بلند ترین مینار تھا۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ الموحد طالبان قسم کے حکمران تھے اور انھیں آرٹ سے کوئی شغف نہیں تھا، لیکن سلسلے وار محرابوں اور اینٹوں سے بنائے گئے نقوش و نگار سے مزین ہیرالدا کا پر وقار حسن کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے۔
جب 1248ء میں فرڈیننڈ ثالث نے اشبیلیہ فتح کر لیا تو حسبِ دستور مسجد کو گرجا بنا دیا گیا اور اس کے مینار پر گھنٹیاں نصب کر دی گئیں۔ 1365ء میں مسجد زلزلے میں تباہ ہو گئی تو اس کی جگہ پر عیسائیوں نے ایک عظیم الشان کلیسا کا ڈول ڈالا جس میں بڑی حد تک مسجد کے نقشے سے استفادہ کیا گیا۔ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر ایک صدی سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ اس کے معماروں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہم ایسی عمارت بنائیں گے جسے دیکھ کر دنیا کہے گی کہ اس کے بنانے والے پاگل تھے۔ اٹلی میں ویٹیکن اور لندن میں سینٹ پیٹرز کے بعد یہ دنیا میں تیسرا سب سے بڑا کلیسا ہے۔
اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس کلیسا کے معمار پاگل تھے یا نہیں، لیکن واقعی یہ عمارت جاہ و جلال سے لب ریز نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے میناروں، چھجوں اور محرابوں کے جنگل کے بیچوں بیچ گہرے بھورے رنگ کا مساجد کی طرز کا گنبد مسلم اثر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مسلم طرزِ تعمیر کے اثر کا ذکر ہو تو اسی کلیسا کے بالکل سامنے الکاسار ہے ، جو عربی لفظ ’القصر‘ یعنی محل کی ہسپانوی شکل ہے۔ سرکاری طور پر یہ اب بھی شاہی محل ہے اور اگر سپین کا شاہی خاندان کبھی اشبیلیہ آئے تو یہیں قیام کرتا ہے۔
محل کے اندر داخل ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے الحمرا پہنچ گئے ہیں۔ میں نے اس وقت تک غرناطہ کا مشہور محل الحمرا نہیں دیکھا تھا، البتہ اس کی تصاویر ضرور ذہن میں محفوظ تھیں۔ محل کا بڑا حصہ پیڈرو ظالم (Pedro the Cruel) کے دور میں تعمیر ہوا تھا۔ اس نے خاص طور پر مسلم غرناطہ سے مرصع کار منگوائے تھے۔ چناں چہ القصر کی دیواریں الحمرا ہی کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ جگہ جگہ مربع کوفی تحریر میں عربی عبارات بھی لکھی نظر آتی ہیں، جن میں بادشاہ کو سلطان لکھا گیا ہے۔ وہ عمارات جو مسلمان معماروں نے عیسائی حکمرانی میں بنائی تھیں، ان کے طرزِ تعمیر کو مودیخر (Mudejar) کہا جاتا ہے ، جو عربی لفظ ’المتاخر‘ یعنی ’پیچھے رہ جانے والے ‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے ، اور یہ ایسے مسلمانوں کو کہا جاتا تھا جو عیسائی ریاستوں میں رہ گئے ہوں۔
کئی گھنٹے الکاسار میں گزارنے کے بعد گائیڈ ہمیں آس پاس کی گلیوں میں لے گیا، جن کا بیشتر حصہ خاصا پرانا ہے ، اور وہاں گھروں کے اندر مسلم دور کی طرز کے باغ بنے ہوئے ہیں۔ ایک تنگ گلی سے گزرتے ہوئے میں ایک کیفے کا نام دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ ’اعتماد باراینڈ کیفے ٹیریا۔‘
چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ اعتماد ایک حسین و جمیل خاتون کا نام تھا جو اس رومان انگیز شہر کی تاریخ کے ایک اور رومانوی باب سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی کے نام ’اعتماد‘ کی وجہ سے اشبیلیہ کے باجبروت بادشاہ اور عربی کے سرکردہ شاعر محمد ابن عباد نے اپنا نام تبدیل کر کے المعتمد رکھ لیا تھا۔ وہی المعتمد، جس کی ایک نظم کا ترجمہ علامہ اقبال نے ’قید خانے میں معتمد کی فریاد‘ کے نام سے کیا ہے ، اور جس کی زندگی بلندی و پستی کا عجیب و غریب مرقع ہے۔
