FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آدم شیر کے کچھ مزید افسانے

 

 

 

                   آدم شیر

 

 

 

 

 

 

 

 

دس ضرب دو برابر صفر

 

 

لاہور کے شمال میں ایک پرانی بستی ہے جس کی ایک تنگ اور بند گلی میں موجود ایک کمرے کے مکان میں بلو کرایہ پر رہا کرتی تھی۔

اس شہر کی تنگ گلیاں اندر سے بڑی کھلی ہوتی تھیں ۔ پہلے یہاں رہنے والوں کے دل بھی کھلے ہوا کرتے تھے۔ پھر کھلی گلیوں اور تنگ دلوں کا زمانہ آ گیا لیکن تنگ گلیاں اور کھلے دل اب تک مل جاتے ہیں ۔ اکثریت کو یہ گلیاں اب بھیڑ بکریوں کا باڑہ نظر آتی ہیں ۔ چند ان میں زندگی کا سمندر موج در موج اچھلتا کودتا دیکھتے ہیں جو ساحل کو ڈبوتا آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ شہر اب شہر نہیں رہا، انسانوں کا جنگل بن چکا ہے جہاں بچے زیادہ دیر بچے نہیں رہتے۔

بلو کے بچے بھی تیزی سے بڑے ہو رہے تھے۔ ایک چھ سات سال کا بیٹا اور نو دس سال کی ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ خود سارا دن گھر سے غائب رہتی۔ بچی ہاتھ میں کٹورہ پکڑے ایک گھر جاتی۔ بچہ چنگیر پکڑے دوسرا دروازہ کھٹکھٹاتا اور یوں ماں کی عدم موجودگی میں اپنے لئے خوراک مہیا کر لیتے۔

بلو کا اصلی نام پتا نہیں کیا تھا۔ سارے محلے میں وہ بلو مشہور تھی حالانکہ اس کی آنکھیں بلوری نہ تھیں ۔ شریر بچے اسے بلی بھی پکارتے لیکن پیٹھ پیچھے۔ ۔ ۔ اور بچوں کے باپ اسے پتا نہیں کیا کیا کہتے تھے مگر جب وہ سامنے نہ ہوتی۔ ۔ ۔ عورتیں بھی کچھ نہ کچھ کہتی رہتی تھیں لیکن زیادہ تر ایسا جو ایک کمرے کے مکان میں کرایہ پر رہنے والوں کے متعلق کہا جاتا ہے۔

بلو کی عمر پینتیس سے چالیس کے درمیان ہو گی۔ نین نقش واجبی سے لگتے البتہ جغرافیہ صاف بتاتا تھا کہ کبھی بڑی غضب کی ہو گی۔ اب تو اس کے بال ہمہ وقت الجھے الجھے اور مٹی سے اٹے رہتے جن میں وہ گندی اور گھسی ہوئی انگلیوں سے خارش کرتی۔ وہ اکثر شام کے وقت اپنی دہلیز پر پائی جاتی۔ کپڑے اس کے پھٹے تو نہ ہوتے لیکن کثرت استعمال سے گھسے ضرور ہوتے۔ بلو کے جسم میں ایسی کوئی خاص بات نہیں رہی تھی جس کا ذکر ضروری ہو۔ بس وہ پیچھے سے تھوڑی نمایاں تھی۔ گھر سے باہر قدم نکالتی تو پاؤں سے پہلے پیٹ نظر آتا جس کے بعد سینہ اور پھر منہ دیکھنے کو ملتا۔

بلو زیادہ موٹی تھی نہ اس کا مرد کافی پتلا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے چار پانچ سال چھوٹا ہی نظر آتا اور بلو اپنی عمر سے چار پانچ سال بڑی دکھائی دیتی۔ اس کا چہرہ مالی اور سماجی حالات کا واضح عکاس تھا، اس تختی کی طرح جس پر کسی بچے کی سیاہی سے لتھڑی انگلی دو جگہ پر لگ گئی ہو مگر بلو کے مرد کا چہرہ اس بلیک بورڈ کی طرح چمکتا تھا جس پر تازہ تازہ سیاہ پینٹ کیا گیا ہو۔ وہ استری کی ہوئی کلف لگی صاف ستھری شلوار قمیص پہنتا تھا۔

بلو کا مرد چھوٹی بس کا ڈرائیور مشہور تھا۔ موٹرسائیکل اس کے پاس تھی، جسے وہ چمکا کر اڈے پر جاتا۔ اس کے بعد بلو بھی گھر سے چلی جاتی۔ پہلے وہ ایک کوٹھی میں برتن دھوتی جہاں اس کے ناخن تڑخ اور پوریں بے جان ہو جاتی تھیں ۔ کپڑوں کی دھلائی بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ مالکن ہر بار داغ رہ جانے کے لئے ڈانٹتی اور بلو کے جھاڑو پھیرتے ہوئے کئی بار کہتی۔

’’اندھی ہے تُو، نظر نہیں آتا۔ گندگی چھوڑتی جا تی ہے۔ چل دوبارہ جھاڑو لگا۔ ‘‘ اور وہ چہرے پر پھیلتے ناگواری کے تاثرات پوری ایمانداری سے چھپاتے ہوئے جھاڑو دوبارہ رگڑ رگڑ کر لگانا شروع کر دیتی۔

اس کے بعد وہ دوسری کوٹھی میں بھی یہی کچھ کرتی اور شام کو اپنے گھر لوٹتی جو گھر نہیں تھا بلکہ مالک مکان کی لالچ نے اس ڈربے کو کرائے کا مکان بنا دیا تھاجس میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ مرغی کی طرح سمٹی رہتی اور اس کا مرد پھیلا رہتا۔ بلو کی زندگی ایسی ہی تھی۔

اب اس کی کوئی چیز دلچسپ نہیں رہی تھی سوائے اس کی تیکھی زبان کے جو سب کو پسند تھی۔ اتوار کے دن وہ اکثر اپنے دروازے میں بیٹھی بیٹی کے سر سے جوئیں نکالتی سامنے والی پڑوسن سے باتیں کرتی نظر آتی۔ جب وہ بولتی تو کسی کو پتا نہ چلتا لیکن چلاتی تو سب ہمہ تن گوش ہوتے۔ پوری گلی کے مرد چسکے لیتے اور عورتیں منہ میں انگلیاں لے لے کر اشارے کرتیں ۔ بڑے مزے دار لفظ استعمال کرتی تھی۔ وہ ایسے اعضا کا ذکر بڑے کھلے ڈھلے انداز میں گلی میں کھڑے کھڑے کر دیتی جو مرد صرف لڑائی کے دوران ایک دوسرے کے لئے کرتے ہیں ۔ اس کے منہ سے اوروں کو پڑتی گالیاں سن کر دل باغ باغ ہو جاتا۔ اس کے بچے بھی سارا دن تھڑے پر بیٹھے ایک دوسرے کو ویسی ہی مزے دار گالیوں سے نوازتے رہتے تھے۔

بلو لڑاکو نہیں تھی۔ وہ گھر رہتی تو کسی سے لڑتی!۔ وہ تو جاپانی روبوٹ کی طرح ایک کوٹھی سے دوسری میں جاتی اور واپس اپنے ڈربے میں سونے کے لئے آ جاتی۔ اس کی جسمانی حالت اور بندے کے تیور بتاتے تھے کہ اب وہ صرف سونے اور کھانا پکانے کے لئے ہی گھر آتی ہے۔ جب اس کی گالیاں سنائی دیتیں تو پتا چلتا وہ گھر میں ہے اور کئی لوگ اپنے کواڑ کھولے بغیر کان کھڑے کر لیتے۔ گالیاں نکالنا ایسا ہی ہے جیسے گٹر سے گندگی نکالنا جو پھنس جائے تو گلیاں بھر جاتی ہیں ۔ گلی میں کوئی اور عورت بھی غلاظت نکال رہی ہوتی تو وہ سارا مردوں کے اندر چلا جاتا جو ان سے ہوتا ہوا بچوں میں داخل ہو جاتا۔

گلی کی نکڑ پر ایک دن کسی سرکاری دفتر میں کلرکی کرنے والے حمید کے دو چھوٹے لڑکے اپنے ماں باپ سے ملی غلاظت اس وقت نکالنے لگے جب بلو شام کے وقت سارے دن کی تھکی ہاری چنگ چی کا کرایہ بچا کر اپنے قدموں پر گھر آ رہی تھی۔

’’بلو ڈیڑھ سو۔ ۔ ۔ بلو ڈیڑھ سو۔ ۔ ۔ ‘‘

بلو کے پاؤں وہیں رک گئے۔ اس نے کانوں کے راستے دل کو راکھ کر دینے والا لاوا اگلنے سے خود کو روکا اور بچوں کو پیار سے سمجھانے لگی لیکن بچے باز نہ آئے اور پھر وہی۔ ۔ ۔

’’بلو ڈیڑھ سو۔ ۔ ۔ بلو ڈیڑھ سو۔ ‘‘ اس نے غصیلے انداز میں سمجھایا تو بچوں نے شور مچا دیا۔ ۔ ۔ ’’بلو دس روپے۔ ۔ ۔ بلو دس روپے۔ ‘‘

بلو کے لاوے کے آگے لگے غربت کے بند میں چھید ہو گیا اور وہ بچوں کے قد سے بڑی گالیاں دینے لگی جس پر کچھ لوگ دروازوں کی اوٹ میں محظوظ ہونے لگے۔ حمید دروازے سے باہر آیا، اس کے پیچھے اس کی بیوی تھی جس کے بعد ماں اور پھر اس کے سب بھائی باہر نکل آئے۔ وہ سارے بلو کو اس سے موٹی گالیاں دیتے ہوئے پل پڑے۔ مار کٹائی میں اس کے بوسیدہ کپڑے بھی پھٹ گئے اور ایسی چوٹیں آئیں کہ کسی کو دکھا نہ سکتی تھی۔

حمید اور اس کے گھر والوں کا پارا اترا تو بلو اپنے جسم کو خود سہارا دیتی کھڑی ہوئی اور آپی اپنا آپ سہلاتی گلی والوں کی نظروں سے نظریں ملائے بغیر خود کو خود میں چھپاتی ہوئی اپنے ڈربے میں پہنچ گئی۔ جب اس کا گھر والا آیا تو دونوں تھانے گئے اور کارروائی کی درخواست دی جو چھوٹے منشی نے ٹال مٹول کے بعد بڑی مشکل سے لکھی۔

دوسرے دن جب بلو اور اس کا گھر والا تھانے میں داخل ہو رہے تھے تو حمید اپنی عورتوں اور کئی محلہ داروں کے ساتھ نکل رہا تھا۔ بلو اپنے مرد کے ساتھ تھانیدار کے سامنے پیش ہوئی تو اس نے صاف صاف کہہ دیا۔

’’بلو جی !سارے محلے نے تمہارے خلاف گواہی دی ہے۔ صلح کر لو۔ ‘‘

بلو نے اپنی بپتا سنانے کی کوشش کی تو تھانیدار نے جھاڑ پلاتے ہوئے کہا۔

’’صلح کر لو۔ یہی بہتر ہے۔ سب کہتے ہیں تم دو نمبر ہو۔ ‘‘ بلو تھانیدار کے اس دس نمبری لہجے پر کھول اٹھی۔ اسے کمرے میں موجود ہر شے دو نمبر۔ ۔ ۔ دو نمبر کی رٹ لگاتی محسوس ہوئی۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور چنگھاڑنے لگی۔ ۔ ۔

’’میں دو نمبر نئیں ۔ سارا دن پانڈے مانجھ مانجھ کے روٹی کمانی آں ۔ دو نمبر تے او کنجر جناں مینوں ماریا کٹیا۔ ۔ ۔ میرے کپڑے پاڑے تے مینوں گالاں کڈیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بلو بولے جا رہی تھی اور اس کا مرد نظریں نیچی کئے سنتا رہا لیکن تھانیدار چند لمحے ہی سن سکا۔ اس نے مزید کچھ لمحے بلو کو چپ کرانے کی کوشش کی۔ پھر سپاہیوں کے ذریعے نکال باہر کیا۔

سپاہی جب اسے بازوؤں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے تھانے سے باہر نکال رہے تھے، وہ یہی کہہ رہی تھی۔

’’میں دو نمبر نئیں ۔ میں مزدوری کرنی آں ۔ ‘‘ اور گھر پہنچ کر بھی وہ یہی کہتی رہی۔

اس دن کے بعد چند روز بلو کا مرد کم کم نظر آیا اور بلو دو نمبری کے کنویں میں ایسی گری کہ بالکل نظر نہ آئی۔ وہ شام کی بجائے رات کو گھر آنے لگی۔ اتوار کے دن بھی بیٹی کی جوئیں نکالتی نظر نہ آتی۔ جب گھر ہوتی تو اپنی طرح جھکی ہوئی چارپائی پر لیٹی رہتی، کھانا پکاتی یا بچوں کے کپڑے دھوتی۔ اس کی غیر موجودگی میں بچے سرکاری سکول سے واپس آ کر یونہی اِدھر اُدھر سے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے اور تھڑے پر بیٹھے گالی گالی کھیلتے رہتے۔

بلو کی پٹائی کے واقعہ کو جب ایک مہینہ ہو گیا تو اس کا مرد دن چڑھے بال بنائے دروازے میں کھڑا نظر آنے لگا۔ وہ پرانے دنوں کی طرح موٹرسائیکل چمکاتا اور غائب ہو جاتا۔ پھر ایک دن ایسا گیا کہ واپس نہ آیا۔ بس ایک لفافہ آیا جس میں موجود کاغذ ڈاکیے نے پڑھ کر سنایا تو بلو چپ چاپ دروازہ بند کر کے چارپائی پر جا لیٹی اور کچھ دیر آنسو بہانے کے بعد ہذیانی کیفیت میں گالیاں بکنے لگی جو بند دروازہ چیرتی ہوئی گلی میں گونجتی رہیں ۔ ۔ ۔ گالیوں کے درمیان وقفہ بھی آ جاتا۔

’’میں دو نمبر نئیں ۔ ۔ ۔ دو نمبر تھانیدار۔ ۔ ۔ دو نمبر محلے دار۔ ۔ ۔ دو نمبر میدا کنجر۔ ۔ ۔ وڈے آئے اک نمبر۔ ۔ ۔ میں دو نمبر آں تے تسی دس نمبر او کنجرو۔ ۔ ۔ ‘‘ اور پھر ماں بہن کی گالیاں شروع ہو جاتیں ۔ کچھ محلے دار اپنے بیرونی دروازوں کے اندر اور چند باہر کھڑے مستور اعضا کے غیرمستور اظہار پر وجہ جاننے کی کوشش کرتے رہے۔ ۔ ۔ بعض گالیوں کو دل پر لے رہے تھے۔ ۔ ۔ کچھ کا سارا دھیان صرف گالیوں کے چٹخارے پر تھا۔ ۔ ۔ وہی مزے دار گالیاں جو بے مزہ ہو گئی تھیں ۔

اس روز دو چار عورتیں شام کے وقت بلو کے گھر سے نکلتی دکھائی دیں لیکن وہ اب تک دس نمبریوں کی دو نمبری کے کنویں سے نہیں نکل سکی۔

٭٭٭

 

 

 

 

خودفریبی

 