اشبیلیہ کا البیلا بادشاہ
لڑتے لڑتے وہ وقت آ گیا جب مجھے احساس ہو گیا کہ اس جنگ کو طول دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی طبیب بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے مریض کی جاں کنی کے لمحات بلاوجہ دراز کرتا چلا جائے۔ میرے دو بیٹے کام آ چکے تھے اور بچے کھچے سپاہی راہِ فرار اختیار کر رہے تھے۔ دشمن کے سپاہی محل کی دیواریں پھلانگ پھلانگ کر احاطے میں کود رہے تھے۔ ہر طرف چیخ پکار مچی ہوئی تھی۔دائرہ ہر لمحے تنگ ہوتا چلا جا رہا تھا۔
مجھے احساس ہو گیا کہ بازی پلٹ چکی ہے۔ میں نے اپنی زرہ بکتر اتار دی اور تلوار سونت کر بربروں کے ایک جتھے میں گھس گیا۔ میدانِ جنگ میں کام آنا ہی جنگ جوؤں کی زندگی کی معراج ہوا کرتی ہے۔ لیکن میرے قریب پہنچتے ہی انھوں نے ہتھیار روک دیے اور کمندیں پھینک کر مجھے جکڑ لیا۔
جب میرے آنسو تھم گئے
اور دل پر خاموشی کے گہرے بادل چھا گئے
میں نے آوازیں سنیں:
’ہتھیار ڈال دو، اسی میں دانائی ہے !‘
میں نے جواب دیا:
’شرمندگی کے اس پیالے سے
زہر کا گھونٹ بہتر ہے۔‘
اگرچہ بربروں نے میرا تخت مجھ سے چھین لیا ہے
اور میرے سپاہیوں نے مجھے ترک کر دیا ہے
میری ہمت اور میرا وقار میرے ساتھ ہیں
جنگ کے لیے میں زرہ بکتر کے بغیر گیا
لیکن افسوس، میرا وقت ابھی نہیں آیا
جب میں نے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا
جو بارش کے لیے دعا مانگنے اکٹھا ہوا تھا
میں نے کہا، میرے آنسو ہی جل تھل کرنے کے کافی ہیں
سچ ہے ، انھوں نے جواب دیا
لیکن تمھارے آنسو خون سے رنگے ہوئے ہیں
لیکن اس سے پہلے کہ میں آگے کا احوال بتاؤں، بہتر ہے کہ پہلے اپنا تعارف کروا دوں۔ میرا نام محمد ابن عباد ہے ، لیکن تاریخ مجھے معتمد کے نام سے جانتی ہے۔ میں نے اشبیلیہ (Seville) پر 1059ء سے 1091ء تک اس شان سے حکومت کی تھی کہ میری سلطنت کی ٹکر کی اندلس بھر میں کوئی اور ریاست نہیں تھی۔
ذہن میں یادوں کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ بیتے ہوئے دن ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے سے گزرتے چلے جا رہے ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کہاں سے ابتدا کی جائے ، لیکن ایک خوب صورت شام کا منظر ذہن پر ابھرا ہے ، اس کا قصہ سنیئے۔
ایک دن میں اور میرا عزیز دوست ابنِ عمار شام کے وقت دریائے وادی الکبیر کے کنارے چہل قدمی کے لیے نکلے۔ ابھی سردیوں کا آغاز نہیں ہوا تھا، لیکن ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی گھلی ہوئی تھی۔ ابنِ عمار میری ہی عمر کا تھا اور نہایت عمدہ شاعر تھا۔ وہ میرا دوست، میرا ہم راز، میرا ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کے ساتھ ساتھ میرا وزیر بھی تھا۔
ہم باتیں کرتے اور شعر پڑھتے ہوئے جا رہے تھے۔ قریب ہی کچھ عورتیں دریا کے کنارے کپڑے دھو رہی تھیں۔ خاموشی سے بہتے ہوئے وادی الکبیر کے مٹیالے پانی میں سورج جاتے جاتے اپنی سرخیاں منعکس کر رہا تھا۔ ہوا دریا کی سطح پر اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ میں نے ایک فی البدیہہ مصرع موزوں کر کے ابنِ عمار کو سنایا:
صناع الربو من الما ءِ ضرد
(پانی کی سطح پر ہوا سے زنجیروں کی مانند لہریں بن اور مٹ رہی ہیں)
اور اسے کہا کہ وہ اس مصرعے پہ مصرع لگا کر شعر مکمل کرے۔ ابنِ عمار بے حد فطین اور حاضر جواب شاعر تھا اور ایسے معاملات میں اس کا ذہن بجلی کی طرح چلتا تھا۔ لیکن نہ معلوم کیا ہوا کہ اس موقعے پر اسے ذرا دیر لگ گئی۔ ابھی وہ دوسرے مصرعے کی فکر میں غرق تھا کہ کپڑے دھونے والی عورتوں میں سے ایک نے آواز لگائی:
ایو در ان قتدلٍ لا جمد
(اگر جم جائیں تو جنگ کے لیے کیا خوب زرہ بکتر بن جائے )
دریا کے کنارے کپڑے دھوتے ہوئے اعتماد نے اپنی ذہانت سے معتمد کو مسحور کر لیا۔ میں ٹھٹک کر رک گیا۔ مڑ کر شعر پڑھنے والی کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ چھریرا بدن، آنکھوں میں ذہانت آمیز شوخی، اور چہرہ شفق کے رنگوں سے گلنار۔ اس کا نام اعتماد تھااور وہ رمیک نامی شخص کی کنیز تھی، جس کی وجہ سے اسے لوگ رمیکیہ کہتے تھے۔ قصہ مختصر، یہی اعتماد بعد میں ہماری ملکہ بنیں اور انھیں کے نام کی مناسبت سے میں نے اپنا نام ’معتمد‘ رکھ لیا، یعنی وہ جس پر اعتماد کیا جا سکے۔
لیکن صاحب، یہ اعتماد صاحبہ بڑی متلون مزاج تھیں، گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ طبیعت کی ایسی ضدی کہ کسی بات پر اڑ جاتیں تو دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے ، یہ ٹس سے مس نہ ہوتی تھیں۔ ایک دفعہ کا واقعہ سنیئے۔ سردیوں کے دن تھے۔ ویسے تو قرطبہ برفانی شہر نہیں ہے ، لیکن اس سال اتفاق سے وہاں برف گرنا شروع ہو گئی۔ ہم قرطبہ کی مسجد کے قریب واقع اپنے محل میں اوپری منزل پر بیٹھے ہوئے تھے ، منقش جھروکے سے باہر کا منظر دل موہ لینے والا تھا۔ برف کے گالے جھومتے ، لہراتے ہوئے زمیں پر گر رہے تھے اور دور پہاڑیاں برف سے براق ہو گئی تھیں۔ یہ خوش نما منظر دیکھتے دیکھتے اعتماد کی دل کش مسکراہٹ کے خطوط اداسی کے زاویوں میں ڈھل گئے اور ذرا ہی دیر میں اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو رواں ہو گئے۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ پوچھا، ارے بھئی کیا ہوا؟ لیکن وہ ہیں کہ جواب ہی نہیں دے رہیں۔
بڑی مشکل سے ہچکیوں کے دوران بتایا کہ آپ کتنے ظالم ہیں کہ ہر سال مجھے اتنا خوب صورت منظر دیکھنے سے محروم رکھتے ہیں۔ میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کہ کہ بھئی میں لاکھ مطلق العنان بادشاہ سہی، لیکن میرا موسموں پر کوئی اختیار نہیں،میں برف نہیں برسا سکتا۔ لیکن ملکہ اعتماد ضد پر اڑ جائیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
لیکن کسی نہ کسی طرح ملکہ کو مطمئن کرنا بھی ضروری تھا۔ آخر بڑی سوچ بچار اور ماہرین سے مشورے کے بعد میں نے قرطبہ کی آس پاس کی تمام پہاڑیوں کو بادام کے درختوں سے ڈھک دیا۔ اب جب بھی اوائلِ بہار میں ان درختوں پر شگوفے پھوٹتے تھے ، دور سے ایسا لگتا تھا جیسے یہ پہاڑیاں برف سے لدی ہوئی ہیں، اور اعتماد صاحبہ مسرور ہو جایا کرتی تھیں۔
خیر ان باتوں میں میں یہ بتانا بھول گیا کہ ویسے تو ہماری سلطنت اشبیلیہ میں قائم تھی، لیکن میں تخت سنبھالنے کے دوسرے ہی برس قرطبہ پر اپنا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ یہ اندلس بھر میں نہایت پر آشوب زمانہ تھا۔1031ء میں قرطبہ کی مرکزی خلافت کے پارہ پارہ ہونے کے بعد ملک درجنوں چھوٹی بڑی ریاستوں میں بٹ گیا تھا، جنھیں طائفے کہا جاتا تھا، اور اس زمانے کو طوائف الملوکی کا دور۔ یہ طائفے چھوٹی سے چھوٹی بات پر ایک دوسرے کے خلاف تلوار سونت کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر شمال میں واقع عیسائی ریاستوں کی ہمت بندھی۔ انھوں نے حملے کرکے چھوٹی موٹی ریاستوں کو ہڑپ کرنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ قصطیلیہ کے امیر الفانسو ششم نے اتنا زور پکڑا کہ بہت سی مسلم ریاستیں اسے خراج دینے پر مجبور ہو گئیں۔ 1085ء میں الفانسو نے طلیطلہ (Toledo) پر قبضہ کر لیا۔ طلیطلہ گذشتہ تین سو برس سے مسلم علم و فن کا گڑھ تھا، اس کے سقوط سے تمام اندلس میں سنسنی پھیل گئی، اور تمام ریاستوں کو اندازہ ہو گیا کہ ان کے دن گنے جا چکے ہیں اور وہ جلد یا بدیر الفانسو کی سلطنت کا حصہ بن جائیں گے۔ اب ہمارے سامنے دو ہی راستے تھے۔ یا تو الفانسو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں اور یا پھر شمالی افریقہ کی المرابطون (Almovarid) سلطنت کو مدد کے لیے پکاریں۔