’’تم نے وہ نوکری کیوں کی؟‘‘

میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اُس کی طرف دھندلی نگاہوں سے دیکھا جس کا چہرہ پورے چاند کی طرح چمکتا اور آنکھیں تاروں کی طرح جگمگ کرتی تھیں ۔ اُس کے چوڑے کندھوں پر سفید کرتا کسا نظر آتا تھا۔ سرپر پگڑی اور پیروں میں تلے والا کھسہ اسے مزید خوبرو بناتا تھا۔ وہ لسی پیتا تھا۔ مکھن کھاتا تھا۔ ابے کے حقے میں سے چوری چوری کش لگاتا اور کھانستا تھا۔ وہ جو ہمیشہ قابل رشک تھا اور جس سے مجھے ایک انجانی جلن بھی ہوتی تھی، آج میرے سامنے کالی چائے پی رہا تھا۔ اُس کی نوکیلے کناروں والی مونچھوں پر شرارت ہر وقت کھیلتی تھی، گالوں سے زندگی چھلکتی تھی اور ہونٹوں سے ہنسی پھوٹتی تھی۔ آج صدیوں کا بیمار دکھائی دے رہا تھا۔ اُس نے چائے کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے میری طرف دیکھا اور اُس کے لَب ہِلے مگر آواز نہیں آئی۔ اُس نے دوبارہ کوشش کی تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید اُس نے کہا ہے۔

’’میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔ ‘‘

’’تو پھر چھوڑی کیوں ؟‘‘

’’ایک عمارت کے باہر کھڑا رہ رہ کر تھک گیا تھا۔ ‘‘ اُس کے کالے ہونٹوں میں سے نکوٹین چڑھے دانتوں نے جھانکا اور ایک تکان میں ڈوبی آواز بمشکل میرے کانوں تک پہنچی جو مجھے بھی اس گہرائی میں لے گئی جہاں سے آئی تھی کہ میں بھی ویسا ہی ہوں ۔ ۔ ۔ ایک عمارت کے باہر کھڑا آدمی۔ ۔ ۔ ارد گرد نظر دوڑائی تو اور بھی کئی کھڑے تھے۔ کوئی ایک منزلہ عمارت کے دروازے پر تھا اور کسی کو دو منزلہ پر دیکھا۔ ۔ ۔ سہ منزلہ۔ ۔ چو منزلہ۔ ۔ پنچ منزلہ۔ ۔ ۔ منزل پر منزل۔ ۔ ۔ عمارتیں ہی عمارتیں ۔ ۔ ۔ آدمی ہی آدمی۔ ۔ ۔ باہر کھڑے۔ ۔ ۔ اندر بیٹھے۔ ۔ ۔ اوپر جمے۔ ۔ ۔ نیچے دبے۔ ۔ ۔ میں گھبرا گیا اور لوٹ آیا تو دیکھا کہ وہ سگریٹ سُلگا چکا ہے اور لمبے لمبے کش لے رہا ہے۔ نہ جانے کب سے پھونک رہا تھا کہ ارد گرد دھوئیں نے ہالہ بنا ڈالا اور جو پہلے ہی دھندلا نظر آ رہا تھا، اب دکھائی دینا اور بھی مشکل ہو گیا۔ اگر وہ ہاتھ بڑھا کر میرے کندھے پر نہ رکھتا تو میں اُسے پوری طرح کھو دیتا۔ اُس کے دستِ مشقت سے میری ڈھارس بندھی۔ سانس میں سانس آئی اور میں نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا۔

اب کیا ارادہ ہے ؟

’’بچوں کو پڑھاؤں گا۔ کھیتوں میں ہل چلاؤں گا یا۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا، سوچ میں پڑ گیا اور لحظہ بھر اپنی انگلیوں میں انگلیاں پھنسا کر بھینچ کر زورِ بازو جانچنے کے بعد ٹھوڑی کھجاتے ہوئے بولا، ’’ یا کچھ ایسا ہی کروں گاجو زندگی زیادہ برباد نہ کرے، مزہ بھی دے۔ ‘‘ اُس کی تاریک آنکھوں میں روشنی ابھری اور میرے پچکے گالوں میں ایسی حرکت ہوئی جیسی مسکرانے پر ہوتی ہے۔ میرے زرد دانتوں کو چھوتے ہوئے زبان باہر آئی اور کالے ہونٹ تر کر کے لوٹ گئی۔ میرے دل میں اِک لہر اُٹھی جو حروف میں ڈھلی اور میرے لب آزاد کر گئی۔ ۔ ۔ ایسا کیا ہے ؟ کچھ ہے بھی کہ نہیں ؟۔ ۔ ۔ مگر اُس نے دائیں ہاتھ سے اپنے کان کی لو نیچے سے پکڑ کر اشارہ دیا کہ اونچی بولو۔ ۔ ۔ کچھ سنائی نہیں دیا۔ میں نے نیلگوں آسمان کو ڈھانپتی کالی گھٹاؤں کو دیکھتے ہوئے ظاہر کیا کہ سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں لیکن اُس نے بایاں کان پکڑ کر وہی عمل دہرایا کہ بولو۔ ۔ ۔ سُجھاؤ دو۔ ۔ ۔ مگر میں کچھ نہ بول پایا اور وہ وقت کی گرد جھاڑتے ہوئے چلا گیا۔

یہ میری اور اُس کی آخری ملاقات تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اعتماد کی سیڑھی

 

شام کے سات بجنے کو تھے۔ ٹریفک سگنل پر موٹرسائیکل روکی تو نیلی وردی پہنے ایک شخص میرے پاس آیا اور لجاجت سے پوچھنے لگا کہ پل پار کرنا ہے، بیٹھ جاؤں ؟ میں نے ایک عرصہ ہوا لفٹ دینا چھوڑ دیا ہے مگر لوگ لفٹ مانگنا نہیں چھوڑتے۔ خبر نہیں کہ میرے چہرے پر کیا لکھا ہے کہ دس لوگ چھوڑ کر میرے پاس آئیں گے۔ عمر رسیدہ افراد کو لفٹ دینے میں پریشانی نہیں ہوتی لیکن کسی جوان کو ساتھ بٹھاتے الجھن ہوتی ہے جیسے اُس ادھیڑ عمر آدمی سے ہوئی۔ مَیں نے اُسے سر کے کھچڑی بالوں سے پیوند لگی جوتی تک دیکھا۔ وہ میری نظر بھانپ گیا اور اُس نے شرمندگی چھپانے کے لیے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ قریب ہی ایک مشہور ادارے کا چوکیدار ہے۔ ادارے کا نام سنتے ہی مَیں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سبز بتی روشن ہونے پر موٹرسائیکل آگے بڑھا دی۔

’’وہ جی دفتر سے میری سائیکل چوری ہو گئی تھی، اب روز لفٹ مانگتا ہوں ۔ ‘‘ میں نے گردن ہلکی سی گھما کر ایک نظر اُس پر ڈالنے کی کوشش کی اور دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے سوچا کہ دفتر سے چوری ہوئی تو دفتر والوں نے نئی کیوں نہیں لے کر دی؟

میرے لیے صبح اور شام کے وقت موٹرسائیکل چلانا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ عجب افراتفری ہوتی ہے کہ دل کے مریض کو ہر وقت دورے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور خیالی دنیا بسانے والا تو لازمی کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی سے ٹکرا جاتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنے کے چکر میں رہتا ہے اور اسی دوڑ میں گر پڑتا ہے یا سیدھی راہ چلنے والے کو بھی گرا دیتا ہے۔ جن لوگوں کو پیدل چلنے کا سلیقہ نہیں ، وہ موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں چلا رہے ہیں تو ٹکریں کیوں نہ ہوں ؟ اور ٹکر مارنے والے کو اپنی غلطی کا عِلم نہیں ہوتا اور دوسرے پر چڑھائی کر دیتا ہے۔ اس وقت بھی مَیں ڈرتے ڈرتے موٹرسائیکل چلا رہا تھا کہ میرے دائیں بائیں سے مشینیں شور مچاتی گزر رہی تھیں اور مَیں اِن میں سے وہ سائیکل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا جو میرے پیچھے بیٹھے چوکیدار کی چوری ہو گئی تھی۔ میری تلاش معلوم نہیں کب تک جاری رہتی کہ اُس کی آواز سنائی دی۔

’’وہ جی !جس طرح آپ نے دیکھا، میں سمجھ گیا تھا۔ ‘‘

’’حالات بڑے خراب ہیں ۔ میں کسی کو لفٹ نہیں دیتا۔ اعتماد کرنا مشکل ہے۔ ‘‘

’’ہاں جی۔ پَر اعتماد تو کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ میں نے موٹرسائیکل کنارے کر کے روک دی اور حیرانی سے چوکیدار کو دیکھاجس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں اچانک رُکنے کا سبب پوچھ رہی تھیں لیکن میرے پاس جواب نہ تھا بلکہ سوال ہی سوال تھے۔ کیا واقعی میں اعتماد کیے بغیر گزار ممکن نہیں ؟ اعتماد کی سیڑھی نہ ہوتی تو انسان کی پیڑھی آگے کیسے بڑھتی اور ہزاروں سال کا سفر کسی لفٹ کے بغیر کیسے طے ہو پاتا ؟ میں چوکیدار کو چند کلومیٹر کی لفٹ دینے کے لیے مخمصہ کا شکار تھا تو کیوں ؟ میں ذمہ دار ہوں یا حالات اتنے خراب کر دیے گئے ہیں کہ اپنے جیسوں پر اعتماد کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ خوف آتا ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال کی بجائے خود پانی میں نہ گر جاؤں ۔ نہیں جانتا، کسی نے کیوں کہا تھا کہ انسانوں پر اعتماد کرو مگر آنکھیں بھی کھلی رکھو۔

چوکیدار نے مجھے یوں سڑک کے کنارے موٹرسائیکل روکے سوچتا دیکھ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا، ’’سر جی! آگے نہیں جانا؟‘‘ تو میں نے موٹرسائیکل دوبارہ آگے بڑھا دی۔ خبر نہیں آگے جا رہا تھا کہ پیچھے … کہیں جا بھی رہا تھا یا وہیں اگلے چوک میں جامد تھا جہاں چوکیدار اپنی راہ ہولیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

خوش بخت نوحہ

 

وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھا ہے۔ رنگ گندمی، قد بوٹا، بال خضاب سے سیاہ اور چمکدار، دو رنگی کھچڑی مونچھیں ، استرا رگڑ رگڑ کی ہوئی شیو، نیلاہٹ میں ڈوبی کالی شلوار قمیص اور اسی رنگ کی ویسٹ کوٹ پہن رکھی ہے۔ نئے ڈیزائن کا نفیس چشمہ ناک پر ٹکا ہے۔ پتلی پتلی انگلیوں والے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں سے بائیں میں چند کاغذ ہیں ، دائیں میں سگریٹ سُلگ رہا ہے اور زبان نوحہ کُناں ہے۔

’’ ہم اپنے لاشریک کی ناقابلِ برداشت بوجھ والی فقہ تلے سانس کے معنوں میں تو زندہ رہتے ہیں لیکن اعتبارِ زندگی کے حساب سے زندہ نہیں رہتے۔ ہمارے لیے متبادلات اور مترادفات لایعنی ہو جاتے ہیں ۔ لاشریک کے خوشامدی مشیر گُداز صوفوں میں دھنس کر اپنی فقہی اِصطلاحات اور اِصلاحات پر خوشگوار تبصرے کرتے ہیں اور اپنے لاشریک کی توصیف کرتے ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ موسیقار پرندے ہمارے شہر سے ہجرت کر چکے ہیں اور ہمارے باغوں کے رقاص مور کہیں اور جا بسے ہیں اور ہمارے خواب اور ہمارے آدرش معنوں سے خالی ہو چکے ہیں اور ہمارے ہونے کے تمام مفہوم یوں نچوڑ لیے گئے ہیں جیسے سخت انگلیاں لیموں نچوڑ لیتی ہیں ۔ ‘‘ (ذر )

نوحہ گر وَلی کا جوش سے اُوپر اُٹھتا اور نیچے جھکتا دایاں ہاتھ جس میں سگریٹ سُلگ سُلگ کر انگلیاں جلانے کو ہے، ایش ٹرے کی طرف بڑھتا ہے اور وہ واہ واہ کی صدائیں دینے والے چہروں کی طرف دیکھتا ہے۔ ایک کونے میں صوفے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا اداس بوڑھا شاعر اپنے پاؤں کی اُنگلیوں میں خلال کرتے ہوئے درد کی موٹی تہہ نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس کی بائیں طرف صوفے پر ایک داڑھی مُنا نوجوان شاعر ہے جس کی بغل میں اُس کا ایک اَن پڑھ دوست ہے جو جیل کو دوسرا گھر قرار دیتا ہے اور کھُلے پنجرے سے تنگ آ کر بصد شوق قید خانے میں گہری سانس لینے اکثر جاتا ہے۔ اُداس بوڑھے شاعر کی دائیں طرف صوفے پر گھنی داڑھی والا شاعر چھت سے لٹک رہے فانوس کی لڑیاں گن رہا ہے، اس کے ساتھ بیٹھا کہانی کار ٹوپی سے ما تھا چھپائے آنکھیں بند کیے کچھ سوچ رہا ہے لیکن مَیں طلسماتی حقیقت نگار کے دوبارہ سحر پھونکنے کا منتظر ہوں ۔

’’اے مہربان اور محنت کرنے والی ماں ! اپنے بیٹوں جیسے ایک مسافر کی طرف سے یہ چھوٹا سا تحفہ قبول کر کہ تیرے بیٹوں جیسے اس مسافر کا پیشہ خوبصورت اور مقدس ناموں کو خوبصورت اور مقدس طریقے سے لکھنا ہے اور اس نے تیرے لیے اس تختی پر ایک بہت ہی خوبصورت اور پاک نام کا نقش کوئلے سے بنایا ہے۔ ۔ ۔ تُو نے اگر اپنے بیٹوں جیسے اِس مسافر کو اپنی بے زبان دعاؤں میں یاد رکھا اور خدا نے تیرے بیٹوں جیسے اس مسافر کے دِن طویل کر دیے اور رنگوں اور کُوچیوں اور برَشوں کے استعمال میں طاقت عطا کر دی تو مَیں اس خوبصورت اور پاک نام میں رنگ بھرنے ضرور لوٹ کر آؤں گا۔ ۔ ۔ ضرور لوٹ کر آؤں گا۔ ‘‘ (ذر )

وہ توقف کرتا ہے کہ ایک خاتون پلاسٹک کی ٹرے میں مشروب سے بھرا جگ اور گلاس رکھے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور لمبے بالوں والے بوڑھے شاعر، داڑھی والے شاعر، داڑھی کے بغیر شاعر اور کہانی کار اور مجھ محنت کار کو ایک ایک گلاس دیتی ہے۔ ہم شربت پینے لگتے ہیں ، وہ سگریٹسُلگا کر کبھی پچھلا ورق اُلٹاتا ہے، کبھی اَگلا سامنے لاتا ہے اور جب مطلوبہ صفحہ پا لیتا ہے تو ہماری موجودگی کو نگاہوں میں تولتے ہوئے توجہ طلب کرتا ہے اور ایک لمبا کش لے کر دھوئیں میں لپیٹ کر لفظ اُگلتا ہے۔

’’میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا، شاہراہ پر آ جاتا ہوں اور اپنے زخموں کے ساتھ محوِ سفر ہو جاتا ہوں ، محوِ ہجرت ہو جاتا ہوں ۔ لیکن اب یہ شاہراہ مجھے خوفزدہ نہیں کرے گی اور غمگین نہیں کرے گی اور اُداس نہیں کرے گی۔ میری جینز پر چِپکے ہوئے اَوہام کے اور تہی خوابی کے اور بے خبری کے تِنکے جھڑ چکے ہیں ۔ اب میرے پاس خواب بھی ہے اور خبر بھی ہے۔ میں تیس نوٹوں کو چلانے کی توانائی لینے جا رہا ہوں ۔ اچھا ہوا تھا کہ سیاہ مرسیڈیز میں بیٹھی ہوئی فرعون ممی نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا تھا ورنہ اس وقت مَیں اپنے زخموں کو اپنے بدن پر اٹھائے اس شاہراہ پر اپنے خواب اور اپنی خبر کے ساتھ نہ چل رہا ہوتا۔ ‘‘ (ذر )

وہ سانس لیتا ہے اور بات برقرار رکھتا ہے۔

’’حَرف کہ رنگ اور نسل کا ہر امتیاز مٹا دیا گیا، حَرف کہ محنت کے بغیر سرمائے میں اضافہ کرنے کا حق ختم کر دیا گیا، حَرف کہ فضیلت کے جھوٹے معیار پاؤں تلے روند دیئے گئے۔ ۔ ۔ ‘‘ (ذ ر)

اور میں اسے ٹوکتا ہوں کہ کہہ سکوں ۔ ۔ ۔ کہہ سکوں کہ ہاں یہی وہ بات ہے جو میں سننا چاہتا ہوں ۔ یہی وہ بات ہے جو میں کہنا چاہتا ہوں ۔ مَیں محنت کار بھی بطور انسان اُتنا ہی واجب الاحترام ہوں جتنا کہ کوئی عالی شان ہوتا ہے کیونکہ میں انسان ہوں ۔ اور جب میں انسان کی جون میں ج نمایا گیا ہوں تو میں وہ احترام پیدائش کے ساتھ لایا ہوں جو کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ مجھے اُس نے دیا ہے جس نے تمہیں عقل دی تاکہ تم اسے استعمال کر سکو۔ جس نے تمہیں اِتنی بڑی دنیا دی کہ تم اس سے استفادہ کر سکو۔ ٹھہرو۔ مجھے پوچھنے دو، کیا اُس نے تمہیں اِسے پامال کرنے کا حق بھی دیا ہے ؟ جیسے وہ، جو خود ساختہ عالی شان ہیں ، سمجھتے ہیں کہ اُنہیں مجھے پامال کرنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ حق بھی دیا گیا ہے، فرض بھی کیا گیا ہے کہ مجھے ٹاٹ پر بٹھائیں اور خود تپتی دوپہروں میں ٹھنڈے کمروں میں پڑے گُداز صوفوں میں دھنسے میرے متعلق فیصلے سنائیں کہ وہ محنت کار جو ہم میں سے نہیں ، ان پر واجب ہے کہ وہ محنت کار ہی رہیں تاکہ ہم پھل کھاتے رہیں ۔

حاضرین میری طرف عجب نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن مجھے کسی کی پروا نہیں کیونکہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور مجھے حق ہے کہ میں کچھ کہوں کیوں کہ اس نے مجھے زبان دی ہے جس نے مجھے احترام دیا ہے اور میری عزت بحیثیت انسان سب پر فرض کر دی ہے جیسے سب کی مجھ پر واجب ٹھہرائی ہے۔ تو میں بولوں گا کیونکہ اس نے مجھے زبان دی ہی اس لیے ہے کہ میں بولوں اور اس نے مجھے زبان چلانے والی مشینری سے بھی نوازا ہے جو میری کھوپڑی کے اندر فٹ کی گئی ہے اور وہ مجھے حکم دے رہی ہے۔

اے نوحہ گر وَلی ! تم نے ابھی اُس کے بول بولے ہیں کہ تم سب برابر ہو کیونکہ تم سب انسان ہو۔ لیکن ایک بات بتاؤ کہ مجھے سب برابر کیوں نظر نہیں آتے ؟ وہ کہتا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ وہ برابر نہیں لیکن میری آنکھیں تو کچھ اور ہی دیکھتی ہیں ۔ جاہل اِتنے بڑھ چکے ہیں ، اِتنے بڑھ چکے ہیں کہ تم جو خود کو ریاضی دان بھی سمجھتے ہو، جاہلوں کی گنتی نہیں کر سکتے اور مزے کی بات بتاؤں ؟ اب جاہل واقعی برابر نہیں ، وہ افضل ہو چکے ہیں ۔ وہ جہالت کے سبب اپنے تئیں فضیلت پا چکے ہیں کہ تم جو خود کو عالم سمجھتے ہو، منہ چھپاتے پھرتے ہو۔ گوشہ نشیں لفظ ساز بن چکے ہو مگر تمہارے لفظ۔ ۔ ۔ آہ لفظ کی حرمت پامال ہو رہی ہے۔ ہر سچے لفظ کی حرمت پامال ہو رہی ہے۔

میری آہوں کا طوفان ذرا ٹھہر جاتا ہے تو سب سکون کا سانس لیتے ہیں سوائے نوحہ گر وَلی کے اور اس کی مجوّف عدسوں کے پیچھے دانش سے چمکتی آنکھیں مجھے یوں گھور رہی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں ۔ ۔ ۔ چُپ کیوں ہو گئے۔ ۔ ۔ بہہ جانے دو۔ ۔ ۔ اور میں اپنے اِردگِرد نظر دوڑاتا ہوں اور یوں گویا ہوتا ہوں جیسے خطبہ دے رہا ہوں اور میرے الفاظ یوں برس رہے ہیں جیسے دسمبر میں بادل گرجتے ہیں ۔

تُم اُس جاہل کو دیکھو جو ہمارے سروں پر اپنی جہالت اور ہماری خجالت کے سبب سوار ہے اور اُسے بھی دیکھو جس نے اپنے بھاری قدموں کے ساتھ ہمارے کندھے جھُکا دیئے ہیں ۔ ان سب کو دیکھو جو ہماری کھوپڑیوں میں اپنی سیاہ سوچیں بھرتے ہیں اور ہماری سچی سوچیں ہماری کھوپڑیوں کے کونوں میں پناہ لیتی ہیں اور وہاں سے کبھی کبھی ہاتھ نکال کر ہمیں خارش کرتی ہیں تاکہ ہم خارجی اور قابض سوچوں کو پرے دھکیل کر اپنوں کے لیے جگہ خالی کریں ۔ لیکن ہم کس کس کو بھگائیں ؟ مغرب سے حملہ آور یا مشرق سے ورثے میں ملیں ، شمال سے آئیں یا جنوب کی گھس بیٹھ کرنے والی، اُوپر سے اُتری یا نیچے سے آہنی کیلوں سے لیس ڈنڈوں کے ساتھ دھکیلی گئیں ؟

کیا تمہیں یاد ہے وہ زمانہ جب لوگ اس لیے مشقت نہیں کرتے تھے کہ نوٹ اکٹھے کر سکیں ۔ وہ اس لیے پسینہ بہاتے تھے کہ اپنی اور دوسروں کی ضرورت پوری کر سکیں ۔ وہ کسی کے خون سے اپنے لیے برانڈی کشید نہیں کرتے تھے اور وہ کسی کے کھیت سے آلو چرا کر واڈکا بھی نہیں بناتے تھے۔ وہ گندم اُگاتے تھے تاکہ آپ کھا سکیں اور پڑوسی کو دے کر چاول لے سکیں یعنی کہ ہر دو کو نعمتیں میسر ہو جائیں ۔ اے میرے نوحہ گر ! تُو ایک نوحہ یہ بھی کر کہ ہر نعمت پامال ہو رہی ہے جیسے مجھ محنت کار کی عزت اور محنت ہڑپ ہو رہی ہے۔

وہ ترنگ میں آتا ہے اور کہتا ہے سنو۔ ۔ ۔ اور مَیں سنتا ہوں ۔ تُم بھی سنو۔

’’یہ گاؤں جو تُم دیکھ رہے ہو، ان میں زندگی کی ویرانی اور تنہائی نہیں ہے۔ بے انقلابیت کی ویرانی اور تنہائی ہے۔ یہ موت کے نگر ہیں اور ان کے کھیتوں میں اِلوہی جوہر سے اُبھرنے والے وجود کی عِصمت داغدار ہوتی ہے۔ موت سے اور عِصمت کی داغ داری سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ جُگنی گاؤ۔ ۔ ۔ زبان سے نہ گا سکو تو انگلیوں سے گاؤ۔ ۔ ۔ !

جُگنی میری بھنگڑا پاوے، نال نبیؐ دا حکم سناوے، جیڑا وائے اُوہی کھاوے، مالک نہ کوئی ہور سَداوے۔ ۔ ۔ ‘‘ (ذر)

وہ خاموش ہوتا ہے تو میں بے ساختہ کہتا ہوں کہ تمہارے بول سچے ہیں ۔ اب میری ایک سچی بات بھی سن لو۔ کیا تُم کالے اور گورے، بھورے اور پیلے، لال اور گلابی حیلہ گروں کی حیلہ جوئی سے واقف ہو جو دِکھاتے سجی اور مارتے کھبی ہیں ۔ وہ تمہاری کُل کمائی لوٹ لیتے ہیں اور بدلے میں تمہیں فلاح کی نوید سناتے ہیں مگر وہ فلاح کہ جس کے انتظار میں میری جوان آنکھیں بوڑھی ہو گئی ہیں اور میرے مضبوط بازو کمزور پڑ گئے ہیں ۔ میری جان دار ٹانگیں بے جان ہیں اور میری رگوں میں دوڑتا گرم خون جمنے لگا ہے۔ آہ۔ ۔ ۔ وہ فلاح پامال ہو رہی ہے۔

وہ بوڑھا مجھے نوحہ گر قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہاری نوحہ گری میں یوں شامل ہوتا ہوں ۔ ۔ ۔

’’مَیں بھی اِسی شہر کا رہنے والا ہوں اور شِرک کرتا ہوں ، خود ساختہ لا شریکوں کے سامنے شرک کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ یاہُو میں مشرک ہوں اور میرا مکہ سُرخ گلاب ہے اور میری جائے نماز بہتی ندی ہے اور میرا سنگِ اسود روشنی ہے اور میری دعا نوخیز کلی کی چٹک ہے اور میری عبادت مٹی کی زرخیزی ہے اور میری جنت گندم کی جھومتی پکی فصل ہے۔ ۔ ۔ میں صبح کی بارش سے وضو کر کے مناجات کرتا ہوں تو میرے باطن میں چاند خِرام کرتا ہے۔ نشیلی ہوا درختوں کے مناروں پر سرخوشی کی اذان دیتی ہے تو مَیں پھولوں کے مصلوں پر نماز پڑھتا ہوں ۔ میرا کعبہ آزادی ہے اور میری آزادی کوچہ کوچہ گلی گلی خوشبو سفر کرتی ہے اور دلوں اور ذہنوں میں اور باغوں میں دیوانہ وار پھیلتی ہے۔ ‘‘ (ذ ر)

اے مُنے سے وجود میں دھڑکتے بڑے سے دل کے مالک! تیرے شاعرانہ اعتراف میں اور تیرے مفکرانہ انکشاف میں عجب جذب و مستی ہے کہ مَیں خودی اور بے خودی کی سبز پٹیوں کے ٹھیک درمیان بہتے دریا کی سطح پر مسرّت، حیرت اور بصیرت کی کشتی پر سوار ہو جاتا ہوں مگر تیرا بلند آہنگ نغمہ مجھے لفظ کی حرمت پامال ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ آہ۔ ۔ ۔ لفظ کی حرمت پامال ہو رہی ہے اور لفظ صرف لفظ نہیں ہوتا، ایک جہان ہوتا ہے۔ آہ۔ ۔ ۔ میرا جہان پامال ہو رہا ہے۔ تیرا جہان پامال ہو رہا ہے۔ ہر جہان پامال ہو رہا ہے۔ اے جہاندیدہ بزرگ! جانتے ہو کیوں ؟ کیونکہ ہر لالچ سے پاک جہاندیدگی چھین لی گئی ہے اور اس کی جگہ مکاری نے لے لی ہے جو بے حد بُری بلا ہے جو سارے کا سارا لپیٹ لیتی ہے اور سوچوں کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ذرے کہیں دُور ایک جگہ اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ بخارات بھی ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اور زمین پر برستے ہیں ۔

وہ صوفے سے اُٹھتا ہے، میری طرف بڑھتا ہے، میں بھی کھڑا ہوتا ہوں اور وہ مجھ سے بغل گیر ہو جاتا ہے۔ وہ میرے کندھے پر تھپکیاں دے کر واپس اپنی جگہ جا بیٹھتا ہے اور دائیں ہاتھ میں پکڑا سگریٹ جو ابھی آدھا ہوا ہے، ایش ٹرے میں بُجھا دیتا ہے۔ وہ حاضرین کی طرف دیکھ رہا ہے اور حاضرین میری جانب۔ ۔ ۔ اور میں ان سب کو۔ ۔ ۔ چُپ چاپ۔ ۔ ۔ کوئی آواز کانوں کو سنائی نہیں دے رہی گو صدائیں ہیں اور برابر اٹھ رہی ہیں مگر سنائی نہیں دے رہیں ۔

چند منٹ یونہی گزر جاتے ہیں ۔ کمرہ خاموشی کے لیے چھوٹا پڑ جاتا ہے اور نوحہ گر وَلی اس سناٹے کا حصار توڑنے کے لیے پہل کرتا ہے۔

’’اب صرف ایک ہی چارۂ کار باقی رہ گیا ہے کہ اِس بے ستارہ اور بے چاند رات میں منظر منظر اور چہرہ چہرہ تقسیم شدہ خود کو جمع کروں اور اِس جمع کمائی سے فلوریسنٹ لائٹس کے انگاروں پر لیٹی ہوئی اس رات کو آزاد کراؤں تاکہ اِس کے حلق سے سچائی کے اعلان کا مترنم چاند طلوع ہو اور اس کے کالے بالوں میں ستارے اتر آئیں ۔ ‘‘ (ذر )

وہ خاموش ہوتا ہے تو لمبے کالے بالوں والا بوڑھا شاعر یوں داد دیتا ہے۔ ۔ ۔ میاں تُم تو تاریخ کا حصہ ہو گئے۔ ۔ ۔ اس جملے کے جادو سے نوحہ گر کا جوش اور بڑھ جاتا ہے۔

’’ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی جس کا نام قید ہو، جس کا نام جبر ہو، جس کا نام اقتدار ہو، جس کا نام قتل ہو، جس کا نام موت ہو اور ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی جس کا نام تخلیق ہو اور جس کا نام زندگی ہو۔ اصطلاحیں ہمیشہ ویسی ہوتی ہیں جیسی تم انھیں بناتے ہو اور اصطلاحیں ایک خود کار عمل کے مختلف مرحلے ہیں اور اس خودکار عمل کے چند مرحلوں سے الجھنا اس عمل کے آخری نتائج کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ‘‘ (ذ ر)