اس موقعے پر میں نے ایک شعر کہا تھا جس پر مجھے آج بھی افسوس ہے۔ ’ میں قصطیلہ میں عیسائیوں کے سور چرانے پر فیض میں بربروں کے اونٹ چرانے کو ترجیح دوں گا۔‘
خیر، میں نے غرناطہ کے امیر سے بھی مشورہ کیا، دوسرے زعما سے بھی صلاح لی، جس کے بعد میں نے خود مراقش جا کر بربر سلطان یوسف بن تاشفین سے مدد کی درخواست کی، جسے اس نے بخوشی قبول کر لیا۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یوسف بن تاشفین کی مدد دو دھاری تلوار ہے۔
یوسف بن تاشفین کی فوج 1086ء میں آبنائے جبل الطارق پار کر کے اندلس میں داخل ہو گئی۔ میں نے ساحل پر جا کر اس کا استقبال کیا اور یوسف اور اس کے فوجی سرداروں پر تحائف کی بارش کر دی۔ میں نے یوسف کو دعوت دی کہ وہ کچھ دن میرے دارالحکومت اشبیلیہ میں آرام کرے اس کے بعد آگے کی دیکھی جائے گی۔ لیکن یوسف نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہاں آرام کرنے نہیں بلکہ دشمن سے لڑنے آیا ہوں۔
یوسف بن تاشفین اور اس کا المرابطون خاندان صحرائی بربر تھے اور اس کی عمر گھوڑے کی پیٹھ پر گزری تھی۔ جب اس نے اندلسی طائفوں کے امیروں کے ٹھاٹ باٹ دیکھے تو اس کی آنکھیں چکاچوند ہو گئیں۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ اسے یہ کروفر اور عیش اور عشرت بہت ناگوار گزرتے ہیں، اسی لیے وہ ہماری ہر بات پر ناک بھوں چڑھا کر رہ جاتا تھا۔
الذلقہ کے مقام پر یوسف کے بربروں اور الفانسو کی افواج مدِ مقابل ہوئیں۔ میں بھی اپنے دلاور دستوں کے ساتھ یوسف کے شانہ بہ شانہ موجود تھا۔ الفانسو نے تمام ہسپانیہ کے عیسائی راجواڑوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور اس کی فوجوں کے پرے افق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے تھے۔ جمعرات کا دن تھا۔ الفانسو کی طرف سے ایلچی پیغام لے کر آیا کہ کل جمعہ ہے ، جو تمہارا مقدس دن ہے۔ پرسوں ہفتہ ہے جو یہودیوں کا مقدس دن ہے اور میری فوج کے اکثر منشی اور خزانچی یہودی ہیں۔ اس کے بعد اتوار ہے جو ہمارا مقدس دن ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم پیر کے دن کا انتظار کریں اور اسی دن معرکہ بپا ہو۔ یوسف نے فوراً ہی اس بات سے اتفاق کر لیا۔
جمعے کے دن یوسف اور اس کی فوج اطمینان سے نماز کی تیاری کرنے لگی۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں کھٹک سی تھی، میں نے یوسف سے ذکر بھی کیا لیکن اس نے میری بات کو جھٹک دیا۔ ابھی نمازِ با جماعت کی پہلی رکعت ہی ادا ہوئی تھی کہ الفانسو کے گھڑ سواروں نے ہلہ بول دیا۔
الفانسو کا خیال تھا کہ وہ یوسف کے لشکر کو بے خبری میں آ لے گا۔ لیکن میری آنکھوں نے اس وقت ایک عجیب منظر دیکھا۔ یوسف کے تربیت یافتہ سپاہیوں نے جنوں کی طرح لپک کر اپنے ہتھیار اٹھائے اور چھلاووں کی طرح کود لگا کر گھوڑوں پر سوار ہو گئے۔ چند لمحوں کے اندر اندر وہ پوری طرح سے تیار تھے۔ گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔ ہر طرف تلواریں، بھالے اور برچھے بجلیوں کی طرح چمکنے لگے اور تیر سروں پر طوفانی ہواؤں کی طرح سائیں سائیں کر تے گزرنے لگے۔
کیسی بلندی کیسی پستی
اشبیلیہ کا شاعر بادشاہ المعتمد