داڑھی مُنا شاعر اور داڑھی والا شاعر یک زبان ہو کر سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ اور بھی سنائیے۔ تقلید میں ہم سب کہتے ہیں کہ کچھ اور بھی سنائیے۔

’’تُم وہ ہو، جو تُم ہو۔ ایسا کوئی دیوتا موجود نہیں ہے جو تمہاری تحسین سمیٹ سکے اور تمہارا الزام اوڑھ سکے۔ اپنے اعمال کے ساتھ صرف تم کھڑے ہو سکتے ہو۔ کہہ دو کہ تُم ہی سب کچھ ہو۔ کہہ دو کہ تُم ہی ازل ہو اور تُم ہی ابد ہو۔ کہہ دو کہ تُم اپنے علاوہ سب سے انکار کرتے ہو، اس لیے کہ پُر یقین انکار بے یقین اقرار سے بڑی ضمانت ہے۔ بے یقین اقرار روکتا ہے اور پُر یقین انکار جاری کرتا ہے۔ ‘‘ (ذ ر)

پھر واہ واہ کی تکرار ہوتی ہے لیکن میرے ذہن کی گھڑی کی سوئیاں الٹی گھوم رہی ہیں اور میں سب کو ٹوکتا ہوں اور وہ سب مجھ بدتمیز کو ناگواری سے دیکھتے ہیں ۔ میں آدابِ محفل کی دھجیاں یوں اڑاتا ہوں کہ جلتا قمقمہ بجھ جاتا ہے اور گھومتا پنکھا بھی رک جاتا ہے۔ اِس تاریکی میں نوحہ گر کی آواز ابھرتی ہے جو مجھے کہتی ہے کہ بولو۔ کیا کہنا چاہتے ہو؟ اور میں بولتا ہوں ۔

اے گوشہ نشیں لفظ ساز! میں نے تمہاری لکھتیں پڑھی ہیں اور تم سے سنی بھی ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ تم کہانی کہتے ہو نہ افسانہ لکھتے ہو، تم تو باتیں کرتے ہو۔ میری باتیں ، اپنی باتیں ، سب کی باتیں گو تمہاری باتیں آسانی سے سمجھ نہیں آتیں لیکن جب میرے دماغ میں ہِل جُل تھم جاتی ہے تو تمہاری باتوں کی گِرہیں کھُلنا شروع ہوتی ہیں اور مجھے جاپتا ہے کہ تمہاری باتیں اِلہامی کتابوں سے مستعار ہیں ۔ مجھے یہ بھی معلوم دیتا ہے کہ تم نے سیاہ اور سفید حروف پڑھے ہیں ۔ تم بستی بستی پھرے ہو۔ تم ریل کی پٹڑیوں اور ان سے وابستہ رومانوں کے جانکار ہو۔ تُم فضا میں اڑتے جہازوں سے واقف ہو۔ ریگ زاروں کی ریت کے کئی ذرے، جو تمہارے بالوں میں کبھی گھُسے تھے، وہ اب تک اٹکے ہوئے ہیں ۔ تم نے دریاؤں کا پانی چکھا ہے، ٹوبوں کا پانی پیا ہے اور سمندروں کے پانی کے نمکیات اب تک تمہارے وجود پر دھوپ پڑنے سے چمک چمک جاتے ہیں ۔ تُم جاگیردار ہو لیکن میں سمجھ نہیں پاتا کہ تُم کیسے جاگیردار ہو جو کسان کو اس کی فصل سے زیادہ جانتا ہے اور تُم کیسے دولت مند ہو جو افلاس اور اس سے جنم لیتے عیبوں کے نحوسیائے محنت کاروں کو اُن کی محنت سے زیادہ مانتے ہو۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ تُم مجھے چودہ سو سال پرانی باتیں سناتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اِنہی باتوں میں وہ بات ہے جو بھلائی کی بات ہے، جو نجات کی بات ہے، جو آزادی کی بات ہے لیکن کیا تم جانتے ہو کہ آزادی کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے ؟

میں سانس لینے کو رُکتا ہوں اور اندھیرے میں اِردگِرد دیکھتا ہوں ۔ مجھے تاریکی کے باوجود متجسس چہرے نظر آ رہے ہیں جن کے کانوں کے پردوں میں جُنبش ہو رہی ہے اور میں انھیں زیادہ دیر ترسا نہیں سکتا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کا تجسس غارت نہ ہو جائے تو گویا ہوتا ہوں ۔

اے نوحہ گر ولی ! کیوں نہ آج مَیں تمہیں ایک ایسا نوحہ پیش کروں جو میرے دل پر کسی نے نہیں لکھا اور مجھے معلوم بھی نہیں کہ یہ کہاں سے نمودار ہوا ہے۔ میرا ایک بیٹا کسان ہے۔ میرا ایک بیٹا مزدور ہے۔ میرا ایک بیٹا ہنر مند ہے اور میری ایک بیٹی دانش ہے جبکہ میں محنت کار ہوں اور قلم کار بھی ہوں جو تُو بھی ہے اور تُم سب ہو جبھی تیرے سامنے اور تُم سب کے سامنے نوحہ گری کرتا ہوں کہ میں اپنے بیٹوں اور بیٹی کے ماضی سے پریشان ہوں ۔ حال سے پریشان ہوں اور مستقبل کے متعلق بھی پریشان ہوں ۔

تُم جاننا چاہتے ہو کہ ایسا کیوں ہے ؟ میں دِکھاتا ہوں ۔ تینوں آنکھیں کھولو اور دیکھو۔ کیا تمہیں نظر آیا میرا وہ کسان بیٹا جس کے کھیت میں ہوا کے زور پر پڑوس سے کچھ بیج آ گرے تھے۔ اس کی زمین بڑی زرخیز تھی اور نم بھی تھی۔ جب فصل پک کر تیار ہوئی تو وہ حیران رہ گیا کہ یہ کھیتی کیسی ہے جو اُس نے بوئی ہی نہیں لیکن اِس کے تحیر پر جلد تغیر آن پہنچا کہ پڑوسی نے اپنے کھیت جیسے روئی کے گولے دیکھ لیے اور اس کثیر الملکی کمپنی کو خبر کی جس سے وہ بیج خریدتا تھا۔ پھر جانتے ہو کیا ہوا؟۔ ۔ ۔ میرے اس کسان کی ساری فصل لائی لگ منصف نے کمپنی کے نام کر دی۔

مَیں ایک آہ بھرتا ہوں اور سب آہ بھرتے ہیں مگر مَیں بات آگے بڑھاتا ہوں ۔

تمہیں میرے دل پر ثبت وہ سانحہ نظر آتا ہے کہ ایک کارخانہ دار نے میرے ساٹھ ہزار مزدور، میرے ساٹھ ہزار ہنرمند ایک دن میں نکال باہر کیے اور ان کی جگہ آہنی مشینوں کو دے دی جو چوبیس گھنٹے کام کرتی ہیں اور دولت کے ڈھیر لگاتی ہیں ۔ اگر تم میرے سینے پر مونگ دلتی ان مشینوں کو دیکھ چکے ہو تو میرے ساٹھ ہزار محنت کار بھی دیکھ لو جن کے کھُردرے ہاتھوں میں چھلنی کشکول ہیں اور وہ ننگے پیر تپتی سڑک پر لنگڑا رہے ہیں اور ان کے چہرے دیکھو جن پر کبھی چمک ہوا کرتی تھی جو ساری کی ساری ایک شخص کے تھوبڑے پر آ گئی ہے۔

اور اے میرے دوست! تُو ذرا میری بیٹی دانش کی طرف دیکھ اور اس کے گرد لپٹا فریب کا لبادہ بھی دیکھ۔ مَیں اُس کا باپ ہوں اور اُسے پہچان نہیں پاتا۔ میں جان نہیں پاتا کہ اُس نے کیسا لباس زیب تن کیا ہے ؟ کیا وہ واقعی اُس کا ہے یا اغیار نے دیا ہے ؟ اور اُس کا خوبصورت چہرہ مرکب سفوف کی اَن گِنت پرتوں میں چھپا ہوا ہے۔ مَیں ایک پرت اتارتا ہوں ۔ دوسری اتارتا ہوں ۔ تیسری اتارتا ہوں ۔ اتارتا جاتا ہوں مگر یہ ختم ہی نہیں ہوتیں ۔ مَیں اس کا اصلی روپ دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں ۔ تُم جانتے ہو، اس سے بڑا دکھ کیا ہو گا کہ تمہاری اولاد تمہارے سامنے اجنبی ہو جائے۔

مَیں خاموش ہو جاتا ہوں کہ درد نے میرا گلا خشک کر دیا ہے لیکن چند لمحے ہی گزرتے ہیں کہ میرے سامعین ہمدردی اور غمگساری کے گیہوں سے میرا حلق تر کر دیتے ہیں اور الفاظ پھسل پھسل کر باہر آتے ہیں ۔

اے میرے قلم کار ! تُم تاریخ کے ساتھ مباشرت کرتے ہو اور تُم تمام علوم کے ساتھ جماع کرتے ہو اور جو اولاد پیدا ہوتی ہے، وہ سچ ہے۔ میری بات ذرا دھیان سے سنو اور آج ایک سچ مجھے بھی دو کہ میرے کان سچ سننے کو ترستے ہیں ۔

کیا تمہیں یاد ہیں میرے وہ مزدور اور ہنرمند بیٹے جن کا خون چوسا جا رہا تھا اور ایک دن ان کی برداشت کا دھاگا ٹوٹ گیا اور انھوں نے خون چوس کیڑوں کے سر اپنی ٹوٹی جوتیوں کے گھسے تلوؤں تلے مسل دیئے۔ آہ۔ ۔ ۔ ایک وقت آیا کہ وہ خود خون چوس کیڑے بن گئے۔ اور کیا تمہیں وہ دن یاد ہیں جب کھیت جاگے تھے، جب شب کی کچلی حسرتوں اور صبح نو کی آرزوؤں نے زمین شق کر دی تھی، تب خون کے چشمے پھوٹے تھے۔ آہ۔ ۔ ۔ وہاں سے لہو اب تک اُبل رہا ہے اور یہ میرے بیٹوں کا ہے جن کے کارنامے حیلہ گروں نے ہائی جیک کر لیے اور تجھ سے نوحہ گر اب تک آنسوؤں میں قلم ڈبو ڈبو کر ورقے گیلے کرتے ہیں ۔ آہ۔ ۔ ۔ یہ ورقے جلدی جلدی سوکھ جاتے ہیں ۔ اے میرے نوحہ گر! میرے اُن بیٹوں کے لیے بھی نوحے پیش کرتا رہ جو زر داروں کے سونے اور چاندی کے زہر میں لپٹے تاروں سے بندھے ہیں ۔ اور مجھے بتا اب میرے کسان، مزدور اور ہنرمند کیا کریں ؟ وہ دو تین حربے آزما چکے ہیں اور نتیجہ وہی نکلا ہے۔ کسی نے کان اِدھر سے پکڑا، کسی نے اُدھر سے۔ ۔ ۔ وہ ریچھ کے پنجوں اور بیل کے سینگوں سے خوفزدہ ہیں ۔ بتا، اب وہ کیا کریں ؟

خودساختہ لاشریکوں کے سامنے شِرک کرنے والا بولا۔

’’میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں ۔ پھر بھی سنو۔ اپنے بیٹوں سے کہو سچ تلاش کریں ۔ وہی سچ جو تم جانتے ہو، جو میں مانتا ہوں ۔ ‘‘

’’وہ کون سا سچ ہے جس کی تُم بات کر رہے ہو۔ میرے سامنے تو سچ کی لُوٹ سیل لگی ہے۔ ‘‘

’’میں اُس سچ کی بات کر رہا ہوں جو سینکڑوں سال پہلے آسمان سے اترا تھا۔ ‘‘

’’کیا وہ سچ صدیوں بعد بھی سچ ہے، کیا اُس پر میری بیٹی کی طرح فریب کے لبادے نہیں اوڑاھے گئے ؟

’’ہاں ۔ وہ سچ ہے اور رہے گا بھی۔ تمہاری بیٹی ہے اور رہے گی بھی۔ اور ایک دن تُم دیکھ بھی لو گے۔ ‘‘

’’تمہیں یقین ہے ؟‘‘

’’ہاں ۔ مجھے یقین ہے اور میں دوبارہ کہتا ہوں مجھے کامل یقین ہے۔ کبھی میں بے یقینی کا شکار تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب میں اسے جھوٹ ٹھہرا کر ایک غبی عالم سے مناظرے جیتنے کا شوقین تھا اور وہ ہار ہار کر بھی نہیں تھکتا تھا۔ لیکن ایک دن اُس نے مجھے ایسی بات کہی کہ میرا یقین کی بے یقینی پر بھروسا ٹوٹ گیا۔ اس کے صرف ایک جملے نے بساط الٹا دی۔ ۔ ۔ ’’تم سچ کو جانتے ہو۔ مانتے نہیں کیونکہ تم پورا سچ نہیں جانتے۔ ‘‘ اور جب میں نے اسے پورا جاننے کے لیے اچھی طرح پرکھا اور ٹٹولا بھی، تو مَیں مان گیا اور وہ جو مجھ سے ہر بار مناظرہ ہار جاتا تھا، ہمیشہ کے لیے جیت گیا۔ ‘‘

مَیں سر کھجاتے ہوئے حاضرین کی جانب نگاہ دوڑا رہا ہوں جو سوچ میں ڈوبے دکھائی دے رہے ہیں یا انتظار کر رہے ہیں کہ کب مجھ احمق، چھوٹے منہ سے بڑی باتیں اُگلنے والے، کے بودے بول ختم ہوں لیکن مجھے تو وہ نہیں روک سکا جو کبھی چاندی اور کبھی تانبے کے دھاگوں سے آنکھیں اور ہونٹ سیتا رہا ہے لیکن اب مَیں کیا کہوں کہ میری سمجھ دانی سے ایسی آوازیں آ رہی ہیں جیسے دانے بھونے جا رہے ہیں اور یہ دانے بے حد قیمتی ہیں جو نگلنے مشکل ہیں اور اگر کسی کے حلق سے نیچے اتر گئے تو وہ ہزار بیماریوں سے نجات پائے گا۔ دماغ کی چولیں ہلانے والی بات یہ ہے کہ اِن میں سے کون سا دانہ اِس وقت چُگنا موزوں ہے اور شاید یہ بات اُس دانا نے بھی محسوس کر لی ہے جبھی کہہ رہا ہے۔

’’تمہاری الجھن کی سلجھن مَیں اُس بات میں لپیٹ کر دیتا ہوں جو مَیں نے چینی لوک کتھاؤں سے کشید کی تھی۔ تُم دھیان سے سنو، تُم سب دھیان سے سنو اور وہ یہ ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ ‘‘

اس کے کشف سے مجھ پر منکشف ہوتا ہے جس میں مَیں دوسروں کو اعلانیہ شریک کرتا ہوں کہ ہمارا سر مسلسل سڑ رہا ہے اور اتنا سڑ چکا ہے کہ ہم اس کی سڑانڈ سے نا امید ہیں لیکن مجھے اُمید کی دودھیا روشنی نظر آتی ہے کہ ابھی ہمارے سر میں کئی خَلیے جان دار ہیں ۔ اِنہیں توانا کریں تو اِن کی توانائی سے باقی حصے بھی بحال ہو جائیں گے اور ہمارے پیر تک ٹھیک ٹھیک کام کریں گے۔

اور جب میرا اعلان اختتام ہوا تو بجھا ہوا قمقمہ جل اُٹھا اور رکا ہوا پنکھا گھومنے لگا۔ لمبے بالوں والے شاعر، داڑھی منے شاعر اور داڑھی والے شاعر، ٹوپی پہنے کہانی کار اور نوحہ گر ولی نے مجھے یوں دیکھا جیسے اندھیری راہ پر چلنے والا تھکا ہارا مسافر دُور سے آتی گاڑی کی روشن بتیاں دیکھتا ہے لیکن میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور میرے کھلے کانوں سے مجھے نوحہ گر ولی کی آواز سنائی دیتی ہے۔

’’او قید خانے کے رسیا! بتا تُو جو ہر دوسرے تیسرے دن یہاں آتا ہے اور میری لکھت مجھ سے سنتا ہے، تُو کبھی کچھ بولتا کیوں نہیں ؟ میری باتیں تجھے سمجھ بھی آتی ہیں کہ نہیں ؟‘‘

اور وہ جس کا کھلے پنجرے میں دَم گھٹتا ہے، اُس کے ہونٹ وا ہوتے ہیں ۔

’’سمجھ تو نہیں آتیں ۔ لیکن آپ، جو باتیں یہاں کرتے ہیں ، اگر میرے قید خانے میں کریں تو تمام قیدی آپ کی خدمت کریں ۔ آپ کو اچھے سے اچھا پھل، جو میسر ہو، پیش کریں ۔ پسند کا کھانا سنتریوں کو کچھ دے دلا کر آپ کے لیے روز منگوائیں ۔ جس نشے کی بھی طلب ہو، پورا کریں ۔ آپ کی مٹھی چاپی کریں اور آپ کے حصے کی تمام مشقت اپنے ذمے لے لیں ۔ ‘‘

چھوٹے سے کمرے میں موجود بڑے بڑے دماغوں والے لوگوں کے سروں پر چھت آ گرتی ہے اور میں ملبے میں دبا اپنی آنکھوں سے نکلتی شعاعوں سے دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا جا رہا ہے۔ تہذیب اور تمدن کے بوجھ تلے چٹخ رہی میری کھوپڑی میں الفاظ خالی گھڑے میں بجری کی طرح ڈُگدار بجتے ہیں ۔ ۔ ۔ ’’کیا تم عالم اور جاہل کو برابر سمجھتے ہو؟‘‘۔ ۔ ۔ اور منہدم کمرے میں ایک آواز گونجتی ہے۔

بے شک نہیں ۔ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے اور دھیان سے سنو کہ جاہل اہلِ زر کے پاس دولت کے جتنے بھی ڈھیر ہوں ، اسے اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ زندگیوں کے متعلق فیصلے کرے، یہ حق صرف عالم کا ہے، وہ غریب ہو یا امیر، یہ اُسی کا منصب ہے کہ وہ جاہلوں کو راستہ دکھائے اور اُن کی صلاحیتیں اُن کی فلاح کے لیے استعمال کرے۔

’’ بے شک۔ ‘‘ تصدیق کی چو حرفی مُہر غیب سے ثبت ہوتی ہے اور میں بے ساختہ کہتا ہوں ۔

واہ۔ لفظ کی حرمت ابھی اِس قدر پامال نہیں کہ لفظ سازی بند کر دی جائے۔

۔ ۔ ۔

یہ افسانہ ذکا ء الرحمن کی نذر ہے۔ (ذر ) سے مراد ذکاء الرحمن کے افسانوں کے افتباسات ہیں ۔

چوبیس جولائی دو ہزار سولہ عیسوی کو حلقہ ارباب ذوق لاہور کے اجلاس میں تنقید کے لیے پیش کیا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

غرقاب

 

 

مَیں نے آج تک سمندر نہیں دیکھا۔ ٹی وی لاؤنج کی دیوار پر آویزاں ایل سی ڈی میں لہراتی موجیں دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ اِن کے ساتھ ساتھ جاؤں دور تک… لیکن ’کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے۔ ‘

میں ایک خواب دیکھتا ہوں ۔ عمر پچاس برس سے اوپر ہو تو ایک بڑی سی کشتی خرید لوں اور اِس میں ڈھیروں کتابیں اور کھانے پینے کی اشیاء بھر کر بحری سفر پر نکل جاؤں ۔ سمندر میں ہی رہنا شروع کر دوں ۔ بس پڑھوں ، لکھوں اور سوتا رہا ہوں ۔ ہر طرف پھیلے پانی کو دیکھوں جو لوگوں کے لیے رزق چھپائے رکھتا ہے اور کشٹ کرنے پر اُگل دیتا ہے۔ موت کا باعث بنتا ہے مگر اس میں زندگی بھی سانس لیتی ہے۔ پانی۔ ۔ ۔ ہر طرف پانی جس میں بڑی مچھلیاں زندہ رہنے کے لیے چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی ہیں اور زندگی یوں ہی موجوں کی طرح اوپر نیچے، آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے، میرے خواب کی طرح۔ ۔ ۔ کسی کو یہ خواب جیسا بھی لگے، مجھے پروا نہیں کیونکہ یہ میرا خواب ہے جو میں دیکھتا رہوں گا کہ میں سمندر میں ہوں ۔ ایک کشتی میں ہوں ۔ خشکی سے دور۔ ۔ ۔ بہت دور۔ ۔ ۔ موٹی موٹی کتابوں کے درمیان دبلا پتلا سا میں ۔ ۔ ۔ حروف کے سمندر میں غوطہ زن۔ ۔ ۔ فطرت کی گود میں زندگی گزارتا ہوا۔

جی چاہتا ہے کہ ساحل پر ایک گھر بنا لوں ۔ لوگ ریت سے گھروندے بناتے ہیں جو ٹھہر نہیں پاتے۔ میں بھی ایک بناؤں لیکن پکا والا۔ ۔ ۔ اتنا مضبوط کہ طوفانی موجیں بھی نہ ڈھا سکیں ۔ گھر کے باہر آرام کرسی رکھ کرتا حدِ نظر پھیلے پانی کو دیکھوں جس کے پار اُبھرتے سورج کی کرنیں مجھ میں بے قابو ہو جانے والی توانائی بھر دیں اور سمندر میں ڈوبتا آفتاب مجھے لوری سنا جائے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ وہاں جا کر بیٹھ جاؤں جہاں موجیں میرے قدموں میں آ کر دم توڑیں ۔ موجیں جو بڑے بڑے جہازوں کو الٹانے میں دیر نہیں لگاتیں ، پورے پورے شہر نگل لیتی ہیں ، اور کچھ خاص لوگوں کی طرح ہمارا مال اپنے پیٹ میں بھی چھپا لے جاتی ہیں ، میرے پیر چوم کر لوٹ جائیں ۔

افسوس کہ مَیں سمندر سے بہت دور ہوں ۔ اتنا دور بھی نہیں کہ جا نہ سکوں لیکن۔ ۔ ۔ مَیں مہم جوئی پر مبنی فلمیں دیکھنے پر اکتفا کرتا ہوں جو سمندر کی زندگی پر بنی ہوتی ہیں ۔ مجھے ایسی دستاویزی فلمیں بھی بہت پسند ہیں جن میں پانی کے نیچے رہنے والی رنگ برنگی، دل للچانے اور ڈرانے والی مخلوق نظر آتی ہے مگر سکرین پر دیکھ کر اُکتا سا جاتا ہوں ۔ میں پانی میں اتر کر دیکھنا چاہتا ہوں ہر چیز جو اِس میں چھپی ہوئی ہے۔ جان داروں کے ساتھ ساتھ آبی پودے، گڑھے اور غاریں ۔ ۔ ۔ وہ غاریں جن میں بڑے جان داروں نے اپنا ٹھکانا بنایا ہوتا ہے اور علیحدہ علیحدہ نظر آنے والے پتھر جو پہاڑوں کی یادگار ہیں ۔ مونگوں کی چٹانوں سے اپنی مرضی کے ٹکڑے بھی تراشنا چاہتا ہوں جو میں اپنے گھر کے کمروں میں آتش دانوں پر سجا سکوں ۔ سیپ کو اپنے داہنے ہاتھ کی دو بڑی انگلیوں اور انگوٹھے کے درمیان رگڑنا چاہتا ہوں اور اِس میں سے موتی بھی پانے کی تمنا ہے جس کی چمک لوگوں کی آنکھیں پھیر دیتی ہے۔ میں وہ سب محسوس کرنا چاہتا ہوں اندر تک۔ ۔ ۔ جو پانی کے اوپر اور نیچے ہے۔ ۔ ۔ اور اپنے گمان میں موجود اطمینان خود میں بھر لوں کہ یہ دنیا واقعی اتنی رنگیں ہے جتنی سکرین پر دکھائی جاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ اِس سے کہیں بڑی ساحرہ ہے۔

میں صرف سکرین پر سمندر نہیں دیکھتا بلکہ کاغذوں پر اُترے ہوئے حروف میں بھی سحر تلاشتا ہوں ۔ مجھے ہرمن میلول کی موبی ڈک پسند ہے جو سفید شکاری اور شکار کے درمیان رومان کی ان مٹ داستان ہے۔ ارنسٹ ہیمنگوے کی وہ کہانی بھی کئی بار پڑھی ہے جس میں ایک بوڑھا مچھلی پکڑنے جاتا ہے اور ایک بہت بڑی مچھلی اُس کے ساتھ کھیلنے لگتی ہے۔ وہ جیت کر بھی ہار جاتا ہے لیکن ناکامی میں اُس کی کامیابی چھپی ہوتی ہے کیونکہ اُس کا حوصلہ باقی رہتا ہے۔ ۔ ۔ اور اَنگ اَنگ میں جوش بھر دینے والی اوڈیسی تو میرے سرہانے تلے دھری رہتی ہے۔ جب جی چاہتا ہے، کتاب کھولتا ہوں اور اِس میں کھو جاتا ہوں کہ میں ایک بڑی کشتی میں ہوں جو بادبانوں کے سہارے ہوا کے دباؤ پر بہہ رہی ہے اور کبھی کبھی ہچکولے کھاتی ہے میرے خیالات کی طرح۔ ۔ ۔ اور میں طے نہیں کر پاتا کہ سمندر دیکھنا ہے تو کراچی جا کر دیکھ لوں یا اس سے آگے ساحلی پٹی پر سفر کرتے ہوئے گوادر تک جاؤں اور راستے میں بھانت بھانت کے لوگوں سے ملوں کہ حقیقی علم تو وہی ہے جو انسانوں سے مل کر حاصل ہوتا ہے۔ سمندر کی منہ زور موجوں کے سامنے اب تک ڈٹی بستیاں دیکھوں جن میں رہنے والوں کی زندگی پتا نہیں کیسی ہو گی۔ ہر وقت کے شور و غل سے مضمحل اعصاب والے شہریوں سے تو بہت مختلف ہو گی۔

میں نے پڑھا ہے کہ کراچی کے ساحلی علاقے شام کے وقت بڑا دل کش نظارہ پیش کرتے ہیں ۔ اگلے وقتوں میں روشنیوں کے اِس مشہور شہر میں ، جو اب گولیوں کی تڑ تڑ سے بدنام ہو چکا ہے، آسماں کا پیچھا کرتی عمارتوں کا عکس جب سمندر پر پڑتا ہو گا تو کیا نظر آتا ہو گا؟ کیا وہ اتنی ہی پرکشش دکھائی دیں گی جیسی سر اوپر اٹھا کر دیکھنے سے محسوس ہوتی ہیں ؟ جب پانی میں ڈوبتی عمارتوں کو دیکھنے کے لیے سر جھکانا پڑے گا تو ان کی شان میں فرق آئے گا ؟ اور چاہتا ہوں کہ سمندر کے بیٹے جب مچھلی پکڑنے جائیں تو ان میں سے کسی کی کشتی پر سوار ہو جاؤں جو گہرے پانیوں میں جائے گی کیونکہ قریب قریب ساری مچھلیاں بڑے ٹریلر کھا چکے ہیں جن سے وابستہ مچھیرے روز مچھلی پکڑنے کے باوجود خود نہیں کھا سکتے۔ ساحل کے نزدیک مچھلی تو دور کی بات ہے، سمندر کا پانی بھی دریائی پانیوں کے ساتھ آتی گندگی، کارخانوں کا تیزابی پانی اور بندرگاہ سے بہایا جانے والا تیل نگل چکا ہے۔ عفریت کی طرح پھیلے شہر کی اپنی گندگی بھی رہی سہی کسر نکال رہی ہے۔ پھر بھی سارے ملک سے لوگ کراچی جاتے ہیں سمندر کے کنارے خوشی ڈھونڈنے کے لیے۔ ۔ ۔ میں بھی جانا چاہتا ہوں ۔ پانی کے باہر اور اندر بنتے مٹتے نقوش سے کچھ سیکھنا چاہتا ہوں اور آگے بڑھ کر ہوا کے دروازے پر دستک دینا چاہتا ہوں ۔

ہر منظر کی پانی پر علیحدہ چھاپ دیکھنے کی چاہ بھی عجیب ہے۔ جب ہلکے بادل ہوں گے تو سمندر کیسا ہو گا؟ گہری کالی گھٹائیں سطح آب کو ڈراؤنا بنا دیں گی یا سحر انگیز۔ ۔ ۔ رات کو کالی چادر اوڑھے سمندر کیا کرتا ہو گا؟ اور دن میں کیسا روپ بھرتا ہو گا؟ سوچتا ہوں کہ ساحلی پٹی پر سفر کے دوران ہر لمحہ گاڑی کی رفتار کے ساتھ منظر بدلے گا تو میرے باطن میں بھی تبدیلی کی لہریں اُٹھیں گی۔ سورج کی چھنکتی کرنوں سے میرے بائیں ہاتھ موجود چیزیں دائیں جانب پانی پر کتنا حسین عکس پھینکیں گی۔ مناظر ہیبت ناک بھی ہوں گے لیکن حیرانی زیادہ ہو گی۔ جب منزل پر پہنچ جاؤں گا تو وہاں ہزاروں سال سے سانسیں لیتے شہر کو ملتی نئی زندگی دیکھوں گا۔ سنا ہے کہ نیا جنم پرانے سے زیادہ خوبصورت ہو گا۔ وہاں ایک نئی بندر گاہ بھی بن رہی ہے جو کہتے ہیں کہ خوشحالی کا دروازہ کھولے گی اور منقول ہے کہ اس کی بدولت یہ شہر بلوچوں کو ایک ہی جھٹکے میں غاروں کی دنیا سے نکال کر اکیسویں صدی میں لا سکتا ہے۔