23 اکتوبر 1086 کی اس سہ پہر ہماری مشترکہ فوج اور الفانسو کے درمیان گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔ ہر طرف تلواریں، بھالے اور برچھے بجلیوں کی طرح چمکنے لگے اور تیر سروں پر طوفانی ہواؤں کی طرح سائیں سائیں کر تے گزرنے لگے۔
میرے جاں باز سپاہی اور دوسرے اندلسی طائفوں سے آئے ہوئے دستے بے جگری سے لڑے ، لیکن الفانسو کی فوج کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا پر بند باندھنا آسان کام نہیں تھا۔ ہماری فوجیں لڑتے لڑتے باداجوز تک پسپا ہونے پر مجبور ہو گئیں، اس دوران یوسف کا لشکر ابتدائی ہلے کے بعد زیادہ تر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا تھا۔ جب یوسف نے دیکھا کہ الفانسو غلبہ پانے کو ہے تو اس نے اپنی فوج کو ایک حکم دیا، جس کے بعد میں نے ایک نرالی بات دیکھی۔ بربر فوجیوں نے یکایک ایک عجیب و غریب بے ہنگم قسم کا صحرائی ڈھول بجانا شروع کر دیا۔
یوسف کی فوج کی ترتیب اور نظم و نسق ایسا تھا جو میں نے پہلے کبھی دیکھا نہ سنا تھا۔ فوج میں قسم قسم کے دستے تھے۔ ہر دستے کی تربیت اس طرح کی گئی تھی کہ وہ اپنے اپنے امیر کے اشارے پر ایک اکائی کی طرح حرکت کرتا تھا۔ ہر دستے کا اپنا پرچم اور اپنا ڈھول بردار تھا اور دستے کی ہر حرکت ڈھول کی تھاپ پر ہوتی تھی۔ یہ دستے اس قدر سرعت اور اتنی ترتیب اور ربط و ضبط سے مڑتے ، بڑھتے اور جھکائی دیتے تھے کہ ایسا گمان ہوتا تھا جیسے یہ دستے بیسیوں سپاہیوں پر مشتمل نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ یہ دستے ہندوستانی فولاد سے بنی تلواروں اور چمڑے کی ڈھالوں سے لیس تھے۔ اس کے علاوہ یوسف کی فوج میں ترک تیر اندازوں کے دستے بھی تھے۔ پہلے ایک قطار تیر چھوڑتی، اور فوراً زمین پر بیٹھ جاتی، اس کے بعد دوسری قطار تیروں کی بوچھاڑ کرتی، پھر تیسری۔ اتنی دیر میں پہلی قطار اپنے تیر دوبارہ کمانیں تیار کر لیتی۔ اس طرح مسلسل تیروں کی موسلا دھار برسات جاری تھی۔
یہ رنگ ڈھنگ سرزمینِ ہسپانیہ کے لیے نرالے تھے ، یہاں کے فوجیوں کو اس قسم کی جنگ لڑنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے میدانِ جنگ الفانسو کے سپاہیوں کی لاشوں سے اٹ گیا۔ الفانسو بڑی مشکل سے بچے کھچے سپاہیوں کے ساتھ جان بچا کر قسطیلہ بھاگ گیا۔
23 اکتوبر 1086ء کو ہونے والے اس معرکے کو جنگِ الزلاقہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ الزلاقہ عربی میں پھسلواں زمین کو کہتے ہیں۔ اس نام کی وجہ یہ تھی کہ اس دن اس قدر خون بہا تھا کہ زمین پر قدم جما کر چلنا محال ہو گیا تھا۔ میں خود اس جنگ میں خاصا زخمی ہو گیا تھا، اور مجھے تین گہرے زخم آئے تھے ، تاہم میرے قابل جراحوں کی لیاقت اور رحمتِ خداوندی سے زخم جلد بھر گئے۔
جنگ الزلاقہ میں اگرچہ الفانسو کو شدید زک اٹھانا پڑی تھی، لیکن اس کی کمر پوری طرح سے نہیں ٹوٹی تھی، کیوں کہ یوسف نے اس کا پیچھا کرنے کی بجائے فوراً افریقہ واپسی کا طبل بجا دیا۔ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اس کا جوان اور چہیتا بیٹا مراقش میں مر گیا تھا۔ تاہم کچھ عرصے کے لیے مسلم ریاستوں کی جان الفانسو کی چیرہ دستیوں سے چھوٹ گئی۔
لیکن ابھی تین چار ہی سال گزرے تھے کہ الفانسو نے دوبارہ پر پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ مسلم ریاستوں سے خراج کے تقاضے بڑھتے چلے گئے اور جلد ہی وہی صورتِ حال لوٹ آئی جو یوسف بن تاشفین کے حملے سے پہلے تھی۔ اس صورتِ حال کو ایک ولندیزی تاریخ دان نے یوں بیان کیا ہے کہ الفانسو مسلمان راجواڑوں کو شراب کی بھٹی میں اس وقت تک کچلتا رہتا تھا جب تک ان سے خالص سونے کا رس برآمد نہ ہو جائے۔
حالات یہاں تک پہنچے کہ ایک بار پھر امیرانِ طائفہ جات اور اندلس کے مذہبی رہنما یوسف بن تاشفین کے پاس جا کر المدد کی صدا بلند کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کچھ عرصے تک تو یوسف لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ آخر اس نے فیصلہ کر لیا۔ میرے رقعہ نویسوں نے مجھے اطلاع دی کہ اس بار یوسف واپس جانے کے لیے نہیں بلکہ اندلس کے تمام طائفوں کو مرابطون سلطنت میں ضم کرنے کی نیت سے آ رہا ہے اور اس بارے میں اس نے امام غزالی اور الطرطوشی سمیت مسلم دنیا کے بڑے علما سے فتاویٰ بھی حاصل کر رکھے ہیں۔ ان تمام علما نے یہی لکھا تھا کہ اندلس کے حکمران اس قدر عیاش اور گمراہ ہو گئے ہیں کہ انھیں بزورِ شمشیر تخت سے ہٹانا جائز ہے ، اور اگر اس سلسلے میں مسلمان خون بھی بہتا ہے تو چنداں مضائقہ نہیں۔
یوسف نے ستمبر 1090ء میں سرزمینِ اندلس پر اترتے ہی پہلے ہلے میں مالقہ اور غرناطہ کی ریاستوں اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور ان کے امیروں کو گرفتار کر کے مراقش بھجوا دیا۔ اگلے سال قرطبہ کی باری آئی، جس کے بعد اس کی فوجوں نے میری سلطنت اشبیلیہ پر دھاوا بولنے کی تیاری شروع کر دی۔ میں اپنی بربادی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا تھا، اس لیے بے حد مجبوری کے عالم میں مجھے الفانسو کے سامنے دستِ سوال پھیلانا پڑا۔ الفانسو نے یوسف کے لشکر کو اشبیلیہ کی طرف بڑھتا دیکھ کر غرناطہ پر حملہ کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کر دی، لیکن یوسف کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور اس نے 1091ء میں یلغار کر کے اشیبیلہ پر قبضہ کر لیا۔ اپنی داستان کے شروع میں میں نے اسی جنگ کا احوال بیان کیا تھا (ملاحظہ کیجیئے ، اشبیلیہ کا البیلا بادشاہ)۔
جب میرے آنسو تھم گئے
اور دل پر خاموشی کے گہرے بادل چھا گئے
میں نے آوازیں سنیں:
’ہتھیار ڈال دو، اسی میں دانائی ہے !‘
میں نے جواب دیا:
’شرمندگی کے اس پیالے سے
زہر کا گھونٹ بہتر ہے۔‘
اگرچہ بربروں نے میرا تخت مجھ سے چھین لیا ہے
اور میرے سپاہیوں نے مجھے ترک کر دیا ہے
میری ہمت اور میرا وقار میرے ساتھ ہیں
جنگ کے لیے میں زرہ بکتر کے بغیر گیا
لیکن افسوس، میرا وقت ابھی نہیں آیا
قصہ مختصر کہ میں نے اپنے چار نوجوان بیٹوں، الفتح، یزید، مالک اور عبدالجبار کی لاشیں اپنے سامنے گرتی دیکھیں۔ مجھے زنجیروں میں جکڑ کر یوسف بن تاشفین کے سامنے پیش کیا گیا، جس نے میرے ساتھ بڑی حقارت کا سلوک کرتے ہوئے مجھے اور میرے خانوادے کو جلاوطن کر کے مراقش بھجوا دیا۔ میری وفادار رعایا نے مجھے رخصت کیا۔ جب ہم سیاہ رنگ کشتیوں میں سوار ہو کر اپنی عزیز از جاں مادرِ وطن کو آخری بار دیکھ رہے تھے تو بربروں کے خوف کے باوجود دریائے وادی الکبیر کے کنارے مجھے الوداع کہنے کے لیے آئی ہوئی میری وفادار رعایا کے آنسو بہہ کر دریا کے مٹیالے پانی میں مل رہے تھے۔
جب ہم مراکش کے شہر طنجہ میں اترے تو میرے آنے کی خبر وہاں جنگ کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ شہر بھر کے شعرا اور ادبا مجھ سے ملنے کے لیے فصیلِ شہر تک آئے ہوئے تھے۔ شاعر حسری نے آگے بڑھ کر مجھے عربی شاعری کا ایک انتخاب پیش کیا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ بھاری انعام اور خلعت پاتا۔ لیکن وہ اس کس مپرسی کے عالم میں مجھ سے ملا تھا۔ میں نے اپنے لباس کی جیبیں ٹٹول کر آخری اشرفیاں نکالیں، اور ان کے حوالے کردیں۔ اشرفیاں میرے ہی خون سے رنگی ہوئی تھیں۔
جب میں نے لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا
جو بارش کے لیے دعا مانگنے اکٹھا ہوا تھا
میں نے کہا، میرے آنسو ہی جل تھل کرنے کے کافی ہیں
سچ ہے ، انھوں نے جواب دیا
لیکن تمھارے آنسو خون سے رنگے ہوئے ہیں
کیسی بلندی، کیسی پستی۔ میں نے نیک نامی، آرام و آسائش اور عزت و شہرت کی معراج دیکھی تھی، اب میں زنجیروں میں جکڑا ہوا برہنہ سر، پاپیادہ، بربر سپاہیوں کے دھکے کھاتا اور گالیاں سنتا کوہِ اطلس کے دامن میں واقع اغمات کے قلعے کی طرف چلا جا رہا تھا۔
مجھے ملکہ اعتماد اور میری بیٹیوں سمیت کوہِ اطلس کے قلعۂ اغمات میں قید کر دیا گیا۔ میرے اوپر تو جو گزری سو گزری، میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات میری ناز و نعم سے پلی ہوئی شہزادیوں کو پیٹ پالنے کے اون بنتے ہوئے دیکھنا تھا۔ قید خانے میں پہلی عید کے موقعے پر میں نے یہ نظم کہی تھی:
گزرے دنوں میں تہوار تمہارے لیے خوشی کی نوید لاتے تھے
لیکن اس پر مسرت دن نے تمہیں اغمات میں پا بہ جولاں پایا ہے
تم اپنی پھول سی بیٹیوں کو چیتھڑوں میں ملبوس
اور بھوک سے سوکھ سوکھ کر کانٹا بنتے دیکھ رہے ہو
جو غربت کے ہاتھوں روئی دھنکنے پر مجبور ہیں
وہ نظریں نیچی کر کے تم سے عید ملنے آئی ہیں
وہ پاؤں جو کبھی مشک اور کافور پر چلا کرتے تھے
اب اغمات کی گلیوں کی کیچڑ میں چلتے ہیں
ان کے پچکے ہوئے گالوں پر آنسوؤں نے راستے بنا دیے ہیں
خداوندا، ایسی عید دوبارہ نہ لانا
اپنی عظمت کے نشے میں چور بادشاہ
احمقوں کی جنت کے مقیم ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1093ء میں معتمد اور اعتماد کے آخری بچ جانے والے بیٹے ابن جبار نے یوسف بن تاشفین کے خلاف بغاوت کر دی، کچھ دنوں کے لیے معتمد کے دل میں امید کی کرن نے بسیرا کیا، لیکن پھر قلعے کی سنگلاخ برجیوں کے پار سے خبر پہنچی کہ ابنِ جبار بھی بربر فوج کی سیسہ پلائی دیوار سے سر ٹکرا کر رہ گیا اور اسے بھی تہِ تیغ کر دیا گیا۔ اعتماد اپنے پانچویں بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکی اور چند مہینوں کے اندر اندر گھل گھل کر مر گئی۔ اپنی محبوب ملکہ کے مرنے کے کچھ ہی عرصے بعد المعتمد نے بھی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔
المعتمد کے دربار کی شان و شوکت اور اس کی ذاتی دریا دلی اور شجاعت کی وجہ سے اسے اندلس کی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہی نہیں بلکہ المعتمد کا شمار عربی کے اہم شعرا میں بھی ہوتا ہے۔ تاریخ دان ابن خلکان معتمد کے بارے میں لکھتا ہے کہ وہ سپین کے تمام حکمرانوں سے زیادہ کشادہ دل، ہمدرد، سخی اور طاقت ور تھا۔ اس کا دربار مسافروں کی پناہ گاہ اور شاعروں کی مشاعرہ گاہ ان تمام با صلاحیت لوگوں کی امیدوں کا مرکز تھا۔
علامہ اقبال نے اس کی ایک نظم کا اردو ترجمہ کیا ہے جو ’بالِ جبریل‘ میں شامل ہے :
قید خانے میں معتمد کی فریاد
معتمد اشبیلیہ کا بادشاہ اور عربی شاعر تھا- ہسپانیہ کے ایک حکمران نے اس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیا تھا – معتمد کی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر وزڈم آف دی ایسٹ سیریز میں شائع ہو چکی ہیں
اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
سوز بھی رخصت ہوا، جاتی رہی تاثیر بھی
مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
میں پشیماں ہوں، پشیماں ہے مری تدبیر بھی
خود بخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جو مری تیغ دو دم تھی، اب مری زنجیر ہے
شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی!
آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ نظم کے شروع میں دیے گئے نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ معتمد کو ہسپانیہ کے ایک حکمران نے اس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیا تھا، حالاں کہ ظاہر ہے کہ یوسف بن تاشفین ہسپانیہ کا بادشاہ نہیں تھا۔
خیر، یوسف بن تاشفین نے تمام مسلم اندلس کو اپنی مرابطون سلطنت کے جھنڈے تلے اکٹھا کر لیا، جس سے عیسائیوں کے استرداد (Reconquista) کے آگے بند باندھ دیا۔ یوسف کے بارے تاریخ کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ یوسف بن تاشفین اندلس میں اسلام کا نجات دہندہ بن کر آیا تھا۔ اس کی عمر اس وقت 70 سال تھی۔ وہ لمبا تڑنگا اور مثالی صحت کا مالک تھا۔ اس کی بھویں آپس میں ملتی تھیں، اور اس کی آواز بلند آہنگ تھی۔ وہ صحرائے اعظم صحارا میں لمتونہ نامی بربر قبیلے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے قبیلے نے اس وقت اسلام قبول کیا جب یوسف ہوش سنبھال چکا تھا۔ یوسف کی خوراک جو کی روٹی، دودھ اور اونٹ کا گوشت تھا، اور وہ صرف اونی کپڑے پہنتا تھا۔ صحرائی قبیلوں کے رواج کے مطابق اس کا چہرہ ہمیشہ نقاب سے ڈھکا رہتا تھا۔
ابن تاشفین کے لمبی عمر پائی، تاہم 1106ء میں اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے سلطنت کو یوسف کی سی قابلیت سے نہیں چلا سکے الموحدین خاندان کی حکومت کو اندلس میں کبھی بھی پسند نہیں کیا گیا، کیوں کہ یہ صحرائی بربر تھے اور اندلس کے صدیوں پرانے پر شکوہ تمدن کے مخمل میں ان کا وجود ٹاٹ کے پیوند کی طرح تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شمالی افریقہ کے بڑے حصے اور اندلس پر پھیلی ہوئی المرابطون۔ حتیٰ کہ 1147ء میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔
اسی دوران مراقش ہی سے ایک اور بربر قبیلہ اٹھا جسے تاریخ الموحدون کے نام سے جانتی ہے۔ الموحدون طالبان کی طرح انتہائی سخت گیر اور انتہاپسند تھے۔ الموحدون نے یوسف بن تاشفین کے جانشینوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر دیکھتے ہی دیکھتے پہلے مراقش اور بالآخر اندلس پر بھی اپنا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ 1170ء میں الموحدون اپنا دارالحکومت بھی اشبیلیہ منتقل کر دیا۔ اشبیلیہ کی عظیم مسجد انھی کی بنائی ہوئی ہے۔ آج جس کی یادگار ہیرالدا کے مینار کی صورت میں باقی ہے (ملاحظہ کیجیئے ’اندلس کا شہرِ رومان، اشبیلیہ‘)۔
تاہم الموحدون زیادہ عرصے تک شمالی ہسپانیہ کی عیسائی ریاستوں کو دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک ایک کر کے شہر مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتے چلے گئے۔ 1236ء میں قرطبہ اور 1248ء میں اشبیلیہ پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس وقت سے لے کر 1492ء تک صرف غرناطہ کی ریاست ایسی تھی جہاں مسلمانوں کی حکومت برقرار تھی۔
غرناطہ، الحمرا محل کا شہر۔ جو میری اگلی منزل تھا۔
نا مکمل
تشکر: مصنف جنہوں نے ای بک کی اجازت دی
ماخذ:
http://www.voanews.com/urdu/news/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
my gmail adress is
tabajabeen1@gmail.com
replace the previous