میں اس شہر کو دیکھنا چاہتا ہوں جو لوگوں کو خواب دکھانے لگا ہے۔ پتا نہیں پورے ہوں گے یا نہیں ۔ میں خوابوں کے ٹوٹنے سے ڈرتا ہوں اور اس وقت سے پہلے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ یقین کرنا چاہتا ہوں کہ سبز باغ محاورے سے نکل کر روزمرہ کا روپ دھار لے گا۔ مجھے مائل کرے گا کہ میں اِسی باغ کے کسی گوشے میں بس جاؤں یا اِس کے آس پاس کہیں اپنا کوئی درخت اُگا لوں جو میٹھے میٹھے پھل دے جن پر گزر بسر کروں ۔ اور اِس شہر میں ، جہاں میں جنمایا گیا ہوں اورجس کی گندگی میں بھی اپنا ایک حسن ہے، واپس نہ آؤں کہ اب اسے بھیڑ بکریوں کا باڑہ بنا دیا گیا ہے اور چارہ بھی کم کر دیا گیا ہے۔

خواب سچ ہو جائے تو میں اِسی ساحلی علاقے میں کہ جسے ہوا کا دروازہ کہتے ہیں ، اپنی کشتی کے راستے پانی میں اترتا اور چڑھتا رہوں ۔ جی چاہے تو ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی طرف دیکھوں جس کے پانی میں مجھے اپنے پیچھے موجود پہاڑیاں نظر آئیں ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا لہرائے اور میرا من بہلائے۔ خیال کی حسین دنیا میں لے جائے اور اَن دیکھے مناظر دل کھول کر دکھائے۔ جب من چاہے نگر کی سیر سے تھک جاؤں تو واپس اپنے باغ میں آ کر آرام سے سو جاؤں ۔

میں خیالی پلاؤ ہی نہیں پکاتا بلکہ عملی طور پر بھی جانا چاہتا ہوں اور ایک بار گوادر جانے کی پوری تیاری کر لی لیکن۔ ۔ ۔ ایل سی ڈی پر سمندری دنیا کے مناظر ہی نہیں نظر آتے بلکہ ہر وقت ٹی وی پر گلا پھاڑ پھاڑ کر خبریں بھی سنائی جاتی ہیں ۔ سوچا کہ وہ شہر پھر کبھی دیکھ لوں گا جو خواب دکھانے لگا ہے۔ اب کراچی جا کر دیرینہ خواہش پوری کر لیتا ہوں ، اس سے پہلے کہ حسرت بن جائے لیکن ٹی وی پر صرف گوادر کے متعلق خبریں نہیں آتیں ، کراچی کا ذکر بھی صبح شام ہوتا ہے۔ اس شہرِ بے مثال کو سدا کے بھوکے بھیڑیوں نے گھیر رکھا ہے اور اسے اپنا جنگل سمجھ کر دوسروں کو نوچ رہے ہیں ۔ وہ شہر جہاں جنگل کے قانون سے بھی بدتر راج ہے، میرے دیس کی شریانوں میں لہو کی مانند ہے مگر کبھی سرخ اور کبھی سفید خلیوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتا ہے۔

میں وسائل کے لیے محتاج ہوں نہ کوئی چھوٹا لڑکا ہوں ۔ اپنے شہر میں ، جو کبھی اپنے آپ میں بڑا پر سکون ہوتا تھا اور اب تبخیر معدہ کا شکار ہے جس کے سبب گیس اس کے سر کو چڑھ گئی اور یوں ہمہ وقت کن پٹیاں دکھتی رہتی ہیں ، آدھی آدھی رات کو بھی بے مقصد گھر سے نکل پڑتا ہوں اور گاڑی میں گھومتا رہتا ہوں لیکن میں پرانی بندرگاہوں کا دیس دیکھنا اور نئی بندرگاہ کے ساتھ انگڑائیاں لے رہی دھرتی کو بھی چومنا چاہتا ہوں ۔ پھلوں اور پھولوں سے لدے ہرے بھرے باغوں سے سجی دھرتی کا نظارہ کرنے کی آرزو ہے جو جنگجوؤں اور جارحیت پسندوں کا کھیل تماشا دیکھنے والے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان لے جاتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ مرغزاروں کے دیس میں جاؤں ۔ صحرا کی ریت کو ناک کے راستے اندر گھستامحسوس کرنے کی آس میں سفر کروں ۔ ٹھنڈی نیلی جھیلوں میں ٹانگیں ڈبو کر کسی سے ڈھیر ساری باتیں کروں ۔ پرانی بستیوں پر بوجھ بنتے نئے شہر دیکھوں ۔ جب تھک جاؤں تو ان سخت جان یودھاؤں کی دھرتی پر بسیرا کروں جنہیں لوری ملتی ہے۔ ۔ ۔ ’میرا پھول سا بچہ جواں ہو گا۔ ۔ ۔ کاندھے پہ رکھ بندوق رواں ہو گا‘

اس دھرتی کے متعلق عجیب و غریب آوازیں کانوں میں پڑتی رہتی ہیں مگر ہر بات سے یہی بات نکلتی ہے کہ جو دھرتی سونے سے زیادہ قیمتی ہے، اُس کے باسیوں کو روٹی بھی پوری نہیں ملتی اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اُن کے مصائب کے لیے ذمہ دار بھی کوئی نہیں ٹھہرایا جاتا۔ مرکز میں بیٹھے حکمران ہوں کہ صوبے کی مالک بنی حکومت یا سردار۔ ۔ ۔ کوئی اپنا گناہ قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ ایک دوسرے پر انگلی اٹھاتے ہیں اور مرتے وہی عام آدمی ہیں جو دنیا بھر میں مر رہے ہیں ۔

پیسے کی ریل پیل ہو تو لوگ گھر سے نکلتے ہیں لیکن میں گھر میں گھسا رہتا ہوں ۔ ٹی وی پر سمندر کی ہیبت ناک خوبصورتی دیکھ کر اسے چھونے کی تمنا کرتا ہوں اور خواب دیکھتا ہوں کہ میں ہوا کا دروازہ کھول رہا ہوں ۔ آنکھیں بند کیے، بانہیں پھیلائے، ریت میں پاؤں دھنسائے کھڑا ہوں ۔ سمندر پر تیرتی ٹھنڈی ہوا میرے روم روم میں اطمینان کی لہر بھر رہی ہے لیکن گرم ہوا کا جھونکا مجھے جگا دیتا ہے۔

میرا خوف بے سبب ہے نہ مَیں اکیلا اِس میں مبتلا ہوں ۔ میں ایک عام آدمی ہوں اور مجھ ایسے بے شمار ہیں جو اپنوں کی نفرت کا شکار ہیں ۔ ایک عامی کی دوسرے سے نفرت سمجھ سے بالاتر ہے مگر دیسی اور بدیسی خواص کی مہربانی ہے جو چہرے بگاڑ بگاڑ کر نفرت کا بازار گرم رکھتے ہیں اور اپنا کاروبار چلاتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن بگڑے ہوئے چہروں پر ملا ہوا گند صاف کرنے کے لیے کوئی نمکین پانی دینے کو تیار نہیں ، سمندر سے بھی زیادہ نمکین پانی۔ ۔ ۔ اتنا کہ پانی نہیں رہتا، تیزاب بن جاتا ہے جو سب صاف کر دیتا ہے۔ اگر یہ کہیں باہر سے مل گیا تو صفائیکیسے ہو گی؟ صرف کالک اترے گی یا چمڑی بھی پگھل جائے گی اور میں اپنے دوست کی طرح پہچانا نہیں جاؤں گا جو بھری جیب لیے پھل کے ساتھ گھنی چھاؤں دینے والے درخت لگانے خواب نگر گیا تھا یا آج خبر بنے ان گورے چٹے محنت کشوں جیسا انجام ہو گا جو روٹی کے چند ٹکڑوں کے عوض اپنوں سے بہت دور کسی کے چمن کی آبیاری کے لیے پسینہ بہانے جا رہے تھے لیکن شناخت کر کے ناقابل شناخت بنا دیے گئے۔

 

(پہلے اس کا عنوان ’’چہرے کی تلاش‘‘ تھا۔ حلقہ اربابِ ذوق، لاہور کے اجلاس منعقدہ تیرہ ستمبر دو ہزار پندرہ میں پڑھا گیا۔ )

٭٭٭

 

 

 

 

انسان نما

 

رفیق پڑھائی مکمل کر کے نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا لیکن کہیں بات نہ بنی۔ جہاں امید نظر آتی وہاں تنخواہ اتنی کم بتائی جاتی کہ وہ صحیح طرح کوشش بھی نہ کرتا۔ رفیق کے والد نے، جو پرچون فروش تھے، ایک سال بیٹے کی نوکری لگنے کا انتظار کیا اور دوسرے برس کے آغاز میں ہی رفیق کو اپنا چھوٹا موٹا کام کرنے کے لیے زور دینے کے ساتھ دُکان پر وقت بیتانے کے لیے مجبور کرنے لگے۔ رفیق کچھ مہینے کڑھتے ہوئے دُکان پر کام کرتا رہا اور روتے دھوتے گُر بھی سیکھ گیا۔

نئے ہوائی اڈے کو جانے والی سڑک پر نئی آبادی باقاعدہ منصوبے کے تحت بسائی گئی جس میں رہائش کے لیے تگڑی رقم کی ضرورت ہوتی اور اسی پوش نگری کے پاس غرباء نے بھی آہستہ آہستہ اپنی بستی بسالی۔ اِن دو آبادیوں کے درمیان ایک گندا نالا بہتا تھا جس میں دونوں طرف کا فضلہ گرتا تھا۔ امیر کہلانے والوں کی سوسائٹی کے ساتھ ساتھ گندا نالا کنکریٹ بچھا کر ڈھانپ دیا گیا اور اس کے ساتھ سڑک بھی بچھا دی گئی تھی جس کا فائدہ دوسری طرف رہنے والوں کو بھی ہوا۔ غریبوں کی طرف سے جو مکان بدرو کے قریب تھے، اُن میں دکانیں بنائی گئیں اور انہی میں سے ایک مکان کی چار دُکانوں میں سے ایک کاسمیٹکس کی تھی جس کے باہر رفیق نے اپنا کاؤنٹر سجا لیا اور میٹھی گولیاں ، ٹافیاں اور چاکلیٹ جیسی چیزیں فروخت کرنے لگا۔ اس کے کاؤنٹر پر پہلے عام لوگوں کے بچے آتے تھے لیکن بعد میں خود کو خواص سمجھنے والوں کے بچے بھی بِکری بڑھانے لگے۔ سڑک کے دونوں طرف سے بچوں کی آمد پر اُس نے سستی کے ساتھ مہنگی ٹافیاں بھی رکھنا شروع کر دیں اور بات صرف میٹھی گولیوں تک محدود نہ رہی۔ وہ اکبری منڈی سے کھانے کی ایسی ایسی اشیاء ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتا کہ بچے بھاگے بھاگے آتے۔

کاؤنٹر سجائے سال پورا نہیں ہوا تھا کہ رفیق کو دُکان کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور اسے یہ کام بھی پسند آ گیا ورنہ پہلے چھ ماہ وہ روز اخبار میں نوکری کے اشتہار ڈھونڈتا اور درخواستیں بھیجتا رہا تھا۔ جب اُسے نئی سڑک کے قریب دکان ڈھونڈتے دو مہینے ہونے کو آئے تب کاسمیٹکس سٹور کے ساتھ والی دُکان خالی ہو گئی جو رفیق نے والد کی مالی مدد سے کرایہ پر لے لی۔

رفیق نے دُکان میں بھی پہلے بچوں کی چیزوں کو ترجیح دی اور اس کے بعد اپنی جیب کے مطابق گھریلو استعمال کی اشیاء تھوڑی تھوڑی لانا شروع کر دیں جنہیں وہ تول کر چھوٹے چھوٹے شاپروں میں بھر کے رکھتاجس سے دُکان اُس کی ترتیب میں آتی زندگی سے زیادہ سجی نظر آنے لگی اور سڑک کے اطراف میں بسے لوگ جو بچوں کو ٹافیاں دِلانے آتے تھے، اشیائے خوردنی بھی خریدنے لگے۔

رفیق کو دُکان ڈالے پانچ سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ کاسمیٹکس سٹور سمیت تین دوسری دُکانیں بھی اُس کے استعمال میں آ چکی تھیں اور اُس کی دُکان اب جنرل سٹور بن چکی تھی جہاں سے نئی سڑک کی ہری بھری جانب بسنے والے لوگ تیس تیس ہزار کا راشن لے جاتے تھے اور پچھلی طرف سے تیس روپے کا سودا لینے والے بھی آتے تھے۔ پہلے وہ خود نوکری ڈھونڈتا تھا، اب اُس کے پاس چھ ملازم تھے۔ ایک سال ہی اور گزرا تھا کہ رفیق نے وہ مکان بھی خرید لیا تھا جس میں اُس کا سٹور تھا۔ مکان کا پچھلا حصہ رفیق نے گودام بنا لیا۔ رفیق کے والد جب پہلی بار مکان دیکھنے آئے تو بولے۔

’’اوئے کھوتے، تیرا اک بھرا وکیل اے تے دوجا حساب کتاب کر دا اے پر اصلی ترقی تے توں کیتی اے۔ ہون میں تیرا وی ویاہ کر دینا اے ایسے مہینے۔ ‘‘ رفیق نے والد کی بات پر خوشی کا اظہار کیے بغیر اپنے میں اطمینان کی ایک لہر دوڑتی محسوس کی، کیونکہ زندگی میں پہلی بار اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے والد کو اپنے بیٹے پر فخر ہے۔ اُس کے والد نے محض خوشی میں شادی کا عندیہ نہیں دیا تھا بلکہ اپنا قول پورا بھی کر دیا۔ بیاہ کے بعد چند مہینے تو خیر خیریت سے گزرے لیکن گھر، جو اصل میں عورتوں کا ہوتا ہے، مردوں کے لیے تو مسافر خانہ ہوتا ہے، کی پرانی اور نئی عورتوں میں چپقلش اتنی بڑھ گئی کہ والد نے وکیل اور اس سے چھوٹے رفیق کو دو مہینے میں اپنا اپنا بندوبست کرنے کا کہہ دیا، صرف چھوٹے حسابی کتابی بیٹے کو ساتھ رکھنے کا فیصلہ سنایا کیونکہ وہ ابھی کنوارا تھا۔

رفیق نے مکان کی تلاش نئی سڑک کی اُس جانب شروع نہ کی جس طرف اس کا سٹور تھا بلکہ سامنے والی آبادی میں ڈھونڈا۔ اس مکان نما کوٹھی کی خریداری کے لیے رفیق کو بیوی کا زیور بھی بیچنا پڑا اور وراثت سے زیادہ حصہ ملنے کے باوجود قرض لینا پڑا جو اُتارنے میں اُسے سال تو لگا لیکن اُس کی بیوی کا گھر بن گیا جو دراصل ایک مختصر سی کوٹھی تھی۔

اِس مکان نما کوٹھی میں پہلی بار قدم رکھتے ہی جس چیز نے اُس کے اَبا کو متوجہ کیا، وہ تھی بیٹھک۔ ۔ ۔ اسی کی وجہ سے وہ کوٹھی نہیں تھی بلکہ مکان نما کوٹھی تھی اور اسی کے سبب قیمت کم تھی لیکن رفیق کے والد کو بیٹھک پسند بہت آئی اور اُس نے پہلی بات ہی قہقہہ لگاتے ہوئے اِسی کے متعلق کی۔

’’اوئے ! تُوپیو دے گھر وی بیٹھ کچ رہندا سی۔ ایتھے وی بیٹھک ملے گی۔ ‘‘

اگرچہ مکان نما کوٹھی کی بیٹھک آبائی گھر جیسی نہ تھی جہاں بیٹھنے سے گلی میں ہوتی چہل پہل اور پڑوس میں ہونے والی تو تکار کی خبر رہتی تھی، یہاں تو بغل میں رہنے والوں کا کچھ پتا نہ چلتا، لیکن وہ دوپہر کو سٹور سے واپسی پر بیٹھک میں ہی ڈیرہ ڈالتا۔ ایک روز وہ لیٹا ہی تھا کہ نیند کے ہلکورے لینے لگا گو وہ اپنے تئیں بیدار تھا لیکن سویا ہوا تھا اور معلوم نہیں کتنی دیر خواب میں رہتا کہ کسی کی کانوں کے پردے پھاڑ کر سینے میں گھس جانے والی آواز آئی۔

’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔ اللہ دا واسطہ ای۔ نی باجی، روٹی کھانی اے۔ ‘‘

رفیق نے کروٹ بدل کر نیند میں رہنے کی کوشش کی مگر وہ آواز مسلسل آ رہی تھی۔

’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔ اللہ دا واسطہ ای۔ نی باجی، روٹی کھانی اے۔ ‘‘

وہ آنکھیں ملتے ملتے اُٹھ بیٹھا اور بیوی کو آواز دی، ’’کچھ دو اور چلتا کرو۔ ‘‘ بیوی نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جواب دیا، ’’کتنوں کو دوں ؟ سارا دن لائن لگی رہتی ہے۔ ہر بندہ ہی بھکاری بن گیا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘

رفیق نے بیوی کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ’اچھا جیسے آپ کی مرضی‘ اور دوبارہ لیٹ گیا۔ اُس کی آنکھیں چھت میں لٹکتے پنکھے کے پروں کو گھور رہی تھیں لیکن کان باہر کی طرف متوجہ تھے۔ پہلے اسے آواز ہلکی ہوتی محسوس ہوئی اور پھر بالکل بند ہو گئی۔ اُس نے سکون کا سانس لیا کہ چلو کچھ دیے بغیر ہی گزارا ہو گیا۔ وہ بیوی کو کھانا لگانے کا کہہ ٹی وی دیکھنے لگا جس پر خبریں پڑھی جا رہی تھیں لیکن نیوز کاسٹر خبر سنا کم اور گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان زیادہ کر رہا تھا جیسے سیاسی جلسے میں تقریر کر رہا ہو۔ وہ خبروں والے چینل مسلسل بدلتا رہا مگر سب اسے ایک جیسے لگ رہے تھے۔ کچھ نہ بھایا تو اُس نے ٹی وی کی آواز بند کر دی اور تبھی وہ آواز کانوں سے دوبارہ ٹکرانے لگی۔

’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔ اللہ دا واسطہ ای۔ نی باجی، روٹی کھانی اے۔ ‘‘

وہ آواز کے گھٹنے بڑھنے پر غور کرنے لگا۔ آواز پہلے ہلکی تھی پھر تیز ہونے لگی۔ ۔ ۔ لمحہ بہ لمحہ۔ ۔ ۔ اور اس قدر بلند ہو گئی کہ بیٹھک کی دیوار کے دوسری طرف کوئی کھڑا پکار رہا ہو۔ اسی دوران میں رفیق کی بیوی ٹرالی پر کھانا سجائے آ گئی۔ اُس کے سامنے کھانا پڑا تھا اور کوئی آواز لگا رہا تھا۔

’’نی باجی، نی باجی، روٹی کھانی اے۔ ۔ ۔ ‘‘

وہ نہ چاہتے ہوئے اٹھا، بیوی نے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ بیٹھک سے نکلا، بڑے گیٹ میں نصب چھوٹا دروازہ کھول دیا اور صدا دینے والا سامنے آن کھڑا ہوا جو پہلے بیٹھک کی طرف ہی کھڑا تھا۔ اُس کے چہرے سے میک اپ کا لیپ یوں اکھڑ رہا تھا جیسے رفیق کے اَبا کے آبائی گھر میں غسل خانے کی دیوار سے ڈسٹمپر کی پپڑیاں بن کر جھڑتی رہتی تھیں جو بہتیرے ٹوٹکے اپنانے کے باوجود سیلن نمی کی وجہ سے ٹھہر نہ پاتی تھیں ۔ وہ گھر جو چھوٹ گیا تھا، جس سے دُکھی یادیں وابستہ تھیں ، جس سے بچپن کا سکھ بھی جڑا تھا، چھوڑنا پڑا مگر وہ اب تک اس کے گھیرے میں تھے جس کے اندر ایک نوری ہیولا سکڑتا نظر آتا تھا۔

اُس نے غسل خانے کی یاد دِلانے والے سترہ اٹھارہ سال کے شبیر احمد کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ سر پر سفید دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا اور مردانہ شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ وہ جگہ جگہ سے داغی قمیص کا ایک کونا باہنے ہاتھ سے مسلے جا رہا تھا اور رفیق کو یوں دیکھ رہا تھا کہ خود ہی کچھ دے دے لیکن رفیق اُسے جانچنے میں مصروف تھا اور چند لمحوں میں سب جان لینا چاہتا تھا۔

رفیق کے سٹور پر روز درجن بھر مانگنے والے آتے تھے اور ہر ایک کے لیے رفیق نے پانچ روپے کے سکے رکھے تھے۔ ایک ملازم کی ڈیوٹی تھی کہ وہ ہر آنے والے کو سٹور کے باہر کھڑے کھڑے بھگتا دے۔ اُس نے کبھی کسی کو پانچ روپے سے زیادہ نہیں دیے تھے سوائے کوئی بوڑھا یا بوڑھی آ جائے۔ اُس کی بیوی بھی گھر آنے والوں کے ساتھ یونہی پیش آتی تھی، کبھی کسی کو پانچ روپے سے زیادہ نہیں دیتی تھی مگر جاننے والوں پر اچھا خاصا خرچ کر لیتی تھی جیسے رفیق بھی ایک دو گھروں میں ہر مہینے راشن بھجواتا تھا لیکن مانگنے والوں کو علیحدہ خانے میں رکھتا تھا۔ ۔ ۔ دل میں اُن کے لیے غصہ پاتا اور نہ چاہتے ہوئے سکے بھی دیتا تھا۔ میاں بیوی کو مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب کوئی پانچ روپے لینے سے انکار کر دیتا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ اِس کے بھی عادی ہو گئے اور انہیں خود بخود پتا چل جاتا کہ انکاری کو زیادہ دینے چاہئے یا نہیں گو ایسا موقع کبھی کبھار ہی آتا جیسے اِس وقت رفیق طے نہیں کر پا رہا تھا کہ پانچ روپے کا سکہ دے یا زیادہ نکالے ؟ اور زیادہ دے تو کتنے ؟ دس۔ ۔ ۔ بیس۔ ۔ ۔ پچاس؟ اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر راندۂ درگاہ کے گلے سے وہی آواز گھسٹتے ہوئے نکلی۔

’’صاب جی، وے صاب جی، روٹی کھوا دے۔ ‘‘

رفیق نے سوچنا ترک کیا، مُٹھی میں دبا پانچ کا سکہ بغل کی جیب میں ڈالا، اُسے رکنے کا کہہ کر اندر گیا اور واپس آ کر پچاس کا نوٹ پکڑا دیا جسے مردودِ حرم نے پکڑتے ہوئے دعائیں دینے کی بجائے التجا کی۔

’’صاب جی، روٹی نئیں مل سکدی؟‘‘

رفیق کو غصہ آ گیا، ’’پچاس روپے دیے تو ہیں ۔ اور کیا دوں ؟‘‘

وہ ڈرتے ڈرتے بولا، ’’صاب جی! ایس علاقےچ تے اینے دی دال دی پلیٹ نئیں ملدی۔ تسی روٹی دے دیو۔ ‘‘ اُس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’اے لو۔ پیسے رکھ لو۔ ‘‘

رفیق اُس کی بات سن کر لاجواب ہو کر بیٹھک میں گیا اور سرہانے کے نیچے پڑے نوٹوں میں سے پانچ سو کا نوٹ نکال لایا جو اُس نے مردودِ حرم کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھا دیا۔ شبیر نے نوٹ کو دیکھا اور پہلے سے زیادہ ڈرتے ہوئے کہا، ’’صاب جی! روٹی آکھی سی۔ تسی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’روٹی کے لیے ہی دے رہا ہوں ۔ ‘‘

’’اچھا۔ صرف روٹی لئی؟‘‘

’’ہاں ۔ ہاں ۔ صرف روٹی لئی۔ کیوں ؟

’’ کدی کسے نے صرف روٹی لئی اینے پیسے دتے نئیں ۔ ‘‘ شبیر نے نوٹ پکڑتے ہوئے کہا تو رفیق کا ہاتھ لرز گیا۔ اُس نے منہ سے چند الفاظ نکالنے کی کوشش کی اور ناکامی پر ہونٹ بھینچ لیے۔ ایک پل میں محسوس ہوا کہ کسی نے زمین پر پٹخ دیا ہے اور دوسرے لمحے شبیر پر ترس آ رہا تھا کہ زندگی نے اسے کیسے کیسے گھسیٹا ہے۔ اس نے دوبارہ کچھ کہنے کی کوشش کی مگر کہہ نہ سکا اور اپنی قمیص کا داہنا کونہ مسلنے لگا جیسے اس کے سامنے چپ چاپ کھڑا شبیر باہنے کنارے کو انگلیوں سے رگڑ رہا تھا۔ یہ عمل نجانے کتنی دیر خاموشی سے جاری رہتا کہ پیچھے سے رفیق کی بیوی نے تیسری بار کھانے کے لیے پکارا تو اُس نے گردن گھما کر ٹھہرنے کے لیے کہا اور دوبارہ شبیر کی طرف دیکھنے لگا۔ اُس نے چند ثانیے بعد ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا، اندر جا کر بیوی سے بیٹھک خالی کرنے کے لیے کہا، واپس گیٹ پر آیا اور اُسے بازو سے پکڑ کر ساتھ لے گیا۔

اگلے دن رفیق کے سٹور پر ملازموں کی تعداد بڑھ چکی تھی اور شبیر لپک لپک کر چیزیں پکڑا رہا تھا۔ اُس کے لمبے لمبے بال کٹ چکے تھے۔ سر سے دوپٹہ غائب تھا۔ شلوار قمیص نئی تو نہ تھی البتہ صاف تھی۔ اُس کے چہرے پر نمی سے اکھڑنے والا پلستر بھی نہیں تھا مگر خراشوں کے نشانات باقی تھے۔ وہ پہچانا نہیں جا رہا تھا لیکن شکاریوں کے لیے شناخت مشکل نہ تھی جو بھرے بازار میں جان لیتے ہیں کہ کس عورت سے پیسے پوچھنے ہیں اور کس سے کترا کے نکل جانا بہتر ہے یا کون سی شریف زادی زیادہ اُچھل رہی ہے۔ وہ بھی سب کے سامنے ٹھیک تھا لیکن ایک ساتھی اُسے۔ ۔ ۔ اور باقی رفیق کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔

وہ ساتھی جو شبیر کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا، بعد میں اُس کا دوست بن گیا گو اس نے آغاز میں گھیرنے کی کوشش کی لیکن جلد اسے معلوم ہو گیا کہ وہ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس نئے دوست کو ہر ماہ کے آخر پر پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی جو شبیر تھوڑی بہت پوری کر دیتا جیسے وہ گودام، جو اس کا گھر ٹھہرا تھا، میں چوہے پکڑنے کے لیے رکھی گئی بلی کی دودھ کا کٹورا بھر کر خوراک پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پہلے پہلے جب بلی کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا تو وہ کھسک جاتی لیکن چند دن میں اتنی مانوس ہو ئی کہ اس کے پاس بیٹھنے لگی۔ جب بلیجیسا نک چڑھا جانور سدھ سکتا ہے تو سٹور پر کام کرنے والے ساتھی کیوں نہ رویہ بدلتے۔ ۔ ۔

اُسے سٹور پر کام کرتے چند ماہ گزرے تھے کہ رفیق کو اُس کے دس جماعتیں پاس ہونے کا علم ہو گیا اور رفیق نے شبیر کی ڈیوٹی مختلف چیزوں پر نظر رکھنے پر لگا دی۔ ایک رات سٹور بند کرتے وقت اُس نے مزید پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اوقات کار میں کچھ تبدیلی کی درخواست کی تو رفیق نے اُسے سوچنے کا کہہ کر ٹرخا دیا لیکن گھر آ کر جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو اُسے اپنا وہ استاد یاد آ گیا جو اُسے کبھی مفت ٹیوشن پڑھایا کرتا تھا۔ ان دنوں رفیق کا خاندان قصور سے نیا نیا لاہور آیا تھا اور مالی حالت بڑی پتلی تھی۔ ۔ ۔ اِس قدر کہ اُسے دودھ دہی کی دُکان پر کام کرنا پڑتا جہاں استاد اسے بطور گاہک ملا تھا اور وہ یہ جان کر حیران ہوا تھا کہ وہ اکیلا نہیں جو فیض پا رہا ہے۔

ہر رات کے بعد دن آتا ہے جیسے رفیق کی زندگی میں آیا تھا، جیسے شبیر کے لیے پو پھٹ رہی تھی۔ وہ کالج جانے لگا تھا جہاں اُسے بُری طرح ستایا گیا لیکن وہ ایک اصلی مرد کی طرح ڈٹا رہا گو اسے مردانگی سے عاری سمجھا جاتا تھا۔ وہ کالج سے سٹور آ جاتا اور رات کو گودام میں اِس آس پر بے سدھ سو جاتا کہ ایک دن وہ سویراہو گا جو تاریکی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا اور بلی اُسے اپنے پنجوں سے جگا دیتی تاکہ وہ وقت پر اُسے کچھ کھلا سکے اور خود کالج جا سکے۔ یہی دور تھا جب اسے رفیق کا کارِ خاص ٹھہرا دیا گیا۔ رفیق اکثر اُس کی باتیں اپنی بیوی سے کرتا تھا جو پہلے حیران ہوتی اور ٹوہ لینے کی کوشش بھی کرتی تھی لیکن جب اُسے یقین ہو گیا کہ رفیق ہم جنس پرست نہیں تو وہ بھی شبیر کی مدد کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے لگی۔

شبیر کی قسمت اچھی تھی یا وہ بڑا ڈھیٹ تھا کہ ہار نہیں مانتا تھا۔ اِتنی ڈھٹائی کا کچھ نتیجہ تو نکلتا ہے۔ ۔ ۔ کبھی اچھا۔ ۔ ۔ کبھی برا۔ ۔ ۔ ایک دن وہ سٹور پر آیا تو اُس کے ہاتھ میں مٹھائی کے دو ڈبے تھے۔ ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا۔ ۔ ۔ بڑا اُس نے رفیق کے آگے رکھا جسے وجہ پوچھتے ہوئے رفیق نے کھولا تو شبیر نے خوشی سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بتایا کہ وہ گریجوایٹ ہو گیا ہے۔ رفیق نے باقی ملازموں کو بلا کر شبیر کی کامیابی کا اعلان کیا اور مٹھائی بانٹی۔ چند منٹ پر مشتمل یہ پارٹی ختم ہوئی تو شبیر نے چھوٹا ڈبا رفیق کو گھر والوں کے لیے پکڑا دیا جس پر اُس نے حیرانی کے ساتھ دیکھا، کچھ سوچ کر شلوار کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہزار ہزار کے چند نوٹ نکال کر شبیر کے ہاتھ میں تھما دیے جو اُس نے ناں ناں کرتے ہوئے لے لیے۔

رفیق کے سٹور میں دو سال بعد پھر مٹھائی بٹ رہی تھی۔ اب شبیر پوسٹ گریجوایٹ ہو گیا تھا۔ اِس کے بعد بھی ایک بار مٹھائی تقسیم ہوئی تھی جب اُس نے بتایا کہ وہ ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہو گیا ہے۔ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

’’سر جی! کبھی کاغذات کی تصدیق کروانی ہو تو میں خادم ہوں ۔ ‘‘

رفیق نے ملازموں کی موجودگی میں اپنی سیٹ سے اُٹھ کر اُسے گلے لگایا تھا اور شبیر کی آنکھوں سے نکلے کسیلے پانی نے رفیق کے کالر پر دو آنکھیں بنا دی تھیں جو شکریہ ادا کر رہی تھیں ۔ رفیق کو خوشی تھی کہ اُس نے برسوں پہلے صحیح فیصلہ کیا تھا اور اس جشن منانے کے لیے ملازموں کو کوٹھی میں رات کے کھانے کی دعوت دی جس کے اختتام پر شبیر نے رفیق کو بتایا کہ اب وہ جلد کہیں کرائے پر کمرہ حاصل کر لے گا لیکن رفیق نے اسے کہا، ’’ وہ جب تک چاہے، گودام میں رہ سکتا ہے۔ ‘‘

رات گئے جب شبیر قبرستان کی طرح خاموش بستی کی پُر رونق کوٹھی سے نکلنے لگا تو بے اختیار رفیق کے گلے لگ گیا اور اب کی بار شکر گزار آنکھوں کے ساتھ ساتھ مسکراتے ہونٹ بھی بنا دیے۔

اُس نے چند ہفتوں میں رہنے کے لیے ایک مکان ڈھونڈ نکالا جو سٹور کی پچھلی طرف بسی آبادی میں واقع تھا لیکن سامنے والی کالونی میں رہنے والے مالک مکان وہ گھر کرایہ پر دینے میں تامل تھا مگر رفیق کی ضمانت پر مان گیا۔

وہ اتوار کے روز سٹور پر چکر لگاتا اور ضرورت کی چیزیں خریدنے کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر رفیق سے گپیں بھی ہانکتا تھا۔ رفیق نے اسے کئی بار کہا کہ دفتر سے واپسی پر اس کے پاس سٹور پر آ جایا کرے لیکن وہ اتوار کے اتوار ہی آتا۔ ایک دن رفیق کی نگرانی میں ملازم سٹور بند کر رہے تھے کہ وہ نمودار ہو گیا۔ رفیق نے اُسے حیرانی سے دیکھا کہ آج اتوار نہیں تو یہ یہاں کیسے آ گیا؟

’’خیر تو ہے ؟‘‘

شبیر نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا اور رفیق کو ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ جب سٹور بند ہو گیا اور ملازم اپنی اپنی راہ ہو لیے تو رفیق نے بھی سڑک پار کرنے کے لیے قدم اٹھایا لیکن اُس نے ہاتھ پکڑ کر پچھلی جانب جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو رفیق اس کے ساتھ چپ چاپ چل پڑا۔

’’سر جی! آپ کو یاد ہے کہ جب میں آپ سے پہلی بار ملا تھا؟‘‘

’’ہاں ۔ اچھی طرح یاد ہے۔ ‘‘

’’اُس دن مَیں پہلی مرتبہ اس علاقے میں آیا تھا۔ ‘‘ شبیر نے اپنا گال کھجاتے ہوئے رفیق کو غور سے دیکھا اور دوبارہ گویا ہوا۔ ’’ مجھے گرو نے بڑا برا بھلا کہا تھا۔ گروپ کے دوسرے لوگ بھی ناراض تھے۔ مَیں اُن پر بوجھ بن گیا تھا۔ اس لیے مَیں اِدھر آ گیا کہ چلو مانگ کر کچھ کھا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ وہ کام ضرور کرنا ہے جو کرنے کو من نہیں کرتا لیکن مجبوری میں کرتا رہا۔ ‘‘ شبیر سانس لینے کو رکا تو رفیق نے جھٹ سے پوچھا۔

’’یہ گرو کون تھا؟‘‘

’’وہ بس گرو تھا۔ یوں کہہ لیں کہ مائی باپ تھا۔ میٹرک اُسی نے کرایا تھا۔ ۔ ۔ پرائیویٹ۔ ۔ ۔ جس دِن نتیجہ نکلا تھا، اُسی روز میری ایسی تیسی کر دی اور میں نے گروپ چھوڑ دیا۔ اچھا بندہ تھا، بس کبھی کبھی پھرکی گھوم جاتی تھی اُس کی۔ ۔ ۔ ‘‘

رفیق نے راکھ کریدنے کی کوشش کی، ’’تم نے کبھی اپنوں کے متعلق بتایا نہیں ۔ ماں باپ، بہن بھائی؟‘‘

’’سرجی! آپ نے کبھی صحیح طرح پوچھا ہی نہیں تو بتاتا کیا؟‘‘

وُہ چلتے چلتے رُک گیا اور اندھیرے میں آسمان کو تکنے لگا جہاں گہرے بادلوں نے چاند کو چھپا دیا تھا اور بہت دُور اِک تارا اکیلا نظر آ رہا تھا۔ خبر نہیں وہ کب تک یونہی دوسرا تارا تلاشتا کہ رفیق نے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اُس نے کہا، ’’ ہوں ۔ ۔ ۔ سرجی! آج سن لیں ۔ میں چھوٹا سا تھا جب گلی میں کھیلتے ہوئے اغوا ہو گیا۔ گرو کہتا تھا میں اغوا نہ بھی ہوتا تو میرے گھر والے ہی مجھے کسی کو دے دیتے۔ بھلا وہ کیسے کسی کو دے دیتے۔ گرو کو مجھ میں پہلے سے کسی کمی کا یقین تھا مگر مجھے لگتا ہے کہ ہماری گلی میں بے سرا گا کر۔ ۔ ۔ بے ڈھنگا ناچ کر پیسے اکٹھے کرنے والے گرو نے مجھ میں کوئی خرابی ڈالی تھی۔ شبیر سے شبانہ کیا تھا۔ ‘‘ اُس نے گہری سانس لی اور دوبارہ بولا۔

’’کئی سال بعد جب گھر لوٹا تو مَیں ، مَیں نہ رہا تھا، انسان نما بن چکا تھا اور موت کے گولے کے گرد ناچ ناچ کر پیسے کمانا میرا پیشہ ہو چکا تھا۔ میرے ابا۔ ۔ ۔ ابا مر چکے تھے اور۔ ۔ ۔ ابا سے پہلے ماں کب کی دم توڑ چکی تھی۔ گھر میں ایک عورت تھی جسے میری سوتیلی ماں بتایا گیا۔ دوسری عورت میری سگی بہن تھی۔ وُہ۔ ۔ ۔ ہاں وہ میری بہن تھی۔ بڑا روئی تھی گلے لگ کر۔ ۔ ۔ میں بھی رویا تھا جی۔ ۔ ۔ ہائے۔ ۔ ۔ کتنا رویا تھا میں ۔ ۔ ۔ ‘‘ شبیر پر خاموشی چند لمحوں کے لیے طاری رہی اور وہ خالی ہاتھوں کی ہتھیلیاں باہم رگڑ کر حرارت سے قوت کشید کرتے ہوئے بولا۔

’’اُس کی دو مہینے بعد شادی ہو گئی۔ یہ دو مہینے بھی میں گھر میں نہیں رہا تھا۔ سوتیلی ماں نے رہنے ہی نہیں دیا تھا لیکن ان دو مہینوں میں مَیں نے زیادہ سے زیادہ پیسے بنانے کی کوشش کی۔ گرو سے بھی ترلے کر کے کافی رقم لی اور جہیز بنا کر دیا۔ جب میں نے روپوں کی تھیلی اسے پکڑائی تھی، وہ بڑا روئی تھی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’توجس دن گرو نے تمہیں نکال دیا تھا۔ تم اُس کے پاس چلے جاتے۔ ‘‘ رفیق نے بات کاٹی تو وہ بولا، ’’نکالا نہیں تھا، سر جی۔ میں نے اُسے چھوڑا تھا۔ بہن کے پاس کیسے جاتا؟ شادی کے بعد تین بار گیا تھا۔ ہر دفعہ کچھ نہ کچھ لے کر گیا۔ تیسری بار سونے کا ہار لے کر گیا تو اس نے منع کر دیا۔ کہتی تھی، نہ آیا کرو، میری بے عزتی ہوتی ہے۔ ‘‘

رفیق سوچ میں ڈوب گیا لیکن شبیر نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’وہ دن اور آج کا دن۔ ۔ ۔ کبھی ماں جائی کا چہرہ تک نہیں دیکھا۔ سکھی ہو گی۔ وہ کھاتے پیتے لوگ تھے۔ ‘‘

’’تو اپنے ابا کے گھر چلے جاتے۔ تم وارث تھے۔ ‘‘

’’وہاں اور بھی کئی وارث تھے۔ میری دال کیا گلتی؟‘‘

اُس نے غم اور غصے کا مرکب قہقہہ لگایا۔ ۔ ۔ چند خاموش ساعتوں کے بعد ایک تان اُٹھائی اور سب سے بے پروا ہو کر سُروں میں الفاظ ڈھالنے لگا۔

نی مائے ! سانوں کھیڈن دے، مِیرا وَت کھیڈن کون آسی

ایہہ جگ جھوٹا، دنیا فانی، ایویں گئی میری اَہل جوانی

غفلت نال میری عمر وِہائی، جو لکھیا سو اِسی ہوسِی

شاہ حسینؔ فقیر رَبانا، سو ہوسی جو رَبّ دا بھانا

اوڑک اِیتھوں اوتھے جانا، اُس ویلے نُوں پچھوتاسی

نی مائے ! سانوں کھیڈن دے، مِیرا وَت کھیڈن کون آسی

رفیق جذب کے عالم میں سنتا رہا اور معنی جانے بغیر سر دھنتا رہا اور جب آہ و زاری تھم گئی تو اُسے معلوم ہوا کہ اُس نے کچھ نہیں سنا اور اُس کا ذہن دوبارہ بے عزتی کی طرف مرکوز ہو گیا۔ شبیر پر خاموشی کے خول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ صورتِ احوال کی پیچیدگی کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جب تک ہم راہی نے اپنے لب نہ کھول لیے۔

’’سرجی۔ مزے کی بات بتاؤں ۔ جب میں ناچ کر گزارا کرتا تھا تب بے عزت تھا۔ اب میں سرکاری افسر لیکن بے عزت ہی ہوں ۔ ‘‘

’’نہیں ۔ یار۔ ایسے نہ کہو۔ سب تمہیں سَر سَر کہتے ہیں ۔ ‘‘

’’نہیں ۔ ایسی بات نہیں ۔ مَیں اب اچھا لباس پہنتا ہوں لیکن لوگ مجھ سے اُسی طرح کَنی کتراتے ہیں جس طرح میری ماں جائی۔ ۔ ۔ لوگ میرے پاس آنے سے ڈرتے ہیں ، اور جو آتے ہیں ، اُن کے اِرادے نیک نہیں ہوتے۔ ‘‘

’’میں سمجھا نہیں ۔ اِرادے تو گنتی کے لوگوں کے نیک ہوتے ہیں تو اس میں پریشانی کیا ہے ؟‘‘ رفیق اُس گلی کی نکڑ پر رُک گیا جو شبیر کے گھر کو جاتی تھی اور بڑی سنجیدگی سے ہاتھ ہلا کر جواب طلب کیا۔

’’سر جی! میں اُن ارادوں کی بات نہیں کر رہا جن کی آپ کر رہے ہیں ۔ میں سمجھاتا ہوں ۔ جب مَیں ناچتا تھا تو مجھے ’ایسا ویسا‘ سمجھا جاتا تھا اور اب تک ’ویسا‘ ہی مانا جاتا ہوں ۔ دفتر میں ساتھی افسروں کا برتاؤ گزارے لائق ہونے کے باوجود ٹھیک نہیں ہوتا۔ مسئلے حل کرانے والوں کا رویہ بھی جو ہوتا ہے سوہوتا ہے مگر وہ کام نکلوا کر واپس جاتے ہوئے کھسر پھسر کرتے چوری چوری مسکراتے ہیں اور آج کی بات سنیں ۔ دفتر سے نکلا تو سوچا، پیدل گھر جاتا ہوں ۔ ذرا ورزش ہو جائے گی۔ یہاں سے تھوڑی دور تھا کہ ایک کار میرے پاس آ کر رُکی اور اِس میں سے ایک بُرا سا منہ باہر نکلا جو پوچھ رہا تھا۔ ۔ ۔ کی پروگرام اے ؟۔ ۔ ۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ‘‘

’’تم پریشان نہ ہوا کرو۔ کوئی بات نہیں ۔ آہستہ آہستہ سب کو پتا چل جائے گا۔ ‘‘ رفیق نے کمر تھپکتے ہوئے کہا تو وہ بولا، ’’آپ سے کبھی کسی نے پروگرام پوچھا ہے ؟‘‘

’’نہیں ۔ ‘‘ رفیق نے ترنت جواب دیا تو شبیر نے ہنسی میں کَرب چھپاتے ہوئے کہا، ’’پھر پریشانی والی بات تو ہے نا، سر جی۔ ‘‘

رفیق نے اب کی بار کوئی سوال کیا نہ جواب دیا۔ اُس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ وہ بس سوچ رہا تھا اور یونہی خیالوں میں کھویا اُس کے گھر پہنچ گیا۔ جب اُس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو رفیق ہکا بکا رہ گیا۔ وہاں ایک اور مُنا انسان نما کرسی پر بیٹھا تھا جس نے دروازہ کھلنے پر ہاتھ میں پکڑی کتاب ایک طرف رکھ دی اور سلام لے کر چمکتی آنکھوں سے رفیق کو دیکھنے لگا۔ رفیق نے کچھ دیر ننھے کو اُسی طرح اوپر سے نیچے تک دیکھا جیسے شبیر کو برسوں پہلے گیٹ میں کھڑے کھڑے جانچنے کی کوشش کر چکا تھا۔ پھر اس نے چھوٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے کے گلے لگ گیا۔ اُس کی آنکھوں سے چند قطرے نکلے جسے شبیر نے خوشی کے آنسو سمجھا مگر رفیق کو اپنا وہ بھائی یاد آ رہا تھا جسے برسوں پہلے کسی نے اِنسان نُما جان کر استعمال کیا تھا اور وہ انسان سمجھے جانے کا انتظار کرتے کرتے کبھی نہ جاگنے کے لیے سو گیا تھا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید